سورہ بقرہ  آیت ۹۰

۵۵:۲      بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖٓ اَنْفُسَھُمْ اَنْ يَّكْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بَغْيًا اَنْ يُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ  ۚ فَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰي غَضَبٍ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ   (۹۰)

۱:۵۵:۲       اللغۃ

اس پوری آیت میں لغوی لحاظ سے تشریح طلب نئے لفظ صرف تین ہیں، یعنی بئسَ۔بغیًا اور مُھِین۔ باقی تمام کلمات اسی (موجودہ یا دوسری شکل میں پہلے گزر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پہلا مکمل نحوی جملہ خاصا طویل بنتا ہے، لہٰذا ہم اس کے بھی مناسب اجزاء لے کر ان کی وضاحت کریں گے۔ گزرے ہوئے الفاظ کا صرف ترجمہ اور صاحبِ ضرورت کے لیے لغوی تشریح کا گزشتہ حوالہ لکھتے جائیں گے۔

۱:۵۵:۲ (۱)     [بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖ اَنْفُسَھُمْ] کلمات کی تفصیل یوں ہے:

(۱)  ’’بِئْسَمَا‘‘ دو کلمات پر مشتمل ہے ’’بِئْسَ‘‘  اور ’’مَا‘‘۔  اس میں ’’ مَا‘‘ تو موصولہ ہے۔ ابتدائی لفظ ’’بِئْسَ‘‘کی لغوی تشریح یوں ہے کہ ’’بِئْسَ‘‘ کا مادہ ’’ب ء س‘‘ اور وزن ’’فِعْلَ ‘‘ ہے۔ یعنی یہ ایک فعل جامد ہے جس پر ہم ابھی بات کریں گے۔ اس مادہ میں بنیادی مفہوم ’’بہت ہی برا ہونے‘‘ کا ہے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد دو طرح استعمال ہوتا ہے (۱) بَئِس یَبْأسُ بَأسًا و بُؤْسًا (سمع سے) کے معنی ہیں: ’’بری طرح مفلس اور سخت حاجت مند ہونا‘‘۔ اس سے اسم الفاعل ’’بائسٌ‘‘ بطور اسم صفت ’’غریب، بہت ہی حاجت مند‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (۲) اور ’’بَؤسَ یَبْؤُسُ بَأْسًا وَ بَأسَۃً‘‘ (کرم سے) کے معنی ہیں: ’’برائی میں نہایت سخت اور شدید ہونا‘‘۔ اور یہ ’’بہادر ہونا‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس سے صفت مشبہ ’’بَئِیْسٌ‘‘ بہت ہی سخت ‘‘ اور ’’شدید برا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کسی قسم کا صیغۂ فعل کہیں نہیں آیا۔ البتہ اس مادہ سے باب افتعال کا ایک ہی صیغہ فعل (نھی) ’’ لَا تَبْتَىِٕسْ ‘‘ قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے۔ اس کے علاوہ اس مادہ سے مشتق و ماخوذ اسماء و مصادر (بأس، الباساء، بائس، بئیس وغیرہ) تیس کے قریب مقامات پر آئے ہیں، جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’بِئْسَ‘‘ اس مادہ سے ماخوذ ایک فعل جامد ہے۔ جامد وہ فعل ہوتا ہے جس کی صرف ایک ہی صورت (بغیر گردان کے ) استعمال ہوتی ہے۔ عموماً یہ فعل ماضی کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اگرچہ بعض افعال جامدہ ’’فعل امر‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ’’بِئْس‘‘ ان افعال جامدہ سے ہے جو فعل ماضی کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس طرح ’’بئس‘‘ کا اصل ترجمہ تو ہے’’وہ برا ہوا‘‘ یعنی یہ ’’سَاء‘‘  کے ہم معنی ہے۔ یہ فعل خصوصاً ’’ذَمُّ‘‘ (برائی کرنا) کے لیے استعمال ہوتا ہے (جس طرح ’’نِعْمَ‘‘ مدح کے لیے استعمال ہوتا ہے) اس طرح ’’بِئْس‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ بنتا ہے ’’کتنا ہی برا ہے/کیا ہی برا ہے/بہت ہی برا ہے‘‘ اور یہ لفظ ہر طرح کی برائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایک اسم آتا ہے جو اگر معرف باللام ہو یا کسی معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو مرفوع آتا ہے۔ مثلاً ’’بئس الرجل فلانٌ‘‘ (فلاں کتنا برا آدمی ہے) یا ’’بِئس ابنُ الرجلِ فلانٌ ‘‘ فلاں تو (اس) آدمی کا بہت ہی برا بیٹا ہے۔

·       اگر اس کے بعد کوئی اسم نکرہ آئے تو وہ تمیز ہوکر منصوب آتا ہے، جیسے ’’بئس رجلاً‘‘ (وہ کتنا برا ہے بلحاظ مرد ہونے کے)۔ بعض دفعہ ’’بئس کے بعد  ’’مَا‘‘ بطور نکرہ (شیئاً کے معنی میں) بطور تمیز آتا ہے۔ (جیسے یہاں آیا ہے) اس صورت میں ’’بئسمَا‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’کتنا برا ہے بلحاظ چیز ہونے کے وہ جو کہ ‘‘ تاہم اس کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’کتنا/بہت ہی برا ہے وہ جو‘‘ سے ہی کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ (بِئْسَ) چالیس جگہ آیا ہے۔ ان میں سے ۹ جگہ یہ ’’مَا‘‘ کے ساتھ آیا ہے، صرف ایک جگہ (الکہف:۵۰) اس کے ساتھ نکرہ تمیز لفظ ’’بدلاً‘‘ کی صورت میں آئی ہے، باقی تیس مقامات پر اس کا اسم معرف باللام آیا ہے جن میں سے چار جگہ معرف باللام کی طرف مضاف ہوکر آیا ہے۔ زیر مطالعہ عبارت میں ’’بئسما‘‘ کاترجمہ ’’بہت ہی برا ہے جو، کیا ہی برا ہے جو‘‘ ہوسکتا ہے۔ بعض نے ’’وہ جو‘‘ کی بجائے وضاحت کے لیے ’’وہ مول جو/وہ معاوضہ جو/وہ حالت جو/وہ بدلہ جو/وہ چیز جو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے، جس کی مناسبت اگلے فعل (اشتَری) سے بنتی ہے۔

(۲) ’’اِشْتَرَوْا‘‘ (انہوں نے خریدا/بیچا) اس کا مادہ ’’ش ر ی‘‘اور وزن اصلی ’’اِفْتعَلُوْا‘‘ہے۔ اس سے فعل مجرد کے علاوہ باب افتعال سے اس کے معانی پر، اور خود لفظ ’’اشتروا‘‘کی ساخت اور اس میں ہونے والی تعلیل وغیرہ پر البقرہ:۱۶[۱:۱۲:۲ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔

