سورۃ البقرہ آیت  ۸۰ تا۸۲

۱:۵۰:۲      وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً      ۭ  قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗٓ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۸۰) بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِهٖ خَطِيْۗــــَٔــتُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ   ۚ   ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ  (۸۱)  وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ    ۚ   ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ  (۸۲)

۱:۵۰:۲       اللغۃ

[وَقَالُوْا] جس کا ترجمہ ’’اور انہوں نے کہا‘‘ بنتا ہے۔ مگر یہاں ’’یہود کے کردار اور ان کے دعووں‘‘ کی بات چل رہی ہے۔ اس لیے سیاقِ عبارت میں اس کا ترجمہ ماضی کی بجائے حال کے ساتھ کیا جاسکتا ہے یعنی ’’اور وہ کہتے ہیں‘‘۔ ’’قالوا‘‘ (جو فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے) کے مادہ، وزن، باب فعل اور معنی وغیرہ پہلے کئی دفعہ گزر چکے ہیں مثلاً دیکھئے البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲ (۴)]

۱:۵۰:۲ (۱)     [لَنْ تَمسَّنا] یہ فعل مضارع منصوب منفی بلَن، لَنْ، تَمَسَّ‘‘ کے ساتھ ضمیر منصوب متصل ’’نَا‘‘ (بمعنی ہم کو) کا مرکب ہے اور’’لَنْ تَمَسَّ‘‘ کا مادہ ’’م س س‘‘ اور وزن (پورے صیغے) کا ’’لَنْ تَفْعَلَ‘‘ہے یہ دراصل ’’ لَنْ تَمَسَّ ‘‘تھا۔ پھر دونوں سین مدغم ہوگئے۔

·       فعل مجرد اس مادہ سے ’’مسَّ. . . . .یَمَسُّ(دراصل مَسِسَ یَمْسَسُ) مَسًّا (سمع سے) سے آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’. . .. .کو چھونا(ہاتھ وغیرہ سے)، . . . . . .کو ہاتھ لگانا‘‘ جیسے ’’ لَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ‘‘ (الواقعہ:۷۹)میں ہے کہ ’’اسے نہیں ہاتھ لگاتے/ چھوتے مگر باطہارت لوگ۔ ’’مَسٌّ‘‘  میں زور اور شدت (سے چھونے) کا ــــ یعنی ’’چپک جانے‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے (جیسے ’’لَمْس‘‘ میں ہلکے سے ’’چھونا ‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے) پھر مجاز اور استعارہ میں ’’آلگنا، آپکڑنا‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے (یعنی جو دکھ یا سکھ انسان کو پہنچے) جیسے ’’ ْ مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ  ‘‘ (الحجر:۵۴) میں ہے یعنی ’’مجھ کو آلگا بڑھاپا‘‘ اسی طرح ’’ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا  ‘‘ اور ’’ وَّاِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا  (المعارج:۲۰۔۲۱) میں ہے (جب اس کو دکھ پہنچتا ہے/ جب اس کو بھلائی پہنچتی ہے) قرآن کریم میں اس کا زیادہ استعمال برائی، دکھ، عذاب/ شر، آگ تھکاوٹ، سختی وغیرہ کے ساتھ ہوا ہے۔ اگرچہ بھلائی (خیر، حسنۃ، سرّاء) کے ساتھ بھی آیا ہے مگر کم۔ اور کبھی یہ فعل بطور استعارہ مردوعورت کے جنسی تعلق قائم ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ’’مسَّ المرأَۃ‘‘ (اس نے عورت کو چھوا یعنی اس سے جنسی تعلق رکھا) اور اسی معنی میں قرآن کریم میں ہے ’’ لَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌ ‘‘ (مریم:۲۰) یعنی ’’مجھے کسی آدمی نے ہاتھ نہیں لگایا  اور ’’ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ‘‘ (الاحزاب:۴۹) یعنی رخصتی سے پہلے اور ’’مَسُّ الشیطان‘‘ (شیطان کا آلگنا) ’’پاگل پن‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے ساٹھ ۶۰ کے قریب مقامات پر آئے ہیں اور باب تفاعل سے صرف ایک صیغہ دو جگہ آیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے مشتق و ماخوذ کلمات بھی دو تین جگہ وارد ہوئے ہیں۔

·       ’’ لَنْ تَمَسَّنَا ‘‘ میں فعل ’’لن تمسَّ‘‘ کا صیغہ واحد مونث ہے کیونکہ اس کا فاعل ’’النار‘‘ (جو آگے آرہا ہے) مؤنث سماعی ہے۔ اس طرح’’لن تمسنا‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’ہرگز نہ چھوئے گی ہم کو‘‘جسے بعض نے ’’ہم کو ہرگز نہ لگے گی (یعنی آگ جس کا آگے ذکر آرہا ہے) سے ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’ہمیں تو نہ چھوئے گی‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جس میں ’’نفی جحد بلَن‘‘ (زور سے نفی کرنا) کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ بعض نے اس ’’نفی بجحد‘‘ (زور سے انکار) کے مفہوم کی بناء پر ترجمہ ‘‘ہم کو تو چھوئے گی بھی نہیں‘‘ سے کیا ہے جو اچھا ترجمہ ہے۔

[النَّارُ] کا مادہ ’’ن ور‘‘ اور وزن اصلی (لام تعریف نکال کر) ’’فَعَلٌ‘‘ ہے یہ دراصل ’’نَوَرٌ‘‘ تھا جس میں ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح‘‘ الف میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ کے علاوہ خود اسی لفظ (النار) کے بارے میں البقرہ:۱۷ [۱:۱۳:۲ (۳)]میں بات ہوچکی ہے۔ ’’النار‘‘ کے لفظی معنی تو ’’آگ‘‘ ہی ہیں تاہم لامِ تعریف کی بناء پر یہاں کوئی ’’خاص آگ‘‘ مراد ہے۔ اس لیے بیشتر مترجمین نے یہاں صرف آگ کی بجائے ’’دوزخ کی آگ‘‘ کی صورت میں تفسیری ترجمہ کیا ہے۔

[اِلَّا اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃً] کا ابتدائی  ’’اِلا‘‘ حرف استثناء (بمعنی مگر، سوائے،  بجز) ہے۔ یہاں (زیر مطالعہ عبارت) میں اس کے ’’عمل ‘‘پر حصہ ’’الاعراب ‘‘میں بات ہوگی۔

’’اَیَّامٌ‘‘ (جو یہاں منصوب’’اَیَّاماً‘‘ آیا ہے اس کی نصب پر بھی الاعراب میں بات ہوگی) کا مادہ ’’ی و م‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفْعَالٌ‘‘ ہے گویا یہ دراصل ’’اَیْوَامٌ‘‘ تھا (جو’’ یَوْمٌ‘‘ بمعنی ’’دن‘‘ کی جمع مکسر ہے)۔ پھر ’’یائے ساکنہ کے بعد آنے والی واو متحرکہ کو بھی ’’یاء‘‘ میں بدل کر دونوں ’’یاء‘‘ باہم مدغم کرکے یہ لفظ بصورت ’’اَیَّامٌ‘‘ لکھا اور بولا جاتا ہے یعنی ’’اَیْوَامٌ = اَیْیَامٌ = اَیّام ‘‘۔  ’’ اَیّام‘‘ (نکرہ) کے معنی ’’کچھ دن، کئی دن‘‘ ہیں۔ لفظ ’’یوم‘‘ (جو ’’ایام‘‘ کا واحد ہے) کے مادہ، فعل باب وغیرہ پر الفاتحہ:۴ [۱:۳:۱ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’مَعْدُوْدَۃٌ‘‘ کا مادہ ’’ع د د‘‘ اور وزن ’’مَفْعُوْلَۃٌ‘‘ ہے (آیت  میں یہ لفظ منصوب آیا ہے جس کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد(عدَّ یعُدّ= گننا، شمار کرنا) کے باب و معنی وغیرہ پر البقرہ:۲۴ [۱:۱۷:۲ (۱۵)]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

·       لفظ ’’معدُودۃ‘‘ اس فعل مجرد (عدَّیَعُدُّ) سے اسم مفعول مؤنث کا صیغہ ہے۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے۔ ’’گنی ہوئی، شمار کی گئی‘‘ یہ لفظ یہاں ’’ایام‘‘ (جمع مکسر) کی صفت (ہونے کی وجہ سے مؤنث آیا) ہے۔اس لیے ’’اَیَّامٌ معدودۃٌ‘‘ (جو آیت میں منصوب آیا ہے) کا لفظی ترجمہ ہے ’’گنے ہوئے کچھ دن‘‘ جسے مترجمین نے سلیس اور بامحاورہ بنانے کے لیے ’’کئی دن گنتی کے/ چند روز گنے چنے/ تھوڑے روز جو شمار ہو سکیں/ گنتی کے چند روز/ گنتی کے دن/ اور چند گنے چنے دن‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے البتہ صرف ’’چند روز‘‘ میں ’’معدودۃ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز ہوا ہے اور ’’جو شمار ہوسکیں ‘‘میں اصل عبارت (صیغۂ اسم مفعول) سے تجاوز ہے۔ مفہوم درست ہے۔

