سورۃ البقرہ  آیت نمبر  ۹۴ اور ۹۵

۲ : ۵۸       قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ   (۹۴)وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ  (۹۵)

۱:۵۸:۲       اللغۃ

اس قطعہ میں پہلی دفعہ آنے والے نئے مادے (یا ان سے بنے لفظ) تو صرف چار ہیں۔ پہلی آیت ایک مکمل شرطیہ جملہ ہے مگر اس میں بھی بیان شرط والا حصہ خاصا لمبا ہے، لہٰذا ہم اس کے الگ الگ کلمات سے بحث کرنے کے بعد اس کے ترجمہ کی بات کریں گے۔

۲: ۵۸: ۱ (۱)     [قُلْ اِنْ کَانَت لَکُمْ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِنْ دُوْنِ النَّاسِ]

(۱) ’’قلْ‘‘ (تو کہہ، آپ فرما دیجئے، کہہ دیجئے) مادہ، وزن وغیرہ کی بحث کے لیے دیکھئے [۲: ۵۰: ۱ (۲)]

(۲) ’’اِنْ‘‘ (اگر)’’اِنْ‘‘  شرطیہ کے استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ:۲۳ [۲: ۱۷: ۱(۱)]

(۳) ’’کانت‘‘ (تھی، ہے) یہ فعل ناقص ’’کان یکون‘‘ کا صیغہ ماضی واحد مؤنث غائب ہے۔ اس فعل کے معنی و استعمال اور تعلیل وغیرہ پر البقرہ:۱۰ [۲: ۸: ۱(۱۰)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’کَانَتْ‘‘ کا وزن ’’فَعَلْت‘‘ اور شکل اصلی ’’کَوَنَتْ‘‘ جس میں واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل جاتی ہے۔ فعل کا یہ صیغہ دراصل تو ماضی کا ہے مگر شرط کی وجہ سے ترجمہ حال یا مستقبل میں کیا جائے گا۔

(۴) ’’لَکُمْ‘‘ (تمہارے لیے، تمہارا) لام الجر اور ضمیر مجرور کا مرکب ہے، یہاں ’’خبر مقدم‘‘ کے طور پر آنے کے وجہ سے ترجمہ ’’تمہارے ہی لیے/ تمہارا ہی‘‘ سے ہوگا۔

(۵) ’’ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ ‘‘ (آخرت کا گھر، پچھلا گھر) یہ دراصل تو مرکب توصیفی ہے مگر اردو محاورے کی بنا پر اس کا ترجمہ مرکب اضافی کی طرح کردیا گیا ہے، اگرچہ بعض نے ’’پچھلا گھر‘‘ کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے۔ اس میں لفظ ’’الدار‘‘ کا مادہ ’’د  و ر‘‘ اور وزن اصلی (لام تعریف کے بغیر) ’’فَعَلٌ‘‘ تھا۔ اصلی شکل ’’دَوَرٌ‘‘ تھی جس میں واؤ متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لفظ ’’دار‘‘ بنتا ہے جس کے معنی ہیں ’’گھر‘‘۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۸۴ [۱:۵۲:۲(۱)]  میں کلمہ ’’دِیار‘‘ کے سلسلے میں بات ہوئی تھی۔ ’’دار‘‘ اسی ’’دیار‘‘ کا واحد ہے۔ دوسرے لفظ ’’الاٰخرۃ‘‘ کے مادہ، وزن اور اس سے فعل مجرد وغیرہ اور ’’آخرت‘‘ کے اصطلاحی معنی پر مکمل بحث البقرہ:۴ [۱:۳:۲ (۵)] میں کی جاچکی ہے۔ اس لفظ کا اصلی ترجمہ تو ہے ’’سب سے پیچھے آنے والی‘‘۔ لفظ ’’الدار‘‘ (گھر) چونکہ عربی میں مؤنث ہے اس لیے اس کی صفت (عربی میں تو) مؤنث ہی لائی گئی ہے۔ اردو میں لفظ ’’گھر‘‘ مذکر ہے اس لیے ’’الآخِرۃ‘‘ کا ترجمہ ’’الآخِر‘‘ (مذکر) کی طرح ’’پچھلا‘‘ کیا گیا ہے۔ تاہم اکثر نے اردو محاورے کی خاطر اس ترکیب توصیفی کا ترجمہ ترکیب اضافی کی طرح ’’آخرت کا گھر‘‘ ہی کیا ہے، ورنہ اس کا ترجمہ تو ’’ آخری گھر‘‘ یا ’’پچھلا گھر‘‘ ہی ہے۔ بعض نے ترجمہ ’’عالم آخرت‘‘ کرلیا ہے، جو بہرحال فارسی کی ترکیب اضافی ہی ہے۔ قرآن کریم میں یہ دونوں کلمات اس طرح ترکیب توصیفی (الدار الاخرۃ) کی شکل میں سات جگہ آئے ہیں مگر دو جگہ مرکب اضافی (دارُ الاخرۃِ) کی صورت میں بھی آئے ہیں جس کا لفظی ترجمہ ہی ’’آخرت کا گھر‘‘ بنتا ہے۔

(۶) ’’عِندَ اللّٰہ‘‘ (اللہ کے ہاں، خدا کے نزدیک) ’’عِندَ‘‘ پر بات  [۱:۳۴:۲(۶)] میں گزری ہے۔

