سورۃ البقرہ آیت ۹۶

۲ : ۵۹       وَلَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰي حَيٰوةٍ  ڔ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُــوْا  ڔ يَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَةٍ  ۚ وَمَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ    (۹۶)

۱:۴۹:۲      اللغۃ

اس آیت میں بہت سے (آٹھ دس) الفاظ نئے (پہلی دفعہ) آئے ہیں۔ ہم آیت کو (مربوط ترجمہ کر سکنے کی آسانی کے لیے) چھوٹے چھوٹے نحوی جملوں کی شکل میں لکھ کر‘ پہلے ہر ایک جملے کے مفردات (الگ الگ کلمات) کی لغوی بحث کریں گے اور آخر پر اس جملے کا ترجمہ (یا تراجم) زیر بحث لائیں گے۔ حوالے کا نمبر ہر چھوٹے جملے کا ہو گا۔

۱:۵۹:۲ (۱)      [وَ لَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ]

(۱) ’’وَ لَتَجِدَنَّھُمْ‘‘یہ ’’وَ + لَتَجِدَنَّ + ھم‘‘کا مرکب ہے۔ ابتدائی ’’وَ‘‘ عاطفہ ہے یا استیناف کی ہو سکتی ہے ترجمہ ’’اور‘‘ ہی ہو گا۔ آخری ضمیر منصوب ’’ھم‘‘کا ترجمہ یہاں ’’ان کو‘‘ ہو گا - باقی صیغۂ فعل ’’لَتَجِدَنَّ‘‘ مضارع مؤکّد بلام و نون ثقیلہ ہے۔ اصل فعل ’’تَجِدُ‘‘ ہے (جس کی دال کی فتحہ(ــــــَــــ) مؤکّد صیغہ کی ساخت کی وجہ سے ہے)۔ اس طرح اس فعل ’’تجِدُ‘‘ کا مادہ ’’و ج د‘‘ اور وزن اصلی ’’تَفْعِلُ‘‘  ہے اور ’’لَتَجِدَنَّ‘‘  کا وزن اصلی ’’لَتَفْعِلَنَّ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’وجَد . . . .یجِد‘‘ (ضرب سے) استعمال ہوتا ہے اور مختلف مصدروں کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے۔ یہ مادہ ’’مثال واوی‘‘ ہے جس کے مضارع میں فاء کلمہ (و) گر جاتی ہے۔ یعنی مضارع  ’’یَوْجِدُ‘‘ کی بجائے ’’یَجِدُ‘‘ آتا ہے اور یوں ’’لَتَجِدَنَّ‘‘ کا موجودہ وزن ’’لَتَعِلَنَّ‘‘ رہ گیا ہے۔

·        فعل’’وجَد . . . .یَجِدُ وُجودًا و وِجْدانًا‘‘ کے بنیادی معنی ہیں ’’. . . . کو پانا۔ پا لینا‘‘ مثلاً کہتے ہیں  ’’وَجد مطلوبَہ‘‘  ’’اس نے اپنا مطلوب یعنی جس کی طلب تھی پا لیا‘‘۔ پھر یہ ’’پا لینا‘‘ حسی بھی ہوتا ہے یعنی جس چیز کو حواس خمسہ میں سے کوئی حِس پا لے اور ’’وجود‘‘ عقلی بھی ہوتا ہے یعنی جسے عقل پا لے اسی لیے بعض دفعہ حسبِ موقع اس فعل (وجد) کا ترجمہ ’’مشاہدہ کرنا‘‘ یا ’’قابو پانا‘‘ بھی کیا جا سکتا ہے۔

·       یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے تاہم عموماً یہ دو مفعول کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے اور دونوں مفعول بنفسہ (منصوب) آتے ہیں اور اس وقت  ’’وجَد‘‘ گویا  ’’عَلِم‘‘ (جان لیا) کے معنی میں آتا ہے یا دوسرے مفعول کو ’’حال‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً  ’’ وَجَدْنٰهُ صَابِرًا ‘‘ (ص: ۴۴) یعنی ’’ہم نے اس کو صبر کرنے والا پایا‘‘ یا ’’جان لیا / دیکھ لیا۔‘‘

