سورۃ البقرہ آیت نمبر  ۸۷

۵۳:۲       وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ ۡ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۭ اَفَكُلَّمَا جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ ۚفَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ ۡوَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ  (۸۷)

۱:۵۳:۲      اللغۃ

[وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ] اس جملے کے تمام کلمات پہلے زیر بحث آچکے ہیں بلکہ پورا جملہ ’’ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ ‘‘ اس سے پہلے البقرہ: ۵۳ [۱:۳۳:۲] میں گزر چکا ہے البتہ وہاں اس سے پہلے ’’وَاِذْ‘‘ (اور جب) تھا، جب کہ یہاں شروع میں ’’وَلَقَدْ‘‘(اور بے شک/ البتہ/ تحقیق) ہے۔ یہاں ہم ان کلمات کا ترجمہ اور ساتھ تشریح کے لیے گزشتہ حوالہ لکھنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔

(۱)  ’’وَ‘‘(اور) متعدد دفعہ گزرا ہے پہلی دفعہ اس پر بات الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱ (۳)] میں ہوئی تھی۔ نیز دیکھیے، البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۱)] بھی۔

(۲) ’’لَقَدْ‘‘ جو در اصل لام تاکید (لَ) اور حرفِ تحقیق (قَدْ) کا مجموعہ ہے ۔ اس کے لام تاکید کی وضاحت البقرہ:۶۴ [۱:۴۱:۲ (۶)]میں اور ’’قَدْ‘‘کے استعمال اور معنی کی وضاحت البقرہ:۶۰ [۱:۳۸:۲ (۸)] میں دیکھئے۔

(۳) ’’آتَیْنَا‘‘ جس کا مادہ ’’ا ت ی‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلْنَا‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد پر ۱:۱۷:۲ (۴) میں بات ہوئی تھی اور اس سے بابِ افعال کے فعل آتیٰ یُؤتِی اِیتَاءً (دینا)[جس سے یہ ’’آتینا‘‘ فعل ماضی صیغہ متکلم ہے۔ یعنی ’’ہم نے دیا‘‘]پر مفصل بات البقرہ:۴۳ [۱:۲۹:۲ (۵)] میں کلمہ ’’آتُوا‘‘کے ضمن میں ہوئی تھی۔

(۴) ’’موسٰی ‘‘ جو ایک جلیل القدر پیغمبر کا نام ہے چاہیں تو اس کی لغوی تشریح اور اس کی اصل کے بارے میں البقرہ:۵۱ [۱:۳۳:۲ (۲)] دیکھ لیجئے۔

(۵) ’’الکتب‘‘ (جو ’’ ک ت ب‘‘ مادہ سے بروزن ’’فِعَال‘‘ ہے) کی پوری لغوی تشریح پہلی دفعہ البقرہ: ۲ [۱:۱:۲ (۲)] میں ہوئی تھی۔

·       اس طرح زیر مطالعہ جملہ ’’ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوْسَی الْکِتابَ ‘‘ (اس کے کلمات کے رسم و ضبط پر آگے بات ہوگی۔ یہاں فرق سمجھانے کے لیے اسے عام املائی رسم و ضبط کے ساتھ لکھا گیا ہے) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور بے شک ہم نے دی موسٰیؑ کو کتاب‘‘۔ جس کے ’’لقَدْ‘‘ کا ترجمہ بعض نے حرف تاکید (البتہ) سے کیا ہے اور بعض نے اردو محاورے کی خاطر اس کا ترجمہ نظر انداز کردیا ہے۔ اسی طرح ’’آتینا‘‘ کا ترجمہ احتراماً  ’’ہم نے عطا کی/عنایت کی/ فرمائی‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے اور بعض نے لفظ ’’ کتاب‘‘ کے ساتھ (توریت) کا تفسیری اضافہ کردیا ہے۔

۱:۵۳:۲ (۱)      [وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ] اس عبارت میں نئے (پہلی دفعہ آنے والے) لفظ ’’قَفَّیْنَا‘‘ اور ’’الرسل‘‘ ہیں۔

[نوٹ: آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ شروع میں ہم ہر ایک لفظ (حرف ہو یا اسم یا فعل) کی الگ الگ (ایک ایک کی) تشریح (لغوی) کرتے تھے۔ اگرچہ اس میں بھی مرکبات (مثلاً جاری یا اضافی) کو اکٹھا ہی بیان کرنا پڑتا تھا۔ پھر جب کلمات کی تکرار ہونے لگی یعنی دوبارہ وہی لفظ یا اس مادہ سے ماخوذ لفظ آنے لگے تو ہم ان کے ساتھ اضافی حوالہ کے ارقام (نمبر) نہیں دیتے، کیونکہ اس طرح حوالے کے ارقام بہت زیادہ ہوسکتے تھے۔ مزید برآں چونکہ ایک مقرر عبارت (مکمل جملہ) کے بعد اس کا مجموعی ترجمہ بلکہ اس کے مختلف تراجم کا تقابلی مطالعہ بھی کیا جاتا ہے، اس کے لیے کئی ارقام پر مشتمل عبارت کو اکٹھا ہی زیر بحث لانا پڑتا ہے۔ اس بناء پر اب مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایک لفظ کی بجائے (کم از کم نحوی ترکیب کے لحاظ سے ) ایک مستقل جملہ کو ہی زیر بحث لایا جائے۔ مثلاً زیر مطالعہ عبارت میں ابتداء میں اختیار کردہ طریقے کے مطابق ’’قفّینا‘‘ کی لغوی تشریح الگ اور ’’الرسل‘‘ کی الگ ہونی چاہیے اور اب بھی تشریح تو الگ الگ ہی ہوگی مگر مجموعی طور پر ایک جملہ ہونے کے لحاظ سے اسے عنوان یا حوالہ کا نمبر ایک ہی دیا گیا ہے۔ آئندہ جہاں ’’قفینا‘‘ (یا اس کے مادہ سے ماخوذ کوئی اور لفظ) آئے گا یا ’’الرسل‘‘( یا اس کے مادہ سے کوئی اور لفظ) آئے گا تو دونوں کے لیے ہم یہی حوالہ [۱:۵۳:۲ (۱)] لکھ دیا کریں گے اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آگے چل کر ہم بحث ’’الاعراب‘‘ میں بھی ان جملوں کو اسی تجزیہ کے ساتھ (حصے بنا بنا کر) بیان کریں گے۔ لہٰذا امید ہے کہ پڑھنے والے کو ایک ہی جملہ کے کلمات کی لغوی تشریح اور پھر اس کی نحوی ترکیب کے بالمقابل مطالعہ میں آسانی ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اب ہم پہلے تو اس زیر مطالعہ عبارت کے کلمات کی الگ الگ وضاحت کریں گے اور آخر میں اس کے مجموعی ترجمہ یا تراجم کو زیر بحث لایا جائے گا۔

(۱) ’’وَ‘‘ (عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘) ہے جس سے اس عبارت کے فعل ’’قفّینا‘‘ کو سابقہ جملے کے فعل ’’آتینا‘‘ پر عطف کیا گیا ہے (یعنی ہم نے دونوں کام کیے)

