سورۃ البقرہ آیت نمبر  ۷۴

۲:۴۶      ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً     ۭ  وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ    ۭ   وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاۗءُ    ۭ  وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ    ۭ   وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(۷۴)

۲: ۴۶:  ۱     اللغۃ

۱:۴۶:۲ (۱)     [ثُمَّ قَسَتْ] ’’ثُمَّ‘‘ کے معنی و استعمال پر البقرہ:۲۸ [ ۱:۲۰:۲ (۴)] میں بات ہوئی تھی۔ اس کا اردو ترجمہ تو ’’پھر/ اس کے بعد‘‘ ہے یہاں سیاقِ عبارت (قصہ) کی بنا پر اردو محاورہ میں اس کا موزوں ترجمہ ’’پھر بھی‘‘ بنتا ہے۔

’’قَسَتْ‘‘ کا مادہ ’’ق س و‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلَتْ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’قَسَوَتْ‘‘ تھی۔ مگر ماقبل مفتوح اور مابعدصحیح حرفِ ساکن والی متحرک واو (وَ) ساقط ہو جاتی ہے۔ یعنی ’’قَسَوَتْ= قَسَاتُ= قَسَتْ‘‘۔

·             اس مادہ  سے فعل مجرد ’’قَسا یَقسُو قَسْوۃً‘‘ (نصر سے) کے بنیادی معنی ہیں: ’’نرمی سے خالی ہونا اور سختی میں بڑھ جانا‘‘۔ یہ فعل لازم ہی استعمال ہوتا ہے اور زیادہ تر اس کا فاعل ’’القلب‘‘ (دل) آتا ہے مثلاً کہتے ہیں: ’’قسا قلبُہ‘‘ (اس کا دل سخت ہوگیا)۔ اگر اس کا فاعل ’’الدرھم‘‘ (چاندی کا ایک سکہ) ہو تو اس کے معنی ’’کھوٹا ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’قسا الدرھمُ‘‘ (درہم کھوٹا ہوگیا یعنی اس کی چاندی ملاوٹ کے باعث سخت ہوگئی اور اس میں خالص چاندی والی نرمی نہ رہی) اور اگر اس کا فاعل ’’اللیل‘‘ (رات) ہو تو اس کے معنی ’’سخت تاریک ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ مثلاً کہیں گے: ’’قَسا اللیلُ‘‘ (رات سخت اندھیری ہوگئی)۔

اس فعل سے اسم صفت ’’فاعل‘‘ اور ’’فعیل‘‘ دونوں وزنوں پر آتا ہے یعنی ’’قاسیٍ‘‘ بھی اور ’’قَسِیٌّ‘‘ بھی۔ مثلاً کہتے ہیں ’’قلبٌ قاسیٍ‘‘ (سخت دل) اور ’’درھم قَسِیٌّ‘‘ (کھوٹا درہم)۔ عربی زبان میں اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض افعال بھی بعض معانی کے لیے آتے ہیں۔

·       تاہم قرآن کریم میں اس فعل کا استعمال صرف مجرّد سے آیا ہے اور وہ بھی صرف قلب (دل) کے لیے ہوا ہے۔ اس سے فعل ماضی کا یہی ایک صیغہ (قَسَتْ) تین جگہ اور بصورت اسم الفاعل مؤنث (القاسِیۃ) بھی تین ہی جگہ آیا ہے۔ اور ایک جگہ مصدر ’’قَسْوَۃ‘‘ آیا ہے۔

·    زیر مطالعہ لفظ (قَسَتْ) اس فعل مجرد سے فعل ماضی صیغہ واحد مؤنث غائب ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ’’وہ سخت ہوگئی‘‘۔ یہاں چونکہ اس کا فاعل (جیسا کہ آگے آرہا ہے) ’’قلوبکم‘‘ (تمہارے دل) ہے اس لیے اردو میں بامحاورہ ترجمہ ’’سخت ہوگئے‘‘ (تمہارے دل) سے کیا گیا ہے۔ البتہ بعض مترجمین نے چونکہ سیاق عبارت اور بیان قصہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ثُمَّ‘‘ کا ترجمہ ’’پھر بھی‘‘ کیا تو فعل ’’قَسَتْ‘‘ کا ترجمہ ’’سخت رہے/سخت ہی رہے‘‘ سے کیا ہے۔

[قُلُوْبُکُمْ] میں آخری ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘ (بمعنی تمہارے) ہے اور اس سے پہلا لفظ ’’قُلُوب‘‘ بروزن ’’فُعُوْلٌ‘‘ ہے جو لفظ ’’ قَلْبٌ ‘‘ بروزن ’’فَعْلٌ‘‘ کی جمع مکسر ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب و معنی کے علاوہ لفظ ’’قلوب‘‘ کے بارے میں مفصل بحث البقرہ:۷ اور ۱۰ یعنی [۱:۶:۲ (۲)] اور [۱:۸:۲ (۶) ] میں ہوچکی ہے۔

[مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ] اس مرکب کے تینوں اجزاء ’’من‘‘، ’’بعد‘‘ اور ’’ذٰلک‘‘ بلکہ اس پورے مرکب کے معنی وغیرہ پرالبقرہ:۵۲ [۱:۳۳:۷ (۷)] اور البقرہ:۶۴ [۱:۴۱:۲ (۴)] کے بعد بات ہوچکی ہے۔ اس کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اس کے بعد سے‘‘۔ تاہم بعض مترجمین نے سیاقِ عبارت اور بیانِ قصہ کی بناء پر اس کا ترجمہ ’’اس کے بعد بھی‘‘ اور ’’اس سب (کچھ) کے بعد‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ ’’بعد‘‘ کا لفظ اردو میں اتنا متعارف اور مستعمل ہے کہ اس کا ترجمہ ’’. . کے پیچھے‘‘ کرنا الٹا خارج از محاورہ لگتا ہے۔

[فَھِیَ کَالْحِجَارَۃٍ] یہ ’’فَ‘‘ (پس/چنانچہ) + ’’ھِیَ‘‘ (وہ۔ مونث واحد) + ’’کَ‘‘ (مانند/جیسا/مثل) + ’’الحِجَارۃ‘‘ (پتھروں) کا مرکب ہے۔ لفظ ’’الحجارۃ‘‘ پر تفصیلی بحث البقرہ:۲۴ [۱:۱۷:۲ (۱۳)] میں گزر چکی ہے۔ فاء (ف) کا ترجمہ یہاں ’’پس‘‘ کے علاوہ (جو اس کا عام ترجمہ ہے) بعض حضرات نے ’’چنانچہ‘‘ اور ’’سو‘‘ سے کیا ہے۔ ’’ھی کالحجارۃ‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے: ’’وہ (مونث) ہے پتھروں کی مانند‘‘۔ ’’ھِیَ‘‘ کا واحد مؤنث صیغہ ’’قلوب‘‘ کے جمع مکسر ہونے کی وجہ سے ہے جن کو پتھروں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس لیے ’’پتھروں‘‘ کی مناسبت سے بامحاورہ اردو ترجمہ ہوگا ’’وہ ہیں مانند پتھروں کے/ یا  وہ پتھروں کی مانند ہیں‘‘۔ تاہم اردو میں لفظ ’’پتھر‘‘ جمع کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے بعض نے اس کا ترجمہ ’’وہ مثل پتھر کے ہیں/ وہ پتھر کی طرح ہیں‘‘ سے بھی کیا ہے۔ جب کہ بعض نے اس کا ترجمہ ’’گویاوہ پتھرہیں‘‘ کیاہے۔مفہوم درست سہی مگر یہ ’’ھی کالحجــارۃ‘‘ سے زیادہ ’’کَاَنَّھا الحجارۃ‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ اور بعض نے ’’وہ ہوگئے جیسے پتھر‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں ’’ہوگئے‘‘ اپنی طرف سے (بلاضرورت) اضافہ ہے۔

