سورۃ  البقرہ آیت نمبر۹ اور ۱۰

۸:۲     يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا  ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ  (۹)  فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ   ۙ   فَزَادَھُمُ اللّٰهُ مَرَضًا    ۚ   وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ       ڏ   بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ(۱۰) [1]

۱:۸:۲      اللغۃ

۱:۸:۲(۱)     [یُخَادِعُونَ] اس لفظ (جو عام عربی املاء میں اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے عثمانی رسم پر بات آگے بحث الرسم میں آئے گی) کا مادہ ’’خ د ع‘‘ اور وزن ’’یُفَاعِلُونَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’ خدَع… یخدَع خَدْعًا ‘‘(باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے ایک بنیادی معنی ’’کپڑے کو دوہرا کرکے اس کا ایک حصہ چھپا لینا‘‘ ہیں۔ پھر اس سے یہ فعل ’’…کو دھوکا دینا، …کو فریب دینا، …کو دغادینا، …کو چکما دینا اور …کے ساتھ چالبازی کرنا‘‘ کے معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (مندرجہ بالا تمام معانی قرآن کریم کے مختلف اردو مترجمین نے استعمال کئے ہیں)۔ اور اس فعل کے بعض دوسرے معانی اور استعمالات میں بھی یہ معنی جھلکتے محسوس ہوتے ہیں مثلاً ’’بازار کا مندا ہونا‘‘، ’’بارش کا کم ہونا‘‘ یا ’’لعاب ِدہن کا خشک ہونا‘‘ وغیرہ میں ـــ [2] تاہم قرآن کریم میں یہ فعل ان مؤخر الذکر معنوں میں سے کسی کے لیے استعمال نہیں ہوا۔ قرآن کریم میں اس فعل ثلاثی مجرد سے فعل مضارع کے صرف دو صیغے (دو جگہ) آئے ہیں اور اسم فاعل کا صیغہ صرف ایک جگہ آیا ہےـــ اور تینوں جگہ یہ صرف ’’دھوکا، فریب اور دغا‘‘ والے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

·       ’’ یُخَادِعون‘‘ اس مادہ (خدع) سے باب مُفاعلہ کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ خِداع یا مُخادَعَۃ (جو اس مادہ سے باب مفاعلہ ’’خادَع یخادِع‘‘ کے مصدر ہیں)ـــ کو اہلِ لغت ثلاثی مجرّد فعل (جس کے معنی اوپر بیان ہوئے ہیں) کے ہم معنی ہی قرار دیتے ہیں۔ یعنی اس میں دو طرفہ فعل (بین اثنین) مراد لینا ( جو عموماً باب مفاعلہ کی ایک خصوصیت بیان کی جاتی ہے) لازمی نہیںـــ  اس لئے کہ باب مفاعلہ میں ’’یک طرفہ‘‘ (بغیر مشارکت) افعال کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً ’’عاقَب اللِصّ‘‘ (چور کو سزادی) یا ’’عافاہ اللّٰہ‘‘ (اللہ نے اسے عافیت دی) وغیرہ میں ـــ البتہ بعض اہل لغت نے اس مادہ (خدع) سے باب مفاعلہ اور مجرد کے معنوں میں یہ باریک فرق بیان کیا ہے[3] کہ مخادعۃ یا خداع (جو باب مفاعلہ کے مصدر ہیں) کے معنی ہیں ’’کسی کو دھوکا دینے کی ناکام کوشش کرنا‘‘ جب کہ خَدْعٌ (جو ثلاثی مجرد کا مصدر ہے) کے معنی ہیں ’’کسی کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوجانا‘‘ـــ اور بعض نے خِداع (مفاعلہ) کے معنی ’’بکثرت اور بار بار دھوکا دینے کی کوشش کرنا‘‘ بھی بیان کئے ہیںـــ اور اس مادہ (خدع) سے فعل ثلاثی مجرد اور بابِ مفاعلہ کے معنوں کے فرق کی یہ بات ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ ابھی آگےـــ اسی آیت میں ـــلفظ ’’ یَخْدَعُوْنَ‘‘ (ثلاثی مجرد سے) بھی آرہا ہے (بروایت حفص)ـــ

·       یہ دونوں فعل (مجرد یا مفاعلہ سے) بطور فعل متعدی اور بغیر کِسی صلہ کے استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی ’’خدَعَہ‘‘ اور ’’خادَعَہٗ‘‘ کہیں گے اور جیسا کہ آپ اسی آیت میں ملاحظہ کریں گے ( اور ابھی آگے بیان ’’اعراب ‘‘ میں اس کی وضاحت آرہی ہے)۔ قرآن کریم کےاردو مترجمین نے ’’ یخادعون‘‘ کا ترجمہ ’’فریب دیتے   ۱؎ ، دغابازی کرتے۲؎ ، چالبازی کرتے۳ ؎، دھوکا دیتے   ۴؎ ، فریب دیا چاہتے  ۵؎ ، چکماد  یتے ۶ ؎  اور دھوکا دیناچاہتے (ہیں)۷؎ ‘‘سے کیا ہے۔آپ نے محسوس کر لیا ہوگا کہ مذکورہ تراجم میں سے بعض میں ’’دھوکہ دینے کی کوشش کرنے‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔مثلاً  ۳؎،و ۵ ؎،و ۷؎ میں۔

[اللّٰہ] کے مادہ اور اشتقاق کی بحث گُزر چُکی ہے۔ دیکھئے ۱:۱:۱(۲)

[وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا] یہ وَ+الذین +آمنوا کا مرکّب ہے۔ ان تینوں کلمات کے معنی وغیرہ پر بات ہوچکی ہے۔ ’’وَ‘‘ (جو یہاں عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے) کے لیے دیکھئے ۱:۴:۱(۳)

’’ الَّذِین‘‘ کے معنی و استعمال کے لیے دیکھئے:۱:۶:۱(۱)یہاں اس کے معنی ہیں ’’وہ لو گ جو ‘‘

"آمَنوا‘‘ جو مادہ ’’ا م ن‘‘سے باب اِفعال فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے (یعنی وہ ایمان لائے) اس کے معنی وغیرہ کے لیے دیکھئے ۱:۲:۲(۱)

۱:۸:۲(۲)     [وَمَا يَخْدَعُوْنَ] یہ وَ+مَا+یَخْدَعُوْنَ کا مرکّب ہے۔ اس میں ’’وَ‘‘عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اور حالیہ بھی بہر حال اردو ترجمہ ’’اور‘‘ سے کیا گیاہے اور اردو میں یہی ’’اور‘‘ حالیہ (بمعنی ’’حالانکہ‘‘) بھی استعمال ہوتا ہےـــ اس ’’وَ‘‘ کے استعمال پر مفصل بات ہوچکی ہے دیکھئے ۱:۴:۱(۳)

’’مَا‘‘یہاں نافیہ ہے جو فعل (یخدعون) پر داخل ہوکر اس میں نفی کے معنی پیدا کرتا ہے۔ یعنی ’’وہ دھوکا نہیں دیتے‘‘ـــ مَا کے مختلف معانی اور استعمالات پر(۱:۲:۲(۵) میں بات گزر چکی ہے۔

’’ يَخْدَعُوْن‘‘کا مادہ ’’خ د ع‘‘  اور وزن ’’یَفْعَلُوْنَ‘‘ ہے۔ یہ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد (باب فتح سے) کے فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے، جس کے معنی وغیرہ پر ابھی اوپر بحث ہوچکی ہےـــ۱:۸:۲(۱)میں۔

[اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ] یہ اِلاَّ +اَنْفُس+ھُم کا مرکّب ہے آخری ضمیر مجرور (ھم) تو یہاں ’’ان کے‘‘ یا ’’ان کی‘ ‘ یا ’’اپنی‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔ ’’ اِلَّا ‘‘ اور ’’ انفس‘‘ کے معنی و استعمال کی تفصیل یوں ہے۔

۲:۸:۱(۳)     ’’ اِلَّا ‘‘ حرف ہے جو زیادہ تر استثناء کے لیے آتا ہے اور اس کے استعمال کی چند صورتیں ہیں:۔

۱۔’’اِ لاَّ استثنائیہ‘‘جس کے بعد والی عبارت یا اسم کو مستثنیٰ (سابقہ یعنی اِلَّا‘‘سے پہلے والی عبارت کے حکم سے نکالا ہوا) کہتے ہیں۔ اس ماقبل یعنی اِلَّاسے پہلے آنے والی عبارت (یا اسم) کو مستثنیٰ مِنْہ کہتے ہیں (یعنی وہ جس کے حکم سے (کسی کو) نکال دیا گیا)۔ اس ’’ اِلاَّ ‘‘کے استعمال اور خصوصا مشتثنیٰ کے اِعراب کے کچھ قواعد ہیں۔ اور موقع استعمال اور طریقہ استعمال کے مطابق اسے (مستثنیٰ کو) متصل، منقطع، مقدّم اور مفَرّغ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اگر ’’مستثنیٰ بالَّا‘‘ کے قواعد ذہن میں مستحضر نہ ہوں تو نحو کی کسی کتاب میں ان پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ عموماً مستثنیٰ منصوب ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا ذکر منصوبات کے ضمن میں ہی ملے گا۔

