سورۃ البقرہ آیت ۷۵

۴۷:۲       اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ  بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ (۷۵)

۱:۴۷:۲      اللغۃ

۱:۴۷:۲ (۱) [ اَفَتَطْمَعُوْنَ] ابتدائی [اَفَ] حرف استفہام (أ) اور حرفِ عطف (فَ) ہے جس کا ترجمہ تو ہے ’’کیا پس/ پھر‘‘ تاہم بامحاورہ اردو ترجمہ ’’پس/ پھر کیا‘‘ بہتر ہے۔ بعض نے ’’اب کیا؟‘‘، ’’کیا اب بھی‘‘ اور ’’تو کیا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے گویا اس میں ’’فَ‘‘ کا ترجمہ ’’اب، اب بھی اور تو‘‘ سے کیا گیا ہے بعض نے فاء (فَ) کا ترجمہ نظر انداز کرتے ہوئے صرف حرفِ استفہام ’’کیا‘‘ سے ہی کام چلایا ہے۔ خیال رہے کہ جب حرف استفہام (’’ أ  ‘‘یا ’’ھَل‘‘) کے ساتھ حرف عطف (فَ) جمع ہو جائے تو ( أ ) کی صورت میں استفہام کا حرف پہلے اور عطف کا حرف بعد میں آتا ہے یعنی بصورت ’’أفَ‘‘ (جیسے یہاں ہے) اور اگر دوسرا حرف استفہام (یعنی ’’ھَل‘‘) حرف عطف (فاء) کے ساتھ جمع ہو تو حرف عطف پہلے اور حرفِ استفہام بعد میں لاتے ہیں یعنی بصورت ’’فَھَلْ‘‘ قرآن کریم میں آپ کو یہ دونوں استعمال کئی مقامات پر ملیں گے۔ بامحاورہ ترجمہ دونوں صورتوں میں قریباً یکساں ہی رہتا ہے۔ یعنی ’’کیا پھر/ پھر کیا‘‘

·       ’’تَطْمَعُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ط م ع‘‘ اور وزن ’’تَفْعَلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’طمِع یَطْمَعُ طَمْعًا‘‘ (سمع سے) آتا ہے۔ اور اس کے جو بنیادی معنی تو ہیں ’’کسی چیز کو حاصل کرنے کی خواہش رکھنا۔‘‘ اگر یہ خواہش زبردست اور شدید ہو تو اسے ’’طمع یا حرص‘‘ (لالچ) کہتے ہیں۔ اور اگر نسبتاً کم یا نرم ہو تو اسے ’’رجاء یا رغبت‘‘ (امید) کہتے ہیں۔ اس طرح اس فعل کے معنی ہیں: ’’لالچ کرنا، طمع رکھنا‘‘ (اس فعل کا مصدر طمع بمعنی لالچ اردو میں مستعمل ہے) پھر اس سے اس میں ’’امید رکھنا، توقع رکھنا، رغبت رکھنا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اور جس شخص یا چیز کے بارے میں حرص، لالچ امید یا توقع رکھی جائے اس کے لیے عربی میں اس فعل (طمع یطمَع) کے ساتھ زیادہ تر ’’فی‘‘ یا کبھی ’’ب‘‘  کا صلہ آتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’طمِع فی کذایا بِکذا‘‘ (اس کے بارے میں پُراُمید ہوا یا توقع رکھی) ’’طمِعَہ‘‘ نہیں کہا جاتا۔ البتہ بعض دفعہ (بلکہ اکثر) اس فعل کے بعد ’’أن‘‘ سے شروع ہونے والا ایک جملہ آتا ہے جس میں اس شخص یا چیز کا ذکر ہوتا ہے جس کی طمع یا امید کی جائے۔ اور دراصل اس ’’أَن‘‘ سے پہلے ایک ’’فی‘‘ یا ’’ب‘‘ مقدر ہوتی ہے یعنی ’’فِیْ أن‘‘ یا ’’بِأَن‘‘ ہی سمجھا جاتا ہے۔

قرآن کریم میں اس فعل سے مضارع کے صیغے آٹھ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے چھ جگہ اس فعل کا مفعول ’’أن‘‘ سے شروع ہونے والے جملے کی صورت میں ہی آیا ہے۔ اور دو جگہ مفعول محذوف (غیر مذکور) آیا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی قرآن کریم میں یہ فعل ’’فی‘‘ یا ’’بِ‘‘ کے صلہ کے ساتھ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ فعل کے علاوہ اس کا مصدر ’’طمعًا‘‘ (بصورت منصوب حال یا مفعول لہ ہو کر) بھی چار جگہ وارد ہوا ہے۔

