سورۃ ا لبقرہ آیت ۸۸ اور  ۸۹

۵۴:۲      وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ۭ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِھِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ (۸۸) وَلَمَّا جَاۗءَھُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ ۙ وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ښ فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ ۡ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ  (۸۹)

 ۱:۵۴      اللغۃ

۱:۵۴:۲ (۱)     [وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ] نیا لفظ اس عبارت میں صرف ’’غُلْفٌ‘‘، باقی کلمات پہلے بھی گزر چکے ہیں لہٰذا ان کا صرف اشارۃً   ترجمہ اور گزشتہ حوالے کے ساتھ ذکر کریں گے۔

’’وَ‘‘ یہاں مستانفہ ہے، ترجمہ ’’اور‘‘ہی ہوگا۔ دیکھئے۔ [۱:۷:۲(۱)]

’’قالوا‘‘( انہوں نے کہا ’’بیانِ احوال ہونے کی بناء پر ترجمہ ’’وہ کہتے ہیں‘‘ کیا جا سکتا ہے) کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد پر پہلی دفعہ [۱:۷:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی اور خود اس صیغہ (قالُوا)کی ساخت اور تعلیل وغیرہ کے لیے دیکھئے البقرہ: ۱۱ [۱:۹:۲ (۴)]

’’قُلُوبُنا‘‘ (ہمارے دل) اس مرکب اضافی کے آخر پر ضمیر مجرور (نَا) بمعنی ’’ہمارے/ہمارا‘‘ ہے جس سے پہلے اس کا مضاف ’’قلوب‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ق ل ب‘‘اور وزن ’’فُعُوْلٌ‘‘ ہے۔ یہ ’’ قَلْبٌ ‘‘ بمعنی ’’دل‘‘ کی جمع مکسر ہے۔ لفظ ’’قلوب‘‘ (دلوں) پر بات البقرہ:۷ [۱:۶:۲ (۲)] اور پھر البقرہ: ۱۰ [۱:۸:۲ (۶)] میں ہوچکی ہے۔

[غُلْفٌ] کا مادہ ’’غ ل ف ‘‘ اور وزن ’’ فُعْلٌ ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (۱) ’’غلَف . . . . .  یَغلِفُ غَلْفًا (ضرب سے) کے معنی‘‘ ہیں ’’ . . . . .   پر غلاف چڑھانا یا . . . . . کو غلاف میں ڈالنا‘‘ مثلاً کہتے ہیں غَلَفْتُ السیفَ او الکتابَ او السَرْجَ‘‘  (میں نے تلوار یا کتاب یا زین پر غلاف چڑھایا) ۔ عربی کا لفظ  ’’غِلاف‘‘ (جو اسی مادہ سے ماخوذ اسم ہے) اردو میں مستعمل ہے (اگرچہ اپنے سارے عربی معانی کے ساتھ نہیں) جسے انگریزی میں cover یا case کہتے ہیں اور (۲) ’’ غلِفَ یَغلَفُ غَلَفاً ‘‘ (سمع سے) کے معنی ہیں ’’غیر مختون ہونا‘‘۔ عربی میں ’’ غلامٌ اغلفُ ‘‘اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کا ابھی ختنہ نہ ہوا ہو کیونکہ وہ ابھی ایک ’’غِطاء خِلقی‘‘ (پیدائشی پوشیدگی) میں ہوتا ہے۔ اور ’’ غَلِف قلبُہ ‘‘کے معنی ہیں ’’اس کے دل میں ہدایت نہ آئی نہ ٹِکی‘‘۔ اور باب تفعیل سے ’’ غلَّف لِحْیَتَہ بالحِناء ‘‘ کا مطلب ہے‘‘ اس نے اپنی داڑھی کو مہندی لگائی (یعنی مہندی سے پردہ پوشی کی) گویا اس مادہ سے تمام افعال میں بنیادی معنی پردہ اور پوشیدگی کے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا، بلکہ قرآن میں تو اس مادہ سے یہی ایک (زیر مطالعہ) لفظ ’’ غُلْفٌ ‘‘ صرف دو جگہ آیا ہے، ایک یہاں، دوسرے النساء:۱۵۵ میں۔

·       لفظ ’’ غُلْفٌ ‘‘ یا تو ’’اَغْلَفُ‘‘ (ستر پوش) کی جمع ہے جیسے ’’ اَحْمَرُ  ‘‘ کی جمع ’’حُمْرٌ‘‘ ہے۔ اس صورت میں اس کے معنی ہیں ’’جو پردے یا غلاف میں ہیں‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دل دوسروں کی تعلیمات سے محفوظ ہیں یا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہی بات قرآن میں دوسری جگہ ’’ قَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ ‘‘ (فصِّلت:۵) میں آتی ہے یعنی ان کا قول کہ ہمارے دل (باہر کے اثرات سے) پردے یا غلاف میں محفوظ ہیں۔ دوسری صورت یہ بھی ممکن ہے کہ ’’غُلْفٌ‘‘ لفظ ’’غِلاف‘‘ کی جمع مکسر ہے جو در اصل تو ’’غُلْفٌ‘‘ہوتی ہے مگر عین کلمہ کے سکون سے بھی بولتے ہیں جسے ’’رُسُل‘‘ کو  رُسْلٌ  اور  ’’کتُب‘‘ کو ’’کُتْب‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس صورت میں ترجمہ بنتا ہے ’’ہمارے دل تو غلاف ‘‘ ہیں (جو اپنے اندر والی چیز کو محفوظ کیے ہوئے ہیں)‘‘ یعنی ان میں علم بھرا ہے، ہم کسی کی تعلیم کے محتاج نہیں۔ ’’غلاف‘‘ اس شے کو کہتے ہیں جو کسی چیز کی حفاظت کرتی ہے۔

·       اردو کے قریباً تمام مترجمین نے ’’غُلف‘‘ کو ’’اَغْلَفُ‘‘ کی جمع قرار دے کر ہی ترجمہ کیا ہے (دوسرے معنی ’’غلاف ہیں‘‘ والے تفاسیر میں بیان ہوئے ہیں) اس طرح اس پوری عبارت ’’وقالوا قلوبنا غُلْفٌ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے: ’’اور انہوں نے کہا ہمارے دل غلاف میں ہیں‘‘۔ اسی کو بغض نے ’’دل پر غلاف ہے‘‘۔ (بصورتِ واحد) ترجمہ کیا ہے، بعض نے ’’دلوں پر غلاف ہے‘‘ (بصیغہ جمع) ترجمہ کیا ہے جو اصل نصّ سے قریب تر ہے۔ اور بعض نے یہی مفہوم ’’دل غلافوں میں ہیں‘‘۔  اور ’’دلوں پر غلاف چڑھایا ہوا ہے‘‘ ظاہر کیا ہے۔ بعض مترجمین نے غلاف کی بجائے ’’پردہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے مثلاً ’’ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں‘‘ جس میں قائل کی اپنی مذمت (اردو محاورے کے مطابق) کا پہلو نکلتا ہے حالانکہ وہ لوگ تو اسے فخریہ کہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن نے ان کے ’’فخر‘‘ ہی کو ’’مذمت‘‘ میں بدل کر رکھ دیا۔ (جیسا کہ آگے آرہا ہے) لہٰذا اس ترجمہ کی بجائے ’’ہمارے دل پردے میں ہیں‘‘۔ زیادہ بہتر ہے۔ بعض مترجمین نے ’’غلاف میں ہونا‘‘ کے تفسیری معنی ’’محفوظ ہونا‘‘ کی روشنی میں ترجمہ ہی ’’ہمارے دل محفوظ ہیں /قلوب محفوظ ہیں‘‘ کی صورت میں کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے۔