۲۔  اِلّا اسمیہ: کبھی ’’اِلَّا‘‘، ’’غیر‘‘ کے معنوں میں اپنے مابعد (مستثنیٰ) سے مل کر اپنے سے ماقبل کی صفت (یا نعت) کے طورپر بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اسے اِلاّ اسمیہ (بمعنی’’غیر‘‘) کہتے ہیں۔ اس (اِلّا اسمیہ کی) صورت میں اس کا ماقبل ہمیشہ ’’جمع نکرہ‘‘ ہوتا ہے جیسے آیہ کریمہ ’’ لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتا‘‘ (الانبیاء:۲۲) یعنی اگر کوئی ’’غیر اللہ‘‘ آلھۃ۔۔ ہوتے تو…

مندرجہ بالا دونوں صورتوں (یعنی اِلَّا استثنائیہ یا اسمیہ) میں ’ اِلَّا‘‘ کا اردو ترجمہ حسب موقع عموماً ’’…کے سوا،  بجز،  مگر ،  لیکن،  مگر …  نہیں،  … کو چھوڑ کر،  بلکہ،  بلکہ اس لئے کہ …،  …کو‘‘ـــ  یا اس سے ملِتے جُلتے ہم معنی لفظوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ (اِلَّا) انگریزی کے EXCEPT،  BUT،  BUT NOT،  OTHER THAN  یا   NO OTHER THEN   کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

۳۔  ’’ اِلَّا‘‘ عاطفہ: کبھی ’’اِلَّا‘‘ ’’وَلَا‘‘کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اسے ’’ اِلَّا عَاطفۃ‘‘ کہتے ہیں۔ اور اسکا اردو ترجمہ ’’اور نہ‘‘، یا ’’اور نہ ہی‘‘ سے کیا جانا چاہئے۔ جیسے ’ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّــةٌ ڎ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا’‘‘ (البقرہ:۱۵۰) میں۔

۴۔ اِلّا شرطیہ : کبھی ’’ اِلَّا ‘‘دراصل ’’اِنْ لَا‘‘ کی مخفف شکل ہوتی ہے۔ اسے ’’ اِلَّا شرطیہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ کسی منفی فعل سے پہلے آتا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’اگر نہ…‘‘ ہوتا ہے۔ اس کا استثناء والے ’’ اِلَّا ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہوتاـــ

        ’’ اِلَّا‘‘کی ان مختلف صورتوں کی مزید وضاحت اپنے اپنے موقع پر ہوگی۔ان شاء اللہ۔ آیت زیر مطالعہ میں اِلَّا استثنائیہ ہے اور اس کا اردو ترجمہ ’’مگر ، بجز…، … کے سِوا‘‘ کے ساتھ ہوگا

۱:۸:۲(۴) ]     اَنْفُسَھُمْ] جو انفس+ھم کا مرکّب ہے اس میں ’’ھم‘‘ تو ضمیرِ مجرور بمعنی ’’ان کے‘‘، ’’ان کی ‘‘ یا ’’ان کی اپنی‘‘ یا ’’ان کے اپنے‘‘ ہے۔ اور کلمہ ’’ انفس‘‘ جمع ہے جس کا واحد ’’نَفْسٌ‘‘ہے جس کا مادہ ’’ن ف س‘‘اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے (صیغۂ جمع کا وزن ’’اَفْعُلٌ‘‘ہے اس مادہ (نفس) سے فعل ثلاثی مجرد مختلف ابواب (نصر، سمع اور کرم) سے مختلف مصادر کے ساتھ مختلف معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (مثلاً نفیس ہونا۔ تنگ نظر ہونا۔ بچّہ جننا وغیرہ)۔ تاہم قرآن کریم میں اس (ثلاثی مجرد) سے کوئی فعل استعمال ہی نہیں ہوا۔ البتہ مزید فیہ کے باب ’’تفعّل‘‘ اور ’’تفاعل‘‘ سے ایک ایک صیغۂ فعل آیا ہے۔ جس کا بیان اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ۔

·       لفظ ’’نفس‘‘جس کی جمع مکسر’’نفوس‘‘ اور’’انفس‘‘ہیں (اور یہ دونوں جمعیں قرآن کریم میں مستعمل ہیں) اپنے ’’استعمالات‘‘ کے لحاظ سے یہ ایک کثیر المعانی لفظ ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ حسبِ موقع  ’’جان،  جاندار،  شخص،  فرد،  ذات،  جی (دل یا باطن)  اور  کبھی خود  یا  اپنا آپ‘‘  سے کیا جاتا ہے۔ اور کبھی اس کے معنی ’’جنس و نوع‘‘ اور ’’خواہش و میلان‘‘ کے بھی لیے جاسکتے ہیں۔ اور انگریزی میں جو مختلف ضمائر  THEM،  HIM،  HER،  MY،  OUR   وغیرہ کے ساتھ SELF یا  SELVES  لگاکر ’’خود، بذاتِ خود، آپ ہی ، اپنے آپ کو‘‘ وغیرہ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ عربی میں یہ معنی لفظ ’’نفس‘‘ یا اس کی جمع (انفس) کو مناسب ضمیر کی طرف مضاف کر دینے سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’نفسہ، نفسھا، نفسک، نفسی‘‘ یا  ’’ انفسھم،انفسھن، انفسکم، انفسنا‘‘ـــ (اور یہ تمام تراکیب قرآن کریم میں وارد ہوئی ہیں)ـــ اور اس (قسم کی تراکیب) میں لفظ ’’نفس‘‘ یا ’’انفس‘‘کی فاعلی، مفعولی یا اضافی حالت (رفع نصب جر) کے مطابق ’’آپ  یا  خود  یا  اپنا،  اپنے،  اپنی‘‘  وغیرہ کے ساتھ ترجمہ کیا جائے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہاں (آیت زِیر مطالعہ میں) اردو مترجمین نے ’’ انفسَھم‘‘ کا ترجمہ ’’جانوں اپنی کو، اپنے آپ کو، اپنی ذات کو، یا اپنی جانوں کو‘‘ یا ’’اپنے کو‘‘ سے کیا ہے اور ان میں سے زیادہ بامحاورہ ’’اپنے آپ کو‘‘ ہی ہے۔ لفظ’’نفس‘‘ مختلف صورتوںـــ (واحد جمع، مفرد مرکّب)ـــ میں قرآن کریم میں ۲۹۵ جگہ وارد ہوا ہے۔

۱:۸:۲(۵)     [وَمَا يَشْعُرُوْنَ]جو  وَ+مَا+یَشْعُرون سے مرکب ہے اس میں ’’ وَ ‘‘ بمعنی ’’اور‘‘ ہے اور یہاں اس کا بامحاورہ ترجمہ ’’مگر‘‘ یا ’’لیکن‘‘ سے بھی کیا جاسکتا ہےـــ اور ’’ مَا ‘‘ نافیہ (بمعنی نہیں) ہے جو فعل پر داخل ہوئی ہے جس سے اس کے معنی منفی ہوگئے ہیں۔ اور کلمہ ’’یشعرون‘‘ کا مادہ ’’ش ع ر‘‘ اور وزن ’’یَفْعُلُونَ‘‘ ہے۔

        اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرّد عموماً ’’شعَر یَشعُر شَعْرًا‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’جاننا،  محسوس کرنا  یا  سمجھنا‘‘  ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ فعل اسی باب سے اور ان ہی معنی میں استعمال ہوا ہے (۲۵ جگہ) اور ہر جگہ فعل بصیغۂ مضارع آیا ہےـــ عربی زبان میں یہ مادہ (شعر) اسی باب (نصر) سے اور بعض دیگر ابواب مجرّد (مثلاً سمع) سے بعض دیگر معانی (مثلاً شعر کہنا، بال زیادہ ہونا وغیرہ) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم ان کا استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ اس (مادہ سے) مزید فیہ کے بھی صرف باب اِفعال سے دو ہی صیغے قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیںـــ اَفعال کے علاوہ اس مادہ (شعر) سے بعض اسماء مشتقہ و جامدہ (مثلاً، شِعر، شاعر، شعائر، شعری، مشعر وغیرہ) بھی قرآن کریم میں وارد ہوئے ۔ جن پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       یہ فعل (شعَر یشعُر) بنیادی طور پر متعدی ہے۔ تاہم عموماً اس کے ساتھ اس کا مفعول مذکور نہیں ہوتا۔ اگر اس کے ساتھ مفعول بیان کرنا ہو تو پھر فعل کے ساتھ ’’باء‘‘(بِ) کا صلہ آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’شعربہ‘‘ (اسے جان لیا، اسے سمجھ گیا) تاہم قرآن کریم میں یہ فعل (ثلاثی مجرد) ہر جگہ ذکرِ مفعول کے بغیر ہی آیا ہے۔ اگرچہ یہ محذوف مفعول تقدیراً موجود (UNDERSTOOD) ہوتا ہے۔ جسے سمجھا جاسکتا ہے یعنی ’’وَمَا یَشعُرُونَ بِہ‘‘ کی صورت میں یہی وجہ ہے کہ بعض اردو مترجمین نے اس محذوف مفعول کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’وَمَا یَشْعُرون‘‘ کا ترجمہ ’’وہ اس کا شعور نہیں رکھتے‘‘  اور (اس بات کو) نہیں سمجھتے‘‘،  ’’اس کا احساس نہیں رکھتے‘‘،  اور  ’’اس سے بے خبر ہیں‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔

·       یہاں یہ بات بھی قابل، ذکر ہے کہ ’’بے خبر ہیں‘‘ کے ساتھ ترجمہ کو مفہوم اور محاورے کی رُو سے درست بھی سمجھا جائے تب بھی لغت اور الفاظ کے لحاظ سے یہ محلِ نظر ہے۔ اس لئے کہ اوّل تو منفی جملیہ فعلیہ (ما یشعرون‘‘) کا ترجمہ مثبت جملہ اسمیہ سے کردیا گیا ہے۔ دو سرے ’’بے خبر‘‘ما یشعرون‘‘ سے زیادہ ’’غافلون‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے۔ اگر ’’خبر نہیں رکھتے‘‘ ہوتا تو لفظ سے قریب تر ہوتا۔

·       بعض مترجمین نے مفعول (غیر مذکور) کو ترجمہ میں نظر انداز کرتے ہوئے لفظی ترجمہ سے قریب رہنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں زیادہ تر نے ’’نہیں سمجھتے‘‘ ہی سےترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’نہیں بوجھتے‘‘ اور بعض نے ’’نہیں سوچتے‘‘بھی کیا ہے جو ’’ یشعرون‘‘ سے زیادہ ’’یتفکرون‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔

۱:۸:۲(۶)     [فِىْ قُلُوْبِهِمْ] یہ فی (بمعنی ’’میں‘‘) +قُلُوب (دلوں) +ھم (ضمیر مجرور بمعنی ’’ان کے‘‘) کا مرکّب ہے۔ لفظ ’’قلوب‘‘ جمع مکسر ہے اس کا واحد ’’قَلْبٌ‘‘ہے جس کا مادہ ’’ق ل ب‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس کی جمع ’’فُعُوْلٌ‘‘کے وزن پر آئی ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد اور لفظ ’’قلب‘‘ کے معنی وغیرہ پر پہلے بات ہوچکی ہے۔   (دیکھئے ۱:۶:۲(۱))میں۔

۱:۸:۲(۷)     [مَرَضٌ ] کا مادہ ’’م ر ض‘‘اور وزن ’’فَعَلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’مرِض یَمرَض مَرَضًا‘‘ (زیادہ تر باب سمع سے) اور شاذ باب نصر سے(مرَض یمرُض) آتا ہے جس کے معنی  ’’بیمار ہونا‘‘ یا’’بیمار ہوجانا‘‘ ہوتے ہیں۔ یعنی یہ فعل لازم ہے۔ قرآن کریم میں اس (فعل مجرد) سے صرف ایک صیغہ ’’مَرِضْتُ‘‘  صرف ایک جگہ (الشعراء:۸۰) آیا ہے۔ اس مادے سے مزید فیہ کا کوئی فعل یا اسم مشتق قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ ’’مَرَض‘‘، ’’مریض‘‘ (اور اس کی جمع) ’’مَرْضٰی‘‘کے الفاظ بصورت معرفہ یا نکرہ مختلف حالتوں میں ۲۳ جگہ آئے ہیں۔

·       لفظ ’’مَرَض‘‘ اس مادہ کے فعل ثلاثی مجرد کے متعدد مصادر میں سے ایک مصدر اور اسم ہے جو ’’بیمار ہونا‘‘ یا ’’بیماری‘‘ کے معنوں میں آتا ہے۔ اس کا عام اردو ترجمہ تو ’’بیماری‘‘ یا ’’روگ‘‘ ہی کیا جاسکتا ہے اور خود لفظ ’’مَرَض‘‘ بھی اردو میں مستعمل ہے۔ بلکہ اپنے اصل عربی وزن (فَعَلٌ)اور ’’تذکیر‘‘ (مذکر ہونا) کے ساتھ جیسے "ع  ’’مَرَض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ میں آیا ہے۔ البتہ قرآن کریم میں حسب ِ موقع ـــاور سیاق و سباق کی روشنی میںـــ اس کا اطلاق جسمانی اور بدنی یا روحانی اور معنوی ’’بیماری‘‘ پر کیا جاسکتا ہے۔

۱:۸:۲(۸)     [فَزَادَھُمُ اللّٰهُ مَرَضًا]  یہ ایک مکمل جملہ ہے جو کل پانچ کلمات (اسم، فعل، حرف) پر مشتمل ہے یعنی یہ ’’فَ‘‘ + ’’زادَ‘‘+ ’’ھم‘‘+’’اللہ‘‘+’’مرضاً‘‘کا مرکب ہے۔ جن میں نیا لفظ ’’زادَ‘‘ہے۔ باقی کلمات (حروف و اسماء) پر پہلے کئی دفعہ بات ہوچکی ہے۔

·       کلمہ (زاد) (جو فعل ہے) کا مادہ ’’ز ی د‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ہے جس کی شکل اصلی ’’زَیَدَ‘‘ تھی جس میں یائے متحرکہ اپنے ماقبل کی فتحہ(ــــــَــــ) کے باعث الف میں بدل گئی۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد   زاد یزید زیادۃ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی لازم اور متعدی دونوں ہوتے ہیں یعنی ۱۔زیادہ ہوناـــبڑھنا اور  ۲۔ (کسی کو) (کوئی چیز) زیادہ دینا یا  (کسی کو) (کسی چیزمیں) یا (کسی پہلو سے) بڑھا دینا۔

متعدی ہونے کی صورت میں ۱۔ یا تو اس فعل کے دو مفعول آتے ہیں جیسے ’’ زادہٗ درھمًا‘‘ (اس نے اس کو ایک درہم زیادہ دیا)۔۲ ۔ یا پھر ایک مفعول کے بعد ایک تمیز آتی ہے جیسے یہاں آیت زیر مطالعہ میں کلمہ ’’ مَرَضًا ‘‘ ہےـــ ۳۔ کبھی ایک مفعول حذف کردیا جاتا ہے جیسے آیہ کریمہ ’’ وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ‘ (البقرہ:۵۸) میں صرف ایک مفعول ’’ محسنين‘‘ مذکور ہوا ہے  اور ۴۔ کبھی دونوں مفعول بھی حذف کر دیئے جاتے ہیں جیسے ثُمَّ يَطْمَعُ اَنْ اَزِيْدَ‘‘ (المدثر:۱۵) میں کسی مفعول کا ذکر نہیں ہے۔ یہ اور اس قسم کی دوسری مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی اور ہر ایک کی وضاحت اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

        قرآن کریم میں اس (فعل ثلاثی مجرد) سے ماضی، مضارع، امر اور نھی کے مختلف صیغے پچاس کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ اور مزید فیہ کے صرف باب افتعال سے کچھ صیغے آٹھ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی مادہ سے کلمات ’’زیادۃ‘‘ (مصدر) دو دفعہ، لفظ ’’مزید‘‘ (اسم مفعول) بھی دو جگہ اور ’’زید‘‘ (نام) صرف ایک جگہ آئے ہیں۔ زیر مطالعہ حصہ آیت ’’ فزادھم اللہ مرضا‘‘ کے لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کے فرق اور اس کی وجہ پر ہم ابھی آگے بحث ’’الاعراب‘‘ میں بات کریں گے۔ ان شاء اللہ۔

۱:۸:۲(۹)     [وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ] یہ بھی ایک مکمل جملہ ہے جس میں نیا لفظ ’’الیم‘‘ہے۔ ’’وَ+ لَھم+ عذاب‘‘پر بات البقرہ:۷ میں گزر چکی ہے۔ [دیکھئے:۔۱:۶:۲(۶)]

