سورۃ البقرہ آیت ۷۸ اور ۷۹

۴۹:۲      وَمِنْھُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِىَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ (۷۸)  فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْهِمْ   ۤ  ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوْا بِهٖ ثَــمَنًا قَلِيْلًا     ۭ فَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَيْدِيْهِمْ وَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا يَكْسِبُوْنَ  (۷۹)

۱:۴۹:۲       اللغۃ

۱:۴۹:۲ (۱)    [وَمِنْھُمْ اُمِّیُّوْنَ] ابتدائی ’’وَمِنْھم‘‘ ’’وَ‘‘ (اور) + ’’مِنْ‘‘ (میں سے) + ’’ھُمْ‘‘(ان) ہے اور یوں اس کا ترجمہ ہوا ’’اور ان میں سے‘‘ (ہیں یا تھے) جس کا بامحاورہ ترجمہ ’’ان میں سے کچھ / بعض/ بہت (ہیں)‘‘ کی صورت میں کیا گیا۔ اور یہ ’’کچھ/ بعض/ بہت‘‘ اگلے لفظ ’’اُمِّیّون‘‘ کے نکرہ ہونے کی وجہ سے لگانے پڑے ہیں۔ بیشتر مترجمین نے ’’منھم‘‘ کا ترجمہ ’’ان میں‘‘ کے ساتھ کیا ہے جو بلحاظ محاورہ درست ہے مگر بظاہر ’’فیھم‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے۔ [اُمِّیُّوْنَ] یہ لفظ ’’اُمِّیٌّ‘‘ کی جمع مذکر سالم ہے۔ اور ’’ اُمِّیٌّ ‘‘ کا مادہ ’’ا م م‘‘ اور وزن ’’فُعْلِیُّ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد باب نصر سے ’’اَمَّ یَؤُمُّ‘‘ مختلف مصادر کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے۔

(۱)  ’’اَمَّ یؤُمُّ أُمُوْمَۃً‘‘ کے معنی ہیں ’’ماں بننا‘‘ کہتے ہیں ’’أَمَّتِ المرأۃُ‘‘ (عورت ماں بن گئی) اور اسی سے لفظ ’’اُمٌّ‘‘ ہے جس کے بنیادی معنی ’’ماں‘‘ ہیں۔ دیگر معانی و استعمال آگے حسب ِ موقع آئیں گے۔

(۲) ’’اَمَّ یَؤُمُّ أَمًّا‘‘ کے معنی ہیں: ’’کسی چیز کا قصد کرنا‘‘ مثلاً کہیں گے: ’’امّ فلانٌ اَمْرًا‘‘ (فلاں نے ایک کام کا قصد کیا) اور اسی سے لفظ ’’اُمَّۃٌ‘‘ ہے یعنی وہ جماعت یا لوگ جو ایک مشترکہ قصد، ارادہ اور واحد نصب العین رکھتے ہوں۔ اس لفظ (اُمّۃ) کے بعض دوسرے معنی بھی ہیں جو حسب موقع بیان ہوں گے۔

(۳) ’’اَمَّ یَؤُمُّ اِمَامَۃً‘‘ کے معنی ہیں ’’لوگوں کے آگے چلنا اور ان کا لیڈر بننا‘‘ کہتے ہیں ’’اَمَّ القومَ‘‘ (اس نے لوگوں کی (نماز میں) امامت کی یا وہ لوگوں کا امام بنا)۔ عربی میں لفظ ’’امام‘‘کے بھی متعدد معانی ہیں یہ بھی حسب موقع سامنے آئیں گے۔ قرآن حکیم میں ان (تینوں) افعال سے کوئی صیغہ فعل تو کہیں استعمال نہیں ہوا البتہ اس سے مشتق اور ماخوذ کلمات (امّ۔ امّۃ۔ اَمّ۔ اَمام۔ إمام وغیرہ) مختلف صورتوں (واحد جمع مفرد مرکب) میں بکثرت وارد ہوئے ہیں۔ جن پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       لفظ ’’اُمِّیٌّ‘‘ (جس کی جمع ’’اُمِّیُّون‘‘ اس وقت زیر مطالعہ ہے) اسم نسبت ہے جس کی نسبت ’’اُمٌّ‘‘ سے بھی ہوسکتی ہے اور ’’اُمَّۃ‘‘ سے بھی۔ (جیسے ’’مکۃ‘‘ سے ’’مَکِّیٌّ‘‘ بنتا ہے)۔ اس لفظ (اُمّیّ) کے بنیادی معنی ’’ناخواندہ یا ان پڑھ‘‘ ہیں۔ یعنی جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو (ضروری نہیں کہ وہ جاہل یا نادان ہو) گویا وہ بلحاظ خواندگی ویسا ہی ہو جیسا اسے ماں نے جنا تھا یا ’’ماں کے پاس ہی رہا کسی استاد کے پاس مدرسے وغیرہ میں نہ گیا‘‘۔

·       یہ لفظ (امّیّ) قرآن کریم میں رسول اللہ ﷺ کی صفت کے طور پر دو جگہ (الاعراف:۱۵۷، ۱۵۸) آیا ہے۔ اور ’’اُمِّیّ‘‘ ہونا آپؐ کی فضیلت اور آپ کا معجزہ اور دلیل صداقت ہے۔ ظہورِ اسلام سے پہلے اہل عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس لیے عربوں کو ’’اُمّۃ اُمِّیّۃ‘‘ (ناخواندہ اُمت) کہا جاتا تھا اور ایک موقع پر آپؐ نے خود بھی فرمایا: ’’نحن اُمّۃ امِّیۃٌ‘‘ (ہم ناخواندہ امت ہے)۔ اس کے علاوہ آپؐ کا ’’امّی‘‘ ہونا ’’ام القری‘‘ (مکہ مکرمہ) سے نسبت رکھنے والا کی بنا پر بھی ہوسکتا ہے اور ’’امۃ امِّیّۃ‘‘ کی نسبت رکھنے والا کی مناسبت سے بھی۔

·       یہودی اپنے سوا باقی سب لوگوں کو ’’امّیّون‘‘ (اُمّی لوگ) کہتے تھے (آل عمران:۷۵) اس طرح لفظ  ’’امیون‘‘ (بصورت جمع) کہیں ’’ناخواندہ اور اَن پڑھ لوگوں‘‘ کے بنیادی معنی میں استعمال ہوا ہے اور بعض جگہ اس سے مراد غیر اہل کتاب (Gentiles) بھی لیے جاسکتے ہیں۔

·       زیر مطالعہ مقام پر لفظ ’’امِّیُّون‘‘ بظاہر اپنے بنیادی معنی (ان پڑھ لوگ) میں استعمال ہوا ہے کیونکہ بلحاظِ سیاقِ عبارت اہل کتاب (یہودیوں) کے امّیّون (ان پڑھوں) کا ذکر ہے۔ اور اسی لیے بیشتر مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’’ان پڑھے/ بے پڑھے/ بن پڑھے/ ناخواندہ اور ان پڑھ‘‘ سے کیا ہے۔

[لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ] یہ ایک جملہ ہے۔ جس کا پہلا حصہ ’’لایعلمون‘‘ مادہ ’’ع ل م‘‘ سے بروزن ’’لایَفعَلون‘‘ فعل مضارع منفی (بلا) ہے۔ جس کے باب معنی (عِلم یعلَم= جاننا) وغیرہ کی وضاحت البقرہ:۱۳ [۱:۱۰:۲ (۳)] میں کی جاچکی ہے۔ دوسرا لفظ ’’الکتاب‘‘ (مادہ ’’ک ت ب‘‘ سے بروزن ’’فِعَال‘‘) ہے ان کے معنی وغیرہ [۱:۱:۲ (۲)] میں بیان ہوئے تھے۔ لفظ ’’کتاب‘‘ اردو میں مستعمل ہے۔ اس لیے اس عبارت (لایعلمون الکتاب) کا ترجمہ ’’نہیں جانتے کتاب کو، کتاب کو نہیں جانتے، خبر نہیں رکھتے کتاب کی‘‘ اور ’’وہ کتاب سے واقف ہی نہیں‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ سب کامفہوم ایک ہی ہے۔ البتہ بعض نے ’’الکتاب‘‘ کے لام تعریف کی وجہ سے ’’خاص کتاب‘‘ کا مفہوم لے کر ترجمہ ’’کتاب الٰہی کا کوئی علم نہیں رکھتے‘‘ یا ’’اللہ کی کتاب کو نہیں جانتے‘‘ کے ساتھ کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے۔ اس ’’لایعلمون‘‘ کا ایک اور مفہوم حصہ الاعراب میں بیان ہوگا۔

۱:۴۹:۲ (۲)     [اِلَّا اَمَانِیَّ] میں ’’اِلّا‘‘ تو حرفِ استثناء ہے جس کا ترجمہ ’’مگر/ سوائے/ لیکن/ بغیر‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔

لفظ [اَمَانِیَّ] غیر منصرف جمع مکسر ہے (جو عبارت میں منصوب آیا ہے) اس کاواحد ’’اُمْنِیَّۃٌ‘‘ ہے جس کا مادہ ’’م ن ی‘‘ اور وزن اصلی اس کا ’’اُفْعُوْلَۃٌ‘‘ ہے یعنی یہ دراصل ’’اُمْنُوْیَۃٌ‘‘ تھا۔ پھر ’’و‘‘ کو بھی ’’ی‘‘ میں بدل کر دونوں ’’یاء‘‘ مدغم کردی جاتی ہیں اور پھر ’’ی‘‘ سے ماقبل ضمہ (ـــــُـــــ) کو ثقیل سمجھتے ہوئے کسرہ (ـــــِــــ) میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے (جیسے مَبْیُوْع سے مَبِیْعٌ اور مَرْمُویٌ سے مَرْمِیٌّ بنتا ہے) یوں یہ لفظ ’’اُمنیّۃ‘‘ بنتا ہے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’مَنَی یَمْنِی مَنْیًا‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’کسی چیز کا اندازہ لگانا‘‘ اور اس سے اس میں ’’ آزمانا، آمائش میں ڈالنا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں جس کو آزمایا جائے وہ تو مفعول بنفسہٖ آتا ہے اور جس چیز سے آزمایا جائے اس پر باء (ب) کا صلہ لگتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’مناہُ اللّٰہُ بِحُبِّھا‘‘ (اللہ نے اس (مرد) کو اس (عورت) کی محبت میں مبتلا کردیا یا اس کے ذریعے آزمائش میں ڈالا) ویسے ان (آزمانا اور امتحان لینا والے) معنی کے لیے یہ فعل واوی مادہ سے ’’منا یَمْنُو مَنْوًا‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے مگر لفظ ’’اُمنِیّہ‘‘ صرف یائی مادہ (م ن ی) سے آتا ہے۔ یہ فعل بعض صلات کے ساتھ اور صلہ کے بغیربعض دیگر معانی کے لیے بھی آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کوئی صیغۂِ فعل کسی معنی کے لیے بھی استعمال نہیں ہوا۔ البتہ مزید فیہ کے ابواب تفعیل، افعال اور تفعّل سے مختلف صیغے چودہ جگہ آئے ہیں اور مختلف مشتق و ماخوذ کلمات (امنیّۃ، امانی، مَنِّی، مناۃ وغیرہ) دس کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔

·       ’’اُمنِیَّۃٌ‘‘ (جس کی جمع ’’اَمَانِیُّ‘‘ اس وقت زیر مطالعہ ہے) کے بنیادی معنی ہیں: ’’کسی چیز کی آرزو کرنے سے اس چیز کے بارے میں دل میں آنے والا تصور یا اندازہ‘‘ یعنی جس چیز کے بارے میں دل میں ا ندازے لگائے جائیں۔ اس سے لفظ میں ’’مرکز آرزو، خیالی اندازہ، دل میں باندھے ہوئے اندازے‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے چاہے  وہ اندازہ (اور آرزو) حقیقت پر مبنی ہو یا اٹکل پر۔ بلکہ اکثر یہ لفظ ’’اٹکل پچو اندازہ اور خیالی پلاؤ‘‘ کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور یوں اس میں ’’کذب‘‘ اور ’’جھوٹ‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی جھوٹی آرزو۔ لفظ ’’امنیۃ‘‘ (واحد) قرآن کریم میں ایک جگہ (الحج:۵۲) اور ’’امانی‘‘(بصورت جمع اور مفرد مرکب معرفہ نکرہ) کل پانچ جگہ آیا ہے۔ اور اسی لفظ (امنیۃ) کا ایک معنی ’’بے فہم تلاوت‘‘ بھی مراد لیا گیا ہے کیونکہ بقول راغب ’’بے معرفت تلاوت‘‘ بھی تخمین و ظن (اٹکل یا اندازہ) ہی ہوتی ہے۔

·       اس طرح یہاں ’’امانی‘‘ کا ترجمہ اکثر نے تو ’’ آرزوئیں/ جھوٹی آرزوؤں/ بلا سند دل خوش کن باتیں/ باندھی ہوئی آرزوئیں/ اور خیالات باطل‘‘ کی صورت میں کیا ہے اور بعض نے دوسرے معنی کو سامنے رکھتے ہوئے ’’زبانی پڑھ لینا‘‘ اور ’’بڑبڑا لینا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے اس کا ترجمہ ’’من گھڑت باتیں‘‘ کیا ہے جو ’’امانی‘‘سے زیادہ ’’مفتریات‘‘ (افتراء کردہ چیزیں) کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔

اس عبارت ’’ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِىَّ ‘‘  کا ایک اور مفہوم حصہ ’’الاعراب‘‘ میں ’’امانی‘‘ کی نصب کے سلسلے میں بیان ہوگا۔

[وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَظُنُّونَ] یہ ’’وَ‘‘ (بمعنی اور) + اِنْ (نافیہ بمعنی ’’نہیں‘‘) + ’’ھُمْ‘‘ (ضمیر غائب بمعنی ’’وہ سب‘‘) + ’’اِلَّا‘‘ (بمعنی مگر/ سوائے) ’’یظنّون‘‘ (جس کے ترجمہ پر ابھی بات ہوگی) کا مرکب جملہ ہے۔ ’’یظنون‘‘ (کا مادہ ’’ظ ن ن‘‘ اور وزن ’’یَفْعُلُونَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب وغیرہ اور خود اسی صیغہ کے معانی کی البقرہ:۴۶ [۱:۳۰:۲ (۴)] میں وضاحت ہوچکی ہے۔