۱:۵۴:۲ (۲)     [بَلْ لَّعَنَھُمُ اللہُ بِکُفْرِھِمْ]

·       ’’ بَلْ‘‘ بنیادی طور پر ’’حرفِ اِضراب‘‘ ہے (اگرچہ بعض جگہ یہ حرف عطف کا کام بھی دیتا ہے)۔ ’’اِضْراب‘‘ کے لفظی معنی ہیں ’’مڑ کر پرے چلے جانا، کسی چیز سے الگ ہوجانا، چھوڑ دینا‘‘۔ یعنی ’’ بَلْ‘‘ عموماً وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں اس سے پہلے بیان کردہ بات کا انکار و ابطال (باطل ثابت کرنا) مطلوب ہوتا ہے اور ’’ بَلْ‘‘ کے بعد بیان کردہ بات کا اثبات اور تصحیح (ٹھیک ثابت کرنا) مقصود ہوتا ہے۔ اس حرف کا عام اردو فارسی ترجمہ ’’بلکہ‘‘ سے ہی کیا جاتا ہے تاہم اس کے استعمال کے مندرجہ بالا قاعدے کی وجہ سے یہ دراصل ’’لَیْسَ . . . . . لٰکنْ‘‘ کا مفہوم دیتا ہے، اس لیے اس کا درست اردو ترجمہ ’’نہیں بلکہ‘‘، ’’یوں نہیں بلکہ‘‘ اور ’’سو یہ بات نہیں ہے بلکہ‘‘ بنتا ہے اسی لیے بعض دفعہ مزید تاکید کے لیے اس سے پہلے ’’کَلَّا‘‘ (ہرگز نہیں ) لگتا ہے۔

·       بعض دفعہ ’’ بَلْ‘‘ سابقہ مضمون کے ’’ابطال‘‘ کی بجائے اس سے ’’انتقال‘‘ (دوسرے موضوع کی طرف آنا) کا مفہوم رکھتا ہے۔ اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ صرف ’’مگر‘‘ سے کرنا مناسب ہوتا ہے۔ ’’ بَلْ‘‘کے استعمال کے کچھ مزید قواعد بھی لغت و نحو کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔[1] تاہم ہمارا مقصد یہاں ہر قسم کے استعمال کے لیے موزوں اردو ترجمہ بیان کرنا ہے۔ جدید عربی میں اس کے بعد ’’ وَ ‘‘ استعمال کرتے ہیں ’’ بَلْ وَ ‘‘ جس کا مفہوم ’’صرف یہی نہیں بلکہ‘‘ ہوتا ہے۔ بہرحال جو آدمی اردو میں ’’بلکہ‘‘ کے مواقع استعمال جانتا ہے وہ عربی میں ’’   بَلْ ‘‘کے استعمالات کو بھی سمجھ سکتا ہے۔

(۲) ’’ لَعَنَھُمُ اللہ‘‘ میں وضاحت طلب (اور نیا) لفظ فعل ’’لَعَنَ‘‘ ہے۔ ضمیر منصوب ’’ ھُم‘‘ (ان کو) اس فعل کا مفول اور ’’ اللہ‘‘ فاعل ہے۔ ’’ لَعَنَ‘‘ (جیسا کہ اس کی شکل سے صاف ظاہر ہے) کا مادہ ’’ل ع ن‘‘ اور وزن ’’ فَعَلَ ‘‘ ہے یعنی یہ فعل ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد  ’’لعَن . . . . . یَلعَنُ لَعْنًا (فتح سے) کے بنیادی معنی ہیں ’’ (غصہ اور ناراضگی کی بناء پر) . . . . . کو پرے بھگا دینا یا دور کردینا‘‘۔ مثلاً عربی میں یوں بھی استعمال کرلیتے : لَعَنْتُ الکلبَ او الذئبَ ’’(میں نے کتے یا بھیڑئیے کو پرے بھگا دیا)۔ اس فعل کا فاعل اگر اللہ تعالیٰ ہو تو اس کا مطلب . . . . . کو بھلائی اور رحمت سے دور کردینا‘‘ ہوتا ہے، مثلا ’’لَعَنَہُ اللہُ‘‘ کا مطلب ہوگا ’’اللہ نے اسے اپنی رحمت سے محروم کردیا یا اسے عذاب میں گرفتار کیا‘‘۔ اسی کا اردو ترجمہ ’’پھٹکار دیا، (اس پر) خدا کی مار ہوئی‘‘ بھی ہے۔ اور چونکہ عربی کا لفظ ’’لعنۃ‘‘ ’’(بشکل ’’لعنت‘‘) اردو میں مستعمل ہے لہٰذا اس فقرے (لعنہ اللہ) کا ترجمہ ’’اللہ نے اس پر لعنت کی‘‘ بھی کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ فرق واضح رہے کہ جب فعل ’’لعَن یلعَن‘‘ کا فاعل کوئی انسان (یا کوئی غیر اللہ) ہو تو اس کا مطلب بس ’’بد دعا دینا‘‘ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ’’لَعَن فلانٌ فلاناً‘‘ (فلاں نے فلاں پر لعنت بھیجی یعنی اسے ’’علیکَ لَعنۃُ اللہِ‘‘ کہا)۔ جب کہ اللہ کا کسی پر لعنت کرنا، کا مطلب دنیا میں رحمت سے علیحدگی یا دوری اور آخرت میں عذاب دینا‘‘ ہوتا ہے۔

(۳) ’’بِکُفْرِھِمْ‘‘ (جو بِ+ کفر+ھم ہے) کی ابتدائی ’’باء (ب) یہاں سببیہ تعلیلیۃ ہے دیکھئے بحث استعاذہ یا البقرہ: ۴۵ [۱:۳۰:۲ (۱) ] اس کا اردو ترجمہ ’’کی وجہ سے، کے سبب، کے باعث، بسبب‘‘ کی صورت میں ہوسکتاہے۔ لفظ ’’کُفْر‘‘ فعل ’’کفَر یکفُر‘‘کا مصدر ہے۔ اردو ترجمہ بطور اسم ’’انکار‘‘ ہوسکتا ہے اور خود لفظ ’’کفر‘‘اردو میں مستعمل ہے۔ دیکھئے البقرہ:۶ [۱:۵:۲ (۱)] آخری ضمیر مجرور ’’ھم‘‘ بمعنی ’’ان کا‘‘ ہے۔ اس طرح ’’بکفرِھم‘‘ کا اردو ترجمہ ہوگا ’’ان کے کفر/انکار کی وجہ سے /کے سبب سے/کی بنا پر/کے باعث‘‘۔

·       اور پوری (زیر مطالعہ عبارت (بل لعنھم اللہُ بکفرھم) کا لفظی ترجمہ بنے گا ’’نہیں، بلکہ لعنت کی اللہ نے ان پر بسبب ان کے کفر کے‘‘۔ اسی کی بامحاورہ صورتیں ’’ان کے کفر سے ان پر خدا کی مار ہے/ان کے کفر کی وجہ سے خدا نے ان کو پھٹکار دیا‘‘۔ بیشتر مترجمین نے اسم جلالت (اللہ) کا ترجمہ نہیں کیا اور یہی بہتر ہے۔ مثلاً (سو یہ بات نہیں )بلکہ /نہیں بلکہ /یوں نہیں بلکہ اللہ نے ان پر لعنت کی/ان کو پھٹکار دیا /ان پر لعنت کر رکھی ہے‘‘ وغیرہ کی صورت میں۔ مفہوم سب کا ایک ہے، بس الفاظ کا انتخاب اپنا اپنا ہے، جس پر اب آپ تنقید بھی کرسکتے ہیں اور خوب اور خوب تر میں تمیز بھی کرسکتے ہیں۔

[فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ] عبارت کے تمام کلمات پہلے گزر چکے ہیں۔ مثلاً

 (۱) ’’فاء (فَ) کے معانی و اقسام البقرہ: ۲۲ [۱:۱۶:۲ (۱۰)]میں زیر بحث آئے تھے، یہاں فاء مستانفہ ہے، ترجمہ بہرحال۔ ’’پس/پھر‘‘ ہی ہوگا۔

(۲) ’’قَلِیْلاً‘‘ (جس کا مادہ ’’ق ل ل‘‘ اور وزن۔ یہاں۔ ’’فَعِیْلاً‘‘ہے) کے مادہ، فعل مجرد کے باب و معنی کے علاوہ خود لفظ ’’قلیل‘‘(بمعنی ’’تھوڑا، بہت کم‘‘) پر البقرہ:۴۱ [۱:۲۸:۲ (۱۲)]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

(۳)’’ مَا‘‘ یہاں ابہامیہ ہے، جس کا ترجمہ تو ’’کوئی سا/سی‘‘ بنتا ہے۔ ’’ ما‘‘کی اقسام بلحاظ معنی و استعمال پر البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۵)] میں اور ’’ مَا‘‘ ابہامیہ پر البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔

(۴) ’’یُؤْمِنُوْن‘‘ (جس کا مادہ ’’أ م ن‘‘ اور وزن ’’یُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے)اس کے مادہ ، فعل مجرد اور بابِ افعال سے اس کے استعمال پر مفصل لغوی بحث سب سے پہلے البقرہ:۳[۱:۲:۲ (۱)] میں ہوئی تھی ’’یُؤْمِنُوْنَ‘‘  کا ترجمہ ہے ’’وہ ایمان لاتے ہیں‘‘۔

·       تمام کلمات کے معنی معلوم ہوجانے کے باوجود اس عبارت کے ترجمہ کرنے میں ایک مشکل در پیش آتی ہے، اس کا تعلق عبارت کے اعراب سے ہے، لہٰذا اس کے تراجم پر بحث ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی، ان شاء اللہ۔

[وَلَمَّا جَآءَھُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ] اس عبارت کے بھی تمام کلمات پہلے گزر چکے ہیں۔ اگر آپ مزید وضاحت کے لیے ضرورت محسوس کریں تو مندرجہ ذیل حوالوں کی طرف رجوع کریں۔ مثلاً

(۱) ’’ وَ ‘‘ یہاں برائے استیناف ہے، ترجمہ ’’اور‘‘ہی کرلیا جاتا ہے۔ دیکھئے البقرہ:۸[۱:۷:۲ (۲)]

(۲)’’لَمَّا‘‘ الحینیہ ظرفیہ ہے، ترجمہ ’’جب، جس وقت‘‘ ہے۔ البقرہ: ۱۷ [۱:۱۳:۲ (۴)]

(۳)’’جَاء ھم، (ان کے پاس آیا)‘‘ ’’ھُمْ‘‘تو ضمیر منصوب ہے جس کا ترجمہ یہاں ’’کے پاس‘‘ ہی ہوسکتا ہے، کیونکہ ’’جاءھم‘‘ در اصل ’’جاء اِلَیْھِمْ‘‘ ہے، یعنی ان کی طرف آیا۔ خیال رہے ’’جاء عندھم‘‘ کہنا غلط ہے، مگر ’’جاءھم‘‘ یا ’’جاء الیھم‘‘ کہنا درست ہے۔ اس فعل ’’جاء یجیئُ‘‘ کے مادہ باب وغیرہ کے لیے دیکھئے  البقرہ: ۷۱ [۱:۴۴:۲ (۱۴)]

(۴)’’کتاب‘‘ اردو میں بھی متداوول (رائج) ہے۔ بہرحال لغوی تشریح کے لیے دیکھئے البقرہ:۲ [۱:۱:۲ (۲)]

(۵)’’من عند اللہ‘‘ (اللہ کی طرف سے) ’’مِن‘‘ (سے) کے استعمالات استعاذہ میں اور پھر [۱:۲:۲ (۵)] میں دیکھئے۔ ’’عِنْدَ‘‘ (کے پاس) جو ظرف مکان اور زمان دونوں کا کام دیتا ہے، کی مزید وضاحت کے لیے دیکھئے [۱:۳۴:۲ (۶) ] اسم جلالت (اللہ)پر لغوی بحث بسم اللہ میں گزری ہے۔

(۶)’’مُصَدِّقٌ‘‘ (تصدیق کرنے والا) کے لیے دیکھئے البقرہ: ۴۱ [۱:۲۸:۲(۹) ] میں

(۷)’’لِمَا‘‘ (اس کی جو کہ) لام الجر (لِ)کے معانی و استعمالات الفاتحہ:۲ [۱:۲:۱(۴)] میں بیان ہوئے تھے اور ’’مَا‘‘ (موصولہ بمعنی ’’جوکہ‘‘) پر مزید دیکھئے البقرہ:۳ [۱:۲:۲(۵) ]

(۸)’’مَعَھُمْ‘‘ (ان کے ساتھ) ’’ھُمْ‘‘ تو ضمیر ہے، ’’مَعَ‘‘ پر بات البقرہ: ۱۴[۱:۱:۲(۵)] میں ہوئی تھی۔

·       اس پوری عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور جب آئی ان کے پاس ایک کتاب جو اللہ کے پاس سے ہے، جو سچا کرنے والی ہے اس (چیز) کی جو ان کے ساتھ ہے‘‘۔ ’’جاء‘‘(آئی) کا بامحاورہ ترجمہ پہنچی/پہنچ گئی‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ ’’کتاب من عند اللہ‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ’’اللہ کی طرف سے کتاب‘‘ اور ’’ایک کتاب اللہ کے پاس سے‘‘ بھی کیا گیا ہے۔ تاہم اس میں ’’ایک کتاب . . . . .جو‘‘، وہ کتاب جو . . . . .(منجانب اللہ ہے‘‘) کے ساتھ ترجمہ کرنے والے اصل نحوی مفہوم سے قریب تر رہے ہیں۔ (اس کی وجہ پر آگے ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی) ۔ ’’مصدق‘‘کا  بامحاورہ ترجمہ بیشتر حضرات نے جملہ فعلیہ کی شکل میں کیا ہے، یعنی ’’سچا بتاتی ہے، تصدیق کرتی ہے‘‘ کی صورت میں۔ جو اردو محاورے کی مجبوری ہے جس میں اکثر عربی کے جملہ اسمیہ کا ترجمہ فعلیہ کی طرح کرنا پڑتا ہے۔ ’’لِمَا مَعَھُمْ‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ’’اس کی جو ان کے پاس ہے، اس کی جو ان کے پاس موجود ہے/تھی‘‘ سے بھی ہوسکتا ہے اور بعض نے یہاں ’’مَا‘‘ (جو) کا ترجمہ ’’وہ کتاب جو، اس کتاب کی جو‘‘ کی صورت میں یعنی لفظ ’’کتاب‘‘کے اضافے کے ساتھ کیا ہے اور بعض ’’ان کے ساتھ والی کتاب‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں کتاب توخیر تفسیری اضافہ ہے، البتہ ’’ان کے ساتھ والی ’’مَا مَعَھُمْ‘‘کا اچھا ترجمہ ہے جو بامحاورہ بھی ہے اور اصل لفظ سے قریب تر بھی ہے۔