(۷) ’’خَالِصَۃً‘‘ کا مادہ ’’خ  ل ص‘‘ اور وزن ’’فَاعِلَۃٌ‘‘ ہے (جو عبارت میں منصوب آیا ہے)۔ اس مادہ سے فعل مجرد  ’’خلَص یخلُص خُلوصًا‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’الگ ہوجانا‘‘۔ پھر اسی سے اس میں ’’خالص اور صاف ہونا‘‘کے معنی پیدا ہوتے ہیں، یعنی کسی چیز سے ملاوٹ وغیرہ کا الگ ہوجانا۔ ’’خالِص‘‘ اور ’’صافٍی‘‘ (صاف) دونوں عربی لفظ ہیں اور قریباً ہم معنی ہیں (اور اردو میں بھی اسی طرح استعمال ہوتے ہیں) مگر ان میں اللسان اور المفردات کے مطابق فرق یہ ہے کہ ’’خالص‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کچھ میل ملاوٹ تھی جو الگ (دور) ہوگئی۔ جبکہ ’’صافِی‘‘ (صاف) عموماً اس چیز کو کہتے ہیں جو شروع سے ’’صاف اور خالص‘‘ تھی۔ یہ فعل (خلَص) بنیادی طور پر فعل لازم ہے، مگر مختلف صلات کے ساتھ مختلف معنی بھی دیتا ہے۔ مثلاً ’’خلَص مِن. . . . . ‘‘ کے معنی ہیں ’’. . . . سے نجات پانا یا بچ جانا۔‘‘‘ اور ’’خلَص الیٰ. . . . .  یا  خلَص بِ. . . . ‘‘ کا مطلب ہے ’’. . . . .  تک پہنچ جانا۔‘‘

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے تو صرف ایک ہی صیغہ ماضی (خلَصُوا) ایک ہی جگہ (یوسف:۸۰) آیا ہے۔ جہاں یہ فعل بغیر صلہ کے اور اپنے بنیادی معنی (الگ ہونا) کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے ابواب افعال اور استفعال سے بھی فعل کے دوچار صیغے آئے ہیں۔ مزید برآں مجرد او رمزید فیہ سے متعدد مشتقات پچیس کے قریب مقامات پر آئے ہیں، ان سب پر حسب موقع بات ہوگی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’خالِصَۃ‘‘ اس فعل مجرد سے صیغہ اسم الفاعل ہے۔ اس کے آخر پر ’’ۃ‘‘ تانیث کے لیے نہیں مبالغہ کے لیے ہے (جیسے ’’راوی‘‘ سے ’’روایۃ‘‘ بنا لیتے ہیں (یعنی ’’خاص طور پر الگ‘‘) اس سے بصیغۂ مذکر اسم الفاعل (خالص) بھی قرآن کریم میں بھی ایک جگہ (النحل:۶۶) آیا ہے اور یہ لفظ (خالِصَۃ) بصیغۂ تانیث یا مبالغہ تو پانچ جگہ وارد ہوا ہے ـــــــــ اس کے فعل مجرد کے مذکورہ معانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس (خالصۃ) کا ترجمہ ’’الگ، تنہا، خالص، بلاشرکت، خاص، مخصوص اور خاص کر‘‘ کی شکل میں کیا گیا ہے۔ اصل لفظی ترجمہ ’’خالص (الگ) ہونے والا یا والی‘‘ کی بجائے یہ تراجم اس لیے درست ہیں کہ یہاں اسم الفاعل بمعنی صفت بھی ہے اور اردو محاورے کا بھی یہی تقاضا ہے۔

(۸) ’’ مِنْ دُونِ النَّاسِ ‘‘۔ زیر مطالعہ عبارت کا یہ آخری حصہ دراصل تو ایک مرکب جارّی ہے جو تین کلمات پر مشتمل ہے۔ اس میں ’’مِنْ‘‘ تو حرف الجر ہے جو یہاں ظرف ’’دُونَ‘‘ سے پہلے آیا ہے۔ اس کا ترجمہ ’’سے‘‘ ہی ہوگا۔ تاہم اگر یہ حرف الجرّ نہ بھی ہوتا تو صرف ظرف (منصوب) بھی یہی معنی دیتا۔

’’دُون‘‘ (اِدھر۔ اِس طرف۔ سوا. . . . .کو چھوڑ کر) کی لغوی تشریح وغیرہ البقرہ:۲۳ [۱:۱۷:۲(۹)] میں گزر چکی ہے۔

’’الناس‘‘ (لوگ، لوگوں، سب انسان) اس لفظ کے مادہ ، وزن، اشتقاق وغیرہ کی بحث البقرہ:۸ [۱:۷:۲(۳)] میں ہوچکی ہے۔

یوں ’’من دُون الناس‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے، ’’لوگوں/ کے سوا/ کو چھوڑ کر‘‘ بعض نے اسے بامحاورہ بنانے کے لیے ’’الناس‘‘ کا ترجمہ ’’اور لوگوں‘‘ سے کیا ہے جو یہاں لفظ ’’دُونَ‘‘ کا تقاضا ہے۔ کیونکہ یہاں یہ تو مراد نہیں کہ لوگوں یا انسانوں کو چھوڑ کر یہ کسی اور مخلوق کے لیے خاص ہے۔ اس لیے یہاں ’’لکم‘‘ (تمہارے ہی لیے) کی وجہ سے ترجمہ ’’اور لوگوں سے‘‘ کرنا موزوں ہے۔ اسی کو بعض نے ’’دوسروں کو چھوڑ کر/ دوسروں کے لیے نہیں/ نہ اوروں کے لیے‘‘ اور بعض نے ’’بلا شرکت غیرے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ یہ سب تراجم محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے ہی درست ہیں، ورنہ ظاہر ہے اصل عبارت سے تو ہٹ کر ہیں۔

·       یوں اس پوری زیر مطالعہ عبارت (قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’کہہ دے تو اگر ہے تمہارے ہی لیے آخری گھر اللہ کے ہاں خالص (الگ) لوگوں کے سوا‘‘۔ بعض نے ’’کانت لکم‘‘ کا ترجمہ (شاید محاورہ کی خاطر) ’’تم کو ملنا ہے‘‘ سے کیا ہے جو بلحاظ مفہوم ہی درست ہے۔ اسی طرح بعض مترجمین نے ’’لکم‘‘ اور ’’خالصۃ‘‘ دونوں کو ملا کر ترجمہ ’’خاص تمہارے ہی لیے، تمہارے ہی لیے مخصوص‘‘ کی شکل میں کیا ہے۔ بعض نے ’’محض تمہارے ہی لیے نافع ہے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے، ظاہر ہے اس میں ’’نافع ہے‘‘ ایک تفسیری اضافہ ہے۔ بعض تراجم میں ’’عند اللہ‘‘ کا ترجمہ ہی نظر انداز ہوگیا ہے جو یقینا سہو ہی ہے۔ ’’من دون الناس‘‘ کے مختلف تراجم ابھی اوپر مذکور ہوئے ہیں۔