۱:۴۶:۲ (۲)     [اَوْ اَشَـدُّ قَسْـوَۃً] اس میں تین کلمات ہیں ’’اَوْ‘‘، ’’اَشَدُّ‘‘ اور ’’قَسْـوَۃ‘‘۔ ہر ایک کی الگ الگ لغوی تشریح یوں ہے۔

(۱) ’’اَوْ‘‘ حرف عطف کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور یہ ۱؎تخیر (دو چیزوں میں سے ایک لینے  کی اجازت) ۲؎ اِباحۃ   (دو چیزوں میں سے ایک یا دونوں ہی لینے کی اجازت)، ۳؎ ابہام (دو چیزوں کے بارے میں بات کو واضح نہ کرنا) ۴؎   شک (دو چیزوں کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں شک کرنا) کے معنی دیتا ہے اور کبھی یہ حرفِ اضراب (بَلْ) کے معنی میں اور کبھی ’’اِلی أن‘‘ (یہاں تک کہ) اور ’’اِلَّا اَن‘‘ (مگر یہ کہ) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ اس لفظ (اَوْ) کا اردو ترجمہ حسب موقع ’’یا‘‘، ’’یا پھر‘‘،’’یا شاید‘‘، ’’بلکہ‘‘، ’’تاوقتیکہ‘‘ اور ’’مگر یہ کہ‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ نیز دیکھئے البقرہ:۱۹ [۱:۱۴:۲ (۱)] میں۔

·       زیر مطالعہ عبارت میں ’’اَوْ‘‘ اگرچہ عطف بمعنی ابہام بھی لیا جاسکتا ہے اور بہت سے مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’یا‘‘ سے ہی کیا ہے۔ تاہم سیاقِ عبارت کے لحاظ سے اسے یہاں حرفِ اضراب (بَلْ=بلکہ) کے معنی میں لینا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’’بلکہ‘‘ سے ہی کیا ہے۔ اور یہ اردومحاورے کے لحاظ سے بھی اور مفہوم عبارت کے لحاظ سے بھی بہتر ترجمہ ہے۔

(۲) ’’اشد‘‘ کا مادہ ’’ش د د‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلُ‘‘ ہے۔ یہ دراصل تو ’’اَشْدَدُ‘‘ تھا پھر پہلے ’’ دَ ‘‘ کی حرکت فتحہ اس کے ماقبل صحیح حرف ساکن (ش) کو منتقل ہوئی اور دونوں ’’ د ‘‘ مدغم ہوگئے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’شدَّ یشُدُّ شَدًّا وشِـدَّۃً‘‘ (نصر سے) کے بنیادی معنی ہیں: مضبوط، بھاری یا قوی ہونا/کرنا‘‘۔ پھر یہ لازم اور متعدی دونوں طرح (کسی صلہ کے بغیر بھی اور بعض صلات کے ساتھ بھی) مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً (۱) ’’مضبوط یا بھاری ہونا‘‘ کہتے ہیں ’’شدَّ الشییُٔ‘‘ (چیز مضبوط ہوگئی)۔ (۲) ’’گرہ کو مضبوط باندھنا‘‘ کہتے ہیں ’’شدَّ الـعُـقدۃَ‘‘ ’’اس نے گرہ مضبوط باندھی‘‘ (۳) ’’کسی کی مدد کرنا یا اس کو طاقت دینا‘‘۔‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’شدَّ عَضُدَہٗ‘‘ (اس کا بازو مضبوط کیا) اور ’’شدَّ  اَزُرَہٗ‘‘ (اس نے اس کی کمر یا قوت کو مضبوط کیا) اور یہ دونوں استعمال قرآن میں بھی آئے ہیں۔ دیکھئے القصص:۳۵ اور طٰہٰ:۳۱  (۴)’’سفر کی تیاری کرنا‘‘ کہتے ہیں ’’شدَّ رِحالَہٗ‘‘( اس نے اپنے کجاوے باندھے یعنی سفر کی تیاری کی) (۵) کسی کو سخت گرفت میں لے لینا  اس صورت میں اس کے ساتھ ’’علٰی‘‘ کا صلہ آتا ہے جیسے قرآن کریم (یونس:۸۸) میں ہے ’’وَاشْدُدْ علیٰ قُلُوْبِھِمْ‘‘ (اور تو ان کے دلوں کو سخت گرفت میں لے لے)۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد کے مختلف صیغے چھ جگہ آئے ہیں اور زیادہ تر یہ بطور فعل متعدی ہی استعمال ہوا ہے۔ البتہ بعض مشتقات مثلاً ’’اشدّ‘‘ اور ’’شدِید‘‘ فعل لازم سے آئے ہیں۔ اور مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے بابِ افتعال سے بھی فعل کا ایک صیغہ قرآن حکیم میں ایک جگہ (ابراہیم:۱۸) آیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مشتقات (اَشَدّ، شدید، اشُدّ،اشدّاء،  شِداد وغیرہ) متعدد (۹۴) جگہ آئے ہیں جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ۔

·       یہاں لفظ ’’اشدّ‘‘ اپنے فعل مجرد سے افعل التفضیل کا صیغہ ہے اور اس کے معنی ہیں ’’نسبتاً زیادہ شدت یا سختی والا‘‘ یا ’’زیادہ سخت‘‘، ’’شدید تر‘‘۔ یہ لفظ قرآن کریم میں بلحاظ ترکیب تین طرح استعمال ہوا ہے (اور افعل التفضیل عموماً ان تین میں سے ہی کسی صورت میں استعمال ہوتا ہے) (۱) ’’مِنْ‘‘ کے ساتھ یعنی کسی ایک چیز سے مقابلہ کے طور پر ’’زیادہ سخت‘‘ کے معنی میں۔ جیسے ’’ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْل ‘‘ (البقرہ:۱۹۱)۔  (۲)مضاف ہوکر یعنی مضاف الیہ میں شامل تمام چیزوں سے بڑھ کر سخت جیسے’’ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ‘‘ البقرہ ۸۵ (۳) تمیز کے ساتھ یعنی فلاں بات کے لحاظ سے زیادہ سخت جیسے ’’ هِىَ اَشَدُّ قُوَّةً ‘‘ (محمد:۱۳) اور قرآن کریم میں اس لفظ (اَشَدّ) کا زیادہ استعمال اسی تیسری (تمیز والی) صورت میں ہوا ہے اور یہاں (زیر مطالعہ عبارت میں) بھی یہ لفظ تمیز کے ساتھ ہی آیا ہے جس کا بیان آگے آرہا ہے۔

