سورۃالبقرہ  آیت نمبر ۹۱

۵۶:۲       وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاۗءَهٗ  ۤ وَھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ ۭ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِيَاۗءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ   )۹۱)

۱:۵۶:۲       اللغۃ

اس قطعہ میں لغوی تشریح کے لیے (بلحاظ مادہ و اشتقاق وغیرہ) نیا لفظ صرف ’’وراء‘‘ہے۔ باقی تمام کلمات بالواسطہ یا بلاواسطہ (یعنی موجودہ ہی شکل میں یا بلحاظ مادہ و اصل) اس سے پہلے گزر چکے ہیں،  لہٰذا یہاں ان کا صرف ترجمہ مع گزشتہ حوالہ (برائے طالبِ مزید) دئیے جائیں گے۔

۱:۵۶:۲ (۱)    [وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلَ اللہُ]

(۱)         اس میں سے ابتدائی حصّہ ’’واذا قیل لھم امنوا‘‘ اس سے پہلے البقرہ:۱۳ [۱:۱۰:۲]میں گزر چکا ہے، جہاں اس کے تمام اجزا یعنی ’’ وَ‘‘(مستانفہ بمعنی اور) ’’اذا‘‘ (ظرفیہ بمعنی جب) ’’قِیْلَ‘‘(کہا گیا) کے مادہ (قول) اور وزن اصلی (فُعِلَ)وغیرہ پر ’’لَھُمْ‘‘ کے لامِ صلہ (برائے فعل ’’قال یقول‘‘)پر اور ’’آمِنوا‘‘ّتم ایمان لے آؤ) کے مادہ (امن) اور اس سے باب افعال کے فعل ’’آمن یُؤمِنُ‘‘ کے معنی (ایمان لانا) اور استعمال وغیرہ پر بات ہوچکی ہے۔

(۲) ’’بما اَنزل اللہُ‘‘ کی ابتدائی ’’باء (ب)‘‘ صلۂِ فعل برائے فعل ’’آمَن‘‘ ہے بمعنی ’’پر‘‘ اور ’’مَا‘‘ (جو کچھ کہ) موصولہ ہے دیکھئے [۱:۲:۲ (۵)] میں۔ ’’اَنْزَل‘‘(اس نے اتارا) کے مادہ (نزل) وزن (اَفْعَل) اور باب (اِفعال) کے معنی و استعمال پر [۱:۳:۲ (۲)]میں بات ہوچکی ہے۔ اسم جلالت کی لغوی بحث ’’بسم اللہ‘‘ کے ضمن میں ہوئی تھی۔

·       یوں اس عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: ’’اور جب کہا جاتا ہے ان کو تم ایمان لاؤ اس پر جو نازل کیا (ہے) اللہ نے‘‘۔ اس میں ’’ قیل لھم‘‘ کا ترجمہ ’’ان سے کہا جاتا ہے‘‘ اور ’’ان سے کہا جائے‘‘ کے علاوہ با محاورہ’’ کہیے ان کو‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ’’نازل کیا‘‘ کی بجائے ’’اتارا/نازل فرمایا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ بعض نے ’’بھیجا‘‘ سے ترجمہ کردیا ہے جو مفہوم کے لحاظ سے درست ہے ورنہ اصل لفظ سے ہٹ کر ہے۔ بعض نے ’’بما‘‘ کا ترجمہ ’’ان تمام کتابوں پر جو‘‘ یا ’’کتاب پر جو/قرآن پر جو‘‘ کی صورت میں کیا ہے جسے صرف تفسیری ترجمہ سمجھ کر درست کہہ سکتے ہیں۔ بعض نے ’’بما‘‘ کے ’’ما‘‘ کو مصدریہ مان کر ترجمہ ’’اللہ کے اتارے پر‘‘ سے ترجمہ کیا ہے، جو نحوی اعتبار سے درست ہے۔

۱:۵۶:۲(۲)     [قَالُوْا نُؤمِنُ بِمَا اُنْزِلَ عَلَیْنَا]

(۱) ’’قَالُوْا‘‘ (’’انہوں نے کہا‘‘۔ اور یہاں ’’اِذَا‘‘ (جب) کے جواب میں آنے کی وجہ سے’’تو وہ کہتے ہیں/کہیں گے‘‘) کے مادہ، وزن، فعل اور اس کے صیغہ کی تعلیل وغیرہ کے لیے دیکھئے البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲ (۴)] کے بعد۔

(۲)  ’’نؤْمِنُ‘‘ (ہم ایمان رکھتے ہیں) پر بھی البقرہ: ۱۳ [۱:۱۰:۲] میں ہی ’’أنؤْمن‘‘ (استفہامیہ) کے ضمن میں بات ہوچکی ہے اور اس مادہ (امن) سے باب اِفعال کے معنی وغیرہ پہلی دفعہ البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۱)] میں تفصیل سے بیان ہوئے تھے۔

(۳)    ’’بِمَا اُنْزِلَ‘‘ (اس پر جو اتارا گیا) اسی شکل میں البقرہ:۴ [۱:۳:۲ (۲)] میں گزر چکا ہے۔

