سورۃ البقرہ آیت نمبر ۸۳

۵۱:۲         وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ لَاتَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ  ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْکُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۸۳)

۲: ۵۱:  ۱      اللغۃ

[وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ] یہ ایک مکمل جملہ ہے جو کل چھ کلمات پر مشتمل ہے۔ ان تمام کلمات کی لغوی بحث اس سے پہلے گزر چکی ہے۔ مثلاً

(۱)   ’’ وَ ‘‘ جو یہاں مستانفہ ہے جس کا مفہوم تو ’’اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ‘‘  کا ہوتا ہے مگر اردو میں اس کا ترجمہ بھی صرف ’’اور‘‘ سے کرلیا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے [۱:۷:۲ (۱)]

(۲)  ’’اِذْ‘‘ ظرف بمعنی ’’جب کہ/جس وقت‘‘ ہے۔ اس کے استعمال اور اس سے پہلے ایک محذوف فعل (اذکروا=یاد کرو) کے مفہوم کے بارے میں دیکھئے البقرہ:۳۰ [۱:۲۲:۲ (۱)]

(۳)  ’’اَخَذْنَا‘‘ جس کا مادہ ’’ا خ ذ‘‘ اور وزن ’’فَعَلْنَا‘‘ ہے، کے فعل مجرد (اَخَذَ یَاْخُذُ = پکڑنا۔ لینا) پر البقرہ:۴۸ [۱:۳۱:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی اور خود زیر مطالعہ صیغہ ’’اَخَذْنَا‘‘ کے لیے دیکھئے البقرہ: ۶۳ [۱:۴۱:۲ (۱)] یہاں اَخَذْنَا کا ترجمہ ہوگا: ہم نے لیا۔

(۴) ’’مِیْثَاقَ‘‘ جس کا مادہ ’’و ث ق‘‘ اور وزن ’’مِفْعَال‘‘ ہے، کے فعل مجرد (وَثِقَ۔ یَثِقُ= اعتماد کرنا) کے معنی و استعمال اور خود اس لفظ ’’میثاق‘‘ کی ساخت، اس میں ہونے والی تعلیل اور اس کے معانی (قول و قرار، عہد وغیرہ) کے لیے دیکھئے البقرہ:۲۷ [۱:۱۹:۲ (۱۴)]

صیغہ ’’اَخَذْنَا‘‘ قرآن کریم میں ۲۶ جگہ آیا ہے جن میں سے دس جگہ اس کا استعمال ’’میثاق‘‘ کے ساتھ (معنی عہد لینا۔ قرار لیناوغیرہ) آیا ہے۔ باقی استعمالات (مثلاً عذاب میں پکڑنا وغیرہ) حسبِ موقع بیان ہوں گے۔

·       ۵/۶ ’’بَنِی اِسْرَائِیْل‘‘ جس کا ابتدائی (مضاف) کلمہ ’’بَنِی‘‘ لفظ ’’ابن‘‘ کی جمع سالم (بنونَ) کی ’’مجرور‘‘ اور خفیف (بوجہ اضافت) صورت ہے۔ اس اسرائیل سے مراد حضرت یعقوبؑ ہیں۔ ترکیب (بنی اسرائیل) کی مکمل لغوی بحث البقرہ:۴۰ [۱:۲۵:۲ (۱)] میں ہوچکی ہے البتہ وہاں ’’بنی اسرائیل‘‘ منادیٰ آیا تھا (اے بنی اسرائیل) مگر یہاں یہ لفظ ’’میثاق‘‘ کا مضاف الیہ ہوکر آیا ہے۔ اکثر مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’’بنی اسرائیل‘‘ ہی سے کیا ہے، اگرچہ اس کا لفظی ترجمہ ’’اسرائیل کے بیٹے/اسرائیل کی اولاد‘‘ ہوسکتا ہے۔

·       اس طرح اس عبارت (وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور جب ہم نے لیا عہد اسرائیل کے بیٹوں/کی اولاد/کا‘‘ .  . . جس کی سلیس اور بامحاورہ صورت کے لیے ’’ کا ‘‘ کی بجائے ’’سے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کرنا ہوگا  . . . اور  اس طرح میثاق کے مختلف معانی کے ساتھ ترجمہ کرتے ہوئے اس عبارت کے تراجم ’’ہم نے لیا قول/اقرار/قول قرار/پکا عہد. . . بنی اسرائیل سے‘‘ کی شکل میں کیے گئے ہیں۔ نیز اردو ترکیب میں ’’بنی اسرائیل سے‘‘ شروع میں اور فعل اور مفعول کا ترجمہ بعد میں لانا پڑتا ہے۔ بعض حضرات نے ترجمہ کے ساتھ بعض تفسیری اضافے کردئیے ہیں مثلاً ’’بنی اسرائیل‘‘ (کے اگلے لوگوں) سے‘‘ یا مثلاً ’’(توریت) میں عہد لیا‘‘ وغیرہ . . . . . جوترجمہ کی حد سے تجاوز ہے۔

[لَاتَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ ] اس جملے کے تمام کلمات پہلے بھی زیر بحث آ چکے ہیں۔ مثلاً ’’لَاتَعْبُدُوْنَ‘‘ جو ’’ع ب د‘‘ مادہ سے فعل مجرد کا فعل مضارع منفی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس کے فعل مجرد (عبَد یعبُد=عبادت کرنا) کے باب، معنی اور استعمال کی وضاحت الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱ (۲)] میں کی جا چکی ہے۔ اسی طرح ’’لاتعبدون‘‘ کا لفظی ترجمہ تو ہے ’’تم عبادت نہیں کروگے/کرتے ہو‘‘ مگر سیاق عبارت کی وجہ سے یہ یہاں مفہوم فعل نہی کا رکھتا ہے۔ اس پر ابھی کچھ بات ہوگی اور مزید وضاحت ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔

’’اِلَّا‘‘ جو حرف استثناء (بمعنی ’’مگر/سوا/بجز‘‘) ہے کے معنی و استعمال وغیرہ پہلی دفعہ البقرہ:۹ [۱:۸:۲ (۳)] میں بیان ہوئے تھے اور اسم جلالت (اللہ) تو اب کئی دفعہ آ چکا ہے، البتہ اس کی لغوی بحث کے لیے چاہیں تو دیکھئے [۱:۱:۱ (۲)]

·       یوں اس (زیر مطالعہ) عبارت کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’تم عبادت نہیں کروگے مگر اللہ کی‘‘.. .  اس  سے پہلے بنی اسرائیل سے ’’عہد‘‘ لینے کا ذکر ہے اور اس عہد کی شرائط آگے بیان ہو رہی ہیں جن میں پہلی شرط ’’توحید کا پابند رہنا‘‘ تھی جو یہاں ان الفاظ (لَاتَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ) کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں ’’اخذ میثاق‘‘ (عہد لینا) کا جہاں جہاں ذکر آیا ہے اس کے بعد اس عہد کی تفصیل (یا بیان شرائط) (۱) یا تو بصورت فعل امر ہوا ہے۔ یعنی ’’عہد لیا کہ یوں کرو‘‘۔ اس کی ایک مثال تو البقرہ: ۶۳[۱:۴۱:۲] میں گزری تھی جہاں ’’و اذ اخذنا میثاقکم. . . ‘‘(جب ہم نے تمہارا عہد لیا) کے بعد ’’خذوا‘‘ (پکڑیو) آیا تھا اور (۲) کبھی ’’اخذ میثاق‘‘ ’’قسم لی/حلف لیا‘‘ کے مفہوم میں لے کر تفصیل کے لیے ’’لام تاکید برائے قسم‘‘ کے ساتھ مضارع کا صیغہ آتا ہے جیسے ’’ وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ‘‘ (آل عمران:۱۸۸) کے بعد ’’لَتُبَیِّنُنَّہٗ ‘‘ آیا ہے (یعنی تم ضرور ہی اس کو واضح کردوگے) . . (۳) اور کبھی لام تاکید و قسم کے بغیر یا امرونہی کے بغیر سادہ صیغہ مضارع آتا ہے مگر اس میں مفہوم زور دار نہی یا تاکید کا ضرور ہوتا ہے یا یوں کہئے کہ ’’اخذ میثاق‘‘ کے ذکر کے بعد ایک ’’اَنْ‘‘ (یہ کہ) محذوف ہوتا ہے (اس لیے اگلا فعل منصوب تو نہیں ہوتا مگر مفہوم وہی رکھتا ہے) . . .

·       یہی وجہ ہے کہ یہاں بلحاظ مفہوم و سیاق عبارت ’’لاتعبدون‘‘ کا ترجمہ ’’لاتعبدوا‘‘ کی طرح کیا گیا ہے۔ اور اس میں بھی بعض نے تو سیدھا فعل نہی کی طرح ترجمہ کردیا ہے یعنی ’’اللہ کے سوا ’کسی کو‘ نہ پوجو/عبادت نہ کرو‘‘ (یہاں ترجمہ میں ’’کسی کو‘‘ کیوں لایا گیا ہے اس پر ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی)  . . . جبکہ ’’میثاق‘‘ کی شرط اور تاکید والے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے اردو محاورے کے مطابق بعض حضرات نے ’’عبادت نہ کرنا/عبادت مت کرنا/بندگی نہ کریو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جس میں نہی کے ساتھ تاکید والا مفہوم بھی موجود ہے۔ پھر زیادہ تر مترجمین نے تو اسم جلالت (اللہ) کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے اگرچہ بعض نے اردو فارسی کا لفظ ’’خدا‘‘ بھی استعمال کرلیا ہے۔