·       زیر مطالعہ عبارت میں اس فعل کے استعمال کے سلسلے میں دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔ (۱) فعل مجرد ’’شَرَی یَشْرِیْ‘‘ کے بنیادی معنی ’’بیچنا‘] (باعَ) ہیں، مگر کبھی یہ ’’خریدنا‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اسی طرح (۲) ’’اشتری یشترِی‘‘ کے بنیادی معنی ’’خریدنا‘‘  (ابتاعَ) ہیں تاہم بعض دفعہ یہ فعل ’’بیچنا‘‘کے معنی بھی دیتا ہے۔ گویا یہ لغت اضداد میں سے ہیں۔ تاہم ہر ایک پر ایک معنی غالب ہیں اور دوسرے معنی کم استعمال ہوتے ہیں، مگر ہوتے ضرور ہیں۔

·       خاص اس (زیر مطالعہ) آیت میں بیشتر مفسرین نے ’’اشتروا‘‘ کے معنی ’’بیچنا‘‘ مراد لیے ہیں اور ان کے اتباع میں ہمارے بہت سے اردو مترجمین نے بھی اس کا ترجمہ ’’بیچا ہے/بیچ ڈالا ہے‘‘ سے کیا ہے اور مطلب اس کا یہ بنتا ہے کہ انہوں نے اپنی ساری جسمانی و ذہنی صلاحیتیں اس (کفر) کے لیے کھپا دیں (جس کا ذکر آگے آ رہا ہے)۔ البتہ بعض نے اس کا ترجمہ غالب لغوی معنی کے ساتھ کیا ہے یعنی ’’خریدا/مول لیا/خرید کیا‘‘ کی صورت میں۔ جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ انہوں نے اپنی دانست یا زعم میں اپنی جانوں /اپنے آپ کو چھڑا لیا (عذاب سے) (جو فریبِ نفس ہے) اسی لیے بعض مترجمین نے یہاں ’’ما‘‘کا ترجمہ ہی ’’وہ حالت جو‘‘ اور ’’اشتروا‘‘ کا ترجمہ ’’. . . . . کو اختیار کیا/کرکے‘‘ سے کیا ہے کیونکہ خریدوفروخت میں بھی ہر شخص ایک چیز ہی ’’اختیار‘‘ کرتا ہے۔

(۳) ’’بہ‘‘ یہ باء (ب) وہی صلہ ہے جو فعل ’’اشتری‘‘ کے ساتھ ’’معاوضہ، قیمت، یا بدلہ‘‘ پر لگتا ہے جو خریدی یا بیچی ہوئی چیز کی قیمت یا فروخت کے طور پر دی یالی جائے۔ اور ضمیر مجرور ’’ہ‘‘در اصل ’’بئسما‘‘ والے ’’ما‘‘کی عائد ضمیر ہے۔ ترجمہ ہوگا ’’جس کے ساتھ /جس کے عوض/ اس کے معاوضہ میں‘‘

(۴) ’’ اَنْفُسَھُمْ ‘‘ (ان کی/اپنی جانوں کو)۔ ’’انفس‘‘ (جو نفس کی جمع ہے) کی لغوی تشریح البقرہ:۹ [۱:۸:۲ (۴)] میں گزر چکی ہے۔

·       اس طرح زیر مطالعہ پوری عبارت (بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖٓ اَنْفُسَھُمْ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ۔ ’’کتنی بری ہے وہ چیز جو کہ بیچ دیا / خرید لیا / انہوں نے اس کے بدلے میں اپنی جانوں کو‘‘۔ پھر اسی کی بامحاورہ صورتیں ہیں:۔ ’’برے مول خریدا اپنی جانوں کو/کس برے مولوں انہوں نے اپنی جانوں کو خرید ا /  برا مول ہے جس کے بدلے خریدا انہوں نے اپنی جانوں کو / کیا ہی برا معاوضہ ہے جس کے بدلے ان لوگوں نے (اپنے نزدیک) اپنی جانوں کو خرید کیا‘‘۔ یا بیچ ڈالا کے معنی میں ’’برا ہے جو کچھ بیچا ہے بدلے اس کے اپنی جانوں کو / بری ہے وہ چیز جس کے بدلے بیچا انہوں نے آپ کو / برے بدلے پر انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا / جس چیز کے بدلے انہوں نے اپنے تئیں بیچ ڈالا وہ بہت بری ہے / بری ہے وہ چیز کے عوض میں انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ہے‘‘۔ آپ نے دیکھا (بیچا یا خریدا کے فرق کے علاوہ) سب تراجم کا مفہوم ایک ہی ہے، بس الفاظ کا انتخاب اپنا اپنا ہے جس پر آپ تنقید بھی کرسکتے ہیں اور خوب سے خوب تر کی تمیز بھی کر سکتے ہیں۔ بظاہر یہ جملہ اپنی جگہ مکمل نحوی جملہ ہے، مگر اس سے اگلے جملے میں اس جملے کے ’’ما‘‘ اور ’بہ‘‘ کی وضاحت کی گئی ہے لہٰذا وہ بھی اس کا حصہ ہی سمجھا جائے گا۔

۱:۵۵:۲ (۲)     [اَنْ يَّكْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ] اس عبارت میں کوئی نیا لفظ نہیں ہے۔ ذیل میں ہر ایک کلمہ کا الگ الگ ترجمہ مع گزشتہ حوالہ دیا جاتا ہے۔

(۱) ’’اَنْ‘‘ (یہ کہ/  کہ) اس لفظ کے استعمالات پر البقرہ:۲۶[۱:۱۹:۲ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔

(۲) ’’یکفروا‘‘ (وہ کفر کریں/ انکار کردیں) عبارت کے سیاق میں اس کا ترجمہ بصیغۂ ماضی ’’منکر ہوئے/ہوگئے‘‘ سے بھی ہوسکتا ہے اور یہی ماضی کا مفہوم ’’انکار کرنے لگے / لگے انکار کرنے / کفر کرنے لگے‘‘ کے ذریعے بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ بعض حضرات نے فعل حال کی صورت ’’انکار کرتے ہیں /  کفر کرتے ہیں‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے۔ ’’یکفروا‘‘ کے صیغہ مضارع میں اور بیان واقعہ کے سیاق میں تمام تراجم اپنی جگہ درست ہیں۔ فعل ’’کفر یکفر‘‘ کے باب معنی اور استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ:۶ [۱:۵:۲ (۱)]