(۳) ’’قَسْوَۃً‘‘ کا مادہ ’’ق س و‘‘ اور وزن ’’فَعْلَۃً‘‘ ہے۔ (یہاں یہ لفظ منصوب آیا ہے جس کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد اور اس کے معنی پر ابھی اوپر [۱:۴۶:۲ (۱)] میں بات ہوئی ہے۔ یہ لفظ (قـسوۃ) اس فعل مجرد کا مصدر ہے جس کے معنی بطور مصدر ’’سخت ہونا‘‘ ہیں اور بطور اسم ’’سختی‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ بلحاظِ ترکیب (جس کی مزید وضاحت آگے ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی) یہاں یہ لفظ (قسوۃ) تمیز کے طور پر آیا ہے اور اس کا ترجمہ ہوگا ’’بلحاظ قَسوۃ(سختی/ سخت ہونے) کے‘‘ یا ’’سختی کے لحاظ سے‘‘۔

·       اس طرح زیر مطالعہ حصہ عبارت (أو اشد قسوۃ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’یا/ بلکہ زیادہ سخت بلحاظ سختی کے۔‘‘ اردو میں ’’شِدّۃ‘‘اور ’’قَسْوَۃ‘‘ دونوں کاترجمہ ’’سختی‘‘ ہی کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ ’’اشَد‘‘ کی ’’شِدّۃ‘‘ میں سختی کا درجہ یا مقدار (کی فضیلت۔ تفضیل۔ برتری) کی طرف اشارہ ہے (یعنی کتنا سخت) اور ’’قَسْوۃ‘‘ میں سختی کی نوعیت یا قسم (مثلاً ٹھوس ہونا، بے رحم ہونا، تاریک ہونا وغیرہ) مراد ہے۔ اس لیے اردو تراجم میں اس کا قریب ترین ترجمہ ’’سختی میں زیادہ، سختی میں بڑھ کر‘‘ سے کیا گیا ہے۔ تاہم یہاں ترجمہ کرتے وقت بعض محذوفات کو بھی ذہن میں رکھنا (Understood سمجھنا) پڑتا ہے۔ اس لیے اس حصہ عبارت (اَو اشَدّ قَسْوۃ) کے ترجمہ پر مزید بحث حصہ ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔

[وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارۃِ لَمَا] اس میں کل چھ کلمات ہیں یعنی یہ ’’وَ‘‘ (اور) + ’’اِنَّ‘‘ (بے شک) + ’’مِنْ‘‘ (میں سے) + ’’الحجارۃ‘‘(پتھروں) + ’’لَ‘‘ (البتہ، ضرور) + ’’مَا‘‘ (وہ جو کہ) کا مرکب ہے اور ان تمام کلمات پر اس سے پہلے بات ہوچکی ہے [اگر ضرورت ہو تو ’’وَ‘‘ کے لیے [۱:۷:۲ (۱)] ’’اِنَّ‘‘ کے لیے [۱:۵:۲] ’’مِنْ‘‘ کے لیے [۱:۲:۲ (۵)] ’’الحجـارۃ‘‘ کے لیے [۱:۱۷:۲ (۱۳)] ’’لَ‘‘ (لامِ تاکید) کے لیے [۱:۴۱:۲ (۶)] اور ’’مَا‘‘ (موصولہ) کے لیے (جوواحد جمع مذکر مونث سب کے لیے استعمال ہوتا ہے) [۱:۲:۲ (۵)] اور [۱:۱۹:۲ (۲)] کو دیکھ لیجیے]

اس طرح اس حصہ عبارت (واِنّ من الحجارۃ لَمَا) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: ’’اور بے شک پتھروں میں سے البتہ /ضرور وہ ہے جو کہ‘‘ اسی کا بامحاورہ اور سلیس اردو میں بعض مترجمین نے ’’اور پتھروں میں سے بعض ایسے ہیں جو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے مگر اس میں ’’اِنَّ‘‘ اور ’’لَ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کرنا پڑا ہے۔ بعض حضرات نے اس کا ترجمہ ’’پتھروں میں تو/ پتھروں میں تو بعضے/ پتھروں میں تو کچھ ایسے ہیں جو‘‘ سے کیا ہے جبکہ بعض نے جمع کے لیے بھی ’’پتھر‘‘ ہی کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی ’’بعضے پتھر تو/ بعض پتھر تو/ اور پتھر تو کوئی ایسا (بھی) ہے جو کہ‘‘ کی صورت میں۔ اس طرح ترجمہ میں ’’تو‘‘ کے لگانے سے لامِ تاکید اور ’’اِنَّ‘‘ (بے شک) کا مفہوم آگیا ہے۔ اور ’’کوئی‘‘ اور ’’بعض/بعضے‘‘ کے ساتھ ترجمہ ’’مِنْ‘‘ (میں سے) کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ یعنی یہ ’’مِنْ‘‘  تبعیضیہ ہے۔

۱:۴۶:۲ (۳)     [یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْھٰرُ] اس میں بھی تین لفظ وضاحت طلب ہیں۔ یَتَفَجَّرُ، مِنْہ (مرکب جاری) اور الانٰھر۔ ہر ایک کا الگ الگ (پہلے) بیان یوں ہے۔ پھر بعد میں مجموعی ترجمہ پر بات ہوگی۔

        (۱) ’’یَتَفَجَّرُ ‘‘ کا مادہ ’’ف ج ر‘‘ اور وزن ’’یَتَفَعَّلُ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب، معانی اور استعمال پر البقرہ:۶۰ [۱:۳۸:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’یَتفجّر‘‘ اپنے مادہ سے باب تفعّل کا فعل مضارع صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’تَفَجَّر، یتفجَّرُ تفَجُّرًا‘‘ کے معنی ہیں: ’’زور سے پھوٹ کر نکلنا، پھٹ کر باہر نکل آنا‘‘۔ زیادہ تر یہ پانی کے پھوٹ نکلنے (چشمہ وغیرہ کی صورت میں) کے لیے آتا ہے۔

(۲)    ’’مِنْہُ‘‘ (مِنْ+ہ) کا ترجمہ ضمیر واحد مذکر (ہ) کی وجہ سے ’’اس میں سے‘‘ ہونا چاہیے مگر کچھ تو ’’مَا‘‘ (لَمَا والا) میں جمع کا مفہوم بھی موجود ہے اور کچھ سیاق (سابقہ عبارت) کے ’’پتھروں‘‘ کے ساتھ ملا کر ترجمہ کرنے کے لیے ’’ان سے/ ان میں سے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۳)    ’’الانھٰر‘‘ جو ’’نھرٌ‘‘ کی جمع مکسر ہے۔ اس لفظ کے مادہ، وزن، فعل مجرد کے باب وغیرہ پر مفصل بحث البقرہ:۲۵ [۱:۱۸:۲ (۶)] میں گزر چکی ہے۔ ’’الانھار‘‘ کا اردو ترجمہ ’’نہریں، ندیاں اور دریا‘‘ سے کیا گیا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’چشمے‘‘ کیا ہے جو حقیقت کے اعتبار سے زیادہ درست ہے (چشمو ں سے ہی ندیاں/ دریا وجود میں آتے ہیں) تاہم لفظ کے لحاظ سے نہر، ندی یا دریا والا ترجمہ قریب تر ہے۔