(۲) ’’قَفَّیْنَا‘‘ کا مادہ ’’ق ف و‘‘ اور وزن ’’فَعَّلْنَا‘‘ ہے۔ اس طرح بظاہر اسے ’’قَفَّوْنَا‘‘ ہونا چاہیے۔ مگر عربوں کا قاعدۂِ نطق (جسے ہم علم الصرف کا قاعدہ بھی کہہ سکتے ہیں) یہ ہے کہ تمام واوی اللام (ناقص واوی) اَفعال کو مزید فیہ افعال میں ان کی ’’و‘‘ کو ’’ی‘‘ میں بدل کر بولتے ہیں۔ اس (قفّینا)کی بھی یہی صورت ہے، جیسا کہ ہم ابھی وضاحت کریں گے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’قفا. . . . . یَقفُوا قَفْوًا‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’. . . . . کی گُدّی (گردن کے پچھلے حصّے) کو نشانہ بنانا‘‘۔ (عربی میں گُدّی کو ’’قَفا‘‘ (مثل ’’عَصا‘‘) کہتے ہیں اور واوی اللام ہونے کی وجہ سے اس کا تثنیہ’’قفَوَان‘‘ آتا ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ’’قفا‘‘ نہیں آیا)۔ پھر اس سے اس فعل میں ’’کسی کے پیچھے پیچھے چلنا، پیچھے لگنا یا لگ جانا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں۔ ’’قفَوتُ الشیئَ و قفَوْتُ فلاناً و قفَوْتُ أثرَہ‘‘ (میں اس چیز یا فلاں آدمی یا اس کے نقش پا (کھروں) کے پیچھے چلا/ لگ گیا) شعر کا ’’قافیہ‘‘ اسی فعل سے اسم الفاعلہ ہے یعنی پیچھے آنے والا ’’کلمہ‘‘۔ اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں صرف ایک صیغہ فعل (نھی) ایک ہی جگہ (الاسراء:۳۶) آیا ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’قَفَّیْنَا‘‘ اس مادہ (قفو) سے باب تفعیل کا فعل ماضی معروف صیغہ جمع متکلم ہے۔ اس باب سے فعل ’’قَفّٰی. . . . . یُقَفِّیْ تَقْفِیَۃً‘‘ کے معنی ہیں: ’’. . . . . .کو پیچھے پیچھے لانا۔ لگانا‘‘۔اس کا مفعول بنفسہٖ بھی آتا ہے اور ’’باء (ب)‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’قَفَّی فلاناً وَ بفلان= وہ فلاں کو پیچھے پیچھے لایا‘‘۔ (یہ فعل بعض اور معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’قفَّی الشعرَ‘‘ یعنی ’’اس نے شعر کا قافیہ بنایا‘‘۔ اور ’’قَفَّی علی الشیئ‘‘ یعنی ’’وہ اس چیز کو لے گیا وغیرہ‘‘۔ تاہم ان معنی کے لیے یہ فعل قرآن میں نہیں آیا۔  قرآن کریم میں اس فعل سے صرف یہی صیغۂ فعل (قفَّیْنا) چار جگہ وارد ہوا ہے اور ہر جگہ ’’باء (ب)‘‘کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ ’’پیچھے پیچھے لانا/لگانا‘‘ والے معنی کے لیے ہی آیا ہے۔ البتہ چونکہ ہر جگہ کسی ’’پیغمبر یا پیغمبروں‘‘ کو پیچھے لانے کا ذکر ہے اس لیے اکثر مترجمین نے ’’لائے‘‘ یا ’’لے آئے‘‘ کی بجائے ’’بھیجے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو اردو محاورے کے لحاظ سے درست ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ ’’اَرْسَلْنَا‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے مگر مفہوم وہی ہے۔ پھر چونکہ ’’قفَّی یُقَفِّی‘‘میں بنیادی معنی کسی کے نقشِ پاء پر پیچھے پیچھے بھیجنے کا ہے اور یہاں زیر مطالعہ آیت میں (جیسا کہ آگے آرہا ہے) ’’رسولوں‘‘ کو (بصیغہ جمع) ’’لانے‘‘ یا ’’بھیجنے‘‘ کا ذکر ہے اس لیے محض ’’بھیجے‘‘ کی بجائے ’’پے درپے/یکے بعد دیگرے‘‘ سے ترجمہ زیادہ موزوں ہے۔ اور بعض نے یہی مفہوم ’’بھیجے‘‘ کی بجائے ’’بھیجتے رہے‘‘ سے ظاہر کیا ہے۔ ایک مترجم نے شاید اردو محاورے کے جوش میں ’’تار باندھ دیا‘‘ (پیغمبروں کا) کی صورت میں ترجمہ کیا ہے، جو کچھ اچھا ترجمہ نہیں، کیونکہ ہر رسول کے فوراً  ہی بعد تو اگلا رسول نہیں آتا رہا۔

(۳) ’’من بعدہ‘‘ جو ’’مِنْ +بعد+ہ‘‘ کا مرکب ہے، یہ لفظ کئی بار گزر چکے ہیں۔ اس کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اس کے بعد سے لے کر. . . .‘‘ گویا اس میں ’’الیٰ فلان وقتٍ‘‘ ( . . . . فلاں وقت تک) محذوف ہے۔ اس لیے اس کا سادہ بامحاورہ ترجمہ ’’اس کے بعد‘‘ ہوسکتا ہے۔ لفظ ’’بعد‘‘ (دیکھیے۱:۳۳:۲ (۷)) اُردو میں مستعمل ہے، تاہم ’’اس کے پیچھے‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔

(۴) ’’بِالرُّسُل‘‘ جو ’’بِ +ال+ رسل‘‘ یعنی باء الجر کے بعد معرف باللام ’’الرسل‘‘ہے۔ اس میں ابتدائی ’’باء‘‘ (بِ)تو فعل ’’قفَّینا‘‘ کا صلہ ہے جو اس کے مفعول پر آیا ہے اور جس کے استعمال پر ابھی اوپر ’’قَفَّینا‘‘کی لغوی تشریح میں بات ہوئی ہے۔ غیر قرآن (عام عربی) میں اگر یہ ’’الرُسْل‘‘ ہوتا تو بھی درست تھا۔ اور ’’الرُّسُل‘‘ کا مادہ ’’ر س ل‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فُعُلٌ‘‘ ہے (جو عبارت میں مجرور بالجر آیا ہے)۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’رسِل یَرسَل رَسَلًا‘‘ (سمع) کے بنیادی معنی ’’ آہستگی اور سہولت سے اٹھنا‘‘ (المفردات) ہیں (یعنی جس میں جلدی اور پیچیدگی نہ ہو) مثلاً کہتے ہیں ’’رَسِل الشَعرُ‘‘ یعنی ’’بالوں کا لمبا اور لچکدار (اُلجھے ہوئے نہ) ہونا‘‘ اور ’’رسِل البعیر‘‘یعنی ’’اونٹ کا خراماں خراماں (دھیمی رفتار سے) چلنا‘‘۔ اسی سے عربی محاورہ ہے ’’علیٰ رِسْلِکَ‘‘ بمعنی ’’ذرا سنبھل کر! نرمی سے کام لو!‘‘ قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ قرآن مجید میں اس سے فعل تو صرف بابِ افعال کے ہی مختلف صیغے بکثرت (۱۳۰ جگہ) آئے ہیں۔ اور مختلف ماخوذ اور مشتق کلمات (مثلاً ’’رسول، رسالۃ، رُسُل، مُرْسَل‘‘ وغیرہ) چار سو کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ ان سب پر حسبِ موقع بات ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       لفظ ’’رُسُلٌ‘‘جمع مکسر ہے، اس کا واحد ’’رَسُوْلٌ‘‘ہے، جس کے بنیادی معنی ہیں ’’وہ آدمی جس کو کوئی پیغام (بلکہ خاص پیغام) دے کر کسی کے پاس بھیجا جائے‘‘۔  اردو میں اس کا ترجمہ (فارسی اور ترکی الفاظ) ’’فرستادہ، پیغامبر، ایلچی‘‘ کے ساتھ کرلیا جاتا ہے۔ تاہم لفظ ’’رسول‘‘ بھی اسلام کی (اور قرآن و حدیث کی) ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے ’’اللہ کی طرف سے پیغام لانے والا‘‘۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ لفظ انسانوں اور فرشتوں (دونوں) کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ’’رسول فرشتے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’انبیاء و رُسُل‘‘ کی طرف پیغام رسانی پر مامور ہیں یا کسی خاص حکم کی تعمیل کے لیے بھیجے جاتے ہیں، جیسے ’’موت کے فرشتے‘‘ اور ’’عذاب کے فرشتے‘‘ اور انسانوں میں ’’رسول‘‘ وہ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغام آتا ہو جو وہ آگے دوسرے انسانوں تک پہنچانے پر مامور ہوتے ہیں۔ ’’رسول‘‘ میں بنیادی مفہوم ’’پیغام بری‘‘ کا ہوتا ہے جب کہ ’’نبی‘‘ میں بنیادی مفہوم ’’نہایت اہم خبریں دینے‘‘ کا ہوتا ہے۔ ’’نبی ‘‘ اور ’’رسول‘‘ تمام اسلامی زبانوں میں بطور اصلاح متعارف ہیں۔

