سورۃ البقرہ آیت ۷۶ اور ۷۷

۴۸:۲        وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا       ښ    وَاِذَا خَلَا بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْٓا اَتُحَدِّثُوْنَھُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاۗجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْ   ۭ   اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ  )۷۶ )  اَوَلَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ(۷۷)

۱:۴۸:۲        اللغۃ

]وَاِذَ لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوا اٰمَنَّا] یہ عبارت البقرہ:۱۴کے ابتدائی حصے کی تکرار ہے۔ اس پر مکمل بحث کے لیے دیکھئے [۱:۱۱:۲]

[وَاِذَا خَلَا بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ] ’’وَاِذَا‘‘ (جب، جس وقت) کئی دفعہ گزر چکا ہے۔ (پہلی دفعہ البقرہ:۱۱ [۱:۱۹:۲(۱)] میں آیا تھا۔

]خَلَا] کا مادہ ’’خ ل و‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ ہے اور یہ فعل مجرد ’’خلا یخلُو خلُوًّا‘‘ (خالی ہونا) سے فعل ماضی کا پہلا صیغہ ہے اس فعل مجرد اور اس کے ساتھ ’’إلی‘‘ کے بطور صلہ آنے کی صورت میں (جیسے کہ یہاں ہے ) اس کے معنی و استعمال پر البقرہ:۱۴ [۱:۱۱:۲ (۲)] میں وضاحت ہوچکی ہے۔

’’بَعْضُھُم‘‘  ’’بعض‘‘ کی لغوی بحث [۱:۱۹:۲ (۳)] میں ہوچکی ہے۔ تاہم یہ لفظ اردو میں بھی اتنا متعارف اور مستعمل ہے کہ اس کا ترجمہ تک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اردو میں اس مرکب اضافی (بعضھم)کا محض لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’ان کا بعض یا ان کے بعض‘‘ جس کی بامحاورہ صورت ’’ان میں سے بعض/ کوئی/ کچھ‘‘ بنتی ہے۔

’’الی بعض‘‘کا ابتدائی ’’إلی‘‘ (کی طرف) تو یہاں فعل ’’خَلَا‘‘ کے صلہ کے طور پر آیا ہے اور ’’خلا إلٰی‘‘ کے معنی (اکیلا ہونا، تنہائی میں ملنا وغیرہ ) البقرہ:۱۴ [۱:۱۱:۲ (۲)]میں دیکھ لیجئے۔ یوں ’’بعضھم الی بعض‘‘ کا ترجمہ لفظی بنتا ہے ’’ان کے بعض کسی بعض کی طرف‘‘ جس کی سلیس اور بامحاورہ صورت ’’ایک دوسرے کے پاس، آپس میں اور اپنے لوگوں میں‘‘ اختیار کی گئی ہے۔

۱:۴۸:۲ (۱)     [قَالُوْا اَتُحَدِّثُوْنَھُمْ] ’’قالوا‘‘ کا ترجمہ یہاں ابتدائی ’’اذا‘‘ کی وجہ سے ماضی کی بجائے فعل حال سے ہوگا یعنی ’’وہ کہتے ہیں‘‘۔ اس صیغہ فعل (قالوا) کے مادہ باب تعلیل وغیرہ پر پہلی دفعہ البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲ (۴)]میں بات ہوچکی ہے۔

]اَتُحَدِّثُوْنَھُمْ] کا ابتدائی ہمزہ (أ) استفہامیہ (بمعنی ’’کیا‘‘) ہے اور آخری ضمیر منصوب (ھم) یہاں بمعنی ’’ان کو/ ان سے‘‘ ہے باقی صیغۂ فعل ’’تُحَدِّثُوْنَ‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ح د ث‘‘ اور وزن ’’تُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’حَدَث یحدُث حُدُوْثًا‘‘ (نصر سے) ’’واقع ہونا اور نیا ہونا (بمقابلہ پرانا ہونا)‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تاہم اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں کوئی صیغۂ فعل کہیں نہیں آیا۔ البتہ اس کے بعض مشتقات میں سے کلمہ ’’حدیث‘‘ (بصورت واحد جمع معرفہ نکرہ مفرد (مرکب) بکثرت (۲۶ جگہ) قرآن میں آیا ہے۔ اور مزید فیہ کے ابواب تفعیل اور اِفعال سے مشتق کچھ افعال اور اسماء بھی آٹھ جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (تحدِّثُون) اس مادہ سے باب تفعیل کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس باب سے فعل ’’حدَّث . . . . . . یُحدِّث یحدیثًا‘‘ کے معنی ہیں: ’’. . . . . .کو خبر دینا، . . . . . .سے بات کرنا‘‘۔ اس فعل کے دو مفعول آتے ہیں (۱) جس کو خبر دی جائے یا جس سے بات کی جائے اور(۲) جو خبر دی جائے یا جس چیز کی بات کی جائے۔ مفعول اوّل تو ہمیشہ بنفسہ (منصوب) آتا ہے۔ مگر دوسرا مفعول بنفسہٖ بھی آسکتا ہے۔ اور ’’باء‘‘ (ب) کے صلہ کے ساتھ بھی۔ مثلاً عربی میں کہیں گے۔ ’’حدَّثہ الحدیثَ وبالحدیثِ‘‘ (اس نے اس کو بات بتائی یا اسے اس بات کی خبر دی)۔ کبھی اس کا پہلا مفعول (صلہ کے ساتھ یا صلہ کے بغیر) مذکور ہوتا ہے۔ جیسے ’’ وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ‘‘ (الضحیٰ:۱۱)  اور ’’ يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا  ‘‘ (الزلزال:۴) میں ہے۔ اس فعل (حَدَّث) کے ساتھ اگر ’’عَن‘‘ کا صلہ آئے مثلاً ’’حَدَّثَ عن. . . . . .‘‘ تو اس کے معنی ہوتے ہیں: ’’. . . . . . سے حدیث رسولؐ روایت کرنا‘‘ تاہم قرآن کریم میں یہ فعل ان معنوں کے لیے اور اس صلہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوا۔