·    ’’تَطْمَعُون‘‘ اس فعل مجرد سے مضارع صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اور اوپر بیان کردہ معانی کے مطابق اس کا ترجمہ ’’تم طمع رکھتے ہو، تمہیں یہ طمع ہے‘‘ بنتا ہے۔ بیشتر مترجمین نے لفظ ’’توقع‘‘ اختیار کیا ہے۔ یعنی ’’تم توقع رکھتے ہو‘‘ یا ’’تم کو توقع ہے‘‘ کی صورت میں۔ بعض نے ’’امید‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی ’’تم اُمید رکھتے ہو‘‘۔ اس (تطعمون) کے پہلے حصّے(أفَ) کا ترجمہ اوپر لکھا جاچکا ہے۔ اس طرح اس پورے لفظ ’’اَفَتَطْمَعُوْنَ‘‘ کا ترجمہ بلکہ مختلف تراجم آپ خود کرسکتے ہیں۔

·       [اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ] فعل ’’طمع‘‘ کے بعد ’’أن‘‘ کے استعمال پر ابھی اوپر بات ہوئی تھی ۔یہاں ابتداء میں وہی ’’أن‘‘ (بمعنی ’’یہ کہ/ ا س کی کہ‘‘) ہے ’’یُوْمِنُوا‘‘ کا مادہ ’’أ م ن‘‘ اور وزن ’’یُفْعِلُوْا‘‘ ہے۔ یہ اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع منصوب ہے جو یہاں لام (لِ) کے صلہ کے ساتھ ’’لکم‘‘ میں استعمال ہوا ہے۔ ’’آمن بِ. . . .‘‘ ( . . . . . پر ایمان لانا) اور ’’ آمن لِ . . . .‘‘(. . . . .کو باور کرنا، سچ ماننا، مطیع ہونا، وزن دینا) کے استعمال پر البقرۃ:۳ [۱:۲:۲ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔

·       اسی (لام کے صلہ) کی بنا پر بیشتر مترجمین نے یہاں ’’یومنوالکم‘‘میں ’’ آمن لِ‘‘ کو بمعنی ’’. . . . کی بات مان لینا‘‘ لیتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’کہ وہ مانیں/ مان لیں گے تمہاری بات،  کہ وہ تمہاری بات مان لیں گے، تمہاری بات تسلیم کرلیں گے، وہ لوگ قائل ہو جائیں گے‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ اور بعض نے ’’آمن لِ‘‘ اور ’’آمن بِ. . . . ‘‘  کے مفہوم کو یکجا کرتے ہوئے اس کا ترجمہ’’ کہ وہ لوگ تمھارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے‘‘  کی صورت میں کردیا ہے۔ بعض حضرات نے فعل ’’یُومنوا‘‘ کی ضمیر فاعلین (ھم= وہ سب، وہ لوگ) کی بجائے اسم ظاہر ’’یہود‘‘ یا ’’یہودی‘‘ استعمال کیا ہے جسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔

۱:۴۷:۲ (۲)      [وَقَدْکَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ] اس عبارت کے قریباً تمام الفاظ کے معنی وغیرہ پر پہلے بات ہوچکی ہے۔ بطور یادہانی لکھا جاتا ہے کہ ’’وَ‘‘ یہاں حالیہ ہے دیکھئے [۱:۴:۱ (۳)] میں۔ ’’قَدْ‘‘ تاکید اور حال دونوں کامفہوم دیتا ہے، دیکھئے [۱:۳۸:۲(۸)] میں ’’کَان‘‘ فعل ناقص بمعنی ’’تھا‘‘ ہے دیکھئے [۱:۲۰:۲ (۴)] میں اور ’’فریق‘‘ لفظ یوں تو اردو میں بھی متعارف ہے حتیٰ کہ اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تاہم اس کی لغوی تشریح ابھی کی جائے گی۔ ’’مِنْھُم‘‘ کثیر الاستعمال جار مجرور (مِنْ + ھم) ہیں۔