(۳) ’’بِمَا‘‘ کی ’’باء (ب)‘‘ تو وہ صلہ ہے جو فعل ’’کفر‘‘کے مفعول پر لگتا ہے (دیکھئے مندرجہ بالا حوالہ) ۔ اور ’’مَا‘‘یہاں موصولہ ہے۔ دیکھئے [۱:۲:۲(۵) ] اس طرح ’’بمَا‘‘کا ترجمہ بنتا ہے ’’اس پر جو کہ   /اس کا جو کہ   /اس سے جو کہ / اس چیز کا جو کہ۔

(۴) ’’ اَنْزَلَ اللّٰهُ ‘‘ (نازل کیا   /اتارا / اتاری اللہ نے) اسم جلالت کی لغوی بحث ’’ بِسْمِ اللّٰهِ [۱:۱:۱: (۲)] میں گزری تھی۔ فعل ’’اَنْزَل‘‘ (جو بابِ افعال کا صیغہ ماضی ہے) کے مادہ، باب اور معنی و استعمال پر البقرہ:۴[۱:۳:۲(۲)] میں بات ہوئی تھی۔

·       اس طرح اس عبارت کا ترجمہ بنا ’’یہ کہ وہ منکر ہوگئے اس کے جو اللہ نے نازل کیا‘‘۔ بعض نے ’’مَا‘‘کو مصدریہ قرار دے کر ’’ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ‘‘ کا ترجمہ ’’اللہ کے اتارے سے/اللہ کے اتارے (کلام) سے‘‘ کیا ہے اور بعض نے اسے مزید بامحاورہ کرتے ہوئے ’’اللہ کی/خدا کی اتاری ہوئی/نازل کی ہوئی کتاب‘‘ کیا ہے۔ اس میں کلام یا کتاب وغیرہ کے الفاظ تفسیری اضافے ہیں۔ بعض نے ابتدائی ’’اَنْ‘‘ کو مصدریہ قرار دے کر ’ اَنْ يَّكْفُرُوْا ‘‘ کا ترجمہ ’’. . . . .کا انکار کرکے‘‘ سے کیا ہے۔ اس سے اگلے جملہ میں ان کے کفر کی وجہ بیان ہوئی ہے۔ اس لیے وہ بھی اسی جملہ کا حصہ ہے۔

۱:۵۵:۲ (۳)     [بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ] اس عبارت میں نیا لفظ صرف ’’بَغْیًا‘‘ ہے، باقی کلمات کا ترجمہ اور اشارۃً گزشتہ حوالہ ذکر کردیا جائے گا تاکہ جو چاہے رجوع کرلے۔

(۱) [بَغْیًا] کا مادہ ’’ب غ ی‘‘اور وزن ’’ فَعْلٌ‘‘ ہے (جو عبارت میں منصوب یعنی ’’ فَعْلًا‘‘ آیا ہے) اس مادہ سے فعل مجرد باب ضرب سے آتا ہے مگر مختلف  مصادر کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے مثلا ً (۱) ’’بغی یبغِی بَغْیًا‘‘ کے معنی ہیں ’’سرکشی کرنا، راہِ حق سے انحراف کرنا‘‘ مثلاً ’’بغی الرجلُ ‘‘(آدمی نے سرکشی کی)۔ جس کے خلاف سرکشی کی جائے اس پر ’’علیٰ‘‘ کا صلہ لگتا ہے، جیسے ’’ فَبَغٰى عَلَيْهِمْ ‘‘ (القصص ۷۶) میں ہے (یعنی اس (قارون) نے ان لوگوں (اپنی قوم) کے خلاف سرکشی اختیار کی)۔ اسی مصدر کے ساتھ اس فعل کے ایک معنی ’’زخم کا بہت ہی بگڑ جانا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ’’بَغَی الجرحُ‘‘ (زخم میں ورم آ گئی اور پیپ پڑگئی)۔ تاہم یہ آخری استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔

(۲) ’’بغَی یبغِی بُغْیَۃً‘‘ کے معنی ’’طلب کرنا، تلاش کرنا‘‘ ہوتے ہیں۔ اس کا مفعول (جو چیز طلب کی جائے) بنفسہ آتا ہے جیسے ’’ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ ‘‘(القصص:۷۷) میں ہے (یعنی زمین میں فساد طلب نہ کر) ۔ بعض دفعہ اس فعل کے دو مفعول بھی آتے ہیں (جسے طلب کیا جائے اور جس کے لیے طلب کیا جائے) اس صورت میں دونوں مفعول بنفسہ آتے ہیں جیسے ’’ يَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَ  ‘‘ (التوبہ:۴۷) میں ہے (یعنی وہ تمہارے لیے فتنہ اور گڑبڑ کی تلاش میں رہتے ہیں)۔ ویسے ’’چاہنا، طلب کرنا، تلاش کرنا‘‘ کے لیے مجرد فعل کی نسبت باب افتعال (ابتغی یبتغی) زیادہ استعمال ہوتا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد (بغَی یبغی)سے مختلف صیغہ ہائے فعل پچیس جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے ۹ جگہ یہ فعل ’’سرکشی اور بغاوت کرنا‘‘ کے معنی میں اور ۱۶ جگہ ’’چاہنا، طلب کرنا، ڈھوندنا‘‘ کے میں استعمال ہوا ہے۔ تفصیل اپنی جگہ آئے گی۔

(۳) ’’ بَغَی یَبغِی بِغاءً‘‘ کے معنی ہیں ’’عورت کا بدکاری کو بطور پیشہ اختیار کرنا یا بہت ہی بدکار ہونا‘‘۔ کہتے ہیں ’’بغتِ المرأۃُ‘‘ (یعنی عورت نے ایسا کیا)۔ بدکار عورت کو ’’بَغِیٌّ‘‘  (بغیر تائے تانیث صرف ’’فعِیْل‘‘ کے وزن پر) کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں ان معنی میں کوئی صیغۂ فعل تو کہیں نہیں آیا، البتہ ’’ البغاء‘‘ (مصدر) اور ’’ بغیّ‘‘(اسم صفت) ایک دو دفعہ آئے ہیں۔