·       اس طرح ’’اتحدِّثونھم‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: ’’کیا تم ان سے بات کرتے/ یا ان کو خبر دیتے ہو‘‘۔ اسی کو بامحاورہ بناتے ہوئے مختلف مترجمین نے ’’کیا تم ان سے کہہ دیتے ہو/ خبر کردیتے/ بیان کیے دیتے/ بتلا دیتے/ کہے دیتے ہو‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ البتہ بعض نے ضمیر ’’ھم‘‘ کا ترجمہ (ان کو، انہیں) کی بجائے اسم ظاہر ’’مسلمانوں کو‘‘ سے کردیا ہے جسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح بعض نے ہمزۂ استفہام (أ) کا ترجمہ ’’کیا‘‘ کی بجائے ’’کیوں‘‘ سے کیا ہے جو سیاقِ عبارت کے لحاظ سے درست مفہوم ہے تاہم وہ ’’ أ ‘‘ سے زیادہ ’’لِمَ‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔

۱:۴۸:۲ (۲)     [بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ] ابتدائی ’’باء‘‘ (ب) یہاںوہی صلہ ہے جو فعل ’’حدّث‘‘ کے دوسرے مفعول بہ پر آتا ہے (جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے)۔ اور ’’مَا‘‘ یہاں موصولہ ہے۔ اس طرح ’’بمَا‘‘ کا ترجمہ ہوگا: ’’اس چیز کے بارے میں جو کہ ‘‘ اسے ہی بعض نے ’’وہ علم جو/ وہ باتیں جو/ جو بات‘‘ کی صورت میں (جس میں ’’علم‘‘ باتیں یا ’’بات‘‘ تفسیری اضافہ ہے) اور بعض نے صرف ’’جو/جو کچھ‘‘ اور ’’وہ جو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے (جو لفظ سے زیادہ قریب ہے)۔ [فَتَحَ] کا مادہ اور وزن تو ظاہر ہے (یعنی ’’ف ت ح‘‘ سے ’’فَعَلَ‘‘) اس سے فعل مجرد ’’فتَح. . . . . . یفتَح فتحًا‘‘ آتا ہے (اور اسی فعل پر باب کا نام رکھا گیا ہے) اس فعل کے بنیادی معنی تو ہیں: ’’(کسی بند چیز) کو کھول دینا، یا (کسی رکاوٹ) کو دور کردینا‘‘۔ اس کے لیے ہی اس فعل کا مختصر ترجمہ ’’کھول دینا‘‘ کیا جاتا ہے پھر یہ ’’کھولنا‘‘ حسی بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے ’’ فَتَحُوْا مَتَاعَهُمْ ‘‘ (یوسف:۶۵) میں ہے (یعنی انہوں نے اپنا سامان کھولا) اور معنوی (کھولنا) بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے ’’ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ ‘‘ (الاعراف:۹۶) میں ہے (یعنی ہم نے ان پر برکتیں کھول دیں)

·       یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول ہمیشہ بنفسہٖ آتا ہے اور مفعول کے لحاظ سے اس کا اردو ترجمہ بھی مختلف ہوسکتا ہے مثلاً فتَح البابَ (اس نے دروازہ کھولا) فتح النَھر (اس نے نہر بنائی اور جاری کی) ’’فتَح البَلدَ‘‘ (اس نے شہر فتح کرلیا)۔ اور کبھی اس کے مفہوم میں ایک طرح سے دو مفعول ہوتے ہیں ایک تو جو چیز کھولی جائے۔ دوسرا جس پر یا جس کے لیے کھولی جائے۔ پہلا مفعول تو ہمیشہ بنفسہٖ ہی ہوتا ہے اور دوسرے کے ساتھ مختلف معانی کے لیے مختلف صلہ (حرف الجر) لگتا ہے۔ اور اس میں بعض دفعہ اصل مفعول محذوف ہو جاتا ہے مثلاً ’’فتح علیہ‘‘ ( اس نے اسے راہ دکھائی اور’’فتح لہ‘‘ اس نے اسے عطا کیااور ’’فتح بینھم‘‘ (اس نے ان کے درمیان فیصلہ کردیا یعنی جھگڑے والی رکاوٹ دور کردی) یہاں بھی فعل کے بعد ’’علیکم‘‘  آیا ہے یعنی تم پر کھولایا  تم کو (جس چیز کی) راہ دکھائی۔