·       ’’فریق‘‘ کا مادہ ’’ف ر ق‘‘ اور وزن ’’فَعِیْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے مختلف ابواب سے مختلف معانی (مثلاً فرَق یفرُق (نصر)= جدا کرنا، الگ کرنا اور فرِق یفرَق (سمع) = گھبرانا، ڈر جانا وغیرہ) کے استعمال کی البقرہ:۵۰ [۱:۳۲:۲ (۱۰)] میں وضاحت کی جاچکی ہے۔ لفظ ’’فریق‘‘ اسی مادہ سے مشتق ایک اسم ہے۔ اس کے بنیادی معنی ہیں۔ ’’جدا کرنے والا یا جدا کردیا گیا‘‘ (فعیل بمعنی ’’فاعل‘‘ اور ’’مفعول‘‘ دونوں طرح آتا ہے) اور یہ عربی میں ’’مفارق‘‘ (بابِ مفاعلہ سے اسم فاعل) کا مفہوم بھی رکھتا ہے۔ یعنی ’’فراق اور جدائی اختیار کرنے والا‘‘۔ پھر اسی سے اس میں لوگوں کے ایک ’’گروہ‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ جماعت یا گروہ چھوٹا ہو تو اسے ’’فِرقۃ‘‘ کہتے ہیں اور یہ لفظ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ (جدید عربی میں فوج کے ایک حصّے (ڈویژن) کو بھی ’’فِرقۃ‘‘ کہتے ہیں اور اگر وہ گروہ یا جماعت نسبتاً زیادہ افراد پر مشتمل ہو تو اسے ’’فریق‘‘ کہتے ہیں (جدید عربی میں ’’فریق‘‘ اعلیٰ فوجی عہدے ’’جنرل‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل کو ’’فریق اول‘‘ اور میجر جنرل کو ’’فریق ثانی‘‘ کہتے ہیں) کسی معاملے میں باہم اختلاف رکھنے یا جھگڑنے مثلاً مقدمہ لڑنے والے گروہ یا پارٹی کو اس جھگڑے کاایک فریق اور دونوں کو ’’فریقین‘‘ (عربی میں ’’فریقان، فریقین‘‘) کہنا بھی اردو میں مستعمل ہے۔ مندرجہ بالا تمام معانی میں ایک ’’الگ پہچان‘‘ اور ’’جدا حیثیت‘‘ کا مفہوم پایا جاتا ہے جن کا فعل مجرد کے معانی سے تعلق ہے۔ اس طرح لفظ ’’فریق‘‘ کا ترجمہ ’’گروہ پارٹی فرقہ‘‘ وغیرہ سے ہوسکتا ہے اور خود لفظ ’’فریق‘‘ بھی اردو میں مستعمل ہے۔

·       اس طرح ’’وقد کان فریقُ منھم‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے، ’’حالانکہ ضرور تھا ایک گروہ ان میں سے‘‘ بیشتر مترجمین نے ’’وَ قَدْ‘‘ (جو ’’حال‘‘ اور ’’تحقیق‘‘ کے حرف ہیں) کا ترجمہ ’’حالانکہ، درانحالیکہ (ان کا) حال یہ ہے کہ‘‘ سے ہی کیا ہے۔ ایک آدھ نے صرف ’’اور‘‘ سے ترجمہ کردیا ہے جو اردو میں بعض دفعہ ’’حال‘‘ کا مفہوم بھی دے جاتا ہے۔ ’’کان‘‘ کا ترجمہ بیشتر بصیغہ ماضی ’’تھا، تھے، گزرا ہے، گزرے ہیں اور ہوگزرے‘‘ سے کیا ہے۔ ایک آدھ نے بزمانۂ حال یعنی ’’ہیں‘‘ سے کیا ہے۔ اور بعض نے ’’قد‘‘ کے تاکید والے مفہوم کو لفظ ’’بھی‘‘ سے ظاہر کیا ہے یعنی ’’ایسے بھی ہیں‘‘ کی صورت میں ’’فریق‘‘ کا ترجمہ ’’فرقہ، لوگ، ایسے لوگ جو کہ، کچھ لوگ، کچھ ایسے لوگ، ایک گروہ، ایک فرقہ جو‘‘ سے کیا گیا ہے جو سب ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں۔ لفظ ’’فریق‘‘ بلحاظ لفظ واحد مگر بلحاظ معنی (جماعت) جمع کا صیغہ ہے اس لیے ترجمہ میں کہیں واحد (گروہ) اور کہیں جمع (لوگ) اختیار کیے گئے ہیں اور ترجمہ میں ’’ایسا جو، ایسے جن کا‘‘ (یعنی موصول والا) مفہوم لفظ ’’فریقٌ‘‘ کی تنکیر (نکرہ ہونا) سے پیدا ہوتا ہے جس سے یہ نکرہ موصوفہ بن گیا ہے جس کی صفت اگلے جملے میں آرہی ہے۔ ’’منھم‘‘ کا ترجمہ ’’ان میں سے‘‘ ہی ہے جسے بعض نے ’’ان میں‘‘ یا ’’ان ہی میں‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے جو مفہوم و محاورہ کے لحاظ سے درست سہی مگر بلحاظ لفظ وہ ’’منھم‘‘ کی بجائے ’’فیھم‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔

۱:۴۷:۲ (۳)     [ یَسْمَعُوْنَ کَلَامَ اللّٰہِ] اس فعلیہ جملے میں ابتدائی صیغہ فعل ’’یَسمَعُون‘‘ کا مادہ ’’س م ع‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (سمِع= سننا) کے باب اور معنی وغیرہ البقرہ:۷ [۱:۶:۲ (۳)] میں بیان ہوچکے ہیں۔ ’’یسمعون‘‘اس فعل مجرد سے فعل مضارع کا صیغہ مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ ہے اور اس کا ترجمہ ’’وہ سنتے ہیں‘‘ بنتا ہے۔ دوسرے لفظ ’’کلام‘‘ کا مادہ ’’ک ل م‘‘ اور وزن ’’فَعَالٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’کلَم . . . . . یَکْلِم کَلْمًا‘‘ (ضرب سے) کے معنی تو ہیں: ’’. . . . . کو زخمی کرنا‘‘۔ زخمی کو عربی میں ’’مَکْلُوم‘‘ اور ’’کلِیم‘‘ بھی کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کوئی صیغۂ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اسی مادہ ’’کلم‘‘ سے مزید فیہ کے ابواب  ’’تفعیل، تفعل اور مفاعلہ‘‘ سے ’’بات کرنا، مخاطب کرنا‘‘ وغیرہ کے لیے فعل استعمال ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض افعال کے صیغے قرآن مجید میں بھی وارد ہوئے ہیں جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       لفظ ’’کلام‘‘ اس مادہ سے ماخوذ ہے۔ اس کے اصل لغوی معنی ہیں: ’’ آوازوں کا ایسا مجموعہ جس سے کوئی بات ذہن میں آئے یعنی ایک مفہوم پیدا ہو‘‘۔ اسی کے لیے اردو لفظ ’’بات‘‘ استعمال ہوتا ہے اور خود لفظ ’’کلام‘‘بھی ان معنی کے لیے متعارف و مستعمل ہے۔ ’’علم الکلام‘‘ ایک اصطلاح ہے جس سے مراد وہ علم ہے جس میں عقائد و نظریات کے غلط یا درست ہونے پر دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔

·       ’’کلام اللّٰہ‘‘ کے لفظی معنی ہیں ’’اللہ کا کلام، اللہ کی باتیں‘‘ اور اس سے مراد کوئی آسمانی کتاب بھی ہوسکتی ہے اور قرآن کریم بھی۔ یہ ترکیب ’’کلام اللہ‘‘ قرآن کریم میں دو جگہ آئی ہے۔ یہاں زیر مطالعہ عبارت میں یہ سابقہ آسمانی کتابوں خصوصاً ’’تورات‘‘ کے لیے ہے اور دوسری جگہ (التوبۃ:۶) میں یہ قرآن مجید کے لیے ہے۔

·       اس طرح اس عبارت (یسمعون کلام اللّٰہ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: ’’وہ سنتے ہیں اللہ کا کلام‘‘ بہت سے مترجمین نے یہاں ابتداء آیت میں ’’کان‘‘ آنے کی وجہ سے ’’یسمعون‘‘ کا ترجمہ بھی ماضی استمراری کی طرح کردیا ہے یعنی ’’سنتے تھے (لوگ) یا سنتا تھا (فرقہ)۔ البتہ جنہوں نے ’’کان‘‘ کا ترجمہ ’’ہے یا ہیں‘‘ سے کیا ہے انہوں نے فعل ’’یسمعون‘‘ کا ترجمہ بھی ’’سنتے ہیں‘‘ کیا ہے۔ اسی طرح ’’کلام اللّٰہ‘‘ کا ترجمہ ’’اللہ کا کلام‘‘ کے علاوہ ’’کلام خدا‘‘ بھی کیا گیا ہے جو فارسی ترکیب ہے۔