·       مندرجہ بالا معنی کے علاوہ یہ فعل بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً  ’’وجَد یجِد وَجْدًا‘‘ کے معنی ’’غمگین  ہونا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ اور ’’وجد یجد عَلَیہ موجِدَۃً‘‘ کے معنی ’’. . . . پر ناراض ہونا۔ غضبناک ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور ’’وجد یجِد بہٖ وَجْدًا‘‘کے معنی ’’. . . . سے محبّت کرنا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ تاہم ان معانی کے لیے یہ فعل قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا، بلکہ قرآن میں یہ اوپر والے معنی (پانا۔ پا لینا وغیرہ) میں ہی آیا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے ہی ماضی و مضارع کے مختلف صیغے سو سے زائد (۱۰۴) جگہ آئے ہیں۔ عام عربی میں اگرچہ اس مادہ سے مزید فیہ کے افعال بھی استعمال ہوتے ہیں بلکہ بعض الفاظ (مثلاً ’’ایجاد‘‘) تو اردو میں بھی رائج ہیں، تاہم قرآن کریم میں اس سے مزید فیہ کا کوئی فعل استعمال نہیں ہوا ہے۔

·       اس طرح ’’وَ لَتَجِدَنَّھُمْ‘‘ کا ترجمہ بنا ’’اور تو ضرور پائے گا ان کو۔‘‘ جسے بعض نے ’’تو دیکھے گا ان کو‘‘ (یعنی مشاہدہ کرے گا) سے ترجمہ کیا ہے۔ اور چونکہ آیت کے اولین مخاطب تو نبی کریم ہیں اس لیے بعض نے ترجمہ بصیغہ احترام ’’پائیں گے‘ دیکھیں گے‘‘ سے کیا ہے۔

(۲) ’’اَحْرَصَ النَّاسِ‘‘ اس مرکب کے دوسرے جزء  (الناس بمعنی ’’لوگوں‘‘) کی لغوی تشریح البقرہ: ۸ [۱:۷:۲(۳)] میں کی جا چکی ہے۔ پہلے جزء ’’اَحْرَصُ‘‘  کا مادہ ’’ح ر ص‘‘ اور وزن  ’’اَفْعَلُ‘‘ (افعل التفضیل والا) ہے, جو اصل عبارت میں منصوب آیا ہے  (وجہ پر ’’الاعراب‘‘ میں بات ہو گی)۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’حرَص . . . . یحرِصُ حِرْصًا‘‘ (ضرب سے) کے بنیادی معنی ہیں ’’پوری طرح چھیل دینا‘‘۔ مثلاً کہتے ہیں:  ’’حرصتِ الماشیۃُ المَرْعی‘‘(مویشیوں نے چراگاہ کو صاف کر دیا یعنی کچھ نہ چھوڑا) گویا اس میں بنیادی مفہوم ’’شدّت اور ارادے کی زیادتی ‘‘ کا ہے۔ اس فعل کے ساتھ ’’عَلیٰ‘‘  کا صلہ آئے تو اس کے معنی ’’. . . . کا بہت خواہشمند ہونا، . . . . کی شدید ررغبت رکھنا، . . . . کا زبردست خیرخواہ ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’حرَص علی الرجُلِ‘‘ (اس نے آدمی سے نفع اور بھلائی کی پُر زور کوشش کی)۔ اسی فعل سے صفت مشبّہ ’’حرِیْصٌ‘‘  اردو میں ’’لالچی‘‘ کے معنی میں مستعمل ہے۔ اس میں وہی ’’شدید خواہش‘‘ اور ’’ارادے کی زیادتی‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے صرف تین جگہ آئے ہیں اور اس سے مشتق اسم ’’حریص‘‘ اور ’’اَحْرص‘‘  بھی ایک ایک بار وارد ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (احرص)  اس فعل سے صیغہ افعل التفضیل ہے اور یوں اس کے معنی ’’سب سے زیادہ حریص/ بہت ہی آرزومند‘‘ ہیں اور اس طرح ’’اَحْرص الناسِ‘‘  کا ترجمہ ’’تمام لوگوں سے زیادہ حریص‘‘ یعنی ’’سب لوگوں سے بڑھ کر حریص/ ریجھے ہوئے/ زیادہ ہوس رکھنے والے‘‘ وغیرہ کی صورت میں ہو سکتا ہے اور کیا گیا ہے۔