·       اسی لیے یہاں ’’فتح علی. . . . . .‘‘ کا ترجمہ (مصدری) ’’. . . . . . پر ظاہر کرنا، . . . . . . کو بتلانا، . . . . . . پر منکشف کرنا‘‘ سے کیا گیا ہے (سب میں ’’کھولنا‘‘ کا بنیادی مفہوم موجود ہے) اور یوں ’’فتح اللّٰہ علیکم‘‘  کا ترجمہ ’’خدا نے تم پر ظاہر کیا. . . . . .، اللہ نے تم پر کھولا، خدا نے تم پر منکشف کیا ہے‘‘ سے کیا گیا ہے۔ ’’بما‘‘ کے ترجمہ پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے اس طرح آپ اس پوری عبارت کے تراجم سمجھ سکتے ہیں۔

·       بعض حضرات نے اردو میں ترجمہ کرتے وقت (شاید اردو محاورے کی خاطر) اوپر کی دو عبارتوں  ’’اتحدثونھم‘‘ [۱:۴۸:۲ (۱)] اور ’’بما فتح اللّٰہ علیکم‘‘ [۱:۴۸:۲ (۲)] کو آگے پیچھے کرکے ترجمہ کیا ہے یعنی ’’جو کچھ خدا نے تم پر ظاہر کیا ہے کیا تم ان (مسلمانوں) کو اس کی خبر کیے دیتے ہو‘‘۔/  ’’وہ علم جو خدا نے تم پر کھولا کیا ان (مسلمانوں) سے بیان کیے دیتے ہو‘‘۔ ان دونوں ترجموں میں پہلے ’’بما فتح اللّٰہ علیکم‘‘ اور بعد میں ’’اتحدثونھم‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے بلکہ ایک طرح سے عربی عبارت یوں (فرض) کرلی گئی ہے۔ ’’مافتح اللّٰہ علیکم اتحدثونھم بہ‘‘۔ اور یہ اردو میں صلہ موصول کی ترتیب کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ حالانکہ استفہامیہ جملہ پہلے لانے میں ایک خاص زور اور تعجب کا مفہوم ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بیشتر مترجمین نے اصل عربی عبارتوں کو ترتیب کے مطابق ہی ترجمہ کیا ہے۔ مثلاً ’’ارے کیا تم انہیں وہ بتا دیتے ہو جو خدا نے تم پر منکشف کیا ہے ‘‘۔

۱:۴۸:۲ (۳)     [ لِیُحَآجُّوْکُمْ بِہٖ عِنْدَ رَبِّکُمْ] اس عبارت میں مختلف اسم، فعل اور حرف ہیں۔ پہلے ہر ایک پر الگ الگ بات کرتے ہیں۔

(۱) لام [’’ل‘‘] یہاں لامِ صیرورت ہے جو ناصب مضارع ہوتا ہے اور اس کا ترجمہ ’’تاکہ‘‘ اور ’’اس کے نتیجے میں‘‘ سے ہوسکتا ہے اور اسی کو بامحاورہ کرتے ہوئے ’’تو، تو نتیجہ یہ ہوگا، کل کلاں کو اور جس سے یہ ہوگا کہ‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۲) ’’لِیُحَاجُّوْکُمْ‘‘ ابتدائی لام کے معنی اوپر بیان ہوئے ہیں یہاں دوبارہ اس لیے لکھنا پڑا ہے کہ اس کے بغیر مضارع منصوب لکھنا درست نہیں بنتا۔ آخر پر جو ضمیر منصوب ’’کُمْ‘‘ ہے اس کا ترجمہ تو ’’تم کو‘‘ ہے مگر یہاں فعل کی مناسبت سے (جیسا کہ ابھی آئے گا) اس کا بامحاورہ ترجمہ ’’تم پر‘‘ ہی ہوسکتا ہے۔ ابتدائی ’’لام‘‘ اور آخری ’’کم‘‘ نکال کر باقی صیغۂ فعل ’’یُحَآجّوْا‘‘ بچتا ہے( ضمیر مفعول سے الگ ہوکر واو الجمع کے بعد الف زائدہ لکھا گیا ہے)۔ اس فعل کا مادہ ’’ح ج ج‘‘ اور وزن اصلی ’’یُفاعِلُوا‘‘ ہے۔ جو دراصل ’’یُحَاجِجُوْا‘‘ تھا پھر پہلے ’’ج‘‘ کو ساکن کرکے دوسرے میں مدغم کردیا گیا اور پہلے ’’ج‘‘ کے سکون کی بنا پر ہی یہاں ’’حا‘‘ میں مدّ پیدا ہوئی ہے (عربوں کے طریق تلفظ یا قرآن کریم کے قاعدہ تجوید کے مطابق مدّ وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں ’’ ــــــَــــ ا‘‘ یا ’’ ـــــُـــــ وْ‘‘ یا ’’ ـــــِــــ یْ‘‘ کے بعد یا تو ہمزہ (ء) آئے یا کوئی حرف ساکن مدغم ہوکر آرہا ہو۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’حجّ . . . . . . یححُجّ حَجًّا‘‘ (نصر سے) بنیاد معنی ہیں ’’. . . . . . کا قصد کرنا ، . . . . . .کا ارادہ کرنا‘‘ یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ آتا ہے۔ کہتے ہیں ’’حجّہ‘‘ (اس نے اس کا قصد کیا) اور اگر اس کا مفعول ’’البیتَ‘‘ (خانہ کعبہ) ہو تو اس کے معنی ’’حج کرنا‘‘ ہوتے ہیں مگر اس صورت میں اس کا مصدر ’’حِجًّا‘‘ آتا ہے۔ حج کو ’’حج‘‘ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں آدمی خاص دنوں میں خاص شرعی اعمال بجا لانے کے لیے خانہ کعبہ کا قصد کرتا ہے۔ اور اسی فعل کے ایک معنی ’’دلیل سے غالب آنا‘‘ بھی ہیں مگر یہ استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔ اسی طرح اس فعل کے بعض غیر قرآنی استعمال (بار بار آنا جانا۔ زخم کھولنا وغیرہ) بھی ہیں جو ڈکشنری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے صرف ایک صیغہ ماضی ’’ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ ‘‘(البقرہ:۱۵۸) میں آیا ہے۔ جو حج کرنا ہی کے معنی میں ہے۔