·       یہ ، (زیر مطالعہ) عبارت اس لحاظ سے تو ’’جملہ‘‘ ہے کہ یہ اسماء، حرو ف اور افعال کا ایسا مرکب ہے جس سے کوئی مربوط مفہوم (بات) ذہن میں آتا ہے اور اسی لیے ہم نے اسے اکٹھا لیا ہے۔ تاہم ٹھیک نحوی پہلو سے یہ مکمل جملہ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ شروع کے شرطیہ ’’لَمَّا‘‘  کا جواب اس میں نہیں آیا۔ بلکہ اس جواب سے بھی پہلے یہاں ایک جملہ معترضہ (اگلا جملہ) آرہا ہے۔ اس لیے یہاں( اس عبارت کے آخر پر) عدم وقف کی علامت (لا) لکھی جاتی ہے کیونکہ بلحاظ مضمون یہ اگلی عبارت کے ساتھ مربوط ہے۔

[۱:۵۴:۲ (۳)]    [وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا] عبارت میں نیا لفظ صرف ’’یَسْتَفْتِحُوْنَ‘‘ ہے۔ بلکہ اس کا بھی اصل مادہ اور فعل مجرد پہلے گزر چکا ہے۔ بہرحال ہر لفظ کا ترجمہ اور ضرورت مند کے لیے لغوی تشریح کا گزشتہ حوالہ درج ذیل ہے۔

(۱) ’’وَ‘‘ یہاں حالیہ بھی ہوسکتی ہے اور عاطفہ بھی (وضاحت آگے ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی) ’’وَ‘‘ کی اقسام بلحاظ استعمال کے لیے دیکھئے [۱:۴:۱ (۳)]

(۲) ’’کانوا‘‘ (وہ تھے) کے مادہ، وزن، باب اور تعلیل وغیرہ کے لیے دیکھئے [۱:۸:۲ (۱۰)]

(۳) ’’مِنْ قبلُ‘‘ (پہلے بھی، پہلے تو)۔ ’’قبل‘‘ کے مادہ، وزن وغیرہ پر بات البقرہ:۴ [۱:۳:۲ (۴)] میں گزری ہے اور ’’قبل‘‘ سے پہلے ’’مِن‘‘کے استعمال اور اس کے لفظ و معنی پر اثرات کی بات البقرہ:۲۵ [۱:۱۸:۲ (۶) ] میں ہوئی تھی۔

(۴) ’’یَسْتَفْتِحُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ف ت ح‘‘ اور وزن ’’یَسْتَفْعِلُوْنَ‘‘ ہے، یعنی یہ اس مادہ سے باب استفعال کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے استعمال اور معنی وغیرہ پر البقرہ: ۷۶ [۱:۴۸:۲ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔ اس مادہ سے باب استفعال کے فعل ’’استفتح. . . . . یَستَفتِح استفتاحاً‘‘کے بنیادی معنی ہیں ’’. . . . . سے فتح (کھول دینا) طلب کرنا‘‘پھر اس سے اس میں ’’کھلوانا‘‘ (مثلاً دروازہ) ’’فیصلہ چاہنا‘‘، ’’نصرت (مدد) طلب کرنا‘‘، ’’فتح مانگنا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ ’’دعا مانگنا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے، یعنی ’’نصرت و فتحیابی کی دعا مانگنا‘‘۔ کیونکہ یہ بھی ’’مدد یا نصرت‘‘ طلب کرنے کی ہی ایک صورت ہے۔

·       اس فعل کا مفعول (جو ’’دروازہ‘‘ بھی ہوسکتا ہے مگر زیادہ استعمال اس کے لیے ہوتا ہے جس سے مدد یا نصرت طلب کی جائے) ہمیشہ بنفسہٖ آتا ہے۔ مثلاً کہیں گے ’’استفتح الباب‘‘( اس نے دروازہ کھلوایا۔ یعنی اس کا کھولنا طلب کیا) استعمال ہوتا ہے ’’استفتح فلاناً‘‘ (اس نے فلاں سے مدد یا فتح طلب کی) قرآن کریم میں اس فعل سے مختلف صیغے تین جگہ آئے ہیں، ہر جگہ مفعول محذوف (غیر مذکور) ہے، جو عبارت سے سمجھا جا سکتا ہے (مثلاً ’’اللہ تعالیٰ سے‘‘۔ خصوصاً جب اس کا ترجمہ ’’فتح کی دعا مانگنا‘‘ سے کیا جائے تو)۔

·       جس کے مقابلے پر (خلاف) فتح یا نصرت طلب کی جائے اس پر ’’علیٰ‘‘ کا صلہ آتا ہے، مثلاً کہتے ہیں ’’استَفْتَح فلانٌ فلاناً علی فلان‘‘ ’’(فلاں(۱) نے فلاں (۲) سے فلاں (۳) کے مقابلے پر فتح طلب کی/مدد مانگی)‘‘ اور جس شخص یا چیز کے ذریعے مدد طلب کی جائے اس پر باء (ب) کاصلہ آتا ہے (جو باء سببیہ ہوتی ہے) مثلاً اوپر والے فقرے کے ساتھ ہم ایک چوتھے ’’فلان‘‘کا اضافہ یوں کرسکتے ہیں ’’استَفْتَح فلانٌ ۱؎ فلاناً ۲؎ علیٰ فلانٍ ۳؎ بفلانٍ۴؎‘‘ یعنی ’’فلاں (۱) نے فلاں (۲) سے فلاں (۳) کےمقابلے پر فلاں (۴) کے ذریعے نصرت طلب کی‘‘۔ (پہلا ’’فلانٌ‘‘ فاعل کے لیے، دوسرا ’’فلاناً‘‘مفعول کے لیے ہے، باقی متعلق فعل ہیں)  بعض جگہ یہ سب حذف بھی کردئیے جاتے ہیں جیسے ’’ اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ ‘‘(الانفال:۱۹) میں ہے۔ تاہم سیاق عبارت سے ان کا تعین ہوسکتا ہے۔

(۱) ’’ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ‘‘ (ان لوگوں کے خلاف/مقابلے پر جو کافر ہوگئے)۔ یہاں ’’علیٰ‘‘ تو وہی صلہ ہے جو فعل ’’استفتح‘‘ کے بعد (جس کے مقابلے پر فتح مانگی جائے، اس پر) لگتا ہے (اور جس کا اوپر ذکر ہوا ہے) ’’الذین‘‘ (وہ لوگ جو) اور دیگر اسمائے موصولہ [۱:۶:۱ (۱)] میں بیان ہوئے تھے اور ’’کفروا‘‘ (کفر کیا، انکار کیا، نہ مانا) کے مادہ، وزن بابِ فعل وغیرہ پر بات البقرہ:۶ [۱:۵:۲ (۱)] میں ہوئی تھی۔

·       اس طرح اس پوری عبارت (كَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا)کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور /حالانکہ وہ تھے پہلے تو فتح طلب (کیا) کرتے ان کے مقابلے پر جو کافر ہوگئے‘‘۔ یہاں بھی محاورے کے لیے ’’الذین کفروا‘‘ کا ترجمہ ’’کفار، کافروں‘‘ کیا گیا ہے، حالانکہ اصل عبارت ’’علی الکافرین‘‘ نہیں، مگر مفہوم وہی ہے، اسی طرح ’’من قبل‘‘ کا ترجمہ بعض نے ’’اس کے قبل، اس سے پہلے‘‘ کی صورت میں کیا ہے یعنی ’’قبل‘‘ کے محذوف مضاف الیہ کے ساتھ جس کی کوئی مجبوری نہ تھی۔ جنہوں نے اس کا ترجمہ ’’پہلے سے‘‘ یا صرف ’’پہلے‘‘ کیا ہے وہ لفظ سے زیادہ قریب رہے ہیں۔