·       اس فعل مجرد سے افعال کے مذکورہ بالا (۲۵) صیغوں کے علاوہ اس فعل سے ماخوذ اور مشتق اسماء اور مصادر وغیرہ ( بَغْیٌ، باغ وغیرہ) مختلف حالتوں میں سترہ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے باب افتعال سے صیغہ ہائے فعل اور مصدر قریباً پچاس جگہ اور باب انفعال سے صیغۂ فعل ’’یَنبَغِیْ ‘‘ بطورِ فعل منفی (لا یا ما کے ساتھ) بھی چھ جگہ آیا ہے۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’بَغْیًا‘‘ مذکورہ بالا استعمال  ۱؎ (سرکشی کرنا) کا مصدر ہے۔ اس کی نصب پر تو ’’الاعراب‘‘میں بات ہوگی۔ یہاں اس کا ترجمہ تو بنتا ہے ’’سرکشی کے لیے /کی بناء پر‘‘۔ تاہم بہت سے اردو مترجمین نے ’’سرکشی کی وجہ اور بنیاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’اس ضد پر، جلن سے، حسد میں‘‘ کی صورت میں کیا ہے، بلکہ زیادہ حضرات نے ’’ضد سے‘‘ کو ہی اختیار کیا ہے جو سرکشی کا ہی ایک مظہر بھی ہے اور محرّک بھی۔

(۲) ’’ اَنْ یُّنَزِّلَ اللہُ: (کہ اتارے اللہ) کا ابتدائی ’’أن‘‘ تو ’’ کہ‘‘ کے معنی میں ہے اس کے استعمال پر تفصیلی بات ]۱:۱۹:۲ (۲) ] میں ہوئی  تھی۔

   ’’یُنَزِّل‘‘ کا مادہ ’’ ن ز ل ‘‘ اور وزن (موجودہ منصوب صورت میں) ’’یُفَعِّلَ‘‘ ہے۔ یعنی یہ باب تفعیل کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس مادہ سے باب تفعیل کے فعل کے معنی و استعمال پر البقرہ: ۲۳ [۱:۱۷:۲ (۲)] میں کلمہ ’’نَزَّلْنَا‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔

·       اس طرح ’’ اَنْ یُّنَزِّلَ اللہُ ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنا ’’ کہ اتارے اللہ (تعالیٰ)‘‘ جسے  ’’نازل فرمائے /وحی بھیجے/وحی اتارے‘‘ کی صورت بھی دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں لفظ ’’وحی‘‘ تفسیری اضافہ ہے۔

(۳) ’’من فَضْلِہٖ‘‘ (اپنے فضل سے) میں ’’منْ ‘‘ سببیہ تعلیلیہ (بمعنی ’’کی وجہ سے، کی بناء پر‘‘ ) ہے۔ اردو ترجمہ ’’سے‘‘ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لفظ ’’فضل‘‘ کے مادہ، فعل، باب وغیرہ پر البقرہ: ۴۷ [۱:۳۱:۲ (۱)] یں بات ہوئی تھی۔ اور خود لفظ ’’ فَضْل‘‘کے معنی پر البقرہ:۶۴[۱:۴۱:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی۔ یہ لفظ (فضل) اردو میں اتنا رائج ہے کہ کسی نے اس کا الگ ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، بلکہ سب نے ’’اپنے فضل سے‘‘ ہی رہنے دیا ہے کسی ایک آدھ نے ’’اپنی مہربانی سے‘‘ بھی اختیار کیا ہے۔

(۴) ’’ علٰی مَنْ یَّشَاء‘‘ ـــ (جس پر وہ چاہتا ہے) میں ’’علٰی‘‘تو وہ صلہ ہے جو فعل ’’ انزَل  یا  نزَّل‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے (یعنی جس پر کچھ نازل ہو اس سے پہلے لگتا ہے، ورنہ ان افعال کا مفعول (جو چیز نازل ہو) تو بنفسہ آتا ہے) ’’مَنْ‘‘ (جو کہ) موصولہ کئی دفعہ گزرا ہے اور ’’یشاء‘‘ کا مادہ ’’ ش ی ء ‘‘ اور وزن اصلی ’’یَفْعَلُ ‘‘ ہے۔ اس سے فعل مجرد کے باب، اور معنی و استعمال اور تعلیل وغیرہ پر البقرہ: ۲۰[۲:۱۵:۲ (۸)] میں کلمہ ’’شاء ‘‘ کے ضمن میں بات ہوچکی ہے۔ نیز اس پر دیکھئے آگے بحث ’’الاعراب‘‘۔

(۵) ’’ مِنْ عِبَادِہ ‘‘ (اپنے بندوں میں سے) ’’ مِن ‘‘یہاں تبعیضیہ ہے، دیکھیے [۱:۲:۲ (۵)]میں ’’عبَاد‘‘ جمع مکسر ہے جس کا واحد ’’عبدٌ‘‘ ہے۔ اس کے مادہ ( ع ب د)سے فعل مجرد (عبد یعبُد: عبادت کرنا)پر [۱:۴:۱(۲)] میں کلمہ ’’نعبُد‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی اور مفرد کلمہ ’’عبد‘‘ پر بھی البقرہ:۲۳ [۱:۱۷:۲(۳) ] میں بحث ہوچکی ہے۔

·       اس تجزیہ کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اس پوری زیر مطالعہ عبارت (بغیاً اَنْ ینزّل اللہ من فضلہٖ علیٰ من یّشاء من عبادہ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’سرکشی کے لیے اس بات پر کہ اتارے اللہ اپنے فضل سے جس پر چاہے اپنے بندوں میں سے‘‘ اس مضمون کو بامحاورہ بنانے اور عبارت کے اجزاء کی اردو ترکیب و ترتیب کے مطابق کرنے کے لیے مختلف صورتیں اختیار کی گئی ہیں، مثلا: ’’محض اس ضد پر/اس کی جلن سے /اس حسد سے کہ اللہ/خدا اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر/بندوں میں سے جس پر چاہے اتارے/نازل کرے‘‘۔ اس عبارت کے ایک ترجمہ پر آگے حصہ الاعراب میں بات ہوگی۔

مجموعی طور پر اس عبارت میں [۱:۵۵:۲(۲) ]والے فقرے (اَنْ يَّكْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ) میں بیان کردہ کفر و انکار کی وجہ بیان ہوئی ہے، اس لیے یہ اسی عبارت کا ایک حصہ ہی ہے۔ اس طرح ان تین عبارتوں یعنی [۱:۵۵:۲(۱۔۳)] کا (جو بلحاظ مضمون ایک ہی مربوط عبارت بنتی ہے) خلاصہ مضمون یہ ہے کہ ’’انہوں نے اپنی جانوں کا برا سودا کیا اللہ کی نازل کردہ چیز کا انکار کر کے اور انکار بھی محض اس سرکشی اور ضد پر کہ اللہ (ہماری مرضی کی بجائے) اپنی پسند کے مطابق کسی کو اپنے فضل (وحی نبوّت) سے (کیوں) حصہ دے۔ مزید تفصیل کسی اچھی تفسیر میں دیکھ لیجئے۔