۱:۴۷:۲ (۴)     [ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ] ’’ثُمَّ‘‘ (’’پھر/ اس کے بعد‘‘)۔ کئی دفعہ گزر چکا ہے اور ’’یُحَرِّفُوْنَ‘‘ (جس کے آخر پر ضمیر منصوب ’’ہ‘‘ بمعنی ’’اس کو‘‘ لگی ہے) کا مادہ ’’ح رف‘‘اور وزن ’’یُفَعِّلُوْنَ‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’حرَف. . . . . یَحرِف حَرْفًا‘‘ (ضرب سے) کے معنی ہیں: ’’. . . . . سے ایک طرف مڑ جانا یا ہٹ جانا‘‘۔ اور ان معنی کے لیے اس کے ساتھ ’’عن‘‘ کا صلہ لگتا ہے۔ کہتے ہیں ’’حرَف عنہ‘‘ (وہ اس سے دوسری طرف ہٹ گیا) اور یہی فعل متعدی بھی استعمال ہوتا ہے (بمعنی ’’ایک طرف ہٹا دینا‘‘) مثلاً کہیں گے ’’حرف الشی ئَ عن وجھہ‘‘ (اس نے اس چیز کو اپنے سامنے سے ہٹا دیا)۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کوئی صیغۂ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ صرف مصدر ’’حَرْف‘‘ ایک ہی جگہ (الحج:۱۱) آیا ہے اور بطور اسم اس کے متعدد معنی ہیں جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ۔ اسی مادہ سے کئی لفظ مثلاً حریف، حرفت اور حَرْف وغیرہ اردو میں مستعمل ہیں۔

·       زیر مطالعہ ’’یُحَرِّفُوْنَ‘‘ اس مادہ سے بابِ تفعیل کا فعل مضارع صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’حرَّف . . . . . یُحَرِّف تَحریفًا‘‘ کے بنیادی معنی ہیں ’’. . . . .کو ایک طرف جھکا دینا۔‘‘ کہتے ہیں: ’’حَرَّف الشیئَ‘‘ (اس نے اسے موڑ دیا) اور یہی فعل ’’قلم کو کاٹتے وقت ترچھا قط دینا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے مثلاً  کہتے  ہیں ’’حرَّف القَلَم‘‘ (اس نے قلم کو ترچھا قط دیا)۔ پھر اسی سے اس فعل میں ’’کلام (بات) کے معنی بدل دینا۔۔۔۔، کو کچھ کا کچھ کردینا ۔۔۔۔‘ ۔۔۔۔ میں تحریف کرنا کے معنی  پیدا ہوئے ہیں (لفظ ’’تحریف‘‘ جو اس باب کا مصدر ہے اردو میں مستعمل ہے) کہتے ہیں ’’حرَّف الکلام‘‘ (اس نے بات بدل ڈالی) پھر کسی کلام میں تحریف کے دو معنی ہوسکتے ہیں (۱) اصل الفاظ میں گڑ بڑ کردینا یا (۲)عبارت کے معنی اپنی مرضی سے کچھ کے کچھ کردینا۔ یعنی تحریف لفظی اور تحریف معنوی۔

·       یہودیوں کے کلام الٰہی میں تحریف کرنے کا ذکر اسی فعل (تحریف) بلکہ اسی صیغۂ فعل (یحرفون) کے ساتھ قرآن کریم میں چار جگہ کیا گیا ہے۔ اس سے مراد تحریف لفظی بھی ہوسکتی ہے اور تحریف معنوی بھی۔ مزید بحث کسی تفسیر میں دیکھ لیجئے۔

·       اس طرح ’’ثُمَّ یحرِّفُونہ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: ’’پھر وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو‘‘ (اس میں ضمیر ’’ہ‘‘ بمعنی اس کو)کلام اللہ کے لیے ہے)۔ یہاں بھی بیشتر مترجمین نے سابقہ عبارت میں ’’کان‘‘ (فریق منھم) کی بناء پر فعل مضارع (یحرفون) کا ترجمہ ماضی استمراری کی طرح ’’بدل ڈالتے تھے/ کچھ کا کچھ کر ڈالتے/ کر دیتے تھے‘‘ اور ’’بدل دیتے رہے ہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ جبکہ بعض نے بزمانۂ حال ’’بدل دیتے ہیں‘‘ کیا ہے جو مضارع کے لحاظ سے درست ہے۔

۱:۴۷:۲ (۵)     [مِنْ  بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ] ’’مِنْ بَعد‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے ’’پیچھے سے‘‘۔ ’’بعد‘‘ (جو اردو میں مستعمل ہے) کی لغوی تشریح البقرہ:۵۱ [۱:۳۳:۲ (۷)] میں گزر چکی ہے۔