·       ’’کانوا یستفتحوان علی الذین کفروا‘‘ کا ترجمہ اکثر نے ’’فتح مانگتے تھے کافروں کے مقابلے پر‘‘ سے ہی کیا ہے۔ بعض نے ’’فتح کی دعائیں مانگتے تھے‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے جو بلحاظ مفہوم درست ہے۔ تاہم یہاں ’’کانوا یستفتحون‘‘ (جس کے درمیان میں ’ ’ من قبل‘‘ آیا ہے) کے دو ترجمے ایسے بھی کیے گئے ہیں جو تنقید و تبصرہ کے مستحق ہیں۔

(۱)  ایک مشہور مترجم نے اس حصۂ عبارت کا ترجمہ کیا ہے۔ ’’اور اس سے پہلے وہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے‘‘۔ یہ نہ صرف ترجمہ کی حدود سے صریح تجاوز ہے، بلکہ اس میں ’’اسی نبی کے وسیلہ سے‘‘ کے الفاظ مترجم اپنا عقیدہ بیان کرکے (قطع نظر اس بات کے کہ وہ غلط ہے یا درست) علمی خیانت (بلکہ اپنا ’’لچ تلنے‘‘) کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں عبارت میں کہیں ’’بہٖ‘‘ کی قسم کا لفظ نہیں آیا، یعنی ذریعہ نصرت بیان ہی نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی مترجم بھی یہاں ’’. . . . .کے ذریعے‘‘ کی قسم کے الفاظ ترجمہ میں نہیں لایا۔ پھر یہ بھی ہے کہ یہاں تو ’’کتاب‘‘ کے آنے (اور پھر اس کے انکار) کا ذکر ہے ’’رسول یا نبیؐ‘‘ کا تو لفظ بھی نہیں آیا۔ تفسیری ترجمہ کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ اپنے ذاتی خیالات کے اظہار کے لیے ترجمہ کے نام پر ایسے من مانے الفاظ کا اضافہ (جو اصل نص قرآنی میں سرے سے موجود ہی نہیں) تو ’’ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَمَا ھُوَ مِنَ الْكِتٰبِ ‘‘ (آل عمران:۷۸) کی قسم کی صریح تحریف ہے۔ اگر تفسیر یا حاشیئے میں یہ حرکت کی جائے (اگرچہ وہ بھی معنوی تحریف ہوگی) تو کم از کم ’’عذر‘‘ یا ’’حیلہ‘‘ کی ایک صورت ہوسکتی ہے۔ مگر خود ساختہ اضافوں کو نص کے ترجمہ کے طور پر پیش کرنا تو بڑی ہی ’’دلیری‘‘ ہے۔

(۲) دو حضرات نے اسی عبارت (كَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا) کا ترجمہ ’’اور /حالانکہ اس کے قبل وہ (خود) کافروں/کفار سے بیان کیا کرتے تھے‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ فعل مجرد میں ’’فتح علی‘‘ کے معنی تو  ’’. . . . .پر ظاہر کرنا، بتلانا، منکشف کرنا‘‘ وغیرہ ہوتے ہیں، جیسا کہ البقرہ: ۷۶ [۱:۴۸:۲ (۲)] میں آیا ہے، مگر ’’استفتح علی. . . . . ‘‘کے معنی کسی کتاب لغت (مثلاً لسان العروب، القاموس، المعجم الوسیط، المفردات، Laneکی حد تک تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے) میں ’’. . . . . سے بیان کرنا‘‘ بیان نہیں ہوئے۔ مجرد میں ’’علیٰ‘‘ کے صلہ کے استعمال کو مزید فیہ میں قیاساً بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ کتب لغت کے مطابق تو ’’استفتح‘‘کے ساتھ ’’علیٰ‘‘لگتے ہی اس کے معنی ’’. . . . کے خلاف مدد مانگنا‘‘ہوجاتے ہیں۔ البتہ زمخشری نے کشاف میں یہ معنی’’قبل‘‘ کہہ کر بیان کیے ہیں ’’وقیل معنی یستفتحون یفتحون علیھم و یعرفونھم ان نبیک بعث منھم قد قرب او انہ‘‘ لہٰذا یہ ترجمہ صرف تفسیری ترجمہ سمجھ کر ہی درست قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کا پس منظر یہی ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہود مدینہ اکثر اپنے اردگرد رہنے والوں سے یہ کہتے رہتے تھے کہ عنقریب ایک نیا نبی ظاہر ہونے والا ہے اور پھر ہم اس کا ساتھ دے کر اس کی مدد اور برکت سے بت پرستوں پر فتح پا لیں گے۔ یعنی وہ یہ بات ان سے بیان کرتے تھے ۔[2] ورنہ بظاہر تو اس ترجمہ میں بھی نص قرآنی کے (لغوی معنی اور) ترجمہ کی حد سے تجاوز ہے۔ تاہم اس میں اصل نص پر کوئی خود ساختہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ یعنی اس ترجمہ میں ’’تاویل‘‘ تو ہے مگر ’’تحریف‘‘ نہیں ہے، برخلاف مقدم الذکر ترجمہ کے جس میں صاف ’’تحریف‘‘ ہے۔

۱:۵۴:۲ (۴)     [فَلَمَّا جَاءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ] اس عبارت میں نیا لفظ صرف ’’عَرَفُوا‘‘ہے ۔ باقی تمام کلمات براہ راست (یعنی اپنی موجودہ شکل میں) یا بالواسطہ (یعنی بلحاظ مادہ وہ فعل وغیرہ) پہلے گزر چکے ہیں۔ تفصیل یوں ہے:

(۱) ’’فَلَمَّا جَاءَھُمْ‘‘(پس/پھر جب آیا ان کے پاس) یہی عبارت ابھی اوپر شروع میں ’’ولما جاءھم‘‘ کی صورت میں گزری ہے، وہاں ابتداء میں ’’ وَ‘‘ تھی یہاں ’’ف‘‘ ہے۔

(۲) ’’ مَا‘‘ (جو کہ) موصولہ ہے۔ پہلی دفعہ ’’ما‘‘پر [۱:۲:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی۔

(۳) ’’عَرَفُوْا‘‘کا مادہ ’’ ع ر ف‘‘ اور وزن ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس سے فعل مجرد ’’ عرَف . . . . . یَعرِفُ عِرْفانًا و مَعْرِفۃً ‘‘)ضرب سے) آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں’’. . . . .کو پہچان لینا‘‘۔اس میں بنیادی مفہوم یہ ہے کہ ’’کسی چیز کو پہلے تو حواس خمسہ میں سے کسی ایک حِسّ کے ذریعے اور پھر اس پر سوچ بچار (تفکر و تدبّر) سے کام لے کر جان لینا۔ شناخت کرلینا‘‘۔ لفظ ’’معرفۃ‘‘ علم کی نسبت خاص ہے۔ ہر ’’معرفۃ‘‘ ’’علم‘‘ ہے مگر ہر ’’علم‘‘ معرفت نہیں مثلاً ’’عرَف اللہ‘‘(اس نے اللہ کو پہچانا یعنی اس کی قدرتوں میں سوچ بچار کرکے) کہہ سکتے ہیں مگر ’’عَلِمَ اللہَ‘‘( اس نے اللہ کو جان لیا) نہیں کہتے، کیونکہ ذات کی حقیقت کا علم کسی کو نہیں ہوسکتا۔ اس کے مقابلے پر ’’عَلِمَ اللہُ‘‘ (اللہ نے جان لیا) تو کہہ سکتے ہیں مگر ’’عرَف اللہُ‘‘ (اللہ نے پہچان لیا) نہیں کہتے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا علم کسی سوچ بچار پر منحصر نہیں ہے (علم اور معرفت میں یہ دقیق فرق المفردات میں بیان کیا گیا ہے)

