سورۃ البقرہ آیت ۸۴ تا  ۸۶

۵۱:۲       وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَاۗءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ اَقْــرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ(۸۴)  ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِيْـقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِيَارِھِمْ    ۡ تَظٰھَرُوْنَ عَلَيْهِمْ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۭوَاِنْ يَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْھُمْ وَھُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ  ِخْرَاجُهُمْ  ۭ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يُرَدُّوْنَ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(۸۵)   اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَةِ ۡ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ (۸۶)

۱:۵۲:۲       اللغۃ

مربوط مضمون ہونے کی بناء پر ہم نے اس قطعہ میں تین آیات کو شامل کیا ہے اور ایک آیت کی طوالت کے باعث یہ (زیر مطالعہ) قطعہ آیات بھی ذرا طویل ہوگیا ہے۔ تاہم اس قطعہ کے قریباً پچاس سے زائد کلمات میں سے بیشتر پہلے ہی زیر بحث آچکے ہیں، بلکہ نئے (پہلی دفعہ آنے والے) مادے اس میں کل آٹھ نو ہی ہیں۔ بہر حال کلمات کی لغوی تشریح کی تفصیل یوں ہے۔

[وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ] قریباً یہی  عبارت گزشتہ قطعہ آیات [۱:۵۱:۲]میں گزر چکی ہے، صرف یہ فرق ہے کہ یہاں ’’میثاق‘‘ کے بعد مضاف الیہ ضمیر ’’کُمْ‘‘ ہے جب کہ گزشتہ قطعہ (۵۱:۲)میں اس کا مضاف الیہ ’’بنی اسرائیل‘‘ تھا۔ اس عبارت کے تمام کلمات کی الگ الگ لغوی تشریح کے گزشتہ حوالے بھی اسی [۱:۵۱:۲]میں دئیے جا چکے ہیں۔

·       عبارت کا لفظی ترجمہ ہے ’’او رجب ہم نے لیا عہد تمہارا‘‘ یعنی ’’جب ہم نے تم سے میثاق/ عہد/ قول وقرار/ پکا قول لیا‘‘ مخاطب اس میں بھی بنی اسرائیل ہی ہیں۔

[لَاتَسْفِکُوْنَ دِمَاءَکُمْ] یہ بھی ایک جملہ بنتا ہے جس کے پہلے حصے ’’لا تسفِکونَ‘‘ کا مادہ ’’س ف ک‘‘ اور وزن (لا نافیہ بمعنی ’’نہیں‘‘ نکال کر) ’’تَفْعِلُوْنَ‘‘ بنتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد’’سَفَکَ. . . . .یَسْفِکُ (بہانا ۔گرانا (خون)‘‘ کے باب، معنی و استعمال پر البقرہ:۳ [۱:۲۱:۲ (۵)]میں بات ہوچکی ہے۔ گویا ’’لاتَسْفِکُوْنَ‘‘ اس فعل مجرد سے فعل مضارع منفی ’’بِلَا‘‘  کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ہے ’’تم نہیں بہاؤ گے‘‘۔ کیا نہیں بہاؤگے؟ یہ آگے بیان ہوا ہے۔ ’’دِمَاءَکُمْ‘‘ کی آخری ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘ بمعنی ’’تمہارا/ تمہارے/ تمہاری‘‘ ہے اور لفظ ’’دمَاءٌ‘‘کا مادہ ’’د م ی‘‘ اور وزن’’فِعَالٌ‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’دِمَایٌ‘‘ تھی جس میں الف ممدودہ کے بعد آنے والی ’’ی‘‘ کو ’’ء‘‘ میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے۔ یہ لفظ ’’دَمٌ‘‘ (بمعنی خون/ لہو) کی جمع مکسر ہے۔ اس لفظ کی مکمل لغوی تشریح بھی البقرہ:۳۰ [۱:۲۱:۲ (۶)]میں گزر چکی ہے۔ یہاں ’’دِمَاء کم‘‘ کا ترجمہ ہے’’ تمہارے  خون‘‘۔

·       اس طرح اس پورے جملہ (لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَاۗءَكُمْ) کا لفظی ترجمہ بنا  ’’تم نہیں بہاؤ گے تمہارے (یعنی ’’اپنے‘‘) خون/ لہو‘‘۔ پھر ’’اپنے خون ‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ’’اپنوں کا خون/ اپنے خون/ آپس میں خون‘‘ سے کیا گیا ہے اور چونکہ خون کے لیے جمع کا صیغہ ’’دِمَاء‘‘ آیا ہے (یعنی ’’خونوں‘‘ کو نہیں بہاؤگے) اس مفہوم کو بامحاورہ ترجمہ میں ’’باہمی خون ریزی‘‘ اور ’’آپس میں کشت و خون‘‘ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ اور چونکہ یہاں بھی (قطعہ۵۱:۲  کے ’’لا تعبدون‘‘ کی طرح) صیغہ مضارع منفی ’’میثاق‘‘ اور ’’قول و قرار‘‘ کی شرائط کے بیان میں آیا ہے اس لیے اس میں دراصل فعل نہی کا مفہوم ہے۔ اس لیے ’’ لَا تَسْفِكُوْنَ ‘‘ کا ترجمہ ’’اَن لا تسفکوا‘‘ کی طرح، کہ تم مت بہاؤ‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے جس کی بامحاورہ صورتیں ’’(خون) نہ کرنا، (خون) نہ بہانا، (خونریزی) مت کرنا‘‘ اختیار کی گئی ہیں جن میں نہی کے ساتھ تاکید کا مفہوم بھی ہے۔ اگرچہ بعض نے لفظی ترجمہ فعل مضارع ہی کے ساتھ ’’نہ کرو گے خون‘‘ سے بھی کیا ہے۔

۱:۵۲:۲ (۱)     [وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَکُمْ مّنْ دِیَارِکُمْ] اس عبارت میں ابتدائی ’’وَلَا‘‘۔ واوِ عاطفہ اور ’’لا‘‘ نافیہ ہے۔ ’’لا‘‘ کی تکرار (ایک پہلے ’’ لَا تَسْفِكُوْنَ ‘‘ میں آیا ہے) کے باعث یہاں ’’وَلَا‘‘ کا ترجمہ اور نہ ہی ہوگا۔

’’تُخْرِجُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’خ ر ج‘‘ اور وزن ’’تُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے یعنی یہ اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (’’خَرج یخرُج‘‘= نکلنا) پر البقرہ:۷۴ [۱:۴۶:۲ (۵)]میں اور باب افعال(اخرج یُخرِج اِخراجًا =نکالنا) کے معنی وغیرہ پر البقرۃ: ۲۲ [۱:۱۶:۲ (۱)]میں بات ہوچکی ہے۔

’’اَنْفُسَکُمْ‘‘ کے ابتدائی حصہ’’اَنْفُس‘‘ (جو ’’نَفْسٌ‘‘ کی جمع مکسر ہے) کے مادہ وغیرہ کی بات البقرہ:۹ [۱:۸:۲ (۴)]میں ’’انفسھم‘‘ کے ضمن میں ہوچکی ہے ’’انفسکم‘‘ کا ترجمہ ہے ’’تمہاری/ اپنی جانوں کو‘‘۔

’’مِنْ دِیَارِکُم‘‘ کے شروع میں ’’مِنْ‘‘ (بمعنی ’’میں سے‘‘) ہے اور آخر پر ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘ (بمعنی تمہارا/ تمہارے) ہے۔ اور باقی لفظ’’دِیَارٌ‘‘ (جو یہاں مجرور اور خفیف آیا ہے جس کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں دیکھئے) کا مادہ ’’د و ر‘‘ اور وزن ’’فِعَالٌ‘‘ ہے ۔ یہ دراصل ’’دِوَار‘‘ تھا۔ پھر واوِ مفتوحہ ماقبل مکسور ’’یاء‘‘ میں بدل کر لکھی بولی جاتی ہے (جیسے ’’رَضِوَ ‘‘سے ’’رَضِیَ ‘‘ہوجاتا ہے) اور لفظ ’’دیار ‘‘ ہوجاتا ہے۔

·          اس مادہ سے فعل مجرد ’’دارَ یدُور دَوْرًا‘‘ (نصر سے) کے بنیادی معنی ہیں: ’’گھومنا۔ گھوم جانا‘‘ عموماً یہ بطورفعل لازم ہی استعمال ہوتا ہے اور ’’بِ‘‘ یا ’’علٰی‘‘ کے صلات کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے اور کبھی بطور فعل متعدی ’’گھمانا اور لپیٹنا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے مثلاً ’’دارالعمامَۃَ حولَ راَسہ‘‘ (اس نے اپنے سر کے گرد پگڑی لپیٹی)۔ تاہم قرآن کریم میں یہ فعل مجرد صرف بطور فعل لازم اور بغیر کسی صلہ وغیرہ کے صرف اپنے ابتدائی معنی (گھومنا) میں صرف ایک جگہ (الاحزاب:۱۹) استعمال ہوا ہے۔ اور اس سے مزید فیہ کے بابِ افعال سے بھی ایک ہی صیغہ فعل (البقرہ:۲۸۲) آیا ہے۔ اس کے علاوہ اس مادہ سے مشتق اور ماخوذ (مثلاً دار، دیار، دیّار، دائرۃ  اور   دوائر) متعدد جگہ آئے ہیں جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

·             زیر مطالعہ لفظ ’’دیار‘‘ (جو معرفہ نکرہ مفرد مرکب صورتوں میں قرآن کریم کے اندر۱۶ جگہ آیا ہے)  کا واحد ’’دارٌ‘‘ بمعنی ’’گھر‘‘ ہے (اور یہ لفظ بھی دراصل ’’دَوَرٌ‘‘ تھا پھر واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے۔ اور لفظ ’’دار‘‘ ہوجاتا ہے) گویا دراصل ’’دور‘‘ کی ہی جمع ’’دِوار‘‘ تھی جو ’’دیار‘‘ بنی، جیسے ’’ثوب‘‘ (کپڑا) کی جمع ’’ثواب‘‘ کی بجائے ’’ثِیابٌ‘‘ آتی ہے۔ ’’دیار‘‘ کا مطلب ہے  ’’گھروں‘‘۔

·             یوں اس زیر مطالعہ عبارت (وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ) کا لفظی ترجمہ بنے گا: ’’اور نہ ہی تم نکالوگے اپنی جانوں/ اپنے شخصوں کو تمہارے (اپنے) گھروں میں سے‘‘۔ پھر گزشتہ قطعہ کے ’’دماء کم ‘‘کی طرح یہاں بھی ’’انفسکم‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ’’اپنوں کو، اپنے لوگوں کو‘‘ یا  ’’ایک دوسرے کو‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ اور ’’ مِّنْ دِيَارِكُمْ ‘‘ (اپنے گھروں میں سے) کا بامحاورہ ترجمہ ’’اپنے وطن سے‘‘،  ’’اپنی بستیوں سے‘‘ اور ’’انفسکم‘‘ کے ترجمہ ’’اپنوں کو‘‘ کی مناسبت سے اردو محاورے میں ’’ دِيَارِكُمْ ‘‘کا ترجمہ ’’ان کے گھروں سے/ وطن سے‘‘ کے ساتھ بھی کردیا گیا ہے یعنی ضمیر مخاطب کی بجائے ضمیر غائب کے ساتھ اسے محاورے کی مجبوری کہہ لیجئے۔ اسی طرح ’’لا تخرجون‘‘ کا ترجمہ نہی موکد کے ساتھ ’’نہ نکالنا، مت نکالنا‘‘ کی صورت میں کیاگیا ہے جس کی وجہ اوپر ’’لا تعبدون‘‘ اور ’’لا تسفکون‘‘ کے ضمن میں بیان ہوئی ہے بعض نے ’’لاتخرجون‘‘ کا ترجمہ ’’نہ جلا وطن کرنا‘‘ سے کیا ہے جو اردو محاورے میں مستعمل ہے۔

۱:۵۲:۲ (۲)     [ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ] ’’ثُمَّ‘‘ (پھر/ اس کے بعد) کئی دفعہ گزر چکا ہے ’’اَقْرَرْتُمْ‘‘کا مادہ ’’ق ر ر‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلْتُم‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (قرّ یقِرُّ= ٹھنڈا ہونا۔ ٹھہر نا وغیرہ) پر البقرہ:۳۶ [۱:۲۶:۲ (۲۰)]میں کلمہ ’’مُسْتقر‘‘ (ٹھکانا) کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ زیر مطالعہ لفظ ’’اَقرَرْتُمْ‘‘ اس مادہ سے باب افعال کا فعل ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ بابِ افعال کے اس فعل ’’اَقرَّ . . . یُقِرَّ (اَقرَرَ یُقرِرُ) اقراراً ‘‘ کے متعدی معنی ہیں مثلاً ’’ٹھنڈ میں داخل ہونا، ٹِک جانا، مان لینا، پکا کرنا، نافذ کرنا‘‘ وغیرہ۔ اور ’’بِ‘‘ یا ’’لِ‘‘ (کے صلہ) کے ساتھ ’’اعتراف کرنا‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔اردو میں اس سے ’’اِقرار کرنا‘‘ بھی مستعمل ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل سے صرف چار صیغے (تین ماضی اور ایک مضارع) آئے ہیں۔ ماضی کے تینوں صیغوں میں یہ ’’اقرار کرنا‘‘ ہی کے لیے آیا ہے، البتہ مضارع کا صیغہ ’’پکا کرنا، ٹھیرائے رکھنا‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔ زیر مطالعہ عبارت میں قریباً سب نے اس کا ترجمہ ’’پھر تم نے اقرار کیا/ اقرار کرلیا‘‘ سے ہی کیا ہے، ایک آدھ نے ’’قول منظور کرلیا‘‘ سے کیا ہے۔ مفہوم یکساں ہے۔

[وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ]اس میں ’’ وَ ‘‘ (اور) اور ’’انتم‘‘ (تم) کے بعد جو صیغۂ فعل ’’تَشْھَدُونَ‘‘ آیا ہے جس کا مادہ ’’ش ھ د‘‘ اور وزن ’’تَفْعَلُوْن‘‘ ہے۔ اس کے فعل مجرد (شھِد یشھَد= گواہ ہونا، مان لینا)  کے باب وغیرہ پر البقرہ:۲۳ [۱:۱۷:۲ (۸)]میں بحث ہوچکی ہے۔ اس طرح یہاں اس عبارت (وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ) کا ترجمہ بنتا ہے ’’اور تم گواہی دیتے ہو‘‘ جسے ’’تم شاہد ہو/ شہادت دیتے ہو/ گواہ ہو ‘‘ کی صورت بھی دی گئی ہے اور بعض نے ’’اقرار کرتے ہو/ مانتے ہو‘‘ سے بھی ترجمہ کردیا ہے۔ بعض نے یہاں مخاطب کے صیغے    کے باوجود ساتھ ’’انتم‘‘ لانے کی بنا پر ترجمہ یوں کیا ہے  ’’اور (اس بات یعنی تمہارے بڑوں کے اقرار اور قبول میثاق کے) گواہ تو تم خود بھی ہو۔ یعنی گواہی دیتے ہو کہ ایسا ہی ہوا تھا۔

[ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاءِ] ’’ثُمَّ‘‘(پھر) اور ’’انتم‘‘ (تم) کی طرح ’’ھٰؤلائِ‘‘ پر بھی پہلے بات ہوچکی ہے دیکھئے البقرہ:۳۱ [۱:۲۲:۲]میں۔ ’’ ھٰٓؤُلَاءِ ‘‘ جو اسم اشارہ قریب برائے جمع (مذکر و مونث) استعمال ہوتاہے البقرہ:۲ [۱:۱:۲ (۱)]میں ’’ذٰلکَ‘‘ کے ضمن میں اس کی ساخت اور بناوٹ پر بھی بات ہوئی تھی۔ ’’ ھٰٓؤُلَاءِ ‘‘ کا ترجمہ تو ہے ’’یہ سب (لوگ)‘‘۔ اور یوں اس فقرے(ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاءِ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’پھر تم ہو یہ (لوگ)‘‘ جسے اردو محاورے کے مطابق ’’پھر تم وہ لوگ ہو/ پھر تم وہی ہو/ تم ہی وہ ہو/ وہی تم ہو‘‘ کی صورت میں دی گئی ہے۔ اس پر مزید بات ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔

[تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ] ’’تقتُلُون‘‘ جو ’’ق ت ل‘‘ مادہ سے باب نصر کے فعل مجرد (قتل یقتُل=مارڈالنا۔ قتل کرنا) کا فعل مضارع صیغہ جمع مذکر حاضر ہے، اس فعل کے معنی وغیرہ کی مزید وضاحت کے لیے دیکھ لیجئے البقرہ:۵۴[۱:۳۴:۲ (۴)]’’انفسکم‘‘ ابھی اوپر گزرا ہے (لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ میں) لفظی ترجمہ اس جملے کا بنتا ہے ’’تم قتل کرتے ہو اپنی جانوں کو‘‘۔ جس کی بامحاورہ صورت ہے ’’مار ڈالتے ہو/ خون کرتے ہو/ قتل کرتے ہو/ کردیتے ہو‘‘ یہاں بھی ’’انفسکم‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ’’اپنوں کو/ آپس میں/ اپنوں کا‘‘ بنتا ہے۔ اور چونکہ یہاں ان لوگوں کی کئی خرابیوں اور بُرے کاموں کا یکے بعد دیگرے ذکر ہے (جیسا کہ آگے آرہا ہے) اس لیے اردو محاورے کی خاطر بعض نے یہاں فعل کے ساتھ ’’بھی‘‘  کا استعمال کیا ہے یعنی ’’اپنوں کو قتل بھی کرتے ہو‘‘۔ اور چونکہ یہاں ان کے میثاق توڑ کر ماضی میں بھی اس کی خلاف ورزی کا ذکر ہے اس لیے بعض نے اسے تاریخی واقعات کے بیان کے طور پر بصیغہ ماضی ہی ترجمہ کردیا ہے یعنی ’’تم اپنوں کو قتل کرنے لگے‘‘ کی صورت میں، جسے بلحاظ مفہوم ہی درست کہہ سکتے ہیں۔

[وَ تُخْرِجُوْنَ فَرِیْقاً مِّنْکُمْ مِّنْ دِیَارِھِمْ] اس پورے جملے کے تمام کلمات پہلے گزر چکے ہیں مثلاً ’’تُخْرِجُوْنَ‘‘ ابھی اوپر بصغیہ منفی ’’ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ ‘‘ میں گزرا ہے۔ ’’فریقاً‘‘ کے مادہ (ف ر ق) سے فَعِیْل) کے فعل مجرد اور لفظ ’’فریق‘‘ (گروہ) کے معنی وغیرہ پر البقرہ:۷۵ [۱:۴۷:۲ (۲)] میں بات ہوچکی ہے اور ’’مِنْ دِیَارِھِمْ‘‘ سے ملتی جلتی ترکیب ’’من دیارکم‘‘ ابھی گزری ہے جس میں لفظ ’’دیار‘‘ کی لغوی وضاحت کی جاچکی ہے۔ دیکھئے اوپر[۱:۵۲:۲ (۲)]۔

·       یوں اس زیر مطالعہ عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’اور تم نکال دیتے ہو ایک گروہ کو اپنے میں سے گھروں ان کے سے‘‘ پھر بامحاورہ کرنے کے لیے ’’فریقاً منکم‘‘ کا ترجمہ ’’اپنے ایک فرقہ کو/ اپنے میں سے ایک گروہ کو/ اپنے ہی ایک گروہ کو‘‘ کی صورت میں کیاگیا۔ ’’تُخْرِجُوْنَ‘‘ کاترجمہ نکال دیتے ہو‘‘ کے علاوہ ’’ترک وطن کراتے ہو اور دیس نکالاکرتے ہو‘‘ سے بھی کیا گیا ہے۔ مفہوم وہی ہے۔ اِسی طرح ’’من دیارھم‘‘ (ان کے گھروں میں سے) کا ترجمہ ’’ان کے وطن سے‘‘ سے بھی کیاجاسکتا ہے۔ اور یہاں بھی ان کی نمبرواربرائیوں  کے ذکر کی بناء پر اردو محاورے میں فعل کے ساتھ ’’بھی‘‘ کا استعمال موزوں ہے یعنی ’’نکال بھی دیتے ہو‘‘ کی صورت میں۔

۱:۵۲:۲ (۳)     [تَظَاھَرُوْنَ عَلَیْھِمْ] (یہاں املاء کا فرق اور فعل کی ساخت سمجھانے کے لیے ’’تظاھرون‘‘ رسم املائی کے مطابق لکھا گیا ہے، اس کے رسم قرآنی پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی)۔

’’تَظَاھَرُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ظ ھ ر‘‘ اور وزن (موجودہ) ’’تَفَاعَلُوْنَ‘‘ ہے۔ اصلی وزن ’’تَتَفاعَلُوْنَ‘‘ اور اصلی شکل ’’تتظاھَرُون‘‘ ہے۔ پھر صیغہ مضارع میں دو تاء جمع ہونے کی صورت میں (جو باب تفعل اور تفاعل کے صیغوں میں ہوتا ہے) ایک ’’تاء‘‘ کو کتابت اور تلفظ سے گرادینا جائز ہوتا ہے (ضروری نہیں ہوتا) تاہم قرآن کریم میں جہاں جو لفظ جس طرح آیا ہے اسی طرح پڑھا جاتا ہے۔

·       اس مادہ (ظھر) سے فعل مجرد ’’ظھرَ یظھَر ظُھُورًا‘‘ (فتح سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’ظاہر ہوجانا، نمودار ہونا۔ چھپی ہوئی چیز کا سامنے آجانا‘‘ اس کے مقابلے کا لفظ ’’بَطَنَ‘‘ (چھپا ہونا۔ پوشیدہ ہونا) ہے جیسے ’’ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ‘‘ (الانعام:۱۵۱) میں ہے (یعنی بے حیائیوں کے قریب بھی نہ جاؤ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں) پھر اسی سے اس فعل میں ’’پھیل جانا، عام ہوجانا اور بکثرت ہونا‘‘ کا مفہوم پید ہوتا ہے جیسے ’’ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ‘‘ (الروم:۴۱) میں ہے (یعنی فساد پھیل گیا خشکی اور سمندر (تری) میں ) کبھی یہ بطور فعل متعدی ’’. . . . پر چڑھنا‘‘ کے معنی دیتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’ظھَر الجبَلَ‘‘= وہ پہاڑ پر چڑھ گیا‘‘ اور قرآن میں ہے ’’ فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ يَّظْهَرُوْهُ ‘‘(الکہف:۹۷) یعنی وہ اس پر چڑھ نہیں سکتے۔’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ’’. . . .پر غلبہ پانا، اور. . . .سے آگاہ ہونا‘‘ بھی ہوتے ہیں جیسے ’’ وَاِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ ‘‘ (التوبہ:۸) میں ہے (یعنی اگر وہ تم پر غلبہ پالیں) اور ’’ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ‘‘(النور:۳۱) میں ہے (یعنی وہ لڑکے جو عورتوں کی شرم کی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے) اس فعل مجرد کے یہ (مذکورہ بالا) وہ معنی ہیں جو قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔ یہ فعل مجرد (اسی باب سے مگر مختلف مصادر کے ساتھ) کچھ اور معانی بھی دیتا ہے جو کتب لغت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے دس جگہ آئے ہیں اور مزید فیہ کے ابواب افعال مفاعلہ اور تفاعل سے مختلف صیغے ۱۶ جگہ آئے ہیں اس کے علاوہ متعدد مشتق اور ماخوذ کلمات (مثلاً ظَھْر، ظُھور، ظاھر، ظھیر  وغیرہ) تیس سے زائد مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی ان شاء اللہ تعالٰی۔

·       زیر مطالعہ لفظ (تظاھرون) اس مادہ سے تفاعل کا صیغہ مضارع جمع مذکر حاضر ہے۔ اس باب سے فعل ’’تظاھرا یتظاھرانِ تظاھُراً‘‘ کے معنی ہیں ’’باہم ایک دوسرے کی مدد کرنا، تعاون کرنا‘‘ [اوپر فعل کے لیے واحد کی بجائے تثنیہ (ماضی و مضارع) کے صیغے لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس فعل (اور عموماً باب تفاعل کے ہر فعل) کا فاعل ایک آدمی نہیں ہوتا۔ کم از کم دو آدمی (یا زیادہ بصیغۂ جمع) ہوتے ہیں] اور جب فعل کے بعد’’علٰی‘‘ کا صلہ آئے تو اس کا مطلب ہوتا ہے ’’کسی کے خلاف باہم ایک دوسرے کی مدد کرنا‘‘ مثلاً کہیں گے: تظاھروا علی فلان‘‘ (ان سب نے فلاں کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی یعنی اس کے مخالفوں کی مدد کی)۔ بابِ تفاعل کے اس فعل کے کل دوصیغے قرآن کریم میں تین جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ اسی طرح ’’علٰی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آئے ہیں۔

·       اس طرح اس عبارت (تظاھرون علیھم) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’تم باہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ان کے خلاف‘‘ یا  ’’تم مددگاری کرتے ہو ان پر‘‘ پھر اسے بامحاورہ بنانے کے لیے’’ ان کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو‘‘ یا ’’ان کے مقابلے میں (ان کے مخالفوں کی) مدد بھی کرتے ہو‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیاگیا ہے، اسی لیے بعض حضرات نے اس کا ترجمہ ’’ان پر چڑھائی کرتے رہو‘‘ کے ساتھ کیا ہے جسے بلحاظ مفہوم ہی درست کہا جاسکتا ہے اور چونکہ اس باہمی مخالفانہ مدد کا تعلق ان کو گھروں سے نکالنے (’’ تُخْرِجُوْنَ فَرِیْقاً مِّنْکُمْ مِّنْ دِیَارِھِمْ ‘‘ ـــــ سابقہ عبارت) سے ہے اس لیے بعض نے یہاں زیر مطالعہ عبارت کے صیغۂ مضارع کو ’’حال‘‘ کے معنی میں لے کر ترجمہ ’’ایک دوسرے کے مددگار بن کر (ان کو نکالتے ہو)‘‘ کی صورت میں بھی کیا ہے اس پر مزید بات حصہ ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔

۱:۵۲:۲ (۴)     [بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ]  ابتدائی ’’باء (ب)‘‘ کاترجمہ یہاں ’’کے ساتھ، سے‘‘ یا  ’’میں‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔باقی دو لفظ ’’الاثِم‘‘ اور ’’العدوان‘‘ ہیں (جو یہاں مجرور بالجر ہیں) ان کی لغوی وضاحت الگ الگ کی جاتی ہے۔

(۱)  ’’اَلإِثْمُ‘‘  کا مادہ ’’ا ث م‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فِعْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’أَثِم یَأْثَم اِثمًا وأَثامًا (سمع سے) کے معنی ہیں ’’گناہ گارہونا۔ کوئی ایسا کام کرنا جو جائز اور حلال نہ ہو‘‘ اور ’’اثم یأثم‘‘ (نصر سے) کے معنی ہوتے ہیں ’’کسی کام کو گناہ قرار دینا اور اس کی سزا دینا ‘‘کہتے ہیں ’’یَأْثُمُہ اللّٰہُ‘‘ (اللہ اسے گناہ گار قرار دے گا) اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی مختلف معانی کے لیے فعل استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس مادہ سے مشتق اور ماخوذ بعض کلمات (مثلاً اثم، اثام، آثم، اثیم، تَأثیم وغیرہ) پچاس کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ ان سب پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’اِثم‘‘ (جو معرفہ نکرہ مفرد مرکب مختلف صورتوں اور حالتوں میں قرآن کریم کے اندر تیس سے زیادہ مقامات پر آیا ہے) فعل مجرد کا مصدر بھی ہے اور اس سے اسم بھی ہے جس کے معنی ہیں ’’ایسا بُرا کام جس پرآدمی سزا کا مستحق ہوجائے ’’بقول راغب ’’ایساکام جو ثواب اور خیرات یعنی بھلائیوں سے پیچھے رہ جانے یا دیر کرنے کا سبب ہو‘‘اس کا سادہ اردو ترجمہ ایک لفظ ’’ ’گناہ ‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔ عربی میں اس کے مقابلے کا لفظ ’’بِرٌّ‘‘ (نیکی) ہے۔ اگرچہ گناہ اور نیکی کے لیے عربی زبان میں اور خود قرآن کریم میں بعض دوسرے الفاظ بھی آئے ہیں۔ عموماً  ’’اثم‘‘ ایسے بُرے کام کو کہتے ہیں جس کا تعلق صرف گناہ گار کی ذات سے ہو بظاہر کسی دوسرے آدمی کا نقصان یا کسی پر ظلم اس میں شامل نہ ہو۔