’’مَا‘‘ یہاں موصولہ بمعنی ’’جوکہ‘‘ ہے۔ اس طرح ’’من بعدِ مَا‘‘ کا لفظی ترجمہ بنے گا ’’بعد اس کے جو کہ‘‘ جس کی با محاورہ شکل ’’اس کے بعد کہ‘‘ یا ’’بعد ازانکہ‘‘ ہوسکتی ہے (اور یہی صورت ’’بَعدَ ما، بَعدَ أن اور  مِنْ بعدِ اَنْ‘‘ کی ہے یعنی بلحاظ معنی)۔ اور یہاں ’’ما‘‘ مصدریہ بھی ہوسکتا ہے۔ ’’ما مصدریہ‘‘ میں ’’ما‘‘ اور اس کے بعد والے فعل کو اس فعل کے مصدر میں بدل کر، جسے مصدر مُوَّول کہتے ہیں۔ مفہوم (مصدری) سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً یہاں اگلے فعل (عَقَلوا) کا مصدر بنا لینے سے ’’من بعد ما عقلوہ‘‘ کو ’’من بعدِ عَقْلِھِم اِیّاہ‘‘ (ان کے اس کو سمجھ لینے کے بعد) سمجھ کر ترجمہ کیا جاسکتا ہے یعنی ’’ما عقلوا‘‘ کا مصدر مؤوَّل مع ضمیر فاعلین ’’عَقْلھِم‘‘ ہوگا۔ جس میں ’’عقل‘‘ کو ضمیر فاعلین (ھم) کی طرف مضاف کردیا جاتا ہے۔ اس پر مزید بات ابھی آگے فعل کے بیان کے بعد ہوگی۔

’’عَقَلُوْہُ‘‘ میں سے ضمیر منصوب (ہ) نکال کر باقی فعل ’’عَقَلُوہ‘‘ (نوٹ کیجئے خالی صیغہ ماضی جمع مذکر کی واو الجمع کے بعد الف زائدہ ضرور لکھا جاتا ہے۔ مگر ’’عقلوا‘‘ میں ضمیر مفعول آجانے کی وجہ سے اس کی ضرورت نہیں رہتی) کا مادہ ’’ع ق ل‘‘ اور وزن ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس سے فعل مجرد (عقَل یعقِل=سمجھ لینا) کے باب معنی اور استعمال کی بات البقرہ:۴۴ [۱:۲۹:۲ (۸)] میں ہوچکی ہے۔

·       اس طرح ’’مِنْ بَعدِ مَا عَقَلُوہ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’پیچھے (بعد) اس کے جو کہ سمجھ لیا انہوں نے اس (جس) کو‘‘۔ بعض حضرات نے ترجمہ میں اس کی قدرے سلیس صورت ’’بعد اس کے کہ اسے سمجھ چکے‘‘ اختیار کی ہے۔ تاہم بیشتر مترجمین نے ’’مَا‘‘ کو مصدریہ سمجھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’اس کو سمجھنے کے بعد / سمجھ لینے کے بعد/ سمجھ جانے کے بعد‘‘ سے کیا ہے۔بعض نے اس کو ’’سمجھے پیچھے ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جس میں فعل ماضی والا مفہوم بھی موجود ہے۔ جب کہ بعض حضرات نے شاید مزید با محاورہ بناتے ہوئے ’’جان بوجھ کر‘‘  کیا ہے جو بظاہر ’’متعمدًا‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے یہاں ’’مَا مصدریہ‘‘ کے ساتھ ترجمہ کرنا عر بی ترکیب کے لحاظ سے بھی درست ہے اور اردو محاورے کے لحاظ سے بھی اچھا ہے۔

[وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ] کے ’’یعلمون‘‘ کا مادہ ’’ع ل م‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْن‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (علم یعلَم= جان لینا) کے باب و معنی وغیرہ البقرہ:۱۳ [۱:۱۰:۲ (۳)]میں گزر چکے ہیں۔

یہاں واو (’’و‘‘) حالیہ ہے ا س لیے اس عبارت (وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ) کا موزوں ترجمہ ’’حالانکہ وہ جانتے ہیں‘‘ بنتا ہے۔ اگرچہ بیشتر مترجمین نے ’’حالانکہ‘‘ کی بجائے ’’اور‘‘ سے ہی ترجمہ کیا ہے (نیز دیکھئے آگے ’’الاعراب‘‘ میں)۔ نیز بہت سے حضرات نے یہاں بھی ابتدائے آیت والے ’’کان‘‘ (فریق منھم) کے تعلق سے فعل ماضی استمراری کی طرح ترجمہ کیا ہے یعنی ’’وہ جانتے تھے‘‘۔ اور بعض نے مضارع کی وجہ سے فعل حال کے ساتھ ’’وہ خوب جانتے ہیں‘‘ اور ’’ان کو معلوم ہے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے اس حصہ عبارت کا ترجمہ بھی ’’دیدہ دانستہ‘‘ اور ’’جان بوجھ‘‘ کر کیا ہے۔ اس میں ’’حال‘‘ والا مفہوم بھی موجود ہے اور اردومحاورے کے لحاظ سے بھی درست ہے اگرچہ الفاظِ عبارت سے ذرا ہٹ کر ہے۔

