سورۃ البقرہ آیت نمبر ۸

۷:۲       وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ  (۸)

 ۱:۷:۲     اللغۃ

۱:۷:۲(۱)     [وَ] ’’وَ‘‘ کے مختلف معانی اور استعمالات پر الفاتحہ  میں بات ہوچکی ہے۔ دیکھئے۱:۴:۱(۳) وہاں واو کی چارقسموں اور ان کے اردو ترجمہ پر بات ہوئی تھی یعنی واو العطف ۱؎ ، واو القسم ۲؎ ، واو الحال ۳؎ اور واو المعیت۴؎  ۔ اب یہاں ’’واو‘‘ کی ایک نئی قِسم یا نئے استعمال کا ذکر ضرور ی معلوم ہوتا ہے۔ لغوی اسے واو الاستیناف کہتے ہیں جس کا مطلب ہے نئی عبارت یا نیا مضمون شروع کرنے والی ’’و‘‘ ـــ اردو میں واو العطف (واو عاطفہ) اور واوالاستیناف (یا واو مستأنفہ)ـــ دونوںـــ کا ترجمہ ’’اور‘‘سے ہی کرنا پڑتا ہے مگر مفہوم کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے۔ واو ا  لعطف دو چیزوں (معطوف اور معطوف علیہ) کو ایک ہی حکم (بلحاظ مضمون) میں جمع کرتی ہے مگر واو الاستیناف دو مضمونوں کو علیحدہ کرتی ہے اور اس سے ایک الگ جملے کی ابتداء ہوتی ہے۔ (اور استیناف کے معنی یہی ’’نئے سرے سے بات شروع کرنا‘‘ ہی ہوتے ہیں)ـــ اس کی مثال یہی لیجئے۔ اگر ہم یہاں سابقہ آیت کے آخری الفاظ اور زیرِ مطالعہ آیت کے ابتدائی الفاظ کو ساتھ ساتھ لکھیں اور درمیانی واو کو عاطفہ سمجھ لیں تو ’’ لھم عذاب عظیم ومن الناس من‘‘ کا ترجمہ ہو جائے گا ’’ان کے لئے بڑا عذاب ہوگا اور لوگوں میں سے وہ بھی جو…‘‘ـــ اس ترجمہ کا کوئی  ُتک نہیں بنتا ـــلہٰذا ہم یہاں ’’وَ‘‘ کو مستانفہ قرار دے کر یہاں سے ایک نئے مضمون کی ابتداء کریں گےـــ دراصل ایسے موقع پر ’’وَ‘‘ کا اصل مفہوم ’’اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ……‘‘ کی قِسم کا ہوتا ہے مگر عام اردو محاورے میں نیا جملہ بھی ’’اَوْر‘‘ سے شروع کرنے پر ہی اکتفاء کیاجا تا ہے۔

۱:۷:۲(۲)     [مِنَ] یہ دراصل ’’مِنْ‘‘ ہی ہے جسے آگے ’’ النّاس‘‘ کے ’’نون‘‘ ساتھ مِلانے کے لیے (کیونکہ ’’ النَّاسِ‘‘ کا ابتدائی ’’الف‘‘ تو ہمزۃ الوصل ہے اور ’’ل‘‘ اس وجہ سے خاموش ہوگا کہ اس کے بعد ’’ن‘‘ حرف ِشمسی ہے)  مِنْ کے ساکن ’’ن‘‘ کو حرکت دی گئی ہے۔ ِ کسی حرف ساکن کو آگے مِلانے کے لیے عموماً کسرہ (ــــــِــــ) کی حرکت دی جاتی ہے تاہم کبھی فتحہ (ــــــَــــ) یا ضمہ (ـــــُـــــ) سے بھی ملا دیتے ہیں۔ دراصل یہ عربوں کے تلفظ کے طریقے پر منحصر ہے۔ یہاں یہ فرق قابلِ ذکر ہے کہ ’’مَنْ‘‘  موصولہ یا استفہامیہ (بمعنی جو کہ یا کون؟) کو آگے ملانا پڑے تو نون کو کسرہ (ــــــِــــ) دیتے ہیں مگر ’’مِنْ‘‘ (بمعنی میں سے) کو آگے مِلانا ہو تو اس کے ’’نون‘‘ کو ہمیشہ فتحہ (ــــــَــــ) کے ساتھ ملاتے ہیں۔ قرآن کریم میں تو خیر حرکات لگی ہوئی ہوتی ہیں۔ بغیر حرکات کی عبارت کے درست تلفظ کے لیے اس قسم کے قواعد (مثلاً مَنْ اور مِنْ کو آگے ملانے کا فرق) ہی قاری(اورعربی دان قاری) کو مدد دیتے ہیں۔

·       مِنْ‘‘مشہور حرف الجّر ہے۔ موقع استعمال کے لحاظ سے اس میں جو مختلف معنی پیدا ہوتے ہیں ان پر ہم البقرہ:۳ میں بات کرچکے ہیں۔[ دیکھئے ۱:۲:۲ (۵) میں] ـــ زیرمطالعہ آیت میں ’’مِن‘‘ تبعیض کا ہے یعنی یہاں اس کا ترجمہ ’’…میں سے (بعض)‘‘ کے ساتھ ہوگا۔

۱:۷:۲(۳)     [النَّاسِ]اس لفظ (الناس)کے مادہ اور وزن کے بارے میں اہل لغت نے متعدّد اقوال بیان کئے ہیں جن کی تفصیل یوں ہے :۔