·          اس عبارت (یتفجر منہ الانھٰر) میں ’’منہ‘‘ کی ضمیر واحد کی طرح صیغۂ فعل ’’یتفجر‘‘ بھی واحد مذکر غائب ہے۔ اس لحاظ سے اس کے پہلے حصے (یتفجر منہ) کا ترجمہ ہونا چاہیے ’’پھوٹ نکلتا ہے/ جاری ہوتا ہے اس میں سے‘‘۔ مگر ضمیر ’’ہ‘‘ کے ’’ما‘‘ کا عائد ہونے کی بنا پر (جو واحد جمع مذکر مؤنث سب کے لیے ہے) اور فعل ’’یتفجر‘‘ کے فاعل (الانھر= دریا، ندیاں، نہریں) کے ترجمہ کی اردو میں تذکیر و تانیث کی مناسبت سے اردو ترجمہ ’’پھوٹ نکلتی ہیں/ جاری ہوتی ہیں/ بہہ نکلتی ہیں‘‘ کے ساتھ بھی کیا گیا ہے اور ’’بہہ نکلتے ہیں‘‘ وغیرہ کی شکل میں بھی۔

[وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا] اس کے بھی تمام کلمات پہلے بیان ہو چکے ہیں یعنی یہ ’’وَ‘‘ (اور) + ’’اِنَّ‘‘ (بے شک) + ’’مِنْھَا‘‘ (اس میں سے) + ’’لَمَا‘‘ (البتہ وہ جو کہ) کا مرکب ہے اور اس کا لفظی ترجمہ بنتا ہے  ’’اور بے شک اس (مؤنث) میں سے البتہ کوئی وہ ہے جو کہ‘‘یہاں بھی کچھ تو ضمیر مؤنث ’’ھا‘‘ کے پتھروں کے لیے ہونے کی وجہ سے اور کچھ ’’مَا‘‘ (لما والا) میں واحد جمع مذکر مؤنث سب کامفہوم موجود ہونے کی وجہ سے بامحاورہ اردو میں اس عبارت (وان منھا لما) کے تراجم مختلف طریقے پر کیے گئے ہیں مثلاً ’’ان میں سے تو وہ بھی ہیں/ ایسے بھی ہیں جو / بعض ایسے ہوتے ہیں کہ /کچھ وہ ہیں جو/ بعضے وہ ہیں جو‘‘ کی صورت میں۔ یہاں بھی محاورہ کی خاطر ’’اِنَّ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کرنا پڑا ہے۔ اور یہاں بھی ’’کوئی، کچھ، بعض‘‘ کا مفہوم ’’مِنْ‘‘ (منھا) میں موجود ہے۔

۱:۴۶:۲ (۴)     [یَشَّقَّقُ] کا مادہ ’’ش ق ق‘‘ اور وزن اصلی ’’یَتَفَعَّلُ‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’یَتَشَقَّقُ‘‘ تھا۔ اور اس کا اسی طرح (یعنی بصورت اصلی) استعمال بھی درست ہے۔ تاہم بعض دفعہ اہل عرب باب تفعل کے فاء کلمہ ’’ت ث ج ر ذ ز س ش ص ض ط ظ‘‘ (۱۲حروف) میں سے کسی حرف کے ہونے کی صورت میں ’’تاء تفعل‘‘ کو بھی اسی حرف میں بدل کر مدغم کر دیتے ہیں اور پھر ماضی امر اور مصدر کے شروع میں حرفِ مشدّد (مدغم) کو پڑھنے کے لیے ہمزۃ الوصل بھی لگاتے ہیں۔ مضارع میں اس (ہمزۃ الوصل) کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یوں یہ لفظ ’’یتشقق‘‘ کے علاوہ بصورت ’’یَشَّقَقُ‘‘ بھی پڑھا، بولا اور لکھا جاتا ہے۔ یہاں اس کی قراء ت تبدیل شدہ شکل کے ساتھ ہے۔

·       اس مادہ (ش ق ق) سے فعل مجرد (شَقَّ یَشُقّ شَقًّا) (نصر سے) بطور فعل لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’پھٹ جانا اور پھاڑ دینا۔‘‘ پھر اس سے یہ متعدد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً (۱)جانور کی ’’ناب‘‘ (پانچواں دانت جسے ’’کچلی‘‘ بھی کہتے ہیں) نکل آنا۔ کہتے ہیں ’’شقَّ النابُ‘‘ (یعنی مسوڑھا پھاڑ کر کچلی نکل آئی)  (۲)نباتات کا زمین پھاڑ کر نکل آنا۔‘‘ کہتے ہیں ’’شق النبتُ‘‘ (۳) ’’کسی چیز میں دراڑ ڈال دینا‘‘ جیسے ’’شقَّ الزّجاجَ‘‘ (اس نے شیشہ میں دراڑ ڈال دی)  (۴)’’نہر کھودنا‘‘ کہتے ہیں ’’شقَّ النھرَ‘‘ (اس نے نہر کھود نکالی)  (۵)’’مشکل اور دشوار ہونا‘‘ کہتے ہیں ’’شقَّ الامرُ علیہ‘‘ (بات اس پر دشوار ہوئی) اور  (۶)علیٰ کے صلہ کے ساتھ ہی یہ ’’کسی پر دشواری ڈالنا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے۔ مثلاً کہیں گے: ’’شقَّ علیٰ فلانٍ‘‘ (اس نے اسے دشواری میں ڈالا)۔

·       تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے صرف دو صیغے دو ہی جگہ وارد ہوئے ہیں ایک جگہ (عبس:۲۶)’’پھاڑنا‘‘ کے معنی میں اور دوسری جگہ (القصص:۲۷) ’’دشواری/ مشقت میں ڈالنا‘‘ کے معنی میں۔ باقی کسی معنی کے لیے یہ فعل مجرد قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔ فعل مجرد کے علاوہ اس مادہ سے مزید فیہ کے ابواب مفاعلہ، تفعل اور انفعال سے بھی افعال کے مختلف صیغے ۱۵ جگہ آئے ہیں اور مختلف مصادر اور مشتقات بھی دس گیارہ جگہ آئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

·       زیر مطالعہ لفظ ’’یشَّقَّقُ‘‘ اپنے مادہ سے باب تفعل کا صیغہ مضارع (واحد مذکر غائب) ہے۔ اس باب سے فعل ’’تشقَّق یَتَشَقَّقُ تشقُّقًا‘‘ جو بدل کر بصورت ’’اِشّقَقَ یَشّقَّقُ  اِشَّقُّقًا‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے) ہمیشہ بطور فعل لازم ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’پھٹ جانا، دراڑیں نمودار ہونا یا پڑنا‘‘۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے اس باب (تفعل) سے فعل کے کل دو صیغے تین جگہ آئے ہیں جن میں سے ایک یہ زیر مطالعہ صیغہ ہے۔ اس کا ترجمہ ہے ’’پھٹ جاتا ہے‘‘ جسے بیشتر مترجمین نے یہاں ’’پتھروں میں سے بعض‘‘ کو ملحوظ رکھتے ہوئے جمع کے صیغے کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’پھٹ جاتے ہیں/ شق ہو جاتے ہیں‘‘ کی صورت میں۔