۱:۵۱:۲ (۱)     [وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً] ابتدائی ’’و‘‘ عاطفہ (معنی ’’اور‘‘ ہے باء الجر (بِ) کا یہاں ترجمہ ’’کے ساتھ‘‘ ہوسکتا ہے۔ یہ (بِ) یہاں بطور صلۂ فعل ہے جس پر ابھی بات ہوگی (اِحْسَانًا کے ضمن میں) ۔ نیا لفظ یہاں ایک تو ’’الوَالدَیْن‘‘ ہے جو لفظ ’’والد‘‘ کا تثنیہ مجرور ہے۔ اور  ’’والد‘‘ کا مادہ ’’و ل د‘‘ اور وزن ’’فاعل‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’وَلَد. . . .یَلِدُ (در اصل یَوْلِدُ) وِلَادۃً‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’. . .کو جننا(یعنی کسی بچے کو جنم دینا)‘‘۔ اس فعل کا اصل فاعل تو عورت (یا کوئی مادہ جانور) ہوتا ہے اور اس کے لیے صیغۂ فعل اس سے مؤنث ہی آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’ولدَتِ المرأۃُ‘‘ (عورت نے جنا) اس لیے اس سے اسم الفاعل ’’وَالِدٌ‘‘ (بصیغہ مذکر بغیر تائے تانیث) ماں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ دراصل ’’جننے کا عمل‘‘ تو عورت (یا مادہ) سے مختص ہے۔ جیسے کہتے ہیں ’’امرأۃ حاملٌ‘‘ (حمل والی عورت) اور ’’امرأۃٌ حائضٌ‘‘ (حیض والی عورت) . . .کیونکہ ’’ولادت‘‘ (جننا) کی طرح ’’حمل‘‘ (پیٹ میں بچہ اٹھانا) اور ’’حیض‘‘ (ماہواری خون آنا) عورت ہی سے خاص ہیں، تاہم ان (صفات) کے ساتھ عورت کے لیے تائے تانیث بھی استعمال ہوئی ہے مثلا ’’وَالدۃٌ‘‘ ، ’’حاملۃٌ‘‘ یا ’’حائضۃٌ‘‘ بھی کہتے ہیں . . ..اوربعض دفعہ یہ فعل (ولَد یلِد) کسی مذکر فاعل (یا اس کی ضمیر فاعل) کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد ’’باپ ہونا‘‘ ہوتا ہے، جیسے قرآن کریم میں کافروں اور مشرکوں کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے ’’ اَلَآ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَيَقُوْلُوْنَ؀وَلَدَ اللّٰهُ ۙ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ‘‘ (الصافات:۱۵۱، ۱۵۲) اسی طرح سورۃ الاخلاص میں فعل ’’لَمْ یَلِدْ‘‘ بصیغۂ مذکر آیا ہے (ان پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ) . . .اسی لیے ’’باپ‘‘ کے لیے بھی صیغہ اسم الفاعل ’’وَالِدٌ‘‘ استعمال ہوتا ہے اور ’’والد‘‘ اور ’’والدۃ‘‘ دونوں کا تثنیہ (والدَان/والدَین) استعمال ہوتا ہے اور یہ تغلیب مذکر اس طرح ہے جیسے آپ کہیں ’’الرجلُ وَالمرأۃُصالحان‘‘ (مرد اور عورت دونوں نیک ہیں) . . .قرآن کریم میں یہ صیغہ تثنیہ ’’والدان‘‘ معرفہ نکرہ مفرد مرکب اور مختلف اعراب کے ساتھ بیس مقامات پر آیا ہے۔

 

·       فعل ’’ولَد یلِد‘‘ متعدی فعل ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ آتا ہے جیسے ’’وَلَدْنَھُمْ‘‘ (المجادلہ:۲) میں ہے یعنی ’’ان عورتوں نے ان (مردوں) کو جنا‘‘. . .تاہم قرآن کریم میں زیادہ تر یہ فعل محذوف (غیر مذکور) مفعول کے ساتھ آیا ہے۔ اور فعل مجرد کے نو مختلف صیغوں کے علاوہ اس مادہ (ولد) سے مشتق اور ماخوذ متعدد کلمات (ولدٌ، والدٌ، ولید، مولود، اولاد وغیرہ) ۹۰ سے زیادہ مقامات پر آئے ہیں۔ دوسرا وضاحت طلب لفظ اس عبارت میں ’’اِحْسَاناً‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ح س ن‘‘ اور وزن ’’اِفْعَالاً‘‘ ہے۔ گویا یہ اپنے مادہ سے باب افعال کا مصدر ہے۔ (یہاں اس کی نصب پر آگے ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی) . . .اس مادہ سے فعل مجرد کے باب و معنی کے علاوہ اس سے بابِ افعال (اَحْسَن یُحْسِنُ) کے معانی پر بھی البقرۃ:۵۸ [۱:۳۷:۲ (۸)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’اِحْسان‘‘ کے اصل معنی تو یہ ہیں ’’کوئی کام بہت اچھے طریقے پر کرنا‘‘ مثلا کہیں گے ’’اَحْسَنَ الوُضوءَ‘‘ (اس نے بہت اچھے طریقے سے وضو کیا) یا جیسے ’’فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ‘‘ (التغابن:۳) میں ہے (یعنی تمہاری صورتیں بہت اچھی بنائیں) اگر اس فعل پر (مفعول سے پہلے) ’’بِ‘‘ (باء) یا ’’اِلیٰ‘‘ کا صلہ آئے تو اس کا مطلب ہوتا ہے ’’ . . .سے حسن سلوک کرنا‘‘ یا ’’ . . .کے ساتھ بھلائی کرنا‘‘۔ جیسے ’’ قَدْ اَحْسَنَ بِيْٓ ‘‘ (یوسف:۱۰۰) اور ’’اَحْسَنَ اللہُ اِلَیْکَ‘‘ (القصص:۷۷) میں ہے۔ (ان عبارات کے معنی وغیرہ کی حسب موقع وضاحت ہوگی ان شاء اللہ)

·       یہاں جو ’’بالوالدین ‘‘ پر باء الجر (بِ) آئی ہے اس کا تعلق اسی مصدر ’’احسان‘‘ (جو یہاں منصوب آیا ہے) کے ساتھ (صلہ کا) ہے۔ اس کی اعرابی ترکیب (جو ترجمہ کی بنیاد ہے) پر تو آگے ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی، یہاں سردست ہم ترجمہ کیے دیتے ہیں۔ اس عبارت (وبالوالدین احساناً) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’اور ساتھ ماں باپ کے حسن سلوک کرنا‘‘ (ہوگا)۔ اسی کو مختلف مترجمین نے ’’ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا/نیک سلوک کرنا/اچھی طرح خدمت گزاری کرنا/حسن سلوک سے پیش آنا/بھلائی کرتے رہنا‘‘ کی صورت میں تراجم کیے ہیں۔ ان تمام تراجم میں فعل امر اور تاکید کا مفہوم موجود ہے (بلکہ بعض نے ترجمہ ہی ’’سلوک کرو‘‘ سے کردیا ہے)۔ یہ ’’احسان کرنا‘‘ (مصدر) میں ’’کرنا ہوگا/کرتے رہنا‘‘ فعل امر) کا مفہوم کیسے پیدا ہوا ہے، اس پر آگے ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی۔

۱:۵۱:۲ (۲)      [وَ ذِی الْقُرْبٰی]  ’’و‘‘ تو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے اور ’’ذی القربیٰ‘‘ جو ’’ذی ‘‘ اور ’’القربیٰ‘‘ کا مرکب ہے، اس کے دونوں حصوں پر الگ الگ بحث کرنا ضروری ہے۔

(۱)  ’’ذِی‘‘ (جس کا اردو ترجمہ ’’ . . . والا‘‘ ہے) ’’ذو‘‘ کی مجرور صورت ہے (جو ’’بالوالدین‘‘ کی باء الجر پر عطف کے باعث مجرور ہے . . .اور ’’ذُوْ‘‘ اسمائے ستہ مکبّرہ میں سے  جو ایک اسم ہے۔ یہ اسماء ’’ذو (والا)، اَبٌ (باپ)، اَخٌ (بھائی، فَمٌ (منہ)، حَمٌ (سسر) اور ھَنٌ (بری چیز)‘‘ ہیں۔ ان میں سے آخری دو تو قرآن میں کہیں استعمال نہیں ہوئے، پہلے چار مختلف حالتوں میں مختلف مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ ان ’’اسماء ستہ مکبّرہ‘‘ (چھ بڑے کیے ہوئے اسماء) کا مشترکہ قاعدہ تو یہ ہے کہ یہ اسماءجب مضاف ہوکر آئیں تو رفع میں ان کے آخر پر ’’و‘‘ نصب  میں الف (۱) اور جر میں ’’ی‘‘ بڑھا دی جاتی ہے (اور اسی اضافہ کی وجہ سے یہ ’’مکبرہ‘‘ کہلاتے ہیں) سوائے ’’ذُو‘‘ کے کہ اس کے آخر پر پہلے ہی ’’واو‘‘ ہے، البتہ نصب اور جر میں ’’ذ‘‘ کے بعد علی الترتیب (۱) اور (ی) کا اضافہ ہوتا ہے۔ باقی اسماء پر تو حسب موقع بات ہوگی ‘ یہاں اس’’ذُو‘‘ کے طریق استعمال کی وضاحت کی جاتی ہے۔

·       اس لفظ (ذو) کی مذکر مؤنث کے لیے مختلف صورتیں ہیں (والا۔ والی کے معنی میں) پھر ہر ایک کے تثنیہ اور جمع کی الگ صورتیں (والے۔ والیاں کے معنی میں) ہیں اور اسماء کی طرح ہر ایک (واحد تثنیہ جمع۔ مذکر مؤنث)کی رفع نصب جر میں الگ الگ شکل ہوتی ہے۔ یعنی اس (ذُو) کی اپنی اعرابی گردان ہے جو اس کی تمام صورتوں کو سمجھنے کے لیے ذیل میں درج کی جاتی ہے۔

 

مذکر کی صورتیں

مؤنث کی صورتیں

 

رفع

نصب

جر

رفع

نصب

جر

واحد

ذُو. . .

ذَا. . .

ذِی. . .

ذَاتُ. . .

ذَاتَ. . .

ذَاتِ. . .

تثنیہ

ذَوَا. . .

ذَوَیْ. . .

ذَوَیْ. . .

ذَاتَا. . .

ذَاتَیْ. . .