۱۔      پہلا قول یہ ہے کہ اس کا مادہ ’’ن وس‘‘اور وزن اصلی ـــ لام تعریف نکال کرـــ ’’فَعَلٌ‘‘ ہے یعنی اس کی اصلی شکل ’’نَوَسٌ‘‘ تھی جس کی ’’و‘‘ متحرکہ ماقبل کے مفتوح ہونے کی وجہ سے ’’الف‘‘ میں بدل گئی اور اس طرح لفظ ’’ناسٌ‘‘بنا جو معرف باللّام ہو کر ’’ الناس‘‘ ہوگیا ہے۔ یہ لفظ اکثر معرف باللّام ہی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ تقریباً دو سو چالیس (۲۴۰) جگہ آیا ہے اور ہر جگہ معرّف باللّام (الناس) ہی آیا ہے۔ کبھی کبھار یہ لفظ بصورت نکرہ ’’ناسٌ‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم یہ بصورت نکرہ قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا البتّہ عربی اشعار وغیرہ میں آیا ہے۔ اس مادہ (ن و س) سے فعل ثلاثی مجردناس ینوس نوسًا (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’ہلنا‘‘(حرکت کرنا) اور’’ہانکنا‘‘ہوتے ہیں۔ تاہم یہ فعل بھی قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔ معاجم (ڈکشنریوں) میں عموماًیہ لفظ (الناس) اسی مادہ (نوس) کے تحت ہی بیان کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ (ناسٌ) ’’قوم‘‘ اور ’’رھط‘‘ کی طرح اسم جمع کا لفظ سمجھا جاتا ہے۔

۲۔دوسراقول یہ ہے کہ اس (الناس) کا مادہ ’’ا ن س‘‘ ہے جِس سے فعل ثلاثی مجرد ’’اَنَس یأنِس اَنْسًا‘‘ (باب ضرب سے) اور انِس یأنَس أنَسا (باب سمع سے) اور کبھی انُس یا نُس اُنْساً (باب کرم سے) آتا ہے۔ اور تینوں میں اس کے معنی ’’مانوس ہونا‘‘، ’’ساتھ رہ کر خوش ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ فعل بھی بصورت مجرد تو قرآن کریم میں مستعمل نہیں ہوا۔ البتہ اس کے مزید فیہ کے ایک آدھ باب سے کچھ صیغے آئے ہیں۔ جن کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ۔ اس مادہ (انس)سے ہی لفظ ’’انسان‘‘ اور ’’اِنْسِیٌّ‘‘ واحد کے لیے اور ’’اِنْسٌ‘‘ جمع کے لیے (عموماً پوری جنس بشریت کے لئے) استعمال ہوتے ہیں۔ پھر ’’انسان‘‘ اور ’’ اِنْسِیٌّ‘‘ دونوں کی جمع تو ’’اَنَاسِیٌّ‘‘ (غیر منصرف) آتی ہے۔ اور صرف کلمہ ’’اِنْسٌ‘‘ کی جمع (اگر چہ وہ خود بھی بمعنی جمع ہی استعمال ہوتا ہے) ’’اُناسٌ‘‘ (بروزن فُعَالٌ) آتی ہے۔ یہ تمام الفاظ (انسان۔ اِنسِیّ۔اِنسٌ اور اُنَاسٌ) قرآنِ کریم میں وارد ہوئے ہیں اور ہر ایک کا بیان اپنی جگہ آئے گا۔

·       اسی طرح جو اہل علم لفظ ’’ الناس‘‘ کا مادہ ’’ان س‘‘بتاتے ہیں ان کے نزدیک اس کی اصل ـــ ناس کی معرف باللام شکل‘ـــ ’’الاُناس‘‘ ہے جو کثرت استعمال سے ’’ الناس‘‘ ہوگیا۔ جیسے بقول بعض ’’الاِلٰہُ‘‘سے ’’اللّٰہ‘‘ بن گیا (دیکھئے ۱:۱:۱(۲) بسم اللہ کی بحث میں)۔ اس صورت میں یہ (الناس) اسم جمع نہیں بلکہ معرف باللام صیغۂ جمع ہی ہے۔ ’’ الناس‘‘کے برعکس لفظ ’’اناسٌ‘‘ اکثر نکرہ ہی استعمال ہوتا ہے ۔کبھی کبھار عربی اشعار میں یہ معرف باللام (الاناس) بھی استعمال ہوا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ لفظ ہمیشہ بصورت نکرہ (اناسٌ) ہی استعمال ہوا ہے۔

۳۔تیسرا قول یہ ہے کہ ’’ الناس‘‘ کا مادہ ’’ن ی س‘‘ہے اور اس کا وزن اصلی ’’فَعِلٌ‘‘ یا ’’فَعَلٌ‘‘ ہے۔ یعنی اصل شکل ’’نَیِسٌ‘‘ یا ’’نَــیَسٌ‘‘تھی جو ’’واو‘‘ یا ’’یاء‘‘ کے الف میں بدلنے کے مشہور صرفی قاعدہ (واو  یا  یاء متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل جاتی ہے) کے ماتحت ’’ناس‘‘ ہو گیا اور یہ بھی   اسم جمع ہی ہے۔ اور اس قول کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ بعض قراء ات (مثلاً الدوری عن کسائی کے ہاں (یہ لفظ (الناس) امالہ کے ساتھ ’’النیس‘‘ (بروزن ’’دیس‘‘) پڑھا جاتا ہے۔ تاہم اس مادہ ’’ن ی س‘‘ سے کوئی فعلـــ مجرد یا مزید فیہـــ عربی زبان میں استعمال نہیں ہوتا۔ اور امالہ کرنے والے بھی اسے ہر جگہ امالہ کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ گویا بات مادہ کی نہیں بلکہ روایت ِقراء ت کی پابندی کی ہی ہے۔