·       لفظ ’’ رَسُول‘‘ (بصیغۂ واحد) معرفہ نکرہ مفرد مرکب صورتوں میں قرآن کریم کے اندر ۹۶ جگہ آیا ہے اور اس کی جمع مکسر ’’رُسُل‘‘ ( جو اس وقت زیر مطالعہ ہے) تو اسی طرح (یعنی معرفہ نکرہ اور مفرد مرکب صورتوں میں) تین سو مقامات پر وارد ہوا ہے۔ اور یہ دونوں لفظ (رَسول اور رُسُل) اپنے اصل لغوی معنی میں بھی استعمال ہوئے ہیں اور اپنے اصطلاحی معنی کے ساتھ بھی۔ کسی جگہ ان کے معنئِ مراد کا تعین بڑی سمجھداری کا کام ہے۔ جس میں عبارت کے سیاق و سباق اور مہارتِ زبان کے علاوہ عقیدہ اور نیت کی درستی کو بڑا دخل ہے۔ بلکہ معروف اصطلاح ہونے کے باعث اردو میں اس کا ترجمہ ہی ’’رسول‘‘ اور رسولوں‘‘ سے کرلیا جاتا ہے اور بعض دفعہ ’’پیغمبر‘‘ (جو فارسی لفظ ہے اور پیغام بر ہی کی دوسری شکل ہے) بھی استعمال کرلیا جاتا ہے ۔ البتہ جہاں اپنے لغوی معنی میں آیا ہے وہاں اس کا ترجمہ ’’قاصد‘‘ ہی کرلیا جاتا ہے۔

·       زیر مطالعہ عبارت میں ’’الرسل‘‘ (رسولوں) اصطلاحی معنی میں آیا ہے۔ یوں اس پوری عبارت ’’ وَقَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنا: ’’اور ہم پیچھے پیچھے لائے اس کے بعد پیغمبروں کو‘‘۔ پرانی اردو میں ترجمہ ’’ہم پچھاڑی لائے‘‘ بھی کیا گیا ہے، جس کی زیادہ با محاورہ شکل یہ ہے : ’’ہم نے اس کے بعد پے در پے پیغمبر بھیجے/ ہم یکے بعد دیگرے اس کے بعد پیغمبر بھیجتے رہے‘‘۔  چونکہ عبارت میں ’’ مِنْۢ بَعْدِهٖ ‘‘ کی ضمیر مجرور حضرت موسٰیؑ کے لیے ہے جن کا اوپر آیت کی ابتداء میں ذکر آیا ہے اس لیے احتراماً اس (مِنْۢ بَعْدِهٖ ) کا ترجمہ ’’ان کے بعد‘‘ بھی کیا گیا ہے جس میں ’’ان‘‘ جمع کے لیے نہیں بلکہ تعظیم کے لیے ہے، جیسے ’’ آتینا‘‘ اور ’’قَفَّینا‘‘میں ضمیر الفاعلین جمع کے لیے نہیں بلکہ تعظیم کے لیے ہے۔ ’’من بعدہ‘‘ پر مزید بات الاعراب میں ہوگی۔

۱:۵۳:۲ (۲)     [وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ]عبارت میں کل چھ کلمات ہیں جن میں دو تو اسم علم ہیں، باقی کلمات بلحاظ ’’مادہ‘‘ تو پہلے گزر چکے ہیں۔ البتہ اسی مذکور مادہ سے ماخوذ یا مشتق لفظ نیا آیا ہے۔ ذیل میں ہر ایک کلمہ کا ترجمہ (مع مادہ، وزن اور گزشتہ حوالہ) لکھا جاتا ہے۔

(۱)  ’’وَ‘‘ یہاں عاطفہ بمعنئ ’’اور‘‘ ہے۔ دیکھئے ۱:۴:۱ (۳) اور ۱:۷:۲ (۱)

(۲) ’’ آتَیْنَا ‘‘(اس میں ابتدائی ہمزہ کا ضبط ( آ ) عام املائی ضبط ہے، قرآنی ضبط آگے بیان ہوگا) کا مادہ ’’ا ت ی‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلْنَا‘‘ ہے جو بابِ افعال کے فعل ’’ آتی یُؤتی ایتاءً= (دینا)‘‘ سے فعل ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ بابِ افعال کے اس فعل کے معنی اور طریقِ استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ: ۴۳ [۱:۲۹:۲ (۵)]

(۳) ’’عیسٰی‘‘: عجمی یعنی غیر عربی لفظ ہے۔ جس کی اصل سریانی زبان کا لفظ ’’ایشوع‘‘ ہے۔ یہ ایک مشہور جلیل القدر پیغمبر کا اسم علم ہے۔ اس کو ’’ ع ی س‘‘ مادہ سے ماخوذ سمجھ کر اس کے مفہوم (سرخ و سفید ہونا) کو چپکانے کی کوشش کرنا (جیسا کہ بعض نے کیا ہے) تکلّفِ محض ہے۔

(۴) ’’ابنَ‘‘ (جس کا ہمزۃ الوصل یہاں تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے) کا مادہ ’’ب ن ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلٌ‘‘ ہے، یعنی اس کی اصلی شکل ’’ بَنَیٌ ‘‘ (یا بقول بعض ’’ بَنَوٌ‘‘ ہے۔ دیکھئے القاموس)۔ اس مادہ سے فعل مجرد اور لفظ ’’ابن‘‘ میں ہونے والی تعلیل وغیرہ کے لیے دیکھئے البقرہ:۴۰ [۱:۲۸:۲ (۱)] کے ’’یٰبنی‘‘ میں۔

(۵) ’’مَرْیَم‘‘ یہ بھی عجمی یعنی غیر عربی لفظ ہے، اس لیے ممنوع الصرف (غیر منصرف) ہے۔ یہ حضرت عیسیؑ کی والدہ کا نام (علم) ہے۔ اس کا کسی عربی مادے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی سریانی لفظ ہے اور اس کے معنی ’’بلند مرتبہ والی‘‘ ہے (دیکھئے ’’المنجد‘‘)

(۶) ’’الْبَیِّنَات‘‘ (یہ اس کا رسم املائی ہے، رسم عثمانی پر آگے بات ہوگی) جمع مؤنث سالم کا صیغہ ہے۔ اس کا واحد ’’البَیِّنَۃُ‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ب ی ن‘‘ اور وزن اصلی (لام تعریف نکال کر ’’فَیْعِلَۃٌ‘‘۔ جس طرح اس کے مذکر وزن (فَیْعِل) پر ’’ص و ب‘‘ سے ’’صَیِّب‘‘ بنا تھا (دیکھئے البقرہ: ۱۹ [۱:۱۴:۲ (۲)] میں) اسی طرح اس مادہ سے لفظ ’’بَیِّن‘‘ بمعنی واضح۔ صاف ظاہر) بنتا ہے۔ پھر اس سے لفظ ’’بَیِّنَۃٌ‘‘ بنتا ہے جس میں آخری ’’ۃ  ‘‘تانیث سے زیادہ مبالغہ کے لیے ہے (اگرچہ اس کی وجہ سے لفظ مؤنث قیاسی بھی ہے) یعنی بہت زیادہ واضح اور صاف ظاہر چیز۔ یوں ’’البینات‘‘  کا ترجمہ ’’ظاہر معجزے، صریح معجزے، واضح دلائل، کھلے کھلے معجزے، کھلی نشانیاں، کھلے نشانات اور روشن نشانات‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔

·       غور کیجئے تو ان تراجم میں ’’معجزے، دلائل، اور نشانات‘‘ تو اصل پر اضافہ ہے ’’بینۃ‘‘ یا ’’بینات‘‘ کا ترجمہ تو ’’ظاہر، صریح، کھلے اور روشن‘‘ ہی بنتا ہے۔ اِس اضافے کی ضرورت یوں پڑی کہ بنیادی طور پر ’’بَیِّنَۃٌ‘‘ (یا اس کی جمع ’’بیّنات‘‘) تو اسم صفت ہے جس کے ساتھ موصوف محذوف ہے، اس لیے اردو مترجمین نے اس کا ترجمہ اس محذوف موصوف کے ساتھ کیا ہے۔ بعض صفات (خصوصاً جب وہ معرف باللام بھی ہوں) اتنی واضح ہوتی ہیں کہ ان کے موصوف کو ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی، جیسے ’’عملوا الصالحات ‘‘ میں در اصل ’’الاعمال الصالحات‘‘ ہی مراد ہوتے ہیں۔ اسی طرح ’’البیّنۃ‘‘ یا ’’البینات‘‘ کا موصوف ’’ آیات، معجزے، دلائل اور نشان‘‘ ہی بن سکتے ہیں۔ اس مادہ ’’بین‘‘ سے فعل مجرد وغیرہ پر لغوی بحث البقرہ: ۶۸ [۱:۴۳:۲ (۶)] میں کلمہ ’’یُبَیِّن‘‘ کے ضمن میں ہوچکی ہے۔