۱:۵۰:۲ (۲)      [قُلْ] کا مادہ ’’ق ول‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلْ‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’اُقْوُلُ‘‘ بنتی تھی جس میں ’’واو‘‘ متحرکہ کی حرکت ضمہ (ـــــُـــــ)  ماقبل ساکن حرف صحیح (ق) کو دی جاتی ہے اور وہ خود اجتماع ساکنین (’’و‘‘ اور ’’ل‘‘)کے باعث گر جاتی ہے اور ابتدائی ہمزۃ الوصل (ق کے متحرک ہوجانے کی بناء پر) گرا دیا جاتا ہے اور لفظ بصورت ’’قُلْ‘‘ لکھا اور بولا جاتا ہے گویا اُقْوُلُ = اُقُوْل = اُقُلْ = قُل۔ اب اس کا وزن ’’فُل‘‘ رہ گیا ہے۔

·       یہ (قل) فعل مجرد ’’قال یقُول‘‘ (جس کے باب و معنی وغیرہ پر سب سے پہلے البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی) سے فعل امر مخاطب کا پہلا صیغہ ہے اس کی گردان ’’قُلْ، قُوْلَا، قُوْلُوْا، قُوْلِیْ، قُوْلَا اور قُلْنَ ‘‘ہوگی۔ اور قرآن مجید میں اس فعل سے امر کی گردان کے یہ تمام صیغے مختلف مقامات پر استعمال ہوتے ہیں۔

·       ’’قُلْ‘‘ کا لفظی ترجمہ تو ہے ’’تُو کہہ‘‘ چونکہ یہاں اس فعل کے مخاطب اول نبی کریم ﷺ ہیں اس لیے اردو محاورے کے مطابق صیغۂ احترام استعمال کرتے ہوئے بعض نے اس کا ترجمہ ’’کہو/ کہہ دو‘‘ اور بعض نے ’’تم فرمادو/ آپ کہیے/ آپ یوں فرمادیجئے‘‘ سے کیا ہے۔ بعض نے صرف ’’کہہ دے‘‘ اور ’’کہہ‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔ اور ایک دو نے آگے والی سوالیہ عبارت کی بناء پر یہاں ’’قُلْ‘‘ کا ترجمہ ہی ’’پوچھو‘‘ سے کردیا ہے جو اصل عبارت سے ہٹ کر ہے۔

۱:۵۰:۲ (۳)     [اَتَّخَذْتُمْ] یہ لفظ دراصل ’’اَ اِتَّخَذْتُمْ‘‘ ہے جس کے ابتدائی ہمزۂ استفہام (أ =کیا؟) کی وجہ سے صیغہ ’’اِتَّخَذْتُمْ‘‘ کا ابتدائی ہمزۃ الوصل تلفظ سے تو ساقط ہونا ہی تھا( جیسے ’’واتَّخذ تُمْ‘‘ یا ’’فَاتَّخَذْتُم‘‘ یا ’’ثُمَّ اتَّخذتُم‘‘ میں ہوتا ہے) تاہم قرآن کی املاء (رسم الخط) میں یہ قاعدہ ہے کہ ہمزۂ استفہام کے بعد اگر کوئی ایسا صیغۂ فعل آرہا ہو جو ہمزۃ الوصل سے شروع ہوتا ہے ہو (اور ایسا عموماً کسی مزید فیہ ماضی کے صیغے میں ہی ہوتا ہے) تو ایسے ہمزۃ الوصل کو کتابت سے بھی ساقط کردیاجاتا ہے یعنی اسے لکھا ہی نہیں جاتا۔ اس طرح یہ لفظ ’’اَاِتَّخَذْتم‘‘ سے ’’اَتَّخَذْتُم‘‘ رہ جاتا ہے۔ خیال رہے گرنے والا ہمزۃ الوصل ہی ہے ہمزۂ استفہام برقرار (کتابت اور تلفظ دونوں میں) رہتا ہے ایسے الفاظ قرآن کریم میں اور بھی کئی جگہ آئے ہیں۔ اور دراصل یہ ’’علم الرسم‘‘ کا مسئلہ ہے لہٰذا اس پر مزید بات ’’الرسم‘‘ میں ہوگی۔

·       اور ’’اِتّخَذْتُمْ‘‘ کا مادہ ’’ا خ ذ‘‘ او روزن اصلی ’’اِفْتَعَلُتم‘‘ ہے۔ جو دراصل ’’اِئْتَخَذْتُمْ‘‘ تھا۔ پھر فاء کلمہ (ہمزہ) ’’ت‘‘ میں بدل کرتاء  افتعال میں مدغم ہوجاتا ہے۔اس مادہ (اخ ذ) سے فعل مجرد (اخذ یا یأخذ = لینا پکڑنا) کے باب معنی وغیرہ کے بارے میں البقرہ:۴۸ [۱:۳۱:۲ (۵)]میں وضاحت ہوچکی ہے۔

’’اِتَّخَذْتُمْ‘‘ اس مادہ سے بابِ افتعال کا فعل ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس باب (افتعال) سے فعل ’’اِتّخَذ یتَّخِذ= پکڑنا، بنا لینا) کے معنی و استعمال اور خصوصاً اس میں ہمزہ (فاء کلمہ) کے تاء (ت) میں بدل کر مدغم ہونے کے بارے میں بھی البقرہ:۵۱ [۱:۳۳:۲ (۵)]میں بات ہوچکی ہے۔

·       اس طرح ’’اَتَّخَذْتُمْ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’ کیا تم نے پکڑا یا لے لیا‘‘ جسے سیاقِ عبارت کی بناء پر اکثر نے ماضی قریب (برائے تاکید) کی صورت میں ترجمہ کیا ہے یعنی ’’کیا تم نے لیا ہے/ لے لیا ہے/ لے رکھا ہے/ تم لے چکے ہو/ پاچکے ہو‘‘ کی صورت میں سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔

[عِنْدَ اللہِ] کلمۂ ظرف ’’عند‘‘ کے معنی و استعمال کی وضاحت کے لیے دیکھئے البقرہ:۵۴ [۱:۳۴:۲ (۶)] ’’عند اللّٰہ‘‘ کا ترجمہ ’’اللہ کے پاس‘‘ بنتا ہے جسے مضمونِ عبارت کے لحاظ سے ’’اللہ کے ہاں/ اللہ کے یہاں/ اللہ کے نزدیک‘‘ سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور بعض نے فعل (عہد لینا) کی مناسبت سے اس کا ترجمہ ’’اللہ سے/ خدا سے/ اللہ کے ہاں سے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔

[عَھْدًا] لفظ ’’عَھْدٌ‘‘ (جو عبارت میں منصوب آیا ہے) کے مادہ (ع ھ د) وزن (فَعْلٌ) اور اس سے فعل مجرد (عھِد یَعْھَدُ= عہد لینا) اور خود لفظ ’’عھد‘‘ کے معنی وغیرہ البقرہ:۲۷[۱:۱۹:۲ (۱۳)] میں گزر چکے ہیں۔ ’’عھد‘‘  کا اردو ترجمہ ’’قول، اقرار، قرار‘‘ سے کیا جاتا ہے اور خود لفظ عہد بھی اردو میں مستعمل ہے اس لیے بعض مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’’عہد‘‘ اور ’’وعدہ‘‘ اور ’’معاہدہ‘‘ سے ہی کردیا ہے۔ بعض نے یہاں ’’عھد‘‘ کی تنکیر(نکرہ) ہونا کے باعث اردو ترجمہ میں ’’کوئی‘‘ (اقرار وغیرہ) کا اضافہ کیا ہے جب کہ بعض نے صرف لفظ کا ترجمہ کیا ہے اور تنکیر کو نظر انداز کیا ہے۔

۱:۵۰:۲ (۴)     [فَلَنْ یُّخْلِفَ اللہُ عَھْدَہٗ] یہ ایک جملہ ہے جو ’’فاء (فَ)‘‘ عاطفہ (بمعنی پس/ اس لیے) + لَنْ یُخْلِفَ(جس پر ابھی بات ہوگی) + اللّٰہ + عھد + ہ    کا مرکب ہے۔

’’لَنْ یُخْلِفَ‘‘ کا مادہ ’’خ ل ف‘‘ اور وزن (پورے صیغے کا) ’’لَنْ یُفْعِلَ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد کے معانی و استعمال پر البقرہ:۳۰[۱:۲۱:۲ (۴)]میں بات ہوئی تھی۔ زیر مطالعہ صیغۂ فعل (لن یُخلِفَ) اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل مضارع معروف ’’منصوب منفی بلَنْ‘‘  (صیغہ واحد مذکر غائب) ہے جس میں کسی کام کے زمانہ مستقبل میں پر زور نفی (یعنی ہرگز نہ ہونے) کا مفہوم ہوتا ہے۔ بابِ افعال سے فعل ’’اَخْلفَ. . . . . یُخْلِفُ اِخلافًا‘‘ ایک کثیر المعانی فعل ہے۔ جن میں عموماً بنیادی معنی ’’. . . . . . کو پیٹہ پیچھے کرنا/ چھوڑ دینا/ کردینا‘‘ کے ہوتے ہیں۔ یہ فعل بطور لازم بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’اَخْلَفَ الطعامُ‘‘ (کھانے کا ذائقہ یا بُو بدل جانا) تاہم قرآن کریم میں یہ فعل بطور لازم کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ ہر جگہ بطور فعل متعدی ہی آیا ہے۔ اس کے مختلف معانی اور استعمالات میں چند ایک یہ ہیں۔