یہاں تک اس جملے کا ابتدائی حصہ جس میں صرف بیانِ شرط مکمل ہوا ہے۔ جوابِ شرط اگلی عبارت میں آرہا ہے۔

۱:۵۸:۲ (۲)     [فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ]

(۱) نیا لفظ اس میں ’’فَتَمَنَّوْا‘‘ ہے ۔ اس کی ابتدائی فاء (ف) تو فاء رابطہ ہے جو جوابِ شرط کے شروع میں آتی ہے۔ باقی لفظ ’’تَمَنَّوْا‘‘ ہے (اس کی ساکن واو الجمع کو آگے ملانے کے لیے ضمہ (ــــُـــــ) دیا گیا ہے) اس کا مادہ ’’م ن ی‘‘ اور وزن اصلی ’’تَفَعَّلُوْا‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل تو  ’’تَمَنَّیُوْا‘‘ تھی۔ پھر واو الجمع سے ماقبل والا حرف علت (جو یہاں ’’ی‘‘ ہے) گرا دیا جاتا ہے (یعنی ’’ ـــــَــــ یُوْ =  ـــــَــــ وْا ‘‘ کے اصول پر) یوں یہ لفظ ’’تَمَنَّوْا‘‘ بن جاتا ہے۔ (نیز دیکھئے حصہ ’’الاعراب‘‘)۔

·       اس مادہ (م ن ی) سے فعل مجرد (جو قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا) کے باب اور معنی وغیرہ کی بحث تو البقرہ:۷۸ [۱:۴۹:۲(۲)] میں کلمہ ’’امانیّ‘‘ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ زیر مطالعہ لفظ (تَمَنَّوْا) اس مادہ سے باب تفعّل کا صیغۂ فعل امر ہے۔ اس باب سے فعل ’’تَمَنَّی. . . . .  یَتَمَنَّی‘‘ کے معنی ہیں: ’’. . . . کی آرزو کرنا، تمنا کرنا‘‘ اردو کا لفظ ’’تمنا‘‘ اسی عربی فعل کے صیغہ ماضی کی بگڑی ہوئی شکل ہے جو اردو میں اس فعل کے مصدر کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ باب تفعل کے اس فعل کا اصلی عربی مصدر ’’تَمَنّیٍ‘‘ یا ’’التَمَنِّی‘‘ بنتا ہے۔

·       ’’التمنی‘‘ کے اصل معنی تو ہیں: ’’دل میں کسی چیز کا اندازہ کرنا اور اس کا تصور لانا‘‘ جو محض ظن و تخمین پر مبنی بھی ہوسکتا ہے اور کسی ٹھوس بنیاد پر بھی۔ تاہم اکثر یہ بے حقیقت تصور کے لیے آتا ہے۔ اس لیے اس کے معنی میں ’’آرزو کرنا‘‘ کے علاوہ ’’بات گھڑ لینا اور جھوٹ کہنا‘‘ کے معنی بھی شامل ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ’’تمنّی الحدیث‘‘ (اس نے حدیث یا بات گھڑ لی)۔ ’’التمنی‘‘ کے ایک معنی ’’پڑھنا‘‘ (قراء ت یا تلاوت کرنا)بھی ہیں۔ اور قرآن کریم میں کم از کم ایک جگہ (الحج:۵۲) یہ ان معنی میں بھی آیا ہے۔ تاہم اس کا زیادہ استعمال پہلے معنی (آرزو کرنا۔ تمنا کرنا) میں ہی ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں ’’تَمَنَّیْتُ الشئَ‘‘ میں نے اس چیز کی تمنا کی یعنی دل سے چاہا کہ وہ مجھے مل جائے)۔ قرآن کریم میں اس فعل سے مختلف صیغے نو (۹) جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’تَمَنَّوْا‘‘ اس فعل سے فعل امر کا جمع مذکر حاضر کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے جس کا ترجمہ ہوگا: ’’تم سب آرزو کرو‘‘ اور یہی لفظ اس فعل سے صیغۂ ماضی جمع مذکر غائب بھی ہوسکتا ہے۔ ’’ان سب نے آرزو کی‘‘ کے معنی میں۔ یعنی بلحاظ ساخت تو یہ صیغہ دونوں میں مشترک ہے۔ تاہم سیاقِ عبارت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں یہ فعل امر کا صیغہ ہے (اس لفظ کے صیغۂ ماضی اور امر کے اصل فرق کے لیے دیکھئے حصہ ’’الاعراب‘‘) اور اس لیے اس (فتمنوا) کا ترجمہ ’’تو پھر آرزو کرو، تمنا تو کرو‘‘ کی صورت میں ہوگا۔ اور ایسا ہی کیا گیا ہے، بلکہ بیشتر حضرات نے لفظ ’’ آرزو ‘‘ ہی کا انتخاب کیا ہے۔

(۲) [المَوت] اس لفظ کی لغوی وضاحت (مادہ، وزن فعل مجرد وغیرہ) البقرہ:۱۹[۱:۱۴:۲(۱۲)] میں اور پھر [۱:۲:۲(۲)] میں بھی کلمہ ’’اموَاتًا‘‘ کے ضمن میں بھی گزر چکی ہے۔ لفظ ’’مَوت‘‘ اردو میں بھی عام مستعمل ہے۔ اس کا الگ ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔

·       [اِنْ کُنْتُم صٰدِقِیْنَ] (اگر تم سچے ہو تو)۔  بعینہٖ یہی جملہ البقرہ:۲۳ اور ۳۱ [۱:۱۷:۲] اور [۱:۲۲:۲]میں گزر چکا ہے۔

·       یوں اس پورے جملے (فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ) کا (جو دراصل سابقہ جملے کا جوابِ شرط ہے) ترجمہ بنتا ہے ’’پس/ تو تم آرزو کرو موت کی اگر تم ہو سچے‘‘۔ بعض نے ’’مَوْت‘‘ کا بھی ترجمہ ’’مرنے‘‘ (کی) سے کردیا ہے جو خالص اردو لفظ ہے۔ بعض نے اردو محاورے کا خیال کرتے ہوئے ’’ آرزو کرو‘‘ کی بجائے ’’آرزو/تمنا کرکے دکھلا دو‘‘ کیا ہے۔ بعض نے ابتدائی فاء (ف) کا بامحاورہ ترجمہ ’’تو بھلا‘‘ سے کیا ہے۔ بعض نے ’’صٰدقین‘‘ کا ترجمہ فعل مضارع کی شکل میں ’’سچ کہتے ہو‘‘ سے کیا ہے جسے اردو محاورے کے مطابق اور بلحاظ مفہوم ہی درست کہہ سکتے ہیں۔

۱:۵۸:۲ (۳)     [وَلَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَدًا]

(۱) ابتدائی ’’وَ‘‘ مستانفہ ہے، ترجمہ ’’اور‘‘ ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگلا لفظ

(۲) ’’ لَنْ یَّتَمَنَّوْہُ ‘‘ ہے جس کے آخر پر ضمیر منصوب (ہ) ہے جس کا اردو ترجمہ تو ’’اس کو‘‘ بنتا ہے مگر اردو کے فعل (آرزو کرنا) کی مناسبت سے اس کا ترجمہ یہاں ’’اس کی‘‘ ہی ہوسکتا ہے۔ باقی صیغۂ فعل ’’ لَنْ یَّتَمَنَّوْہُ ‘‘ ہے (خیال رہے جب ضمیر مفعول ساتھ نہیں لکھیں گے تو پھر واو الجمع کے بعد الف الوقایہ لکھنا ضروری ہے)۔ یہ ابھی اوپر بیان کردہ فعل ’’تمنّی. . . . . یتمنّی‘‘ (آرزو کرنا) سے فعل مضارع معروف منفی ’’بِلَنْ‘‘ صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس کا ترجمہ ہوگا ’’وہ ہرگز آرزو نہیں کریں گے‘‘۔

(۳) [اَبَدًا] اس عبارت میں یہی لفظ نیا ہے۔ اس کے مادہ (ا ب د) سے فعل مجرد ’’أبَد  یَاْ بُدُ اُ بُودًا‘‘ (نصر سے) ’’وحشی ہونا۔ الگ تھلگ رہنا یا الگ گھومتے پھرنا‘‘ کے معنی دیتا ہے اور ’’أبِدَ یأ بَدُ اَبَدًا‘‘ (سمع سے) کے معنی ’’غضبناک ہونا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ عام عربی میں اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی فعل استعمال ہوتے ہیں۔ اور بطور اسم ’’اَبَدٌ‘‘ بمعنی دہر یا زمانہ بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا خاص محاوراتی استعمال ’’ابدَا الآ باد‘‘ یا ’’ابَد الآبدین‘‘ (رہتی دنیا تک۔ ہمیشہ ہی‘‘ کے مفہوم میں) ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا فعل یا اسم وغیرہ استعمال نہیں ہوا سوائے اس زیر مطالعہ لفظ (ابدًا) کے جو قرآن کریم میں ۲۸ جگہ وارد ہوا ہے۔

·       یہ لفظ ’’ابدًا‘‘ ظرف ہے (اسی لیے یہ ہمیشہ منصوب استعمال ہوتا ہے) یہ صرف زمانۂ مستقبل کے لیے آتا ہے اور نفی و اثبات یعنی منفی یا مثبت دونوں جملوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں ’’اَفْعَلُہ أبدًا‘‘ (میں اسے آئندہ ہمیشہ کروں گا) یا بطور نفی ’’لا اَفْعَلُہ اَبَدًا‘‘ (میں یہ آئندہ کبھی بھی نہیں کروں گا)۔ اسی سے یہ استمرار (کسی حالت یا کیفیت وغیرہ کے ہمیشہ جاری رہنے) کا مفہوم دیتا ہے یعنی ’’ہمیشہ کے لیے‘‘ یا ’’ہمیشہ ہی‘‘ کے لیے ہے۔ اسی مفہوم میں یہ قرآن کریم میں اکثر ’’خالدین‘‘ یا  ’’خالدًا‘‘ (حال) کے ساتھ بطور تاکید (ابدًا) آتا ہے۔

·       قرآن کریم میں یہ زیادہ تر تو منفی جملوں کے ساتھ (کبھی نہ ہوگا کے معنی میں) استعمال ہوا ہے، تاہم مثبت جملوں کے ساتھ (ہمیشہ ایسا ہوگا کے معنی میں) بھی استعمال ہوا ہے، جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ اِن شاء اللہ۔ خیال رہے کہ ’’ابدًا‘‘ ماضی کے ساتھ کبھی استعمال نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کہنا ہو ’’میں ہرگز ایسا (کبھی) نہیں کروں گا‘‘ تو عربی میں کہیں گے ’’لا افعلُہ‘‘ یا  ’’لن افعلَہ ابدا‘‘ اور اگر کہنا ہو کہ ’’میں نے ہرگز کبھی ایسا نہیں کیا‘‘ تو اس صورت میں عربی میں کہیں گے ’’ما فعلتہٗ‘‘ یا ’’لم افعلُہٗ قطُّ‘‘ یعنی یہاں آخر پر ’’قطُّ‘‘ (جو مبنی بر ضمہ (ــــُـــــ) ہے لگے گا۔ ایسے موقع پر ’’ما فعلتہُ ابدا‘‘ کہنا بالکل غلط ہوگا۔ بہرحال ’’ابدًا‘‘ کا اردو ترجمہ ’’کبھی بھی‘‘ ہوسکتا ہے اور مراد ہوگا ’’آئندہ کبھی بھی۔‘‘