        لفظ ]اَلِيْمٌۢ[ کا مادہ ’’ا ل م‘‘ اور وزن ’’فعیل‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’اَلِمَ یَألَمُ اَلَمًا‘‘ (باب سمع سے) آتا ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی ہیں : درد ہونا (مثلاً سر یا پیٹ میں) پھر اس سے اس کا ترجمہ ’’درد میں مبتلا ہونا،  درد کھینچنا،  دکھ اٹھانا،  دکھ پہنچنا،  تکلیف ہونا،  تکلیف پہنچنا،  بے آرام ہونا‘‘  وغیرہ سے کیا جاتا ہے۔ (یہ تمام معنی مختلف تراجمِ قرآن پر مبنی ہیں) ۔قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے دو تین صیغے ایک ہی آیت میں آئے ہیں(النساء:۱۰۴) اور جو ’’درد، تکلیف یا دکھ‘‘ میں مبتلا ہو اسے اَلِمٌ (فَرِحٌ کی طرح) کہتے ہیں۔ (یہ لفظ (اَلِمٌ) قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا) بنیادی طور پر یہ فعل (اَلِمَ یالَمُ)لازم ہے۔ عربی زبان کے محاورے میں بعض دفعہ یہی فعل متعدی کی طرح ’’درد پیدا کرنا یا دکھ دینا‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے۔[4]    تاہم قرآن کریم میں نہ تو اس کا یہ(متعدی) استعمال ہوا ہے اور نہ ہی اس کے مزید فیہ ابواب سے کوئی فعلـــ

        البتہ زیر مطالعہ لفظ (الیم) میں یہ متعدی والے معنی موجود ہیں یعنی ’’دکھ دینے والا‘‘ـــ بیشتر اہل لغت نے ’’ الیم‘‘ بمعنی ’’مُؤلِمٌ‘‘ مراد لیا ہے جو اس مادہ سے باب ِافعالـــ آلَمَ یُؤلِمُ اِیْلَامًا (دکھ دینا، درد پیدا کرنا) سے اسم الفاعل ہے ـــ یہ لفظ (الیم)اپنے وزن ’’فَعِیْلٌ‘‘کی بناء پر صفت مشبہ ہے۔ صفت مشبہ کا یہ وزن (فعیل)اسم الفاعل اور کبھی اسم المفعول کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے دوسرے اس میں ’’دوام‘‘ اور ’’لزوم‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے (جو صفت مشبہ کی ایک خاصیت ہے) یعنی ’’یہاں‘‘ دائمی درد ناک عذاب ‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ راغب اصفہانی نے تو (المفردات میں) وزن ’’فعیل‘‘ میں شدّت کا مفہوم بھی شامل سمجھا ہے۔ یعنی دائمی شدید درد ناک عذاب‘‘۔ ویسے خود لفظ’’عذاب‘‘ میں بھی ’’سخت سزا‘‘ کا مفہوم موجود ہے یہ کلمہ (الیم) مختلف صورتوں میں ستر(۷۰)سے زائد مقامات پر (قرآن کریم میں) آیا ہے۔

۱:۸:۲ (۱۰)     [بِمَا كَانُوْا] یہ دراصل بِ+ ما+ کانوا کا مرکب ہے۔ جس میں ’’بِ‘‘ یہاں سببیت کے لیے یعنی ’’بوجہ، کے سبب سے‘‘ کے معنوں میں [’’باء‘‘(بِ)کے مختلف معانی اور استعمالات پر شروع میں استعاذہ کی بحث میں بات ہوچکی ہے۔ ] ’’ما‘‘ یہاں موصولہ ہے بمعنی ’’جوکہ‘‘ [ ’’ما‘‘کے معانی کے لیے دیکھئے ۱:۲:۲(۵)]  اس طرح ’’ بِمَا ‘‘کا ترجمہ ہوگا ’’بسبب اس کے جو کہ‘‘ یا ’’اس چیز کے سبب سے جو کہ‘‘ـــ اور

·       [كَانُوْا] کا مادہ ’’ک و ن‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے اس کی اصل شکل ’’ کَوَنُوا‘‘ تھی جس میں ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح ‘‘ الف میں بدل جاتی ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’کان یکون کَوْنًا‘‘ـــ دراصل کَوَنَ یَکْوُن ـــ باب نصر سے آتا ہے اور اپنے معنی کے لحاظ سے یہ دو قسم کا ہوتا ہے۔

۱۔ کان ناقصہ: اس کے معنی عموماً ’’ہونا‘‘ یا ’’ہوجانا‘‘ (صارَکی طرح) ہوتے ہیں۔ یہ (کان ناقصہ) مبتدأ کو (جو اس کا اسم کہلاتا ہے) رفع اور خبر کو (جو کان کی خبر کہلاتی ہے) نصب دیتا ہے۔ اور یہ ماضی ہوتے ہوئے بھی کبھی ماضی  ۱؎ ، کبھی حال۲؎   ، کبھی مستقبل ۳؎  اور کبھی (ماضی، حال اور مستقبل میں) دوام  ۴؎  اور استمرار کے معنی دیتا ہے یعنی حسب موقع اس کا اردو ترجمہ ’’تھاٍٍٍ ٍ۱؎   ‘‘، ’’ہے۲؎   ‘‘، ’’ہوگا  ۳ ؎  ‘‘ اور ’’تھا ۴  ؎‘‘ہے اور رہے گا‘‘سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کاآخری ( ؔ۴ )  استعمال اور معنی اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کے بیان کے ساتھ مخصوص ہے مثلاً ’’کَانَ اللّٰہُ غَفُورًا رَّحِیمًا یا عَلِیمًا حَکِیمًا‘‘ وغیرہ کی قسم کی تراکیب میں۔ بلحاظ زمانہ باقی تینوں استعمالات (یعنی ماضی، حال یا مستقبل کے معنی دینے) کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔ اس لیے یہاں ہم نے ہر ایک معنی کی مثال ساتھ بیان نہیں کی۔

۲۔ کان تاّمہ: کبھی یہ فعل ایک مکمل اور مستقل فعل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اس کا اسم دراصل اس کا فاعل (لھٰذا مرفوع) ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے کبھی خبر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور مفعول کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ فعل ہمیشہ لازم کے معنی کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے۔ کان فعل تام ہونے کی صورت میں محض ’’ہونا‘‘ کی بجائے بعض دیگر افعال کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً ’’ثَبَت‘‘ (ثابت ہونا، برقرار رہنا) یا ’’حَضَر‘‘ (سامنے آنا  یا  آجانا)  ’’وَقَعَ‘‘(واقع ہونا، وجود میں آنا) ’’یَنْبغِی‘‘ (مضارع بمعنی موزوں یا مناسب ہونا) اور ’’اَمکن‘‘ (ممکن ہونا، قدرت رکھنا) ـــ ہم نے یہاں ’’ کان ‘‘ کے ان مختلف افعال کے معنی میں استعمال کی مثالیں عمداً ترک کر دی ہیں۔ جب آگے چل کر اس قسم کی مثالیں ہمارے سامنے آئیں گی تو وہاں ان کی وضاحت  کان کے ناقصہ یا تامّہ ہونے کے حوالے سے کی جائے گی۔

        ’’ کان ‘‘ ایک بکثرت استعمال ہونے والا فعل ہے۔ قرآن کریم میں اس کا استعمال زیادہ تر بطور فعل ناقص ہی ہوا ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں یہ بطور فعل تام بھی آیا ہے۔ قرآن کریم میں اس کے ماضی کے (چودہ صیغوں میں سے) تمام صیغے[ماسوائے تثنیہ حاضر (کنتما)]کے ـــ استعمال ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ مضارع اور امرو نہی کے مختلف صیغے بھی بکثرت وارد ہوئے ہیں ـــ مجموعی طور پر یہ فعل اور اس کے مشتقات قرآن کریم میں ۱۳۹۵ جگہ وارد ہوئے ہیں۔

·       ’’ کان ‘‘ کے استعمال کی ایک صورت ’’ماضی بعید‘‘ اور ’’ماضی استمراری‘‘ کے ساتھ ہونے کی بھی ہے۔ اس میں’’ کان ‘‘کی گردان کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے فعل کے ماضی یا مضارع کی گردان بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یعنی اس وقت یہ مرکب فعل کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس کی بھی متعدد مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گیـــ بلکہ خود زیرمطالعہ آیت میں ’’کانوا‘‘ اور اس کے بعد آنے والا فعل مضارع (یکذبون) مل کر فعل ماضی استمراری کا کام دے رہے ہیں۔

·       مذکورہ بالا معانی اور استعمالات کے علاوہ ’’ کان ‘‘کے بعض محاوراتی استعمال بھی ہیں مثلاً ’’صار اِلٰی کان‘‘کے معنی ہیں مَاتَ (مرگیا) اسی طرح ’’دخل الامرُ فی خبر کان‘‘کے معنی ’’مضی‘‘ کے ہیں یعنی معاملہ گزر گیا یا ’’بات پرانی ہوگئی‘‘ـــ وغیرذلک۔ تاہم اس قسم کا کوئی استعمال قرآن کریم میں وارد نہیں ہوا ـــ ادبی اور بامحاورہ عربی سیکھنے کے خواہشمند حضرات چاہیں تو اس مقصد کے لیے کسی اچھی عربی ڈکشنری (معجم) سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