(۱) ’’وعدہ پورا نہ کرنا‘‘(وعدہ کو پیچھے چھوڑ دینا) اس صورت میں اس کا مفعول (وَعْدٌ یا عَھْدٌ) مفعول بنفسہ بھی آتا ہے اور ’’باء‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی مثلاً کہتے ہیں ’’اَخْلَفَ وَعْدَہٗ‘‘ یا ’’بِوَعْدِہ‘‘ (اس نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا) قرآن کریم میں ہے ’’ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِيْ ‘‘ (طہ:۸۶) یعنی تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا‘‘ اور اسی قسم کا استعما ل زیر مطالعہ حصۂ عبارت ’’ لَنْ یُّخْلِفَ اللہُ عَھْدَہٗ ‘‘ میں ہے۔

(۲) ’’(کسی سے) وعدہ پورا نہ کرنا‘‘ اس صورت میں مفعول وہ آدمی ہوتا ہے جس سے وعدہ کیا گیا ہو۔ قرآن میں شیطان کا قیامت کے دن اپنے پیرو کاروں سے یہ قول بیان ہوا ہے ’’ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ  (ابراہیم:۲۲) یعنی میں نے تم سے وعدہ کیا تھا مگر (اب) تم سے وعدہ خلافی کی ہے‘‘۔

(۳)  اور کبھی یہ فعل اسی (وعدہ خلافی والے) معنوں میں دو مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی جس وعدہ کی خلاف ورزی کی جائے اور جس کے ساتھ کی جائے دونوں مفعول بنفسہ ہوکر آتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں، ’’اَخْلفَہ الوعدَ‘‘ (اس نے اس کے ساتھ وعدہ خلافی کی) اور قرآن کریم میں ہے ’’ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ ‘‘ (التوبۃ:۷۷) یعنی ’’انہوں نے اللہ کے ساتھ کیے وعدہ کی خلاف ورزی کی‘‘۔

(۴) اور کبھی یہ فعل ’’کسی چیز کے بعد کوئی اور چیز دینا‘‘ کے معنی دیتا ہے مثلاً قرآن کریم میں ہے۔ ’’ وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ  ‘‘(سباء:۳۹) یعنی ’’جو کچھ تم خرچ کرتے ہو تو وہ (اللہ) اس کی جگہ اور دیتا ہے‘‘۔

قرآن کریم میں اس (باب افعال والے) فعل سے مختلف صیغے ۱۴ جگہ آئے ہیں ہر جگہ یہ فعل متعدی اور مفعول بنفسہ کے (ذکر کے) ساتھ استعمال ہوا ہے۔

·       اس طرح اس عبارت (فَلَنْ یُّخْلِفَ اللہُ عَھْدَہٗ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’پس ہرگز اللہ تعالیٰ خلاف ورزی نہ کرے گا اپنے عہد کی‘‘ (یا اسے پیچھے نہیں چھوڑ دے گا) اسی کو سلیس اور بامحاورہ بناتے ہوئے بعض مترجمین نے ’’البتہ اللہ ہرگز خلاف نہ کرے گا اپنے اقرار کے‘‘ اور ’’اللہ ہرگز اپنا عہد خلاف نہ کرے گا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ بعض حضرات نے ’’ہرگز یا البتہ‘‘ کے استعمال کے بغیر ترجمہ کیا ہے۔ یعنی ’’اللہ اپنے اقرار کے خلاف نہیں کرے گا‘‘ یا ’’اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا‘‘ کی صورت میں ۔ یہ گویا ’’لن یُخلفَ‘‘ کی بجائے ’’لا یُخلف‘‘ کا ترجمہ ہے۔ بعض حضرات نے غالباً سیاقِ عبارت (سابقہ عبارت کو) سامنے رکھتے ہوئے یا محاورہ کی خاطر زیر مطالعہ عبارت کے ترجمہ سے پہلے ’’اب‘‘ یا ’’تو اب‘‘  کا اضافہ کیا ہے یعنی ’’اب/ تو اب خلاف نہ کرے گا‘‘ کی طرح۔ اگرچہ اصل عربی میں اس ’’اب‘‘ کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے۔

آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ اس فعل (اخلف یُخلف)  کے تمام تراجم میں لفظ ’’خلاف‘‘ استعمال ہوا ہے جو خود اسی مادہ (خ ل ف) سے مشتق ایک لفظ ہے اور اردو میں عام مستعمل ہے (اگرچہ اپنے سارے عربی معانی کے ساتھ نہیں)۔

[اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ] اس جملے کے تمام کلمات کے معانی و استعمالات اس سے پہلے بیان ہوچکے ہیں۔ مثلاً ’’اَمْ‘‘ (یا، یا پھر، کیا؟) کے لیے دیکھئے[۱:۵:۲ (۴)]۔ ’’تقولون‘‘ کا مادہ ’’ق ول‘‘ اور وزن اصلی ’’تَفْعَلُوْن‘‘ ہے اور یہ فعل قال یقول (کہنا) سے مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے (بمعنی تم کہتے ہو) مزید لغوی و صرفی بحث کے لیے دیکھئے[۱:۱۹:۲ (۴)]نیز [۱:۱۹:۲ (۶)]کے بعد بحث ’’یقولون‘‘۔ ’’علی‘‘ کے معانی [۱:۶:۱ (۳)]میں اور چاہیں تو اسم جلالت (اللہ) کی لغوی بحث ’’بسم اللہ‘‘ میں دیکھئے۔ ’’ما‘‘ جو یہاں موصولہ (بمعنئِ ’’وہ جو کہ‘‘) ہے کے استعمال کے لیے دیکھئے [۱:۲:۲ (۵)]اور[۱:۱۹:۲ (۷)]۔ ’’لاتعلمون‘‘ جو ’’ع ل م‘‘ مادہ سے فعل مجرد ’’علِم یعلَم‘‘ (جاننا) سے فعل مضارع معروف منفی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے (بمعنئِ ’’تم نہیں جانتے ہو)۔ مزید کے لیے دیکھئے[۱:۱۰:۲ (۳)]۔

·       اس طرح اس فقرے کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’یا تم کہتے ہو اللہ پر وہ جو تم نہیں جانتے‘‘ جسے ذرا سلیس اور بامحاورہ کرتے ہوئے ’’خدا پر وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں/ خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہوجن کا تمہیں مطلق علم نہیں‘‘ کی صورت دی گئی ہے بعض حضرات نے اردو محاورے کی بناء پر یہاں ’’تقولون‘‘ (کہتے ہو) کا ترجمہ ’’(اللہ پر) جوڑتے ہو/ جوڑ رہے ہو/ باتیں جوڑتے ہو‘‘ سے کردیا ہے بعض نے اس پوری عبارت کا ترجمہ ’’اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی کوئی علمی سند اپنے پاس نہیں رکھتے‘‘ کی صورت میں کیا ہے جو ترجمہ سے زیادہ تفسیر ہے۔ جب کہ بعض نے ’’بے جانے بوجھے اللہ پر جھوٹ بولتے ہو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو محاورہ و مفہوم کے لحاظ سے درست سہی مگر اصل الفاظ سے ہٹ کر اور ’’حد ترجمہ‘‘ سے باہر ہے۔

·       گویا اس جملے  کے الگ الگ اجزاء کے تراجم یوں کیے گئے ہیں (ہر ایک کا پہلا ترجمہ اصل لفظی ہے) ’’ام تقولون‘‘= کیا تم کہتے ہو/ جوڑتے ہو/ جوڑ رہے ہو/ جھوٹ بولتے ہو  ’’علی اللّٰہ‘‘ = اللہ پر/ خدا کے بارے میں/ اللہ کے ذمے ۔’’ما‘‘ = وہ جو/ وہ بات جس کا/ ایسی باتیں جن کا/ ایسی بات جس کی۔  ’’لا تعلمون‘‘= تم نہیں جانتے/ تمہیں علم نہیں/ تمہیں مطلق علم نہیں/ کوئی علمی سند پاس نہیں رکھتے/ بے جانے بوجھے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس ترجمے میں اصل لفظ سے کتنا بُعد یا اس پر کتنا اضافہ ہے۔

۱:۵۰:۲ (۵)     [بَلٰی] اگرچہ اسے بلحاظ مادہ ’’ب ل ی‘‘ سے ماخوذ قرار دیا جاسکتا ہے (اور یہی وجہ ہے کہ معاجم میں اس کا ذکر اسی مادہ کے ضمن میں کیا جاتا ہے) ۔تاہم یہ لفظ (بلی) نہ اسم ہے نہ فعل بلکہ صرف ایک حرف ہے اور اسے ’’لا‘‘ اور ’’نعَمْ‘‘ کی طرح حرفِ جواب کہتے ہیں۔