·       اس حصۂ عبارت (وَلَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَدًا) کا ترجمہ بنتا ہے ’’اور وہ ہرگز آرزو نہ کریں گے اس کی کبھی‘‘ چونکہ اس میں نفی جحد بلَنْ بھی ہے (یعنی زور اور تاکید کے ساتھ نفی) اور ساتھ ’’ابدًا‘‘ بھی ہے اس لیے اردو محاورے میں ان دونوں کے مفہوم کو یکجا کرتے ہوئے ترجمہ ’’وہ اس کی آرزو   ہرگز کبھی بھی نہ کریں گے‘‘ اور ’’ہرگز   کبھی اس کی آرزو نہ کریں گے‘‘ سے کیا گیا ہے۔ بعض نے ضمیر مفعول (ہ) کی بجائے (’’اُس کی ‘‘بجائے) ’’موت کی آرزو، مرنے کی آرزو نہ کریں گے‘‘ سے ترجمہ کیا کیونکہ یہاں اس ضمیر کا مرجع (مَوْت) پہلے مذکور ہوا ہے۔

۱:۵۸:۲ (۴)      [بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ]

(۱) ’’بِمَا‘‘ (بسبب اس کے جو کہ) میں ’’بِ‘‘ سببیہ اور ’’مَا‘‘ موصولہ ہے جس کو مصدریہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔

(۲) ’’قَدَّمَتْ‘‘ کا مادہ ’’ق د م‘‘ اور وزن ’’فَعَّلَتْ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے (اور مختلف مصادر کے ساتھ) مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم اس کے تمام معانی میں ’’قَدَمٌ‘‘ (پاؤں، جمع اقدام) اُٹھانا‘‘ کا مفہوم ضرور شامل ہوتا ہے اور اس لیے اس کے معانی میں ’’ آگے بڑھنا‘‘ (سبقت) کا تصور ہوتا ہے، چاہے بلحاظ مکان (جگہ) ہو یا بلحاظ زمان یا بلحاظ شرف و مرتبہ ہو۔ مثلاً  (۱) ’’قَدَم. . . .  یقدُم قُدُومًا‘‘ (نصر سے) کے معنی ہوتے ہیں: ’’. . . .سے آگے بڑھنا/ . . . .  کے آگے آگے چلنا‘‘ یعنی ’’صارقُدَّامَھم‘‘ اور اسی سے آیا ہے ’’ يَـقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ‘‘ (ھود:۹۸)(یعنی وہ اپنے لوگوں کے آگے آگے آئے گا قیامت کے دن). اور کبھی ان ہی معنی کے لیے یہ فعل باب فتح سے (قدَم یقدَم قَدْمًا) بھی آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ باب نصر سے ہی آیا ہے (۲) ’’قدِم یقدَم قَدْمًا‘‘ (سمع سے) کے معنی ’’ آپہنچنا، آجانا‘‘ ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ’’قدِم فلانٌ من سفَرِہ‘‘ (فلاں اپنے سفر سے واپس آگیا) اور اگر اس کے ساتھ ’’الٰی‘‘ کا صلہ لگے یعنی ’’قدِم الیٰ. . . . .‘‘ تو اس کے معنی ’’. . . .تک پہنچنا، . . . . کی طرف متوجہ ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ اسی سے قرآن کریم میں آیا ہے ’’ وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ ‘‘ (الفرقان:۲۳) یعنی ’’اور ہم پہنچے/ متوجہ ہوئے ان کے اعمال (جو کچھ انہوں نے عمل کیا) تک/ کی طرف‘‘ (۳) ’’قدُم یقدُم قِدَمًا‘‘ (کرم سے) کے معنی ہیں: ’’قدیم ہونا۔ بلحاظ زمانہ پیچھے (ماضی میں) رہ جانا۔ پرانا ہونا‘‘ اسی فعل سے عربی کی صفت مشبّہ ’’قدیم ‘‘اردو میں بھی مستعمل ہے۔ قرآن کریم میں یہ فعل اپنے پہلے دو معنی (۱  اور  ۲ مندرجہ بالا) میں ہی استعمال ہوا ہے بلکہ اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں صرف یہی دو صیغے آئے ہیں جو اوپر دو مثالوں میں مذکور ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ صیغۂ فعل (قدَّمَتْ) اس مادہ سے بابِ تفعیل کا فعل ماضی معروف صیغۂ واحد مونث غائب ہے۔ باب تفعیل کا یہ فعل ’’قدَّم… یُقَدِّمُ تقدیمًا‘‘ بنیادی طور پر بطور متعدی آتا ہے اور اس کے معنی ’’. . . . کو آگے بھیجنا/ کرنا/ لانا/ پیش کرنا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور کبھی اس کے معنی بطور فعل لازم ’’ آگے بڑھنا‘‘ (تقدَّم) کے بھی آتے ہیں اور اس کے معنی (بطور متعدی) ’’کسی سے آگے نکل جانا‘‘ (سبَقَہ) کے بھی ہوتے ہیں. کہتے ہیں ’’قدَّم القومَ‘‘ (وہ لوگوں سے آگے نکل گیا). اس کے علاوہ مختلف صلات کے ساتھ بھی یہ مختلف معنی دیتا ہے۔ مثلاً ’’قدَّم بَیْنَ یَدَیْ فلانٍ‘‘ کے معنی ہیں ’’وہ فلاں سے پہل کر گیا‘‘ اور قرآن کریم (الحجرات:۱) میں یہ اسی معنی میں آیا ہے۔’’الی‘‘ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ’’. . . . کو قبل از وقت خبردار کرنا یا قبل از وقت کوئی حکم دینا‘‘ بھی ہوتے ہیں اور اسی سے قرآن کریم میں آیا ہے ’’ وَقَدْ قَدَّمْتُ اِلَيْكُمْ بِالْوَعِيْدِ ‘‘ (ق ۲۸)(میں نے تم کو پہلے ہی وعید (ڈراوا۔ دھمکی) دے دی تھی/ سے آگاہ کردیا تھا) اور ’’قدّم بِ‘‘کے معنی ’’. . . .سے قبل از وقت آگاہ کرنا‘‘ ہوتے ہیں۔ اوپر کی مثال میں ’’الیٰ‘‘ اور ’’ب‘‘ دونوں کا استعمال ہوا ہے یعنی ’’. . . .کو . . . .سے قبل از وقت آگاہ کردیا‘‘۔ (الیہ اور بالوعید(