(۴)    ’’عَلَیْنَا‘‘ (ہم پر)۔ ’’علٰی ۔ کے فعل (انزل) کے ساتھ بطور ’’صلہ‘‘ استعمال پر بھی اسی فعل کے ساتھ بات ہوئی تھی‘‘ بطور حرف الجرّ کے معنی و استعمال کے لیے دیکھئے الفاتحہ:۷[۱:۶:۱ (۳)]

·       عبارت کا لفظی ترجمہ بنا: ’’انہوں نے کہا ہم ایمان لاتے ہیں اس پر جو اتارا گیا ہم پر‘‘۔ ’’قالوا‘‘ کا ترجمہ (اذا کی وجہ سے) ’’تو کہتے ہیں‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ بعض نے محاورہ کی خاطر ’’تو جواب دیتے ہیں‘‘ سے بھی کردیا ہے جو اصل لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے۔ اسی طرح بعض نے ’’بما اُنْزِل‘‘(فعل مجہول) کا ترجمہ فعل لازم کی طرح ’’جو اترا/جو اترا ہے/ وہ جو اترا/جو نازل ہوچکا/نازل ہوا ہے‘‘ کی صورت میں کیا ہے جسے صرف محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے ہی درست کہا جا سکتا ہے۔ جنہوں نے اس کا ترجمہ ’’جو نازل کی گئی ہے‘‘ سے کیا ہے وہ اصل نص (الفاظ عبارت قرآنی) سے قریب تر رہے ہیں۔

۱:۵۶:۲ (۳)     [وَیَکْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاءَہٗ]

(۱) ’’وَ‘‘ حالیہ ہے دیکھئے [۱:۴:۱ (۳) ]اردو ترجمہ ’’حالانکہ‘‘ ہوگا۔ اس پر مزید بحث (کہ اس کا ذوالحال کیا ہے) آگے ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔

(۲)’’یَکْفُرُوْنَ‘‘ (وہ انکار کرتے ہیں۔ نہیں مانتے) کے اصل فعل (کفَر یکفُر= انکار کر۔ کفر کرنا) کے مادہ، باب، فعل وغیرہ پر تو البقرہ:۶ [۱:۵:۲ (۱)] میں بات ہوئی تھی اور یہی صیغۂ فعل (یکفرون) پہلی دفعہ البقرہ:۶۱[۱:۳۹:۲] کے آخری حصے میں آیا تھا۔

(۳)’’بِمَا ‘‘ (اس کا جو کہ) ’’بِ‘‘ صلۂ فعل (کَفَر) ہے اور ’’مَا‘‘ موصولہ ہے۔ دیکھئے اوپر ’’بِمَا اُنْزِلَ‘‘ میں۔

(۴)’’ وَرَاءَہٗ ‘‘ کی آخری ضمیر مجرور ’’ہ‘‘ یعنی ’’اس کے‘‘ ہے اور کلمہ ’’وراء‘‘ کی لغوی وضاحت یوں ہے کہ: اس کا مادہ ’’ورء‘‘ یا ’’وری‘‘ ہے اور وزن ’’فَعَالَ‘‘ (مبنی) ہے ـــــ اس  لفظ کا آخری ہمزہ (ء) یا تو اصلی ہے یا عربوں کے طریق نطق (لہٰذا صرفی قاعدہ )کے مطابق ’’الف ممدودہ کے بعد آنے والا حرفِ علت (ی) ہمزہ میں بدل کر’’لکھا اور بولا جاتا ہے۔

بعض کتبِ لغت (مثلاً القاموس، اللّسان، Laneاور المنجد) میں اسے بنیادی طور پر مھموز اللام ہی قرار دیا گیا ہے، اگرچہ بعد میں معتل اللام مادہ (وری) میں بھی اسے ذکر کردیا گیا ہے۔ بعض (مثلاً البستان، اور الوسیط) نے اسے مہموز (ورأ) میں ہی بیان کیا ہے اور پھر ’’وری‘‘ میں اس کا ذکر ہی نہیں کیا۔ جب کہ بعض (مثلاً مختار الصحاح اور المفردات) میں اسے صرف معتل اللّام (وری) کے طور پر ہی بیان کیا گیا ہے۔ صاحب القاموس نے تو اسے معتل سمجھنا ’’جوہری‘‘ (حماد بن اسماعیل صاحبُ ’’الصّحاح‘‘) کا وہم قرار دیا ہے اور قریباً یہی رائے مؤلف ’’البستان‘‘ کی ہے۔