·       یہ ہمیشہ کسی منفی جملے کے جواب میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کا مقصد ’’ردّ نفی‘‘ (نفی کا انکار) ہوتا ہے۔ یعنی منفی جملے میں جس بات کا انکار کیا گیا ہو۔ یہ لفظ اس انکار کا رد کرتا ہے اور اس کے مقابلے پر اس بات کا اقرار (یا اثبات) ثابت کرتا ہے۔ عموماً یہ کسی منفی جملۂ استفہامیہ کے جواب میں (اقرار کے مفہوم کے لیے)آتا ہے ۔ اگرچہ بعض دفعہ بغیر استفہام کے منفی جملے کے جواب میں (نفی کو رد کرکے فعل منفی کا اقرار کرنے کے لیے) بھی آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ’’نَعَمْ‘‘ (ہاں) اور ’’لَا‘‘ (نہیں) صرف استفہام کے جواب میں استعمال ہوتے ہیں۔

·       مثلاً اگر کوئی کہے ’’أزیدٌ فی البیت‘‘ (کیا زید گھر میں ہے) تو اس کے جواب میں ’’نَعَمْ‘‘ (ہاں) یا ’’لَا‘‘ (نہیں) کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر کہا جائے ’’أَلیسَ زیدٌ فی البیت‘‘ (کیا زید گھر میں نہیں ہے) تو اس کے جواب میں اگر ’’نَعَمْ‘‘ (ہاں) کہاجائے تو اس کا مطلب ہوگا ’’نَعَم لیس زید فی البیت‘‘ (ہاں زید گھر میں نہیں ہے)۔ اور اگر اس (الیس زید فی البیت) کے جواب میں ’’بلی‘‘ (ہاں) کہا جائے تو اس کا مطلب ہوگا ’’بلی زید فی البیت‘‘ (ہاں زید گھر میں ہی ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں ’’نَعَمْ‘‘ کا ترجمہ تو ’’ہاں‘‘ سے ہی کیا جاتاہے مگر ’’بَلیٰ‘‘ کا ترجمہ ’’کیوں نہیں/ ہاں کیوں نہیں‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی آدمی استفہام کے بغیر منفی جملہ ’’لیسَ زیدٌ فی البیت‘‘ (زید گھر میں نہیں ہے) کہے اور سننے والا کہے ’’بَلیٰ‘‘ تو اس کا مطلب ہوگا ’’تم غلط کہتے ہو بلکہ زید گھر میں ہی ہے‘‘

·       یہ لفظ ’’بلیٰ‘‘ قرآن کریم میں ۲۲ جگہ آیا ہے اور ان میں سے دس سے زیادہ مقامات پر تو یہ ’’استفہام مع نفی‘‘ کے جواب میں آیا ہے جیسے ’’ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ‘‘(الاعراف:۱۷۲) اور ’’ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ‘‘ (البقرہ:۲۶۰) میں ہے باقی تمام جگہوں پر یہ مطلقاً  حجد (انکار اور نفی) کی تردید میں واقع ہوا ہے اور اسی قسم کا ایک یہ مقام (زیر مطالعہ) بھی ہے جس میں یہ کسی استفہام کے بغیر عبارت ’’ لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ ‘‘ کے رد اور انکار میں آیاہے۔ اسی لیے اس کا ترجمہ ’’کیوں نہیں/ ہاں کیوں نہیں‘‘ کی بجائے اثباتِ حقیقت کے طور پر ’’واقعی بات تو یہ ہے کہ/ سچ تو یہ ہے کہ/ بات یہ ہے کہ/ بلکہ اصل یہ ہے کہ‘‘ کی صورت میں کیاگیا ہے۔

۱:۵۰:۲ (۶)     [مَنْ کَسَبَ سیّئۃً] ’’مَنْ‘‘ یہاں موصولہ (بمعنی جو کہ/ جس نے کہ) بھی ہوسکتا ہے اور شرطیہ (بمعنی جو کوئی بھی کہ/ جس کسی نے بھی) بھی ہوسکتا ہے۔ دیکھئے البقرہ:۸[۱:۷:۲ (۴)]۔ اسی لیے اس کا ترجمہ ’’جو/جو شخص/ جو کوئی/ جو کوئی بھی/ جس نے/ جن لوگوں نے‘‘ کیا گیا ہے (’’من‘‘ بلحاظ لفظ واحد اور بلحاظ معنی جمع بھی استعمال ہوتا ہے)۔

·       ’’کَسَبَ‘‘ (جو ’’ک س ب‘‘ مادہ سے فعل مجرد کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے) کے فعل، باب، معنی وغیرہ پر ابھی اوپر [۱:۴۹:۲ (۵)]بات ہوچکی ہے (کسَب یکسبُ= کمانا) یہاں بعض مترجمین نے تو فعل ماضی کا ترجمہ ماضی سے ہی کیا ہے یعنی ’’جس نے کیا/ کی/ پلے باندھی‘‘ کی صورت میں مگر بیشتر حضرات نے ’’من‘‘ شرطیہ کی بناء پر ترجمہ مضارع یا مستقبل کے ساتھ کیا ہے یعنی ’’جو کماوے/ کمائے/ کرے/ کرتا رہے/ اختیار کرے گا‘‘ کی صورت میں۔

·       ’’سَیِّئۃ‘‘ کامادہ ’’س و أ‘‘ اور وزن اصلی ’’فَیْعِلَۃٌ‘‘ ہے۔ اس کی اصل شکل ’’سَیْوِئَۃٌ‘‘ تھی۔ پھر ’’یائے ساکنہ کے بعد والی ’’واوِ مکسورہ بھی ساکن ہوکر ’’یاء‘‘ میں مدغم ہوجاتی ہے[دیکھئے ۱:۱۴:۲ (۲) میں کلمہ ’’صیّب‘‘ کی بناوٹ کی بحث]۔ اس مادہ (س و  أ)  سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ کی بحث  البقرہ:۴۹ [۱:۳۲:۲ (۴)]میں گزر چکی ہے۔

اس طرح لفظ ’’سیّئۃ‘‘ کے معنی ’’برائی ، گناہ اور بدی‘‘ ہیں اور بظاہر یہ لفظ اسم ذات (جو کسی چیز کا نام ہو) معلوم ہوتا ہے۔ تاہم بعض دفعہ یہ لفظ بری (شے) کے معنی میں بطور اسم صفت بھی استعمال ہوتا ہے جیسے  ’’ شَفَاعَةً سَيِّئَةً ‘‘ (النساء:۸۵) میں ہے یعنی ’’بری سفارش‘‘۔ تاہم غور کیا جائے تو ’’سیئۃ‘‘ (برائی۔ بدی کے معنی میں بھی) دراصل ’’اعمالٌ سیئۃٌ‘‘ ہی ہوتا ہے۔ یعنی ایسے موقع پر دراصل ’’سیئۃ‘‘ ایک محذوف موصوف کی صفت ہی ہوتا ہے۔ اس لیے بعض مترجمین نے یہاں ’’سیئۃ‘‘ کا ترجمہ ’’بری باتیں/ برے کام‘‘ سے کیاہے۔ یہی صورت اس کے مقابلے کے لفظ ’’حَسَنَۃٌ‘‘ کی ہے جو دراصل تو اسم صفت ہی ہے (بمعنی اچھا/ عمدہ/ نیک) اور بطور اسم ذات (دراصل محذوف موصوف کے ساتھ) بھی استعمال ہوتا ہے (بمعنی نیکی/ اچھائی)۔

لفظ ’’سیئۃ‘‘ (واحد) بصورت معرفہ یا نکرہ قرآن کریم میں ۲۲ جگہ آیاہے اور ’’سیئات‘‘ (بصورت جمع معرفہ نکرہ مفرد مرکب) ۳۶ جگہ آیا ہے۔

۱:۵۰:۲ (۷)     [وَاَحَاطَتْ بہٖ خَطِیْئَتُہٗ] یہ بھی ایک پورا جملہ ہے جو ’’وَ‘‘ عاطفہ (اور) + ’’احاطت‘‘ (جس پر بات ہوگی) + ’’بہ‘‘ (جو باء الجر) (ب) + ضمیر مجرور ’’ہ‘‘ ہے بمعنی ’’اس کو‘‘) +’’خَطِیْئَتُہٗ‘‘ (جس پر بات ہوگی)  کا مرکب ہے۔

·       ’’اَحَاطَتْ‘‘ کا مادہ ’’ح و ط‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفْعَلَتْ‘‘ ہے جس کی اصلی شکل ’’اَحْوَطَتْ‘‘ تھی۔ پھر اس میں واو متحرکہ کی حرکت (ــــــَــــ) اس کے ماقبل ساکن حرفِ صحیح (ح) کو دے کر خود ’’واو‘‘ کو اس کے ماقبل کی حرکت (جواب فتحہ ہوگئی ہے) کے موافق حرف (الف) میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے گویا ’’اَحْوَطَتْ= اَحَوْطَتْ = اَحَاطَت۔ اس مادہ ( ح و ط) سے فعل مجرد کے باب و معنی و استعمال کے بارے میں البقرہ:۱۹ [۱:۱۴:۲ (۱۳)]میں بات ہوچکی ہے۔