 

۲:۴۷:۲     الاعراب

اعرابی ترکیب سمجھانے کے لیے ہم زیر مطالعہ آیت کو چار الگ الگ جملوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ تمام جملے واو حالیہ، ثم عاطفہ اور واو عاطفہ یا حالیہ کے ذریعے باہم ملا دیئے گئے ہیں۔ اور یوں بحیثیت مجموعی یہ ایک ہی طویل جملہ بنتا ہے جس کے اجزاء کی الگ الگ اعرابی تفصیل یوں ہے:

(۱)   اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ

[  اَفَتَطْمَعُوْنَ] کا ابتدائی ’’ أ ‘‘ استفہامیہ اور ’’فاء‘‘ (فَ) عاطفہ برائے ترتیب ہے یعنی ’’اس کے بعد بھی؟‘‘ اور ’’تطمعون‘‘ فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ ہے۔ [أَنْ] ناصبہ مصدریہ ہے اور اس سے پہلے فعل ’’تطمعون‘‘ کا صلہ ’’فی‘‘ مقدرہے یعنی ’’فی أن‘‘ (اس بات میں کہ)۔ [یؤمنوا]فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے اور یہ صیغہ مضارع ’’أن‘‘ کی وجہ سے منصوب ہے۔ علامتِ نصب آخری ’’ن‘‘ (یومنون کا) کا گر جانا ہے۔ اور ’’أن‘‘ کے مصدریہ (بلحاظ معنی) ہونے کی بنا پر یہاں تقدیر عبارت (مفہوم) ’’فی ایمانھم‘‘(ان کے مان لینے کی۔ امید رکھتے ہو) ہوسکتی ہے تاہم یہاں قریباً سب ہی مترجمین نے ’’أن‘‘ ناصبہ (بمعنی ’’کہ‘‘) اور فعل مضارع بمعنی مستقبل کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے۔ [لکم] جار مجرور (ل+کم) متعلق فعل ’’یُوْمِنُوا‘‘ ہیں۔ اور اگر ہم (ل) کو فعل ’’یُومنوا‘‘ کا صلہ سمجھ لیں تو پھر’’لکم‘‘ کو محلاً منصوب (مفعول) بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس حصۂ عبارت کے مختلف تراجم حصہ ’’اللغۃ ‘‘ میں بیان ہوچکے ہیں۔

(۲)   وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ

[وَ] حالیہ اور [قد] حرف تحقیق برائے تاکید ہے [کان] فعل ناقص صیغۂ ماضی برائے واحد مذکر غائب ہے۔ [فریق] کان کا اسم (لہٰذا مرفوع) ہے اور یہ نکرہ موصوفہ ہے جس میں ’’جوکہ‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ [منھم] جار مجرور (من + ھم) مل کر ’’فریق‘‘ کی صفت بھی بن سکتے ہیں یعنی ’’وہ جو کہ ان میں سے ہیں‘‘۔ اور یہ ’’منھم‘‘یہاں ’’کان‘‘ کی خبر محذوف (مثلاً ’’موجودین‘‘) کا قائم مقام بھی ہوسکتا ہے۔ [یسمعون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے اور [کلام اللّٰہ] مرکب اضافی (کلام مضاف اور اللہ مضاف الیہ) فعل ’’یسمعون‘‘ کا مفعول بہ ہے اس لیے منصوب ہے علامتِ نصب (کلام کی) ’’م‘‘ کی فتحہ (ــــَــــ) ہے (اللہِ تو مجرور بالاضافۃ ہے) یوں یہ پورا جملہ فعلیہ (يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ) ’’فریق‘‘ (نکرہ موصوفہ) کی صفت بنتا ہے ’’وَ‘‘ کے حالیہ ہونے کی بنا پر یہ پوری عبارت (  وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ) سابقہ حصۂ آیت (نمبر۱ مندرجہ بالا) کا ہی ایک حصہ بلحاظ معنی و مفہوم بن جاتا ہے۔