ذَاتَیْ . . .

(دوسری صورت)

ذَوَا

ذَوَیْ

ذَوَیْ

ذَوَاتَا. . .

ذَوَاتَیْ. . .

ذَوَاتَیْ. . .

جمع

ذَوُوْ. . .

ذَوِیْ. . .

ذَوِیْ. . .

ذَوَاتُ. . .

ذَوَاتِ. . .

ذَوَاتِ. . .

 

اُولُوْ. . .

اُولِیْ. . .

اُولِیْ. . .

اُولاتُ. . .

اُولَاتِ. . .

اُولَاتِ. . .

·       ان اسماء کے بارے میں حسب ذیل امور نوٹ کرلیجئے:۔

(۱)  یہ تمام اسماء (یا’’ذُوْ‘‘ کی مختلف شکلیں) ہمیشہ مضاف ہوکر ہی استعمال ہوتی ہیں۔ اوپر ہر ایک کے بعد جو نقطے (. . .) ڈالے گئے ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کے بعد ایک مضاف الیہ ضرور آتا ہے۔

(۲)  ان کا مضاف الیہ ہمیشہ کوئی اسم ظاہر ہوتا ہے یعنی یہ کسی ضمیر کی طرف مضاف نہیں ہوتے۔ ان کا اردو ترجمہ حسب موقع ’’ . . .والا، . . .والے، . . .والیاں‘‘ سے کیا جائے گا۔

(۳) آپ نے دیکھا کہ تثنیہ مؤنث کے لیے دو مختلف صورتیں استعمال ہوتی ہیں۔ قرآن کریم میں مؤنث کی صرف دوسری صورت کا ایک ہی لفظ (بحالتِ رفع) ’’ذَوَاتَا‘‘ استعمال ہوا ہے۔ تثنیہ مؤنث کی پہلی صورت قرآن میں کہیں استعمال نہیں ہوئی۔

(۴)  جمع میں مذکر مؤنث دونوں کے لیے دو دو صورتیں آئی ہیں۔ قرآن کریم میں زیادہ تر دوسری صورت (اولو، اولات والی) استعمال ہوئی ہے۔

(۵)  ’’اولو . . .، اولی . . .وغیرہ‘‘ میں ابتدائی ہمزہ (بصورت الف) کے بعد جو ’’و‘‘ ہے وہ تلفظ میں نہیں آتی مگر لکھی ضرور جاتی ہے (اُولئِک کی طرح) اور یہ زائد ’’واو‘‘ رسم قرآنی اور رسم املائی دونوں میں لکھی ضرور جاتی ہے (اگرچہ پڑھی نہیں جاتی)

(۶)  ’’ذُو‘‘ کی اس گردان کے مختلف کلمات ذہن نشین کرلیں، کیونکہ ان میں سے بیشتر صورتیں قرآن کریم میں ہمارے سامنے آئیں گی۔ اب ہم اس ترکیب (ذِی القربٰی) کے دوسرے لفظ ’’القربیٰ‘‘ کو لیتے ہیں۔

(۲)  ’’القُرْبیٰ‘‘ کا مادہ ’’ق ر ب‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فُعْلیٰ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (قَرُبَ یَقرُبُ/قَرِبَ یَقرَبُ= قریب ہونا۔ قریب جانا) کے ابواب اور معنی و استعمال کی تشریح البقرہ:۳۵[۱:۲۶:۲ (۸)] میں کی جا چکی ہے۔

·       یہ لفظ (قُرْبیٰ) اس مادہ سے افعل التفضیل (اَقْرَبُ) کا صیغۂ مؤنث ہے جس کا ترجمہ تو بنتا ہے ’’بہت زیادہ قریب (کوئی مؤنث) چیز‘‘ . . .تاہم عربی میں یہ لفظ ’’قرابت‘‘ (قریب کی رشتہ داری) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ’’قرابۃ‘‘ بھی اس معنی کے لیے عربی لفظ ہے (جو ’’قرابت‘‘ کی املاء کے ساتھ اردو میں مستعمل ہے) تاہم یہ لفظ (قَرابۃ) قرآن کریم میں نہیں آیا۔ البتہ اس کے دو ہم معنی لفظ ’’قُربیٰ‘‘ اور ’’مَقْرَبَۃ‘‘ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

·       اس طرح ’’ذِی الْقُربیٰ‘‘ کا ترجمہ ہوا ’’قرابت/قریبی رشتہ داری والا‘‘۔ جس کا سادہ بامحاورہ ترجمہ ’’رشتہ دار‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ چونکہ اس ترکیب (ذی القربی) کا تعلق گزشتہ عبارت کے ’’اِحساناً‘‘ (بھلائی کرتے رہنا) سے ہے اس لیے مختلف مترجمین نے یہاں ’’ذِی القربیٰ‘‘ کا ترجمہ ’’قرابت والے سے‘‘ کیا ہے اور بیشتر نے بصورتِ جمع ’’قرابت داروں سے /کنبہ والوں سے/رشتے داروں سے/اہل قرابت کی بھی/ناتے رشتے والوں سے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے جو مفہوم اور محاورے کے لحاظ سے ہی درست ہے ورنہ اصل عبارت میں صیغہ جمع (مثلاً ذَوِی القربیٰ یا اُولِی القربیٰ) تو نہیں آیا بلکہ واحد (ذِی) ہی ہے۔

۱:۵۱:۲ (۳)     [وَالْیَتَامٰی] ’’و‘‘ (اور) کے بعد لفظ ’’الیتامیٰ‘‘ ہے (جو یہاں سمجھانے کے لیے رسم املائی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ اس کے رسم عثمانی پر آگے بات ہوگی) اس لفظ (الیتامیٰ) کا مادہ ’’ی ت م‘‘ اور وزن اصلی (لام تعریف نکال کر) ’’فعَالیٰ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’یَتَمَ یَیْتِمُ یَتْمًا/یَتِمَ یَیْتَمُ یَتْمًا/یَتُمَ یَیْتُمُ یَتْمًا /یُتْمًا‘‘ (ضرب، سمع اور کرم سے) استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہیں: کسی بچے کا باپ مرجانا۔ یعنی ’’یتیم‘‘ ہوجانا۔ ’’یَتِیْمٌ‘‘ (بروزن فَعِیْلٌ) خالص عربی لفظ ہے جو اردو میں متعارف اور متداول ہے۔ اس کی جمع مکسر ’’اَیْتام‘‘ بھی آتی ہے (مگر یہ قرآن میں استعمال نہیں ہوئی  اور ’’یَتَامٰی‘‘ بھی، جو قرآن کریم کے اندر معرف باللام شکل میں ۱۴ جگہ آئی ہے۔ اور اس کا واحد ’’یَتِیم‘‘ بھی بصورت نکرہ قرآن میں بصورت معرفہ نکرہ آٹھ جگہ آیا ہے اور ایک جگہ اس کا تثنیہ ’’یَتِیمَیْن‘‘ بھی آیا ہے . . .عربی زبان میں تو اس مادہ ’’یتم‘‘ سے مجرد کے علاوہ بعض مزید فیہ ابواب سے بھی افعال مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں تاہم قرآن میں اس مادہ سے کسی قسم کے فعل کا کوئی صیغہ کہیں نہیں آیا۔

·       ’’یَتْمٌ‘‘ کے بنیادی معنی ’’اکیلا رہ جانا‘‘ ہے۔ اسی لیے عربی میں ایسے موتی کو جس کے ساتھ کا (اس جیسا) اور کوئی موتی نہ ہو ’’درٌّ یَتیمٌ‘‘ یا ایسا ایک ہی ہونے کی وجہ سے ’’درَّۃٌ یتیمۃٌ‘‘ کہتے ہیں (اس میں تائے وحدت ہے) انسانوں میں سے عربی میں اس چھوٹے بچے کو یتیم کہتے ہیں جس کا باپ مرگیا ہو . . ..مگرحیوانات میں اسے ’’یتیم‘‘ کہا جاتا ہے جس کی ماں مر گئی ہو (اور ’’یتیم‘‘ مذکر و مؤنث دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے) . . ..اور انسانوں میں بھی ’’یتیم‘‘ چھوٹی عمر کا ہی کہلاتا ہے۔ بالغ ہوجانے کے بعد کسی ’’مرے ہوئے باپ والے‘‘ کو یتیم نہیں کہا جاتا۔

·       زیر مطالعہ عبارت میں ’’والیتامیٰ‘‘ کا تعلق بھی ’’اِحساناً‘‘ سے ہے اس لیے اس کا ترجمہ بھی ’’یتیموں/بے باپ کے بچوں سے بھی‘‘کیا گیا ہے۔ ’’بھی‘‘ کا لفظ اردو محاورے کے مطابق واوِ عاطفہ کی تکرار کے لیے لایا گیا ہے۔

۱:۵۱:۲ (۴)     [وَالْمَسَاکِیْنِ] یہاں بھی فرق سمجھانے کے لیے ’’المساکین‘‘ کو عام رسم املائی کے مطابق لکھا گیا ہے۔ رسم عثمانی پر الگ ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی۔  ’’المَسَاکِیْنُ‘‘ کا مادہ ’’ س ک ن‘‘ اور وزن (لام تعریف کے بغیر) ’’مَفَاعِیْل‘‘ ہے جو منتہی الجموع (آخری درجے کی جمع) کا ایک وزن ہے۔ تمام منتہی الجموع وزن غیر منصرف ہوتے ہیں۔ ’’مَساکین‘‘ کا واحد ’’مِسْکِیْنٌ‘‘ (بروزن ’’مِفْعِیْلٌ‘‘) ہے (جو معرب ہے)۔ اس مادہ (س ک ن) سے فعل مجرد (سکَن یسکُن=ٹھہرنا۔ٹھہرجانا) کے باب و معنی وغیرہ البقرہ:۳۵[۱:۲۶:۲ (۱)] میں بیان ہوچکے ہیں۔