·       ’’احاطت‘‘ اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل ماضی صیغہ واحد مؤنث غائب ہے اس باب سے فعل (اَحاطَ یُحیْطُ = گھیر لینا) کے معنی اور طریق استعمال وغیرہ بھی مندرجہ بالا مقام [۱:۱۴:۲ (۱۳)]میں بیان ہوئے تھے جس میں یہ بھی بیان ہوا تھا کہ یہ فعل (احاط یُحِیط) باء (ب) کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے چنانچہ اگلے لفظ ’’بہ‘‘ کی ’’باء‘‘ یہی صلہ ہے۔ اس طرح ’’واَحَاطَت بہ‘‘کا ترجمہ بنتا ہے ’’اور وہ گھیرے میں لے چکی اس کو‘‘ پھر بعض مترجمین نے ’’مَنْ‘‘ (مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً ‘‘ سابقہ جملے والا) کو موصولہ اور جملہ کو صرف خبر یہ سمجھتے ہوئے اس کا ترجمہ بصیغۂ ماضی ہی رہنے دیاہے یعنی ’’گھیر لیا اس کو/ گھیرے میں لے لیا اس کو‘‘ کی صورت میں۔ اوربعض نے اسی(صیغۂ ماضی) کو بامحاورہ کرتے ہوئے ’’. . . . کے پھیر میں آگیا/ آگئے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ اس میں جمع کا صیغہ تو ’’مَن‘‘ کی وجہ سے آسکتا تھا مگر مجموعی ترجمہ اصل عبارت سے ہٹ کر ہے۔ بیشتر مترجمین نے ’’مَنْ‘‘ کو شرطیہ سمجھتے ہوئے عبارت کا ترجمہ جملہ شرطیہ کی صورت میں اور اس لیے فعل مضارع یا مستقبل کے ساتھ یعنی ’’گھیر لے اسے/ اس کو گھیر لے/ اس کو احاطہ کرلے/ اس کو گھیر لے گا‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ اردو ترجمہ کے لیے اختیار کردہ فعل اور محاورے کے مطابق فعل مؤنث کا ترجمہ فعل برائے مذکر سے کرنا پڑا ہے۔

·       ’’ خَطِیْئَتُہٗ ‘‘ کی آخری ضمیر مجرور (مضاف الیہ) ’’ہ‘‘ تو بمعنی ’’اس کا/ کی/ کے‘‘ ہے اور لفظ ’’خَطِیْئَۃ‘‘ (جو مضاف ہوکر خفیف ہوگیا ہے) کا مادہ ’’خ ط أ‘‘ اور وزن’’فَعیلَۃٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب معنی وغیرہ کی بحث البقرہ:۵۸ [۱:۳۷:۲ (۶)]میں بسلسلہ کلمہ ’’خطایا‘‘ ہوچکی ہے بلکہ اس لفظ (خَطِیْئَۃ) (جس کی ایک جمع ’’خطایا‘‘ ہے)  کے معنی اور ساخت وغیرہ پر بھی وہاں بات ہوچکی ہے اس لفظ کے رسم عثمانی پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی۔

·       اس طرح ’’خطِیْئَتُہٗ‘‘ کا ترجمہ ’’اس کی خطا نے / اس کے گناہ نے/ اپنے گناہ سے/ اس کا گناہ‘‘ (’’أحاطت‘‘  کے لیے اختیار کیے گئے فعل کے مطابق فرق کے ساتھ) کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بعض نے’’ خَطِیْئَتُہٗ ‘‘ کا ترجمہ بصورت جمع (اس کے گناہ) کیا جسے معنی ٔمراد ہی کہا جاسکتا ہے۔ ورنہ اصل لفظ تو واحد ہے۔

[فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ   ۚ   ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ] یہ پورے دو جملے ہیں جن کے الگ لفظوں کا ترجمہ تو یوں ہے: ’’فَ‘‘ (پس/ اس لیے/ سو) ’’اولٰئِک‘‘ = وہی ہیں/ ایسے ہی لوگ/ وہی/ یہی لوگ۔

’’اصحاب النار‘‘= دوزخ کے رہنے والے /اہل دوزخ/دوزخی/دوزخ والے۔

[’’النار‘‘ آگ/دوزخ]ـــــ ’’ھم‘‘=وہ/وہ سب

’’فیھا‘‘ =  اس میں/ اسی میں

’’خٰلِدُوْنَ‘‘ = ہمیشہ رہنے والے/ پڑے رہنے والے/ ہمیشہ رہیں گے/ پڑے رہیں گے، مندرجہ بالا تمام کلمات کی لغوی بحث البقرہ:۳۹[۱:۲۷:۲]میں ہوچکی ہے۔ ماسوائے اس فرق کے کہ یہاں جملہ ’’فاء‘‘ (ف) سے شروع ہوتا ہے اور وہاں ’’اولٰئک‘‘ سے شروع ہوا تھا۔

[وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ] اس کے ابتدائی ’’وَ‘‘ عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘) کو چھوڑ پر باقی عبارت (الذین. . . . . الصالحات)  کے تمام کلمات کی لغوی بحث اور تراجم وغیرہ البقرہ:۲۵ [۱:۱۸:۲]میں گزر چکے ہیں اس عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کیے اچھے کام‘‘۔

[اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ  ] یہ بھی ایک مکمل جملہ اسمیہ ہے اس کے بھی تمام کلمات کی لغوی بحث پہلے گزر چکی ہے۔ مثلاً

اُولٰۗىِٕكَ =’’وہ سب/ لوگ‘‘ اور دیگر اسماء اشارہ البقرہ:۵ [۱:۴:۲ (۱)]میں دیکھئے۔

اَصْحٰبُ=  ’’ساتھی/. . . . . والے‘‘ کے مادہ وغیرہ کی بحث کے لیے البقرہ:۳۹ [۱:۲۷:۲ (۴)]میں دیکھئے۔

الْجَنَّةِ = ’’باغ/ بہشت‘‘ کی لغوی بحث البقرہ:۲۵ [۱:۱۸:۲ (۴)]میں اس کی جمع ’’جنّات‘‘ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ اس طرح اس عبارت کے تراجم ہیں: ’’وہی/ ایسے/ یہی لوگ ہیں جنت والے/ اہل جنت/ جنتی‘‘ اردو میں چونکہ لفظ ’’جنت (باغ/ بہشت) مستعمل ہے اس لیے کسی نے اس کا ترجمہ کسی اور لفظ سے کرنے کی ضروت محسوس نہیں کی۔

[ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ] یہ جملہ اور اس کے تمام اجزاء کی لغوی تشریح سب سے پہلے البقرہ:۳۹ [۱:۲۷:۲]میں ہوئی تھی اور اس کے لفظی ترجمہ ’’وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے (ہوں) گے‘‘ کے علاوہ  دیگر تراجم بھی وہاں بیان ہوئے تھے۔

 

۲:۵۰:۲      الاعراب

یہ قطعہ جس میں تین آیات ہیں نحوی اعتبار سے سات مستقل جملوں پر مشتمل ہے۔ ان کے اعراب کی تفصیل یوں ہے۔

(۱)     وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً     

[وَ] یہاں مستانفہ ہے کیونکہ یہاں سے ایک الگ مضمون شروع ہوتا ہے [قالُوا] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے [لَنْ تَمسَّنَا] میں ’’لَنْ تَمَسَّ‘‘ فعل مضارع معروف منصوب ’’بِلَنْ‘‘ صیغہ واحد مونث غائب ہے۔ صیغہ کی تانیث آگے آنے والے فاعل ’’النارُ‘‘ (مؤنث سماعی) کے لیے ہے۔ علامتِ نصب (مضارع) یہاں ’’سَّ‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے۔ جو دراصل ’’لَنْ تَمْسَسَ‘‘ تھا اس کا آخری ’’نَا‘‘ ضمیر منصوب متصل ہے جو فعل (لَنْ تمسَّ) کا مفعول بہ ہے۔

[النارُ] فاعل (لن تمسَّ) ہے اس لیے مرفوع ہے علامت رفع آخری ’’ر‘‘ کا  ضمہ (ــــُـــــ)  ہے [اِلَّا] حرفِ استثنا ہے جو نفی کے بعد آنے کی وجہ سے حصر کا کام دے رہا ہے اس کا ترجمہ ’’مگر صرف/ محض‘‘ سے ہوگا۔ [اَیَّامًا] یہ ’’اِلّا‘‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ فعل ’’لن تمسَّ‘‘ کا ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اس لیے کہ اگر آپ فعل میں  سے حرف نفی ’’لن‘‘ اور حرف استثناء ’’اِلَّا‘‘ نکال دیں تو عبارت بنے گی۔ تمسَّنا النارُ ایّامًا (آگ ہمیں کچھ دن چھوئے گی) یعنی  ’’ایّامًا‘‘ بطور ظرف منصوب آئے گا۔ [معدودۃ] ’’ایامًا‘‘ کی صفت لہٰذا منصوب ہے اور’’ایام‘‘ کی جمع مکسر ہونے کی وجہ سے صفت واحد مؤنث لائی گئی ہے۔ اس طرح جملہ ’’ لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً ‘‘ ابتدائی فعل ’’قالوا‘‘ کا مفعول (مقول) ہوکر محلاً نصب میں ہے۔ اس پورے جملے (وقالوا. . . . معدودۃً)کے تراجم اور حصر کے لیے اردو الفاظ پر حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے  یہاں ایک جملہ مکمل ہوتاہے، اسی لیے اس کے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے۔