·       قرآن کریم میں (باب تفعیل کے) اس فعل سے ماضی مضارع امر و نہی کے مختلف صیغے ۲۷ جگہ آئے ہیں، جن میں سے صرف زیر مطالعہ صیغہ (قدَّمَتْ) ہی ۱۴ جگہ آیا ہے۔ نیز بابِ تفعّل اور استفعال سے اَفعال کے کچھ صیغے بھی چھ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مجرد و مزید سے مختلف مشتق و ماخوذ کلمات (مثلاً قدم، اَقدام، قدیم، اقدمون، مستقدمین) ۱۳ جگہ وارد ہوئے ہیں۔

(۳) ’’اَیْدِیْھِم‘‘ (ان کے ہاتھوں نے)۔ اس مرکب اضافی کا پہلا جزء ’’اَیْدٍی‘‘ لفظ ’’ید‘‘ (ہاتھ) کی جمع مکسر ہے۔ ’’ید‘‘ کی لغوی (مادہ، وزن، باب، فعل اور ساخت کلمہ وغیرہ کی) بحث پہلے البقرہ:۶۶ [۱:۴۲:۲(۶)] میں گزری تھی، پھر اسی لفظ (اَیْدِیْھِمْ) پر البقرہ:۷۹ [۱:۴۹:۲ (۴)] میں بھی بات ہوئی تھی۔

·       یوں اس عبارت (بِما قدَّمَتْ ایدیھم) کا ترجمہ بنتا ہے ’’بسبب اس کے جو کہ آگے بھیجا ان کے ہاتھوں نے۔ ’’بما‘‘ کا ترجمہ ’’جس واسطے‘‘ کیا گیا ہے جو کہ ’’اس کے واسطے جو کہ‘‘ کی زیادہ سلیس شکل ہے۔ بعض نے ’’ان اعمال بد/ برے کام/ بداعمالیوں کے سبب، ان گناہوں کے سبب، ان اعمال کی وجہ سے جو‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ ظاہر ہے ان میں ’’بداعمالیوں، گناہوں‘‘ وغیرہ تفسیری اضافے ہیں۔ اسی طرح بعض نے ’’قَدَّمَتْ‘‘ (آگے بھیجا) کا ترجمہ (جو گناہ وہ) پہلے کرچکے ہیں‘‘ کے ساتھ کیا ہے اور بعض نے ’’(جو اپنے ہاتھوں) سمیٹ چکے ہیں‘‘ اور ’’(جو) آگے کرچکے ہیں‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ ان میں اکثر تراجم اردو محاورے اور اپنے مفہوم کے اعتبار سے درست ہیں ورنہ اصل الفاظ سے تو ذرا ہٹ کر ہی ہیں۔

·       بعض مترجمین نے اردو میں فقرے کی ساخت کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے پہلے ’’بِمَا قَدَّمَت ایدیھم‘‘ اور بعد میں (پہلی عبارت) ’’ولن یَتَمَنَّوُہ اَبَدًا‘‘ کا ترجمہ کیا ہے۔ جو ترجمے کے قواعد کے لحاظ سے درست ہی ہے۔

۱:۵۸:۲ (۵)     [وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بالظّٰلِمِیْنَ]

(۱) ’’وَاللّٰہ‘‘ کی ’’واو‘‘ یہاں مستانفہ ہے، بلحاظ معنی اس کا سابقہ عبارت پر عطف (کا تعلق) ہو ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے عبارت کے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے کہ وہاں سابقہ مضمون ختم ہوتا ہے اور جملہ بھی مکمل ہوجاتا ہے۔ اسم جلالت (اللہ) کی لغوی بحث ’’بسم اللہ‘‘ کے ضمن میں ہوئی تھی۔

(۲) ’’علیم‘‘ جو مادہ ’’ع ل م‘‘ سے صفت مشبّہ بروزن ’’فعیل‘‘ ہے، اس کی مکمل وضاحت البقرہ:۲۱ [۱:۲۰:۲] کے آخر پر ہوچکی ہے یعنی ’’خوب جاننے والا‘‘ ’’بالظّٰلمین‘‘ کی ابتدائی ’’با (ب)‘‘ وہ صلہ ہے جو کبھی کبھی فعل ’’عَلِمَ‘‘ پر آتا ہے یعنی ’’عَلِمَہٗ ‘‘ اور ’’عَلِمَ بہ‘‘ دونوں کا مطلب ہے ’’اس نے اسے جان لیا‘‘ اور کلمہ ’’الظالمین‘‘ (یعنی اردو کا ’’ظالموں‘‘) کی لغوی بحث پہلی دفعہ البقرہ:۳۵ [۱:۲۶:۲] کے آخر پر ہوئی تھی۔