اگر اسے مہموز اللام سمجھا جائے تو اس مادہ (ورء) سے فعل مجرد وَرَأ یَرَأُ (وَ یَوْرَأُ) وَرْءًا‘‘ (باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’بھرجانا‘‘ اور ’’پیچھے دھکیل دینا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’ وَرَأَ مِنَ الطعام‘‘ (وہ کھانے سے بھر گیا) یا ’’وَرَأ الرجُلَ‘‘ (اس نے آدمی کو پیچھے دھکیل دیا) ۔ مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی کچھ افعال مختلف معنی کے لیے آتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       اور اگر اسے ’’وری‘‘ مادہ سے سمجھیں تو اس مادہ سے فعل مجرد ورَی یرِی وَرْیًا وَرِیَۃً (ضرب سے) مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں۔ ’’وَرَتِ النَّارُ‘‘ آگ جل اٹھی) اور ’’ورَتِ الابلُ‘‘ (اونٹنیاں خوب موٹی ہوگئیں) اور ’’وَرِیَ یَرِی وَرْیًا‘‘ (حسب سے) کے معنی ’’آگ یا شعلہ نکلنا‘‘ ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’ورِیَ الزَنْدُ‘‘ (زند نے شعلہ نکالا) زند خاص قسم کی لکڑی ہوتی تھی، جسے ایک دوسری پر رگڑتے تھے تو اس سے آگ کا شعلہ (spark) نکلتا۔ پھر اس کو آگ جلانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یعنی آج کل کی ماچس یا لائٹر کا کام دیتی تھی۔ اس کے علاوہ اس مادہ سے فعل مجرد بعض دیگر معانی بھی دیتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے بھی کسی طرح کا کوئی صیغۂ فعل نہیں آیا۔ البتہ اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب (اِفعال، مفاعلۃ اور تفاعل) سے اَفعال کے کچھ صیغے سات جگہ آئے ہیں اور باب افعال ہی سے اسم الفاعلات (برائے جمع مؤنث سالم) بھی ایک جگہ وارد ہوا ہے۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالی۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’وَرَاء‘‘ ظروفِ  مَبْنیۃ میں سے ایک ہے یعنی یہ ظرف ہے جو زیادہ تر مکان (جگہ) کے لیے استعمال ہوتا ہے اور کبھی زمان (وقت) کے لیے بھی آتا ہے۔ مبنی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے آخری ہمزہ کو تینوں حرکات کے ساتھ مبنی سمجھا جاتا ہے یعنی کبھی اس کا ہمزہ ہر صورت میں مضموم رہتا ہے کبھی ہر حالت میں مفتوح اور کبھی تینوں حالتوں میں مکسور ہی رہتا ہے یعنی اہل زبان تینوں طرح استعمال کرلیتے ہیں۔ دیگر ظروف (قبل۔ بعد وغیرہ) کی طرح یہ عموماً مضاف ہوکر ہی استعمال ہوتا ہے اور ظرف ہونے کی بناء پر منصوب بصورت مفتوح ہی آتا ہے (جیسے زیر مطالعہ آیت میں ’’وراءَ ہٗ‘‘ کی شکل میں آیا ہے) اگر اس سے پہلے ’’مِن‘‘ آجائے تو (قبل اور بعد کی طرح) یہ مجرور بصورت مکسور بھی پڑھاجاتا ہے البتہ اگر اس کے بعد کوئی مضاف الیہ نہ ہو تو پھر اسے ’’من وراء‘‘ (من قبلُ کی طرح) پڑھ لیتے ہیں اور ’’مِن وراء‘‘ بھی اور بعض دفعہ ’’الوراء‘‘ معرف باللام بھی استعمال ہوتا ہے اسی طرح بعض دفعہ یہ بطور اسم فعل ’’ورَاءَکَ‘‘ بمعنی ’’ٹھہرو پیچھے دیکھو‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم یہ استعمالات قرآن میں نہیں آئے۔ قرآن کریم میں تو یہ ہر جگہ اپنے مضاف الیہ کے ساتھ ہی استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ چوبیس جگہ وارد ہوا ہے اور ان میں سے بارہ جگہ یہ کسی اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوکر آیا ہے اور بارہ ہی جگہ کسی ضمیر کی طرف مضاف ہوکر آیا ہے۔

·       بطور ظرف یہ لفظ ’’آگے‘‘ (قُدَّام)، ’’سامنے‘‘ (اَمَام) ’’پیچھے ‘‘ (خَلْف) یعنی نعتِ اضداد کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے (یعنی مختلف مفہوم میں) بلکہ یہ کبھی ’’سوی‘‘(کے سوا۔ کے علاوہ) کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کے اصل بنیادی معنی یہ بتائے گئے ہیں ’’جو چیز دیکھنے والے سے ابھی پوشیدہ ہے‘‘۔ (اس لحاظ سے اس کو مادہ ’’وری‘‘ سے ماخوذ سمجھنا بہتر ہے کیونکہ ’’ورأ‘‘ میں تو یہ مفہوم نہیں جبکہ ’’وری‘‘ کے بعض مشتقات میں یہ معنی پائے جاتے ہیں) اردو میں اس کے لیے مناسب لفظ تو ’’پرے‘‘ یا ’’ورے‘‘ ہی ہے مثلاً ’’وراء الجدار‘‘ کا مطلب ’’دیوار سے پرے‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’دیوار سے ورے‘‘ بھی۔

·       زیر مطالعہ آیت میں ’’وراءً ’’کے سوا‘‘ اور ’’کے علاوہ‘‘ کے معنی میں آیا ہے یا یوں کہیے کہ یہاں اس (ماوراءہ) کا موزوں بامحاورہ ترجمہ ’’ جو اس کے سوا ہے /جو کچھ اس کے علاوہ ہے/اس کے سوا‘‘ ہی بنتا ہے بعض نے ’’جو اس سے پیچھے آیا‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے اس میں ’’آیا‘‘ تفسیری اضافہ ہے۔

·       اس بحث کے بعد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس عبارت (ویکفرون بما وراءہ) کا ترجمہ بنتا ہے ’’حالانکہ /اور/کفر کرتے ہیں/نہیں مانتے/منکر ہوتے ہیں اس کو/کے/جو اس کے پیچھے/سوا /کے علاوہ ہے/اس کے علاوہ کو نہیں مانتے‘‘ وغیرہ۔ نیز آگے دیکھئے حصہ ’’الاعراب‘‘۔