۱:۸:۲(۱۱)     [يَكْذِبُوْنَ]  کا مادہ ’’ک ذ ب‘‘ اور وزن ’’یَفْعِلُوْنَ‘‘ ہے ۔اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد’’کذَب یَکْذِب کذِبًا‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے۔ اور اسکے بنیادی معنی ہیں ’’جھوٹ بولنا‘‘ یا ’’جھوٹ کہنا‘‘ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس فعل کے استعمال کی کئی صورتیں ہیں:۔

۱۔      عام طور پر تو یہ فعل اپنے مفعول (جس سے جھوٹ بولا جائے) کے ذکر کے بغیر ہی آتا ہے۔ جیسے ’’کَذَبَ‘‘ (اس نے جھوٹ کہا) قرآن کریم میں اس طرح کے استعمال کی چار مثالیں موجود ہیں :(البقرہ:۱۰، التوبہ:۷۷، یوسف ۲۷، یٰسین:۱۵

۲۔     کبھی یہ اپنے مفعول کے ذکر کے ساتھ آتا ہے۔ جیسے کہیں ’’ کذَبہُ‘‘ (اس نے اس سے جھوٹ کہا) قرآن کریم میں اس کی صرف دو مثالیں ملتی ہیں: (التوبۃ:۹۰ اور النجم :۱۱)

۳۔     کبھی یہ فعل دو مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاًـــ’’کَذَبَہُ الحدیثَ‘‘ (اس نے اس سے جھوٹ بات کہی)۔ اس دو مفعول والے استعمال کی قرآنِ کریم میں کوئی مثال نہیں آئی۔

۴۔     کبھی یہ فعل مجہول بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہیں ’’کُذِب الرجلُ‘‘ (آدمی سے جھوٹی بات کہی گئی)۔ اس کی بھی صرف ایک مثال قرآن ِکریم میں آئی ہے (یوسف:۱۱۰)

۵۔     اور کبھی یہ فعل ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ اس صورت میں اس کامفعول ساتھ مذکور ہوتا ہے۔ جیسے کہیں ’’کذَب علیہ‘‘ (اس نے اس پر جھوٹ بولا۔ یعنی اس کے متعلق وہ بات کہی یا بتائی جو اس میں نہ تھی)۔ اس استعمال کی بھی قرآن کریم میں چار مثالیں موجود ہیں (الانعام : ۲۴، ھود:۱۸، الزمر:۳۲ و ۶۰)

·       زیرِ مطالعہ لفظ ’’ يكذبون‘‘ اس فعل مجرد سے مضارع کا صیغہ جمع مذکّر غائب ہے اور چونکہ اس سے پہلے ’ كانوا‘‘ بھی ہے جس کے ساتھ مل کر یہ پورا فعل یعنی ’ کانو ایکذبون‘‘ ماضی استمراری کا صیغہ بنتا ہے۔ اس لئے اس کا ترجمہ ’’جھوٹ بولتے تھے، جھوٹ بولا کرتے تھے یا کہتے تھے‘‘ سے کیا گیا ہے۔ البتّہ بعض مترجمین نے اس سے پہلے والے حصّہ ’’ بِمَا‘‘ (بسبب اس کے جو، اس وجہ سے کہ) کے ’’مَا‘‘ کو مصدریہ مان کر ترجمہ ’’ان کے جھوٹ بولنے کے سبب‘‘، ’’جھوٹ بولنے کی سزا میں‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ گویا  بما کانو ایکذبون = بکذبھم

        قرآن کریم میں اس فعل (ثلاثی مجرد) کا مصدر ’’کِذبٌ ‘‘ مختلف صورتوں میں ۳۳ جگہ اور اس کا اسم الفاعل ’’کاذب‘‘ مختلف شکلوں میں ۳۲ جگہ آیا ہے۔ ثلاثی مجرد کے علاوہ اس مادہ (کذب) سے باب تفعیل کے ماضی مضارع معروف و مجہول کے علاوہ اس مادہ (کذب) سے باب تفعیل کے ماضی مضارع معروف و مجہول کے افعال کے مختلف صیغے ۱۷۰ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ اور ثلاثی اور مزید فیہ کے مصادر اور مختلف اسماء مشتقہ کی مختلف صورتیں (مثلاً کذِبٌ، کِذّاب، کَذّابٌ، مَکذُوب ،   مُکذِّبٌ  وغیرہ) میں بکثرت (قریبا ۳۰ جگہ) وارد ہوئے ہیں۔ ان شاء اللہ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔

 

۲:۸:۲      الاعراب

يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا    ۚ   وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ  (۹)  فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ   ۙ   فَزَادَھُمُ اللّٰهُ مَرَضًا    ۚ   وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ       ڏ   بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ(۱۰)

        یہ قطعہ جو دو آیت پر مشتمل ہے درا صل اس میں چھ جمُلے شامل ہیں جن کو ہم نے لکھتے وقت ایک مختصر لکیر (ـــ)سے جُدا کر کے لکھا ہے۔ ان میں سے بعض جمُلے ’’وَ‘‘ (عاطفہ یا حالیہ) اور ’’فَ‘‘ (عاطفہ کے ذریعے باہم مل کر ایک مربوط لمبے جمُلے کی شکل اختیار کرتے ہیںـــ ہر ایک جمُلے کے اعراب یوں ہیں:۔

        [یخادعون] فعل مضارع معروف ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ بصورت ’’واو‘‘ (’’نون‘‘ سے قبل) موجود (مستتر) ہے۔ [اس کے تراجم ابھی اوپر۱:۸:۲(۱) میں بیان ہوچکے ہیں]  ـــیہاں سے ایک نیا جُملہ (مستانفہ) شروع ہوتا ہے۔ اس لیے اس سے پہلی آیت کے خاتمہ پر وقف لازم (م) ڈالاجاتا ہے۔ تاکہ یہ اپنے سے ماقبل جمُلے کی صفت نہ سمجھا جائے ـــگویا یہ اس سوال کا جواب ہے کہ جب وہ ایمان لائے ہی نہیں (ماھم بمؤمنین) تو  آخر وہ اپنے آپ کو مسلمان کیوں ظاہر کرتے ہیں (امنا باللّٰه … کہہ کر)ـــ اور جواب ہے وہ دھوکہ دینے کے لیے ایسا کرتے ہیں (یخادعون…)ـــ بعض نحوی حضرات نے اس جُمُلے کو(جو ’’یخادعون‘‘ سے شروع ہوتا ہے) گزشتہ آیت کے فعل ’’ یقول‘‘ (ومن الناس من یقول) کی ضمیر فاعل (جو بلحاظ معنی جمع ہے) کا حال قرار دیا ہے اور تقدیر (UNDERSTOOD) عبارت یوں قائم کی ہے ’’یقولون مخادعین‘‘۔ یعنی وہ دھوکا دیتے ہوئے یہ بات کہتے ہیں۔ اس صورت میں آیت (۸)کے آخر پر وقف کرنا درست نہیں ہے ـــتاہم یہ ایک پیچیدہ نحوی تاویل اور دور ازکار (FAR FETCHED) بات ہے ۔ پہلی بات (جملہ مستانفہ والی) زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہے۔ ]اللہ[ فعل ’’یخادعون‘‘ کا مفعول بہ (منصوب) ہے یعنی ’’اللہ کو‘‘ـــ ]والذین[ کی ’’واو‘‘ عاطفہ ہے اور ’’الذین‘‘ اسم موصول ہے جس کا عطف ’’اللّٰہ’’ پر ہے یعنی یہ بھی منصوب ہے مگر مبنی ہونے کے باعث ظاہراً کوئی اعرابی علامت اس میں نہیں ہے۔ اس کے بعد فعل ]آمنوا[ جو فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ بن کر ’’الذین‘‘ کا صلہ ہے اور صلہ موصول مل کر محلاً منصوب ہیں۔ یعنی ’’(دھوکا دیتے ہیں)ان لوگوں کو جو ایمان لائے۔‘‘