۱:۴۶:۲)۵)     [فَیَخْرُجُ منہ الْمَآئُ] یہ جملہ کل پانچ کلمات کا مجموعہ ہے یعنی ’’فَ‘‘ (پس/ چنانچہ) + ’’یخرج‘‘ (نکلتا ہے/ نکل آتا ہے/ + ’’مِنْ‘‘ (سے)+ ’’ہُ‘‘ (اس) + ’’المائُ‘‘ (پانی) سے مرکب ہے۔ اس میں فعل ’’یَخْرُجُ‘‘ جس کا مادہ ’’خ ر ج‘‘ اور وزن ’’یَفْعُلُ‘‘ ہے، کے فعل مجرد کے باب معنی وغیرہ پر البقرہ:۲۱ [۱:۱۶:۲ (۱۱)] میں بات ہوئی تھی۔ اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں ماضی کے مختلف صیغے ۱۳ جگہ اور مضارع کے صیغے قریباً ۴۰ جگہ آئے ہیں۔ ’’منہ‘‘= اس میں سے اور ’’المائُ‘‘ (جس کا اردو ترجمہ ’’پانی‘‘ ہے) کا مادہ ’’م و ہ‘‘ اور وزن اصلی (لام تعریف نکال کر) ’’فَعَلٌ‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’مَوَہٌ‘‘ تھی جس میں واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لفظ ’’مَائٌ‘‘ بنتا ہے۔ اور اس میں خلافِ قیاس ’’ہ‘‘ کو ’’ء‘‘ میں بدل دیتے ہیں۔ اس کی جمع مکسر ’’مِیاہٌ‘‘ اور ’’امواہ‘‘ ہے جس میں ’’ہ‘‘ پھر لوٹ آتی ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے بارے میں (جو قرآن میں کہیں استعمال نہیں ہوا) البقرۃ:۲۲ [۱:۱۶:۲ (۱۰)] میں بات ہوئی تھی۔

·       اس طرح ’’فیخرج منہ الماء‘‘  کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: ’’پس نکلتا ہے اس میں سے پانی۔‘‘ جسے بعض مترجمین نے مزید بامحاورہ بناتے ہوئے‘‘ اس میں سے پانی جھرتا/ رستا/ جھرجاتا/ نکل آتا/ نکلنے لگتا ہے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے یہاں سیاقِ عبارت میں پتھروں (الحجارۃ) کا ذکر اور ان کے لیے مؤنث ضمیر (ھا) کی وجہ سے ’’منہ‘‘ کی ضمیر مذکر کے باوجود یہاں ’’ان میں سے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کر ڈالا ہے جسے بلحاظ مفہوم ہی درست کہہ سکتے ہیں۔

[وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا] یہی عبارت ابھی اوپر [۱:۴۶:۲ (۴)] سے پہلے گزر چکی ہے۔ جہاں مختلف تراجم مع وجہ بیان ہوئے ہیں۔

۱:۴۶:۲ (۶)     [یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ] اس میں صرف دو لفظ ’’یَھبِط‘‘اور ’’خَشْیَۃ‘‘ لغوی لحاظ سے وضاحت طلب ہیں۔

’’یَھْبِطُ‘‘   کا مادہ ’’ھ ب ط‘‘ اور وزن ’’یَفْعِلُ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (ھَبط یھبِط= نیچے اترنا/ گرنا) کے باب معنی اور استعمال کا بیان البقرہ:۳۶ [۱:۲۶:۲ (۱۷)] میں گزر چکا ہے۔

’’خَشْیَۃَ‘‘   کا مادہ ’’خ ش ی‘‘  اور وزن ’’فَعْلَۃً‘‘ ہے (عبارت میں لفظ مجرور بالجر ’’من‘‘ ہے) اس سے فعل مجرد ’’خشِیَ . . . .یَخْشَی خَشْیۃً‘‘ (سمع سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’. . . . سے ڈرنا، . . . . . . کا خوف رکھنا‘‘. بعض کتب لغت (مثلاً المعجم الوسیط اور البستان) میں ہے کہ اس فعل کے معنی میں کسی کی تعظیم اور ہیبت کے سبب سے ڈرنے کا مفہوم ہوتا ہے بلکہ یہی اس کے حقیقی اور بنیادی معنی ہیں۔ یہ فعل عموماً متعدی بنفسہٖ استعمال ہوتا ہے جیسے ’’ خَشِيَ رَبَّهٗ ‘‘ (البیّنہ:۵) ’’وہ اپنے رب سے ڈرا۔‘‘ کبھی اس کا مفہوم ’’اَن‘‘ سے شروع ہونے والا جملہ ہوتا ہے جو محلاً منصوب ہوتا ہے جیسے ’’ خَشِيْتُ اَنْ تَقُوْلَ ‘‘ (طٰہٰ:۹۴) میں ہے (میں ڈرا کہ تو کہے گا . . . . . .) اور کبھی اس فعل کے ساتھ ’’مِنْ‘‘   کا صلہ بھی لگتا ہے یا ’’اَن‘‘ سے پہلے ’’ب‘‘ کا صلہ بھی لگتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’خَشِیَ الموتُ ومِن الموتِ وباَنْ یموتَ‘‘ (سب کا مطلب ہے وہ موت سے ڈرا)        ٍ

·       تاہم قرآن کریم میں یہ فعل ان صلات (’’مِنْ‘‘ یا ’’باء‘‘) کے ساتھ کہیں استعمال نہیں ہوا بلکہ مفعول بنفسہ کے ساتھ آیا ہے۔ البتہ بعض دفعہ اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے اور عموماً اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے۔ جیسے ’’ سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَّخْشٰى‘‘ (الاعلیٰ:۱۰) میں ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے ۳۹جگہ اور مصدر ’’خشیۃ‘‘ مفرد یا مرکب صورت میں کل آٹھ دفعہ آیا ہے۔ لفظ ’’خشیۃ‘‘ جو اس فعل مجرد کا مصدر (بمعنی’’ڈر رکھنا‘‘) ہے بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ’’ڈر یا خوف‘‘ کے معنی دیتا ہے ویسے اردو میں یہ لفظ بھی تائے مبسوط کی املاء (خشیت) سے اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ متعارف ہے۔

·       اس طرح زیر مطالعہ عبارت (یھبِط من خشیۃِ اللّٰہ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’نیچے گر پڑتا ہے ڈر اللہ کے سے ‘‘ جس کی سلیس اردو صورت ’’اللہ کے ڈر سے گر پڑتا ہے‘‘ بنتی ہے کیونکہ ’’گر پڑنا‘‘ میں ’’نیچے‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔ بعض مترجمین نے ’’خشیۃ‘‘ کے بنیادی معنی کی بناء پر ’’اللہ کی ہیبت سے نیچے آگرتا ہے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو عمدہ ترجمہ ہے اور بیشتر مترجمین نے یہاں بھی سیاق (عبارت کے سابقہ حصے) میں الحجارۃ (پتھروں) کے ذکر کی بناء پر فعل مضارع کے صیغہ واحد (مذکر غائب) ہونے کے باوجود ترجمہ بصورت جمع ہی کر دیا ہے یعنی ’’گر پڑتے/ نیچے لڑھک آتے ہیں/ اللہ کے ڈر سے/ خدا تعالیٰ کے خوف سے۔‘‘

۱:۴۶:۲ (۷)     [وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ] اس عبارت (جو ایک مکمل جملہ ہے) کے تمام کلمات (ماسوائے ’’غافِل‘‘ کے جو اردو میں بھی مستعمل ہے) کی لغوی تشریح و معنی وغیرہ پہلے کئی جگہ بیان ہوئے ہیں۔