·       عربی زبان کے دو لفظ ’’مِسْکِین‘‘ اور ’’فَقِیر‘‘ ایسے ہیں جو ’’نادار، غریب، محتاج، مفلس، تنگ دست‘‘ کے اصل عربی معنوں کے ساتھ اردو میں بھی عام مستعمل ہیں۔ اور یہ لفظ (یا ان کی جمع ’’مساکین اور فقراء‘‘) قرآن و حدیث اور عربی ادب میں بکثرت وارد ہوئے ہیں (لفظ ’’مسکین‘‘ واحد جمع معرفہ نکرہ مختلف صورتوں میں قرآن کریم کے اندر ۲۳ جگہ اور لفظ ’’فَقیر‘‘ اسی طرح (واحد جمع معرفہ نکرہ) ۱۲ جگہ آیا ہے)۔ اس لیے عربی کی بڑی معاجم (ڈکشنریوں) اور تفاسیر میں بھی یہ بحث بعض دفعہ کئی کئی صفحات میں کی گئی ہے کہ مالی لحاظ سے (اور بعض دفعہ سماجی لحاظ سے بھی) کس کی حالت، دوسرے سے ’’بہتر‘‘ اور کس کی ’’بدتر‘‘ ہوتی ہے؟ فقیر کی یا مسکین کی؟ــــ اورپھر ہر ایک نقطۂ نظر کی تائید میں قرآن، حدیث اور اشعار و اقوالِ عرب سے دلائل لانے اور دلائل کو رد کرنے پر بہت سا مواد جمع کردیا گیا ہے۔ [1]

·       بعض کے نزدیک ’’فقیر‘‘ وہ ہے جو بالکل نادار ہو اور اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور ’’مسکین‘‘ وہ ہے جس کے پاس کچھ مال تو ہو (یا کوئی ذریعۂ معاش تو ہو) مگر اس کے ضروری اخراجات کے لیے بھی کافی نہ ہو . . .اور  بعض نے ان کی تعریف اس کے برعکس کی ہے۔ اس بات پر البتہ اتفاق ہے کہ لغوی اصل کے لحاظ سے ’’مسکین‘‘ میں عاجزی، تواضع اور انکسار کا مفہوم زیادہ ہے اور ’’فقیر‘‘ میں حاجت مندی اور ناداری کا مفہوم زیادہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’فقر‘‘ یعنی مفلسی سے پناہ مانگی ہے اور ’’مسکین‘‘ رہنے اور مسکینوں میں شامل رہنے کی دعا فرمائی ہے۔ اور اس میں ’’مسکین‘‘ سے مراد متواضع اور غیر متکبر آدمی ہے۔

·       اس طرح زیر مطالعہ عبارت میں ’’وَالْمَسَاکِین‘‘ کا ترجمہ ’’اور فقیروں، محتاجوں، مسکینوں اور غریبوں‘‘ (سے بھی حسن سلوک کرنا) کی صورت میں کیا گیا ہے۔ کیونکہ اردو میں ’’مسکین‘‘ اور ’’فقیر‘‘ قریباً مترادف لفظ سمجھے جاتے ہیں۔ اور عربی والی ’’باریک بینی ‘‘ سے محفوظ ہیں۔

[وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا] یہ بھی ایک پورا جملہ ہے جو ’’وَ‘‘ (اور) + ’’قُولُوا‘‘ (تم کہو) + ’’لِلنَّاسِ‘‘ (لِ+الناس= لوگوں سے) + ’’حُسْنًا (خوبصورتی) پر مشتمل ہے۔ یہ تمام کلمات (ماسوائے ’’حُسْنًا‘‘ کے) پہلے گزر چکے ہیں مثلاً

(۱)  ’’وَ‘‘ کی اقسام و معانی کے لیے دیکھئے [۱:۴:۱ (۳)] اور [۱:۷:۲ (۱)]

(۲)  ’’قُولُوا‘‘ جس کا مادہ ’’ ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلُوْا‘‘ ہے کے فعل، اس کے باب و معنی اور خود اس لفظ ’’قُولُوا‘‘ کی لغوی و صرفی تشریح [۱:۳۷:۲ (۳)] میں گزر چکی ہے۔

(۳) ’’لِلنَّاسِ‘‘ کا لام الجر (لِ) در اصل فعل ’’قَالَ یَقُول‘‘ (کہنا) کا صلہ ہے اور لفظ ’’النَّاس‘‘ (لوگوں) کے مادہ کے بارے میں مختلف اقوال اور ہر ایک کے معانی وغیرہ پر مفصل بحث البقرہ: [۱:۷:۲ (۳)] میں دیکھئے

(۴) ’’حُسْنًا‘‘ جو ’’ح س ن‘‘ مادہ سے مشتق اسم (بروزنِ’’فُعْلٌ‘‘) ہے، کے معنی تو ہیں ’’خوبصورتی۔ خوبی‘‘۔ مگر یہاں مراد ہے خوبصورت بات، اچھی بات، اس مادہ (حسن) سے فعل مجرد کے استعمال پر البقرہ: ۵۸ [۱:۳۷:۲ (۸)] میں بات ہوچکی ہے۔

·       یہاں اس عبارت کے تراجم ’’اور کہو، کہیو، کہنا، بات کرنا، بات کرو/لوگوں سے، سب لوگوں گو، عام لوگوں سے/بھلائی، نیک بات، بات اچھی طرح، اچھی بات، نرمی، خوش خلقی کی اور اچھی باتیں‘‘. . . کی صورت میں کیے گئے ہیں  ـــــ تاکید کا مفہوم (کہیو/کہنا میں) تو ’’شرائطِ میثاق‘‘ سے پیدا ہوا ہے جس پر پہلے ’’لَاتَعْبُدُوْنَ‘‘ میں بات ہوئی ہے ـــ ’’لوگوں‘‘ کے ’’ساتھ‘‘ ’’سب‘‘ اور ’’عام‘‘ کا اضافہ معرف باللام جمع (الناس) کی وجہ سے ہے . . . یہاں ’’حُسْنًا‘‘ منصوب کیوں ہے؟ اور اس میں ’’نیک بات/اچھی بات وغیرہ‘‘ کا مفہوم کیسے پیدا ہوا ہے؟اس پر آگے حصہ ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی۔

[وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ] یہ دونوں جملے بعینہٖ اسی طرح البقرہ:۴۳ [۱:۲۹:۲] میں گزر چکے ہیں۔ اور ان کے تراجم و لغوی تشریح بھی وہاں ہوئی تھی۔ اگر بات ذہن سے اتر گئی ہو تو صرف یاد دہانی کے لیے ہر ایک کلمہ کا الگ الگ مختصراً گزشتہ حوالہ لکھے دیتے ہیں۔

(۱) ’’اَقِیْمُوا‘‘ کا مادہ ’’ق و م‘‘ اور وزن ’’اَفْعِلُوا‘‘ ہے جو باب افعال سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے بمعنی ’’تم قائم کرو‘‘ دیکھئے البقرہ: ۳ [۱:۲:۲ (۳)]

(۲) ’’ الصَّلٰوۃَ ‘‘مادہ ’’ص ل و‘‘ اور وزن اصلی  ’’فَعَلَۃ ‘‘ ہے  ۔ دیکھئے: [۱:۲:۲ (۴)] میں

(۳) ’’وَاٰتُوا‘‘ جو ’’ا ت ی‘‘ مادہ سے باب افعال کا فعل امر بروزن ’’اَفْعِلُوا‘‘ ہے بمعنی ’’دو/ادا کرو‘‘ اور

    (۴) ’’الزکوٰۃ‘‘ جو ’’ز  ک  و‘‘ سے بروزن ’’فَعَلَۃ‘‘ ہے۔ ان دونوں کلمات ’’آتوا‘‘ اور ’’الزکٰوۃ‘‘ کی مکمل لغوی تشریح کے لیے دیکھئے البقرہ:۴۳ [۱:۹:۲ (۴۔۵]

·       یہاں بھی ابتدائے آیت کے ’’اخذ میثاق‘‘ (عہد لینا، والے مفہوم کی بنا پر فعل امر کے ان صیغوں کا ترجمہ ’’تاکید‘‘ کے الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے یعنی ’’اَقِیمُوا الصَّلٰوۃ‘‘ کا ترجمہ ’’قائم رکھو نماز کو/پابندی رکھنا نماز کی/درست کیجئو نماز/درستی سے نماز ادا کرنا/نماز قائم رکھنا‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ ان سب تراجم میں میثاق والی تاکید کے علاوہ فعل ’’اقَام یُقِیمُ‘‘ کے معنوی تقاضے ملحوظ رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح ’’الزکوۃ‘‘ کا ترجمہ ’’زکٰوۃ‘‘ ہی سے کرتے ہوئے ’’وَاٰتُوا الزَّکٰوۃ‘‘ کے تراجم ’’زکوۃ دو/نکالو/دیتے رہیو/ادا کرتے رہو/ادا کرتے رہنا‘‘ کی صورت میں کیے ہیں۔ مفہوم قریباً یکساں ہے۔ اور بعض نے اردو محاورے کی خاطر ساری عبادت کا اکٹھا ترجمہ ’’اور نماز پڑھتے اور زکٰوۃ دیتے رہنا‘‘ سے کیا ہے۔

[ثُمَّ تَوَ لَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْکُمْ] اس جملے کے بھی تمام کلمات کی لغوی تشریح پہلے ہوچکی ہے اور ابتدائی حصہ ’’ ثُمَّ تَوَ لَّیْتُمْ ‘‘ اسی طرح البقرہ: ۶۴[۱:۴۱:۲ (۴)] میں بھی آیا تھا۔ ہم یہاں تمام کلمات کا صرف ترجمہ الگ الگ لکھ کر ساتھ لغوی تشریح کا گزشتہ حوالہ لکھ دیتے ہیں۔ چاہیں تو وہاں دیکھ لیں۔

(۱)  ’’ثُمَّ‘‘ (پھر/اس کے بعد) کی مزید وضاحت کے لیے دیکھئے البقرہ:۲۸ [۱:۲۰:۲ (۴)]