·       (وَ) حالیہ ہے جس کا ’’درانحا لیکہ ‘‘، ’’حالانکہ ‘‘ یا ’’مگر‘‘کے ساتھ ترجمہ ہوسکتا ہے۔ [مَا] یہاں نافیہ ہے جو اگلے فعل [یخدعون] پر داخل ہو کر اسے فعل منفی بنارہا ہے۔ اور اس فعل (يَخْدعون) میں بھی ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے۔ یہاں تک کی عبارت (وَما یخدعون )کا ترجمہ ہوا۔ اور؍حالانکہ ؍مگر ؍وہ دھوکا نہیں دیتے‘‘۔ [اِلَّا] حرف ِاستثناء ہے مگر اس سے پہلے جملہ منفی غیر تام ہے جس میں مستثنیٰ منہ مذکور نہیں ہے۔ اس لئے یہاں [انفسَھم] کا اعراب مفعول بہ ہونے کے باعث نصب کا ہے جسے نحو کی اصطلاح میں مستثنیٰ مفرّغ کہتے ہیں اور ’’ انفسھم‘‘ کی آخری ’’ھم‘‘ ضمیر مجرور متصل مضاف اِلیہ ہے۔ نفی کے بعد ’’ اِلَّا‘‘ کا یہ استعمال عبارت میں حصر کے معنی پیدا کرتا ہے۔ اس لئے اس کا ترجمہ ہوگا۔ ’’صرف اپنی ہی جانوں کو یا اپنے آپ کو ہی ‘‘ (دھوکادیتے ہیں)۔[جملے کے اس حصے کا ترجمہ دیکھئے:۱:۸:۲ (۴)کے آخر پر]۔

·       [وَ]یہ واو عاطفہ بھی ہوسکتی ہے۔ اور مستأنفہ بھی۔ یعنی یہ اگلاجملہ (ومایشعرون) اپنے سے پہلے جمع (ومایخدعون اِلَّا انفسھم)کا ایک حصہ بھی ہوسکتا ہے اور اسے ایک الگ جملہ بھی شمار کرسکتے ہیں۔ تاہم اردو میں اس کا ترجمہ ـــ دونوں صورتوں میں ـــ ’’اَوْر‘‘ سے ہی کیا جاسکتا ہے کیونکہ اردو میں ’’اَور‘‘ استیناف کا کام بھی دے جاتا ہے یعنی اس میں ’’اور یہ بات بھی تو ہے کہ ‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے۔ [مَا]یہاں بھی نافیہ ہے۔ جس کے بعد فعل مضارع [يَشْعُرُون]  آ رہا ہے جو فعل مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ہے۔یہاں’’یشعرون‘‘کے بعد اس کا مفعول بہٖ محذوف (غیر مذکور) ہے۔ جس کی تقدیر (خود بخود سمجھے جانے والی عبارت) کچھ اس طرح بنتی ہے۔’’ ومایشعرون بھذا‘‘یا ’’وَبَالَ ذلک‘‘۔اور ہم ابھی اوپر یہ بیان کر آئے ہیں کہ کس طرح بعض مترجمین نے اس ’’محذوف مفعول بہ‘‘ کو ملحوظ رکھ کر ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے اس کے بغیر ترجمہ کیا ہے۔[دیکھئے ۱:۸:۲(۵)میں]

·       (فی قلوبھم) فی+ قلوب+ ھم کا مرکب ہے۔ اس میں ’’فی‘‘ حرف الجر ّہے۔ ’’قلوبِ‘‘ مجرور بالجر ہے اور آگے مضاف ہونے کے باعث ’’خفیف‘‘ بھی ہے۔ یعنی نہ اس کے شروع میں لام تعریف ہے نہ آخر پر تنوین ہے۔ اور آخری ’’ھُم‘‘ ضمیر مجرور متصل مضاف الیہ ہے جسے ماقبل مکسور کی بناء پر ’’ھِم‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ یہ سارا مرکب جاری (فی قلوبھم) خبر مقدم ہے اور [مَرَضٌ] اس کا مبتدأ موخر ہے۔ اسی لئے نکرہ اور مرفوع ہے۔ اس طرح (دوسری آیت کے) اس پہلے جملہ اسمیہ کا ترجمہ ہوگا۔ ’’ان کے دلوں میں ایک ؍کوئی ؍کچھ بیماری ہے‘‘ بعض مترجمین نے ’’مرضٌ‘‘ کی تنکیر (نکرہ ہونا) کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’ان کے دلوں میں بیماری ہے‘‘ سے ترجمہ کیاہے۔ جب کہ بعض نے ’’مرض‘‘ کی تنکیر کو تفخیم کے لیے سمجھتے ہوئے ’’بڑا مرض ہے‘‘ ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے اس جملہ (فی قلوبھم مرض) مرض کے بعد آگے آنے والے جملہ فعلیہ (فزادھم اللہ مرضا) کے فعل ماضی (’’ زاد‘‘ جس کا بیان آگے آرہا ہے) کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’…بیماری تھی یا مرض تھا‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اسی طرح بعض نے اردو محاورے کا خیال رکھتے ہوئے ’’ان کے دِل میں‘‘ (بصیغۂ واحد) ترجمہ کیا ہے جو اصل عربی عبارت سے ذرا ہٹ کرہے۔ ۔۔البتّہ ’’ان کا دل بیمار تھا؍ہے‘‘ کے ساتھ ترجمہ لفظ اور محاورہ دونوں سے دُور لگتا ہے۔

·       [فَزَادَھم] میں فاء (فَ) حرف عطف (بمعنی پس /سو) ہے اور ’’زاد‘‘ فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعل ’’ھو‘‘ ہے۔ اور آخری ’’ھم‘‘ضمیر منصوب متصل مفعول بہٖ ہے۔ (فعل ’’زَادَ‘‘ کی)۔ یعنی ’’بڑھادیا ان کو ‘‘ یا ’’زیادہ دے دیا ان کو‘‘ [اللہُ]فعل ’’زاد‘‘ کا فاعل مرفوع ہے۔ یعنی ’’اللہ نے ‘‘ [مَرَضًا] فعل ’’زاد‘‘ کا مفعول ثانی (اور لھٰذا) منصوب ہے۔ یہ بات بحث ’’اللغۃ‘‘ میں بیان ہوچکی ہے کہ یہ فعل (زاد یزید) لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اور متعدی ہو تو دو مفعول کے ساتھ آتا ہےـــ اور چاہیں تو اسے (مرضًاکو) تمیز (اور اس لئے) منصوب قراردے لیں ـــمفعول ثانی سمجھ کر ترجمہ ہوگا ’’پس زیادہ دے دی اللہ نے ان کو ایک بیماری‘‘ اور تمیز سمجھیں تو ترجمہ ہوگا ‘‘ پس زیادہ کردیا اللہ نے ان کو بلحاظ بیماری کے‘‘ ـــ  ان دونوں بنیادی صورتوں کو سامنے رکھ کر اور اردو محاورے کا لحاظ کرتے ہوئے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ان کی بیماری بڑھا دی‘‘ اور ’’ان کا مرض بڑھا دیا‘‘ کیا ہے۔ اسے محاورے کی مجبوری ہی کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ اصل عربی عبارت میں ’’مرضھم‘‘ تو نہیں ہے۔ البتہ دومترجمین نے ’’زیادہ دے دیا اللہ نے ان کو آزار‘‘ اور ’’بڑھا دیا اللہ نے ان کو مرض؍روگ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو لفظی ترجمہ سے قریب تر ہے۔ محاورے کے لحاظ سے اسے شاید ’’متروک‘‘ کہا جائے۔

·       اور اگر ’’ فزادھم‘‘ کی فاء (فَ) کو عطف کی بجائے استیناف قرار دیا جائے (یعنی اسے ایک نئے جملے کا آغاز سمجھا جائے) تو پھر پورا جملہ ’’ فزادھم اللہ مرضا‘‘ جملہء دعائیہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ عربی میں دعاء بددعاء کے لئے بھی صیغۂ ِماضی ہی استعمال ہوتا ہے اور اس وقت جملہ خبر یہ نہیں بلکہ انشائیہ ہوجاتا ہے۔ اور اس صورت میں اس کا ترجمہ ہوگا ’’سو اور زیادہ بیماری دے ان کو اللہ‘‘ یعنی اللہ کرے ان کی بیماری اور زیادہ ہو۔ یا دوسرے لفظوں میںـــ ’’اللہ کرے ان کا مرض اور زیادہ۔‘‘