۴۔چوتھا قول یہ ہے کہ اس (الناس) کا مادہ ’’ن س ی‘‘ ہے جس سے فعل ثلاثی مجرد ’’نسِی… ینسی نسیانًا ‘‘ (سمع سے) زیادہ تر بمعنی ’’بھول جانا یا بھلا دینا‘‘ قرآن کریم میں بھی آیا ہے۔ اس صورت میں لفظ ’’ الناس‘‘ کی اصلی شکل ’ ’ النَسْیُ‘‘ یا ’’النَسَی‘‘ تھی۔ یعنی اس کا وزنِ اصلی  فَعْلٌ یا  فَعَلٌ تھا۔ پھر لام کلمہ کو عین کلمہ کی جگہ کر دیا گیا ـــ [اور کثرت استعمال کی بناء پر الفاظ میں اس طرح کے ’قلب‘یعنی الٹ پلٹ کی مثالیں عربی زبان میں بکثرت ملتی ہیں۔ جیسے پنجابی میں ’’چاقو‘‘ کو ’’قاچو‘‘ کہہ دیتے ہیں]اور یوں یہ لفظ ’’النِیَس‘‘ ہو کر پھر ’’ الناس‘‘ بن گیا۔ اور اس کا وزن الٹ کر ’’فَلَعٌ‘‘ رہ گیا ہے۔ اور اس لفظ کی یہ اصل بھی امالہ کی ایک وجہ ہوسکتی ہےـــ اور بقول بعض اس لفظ (الناس) کی اسی مادے (ن س ی) سے اصل شکل ’’اِنْسِیان‘‘ بروزن ’’اِفْعِلان‘‘سے ہے جس میں تبدیلی ہوکر ’’انسان‘‘ بنا ـــ پھر اس کی جمع ’’اَنَاسُ‘‘ معرف باللّام ہوکر ’’ الناس‘‘ بن گئی۔

·       اور اس مادے (نسی) کے بارے میں علمی دلیل سے زیادہ ایک شاعرانہ توجیہ یہ بھی ہے کہ فعل ’’نسِیَ‘‘ سے اسم الفاعل ’’ناسٍ‘‘ (بھول جانے والا) بنتا ہے اور چونکہ ابوالبشر آدم علیہ السلام کے فرمان الٰہی کو بھول جانے کا ذکر قرآن کریم (طٰہٰ:۱۱۵) میں آیا ہے۔ اسی سے تلمیحاً یہ کہا جاتا ہے کہ ’’اوّل الناسِ اَوَّلُ ناسٍ‘‘ (پہلا انسان پہلا بھول جانے والا تھا)ـــ بہر حال مادہ جو بھی ہو لفظ ’’ الناس‘‘ یا تو اسمِ جمع ہے یا صیغہ جمع ہے۔ اور اس کا موزوں اردو ترجمہ ’’لوگ‘‘ ہے جو اردو میں بھی اسم جمع ہے۔ (لوگ آئے)۔ اگرچہ بعض افعال کے ساتھ (اردو میں) اس کی جمع ’’لوگوں ‘‘ بھی مستعمل ہے۔

۱:۷:۲  (۴)     [مَنْ] یہ ایک مبنی (برسکون) اسم  ہے (یعنی اس کا آخری ’’ن‘‘ ہمیشہ ساکن ہی ہوتا ہے سوائے اس کے کہ کبھی آگے ملانے کے لیے اس کو کسرہ (ــــــِــــ)دی جاتی ہے) ـــ  اس کے معانی اور مواقعِ استعمال بھی متعدد ہیں جن کی تفصیل یوں ہے:

۱۔      کبھی یہ ’’ مَنْ ‘‘ استفہامیہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ ’’کون؟‘‘ سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ عربی زبان میں یہ (مَنْ) واحد تثنیہ جمع مذکر مؤنث سب کے لیے آتا ہے(انگریزیWho?کی طرح)۔ اگرچہ اردو میں حسب موقع اس کے لیے مختلف الفاظ مثلاً  ’’کون‘‘ یا ’’کس‘‘ استعمال ہوئے ہیں۔ اور کبھی عبارت میں زور پیدا کرنے کے لیے ’’ مَنْ ‘‘ کے ساتھ ’’ذا‘‘ لگا دیتے ہیں۔ یعنی ’’ مَنْ ذا‘‘؟ـــ یہ ’’ذا‘‘ دراصل ’’ھذا‘‘ کی مخفّف (بلکہ اصلی) شکل ہے[ دیکھئے ۱:۱:۲ (۱)] اور اس کی اردو میں مثال ایسی ہے جیسے کہیں ’’یہ کام کس نے کیا؟‘‘ اور زور دینے کے لیے کہیں ’’۔کون ہے جس نے یہ کام کیا؟‘‘ ـــ اور کبھی ’’ مَن؟‘‘ یا ’’مَن ذا؟‘‘ کے بعد آنے والے فقرے کے بعد ’’اِلاَّ‘‘ لگا کر ایک اور فقرہ لاتے ہیں جس سے اس میں استفہام انکاری یعنی نفی کے معنی پیدا ہوتے ہیں اس وقت ’’ مَنْ ‘‘ یا ’’ مَنْ ذا‘‘ کا اردو ترجمہ ’’کون‘‘ یا ’’وہ کون ہے جو‘‘ کے ساتھ کرنے کی بجائے ’’کوئی نہیں جو‘‘ کے ساتھ کرنا زیادہ موزوں لگتا ہے جیسے ’’مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہُ‘‘ (آل عمران: ۱۳۵) اورمَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِه‘‘ (البقرہ:۲۵۵) میں آیا ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ کے اس قسم کے استعمالات پر اپنی اپنی جگہ وضاحت ہوگی ان شاء اللہ ۔