·       اس طرح اس پوری عبارت ’’وآتینا عیسی ابن مریم البینات‘‘ کا لفظی ترجمہ بنا ’’اور ہم نے دئیے عیسٰیؑ بن مریمؑ کے بیٹے کو واضح (دلائل)‘‘ اس کی بامحاورہ  صورتیں ’’عیسیٰؑ ابن مریمؑ کو دئیے / عطا کیے/بخشے/ عطا فرمائے‘‘ ہیں اور آخری لفظ (البینات) کے تراجم مع وجہ ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔

۱:۵۳:۲ (۳)     [وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ] اس عبارت میں بھی کل چھ ہی کلمات (اسم، فعل، حرف) ہیں۔ یعنی یہ ’’وَ + اَیَّدْنَا + ہ + بِ + روح + القدس‘‘کا مجموعہ ہے۔ اس میں نئے لفظ صرف ’’اَیَّدْنَا‘‘ اور ’’رُوح‘‘ ہیں۔ ’’القدس‘‘ کے مادہ سے پہلے بحث ہوچکی ہے۔ ’’ہ‘‘ تو ضمیر منصوب بمعنی ’’اس کو‘‘ ہے اور ’’وَ‘‘ حرف عطف اور ’’ باء‘‘ (بِ) حرف الجرّ ہے اور ان کے استعمال پر بھی پہلے کئی جگہ بات ہوئی ہے۔ بہر حال ذیل میں اس عبارت کے ایک ایک کلمہ پر بات کی جاتی ہے:

(۱) ’’وَ‘‘ عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے۔ مزید بحث کے لیے دیکھئے [۱:۴:۱ (۳)] اور [۱:۷:۲ (۱)]

(۲) ’’اَیَّدْنَاہُ‘‘  (اس میں آخری ’’ ہ ‘‘ ضمیر منصوب بمعنئ ’’اس کو‘‘ ہے اور لفظ ’’اَیَّدْنَا‘‘ یہاں سمجھانے کے لیے برسم املائی لکھا گیا ہے، (رسم عثمانی پر ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی) ’’اَیَّدْنَا‘‘ کا مادہ ’’ا ی د‘‘ اور وزن ’’فَعَّلْنَا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’ آدَ  یَئِیْدُ  اَیْدًا‘‘ (مثل باعَ یبیع بَیْعًا) باب ضرب سے آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’قوی اور مضبوط ہونا‘‘ اور اس کا مصدر ’’اَیْدٌ‘‘ مضبوطی اور قوّت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے (یعنی بطور اسم) اس فعل مجرد سے کوئی صیغۂ فعل قرآن کریم میں نہیں آیا، البتہ لفظ ’’اَیْد‘‘ ایک دو جگہ آیا ہے۔

·       ’’اَیَّدْنَا‘‘ اس مادہ (ا ی د) سے باب تفعیل کا فعل ماضی صیغۂ متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم (نحن) اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَیَّد. . . . یُؤیِّدُ تأیِیْدًا‘‘ کے معنی ہیں: ’’. . . . کو قوت دینا،  . . . کی مدد کرنا،  . . . .کی تائید کرنا‘‘ (یعنی اس کا مصدر ’’ تَائِیْد ‘‘ جو مہموز کے قاعدۂ تخفیف کے مطابق پہلے تو ’’ تَأ ‘‘ سے ’’تا‘‘ (جوازاً) بنتا ہے، پھر ’’تا‘‘ کے الف مقصورہ کے باعث ’’ییْد‘‘ کی پہلی ’’یاء (ی) ہمزہ میں بدل جاتی ہے۔ اس طرح عربی زبان کا یہ مصدر بصورت ’’تائید‘‘ اپنے اصلی عربی معنی کے ساتھ اردو میں مستعمل اور متعارف ہے)۔ اس فعل متعدی کا مفعول تو بنفسہ آتا ہے۔ کہتے ہیں ’’اَیَّدَہٗ‘‘  اس نے اس کو قوت دی) البتہ جس چیز یا شخص کے ذریعے مدد دی جائے اس پر ’’باء‘‘ (ب) کا صلہ آتا ہے۔ اس باب (تفعیل) کے اس فعل سے مختلف صیغے قرآن کریم میں کل نو جگہ آئے ہیں۔ اور ہر جگہ ’’ذریعۂ قوّت و امداد‘‘ کا بیان باء الجر کے ساتھ آیا ہے، البتہ صرف ایک جگہ (الصف:۱۴) یہ محذوف ہے۔ ’’ایَّدْنَا‘‘ کا ترجمہ ہوا  ’’ہم نے قوّت دی/مدد کی/ تائید کی اس کی‘‘۔

(۳) ’’بِرُوْحِ الْقُدُسِ‘‘ کی ابتدائی ’’باء‘‘ (بِ) تو وہی ہے جس کا اوپر فعل ’’اَیَّدْنَا‘‘ کے ضمن میں ذکر ہوا ہے، جس کا ترجمہ ’’. . . .کے ساتھ،  . . . . کے ذریعے‘‘یا صرف ’’سے‘‘ ہے۔ لفظ ’’رُوْح‘‘ کا مادہ ’’روح‘‘ اور وزن ’’فُعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے اور مختلف معانی دیتا ہے۔ مثلاً: ’’راحَ یرُوح رَوَاحًا‘‘ (نصر سے) کا مطلب ہے ’’بعد دوپہر یا شام کے وقت چلنا‘‘۔کہتے ہیں: ’’راحتِ الابْل‘‘ یعنی ’’اونٹ شام کے بعد اپنے رات کے ٹھکانے (آرام گاہ) کی طرف چل پڑے‘‘۔  عربی میں شام کو ’’الرَوَاح‘‘ اور ’’العشیّ‘‘ کہتے ہیں۔ گویا یہ فعل ’’غدا یغدُوْ غُدُوًّا‘‘ (صبح کو چلنا) کی ضد ہے اور ’’راح یرُوحُ رَوْحًا‘‘ کے معنی ہیں: (دن کا) ٹھنڈا اور ’’ہوادار‘‘ ہونا۔ اور ’’راح . . . . یراح  راحۃً‘‘ (سمع سے)  کا مطلب ہے: ’’. . . . کی (اچھی یا بُری) بُو پانا‘‘۔  تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کسی طرح کا کوئی صیغۂ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا، بلکہ بطور فعل تو اس کے بابِ افعال سے ایک ہی صیغۂ فعل ایک ہی جگہ (النحل:۶) آیا ہے۔ البتہ مختلف ماخوذ و مشتق اسماء اور مصادر (رواح، رَوْح، رُوْح، رِیْح، ریاح، رَیْحان وغیرہ)  متعدد جگہ (پچاس سے زائد مرتبہ) آئے ہیں، جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

·       ’’الرُوح‘‘ ان (ماخوذ) کلمات میں سے ایک ہے۔ اس کا ایک عام معروف معنی (جو اردو میں بھی متعارف ہے) ’’جان‘‘ ہے (لسان العرب میں اس کے معنی بتاتے ہوئے کہا گیا ہے اسے فارسی میں ’’جان‘‘ کہتے ہیں)۔ تاہم عربی زبان اور خصوصاً قرآن و حدیث کے استعمال میں یہ لفظ ’’وحی، قرآن، حکم، فرشتہ (جبریل)‘‘ کے لیے بھی آیا ہے۔ عبارت کا سیاق و سباق اس کے معنئ مراد متعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ (رُوْح) مختلف (معرفہ، نکرہ، مفرد، مرکب) شکلوں میں ۲۱ جگہ آیا ہے، جن میں سے تین جگہ یہ اسی (زیر مطالعہ) ترکیب ’’روح القدس‘‘ کی شکل میں آیا ہے۔ ’’القُدُس‘‘ کا مادہ ’’ق د س‘‘ اور وزن ’’ال‘‘ کے بغیر ’’فُعُل‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد وغیرہ کی وضاحت البقرہ:۳۰ [۱:۲۱:۲ (۵)] میں کلمہ ’’نُقدِّس‘‘ کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔ زیر مطالعہ لفظ ’’القُدُس‘‘ (جو بصورت القُدْس بھی استعمال ہوتا ہے) کے بنیادی معنی ہیں ’’الطُھْر‘‘ یعنی پاکیزگی اور یہ بطور مصدر (پاک ہونا) بھی استعمال ہوتا ہے۔ فلسطین کے شہر بیت المقدس کو (جسے یہودی یروشلم کہتے ہیں) ’’القدس الشریف‘‘ یا صرف ’’القدس‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اصل بنیادی معنی کے لحاظ سے ’’ رُوحُ القُدس ‘‘ کا مطلب ہے ’’پاکیزگی کی روح‘‘۔ جس کا ترجمہ مرکب توصیفی کے معنی میں ’’پاک روح‘‘ بھی کیا گیا ہے۔ بیشتر حضرات نے اس کا ترجمہ کرنے کی بجائے ’’روح القدس‘‘ ہی رہنے دیا ہے اور چونکہ روح القدس سے مراد ’’جبریل‘‘ علیہ السلام ہیں اس لیے بعض جگہ تراجم میں بطور تفسیر قوسین میں اس لفظ (جبریل) کا اضافہ کردیا گیا ہے۔