·       اس فعل مجرد سے ماخوذ اور مشتق بعض کلمات بھی قرآن کریم میں آئے ہیں مثلاً ’’الحجّ‘‘ (حج) ۹ دفعہ آیا ہے۔ حجَّۃٌ (دلیل) چھ دفعہ ’’الحجاجّ‘‘ (حاجیوں) اور ’’حِجَجٌ (حِجَّۃٌ بمعنی سال کی جمع)‘‘ ایک ایک دفعہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے باب مفاعلہ سے مختلف صیغے بارہ جگہ اور باب تفاعل سے بھی ایک صیغہ ایک جگہ آیا ہے اوران سب پر اپنے اپنے موقع پر بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ صیغۂ فعل ’’یُحَاجُّوْا‘‘ (جو یہاں ’’لیحاجوکم‘‘ میں ہے) اس مادہ سے باب مفاعلہ کا فعل مضارع منصوب صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’حاجَّ . . . . . . یُحَاجُّ (حَاجَجَ یُحا جِجُ) مُحَآجّۃً وحِجاجًا‘‘کے معنی ہیں ’’. . . . . .سے بحث کرنا، جھگڑا کرنا‘‘ دلیل سے زیر کرنے کی کوشش کرنا‘‘۔ اور اسی سے اس میں ’’. . . . . .کو جھٹلا دینا، حجت میں مغلوب کرنا،. . . . . . کے خلاف سند لانا، . . . . . . پر الزام ثابت کردینا،. . . . . . کو قائل کردینا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔

(۳) ’’بہ‘‘ کا ترجمہ تو ہے ’’اس کے ساتھ‘‘ اور پھر مندرجہ بالا فعل کے ساتھ اور سیاقِ عبارت کی بناء پر اس کا ترجمہ ’’اسی سے، اس بات کی سند پکڑ کر، اسی کے حوالے سے‘‘ اور ’’جس سے کہ‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ محاورے کے لحاظ سے سب کا مفہوم ایک ہے البتہ بعض اصل لفظ سے بہت ہٹ کر ہیں۔

(۴) ’’عند ربکم‘‘ جو ’’عند‘‘ (کے پاس) [دیکھئے ۱:۳۴:۲ (۶)] + ربّ+کُم (تمہارا) کا مرکب ظرفی ہے۔ اس کا سادہ ترجمہ تو ہے ـــــــــ’’ تمہارے رب کے پاس‘‘ ’’تمہارے رب کے نزدیک، تمہارے پروردگار کے آگے/سامنے/کے حضور میں، مالک کے پاس، تمہارے رب کے یہاں اور پروردگار کے روبرو‘‘کی صورت میں متنوع ترجمہ کیا ہے مفہوم سب کا ایک ہی ہے (لفظ ’’رب‘‘ کی وضاحت سورۃ الفاتحہ میں کی جاچکی ہے)

اس طرح اس پوری عبارت ’’لیحاجّوکم بہ عند ربکم‘‘ کالفظی ترجمہ بنتا ہے ’’کہ وہ جھگڑا کریں تم سے اس کے ساتھ تمہارے رب کے پاس‘‘۔ اس کا بامحاورہ ترجمہ عموماً لفظوں سے ہٹ کر (وضاحت کے لیے) کیا گیا ہے۔ اور ’’ل‘‘ ’’یحاجوا‘‘ ’’بہ‘‘ ’’عندربکم‘‘ کے الگ الگ لفظی اور بامحاورہ ترجمے لکھ دیے گئے ہیں ہم یہاں بطور نمونہ اس پوری عبارت کے چند وضاحتی تراجم لکھ دیتے ہیں مثلاً ’’کہ جھٹلا دیں تم کو اس سے تمہارے رب کے آگے‘‘،  ’’تو نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ تم کو حجت میں مغلوب کرلیں گے کہ یہ مضمون اللہ کے پاس ہے‘‘، ’’کہ اسی کے حوالے سے تمہارے پروردگار کے سامنے تم پر الزام دیں‘‘ اور ’’جس سے وہ تمہیں تمہارے پروردگار کے حضور میں قائل کردیں گے‘‘ وغیرہ سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔

]اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ] یہ پورا جملہ البقرہ:۴۴ [۱:۲۹:۲ (۸)] میں گزر چکا ہے۔ یہاں لفظی ترجمہ ’’سو کیا تم نہیں سمجھتے‘‘ کے علاوہ ’’کیا تم کو عقل نہیں؟‘‘کے علاوہ بعض نے وضاحتی ترجمہ ’’کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے‘‘ سے کیا ہے۔ ظاہر ہے اس میں ’’اتنی بات بھی‘‘ کا اضافہ اردو محاورے کی خاطر کرنا پڑا ہے۔ ویسے ’’اَفَ‘‘ کے ’’تو کیا‘‘ میں بھی یہ مفہوم موجود ہے۔

]اَوَلَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ] اس عبار ت میں دو دفعہ تو فعل ’’علِمَ یَعْلم‘‘ (جاننا، جان لینا) کے مضارع کے صیغے (یَعْلمون اور یَعْلَمُ) آئے ہیں جن کے مادہ (ع ل م) اور باب و معنی وغیرہ پر الفاتحہ :۲ [۱:۲:۱ (۴)] میں البقرہ:۱۳ [۱:۱۰:۲ (۳)] میں بات ہوچکی ہے۔ اسی طرح ’’أَنَّ‘‘ (حرف مشبہ بالفعل بمعنی ’’بے شک‘‘) پر البقرہ:۶ [۱:۵:۲] میں اور اسم جلالت (اللہ) کی لغوی بحث ’’بسم اللّٰہ‘‘ میں ہوچکی ہے ابتدائی ’’ أوَ ‘‘ میں ہمزۂ استفہام ( أ ) کے ساتھ ’’وَ‘‘ اس میں تاکید کے معنی پیدا کرنے کے لیے ہے (’’أفَ‘‘ کی طرح)۔ اس کا ترجمہ یا تو صرف ’’کیا؟‘‘ سے ہی ہوسکتا ہے یا ’’تو کیا‘‘ یا الٹ کر ترجمہ ’’اور کیا‘‘ بھی کرسکتے ہیں۔

·       یوں اس عبارت کا لفظی ترجمہ ہے: ’’کیا نہیں جانتے وہ کہ بے شک اللہ تعالیٰ جانتا ہے‘‘۔اسی کی بامحاورہ صورتیں ہیں: ’’کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ اللہ کو تو معلوم ہے‘‘۔ ’’کیا ان کو اس کا علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے‘‘۔ اور بعض نے ’’لا یعلمون‘‘ کی ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ کا ترجمہ ’’یہ لوگ‘‘ اور ’’ان لوگوں‘‘ کی صورت میں کرلیا ہے یعنی ’’کیا ان لوگوں کو یہ بات بھی معلوم نہیں کہ خدا کو سب معلوم ہے‘‘، ’’کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اللہ کو خبر ہے‘‘۔ ان تمام تراجم میں ’’أَنَّ‘‘ کا ترجمہ ’’بے شک/ یقیناً‘‘ حذف کرکے اس کے مفہوم کو ’’یہ بات بھی‘‘ اور ’’اتنا بھی‘‘ وغیرہ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ بعض نے اس عبارت کے آخری حصہ ’’انّ اللّٰہ یَعْلَم‘‘ کا ترجمہ اگلی عبارت (ما یُسِرُّون وما یُعلِنُون) کے بعد کیا ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوگا۔

۱:۴۸:۲ (۵)     [مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ] کا ابتدائی ’’مَا‘‘ موصولہ بمعنی ’’جو کچھ کہ‘‘ ہے اور اسے مصدریہ بھی سمجھا جاسکتا ہے جیسا کہ ابھی بعض تراجم کے ضمن میں آئے گا۔ اور ’’مَا‘‘ یہاں بتکرار آیا ہے یعنی دو دفعہ۔ [یُسِرُّوْنَ] کا مادہ ’’س ر ر‘‘ اور وزن اصلی ’’یُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے۔ جو دراصل تو ’’یُسْرِرُوْن‘‘ تھا پھر ’’ر‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ)  ماقبل ساکن (س) کو دے کر دونوں ’’ر‘‘ مدغم کردیئے گئے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’سَرَّ. . . . . . یَسُرُّ‘‘(. . . . . .کو خوش کرنا) کے باب معنی اور معروف و مجہول استعمال (سُرَّ یُسَرُّ= خوش ہونا) کی وضاحت البقرہ:۶۹ [۱:۴۴:۲ (۴)] میں ہوچکی ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کا ایک ہی صیغہ صرف ایک بار آیا ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ (یُسِرُّوْنَ) اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل مضارع صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَسَرَّ . . . . . . یُسِرُّ اِسْرَارًا‘‘ کے معنی ہیں: ’’چھپانا، چھپا لینا‘‘ اور بعض نے ’’مخفی رکھنا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو شاید عام آدمی کے لیے قابل فہم نہیں ہے۔ ’’یُسرُّوْن‘‘ کا ترجمہ ہے۔ ’’وہ چھپاتے ہیں‘‘۔ قرآن کریم میں اس مزید فیہ فعل کے مختلف صیغے ۱۸ جگہ آئے ہیں۔ یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ آتا ہے۔ البتہ بعض دفعہ مفعول کے بعد ’’الی‘‘ استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’اَسَرَّ حدیثًا الی فلانٍ‘‘ اس کے مصدری معنی ہیں: ’’بات ایک سے چھپانا دوسرے پر ظاہر کرنا‘‘ یعنی ’’خفیہ بات کرنا یا اطلاع دینا‘‘۔ اور یہ استعمال بھی قرآن کریم میں کم از کم دو جگہ (الممتحنہ:۱، التحریم:۳) آیا ہے۔ اس باب کا مصدر ’’اِسْرارٌ‘‘ بھی دو جگہ آیا ہے۔ اور اس مادہ سے ماخوذ اور مشتق بعض دیگر کلمات (مثلاً سِرٌّ، سَرَّاء، سُرور، مَسْرور اور سُررُ) کئی جگہ آئے ہیں۔