·       زیر مطالعہ عبارت میں ’’ظن‘‘ صرف ’’گمان اور جاہلانہ خیال‘‘ کے معنی میں ہے کیونکہ اس سے پہلے (’’لایعلمون‘‘ میں) علم کی نفی کی گئی ہے۔ اس طرح اس عبارت (ان ھم الا یظنون) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’نہیں وہ مگر گمان کرتے ہیں‘‘ بیشتر مترجمین نے بامحاورہ بنانے کے لیے ’’ان‘‘ (نہیں) اور ’’اِلّا‘‘ (مگر) کا مجموعی ترجمہ یا مفہوم ’’محض، فقط، صرف، نرے اور ہی‘‘ کے ذریعے ظاہر کیا ہے یعنی ’’یہ لوگ اور کچھ نہیں صرف خیالات پکا لیتے ہیں/ فقط خیالی تکے چلاتے ہیں/صرف ظن سے کام لیتے ہیں/ محض تخیلات میں پڑے رہتے ہیں/ نرے گمان میں ہیں/ گمان ہی گمان رکھتے ہیں/ ان کا خیال ہی خیال ہے‘‘ کی صورت میں تراجم کیے گئے ہیں۔ اصل مفہوم ایک ہی ہے۔ عبارت کو زور دار بنانے کے لیے مختلف محاورے استعمال کیے گئے ہیں۔

 

 

۱:۴۹:۲ (۳)     [فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ]

ابتدائی ’’فاء‘‘ (ف) بمعنی ’’پس/ سو/ تو/ پھر‘‘ ہے دیکھئے [۱:۱۶:۲ (۱)] [وَیْلٌ] کا مادہ ’’و ی ل‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا۔ مزید فیہ کے ’’تفعیل، تفعل اور تفاعل‘‘ سے فعل بمعنی ’’کسی کو بربادی کی بددعا دینا‘‘ آتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس مادہ سے صرف یہی کلمہ ’’ویل‘‘ مختلف طریقوں پر قرآن کریم میں چالیس مقامات پر استعمال ہوا ہے۔

·       لفظ ’’وَیْل‘‘کے معنی ’’تباہی، بربادی، شر، عذاب، خرابی، ذلت، رسوائی، ہلاکت اور بدبختی‘‘ ہیں۔ یہ بددعا یا اظہارِ افسوس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا اردو ترجمہ ’’بڑی خرابی ہے‘‘ اور ’’وائے افسوس ہے‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اور بعض مقامات پر مندرجہ بالا دوسرے معانی کے ساتھ بھی ترجمہ کیا جاتا ہے جیسا کہ آگے آئیں گے۔

·       ’’ویل‘‘ کا استعمال کئی طرح ہوتا ہے۔

(۱) مفرد بطورہ مبتداء عموماً نکرہ آتا ہے (نکرہ بددعا میں جائز ہے) مثلاً کہتے ہیں: ’’وَیْلٌ لفلانٍ‘‘ (فلاں کے لیے خرابی ہے/ ہو) یا یوں سمجھئے کہ جار مجرور خبر مقدم کے بعد مبتداء نکرہ (مؤخر) تھا مگر ترتیب الٹ دی گئی ہے۔ یعنی ’’لفلانٍ ویلٌ‘‘ کو ’’ویل لفلان‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ اس استعمال میں یہ مرفوع ہی آتا ہے۔ اس (مفرد مرفوع) استعمال کے ساتھ یہ لفظ قرآن کریم میں ۲۷ جگہ آیا ہے۔ اور ہر جگہ نکرہ ہی آیا ہے، صرف ایک جگہ (الانبیاء:۱۸) یہ لفظ معرف باللام ’’الویل‘‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ عموماً لام الجر (ل) کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے۔ کبھی اس کے ساتھ ’’ب‘‘ بھی لاتے ہیں۔ یعنی کہتے ہیں: ’’ویل لفلان و بفلانٍ‘‘ تاہم قرآن کریم میں اس (مبتدأٔ والے) استعمال میں یہ ہر جگہ لام الجر (لِ) کے ساتھ ہی آیا ہے۔

(۲)  کبھی مفرد مگر منصوب استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں: ’’ویلاً لِفلان‘‘۔ اس صورت میں اس سے پہلے ایک فعل محذوف سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً ’’ادعُو ویلا لہ‘‘ یا ’الزم اللّٰہ ویلا لہ‘‘ (میں اس کے لیے تباہی کو بلاتا ہوں یا اللہ اس کے لیے بربادی لازم کرے) یعنی نصب اس محذوف فعل کے مفعول بہ ہونے کے اعتبار سے آتی ہے۔ اگر اس مادہ سے اپنا فعل استعمال ہوتا (جوکہ ہے ہی نہیں) تو ’’ویلاً‘‘ کو مفعول مطلق سمجھ سکتے تھے۔ اس لفظ کا یہ (مفرد منصوب والا) استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔

(۳)  کبھی یہ مرکب (مضاف ہوکر)منصوب آتا ہے (اس صورت میں لام الجر کی ضرورت نہیں رہتی) جیسے ’’ وَيْلَكَ اٰمِنْ ‘‘ (الاحقاف:۱۷) میں ہے یعنی ’’تیرا ستیاناس ایمان لے آ‘‘ اس صورت میں بھی اس سے پہلے ایک فعل محذوف سمجھا جاتا ہے۔ یہ استعمال (مرکب منصوب والا) قرآن کریم میں تین جگہ آیا ہے۔

(۳) کبھی یہ حرف نداء کے ساتھ منادیٰ مضاف (لہٰذا) منصوب استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’یَا وَیْلَنَا‘‘ (اے ہماری خرابی) میں ہے۔ یہ استعمال بلکہ یہی ترکیب (یاویلنا) قرآن کریم میں چھ جگہ آیا ہے۔

(۵) کبھی یہ لفظ ’’ویل‘‘ کی بجائے ’’ویلۃ‘‘ استعمال ہوتا ہے کتب  لغت میں ’’ویلۃ‘‘ کے معنی ’’فضیحت اور رسوائی‘‘ بتائے گئے ہیں۔ اس صورت میں بھی یہ (ویلۃ) حرف نداء کے بعد منادیٰ منصوب ہوکر ہی استعمال ہوتا ہے جیسے ’’ يٰوَيْلَتَنَا ‘‘ (اے ہماری رسوائی) میں ہے یہ استعمال بلکہ یہی ترکیب (يٰوَيْلَتَنَا) قرآن مجید میں صرف ایک جگہ(الکہف:۴۹) آیا ہے۔ البتہ ’’یاویلتیٰ‘‘ (جو ’’یاویلتی‘‘ کی دوسری شکل ہے) کی ترکیب بھی قرآن کریم میں تین جگہ وارد ہوتی ہے۔ ان تمام استعمالات پر مزید بات اپنے اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

·       یہاں ’’ویل‘‘ کے بعد ’’للذین‘‘ ہے جو دراصل ’’لام الجر (ل) + الذین‘‘ ہے۔ لام الجر کے بعد لام تعریف آئے تو املاء میں ’’الف‘‘ ساقط ہوجاتا ہے اور دونوں لام ملا کر لکھے جاتے ہیں ’’للذین‘‘ کا ترجمہ ہے‘‘ واسطے ان کے جو‘‘جس کو’’ان کے لیے جو‘ ان کی جو‘ ان لوگوں کی جو‘‘ کی صورت میں بھی دی گئی ہے۔

·       اس طرح زیر مطالعہ عبارت (فویل للذین. . . . .) کے تراجم ’’پس خرابی ہے ان لوگوں کی جو/ سو خرابی ہے ان کی جو/تو خرابی ہے ان کے لیے جو /سو بڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو/تو بڑی خرابی ہوگی ان کی جو‘‘ کی صورت میں کیے گئے ہیں۔ اور بعض نے ’’افسوس‘‘ اور ’’وائے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو/ پس افسوس ہے ان لوگوں پر جو/ پس / تو وائے ہے ان پر جو‘‘ کی شکل میں۔

[یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ] ’’یکتبون‘‘ کا مادہ ’’ک ت ب‘‘ اور وزن ’’یفعُلُون‘‘ ہے یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد (کتب=لکھنا)کے باب نصر سے کا فعل مضارع صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس کا ترجمہ زیادہ تر فعل حال کے ساتھ ’’وہ لکھتے ہیں‘‘ کیا گیا ہے بعض نے صیغہ مضارع ’’لکھیں‘‘ ہی سے کیا ہے جو فعل امر نہیں بلکہ ’’حال‘‘ کے معنی میں ہے۔ دوسرا لفظ ’’الکتاب‘‘ اسی مادہ (ک ت ب) سے فِعَال بمعنی مفعول ہے یعنی ’’مکتوب/ لکھی ہوئی چیز یا تحریر‘‘ اور خود لفظ کتاب بھی اردو میں مستعمل ہے۔ اس مادہ (ک ت ب) سے فعل کے باب اور معنی کے علاوہ خود لفظ ’’کتاب‘‘ کی لغوی تشریح البقرہ:۲ [۱:۱:۲ (۲)] میں دیکھئے۔

۱:۴۹:۲ (۴)     [بِاَیْدِیْھِم] یہ تین کلمات کا مرکب ہے۔ ابتدائی ’’باء(ب)‘‘ الجر بمعنی ’’سے/ کے ساتھ/ کے ذریعے‘‘ ہے۔ اور آخر پر ضمیر مجرور ’’ھم‘‘ بمعنی ’’ان کے/ اپنے‘‘ ہے اور درمیان میں وضاحت طلب کلمہ ’’اَیْدِیْ‘‘ ہے۔ [اَیْدِیْ] یہ جمع مکسر یہاں مجرور بباء الجر اور مضاف (لہٰذا خفیف) ہے۔ اس کا واحد ’’یدٌ‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ی د ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’یَدْیٌ‘‘ تھی جو خلافِ قیاس یا شاید کثرت استعمال کے باعث ’’یَدٌ‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ حالانکہ اس طرح کے کئی کلمات (مثلاً وَحْیٌ، ھَدْیٌ، ثَدْیٌ، رَمْیٌ وغیرہ) اپنی اصلی حالت پر رہتے ہیں بہرحال اس میں تعلیل کی صورت کچھ یوں بنتی ہے: یَدْیٌ= یَدْیُنْ= یَدُیُنْ= یَدُنْ=یَدٌ۔ اس کی اعرابی صورتیں (واحد کی) ’’یَدٌ، یَدًا اور یدٍ‘‘ ہوتی ہیں (جو دراصل یَدْیٌ یَدْیًا اور یَدْیٍ تھے) اس کا تثنیہ ’’یدان (اور یَدَیْنِ) ہوتا ہے اور شاذ ’’یَدیَان‘‘ بھی آتا ہے) جمع مکسر اس کی ’’اَیْدِیٍ‘‘ (باملاء ’’آیْدٍ‘‘) یَدِیٌّ اور آیادٍی، آتی ہے مگر قرآن کریم میں صرف مقدم الذکر جمع (ایدیٍ) ہی استعمال ہوئی ہے۔ یہ بھی دراصل ’’اَیْدُیٌ‘‘ (بروزن ’’اَفْعُلٌ‘‘ ہی تھا پھر اس میں ’’ی‘‘ کی تنوین اڑا کر ’’د‘‘ (عین کلمہ) کے نیچے تنوین (ـــــٍـــــ) دی گئی جو تنوین جر نہیں بلکہ تنوین عوض ہے جیسے یائی اللام افعال باب ’’تفعّل‘‘ کے مصدر میں تبدیل ہوئی ہے۔ مثلاً تَلَقُّیٍ سے تَلَقّیٍ اور تَرَقُّیٌسے ترقّیٍ بنتا ہے۔ گویا اَیْدُیٌ= اَیْدُیُنْ= اَیْدِیُنْ= اَیْدِیْنْ= اَیْدِنْ= اَیدٍی ہے اس کی اعرابی گردان ایدٍ، اَیدِیًا۔ اَیدٍ (مثل قاضٍ، قاضیًا، قاضیٍ) ہے اور رفع اور جر میں مضاف یا معرف باللام ہوتے وقت ’’اَیْدِیْ‘‘ ہوجاتا ہے (یعنی ’’یاء‘‘ لوٹ آتی ہے) جیسے یہاں زیر مطالعہ لفظ میں ہے۔

·       لفظ ’’یَد‘‘ کا ترجمہ ’’ہاتھ‘‘ ہے۔ عربی میں یہ لفظ ’’ہاتھ کی انگلیوں سے لے کر کندھے تک پورے بازو‘‘ کے لیے آتا ہے۔ پھر صرف انگلیوں والے حصے کو بھی ’’یَدٌ‘‘ (ہاتھ) ہی کہتے ہیں اور انگلیوں سے کہنی تک کے حصےّ کو بھی۔ (جیسے المائدہ:۶ میں آتا ہے) یہ اس لفظ کے حقیقی معنی ہیں (یعنی جس کے لیے دراصل زبان میں یہ لفظ بنایا گیا ہے) پھر اس سے استعارہ، تشبیہ اور محاورے کے طور پر یہ لفظ بیس سے زیادہ معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ واحد مفرد یا مرکب ۲۱جگہ، تثنیہ مفرد یا مرکب ۳۳ جگہ اور جمع مفرد یا مرکب۶۵ جگہ آیا ہے۔

·       کسی عبارت میں اس لفظ کے معنی (واحد ہو یا تثنیہ یا جمع) متعین کرنے کا عام اصول تو یہ ہے کہ بنیادی طور پر تو لفظ کے حقیقی معنی ہی مراد لیے جائیں گے۔ سوائے اس کے کہ کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جس کی بنا پر کوئی مجازی معنی لینا ضروری ہو۔ اور اس قرینہ کی موجودگی یا عدم موجودگی کے بارے میں اختلاف بلکہ بعض دفعہ گمراہی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں اس لفظ کے معنی مراد متعین کرنے میں لغات، زبان کے محاورے (idiom) اور سیاق وسباق عبارت کے علاوہ ماثور معنی (جو نبی کریمﷺ یا آپ کے صحابہؓ سے ثابت ہوں) کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے جو مستند تفاسیر میں بیان ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس لفظ کے استعمال کا تعلق کسی جگہ علم الکلام (عقائد) سے ہے او رکوئی جگہ تشریع اور فقہی احکام سے ہے اس لیے اس کے معنی کے تعین میں محض خواہش کی پیروی میں اس لفظ کے ڈکشنری میں دیے گئے متعدد معانی میں سے اپنی مرضی کے معنی تلاش کرنے کی کوشش ایک خطرناک کام ہے۔

·       پوری عبارت (یکتبون الکتاب بایدیھم) کے ترجمے (وہ لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھوں سے) میں ’’اپنے ہاتھوں سے‘‘ کی بجائے بعض نے اردو محاورے کی بنا پر ’’بایدیھم‘‘ (جمع) کا ترجمہ واحد سے کردیا ہے یعنی ’’اپنے ہاتھ سے‘‘ کہ آدمی ایک ہاتھ سے ہی لکھتا ہے۔ مگر یہاں لکھنے والوں کی جمع (الذین اور یکتبون میں) کے باعث لفظ ’’اَیْدِیْ‘‘ بصورت جمع آیا ہے (اردو میں لفظ ’’ہاتھ‘‘ جمع کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کہیں ’’ان کے ہاتھ‘‘) اور بلحاظ حقیقت جمع بمعنی ’’واحد‘‘ ہے۔