·       [وَ] یہاں بھی واو (وَ) کوعاطفہ اور مستانفہ دونوں سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی اس کے بعد والی عبارت ایک لحاظ سے اپنے سے پہلے جملے پر معطوف (اس سے متعلق) بھی ہے اور نحوی لحاظ سے ایک الگ مستقل جملہ بھی ہے۔ [لَھُمْ] میں لام (لِ) توـــ جو ضمائر کے ساتھ مفتوح (لَ) پڑھا جاتا ہےـــ حرف الجّر ہے ـــ اور ’’ھم‘‘ ضمیر مجرور(بالجر) ہے۔ اور جملے کا یہ حصہ (وَلَھُم) خبر مقدم ہے جب کہ [عذابٌ اليمٌۢ] صفت (الیم) اور موصوف (عذاب) مل کر مبتدأ مؤخر ہے۔ اور اسی لئے نکرہ اور مرفوع ہے۔ پورے جملہ کا ترجمہ ہوگا ’’اور ان کے لئے ہے ؍ہوگا دکھ دینے والاعذاب، دکھ کی مار، دردناک عذاب‘‘ وغیرہ ۔[بِمَا]میں باء (ب) جارّہ اور سببیہ ہے جس کا ترجمہ ’’بسبب یا بوجہ‘‘ ہوگا۔ اور ’’مَا‘‘ اسم موصول مجرور (بالجر) ہے جس کا ترجمہ ’’وہ جو کہ‘‘ ہے۔ اس طرح ’’ بِما ‘‘کا پورا ترجمہ ’’بسبب اس کے جو‘‘ یعنی ’’اس لئے کہ‘‘ ہوگا۔ [کانوایکذبون]میں اگر تو ۔   

۱۔      ’’كانوا ‘‘کو فعل ناقص مانا جائے تو ’’ يَكْذِبون‘‘ فعل مضارع مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ پورا جملہ فعلیہ ہو کر اس کی خبر ہو سکتا ہے اس صورت میں اسے (کان کی خبر ہونے کی بناء پر) محلاً منصوب کہا جائے گا۔ گویا ’’کانوا کاذبین‘‘کی طرح اس کا ترجمہ ’’وہ جھوٹے تھے‘‘ سے ہوسکتا ہے۔

۲۔    اور اگر ’’ کانوایکذبون‘‘ کو اکٹھا ماضی استمراری کا صیغہ سمجھیں تو معنی ہوں گے: ’’وہ جھوٹ بولا کرتے تھے ‘‘ـــ اور دراصل تو یہ ماضی استمراری بھی کان (فعل ناقص) اور اس کی خبر (بصورت فعل مضارع) سے مل کر ہی پیدا ہوتی ہے۔ اصل عربی کتب ِصَرْف میں ماضی کی اقسام بیان نہیں ہوتیں۔ یہ صرف فارسی اور اردو گرامر میں بیان کی جاتی ہے اور ان ہی کی پیروی میں اردو زبان (یا فارسی) میں لکھی گئی کتب صَرْف میں ماضی کی یہ اقسام بیان کر دی جاتی ہیں حالانکہ بلحاظ بناوٹ اردو فارسی کی ماضی کی بعض اقسام (مثلاً ماضی تمنائی یا ماضی شکیہ) عربی میں کسی طرح فٹ نہیں آتیں ـــ بہر حال ماضی استمراری (اور ماضی بعید) کی حد تک فعل کی ’’بناوٹ‘‘ ایک قاعدے کے تحت آجاتی ہےـــ  اور شاید اسی لئے اردو مترجمین میں سے اکثر نے یہاں (کانوایکذبونکا) ترجمہ ماضی استمراری کے ساتھ ہی کیا ہے یعنی ’’جھوٹ بولتے تھے، جھوٹ کہتے تھے، جھوٹ بولا کرتے تھے‘‘

۳۔    اور اگر ابتدائی ’’مَا‘‘ کو (یعنی جو ’’ بماکانوایکذبون‘‘ میں ہے)موصولہ کی بجائے مصدریہ سمجھا جائے تو اس صورت میں ’’یکذبون‘‘کو ’’کان‘‘ کے مصدر ’’کَوْن‘‘ کی خبر قرار دے کر تقدیر عبارت ’’بِکَوْنِھم یکذبون‘‘ یعنی کاذبین ہوگی اور لفظی ترجمہ ’’ان کے، ’’جھوٹ بولتے ہیں‘‘’’ہونے کی وجہ سے ‘‘ ہوگا جسے بامحاورہ کریں تو بنے گا ’’ان کے جھوٹے ہونے کی وجہ سے‘‘ اردو کے کم از کم چار مترجمین نے ’’ما‘‘کو مصدریہ مان کر ہی ترجمہ ’’جھوٹ بولنے(کی سزا)‘‘، ’’جھوٹ بولنے‘‘(کے سبب)کیا ہے اور بعض نے زیادہ ہی بامحاورہ ہونے کے جوش میں ’’ان کے جھوٹ کا بدلہ‘‘ سے ترجمہ کردیا ہے جو الفاظ کی نحوی ترکیب (اور فقرے کی عربی ساخت) سے ذرا بعید ہی ہے اور صرف مفہوم کے لحاظ سے ہی درست قرار دیا جاسکتا ہے۔

 

 ۳:۸:۲      الرسم

يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا    ۚ   وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ  (۹)  فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ   ۙ   فَزَادَھُمُ اللّٰهُ مَرَضًا    ۚ   وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ       ڏ   بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ(۱۰)

        بلحاظ رسم عثمانی اس قطعہ آیات میں سے صرف لفظ ’’ یخدعُون ‘‘قابلِ ذکر ہے۔آیت کی ابتداء والا لفظ عام عربی املاءمیں "یُخادِعون" لکھا جاتا ہے ۔مگر قرآن کریم میں بالاتفاق حذف الالف (بعد الخاء) کے ساتھ لکھا جاتا ہے اگرچہ پڑھا الف کے اثبات کے ساتھ (یخادعون کی طرح) جاتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ لفظ قرآن کریم میں چار۴ؔ جگہ آیا ہے۔ تین جگہ تو ’’یخدعون‘‘ بصیغہ مضارع مرفوع ہے۔ جن میں سے دو بار تو اسی زیر ِمطالعہ آیت (البقرہ:۹) میں آیا ہے۔تیسری جگہ (النساء:۱۴۱) ہے۔ اور چوتھی جگہ (الانفال:۶۳) میں یہ لفظ ’’أن یخدعُوک‘‘ میں مضارع منصوب کی شکل میں (آخری ’’ن‘‘ کے حذف کے ساتھ) آیا ہے۔

·       مذکورہ بالا چاروں مقامات پر یہ لفظ بحذف الف (بین الخاء والدال) لکھاجاتا ہے۔ اگرچہ البقرہ:۹ میں (پہلا لفظ) اور النساء: ۱۴۱ میں بالاتفاق یہ باثباتِ الف(باب مفاعلہ کے مضارع معروف یعنی یخادعون کی طرح) پڑھا جاتاہے۔ باقی دو جگہوں پر (البقرہ :۹ کا دوسرا لفظ اور الانفال:۶۳ والا لفظ) قراءۃ حفص کے مطابق بحذف ِالف (بصیغئہ ثلاثی مجرد) پڑھا جاتا ہے۔ اور تلفظ کے اس فرق کو ضبط کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے۔ ترکی، ایران، اور چین کے مصاحف میں باثباتِ الف پڑھے جانے والے کلمات کو ’’یخادعون‘‘لکھنے کا رواج ہے اور یہ متفقہ رسمِ عثمانی کی صریح خلاف ورزی ہے۔ برصغیر غیر میں رسمِ عثمانی کے اہتمام کے ساتھ شائع ہونے والے مصاحف میں اسے بحذف الف (یخدعون) ہی لکھاگیا ہے۔

·       زیر ِمطالعہ قطعہ کے باقی تمام کلمات کی املاء عام رسمِ معتاد کے مطابق ہی ہے۔ البتّہ ان میں سے بعض کلمات کے عثمانی اور املائی رسم کے تعلق کے سلسلے میں دو ایک امور کا ذکر کرنا مناسب ہے از انجملہ:

۱۔      ’’ الذين‘‘کا صرف ایک لام کے ساتھ لکھاجانا (تفصیل کے لیے دیکھئے ۱:۶:۱(۱))اور ’’امنوا‘‘ کا صرف ایک الف کے ساتھ (یعنی ابتدائی ہمزہ کے بغیر) لکھا جانا (وضاحت کے لیے دیکھئے۳:۳:۲: اور ۴:۳:۲میں ’’آخرۃ‘‘ پر بحث) دراصل رسم املائی پر رسم عثمانی کے اثرات کا ہی ایک مظہر ہے۔

۲۔     کلمہ ’’عذاب‘‘جہاں جہاں بھی قرآن کریم میں آیا ہے ہر جگہ اسے الف (بعد الذال) کے اثبات کے ساتھ لکھے جانے پر علمائے رسم کا اتفاق ہے۔ بلکہ یہ ان دس (۱۰)کلمات میں سے ایک ہے جن کے بارے میں کتب رسم میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ کلمات قرآن کریم میں یہ ہر جگہ باثبات الف ہی لکھے جائیں گے۔  [5] اگرچہ اس صراحت کے بغیر صرف ان میں حذف الف کا ذکر نہ ہونے کا مطلب بھی یہی ہوتا   کہ یہ عام رسمِ املائی کے مطابق باثباتِ الف ہی لکھے جائیں گےـــ مگر اثباتِ الف کی اس تصریح نے تو ان کلمات کی املاء کو قطعی طور پر متعین کردیا ہے۔