(۲) ’’العُدْوَان‘‘ کا مادہ ’’ع د و‘‘ اور وزن (لام تعریف کے بغیر) ’’فُعْلَانٌ ‘‘ہے، اس سے فعل مجرد (عدا یعدو۔ دوڑنا) پر البقرہ:۳۶ [۱:۲۶:۲ (۱۹)]میں کلمہ ’’عَدُوٌّ‘‘ (دشمن) کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ یہ فعل مختلف معانی کے لیے مختلف مصادر کے ساتھ (ایک ہی باب سے) استعمال ہوتا ہے بقول راغبؒ اس مادہ (عدو) میں بنیادی مفہوم ’’تجاوز‘‘ (کسی حد سے آگے بڑھنا) اور عدم ’’القیام‘‘ (اکٹھے اور یکجا نہ رہ سکنا) کا ہوتا ہے پھر اگر ’’مَشْیٌ‘‘ (پیدل چلنے) سے تجاوز ہوتو اسے ’’عَدوٌ‘‘ (دوڑنا) کہتے ہیں اور اگر دلی موافقت سے تجاوز ہوتو اسے ’’عداوۃٌ‘‘ (دشمنی) کہتے ہیں۔ اور اگر کسی معاملہ میں انصاف سے تجاوز ہو تو اسے ’’عُدْوانٌ‘‘ (زیادتی۔ ظلم) کہتے ہیں۔ البتہ ان آخری معنوں کے لیے فعل مجرد کے ساتھ ’’علٰی‘‘  کا صلہ آتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’عدا علَیْہِ=(اس نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔ یا اس پر ظلم کیا)‘‘۔ اس طرح یہ فعل (عدا یعدُو) لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ’’عُدْوَان‘‘ ایسے برے کام یا گناہ کو کہتے ہیں جس میں کسی دوسرے آدمی کا حقوق وغیرہ کا نقصان شامل ہو۔ یعنی ’’ظلم و زیادتی‘‘۔

·       اس طرح ’’اثم و عدوان‘‘ میں برائی اور گناہ کی تمام صورتیں آجاتی ہیں جسے اردو مترجمین نے ’’گناہ اور ظلم‘‘ یا ’’گناہ اور زیادتی ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ ان (زیادتی اور ظلم والے)  معنی کے لیے اس مادہ (عدو) سے باب افتعال اور تفعل کے فعل بھی استعمال ہوتے ہیں، یہ بھی آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گے۔

۱:۵۲:۲ (۵)     [وَ اِنْ یّاتُوْکُمْ اُسَارٰی تُفَادُوْھُمْ] (عبارت میں کلمات کی ساخت کے لیے ’’اُسَاری‘‘ اور ’’تَفَادُوْھم‘‘ کو رسم املائی کے مطابق ہی لکھا گیا ہے۔ ان کے قرآنی رسم (عثمانی) پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی) ابتدائی ’’وَ‘‘ عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘) ہے اور ’’اِن‘‘ شرطیہ بمعنی ’’اگر‘‘) ہے۔ ’’یَأْتُوْکُمْ‘‘ کی آخری ضمیر منصوب (کُمْ) یہاں بمعنی ’’تمہارے پاس‘‘ ہے اور صیغہ فعل ’’یَأتُوا‘‘ (ضمیر منصوب یعنی مفعول کے بغیر صیغۂ  فعل میں واو الجمع کے بعد زائد الف لکھا جاتا ہے جسے الف الوقایۃ بھی کہتے ہیں) کا مادہ ’’ا ت ی‘‘ اور وزن اصلی ’’یَفْعِلُوْا‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’یَأْتِیُوْا‘‘ تھی جس میں واو الجمع سے ماقبل حرف علت (جو یہاں ’’ی‘‘ ہے) گرا کر اس کے ماقبل (جو یہاں ’’ت‘‘ ہے) کی حرکتِ کسرہ (ــــــِــــ)ضمہ (ـــــُـــــ)میں بدل دی جاتی ہے اور یوں یہ لفظ ’’یَأتُوْا‘‘ بنتا ہے۔ اس قسم کے متعدد صیغہ ہائے فعل پہلے گزر چکے ہیں۔

·       اور یہ لفظ (یأتُوا) اس مادہ (ا ت ی) کے فعل مجرد (اَتی یأتِیْ= آنا) سے فعل مضارع مجزوم کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے جو دراصل تو ’’یَأتُوْنَ‘‘ (مندرجہ بالا تعلیل کے بعد) بنتا تھا مگر شروع میں ’’اِنْ‘‘ شرطیہ کے لگنے سے مجزوم ہوکر آخری ’’ن‘‘ گر گیا ہے۔ فعل مجرد ’’اتیٰ  یاتی‘‘ کے باب اور استعمال پر سب سے پہلے البقرہ:۲۳ [۱:۱۷:۲ (۴)]میں اور پھر [۱:۱۸:۲ (۸)] میں بھی بحث ہوچکی ہے۔

·       اس طرح ’’وَاِنْ یَّأتُوْکم‘‘  کا لفظی ترجمہ ہے ’’اور اگر وہ آتے ہیں تمہارے پاس‘‘ جسے بعض نے ’’اگر وہ تم تک پہنچ جاتے ہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے کیونکہ آگے ان کے قید ہوکر آنے کا ذکر ہے اس صورتِ حال کے لیے ’’آنے‘‘ کی بجائے ’’پہنچ جانا‘‘موزوں ترجمہ ہے۔ بعض نے فعل مضارع کے ساتھ ہی ترجمہ ’’ آئیں/ آویں‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ جب کہ بعض نے عبارت کے مجموعی مضون کو سامنے رکھتے ہوئے (جس میں ’’ان‘‘ کو قتل کرتے اور گھروں سے نکالتے بھی ہیں اور پھر قیدی ہوکر آئیں تو ان کو چھڑاتے بھی ہیں‘‘ کا ذکر ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے) یہاں ’’اگر وہ‘‘ کی بجائے ’’اگر وہی/ وہی لوگ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے (یعنی ’’وہی جن کے قتل اور جلا وطنی کے مرتکب ہوتے ہو) بعض حضرات نے بصورت واحد (وہ آئے) ترجمہ کیا ہے جو اصل عبارت کے خلاف ہے۔

·       ’’اساری‘‘ کا مادہ ’’ا س ر‘‘ اور وزن ’’فُعَالٰی‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (أَسَر. . . . .یَأْسِرُ اَسرًا) (ضرب سے) کے بنیادی معنی ہیں ’’کسی چیز (خصوصاً کجاوہ وغیرہ کو) مضبوطی سے باندھ دینا‘‘ پھر یہ مطلقاً ’’کسی کو قیدی بنالینا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس میں بھی اس کا زیادہ استعمال ’’کسی کو جنگ میں قیدی بنا لینا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایسے (جنگی) قیدی کو عربی میں ’’اَسِیر‘‘  (بروزن ’’فعیل‘‘) کہتے ہیں۔ (جیل کے قیدی کے لیے لفظ ’’مَسْجُوْنٌ‘‘استعمال ہوتا ہے)۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مضارع کا ایک صیغہ ایک ہی جگہ (الاحزاب:۲۶) میں آیا ہے اور اس کے علاوہ اس مادہ سے ماخوذ اور مشتق اسماء (اَسْرٌ، اسیرٌ، اَسْری و اساری) کئی جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (اُسَاری) جمع مکسر ہے جس کا واحد ’’اَسِیرٌ‘‘ (بمعنی قیدی) ہے لفظ ’’اَسیر‘‘ کی ایک جمع ’’أَسْرٰی‘‘ بھی ہے(یہ بھی قرآن کریم میں مذکور ہے) اردو میں لفظ ’’قیدی‘‘ واحد جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے (قیدی آیا۔ قیدی آئے) اس لیے یہاں ’’اساری‘‘ کا ترجمہ ’’قیدی‘‘ ہی کیا گیا ہے۔ البتہ (جیسا کہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگا) یہاں چونکہ لفظ ’’اساری‘‘ حال ہوکر آیا ہے اس لیے ’’اساری‘‘ کا ترجمہ ’’قیدی ہوکر، قیدی بن کر، قید ہوکر، اسیر ہوکر‘‘ کیا گیا ہے بعض نے یہی مفہوم ’’گرفتا ہوکر، بندی وان ہوکر، اور کسی کی قید میں پڑے (ہوئے)‘‘ سے ظاہر کیا ہے۔

’’تُفَادُوْھُمْ‘‘ کی آخری ضمیر منصوب ’’ھم‘‘ (بمعنی ’’ان کو‘‘ ہے اور باقی صیغہ فعل ’’تُفَادُوْا‘‘ (ضمیر مفعول ہٹانے کے بعد واو الجمع کے ساتھ الف الوقایہ لکھنا ضروری ہے) کا مادہ ’’ف د ی‘‘ اور وزن اصلی ’’تُفَاعِلُوْا‘‘ ہے اصلی شکل ’’تُفَادِیُوا‘‘ تھی جس میں واو الجمع سے ماقبل حرف علت (ی) گر کر اس سے پہلے کے حرف (عین کلمہ ’’د‘‘ کی کسرہ ضمہ میں بدل دی جاتی ہے (یعنی یُ وْ=  وْ ) اور یوں یہ لفظ ’’تُفادُوا‘‘ بنتا ہے جو دراصل اس مادہ (ف د ی) سے باب مفاعلہ کا فعل مضارع مجزوم (صیغہ جمع مذکر حاضر) ہے۔ یعنی یہ ’’تُفَادُوْنَ‘‘ تھا جس کا آخری ’’ن‘‘ بوجہ جزم گر گیا ہے (’’جزم‘‘‘ کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی)۔

·       اس مادہ (ف د ی) سے فعل مجرد ’’فدَی. . . . یَفْدِی فِدائً‘‘ (ضرب سے) کے معنی ہیں: ’’. . . . کو (مال وغیرہ دے کر قید وغیرہ سے) چھڑا لینا‘‘۔ جس کو چھڑایاجا ئے وہ بطور مفعول بنفسہ آتا ہے اور جو چیز اس کے عوض یا بدلے میں دی جائے اس سے پہلے ’’باء‘‘ (ب) کا صلہ آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’فدَی فُلانًا بمالِہ‘‘ (اس نے فلاں کو اپنے مال کے عوض چھڑالیا) اس فعل مجرد سے صرف ایک صیغۂ ماضی ایک ہی جگہ (الصافات:۱۰۷) وارد ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے باب مفاعلہ اور افتعال سے افعال کے مختلف صیغے آٹھ جگہ اور لفظ ’’فداء‘‘ اور ’’فِدْیۃ‘‘ بھی چار مقامات پر آئے ہیں، ان پر حسب موقع بحث ہوگی، ان شاء اللہ۔

·       زیر مطالعہ لفظ  ’’تُفادُوا‘‘ اس مادہ سے باب مفاعلہ کے فعل مضارع مجزوم کا صیغہ (جمع مذکر حاضر) ہے۔ اس باب سے فعل ’’فادی. . . . یُفادِیْ مَفَادَاۃً وفِدائً‘‘ کے معنی ہیں: ’’کوئی چیز عوض میں دے کر. . . .کو چھڑا لینا‘‘ یعنی یہ فعل مجرد والے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے ایک معنی ’’باہم قیدیوں کا تبادلہ کرنا‘‘ بھی ہیں یعنی ’’اپنے پاس موجودہ قیدی دے کر مخالف سے اپنے آدمی (جو وہاں قید ہیں) چھڑوالینا‘‘. قرآن کریم میں باب مفاعلہ کا یہ فعل صرف اسی ایک جگہ استعمال ہوا ہے۔

یوں ’’تفاد وھم‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے ’’تو تم عوض دے کر ان کو چھڑا لیتے ہو‘‘  ـــــــــ اور اسی مفہوم کو،’’ تم ان کی چھڑوائی دیتے ہو/ تم چٹی بھر کر ان کو چھڑواتے ہو/ بدلہ دے کر چھڑاتے ہو/ کچھ خرچ کرکے رہائی دلالیتے ہو/ رہا کرا دیتے ہو‘‘ کی صورت میں بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ خیال رہے ’’کچھ دینا‘‘ اور ’’چھڑا لینا‘‘ دونوں مفہوم باب مفاعلہ کے اس فعل کے اندر شامل ہیں۔

·       یوں اس پوری عبارت ’’ وَاِنْ يَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْھُمْ ‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’اور اگر وہ (ہی) تمہارے پاس آجائیں قیدی ہو کر تو تم ان کے بدلے میں کچھ دے کر چھڑا (بھی) لیتے ہو‘‘ ترجمہ  میں ’’ہی‘‘ اور ’’بھی‘‘ لانے کی وجہ اوپر بیان ہوئی ہے بلکہ الگ الگ اجزائے عبارت کے الگ الگ معانی (تراجم) میں بھی لکھے گئے ہیں۔ جن کو سامنے رکھتے ہوئے آپ اس عبارت کا بامحاورہ ترجمہ کئی طرح سے کرسکتے ہیں۔ یا مختلف تراجم میں مترجم کے انتخاب الفاظ کی وجہ سمجھ سکتے ہیں۔

۱:۵۲:۲ (۶)    [وَھُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ اِخْرَاجُھُمْ]  اس جملہ میں صرف ’’مُحَرَّمٌ‘‘ نیا لفظ ہے باقی کلمات پہلے گزر چکے ہیں مثلاً ’’و‘‘ (جو یہاں بمعنی ’’حالانکہ‘‘ ہے) کے لیے دیکھئے[۱:۴:۱ (۳)]  ’’ھُوَ‘‘ (ضمیر واحد مذکر غائب بمعنی ’’وہ‘‘ ہے) ’’علیکم‘‘ (تم پر) جار مجرور ہے اور ’’ اِخْرَاجُھُمْ ‘‘ (اُن کو نکال دینا) کے پہلے حصے (اِخْراج) پر (جو ’’خ ر ج‘‘ مادہ سے بابِ افعال کا مصدر ہے) اس سے پہلے البقرہ:۲۲ [۱:۱۶:۲ (۱۱)]میں بات ہوچکی ہے۔ اور نئے لفظ [مُحَرَّمٌ]  کا مادہ ’’ح ر م‘‘ اور وزن’’مُفَعَّلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’حرَم. . . . یَحْرِمُ حِرْمانًا‘‘ (ضرب سے) کے معنی ہیں ’’. . . .کو . . . .سے روک دینا‘‘. یعنی اس کے دو مفعول ہوتے ہیں جس کو روکا جائے اورجس سے روکا جائے اور دونوں مفعول بنفسہ آتے ہیں مثلاً کہیں گے ’’حرم فلانًا الشیٔ‘‘ (اس نے فلاں کو چیز سے روک دیا) جس سے کوئی چیز روک دی جائے اسے ’’مَحْروُم‘‘ (بصیغئہ اسم مفعول) کہتے ہیں جو اردو میں بھی مستعمل ہے۔ باب کرم سے فعل (مثلاحرُم الشیٔ) کے معنی ’’ممنوع ہونا‘‘ ہوتے ہیں اور اس کا مصدر ’’حُرْمَۃٌ‘‘ ہوتا ہے (جو ’’حرمت‘‘ کی املا کے ساتھ اردو میں مستعمل ہے۔) تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کسی طرح کا (اور کسی باب سے) کوئی صیغہ فعل استعمال نہیں ہوا۔