·       اس مادہ سے فعل مجرد بعض دوسرے ابواب (مثلاً سمع اور کرم) سے بھی مختلف معانی (مثلاً سردار ہونا، خوشبو کا استعمال ترک کردینا یا الٹا زیادہ کرنا اور مرغ کی کلغی نکل آنا وغیرہ)  کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم یہ استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔

قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے بیس جگہ آئے ہیں۔ یہ سب باب ضرب سے اور ’’پہچان لینا‘‘ والے معنی میں استعمال ہوئے ہیں مزید فیہ کے بعض /ابواب (تفعیل، تفاعل اور افتعال) سے بھی مختلف صیغہ ہائے فعل سات جگہ آئے ہیں۔ ان کے علاوہ اس مادہ (اور اس کے افعال) سے مشتق اور ماخوذ اسماء (عرف، معروف، اعراف، عرفات وغیرہ) بھی کم و بیش چالیس مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’عرفوا‘‘اس فعل مجرد سے فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس کا ’’مما‘‘ کے ساتھ (ماعرفوا) کا ترجمہ بنتا ہے ’’جو کچھ پہچانا تھا/جو/جس کو پہچان رکھا تھا/جس کو خوب پہچانتے تھے/جسے پہچانتے ہیں وغیرہ‘‘ (اصل صیغہ ماضی کا ہے، شرط کے مفہوم سے بعض نے حال میں ترجمہ کردیا ہے)۔

(۴) ’’کفروا بہ‘‘ (انہوں نے اس کا انکار کردیا /وہ اس کے کافر ہوگئے) فعل مجرد ’’کفر یکفر‘‘ (کافر ہونا) اور اس کے مفعول کے بنفہ آنے یا ’’باء (ب) ‘‘ کے صلہ کے ساتھ آنے کے استعمال وغیرہ پر البقرہ:۶ [۱:۵:۲ (۱)] میں بات ہوچکی ہے۔

·       اس طرح اس پوری عبارت (فلما جاءھم ما عرفوا کفروا بہ)کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’پس جب آیا ان کے پاس (وہ) جو کہ پہچان لیا انہوں نے (تو) اس کے کافر ہوگئے‘‘۔ ابتدائی ’’فَ‘‘ کا ترجمہ ’’پھر‘‘ ، ’’تو‘‘ اور ’’سو‘‘ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ’’جاءھم‘‘ کا ترجمہ ’’ آپہنچا‘‘، ’’پہنچ گیا‘‘ بھی کیا جا سکتا ہے اور ’’مَا‘‘ کا ترجمہ بعض نے تو ’’وہ چیز جو کہ، وہ چیز جس کو‘‘ سے کیا ہے جس سے بظاہر ابتداء میں مذکور ’’کتاب‘‘، (’’ولما جاءھم کتاب‘‘) ہی کی طرف اشارہ ہے، تاہم چوکہ ’’مَا‘‘بمعنی ’’الذی‘‘بھی استعمال ہوسکتا ہے اس لیے یہاں یہ (مَا) ’’رسول‘‘ کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ اس بنا پر بعض نے ترجمہ ’’وہ جو/وہ جس کو‘‘ سے کیا ہے اور بعض نے یہاں ’’ مَا ‘‘سے مراد صرف آنحضور ؐ کو لے کر ’’جا ءھم‘‘ کا ترجمہ (احتراماً) ’’تشریف لایا ان کے پاس‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ اسے تفسیری ترجمہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ’’کفروا بہ‘‘ کا ترجمہ ’’اس سے منکر ہوگئے‘‘، ’’اس کا صاف انکار کربیٹھے‘‘، ’’لگے اس سے انکار کرنے‘‘ اور اسی سے ’’کفر کر بیٹھے، منکر ہوبیٹھے‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے، جو محاورہ کی مختلف صورتیں ہیں۔ مفہوم یکساں ہے۔

۱:۵۴:۲ (۵)     [فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ]اس عبارت میں بھی کوئی لفظ ’’بالکل‘‘ نیا نہیں ہے۔ ابتدائی لفظ ’’لعنۃ (جو ’’ل ع ن‘‘ سے بروزن ’’فَعْلَۃٌ‘‘ ہے)  کے معنی وغیرہ فعل مجرد ’’لَعن یلعَنُ ‘‘(لعنت کرنا) کے ضمن میں اسی قطعہ زیر مطالعہ کے شروع میں [۱:۵۴:۲ (۲)] میں بیان ہوچکے ہیں۔ لفظ ’’لَعْنَۃ‘‘(جو اردو میں ’’لعنت‘‘ کی املاء کے ساتھ مستعمل ہے) اس فعل مجرد سے ماخوذ ایک اسم ہے جس کا اردو ترجمہ ’’پھٹکار‘‘ اور ’’خدا کی مار‘‘ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح لفظ ’’الکافرین‘‘ (جوفعل (کفَر یکفُر سے سے اسم الفاعلین ہے) کا لفظی ترجمہ تو ’’کفر کرنے والے/کافر ہونے والے/منکر ہونے والے/انکار کرنے والے‘‘ ہوسکتا ہے، مگر خود لفظ ’’کافروں‘‘ اردو میں مستعمل ہے، اسی لیے اس کا کوئی اور ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اِس طرح پوری عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’پس لعنت ہے اللہ کی اوپر کافروں کے‘‘۔ ’’پس‘‘ کی بجائے ’’فاء (فَ)‘‘کا ترجمہ ’’سو، تو‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ ’’لعنۃ اللہ‘‘ کا ترجمہ ’’خدا کی پھٹکار/خدا کی مار‘‘ بھی ہوسکتا ہے، تاہم اکثر مترجمین نے ’’اللہ کی لعنت‘‘ سے ہی ترجمہ کیا ہے۔ چونکہ اس میں ایک مفہوم بد دعا کا بھی ہوسکتا ہے (اگرچہ ویسے بظاہر یہ جملہ خبریہ ہے) اس لیے بعض نے ترجمہ ’’اللہ کی لعنت ہو‘‘ سے بھی کیا ہے۔ ’’علی الکافرین‘‘کا ترجمہ ’’منکروں پر‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور بعض نے ’’الکافرین‘‘کے لامِ تعریف کی بناء پر ’’ایسے منکروں پر/ایسے کافروں پر‘‘ کی صورت میں بھی ترجمہ کیا ہے (یعنی لام عہد سمجھتے ہوئے)۔

 

۲:۵۴:۲      الاعراب

زیر مطالعہ قطعہ کو نحوی اعتبار سے سات جملوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم بعض جملے شرط اور جوابِ شرط ہونے کے اعتبار سے اور بعض فاء عاطفہ اور واو عاطفہ یا حالیہ کے ذریعے باہم مربوط ہیں۔ ذیل میں تمام ’’نحوی‘‘ جملوں کے اعراب کی الگ الگ بات کی جاتی ہے اور ہر جملے کے دوسرے جملے کے ساتھ تعلق کی بھی وضاحت کردی جائے گی۔

(۱) وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ

[وَ] مستانفہ ہے، یہاں سے ایک الگ بات شروع ہوتی ہے [قالوا] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ہے جس کی علامت صیغۂ فعل کی آخری ’’واو الجمع‘‘ ہے۔ [قلوبُنا] مضاف (قلوب)اور مضاف الیہ (نا)مل کر مبتدأ ہے، اسی لیے ’’قلوب‘‘مرفوع ہے، علامت رفع اس میں ’’ب‘‘کا ضمہ (ـــــُـــــ) جودر اصل قلوب کے مضاف ہونے کے باعث تنوین رفع سے مخفف ہوگیا ہے۔ [غُلْفٌ] خبر (لہٰذا یہ بھی) مرفوع ہے، علامت رفع آخر پر تنوین رفع (ـــــٌـــــ)یہ جملہ اسمیہ (قلوبنا غلف) فعل ’’قالوا‘‘ کا مقول (مفعول) ہونے کے اعتبار سے محل نصب میں ہے۔ یہ ایک مکمل جملہ ہے، اس لیے اس کے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے۔