(۳) ’’عَلٰی حَیٰوۃٍ‘‘ (زندگی پر)ـــــ لفظ  ’’حیٰوۃ‘‘  جس کا مادہ ’’ح ی ی‘‘ اور وزن اصلی  ’’فَعَلَۃٌ‘‘  ہے‘ کی لغوی وضاحت یعنی فعل مجرد وغیرہ پر تو البقرہ: ۲۶ [۲: ۱۹: ۱(۱)] میں کلمہ ’’یَسْتحی‘‘  کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ پھر خود لفظ  ’’حَیٰوۃ‘‘  بصورت  ’’ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ‘‘  البقرہ: ۸۵ [۲: ۵۲: ۱ (۸)] میں زیر بحث آ چکا ہے۔

·       یوں اس زیر مطالعہ حصۂ آیت [وَ لَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ]  کا ترجمہ بنتا ہے ’’اور تو ضرور پائے گا/ دیکھے گا ان کو سب لوگوں سے بڑھ کر زندگی/ پر حریص/ کی ہوس رکھنے والے/ پر ریجھے ہوئے‘‘ ۔ یعنی اسی دنیوی زندگی اور اس کی نعمتوں کے حد سے زیادہ دلدادہ اور طلبگار۔‘‘

۱:۵۹:۲ (۲)     [وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا]  اس عبارت کے ابتدائی کلمات ’’وَ‘‘ (اور)  ’’مِنْ‘‘  (میں سے) اور ’’الذین‘‘  (وہ سب جو کہ) کے معانی سے آپ واقف ہو چکے ہیں۔ بلکہ ان کا تو لغوی تشریح اور استعمال کا گزشتہ حوالہ بیان کرنا بھی غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ البتہ نیا لفظ یہاں ’’اَشْرَکُوْا‘‘  آیا ہے جس کا مادہ ’’ش ر ک‘‘ اور وزن  ’’اَفْعَلُوْا‘‘  ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’شرِک . . . . یشرَک شِرکۃً‘‘  (سمع سے) کے معروف معنی ہیں ’’. . . . کا حصہ دار بننا‘‘ اور ایسے آدمی کو ’’شریک‘‘ کہتے ہیں یعنی ’’شرِکَہ‘‘  کا مطلب ہے ’’وہ اس کا (کسی چیز میں) حصہ دار بن گیا‘‘۔ اگرچہ اسی فعل کے معنی ’’جوتے کا تسمہ ٹوٹ جانا‘‘ بھی ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کسی قسم کا صیغۂ فعل کسی بھی معنی میں استعمال نہیں ہوا۔

·       ’’اَشْرَکُوْا‘‘ اس مادہ سے بابِ افعال کا صیغہ ٔ ماضی جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَشْرَک . . . . یُشرِکُ اِشراکًا‘‘ کے معنی ہیں: ’’. . . . کو حصہ دار (شریک) بنا لینا‘‘۔ اس کا مفعول بھی بنفسہ آتا ہے۔ جیسے قرآن میں ہے۔ ’’ وَاَشْرِكْهُ فِيْٓ اَمْرِيْ ‘‘ (طہٰ: ۳۲) یعنی ’’تو اسے میرے کام میں شریک کر دے‘‘۔ جس چیز میں حصہ دار بنایا جائے اس پر ’’فی‘‘  لگتا ہے جیسے اوپر کی مثال میں ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کے شریک (حصہ دار) بنانے کی بات ہو تو اسم جلالت یا اس کے لیے ضمیر پر  ’’با‘‘ (بِ)  کا صلہ لگتا ہے یعنی کہتے ہیں  ’’اَشْرَکَ باللّٰہِ‘‘  ’’اس نے اللہ کا شریک بنایا‘‘ یا ’’اس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا‘‘۔ اس شرک کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً خدا کی ذات اور اس کی صفات میں شریک بنانا یا سمجھ لینا۔  ’’اِشراک‘‘ کے یہ معنی اتنے معروف ہیں کہ اگر اس کے ساتھ ’’باللّٰہ‘‘ نہ بھی لگا ہو تب بھی اس فعل سے ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا‘‘ ہی مراد ہوتا ہے جیسے زیر مطالعہ صیغہ  ’’اشرَکوا‘‘  کا مطلب ہی یہ ہو گا ’’انہوں نے شرک کیا اللہ کے ساتھ‘‘۔