۱:۵۵:۲ (۴)     [فَبَاءُوْ بِغَضَبٍ عَلیٰ غَضَبٍ] اس عبارت کا ابتدائی حصہ صرف عطف کے فرق کے ساتھ البقرہ:۶۱ میں ’’وَبَاءُوْ بغضبٍ‘‘. . . . کی صورت میں گزر چکا ہے، یعنی وہاں  ’’ وَ‘‘ (اور) تھا۔ اور یہاں ’’فَ‘‘ (پس/پھر) ہے۔ ’’باءو ‘‘کے مادہ (بوأ) اور اس سے فعل مجرد (باء یبُوء= لوٹنا۔ کمالانا) کے معنی وغیرہ پر وہیں [۱:۳۹:۲ (۱۶)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ لفظ ’’غضب‘‘ کا مادہ، فعل اور معانی وغیرہ اس سے پہلے [۱:۶:۱ (۵)] میں بھی بیان ہوئے تھے۔ خود لفظ غضب اردو میں رائج ہے۔ زیر مطالعہ عبارت کے آخر پر ’’علیٰ غضب‘‘ (پر غضب) ’’یعنی غضب پر غضب‘‘ آیا ہے، جب کہ البقرہ:۶۱[۱:۳۹:۲ (۱۷)] میں . .’’ من اللہ‘‘ (اللہ کی طرف سے) یعنی ’’اللہ کا غضب‘‘ کے الفاظ تھے۔

·       یوں اس جملے (فَبَاءُوْ بِغَضَبٍ عَلیٰ غَضَبٍ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: ’’پس وہ لے کر لوٹے یا کما لائے غصّہ پر غصّہ یا غضب پر غضب‘‘ اور بعض نے ’’فباءو‘‘  (کمایا) کا ترجمہ ’’کے مستحق ہوگئے/میں مبتلا ہوگئے/کے سزاوار ٹھہرے/میں آگئے‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ جو زیادہ با محاورہ ہے۔ اسی طرح ’’غضب علی غضب‘‘ کا ترجمہ ’’غضب بالائے غضب‘‘ اور ’’غضب در غضب‘‘ بھی کیا گیا ہے جو اصل عربی سے زیادہ نہیں تو کم مشکل بھی نہیں ہے۔

۱:۵۵:۲ (۵)     [وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ] اس عبارت میں نیا لفظ صرف مُھِیْنٌ ہے، باقی کلمات کا ترجمہ اور مزید لغوی نحوی وضاحت کے لیے گزشتہ کا حوالہ ذکر کیا جاتا ہے۔

(۱) ’’ وَ ‘‘یہاں مسانفہ ہے (دیکھئے البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۱)] میں اس کی تعریف) چونکہ یہاں سے ایک الگ بات شروع ہوئی ہے اسی لیے سابقہ عبارت کے آخر پر وقف مطلق کی علامت ’’ط‘‘ ڈالی گئی ہے۔ اردو ترجمہ بہرحال ’’اور‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔

(۲) ’’للکافرین‘‘ (کافروں کے لیے) کی ابتدائی لام الجرّ (لِ) ’’کے لیے /سے مختص‘‘ کے معنی میں ہے اور ’’الکافرین‘‘ (ابتدا میں لام الجرّ کے لگنے سے لام تعریف کا ہمزۃ الوصل تلفظ کے علاوہ کتابت سے بھی ساقط ہوجاتا ہے یعنی ’’للکافرین‘‘ لکھا جاتا ہے) فعل ’’کفر یکفر‘‘=(انکار کردینا/نہ ماننا)  سے اسم الفاعلین (بصیغہ جمع مذکور مجرور) ہے۔ اس کے مادہ (کفر) اور فعل کے باب و معنی پر البقرہ:۶ [۱:۵:۲ (۱)] میں اور خود لفظ ’’الکافرین‘‘ پر البقرہ: ۱۹ [۱:۱۴:۲(۱۴)] میں بات ہوئی تھی۔

(۳) ’’عذاب‘‘ (سزا۔ سخت سزا) خود یہی لفظ اردو میں اتنا متعارف ہے کہ ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس کی لغوی تشریح پر البقرہ:۷ [۱:۶:۲ (۶)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

(۴) ’’مُھِیْنٌ‘‘ کا مادہ ’’ ھ و ن‘‘ اور وزن اصلی ’مُفْعِلٌ‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’ مُھْوِنٌ‘‘ تھا، پھر حرف علّت (وَ) کی حرکت (کسرہ’’ ــــــِــــ ‘‘) اس کے ماقبل ساکن حرف صحیح (ھ) کو  دے کر  خود ’’ و‘‘ کو اب مقابل کی حرکت (ــــــِــــ) کے مواف ق حرف (ی)میں بدل کر لکھا بولا جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد آتا تو باب ضرب سے ہی ہے ، مگر مختلف مصدر کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے، اگرچہ اس مادہ کا بنیادی مفہوم ’’آسان اور کم وزن کا ہونا‘‘ اس کے تمام معانی میں پایا جاتا ہے (۱) ’’ھَانَ یھُونُ ھُوْناً و ھوَاناً‘‘ کے معنی ہیں ذلیل و خوار ہونا۔ مثلاً کہتے ہیں ’’ھانَ فلانٌ ھُوْنًا‘‘ (فلاں بہت خوار ہوا۔ اس کی ذلت ہوئی) ’’ھُوْن‘‘ کے معنی ’’ذلّت‘‘ ہیں۔ (۲) ھان یھُون ھَوْناً کے معنی ہیں ’’آسان اور سہل ہونا، معمولی ہونا‘‘۔ جس پر وہ (چیز یا کام) آسان ہو اس پر ’’علیٰ‘‘ کا صلہ آتا ہے، مثلاً کہتے ہیں ’’ھان الشیئ علیٰ فلانٍ‘‘ (وہ چیز فلاں پر آسان/یا اس کے لیے بالکل معمولی تھی)۔ ایسی چیز (یا کام) کو ’’ھَیِّنٌ‘‘ (آسان ، معمولی) کہتے ہیں۔ اور ’’ھَوْن‘‘(بفتح الھاء) ’’وقار اور تواضع‘‘ کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی یہ قابل تعریف اور خود اختیار کردہ ’’ہلکا پن‘‘ یا سادگی اور بے تکلفی کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ ’’ھُون‘‘ (بضم الھاء) کسی دوسرے کی طرف سے مسلط کردہ مذموم ’’ہلکا پن‘‘ یعنی خواری اور ذلّت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دونوں لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ (ھون)سے فعل مجرد کا تو کوئی صیغۂ استعمال نہیں ہوا، بلکہ اَفعال میں سے تو اس کے مزید فیہ کے بابِ افعال سے ہی صرف دو صیغۂ فعل دو جگہ آئے ہیں۔ البتہ اس مادہ سے ماخوذ اور اس کے اَفعال سے مشتق کلمات (مثلاً ھُون، ھَون، ھیّن، اَھوَن، مُھِیْن اور مُھان وغیرہ)  متعدد (۲۴) جگہ آئے ہیں۔ جن پر حسب موقع بات ہوگی، ان شاء اللہ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’مُھِیْنٌ ‘‘ اس مادہ (ھون) سے باب اِفعال کا اسم الفاعل ہے۔ باب اِفعال کے فعل ’’اَھان. . . .   یُھِیْنُ اِھانۃ‘‘ (در اصل اَھوَن یُھْوِنُ اِھوانا) کے معنی ہیں ’’. . . . .کو ذلیل و خوار کرنا، . . . . .کی سخت بے عزتی کرنا‘‘مثلاً کہتے ہیں ’’ اَھان فلاناً‘‘ (اس نے فلاں کو ذلیل کردیا) اور قرآن کریم میں ہے ’’ رَبِّيْٓ اَهَانَنِ  ‘‘ (الفجر:۱۶) یعنی ’’میرے ربّ نے مجھے ذلیل کردیا‘‘۔ (اس میں اَھَانن دراصل ’’اھَانَنِیْ‘‘ ہے۔ آخری یائے متکلم تلفظ اور کتابت سے ساقط کردی گئی ہے اور اس کی علامت ’’اھانن‘‘ کے آخری ’’نون‘‘ کی کسرہ رہ گئی ہے) یعنی اس فعل کا مفعول بنفسہ آتا ہے۔