·       زیر مطالعہ لفظ (مُحَرَّم) اس مادہ سے باب تفعیل کا صیغۂ اسم المفعول ہے۔ باب تفعیل سے فعل ’’حرَّم. . . . یُحرِّم تحریماً‘‘ کے معنی ہیں ’’. . . . کو حرام قرار دینا‘‘ (خود ’’حرام‘‘ کا لفظ جو اسی مادہ سے ماخوذ ہے اردو میں رائج ہے اور ’’حرام‘‘ کے معنی بھی ایسی چیز ہیں جس کے استعمال سے یا جس کی بے حرمتی سے روک دیا جائے)۔ اس فعل (حرَّم یحرِّم) کے بھی دو مفعول ہوتے ہیں: جو چیز حرام کی جائے اور جس پر حرام کی جائے۔ پہلا مفعول براہِ راست بغیر کسی صلہ کے (بنفسہ) آتا ہے اور دوسرے مفعول سے پہلے ’’علٰی‘‘ آتا ہے جسے ’’ حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ ‘‘ (البقرہ:۱۷۳) میں ہے (یعنی اس نے حرام کردیا تم پر مردار) البتہ کبھی دوسرا مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جو عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے جیسے ’’ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ‘‘ (البقرہ:۲۷۵) میں ہے (یعنی اس نے سود حرام قرار دیا) دراصل اس فعل میں بھی وہی ’’روک دینے‘‘ اور ’’منع کردینے‘‘ کا مفہوم موجود ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں باب تفعیل کے اس فعل سے مختلف صیغۂ ہائے فعل چالیس کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ اور ان کے علاہ و اس مادہ (ح ر م) سے ماخوذ مشتق کلمات (حَرَمٌ، حُرُمٌ، حَرام، حُرُمَات، محرُوم، محرّمٌ وغیرہ) بھی چالیس سے زائد جگہ وارد ہوئے ہیں جن پر اپنی اپنی جگہ مزید بات ہوگی ۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       اس طرح لفظ ’’محرم‘‘ کے معنی تو بنتے ہیں ’’حرام کیا ہوا‘‘، جسے اردو میں صرف ’’حرام‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے بیشتر مترجمین نے یہاں ’’محرم علیکم‘‘ کا ترجمہ ’’تم پر حرام تھا/ ہے‘‘ سے ہی کیا ہے۔ بعض نے ’’ممنوع ہے‘‘ اور ’’روا  نہ تھا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے مفہوم وہی ہے البتہ جن حضرات نے ’’حرام کردیا تھا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے وہ اصل عبارت سے تجاوز ہے کیونکہ یہ تو ’’حَرّمَ‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ یوں اس پوری عبارت  (وَھُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ اِخْرَاجُھُمْ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’حالانکہ وہ حرام (کیا ہوا) ہے (یا تھا) تم پر نکال دینا ان کو‘‘ جس کا بامحاورہ بنتا ہے ’’حالانکہ وہ ہی (یعنی) ان کو نکال دینا تم پر (حرام تھا/ ہے) ’’اسی کو بعض نے ’’نکال دینا ہی/ نکال دینا بھی‘‘ سے ترجمہ کیا ہے اس میں ’’ہی‘‘ یا ’’بھی‘‘ لانے کی وجہ واو الحال کے ساتھ ضمیر مرفوع ’’ھُوَ‘‘ اور پھر اس کے بدل’’اِخْرَاجُھُمْ‘‘ کا استعمال ہے۔ اس پر مزید بات آگے ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔

[اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ] اس جملے کے تمام کلمات (افعال، اسماء اور حروف) کے معانی اور ان کی لغوی تشریح کئی دفعہ پہلے گزر چکی ہے۔ مثلاً (۱) ابتدائی ’’أ ف‘‘  (کیا پس) کے متعلق یہ بھی بتایا جاچکا ہے کہ اگر ’’فَ‘‘ کے ساتھ استفہام (سوال) کے لیے ہمزۂ استفہام (أ) استعمال ہو تو ہمزہ پہلے اور ’’فاء‘‘  بعد میں آتی ہے یعنی  (أَفَ. . . .) اور اگر استفہام کے لیے ’’أ‘‘ کی بجائے ’’ھَلْ‘‘ لگے تو ’’فاء‘‘ پہلے اور ’’ھَلْ‘‘ بعد میں استعمال ہوتا ہے (یعنی فَھَلْ. . . ) مطلب دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے۔

(۲) ’’تُؤْمِنُوْنِ بِ. . . .‘‘ (جو ’’ا م ن‘‘ سے بابِ افعال آمن یُؤمِنُ = ایمان لانا) کا صیغۂ مضارع جمع مذکر حاضر ہے) کے مادہ، باب، معنی اور اس کے ساتھ ’’باء (بِ)‘‘ کے صلہ کے استعمال وغیرہ کی مفصل بحث البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۱)]میں گزر چکی ہے۔ یعنی ’’تم ایمان رکھتے ہو. . . .پر‘‘ .

(۳) ’’ بَعْضِ الْکِتٰبِ ‘‘ (کتاب کا بعض یعنی کچھ حصہ). ویسے تو ’’بعض ‘‘اردو میں بھی مستعمل ہے۔ تاہم اس کی مزید لغوی تشریح کے لیے چاہیں تو [۱:۱۹:۲ (۳)] اور [۱:۲۶:۲ (۱۸)] پر نظر ڈال لیجئے۔ اسی طرح ’’الکتاب‘‘ (جس سے مراد یہاں آسمانی کتاب ہے) کی مکمل لغوی تشریح[۱:۱: (۲)]میں گزر چکی ہے۔

(۴) ’’وَتکفرُون بِ. . . . ‘‘ (جو ’’ ک ف ر‘‘ مادہ سے باب نصر کا صیغۂ مضارع ہے) کے معنی اور اس کے ساتھ ’’باء (ب)‘‘ کے بطور صلہ استعمال کی بابت چاہیں تو[۱:۵:۲ (۱)] اور [۱:۱۴:۲ (۱۴) ]میں دیکھ لیجئے۔ یہاں یہ ’’تم انکار کرتے ہو یا کفر کرتے ہو. . . .سے ‘‘کے معنی میں آیا ہے۔

)۵) ’’بعضٍ‘‘ کا ترجمہ تو مشکل نہیں البتہ اس کے یہاں ’’نکرہ‘‘ آنے کی وجہ پر ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی۔

·       یوں اس عبارت (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’کیا پھر تم ایمان لاتے/ رکھتے ہو کتاب  کے بعض (یعنی کچھ حصہ) پر اور/ حالانکہ انکار کرتے/ کفر کرتے ہو تم کسی بعض (حصہ) کا‘‘۔ بامحاورہ ترجمہ کے لیے ’’بعض‘‘ کا ترجمہ’’ ایک حصہ، بعض احکام، بعض بات، کچھ حکموں‘‘ سے کیا گیا ہے جس میں ’’احکام، حکموں یا باتیں ‘‘تفسیری اضافے ہیں مثلاً ’’کتاب کے بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض پر ایمان نہیں رکھتے‘‘ کیونکہ ’’کفرَ یکفُر = انکار کرنا‘‘ کا ہی ترجمہ ’’نہ ماننا‘‘۔ ’’ایمان نہ رکھنا‘‘ سے بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح بعض احکام/ ایک حصے کو مانتے ہو اور بعض احکام/ ایک حصے کا انکار کرتے ہو‘‘۔ اسی طرح ’’کچھ مانتے ہو اور کچھ نہیں مانتے‘‘ یا  ’’کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے‘‘ کی صورت میں بھی یہی مفہوم نسبتاً کم الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

۱:۵۲:۲ (۷)     [فَمَا جَزَاءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا] اس عبارت میں لغوی لحاظ سے نیا تشریح طلب لفظ’’خِزْیٌ‘‘ ہے۔  باقی الفاظ کی لغوی تشریح براہ راست یا بالواسطہ اس سے پہلے گزر چکی ہے مثلا (۱) ’’فَمَا‘‘ کی ’’فا‘‘ کا مطلب یہاں ’’تو پھر‘‘ ہے اس ’’فَ‘‘ کے معنی کے لیے دیکھئے [۱:۱۶:۲ (۱۰)]۔  ’’مَا‘‘یہاں استفہامیہ (بمعنی کیا؟) بھی ہوسکتا ہے اور نافیہ (بمعنی ’’نہیں‘‘ ہے) بھی ۔’’ مَا ‘‘کے مختلف استعمالات کے لیے چاہیں تو [۱:۲:۲ (۵)]کے علاوہ [۱:۱۹:۲ (۲)] اور  [۱:۴۷:۲ (۵)]بھی دیکھ لیجئے۔

(۲) ’’جزائٌ‘‘ (جو یہاں بوجہ اضافت خفیف ہے) کا مادہ ’’ج   ز ی‘‘ اور وزن ’’فَعَالٌ‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’جَزایٌ‘‘ تھا پھر الف ممدودہ کے بعد والی ’’ی‘‘ (اور ’’و‘‘ بھی) ہمزہ (ء) میں بدل کر لکھی بولی جاتی ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (جزَی یجزِی= بدل دینا) کے باب و معنی اور صلہ کے اور بغیر صلہ کے استعمال پر البقرہ:۴۸ [۱:۳۱:۲ (۲)]میں بات ہوئی تھی۔ لفظ ’’جَزَائٌ‘‘ اس فعل کا مصدر بھی ہے اور بطور اسم’’جزا، سزا، بدلہ ‘‘کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

(۳) ’’مَنْ‘‘ یہاں موصولہ (بمعنی ’’جو کوئی کہ، جو کوئی‘‘ہے ’’مَنْ‘‘ کے مختلف استعمالات پر البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۴)]میں بات ہوئی تھی۔

(۴) ’’یَفْعَلُ‘‘ (جو فَعل یفعَل = ’’کرنا ‘‘سے فعل مضارع کا پہلا صیغہ ہے )اس کے معنی وغیرہ البقرہ:۲۴ [۱:۱۷:۲ (۱۱)]میں بیان ہوئے تھے۔

(۵) ’’ذٰلِکَ‘‘ (بمعنی ’’وہ‘‘) کی وضاحت کے لیے [۱:۱:۲ (۱)] پر نظر ڈال لیجئے۔

(۶) ’’مِنْکُمْ‘‘  جار مجرور (بمعنی ’’تم میں سے‘‘) ہے۔ حرف الجر ’’مِنْ‘‘ کے استعمالات و معانی بحث استعاذہ میں اور پھر البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۵)] میں دیکھ لیجئے۔

(۷) ’’اِلَّا‘‘ حرف استثناء (بمعنی مگر ، سوا بجز) کی وضاحت[۱:۸:۲ (۳)] میں گزر چکی ہے۔

(۸) [خِزْیٌ] (جو یہاں پہلی دفعہ آیا ہے) کا مادہ ’’خ ز ی‘‘ اور وزن ’’فِعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’خَزِیَ یَخْزَی خِزْیًا ‘‘(سمع سے) کے معنی ہیں: ’’رسوا ہونا۔ ذلیل ہوجانا‘‘ اور اسی باب سے مگر ’’خَزَایۃً‘‘ مصدر کے ساتھ اس فعل کے معنی ’’شرمانا، شرمندگی محسوس کرنا‘‘ ہوتے ہیں۔ بعض کتب لغت (مثلا لسان العرب اور المعجم الوسیط) میں اسے ’’خ ز و‘‘ سے لیا گیا ہے۔ گویا یہ ایسا ہے جیسے ’’رضو‘‘ مادہ سے باب سمع میں ’’رضِیَ‘‘ ہوجاتا ہے جب کہ بعض (مثلاً القاموس المحیط اور البستان) میں ’’خ ز و‘‘ الگ مادہ (اور اس سے فعل خزَا یخزُو (نصر کے معنی ’’مطیع کرنا ‘‘ ہیں) شمار کیا ہے اور ’’خ  ز ی‘‘ الگ مادہ قرار دیا ہے جو باب سمع سے مندرجہ بالا دو معانی (رسوا ہونا/ شرمانا) کے لیے آتا ہے۔ قرآن مجید میں اس فعل مجرد (خزِیَ یَخْزی) سے صرف ایک جگہ (طہ:۱۳۴) ایک صیغۂ مضارع (نَخْزیَ) آیا ہے اور ’’رسوا ہونا‘‘ والے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بابِ افعال سے مختلف صیغے ۱۲ جگہ اور خود زیر مطالعہ لفظ (خِزی) ۱۱ جگہ اور اس سے افعل التفضیل (أَخزٰی اور باب افعال کا اسم الفاعل (مخزی) بھی ایک ایک جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’خِزْیٌ‘‘ فعل مجرد کا مصدر ہے اور بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے متعدد معانی ہیں مثلاً رسوائی، ذلت، ندامت، بے عزتی، آفت زدگی‘‘ اس کے علاوہ بعض دفعہ یہ ’’بربادی‘‘ اور’’ سزا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ زیادہ تر ’’رسوائی‘‘ اور ’’ذلت‘‘ والے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔

(۹) ’’ فِیْ  ‘‘ (جس کا عام ترجمہ ’’میں‘‘ ہے) کے بطور حرف الجرو بطورِ صلہ  استعمال پر [۱:۱:۲ (۵)]اور پھر [۱:۱۴:۲ (۴)]میں بات ہوئی تھی۔