مثلاً ’’وَ‘‘ (عاطفہ یا مستانفہ بمعنی ’’اور‘‘) پر [۱:۷:۲ (۱)] میں ’’مَا‘‘ (الحجازیۃ یا نافیہ بمعنی’’ نہیں ہے‘‘)پر [۱:۲:۲ (۵)] میں اسم جلالت (اللہ) پر بسم اللہ کی بحث میں۔ ’’بِغافل‘‘ کی باء (ب) کا الگ ترجمہ نہیں ہوتا یہ مَا الحجازیہ کی خبر پر آنے والی ’’بِ‘‘ ہے جسے نحوی باء زائدہ کہتے ہیں (لفظ ’’غافل‘‘ پر ابھی بات ہوگی)۔ ’’عَمَّا‘‘ عن+ما ہے جس میں ’’عَنْ‘‘ بمعنی ’’سے‘‘ ہے اور اس کا تعلق ’’غافل‘‘ کے ساتھ ’’صلہ‘‘ کا ہے (جیسا کہ ابھی بیان ہوگا) اور ’’مَا‘‘ یہاں موصولہ بمعنی ’’جوکچھ‘‘ ہے اس پر [۱:۲:۲ (۵)] میں ’’تعملون‘‘ (تم کرتے ہو) جو فعل عمِل یعمَل (کرنا) سے مضارع کا صیغہ ہے اس پر [۱:۱۸:۲ (۲)]میں بات ہوچکی ہے۔

·          لفظ ’’غافِلٌ‘‘ (جو عبارت میں ’’بِ‘‘ کی وجہ سے مجرور ہے) کا مادہ ’’غ ف ل‘‘ اور وزن ’’فاعِلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’غفَل . . . . یغفُل غَفْلَۃً‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے عام مشہور معنی ہیں: ’’. . . . .سے بے خبر ہونا۔‘‘ یہ فعل متعدی ہے اور زیادہ تر ’’عَن‘‘ کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’غفَل عن الشییٔ‘‘ (وہ اس چیز سے غافل یا بے خبر رہا)۔ اگر یہ فعل متعدی بنفسہ آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں: ’’. . . . .کے بارے میں بے توجہی سے کام لینا‘‘ یا ’’. . . .پر پردہ ڈال دینا ‘‘تاہم یہ استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔ بلکہ قرآن کریم میں تو اس فعل مجرد سے مضارع کا ایک صیغہ ’’ تَغْفُلُوْنَ ‘‘ صرف ایک جگہ (النساء:۱۰۲) آیا ہے اور اس مادہ سے مزید فیہ کے بھی صرف بابِ افعال سے ماضی کا صرف ایک ہی صیغہ ’’اَغْفَلْنَا‘‘  بھی ایک ہی جگہ (الکہف:۲۸) آیا ہے البتہ اس فعل مجرد سے مصدر و دیگر مشتقات بکثرت (۳۱ جگہ) آئے ہیں۔

·             لفظ ’’غافل‘‘ اس فعل مجرد سے صیغۂ اسم الفاعل ہے جس کے معنی ہیں ’’بے خبر‘‘ اور خود لفظ ’’غافل‘‘ بھی اردو میں مستعمل ہے۔ البتہ عربی میں اگر اسم الفاعل کے بعد بھی مفعول (جس سے بے خبری بیان کی جائے) مذکور ہو تو فعل کی طرح اسم الفاعل کے بعد بھی ’’عَنْ‘‘ کا صلہ آئے گا۔ جیسے اس زیر مطالعہ آیت میں ’’غافل‘‘ کے بعد ’’عما‘‘ (عن ما) آیا ہے۔ البتہ بعض دفعہ مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جیسے ’’ وَّاَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ  ‘‘ (الانعام:۱۳۱) میں ہے۔ ایسے موقع پر مفعول سیاق عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے یعنی کس سے غافل؟

·          اس طرح یہاں ’’وما اللّٰہ بغافل عما تعملون‘‘ کا لفظی ترجمہ ہوگا: ’’اور نہیں ہے اللہ بے خبر اس سے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘ اور اسی کی سلیس اور با محاورہ صورت ہے ’’اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں‘‘ یا ’’جو کچھ بھی تم لوگ کررہے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں‘‘۔ بعض مترجمین نے ’’عما تعملون‘‘ کا ترجمہ اردو محاورہ کی بناء پر اور عربی کے ’’ما‘‘ کو (جو عمّا میں ہے) مصدریہ (دیکھئے [۱:۲:۲ (۵)] سمجھ کر ’’تمہارے کام سے/ تمہارے کاموں سے/ تمہارے اعمال سے/ تمہارے عملوں سے/ تمہارے کُوتکوں سے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے جو مفہوم اور محاورہ کے اعتبار سے درست ہیں۔ تاہم جن حضرات نے فعل مضارع کے ساتھ (تعملون کا) ترجمہ کیا ہے وہ اصل لفظ سے زیادہ قریب ہے اور اس سے اردو محاورے میں بھی کوئی خرابی تو واقع نہیں ہوتی۔

 

۲:۴۶:۲     الاعراب

        زیر مطالعہ آیت چھ جملوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلے دو جملوں کو فائے عاطفہ کے ذریعے ملا کر ایک جملہ بنا دیا گیا ہے۔ باقی ہر جملے کے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی گئی ہے۔ الگ الگ جملوں کی اعرابی ترکیب یوں ہے:

(۱)                                ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ

          [ثم] حرف عطف برائے ترتیب و تراخی ہے (یعنی اس کے کچھ عرصہ بعد) [قَسَتْ] فعل ماضی صیغہ واحد مؤنث غائب ہے [قلوبُکم] مضاف (قلوب) اور مضاف الیہ (کم) مل کر فعل ’’قَسَتْ‘‘ کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے علامت ِ رفع ’’بُ‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ) ہے۔ قلوب کو جمع مکسر ہونے کی وجہ سے صیغۂ فعل (قَسَتْ) مؤنث آیا ہے۔ [من بعد ذٰلک] میں جار مجرور ’’من بعدِ‘‘ = بعدَ ہے یعنی یہ ظرف مضاف ہے اور ’’ذٰلک‘‘ اس کا مضاف الیہ ہے۔ اردو جملے کی ترکیب میں چونکہ پہلے ظرف پھر فاعل اور فعل آخر پر آتا ہے اس لیے اس کا سلیس ترجمہ ’’پھر اس کے بعد (بھی) تمہارے دل سخت ہوگئے/ رہے‘‘ سے کیا گیا ہے۔ تراجم حصّہ ’’اللغۃ‘‘ میں دیکھئے۔