·       اس طرح کلمہ ’’مُھین‘‘ کا ترجمہ ہے ’’ذلیل کردینے والا‘‘۔ اور اس پورے فقرے ( وللکافرین عذابٌ مُھِین) کا ترجمہ ہوگا ’’اور کافروں/منکروں کے لیے ہے/ہوگا ذلیل کرنے والا عذاب‘‘ جسے ’’ذلت والا عذاب‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ تاہم بیشتر مترجمین نے یہاں ’’عذاب مھین‘‘ (ترکیب توصیفی) کا ترجمہ (مرکب اضافی کی طرح) ’’ذلت کا عذاب‘‘ کیا ہے جو بظاہر تو ’’ عَذَابَ الْهُوْنِ ‘‘ (یہ ترکیب بھی قرآن کریم میں (الانعام: ۹۳) وارد ہوئی ہے) کا ترجمہ ہے، تاہم شاید اردو محاورہ کے لحاظ سے یہ (ترکیب اضافی والا) ترجمہ بہتر ہے۔

 

۲:۵۵      الاعراب

   زیر مطالعہ عبارت دراصل تو نحوی اعتبار سے تین مکمل جملوں پر مشتمل ہے، اسی لیے پہلے جملے کے آخر پر وقف جائز (ج) کی اور دوسرے جملے کے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی گئی ہے۔ تاہم پہلا جملہ نحوی ترکیب کے لحاظ سے ذرا پیچیدہ بھی ہے اور طویل بھی۔ اس لیے حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں ہم نے اس (پہلے) ایک جملے کو تین حصوں میں (جن میں سے دو ’’اَن‘‘ سے شروع ہونے والے نحوی اعتبار سے نامکمل جملے بھی شامل ہیں) تقسیم کرکے بات کی تھی۔ اب ہم ذیل میں اس عبارت کو تین جملوں کی صورت میں زیر بحث لائیں گے۔

(۱) بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖٓ اَنْفُسَھُمْ اَنْ يَّكْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بَغْيًا اَنْ يُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ  ۚ

[بئس] فعل ذم ہے (بمعنی ساء) اور [مَا]یہاں نکرہ بمعنی ’’ شیئاً‘‘ ہوتے ہوئے اس فعل کی تمیز منصوب ہے اور بعض نحویوں کے نزدیک یہ معرفہ بمعنی ’’الذی‘‘ (جو کہ) ہوکر ’’بئس‘‘ کا فاعل ہے۔ اردو کے بامحاورہ ترجمہ کے لیے یہ دوسری ترکیب (فاعل والی) زیادہ موزوں ہے، اس لیے سب مترجمین نے اسی طرح (بصورت فاعل) ترجمہ کیا (دیکھئے اس کے تراجم حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں [اشتروا] فعل ماضی مع ضمیر الفاعلین جملہ فعلیہ ’’ ما‘‘ موصول (فاعل) کا صلہ بنتا ہے۔ [بہ] جار مجرور (جس میں ضمیرمجرور ’’ ہ ‘‘اسی ’’ ما‘‘ پر عائد ہے)  متعلق فعل (اشتروا) ہیں۔ [انفسہم] مضاف مضاف الیہ مل کر فعل ’’اشتروا‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ اس طرح یہ عبارت (مااشتروا بہ انفسہم) صلہ موصول مل کر ’’بئس‘‘ کا فاعل بنتا ہے( جسے بعض دفعہ اس کا ’’اسم‘‘ بھی کہہ دیتے ہیں جس طرح ’’کان‘‘ وغیرہ کا فاعل اس کا ’’اسم‘‘ کہلاتا ہے) اور یہ پورا جملہ (بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖٓ اَنْفُسَھُمْ) بیان الذّم یا خبر مقدم ہے۔ اس کا مبتدأ وہ مخصوص بالذّم ہے جو آگے آرہا ہے [ان یکفروا] میں ’’ اَن ‘‘ تو حرفِ مصدری (یعنی اگلے فعل میں مصدر کے معنی پیدا کرنے والا) ناصب ہے اور ’’یکفروا‘‘ اس کی وجہ سے فعل مضارع منصوب ہے، علامتِ نصب آخری ’’ ن ‘‘ کا حذف ہے (جو دراصل یکفرون تھا)اس ’’ اَن ‘‘ سے پہلے ایک مبتدأ محذوف سمجھا جائے گا یعنی ’’ھُوَ اَنْ. . . . .‘‘ (وہ۔ برا مول جس کے بدلے جانوں کو خریدا یا بیچا۔ یہ ہے کہ . . . . .)اس صورت میں ’’ اَنْ  ‘‘ کے بعد والا جملہ اس (ھو) کی خبر سمجھا جائے گا۔ اور یوں بھی ہوسکتا ہے کہ ’’ان ‘‘ کو مصدریہ سمجھ کر مابعد فعل کو مصدر مؤوّل قرار دیا جائے اور اسے اس محذوف مبتدأ ’’ھو‘‘ کی خبر قرار دیا جائے۔ یعنی ’’ھُوَ ان یکفروا‘‘ . . . . . کو ’’ھُوَ کفرُھم‘‘ کے برابر سمجھا جائے۔ تاہم اُردو کے کسی مترجم نے ’’اَن مصدریہ‘‘ کے ساتھ ترجمہ نہیں کیا، بلکہ اسے صرف ناصب ہی سمجھ کر ترجمہ فعل مضارع کے ساتھ ہی کیا ہے (البتہ بعض نے سیاق عبارت کی بناء پر فعل ماضی سے بھی ترجمہ کردیا ہے۔)