·       محض ’’لکھتے ہیں‘‘ (یکتبون) کی بجائے ساتھ ’’اپنے ہاتھوں سے‘‘ (بایدیھم) مزید تاکید کے لیے آیا ہے کیونکہ لکھا تو ہاتھ سے ہی جاتا ہے اور آدمی اپنے ہی ہاتھ سے لکھتا ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے اردو میں کہتے ہیں ’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا‘‘۔ یعنی ضرور دیکھا۔ ورنہ ہر شخص آنکھوں سے ہی دیکھتا اور اپنی ہی آنکھوں سے دیکھتا ہے (کسی دوسرے کی سے نہیں)۔

[ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ] ’’ثُمَّ‘‘ بمعنی ’’پھر/اس کے بعد‘‘ (دیکھئے ۱:۲۰:۲ (۴)  اور ’’یقولون‘‘ (وہ کہتے ہیں) کے مادہ، باب اور تعلیل وغیرہ کے لیے دیکھئے   [۱:۱۹:۲ (۱)] اس فعل کے مادہ (ق و ل) سے فعل مجرد پر پہلی دفعہ البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی۔ اب تو اس کے متعدد صیغے گزر چکے ہیں۔

·       اس حصّۂ عبارت کا ترجمہ تو ہے ’’پھر وہ کہتے ہیں‘‘ جسے بیشتر مترجمین نے سیاقِ عبارت کے ساتھ اردو محاورے کی مطابقت کرتے ہوئے ’’پھر کہہ دیتے ہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے ’’اور کہتے ہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے یعنی ثُمَّ کا ترجمہ ’’اور‘‘ سے کیا ہے جو آیت کے سابقہ مضمون کی مناسبت سے ہی درست کہا جاسکتا ہے ورنہ اصل لفظ سے تو ہٹ کر ہے بعض نے (یکتبون کی طرح) یہاں بھی مضارع کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے یعنی ’’پھر کہہ دیں/پھر کہیں‘‘۔ ایسے موقع پر اردو میں فعل مضارع (امر کے نہیں بلکہ) حال ہی کے معنی دیتا ہے۔

[ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہ] اس جملے کے تمام کلمات پہلے گزر چکے ہیں اگر ان کی لغوی تشریح کی ضرورت محسوس کریں تو ’’ھٰذا‘‘ (یہ) اور دوسرے اسماء اشارہ کے لیے [۱:۲:۲ (۱)] ’’مِن‘‘ (میں سے/سے) کے معنی و استعمال کے لیے ’’بحث استعاذۃ‘‘ اور البقرۃ:۳ [۱:۲:۲ (۵)] ’’عِندَ‘‘ (کے پاس/ کے نزدیک) ظرف کے استعمال و معانی کے لیے [۱:۳۴:۲ (۶)] کی طرف رجوع کریں۔ اسم جلالت (اللہ) کی لغوی بحث ’’بسم اللہ‘‘ میں گزر چکی ہے۔

·          اس طرح اس جملے کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’یہ ہے اللہ کے پاس سے‘‘ بعض مترجمین نے تو ’’مِن‘‘ اور ’’عِندَ‘‘ دونوں کے معنی ترجمہ میں شامل کیے ہیں یعنی ’’یہ نزدیک اللہ تعالیٰ کے سے ہے/ یہ خدا کے پاس سے ہے/ یہ اللہ کے ہاں سے ہے‘‘ کی صورت میں۔ اور بعض نے اردو محاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں ’’عند‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کردیا ہے یعنی ’’یہ خدا کی طرف سے ہے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے ’’اتری ہے/ آئی ہے‘‘ کے تفسیری الفاظ کا اضافہ کردیا ہے۔ جس کی یہاں چنداں ضرورت نہ تھی۔

[لِیَشْتَرُوا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا] ’’لِیَشْتَرُوْا‘‘کا مادہ ’’ش ری‘‘ اور وزن اصلی ’’لِیَفْتَعِلُوْا‘‘ ہے جو دراصل ’’لِیَشْتریُوا‘‘ بنتا تھا پھر واو الجمع سے ماقبل والا حرف علت (ی) گرا کر اس کے ماقبل (ر) کی کسرہ (ــــــِــــ)  کو ضمہ (ـــــُـــــ)  میں بدل دیا جاتا ہے۔ یہ صیغہ ٔفعل اس مادہ سے باب افتعال کا فعل مضارع منصوب (بوجہ لام کَیْ) صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس مادہ اور اس سے اس باب کے فعل (اشتری یشتری= خریدنا) کے استعمال پر البقرہ:۱۶ [۱:۱۲:۲(۱)] میں بات ہو چکی ہے۔ ’’بہ‘‘ کی باء (بِ)کے معانی کے لیے البقرہ ۴۵ [۱:۳۰:۲(۱)]’’ثمن‘‘ (جو یہاں منصوب آیا ہے) کے معنی (قیمت) کے علاوہ اس کے مادہ، فعل مجرد اور پھر فعل (اشتری) کے ساتھ اس کے استعمال اور اس کے ساتھ (بہ والے) ’’بِ‘‘ کے استعمال پر بھی البقرہ:۴۱ [۱:۲۸:۲ (۱۱)] میں بات گزر چکی ہے اور اسی جگہ لفظ ’’قلیل‘‘بمعنی ’’تھوڑا‘‘ (جو عبارت میں منصوب آیا ہے) کے مادہ، فعل وزن وغیرہ کی بات بھی ہوئی تھی۔

·       اس طرح یہاں اس عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’تاکہ وہ خرید لیں اس کے ساتھ/ سے تھوڑی قیمت‘‘ مختلف مترجمین نے یہاں ’’لِیشتروا‘‘ کے تراجم ’’تاکہ لیویں/ کہ لیویں/ کہ وصول کرلیں/ کہ حاصل کرلیں/ کہ اس کو بیچ کر لیویں‘‘ کی صورت میں کیے ہیں پھر اردو محاورے کے مطابق وہ فعل کے اس ترجمہ کو فقرے کے آخر پر لائے ہیں۔

اسی طرح ’’بہ‘‘ کے تراجم ’’اس کے ذریعے سے/ اس کے عوض/ بدلے‘ اس سے‘‘ کیے ہیں۔ اور بعض نے ’’اس پر‘‘ کیا ہے جس میں لفظ سے زیادہ محاورہ کا خیال رکھا گیا ہے اور ’’ثمنا قلیلا‘‘ کا ترجمہ ’’مول تھوڑا/ تھوڑا مول/ کچھ نقد قدرے قلیل/ تھوڑے سے دام/ قدرے قلیل معاوضہ‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے ان تراجم میں ’’نقد‘‘ اور معاوضہ ’’ثمن‘‘ (قیمت) کے لیے لائے گئے ہیں۔

[فَوَیْلٌ لَّھُمْ] ’’وَیْل‘‘ کے معنی و استعمال پر ابھی اوپر [۱:۴۹:۲ (۳)] میں بات ہوئی ہے۔ ’’فَ‘‘ (پس/سو) اور ’’لَھُمْ‘‘ (ان کے لیے) کا ابتدائی ’’لام الجر‘‘ لفظ ’’ویل‘‘ کے مرفوع استعمال کا ایک حصہ ہے۔ یوں اس عبارت (فویل لھم) کے تراجم ’’پس وائے ہے واسطے ان کے/ سو خرابی ہے ان کو/ سو بڑی خرابی آوے گی ان کو/ پس افسوس ہے ان پر/ سو خرابی ہے ان کے لیے/ خرابی ہے ان کی‘‘ کی صورت میں کیے گئے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے البتہ ’’ آوے گی‘‘ وضاحتی ترجمہ ہے۔

[مِمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ] اس عبارت کے جملہ کلمات پہلے گزر چکے ہیں۔ ’’مِمَّا‘‘ (جو مِنْ+مَا) ہے میں ’’مِنْ‘‘ تعلیل (کی وجہ سے) کے معنی میں آیا ہے اور ’’مَا‘‘ موصولہ بھی ہوسکتا ہے اور مصدریہ بھی موصولہ کی صورت میں ’’ممَّا‘‘ کا ترجمہ ’’اس چیز کی وجہ سے جو/ اس سے کہ/ اس کی بدولت جس کو/ جس سے/ اس کی بدولت جو‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے اور ’’کَتَبَتْ‘‘ کا ترجمہ تو ہے اس (مؤنث) نے لکھا۔ مگر مَا کو مصدریہ سمجھ کر ترجمہ ’’لکھے سے/ اس لکھنے پر‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے ’’ایدیھم‘‘ (جو یہاں فاعل ہوکر آیا ہے) کا ترجمہ ’’ہاتھ ان کے/ ان کے ہاتھوں نے‘‘ بنتا ہے جسے بعض نے ’’ان کے ہاتھوں سے‘‘ کیا ہے جو لفظ سے ہٹ کر ہے۔

·       اس طرح زیر مطالعہ پوری عبارت (مما کَتَبت ایدیھم) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’اس کی وجہ سے جو لکھا ان کے ہاتھوں نے‘‘۔ جسے سیاق عبارت اور سابقہ فعل ’’یکتبون‘‘) کی مناسبت سے بعض نے فعل حال کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں‘‘۔ ویسے بھی یہ ترجمہ ’’یکتبون بایدیھم‘‘ کا لگتا ہے اگر حال ہی میں کرنا تھا تو بھی ترجمہ ’’لکھتے ہیں ان کے ہاتھ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔

 اکثر مترجمین نے ’’مَا‘‘ کو مصدریہ سمجھ کر تراجم ’’اپنے ہاتھوں کے لکھے سے/ ان کے ہاتھوں کے لکھے سے/ ان کے اس لکھنے پر‘‘ کی صورت میں کیے ہیں۔ ان تراجم میں (ماسوائے آخری کے) ’’لکھنے‘‘ کی نسبت ’’ہاتھوں‘‘ سے ہی ہے جو اصل عبارت کا تقاضا ہے۔

[وَوَیْلٌ لَّھُمْ] سابقہ ’’فویل لھم‘‘ کی طرح ہے سوائے اس کے کہ یہاں شروع میں واو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے۔

۱:۴۹:۲ (۵)     [ مِمَّا یَکسِبُوْنَ] یہاں بھی ’’مِمَّا‘‘ (من+ما) کا ’’مِنْ‘‘ تبعیضیہ نہیں بلکہ تعلیلیہ [دیکھئے [۱:۲:۲ (۵)]بمعنی ’’اس کی وجہ سے‘‘ ہے اور اسی لیے اس (مِمَّا) کا ترجمہ ’’اس کی جو کہ/ اس کی بدولت جس کو/ اس لیے کہ/ اس چیز سے کہ‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔

[یَکْسِبُوْنَ] کا مادہ ’’ک س ب‘‘ اور وزن ’’یَفْعِلُوْنَ‘‘ ہے ۔ فعل مجرد اس سے کَسَب. . . . . یکسِبُ کَسْبًا (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں’’. . . . .کو جمع کرنا، . . . . . .کمانا‘‘۔ مثلاً کہتے ہیں ’’کسَب المالَ‘‘ (مال کمایا یا جمع کیا) اور ’’کسَب الاثم‘‘ (اس نے گناہ کمایا/ اُٹھایا/ سرلیا‘‘ اور ’’کسَب لِاَھلہ‘‘ کا مطلب ہے ’’اس نے اپنے گھر والوں کے لیے روزی/ معاش طلب کی‘‘ کبھی یہ فعل دو مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’کسَب فلاناً مالاً/ علماً‘‘ (اس نے فلاں کو علم یا مال حاصل کرایا۔ یعنی اس تک پہنچادیا) تاہم اس فعل کا یہ (دو مفعول والا) استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔

·       اس فعل میں بنیادی طور پر تو ’’کسی نفع بخش شے کے حصول کی کوشش۔ یا خوش نصیبی حاصل کرنے کی کوشش‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے۔ تاہم کبھی یہ ’’نفع کی بجائے نقصان اُٹھا بیٹھنے‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا استعمال نیکی بدی دونوں کے آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کا زیادہ استعمال ’’بدی‘‘ کے لیے آیا ہے۔ یہ متعدی فعل ہے اور اس کا مفعول بنفسہ (منصوب) آتا ہے۔ البتہ بعض دفعہ مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے۔ زیادہ تر استعمال اس کا ’’مَا‘‘ کے ساتھ آیا ہے یعنی دراصل ’’ما‘‘ مفعول ہوتا ہے جو فعل سے پہلے مذکور ہوتا ہے۔ اور فعل کے بعد اس (مَا) کے لیے عائد ضمیر (مفعول) محذوف ہوتی ہے۔ جیسے یہاں زیر مطالعہ آیت میں ہے (گویا اصل تھا ’’ممّا یکسبونہ‘‘)

·       اس طرح اس عبارت ’’ممّا یکسبون‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’بوجہ اس کے جو کہ وہ کماتے ہیں‘‘ جسے بعض نے ’’ایسی کمائی کرتے ہیں/ حاصل کرتے ہیں/ کام کرتے ہیں‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اور بہت سے مترجمین نے یہاں ’’مَا‘‘ کو مصدریہ سمجھ کر ترجمہ ’’اپنی کمائی سے/ اس کمائی سے/ اس کمائی پر/ اپنی کمائی/ اپنی اس کمائی‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ اس میں ’’سے‘‘ اور ’’پر‘‘ دراصل ’’کی وجہ سے‘‘ (مِنْ) کا مفہوم رکھتے ہیں۔ بعض نے ماضی کے ساتھ ترجمہ کیا ہے (وصول کرلیا کرتے تھے) جو اصل عبارت کے مطابق درست معلوم نہیں ہوتا۔

 

۲:۴۹:۲     الاعراب

بلحاظ ترکیب نحوی زیر مطالعہ قطعہ آیات کو چھ جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں سے بعض ’’واو الحال‘‘ اور ’’ثم عاطفہ‘‘ کے ذریعے باہم ملائے گئے ہیں۔ تفصیل یوں ہے:

 (۱) وَمِنْھُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِىَّ

[وَ] عاطفہ ہے جو مضمون کے تسلسل کے لیے جملے کو جملے سے ملاتی ہے [منھم] جار مجرور (من+ھم) مل کر خبر مقدم کا کام دے رہے ہیں اور [اُمِّیُّوْن] مبتداء موخر (لہٰذا) مرفوع ہے اور یہ نکرہ موصوفہ ہے جس میں ’’جوکہ‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے (یعنی ان میں سے کچھ یا بہت سے اَن پڑھ جو کہ) [لایعلَمون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین (ھم) ہے اور [الکتاب] اس فعل کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے علامتِ نصب آخری ’’باء‘‘ کی فتحہ (بَ) ہے۔ یہ جملہ (لایعلمون الکتابَ) ’’امّیّون‘‘ (نکرہ موصوفہ) کی صفت ہے اس لیے اسے محلاً مرفوع کہہ سکتے ہیں (یعنی جو نہیں جانتے کتاب کو) [اِلّا] حرف استثناء ہے اور [امانِیَّ] مستثنیٰ باِلّا ہے اور یہ استثنا منقطع ہے کیونکہ ’’علم الکتاب‘‘ اور ’’امانِیَّ‘‘ دو بالکل الگ چیزیں ہیں اس لیے یہاں ’’امانِیْ‘‘ کی نصب لازمی ہے (چاہے استثناء سے پہلے جملہ منفی بھی ہے) یعنی ’’ان کے پاس‘‘ علم کتاب‘‘ نہیں بلکہ صرف (جھوٹی) آرزوئیں ہیں‘‘۔ اس عبارت (لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِىَّ) کی ایک اور توجیہ بھی ہوسکتی ہے کہ فعل ’’عِلم‘‘ کو یہاں دو مفعول کے ساتھ آنے والا فعل سمجھا جائے جیسے ’’ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ ‘‘ (الممتحنہ:۱۰) میں استعمال ہوا ہے۔ (یعنی اگر تم ان عورتوں کو ایمان والیاں جانو/ سمجھو) اس صورت میں ترجمہ ہوگا ’’وہ نہیں جانتے/ سمجھتے کتاب کو مگر صرف آرزوؤں کا مجموعہ‘‘ گویا وہ ایسے جاہل ہیں کہ کتابِِ الٰہی کو مجموعہ اوامر و نواہی (جن پر عمل مطلوب ہے) نہیں بلکہ محض ’’مجموعہ اورادو  وظائف‘‘ ہی سمجھتے ہیں جو ’’دل خوش رکھنے کا سامان‘‘ ہے۔

(۲)   وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ

[وَ] یہاں حالیہ ہے اور [اِنْ] نافیہ بمعنی ’’مَا‘‘ ہے [ھم] ضمیر مرفوع منفصل مبتداء ہے۔ [اِلَّا] حرف استثناء ہے جو یہاں حصر کے لیے آیا ہے کیونکہ اس سے پہلے نفی (اِنْ) آتی ہے یعنی یہ بمعنی ’’صِرف و محض‘‘ آیا ہے کیونکہ ’’نہیں ہے مگر‘‘ مل کر ’’صِرف‘‘ کا مفہوم دیتا ہے [یظنّون] فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ (مستتر) جملہ فعلیہ بن کر ’’ھم‘‘ مبتداء کی خبر ہے۔ دراصل تو یہاں لفظ ’’قوم‘‘ خبر مقدر ہے جس کی صفت ’’یظنون‘‘ ہے یعنی مفہوم عبارت ’’وَاِنَّ ھم اِلّا قومٌ یظنون‘‘ (حالانکہ وہ صرف ایسے لوگ ہیں جو ظن میں مبتلا ہیں)ہے اور یہ پورا جملہ (وان ھم الّا یظنون) حالیہ ہے جو سابقہ جملے کے فعل ’’لایعلمون‘‘ کی ضمیر فاعلین (ھم) کا حال ہونے کی بناء پر اسی سابقہ جملے (وَمِنْھُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِىَّ) کا ہی ایک حصہ شمار ہوگا کیونکہ حال ذوالحال ایک جملے میں شامل ہوتے ہیں۔ چاہیں تو ایک دفعہ اس جملے (وإن  ھم الا یظنون) کے تراجم پر (حصہ اللغۃ میں) نظر ڈال لیں۔

(۳)   فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْهِمْ

[فَ] یہاں مستانفہ ہے یعنی یہاں سے ایک الگ جملہ اور الگ مضمون شروع ہوتا ہے یا اس ’’فاء‘‘ کو سببیہ بھی سمجھا جاسکتا ہے یعنی ’’اس کی وجہ سے‘‘ کے معنی میں۔ [ویل] مبتداء (لہٰذا) مرفوع ہے جو یہاں بددعا کے لیے آیا ہے اور دعا یا بددعا کی صورت میں مبتداء نکرہ لایا جاسکتا ہے جیسے ’’سلامٌ علیکم‘‘ میں ہے [للذِین] لام الجر (لِ) کے بعد ’’الذین‘‘ اسم موصول ہے جو مبنی ہے لہٰذا مجرور بالجر ہونے کے باوجود اس میں کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہے۔ اس کے بعد [یکتبون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے جو ’’الذین‘‘ کے لیے ہے اور یہ جملہ فعلیہ (یکتبون) اس ’’الذین‘‘ کا صلہ ہے بلکہ یہ صلہ آگے چلتا ہے یعنی صلہ والا جملہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔ چنانچہ آگے [الکتاب] اسی فعل (یکتبون) کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ [بایدیھم] میں باء الجر (بِ) کے بعد ’’ایدی‘‘ مضاف اور ’’ھم‘‘ مضاف الیہ ہے اور یہ مرکب اضافی (ایدیھم) باء الجر کے باعث اس کا مضاف (ایدی) مجرور ہے علامت جر اس میں آخری یاء ماقبل مکسور (ـــــِــــی) کا سکون ہے (جو دراصل ’’بِایْدِھِمْ‘‘ تھا مگر یاء مکسور یا مضموم ماقبل مکسور ساکن ہو جاتی ہے)اور یہ مرکب جاری (بایدیھم) متعلق فعل ’’یکتبون‘‘ ہے اور اس طرح دراصل پورا جملہ ’’یکتبون الکتابَ بایدیھم‘‘ (جس میں فعل فاعل مفعول اور متعلق فعل شامل ہیں) ’’الذین‘‘ کا صلہ بنتا ہے۔ اور یوں یہ پورا صلہ موصول ابتدائی لام الجر (لِ) کے ذریعے ’’ویلٌ‘‘ کی خبر کا کام دیتا ہے۔ اس جملے کے تمام اجزاء کے تراجم حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بیان ہوچکے ہیں۔

(۴)   ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوْا بِهٖ ثَــمَنًا قَلِيْلًا    

[ثُمَّ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے ما بعد والے فعل (یقولون) کو سابقہ جملے والے فعل (یکتبون) پر عطف کیا گیا ہے یعنی ’’لکھتے ہیں پھر کہہ دیتے ہیں‘‘ [یقولون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے [ھذا] مبتداء ہے اور [مِنْ عندِ اللّٰہ] میں ’’مِن‘‘ حرف الجر اور ’’عندہ‘‘ ظرف مضاف اور مجرور بالجر (مِنْ) بھی ہے اور ’’اللّٰہ‘‘ مجرور بالاضافہ یعنی مضاف الیہ ہے اور یہ سارا مرکب جاری (من عندِ اللّٰہِ) ’’ھذا‘‘ کی خبر یا قائم مقام خبر ہے۔ اور یہ جملہ اسمیہ (ھذا من عند اللّٰہ) فعل ’’یقولون‘‘ کا مقول (مفعول) ہونے کے اعتبار سے محلاً منصوب ہے [لیشتروا] کا ابتدائی لام (لِ) لامِ کَیْ یا لامِ تعلیل ہے جس کی وجہ سے ’’لیشتروا‘‘ فعل مضارع منصوب ہے (لامِ تعلیل کے بعد ایک ’’أنْ‘‘ مقدر سمجھا جاتا ہے اور دراصل وہی ناصب ہوتا ہے یعنی ’’لِاَن‘‘) علامتِ نصب اس صیغۂ فعل میں آخری ’’ن‘‘ کا گر جانا ہے (جو دراصل ’’لیشترون‘‘ تھا) اور اس صیغہ میں واو الجمع ضمیر الفاعلین (ھم) کی علامت ہے۔ [بہ] جار مجرور (ب+ہ) متعلق فعل (لیشتروا) ہیں [ثمنًا] اس فعل کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے اور [قلیلاً] اس کی صفت (منصوب) ہے اس طرح ’’ثم‘‘ کے ذریعے یہ دونوں جملے (نمبر۳، نمبر۴ مندرجہ بالا) دراصل ایک ہی طویل جملہ (بلحاظ مضمون مربوط) بنتا ہے۔