(۱۰) ’’الحیوۃ‘‘ کا مادہ ’’ح ی ی‘‘ اور وزن اصلی (لام تعریف کے بغیر) ’’فَعَلَۃٌ ‘‘اصلی شکل ’’حَیَیَۃٌ‘‘ تھی جس میں (دوسری) یائے  متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لفظ ’’حیاۃٌ‘‘بنتا ہے تاہم یہ لفظ قرآن کریم میں ’’حَیٰوۃ‘‘ لکھ جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ ’’و‘‘ تفخیم کے لیے (’’ی ‘‘کو پر کرکے پڑھنے کے لیے) لکھی جاتی ہے اور یہ اہل یمن کے طریق تلفظ اور طریق کتابت کے مطابق ہے۔ البتہ قرآن کریم میں جب یہ لفظ مضاف ہوکر آئے تو الف سے ہی لکھا جاتا ہے جیسے ’’حیاتی‘‘ میں اس لفظ (حیوۃ) کا اردو ترجمہ ’’زندگی‘‘ سے ہی کیا جاتا ہے۔ اس مادہ (ح ی ی) سے فعل مجرد کی بحث البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۱) ]کلمہ ’’یستحیی‘‘ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔

(۱۱) ’’الدنیا‘‘ کا مادہ ’’د ن و‘‘ اور وزن (لام تعریف کے بغیر)  ’’فعلٰی‘‘ ہے گویا یہ دراصل ’’دنوٰی‘‘ تھا جس میں خلاف قیاس ایک تو ’’و‘‘ کو ’’ی‘‘ میں بدل دیا جاتا ہے اور پھر آخری ’’یا‘‘ کو (جو الف مقصورہ ہی تھی) لکھا بھی ’’الف‘‘ کی شکل میں جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کی دوصورتوں باب نصر سے ’’دنا یَدْنُوْ‘‘= (قریب ہونا) اور باب سمع سے  ’’دنِیَ  یَدْنٰی‘‘ (گھٹیا ہونا) پر اس سے پہلے البقرہ:۶۱ [۱:۳۹:۲ (۱۰)]میں کلمہ’’ادنیٰ‘‘  کے سلسلے میں بات ہوئی تھی۔

·       کلمہ ’’دنیا‘‘ اسی’’اَدْنٰی‘‘ کا صیغہ مؤنث (افعل التفضیل) ہے جسے اگر فعل ’’دنا یدنُو‘‘ سے لیں تو اس کا مطلب ’’نزدیک ترین‘‘ بنتا ہے اور اگر اسے ’’دَنِیَ یَدْنٰی‘‘ سے لیں تو اس کا مطلب ’’سب سے گھٹیا/ کمترین‘‘ بنتا ہے۔ اور اس صورت میں اس (دنیا) کی اصلی شکل بھی ’’دُنْیٰی‘‘ (بروزن فُعْلٰی) ہوگی کیونکہ لام کلمہ (و) فعل مجرد میں ہی ’’ی‘‘ میں بدل گئی تھی (’’دَنِوَ ہی  دَنِیَ  بن گیا تھا) اور یوں ’’دُنْیٰ‘‘ کی صرف املاء ہی ’’دُنیا‘‘ ہوجاتی ہے۔

دونوں صورتوں میں لفظ ’’الدنیا‘‘ سابقہ لفظ ’’الحیوۃ‘‘ (زندگی) کی صفت ہے یعنی ’’نزدیک ترین زندگی‘‘ (بمقابلہ ’’آخرۃ‘‘ یعنی سب سے آخر پر آنے والی زندگی ) یا ’’کم ترین یا گھٹیا زندگی‘‘ (آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں گھٹیا نعمتوں والی)۔ تاہم اردو میں اس کا لفظی ترجمہ نہیں کیا جاتا صرف ’’دنیوی زندگی ‘‘ ہی کہتے ہیں بلکہ اردو محاورے کی بناء پر اس کا ترجمہ مرکب توصیفی کی بجائے (جیسا کہ وہ اصل عربی میں ہے) مرکب اضافی کی شکل میں یعنی ’’دنیا کی زندگی‘‘ سے ہی کردیا جاتا ہے۔

·       اس طرح مندرجہ بالا مفردات کے الگ الگ معانی و تراجم بیان ہوچکنے کے بعد اور ان کی روشنی میں زیر مطالعہ پوری عبارت (فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’پس کیا ہے (یا نہیں ہے) بدلہ اس کا جو کرے وہ تم میں سے مگر رسوائی (ہی) دنیوی (یا دنیا کی) زندگی میں (بھی) مطلب اور مفہوم یہی ہے کہ ایسے لوگوں کی سزا دنیا میں بھی ذلت ہی ہے۔ بیشتر مترجمین نے ابتدائی ’’فما‘‘ کا ترجمہ استفہام کے ساتھ (کیا سزا، کیا بدلہ) کیا ہے بعض نے ’’مانا فیہ‘‘ کے ساتھ (کوئی سزا نہیں کچھ سزا نہیں) ترجمہ کیا ہے تاہم ’’اِلَّا‘‘ (مگر سوائے اس کے کہ) کے آنے سے دونوں کا مفہوم ایک ہی بنتا ہے یعنی ’’صرف یہی سزا ہے کہ‘‘۔ اسی طرح بعض نے ’’خِزْیٌ‘‘ کا ترجمہ ’’رسوائی‘‘ کی بجائے ’’ کہ رسوا ہو‘‘ سے کیا ہے جو اصل لفظ سے تجاوز ہے گو مفہوم درست ہے۔ اسی طرح ’’یفعل ذٰلک’. . . . . ‘‘ (. . . . .کرے وہ)  کا وضاحتی ترجمہ ’’ایسا کرے، ایسی حرکت کرے، یہ کام کرے‘‘ سے کیا گیا ہے جو محاورے کا تقاضا تھا۔ اور بعض نے ’’الحیٰوۃ الدنیا‘‘  کا ترجمہ صرف ’’دنیا‘‘ ہی کیا ہے اسے بھی محاورہ و مفہوم کی بنا پر ہی درست کہا جاسکتا ہے۔

۱:۵۲:۲ (۸)     [و یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلیٰ اَشَدِّ الْعَذَابِ] اس عبارت میں بھی (جو ایک مکمل جملہ ہے) نیا لفظ ’’یُرَدُّوْنَ‘‘ ہے۔ باقی کلمات یا تو اپنی اسی شکل میں پہلے گزر چکے ہیں (مثلاً ’’ وَ ‘‘، ’’ یَوْم‘‘، ’’اِلی‘‘ٰ، ’’اشد ‘‘اور’’العذاب‘‘) یا جس مادہ سے وہ ماخوذ ہیں اس کا ذکر پہلے ہوچکاہے (مثلاً ’’القیامۃ‘‘) یہاں ہم نمبر وار تمام کلمات کا ترجمہ لکھے دیتے ہیں اور مزید لغوی تشریح کے لیے گزشتہ حوالہ دیئے جائیں گے۔ یا جہاں ضروری ہوا مزید وضاحت کرتے جائیں گے مثلاً

(۱) ’’وَ‘‘ یہاں معنی ’’اور ‘‘ہے اور (وَ) کے مزید معانی کے لیے دیکھئے [۱:۴:۱ (۳)]

(۲) ’’یومَ القیامۃِ‘‘ (جو مرکب اضافی ہے) کے پہلے جز (یَوم بمعنی دن) کی لغوی تشریح [۱:۳:۱ (۲)] میں ’’یوم الدین‘‘ کے سلسلے میں گزر چکی ہے۔ دوسرے جز’’القیامۃ‘‘ (جو یہاں برسم املائی لکھا گیا ہے اس کے رسم قرآنی پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی۔ ) کامادہ ’’ ق و م‘‘ اور وزن اصلی ’’فِعَالۃ‘‘ ہے گویا یہ دراصل ’’قِوَامَۃٌ‘‘ تھا جس میں واو مفتوحہ ماقبل مکسور ’’ی‘‘ میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے ۔ یعنی ’’ ــــــِــــ وَ = ــــــِــــ یَ‘‘ اس مادہ سے فعل مجرد (قام یقوم= کھڑا ہونا) کے باب اور معنی وغیرہ پر الفاتحہ:۶ [:۵:۱ (۴)]میں کلمہ’’  مستقیم ‘‘کے ضمن میں بات ہوچکی ہے۔

کلمہ ’’قیامۃ‘‘ بھی ’’قَوْمۃٌ‘‘ اور ’’قیامٌ‘‘ کی طرح فعل’’قَام یقُوم‘‘ کا ایک مصدر ہے جس کا مطلب ہے ’’کھڑا ہوجانا‘‘ (اس کی ضد ’’قَعَد‘‘ (بیٹھ جانا) ہے ) یوں ’’یوم القیامۃ‘‘ کا مطلب ہوا ’’کھڑے/ یا اٹھ کھڑے ہونے کا دن‘‘۔ قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب ’’مرنے کے بعد دوبارہ زندہ (ہو کر کھڑے) ہونے کا دن‘‘ ہے۔ تاہم لفظ’’قیامت‘‘ اردو زبان میں (لمبی ’’ت‘‘ کی املاء کے ساتھ) مستعمل اور متعارف ہے  اس لیے ’’یوم القیامۃ‘‘ کا ترجمہ ’’قیامت کا دن‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ صرف ’’قیامت‘‘ بھی کہہ دیتے ہیں۔ کیونکہ ’’قیامت‘‘ اپنے اصطلاحی معنی کے ساتھ ان الفاظ (مثلاً صلوٰۃ، زکوٰۃ وغیرہ کی طرح) میں سے ہے جو قرآن کریم نے عربی زبان کو دیئے ہیں۔ اور اسی لیے دنیاکی متعدد اسلامی زبانوں (فارسی، ترکی، اُردو، پنجابی، سندھی وغیرہ) میں یہ اپنے اصل اصطلاحی معنی کے ساتھ مستعمل ہے۔

بعض روشن خیال حضرات نے ’’الحیٰوۃ الدنیا‘‘ کا ترجمہ ’’حال کی زندگی‘‘ اور ’’یوم القیامۃ‘‘ کا ترجمہ ’’مستقبل کی زندگی‘‘ کی صورت میں کرکے ایک ابہام پید اکردیا ہے جس میں بظاہر ’’انکارِ قیامت‘‘ کی ’’بُو‘‘ آتی ہے کیونکہ عام فہم قرآنی اصطلاحات سے اجتناب یقیناً کسی ذہنی و فکری خرابی (بلحاظ عقیدہ) کی علامت ہے۔

(۳) [یُرَدُّوْنَ] اس لفظ کا مادہ (جو یہاں پہلی دفعہ آیا ہے)   ’’رد د‘‘ اور وزن ’’یُفْعَلُوْن‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’یُرْدَدُوْنَ‘‘ تھا۔ پھر پہلی ’’د‘‘ کی حرکت فتحہ  (ــــــَــــ)اس کے ماقبل ساکن حرف (ر) کو دے کر پہلی ’’د‘‘ کو دوسری ’’د‘‘ میں مدغم کرکے لکھا بولا جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’رَدَّ. . . .  یَرُدُّ رَدًّا و مَرَ دًّا‘‘ (نصر سے) کے بنیادی معنی ہیں ’’پھیر دینا‘‘ یعنی یہ عربی کے فعل ’’صرَف یَصرِف‘‘ کے ہم معنی ہے۔ تاہم بلحاظ استعمال اس کے معانی زیادہ ہیں چنانچہ یہ حسبِ موقع ’’واپس بھیجنا، واپس کردینا، واپس لانا، واپس لینا‘‘ کے علاوہ ’’ہٹا دینا، ٹال دینا، روکنا، رد کرنا، نامنظور کرنا، دھکیل دینا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے۔ اور بعض دفعہ ’’لوٹا دینا‘‘ بات دہرادینا اور دوبارہ بنا دینا‘‘  کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بلکہ قرآن کریم میں یہ فعل قریباً مندرجہ بالا تمام معانی کے لیے آیا ہے۔

·       راغب نے ’’المفردات‘‘ میں لکھا ہے کہ اس فعل میں جو ’’پھیر دینا یا لوٹا دینا‘‘ کا مفہوم ہے وہ (ردّ) دو طرح کا ہوتا ہے، کسی چیز کو بعینہٖ اسی حالت میں پھیر دینا یا واپس لے آنا، جیسے (فَرَدَدْنٰهُ اِلٰٓى اُمِّهٖ) (القصص:۱۳) میں ہے ’’یعنی ہم نے اس کو (موسیٰ کو) اس کی ماں کی طرف لوٹا دیا‘‘۔ ’’ردّ‘‘ کی دوسرے صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک حالت سے دوسری حالت میں لوٹا دیا (دوبارہ بنادیا) جائے جیسے’’ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ ‘‘ (التین:۵) میں ہے ’’یعنی پھر ہم نے اس (انسان) کو پستیوں کی انتہاء کی طرف لوٹا دیا/ پست ترین بنا دیا‘‘۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے بصورت معروف یا مجہول مختلف صیغے قریباً۳۶ جگہ آئے ہیں۔ اور مزید فیہ کے باب افتعال اور تفعل کے کچھ صیغے ۹ جگہ آئے ہیں اس کے علاوہ اس مادہ سے ماخوذ و مشتق اسماء اور مصادر (مثلاً ردٌّ، مَرَدٌّ ، مردود وغیرہ) بھی ۱۵ مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’یُرَدُّون‘‘ فعل مجرد سے مضارع مجہول صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس کا ترجمہ بنتا ہے ’’وہ سب لوٹائے جائیں گے‘‘ جسے بعض نے اصل بنیادی معنی کے ساتھ ’’پھیرے جاویں گے یا پھیرے جائیں گے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہےجس کو بامحاورہ کرنے کے لے ’’پہنچائے/ پہنچا دیئے جائیں گے‘‘۔ ’’ڈال دیئے جاویں، یا جائیں گے‘‘ اور ’’ڈالے بھی جائیں گے‘‘ کی صورت اختیار کی ہے۔ (یہاں ’’ڈالنا ‘‘بمعنی ’’دھکیل دینا ‘‘استعمال ہوا ہے) بعض نے  ’’لوٹا دیئے جائیں گے‘‘ ہی رہنا دیا ہے۔

(۴) ’’اِلٰی‘‘ (کی طرف، تک) کئی دفعہ گزر چکا ہے۔ مثلاً دیکھئے[۱:۲۶:۲ (۱۰)]۔

(۵) ’’اشدّ‘‘ (سب سے زیادہ سخت، سخت سے سخت، سخت ترین، بڑا ہی سخت) اس کے مادہ ،وزن وغیرہ کی وضاحت البقرہ:۷۴ [۱:۴۶:۲ (۲)]میں ہوچکی ہے۔