]یُعْلِنُوْنَ] کا مادہ ’’ع ل ن‘‘ اور وزن ’’یُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’علَن یَعلِن عُلُونًا‘‘ (ضرب سے) اور علِن یَعلَن عَلَنًا وعلانیۃً (سمع سے) کے معنی ہیں: ’’ظاہر ہوجانا، سب کو معلوم ہوجانا‘‘ کہتے ہیں ’’عَلِنَ الامرُ‘‘ (معاملہ ظاہر ہوگیا، لازم ہونے کی وجہ سے اس فعل سے اسم فاعل نہیں آتا بلکہ صفت ’’عَلِنٌ‘‘ اور ’’عَلِیْنٌ‘‘ آتی ہے۔ اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں کوئی صیغۂ فعل استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس کا مصدر ’’علانیۃ‘‘ چار جگہ آیا ہے (اور یہ لفظ اردو میں بھی مستعمل ہے)۔

·       ’’یُعْلِنُون‘‘ اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل مضارع صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَعْلَن . . . . . . یُعْلِنُ اِعْلَانًا‘‘ کے معنی ہیں: ’’. . . . . .کو ظاہر کردینا، کھول دینا، . . . . . .کا اظہار کردینا۔‘‘ یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ بھی آتا ہے اور ’’باء‘‘ (ب) کے صلہ کے ساتھ بھی کہتے ہیں ’’اَعْلَنہ وبِہ‘‘ (اس نے اس کو ظاہر کردیا) اور خود لفظ ’’اِعلان‘‘ اردو میں مستعمل ہے اس لیے اس کا ترجمہ ’’اعلان کرنا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ اس باب سے فعل کے مختلف صیغے قرآن کریم میں بارہ جگہ آئے ہیں۔

·       اس طرح اس پوری عبارت ’’ما یُسِرُّونَ ومَا یُعْلِنُوْنَ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’جو کچھ کہ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ کہ وہ ظاہر کرتے ہیں‘‘ اور بعض نے ’’یُعلِنُون‘‘ کے لیے ’’وہ اظہار کرتے ہیں، جتلاتے ہیں یا کھولتے ہیں‘‘ ترجمہ کیا ہے اسی طرح ’’مَا‘‘ موصولہ کا ترجمہ بعض نے ’’جسے‘‘ اور بعض نے ’’ان چیزوں کو جو کہ‘‘، ’’ان باتوں کو جو کہ‘‘ سے کیاہے۔ چاہے محاورے کے لیے سہی مگر ’’چیزوں اور باتوں‘‘ اصل عبارت پر اضافہ ہے۔ بعض نے ’’مَا‘‘ موصولہ کی بجائے ’’مَا‘‘ مصدریہ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’ان کی ’’چھپی اور کھلی‘‘ دونوں باتیں‘‘۔ جو دراصل مصدر بمعنی حال (اسم مفعول کے ساتھ) ہے یعنی ’’چھپائی ہوئی اور کھلی کی ہوئی‘‘ (باتیں) ۔ (مصدر اور فاعل مفعول دونوں کے معنی دیتا ہے) اسی طرح بعض حضرات نے سابقہ عبارت کے آخری جملہ ’’ان اللّٰہ یعلم‘‘ کا ترجمہ اس زیر مطالعہ عبارت کے ترجمہ کے بعد کیا ہے یعنی ’’جو کچھ چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اللہ سب جانتا ہے‘‘ اور ’’اللہ ان کی چھپی اور کھلی دونوں باتیں جانتا ہے‘‘ کی صورت میں۔ اور بعض نے ’’مَا‘‘ کی تکرار کے لیے ترجمہ میں ’’بھی‘‘ کا اضافہ کیا ہے یعنی ’’اللہ کو اس کی بھی خبر ہے جسے وہ چھپاتے ہیں اور اس کی بھی جسے یہ جتلاتے ہیں‘‘۔ اور یہ ’’جسے‘‘ دراصل اس ضمیر عائد کا ترجمہ ہے جو یہاں محذوف ہے یعنی ’’مایسرونہ‘‘ اور ’’مایعلنونہ یا بہ‘‘ کی شکل میں۔

 

۲:۴۸:۲     الاعراب

اعراب اور ترکیب نحوی بیان کرنے کے لیے زیر مطالعہ دو آیات کو چار جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