·       یوں اس زیر مطالعہ جملہ (وایدناہ بروح القدس) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے: ’’اور قوت دی ہم نے اس کو پاکیزگی کی روح کے ساتھ‘‘۔ یعنی ’’ہم نے اس کو مدد دی/ اس کی تائید کی پاک روح/ روح القدس (جبریل) سے / کے ذریعے سے‘‘۔

۱:۵۳:۲ (۴)     [اَفَکُلَّمَا جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَاتَھْوٰی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ] اس عبارت میں کل ۱۲ کلمات ہیں جن میں تین حروف (أ، فَ، اور بِ) دو ضمیریں (کُمْ منصوب اور مجرور) چار اسماء (کلماء، ماء، رسول اور انفس)اور تین صیغۂ فعل (جاء، لاتھوی اور استکبرتم) آئے ہیں۔ ان میں سے نیا لفظ صرف ’’لَاتَھْوَی‘‘ ہے۔ باقی تمام کلمات براہ راست (اسی طرح) یا بالواسطہ (کسی دوسری صورت میں) پہلے گزر چکے ہیں۔ تفصیل یوں ہے:

(۱) ’’اَفَکُلَّمَا‘‘ اس کے شروع میں ’’  أ  ‘‘ استفہامیہ (بمعنی کیا؟ آیا؟) ہے (دیکھئے البقرہ:۶ [۱:۵:۲ (۳)] ’’فاء (فَ) عاطفہ (بمعنی پھر، پس) ہے (دیکھئے البقرہ:۲۲ [۱:۱۶:۲ (۱۰)]۔ ’’کُلَّمَا‘‘ جو ’’کلَّ، + ’’ما‘‘ ہے مگر ایک ہی اسم شرط کی طرح استعمال ہوتا ہے (بمعنئ جب کبھی بھی) اس کی وضاحت کے لیے دیکھئے البقرہ:۲۰ [۱:۱۵:۲ (۳)]۔ اس کا مجموعی اردو ترجمہ ’’کیا پس جب/پھر بھلا جب/پھر بھلا کیا جب/تو کیا جب/کیا پھر ہر بارجب/ تو کیا جب کبھی‘‘ کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔

(۲) ’’جاءکم‘‘ جس کے آخر میں ضمیر منصوب ’’کُمْ‘‘ (بمعنی ’’تم کو/تمہارے پاس‘‘) ہے، اس میں ’’جاء‘‘ کا مادہ ’’ج ی أ‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ ہے۔ اس سے فعل مجرد (جاء یَجِیْئُ    =آنا)کے معنی و استعمال پر البقرہ:۱ ۷ [۱:۴۴:۲ (۱۴)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ ’’جاءکم‘‘= ’’وہ آیا تمہارے پاس‘‘۔

(۳) ’’رَسُوْل‘‘ کا مادہ ’’ر س ل ‘‘ اور وزن ’’فَعُوْل‘‘ ہے۔ یہ لفظ ’’مُرْسَل‘‘ ’’بھیجا ہوا، فرستادہ، پیغمبر، ایلچی اور قاصد‘‘ کے معنی میں اردو میں بھی متداول ہے۔ اس مادہ کے فعل مجرد اور خود اسی لفظ (رسول) کے لغوی اور اصطلاحی معنی پر ابھی اوپر [۱:۵۳:۲ (۱)] میں لفظ ’’ الرسل ‘‘ کے ضمن میں مفصل بات ہوئی ہے۔ زیر مطالعہ عبارت میں ’’رسول‘‘ اپنے اصطلاحی معنی میں آیا ہے، اس لیے اس کا اردو میں کسی اور لفظ کے ساتھ ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

(۴) ’’بِمَا‘‘ جو ’’ب+ ما ‘‘ ہے۔ اس کی ابتدائی باء الجر (بِ) تو وہ صلہ ہے جو فعل ’’جاء‘‘ (آنا) میں ’’لانا۔ لے آنا‘‘ کے متعدی معنی پیدا کرنے کے لیے اس کے مفعول پر لایا جاتا ہے۔ ’’جاءہ‘‘(=وہ اس کے پاس آیا) میں بھی ’’ ہ ‘‘ضمیر منصوب مفعول ہے اور ’’جاء بہ‘‘ (= وہ اس کو لایا۔ لے آیا) میں ضمیر منصوب باء (ب)کے صلہ کے ساتھ آئی ہے (لہٰذا وہ صرف محلاً منصوب رہ گئی ہے) اس استعمال کی وضاحت [۱:۴۴:۲ (۱۴)] میں ’’جئت بالحق‘‘ کے ضمن میں دیکھئے۔ ’’بما‘‘ کا دوسرا لفظ ’’ ما ‘‘اسم موصول بمعنی ’’جو کچھ کہ، جو کچھ بھی کہ، کوئی ایسی چیز جو کہ‘‘ آیا ہے۔ ’’مَا‘‘ کے معانی وغیرہ البقرہ: ۳ [۱:۲:۲ (۵)] کے علاوہ البقرہ:۲۶[۱:۱۹:۲ (۲)] اور البقرہ:۵ [۱:۴۷:۲ (۵)] میں دیکھئے۔

(۵) [لاتھْوَی] کا ابتدائی ’’لا‘‘ نافیہ بمعنی نفی ہے جو عموماً کسی فعل مضارع کو منفی بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ ’’ تھْوَی  ‘‘  کا مادہ ’’ھ و ی ‘‘ اور وزن اصلی ’’تفْعُلُ ‘‘ ہے۔ یہ ’’تَھْوُیُ‘‘ تھا، پھر ’’یائے متحرکہ (مضمومہ) ماقبل مفتوح (و) کی وجہ سے الف میں بدل کر بولی جاتی ہے، اگرچہ یہ الف مقصورہ بصورت یاء (ی) ہی لکھا جاتا ہے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ودو مختلف ابواب سے مختلف معنی دیتے ہیں، مثلاً

(الف) ’’ھَوَی یھْوِی ھوِیًّا و ھُوِیًّا‘‘ (ضرب سے) کے معنی ہیں ’’کسی چیز (پرندے وغیرہ) کا تیز رفتاری کے ساتھ اوپر سے نیچے آنا یا گرنا‘‘۔ کہتے ہیں ’’ھَوت العقاب علی صیدٍ‘‘ (عقاب تیزی کے ساتھ­ کسی شکار پر جھپٹا، گرا‘‘ عربی میں ’’عُقاب‘‘ مؤنث سماعی  ہے اس لیے مثال میں فعل مؤنث آیا ہے)۔ اور اسی فعل کے معنی ’’ھوّۃ یا ھُوِیًّا‘‘ کے مصدر کے ساتھ ’’بلند ہونا، اوپر چڑھنا‘‘ بھی ہوتے ہیں، مثلا ’’ھوی الرجل ھوّۃ ھُویّا‘‘ کا مطلب ہے ’’آدمی اوپر چڑھ گیا‘‘ ان دوسرے معنی کے لیے ’’القاموس‘‘ میں مصدر ’’ھُویّا‘‘ دیا گیا ہے جب کہ ’’المعجم الوسیط‘‘ میں ’’ھُوَّۃ‘‘ لکھا گیا ہے۔ اور اسی (ھوَی یھوِی ھُوِیّاً‘‘ کے معنی ’’ہلاک ہونا‘‘ بھی ہیں۔ کہتے ہیں ’’ھوَی الرجل‘‘  (آدمی تباہ یا ہلاک ہوگیا)۔ ان کے علاوہ یہ فعل بعض دیگر معانی مثلا ’’چلے جانا، تیز رفتاری دکھانا، ہوا کا زور سے چلنا‘‘‘ اور ’’ کسی عورت کا بچہ مرجانا‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس باب سے اسم الفاعل ’’ھاوٍی‘‘ برائے مذکر اور ’’ھَاوِیَۃ‘‘برائے مؤنث آتا ہے۔