(۲)  بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِھِمْ

[بل] حرف اِضراب ہے جو ’’لیس کذٰلک لٰکِنْ‘‘ (ایسا نہیں بلکہ) کا مفہوم دیتا ہے۔ یہ اس لحاظ سے حرف عطف بھی ہے کہ در اصل اس کے بعد والے جملے کا اس سے سابقہ جملے سے ایک تعلق بنتا ہے یعنی پہلے جملے میں بیان کردہ بات کی تردید اور بعد والے جملے میں بیان کردہ بات کی توثیق ہوتی ہے۔ [لعنھم] اس میں ’’لَعَن‘‘ فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے اور ’’ھم‘‘ ضمیر منصوب مفعول ہے، جو فاعل سے مقدم آئی ہے (ضمیر مفعول ہو تو ہمیشہ فاعل سے پہلے آتی ہے) [اللہُ] فعل ’’لعنَ‘‘ کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے۔ علامتِ رفع آخری ’’ہ‘‘ کا ضمہ(ـــــُـــــ) ہے [بکفرھم] کی ابتدائی باء الجر (بِ) یہاں بلحاظ کا معنی سببیہ ہے۔ ’’کفر‘‘ مجرور بالجر ہے اور آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے اس لیے اس میں علامتِ جر آخری ’’ر‘‘کی کسرہ (ــــــِــــ) رہ گئی ہے اور ضمیر مجرور ’’ھم‘‘ اس (کفر)کا مضاف الیہ ہے۔ اس طرح یہ سارا مرکب جارّی (بکفرھم) متعلق فعل (لعَنَ) ہے۔

(۳) فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ

[فاء (ف)] یہاں برائے استیناف ہے اور [قلیلاً] یہاں ایک محذوف مصدر (مفعول مطلق) کی صفت ہے، اس لیے منصوب ہے، یعنی در اصل ہے ’’ایماناً قلیلاً‘‘ (’’ایماناً‘‘ مصدر کا فعل آگے آ رہا ہے)۔ [ما] ابہامیہ ہے جس کا ترجمہ ’’کوئی سا/کچھ بھی‘‘ ہوتا ہے اس طرح ’’قلیلاً  مّا‘‘کا مطلب ہے ’’کوئی تھوڑا سا /بس ذرا سا/بہت ہی تھوڑا سا‘‘ [یؤمنون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے۔ اس طرح اس عبارت کی عام سادہ نثر کچھ یوں بنتی ہے: ’’فیؤمنون (ایماناً) قلیلاً مّا‘‘ جس کا ترجمہ بنتا ہے ’’پس وہ ایمان لاتے/رکھتے ہیں بہت ہی تھوڑا سا (ایمان)‘‘۔  اردو مترجمین میں سے صرف چند ایک نے اس ترکیب نحوی کی روشنی میں (یعنی قلیلاً کی نصب کی وجہ سمجھ کر) ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’بہت کم یقین /ایمان لاتے/رکھتے ہیں‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ اس میں بھی ’’بہت کم‘‘ کو یقین اور اور ایمان کی صفت سمجھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ ’’ایمان رکھنے والوں‘‘ کی صفت بھی معلوم ہوتی ہے۔ مگر بعض حضرات نے اس کا ترجمہ ’’ان میں بہت کم/تھوڑے ایمان لاتے ہیں‘‘ کیا ہے۔ یہ ترجمہ محل نظر ہے۔ اس لیے کہ یہ تو ’’قلیلٌ منھم یؤمنون‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے۔ اول تو یہاں ’’قلیلٌ‘‘ مرفوع نہیں ہے کہ اسے مبتدأ یا فاعل سمجھا جائے، دوسرے اس میں اصل عبارت پر ’’منھم‘‘ کا خود ساختہ اضافہ ہے۔ بعض حضرات نے ’’تھوڑے سے ایمان لاتے ہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں اگرچہ ’’منھم‘‘ (ان میں سے) والا اضافہ تو نہیں مگر ’’قلیلاً‘‘ کی نصب ( کی وجہ) کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اگر یہ ’’تھوڑا سا ایمان لاتے ہیں‘‘ ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔

(۴)  وَلَمَّا جَاۗءَھُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ

[وَ] یہاں بھی مستانفہ ہے اور [لمّا]حینیہ ظرفیہ ہے جس میں شرط کا سا مفہوم شامل ہے۔ اگرچہ یہ فعل ماضی سے پہلے آتا ہے اور معنی بھی ماضی کے ہی دیتا ہے۔ [جاءھم] ’’جاء‘‘فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب اور ’’ھم‘‘ ضمیر منصوب اس کا مفعول ہے [کتابٌ] فعل ’’جاء‘‘ کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے، علامتِ رفع آخر پر تنوین رفع (ــــٌـــــ)ہے، جو اسے نکرہ موصوفہ بھی بنا رہی ہے، یعنی ’’ایک ایسی کتاب جو‘‘ کا مفہوم دے رہی ہے۔ [مِن عندِ اللہِ] ’’مِنْ‘‘ حرف الجر ہے ’’عند‘‘ ظرف مضاف ہے جو ’’منْ‘‘ کی وجہ سے مجرور (بالجر) بھی ہے۔ علامت جر ’’د‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ) ہے۔ ’’اللہ‘‘ ظر ف ’’عند‘‘ کا مضاف الیہ ہے اس لیے مجرور (با الاضافۃ) ہے علامتِ جر اسم جلالت کے آخر پر کسرہ (ـــــِــــ) ہے۔  یوں یہ مرکب جاری (من عند اللہ) لفظ ’’کتابٌ‘‘(نکرہ موصوفہ) کی صفت کا کام دے رہا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’منجانب اللہ‘‘ کیا ہے جو اصل عربی کے برابر (مشکل) ہے [مصدِّقٌ] یہ کتابٌ کی صفت ثانی ہے اور یہ بلحاظ اعراب لفظاً بھی ’’کتاب‘‘ کے (صفت موصوف کے چاروں لحاظ سے) مطابق ہے [لِمَا] لام الجر اور ’’ما‘‘ موصولہ مل کر ’’مصدق‘‘ سے متعلق ہیں، یعنی اس کے فعل کے معنی (تصدیق کرنا) سے متعلق ہیں (کہ کس کی تصدیق کرتی ہے؟۔ ’’اس کی جو‘‘) [معھم]ظرف ’’مع‘‘ مضاف اور ’’ھم‘‘ ضمیر مضاف الیہ ہے اور یہ پورا مرکب اضافی (جو ظرف مکان کا کام دے رہا ہے) ’’ما‘‘ کا صلہ ہے۔ یہ پورا جملہ اس لحاظ سے ابھی نامکمل ہے کہ اس میں ابھی ’’ لَمَّا‘‘ کا جواب (شرط) بیان نہیں ہوا۔ اس پر آگےبات ہوگی۔