۲۔     کبھی ’’ مَنْ‘‘ موصولہ ہوتا ہے جو ’’ الذي‘‘ کے معنی میں آتا ہے البتہ لفظی فرق یہ ہے کہ ’’ مَنْ‘‘ واحد تثنیہ جمع مذکر مؤنث سب کے لیے استعمال ہوتا ہے (اتفاق سے اس استعمال (موصول ہونے) کے لحاظ سے بھی ’’ مَنْ‘‘ انگریز ی کے ’’Who‘‘ کی مانند ہی ہے)ـــ اور مبنی ہونے کے باعث یہ تینوں حالتوں یعنی رفع نصب جر ـــ میں یکساں رہتا ہے جب کہ ’’ الذي‘‘ کی مختلف صورتیں ہیں [دیکھئے۱:۶:۱(۱)]نیز یہ (مَنْ) زیادہ تر عاقل اشیاء کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس (مَنْ موصولہ) کا عام اردو ترجمہ تو ’’جو‘‘ ہے۔ تاہم عدد، جنس اور بعض افعال کی مناسبت سے حسب ِ موقع اس کا ترجمہ ’’جو کہ ‘‘، ’’جس نے (کہ)‘‘، ’’جس کو‘‘، ’’جس کا‘‘، ’’جنہوں نے‘‘، ’’جن (سے؍کا؍کو)‘‘ کے ساتھ کرلیاجاتا ہے۔ اس میں عموماً معرفہ کے معنی ہوتے ہیں یعنی اس کا ترجمہ ’’وہ جو ‘‘ یعنی وہ (خاص) آدمی یا لوگ جو ‘‘ ہونا چاہئے تاہم کبھی کبھی یہ (من موصولہ) نکرہ موصوفہ کے طَور پر بھی استعمال ہوتا ہے اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’کوئی ایسا جو‘‘یا ’’بعض ایسے جو ‘‘ سے کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔

۳۔    ’’مَن‘‘ کا ایک استعمال ’’شرطیہ‘‘ کا ہے یہ (مَنْ شرطیہ) اپنے بعد آنے والے فعل (مضارع) اور شرط کے جواب میں آنے والے فعل (مضارع) (دونوں) کو جَزم دیتا ہے جیسے ’’ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا يُّجْزَ بِهٖ ‘‘لنسا: ۱۲۳) میں اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’جو کوئی بھی‘‘، ’’جس کسی نے بھی‘‘ وغیرہ کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اور چونکہ شرط میں ہمیشہ مستقبل کا مفہوم ہوتا ہے۔ (شرط ماضی کے بارے میں تو ہو ہی نہیں سکتی) اس لیے اگر ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ کے ساتھ فعل ماضی بھی آئے (جیسے ’’ مَنْ عَمِلَ صَالحًا….‘‘ (المومن:۴۰) میں) تو بھی اس کا اردو ترجمہ فعل مستقبل کے ساتھ ہی کیا جانا چا ہئے۔

        ’’ مَنْ‘‘کی ان تین معروف اقسام (استفہامیہ، موصولہ اور شرطیہ) اور ان کے مواقع استعمال کو ذہن میں رکھئے۔ آگے چل کر یہ چیز کسی عبارت کے اعراب اور معنی سمجھنے میں مدد دے گی۔

۱:۷:۲(۵)     [یَقُوْلَ] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’یَفْعُلُ‘‘ ہے یعنی اس کی شکل اصلی ’’یَقْوُلُ‘‘ تھی۔ جس میں عربوں کے تلفظـــ یا صرفی قاعدہ ۔۔کے مطابق ’’و‘‘ کی حرکت (ـــــُـــــ) ماقبل ساکن (ق) کو دے کر خود ’’واو‘‘ کو اس حرکت کے موافق حرف میں بدل دیتے ہیں۔ جو موجودہ صورت میں ’’واو‘‘ ہی رہتی ہے۔ اس طرحیَقْوُلُ ـــ یقُول میں بدل جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’قال یقول قَوْلًا‘‘۔ دراصل قوَل یَقْوُل قَولًا۔ (باب نصر سے) آتا ہے جس کا عام مصدری اردو ترجمہ ’’کہنا‘‘ ہے۔ تاہم سیاق و سباق اور مضمون کی مناسبت سے بعض دفعہ اس کاترجمہ ’’فرمانا‘‘ اور کبھی ’’عرض کرنا‘‘ یاکسی اور مناسب فعل سے بھی کرلیا جاتا ہے۔ یہاں ’’ یقول‘‘ فعل مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے جس کا ترجمہ ’’کہتا ہے‘‘ ہو گا۔ اس فعل (قالَ) کے مفعول (یعنی کیا کہا؟) کے لیے عموماً تو کوئی جملہ ہی آتا ہے لیکن اگر جملے کی بجائے کوئی ’’اسم‘‘ آجائے تو وہ مفعول بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) آتا ہے (لہٰذا منصوب ہوتا ہے) جیسے ’’وَاللّٰهُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ‘‘ (الاحزاب:۴) اور ’’قَالُوْا سَلامًا‘‘ (ھود:۶۹) میں اور جس ’’سے‘‘ بات کی جائے (یعنی مخاطب) تو اردو کے اس ’’سے‘‘( کہا) کے لیے عربی میں فعل ’’ قال‘‘ کے بعد لام الجر (لِ) بطور صلہ کے آتا ہے جیسے ’’قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ‘‘ (الاعراف:۱۲۸) میں خیال رہے ’’قالہُ‘‘ کا مطلب ہے ’’اس نے وہ (بات)کہی‘‘ اور ’’قال لہُ‘‘ کے معنی ہیں ’’اس نے اس سے کہا‘‘ ایسے موقع پر اردو کے ’’سے‘‘ کا ترجمہ عربی میں ’’مِنْ‘‘ سے کرنا شدید غلطی ہوگی اور مخاطب کو مفعول بنفسہٖ سمجھ لینا بھی ویسی ہی غلطی ہے۔