(۶) ’’العذاب‘‘ (عذاب اردو میں عام مستعمل ہے) حتیٰ کہ کسی نے اس کا ترجمہ کسی اور لفظ (سزا وغیرہ) سے کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ بہر حال اس کی لغوی تشریح البقرہ:۷ [۱:۶:۲ (۶)]میں دیکھ لیجئے۔

زیر مطالعہ عبارت ’’ و یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلیٰ اَشَدِّ الْعَذَابِ ‘‘ کے تمام کلمات (اسماء، حروف اور افعال) کی مندرجہ بالا وضاحت اور تراجم و معانی کے بیان کے بعد غالباً اب آپ خود اس کا مجموعی ترجمہ کئی طریقوں سے کرسکتے ہیں۔

[وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ] بعینہ یہی جملہ اس سے پہلے البقرہ:۷۴ [۱:۴۶:۲ (۷)]کے ضمن میں گزر چکا ہے۔ جہاں اس کے تمام اجزاء (کلمات) کی لغوی وضاحت ہوئی تھی۔ اس عبارت کا سادہ لفظی ترجمہ ہے ’’اور نہیں ہے اللہ بے خبر اس سے جو کچھ کہ تم کرتے ہو‘‘

[اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُالْحَیٰۃَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَۃِ] یہ بھی ایک مکمل جملہ ہے جس کے تمام کلمات کی لغوی وضاحت پہلے ہوچکی، یہاں ہم ہر ایک کلمہ کے ترجمہ اور لغوی تشریح کے لیے گزشتہ حوالہ دے دیتے ہیں مثلاً

(۱) ’’اُولٰئِکَ‘‘ (وہ سب) کے لیے دیکھئے البقرہ:۵[۱:۴:۲ (۱)]

(۲) ’’الذین‘‘ (وہ سب جو کہ) کے لیے دیکھئے الفاتحہ:۷[۱:۶:۱ (۱)]

(۳) ’’اِشْتَرَوْا‘‘  (انہوں نے خرید لیا) کے مادہ، فعل مجرد اور اس سے بابِ افتعال کے اسی صیغہ کی بناوٹ، اس میں ہونے والی تعلیل اور معانی و تراجم البقرہ:۱۶ [۱:۱۲:۲ (۱)]میں دیکھئے۔

(۴) ’’الحیٰوۃ الدنیا‘‘ پر مفصل لغوی بحث (ہر دو کلمات کی) ابھی اوپر والی آیت میں [۱:۵۲:۲ (۷)]میں کی جاچکی ہے۔

(۵) ’’بالآخرۃ‘‘ (آخرت کے عوض) لفظ  ’’الاخرۃ‘‘ کی مکمل بحث البقرہ:۴ [۱:۳:۲ (۵)]میں گزر چکی ہے البتہ وہاں  ’’بالآخرۃ‘‘ کی ’’باء (ب)‘‘ فعل ’’یوقنون‘‘ کے صلہ کے طور پر (بمعنی ’’پر‘‘) آئی تھی جب کہ زیر مطالعہ لفظ ’’بالآخرۃ‘‘ کی ’’باء (ب)‘‘ فعل ’’اِشترَوْا‘‘ کے ساتھ (بمعنی ’’کے عوض‘‘ آئی ہے۔ مزید دیکھ لیجئے [۱:۱۲:۲]میں اس کا استعمال

·       یوں اس عبارت (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَةِ ۡ) کا لفظی ترجمہ بنا ’’ وہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے خرید لی دنیوی زندگی آخرت کے عوض ’’یعنی اپنی آخرت خراب کرلی دنیا کی زندگی (کے فوائد) کے بدلے ‘‘ یا یوں کہیے کہ ’’اپنی دنیا بناتے رہے اور آخرت برباد کرتے رہے‘‘۔

۲: ۵۲: ۱ (۹) [فَلَا یُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَاب] ابتدائی ’’فَلَا‘‘ (’’فاء‘‘ فصیحۃ اور ’’لَا‘‘ نافیہ (بمعنی ’’پس نہیں/ پھر نہیں‘‘) کو چھوڑ کو اگلے صیغۂ فعل ’’یُخَفَّفُ‘‘ کا مادہ ’’خ ف ف‘‘ اور وزن ’’یُفَعَّلُ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’خفّ یخِفّ خِفَۃً و خَفًّا‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور اسکے بنیادی معنی ’’ہلکا ہونا‘‘ ہیں ۔ اس کی ضد ’’ثقُل‘‘  (وزنی ہونا)  ہے۔ مثلاً کہتے ہیں:

’’خَفَّ المیزانُ‘‘ (ترازو کا کم وزن والا پلڑا اوپر کو اٹھ گیا یعنی (تولی جانے والی چیز کا وزن کم ثابت ہوگیا) پھر یہ فعل ’’تیزی سے چلنا، کم ہونا (بارش کا)، کم عقل ہونا، پھرتیلا ہونا، معمولی ہونا اور (رنگ کا) شوخ نہ ہونا یعنی ہلکا ہونا‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس سے اسمِ صفت ’’خفیف‘‘ (ہلکا) ہے جو بعض صورتوں میں مدح (اچھی بات) ہوتی ہے اور بعض دفعہ مذمت کا پہلو رکھتا ہے۔ جیسا کہ اوپرد یئے گئے فعل کے مختلف معانی سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس فعل کا ایک مصدر ’’خِفَّۃٌ‘‘ (خِفَّت کی املا کے ساتھ) اردو میں ’’ندامت اور بے عزتی ‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس میں بھی بنیادی عربی مفہوم (ہلکا ہونا) موجود ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے ایک ہی صیغہ فعل ’’خَفَّتْ‘‘ (ماضی واحد مونث غائب) تین جگہ آیا ہے۔ اور ’’وزن میں کم ہونا‘‘ والے معنی کے لیے ہی آیا ہے۔ اور مزید فیہ کے باب تفعیل اور استفعال سے افعال سے کچھ صیغے گیارہ جگہ آئے ہیں اس کے علاوہ اس مادہ سے ماخوذ او رمشتق مصدر اور اسم بھی تین جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’یُخَفَّفُ‘‘ اس مادہ سے باب تفعیل کے فعل مضارع مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’خفَّفَ . . . . یُخَفِّفَ تخفیفًا‘‘ کے معنی ’’. . . . کو ہلکا کرنا،. . . . کا بوجھ کم کردینا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور یوں یہ  فعل ’’. . . . .کی شدت میں کمی کرنا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے۔ اس کا مفعول بنفسہ آتا ہے۔ (جو بعض دفعہ غیر مذکور بھی ہوتا ہے) البتہ جس پر سے (بوجھ سزا وغیرہ) کم کی جائے اس پر  ’’عَنْ‘‘ کا صلہ آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس باب سے فعل ماضی معروف کا صرف ایک صیغہ (خفَّف) صرف ایک جگہ (الانفال:۶۶) مفعل غیر مذکور کے ساتھ آیا ہے۔ اور مضارع (معروف و مجہول) کے صیغے آٹھ جگہ آئے ہیں۔ ’’فَلَا یُخفَّف‘‘ کا لفظی ترجمہ ہوا ’’پس ہلکا نہ کیا جائے گا‘‘۔

’’عَنْھُم‘‘ کا ابتدائی ’’عَنْ‘‘ (سے) وہی ہے جس کا اوپر فعل ’’یُخَفَّفُ‘‘ کے ساتھ صلہ کے طور پر استعمال کا ذکر ہوا ہے۔ اس فعل (فلا یخفّفُ) کا لفظی ترجمہ ہوا ’’پس ہلکا نہ کیا جائے گا‘‘

 ’’عَنْھُمْ‘‘ کا ابتدائی  ’’عَنْ‘‘ (سے) وہی ہے جس کا اوپر فعل ’’یُخَفَّفُ‘‘ کے ساتھ صلہ کے طور پر استعمال کا ذکر ہوا ہے۔ اس فعل (فلا یخفّفُ) کے ساتھ استعمال کی بناء پر یہاں ’’عَنْھُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’ان پر سے‘‘ یا صرف ’’ان سے‘‘ ہوگا۔

’’العَذابُ‘‘ لفظ ’’عذاب‘‘ (بمعنی سزا) اردو میں مستعمل ہے تاہم چاہیں تو اس کی لغوی وضاحت کے لیے دیکھ  لیجیے البقرہ:۷[۱:۶:۲ (۶)]

[وَلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ] بعینہٖ یہی جملہ اس سے پہلے البقرہ:۴۸ [۱:۳۱:۲ (۷)]میں گزر چکا ہے ترجمہ ہے ’’اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی‘‘ ان کلمات کی لغوی تشریح اور مختلف تراجم کی بنیاد سمجھنے کے لیے گزشتہ حوالہ دیکھئے۔ 

 

۲:۵۲:۲      الاعراب

زیر مطالعہ قطعہ کو نحوی تجزیہ کے لحاظ سے سترہ (۱۷)چھوٹے چھوٹے جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم بعض جملے ’’و، ف‘‘ یا  ’’ثم‘‘ کے ذریعے سے اپنے سے پہلے جملے کا حصے ہی بنتے ہیں۔ ہم ذیل میں سترہ ہی جملوں کے الگ الگ اعراب بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بتاتے جائیں گے کہ اس کا اپنے سے ماقبل جملے سے کیا تعلق ہے اور یہ کہ تمام جملے کیوں کر ایک ہی مربوط مضمون بناتے ہیں

(۱)    وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ

اسی جملہ پر اس سے پہلے [۲:۴۱:۲ ](الاعراب) میں بات ہوچکی ہے۔

(۲)  لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَاۗءَكُمْ

[لَا] نافیہ اور[تسفکون] مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے [دماء کم]  مرکب اضافی ہے جس میں ’’دمائَ‘‘ فعل (لا تسفکون) کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے جو آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے۔ اس لیے علامتِ نصب آخری ہمزہ (ء) کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے (جو تنوین نصب کی تخفیف ہے)آخر پر ضمیر مجرور ’’کم‘‘ مضاف الیہ ہے اور یوں دراصل تو یہ پورا مرکب اضافی (دماء کم) مفعول بہ ہے ۔ یعنی تم نہیں بہاؤگے اپنے خونوں کو‘‘۔ بامحاورہ تراجم پر حصّہ ’’اللغۃ ‘‘میں بات ہوچکی ہے۔

(۳) وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ

[وَ] عاطف ہے جس کے ذریعے بعد کے فعل (لاتخرجون) کو سابقہ صیغہ فعل (لاتسفکون) پر عطف کیا گیا ہے  [لا تخرجون] فعل مضارع منفی  ’’بِلَا‘‘ صیغہ جمع مذکر حاضر ہے ’’لا‘‘کی (دونوں جملوں میں) تکرار کے باعث ۔ اردو ترجمہ ’’اور نہ ہی‘‘ سے ہوگا  [اَنفُسَکُمْ] مرکب اضافی ہے جس کا پہلا جز (مضاف) ’’اَنْفُسَ‘‘ فعل ’’لاتخرجون‘‘ کا مفعول بہ ہوکر منصوب ہے اور مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف بھی ہوگیا ہے علامت نصب ’’س‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے اور ساتھ ضمیر مجرور ’’کم‘‘ مضاف الیہ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ پورا مرکب اضافی ہے جس کا پہلا جز (مضاف) ’’دیارِ‘‘ مِنْ کی وجہ سے مجرور ہے اور یہ بھی آگے مضاف ہونے کی بناء پر خفیف بھی ہے۔ علامت جر آخری ’’ر‘‘  کی کسرہ (ـــــِــــ) ہے۔ جو تنوین الجر کی تخفیف ہے آخری ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘ مضاف الیہ ہے اس طرح دراصل تو یہ مرکب اضافی (دیارکم) مجرور بالجر (مِنْ) ہے اگرچہ جر کا اثر صرف مضاف میں ہوتا ہے اور یہ پورا مرکب جارّی (جار مجرور) ’’من دیارکم‘‘ متعلق فعل ’’لا تخرجون‘‘ ہے۔

(۴)    ثُمَّ اَقْــرَرْتُمْ

[ثُمَّ] حرف عطف ہے جس میں ترتیب اور تراخی (کچھ وقت کے بعد) کا مفہوم ہے اور گویا یہاں معطوف علیہ محذوف ہے تقدیر عبارت (مفہوم) یوں ہے ’’فَقَبِلْتُمْ ثُمَّ‘‘  . . . (پس تم نے ’’وہ میثاق، قبول کیا پھر. . . ‘‘) [اَقْرَرْتُمْ] فعل ماضی معروف مع الفاعلین ’’انتم‘‘ ہے۔ یعنی ’’پھر اس کے بعد تم نے اس میثاق کوقبول کرنے کا اقرار کیا ۔‘‘

(۵)    وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ 

[وَ] عاطفہ ہے جو بعد والے جملے کو سابقہ جملے سے ملاتی ہے ۔[انتم] ضمیر مرفوع منفصل یہاں مبتدأ ہے اور [تشھدُون] فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں خود ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘  بھی موجود ہے اور یہ جملہ فعلیہ(تشھدون) ’’انتم‘‘ (مبتدأ) کی خبر ہے۔ چونکہ اس سے پہلے ’’اقررتُم‘‘ میں بھی ’’انتم‘‘ تھا (جو تشھدون میں بھی ہے) اس لیے یہاں ’’انتم ‘‘ کا مفہوم ’’تم خود بھی‘‘ بنتا ہے گویا مجموعی مفہوم ان دو فقروں(نمبر۵،۴) کایہ بنتا ہے کہ تم نے (یعنی تمہارے بڑوں نے) اقرار کیا تھا(میثاق قبول کرنے کا) اور خود تم بھی (اس بات کی) گواہی دیتے ہو (کہ ہاں ایسا ہوا تھا)۔ چنانچہ آیت کے بعض تراجم میں اس مفہوم کے لیے بعض کلمات کے (تفسیری) اضافے کے گئے ہیں۔