(۵)  وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ښ 

[وَ] حالیہ ہے یا ان معنی میں عاطفہ ہوسکتی ہے کہ سابقہ جملے (۴) کے بعد ’’لَمَّا‘‘ کا جواب محذوف مانا جائے مثلاً ’’فاَنکروہ‘‘ (تو انہوں نے اس کا انکار کردیا) پھر اس ’’وَ‘‘ کے ذریعے مابعد والے جملے کو اس محذوف جملے پر معطوف سمجھا جائے۔ [کانوا] فعل ناقص ہے جس میں اس کا اسم (ھُم) شامل ہے [مِن قبلُ] ظرف (قبل)مجرور بالجر (مِنْ) ہے اور مضاف الیہ کے نہ ہونے کے باعث ضمہ (ـــــُـــــ) پر مبنی ہے [یستفتحون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ اسے ’’کانوا‘‘ (ناقصہ) کی خبر بھی کہہ  سکتے ہیں اور ’’کانوا یستفتحون‘‘اکٹھا ماضی استمرار ی کا صیغہ بھی بنتا ہے۔ [علیٰ] حرف الجر اور [الذین]اسم الموصول مجرور بالجر (علیٰ) ہے  [کفروا] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ اور یہ (کفروا) جملہ فعلیہ بن کر ’’الذین‘‘ کا صلہ ہے۔ اور یہ پورا مرکب جارّی (علی الذین کفروا) مل کر متعلق فعل (یستفتحون) ہے۔ یہ جملہ واو الحال کے باعث ایک جملہ معترضہ ہے جو سابقہ جملے (۴) اور اگلے جملے (۶) کے درمیان واقع ہوا ہے۔ جملہ معترضہ چونکہ اپنے سابقہ جملے کا ہی حصہ ہوتا ہے (در اصل یہ اس پر ایک تبصرہ ہوتا ہے) اس لیے یہاں سابقہ جملے (۴) کے بعد عدم وقف کی علامت (لا) ڈالی جاتی ہے۔

(۶) فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ  

[فاء(فَ)]عاطفہ ہے جس کے ذریعے ما بعد مضمون کو سابقہ جملے (۴) پر عطف کیا گیا ہے، بلکہ اسی کی تکرار کی گئی ہے۔ [لمّا] حینیہ ظرفیہ ہے [جاءھم] اوپر جملہ ۴ والے ’’جاءھم‘‘ کی طرح ہے [ما] اسم  موصول فعل ’’جاء‘‘ کا فاعل لہٰذا محلاً مرفوع ہے [عرفوا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے اور یہ مکمل جملہ فعلیہ (فعل مع ضمیر الفاعلین) اسم موصول ’’ما‘‘کا صلہ ہے اور در اصل یہاں ایک ضمیر عائد محذوف ہے، یعنی در اصل ’’ما عرفوہ‘‘  تھا [کفروا] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ہے اور [بہ]جار مجرور کو متعلق فعل (کفروا) سمجھ لیں یا ’’بِ‘‘ کو فعل ’’کفروا‘‘کا صلہ سمجھ کر ’’بہ‘‘کو مفعول بہ لہٰذا محلاً منصوب قرار دے لیں۔

·       یہ پورا جملہ تو اپنی جگہ مکمل ہے کہ اس میں ’’کفروا بہ‘‘کی شکل میں ابتدائی ’’فلمّا‘‘ کا جواب بھی موجود ہے۔ اگر سابقہ ’’ولما‘‘(جملہ۴) کا جواب ایک محذوف جملہ (فانکروہ یا کفروا بہ)مانا جائے تو یہ دوسرا جملہ (۶) دوبارہ اسی مضمون کی بانداز  دگر تکرار ہے۔ تاہم بعض نحویوں کے نزدیک یہ جملہ (۶) ہی سابقہ جملہ (۴) کے ’’لمّا‘‘ کا جواب ہے جس میں درمیان والے جملہ معترضہ (۵) کی بنا پر ’’فلما جاءھم‘‘کی تکرار کرنی پڑتی ہے۔ اصل جوابِ ’’لمّا‘‘ تو ’’کفروا بہ‘‘ ہی ہے۔ دوسرا ’’فلما جاءھم‘‘ پہلے ’’ولما جاءھم‘‘کا بدل ہی ہے۔ اور جملہ ۶  کا ’’ما عرفوا‘‘ جملہ ۴ کے ’’کتاب‘‘ کا بدل بنتا ہے۔

(۷) فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ

[فاء (فَ)] یہاں تعلیلیہ (بمعنی ’’اس لیے تو‘‘) ہے [لعنۃُ]مضاف اور [اللہِ] مضاف الیہ مل کر مبتدأ ہے اس لیے لفظ ’’لعنۃ‘‘ مرفوع ہے جو مضاف ہو کر خفیف ہوگیا ہے۔ علامتِ رفع آخری ’’ۃ‘‘  کا صرف ضمہ (ــــُـــــ) رہ گیا ہے[علی الکافرین] جار مجرور مل کر خبر کا کام دے رہے ہیں یا قائم مقام خبر ہیں، کیونکہ اصل خبر ایسے موقع پر محذوف ہوتی ہے۔ یہ جملہ اسمیہ اپنی جگہ مستقل جملہ ہے یعنی کسی سابقہ جملے کا فاعل مفعول صفت وغیرہ نہیں ہے۔ اسی لیے بعض مصاحف میں اس سے پہلے والے جملے کے آخر پر ایک علامت وقف (ز) ڈالی جاتی ہے۔

 

۳: ۵۴:۲       الرسم

بلحاظ رسم اس پورے قطعہ (زیر مطالعہ) میں صرف دو کلمات قابل ذکر ہیں یعنی ’’کتاب‘‘ اور ’’الکافرین‘‘ (جو یہاں سمجھانے کے لیے رسم املائی میں لکھے گئے ہیں)۔

(۱)’’کتاب‘‘قرآن کریم میں ہر جگہ بحذف الف بعد التاء یعنی بصورت ’’کتب‘‘  لکھا جاتا ہے ماسوائے چار خاص جگہوں کے اس کے رسم کی تفصیل اس سے پہلے البقرہ:۲ [۳:۱:۲]میں گزر چکی ہے۔

(۲)’’الکافرین‘‘ قرآن کریم میں ہمیشہ بحذف الف بعد الکاف یعنی بصورت ’’الکفرین‘‘ لکھا جاتا ہے۔ اس کے رسم پر بھی مفصل بحث اس سے پہلے البقرہ: ۱۹ [۳:۱۴:۲] میں ہوچکی ہے۔

ان دونوں کلمات کا مذکورہ بالا رسم عثمانی (قرآنی) متفق علیہ ہے۔

 

۴:۵۴:۲     الضبط

    اس قطعہ (زیر مطالعہ ) کے کلمات میں ضبط کا تنوع حرکات کی شکلوں کے اختلاف کے علاوہ زیادہ تر واو ساکنہ ماقبل مضموم یاء ساکنہ ماقبل مکسور، نونِ مخفاۃ اور نونِ مظہرہ کے علاوہ ہائے کنایہ اور اسم جلالت کے ضبط میں ہے اور افریقی مصاحف میں ’’ف‘‘ اور ’’ق‘‘ کے اعجام کے فرق کے علاوہ نون متطرفہ (کلمہ کے آخر پر آنے والے نون) کا عدم اعجام بھی قابل غور ہے۔

    تفصیل مندرجہ ذیل نمونوں سے سمجھی جا سکتی ہے۔

 



[1] (مثلاً دیکھئے معجم النحو ص ۸۸۔۸۹ اور اس پر سب سے عمدہ بحث مع بیان امثلہ امام راغب اصفہانی کی المفردات (ص ۵۸۔۵۹) میں کی گئی ہے۔ تاہم یہ بحث اہل علم حضرات کے ذوق کی تسکین کا سامان ہے۔ عام طالب علم کا مقصود تو ’’موزوں اردو ترجمہ‘‘ ہی ہے۔

 

[2] بلکہ یہود مدینہ سے سنی ہوئی یہی بات ان چھ انصار مدینہ کے اسلام قبول کرنے کا باعث بنی تھی جو ہجرت سے دو سال پہلے منیٰ کے قریب عقبہ (گھاٹی) کے پاس آنحضرت ﷺ سے ملے تھے۔ تفصیل کسی کتابِ سیرت میں دیکھی جا سکتی ہے۔