        اس فعل ثلاثی مجرد(قال یقول) کے مختلف صیغے، مصدر اور بعض مشتقات قرآن کریم میں نہایت کثرت سے وارد ہوئے ہیں اور مزید فیہ کے ایک باب (تفعّل) سے بھی ایک دوصیغے آئے ہیں۔

۱:۷:۲ (۶)     [اٰمَنَّا بِاللّٰهِ] جو ’’آمنَّا‘‘ (جس پر ابھی بات ہوگی) +بِ (بمعنی ’’پر‘‘)+اللّٰہ کا مرکب ہے۔ اس میں کلمہ ’’آمَنَّا‘‘ کا مادہ ’’أم ن‘‘اور وزن اصلی ’’اَفعَلْنَا‘‘ ہے اور اس کی شکل اصلی ’’أَأْمَنْنَا‘‘ تھی۔ جس میں ’’اجتماعِ ھمزتین‘‘ کے باعث ’’أَ أْ‘‘ بدل کر ’’ أَ ‘‘یا ’’ آ‘‘ یا ’’اٰ‘‘ ہوگیا  (اس کے رسم پر آگے بات ہوگی) اور دو ’’نون‘‘ بھی مدغم ہو کر ’’نَّا‘‘ کی صورت اختیار کرگئے اور یوں یہ لفظ’’آمَنَّا‘‘ بنا  ـــ اس مادہ (امن) سے فعل ثلاثی مجرد کے معانی و استعمال ـــ بلکہ اس کے باب افعال (آمن یُؤمن ایمانًا) کے معنی پر اور اس کے صلہ ’’بِ‘‘ کے استعمال پر بھی البقرہ میں بات ہوچکی ہے [دیکھئے۲:۲: ۱(۱)]’’ آمنَّا‘‘ اسی باب افعال سے صیغہ جمع متکلم (فعل ماضی) ہے اور اس کے ساتھ ’’بِاللّٰہ‘‘ لگنے سے اس (آمنّا بِاللہ) کا لفظی ترجمہ تو ہوگا ’’ہم ایمان لائے اللہ پر ‘‘ جسے سلیس اردو میں ’’ہم اللہ پر ایمان لائے‘‘کی شکل دی جاسکتی ہے۔ جب کہ بعض مترجمین نے اردو محاورے کے مد نظر رکھتے ہوئے ’’ہم ایمان رکھتے ہیں‘‘ سے بھی  ترجمہ کیا ہے جو مفہوم کے لحاظ سے درست سہی مگر وہ ’’آمنّا‘‘ سے زیادہ ’’نؤمن‘‘  کا ترجمہ لگتا ہے۔

۱:۷:۲ (۷)     [وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ] اس میں ابتدائی ’’وَ ‘‘  تو عاطفہ (بمعنی’’اور‘‘) ہے اور ’’باء‘‘ (بِ) فعل ’’آمَنَّا‘‘ کا صلہ مکرر (برائے تاکید) آیا ہے۔ اس کی وجہ سے اردو ترجمہ میں ’’پر بھی‘‘ کا اضافہ ہوگاـــ یعنی ’’الیوم الآخر‘‘ پر بھی (ایمان لائے) کلمہ ’’ اَلْیَوْم‘‘ جو یہاں معرّف باللّام ہے کے مادہ ، وزن وغیرہ پر الفاتحہ:۴ کے ضمن میں ۱:۳:۱(۲) بات ہو چکی ہے۔یہاں بھی اس کاترجمہ" يوم الدين‘‘ کی طرح ’’دن‘‘ سے کرنا ہی زیادہ موزوں ہے اور اکثر مترجمین نے یہی کیا ہے دوسرے کلمہ (’’ الآخِر‘‘) کے مادہ، وزن، اشتقاق اور معنی کی بحث اس سے پہلے البقرہ:۴ کے کلمہ ’’ آخرۃ‘‘ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ دیکھئے ۱:۳:۲ (۵) لفظ ’’آخر‘‘ مذکر اور ’’آخرۃ‘‘ مؤنث ہے (اردو میں یہی لفظ بصورت ’’آخرت‘‘ـــ لمبی ’’ت‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے) اس طرح اس مرکب تو صیفی (اليوم الآخر) کا لفظی ترجمہ تو ’’سب سے آخر پر آنے والا دن‘‘ ہونا چاہئے مگر اصطلاحی معنوں (جس پر لفظ ’’آخرۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے) اور اردو محاورے کو سامنے رکھتے ہوئے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’روزِ آخرت‘‘ کیا ہے۔[1]

   بعض نے لفظی ترجمہ سے قریب رہنے کے لیے اس کا ترجمہ ’’پچھلا دن‘‘ کیا ہے۔ بعض نے ’’آخری دن‘‘ کو اختیار کیا ہے۔ جب کہ بعض بزرگوں نے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے ’’قیامت کا دن‘‘ ترجمہ کیا ہے جو بظاہر لفظی ترجمہ سے زیادہ دور ہے۔ اگرچہ مفہوم درست ہے

۱:۷:۲(۸) [وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ] یہ ایک پورا جملہ ہے جس کے کلمات کی الگ الگ تفصیل یوں ہے:۔

·       ’’وَ‘‘ یہاں عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ بھی ہوسکتی ہے تاہم یہاں اسے حالیہ (واو الحال) سمجھنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ اسی لیے اکثر مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’’حالانکہ‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ ایک آدھ نے اس کا ترجمہ ’’مگر‘‘ سے بھی کیا ہے یعنی ’’لکن‘‘ کے معنوں میں لیا ہے اور یہ محاورے کے لحاظ سے ہی درست ہے۔