۱:۵۶:۲ (۴)     [وَھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ] اس عبارت میں بھی کوئی نیا لفظ نہیں ہے۔ ہر لفظ کا صرف ترجمہ مع حوالہ درج ذیل ہے:

(۱)  ’’وَ‘‘ حالیہ بمعنی حالانکہ ہے [۱:۴:۱ (۳)] نیز آگے حصہ ’’الاعراب‘‘ دیکھئے۔

(۲)  ’’ھُوَ‘‘ (وہ) ضمیر ہے۔

(۳)  ’’الحق‘‘ (سچ۔ حق) پر تفصیلی بحث البقرہ: ۲۶ [۱:۱۹:۲(۶)] میں گزری ہے۔

(۴)  ’’مصدِّقًا‘‘ (تصدیق کرنے والا) اس لفظ کی پوری لغوی تشریح البقرہ:۴۱ [۱:۲۸:۲ (۹)] میں گزر چکی ہے جہاں یہ اسی شکل میں آیا ہے۔

(۵)  ’’لِمَا‘‘ (اس کی جو کہ) دیکھئے مذکورہ بالا حوالہ یعنی [۱:۲۸:۲]

(۶)  ’’مَعَھُمْ‘‘ (ان کے ساتھ) ’’مَعَ‘‘ کی لغوی تشریح اور طریق استعمال پر البقرہ:۱۴ [۱:۱۱:۲ (۵) ] میں (پہلی دفعہ) بات ہوئی تھی۔

·       مجموعی لفظی ترجمہ اس عبارت کا ہے ’’حالانکہ وہ ہی سچ ہے سچا کرنے والا ہوتے ہوئے اس کو جو ان کے ساتھ ہے‘‘۔ بعض نے ’’الحق‘‘ کا ترجمہ ’’حق‘‘ ہی رہنے دیا ہے اور بعض نے ’’سچا‘‘ کیا ہے بعض نے ’’ھو الحق‘‘ کا ترجمہ ’’وہ کتاب سچی ہے‘‘ کیا ہے۔ ظاہر ہے اس میں لفظ ’’کتاب‘‘ تفسیری اضافہ ہے ’’مصدقا‘‘ کا ترجمہ بعض نے تو لفظی (بطور اسم الفاعل) ’’تصدیق کرنے والا‘‘ ہی کیا ہے تاہم بعض نے اردو محاورے کی خاطر اس کا ترجمہ فعل مضارع کی طرح ’’تصدیق کرتا/کرتی ہے‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ جو بلحاظ مفہوم و محاورہ تو بالکل درست ہے۔ ’’لِمَا  معھم‘‘ کا ترجمہ بعض نے ’’ان کے پاس والی‘‘ سے کیا ہے بلکہ بیشتر حضرات نے ’’ساتھ (مع) کی بجائے ’’پاس‘‘ (عِندَ کی طرح) ترجمہ کیا ہے یعنی ’’اس کی جو ان کے پاس ہے‘‘ کی صورت میں ۔ البتہ جن حضرات نے ’’لما معھم‘‘ کا ترجمہ ’’ان کی کتاب کو/جو ان کی کتاب ہے‘‘ کیا ہے یہ ترجمہ کی حد سے تجاوز ہے یعنی تفسیر ہے ترجمہ نہیں۔

۱:۵۶:۲ (۵)      [قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَاءَ اللہِ مِنْ قَبْلُ] اس عبارت میں نیا مرکب لفظ ’’فَلِمَ‘‘ ہے مگر در اصل اس کے اجزاء (فَ+لِ+ما) بھی پہلے زیر بحث آ چکے ہیں۔ الفاظ کا ترجمہ مع ضروری حوالہ درج ذیل ہے:۔

(۱)  ’’قُلْ‘‘ جس کا مادہ (قول) اور وزن اصلی ’’اُفْعُلْ‘‘ ہے اس کے فعل مجرد (قال یقول=کہنا) پر پہلی دفعہ البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی اور یہی صیغۂ امر ’’قُلْ‘‘ پہلی دفعہ اپنی تعلیل وغیرہ کی وضاحت کے ساتھ البقرہ:۸۰ [۱:۵۰:۲ (۲)] میں گزرا ہے ترجمہ ہے ’’تو کہہ دے‘‘۔