(۶)     ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ

[ثُمَّ]عاطفہ برائے ترتیب و تراخی ہے یعنی ’’پھر اس کے کچھ عرصہ بعد ہی یہ ہوا کہ‘‘ کا مفہوم دیتا ہے۔ [اَنْتُمْ] مبتدا ہے اور اس کی خبر کے بارے میں نحویوں نے تین چار امکانات بیان کیے ہیں مثلاً (۱) یہ کہ [ھٰٓؤُلَاۗءِ] اس کی خبر ہے (تم یہ لوگ ہو) اور اگلی عبارت [تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ] (جس میں ’’تقتلون‘‘ فعل مضارع صیغہ جمع مذکر حاضر ہے اور ’’انفسکم‘‘ مرکب اضافی اس کا مفعول بہ ہے۔ اسی لیے یہ ’’انفسکم‘‘ منصوب ہے) حال ہوکر محلاً منصوب ہے )یعنی تمہارا حال یہ ہے کہ اپنوں کو قتل کرتے ہو ) (۲) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسم اشارہ ’’ ھٰٓؤُلَاۗءِ ‘‘ یہاں اسم موصول ’’الذین‘‘ کے معنی میں ہو (یعنی تم یہ ہو جو کہ. . . .) اور (۳) یہ بھی ممکن ہے کہ ’’ھولاء‘‘ سے پہلے ایک مضا ف محذوف سمجھا جائے مثلاً ’’انتم مثلُ ھؤلاء‘‘ (تم ان جیسے ہو جو. . . . اور (۴) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ  ’’ اَنْتُمْ ‘‘ کی خبر ’’ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ ‘‘ ہی ہو اور ’’ ھٰٓؤُلَاۗءِ ‘‘  یہاں منادٰی مفرد ہو یعنی ’’ یاھٰٓؤُلَاۗءِ‘‘ اے یہ (ایسے )لوگو ۔ جو تعجب ظاہر کرتا ہے (۵) بعض نے یہاں ’’ ھٰٓؤُلَاۗءِ ‘‘ کو منصوب ’’با ضمار الذمّ‘‘ مانا ہے (اس میں لفظ سے پہلے’’اَذُمُّ‘‘(میں مذمت کرتا ہوں) مقدّر (مفہوم) سمجھا جاتا ہے)۔ اردو میں جن حضرات نے ’’تم وہی ہو/ تم وہی تو ہو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے یہ اردو محاورے کے لحاظ سے ’’ذمّ‘‘ (مذمت) کا پہلو اپنے اندر رکھتا ہے۔ گویا ’’وہی‘‘ کہنے میں مخاطب کے کسی کرتوت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔

(۷)    وَتُخْرِجُوْنَ فَرِيْـقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِيَارِھِمْ

[وَ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے سے بعد کا جملہ (تُخْرِجُوْنَ فَرِيْـقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِيَارِھِمْ) سابقہ جملے (تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ) پر عطف ہے یعنی یہ بھی اسی کی طرح ’’حال‘‘ یا ’’خبر‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ [تُخرجون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ ہے اور [فریقاً] اس (فعل) کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے اسی لیے اس پر تنوین نصب (ـــــًـــــ) آئی ہے [منکم ] جار (من + کم) ایک طرح سے ’’فریقًا‘‘ کی صفت کا  کام دے رہا ہے (’’فریقاً‘‘ نکرہ موصوفہ ہے یعنی ’’ایک ایسا گروہ‘‘ جو ’’منکم‘‘ (تم میں سے ہی) ہے) [من دیارھم] میں ’’من‘‘ حرف الجر ہے  ’’دیار‘‘ مجرور بالجر اور آگے مضاف بھی ہے لہٰذا خفیف بھی ہے اور ضمیر مجرور ’’ھم‘‘ مضاف الیہ ہے۔ اور یہ سارا مرکب جارّی (من دیارھم) متعلق فعل (تخرجون) ہے (یعنی نکالتے ہو ان کے گھروں سے)

(۸)  تَظٰھَرُوْنَ عَلَيْهِمْ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ

[تظاھرون]  فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے [علیھم] جار مجرور (علی + ھم) متعلق فعل ’’تظاھرون‘‘ ہے یا یوں کہیے کہ یہاں ’’علٰی‘‘ تو صلۂ فعل ہے اور ’’ھم‘‘ دراصل مفعول بہ ہے اس طرح ’’علیھم‘‘ کو یہاں محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں۔ [بالاثم] جار (بِ) اور مجرور ’’الاثم‘‘ مل کر (یہ بھی) متعلق فعل  (تظاھرون)ہے اور [وَالْعُدْوَانِ]  کا  ’’العدوان‘‘ بھی ’’وَ‘‘ عاطفہ کے ذریعے ’’الاثم‘‘ پر عطف ہے یعنی ’’ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ‘‘ یہاں ’’بِ‘‘ سببیہ بھی ہو سکتی ہے (یعنی گناہ اور زیادتی کی وجہ سے ایسا کرتے ہو) اور یہ پورا مرکب جاری (بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ) حال کے معنی بھی دیتا ہے (یعنی گناہ اور زیادتی کے مرتکب ہوتے ہوئے ایسا کرتے ہو)۔

(۹)   وَ اِنْ يَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْھُمْ

[وَ]یہاں مستانفہ ہے جو ’’اور یہ بھی توقابل ذکر ہے کا‘‘ مفہوم رکھتی ہے [اِنْ] شرطیہ ہے جس کی وجہ سے [یَأْتُوْکُمْ] کا فعل ’’یاتوا‘‘ مجزوم ہوگیا ہے۔ علامت جزم آخری ’’ن‘‘ (’’یاتون‘‘) کا گرنا ہے اور ضمیر منصوب’’کم‘‘ یہاں فعل(یأتوا) کا مفعول بہ ہے اردو ترجمہ اس کا’’ کو‘‘ سے نہیں کیا جاتا ہے بلکہ ’’پاس‘‘ سے کیا جاتا ہے یعنی ’’ آئیں تمہارے پاس‘‘۔ [اُساری] یہاں فعل ’’یاتُوا‘‘ کی ضمیر فاعلین (ھم) کا حال (لہٰذا) منصوب ہے مگر اسم مقصور ہونے کے باعث اس میں کوئی ظاہری علامتِ نصب نہیں ہے ۔[تُفَادُوْھُمْ] میں آخری ضمیر منصوب (ھم) تو مفعول بہ ہے اور اس سے پہلا صیغۂ فعل ’’تفادوا‘‘ مضارع مجزوم ہے اور یہ جواب شرط میں آنے کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے علامتِ جزم آخر میں’’ن‘‘ کا گرنا ہے (دراصل تو یہ ’’ تُفَادُون‘‘ تھا) یعنی ’’اگر آئیں وہ تمہارے ہاں قیدی ہوکر تو ان کا فدیہ (دے کر چھڑا) دیتے ہو‘‘۔

(۱۰)  وَھُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ اِخْرَاجُهُمْ

[وَ] حالیہ ہے اور [ھو] مبتدا ہے [محرَّمَ] خبر ہے (اسی لیے مرفوع ہے علامتِ رفع تنوین رفع (ـــــٌـــــ) ہے [علیکم] جار مجرور (علی + کم) مل کر متعلق خبر (محرمٌ) ہے۔ یہاں تک ترجمہ بنا ’’حالانکہ وہ حرام (کیا گیا) ہے تم پر ‘‘۔[اِخْرَاجُھُمْ] مرکب اضافی ہے (’’اخراج‘‘ مضاف اور ’’ھم‘‘  مضاف الیہ) اور یہ سابقہ مبتدا (ھو) کا بدل ہے اسی لیے مرفوع ہے علامت رفع ’’ج‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ) کیونکہ یہ لفظ (اِخراجٌ) مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف بھی ہوگیا ہے اور بدل ’’اخراجھم‘‘ اس لیے لایاگیا ہے کہ ’’ھو‘‘ سے مراد ’’تفادِی‘‘ (چھڑا لینا) نہ سمجھ لیا جائے۔ گویا مقدر عبارت یوں بنتی ہے ’’وھو (ای) اخراجھم (ایضاً) محرم علیکم‘‘ اور ترجمہ ہوگا ’’حالانکہ وہ یعنی ان کو نکال دینا (ہی/ بھی/ تو حرام تھا تم پر‘‘ اس کی مختلف بامحاورہ صورتیں حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بیان ہوچکی ہیں۔

)۱۱) اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ

[أفتومنون] کا ابتدائی ’’أ‘‘ استفہامیہ اور ’’فَ‘‘ (فاء) عاطفہ ہے باقی صیغۂ فعل  ’’تومنون‘‘ مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ ہے [ببعض الکتاب] کی ابتدائی ’’بِ‘‘ (باء الجر) وہ صلہ ہے جو فعل ’’ آمن‘‘ کے ساتھ (’’پر ایمان لانا‘‘ کے معنی کے لیے ) لگتا ہے ’’بعضِ‘‘  مجرور بالجر اور آگے مضاف بھی ہے اس لیے اس میں علامت جر ’’ض‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ)رہ گئی ہے (خفیف ہوکر) اور ’’الکتاب‘‘ مضاف الیہ مجرور ہے[و] عاطفہ ہے جس کے ذریعے اگلے فعل [تکفرون] کا (جو مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے) عطف سابقہ فعل (تومنون) پر ہے [ببعضٍ] دراصل یہ ’’ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ ‘‘ ہی تھا مگر تکرار سے بچنے کے لیے مضاف الیہ حذف کردیاگیا تو ’’مضاف‘‘ کو تنوین الجر دے دی گئی (مجرور تو وہ ’’بِ‘‘ کی وجہ سے تھا) ایسی تنوین کو تنوینِ عِوَض کہتے ہیں کیونکہ ’’بعض‘‘ تو لفظ ہی ایسا ہے جو ہمیشہ مضاف ہوکر ہی آتا ہے۔ لہٰذا یہ تنوین گویا مضاف الیہ کی جگہ ہے یعنی اس کے عوض ہے۔

)۱۲) فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا

[فَ] یہاں ’’الفاء الفصیحۃ‘‘ ہے جو کسی شرط کے (بیان ہوئے) بغیر جواب شرط والی ’’فاء رابطہ‘‘ کی طرح کسی سبب کے نتائج بیان کرنے کا ایک ’’فصیحانہ انداز‘‘ ہے (اسے ’’فصیحۃ‘‘ کہنے کی وجہ یہی ہے)۔ [مَا] نافیہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ آگے حصہ کے لیے ’’اِلّا‘‘ آرہا ہے اور اگر ’’مَا‘‘ کو استفہامیہ سمجھا جائے تو بھی گویا استفہام انکاری ہی ہے ۔[جزائُ] مبتدأ (لہٰذا) مرفوع ہے مگر آگے مضاف بھی ہے (یعنی دراصل تو مضاف اور مضاف الیہ مل کر ہی مبتدا بنے گا) اس لیے اس میں بوجہ تخفیف علامتِ رفع ’’ءُ‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ)رہ گیا ہے۔ [مَن] اسم موصول مضاف الیہ ہے اس لیے محلاً مجرور ہے یعنی اس میں علامتِ جر ظاہر نہیں ہے (یعنی’’بدلہ اس کا جو کہ. . . . .‘‘)۔ [یَفْعَل] فعل مضارع صیغہ واحد مذکر غائب ہے اوریہ اسم موصول (مَنْ) کا صلہ ہے (بلکہ یوں کہیے کہ یہاں سے صلہ شروع ہوتا ہے۔ [ذلک] اسم اشارہ برائے بعید مذکر ہے اور یہاں یہ ’’یَفْعَلُ‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے مگر مبنی ہونے کے باعث اس میں علامتِ نصب ظاہر نہیں ہے۔ [منکم]جار مجرور مل کر فعل ’’یَفْعل‘‘ کی ضمیر فاعل (ھو) کی صفت (بیان) یا حال کا کام دے رہا ہے یعنی ’’تم میں سے ہوتے ہوئے‘‘ (یہ کام کرے)۔ گویا مفہوم یہ ہے کہ دعوی ایمان بھی ہے اور کرتوت بھی یہ ہیں۔ اس طرح ’’ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ ‘‘ صلہ موصول مل کر ’’جزاء‘‘ کے ساتھ مضاف الیہ ہوکر مبتدأ بنتا ہے یعنی ’’تم میں سے جو یہ کرے اس کا بدلہ‘‘۔  [اِلّا] حرف استثناء ہے جو یہاں (نفی کے بعد آنے کی وجہ سے) حصر کا  کام دے رہا ہے یعنی ’’مگر صرف‘‘ اور ’’یہی کہ‘‘ کا مفہوم رکھتا ہے۔ [خِزیٌ] یہ دراصل تو ’’جزاء .  . . . ‘‘ کی خبر مرفوع ہے اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’کلام غیر تام منفی‘‘ کے بعد ’’اِلّا‘‘ لگنے سے مستثنیٰ مفرّغ ہوگیا ہے جس کا اعراب ’’حسبِ موقع‘‘ ہوتا ہے یہاں  اگر ’’ما‘‘ نافیہ اور حرف استثناء ’’اِلّا‘‘ ہٹادیں تو عبارت رہ جائے گی ’’جَزائُ فلانٍ (مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ) خزیٌ‘‘ اس طرح خبرہونے کے باعث یہاں مستثنیٰ مفرّغ کا اعراب بھی رفع ہی بنتا ہے۔ [فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا] ’’فی‘‘ حرف الجر ہے اور ’’ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ‘‘ مرکب توصیفی (’’الحیوۃ‘‘ موصوف اور ’’الدنیا‘‘ صفت (مجرور) ہے اور یہ جار مجرور ملکر ’’خزی‘‘ (جو نکرہ موصوفہ بھی ہے) کی صفت کا کام دے رہا ہے یعنی ’’ایسا ’’خِزیٌ‘‘ (رسوائی) جو الحیٰوۃ الدنیا (دنیوی زندگی) میں ہوگا‘‘۔

(۱۳) وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يُرَدُّوْنَ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ

[وَ] یہاں برائے استیناف ہے کیونکہ یہاں بلحاظ معنی پچھلی آخری عبارت (فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا) اور اگلی آنے والی عبارت (یوم القیامۃ) کا باہم عطف نہیں ہوسکتا۔ ’’الحیوۃ الدنیا‘‘ والی بات ختم ہوئی اور آگے ’’یوم القیامہ‘‘ والی بات شروع ہوتی ہے۔ یہ بات پہلے بھی کئی دفعہ بیان ہوئی ہے کہ ’’واو الاستیناف‘‘ کا اردو ترجمہ ’’عموماً (واو عاطفہ کی طرح ’’اور‘‘ سے ہی کیا جاتا ہے مگردراصل اس میں مفہوم ’’اور یہ بھی قابل ذکر ہے‘‘ یا ’’اور یہ بھی ذہن میں رکھیئے ‘‘ کا ہوتا ہے۔