(ب) ’’ھوِیَ . . . . . یَھْوَی ھَوْی‘‘(سمع سے)کا مطلب ہے . . .  کو پسند کرنا، . . . . کی خواہش کرنا‘‘۔ کہتے ہیں ’’ھوِی فلانٌ فلاناً‘‘ یعنی ’’فلاں نے فلاں سے محبت کی/ اس کو پسند کیا‘‘۔ اس فعل سے اسم الفاعل نہیں آتا بلکہ اس معنی میں اسم صفت مذکر کے لیے ’’ھَوٍی‘‘ اور مؤنث کے لیے ’’ھَوِیَۃٌ‘‘ آتی ہے۔

·       قرآن کریم میں ان دونوں ابواب سے مختلف صیغہ ہائے فعل سات جگہ آئے ہیں اور زیادہ تر ’’نیچے جانا، تیزی سے گرنا، ہلاک ہونا اور چاہنا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوئے ۔ اسی مادہ سے مزید فیہ کے بابِ افعال اور استفعال کا بھی ایک ایک صیغۂ فعل آیا ہے۔ ان کے علاوہ اس مادہ سے مشتق اور ماخوذ اسماء اور مصادر وغیرہ (مثلاً ھوًی، اھواء، ھواءٌ، ھاویۃ‘‘ وغیرہ) کم و بیش تیس جگہ آئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ عبارت میں ’’لاتَھْوَی‘‘ باب سمع والے فعل سے فعل مضارع منفی ’’بلَا‘‘ صیغہ واحد مؤنث غائب ہے کیونکہ آگے اس کا فاعل ’’انفسکم‘‘  جمع مکسر ہے۔ اس باب سے اس فعل کے ایک ہی معنی ہیں ’’چاہنا۔ پسند کرنا۔ بھانا۔ خواہش کرنا‘‘۔ یوں ’’لاتَھْوَی‘‘ کا ترجمہ تو حال یا مستقبل میں ہی ہونا چاہیے۔ ’’نہیں چاہتے، نہ بھائے‘‘ مگر قصۂ ماضی کے بیان کی وجہ سے بیشتر حضرات نے اس کا ترجمہ زمانۂ ماضی کے ساتھ ’’نہ چاہا، نہ بھایا، پسند نہ کیا‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔

(۶) ’’ اَنْفُسُکُمْ‘‘ آخری ضمیر مجرور ’’کُم ‘‘ بمعنئ ’’تمہاری/تمہارے‘‘ ہے اور ابتدائی لفظ ’’اَنْفُس‘‘ کا مادہ ’’ن ف س ‘‘ اور وزن ’’اَفْعُلُ‘‘ ہے۔ یہ ’’نَفْس‘‘ (جان، جی، شخص، من، دل) کی جمع مکسر ہے۔ اس کی مکمل لغوی تشریح کے لیے دیکھئے البقرہ:۹ [۱:۸:۲ (۴)] میں ’’انفسہم‘‘

·       یہ مرکب اضافی (انفسُکم) اوپر والے فعل (لاتھْوَی)کا فاعل ہے، اس لیے اس عبارت (لاتھوی انفسکم) کا ترجمہ تو ہونا چاہیے: ’’نہ چاہے تمہاری جان‘‘۔ مگر مختلف اردو افعال کے ساتھ اور محاورے کی وجہ سے اس کے تراجم ’’نہیں چاہتے تمہارے جی/ نہ بھایا تمہارے جی کو/ تمہارے نفس کی خواہش نہیں/ تمہارے نفس کو نہ بھائے‘‘/ اور ’’تمہارے نفس کی خواہشوں کے خلاف ‘‘ کی صورت میں کیے گئے ہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کون سا ترجمہ اصل نص (عبارت) سے کتنا قریب ہے اور کتنا ہٹ کر ہے۔

(۷) ’’اِسْتَکْبَرْتُمْ‘‘ (پڑھنے میں گزشتہ لفظ ’’انفسکم‘‘ کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھنے کے لیے ’’انفسکم‘‘ کی آخری ساکن میم کو حرکت ضمہ (ـــــُـــــ) ماقبل کے ’’ک‘‘ مضموم کی مناسبت سے دی جاتی ہے اور ’’استکبرتم‘‘ کا ابتدائی ہمزۃ الوصل تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے)۔ اس صیغۂ فعل کا مادہ ’’ک ب ر‘‘ اور وزن ’’اِسْتَفْعَلْتُمْ‘‘ ہے۔ یعنی یہ باب استفعال سے فعل ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد اور خود اس فعل (استکبر یستکبر= تکبر کرنا) کی لغوی تشریح البقرہ: ۳۴[۱:۲۵:۲ (۵)] میں گزر چکی ہے۔

·       مفردات کی اس وضاحت کی روشنی میں اس پوری عبارت (اَفَكُلَّمَا جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ )کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’کیا پس جب بھی آیا تمہارے پاس کوئی پیغمبر ساتھ اس کے کہ نہیں چاہتے جی تمہارے، تو تکبر کیا تم نے‘‘۔ تاہم ’’جاء ب‘‘ کا مطلب ’’لایا‘‘ ہونے کی وجہ سے اور ’’بِمَا‘‘ کے ’’مَا‘‘ میں ’’جو کہ‘‘ سے مراد ’’جو باتیں، جو حکم، ایسے احکام جو‘‘ لینے سے، نیز محاورہ کے مطابق کرنے کے لیے، اس کے تراجم کئی صورتوں میں کیے گئے ہیں۔ مثلاً ’’پھر بھلاجب تم پاس لایا کوئی رسول جو نہ چاہا تمہارے جی نے تو تم تکبر کرنے لگے‘‘۔ اس کو مزید بامحاورہ کرتے ہوئے ’’پھر بھلا کیا جب تمہارے پاس لایا کوئی رسول وہ حکم جو نہ بھایا تمہارے جی کو تو تم تکبر کرنے لگے‘‘ بنایا گیا۔ اسی طرح ’’کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تو تکبر کرتے ہو‘‘۔ بھی ایک عمدہ بامحاورہ صورت ہے۔ تاہم ’’کلما‘‘ کا ترجمہ ’’جب کبھی بھی/ جب بھی‘‘ کے ساتھ کرنا بہتر ہے۔ اسی طرح ’’بِمَا‘‘ (اس کے ساتھ جو/ وہ جو) کے ترجمہ میں وضاحتی لفظ ’’باتیں/احکام/حکم‘‘ وغیرہ کے اضافے بھی بعض نے کیے ہیں اور بعض نے نہیں کیے۔ یعنی وہ لفظ سے قریب تر رہے ہیں۔

۱:۵۳:۲ (۵)     [فَفَرِیْقاً کَذَّبْتُمْ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ] اس عبارت کے تمام کلمات پہلے گزر چکے ہیں، مثلاً ’’فریقاً‘‘ کے ساتھ آنے والی ’’فَ‘‘ (فاء) اور ’’وَ‘‘ (بمعنی پس، پھر، اور) کا تو شاید اب گزشتہ حوالہ دینے کی بھی ضرورت نہیں۔

(۱) ’’فریقاً‘‘ (جو آیت میں دو دفعہ آیا ہے) کے مادہ (ف ر ق) سے فعل مجرد کے علاوہ خود اسی لفظ (فریق)کی لغوی ساخت اور مادہ اور وزن وغیرہ کی وضاحت کے لیے دیکھئے البقرہ:۵۰[۱:۳۲:۲ (۱۰)] اور البقرہ:۷۵ [۱:۴۷:۲ (۲)]۔ یہاں ’’ففریقاً‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’پس ایک گروہ کو تو‘‘۔ اس کی مزید وضاحت ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔

(۲) ’’کَذَّبْتُم‘‘ کا مادہ ’’کَ ذ ب‘‘ اور وزن ’’فَعَّلْتُم‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد پر البقرہ:۱۰ [۱:۸:۲ (۱۱)]میں اور باب تفعیل کے فعل (کذّبَ یُکذِّبُ=جھٹلانا) پر (جس سے یہ ’’کَذَّبْتُمْ‘‘ فعل ماضی کا صیغۂ جمع مذکر حاضر ہے) البقرہ:۳۹ [۱:۲۷:۲ (۱۴)] میں بات ہوچکی ہے۔ ترجمہ ہے: ’’تم نے جھٹلایا‘‘۔

(۳) ’’تَقْتُلُوْنَ‘‘ کے مادہ، وزن اور فعل مجرد کے استعمال وغیرہ پر البقرہ:۵۴ [۱:۳۴:۲ (۴)] میں کلمہ ’’فاقتلوا‘‘ کے ضمن میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ ’’تقتلون‘‘ کا ترجمہ ہے ’’تم قتل کردیتے ہو/مار ڈالتے ہو‘‘۔ پوری عبارت کا ترجمہ ہوگا ’’پس ایک گروہ/جماعت/بعضوں کو تو تم نے جھٹلایااور بعضوں کو قتل ہی کرنے لگے‘‘۔

 

۲:۵۳:۲      الاعراب

زیرِ مطالعہ آیت کو ترکیب نحوی کے لحاظ سے چھ جملوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جو ’’وَ‘‘ اور ’’ فَ‘‘ (واو عاطفہ اور فاء عاطفہ) کے ذریعے باہم ملا دئیے گئے ہیں اور یوں بلحاظ ربط مضمون ایک ہی طویل جملہ بنتا ہے۔

(۱) وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ:

[وَ]یہاں مستانفہ ہے اور [لَقَدْ] لام تاکید (جو عموماً جوابِ قسم پر آتا ہے) اور حرف تحقیق (قدْ) پر مشتمل ہے۔ یہ سب مل کر اگلے فعل کے معنی میں زور اور تاکید پیدا کرتے ہیں [آتَیْنَا] فعل ماضی صیغہ متکلم مع ضمیر التعظیم (نحن) ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے [موسٰیؑ]اس فعل کا مفعول اوّل ہے۔ اسم مقصور ہونے کے باعث اس میں علامتِ نصب ظاہر نہیں ہے  لکتاب] فعل ’’ آتینا ‘‘ کا مفعول ثانی لہٰذا منصوب ہے، علامتِ نصب آخری ’’ب‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے، جو در اصل تنوین نصب (ــــًـــــ)تھی مگر لام تعریف کے لگنے سے ایک فتحہ (ـــــَــــ) رہ گئی ہے۔

(۲) وَقَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ

[وَ] عاطفہ ہے جس سے فعل ’’قفَّینا‘‘ کا عطف سابقہ صیغۂ فعل ’’ آتینا ‘‘ پر ہے [قَفَّیْنَا] فعل ماضی صیغۂ متکلم ہے، اس میں بھی ضمیر تعظیم (نحن) شامل ہے۔ [من بعدہ] ’’ من ‘‘ حرف الجر، ’’ بعد ‘‘ ظرف مضاف اور ’’ ہ ‘‘ ضمیر مجرور مضاف الیہ ہے اور یہ سارا مرکب جارّی متعلق فعل یا ظرف کا کام دے رہا ہے۔ اگر یہاں ’’من‘‘ نہ ہوتا تو باقی ظرف ’’ بعدَہ‘‘ (بفتح الدال) ہوتا اور مطلب بھی وہی رہتا، یعنی ’’ اس کے بعد‘‘ [بالرسل]اس کی ’’باء‘‘ تو فعل ’’ قفّینا‘‘ کا صلہ ہے جو اس کے مفعول ’’الرسل‘‘ پر لگا ہے۔ اگر یہ ’’ب‘‘ نہ ہوتا بلحاظ اعراب ’’الرسل‘‘بھی درست ہوتا۔ اب یہاں مرکب جارّی ’’ بالرسل‘‘ کو مفعول کا کام دینے کے باعث محلاً منصوب کہہ سکتے ہیں۔ اس جملے کی سادہ نثر کی ترتیب یوں تھی ’’وقفّینا بالرسل من بعدہ‘‘ ۔ ’’من بعدہ‘‘ کے پہلے لانے سے اس میں ایک زور پیدا ہوا ہے اور اس کا ترجمہ ’’اس کے بعد بھی‘‘ ہونا چاہیے۔ تاہم بیشتر مترجمین نے اسے نظر انداز کردیا ہے۔

(۳) وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ

[وَ] عاطفہ ہے اور [آتینا] فعل ماضی صیغۂ متکلم مع ضمیر تعظیم (نحن) ہے۔ [عیسٰیؑ]اس فعل کا مفعول اول ہے جس میں اسم مقصور ہونے کے باعث علامت نصب ظاہر نہیں ہے [ابنَ] یہ ’’عیسی‘‘ کا بدل بھی ہوسکتا ہے اور صفت بھی۔ اسی لیے اس میں علامتِ نصب آخری ’’نون‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے جو در اصل تنوین نصب سے بوجہ اضافت (’’ابن‘‘ مضاف خفیف بھی ہے) خفیف ہوگئی ہے [مریم] مضاف الیہ (ابن کا) ہے۔ علامت جر آخری ’’م‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ)ہے کیونکہ مریم ایک عجمی علم ہونے کے باعث غیر منصرف ہے۔ اس میں ’’ابن مریم‘‘ پورا مرکب اضافی ’’عیسی‘‘کا بدل یا صفت بنتا ہے۔ (البینات)فعل ’’ آتینا‘‘ کا مفعول ثانی ہے اس لیے منصوب ہے۔

(۴) وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ

[وَ] یہاں بھی برائے عطف ہے۔ [ایدناہ] میں ’’ایدنا‘‘تو فعل ماضی صیغہ متکلم مع ضمیر التعظیم (نحن)ہے اور آخر میں ضمیر منصوب (ہ) اس فعل کا مفعول ہے۔ [بروح القدس] میں ابتدائی ’’ب‘‘ حرف الجر ہے اور ’’روح‘‘ مجرور بالجرّ اور آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے۔ علامتِ جر اس میں ’’ح‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ)ہے جو در اصل تنوین الجر (ــــٍـــــ) تھی مگر مضاف ہونے کے باعث ایک کسرہ (ـــــِــــ) رہ گئی۔ ’’القدس‘‘ مضاف الیہ (روح کا) لہٰذا مجرور بالاضافۃ ہے، علامت جر اس میں ’’س‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ) ہے۔ یوں ’’بروح القدس‘‘ پورا مرکب جاری متعلق فعل ’’ایّدنا‘‘ بنتا ہے۔ یعنی اس میں فعل ’’ایدنا‘‘ کی کیفیت (کیسے قوّت دی) بیان ہوئی ہے۔