(۲)   ’’فَلِمَ‘‘ کی ’’فاء (ف)‘‘ عاطفہ بمعنی پس/پھر ہے اور ’’لِمَ‘‘ در اصل لام الجرّ (لِ) اور ’’ما‘‘ استفہامیہ (بمعنی کیا؟) کا مجموعہ ہے عربی زبان کے استعمال میں جب ’’مَا‘‘ استفہامیہ سے پہلے کوئی حرف الجر لگتا ہے تو ’’مَا‘‘ کا الف گرا دیا جاتا ہے جیسے ’’فیما‘‘ سے ’’فیمَ‘‘ ’’عَمَّا‘‘ سے ’’عم‘‘۔ ’’مِمَّا‘‘ سے ’’مِمَّ‘‘ ہوجاتا ہے نحوی اس کی وجہ ’’مَا‘‘ خبریہ اور ’’مَا‘‘ استفہامیہ میں فرق کرسکنا بتاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب ’’ما‘‘ خبریہ (موصولہ) ہو تو حرف الجر کے ساتھ لگنے سے بھی اس کا آخری الف نہیں گرتا۔ ’’فیما‘‘ کا مطلب ہوگا ’’جس چیز کے بارے میں‘‘ اور ’’فیم‘‘ کا مطلب ہے ’’کس چیز کے بارے میں؟‘‘ اسی طرح ’’لِمَا‘‘ کا مطلب ہے ’’جس کے لیے، جس کا‘‘ اور ’’لِمَ‘‘ کا مطلب ہے ’’کس کے لیے، کس کا‘‘ اسی کا بامحاورہ ترجمہ ’’کیوں؟‘‘ بنتا ہے اور یوں ’’فَلِمَ‘‘ کا ترجمہ ہوا ’’پس کیوں؟‘‘ ’’تو پھر کیوں؟‘‘ اور ’’تو کیوں؟‘‘

(۳)   ’’تقتلون‘‘ کے مادہ (قتل) اور فعل مجرد (قتل یقتل=مار ڈالنا) پر پہلی بار البقرہ:۵۴[۱:۳۴:۲ (۴)] میں کلمہ ’’فاقتلوا‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ اور خود یہی صیغۂ فعل ’’تقتلون‘‘ (تم قتل کرتے ہو) البقرہ:۸۵ [۱:۵۲:۲] میں گزر چکا ہے۔ زیر مطالعہ عبارت میں سیاقِ عبارت (بیان واقعہ یا قصہ) کی وجہ سے ’’تقتلون‘‘ کا ترجمہ ’’کنتم تقتلون‘‘ کی طرح ’’تم مار ڈالتے تھے/قتل کرتے رہے ہو/قتل کیا کرتے تھے‘‘ کی صورت میں کیا جائے گا۔ بعض نے ’’شہید کیا‘‘ اور ’’قتل کیا‘‘ یعنی ماضی مطلق کی شکل میں (قتلتم کی طرح) ترجمہ اسی سیاق عبارت کے لیے کیا ہے۔

(۴)   ’’انبیاءَ اللہِ‘‘ (اللہ کے نبیوں کو/پیغمبروں کو) اس میں لفظ ’’انبیاءَ‘‘ اپنی موجودہ شکل میں تو پہلی دفعہ آیا ہے، تاہم یہ لفظ ’’نَبِیّ‘‘ کی جمع مکسر ہے اور لفظ ’’نبیّ‘‘ کے مادہ (نبأ) سے فعل مجرد وغیرہ پر تو البقرہ:۳۱[۱:۲۲:۲ (۵)] میں کلمہ ’’انبئونی‘‘  کے ضمن میں بات ہوئی تھی اور لفظ ’’نبیّ‘‘ کی ساخت اور اس کی شکل اصلی اور وزن وغیرہ کے بارے میں بحث البقرہ: ۶۱میں کلمہ ’’النبیین‘‘ (جو ’’نبیّ‘‘ کی جمع سالم معرف باللام اور منصوب صورت ہے) کے ضمن میں [۱:۳۹:۲ (۱۷)] میں دیکھئے۔

(۵)  ’’من قبل‘‘ (پہلے ہی، پہلے بھی) ٹھیک یہی ترکیب پہلی دفعہ البقرہ:۲۵[۱:۱۸:۲] میں گزر چکی ہے۔

·       اس طرح اس عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’پس کیوں تم قتل کرتے ہو اللہ کے نبیوں کو پہلے بھی‘‘۔ تقتلون کا بصیغۂ ماضی مطلق یا ماضی استمراری ترجمہ مع وجہ اوپر بیان ہوا ہے۔ ’’اللہ کے نبیوں‘‘ کے بجائے ’’خدا کے پیغمبروں‘‘ بلحاظ مفہوم تو درست ہے تاہم اسم جلالت کے ترجمہ کی ضرورت نہیں اور ’’پیغمبروں‘‘ بھی ’’رسُل‘‘ یا ’’مرسَلین‘‘ کا ترجمہ ہے، اگرچہ دونوں لفظ قریباً ہم معنی اور مترادف ہیں۔ ’’من قبل‘‘ کا ترجمہ اس کے محذوف مضاف الیہ کے ساتھ ’’اس سے پہلے‘‘ بھی ہوسکتا ہے، تاہم اس کے بغیر والا ترجمہ زیادہ بہتر ہے۔ یعنی بصورت ’’پہلے بھی تو‘‘۔

۱:۵۶:۲ (۶)      [اِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِیْنَ] اس کے ابتدائی حصّے ’’اِنْ کُنْتُمْ‘‘ (جو ’’اِنْ‘‘ شرطیہ بمعنی ’’اگر‘‘ اور ’’کنتم‘‘ بمعنی ’’تم تھے‘‘ کا مجموعہ ہے) پر مکمل بحث البقرہ:۲۳ [۱:۱۷:۲ (۱)] میں گزر چکی ہے۔ کلمہ ’’مؤمنین‘‘ کے مادہ باب وغیرہ پر تو البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔ اور خود کلمہ ’’مؤمنین‘‘ پہلی دفعہ البقرہ:۸ [۱:۱۷:۲ (۵)] کے بعد گزر چکا ہے۔