[بِمَا] ’’بِ‘‘ فعل ’’یکفروا‘‘ کا صلہ بھی ہوسکتا ہے جو اس کے مفعول پر آتا ہے یا اسے باء الجر سمجھ کر مابعد کو (جو صلہ موصول ہے) مجرور قرار دیں اور سارا جار مجرور متعلق فعل ’’یکفروا‘‘ سمجھیں۔ ’’ مَا ‘‘ اسم موصول ہے جو یہاں بوجہ باء الجر (بِ) مجرور ہے مگر مبنی ہونے کے باعث اس میں کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہے [انزل] فعل ماضی معروف واحد مذکر غائب ہے اور [اللہُ] اس کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے، علامتِ رفع اسم جلالت کی آخری ’’ ہ ‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ)ہے اور یہ جملہ ’’ انزل اللہ ‘‘ اسم موصول ’’ مَا ‘‘ کا صلہ ہے۔ اور یہ صلہ موصول مجرور بالجر ہوکر (بما انزل اللہ) فعل ’’یکفروا‘‘سے متعلق ہے یا اس کا مفعول (لہٰذا محلاً منصوب) ہے اور یہ پورا جملہ (ان یکفروا بما انزل اللہ) فعل ذم ’’بِئس‘‘ کا مخصوص بالذم ہے۔ گویا مفہوم کچھ یوں ہے ’’کتنا برا سودا ہے ان کا یہ کفر‘‘۔ اس طرح ’’ بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖٓ اَنْفُسَھُمْ اَنْ يَّكْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ‘‘ تین حصّے (فعل الذم+اس کا فاعل+مخصوص بالذم)  مل کر ایک مکمل جملہ بن جاتے ہیں۔ اگر ’’ان یکفروا بما انزل اللہ‘‘ نہ ہوتا تو ’’اشتروا بہ انفسہم‘‘ کو بھی مخصوص بالذم قرار دیا جا سکتا تھا۔ اب ذرا زیادہ واضح جملہ ہوگیا اور اپنی جگہ اعرابی لحاظ سے مکمل بھی ہے۔ مگر آگے پھر ’’بغیًا‘‘ سے شروع ہونے والا جملہ اس ’’ان یکفروا‘‘ (کفرھم) کی وجہ بیان کرتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ بھی اسی جملہ (ان یکفروا بما انزل اللہ) کا ہی حصہ بنے گا اور یوں مخصوص بالذّم ذرا طویل جملہ بن جاتا ہے۔

·       [بغیًا] مفعول لہ (لہذا) منصوب ہے۔ علامتِ نصب تنوین نصب ہے۔ اردو میں ’’کی خاطر، کے لیے‘‘ کا ترجمہ ’’پر‘‘ سے کیا جا سکتا ہے [اَن] یہ بھی ناصبہ ہے جو مصدریہ بھی ہوسکتا ہے [یُنَزِّلَ] فعل مضارع منصوب ’’بأنْ ‘‘ ہے، علامت نصب آخری ’’ ل ‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے [اللہُ]اس کا فاعل مرفوع ہے [من فضلہٖ] یہ سارا مرکب جاری (جو ’’مِن‘‘ حرف الجر، ’’فَضْل‘‘ مضاف‘‘ لہذا مجرور خفیف اور ضمیر مجرور بالاضافہ (ہ) پر مشتمل ہے، متعلق فعل ’’ینزّل‘‘ ہے بعض مترجمین نے یہاں ’’مِنْ ‘‘ کو زائدہ سمجھ کر (جو بعض دفعہ مبتدأ یا فاعل یا مفعول پر آتا ہے) گویا ’’فضلہ‘‘ کو ہی مفعول قرار دے کر ترجمہ ’’نازل کیا اپنا فضل‘‘ کرلیا ہے، جس کی نحوی گنجائش تو نکل آتی ہے (اگرچہ اس سے پہلے نفی یا نہی یا استفہام کا آنا ضروری ہے جو یہاں نہیں ہے) تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہاں ’’ینزِّل‘‘ کا مفعول (کتاب یا وحی وغیرہ) محذوف (غیر مذکور) ہے اور ’’من فضلِہ‘‘ کو مرکب جاری متعلق فعل سمجھنا زیادہ موزوں ہے، جیسا کہ بیشتر مترجمین نے سمجھا ہے۔ [علیٰ مَنْ یَّشَاءُ] ’’علیٰ‘‘ یہاں فعل ’’نزّل ‘‘ کا صلہ ہے جو اس کے ’’مفعول ثانی ‘‘ (جس پر نازل کیا جائے۔ مفعول اوّل وہ ہوتا ہے جس کو نازل کیا جائے اور یہ بنفسہٖ آتا ہے) پر آتا ہے یا اسے مطلقاً حرف الجر ہی سمجھ لیں تو ’’مَنْ‘‘ اسم موصول اس (علٰی) کی وجہ سے مجرور ہے مگر مبنی ہے اس لیے کوئی علامتِ جر ظاہر نہیں ہے [یشاء] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعل ( ھو ) ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ دراصل یہاں فعل ’’یشاء ‘‘ کے بعد ایک ضمیر عائد محذوف ہے یعنی در اصل تھا ’’من یشاء ہ‘‘ (کہ وہ جو کہ وہ چاہتا ہے اس کو) اسی کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’وہ جس کو چاہتا ہے‘‘ بنتا ہے۔ یعنی فعل ’’ یشاء ‘‘ (یا ’’ یشاءہ ‘‘) اسم موصول ’’مَن‘‘ کا صلہ ہے اور یہ سارا صلہ موصول مجرور بالجر (علیٰ) کا ہوکر ’’من فضلہٖ‘‘ کی طرح فعل ’’ینزِّل‘‘ کا دوسرا ’’متعلق فعل‘‘ ہے۔ یعنی یہ نازل کرنے کا سبب کیا تھا؟ اور کس پر نازل کیا گیا؟ کے جواب مہیا کرتے ہیں۔ [مِنْ عِبادِہ] یہ مرکب جاری (جو حرف الجرّ  ’’من‘‘ اور ’’عبادِ‘‘ مجرور بالجر جو آگے مضاف لہٰذا خفیف بھی ہے اور ضمیر مجرور (ہ) مضاف الیہ پر مشتمل ہے) ’’مَنْ یشاء‘‘ کے ’’مَنْ‘‘ کا بیان اور وضاحت ہے۔ یعنی ’’مِنْ‘‘ بیانیہ ہے یا ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کا سمجھیں (بمعنی ’’بعض‘‘ ) تو پھر اسے ( ’’مِنْ عبادہ‘‘ کو) بلحاظ معنی ’’مَنْ ‘‘ (مَن یَشَاءُ والا) کا حال یا صفت بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