(۵) اَفَكُلَّمَا جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ

[أ] استفہامیہ اور [فَ] عاطفہ ہے۔ جب استفہام اور عطف مل کر آئیں تو قاعدہ یہ ہے کہ ہمزۂ استفہام ( أ ) کے ساتھ حرف عطف (ف) بعد میں آتا ہے جیسے یہاں ہے اور اگر حرف استفہام (ھل) ہو تو حرف عطف پہلے آتا ہے یعنی پھر بصورت ’’فَھَلْ‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں دونوں طرح آیا ہے۔ [کلّما] میں ’’کُلّ‘‘ اسم برائے استغراق یا عموم ہے یعنی یہ سب چیزوں یا کسی چیز کے تمام اجزاء کو شامل کرنے کے لیے آتا ہے اور یہ ہمیشہ مضاف ہوکر استعمال ہوتا ہے اور اس کا مضاف الیہ ’’ما‘‘ مصدریہ یا ظرفیہ ہو تو اس میں تکرار (بار بار ہونے) کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے یہاں ’’کلّما‘‘ کا ترجمہ ’’ہر بار جب کہ ‘‘ یا ’’جب کبھی بھی‘‘ ہوگا۔ اور یہاں ’’کُلَّ‘‘ کی نصب (جس کی علامت لام کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے کی وجہ ظرف ظرف ہونا ہے یعنی ظرف کی طرف مضاف ہونے سے یہ خود ظرف منصوب بن گیا ہے۔ [جاء] فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے جو ویسے تو فعل لازم ہے مگر اس کے ساتھ ظرف ’’عندَ‘‘ لگنے کی بجائے براہِ راست مفعول منصوب آتا ہے یعنی ’’جا ء عندَہ‘‘ (وہ اس کے پاس آیا) کہنا بالکل غلط ہے اس کی بجائے ’’جا ء ہ‘‘ کہتے ہیں [کُمْ] یہاں وہی ضمیر منصوب مفعول بہ ہے بمعنی ’’تمہارے پاس [رَسُولٌ] فعل ’’جاء‘‘ کا فاعل (لہٰذا)  مرفوع ہے، علامتِ رفع ’’ل‘‘پر تنوین رفع (ــــٌـــــ) ہے۔ [بمَا] ’’بِ‘‘ حرف الجرّ ہے جو یہاں فعل ’’جاء‘‘کے ساتھ (اس کے مفعول پر) بطور صلہ آیا ہے اور ’’مَا‘‘ موصولہ مجرور ہے۔ یہاں ’’بمَا‘‘ اکٹھا مفعول بن رہا ہے اس لیے اسے محلاً منصوب کہیں گے اور در اصل تو اسم موصول (مَا) کا صلہ (جو بصورت جملہ آگے آ رہا ہے) اس کے ساتھ مل کر ہی ’’جاء ب. . . . ‘‘ کا مفعول بنے گا۔ [لَاتھوَی] فعل مضارع منفی واحد مؤنث غائب ہے [اَنْفُسُکم] مرکب اضافی (انفس + کم) مل کر فعل ’’لاتھوی‘‘ کا فاعل ہے اس لیے ’’انفسکم‘‘ کا ’’انفس‘‘ مرفوع ہے، علامت رفع ’’س‘‘ کا ضمہ ہے جو انفس کے مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین رفع سے مخفّف ہوگیا ہے۔ [استکبرتم] فعل ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ یہ یہاں جوابِ شرط (کلّمَا کے لیے) ہے اس لیے اُردو ترجمہ اس کا ’’تو‘‘ سے شروع ہوگا۔ ’’کلّمَا‘‘ کے جواب شرط میں کوئی کلمہ ربط (لام یا فا وغیرہ) نہیں آتے۔

(۶) فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ ۡوَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ  :

[ففریقاً] کی ’’فاء‘‘ (ف) عاطفہ (بمعنی پس/پھر) ہے اور فریقاً اگلے فعل (کذبتم) کا مفعول مقدم (جو پہلے لایا گیا) لہٰذا منصوب ہے، علامتِ نصب آخر پر تنوین نصب (ــــًـــــ) [کذَّبتم] فعل ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے اور [وَ فریقاً] میں بھی ’’وَ‘‘ عاطفہ اور ’’فریقاً‘‘ مفعول منصوب مقدّم (بر فعلِ خود) ہے۔ یعنی [تقتلون] جو فعل مضارع صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ یہ عبارت عام نثری ترتیب کے مطابق ’’فکذبتم فریقاً و تقتلون فریقاً‘‘ ہوتی، مگر فاصلہ کی رعایت سے دونوں جگہ مفعول (فریقاً) کو فعل سے پہلے (مقدّم) لایا گیا ہے جس سے عبارت میں ادبی حسن کے علاوہ فریقاً کے معنی میں بھی ایک خصوصیت پیدا ہوئی ہے، یعنی ’’ایک فریق کو تو، بعضوں کو تو‘‘۔ اور ’’دوسرے فریق کو بھی‘‘ اور ’’بعض دوسروں کو بھی‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرا فعل ’’قَتَلْتُمْ‘‘ (بمقابلہ ’’کذّبتُمْ‘‘) ہونا چاہیے تھا۔ مگر یہاں فاصلہ آیت کی رعایت سے ’’تقتلون‘‘ لایا گیا ہے۔ فواصل آیات کی یہ رعایت بھی نظم قرآن (قرآنی عبارت) کو شعر سے مماثلت اور یوں ادبی حسن پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔

 

۳:۵۳:۲     الرسم

بلحاظ رسم اس (زیر مطالعہ) آیت میں پانچ کلمات توجہ طلب ہیں، جنہیں ہم یہاں فرق سمجھانے کے لیے پہلے عام رسم املائی میں لکھتے ہیں۔ ’’الکتاب، ابن، البینات، ایّدناہ اور کلّما‘‘ تفصیل یوں ہے۔

(۱) الکتاب: معرفہ ہو یا نکرہ، مفرد ہو یا مرکب، قرآن کریم میں سوائے چار خاص مقامات کے (جو اپنی جگہ بیان ہوں گے) یہ لفظ (کتاب)ہر جگہ بحذف الف بعد التاء یعنی بصورت ’’الکتب‘‘ یا ’’کتب‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ نیز اس کی مزید وضاحت کے لیے دیکھیے البقرہ:۲ کے آخر پر [۳:۱:۲] میں۔

(۲) ’’ابن‘‘ یہ لفظ عام رسم املائی ہو یا قرآنی عثمانی رسم دونوں میں عموماً اسی طرح لکھا جاتا ہے اور اس کا ابتدائی ہمزۃ الوصل حسب ضرورت تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے۔ اس کے متعلق یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ عام رسم املائی میں جب تلفظ ’’ابن‘‘ دو اعلام (اشخاص کے ذاتی ناموں) کے درمیان آئے تو اس کا ہمزۃ الوصل کتابت سے بھی ساقط کردیا جاتا ہے، جیسے ’’محمد بن عبداللہ‘‘ میں ہے۔ مگر قرآن مجید کے رسم (عثمانی) کے مطابق دو اعلام کے درمیان واقع ہونے پر بھی (جیسے یہاں عیسی ابن مریم میں ہے) اس کا ہمزۃ الوصل کتابت میں برقرار رکھا جاتا ہے   [1]۔

(پڑھنے میں تو وہ رسم املائی میں بھی نہیں آتا اور رسم قرآنی میں بھی)۔

(۳) ’’البیّنات‘‘ قرآن کریم میں یہ لفظ معرفہ آئے یا نکرہ، ہر جگہ بحذف الالف بعد النون لکھا جاتا ہے، یعنی بصورت ’’بَیّنٰت‘‘ بلکہ قرآن مجید کی کتابت میں یہ قاعدہ ہے کہ تمام ایسے جمع مؤنث سالم جن میں ایک الف آتا ہو وہ سب محذوف الالف لکھے جاتے ہیں ۔[2] اس کے چند مختلف فیہ مستثنیات ہیں جن پر حسبِ موقع بات ہو گی۔

(۴) ’’اَیَّدْنَاہ‘‘ قرآن مجید میں اسے بحذف الالف بعد النون لکھنے پر اتفاق ہے یعنی اسے بصورت ’’اَیَّدْنٰہُ‘‘ لکھا جاتا ہے۔ بلکہ یہاں بھی علم الرسم کا یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ فعل ماضی کے صیغہ جمع متکلم کے بعد جب کوئی ضمیر بطور مفعول آ رہی ہو تو صیغۂ ماضی کا آخری الف (یعنی آخری ’’نَا‘‘ کا الف)لکھنے میں حذف کردیا جاتا ہے، البتہ پڑھا ضرور جاتا ہے اور اس کے لیے اسے بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ رسمِ املائی کے مطابق ایسے الف کا حذف غلطی ہے مگر رسم قرآنی عثمانی کے مطابق ایسے الف کا اثبات غلط ہے۔

(۵) ’’افکلّما‘‘ میں بلحاظ رسم ’’کلّما‘‘ اس لیے قابل ذکر ہے کہ یہ لفظ قرآن میں یہاں اور دوسرے بیشتر مقامات پر اسی طرح موصول (ملا کر) لکھا جاتا ہے۔ یہ بات اس لیے ضروری معلوم ہوئی کہ یہ لفظ (جو در اصل تو دو لفظ ہیں) بعض جگہ مفصول یا مقطوع (الگ الگ کرکے) لکھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’کلّ ما‘‘ ــــ ان پر حسب موقع بات ہوگی۔

 

۴:۵۳:۲      الضبط

زیر مطالعہ آیت کے کلمات کے ضبط میں تنوع کو درج ذیل مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اتفاق سے یہاں اختلاف کی بہت کم صورتیں موجود ہیں۔

 



[1] دیکھئے نثر المرجان ۱: ۱۸۱۔ ۱۸۲

[2] سمیر الطالبین ص ۳۵۔۳۶