(۲)  ’’تَوَلَّیْتُمْ‘‘ جو ’’و ل ی‘‘ مادہ سے بلحاظ وزن ’’تَفَعَّلْتُمْ‘‘ ہے یعنی باب تفعل کا فعل ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد اور باب تفعل کے فعل (تَوَلّٰی یَتَوَلّٰی) کے معانی وغیرہ البقرہ:۶۴ [۱:۴۱:۲ (۴)] میں دیکھئے۔ ’’تَوَلَّیْتُمْ‘‘ کا ایک ترجمہ ’’تم پھر گئے‘‘ بنتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے۔

(۳)   ’’اِلَّا‘‘ (پھر/مگر/سوا) کے معانی و طریق استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ:۹ [۱:۸:۲ (۳)]

(۴)  ’’قَلِیْلًا‘‘ (تھوڑا/بہت کم) جو ’’ق ل ل‘‘ مادہ سے بروزن ’’فَعِیلٌ‘‘ اسم صفت ہے، کی لغوی تشریح البقرہ:۴۱[۱:۲۸:۲ (۱۲)] میں ’’ثَمَنًا قَلِیْلاً‘‘ کے ضمن میں دیکھئے۔

(۵)  ’’مِنْکُمْ‘‘ (تم میں سے) جو ’’مِن + کُم‘‘ ہے۔ ’’مِن‘‘ کے معانی کے لیے دیکھیے البقرہ:۱۳ [۱:۲:۲ (۵)]

·       اس طرح اس زیر مطالعہ عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’پھر تم سب پھر گئے مگر تھوڑے تم میں سے‘‘۔ پھر بامحاورہ ترجمہ کے لیے ابتدائی حصے کا ترجمہ تو سب نے ’’پھر تم پھر گئے/پھر بیٹھے‘‘ ہی سے کیا ہے، البتہ ’’ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْکُمْ ‘‘ کا ترجمہ کئی صورتوں میں کیا گیا ہے، مثلاً ’’مگر تھوڑے تم میں سے/مگر تھوڑے سے تم میں/بجز معدودے چند کے/ تم میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا (باقی سب)/ مگر تم میں کے تھوڑے/سوائے تھوڑے سے آدمیوں کے/مگر تھوڑے/تو چند شخصوں کے سوا/بجز تم میں سے معدودے چند کے‘‘ کی صورت میں۔ ان تراجم میں بعض نے تو اس (اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْکُمْ) کا ترجمہ فقرے کی عربی ترتیب کے مطابق ’’ ثُمَّ تَوَ لَّیْتُمْ ‘‘ کے بعد کیا ہے اور بعض نے فقرے کی اردو ساخت کے مطابق اس حصے (اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْکُمْ) کا ترجمہ شروع میں کیا ہے۔ بعض اردو تراجم اصل عربی سے بھی بھاری بھرکم ہیں (مثلاً ’’بجز معدودے چند‘‘ والا)۔ پھر بعض نے عربی کے ’’تَوَلَّیْتُم‘‘ اور ’’مِنْکُم‘‘ میں دو دفعہ آنے والی ضمیر کا ترجمہ دو دفعہ ’’تم‘‘ سے کیا ہے اور بعض نے اردو محاورے کے مطابق ایسے موقع پر صرف ایک ’’تم‘‘ کا استعمال کافی سمجھا ہے۔

۱:۵۱:۲ (۵)     [وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ] یہ بھی ایک جملہ ہی ہے جس کی ابتدائی ’’وَ‘‘ حالیہ (بمعنی حالانکہ) ہے، اگرچہ اس کا عام اردو ترجمہ ’’اور‘‘ سے ہی کردیا جاتا ہے، تاہم مفہوم ’’اور حال تو یہ ہے کہ‘‘ کا ہی ہوتا ہے۔ ضمیر مرفوع منفصل ’’اَنْتُمْ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’تم‘‘ ہے مگر اس سے پہلے (پچھلے جملے میں) دو دفعہ ’’تم‘‘ آچکا ہے (’’تَوَلَّیْتم‘‘ کی ضمیر فاعلین اور ’’مِنْکُمْ‘‘ کی ضمیر مجرور کی صورت میں) اس لیے اس ’’تم‘‘ کی تکرار کی بناء پر یہاں ’’اَنْتُم‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ  تاکید کے مفہوم کے ساتھ ’’تم تو ہو ہی/تم کچھ ہی ہو/تم ہی ہو‘‘ کی صورت میں کیا ہے اور بعض نے ’’وَاَنْتُمْ‘‘ کا ترجمہ ہی ’’اور تمہاری تو معمولی عادت ہے‘‘ سے کیا ہے جو صاف ظاہر ہےکہ ترجمہ (اور عبارت) کی حد سے تجاوز ہے، چاہے محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست بھی سمجھا جائے۔

·       ’’مُعْرِضُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ ع رض ‘‘ اور وزن ’’مُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (عَرَضَ یَعْرِضُ=پیش کرنا۔ سامنے لانا) کی وضاحت البقرہ:۳۱[۱:۲۳:۲ (۴)] میں کی جا چکی ہے۔ یہ کلمہ (مُعْرِضُوْنَ) اس مادہ سے باب افعال کا اسم الفاعل (صیغۂ جمع مذکر سالم) ہے۔ اس باب سے فعل ’’ اَعْرَضَ . . .یُعْرِضُ اِعْرَاضاً‘‘ بطور فعل لازم و متعدی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً (۱) نمودار ہونا۔ ظاہر ہوجانا۔ جیسے اَعْرَضَ الشَّیْءُ (چیز ظاہر ہوئی)  (۲) چوڑا (بڑے عرض والا ہونا جیسے ’’اَعْرَضَ الثَّوْبُ‘‘ (کپڑا بڑے عرض والا تھا) (۳) ’’فِی‘‘ کے صلہ کے ساتھ یہ ’’کسی چیز کی لمبائی چوڑا ئی سے واقف ہونا‘‘ کے معنی دیتا ہے جیسے ’’اَعْرَضَ فِی الْعِلْمِ‘‘ (علم کی وسعت سے آگاہ ہوا)۔ (۴) بطور فعل متعدی اس کے معنی ’’ . . .کو چوڑا (عرض والا) کرنا‘‘ ہوتے ہیں جیسے ’’اَعْرَضَ الشَّیْءَ‘‘ (اس نے چیز کو چوڑا کردیا)۔ (۵) اور ’’عَنْ‘‘ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ہوتے ہیں ’’ . . .سے منہ پھیر لینا/ . . .پر متوجہ نہ ہونا/ . . .سے روگردان ہونا/ . . .سے بے پرواہ ہونا/ . . .پر دھیان نہ دینا‘‘. . ..جیسے ’’ وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ ‘‘ (طٰہ: ۱۲۴) یعنی ’’جس نے میری یاد سے منہ پھیر لیا‘‘ میں ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ فعل صرف آخری معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے۔ باقی (مذکورہ بالا چار) معانی کے لیے یہ فعل قرآن میں کہیں نہیں آیا۔

·       ان (منہ پھیر لینا والے) معنی کے لیے اس فعل (اَعْرَضَ یُعْرِضُ) سے مختلف صیغہ ہائے فعل قرآن میں ۳۲ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے ۲۳ جگہ تو اس کے ساتھ مفعول (جس سے منہ پھیرا جائے) کا ذکر ’’عَن‘‘ کے صلہ کے ساتھ آیا ہے، باقی نو مقامات پر یہ صلہ استعمال نہیں ہوا مگر سیاقِ عبارت سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کس چیز سے منہ پھیر لینے کا ذکر ہے۔ صیغہ ہائے فعل کے علاوہ دو جگہ اس فعل کا مصدر ’’اِعْرَاض‘‘ بھی (عَن کے بغیر ہی) استعمال ہوا ہے اور اس سے اسم الفاعل ’’مُعْرِضٌ‘‘ کی صرف جمع سالم مذکر ’’مُعْرِضُوْن‘‘ ہی مختلف اعرابی حالتوں میں (مرفوع یا منصوب) ۱۹ جگہ استعمال ہوئی ہے اور اس کے ساتھ بھی ۱۲ جگہ تو ’’عَنْ‘‘ آیا ہے باقی جگہ محذوف مگر مفہوم ہے (یعنی سمجھا جا سکتا ہے)۔

·       یہاں زیر مطالعہ عبارت میں بھی ’’مُعْرِضُوْنَ‘‘ عَنْ کے بغیر ہی آیا ہے، تاہم سیاقِ عبارت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں اسی ’’میثاق‘‘ (عہد) سے منہ موڑنے والوں کی بات ہو رہی ہے۔ بیشتر مترجمین نے ’’وَاَنْتُمْ مُعْرِضُوْن‘‘ کا ترجمہ ’’عَنْ‘‘ کے نہ ہونے کی بنا پر (. . .سے منہ پھیرنا) کی بجائے صرف ’’پھر جانا‘‘ سے ہی کردیا ہے یعنی ’’تم ہو ہی پھرنے والے/ہو ہی تم لوگ پھرنے والے‘‘ کی صورت میں (’’ہو ہی‘‘ لانے کی وجہ اوپر بیان ہوئی ہے) بعض نے (’’پھر جانا‘‘ کی بجائے دوسرے الفاظ کے ساتھ ترجمہ ’’تم کو دھیان نہیں/تم بے پروا ہو/تم روگردان ہو/تم ہی ہو گردن کش‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ صرف ایک آدھ نے ’’منہ پھیرنے والے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جب کہ بعض نے ’’منہ پھیر کر پھر بیٹھے‘‘ کی صورت میں اسم کی بجائے فعل سے ترجمہ کردیا ہے، جس کی کوئی مجبوری نہیں تھی۔ ایسے موقع پر جملہ اسمیہ جس میں خبر کوئی اسمِ صفت ہو (جیسے یہاں ’’تُعْرِضُوْنَ‘‘ کی بجائے خبر ’’مُعْرِضُونَ‘‘ ہے) یہ کسی مستقل عادت کے بیان کے لیے آتا ہے۔ اسی لیے بعض مترجمین نے اس مفہوم کی وضاحت کے لیے ترجمہ ہی ’’تمہاری تو معمولی عادت ہے اقرار کرکے ہٹ جانا‘‘ کی صورت میں کردیا ہے جو ترجمے کی حدود سے بہرحال تجاوز ہے، چاہے مفہوم درست ہی سہی۔ بہرحال ان ترجموں میں سے بہترین ترجمہ ’’تم تو ہو ہی پھرجانے والے‘‘ ہے جس میں عادت کا مفہوم بھی ہے اور مخاطب ضمیروں کی تکرار کے لیے ’’ہی‘‘ کا بامحاورہ استعمال بھی ہے۔