(۲)    قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗٓ

[قُل] فعل امر مع ضمیر فاعل مستتر ’’اَنْت‘‘ ہے۔ اور یہاں سے ایک الگ جملہ (مستانفہ) شروع ہوتا ہے [اَتّخَذتم] کا ابتدائی ہمزہ (أ) استفہام کاہے اور فعل ’’اِتّخذتم‘‘ کا ابتدائی ہمزۃ الوصل (ا) تلفظ اور کتابت دونوں سے (ایسے موقع پر) ساقط ہوجاتا ہے یعنی نہ لکھا جاتا ہے اور نہ بولا جاتا ہے ’’اِتَّخَذْتم‘‘ فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ جس میں ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ اور یہاں یہ فعل ’’اِتَّخَذَ‘‘ صرف ایک ہی مفعول کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ (جو آگے آرہا ہے) ورنہ عام طور پر فعل ’’اِتَّخَذَ‘‘ کے دو مفعول آتے ہیں۔ [عندَ اللّٰہ] میں ’’عند‘‘ ظرف مضاف (لہٰذا) منصوب ہے اور ’’اللہ‘‘ اس (ظرف) کا مضاف الیہ (لہٰذا) مجرور ہے۔ اس ظرف (عندَ + اللّٰہ) کا تعلق فعل ’’اِتَّخذتم‘‘ سے ہے اور ظرف کے فعل پر مقدم ہونے (پہلے آنے) کی وجہ سے اس میں تاکید یعنی ’’اللہ ہی کے ہاں‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے تاہم بیشتر   مترجمین نے یہاں اس ’’ہی‘‘ کو نظر انداز کیا ہے۔ [عھدا] فعل ’’اتّخذتُم‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ عام ترتیب عبارت ’’اتخذتم عھدًا عندَ اللّٰہ‘‘ بنتی تھی مگر ظرف کو تاکید یا تعجب کے لیے مقدم کردیا گیا ہے۔ [فلَنْ یُخْلِفَ] کی ابتدائی ’’فاء‘‘ (فَ) سببیہ (بمعنی ’’اس لیے‘‘ ہے اور اسکی وجہ سے یہاں ایک منصوب فعل ’’تقولوا‘‘ محذوف ہے (فاء سببیہ کے بعد فعل مضارع منصوب آتا ہے) یعنی تقدیر (اصل مفہوم) عبارت کچھ یوں بنتی ہے ’’اتَّخذ تم عند اللّٰہِ عھدًا’’فتقولوا، لن یُخلِفَ. . .  . . . ‘‘ (کیا تم نے اللہ سے عہد کر رکھا ہے جس کی بناء پر کہتے ہو کہ وہ ہرگز خلاف نہیں جائے گا)‘‘ ’’لن یُخلِفَ‘‘ بھی فعل مضارع منصوب’’بِلَن‘‘ ہے اور اس میں علامتِ نصب آخری فاء کی فتحہ (فَ)ہے۔ [اللّٰہُ] فعل ’’لن یُخلِف‘‘ کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے۔ [عھدَہٗ] مضاف (عھد) اور مضاف الیہ مل کر فعل ’’فلن یُخلفَ‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامتِ نصب ’’د‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے۔ اس طرح یہاں بھی ’’قُلْ‘‘ کے بعد والا تمام جملہ (اتخذتم. . . .عھدہٗ) فعل ’’قُل‘‘ کا مقول (مفعول) ہوکر محل نصب میں ہے۔

(۳)   اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ

[أَمْ] حرف عطف بمعنی حرفِ استفہام (کیا؟) بھی ہوسکتا ہے جو ابتدائی ھمزۃ التسویۃ(اتخذتم والا) کے بعد آتا ہے اور جسے ہمزۂ معادلہ یا ہمزۂ متصلہ بھی کہتے ہیں اور جس کا ترجمہ ’’کیا/ یا/ آیا‘‘ سے ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ’’أَم‘‘ منقطعہ ہو جس میں ’’ بَلْ ‘‘ (بلکہ) کا مفہوم ہوتا ہے۔ ھمزۃ التسویۃ اور ’’اَمْ‘‘ معادلہ متصلہ یا منقطعہ کی وضاحت  کے لیے دیکھئے البقرۃ:۵[۱:۵:۲ (۴)]

[تقولون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ ہے جس کا ’’أَمْ‘‘ کے ذریعے سابقہ جملے (نمبر۲) پر عطف ہوسکتا ہے [علی اللّٰہِ] جار (علی) مجرور (اللّٰہِ) مل کر متعلق فعل (تقولون) ہیں [مَا] موصولہ ہے جو یہاں فعل ’’تقولون‘‘ کا مفعول ہونے کے باعث منصوب ہے (اگرچہ مبنی ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہے [لا تعلمون] فعل مضارع معروف منفی ’’بِلَا‘‘ (نافیہ غیر عاملہ) ہے جس میں واو الجمع (ـــــُـــــ  وْ) ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ کی علامت ہے۔ اس کے بعد ایک ضمیر عائد محذوف ہے۔ یعنی یہ دراصل ’’لاتعلمونہ‘‘ (تم جس کو نہیں جانتے ہو) تھا۔ اور یہ جملہ فعلیہ (لا تعلمون) ’’ما‘‘ موصولہ کا صلہ ہے اور صلہ موصول مل کر ’’تقولون‘‘ کا مفعول لہٰذا محلاً منصوب ہے۔ اگرچہ بعض نحوی حضرات صرف موصول کا اعراب بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’صلہ‘‘ کا کوئی اعراب نہیں ہوتا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ صلہ موصول مل کر ہی جملے کا کوئی جز (مبتدا، خبر، فاعل، مفعول وغیرہ) بنتے ہیں صرف اسم موصول تو جملے کا الگ جز نہیں ہوتا۔

ابتدائی ’’أَمْ‘‘ کی وجہ سے یہ جملہ (نمبر۳) سابقہ جملے (نمبر۲) پر عطف بھی ہوسکتا ہے اور اس طرح بلحاظ مضمون یہ دونوں جملے (نمبر۲، ۳) دراصل ایک ہی طویل جملہ بنتے ہیں۔

(۴) بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِهٖ خَطِيْۗــــَٔــتُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ

[بَلیٰ] حرفِ جواب ہے جو سابقہ منفی بجحد (زور سے انکار) والے جملے (لن تمسَّنا النارُ) کے ردّ میں آیا ہے (اس کے ترجمہ اور اس کی وجہ پر حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے) [مَنْ] عام اسم موصول بھی ہوسکتا ہے بمعنئ ’’وہ شخص/لوگ جو کہ‘‘۔ اور یہاں یہ اسم شرط بمعنئ ’’جو کوئی بھی کہ‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ اپنے (آگے آنے والے) صلہ کے ساتھ مل کر (یا ’’شرط‘‘ کے لیے) مبتدأ کا کام دے رہا ہے لہذا محلاّ مرفوع ہے اردو مترجمین نے دونوں طرح (یعنی ’’من‘‘ موصولہ یا شرطیہ کے ساتھ)  ترجمہ کیا ہے (دیکھئے حصّہ ’’اللغۃ‘‘)ویسے شرطیہ والا ترجمہ زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہاں کسی خاص شخص یا اشخاص کی بات نہیں ہوئی بلکہ ایک عام (عمومی) قانون بیان ہوا ہے۔ [کسب] فعل ماضی مع ضمیر الفاعل ’’ھو‘‘ ہے جو ’’من‘‘ کے لیے ہے۔ یہاں بصورت ’’مَنْ شرطیہ‘‘ یہ فعل محلاً مجزوم ہے اگرچہ فعل ماضی ہونے کے باعث ’’جزم‘‘ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ [سیّئۃً]فعل ’’کسب‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے [وَ] عاطفہ ہے اور [احاطَتْ] فعل ماضی معروف صیغہ واحد مؤنث غائب ہے یہ فعل (احاطَتْ) یہاں واو عاطفہ کے ذریعے سابقہ فعل ’’کسب‘‘ پر عطف ہے یعنی ’’کسب.. . . . .‘‘اور ’’احاطَتْ‘‘ والے دونوں کام جمع ہوگئے [بِہٖ]جار مجرور (بِ+ہ)فعل ’’احاطت‘‘ سے متعلق ہیں۔ یا یوں کہئیے کہ ’’باء‘‘ (ب)  فعل ’’احاطَتْ‘‘ کا صلہ ہے اور اس طرح ’’بہ‘‘مفعول ہوکر محل نصب میں ہے۔ [خطِیئتُہ] مضاف (خطیئۃ)اور مضاف الیہ (ہ)مل کر فعل ’’احاطَتْ‘‘ کا فاعل (لہذا) مرفوع ہے۔ علامت رفع ’’خطیئۃ‘‘ کی تاء (ۃ)کا ضمہ (ـــــُـــــ) ہے اور ’’خطیئۃ‘‘مضاف ہوکر خفیف رہ گیا ہے۔ اس طرح ’’مَن‘‘ کے بعد والے دونوں جملے (کسب. . . .خطیئتُہٗ‘‘) ’’مَنْ‘‘ کا صلہ بھی بن سکتے ہیں۔ اس صورت میں صلہ موصول مل کر (من. . . .  خطیئتہ) مبتداء کا کام دے رہے ہیں جس کی خبر آگے آنے والا جملہ (فاولئک اصحب النار) ہوگا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’مَنْ‘‘شرطیہ ہو اور اس کے بعد والے دونوں جملے (کسب. . . . خطیئۃ) اس (مَنْ) کے ساتھ مل کر جملہ شرطیہ کا ابتدائی حصّہ (بیان شرط) بنتے ہیں۔ جس کا جواب شرط آگے آ رہا ہے۔