(۲)  فَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰي غَضَبٍ

   [فباءُو] کی ابتدائی ’’فاء‘‘ (فَ) عاطفہ تعلیلیہ ہے اور ’’باءو‘‘ فعل ماضی صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ ھم ‘‘ ان لوگوں کے لیے ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے [بغضب] کی ابتدائی ’’ باء ‘‘ (بِ ) وہ صلہ ہے جو فعل ’’ بَاءَ یَبُوء ‘‘ کے مفعول پر آتا ہے۔ اور ’’غضبٍ ‘‘ مجرور بالجر ہے۔ اس طرح اس مرکب جاری ’’ بِغَضَبٍ ‘‘ کو مفعول سمجھ کر محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں (کیونکہ فعل ’’ باء ‘‘ (بمعنی ’’کمانا) کا مفعول کبھی بنفسہ نہیں آتا) اور چاہیں تو فعل ’’باء‘‘ (بمعنی لوٹنا) کو فعل لازم سمجھ کر اس مرکب جارّی کو متعلق فعل (باءو) قرار دے لیں۔ [علیٰ غضبٍ] جار مجرور مل کر پہلے ’’ غضبٍ ‘‘ کی صفت کا کام دے رہا ہے یعنی ’’ایسا غضب لے کر لَوٹے جس کے اُوپر ایک (اور) غضب ہے‘‘۔

(۳)  وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ 

   [وَ] مستانفہ ہے (اسی لیے اس سے پہلے والے جملے کے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی گئی ہے)۔ یعنی یہاں سے ایک الگ بات شروع ہوئی ہے۔ [للکافرین] جارّ (لِ) اور مجرور (الکافرین) مل کر خبر کا کام دے رہے ہیں [عَذابٌ] مبتدأ موخر ہے، اسی لیے نکرہ بھی ہے اور مرفوع بھی۔ نیز یہ موصوف بھی ہے۔ آگے [مُھِیْن] اس (عذاب) کی صفت ہے (لہٰذا مرفوع بھی ہے، بلکہ چاروں لحاظ (حالت، عدد، جنس اور قسم) سے اس کے مطابق ہے) یا یوں کہیے کہ یہ مرکب توصیفی (عذاب مھین) مل کر مبتدأ مؤخر ہے۔ جار مجرور کے خبر مقدم ہوکر آنے سے اس عبارت کا ترجمہ ’’اور کافروں ہی کے لیے عذاب مھین ہے‘‘ ہونا چاہیے۔

 

۳:۵۵:۲      الرسم

   زیر مطالعہ آیت میں بلحاظ رسم (قرآنی) صرف تین کلمات قابل ذکر ہیں۔ یہ تین کلمات ہیں: بئسما۔ فباءو ۔ اور للکفرین۔ تفصیل یوں ہے۔

(۱)         ’’بئسما‘‘ ان کلمات میں سے ہے جن کے رسم (عثمانی) میں ان کے موصول (ملا کر) یا مفصول (الگ الگ کرکے) لکھنے کی بحث کی جاتی ہے۔ لفظ ’’ بئس ‘‘ ’’ ما ‘‘ (موصولہ( کے ساتھ مل کر قرآن کریم میں نَو (۹) جگہ آیا ہے۔ ان میں سے زیر مطالعہ آیت میں اسے موصول (بئسمَا) لکھنے پر اتفاق ہے۔ اور دو مقامات (البقرہ:۹۳ اور الاعراف: ۱۵۰) کے بارے میں اگرچہ ابوداؤد اور الدانی میں کچھ اختلاف بیان ہوا ہے تاہم عمل (تمام ملکوں میں) ان دونوں جگہ موصول لکھنے پر ہی ہے ۔ [1]

   باقی چھ مقامات (جو البقرہ:۱۰۲، آل عمران:۱۸۷، اور المائدہ:۶۲، ۶۳، ۷۹ اور ۸۰ ہیں) پر ان دونوں کلمات کو مقطوع (مفصول) لکھے جانے پر اتفاق ہے، یعنی بصورت ’’بئس ما‘‘۔

(۲)’’ فباءو‘‘ جسے عام رسم املائی میں واو الجمع کے بعد الف الوقایۃ کے ساتھ بصورت ’’ فباءوا ‘‘ لکھا جاتا ہے قرآن کریم میں اسے یہاں اور ہر جگہ اس ’’آخری الف‘‘ کے بغیر ہی لکھنے پر اتفاق ہے۔ مزید تفصیل (یعنی اس قاعدے کے تحت آنے والے دیگر کلمات کے بارے میں) کے لیے دیکھئے: البقرہ:۶۱ کے ضمن میں [۳:۳۹:۲] (بحث الرسم)

(۳)’’للکافرین‘‘ یہ اس لفظ کا رسم املائی ہے۔ مگر قرآن کریم میں کلمہ ’’الکافرین‘‘ (الگ ہو یا کسی حرف الجر کے ساتھ، جیسے یہاں لام الجر کے ساتھ ہے) ہر جگہ ’’بحذف الالف بعد الکاف‘‘ بصورت ’’ الکفرین ‘‘ ہی لکھا جاتا ہے، یعنی زیر مطالعہ آیت میں اسے ’’للکفرین‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ بلکہ یہ قاعدہ قریباً تمام مذکر جمع سالم کے بارے میں ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے البقرہ: ۱۹ کے ضمن میں [۳:۱۴:۲) (بحث الرسم)

 

۴:۵۵:۲      الضبط

زیر مطالعہ آیات کے کلمات کے ضبط میں زیادہ تنوع ھائے کنایہ، حروفِ علت (و/ی) اور نون مظہرہ یا مخفاۃ کے ضبط کا ہے۔ بہرحال درج ذیل نمونوں سے اس فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔

 

 

 



[1] ۔ دیکھئے سمیر الطالبین ص ۹۴۔ المقنع ص ۷۴۔ دلیل الحیران ص ۳۰۰۔