(۱)      وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا      

]وَ] عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اورمستانفہ بھی یعنی یہ ’’یہودیوں‘‘ کے رویہ کے ذکر سے متعلق بھی ہے اور ایک نئے رویہ کا ذکر بھی یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ [اذا] شرطیہ ظرفیہ ہے یعنی اس میں شرط (جب بھی، جب کبھی بھی) اور ظرف یعنی وقت اور جگہ (جس وقت بھی اور جس جگہ بھی) کا مفہوم موجود ہے۔ [لقوا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے جو یہاں ’’یہود‘‘ کے لیے ہے جن کا ذکر اوپر سے چل رہا ہے۔ یہاں فعل ماضی کا ترجمہ ’’اذا‘‘  شرطیہ کی وجہ سے حال میں ہوگا یعنی ’’جب وہ ملتے ہیں‘‘۔ [الذین] اسم موصول (جمع مذکر) یہاں فعل ’’لقوا‘‘ کا مفعول بہ ہوکر منصوب ہے جس میں بوجہ مبنی ہونے کے کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ [آمنوا] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ ہے اور یہ جملہ فعلیہ ہوکر ’’الذین‘‘ کا صلہ ہے۔ اور یہ صلہ موصول (الذین آمنوا) ’’واذا لقوا‘‘ کے ساتھ مل کر جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ یعنی بیانِ شرط بنتے ہیں۔ اس کے بعد [قالوا] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ ہے اور یہاں سے ’’اذا‘‘ کا جوابِ شرط شروع ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ’’تو کہتے ہیں‘‘ ہوگا۔ فعل ماضی ہونے کے باعث یہاں شرط اور جوابِ شرط کے فعل (لقوا اور قالوا) ’’جزم‘‘ سے بری ہیں۔ [آمنا] فعل ماضی معروف مع مستتر ضمیر الفاعلین ’’نحن‘‘ ہے اور فعل ’’قالوا‘‘ کا مفعول ہوکر محل نصب میں ہے اور اس جملے (قالوا آمنا) کے ساتھ پہلا جملہ شرطیہ مکمل ہو جاتا ہے۔

(۲)   وَاِذَا خَلَا بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْٓا اَتُحَدِّثُوْنَھُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاۗجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْ   

]واذا] سابقہ (اوپر والے) ’’واذا‘‘ پر عطف ہے اور اسی طرح واو عاطفہ اور ’’اذا‘‘ ظرفیہ پر مشتمل ہے [خلا] فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے [بعضھم] مضاف (بعض) اور مضاف الیہ (ھم) مل کر فعل ’’خلا‘‘ کا فاعل ہے اس لیے ’’بعض‘‘ مرفوع ہے علامتِ رفع ’’ض‘‘ کا ضمہ (ــــُـــــ)  ہے اور نحوی حضرات ’’اذا‘‘ کے بعد والے (جملے) کو ظرف کا مضاف الیہ لہٰذا محلاً مجرور کہتے ہیں۔ [الی بعض] جار (الی) مجرور (بعض) مل کر متعلق فعل ’’خلا‘‘ ہیں یا ’’الی‘‘ اس فعل (خلا) کا صلہ ہے اور ’’الی بعض‘‘ مفعول ہوکر محل نصب میں ہے یہاں تک جملے کا پہلا حصہ ’’بیان شرط‘‘ مکمل ہوتا ہے۔ [قالوا] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے اور یہاں سے ’’اذا‘‘ کے بعد والے جملے کا جواب شرط شروع ہوتا ہے اس کا ترجمہ بھی مثل سابق ’’تو کہتے ہیں‘‘ ہوگا [اَتُحدِّثُونھم] کا ابتدائی ہمزہ ( أ ) استفہامیہ ہے جو یہاں انکار کے معنی میں ہے یعنی ’’ایسا مت کرو‘‘ کا مفہوم رکھتا ہے ’’تحدِّثون‘‘ فعل مضارع مع ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ ہے اور آخر پر ضمیر منصوب ’’ھم‘‘ اس فعل کا مفعول ہے۔ [بما] جار (ب) اور مجرور (ما) مل کر متعلق فعل (تحدثون) ہے۔ یا ’’بِ‘‘ فعل ’’حدّث‘‘ کے دوسرے مفعول (دیکھئے حصّہ ’’اللغۃ‘‘) پر آنے والا صلہ ہے۔ اور ’’ما‘‘ موصولہ اپنے بعد آنے والے جملے (صلہ) کے ساتھ مل کر یہاں مفعول (ثانی) ہونے کے اعتبار سے محلاً منصوب ہے۔ [فتَح] فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے [اللّٰہ] اس فعل (فتح) کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے علامت رفع اسم جلالت (اللّٰہ) کا ضمہ (ــــُـــــ)  ہے۔ [علیکم] جار مجرور (علی+کم) فعل ’’فتح‘‘ سے متعلق ہیں۔ اور یہ پورا جملہ ’’فتح اللّٰہ علیکم‘‘ (جو فعل، فاعل اور متعلق فعل پر مشتمل ہے) ’’بِمَا‘‘ کے ’’ما‘‘ کا صلہ ہے اور صلہ موصول (بما فتح اللّٰہ علیکم) مل کر ’’بِمَا‘‘ کی ابتدائی باء (ب) کے ذریعے فعل ’’تحدِّثون‘‘ سے متعلق ہیں یا فعل ’’تُحَدِّثُوْنَ‘‘ کا مفعول ثانی ہوکر محلاً منصوب ہے [لیحاجُّوکُم] کی ابتدائی لام (لِ) لامِ کَیْ یا لام تعلیل (جس کا ترجمہ ’’کہ/ تاکہ‘‘ ہوتا ہے) کی بجائے یہاں لام العاقبۃ یا لام الصیرورۃ ہے جس کا ترجمہ ’’جس کا نتیجہ یہ ہوا/ ہوگا کہ‘‘ سے کیا جاتا ہے (لام تعلیل ہو یا لام عاقبہ دونوں ہی ناصب مضارع ہیں) ’’یحاجوکم‘‘ میں ’’یُحَاجُّوا‘‘ فعل مضارع منصوب (بوجہ ’’لام‘‘) ہے علامتِ نصب واو الجمع کے بعد والے ’’نون‘‘ کا گر جانا ہے۔ (یہ دراصل ’’یحاجّون‘‘ تھا) اور دراصل ’’ل‘‘ کے بعد ایک ’’اَنْ‘‘ مقدر ہوتا ہے جو اصل ناصب ہوتا ہے یعنی ’’لِأَنْ‘‘) اس صیغہ فعل ’’لیحاجّوا‘‘ میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے اور آخری ’’کم‘‘ ضمیر منصوب برائے جمع مذکر حاضر فعل ’’لیحاجّوا‘‘ کا مفعول بہ ہے اردو میں یہاں اس ضمیر کا ترجمہ فعل کی مناسبت سے ’’تم کو‘‘ (جھٹلائیں) یا ’’تم سے‘‘ (جھگڑا کریں) کیا جاسکتا ہے (دیکھئے حصہ اللغۃ میں تراجم)۔ [بہ] جار مجرور (ب+ہ) مل کر متعلق فعل (لیحاجوکم) ہیں اور اس میں ضمیر مجرور (ہ) ’’بما فتح اللّٰہ علیکم‘‘ کے ’’ما‘‘ کے لیے (عائد) ہے یعنی ’’اس کی وجہ سے‘‘۔ [عندربکم] میں ’’عند‘‘ ظرف منصوب اور مضاف ہے اور ’’ربِّکم‘‘ (مضاف ’’ربّ‘‘ اور مضاف الیہ ’’کم‘‘ مل کر) ’’عِندَ‘‘ (ظرف) کا مضاف الیہ ہے ۔ لفظ ’’ربِّ‘‘ مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف اور خود مضاف الیہ (عند کا) ہونے کی وجہ سے مجرور ہے علامت جر آخری ’’ب‘‘ کی کسرہ (ــــــِــــ) ہے ’’عند‘‘ کے لفظی اور بلحاظ سیاق بامحاورہ تراجم حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بیان ہوچکے ہیں۔