 

۲:۵۱:۲     الاعراب

زیر مطالعہ آیت کی اعرابی ترکیب کو آسانی سے سمجھنے کے لیے سات جملوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ تمام جملے واوات العاطفہ، ثم العاطفہ اور ایک واو الحال کے ذریعے باہم مل کر بلحاظ مضمون ایک ہی مربوط طویل جملے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ذیل میں ان سات ممکنہ جملوں کے اعراب پر الگ الگ بات کی جاتی ہے اور پھر جس جملے کا جس بھی سابقہ یا ما بعد جملے سے جو تعلق ہے وہ بھی ساتھ ساتھ بیان کردیاجائے گا۔

(۱)   وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ

[وَ] مستانفہ اور [اِذْ]ظرفیہ ہے (یہ ’’وَاِذْ‘‘ والی ترکیب کئی دفعہ گزر چکی ہے۔ [اَخَذْنَا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نَحْنُ‘‘ مستتر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ [میثاق] فعل ’’اخذنا‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامت نصب آخری ’’ق‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)  ہے کیونکہ یہ (مِيْثَاقَ) آگے مضاف ہونے کی بناء پر خفیف بھی ہے [بَنی] مجرور بالاضافہ ہے (یعنی ’’میثاق‘‘ کا مضاف الیہ ہوکر) علامتِ جر اس میں آخری یاء ماقبل مکسور (ــــــِــــ  ی) ہے جو جمع مذکر سالم کا اعراب (برائے مجرور) ہے۔ یہ [بنی] آگے [اسرائیل] کا مضاف ہوکر خفیف بھی ہے (یہ دراصل ’’بنین‘‘ تھا، بوجہ اضافت آخری ’’ن‘‘ گر گیا ہے) اس کے بعد [اسرائیل] مضاف الیہ(لہذا) مجرور ہے، علامت جر اس میں آخری ’’ل‘‘ کی فتحہ ہے۔ کیونکہ عجمی (غیر عربی) علم ہے اس لیے غیر منصرف ہے۔

(۲) لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ

[لَا] نافیہ ہے اور [تَعْبُدُوْنَ] فعل مضارع جمع مذکر حاضر ہے جو بذریعہ ’’لا‘‘ مضارع منفی ہے (تَعْبُدُوْنَ) اس کے بعد [الا] حرف استثناء برائے حصر ہے (نفی کے بعد ’’اِلا‘‘اداۃ حصر کا کام دیتا ہے، یعنی یہ ایک محدود مفہوم پیدا کرتا ہے یعنی ’’صرف‘‘ اور ’’محض‘‘ کے معنی دیتا ہے [اللّٰہ] یہاں ’’ تَعْبُدُوْنَ ‘‘ کے مفعول کی حیثیت سے منصوب ہے۔ اس کی یہ نصب استثناء [الا] کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس سے پہلے کلام منفی غیر تام ہے یا یوں سمجھئے کہ اگر ہم حرف نفی (لا) اور حرف استثناء (الا) دونوں نکال دیں تو باقی عبارت ’’تعبدون اللّٰہ‘‘ بچتی ہے جس میں ’’اﷲ‘‘ مفعول بہ ہو کر ہی منصوب ہے۔

·       یہ عبارت (جملہ نمبر۲) سابقہ (جملہ نمبر۱) کی تفسیر ہے یعنی ’’بیان میثاق‘‘ ہے۔ نحوی اعتبار سے یہاں ایک ’’اَن‘‘ (کہ) کا مفہوم موجود ہے۔ اس لیے اس جملے میں جو بظاہر خبر یہ ہے ’’نہی ‘‘ کا مفہوم ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ بصورت فعل نہی (لا تعبدوا) کیا گیا ہے دیکھئے حصہ اللغۃ میں اس کے تراجم۔

(۳)  [وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ]

[وَ]عاطفہ ہے جس کے ذریعے ’’بیان شرائط میثاق‘‘ کے پہلے حصے (لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ) کو جو دراصل نہی (لا تعبدوا) کے مفہوم میں ہے واو عاطفہ کے ذریعے اگلے محذوف فعل امر ’’اَحْسِنُوْا‘‘ (جس کا بیان ابھی ہوگا) سے ملا دیا گیا ہے (یعنی لا تعبدوا… وَاحسنوا) کے مفہوم میں۔ [بالوالدین] جار مجرور (ب + الوالدین)مل کر متعلق فعل مقدم ہے اور [احساناً] ایک محذوف فعل (مثلاً  ’’اَحْسِنُوا‘‘ کا مفعول مطلق (مصدر) ہے اور اسی لیے منصوب ہے (اگر محذوف فعل امر کچھ اور سمجھیں مثلاً ’’استَوصُوا‘‘ ’’پور ی توجہ دو‘‘ کا  تو ’’احسانًا‘‘ کو مفعول بہٖ بھی کہا جا سکتا ہے تاہم ’’اَحسِنُوا‘‘ کے ساتھ مصدر یعنی مفعول مطلق سمجھنا زیادہ آسانی سے قابل فہم ہے) یوں دراصل اس عبارت کی مقدر (اور مفہوم) نثر یوں بنتی ہے ’’واَحسِنُوا احسانًا بِالوالدین‘‘ (اور بھلائی کرو اچھی طرح بھلائی کرنا ماں باپ کے ساتھ) اور اس میں ’’بالوَالدین‘‘ کی  ’’باء (ب)‘‘ کو فعل (اَحسِنوا) کا صلہ سمجھ کر ’’بِالوَالدین‘‘ کو مفعول بہ قرار دے کر محلاً منصوب بھی کہا جاسکتا ہے اور جار مجرور(بالوالدین) کی تقدیم  (پہلے لانے) کی بنا پر اس میں تاکیداور خصوصی ذکر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے، جس کو اردو ترجمہ میں ’’اور خصوصاً والدین کے ساتھ‘‘ (بھلائی کرنا) سے ظاہر کیا جانا چاہیے، تاہم اکثر مترجمین نے جار مجرور کی تقدیم کے اس پہلو کو نظر انداز کیا ہے۔ [وَ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے [ذِي الْقُرْبٰى] کو [بِالْوَالِدَيْنِ] پر عطف کیا گیا ہے، یعنی ’’احسنوا بالوالدین و (بِ) ذی القربیٰ‘‘ کا مفہوم ہے اور اسی لیے یہ ’’ذی‘‘ بحالت جر آیا ہے ’’القربیٰ‘‘ مجرور بالاضافہ (’’ذی‘‘ کا مضافہ الیہ ہوکر) ہے ’’ذی‘‘ میں تو علامت جر ’’ی‘‘ ہے مگر ’’القربیٰ‘‘ کے اسم مقصور (الف مقصورہ پر ختم ہونے) کی بنا پر اس میں کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔

[والیتامیٰ] میں بھی ’’و‘‘ برائے عطف ہے اور یہ بھی ’’بالوالدین‘‘ پر معطوف ہونے کی وجہ سے مجرور ہے . . . .’’الیتامیٰ‘‘ بھی اسم مقصور ہے لہٰذا اس میں کوئی ظاہراً علامتِ جر نہیں ہے۔ [وَالمساکین] کی ’’و‘‘ بھی عطف کے لیے ہے اور ’’المساکین‘‘ بھی ’’بالوالدین‘‘ کی ’’باء‘‘ کے اثر (عمل) سے مجرور ہے َ’’مساکین‘‘ ویسے غیر منصرف لفظ ہے مگر یہاں چونکہ معرف بالّلام ہو کر مجرور بھی ہے اس لیے اس میں علامتِ جر آخری ’’ن‘‘کی کسرہ (ــــــِــــ) کی شکل میں موجود ہے۔ خیال رہے یہ لفظ (مساکین) جمع مکسر ہے اور اس میں اعرابی علامت آخری ’’ن‘‘ میں ہی ظاہر ہوگی۔ بظاہر دھوکا لگتا ہے کہ شاید یہ کوئی جمع مذکر سالم ہے۔ یعنی یہ لفظ ’’مساکون/ مساکین‘‘نہیں ہے۔ البتہ ’’مسکین‘‘ کی جمع مذکر سالم ’’مسکینون/ مسکینین‘‘ بھی عربی میں استعمال ہوتی ہے۔ (قرآن کریم میں اس کی صرف جمع مکسر ہی استعمال ہوئی ہے)۔ حرف عطف کی بار بار تکرار کی بنا پر ہی بامحاورہ اردو ترجمے میں مندرجہ بالا کلمات (ذِی القربیٰ/ والیتامیٰ/ وَالمساکین) کے تراجم میں ’’بھی‘‘ کا اضافہ کرناپڑتا ہے (دیکھئے اس عبارت کے تراجم میں حصّہ ’’اللغۃ ‘‘میں)۔