·       اب یہ عبارت آپ کے لیے چنداں مشکل نہیں۔ اس کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور اللہ تعالیٰ خوب اچھی طرح جاننے والا ہے ظالموں کو‘‘ بعض نے ’’علیم‘‘ کا ترجمہ ’’خوب واقف‘‘ سے کیا ہے جبکہ بہت سے حضرات نے اس کا ترجمہ بصورتِ فعل یعنی ’’خوب جانتا ہے‘‘ سے کیا ہے جو اردو محاورے کے لحاظ سے درست ہے۔ ورنہ بظاہر تو یہ ’’یَعْلَمُ‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے۔ بعض نے ’’کو خوب اطلاع ہے ‘‘سے ترجمہ کیا ہے جو تکلف اور تصنع سے خالی نہیں۔ اسی طرح  ’’ظالمین‘‘  کا اردو ترجمہ ’’گناہگاروں‘‘ اور ’’بے انصافوں‘‘ سے بھی کیا گیا ہے  جو بلحاظ مفہوم درست ہے۔

 

۲:۵۸:۲     الاعراب

اس قطعہ کی پہلی آیت تو ایک ذرا لمبا مکمل شرطیہ جملہ ہے، ہم اسے دو حصوں (بیانِ شرط اور جوابِشرط) میں تقسیم کرکے اعراب پر بات کریں گے۔ دوسری آیت (۹۵) اعرابی لحاظ سے دو مکمل جملے ہیں۔ ہر ایک جملہ پر الگ الگ بات ہوگی۔

(۱) ’’ قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ. . . . . ‘‘۔ [قُل] فعل امر صیغہ واحد مذکر حاضر ہے ۔[انْ] شرطیہ جازمہ ہے مگر یہاں فعل ماضی پر اس کا کوئی عمل نہیں ہوا ، اگرچہ بعض نحوی کہتے ہیں کہ یہاں فعل ’’کانت‘‘ محلاً مجزوم ہے، مگر یہ محض تکّلف ہے۔ ’’اِنْ‘‘ تو صرف مضارع کو ہی جزم دیتا ہے۔ [کانت] فعل ناقص صیغہ ماضی واحد مؤنث غائب ہے۔ [لکم] جار مجرور (ل+کم) مل کر ’’ کانت‘‘ کی خبر مقدم (جو اس کے اسم سے پہلے لائی گئی ہے) ہے اور اس تقدیم کی وجہ سے ’’لکم‘‘ کا ترجمہ ’’تمہارے ہی لیے‘‘ ہوگا۔ [الدارُ الاخرۃُ] مرکب توصیفی مل کر ’’ کانت‘‘ کا اسم (لہٰذا) مرفوع ہے جو خبر سے مؤخر (بعد میں) لایا گیا ہے اور چاہیں تو یوں کہہ لیجئے کہ ’’الدارُ‘‘ (گھر) ہی دراصل اسم ’’کانت‘‘ ہے لہٰذا رفع میں ہے اور ’’الآخرۃ‘‘ اس (الدار) کی صفت ہے اور اس لیے یہ حالت، جنس عدد وغیرہ سب پہلوؤں سے اپنے موصوف کے مطابق ہے (اور یوں یہ مرفوع بھی ہے)۔ [عنداللہ] میں ’’عند‘‘ ظرف مکان ہے (اس لیے منصوب ہے) جو ’’اللّٰہ‘‘ کی طرف مضاف ہے اور اسم جلالت اسی لیے مجرور ہے اور اس ظرف مکان کا تعلق اگلے لفظ ’’خالصۃ‘‘ سے ہے، یعنی یہ اس (خالصۃ) کے معنی مزید واضح کرتا ہے ) کہ الگ اور وہ بھی اللہ کے پاس) [خالصۃ] یہ ’’الدار‘‘ کا حال ہے، اس لیے منصوب ہے یعنی ’’خالص ہوتے ہوئے‘‘ یا ’’خاص کر‘‘۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ ’’خالصۃ‘‘ کو فعل ناقص ’’ کانت‘‘ کی خبر (لہٰذا منصوب) سمجھا جائے اور ابتدائی ’’لکم‘‘ کو اس کا متعلق خبر مقدم قرار دیا جائے۔ اس سے اردو ترجمہ میں کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔ [من دون الناس] جار مجرور مل کر(جس میں مجرور ’’دون الناس‘‘ میں ظرف مضاف اور اس کا مضاف الیہ شامل ہیں) حال/یا خبر (خالصۃً) کا حال مؤکدہ ہے، کیونکہ ’’دُون‘‘ اختصاص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں ’’ھذا لی دونک/ مِن دونِک‘‘ (یعنی یہ چیز میری ہی ہے، تیرا اس سے کوئی تعلق نہیں) اسی لیے ’’من دون الناس‘‘ کا ترجمہ دوسروں کا نہیں، دوسروں کو چھوڑ کر‘‘ وغیرہ سے کیا گیا ہے (دیکھئے تراجم حصّہ ’’اللغۃ‘‘ میں)۔ یہاں تک بیانِ شرط پورا ہوتا ہے۔