·       اگلا کلمہ ’’ ما‘‘ یہاں مشابہ ’’بلیس‘‘ یعنی ’’الحجازیہ‘‘ہے اور جملے میں نفی کے معنی کے لیے اس کا ترجمہ ’’نہیں ‘‘(ہیں؍ہے) ہوگا۔ اس کے بعد ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر جمع ہے جس کا اردو ترجمہ ’’وہ‘‘ ہے۔ جملے کے آخری حصہ ’’ بِمُؤْمِنِيْنَ‘‘ کی ابتدائی باء (بِ) تو وہ ہے جو ’’ما‘‘ یا ’’لیس‘‘ کی خبر کے شروع میں لاتے ہیں۔ اس ’باء کا اردو میں کوئی ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس سے عبارت میں ایک زور اور تاکید کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔

·       لفظ ’’ مؤْمنين‘‘ باب اِفعال۔   آمَن یُؤمِن ایمانًا سے اسم الفاعل ’’مُؤمِنٌ‘‘ کی جمع مذکّر سالم ہے یعنی ’’ایمان لانے والے‘‘۔ اس کے مادہ (امن) اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۳  میں بات ہوچکی ہے۔دیکھئے۱:۲:۲(۱)

·       لفظ ’’ مؤْمنين ‘‘ کا ترجمہ ’’ایمان لانے والے‘‘ یا صرف ’’ایمان والے‘‘ بالکل درست ہے اس لیے کہ عربی مصدر ’’ایمان‘‘ اردو میں اپنے اصل عربی اور اصطلاحی معنوں میں مستعمل ہے۔ یعنی یہ معلوم ہے کہ "ایمان" کن چیزوں کو ماننے کا نام ہے؟ـــ اور غالباً اسی لیے اکثر مترجمین نے  ’’ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ  ‘‘ کا ترجمہ ’’نہیں وہ ایمان لانے والے‘‘ کیا ہے بعض نے نسبتاً سلیس نثر کا خیال کرتےہوئے ’’وہ ایمان والے نہیں‘‘ یا ’’وہ مومن نہیں ہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے محاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ان کو یقین نہیں ہے‘‘ اور بعض نے ’’وہ ایمان نہیں رکھتے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے جو اس کا ترجمہ ’’وہ ایمان نہیں لائے‘‘ سے کیا ہے تو یہ بلا وجہ جملہ اسمیہ کا ترجمہ جملہ فعلیہ سے کر دیا ہے۔ جو اصل عبارت سے ہٹنے والی بات ہے، اگرچہ مفہوم میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی۔

·       ’’مَا‘‘ کی خبر پر باء(بِ) داخل ہونے سے مفہوم میں جو زور اور تاکید پیدا ہوتی ہے۔ بعض مترجمین نے اس بناء پر عبارت میں’’وہ مومن ہیں ہی نہیں‘‘ کا مفہوم پاکر ترجمے میں تاکید کے لیے ’’ہرگز‘‘ اور ’’بالکل‘‘ اور ’’بالکل ہی‘‘ (نہیں) کا اضافہ کیا ہے جو محاورے کے لحاظ سے اصل مفہوم کو بہتر ظاہر کرتا ہے۔

·       اس حصّہ آیت کے مختلف ترجموں کے اس تقابلی مطالعہ سے اور اصل (لفظی) عربی معانی کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو اس بات کا احساس ہوتا جائے گا کہ ’’ترجمہ کرنا’’ اور خصوصاً ’’معانی قرآن‘‘ کو ترجمہ میں لانا اور اس میں لفظ، محاورہ اور اصطلاح کے درمیان توازن اور اعتدال کو ملحوظ رکھنا کس قدر مشکل اور محنت طلب کام ہے۔

 

۲:۷:۲     الاعراب

      وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَاھُمْ بِمُؤْمِنِیْنِ

        [وَ]بعض نحویوں (مثلاً عکبری) نے اسے یہاں عاطفہ قرار دے کر ما بعد جملے کا عطف ’’ الذین یومنون بالغیبـــ۔الآیہ‘‘(؎۳) پر کیا ہے[2] گویا وہی بیانِ ’’اقسام الناس‘‘ چل رہا ہے۔ لیکن درمیان میں جملہ مستانفہ ’’ ان الذین کفروا…‘‘ الآیہ(۶؎)کے آجانے کے بعد اسے (آیت نمبر۸ زیر مطالعہ کو) سابقہ آیت نمبر۳  پر معطوف کرنے کا کوئی تُک نہیں بنتا۔ اس لیے جن حضرات (مثلاً الدرویش) نے اسے واو الاستیناف یعنی واو مستانفہ قرار دیا ہے [3]    ان کا موقف زیادہ بہتر ہے یعنی یہاں سے ایک نئے جملے اور بالکل نئی بات کا آغاز ہوتا ہے۔ تینوں جگہ (آیت۳،۴، پھر آیت ۶،۷اور اب آیت ۸ میں) ایک الگ الگ گروہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلے گروہِ مؤمنین کا، دوسری جگہ گروہِ کافرین اور تیسری جگہ گروہِ منافقین کا الگ الگ بیان ہے۔ اردو زبان میں  واو عاطفہ  اور  واومستانفہ  دونوں کا ترجمہ ’’اور‘‘ ہی سے کرنا پڑتا ہے مگر مفہوم کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے (اس کی وضاحت ابھی اوپر بحث اللغۃ میں۱:۷:۲ (۱)پر ہوچکی ہے)۔ [   وَمِنَ النَّاسِ] میں ’’مِن ‘‘ جار اور ’’الناس‘‘ مجرور ہے اور یہاں ’’مِن‘‘ تبعیض (یعنی بعض اور کچھ کے معنی) کے لیے ہے۔ مِنْکو آگے ملانے کے لیے ’’ن‘‘ پر عموماً فتحہ (ــــــَــــ) آتی ہے۔ شاذ صورتوں میں کسرہ (ــــــِــــ) بھی آتی ہے۔ مثلاً ’’مِنِ ابْنِکَ‘‘ میںـــ مگر ’’عَنْ‘‘ کو آگے ملانے کے لیے ’’ن‘‘ ہمیشہ مکسور ہوتا ہے جیسے ’’عَنِ النَاس‘‘ میں۔