(۴)  وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا

[وَ] عاطفہ ہے جو ما بعد جملے کو ماقبل جملے سے ملاتی ہے یا یوں کہئے کہ اس کے ذریعے اگلے صیغہ امر [قُولُوا] کو سابقہ محذوف صیغہ امر (احسنوا) پر عطف کیا گیا ہے یا اس سے پہلے ’’قلنا لھم‘‘ محذوف سمجھ لیں یعنی یہ دراصل ’’وقلنا لھم قولوا. . . .‘‘ بنتا ہے۔ [للناس] میں ابتدائی ’’لام‘‘ (ل) فعل (قال) جس کا صیغہ امر یہاں آیا ہے) کا صلہ ہے جو مفعول اول (جس سے بات کی جائے) سے پہلے آتا ہے اور یوں یہ جار مجرور (للناس) محلاً نصب میں ہے یا اس جار مجرور کو متعلق فعل (قالوا) بھی کہہ سکتے ہیں۔ [حُسْنًا] فعل [قولوا] کا دوسرا مفعول (جو بات کہی جائے) ہے لہٰذا منصوب ہے مگر یہ اسم صفت نہیں ہے۔ اگر یہ ’’حَسَنًا‘‘ ہوتا (جیسا کہ بعض قراء ات میں ہے) تو اسے ایک محذوف مفعول مطلق کی صفت سمجھا جاسکتا تھا یعنی [قَولًا حَسَنًا] (اچھی بات) مگر قراء تِ حفص (جو ہمارے ہاں رائج ہے اور ہم اسی کے مطابق اعراب بیان کر رہے ہیں) میں یہ ’’حُسْنًا‘‘ ہے، جس کا ترجمہ ’’خوبصورتی یا اچھائی‘‘ ہی ہوسکتا ہے، اس لیے  یہاں محذوف مفعول مطلق ’’قولًا‘‘ کی صفت سمجھنےکے لیے اس ’’حُسْنًا‘‘ کو ’’ذَا حُسْنٍ‘‘ کے معنوں میں لینا پڑتا ہے، یعنی ’’کہو لوگوں سے‘‘ ’’قَولًا ذَا حُسْنٍ‘‘ (خوبی/ اچھائی/خوبصورتی والی بات) مفہوم و معنی اس کا بھی وہی ’’قَولَاَ حَسَنًا‘‘ (اچھی بات) والا ہی ہے. . . . مگر بلحاظ ترکیب مختلف ہے۔

(۵)   وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ 

[وَ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے آگے آنے والے فعل امر بصیغہ جمع مذکر حاضر [اقیموا] کو سابقہ فعل امر (قُولُوا) پر عطف کیا گیا ہے۔ یا ’’وَ‘‘ کے مابعد جملے ’’اقیموا الصلوٰۃ‘‘ کو سابقہ جملے (قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا)پر عطف کیا گیا ہے [الصلوۃ] فعل ’’اقیموا‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے، علامتِ نصب آخری ’’ۃ‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)  ہے۔ اس کے بعد پھر [وَ] برائے عطف ہے جو یہاں دو جملوں کو ملا رہی ہے۔ [آتُوا]بھی فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے اور [الزکوٰۃَ] اس کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے گویا یہ دراصل دو مستقل جملے ہیں . . . مگر باہم ایک دوسرے پر معطوف ہونے کے علاوہ ابتدائی ’’واو العطف‘‘ کے ذریعے سابقہ جملوں (نمبر۳، ۴) پر عطف ہونے کے باعث ایک ہی جملے کے حکم میں (بلحاظ تسلسل مضمون) آئے ہیں۔ یعنی جس ’’میثاق‘‘ لینے کا ذکر شروع آیت میں تھا، یہاں (جملہ نمبر۵) تک اس میثاق کی شرائط کا بیان ختم ہوتا ہے۔ اسی لیے یہاں وقف مطلق کی علامت (ط) لگائی جاتی ہے۔

(۶)    ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ

[ثُمَّ]حرف عطف ہے جس میں ترتیب اور تراخی (یعنی ’’پھر کچھ عرصہ بعد یہ ہوا کہ‘‘) کا مفہوم ہے اور نحوی اعتبار سے یہاں ’’ثُمَّ‘‘ ایک محذوف عبارت پر عطف ہے۔ گویا اخذِ میثاق اور شرائطِ میثاق کے ذکر کے بعد تقدیر (مفہوم) یوں بنتی ہے ’’فقَبِلتم المیثاقَ‘‘ (تم نے وہ میثاق قبول کیا) ’’ثُمَّ. . . .(پھر یہ ہوا کہ) [تَوَلَّیْتُمْ] فعل ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے (تم رو گردانی کر گئے۔ پھر گئے) [اِلّا]  حرف استثناء (بمعنی مگر/ سوا) ہے اور [قلِیلًا] مستثنیٰ ’’بِاِلَّا‘‘ ہے۔ اور چونکہ اس سے پہلے کلام مثبت تام (نفی کے بغیر مکمل جملہ) ہے اس لیے یہ مستثنیٰ متصل ہوکر منصوب ہے۔ ویسے چونکہ ’’قلیل‘‘ اسم صفت ہے اس لیے یہاں ایک موصوف محذوف ہے یعنی ’’نفرًا قلیلاً‘‘ یا ’’عددًا قلیلًا‘‘۔ [منکم] جار مجرور (من + کم)’’قلیلاً‘‘ کا بیان (وضاحت) ہے یعنی ’’تم میں سے کم/ تھوڑے‘‘ اس جملے کے مختلف حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں گزر چکے ہیں۔

(۷)   وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ

[وَ] یہاں حالیہ ہے اور [اَنْتُمْ]ضمیر مرفوع منفصل مبتدأ ہے [مُّعْرِضُوْنَ] خبر (لہٰذا) مرفوع ہے علامتِ رفع آخری نون (اعرابی) سے پہلے والی ’’واو‘‘ ماقبل مضموم (ـــــُـــــ  وْ) ہے جو جمع مذکر سالم میں علامت رفع ہوتی ہے۔ اسطرح یہ جملہ حالیہ ہوکر محل نصب میں ہے اور یہ حال مؤکدہ (یعنی صرف تاکید کے لیے) ہے اور یہ ’’تولیتم‘‘ کی ضمیر فاعلین کا حال ہے۔ یعنی تم پھر گئے اور ’’تمہارا تو حال ہی یہ ہے کہ پھر جانے والے ہو‘‘ کا مفہوم رکھتا ہے اور بعض نحوی ’’تولیتم‘‘ کی ضمیر فاعلین ’’آباؤُھم‘‘ (ان کے باپ دادا) کے لیے اور ’’انتم‘‘ کو ’’انفسھم‘‘ (یعنی خود ان کے) لیے سمجھتے ہیں۔ یعنی تمہارے باپ دادا پھر گئے اور تمہاری عادت بھی روگردانی کی ہے‘‘۔ بنی اسرائیل کے بیان میں بہت جگہ ضمیر مخاطب (کُمْ یا اَنْتُم) ’’آبائَ کم یا آباؤُکم‘‘ کے لیے آئی ہے۔ مثلاً البقرۃ:۴۹ میں ’’وَاذ نَجَّیناکم‘‘ میں مراد ’’تمہارے بڑوں کو‘‘ ہی ہے۔

بہرحال یہ (زیر مطالعہ) جملہ حال ہونے کی وجہ سے دراصل سابقہ جملے (نمبر۶) کا ہی ایک حصہ بنتا ہے۔

 

٣:٥١:٢      الرسم

زیر مطالعہ آیت کے کلمات میں سے بلحاظ رسم آٹھ کلمات توجہ طلب ہیں۔ ان میں سے چار (الیتمٰی، المسٰکین، الصلوٰۃ اور الزکوٰۃ) کا رسم قرآنی (عثمانی) متفق علیہ ہے اور چار کلمات (میثاق، اسراء یل، بالوالدین اور احساناً) کا رسم عثمانی مختلف فیہ ہے۔ ہر ایک کلمہ کی تفصیل (آیت میں ترتیب کے مطابق) یوں ہے۔

(۱) ’’میثاق‘‘: یہ لفظ جو قرآن کریم میں مفرد مرکب معرفہ نکرہ صورتوں میں ۲۵ جگہ آیا ہے، ہر جگہ الدانی کے مطابق رسم املائی کی طرح ’’باثبات الف بعد الثاء‘‘ لکھا جاتا ہے جبکہ ابوداؤد کی طرف منسوب قول کے مطابق یہ ’’بحذف الالف بعد الثاء‘‘ یعنی بصورت ’’میثق‘‘ لکھا جاتا ہے۔ برصغیر، لیبیا اور دوسرے عرب و افریقی ممالک کے مصاحف میں اس کے رسم میں اختلاف کی یہی وجہ ہے۔ نیز دیکھئے البقرہ:۲۷ [۲: ۱۹: ۳]میں۔

(۲) ’’اسراء یل‘‘ جس کا عام رسم املائی ’’اسرائیل‘‘ ہے۔ اس لفظ کے رسم املائی اور رسم عثمانی (قرآنی) میں ایک فرق تو متفق علیہ ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآنی رسم میں  ’’ئیل‘‘ کو ’’ء یل‘‘ لکھا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مصاحف عثمانی میں ہمزہ نہیں لکھا گیا تھا بلکہ صرف ’’یل‘‘ لکھا گیا تھا، بعد میں جب ہمزہ کی علامت (ء) اور اس کی املاء کے قواعد بنے تو رسم قرآنی میں ایک دندانہ کا اضافہ بھی ناجائز سمجھا گیا۔ دوسرا فرق مختلف فیہ ہے کہ ’’الدانی‘‘ کے مطابق یہ لفظ ’’اسراء یل‘‘ یعنی ’’باثبات الالف بعد الراء‘‘ لکھا جاتا ہے مگر ابوداؤدکے مطابق یہ الف (بعد الراء) کتابت میں حذف کرکے لفظ بصورت ’’اسرء یل‘‘ لکھا جاتا ہے (پھر  بذریعہ ضبط اس الف کو ظاہر کیا جاتا ہے) تاہم اس ’’الف بعد الراء‘‘ کے اثبات کے حق میں زیادہ دلائل ہیں ۔[2] یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ تمام مشرقی ممالک (برصغیر، ایران، ترکی وغیرہ) کے علاوہ افریقی ممالک مثلاً تیونس، لیبیا، مراکش، غانا اور نائیجریا کے مصاحف میں بھی باثبات الف ’’اسراء یل‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ غالباً صرف مصر اور شام کے مصاحف میں (اور سعودی مصحف تو دراصل شامی مصحف ہی ہے) اسے بحذفِ الف (بعد الراء) لکھا گیا ہے۔ نیز دیکھئے البقرہ:۴۰ کے ضمن میں بحث الرسم [۲: ۲۸: ۳]میں اس لفظ پر بحث۔