(۲) فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ

[فتمنَّوا] کی ابتدائی ’’فا(فَ)‘‘ وہ ہے جو جوابِ شرط پر آتی ہے، خصوصاً جب جوابِ شرط میں معنی ’’طلب‘‘ پایا جائے۔ ’’تَمَنَّوْا‘‘ یہاں فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس میں آخری ’’ن‘‘ (تتمنون کا) امر کے مجزوم ہونے کی وجہ سے گر گیا ہے۔ اب واو الجمع ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ کے معنی دے رہی ہے اور اس صیغہ کے شروع سے ایک ’’ت‘‘ بھی گرا دی گئی ہے۔ اصل صیغہ ’’تَتَمَنَّوْا‘‘ تھا، پھر بابِ تفعل اور تفاعل میں جہاں دو تاء (ت) جمع ہوتے ہیں وہاں ایک ’’ت‘‘ کا حذف جائز ہے اور اس طرح یہ صیغۂ امر بظاہر فعل ماضی کے صیغہ جمع مذکر غائب سے مشابہ ہوگیا ہے، ورنہ دراصل تو دونوں صیغے الگ الگ (’’تَمَنَوَّا‘‘ ماضی اور ’’تَتَمَنَّوا‘‘ امر) ہوتے ہیں۔ [الموت] فعل ’’تَمَنَّوا‘‘ کا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے۔ [ان کنتم صادقین] یہ بذاتِ خود ادھورا جملہ ہے جو بیان شرط پر مشتمل ہے یعنی ’’ان‘‘ شرطیہ ’’کنتم‘‘  فعل ناقص مع اسم ’’انتم‘‘ ہے اور ’’صادقین‘‘ اس (کنتم) کی خبر (لہٰذا) منصوب ہے  علامتِ نصب آخری نون سے پہلے والی یاء ماقبل مکسور (ـــــِــــ ی) ہے اور یہ جملہ (ان کنتم صادقین) ایک محذوف جوابِ شرط کا محتاج ہے جو ’’فافعلوا ھذا‘‘ یا  ’’فتمنُّوا الموت‘‘ ہوسکتا ہے۔ یعنی ’’اگر سچے ہو‘‘ تو یہ (موت کی تمنا کرنے والا) کام کردکھاؤ۔ یہ عبارت سابقہ (۱) کا جواب شرط ہے۔ یہ دونوں جملے (۱، ۲ مندرجہ بالا) مل کر ایک جملہ شرطیہ مکمل ہوتا ہے۔

(۳) وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ

[وَ] یہاں استیناف کی ہے [لَنْ] حرف ناصب ِ مضارع جو نفی اور مستقبل کے معنی دیتا ہے۔ [یتمنوہ] میں ’’یتمنوا‘‘ تو فعل مضارع منصوب (بِلَنْ) ہے جس میں علامتِ نصب آخری نون کا (یتمنوْنَ کا) گر جانا ہے اس میں واو الجمع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ کے لیے ہے اور صیغۂ فعل کے آخر پر ضمیر منصوب (ہ) اس فعل کا مفعول بہ ہے۔ مفعول ضمیر ہونے کے باعث یہاں واو الجمع کے بعد الف الوقایہ نہیں لکھا جاتا۔ [ابدًا] ظرف زمان برائے مستقل ہے۔ جس کا تعلق فعل ’’یتمنوہ‘‘ سے ہے۔ [بِما] باء الجر (جو یہاں سببیہ ہے) اور ’’مَا‘‘ موصولہ کا مرکب ہے (قدَّمَتْ) فعل ماضی واحد مؤنث غائب ہے اور [اَیْدِیْھِمْ] مضاف ’’ایدی‘‘ اور مضاف الیہ ’’ھم‘‘ مل کر فعل ’’قَدَّمَتْ‘‘ کا فاعل ہے۔ یہاں ’’ایدیٍ‘‘ مرفوع ہے جو آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف ’’اَیْدِیْ‘‘ ہوگیا ہے (تنوین ختم ہوگئی ہے) یہ لفظ اسم منقوص کی طرح رفع نصب جر میں ’’ایدیٍ ۔ ایدیًا اور ایدٍی‘‘ ہوتا ہے۔ پھر مضاف ہوتے وقت رفع او رجر میں تو ’’ی‘‘ ساکن ہو جاتی ہے مگر نصب میں مفتوح (ی) ہوجاتی ہے اور یہ پورا جملہ (قدمَتْ اَیْدِیْھِمْ) اسم موصول ما (’’بما‘‘ والا)کا صلہ ہے اور یوں یہ پورا مرکب جارّی (بما قدمت ایدیھم) متعلق فعل ’’لن یتمنوا‘‘ بنتا ہے۔ یعنی ’’جرأت تمناّ‘‘ نہ کرسکنے کی وجہ بتاتا ہے۔

(۴) وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ

[وَ] مستانفہ ہے اور [اللہ] مبتدأ مرفوع ہے۔ [علیم] اس کی خبر (لہٰذا) مرفوع ہے [بالظالمین] جار مجرور (ب+ الظالمین) مل کر متعلق خبر (علیم) ہے اور یہ پورا جملہ اسمیہ ایک الگ (مستانفہ) جملہ ہے۔

 

۳:۵۸:۲      الرسم

   بلحاظ رسم عثمانی (قرآنی) اس قطعہ میں صرف دو لفظ قابل ذکر ہیں۔ یعنی ’’صدقین‘‘ اور ’’الظلمین‘‘۔ ویسے یہ دونوں لفظ پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ اور ان کا قاعدہ وہی جمع مذکر سالم کے حذف الف والا ہے، جو بیان ہوچکا ہے۔

(۱) ’’صدقین‘‘ جس کی رسمِ املائی ’’صادقین‘‘ ہے، قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ ’’بحذف الالف بعد الصاد‘‘ لکھا جاتا ہے۔

(۲) ’’الظلمین‘‘ جس کی رسم املائی ’’الظالمین‘‘ ہے، یہ بھی قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ ’’بحذف الالف بعد الظاء‘‘ لکھا جاتا ہے۔

خیال رہے دونوں لفظوں میں الف الفاعلین لکھنے میں محذوف ہوتا ہے مگر پڑھا ضرور جاتا ہے، پھر ضبط سے ظاہر کیا جاتا ہے۔

 

۴:۵۸:۲      الضبط

ان دو آیات کے کلمات میں ضبط کا تنوع زیادہ تر ساکن حرف علت، نون مخفاۃ اور اقلاب نون بمیم کے طریق ضبط سے تعلق رکھتا ہے۔ یا پھر افریقی مصاحف میں ف اور ق کے اعجام اور ’’ن‘‘ متطرف (آخر پر آنے والا نون) کے عدم اعجام سے متعلق ہے۔ تفصیل یوں ہے۔