۳۔    کلمات ’’ فزاد‘‘ اور ’’کانوا‘‘ میں اثباتِ الف (پہلے میں ’’ز‘‘ کے بعد اور دوسرے میں’’ک‘‘کے بعد) اس املائی قاعدہ کی بنا پر ہے کہ جو ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ کسی صرفی تعلیل کے قاعدے کے تحت ’’الف‘‘ میں بدل جائے تو یہ ’’الف‘‘ کتابت میں محذوف نہیں ہوتا۔ اگرچہ رسم عثمانی ہر جگہ اس قاعدے کا پابند نہیں ہے۔

۴۔    اسی طرح واو الجمع کے بعد ایک زائد الف لکھنا عربی املاء کا عام قاعدہ ہے (جیسے یہاں اٰمنوا‘‘اور ’’ کانوا‘‘میں ہے) البتّہ قرآن کریم میں اس کے استثناء کی بھی چند صورتیں ہیں۔ جن پر اپنے موقع پر بات ہوگی۔ان شاء اللہ

 

۴:۸:۲      الضبط

يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا    ۚ   وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ  (۹) 

فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ   ۙ   فَزَادَھُمُ اللّٰهُ مَرَضًا    ۚ   وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ       ڏ   بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ(۱۰)

قطعہ زیر مطالعہ میں ضبطِ کلمات کے حسب ذیل اختلافات پائے جاتے ہیں:۔

۱۔      ھمزہ الوصل کی علامت اور اس کا ترک یا استعمال ـــ اس کا نمونہ ’’ الذین ‘‘ اور اسم جلالت (اللہ)کے ضبط میں ملے گا۔

۲۔     ھمزۃ القطع کی علامت اور ابتداء کلمہ میں اس کا ترک یا استعمال۔ اس اختلاف کا اثر کلمات ’’ امنوا ‘‘، ’’ اِلَّا‘‘،’’ انفسھم ‘‘اور ’’ الیم ‘‘کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

۳۔    واو ساکنہ ماقبل مضموم پرعلامت ِسکون ڈالنے یا نہ ڈالنے کا فرق۔ اس کا نمونہ کلمات ’’ یخدعون‘‘، ’’ امنوا‘‘، ’’ یشعرون‘‘، ’’ قلوبھم ‘‘، ’’کانوا‘‘ اور ’’ یکذبون‘‘ میں سامنے آئے گا۔

۴۔     یائے ساکنہ ماقبل مکسور پر علامت سکون ڈالنا یا نہ ڈالنا اور ماقبل علامتِ کسرہ (ــــــِــــ) کو بصورت علامت ِاشباع یعنی کھڑی زیر(ــــــٖــــ) لکھنا۔ یہ اختلاف ’’ الذین‘‘، ’’ فی‘‘ اور ’’ الیم‘‘ کے ضبط میں ظاہرٖ ہوگا۔

۵۔     الف ماقبل مفتوح پر علامت فتحہ (ــــــَــــ) یا علامت ِاشباع یعنی کھڑی زبر (ــــــٰــــ) ڈالنے کا فرق۔ جو کلمات ’’ما‘‘،’’اِلَّا‘‘، ’’فزاد‘‘، ’’ عذاب‘‘، ’’ بما‘‘ اور ’’ كانوا‘‘ کے ضبط میں واضح ہوگا۔

۶۔     الف محذوفہ کے ظاہر کرنے کے طریقے کا فرق۔ اسے آپ ’’ امنوا ‘‘ اور ’’ یخدعون‘‘ کے ضبط میں دیکھیں گے۔

۷۔    اسم جلالت (اللہ) کے ضبط اور علامت تفخیم کا ترک یا استعمال (یہ علامت صرف تجویدی قرآن مطبوعہ پاکستان میں استعمال کی گئی ہے)

۸۔     واو الجمع کے بعد والے الف پر علامت زیادۃ یا تنسیخ کا استعمال یا اس کا ترک کرنا۔ اس اختلاف کا اثر کلمات ’’امنوا‘‘ اور’’کانوا‘‘کے ضبط میں نمایاں ہوگا۔

۹۔     تنوین کے نون ملفوظی کا اقلاب بمیم (جب اس کے بعد ’’ب‘‘ ہو تو) ظاہر کرنے کے طریقے کا فرق ’’ الیم بما‘‘ کے ضبط میں نظر آئے گا۔

۱۰۔     نون ساکنہ مخفاۃ (اخفاء والے ساکن نون۔ مکتوبی) کی علامت اخفاء کا فرق۔ عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں نون مخفاۃ کو علامت ِ سکون سے خالی رکھا جاتا ہے۔تمام مشرقی (ایشیائی) ممالک میں نون مخفاۃ اور نون مظہرہ کے ضبط میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ البتہ چین میں نون مخفاۃ پر تین باریک نقطے بھی (علامت ِ سکون پر) ڈالے جاتے ہیں۔ صرف پاکستانی تجویدی قرآن (مطبوعہ لاہور) اور مصحف الحلبی (مطبوعہ القاھرہ) میں ساکن نون کے اخفاء کو ظاہر کرنے کے لیے ایک خاص علامت ِ سکون  استعمال کی گئی ہے ۔(#) اس اختلاف کو آپ کلمہ ’’ انفسھم ‘‘ کے ضبط میں ملاحظہ کریں گے۔

۱۱۔     تنوین اخفاء اور تنوین اظہار میں فرق اور تمیز کرنا یا نہ کرنا یہ فرق بھی صرف عرب اور افریقی ممالک میں ملحوظ رکھا جاتا ہے یا پاکستانی تجویدی قرآن میں اس کا اہتمام کیا گیاہے۔ چین میں تنوین اظہار کے لئے نیچے ایک باریک سا ’’ن‘‘ اور تنوین اخفاء کے لئے اوپر تین باریک نقطے لگا دیتے ہیں۔ تنوین اخفاء کا نمونہ کلمات ’’ الیم ‘‘، ’’ مرض‘‘ اور ’’ مرضا‘‘ میں نظر آئے گا۔ اور تنوین اظہار کا استعمال کلمہ ’’ عذاب‘‘ کے ضبط میں سامنے آئے گا۔

۱۲۔    حرف مدغم (جب الگ کلمہ میں ہو) پر علامت سکون ڈالنے نہ ڈالنے کا فرق۔ یہ آپ کو ’’ قلوبھم مرض‘‘کے ضبط میں نظر آئے گا۔

۱۳۔    نون متطرفہ کو علامت ِ اعجام (نقطے) سے خالی رکھنے کا فرق کلمات ’’ یخدعون‘‘، ’’ الذین‘‘، ’’ یشعرون‘‘ اور ’’ یکذبون ‘‘ میں ظاہر ہوگا۔

۱۴۔    ’’ف‘‘ اور ’’ ق‘‘ کے طریقِ اعجام کا فرق کلمات ’’ فی‘‘، ’’ قلوبھم ‘‘ اور ’’انفسھم‘‘ میں دیکھیں گے۔

۱۵۔    "ر"کی تفخیم یا ترقیق کے لئے دومختلف صورتوں میں لکھنے کا اہتمام بھی صرف تجویدی قرآن میں کیا گیا ہے ۔اسے آپ قطعہ زیر مطالعہ کے"ر"والے کلمات میں ملاحظہ کریں گے۔

·       یوں مجموعی طور پر اختلافِ ضبط کے حسب ذیل نمونے ہمارے سامنے آتے ہیں:۔

9-10

 

 

 

9-10

 

 



 [1]  صرف ’’شامی‘‘ گنتی کے مطابق ’’الیم‘‘ پر آیت ختم ہوتی ہے ۔ جس کو ۵ کے نشان سے ظاہر کیا گیا ہے۔ باقی کسی گنتی کے مطابق یہاں ’’الیم‘‘ پر آیت نہیں ہے۔

[2]   دیکھئے مفرداتِ راغب یا کوئی بھی اچھی ڈکشنری

[3]    مثلاً  LANE کی مدّ القاموس اور اقرب الموارد تحت مادۃ ’’خدع‘‘ نیز قاموس القرآن زیر مادۃ۔

 

    [4]  اگر چاہیں تو ’’اَلِمَ‘‘ کے ان معنی اور فعل ’’دجِعَ‘‘، ’’سفِہ‘‘ اور ’’رشِد‘‘ کے ساتھ مشابہ استعمال کے لیے کسی اچھی عربی ڈکشنری کی طرف رجوع کریں۔ ’’سَفِہَ‘‘ پر البقرہ:۱۳۰ میں بات ہوگی۔ (ان شاء اللہ)

 

 [5] تفصیل کے لیے دیکھئے دلیل الحیران (للمارغنی) ص۶۶ یا لطائف البیان (زیتحار) ج۱ ص۲۳۔