(۵)    فَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَيْدِيْهِمْ

[ف] یہاں بھی استیناف کے لیے ہے یعنی یہاں سے ایک الگ جملہ شروع ہوتا ہے۔ اور اسی لیے سابقہ جملے کے آخر پر (ثمنا قلیلا کے بعد) وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے [ویلٌ] سابقہ جملے (نمبر۳ مندرجہ بالا) کی طرح یہاں بھی مبتدأ ہے (نکرہ ہونے کا جواز بھی اوپر بیان ہوا ہے) یہاں بددعا کی تکرار تاکید (لفظی) کے لیے ہے۔ [لھم] جار مجرور مل کر ’’ویل‘‘ کی خبر کا کام دے رہے ہیں [مِمَّا] جو جار (من) اور مجرور (مَا موصولہ) ہیں۔ ان کا تعلق بھی ’’ویل‘‘ سے ہے یعنی ’’ویل‘‘ (تباہی) اس سبب سے ہے کہ [کتبتْ] فعل ماضی معروف صیغہ واحد مؤنث غائب ہے۔ [ایدیھِمْ] مضاف (ایدِیْ) اور مضاف الیہ (ھم) مل کر فعل ’’کتبتْ‘‘ کا فاعل ہے اس لیے ’’ایدی‘‘ یہاں حالت رفع میں ہے۔ مگر اسم منقوص میں رفع اور جر کی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ یا یوں سمجھئے کہ یہ دراصل ’’اَیْدِیُھُمْ‘‘ تھا مگر یائے مضمومہ (اور یائے مکسورہ بھی) کا جب ماقبل مکسور ہو تو وہ ساکن ہو جاتی ہے (جیسے ’’یَرْمِیٌ‘‘ سے ’’یَرْمِیْ‘‘ ہو جاتا ہے) اور فاعل (ایدی) کے جمع مکسر ہونے کی وجہ سے فعل (کتبت) کا صیغہ واحد مؤنث لایا گیا ہے۔ یہاں ’’مِمَّا‘‘ کے ’’مَا‘‘ کو موصولہ بھی سمجھا جاسکتا ہے اس صورت میں جملہ ’’کتبتْ ایدیھم‘‘ اس کا صلہ ہے اور ترجمہ ’’اس کی وجہ سے جو کہ (لکھا ان کے ہاتھوں نے)‘‘ ہوگا۔ اور اس ’’مَا‘‘ کو مصدریہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں ’’کتبت‘‘ کا ترجمہ مصدر مؤوّل ’’کتابۃ‘‘ کے ساتھ (یعنی ’’من کتابۃ ایدیھم‘‘ کی طرح ’’ان کے ہاتھوں کے لکھنے کی وجہ سے‘‘ کے ساتھ ہوگا۔ دونوں طرح کے تراجم حصّہ ’’اللغۃ‘‘ میں بیان ہوچکے ہیں۔

(۶)    وَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا يَكْسِبُوْنَ  

[وَ] عاطفہ ہے جس سے (اگلے) جملے کا (پچھلے) جملے پر عطف ہے [وَیْلٌ] مثل سابق مبتداء (لہٰذا) مرفوع ہے نکرہ ہونے کی وجہ اوپر بیان ہوئی ہے [لھم] جار مجرور (ل+ھم) مل کر ’’ویلٌ‘‘ کی خبر کا کام دے رہے ہیں [مِمَّا] جار مجرور (من+ما) کا تعلق ’’ویل‘‘ سے ہے یعنی اس کی وجہ بیان کی گئی ہے [یکسِبُون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ (مستتر) ہے یعنی جملہ فعلیہ ہے اور یہاں بھی اگر ’’مِمَّا‘‘ کے ’’مَا‘‘ کو موصولہ سمجھا جائے تو یہ (یکسبُون) اس کا صلہ ہے اور اس کے آخر پر ضمیر عاید محذوف ہے (یعنی مفہوم ’’یکسبونہ‘‘ کا ہے) اور اگر ’’مِمَّا‘‘ کے ’’مَا‘‘ کو مصدریہ سمجھیں تو ترجمہ مصدر مؤوّل ’’کَسْب‘‘ کے ساتھ ’’من کسبِھم‘‘ کی طرح کیا جائے گا۔ دونوں طرح سے تراجم حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں گزر چکے ہیں۔ یہ آخری جملہ ’’وَ‘‘ عاطفہ کے ذریعے سابقہ جملے (نمبر۵) کا ہی ایک حصّہ بنتا ہے یعنی دونوں کے ترجمے کے درمیان ’’اور‘‘ کا ہی اضافہ ہوگا۔

 

۳:۴۹:۲      الرسم

قطعہ زیر مطالعہ کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے۔ البتہ تین کلمات وضاحت طلب ہیں۔ یعنی ’’الکتب‘‘، ’’مِمَّا‘‘ اور ’’ھذا‘‘ کلمہ ’’الکتب‘‘ جس کا رسم املائی ’’الکتاب‘‘ ہے۔ (جو یہاں دو دفعہ آیا ہے) قرآن مجید میں ہر جگہ (سوائے چار خاص مقامات کے) بحذف الف بعد التاء لکھا جاتا ہے معرفہ ہو یا نکرہ اور مفرد ہو یا مرکب۔ ’’مِمَّا‘‘ (یہ بھی یہاں دو دفعہ ہے) یہ دراصل ’’من ما‘‘ ہے مگر قرآن میں عموماً ہر جگہ موصول (ملا کر) ’’مِمَّا‘‘ لکھا جاتا ہے ان دونوں کلمات (الکتاب اور مِمَّا) کے رسم پر تفصیلی بحث [۳:۱:۲] میں ہوچکی ہے۔

·       کلمہ ’’ھذا‘‘ کا رسم الخط اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس کا رسمِ عثمانی اور عام رسم املائی دونوں اسی طرح بحذف الالف بعد الہاء (یعنی ’’ھذا‘‘) ہے (حالانکہ بظاہر رسم قیاسی ’’ھاذا‘‘ ہونا چاہیے تھا)۔ اس طرح کے بعض کلمات (مثلاً ذٰلک۔ اولئک وغیرہ) پہلے بھی گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی ایسے کئی کلمات ہمارے سامنے آئیں گے جن کا رسم املائی۔ عام قیاسی رسم کی بجائے۔ رسمِ قرآن والا ہی اختیار کیا گیا۔ یعنی ان کا رسم املائی دراصل رسم عثمانی کی یادگار ہے۔ اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اصل چیز رسم قرآنی یا رسم عثمانی (عہد نبوی اور خلافتِ راشدہ تک کا رائج رسم الخط) ہی تھا۔ اس میں بعض اصطلاحات یا تبدیلیاں کرکے رسمِ املائی کے قواعد بنائے گئے۔ یہ نہیں کہ رسمِ املائی کو توڑ مروڑ کر (کسی مصلحت کے تحت) رسم عثمانی بنایا گیا۔ جیسا کہ عام طور پر کتب رسم میں بیان کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں بہت سے کلمات ایسے ہیں جن کی املاء (رسم) صوتی اصول کے تحت نہیں۔ بلکہ تاریخی اصول کے تحت اختیار کی گئی ہے۔

 

۴:۴۹:۲     الضبط

ان دو آیات کے کلمات میں ضبط کا تنوع درج ذیل مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یکساں ضبط والے کلمات شامل نہیں کیے گئے۔