·       اس طرح عبارت کا لفظی ترجمہ تو ہے ’’اگر تھے تم ایمان لانے والے‘‘۔ ’’اِنْ‘‘ شرطیہ کی وجہ سے فعل ماضی ’’کنتم‘‘ کا ترجمہ فعل حال سے کیا جانا چاہیے یعنی ’’اگر تم ہو‘‘۔ تاہم آیت کے سابقہ حصے اور سیاقِ قصہ کی بنا پر یہاں بھی (تقتلون کی طرح) ترجمہ فعل ماضی کے ساتھ مناسب ہے یعنی ’’اگر تم تھے‘‘۔ ’’مؤمنین‘‘ کا اصل ترجمہ تو بطور اسم الفاعلین‘‘ ایمان لانے والے/رکھنے والے‘‘ ہونا چاہیے، اسی لیے بعض نے ’’واقعی ایمان والے تھے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے، تاہم یہاں بھی اردو محاورہ کی مجبوری کے باعث بصورت فعل ماضی (مطلق یا استمراری۔ یعنی ’’آمنتم‘‘ یا ’’کنتم تومنون‘‘ کی طرح) سے کیا گیا ہے، یعنی ’’ایمان رکھتے تھے‘‘۔ بعض نے ’’اگر تم مسلمان تھے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے، جسے عوامی ترجمہ کہہ سکتے ہیں بعض نے ترجمہ کیا ہے ’’اگر تمہیں اپنی کتاب پر ایمان تھا‘‘۔ اس میں ’’اپنی کتاب‘‘ تفسیری اضافہ سمجھ کر قبول کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بعض نے ’’اگر تم تورات پر ایمان لائے تھے‘‘ سے ترجمہ کردیا ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے تو حدِ ترجمہ سے تجاوز ہے، کیونکہ ’’تورات پر‘‘ بھی تفسیری اضافہ ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’اگر تم صاحبِ ایمان ہوتے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو بہت عمدہ ترجمہ ہے جس میں ’’اگر‘‘ کے ساتھ ’’ہوتے‘‘ لگانے سے شرط اور ماضی دونوں کا لحاظ رکھا گیا ہے اور ’’مؤمنین‘‘ (اسم الفاعلین) کی رعایت فعل کی بجائے ’’صاحبِ ایمان‘‘ کے لفظ میں رکھ لی گئی ہے۔ اس جملہ شرطیہ کا جواب کیا ہے؟ اس پر بھی آگے حصہ ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی۔

 

۲:۵۶:۲      الاعراب

اعراب اور نحوی ترکیب کے لیے اس آیت کو پانچ جملوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں سے دو جملے تو حالیہ ہونے کے باعث بلحاظ مضمون اپنے ذوالحال بننے والے جملوں کا حصّہ ہی ہوں گے۔ ہر ایک جملے کے اعراب اور اس کے ماقبل جملے کے ساتھ تعلق کی تفصیل یوں ہے۔

(۱) وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ

        [وَ] مستانفہ اور[اذا] ظرفیہ شرطیہ ہے [قِیْلَ] فعل ماضی مجہول صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ [لَھُمْ] جار (لام الجر) اور مجرور (ضمیر ھم) مل کر متعلق فعل ’’قِیْل‘‘ ہیں۔ [آمِنوا] فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے [بِمَا] جارّ (بِ) اور مجرور ’’مَا‘‘ (جو اسم موصول ہے) مل کر متعلق فعل ’’آمنوا‘‘ ہیں۔ یا اگر ’’باء‘‘ کو صلۂ فعل سمجھیں تو ’’بِمَا‘‘ مفعول ہو کر محلاً منصوب ہے۔ [اَنْزَلَ] فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب اور [اللہُ] اس کا فاعل (لہٰذا مرفوع) ہے۔ اور یہ جملہ فعلیہ ’’انزلَ اللہُ‘‘ اسم موصول ’’ما‘‘ کا صلہ ہے بلکہ در اصل یہ سارا صلہ موصول ’’ما انزل اللہ‘‘ حرف الجر ’’ب‘‘ کے ساتھ مل کر متعلق فعل (آمنوا) یا اس کا مفعول (لہٰذا محلاً منصوب) بنتا ہے۔ تاہم بعض دفعہ نحوی حضرات صرف ’’بما‘‘ (موصول مجرور) کو ہی متعلق فعل یا مفعول محلاً منصوب کہتے ہیں، اور صلہ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کا جملے میں اعرابی مقام ہی کوئی نہیں۔ ویسے یہاں ’’بما انزل اللہ‘‘ میں ’’ما‘‘ کے لیے ایک عائد ضمیر محذوف ہے ۔ یعنی اصل عبارت (بلحاظ مفہوم) ’’بما انزلہ اللہ‘‘ بنتی ہے۔ یہ جملہ ابھی مکمل نہیں ہوا، اس لیے کہ ابھی ’’اذا‘‘ شرطیہ کا جواب نہیں آیا، بلکہ صرف بیان شرط ہی مذکور ہوا ہے۔