 (۳) ’’بالوالدین‘‘: قرآنی کریم میں لفظ ’’والد‘‘ (واحد مذکر) مفرد یا مرکب (مضاف ہوکر مثلاً ’’والدہٖ‘‘) صورتوں میں کل تین جگہ آیا ہے اور اس کا تثنیہ مرفوع ’’الوالدان‘‘بھی تین دفعہ آیا ہے اور اس کا تثنیہ مجرور مرکب (مضاف ہوکر مثلاً بوالدَیْکَ ،بوالدَیہِ، لوالدَیْہ اور والدَیَّ کی شکل میں) دس جگہ آیا ہے اور اس کا تثنیہ مجرور بغیر اضافت (بالوالدین، للوالدین وغیرہ کی شکل میں) سات جگہ آیا ہے۔ لفظ ’’والدۃ‘‘ (واحد مونث) مفرد ایک جگہ اور مرکب (مضاف ہوکر) یعنی بصورت ’’والدتک اور والدتی‘‘ دوجگہ آیا ہے اور بصورت جمع مونث سالم (الوالدات) بھی صرف ایک جگہ آیا ہے۔

ان تمام کلمات (جن کو ہم نے یہاں فرق سمجھانے کے لیے رسم املائی میں لکھا ہے) کے رسم قرآن کے بارے میں بعض باتیں متفق علیہ اور بعض مختلف فیہ ہیں۔مثلاً :

(۱)اس پر اتفاق ہے کہ لفظ ’’والد‘‘ (واحد مذکر) ہمیشہ ’’باثبات الالف بعد الواو‘‘ (یعنی رسم املائی کی طرح) لکھا جائے گا۔ یہ بات الدانی کے سکوت سے (کہ اس نے اس الف کے حذف کی بات نہیں کی) اور ابوداؤد سلیمان بن نجاح کی تصریح سے ثابت ہے[3]  (کہ یہ الف برقرار رہے گا)

 (۲) ’’والدان‘‘ (تثنیہ مرفوع) کا ’’الف بعد الدال‘‘ (جو علامت رفع ہے) کتابت میں محذوف ہوگا یعنی نہیں لکھا جائے گا۔ اس پر الدانی اور ابوداؤد کا اتفاق ہے۔[4]  اور

 (۳) اس پر بھی اتفاق ہے کہ جمع مؤنث سالم کے تمام ایسے صیغے جن میں دو الف آتے ہیں (اور ’’الوالدات‘‘ بھی ایسا ہی صیغہ ہے) ان میں دونوں الف کتابت میں محذوف کہہ دیئے جاتے ہیں۔[5]

        اور ان کلمات کے رسم میں مختلف فیہ امور حسب ذیل ہیں۔

(۱) لفظ ’’والدۃ‘‘  (واحد مونث) ہمیشہ بحذف الف بعد الواو لکھا جائے گا۔ یہ قول ابوداؤد  کا ہے  [6] الدانی نے اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے جو اثبات الف کو مستلزم ہے۔ چنانچہ بعض اسے بحذف الف اور بعض باثبات الف لکھتے ہیں۔

 (۲)  اس لفظ (والد) کے تثنیہ کی تمام صورتوں میں (مفرد آئے یا مرکب) یعنی بالوالدین، والدیہ، والدیک وغیرہ میں ابتدائی الف بعد الواو بھی کتابت میں محذوف ہوگا۔ یہ قول بھی صرف ابوداؤد کا ہے۔  [7] یہاں بھی ’’الدانی‘‘ کا سکوت اثبات الف کو مستلزم ہے۔

مندرجہ بالا تصریحات کی بنا پر ان کلمات کے رسم قرآنی میں اختلاف ہوا ہے۔ ان کلمات کے الگ الگ رسم پر تو اپنی اپنی جگہ وضاحت ہوگی، یہاں ہم ان اصولوں (متفق یا مختلف) کی روشنی میں زیر مطالعہ لفظ ’’بالوالدین‘‘ (اور اس سے ملتی جلتی صورتوں مثلاً للوالدین یا اوالوالدین)کے رسم کی بات کرتے ہیں۔ اس کے رسم میں یہ اختلاف ہوا ہے کہ ابوداؤد کے قول پر عمل کرنے والے ممالک (مثلاً مصر، شام، نائیجریا، تیونس، مراکش، غانا وغیرہ) میں تو اسے بحذف الف بعد الواو یعنی بصورت ’’بالولدین‘‘ لکھا جاتا ہے جب کہ الدانی کی عدم تصریح (یا سکوت) کے باعث (یا واحد ’’والد‘‘ پر قیاس کرتے ہوئے) لیبیا اور ایشیائی ممالک (برصغیر وغیرہ )میں اسے باثبات الف (بصورت ’’بالوالدین‘‘) لکھا جاتا ہے۔

(۴) ’’اِحساناً‘‘ اس لفظ کے رسم (ھجاء) کے متعلق الدانی یا ابوداؤد میں سے کسی نے بھی کسی حذف کا ذکر نہیں کیا۔ اس لیے برصغیر کے علاوہ مصر، شام، لیبیا اور نائیجریا کے مصاحف میں یہ اسی طرح (احسانًا) لکھا جاتا ہے، تاہم علم الرسم کے ایک اور عالم علی بن محمد المرادی البلنسی نے اپنی کتاب ’’المنصف‘‘ میں (جو اب تک کہیں طبع نہیں ہوئی) اس ’’الف بعد السین‘‘ کے حذف کا ذکر کیا ہے اور اس کے اتباع میں بہت سے افریقی ممالک (مثلاً تیونس، مراکش اور غانا) میں اسے بحذف الالف بعد السین یعنی بصورت ’’اِحسنًا‘‘ لکھنے کا رواج ہے۔ صاحب نثرالمرجان نے اس الف کے حذف کی ایک توجیہ بھی بیان کی ہے کہ اس لفظ میں پے در پے تین ’’الف‘‘ جمع ہوگئے ہیں، اس ’’اجتماعِ اَمثال‘‘ کو ناپسند کرتے ہوئے ایک الف محذوف کرنا پڑا اور ابتدائی اور آخری تو حذف نہیں ہوسکتا ہے لہٰذا درمیانی الف کو کتابت میں حذف کردیا گیا۔ [8]

 (۵) ’’الیتمٰی‘‘ (جو ’’یتیم‘‘ کی جمع ہے اور جس کی املائی رسم ’’الیتامٰی‘‘ ہے) قرآن کریم  میں یہاں ا ور ہر جگہ (اور یہ لفظ ۱۴ جگہ آیا ہے) ’’بحذف الالف بعد التاء‘‘ لکھا جا تا ہے۔ اور رسم عثمانی اور رسم املائی ہر دو میں اس کا آخری الف (مقصورہ) بصورت ’’ی‘‘ ہی لکھا جاتا ہے اس کا عثمانی رسم ’’الیتمی‘‘ ہے۔

(۶) ’’المسکین‘‘ (جس کا عام رسم املائی ’’المساکین‘‘ ہے) یہاں اور ہر جگہ (اور یہ لفظ قرآن کریم میں ۱۲ جگہ آیا ہے) ’’بحذف الالف بعد السین‘‘ (یعنی واحد ’’مسکین‘‘  کی طرح) لکھا جاتا ہے اور پھر بذریعہ ضبط اس الف کو ظاہر کیا جاتا ہے۔

(۷) ’’الصلوۃ‘‘ ان آٹھ الفاظ میں سے ہے جن کے قرآنی رسم میں الف کو بصورت ’’و‘‘ لکھا جاتا ہے (یہ الفاظ الصلوۃ، الزکوۃ، الحیوۃ، منوۃ، النجوۃ، الغدوۃ، مشکوۃ، اور الربو ہیں) البتہ اگر یہ کسی ضمیر کی طرف مضاف ہوں تو پھر الف کے ساتھ ہی لکھے جاتے ہیں جیسے صلاتھم، حیاتکم میں ہے۔ ان میں سے بعض کے بارے میں کچھ استثناء بھی ہیں جن کا بیان اپنی جگہ ہوگا۔ نیز دیکھئے البقرہ:۳ [۲: ۲: ۳ ] میں۔

(۸) ’’الزکوۃ‘‘ یہاں اور ہر جگہ ’’ک‘‘ کے بعد الف کی بجائے ’’و‘‘ سے لکھا جاتا ہے، پھر بذریعہ ضبط ’’و‘‘ کو ’’الف‘‘ کی طرح پڑھا جاتا ہے۔

 

۲: ۵۱: ۴      الضبط

 


 



[1]   مثلاً چاہیں تو دیکھئے لسان العرب (مادہ ’’سکن‘‘) اور Lan’s Lexicon یعنی ’’مد القاموس‘‘ (مادہ ’’سکن‘‘ میں سب سے آخری بحث) ج ۴ ص ۱۳۹۵

 

 [2]  اختلاف اور دلائل کے لیے دیکھئے المقنع (للدانی) ص ۲۲۔ دلیل الحیران (للمارغنی) ص ۷۵، ۷۷ اور نثر المرجان (للارکاٹی) ۱: ۳۰۔

 [3]  دیکھئے دلیل الحیران شرح مورد الظمان للخراز ص ۸۶۔ نیز سمیر الطالبین (للضباع) ص ۶۱۔

 [4]  دیکھئے دلیل الحیران ص ۸۹۔ والمقنع (للدانی) ص ۱۷  اور نثر المرجان: ۱:۳۱

 

 

 

[5]  دیکھئے المقنع ص۲۳ اور دلیل الحیران ص ۵۲

[6]  دیکھئے دلیل الحیران ص۸۶ اور سمیر الطالبین ص۶۱

[7]  ابو داؤد کا یہ قول سمیر الطالبین (للضباع) ص ۶۱ میں منقول ہوا ہے۔

[8]  دیکھئے سمیر الطالبین (للضباع) ص ۴۹ اور نثر المرجان ۱: ۱۷۵