·       چونکہ اہل عرب کا قبل از اسلام عام مذہب یہی شرک تھا انہوں نے بتوں وغیرہ کو خدا کے شریک بنا رکھا تھا لہٰذا قرآن کریم میں ان کا عموماً  ’’المشرکون‘‘  (شرک کرنے والے) اور ’’الذین اشرکوا‘‘  (جنہوں نے شرک کیا) کہہ کر ذکر کیا جاتا ہے۔ اس وقت یہ فعل ایک خاص معنی (ایک گروہ کا مذہب) دیتا ہے۔ اگرچہ اس کے لفظی معنی تو مطلقًا ’’شرک کرنا‘‘ ہیں یعنی جو بھی جس قسم کا شرک کرتا ہے اور جس چیز یا شخص کو جس معاملے میں بھی اللہ کا شریک یا حصہ دار سمجھ لیتا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ سے زیادہ تر فعل کے صیغے اسی باب اِفعال سے ستر (۷۰) سے زائد جگہ آئے ہیں۔ ایک جگہ بابِ مفاعلہ کا ایک فعل آیا ہے‘ البتہ مشتق و ماخوذ اسماء میں فعل مجرد اور بابِ افتعال سے بھی بہت سے کلمات (مثلاً  شریک، شرکاء، مشرک، مشترکون وغیرہ) ۹۵ مقامات پر آئے ہیں۔ ان پر مفصل بات حسب موقع ہو گی‘ اِن شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ عبارت ’’ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا ‘‘ کا ترجمہ تو بنتا ہے ’’اور ان لوگوں میں سے جنہوں نے (خدا کے ساتھ) شرک کیا‘‘۔ تاہم اس سے مراد آنحضرت کے زمانے کے ’’مشرکین عرب‘‘ ہیں (اس سے پہلے اس زمانے کے یہودیوں کا ذکر ہوا ہے) اسی لیے بیشتر مترجمین نے یہاں ترجمہ ’’مشرکوں میں سے‘‘ ہی کیا ہے۔ اس عبارت کے ابتدائی ’’مِن‘‘ کی وجہ سے اس کا ترجمہ دو طرح کیا جا سکتا ہے۔ اس پر مزید بات آگے حصہ ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔

۱:۵۹:۲(۳)    [یَوَدُّ اَحَدَھُمْ]

’’یَوَدُّ‘‘  کا مادہ ’’ودد‘‘ اور وزن اصلی  ’’یَفْعَلُ‘‘  ہے جس کی اصلی شکل ’’یَوْدَدُ‘‘  تھی‘ پھر دال متحرکہ ما قبل ساکن حرف علت (و) کی وجہ سے دال کی حرکت فتحہ (ــــــَــــ) اس ’’و‘‘ کو دے کر ساکن ’’دال‘‘ کا دوسری (آخری) دال میں ادغام کر دیا گیا یعنی  ’’یَوْدَدُ = یَوَدْدُ = یَوَدُّ‘‘۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’وَدَّ. . . . یوَدُّ ودّاً‘‘  (باب سمع اور فتح سے) آتا ہے (یعنی یہ دراصل ’’وَدِدَ  یَوْدَدُ. . . .‘‘  تھا،  پھر ماضی و مضارع دونوں میں مضاعف کے قاعدے کے مطابق ’’ودَد/ودِد‘‘  میں پہلی دال کو ساکن کر کے اور  ’’یَوْدَد‘‘ میں دال کی حرکت ’’و‘‘ کو دے کر ــــــ  دونوں دال مدغم کر دیئے جاتے ہیں)۔