[فاولئک] کی ابتدائی ’’فاء (فَ)‘‘ رابطہ کی ہے جو جوابِ شرط کے شروع میں آتی ہے اور اسی لیے اکثر مترجمین نے اس (فَ) کا ترجمہ (جوابِ شرط کی طرح) ’’تو/سو‘‘ سے کیا ہے۔ اور ’’اولئک‘‘اسم اشارہ (جمع) مبتدأ ہے اور [اصحاب النار] مضاف (اصحاب) اور مضاف الیہ (النار) مل کر خبر (لہٰذا) مرفوع ہے علامت رفع ’’اصحاب‘‘ کی ’’ب‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ) ہے جو مضاف ہوکر خفیف بھی ہے (’’النار‘‘تو مجرور بالاضافہ ہے)۔ اس طرح یہ جملہ (فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ) ’’مَنْ‘‘شرطیہ کا جوابِ شرط بھی ہوسکتا ہے اور اگر ’’مَنْ‘‘ اور اس کے صلہ کو مبتداء سمجھا جائے تو یہ (فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ) اس کی خبر بھی بن سکتی ہے۔ اس صورت میں ’’فاء‘‘ سببیہ کا ترجمہ ’’پس/اس لیے‘‘ سے ہوگا ان دو تراکیب سے ترجمہ میں یہ فرق پڑے گا کہ شرطیہ کی صورت میں ترجمہ ’’جو کوئی بھی. . ..تو/سو. . . . ‘‘سے ہوگا اور صلہ موصول مبتدأ سمجھیں تو ترجمہ ’’جو لوگ کہ . . . .پس وہی . . . . ‘‘سے ہوگا۔ تاہم ’’مَنْ‘‘کے بعد والے جملے کو شرطیہ سمجھنا زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ یہاں بات ’’کسی خاص آدمی یا آدمیوں‘‘ کی نہیں ہورہی بلکہ ایک عام شرط (یا قانون) کا بیان ہے جو سب پر اطلاق پذیر ہوگا۔ اور اس جواب شرط جملہ (فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ)میں جمع کے صیغے (اولئک اور اصحاب)اس لیے آئے ہیں کہ ’’مَنْ‘‘ (جملہ نمبر۴ والا) شرطیہ ہو یا موصولہ واحد جمع دونوں کا مفہوم رکھتا ہے۔

(۵)  ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 

[ھُم]ضمیر مرفوع منفصل مبتدأ ہے اور [فیھا] جارّ (فی) اور مجرور (ضمیر ’’ھا‘‘ جو النار یعنی آگ کے لیے ہے) مل کر متعلق خبر مقدم ہیں۔ اور اپنی خبر سے پہلے آنے کی وجہ سے اس میں ’’اس ہی میں/اسی میں‘‘کا مفہوم پیدا ہوتا ہے جسے بعض مترجمین نے ملحوظ رکھا ہے۔ [خٰلِدُوْنَ]خبر مرفوع ہے اور یہ پورا جملہ اسمیہ (جو عام نثر میں ’’ ھُمْ خَالِدُوْنَ  فِيْهَا ‘‘ ہوتا)سابقہ خبر ’’اصحاب النار‘‘ (جملہ نمبر۴) میں سے ’’اصحاب‘‘ کا بیان یا صفت یا حال بھی ہوسکتا ہے اور ’’النار‘‘ کا بھی۔ پہلی صورت میں مفہوم ہوگا ایسے ’’اصحاب النار‘‘ (دوزخی) جو ہمیشہ اسی آگ میں رہیں گے‘‘۔ اور دوسری صورت میں مفہوم ہوگا  ’’ایسی آگ کے ’’اصحاب‘‘ (والے) جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘ تاہم سیدھی سادہ اور قابل فہم ترکیب یہی ہے کہ یہ جملہ (ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ) بھی (فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ) کی طرح جوابِ شرط ہے یا مبتدأ (من کسب . . . .  خطیئتہ) کی دوسری خبر ہے۔

(۶)  وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ  

[وَ] عاطفہ ہے جو جملے کو جملے سے ملاتی ہے [الذین] اسم موصول مبتدأ (لہٰذا) مرفوع ہے مگر مبنی ہونے کی بناء پر ظاہری علامتِ رفع سے خالی ہے۔ [اٰمنُوا] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے اور یہ جملہ فعلیہ (فعل فاعل) ہوکر ’’الذین‘‘ کا صلہ ہے [وَ] عاطفہ ہے اور [عمِلوا] بھی فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے اور [الصالحاتِ] فعل ’’عمِلوا‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامتِ نصب (ـــــَــــ) آخری ’’اتِ‘‘ ہے جس میں معرف باللام ہونے کی وجہ سے ایک کسرہ (ـــــِــــ) آئی ہے۔ اور یہ ’’الصالحات‘‘ بھی دراصل ایک محذوف موصوف کی صفت ہے یعنی مفہوم ’’الاعمال الصالحات‘‘ کا ہے۔ یہ دوسرا جملہ (عملوا الصالحات) جو فعل فاعل مفعول پر مشتمل ہے، واو عاطفہ کے ذریعے پہلے جملہ فعلیہ (اٰمنوا جو فعل مع فاعل ہے) پر عطف ہے (یعنی جن لوگوں میں ’’اٰمنوا‘‘ اور ’’عملوا الصالحات‘‘ والی دونوں باتیں جمع ہوں گی) اور یہ دونوں عطف معطوف جملے (اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ) اسم موصول ’’الذین‘‘ کا صلہ بنتے ہیں اور صلہ موصول مل کر (الذین . . . . . الصالحات) مبتدأ  کا کام دے رہے ہیں [اولئک] اسم اشارہ مبتدأ (لہٰذا یہاں) مرفوع ہے [اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ] مضاف (اصحابَ) اور مضاف الیہ (الجنۃ) مل کر ’’اولئک‘‘ کی خبر ہے اسی لیے ’’اصحاب‘‘ مرفوع ہے علامتِ رفع ’’بُ‘‘ کا ضمہ (ــــُـــــ) ہے کیونکہ یہ بوجہ اضافت خفیف بھی ہے اور ’’الجنۃ‘‘ مجرور بالاضافۃ ہے جس میں علامتِ جرّ آخری ’’ ۃ  ‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ) ہے۔ اور یہ جملہ اسمیہ (اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ) صلہ موصول (الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ) پر مشتمل مبتدأ کے لیے خبر کا کام دے رہا ہے۔

(۷)   ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ

سابقہ جملے (نمبر۵) کی طرح ہے البتہ اس میں ’’فیھا‘‘ کی ضمیر مؤنث (ھا) ’’الجنۃ‘‘ کے لیے ہے۔ یہاں بھی ’’فیھا‘‘ خبر (خالدون) پر مقدم ہے اس لیے اس کا مفہوم ’’اسی میں‘‘ کا ہے۔ اور یہ فرق بھی ہے کہ یہ جملہ (ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ) کسی شرط کے جواب میں نہیں ہے (جیسا کہ جملہ نمبر ۵ تھا) بلکہ یہ پورا جملہ (جس کی سادہ نثر ’’ھم خالدون فیھا‘‘ بنتی ہے) ’’الذین‘‘ سے شروع ہونے والے (صلہ موصول مل کر بننے والے) مبتداء (والذین اٰمنوا وعملوا الصلحت) کی خبر ثانی بنتا ہے (پہلی خبر ’’اولئک اصحب الجنۃ‘‘ تھی) اور اس جملہ (ھم فیھا خالدون) کو بھی ’’اصحاب‘‘ یا ’’الجنۃ‘‘ کی صفت یا حال بنانے کی کھینچا تانی کی جا سکتی ہے مگر خبر ثانی سمجھنا زیادہ قابلِ فہم ہے۔

 

۳:۵۰:۲      الرسم

زیر مطالعہ قطعہ آیات میں چار کلمات  (خطیئتہ، اصحب، خلدون، اور الصلحت) ایسے ہیں جن کا رسم قرآنی (عثمانی) ان کے عام رسم املائی سے مختلف ہے۔ ایک کلمہ (احاطت) کا رسم عثمانی مختلف فیہ ہے اور دو کلمات (اَتَّخذتم اور اولئک) ایسے ہیں جن کا رسم اگرچہ خلاف قیاس ہے تاہم ان کا رسم ِ املائی اور رسم عثمانی مشترک (یکساں) ہے۔ تفصیل یوں ہے۔