(۲) فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً    

[فَ] عاطفہ اور [ھِیَ] مبتدا ہے جو ضمیر مرفوع منفصل ہے اور مؤنث ضمیر ’’قلوب‘‘ (جمع مکسر) کے لیے آئی ہے [کالحجارۃ] میں ’’ک‘‘ (بمعنی ’’مانند‘‘) حرف الجر ہے اور ’’الحجارۃ‘‘ اس کی وجہ سے مجرور ہے علامت جر آخری ’’ۃ‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ) ہے یہ مرکب جاری یہاں مبتدأ (ھی) کے ساتھ خبر کا کام دے رہا ہے لہٰذا اسے محلاً مرفوع کہہ سکتے ہیں اور بعض حضرات اسے قائم مقام خبر بھی کہتے ہیں کیونکہ اصل خبر (کائنۃٌ: ہونے والا وغیرہ) محذوف ہے۔ [اَوْ] حرفِ عطف (بمعنی ’’یا‘‘) بھی ہوسکتا ہے جس میں ابہام کا مفہوم ہے تاہم سیاقِ عبارت کا تقاضا ہے کہ یہاں ’’اَو‘‘ حرفِ اضراب (بَلْ) کے معنی (بلکہ) میں لیا جائے۔ [اَشَدُّ] افعل التفضیل ہے جو نحوی اعتبار سے ’’ک‘‘ (بمعنی ’’مثلُ‘‘) پر عطف ہونے کے باعث مرفوع ہے یعنی یہ رفع بلحاظ معنی ہے یا یوں سمجھئے کہ یہ (اشد) یہاں ایک محذوف (مکرر) مبتدأ (ھی) کی خبر مرفوع ہے یعنی ’’ھِیَ اشدُّ‘‘ علامت رفع ’’ دُّ ‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ) ہے۔ اور یہاں ’’اشدّ‘‘ کے بعد اس کا مفعول (جس پر فضیلت ہو یا جس سے بڑھ کر ہو کسی بات میں) جس سے پہلے عموماً ’’من‘‘ لگتا ہے وہ بھی محذوف ہے یعنی ’’منھا‘‘ (پتھروں کے لیے مؤنث ضمیر)۔ اس طرح مخدوفات سمیت تقدیر (اصل مقصود و مفہوم) عبارت کچھ یوں بنتی ہے۔‘‘ او (ھی) اشد (منھا)‘‘ یعنی ’’بلکہ وہ ہے زیادہ سخت ان سے‘‘ ’’ھا‘‘ کا ترجمہ ’’پتھروں‘‘ کی وجہ سے ’’ان‘‘ کیا گیا ہے۔ [قسـوۃٌ] افعل التفضیل ’’اشد‘‘ کی تمیز (لھٰذا) منصوب ہے علامت نصب تنوین نصب (ـــــًـــــ) ہے جس کا اردو ترجمہ ’’بلحاظ سختی کے‘‘ یا ’’سختی میں‘‘ ہی کیا جاسکتا ہے۔ یوں اس حصہ عبارت (او اشد قَسْوۃً) کا ترجمہ بنتا ہے ’’بلکہ زیادہ سخت بلحاظ سختی کے۔‘‘ پھر ’’شِدّۃ‘‘ اور ’’قسوۃ‘‘ کی سختی میں فرق کرنے کے لیے (دیکھئے حصہ ’’اللغۃ‘‘) نیز محذوفات کو ملحوظ رکھتے ہوئے مقدر (understood) عبارت اور ’’(ھی) اشد (منھا) قسوۃً‘‘ کے ساتھ بامحاورہ ترجمہ کرنے اور ’’سخت اور سختی‘‘ کی تکرار سے بچنے کے لیے بعض مترجمین نے اس (او اشد قســوۃ) کا ترجمہ ’’بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت/ ان سے بھی سخت/ ان سے بھی سخت تر/ ان سے بھی زیادہ کرّے/ سختی میں ان سے بڑھ کر‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ ان سب ترجموں میں ’’ان سے‘‘ اسی محذوف (مگر مفہوم) ’’منھا‘‘ کا ترجمہ ہے۔ بعض نے ’’سختی میں (پتھر سے بھی) زیادہ سخت‘‘ ترجمہ کیا ہے اس میں ضمیر کی بجائے اسم ظاہر یعنی ’’منھا‘‘ کی بجائے ’’من الحجارۃ‘‘ کو ہی مقدر سمجھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ بعض نے ’’اس سے بھی زیادہ‘‘ یعنی بصورت واحد ترجمہ کیا ہے جو سیاق عبارت اور نص (عبارت) سے ذرا ہٹ کر ہے۔

·       یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں فعل مجرد (قسا یقسو= سخت ہونا) سے صیغہ افعل التفضیل استعمال ہوسکتا تھا یعنی ’’اَواَقْسی منھا‘‘ کی شکل میں۔ ’’اشدّ‘‘ (وغیرہ) کا استعمال تو مزید فیہ سے افعل التفضیل بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تاہم یہاں معنی میں سختی (قسـوۃ) کی بھی شدت کا مفہوم پیدا کرنے کے لیے ’’اَو اَقْسٰی‘‘ کی بجائے ’’او اشدّ قَسـوۃً‘‘ لایا گیا ہے نیزدیکھئے حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں ’’شدۃ‘‘ اور ’’قسوۃ‘‘ (ہر دو بمعنی سختی) میں فرق کا بیان۔

          (۳) وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ   

        [وَ] یہاں حالیہ بھی ہوسکتی ہے اور مستانفہ بھی [انّ] حرف مشبہ بالفعل ہے۔ اس کا اسم (منصوب) آگے آرہا ہے [من الحجارۃ] جار مجرور ’’اِنَّ‘‘ کی قائم مقام خبر یا متعلق خبر مقدم (اپنی جگہ سے پہلے آگیا) ہے اور [لَمَا] میں لام (لَ) تو اسے لام مزحلقہ ہے (یہ لام الابتداء ہی ہوتا ہے جو کسی اسم مبتدأ یا خبر) یا فعل مضارع پر تاکید کے لیے لگتا ہے۔ مگر جب یہ ’’اِنَّ‘‘ والے جملے کے اسم یا خبر پر آئے تو اسے لام  مزحلقہ کہتے ہیں) اس سے مقصود تاکید ہی ہوتی ہے اور ’’ما‘‘ موصولہ یہاں ’’اِنَّ‘‘ کا اسم ، لہٰذا محلاً منصوب ہے گویا عبارت کچھ یوں تھی ’’وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارۃِ لَحَجَرًا‘‘ (اور بے شک پتھروں میں سے کوئی پتھر ہوتا ہے جو کہ) [یتفجر] فعل مضارع مع ضمیر الفاعل (ھو) ہے۔ یہ ’’ما‘‘ موصولہ کا صلہ ہے یعنی یہاں سے صلہ شروع ہوتا ہے جو جملے کے آخر تک چلتا ہے۔ [منہ] جار مجرور متعلق فعل (یتفجر) ہیں۔ اس میں ضمیر مذکر(ہ) ایک یا کوئی پتھر کے لحاظ سے آئی ہے۔ [الانھارُ] فعل ’’یتفجر‘‘ کا فاعل (لہٰذا)مرفوع ہے۔ علامتِ رفع آخری ’’ر‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ)  ہے۔ یہاں صیغۂ فعل (جمع مکسر ’’الانھار‘‘ کے فاعل ہونے کی بناء پر) بظاہر مؤنث (تتفجّر) ہونا چاہیے تھا۔ تاہم صیغۂ فعل کو واحد مؤنث یا مذکر ہی لانا صرف اس صورت میں واجب ہوتا ہے جبکہ فاعل واحد مذکر یا واحد مؤنث حقیقی ہو۔ جمع مکسر یا مؤنث سماعی وغیرہ میں مذکر مؤنث دونوں صیغۂ فعل استعمال ہوسکتے ہیں مثلاً ’’کتبَتِ المرأۃُ‘‘ یا ’’کتبَ الرجلُ‘‘ کہنا ضروری ہے مگر ’’کتبَ النسائُ‘‘ یا ’’کتبتِ الرجالُ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ’’یتفجر‘‘ کے اردو ترجمہ میں فعل کی تذکیر یا تانیث ’’الانھار‘‘ کے ترجمہ کے مطابق ہوگی۔ مثلاً ’’دریا نکلتے ہیں‘‘ یا ’’ندیاں نکلتی ہیں‘‘ وغیرہ۔