(۲) قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا

[قالوا] فعل ماضی صیغہ جمع مذکر غائب ہے اور یہاں سے جواب شرط شروع ہوتا ہے۔ [نؤمن] فعل مضارع معروف معروف صیغہ جمع متکلم ہے جسے ہم ’’قالوا‘‘ کی وجہ سے مذکر کا صیغہ سمجھ سکتے ہیں۔ (ورنہ ’’نؤمن‘‘ تو مذکر مؤنث میں مشترک ہے)  [بِمَا] جارّ (بِ) اور مجرور (’’ما‘‘ موصولہ) مل کر متعلق فعل ’’نؤمن‘‘ ہیں (یا مفعول سمجھ کر محلاً منصوب کہہ لیجئے) [اُنزِلَ] فعل ماضی مجہول صیغہ واحد مذکر غائب ہے اور [عَلَیْنَا] جارّ (علٰی) اور مجرور (ضمیر ’’نا‘‘) مل کر متعلق فعل ’’اُنزِل‘‘ ہیں۔ اور جملہ ’’ نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا ‘‘ ابتدائی صیغۂ فعل ’’قالوا‘‘ کا مفعول (مقول) ہوکر محل نصب میں ہے اور یہ سارا جملہ ’’قالوا…. علینا‘‘ سابقہ جملے (۱) کا جواب شرط ہے۔ اس طرح جملہ (۱) اور (۲) مل کر (شرط اور جواب شرط مل کر) در اصل ایک ہی بڑا جملے بنتے ہیں۔ مگر ان کا ہی حصہ ایک حالیہ جملہ بھی ہے جو آگے آ رہا ہے۔

(۳) وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاۗءَهٗ

[وَ] حالیہ  ہے اور [یکفرون] فعل مضارع معروف سے ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے [بِمَا] باء الجر اور ’’ما‘‘ موصولہ اس کی وجہ سے مجرور ہے اور یہ مرکب جارّی متعلق فعل ’’یکفرون‘‘ ہے یا باء الجر یہاں صلۂ فعل [یکفرون] اور یوں ’’بِمَا‘‘ مفعول ہوکر محل نصب میں ہے۔ [وراءہ] ’’وراءَ‘‘ ظرف (لہٰذا منصوب) اور مضاف ہے، ضمیر مجرور ’’ہ‘‘ مضاف الیہ ہے اور یہ دراصل ’’مَا‘‘ موصولہ کی ضمیر عائد ہے۔ اور یہ مرکب اضافی (ظرف) اسم موصول ’’مَا‘‘  کا صلہ ہے جس میں کچھ حصۂ عبارت محذوف مگر مفہوم ہے۔ مثلاً ’’بما ھو موجود وراءہ‘‘ یا ’’بما اُنزِل وراءہ‘‘ وغیرہ۔ یہ پورا جملہ (واو الحال کی وجہ سے) حالیہ ہے اور اس کا ذوالحال فعل ’’قالوا‘‘ (اوپر جملہ ۲ والا) کی ضمیر الفاعلین (ھم) یعنی ’’وہ کہتے ہیں ……حالانکہ وہ انکار کرتے ہیں …… ‘‘ ۔ یہ زیر بحث جملہ اسی جملہ (۲) کے صیغہ ٔ فعل ’’نؤمن ‘‘ کی ضمیر الفاعلین (نحن) کا حال نہیں ہوسکتا ورنہ اس جملے (۳) میں ’’یکفرون‘‘ کی بجائے ’’نکفر‘‘ آنا چاہیے تھا۔  حالیہ جملہ ہونے کے لحاظ سے یہ جملہ (۳) سابقہ دو جملوں (۱؎  و  ۲؎) کا ہی ایک حصّہ (بلحاظ مضمون) ہے مگر اس سے اگلا جملہ (۴) خود اس جملے (۳) کے ’’یکفرون‘‘ کے مفعول (ماوراءہ) کا حال ہے، اس لیے وہ بھی اسی کا حصّہ شمار ہوگا جیسا کہ ابھی بیان ہوگا۔

(۴)   وَھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ

[وَ] حالیہ ہے اور اس کے بعد والا جملہ حالیہ سابقہ جملے (۳) کے ’’ماوراءہ‘‘ کا حال بنے گا جیسا کہ ابھی اوپر بیان کیا گیا ہے۔ [ھو] ضمیر مرفوع منفصل ــــمبتدأ ہے اور [الحق] اس کی خبر معرف باللّام ہے جس کا زور اردو کے لفظ ’’ہی‘‘ سے ظاہر کیا جا سکتا ہے [مصدقاً] حال (لہٰذا) منصوب ہے اور یہ ’’الحق‘‘ کے معنی میں شامل (اور مفہوم) فعل میں مستتر ضمیر کا حال مؤکدہ ہے، مثلاً ’’وھو ماثبتَ مصدقاً‘‘ یا ’’ھو الحق ثابتٌ مصدقاً‘‘۔ یہ فعل یا اسم الفاعل کی ضمیر کی بات نحوی لحاظ سے اس لیے ضروری ہے کہ خبر اگر کوئی اسم ہو تو اس کے ساتھ حال نہیں آسکتا۔ مثلاً ’’ھو زیدٌ قائماً‘‘ کہنا درست نہیں ورنہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ (صرف) کھڑا ہوتے ہوئے زید ہوتا ہے (بیٹھا ہو تو نہیں) البتہ ’’ھو زید موجود (یا حاضر) قائما‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ’’الحق‘‘ مصدر ہے ، اس میں ضمیر نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کا حال اس ضمیر فاعل کا حال ہی سمجھا جا سکتا ہے جو اس کے معنی میں داخل ہو [لِمَا] جار مجرور (لام الجر+ما موصولہ) مل کر ’’مصدقاً‘‘ کے معنی فعل یعنی ’’تصدیق کرتا ہے‘‘) سے متعلق ہے اور [معھم] ظرف مکان ’’مَعَ‘‘ اپنے مضاف الیہ (ھم) سمیت ’’ما‘‘ کا صلہ ہے اور یہاں بھی محذوف (مگر مفہوم) عبارت کچھ یوں ہے ’’لما ھو موجود معہم‘‘