·       [ مَنْ] یہاں موصولہ (معرفہ) بمعنی ’’الذی‘‘ یا ’’الـذین‘‘ بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں اس (مَن) سے مراد ایسے خاص آدمی یا لوگ ہوں گے جو عہد ِ رسالت میں یہ بات (جس کا آگے ذکر آرہا ہے)کہا کرتے تھے اس صورت میں ’’ مَن‘‘ کے بعد والی عبارت اس (مَن) کا صلہ ہےـــ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس ’’ مَن‘‘ کو نکرہ موصوفہ سمجھا جائے اور یہ زیادہ بہتر ہے اس لیے کہ اس میں عموم کے معنی پیدا ہوجاتےہیں یعنی ’’کوئی ایسا آدمی بھی جو‘‘ یا ’’کچھ ایسے لوگ بھی جو‘‘۔ اس صورت میں ’’ مَن‘‘ کے بعد والی عبارت اس (مَن) کی نعت یا صفت شمار ہوگی اور ’’    وَمِنَ النَّاسِ ‘‘ ایک محذوف ’’مبتدا نکرہ مؤخر‘‘ کی خبر (مقدم) ہوگا۔ تقدیرِ(UNDERSTOOD) عبارت کچھ یوں ہوگی۔ (وَمِنَ الناس فریقٌ یقول ـــ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہیں’’فی المسجد رجل‘‘ـــ

·       لفظ ’’مَن‘‘ واحد تثنیہ جمع مذکر مونث سب کے لیے ہوتا ہے اس لیے یہاں ’’مَنْ‘‘ کی لفظی صورت (جو واحد لگتی ہے) کا لحاظ رکھتے ہوئے فعل[يقول] بصیغۂ واحد غائب آیا ہے۔ اگر یہاں ’’یقولون‘‘ ہوتا تو بھی (عربی زبان کے لحاظ سے) درست ہوتا۔ خود قرآن کریم میں ’’مَنْ‘‘ کے ساتھ صلہ یا صفت کے طور پر آنے والے جملہ فعلیہ میں فعل واحد اور جمع دونوں طرح استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً ’’وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُ اِلَيْكَ ۚ ‘‘ (الانعام:۲۵) اور’’ وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ ‘‘ (یونس:۴۲) میں ان پر مفصل بات اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

·       (آمنا)میں ’’آمنا‘‘ فعل ماضی معروف ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’نحن‘‘ مستتر ہے۔ اور یہ فعل بصیغۂ جمع یہاں ’’مَن‘‘ کے معنوں کے لحاظ سے آیا ہے۔ (جس طرح اوپر فعل ’’ يقول‘‘بصیغۂ واحد بلحاظ لفظ (مَن) آیا ہے۔ ]باللّٰه[ میں باء (بِ) توصلئہِ فعل کے طور پر آئی ہے اس لیے یہ مرکّب جارّی (باللّٰه) یہاں محلاً منصوب ہے۔ اور چاہیں تو اس جار مجرور (باللّٰه) کو متعلق فعل (آمنّا) قرار دے لیں اردو ترجمہ میں اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔ [وَ] عاطفہ ہے اور اس کا عطف ’’ باللّٰه‘‘ پر ہے۔ یعنی یہ دراصل ’’ وَآمنّا بالیوم آلاخر‘‘ہے [باليوم الآخر] میں الیوم موصوف اور مجرور بالجر(بِ) ہے اور ’’الآخر‘‘ اس کی صفت ہے لہٰذا مجرور ہے۔ ان میں علامت ِ جر آخری ’’م‘‘ اور ’’ر‘‘ کا کسرہ (ــــــِــــ) ہے۔ اور یہ پورا مرکب توصیفی اب مرکب جارّی بن کر محلاً منصوب ہے یا متعلق فعل ہے۔

·       [وَماھُم بمؤمنین] ایک مکمل جملہ اسمیہ ہے جس میں ابتدائی ’’وَ‘‘ حالیہ (واو الحال) ہے (اگرچہ عاطفہ ہونے کا بھی بعید احتمال ہوسکتا ہے) ’’ما‘‘ الحجازیہ بمعنی لَیْسَ ہے۔ ’’مَا‘‘ کے معنی و استعمالات پر بات پہلے ہوچکی ہے[ دیکھئے ۱:۲:۲ (۵)] ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر غائب مذکّر اور مرفوع منفصل ہے جو یہاں ’’مَا‘‘ کے اسم کے طور پرآئی ہے۔ اور اس ’’مَا‘‘ کی خبر ’’ بِمؤْمنين‘‘ ہے۔ جس پر باء جارّہ (بِ) لگی ہے۔ اس آخری حصے (جملے) کے مختلف تراجم کی اوپر ’’اللغۃ‘‘ میں وضاحت ہوچکی ہے۔