اس فعل کے معنی: ’’. . . . کی آرزو کرنا،. . . . کی محبت رکھنا‘‘ یعنی کسی پسندیدہ چیز کے حاصل کرنے کی تمنا یا خواہش کرنا، چاہنا۔‘‘ اس فعل سے ماضی اور مضارع کے مختلف صیغے قرآن کریم میں کل ۱۶ جگہ آئے ہیں۔ اور مزید فیہ کے بابِ مفاعلہ سے بھی ایک صیغۂ فعل صرف ایک جگہ (المجادلہ: ۲۲) آیا ہے۔ ان کے علاوہ بعض ماخوذ و مشتق کلمات (مثلاً  وُدٌّ، وَدُود، مَودَّۃ  اور  وَدٌّ  وغیرہ) آئے ہیں، جن پر حسب موقع مزید بات ہو گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(۲) ’’اَحَدُھُمْ‘‘  لفظ  ’’اَحَدٌ‘‘  کی اصل ’’وَحَدٌ‘‘ ہے جس میں ’’وَ ‘‘ کو الف میں بدل دیا گیا ہے اور عربی میں ’’وَ‘‘ کو الف میں بدلنے کی اسماء اور افعال دونوں میں مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً  ’’وُقِّتَ‘‘ کو ’’اُقِّتَ‘‘  (وقت مقرر پر لایا جانا)  پڑھتے یا بولتے ہیں  یہ فعل (المرسلات: ۱۱ )میں بصورت  ’’اُقِّتَتْ‘‘ آیا ہے) اسی طرح  ’’وَحَدٌ‘‘  کو ’’اَحَدٌ‘‘  بولتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض کتب لغت (مثلاً البستان) میں تو مادہ ’’أ ح د‘‘ پر الگ بات ہی نہیں کی گئی بلکہ اس کے تمام استعمالات کو بھی مادہ ’’و ح د‘‘ کے تحت ہی بیان کیا گیا ہے۔ تاہم اکثر معاجم و قوامیس (مثل اللسان، القاموس، المفردات اور الوسیط وغیرہ) میں ’’ا ح د‘‘ کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے، اگرچہ مادہ ’’ا ح د‘‘ سے نسبتاً کم الفاظ (افعال و اسماء) استعمال ہوتے ہیں۔ اور ان میں سے بھی زیادہ تر کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’الف‘‘ دراصل ’’و‘‘ سے ہی بدلا ہے۔ جب کہ ’’و ح د‘‘ وسیع مادہ ہے‘ اس سے زیادہ افعال و اسماء استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’ا ح د‘‘ سے کوئی فعل مجرد نہیں آتا جب کہ ’’و ح د‘‘ سے مختلف ابواب سے فعل مجرد ہی متعدد معنی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اور مزید فیہ بھی زیادہ ’’و ح د‘‘ سے ہی آتے ہیں۔ بہرحال قرآن کریم میں ان دونوں مادوں سے کسی قسم کا کوئی صیغۂ فعل (نہ مجرد نہ مزید فیہ) کہیں استعمال نہیں ہوا۔ قرآن کریم میں ’’ا ح د‘‘ مادہ سے صرف دو لفظ ’’اَحَد‘‘  اور  ’’اِحْدی‘‘  مختلف صورتوں (مفرد ومرکب) اور مختلف (اعرابی) حالتوں میں ۸۵ جگہ آئے ہیں۔ جب کہ ’’و ح د‘‘ مادہ سے چار لفظ  (وَحدَہٗ، واحد، واحدۃ  اور  وحید)  مختلف اعرابی حالتوں کے ساتھ ۶۸ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔

·       یہاں ہمارا زیر مطالعہ لفظ تو ’’اَحَدٌ‘‘  ہی ہے جو یہاں مضاف ہو کر آیا ہے۔ اس کا مادہ  ’’ا ح د‘‘ سمجھ لیں (اکثر کتب لغت میں یہ اسی مادہ کے تحت ہی بیان کیا گیا ہے) یا  ’’و ح د‘‘ (کہ اس کی اصلی شکل سب نے  ’’وَحَدٌ‘‘  ہی لکھی ہے) بہرحال اس کا وزن تو  ’’فَعَلٌ‘‘  ہی ہے۔ اس  (اَحدٌ)  کا اردو ترجمہ ’’ ایک ‘‘ سے کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے استعمال کو سمجھانے کے لیے ساتھ ایک دوسرے ہم معنی لفظ ’’واحِدٌ‘‘  کو بھی شامل کرنا پڑتا ہے۔ ’’واحِدٌ‘‘   کا اردو ترجمہ بھی ’’ایک‘‘ ہی کیا جا سکتا ہے، مگر ان دونوں (جس پر مفصل بات البقرہ: ۶۱ [۲: ۳۹: ۱ (۲)] میں گزر چکی ہے) کے استعمال میں فرق ہے اور اس کو سمجھنے سے ہی ’’اَحَد‘‘ کے معنی واضح ہوتے ہیں۔ اس بارے میں چند اہم امور حسب ذیل ہیں:-

·       ’’اَحَد‘‘کی جمع  ’’اَحاد‘‘ (اکائیاں) استعمال ہوتی ہے (جس کا اطلاق اسے ۹ تک کے ہندسوں پر ہوتا ہے)  ’’واحد‘‘  (جو ’’وحد‘‘  سے اسم الفاعل ہے اور جس کا مطلب ہی ’’ایک‘‘ ہے) کی جمع استعمال نہیں ہوتی  ’’ احد‘‘ کی مؤنث ’’اِحْدٰی‘‘  ہے جب کہ  ’’واحد‘‘  کی مؤنث عام قاعدے کے مطابق ’’واحدۃ‘‘ ہے۔ لفظ ’’احد‘‘ بطور صفت استعمال نہیں ہوتا بلکہ بطور صفت صرف ’’واحد‘‘ (یا ’’واحدۃ‘‘) استعمال ہوتا ہے  ’’رجلٌ اَحَدٌ‘‘  یا  ’’امرأۃ احدی‘‘  نہیں کہتے بلکہ ’’رجل واحدٌ‘‘  (ایک ہی مرد) یا  ’’امرأۃ واحدۃ‘‘  (ایک ہی عورت) کہیں گے۔

·       دو استعمالات میں ’’اَحَد‘‘ اور ’’واحِد‘‘ یکساں ہیں۔ پہلا یہ کہ صفات باری تعالیٰ (یعنی اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام) کے طور پر دونوں استعمال ہوتے ہیں اگرچہ بلحاظ معنی اتنا فرق ہے کہ  ’’الاحدُ‘‘ (یکتا) وہ ہے (یعنی اس لحاظ سے ہے) کہ اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں (یعنی خدا  بلحاظ ’’تعداد‘‘ بھی ایک ہی ہے۔ دو یا زیادہ نہیں ہیں) اور ’’الواحد‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی صفات میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں اپنی صفات میں بھی وہ ’’ اکیلا‘‘ ہی ہے۔ دوسرا یکساں استعمال ان دونوں کا بطور عدد ہے۔ اگرچہ ابتدائی عدد (۱) کے لیے عربی میں زیادہ تر ’’واحد‘‘ یا ’’واحدۃ‘‘ استعمال ہوتا ہے، مثلاً کہیں گے ’’واحد، اثنان . . . . الخ  یا (مؤنث)  واحدۃ، اثنتانِ . . . . الخ۔ تاہم ’’گیارہ‘‘ کے لیے ’’اَحَدَ عشَرَ‘‘  برائے مذکر یا ’’اِحْدٰی عَشْرَۃٌ‘‘  برائے مؤنث استعمال ہوتا ہے اور آگے دہائیوں کے ساتھ  ’’اَحَدٌ و عشرون‘‘  یا  ’’واحدٌ و عشرون‘‘  اور مؤنث کی صورت میں ’’احدی و عشرون‘‘  یا ’’واحدۃٌ و عشرون‘‘  بولتے اور لکھتے ہیں (اسی طرح باقی دہائیوں مثلاً  ’’ثلاثون، اربعون ‘‘وغیرہ کے ساتھ ہو گا)