(۳)    ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ

[ثمَّ] عاطفہ برائے ترتیب (بمعنی پھر/ اس کے بعد) ہے [یحرِّفونہ] میں ’’یحرفون‘‘ تو فعل مضارع معروف ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے اور آخری ضمیر منصوب (ہ) اس فعل (یحرّفونَ) کا مفعول بہ ہے [من بعدِ مَا] میں ’’مِن‘‘ حرف الجر اور ’’بعد‘‘ ظرف مجرور بالجر ہے ’’مَا‘‘ مصدریہ یا موصولہ ظرف (بعد) کا مضاف الیہ لہٰذا مجرور (بالاضافہ) ہے مگر مبنی ہونے کے باعث اس میں کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہے۔ [عقلوہ]میں ’’عقلوہ‘‘ تو فعل ماضی مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے اور ضمیرمنصوب (ہ) اس کا (عقلوا کا) مفعول بہ ہے۔ اور یہ پورا جملہ فعلیہ (عقلوہ) ’’مَا‘‘ موصولہ کا صلہ بھی ہوسکتا ہے اور ’’مَا‘‘ مصدریہ سمجھیں تو ’’ما عقلوہ‘‘ مصدر مؤوّل ہو کر ظرف (من بعد) کا مضاف الیہ بن سکتا ہے یعنی ’’من بعد عقلھم ایّاہ‘‘ کی مقدر صورت میں (اس مقدر عبارت میں ضمیر ’’ھم‘‘ تو فعل ’’عقلوا‘‘ کی ضمیر فاعلین مضاف الیہ ہوکر آتی ہے اور ’’ایاہ‘‘ ضمیر منصوب منفصل ’’عقلوہ‘‘ کی ضمیر منصوب ’’ہ‘‘ کے لیے لانا پڑی ہے)۔ پھر یہ پورا جملہ (ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ) حرف عطف ’’ثم‘‘ کے ذریعے اپنے سے سابقہ جملے (نمبر۲ مندرجہ بالا) کا ہی حصہ بنتا ہے۔ اردو کے بیشتر مترجمین نے یہاں ’’ما‘‘ کو مصدریہ سمجھ کر ہی ترجمہ کیا ہے جیسا کہ حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بیان ہوا ہے۔

(۴) وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ 

کی ابتدائی [وَ] حالیہ ہے اور [ھم] ضمیر مرفوع منفصل مبتدأ ہے اور [یعلمون] فعل مضارع مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ (فعل فاعل مل کر) جملہ فعلیہ ہے جو ’’ھم‘‘ کی خبر ہے۔ یہ جملہ (وھم یعلمون) بھی واو حالیہ کے ذریعے جملہ حالیہ ہوکر اپنے سے سابقہ جملے (نمبر۳  مندرجہ بالا) کا ہی ایک حصہ بنتا ہے۔ بلکہ یہ جملہ حالیہ (وھم یعلمون) در اصل فعل ’’یحرّفون‘‘ کی ضمیر فاعلین کا ہی حال بنتا ہے (یعنی وہ بدل ڈالتے ہیں جانتے ہوئے) اور چاہیں تو اس جملہ حالیہ (وھم یعلمون) کو ’’عقلوہ‘‘ کا حال برائے تاکید سمجھ لیں۔ (یعنی اس کو سمجھ لینے اور جان لینے کے بعد بھی)۔

 

۳:۴۷:۲     الرسم

بلحاظ رسم اس آیت میں صرف ایک کلمہ ’’کلام‘‘ توجہ طلب ہے۔ یہ لفظ الدانی کے اس اصول پر کہ ’’فَعال‘‘ کے وزن پر آنے والے تمام کلمات قرآن کریم میں ’’باثبات الالف بعد اللام‘‘ لکھے جاتے ہیں۔  نیز صاحب نثر المرجان نے اسے باثبات الف لکھنے پر اتفاق بیان کیا ہے۔ اس لیے یہ لفظ مشرقی ممالک برصغیر، ترکی، ایران کے علاوہ لیبیا کے مصاحف میں رسم املائی کی طرح باثبات الف بصورت ’’کلام‘‘ لکھا جاتا ہے۔[1]  البتہ ابوداؤد کی طرف منسوب قول کی بناء پر عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے بحذف الالف بعد اللام لکھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’کلم‘‘[2]یہ عجیب بات ہے کہ انجمن حمایت اسلام کے مصحف میں بھی یہ لفظ عرب ممالک کی طرح حذف الف کے ساتھ یعنی ’’کلم‘‘ ہی لکھا گیا ہے۔

 ۴:۴۷:۲     الضبط

زیر نظر آیت کے کلمات کے ضبط میں عرب، افریقی اور ایشیائی ملکوں کے مصاحف کے عام معمول بہ اختلاف ہیں جن کو درج ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔

 



  [1] دیکھئے نثرالمرجان ۱:۱۶۹

[2] دیکھئے سمیرالطالبین ص ۵۸