۲:۷:۲(۱)عر بی میں مبتدا‘  خبریا فاعل پر بعض حروف جارہ تاکید اور زور کا معنی پیدا کرنے کے لیے لگتے ہیں۔ان میں سے لام مفتوحہ (لَ) عموماً تاکید ایجاب یا اثبات کے لیے (کسی بات کے ضرور ہونے کے مفہوم کے لیے) اور باء مکسورہ (بِ) عموماً تاکید نفی (کسی چیز کے نہ ہونے پر زور دینے) کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جیسے ہم کہیں ’’ھذا لَزیدٌ‘‘ (یہ ضرور زید ہی ہے) یا کہیں ’’ما ھذا بِزیدٍ‘‘ ( یہ زید تو نہیں ـــ  یا یہ ہرگز زید نہیں ہے)۔ نحوی عام طور پر اس ’’باء‘‘ کو ’’باء زائدہ للتوکید‘‘ یا ’’حرف جر زائد للتوکید‘‘کہتے ہیں۔ یہ ایک نحوی اصطلاح ہے۔ ’’زائد‘‘کے معنی ’’غیر ضروری ‘‘ ہر گز نہیں ہوتے۔ اور ان معنوں (غیر ضروری) کے لحاظ سے قرآن کریم میں کوئی حرف یا لفظ ’’زائد‘‘ نہیں ہے۔ بلکہ اہلِ بلاغت کے نزدیک تو یہاں (آیت زیر مطالعہ) میں تاکید کے لیے اس ’’بِ‘‘کے بغیر چارہ نہیں۔ مطلق نفی تو ’’ ما ھم مؤمنین‘‘ (خبر منصوب) میں بھی ہوسکتی ہے۔ اور اسی بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض مترجمین نے ’’وہ ہرگز (یا بالکل) ایمان والے نہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ واو حالیہ کی وجہ سے یہاں پورا جملہ اسمیہ ’’ وماھم بمؤمنین ‘‘ حال ہو کر محلاً منصوب ہے۔

 

 ۳:۷:۲     الرسم

      وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَاھُمْ بِمُؤْمِنِیْنِ

        اس آیت میں تمام کلمات کا رسمِ عثمانی اور رسمِ املائی یکساں ہے۔ البتہ ’’ امنّا ‘‘ اور ’’ اخر ‘‘ کے شروع میں ھمزءہِ مفتوحہ کو ما بعد الف میں ملا کر صرف ایک الف کی شکل میں ’’ا‘‘ لکھنا قابلِ ذکر ہے اور اس پر۲: ۳:۳ اور ۴:۳:۲ (۱) میں بات ہو چکی ہے۔ بہر حال ان کلمات کا یہی رسمـــ کتابت مصحف اور عام عربی تحریر میں مستعمل ہے۔ اور محذوف ہمزہ کو ضبط کے ذریعے ظاہر کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں۔

 

۴:۷:۲     الضبط

زیر مطالعہ آیت میں اختلافِ ضبط کے حسب ذیل پہلو قابلِ ذکر ہیں:۔

۱۔      ھمزۃ الوصل کی علامت کااستعمال یا ترک اور صورت ِعلامت کا فرق۔ یہ چیز کلمات ’’ الناس ‘‘۔ ’’ باللّٰہ‘‘ اور  ‘‘بالیوم الاخر‘‘ کے ضبط میں سامنے آئے گی۔

۲۔     ھمزۃ القطع کے لیے علامت ِ قطع کا استعمال یا ترک اور علامت ِ قطع کی صورت کا فرق۔ یہ فرق کلمات’’امنا ‘‘، ’’الاخر‘‘ اور ’’ بمؤمنین‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

۳۔      واو ساکنہ ماقبل مضموم پر علامت ِ سکون کا استعمال یا اس کا ترک۔ اس کا نمونہ ’’یقول ‘‘ کے ضبط میں دیکھیں گے۔

۴۔     یائے ساکنہ ماقبل مکسور پر علامت ِ سکون کا استعمال یا عدمِ استعمال ـــ یا اس ماقبل مکسور کے نیچے کسرہ(ــــــِــــ) کی بجائے علامت ِ اشباع (ـــــٖــــ) کا استعمال ۔ اس اختلاف کی مثال آپ کو ’’ بمؤمنین ‘‘ کے ضبط میں ملے گی۔

۵۔     الف کے ما قبل مفتوح حرف پر فتحہ (ــــــَــــ) کی بجائے علامت ِ اشباع بصورت (ـــــٰــــ) لگاناـــ اس کو نمونہ ’’ امنا ‘‘،’ ’ ما‘‘ اور ’’ الناس‘‘کے ضبط میں سامنے آئے گا۔

۶۔     لام جلالت(اللّٰہ میں) کے اشباع کی علامت کا فرق۔

۷۔     نون ساکنہ مخفاۃ کے ادغام ناقص میں حرفِ مدغم پر علامت ِ سکون اور حرف مدغم فیہ پر علامت ِ تشدید ڈالنے یا نہ ڈالنے کا فرق۔ یہ فرق ’’ من یقول‘‘ کے ضبط میں واضح ہوگا۔

۸۔     بعض افریقی ممالک میں نون متطرفہ کے عدم اعجام کا رواج جسے آپ ’’من‘‘ اور ’’ بمؤمنین ‘‘ کی کتابت میں دیکھیں گے۔

۹۔      افریقی ہی ملکوں میں لفظ ’’(# )‘‘ لکھا جانے کا فرق۔ یہ فرق  ’’ یقول ‘‘ کے لکھنے میں محسوس ہوگا۔

۱۰۔     ’’لا‘‘ میں الف اور لام کے تعین کا فرق ’’الاخر‘‘ کے ضبط میں نمودار ہوگا۔ اس طرح اس آیت میں اختلافِ ضبط کی مندرجہ ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں۔

 

 



 [1] فارسی کا لفظ ’’روز‘‘ اور عربی کا ’’یوم‘‘ اردو کے ’’دن‘‘ کی طرح بعض تراکیب میں اردو میں بھی مستعمل ہیں۔ مثلاً ’’روزِ روشن‘‘۔ ’’یوم ِافواج‘‘ وغیرہ۔

 

[2]  ا لتبیان ج۱ ص۲۴

[3] اعراب القرآن ج۱ ص۲۱