·       اس طرح در اصل مندرجہ بالا چاروں جملے نہ صرف بلحاظ مضمون بلکہ بلحاظ نحوی ترکیب بھی ایک ہی طویل جملہ بنتے ہیں اور یہ پورا جملہ در اصل یہاں (۴ کے بعد) ختم ہوتا ہے۔ اسی لیے یہاں اس کے بعد وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے۔ اوپر اس طویل جملے کے چھوٹے چھوٹے چار اجزاء بنا کر اعراب بیان کیے گئے ہیں تاکہ ترجمہ کی اصل بنیاد کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

(۵)   قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِيَاۗءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ

        [قُلْ ] فعل امر واحد مذکر حاضر ہے۔ [فَلِمَ] کی ’’فاء‘‘ عاطفہ بلحاظ معنی وہ ’’فاء‘‘ ہے جو عموماً جوابِ شرط پر آتی ہے، مگر یہاں کوئی شرط بیان نہیں اس لیے ایسے موقع پر ’’فاء‘‘ کو ’’الفاء الفصیحۃ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یعنی وہ ایک فصیحانہ انداز میں ایک مقدّر (غیر مذکور مگر مفہوم) شرط کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مثلاً ’’ان کانت دعوٰکم صحیحۃ فلِم‘‘ (اگر تمہارا دعویٰ سچا ہے تو پھر کیوں. .) ـــــاور  اس ’’فاء‘‘ کو جملے کے آخر پر آنے والی شرط (ان کنتم مومنین) کے جواب مقدم کی ابتدائی فاء (رابطہ) بھی کہہ سکتے ہیں۔ ’’لِمَ‘‘ استفہام (مرکب) ہے۔ [تقتلون] فعل مضارع معروف جمع مذکر حاضر ہے۔ [انبیاء] فعل (تقتلون) کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ ’’انبیاء‘‘ ویسے غیر منصرف جمع مکسر ہے اور یہاں یہ آگے مضاف بھی ہے، تاہم اس کا آخر بوجہ اضافت ’’ءًا ‘‘ سے ’’ءَ‘‘ نہیں ہوا بلکہ یہ غیر منصرف ہونے کے باعث حالت نصب میں مفتوح ہی ہے۔ اگر یہ آگے مضاف نہ بھی ہوتا تو بھی اسی طرح (انبیاءَ) ہی رہتا۔ [اللہ] مضاف الیہ (انبیاء کا) لہٰذا مجرور ہے۔ [من قبل] جارّ (من) اور مجرور (قبلُ) مل کر متعلق فعل (تقتلون) ہیں۔ یہاں ’’قبلُ‘‘ مقطوع  الاضافۃ (یعنی آگے مضاف الیہ کے مذکور نہ) ہونے کے باعث ضمہ (ـــــُـــــ) پر مبنی ہے۔ [ان] حرف شرط ہے [کنتم] فعل ناقص ہے جس میں اس کا اسم ’’انتم‘‘ شامل ہے [مومنین] فعل ناقص (کان) کی خبر (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامتِ نصب آخری نون (اعرابی) سے ماقبل کی ’’یاءساکنہ ماقبل مکسور (ــــــِــــ ی)‘‘ ہے۔ اس جملہ شرطیہ (ان کنتم مؤمنین) جو در اصل صرف بیانِ شرط ہے، کی خبر یا تو کوئی مقدر جملہ ہوسکتا ہے مثلاً تو ایسا کیوں کرتے رہے‘‘۔ زیادہ مناسب یہ ہے کہ دراصل ’’ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِيَاۗءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ ‘‘ ہی اس کا جواب شرط ہے جو مقدم ہے اور جو مقدر جوابِ شرط پر بھی دلالت کرتا ہے۔

 

۳:۵۶:۲      الرسم

زیر مطالعہ آیت کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم قرآنی (عثمانی) یکساں ہے ۔ اس لیے کسی بحث کی ضرورت نہیں۔

 

 ۴:۵۶:۲      الضبط

زیر مطالعہ آیت کے کلمات کے ضبط میں تنوعی زیادہ تر ـــــــــــ ساکن حروفِ علّت، الف الوقایۃ، ساکن نون کے اخفاء، اظہار یا اقلاب بمیم ــــــــ اور  افریقی مصاف میں ف اور ق کے طریق اعجام کے علاوہ نون متطرفہ کے عدم اعجام ــــــــ سے  تعلق رکھتا ہے جسےآپ ذیل کی مثالوں میں دیکھ سکتے ہیں۔