[یوم القیامۃ] مرکب اضافی ہے جس میں مضاف ’’یوم‘‘ ظرف ہونے کے باعث منصوب ہے (اور مضاف ہونے کے باعث ’’خفیف‘‘ بھی ہے) ’’القیامۃ‘‘ مضاف الیہ (’’یوم ‘‘کا) ہے۔ اور مجرور (بالا اضافہ) ہے اور اس ظرف (یوم القیامۃ) کا تعلق اگلے فعل (یُردّون) سے ہے۔ یعنی یہ کام’’یوم القیامۃ‘‘ کو ہوگا ۔ [یُرَدُّون]فعل مضارع مجہول صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں نائب فاعل ’’ھم‘‘ شامل ہے اس کے بعد [اِلیٰ اشد العذاب] مرکب جارّی ہے جس میں ’’الی‘‘ تو حرف الجر ہے ’’اَشدّ‘‘ صیغہ افعل التفضیل ہے جو مجرور بالجرہے مگر آگے مضاف بھی ہے اس لیے غیر منصرف ہونے کے باوجود (افعل برائے تفضیل غیر منصرف وزن ہے) اسے جرّ کی علامت کسرہ (ـــــِــــ) دی گئی ہے اس کے بعد ’’العذاب‘‘ مضاف الیہ (لہٰذا) مجرور ہے جس میں علامتِ جر آخری ’’ب‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ)ہے۔ یہ مرکب جارّی (الی اشد العذاب) بھی متعلق فعل (یردّون) ہے گویا سادہ نثر تو یوں بنتی تھی ’’ویُرَدُّونَ یوم القیامۃ الی اشد العذاب‘‘ ظرف ’’یوم القیامۃ‘‘ پہلے لانے سے نہ صرف عبارت میں ایک ادبی (شعر کی قسم کا) حسن پیدا ہوا ہے بلکہ اس میں ’’قیامت کے دن ہی تو‘‘ کا مفہوم پیدا ہوا ہے۔

(۱۴) وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ

بعینہ یہی جملہ اس سے پہلے البقرہ:۷۴ [۲:۴۶:۲ ]میں گزر چکا ہے۔

(۱۵) اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَةِ ۡ

[اولئک] اسم اشارہ مبتدا (لہٰذا محلاً مرفوع) ہے [الذین] اسم موصول ہے جو اپنے (آگے آنے والے) صلہ کے ساتھ خبر بنے گا لہٰذا یہ یہاں مرفوع ہے (اولئک اور الذین) مبنی معنی ہیں اس لیے ان میں کوئی ظاہری اعرابی علامت نہیں ہوتی)۔ [اشتروا]  فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ [الحیوۃَ الدنیا] مرکب توصیفی (’’الحیوۃ‘‘ موصوف اور ’’ الدنیا‘‘ صفت) ہے اور یہ فعل ’’ اشتروا‘‘ کا مفعول بہ ہے اس لیے ’’الحیوۃ‘‘  منصوب ہے اور ’’الدنیا‘‘ صفت اپنے موصوف کے مطابق نصب میں ہے مگر اسم مقصور ہونے کے باعث اس میں ظاہراً کوئی علامتِ نصب نہیں ہے۔[بالآخرۃ] جار مجرو (بِ + الاخرۃ) مل کر متعلق فعل ’’اشتَروْا‘‘ ہے یا چاہیں تو اسے اس کا مفعول ثانی (جس پر ’’باء‘‘ کا صلہ لگتا ہے) سمجھ لیجئے اس فعل ’’اشتری یشتری‘‘ کے طریق استعمال پر [۱:۱۲:۲ (۱)] میں بات ہوئی تھی)۔

(۱۶) فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ

[فلا] کی ’’فاء‘‘ (ف) یہاں بھی عاطفہ بمعنی ’’فصیحۃ‘‘  ہے (دیکھئے اوپر جملہ نمبر۱۲میں) اور ’’لا‘‘ نافیہ ہے [یُخفّفُ] فعل مضارع مجہول صیغہ واحد مذکر غائب ہے [عنھم] جار مجرور مل کر متعلق فعل (یخفّف)  ہے جو نائب فاعل سے مقدم (پہلے) آیا ہے [العذاب]نائب فاعل ہے اسی لیے مرفوع ہے۔ سادہ نثر میں یہ عبارت ’’فلا یخفف العذابُ عنھم‘‘ ہوتی ہے جار مجرور کی تقدیم سے عبارت میں ادبی حسن بھی آیا ہے۔ اور مفہوم بھی ’’ان پر سے ہی تو‘‘ کا پیدا ہوتا ہے۔

(۱۷) وَلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ

بعینہ یہی جملہ البقرہ:۴۸ [۲:۳۱:۲]میں گزر چکاہے۔ لفظی ترجمہ ہے ’’اور نہ ہی ان کو مدد دی جائے گی‘‘ یعنی’’ کہیں سے مدد بھی نہیں مل سکے گی‘‘ یہ جملہ (نمبر۱۷) واو عاطفہ کے ذریعے دراصل سابقہ جملے (۱۶) کا ہی حصّہ بنتا ہے۔

 

۲: ۵۲: ۳      الرسم

زیر مطالعہ قطعہ آیات (البقرہ:۸۴۔۸۶) میں چھ کلمات کا رسم عثمانی متفق علیہ ہے یعنی ’’تظاھرون، اساری، تفادوھم، الکتاب، الحیاۃ اور القیامۃ‘‘ (یہاں ہم نے فرق سمجھانے کے لیے ان تمام کلمات کو رسم املائی کے مطابق لکھا ہے ان کا رسم عثمانی ابھی بیان ہوگا) اور اس قطعہ میں پانچ کلمات (میثاقکم، دیارکم، العدوان اور بغافل) کا رسم عثمانی مختلف فیہ ہے۔ ان کے علاوہ اس عبارت میں چار کلمات  (ھؤلاء، ذٰلک ،اولئک اور الذین) ایسے ہیں جن کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے یعنی ان کلمات کی املاء رسم عثمانی کے عربی املاء پر اثرات کا ایک مظہر ہے۔ کلمات کے ’’رسم‘‘ کی ا لگ تفصیل یوں ہے(جس میں ان کلمات کی آیات زیر مطالعہ میں ترتیب و وقوع کو ملحوظ رکھا گیا ہے)

(۱) ’’میثاقکم‘‘میں کلمہ ’’میثاق‘‘ کا رسم مختلف فیہ ہے ’’الدانی‘‘ کے مطابق یہ ’’میثاق‘‘ (باثبات الف) ہے جب کہ ابن نجاح (ابوداؤد) کے مطابق یہ ’’میثٰق‘‘(بحذف الف بعد الثاء) ہے۔ بعض مصاحف (برصغیروغیرہ) میں یہ باثبات الف (میثاقکم) لکھا جاتا ہے اور بعض ممالک (مصر وغیرہ) کے مصاحف میں یہ بحذف الف (میثقکم) لکھا جاتا ہے نیز دیکھئے [۳:۱۹:۲]البقرہ:۲۷میں۔

(۲) ’’دیارکم‘‘ کے رسم میں بھی یہی حذف و اثبات الف (بعد الیاء) کا اختلاف ہے  ’’الدانی‘‘ کے مطابق یہ باثبات الف (دیارکم) لکھاجاتا ہے اور ’’ابوداؤد‘‘ کے قول کو ترجیح دینے والے اسے بحذف الف (بعد الیاء) یعنی بصورت ’’دیرکم‘‘ لکھتے ہیں۔ یہ پہلے کئی دفعہ بیان ہوچکا ہے کہ کون سے ممالک میں ’’الدانی‘‘ کے قول کو ترجیح دی جاتی ہے اور کن ممالک میں ’’ابوداؤد‘‘ کے قول پر عمل کیا جاتا ہے۔

(۳) ’’دیارھم‘‘ کا  اختلاف بھی ’’دیارکم‘‘ کی مانند ہے ’’الدانی‘‘ کے مطابق یہ ’’دیار‘‘ (اثبات الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے اور ’’ابوداؤد‘‘ کی طرف منسوب قول کی بناء پر بعض ممالک (مصر وغیرہ) میں اسے ’’دیرھم‘‘ (بحذف الف بعد الیاء )لکھا جاتا ہے۔

(۴) ’’تظاھرون‘‘ (یہ اس کا رسم املائی ہے) کے بارے میں تمام علمائے رسم کا اتفاق ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں اسی ایک جگہ آیا ہے۔ البتہ اسی (باب تفاعل کے فعل) سے بتثنیۂ ماضی کا صیغہ ’’تظاھرا‘‘ بھی دو جگہ آیا ہے۔ الدانی اور ابوداؤد دونوں کے نزدیک تینوں جگہ یہ لفظ بحذف الف بعد الظاء لکھا جائے گا یعنی بصورت ’’تظھرون‘‘ اور ’’تظھرا‘‘ چنانچہ تمام ممالک کے مصاحف میں یہ لفظ ’’بحذف الف بعد الظاء‘‘ ہی لکھے جاتے ہیں اور اگر کہیں ان کو رسم املائی کی طرح باثبات الف لکھا جاتا ہے (مثلاً ایران یا ترکی میں) تو یہ رسم عثمانی کی خلاف ورزی ہے۔

(۵) ’’العدوان‘‘ کا املاء قرآنی بھی مختلف فیہ ہے۔ یہ لفظ معرفہ نکرہ مختلف شکلوں میں قرآن کریم کے اندر آٹھ جگہ آیا ہے۔ الدانی کے مطابق یہ ہر جگہ باثبات الالف بعد الواو (یعنی رسم املائی کی طرح) لکھا جاتا ہے جب کہ ابوداؤد سے اس کا بحذف الالف بعد الواو یعنی بصورت ’’العدون‘‘  لکھا جانا منقول ہے۔ برصغیر اور لیبیا کے مصاحف میں یہ باثبات الف ’’العدوان‘‘ لکھا جاتا ہے مگر مصر وغیرہ میں بحذف الف ’’العدون‘‘ لکھاجاتا ہے۔

(۶)  ’’اُساری‘‘  یہ لفظ بالاتفاق قرآن کریم میں بحذف الالف بعد السین یعنی بصورت ’’اسری‘‘لکھا جاتا ہے۔ بلکہ اس صورت (اسری) کے ساتھ یہ لفظ قرآن کریم میں کل تین جگہ وارد ہوا ہے ان میں سے دو جگہ تو یہ پڑھا بھی ’’اَسرٰی‘‘ ہی جاتا ہے البتہ زیر مطالعہ آیت میں یہ (قراءت حفص کے مطابق) ’’اُسٰرٰی‘‘ (یعنی رسم ملائی کے ’’اُسارٰی‘‘ کی طرح) پڑھا جاتا ہے اور اس میں محذوف الف کو ضبط کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے۔

(۷) ’’تفادوھم‘‘ اس کا ابتدائی صیغہ (جو باب مفاعلہ سے فعل مضارع مجزوم کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس کی جزم کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوچکی ہے)۔ قرآن کریم میں صرف اسی ایک جگہ آیا ہے اور مصحف شریف میں اسے بحذف الالف بعد الفاء یعنی بصورت ’’تفدوھم‘‘ لکھنے پر تمام علمائے رسم کا اتفاق  ہے۔

(۸) ’’الکتاب‘‘ یہ لفظ بحذف الف بعد التاء یعنی بصورت ’’الکتب‘‘  لکھنے پر بھی سب ائمۂ رسم کا اتفاق ہے۔ قرآن کریم میں باقی مقامات پر (کیونکہ یہ لفظ قرآن کریم میں بکثرت آیاہے) اس کے رسم عثمانی کے بارے میں البقرہ:۲  کے ضمن میں [۲: ۱: ۳]میں تفصیل سے بات ہوئی تھی۔

(۹) ’’الحیاۃ‘‘ یہ لفظ اس طرح بصورت معرف باللام جہاں جہاں بھی قرآن کریم میں آیا ہے اسے بصورت’’الحیوۃ‘‘ لکھنے پر اتفاق ہے یعنی اس میں ’’ی‘‘ کے بعد والا ’’الف ‘‘بصورت ’’واو‘‘ لکھا جاتا ہے۔ البتہ اضافت کی صوت میں ’’الف‘‘ ہی لکھا جاتا ہے جیسے ’’حیاتی‘‘ اور ’’حیاتکم‘‘ وغیرہ میں ہے۔

(۱۰) ’’القیامۃ‘‘یہ لفظ جو اسی ترکیب (یوم القیامۃ) کے ساتھ قرآن کریم میں ستر دفعہ آیا ہے۔ اس کے متعلق تمام ائمۂ رسم کا اتفاق ہے کہ یہ ہر جگہ ’’بحذف الالف بعد الیاء‘‘ یعنی ہمیشہ بصورت ’’القیمۃ‘‘ لکھا جائے گا۔ یعنی اسے رسم املائی کی طرح باثبات الف لکھنا رسم عثمانی کی خلاف ورزی ہے۔

(۱۱) ’’بغافل‘‘ یہ لفظ اس طرح (اسم الفاعل ’’غافل‘‘ بصیغۂ واحد مذکر) قرآن کریم میں کل دس جگہ آیا ہے اور اس کے رسم عثمانی میں اختلاف ہے ’’الدانی‘‘ کے مطابق اسے باثبات الالف بعد العین لکھا جاتا ہے۔ مگر ابو داؤد سے منسوب قول کی بنا پر اسے بحذف الالف بعد العین یعنی بصورت ’’غفل‘‘ (یعنی ’’بغفل‘‘) لکھا جاتا ہے۔ البتہ اس سے جمع مذکر سالم (غافلون غافلین) اور جمع مونث سالم (غافلات) بااتفاق بحذف الف بعد العین لکھے جاتے ہیں (غفلون، غفلین یا غفلت کی طرح) اس قسم کے الفاظ پر مزید بحث اپنے موقع پر آئے گی۔

 

۲: ۵۲: ۴      الضبط

        زیر مطالعہ آیات کے کلمات کے ضبط میں اختلاف کا تعلق زیادہ تر محذوف الف کو ظاہر کرنے کے طریقے (جس کی ایک خاص صورت  بھی آگئی ہے۔ جسے لیبیا کے مصاحف میں ہمارے ہاں کی کھڑی زبر ’’ ـــــٰــــ ‘‘کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) اور واو ساکنہ ماقبل مضموم کے ضبط سے ہے۔ اگرچہ نون مخفاۃ کا فرق اور بعض زائد حروف پر علامتِ ضبط ڈالنے یا نہ ڈالنے کی صورتیں بھی موجود ہیں۔ بہر حال مندرجہ ذیل نمونوں سے اس اختلاف کوسمجھا جاسکتا ہے۔