·       مندرجہ بالا دو استعمالات (صفت باری تعالیٰ ہونا یا مطلقًا عدد ہونا) کے علاوہ باقی تمام چیزوں میں  ’’احد‘‘  اور ’’واحد‘‘ کا استعمال مختلف ہے، خصوصًا یہ کہ ’’احد‘‘ ہمیشہ استغراق اور جنس کی نفی میں استعمال ہوتا ہے  (یعنی تھوڑے یا بہت سب کے نہ ہونے کے لیے) جب کہ ’’واحد‘‘ اثبات کے لیے آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’ما فی الدار اَحَدٌ‘‘  (گھر میں کوئی ایک مرد یا عورت بھی نہیں ہے) اگر کہیں ’’ما فی الدار واحدٌ‘‘  تو یہ پوری طرح نفی کے معنی نہیں دے گا بلکہ مطلب ہو گا ’’گھر میں صرف ایک (مرد) نہیں (بلکہ زیادہ ہیں)‘‘ البتہ اثبات میں کہیں گے  ’’فی الدار واحد‘‘  (گھر میں ایک (مرد) موجود ہے) اس (اثبات) کے لیے ’’فی الدار اَحَدٌ‘‘  کہنا غلط ہو گا، البتہ مضاف ہو کر استعمال ہو سکتا ہے، مثلاً ’’فی الدار احدھم‘‘  یعنی ’’ان میں سے ایک گھر میں موجود ہے۔‘‘

·       اسی چیز کو اردو میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ  ’’اَحَدٌ‘‘   کا ترجمہ ’’کوئی ایک بھی‘‘ ہو گا جب کہ  ’’واحدٌ‘‘  کا ترجمہ صرف ’’ایک یا ایک ہی‘‘ ہو سکتا ہے۔ (اردو میں اس ’’ہی‘‘ اور ’’بھی‘‘ میں وہی اثبات اور نفی کا فرق ہے۔

·       ’’اَحَد‘‘ مذکر مؤنث واحد جمع سب کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ ’’واحد‘‘  اس طرح استعمال نہیں ہوتا۔ مثلاً قرآن کریم میں ہے ’’ يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ ‘‘  (الاحزاب: ۳۲) جس میں آنحضرت کی ازواجِ مطہرات (سب) کو کہا گیا ہے کہ ’’تم عورتوں میں کسی ایک بھی جیسی نہیں ہو‘‘ یعنی  ’’کَوَاحِدَۃٍ مِنَ النِّسَاء‘‘  یا (تم عام عورتوں جیسی نہیں ہو)۔ بلحاظ معنی یہاں ’’اَحَد‘‘ جمع مؤنث (النِّسَاء  یعنی عورتوں) کے ساتھ آیا ہے۔ دوسری جگہ ہے  ’’ مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ ‘‘  (الاحزاب: ۴۰) یعنی ’’محمد تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے بھی باپ نہیں ہیں‘‘ یہاں یہ  ’’اَبَا وَاحِدٍ مِن رِجَالِکُمْ‘‘ کے معنی میں ہے۔ یہاں ’’احد‘‘ جمع مذکر کے ساتھ آیا ہے۔ گویا  ’’احد‘‘ ان دو آیتوں میں ’’واحد‘‘ اور ’’واحدۃ‘‘ دونوں کی جگہ آیا ہے۔

·       لفظ ’’احدٌ‘‘ اکیلا  (مفرد) بھی استعمال ہوتا ہے مگر اس کا مؤنث ’’اِحدٰی‘‘   اکیلا استعمال نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ کسی عدد کے ساتھ یا کسی ضمیر کی طرف مضاف ہو کر ہی استعمال ہوتا ہے۔