(۳)     اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ  

        یہ جملہ اس سے پہلے البقرہ:۴۴ [۲:۲۹:۲] میں گزر چکا ہے۔

(۴)  اَوَلَا يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ

]اَوَ] ہمزۂ استفہامیہ اور واو عاطفہ کا مرکب ہے۔ ’’وَ‘‘ یا ’’فَ‘‘ کے ساتھ ہمزۂ استفہامیہ مقدم ہوکر اور ’’ھل‘‘ استفہامیہ کے ساتھ مؤخر (فھل) آتا ہے اردو فارسی میں اس ’’اَوَ‘‘ کا ترجمہ ’’کیا اور‘‘ کی بجائے ’’آیا؟‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ [لایعلمون] فعل مضارع منفی ’’بِلَا‘‘ صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے۔ [اَنَّ] حرف مشبہ بالفعل اور [اللّٰہ] اس کا اسم منصوب ہے اور اس کی خبر اگلا جملہ آرہا ہے [یَعلَم] فعل مضارع معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے [مَا] اسم موصول فعل ’’یعلم‘‘ کا مفعول (لہٰذا محلاً منصوب) ہے [یُسِرُّون] فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ ہوکر ’’ما‘‘ کا صلہ بنتا ہے اور [ومایُعلِنُون] میں ’’وَ‘‘ عاطفہ کے ذریعے ’’مَا یعلنون‘‘ (جو ’’ما‘‘ موصولہ اور اس کے صلہ جملہ فعلیہ (فعل فاعل) ’’یعلنون‘‘ پر مشتمل ہے) سابقہ صلہ موصول ’’ما یسرِّون‘‘ پر عطف ہے۔ یہاں یہ دونوں صلہ موصول (مایسرون اور مایعلنون) فعل ’’یعلم‘‘ کے مفعول بنتے ہیں۔ یہاں دونوں جگہ صلہ کے ساتھ اسم موصول ’’مَا‘‘ کے لیے ضمیر عائد محذوف ہے یعنی دراصل ’’مایسرونہ وما یعلنونہ‘‘ تھا اس لیے مترجمین نے اس ضمیر محذوف کے لیے ’’جسے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اس کے بھی مختلف تراجم حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بیان ہوچکے ہیں۔

 

۳:۴۸:۲      الرسم

اس قطعہ آیات (۷۶۔۷۷) کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم قرآنی (عثمانی) یکساں ہے۔ کسی کلمہ کے رسم عثمانی پر بحث کی ضرورت نہیں۔

 

۴:۴۸:۲       الضبط

اور اس قطعہ کے کلمات میں ضبط کا تنوع درج ذیل نمونوں میں دیکھئے۔