(۱)   ’’خَطِیْئَتُہُ‘‘ جس کا رسم املائی ’’ خَطِیْئَتُہ ‘‘ ہے یعنی اس (رسم معتاد) میں تین نبرات (دندانے) ہیں۔ پہلا ’’ط‘‘ کے بعد والی ’’یاء‘‘ کا۔ دوسرا اس کے بعد مرکز ہمزہ کے لیے (کیونکہ عام املاء میں ’’ہمزہ متوسطہ متحرکہ کے بعد ساکن ’’یاء‘‘ کے نبرہ پر لکھا جاتا ہے ) [1]اور تیسرا (نبرہ) ’’تاء‘‘ کے لیے ہے۔ مگر رسم عثمانی میں اس لفظ کی کتابت میں ہمزہ کے لیے کوئی مرکز بصورت ’’نبرۂ یاء‘‘ نہیں لکھا جاتا۔ اس لیے کہ اس صورت میں دو ’’یاء‘‘ (ط کے بعد والی اور مرکز ہمزہ والی) جمع ہوجاتی ہیں اور یہ قاعدہ (رسمِ عثمانی  کا) پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ اس میں دو ’’الف‘‘، دو ’’واو‘‘ اور دو ’’یاء‘‘ آجائیں (جسے اجتماع مثلَین کہتے ہیں) تو صرف ایک ہی حرف لکھا جاتا ہے [2] البتہ اس کے بعض مستثنیات ہیں جو اپنی اپنی جگہ بیان ہوں گے۔ یہ لفظ بصورت واحد (خطیئۃ) اور بصورت جمع سالم (خطیئات) مفرد و مرکب صورتوں میں قرآن کریم کے اندر پانچ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ اسی طرح (مرکز ہمزہ کے لیے نبرہ کے بغیر) لکھا جاتا ہے۔

(۲) ’’اصحب‘‘ جس کا رسمِ املائی ’’اصحاب‘‘ ہے قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ (اور یہ لفظ مختلف صورتوں میں ۸۰ کے قریب مقامات پر آیا ہے) ’’بحذف الالف بعد الحاء‘‘ یعنی بصورت ’’اصحب‘‘ لکھا جاتا ہے البتہ اس کا واحد ’’صاحب (جو معرفہ نکرہ مذکر مؤنث مفرد مرکب شکلوں میں قریباً ۱۶ جگہ آیا ہے) عموماً باثبات الف لکھا جاتا ہے۔ اس کا مفصل بیان حسبِ موقع آئے گا۔ لفظ ’’اصحب‘‘ زیر مطالعہ عبارت میں بھی دو دفعہ آیا ہے۔

(۳)  ’’خلدون‘‘ جس کی رسم املائی ’’خالدون‘‘ ہے۔ یہاں دونوں جگہ اور قرآن کریم میں ہر جگہ (اور یہ لفظ مختلف اعرابی صورتوں (رفع نصب جر) میں (خالدون/خالدین) ستر کے قریب جگہوں پر آیا ہے۔) ’’بحذف الالف بعد الخاء‘‘ لکھا جاتا ہے۔ البتہ اس کا واحد (خالد) جو چار جگہ آیا ہے، عموماً باثبات الف لکھا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں مفصل بات حسب موقع ہوگی۔

(۴)   ’’الصلحت‘‘ جس کا عام رسم املائی ’’الصالحات‘‘ ہے۔ قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ (اور یہ لفظ اس طرح بصورت جمع مؤنث سالم۔ معرفہ یا نکرہ قرآن کریم میں ساٹھ سے زائد مقامات پر آیا ہے) بحذف الالفین یعنی دونوں الف (ایک ’’ص‘‘ کے بعد دوسرا ’’ح‘‘ کے بعد) حذف کرکے لکھا جاتا ہے۔ اگرچہ پڑھے  دونوں الف جاتے ہیں اور ضبط کے مختلف طریقوں سے ظاہر کیے جاتے ہیں۔ اس کے واحد مذکر (صالح) اور جمع (صالحون) نیز تثنیہ (صالحین) وغیرہ کے رسم عثمانی پر حسب موقع بات ہوگی۔

(۵)  ’’اَحَاطَتْ‘‘ یہ لفظ اس صورت میں (فعل ماضی صیغہ واحد مؤنث غائب) قرآن کریم میں صرف اسی ایک جگہ آیا ہے۔ الدانی نے اس کے حذفِ الف بعد الحاء کا کہیں ذکر نہیں کیا جو اس (الف) کے اثبات کو مستلزم ہے بلکہ علامہ ارکاٹی نے اس کے ’’اثبات الالف بعد الحاء المہملہ‘‘ پر اتفاق بیان کیا ہے کیونکہ یہ الف ’’واو‘‘ کی بدلی ہوئی صورت ہے ۔ [3] تاہم ابوداؤد کی طرف منسوب قول کی بناء پر اسے ’’بحذف الالف بعد الحاء‘‘ لکھا جاتا ہے ۔[4]  چنانچہ لیبیا اور ایشیائی ممالک (برصغیر، ایران اور ترکی وغیرہ) کے مصاحف میں اسے باثبات الف (احَاطَت) لکھا گیا ہے۔  جب کہ بیشتر عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے بخذف الف (احٰطَتْ)   لکھا گیا ہے ۔ ویسے بابِ افعال کے اس فعل کا صیغہ ماضی واحد مذکر غائب (احاطَ)  جو قرآن کریم میں پانچ جگہ آیا ہے ہرجگہ باتفاق اثباتِ الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے (یعنی ’’احاطَ‘‘)

 (۶) ’’اَتَّخَذْتُمْ‘‘‘ جو در اصل ’’ أَ اِتَّخَذْتُمْ ‘‘ ہے جس میں پہلا ہمزۂ استفہام اور دوسرا ہمزۃ الوصل ہے۔ رسم عثمانی میں (اور بعض دفعہ رسم املائی میں بھی)  کئی مواقع پر ہمزۃ الوصل کتابت سے بھی ساقط کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعض مواقع پہلے گزر چکے ہیں (مثلاً ’’للمتقین‘‘ ۲:۱:۲ میں)  اور بعض آگے آئیں گے۔ ہمزۃ الوصل کے کتابت سے ساقط ہونے کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ ہے کہ ’’اگر ہمزۂ استفہام کے معاً بعد ہمزۃ الوصل مکسور (ـــــِــــوالا) آئے (جو عموماً خماسی یعنی ’’پانچ حرفی‘‘ اور سداسی یعنی ’’چھ حرفی‘‘ ماضی یااس کے مصدر میں ہوتا ہے) تو یہ ہمزۃ الوصل لکھنے میں گرا دیا جاتا ہے (پڑھا تو ویسے بھی نہ جاتا) اس کی ایک مثال یہ (زیر مطالعہ) لفظ ’’اَتَّخذتم‘‘ ہے اس کے علاوہ اس قسم کے کئی الفاظ مثلا ’’ اَطَّلَعَ ‘‘ (مریم:۷۸) ’’ وَاسْتَكْبَرْت ‘‘ (الزمر:۵۹) اور ’’ اَفْتَرٰى ‘‘ (سبا:۸) وغیرہ ہیں جن کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ اگر ہمزۂ استفہام اور ہمزۂ وصل کے درمیان کوئی اور حرف آجائے تو ہمزۃ الوصل کتابت میں برقرار رہے گا (اگرچہ تلفظ میں نہیں آئے گا) مثلاً ’’)أَفَاتَّخَذْتُمْ( اَفَاتَّخَذْتُمْ ‘‘ (الرعد:۱۶) میں۔ اسی طرح اگر ہمزۂ استفہام کے معاً بعد ہمزۃ الوصل مفتوح (ــــــَــــ والا) آئے تو اس کا الگ قاعدہ ہے جو اپنی جگہ بیان ہوگا۔ ہمزۂ استفہام کے بعد مکسور ہمزۃ الوصل کے کتابت سے ساقط ہونے کا قاعدہ رسم املائی میں بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے [5]۔ اس طرح یہ لفظ (اَتَّخذتم) رسم عثمانی اور رسم املائی دونوں میں بحذفِ ہمزۃ الوصل لکھا جاتا ہے۔

(۷) ’’اولئک‘‘ بھی ان کلمات میں سے ہے جن کا رسم املائی بھی خلافِ قیاس اور رسم عثمانی ہی کی یادگار ہے اس لفظ کے رسم پر البقرہ:۵ کی بحث الرسم یعنی [۳:۴:۲] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

 

۴:۵۰:۲      الضبط

زیر مطالعہ تین آیات کے کلمات میں ضبط کے تنوع کو مندرجہ ذیل مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے ان میں سے بیشتر کلمات کے ضبط کی مثالیں پہلے بھی گزر چکی ہیں۔ تفصیل یوں ہے۔

 



[1]  رسم املائی کے اس قاعدہ کے لیے دیکھئے نخبۃ الاملاء (للخلیفہ) ص ۱۱۰۔ اور کتاب الکتاب ص ۱۶

[2] رسم عثمانی کے اس قاعدہ کے لیے دیکھئے نثر المرجان ۱: ۱۷۴۔ والمقنع (للدانی) ص ۴۹۔ نیز دیکھئے اسی کتاب میں [۳:۲۲:۲] کلمہ ’’انبؤنی‘‘ کا رسم۔ جہاں یہ قاعدہ بیان ہوا ہے۔

 

[3] دیکھئے نثر المرجان ۱: ۱۷۳

[4] سمیر الطالبین ص ۴۴

[5] اس قسم کے کلمات کے رسم عثمانی میں قاعدہ کے لیے دیکھئے المقنع (للدانی ) ص ۲۹۔ دلیل الحیران (للمازعنی) س ۹۷، سمیر الطالبین (للضباع) ص ۷۷۔ اور رسم املائی کے قاعدہ کے لیے دیکھئے کتاب الکُتَّاب (لابن درستوریہ) ص ۱۲ نیز نخبۃ الاملاء (للخلیفہ) ص ۵۲۔