(۴)   وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاۗءُ   

        [وَ] عاطفہ ہے جو اس جملے کو سابقہ جملے سے ملاتی ہے۔ [اِنّ] حرف مشبہ بالفعل اور [منھا] جار مجرور مل کر اس (اِنَّ) کی خبر یا قائم مقام خبر مقدم (پہلے آگئی) ہے۔ ضمیر مؤنث ’’ھا‘‘ الحجارۃ (جمع مکسر) کے لیے ہے۔ [لَمَا] یہاں بھی سابقہ جملے کی طرح (لَ) لام مزحلقہ ہے اور ’’مَا‘‘ اسم موصول اِنَّ کا اسم مؤخر (جو بعد میں آیا) ہے۔ [یشقّق] فعل مضارع مع ضمیر الفاعل (ھو) ہے اور یہ صیغۂ فعل ایک جملہ فعلیہ ہے جو ’’مَا‘‘ کا صلہ ہے۔ صیغۂ فعل کی تذکیر بلحاظ معنی ’’کسی ایک پتھر‘‘ کے لیے ہے۔ [فیخرُج] میں فاء (ف) عطف کے لے ہے اور فعل ’’یخرُج‘‘ بھی مضارع صیغہ واحد مذکر غائب ہے جس کا عطف بذریعہ ’’فَ‘‘ سابقہ فعل ’’یشقّق‘‘ پر ہے [منہ] جار مجرور متعلق فعل (یخرج) ہیں اور یہ ضمیر (ہ) بھی بلحاظ معنی ’’ایک پتھر‘‘ کے لیے ہے [المائُ] فعل ’’یخرج‘‘ کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے علامت ِ رفع آخری ’’ء‘‘  کا ضمہ (ـــــُـــــ)  ہے۔

(۵)   وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ   

[وانّ منھا لَمَا] کا اعراب و ترکیب اوپر والے جملے (کے ابتدائی حصے) کی طرح ہے [یَھْبط] فعل مضارع مع ضمیر الفاعل (ھو) ہے اور فعل کی تذکیر معنی کے لحاظ سے ’’کسی ایک پتھر‘‘ کے لیے ہے (وہ گرتا ہے) اور یہاں بھی ’’یھبط‘‘ سے ’’ما‘‘ کا صلہ شروع ہوتا ہے۔ (جو آخر عبارت تک کا جملہ ہے) [من خشیۃ اللّٰہ] میں ’’مِنْ‘‘ تو حرف الجر ہے ’’خشیۃ‘‘ مجرور بالجر بھی ہے اور آگے مضاف بھی ہے اس لیے خفیف بھی ہے ’’اللّٰہ‘‘ مضاف الیہ (لہٰذا مجرور بالاضافۃ) ہے۔ یہ سارا مرکب جاری (من خشیۃ اللہ) فعل ’’یھبط‘‘ سے متعلق ہے جو ہبوط (گرنے) کی وجہ (تعلیل) بیان کرتا ہے یعنی یہاں ’’من‘‘ کا مطلب ’’کی وجہ سے‘‘ ہے۔

(۶)   وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ 

          [وَ] برائے استیناف ہے یعنی یہاں سابقہ مضمون سے الگ ایک نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ [مَا] حجازیہ (نافیہ) ہے جو ’’لَیْسَ‘‘ کا سا عمل کرتی ہے۔ [اَللّٰہُ] اس (مَا) کا اسم (لہٰذا) مرفوع ہے۔ [بغافِلٍ] کی باء (بِ) زائد حرف الجر ہے جو ’’لیس‘‘ (اور اس کے ساتھی حروف) کی خبر پر تاکید کے لیے آتی ہے۔ ’’غافِلٍ‘‘ بوجہ باء (ب) مجرور ہے اس طرح یہ لفظاً تو یہاں مجرور ہے مگر ’’مَا‘‘ کی خبر ہونے کے لحاظ سے محلاً منصوب ہے (لَیْسَ کی خبر پر ’’ب‘‘ نہ ہو تو منصوب ہوتی ہے) [عَمَّا] جار (عن) اور مجرور (مَا) ہے جس میں ’’ما‘‘ موصولہ ہے اور [تعملون] فعل مضارع مع ضمیر الفاعلین (انتم) جملہ فعلیہ ہوکر ’’مَا‘‘ کا صلہ ہے۔ یہاں ’’مَا‘‘کی عائد ضمیر محذوف ہے۔ یعنی دراصل تھا ’’عما تعملونہ‘‘ یہ سارا صلہ موصول ’’ما تعملون‘‘، ’’عن‘‘ کی وجہ سے محلاً مجرور ہے اور خبر ’’بغافل‘‘ سے متعلق ہے۔

 

۳:۴۶:۲       الرسم

بلحاظ رسم زیر مطالعہ آیت میں صرف چار کلمات توجہ طلب ہیں۔ یعنی ’’ذلک، الانھر، بغافلٍ، عَمَّا‘‘ ان میں سے تین کا رسم متفق علیہ ہے۔ صرف ایک کا مختلف فیہ ہے۔ تفصیل یوں ہے:

        (۱) ’’ذلک‘‘ کے رسم پر [۳:۲:۲] پر بات ہوئی تھی۔ یہ لفظ صرف رسم عثمانی میں ہی نہیں بلکہ رسم املائی میں بھی ’’ذ‘‘ کے بعد الف کے حذف سے لکھا جاتا ہے۔

(۲) ’’الانھر‘‘ جس کا رسم املائی ’’الانھار‘‘ ہے۔ رسم قرآنی میں ہر جگہ ’’بحذف الالف بعد الہاء‘‘ لکھا جاتا ہے یعنی ’’الانھر‘‘ کی شکل میں اور یہ اس کا متفق علیہ رسم ہے یعنی سب علمائے رسم کا اس پر اتفاق ہے۔

(۳) ’’بغافل‘‘ الدانی کے اصول پر (کہ’’فاعل‘‘ کے وزن پر آنے والے مفرد (بصیغۂ واحد) کلمات اثبات الف کے ساتھ لکھے جاتے ہیں) یہ لفظ ’’باثباتِ الالف بعد الغین‘‘ لکھا جاتا ہے۔ برصغیر، ترکی، ایران اور لیبیا کے مصاحف میں یہ اسی طرح (باثبات الف لکھا جاتا ہے۔ تاہم ابوداؤد کی طرف منسوب قول کی بنا پر عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے بحذف الالف بعد العین یعنی ’’بغفل‘‘ کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔

(۴) ’’عَمَّا‘‘ جو دراصل ’’عن مّا‘‘ ہے قرآن کریم میں ہر جگہ ’’عمَّا‘‘ یعنی موصول (ملا کر) ہی لکھا جاتا ہے۔ البتہ صرف ایک جگہ (الاعراف:۱۶۶) یہ مقطوع بصورت ’’عن ما‘‘ لکھا جاتا ہے۔

 

۴:۴۶:۲     الضبط

زیر مطالعہ عبارت کے کلمات میں ضبط کا تنوع درج ذیل مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