·       ’’احدٌ‘‘  کبھی شئ (چیز) کے معنی بھی دیتا ہے، خصوصًا جب اس کے شروع میں ’’مِن‘‘  لگا ہو، مثلاً  ’’مَا فی الدار مِن احدٍ‘‘  کا مطلب ہو گا ’’گھر میں عاقل یا غیر عاقل کوئی شے نہیں ہے‘‘۔

·       اس طرح یہاں (زیر مطالعہ عبارت میں)  ’’اَحدُھم‘‘  کے معنی ہیں ’’ان میں سے کوئی ایک‘‘ مگر یہاں یہ کسی منفی جملے کے بعد نہیں آیا کہ اس کا ترجمہ ’’کوئی ایک بھی‘‘ کیا جائے، بلکہ ایک مثبت جملے ’’یَوَدُّ‘‘  کے ساتھ آیا ہے اور ’’احد‘‘ بھی مضاف ہو کر آیا ہے۔ مفرد وہ صرف نفی کے ساتھ آتا ہے لہٰذا یہاں اس کا مفہوم ہے ’’ان میں سے جس ایک کو بھی دیکھیں وہ یہی چاہتا ہے ‘‘۔ اس طرح یہاں  ’’احدُھُمْ‘‘  کا ترجمہ بنے گا ’’ان میں سے ہر ایک‘‘۔ اور یوں اس پوری عبارت  (یود احدھم) کا ترجمہ بنے گا  ’’چاہتا ہے ان کا کوئی ایک بھی‘‘۔ اسی کو با محاورہ بنانے کے لیے ترجمہ کو ’’ایک ایک چاہتا ہے ان میں سے،  ان کا ہر ایک آرزو کرتا ہے‘‘، ’’ان میں سے ہر ایک کی یہی خواہش ہے‘‘، ’’ان میں کا ایک ایک اس ہوس میں ہے‘‘ کی شکل دی گئی ہے۔ ایک مترجم نے ’’(مشرکوں) میں سے ایک کو تمنا ہے‘‘ کیا ہے۔ ممکن ہے کاتب نے غلطی سے ’’ایک ایک ‘‘کی بجائے ’’ایک‘‘ ہی لکھ دیا ہو، البتہ اس پر مزید بات ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔

۱:۵۹:۲ (۴)     [لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَۃٍ]

اس عبارت میں تین الفاظ نئے ہیں۔ تفصیل یوں ہے:

’’لَوْ‘‘  یہاں ’’ کاش کہ‘‘ کے معنی میں ہے جو تمنا کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے اور فعل ’’وَ یَوَدُّ‘‘  کے لیے بطور مفعول آنے والے جملے کے شروع میں آتا ہے۔ ’’لَوْ‘‘  کے مختلف استعمالات اور اُن کے مطابق اس کے اردو تراجم پر البقرہ:۲۰ [۱:۱۵:۲ (۷)] میں بات ہوئی تھی اور آگے ’’الاعراب‘‘ میں بھی ہو گی۔

(۲) ’’یُعَمَّرُ‘‘  کا مادہ ’’ع م ر‘‘ اور وزن  ’’یُفَعَّلُ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’عمَر . . . . یَعْمُر عِمارۃ‘‘  (نصر سے) کے معنی ہیں ’’. . . . کو آباد کرنا۔ مثلاً کہتے ہیں ’’عمَر ارضَہ‘‘  (اس نے اپنی زمین آباد کی) یا   ’’عمَر القومُ المکانَ‘‘ (لوگوں نے اس جگہ سکونت اختیار کی) اور اسی فعل کے معنی  (عَمْراً  مصدر کے ساتھ) ’’. . . . کو عمر دینا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ’’عمر اللّٰہُ فلانًا‘‘  (اللہ نے فلاں کی زندگی دراز کی)۔ لفظ  ’’عُمْر‘‘ میں بھی ایک طرح سے ’’بدن کی عمارت (آبادی) کی مدت‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔ عربی میں یہ لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے  ’’عُمُر‘‘  اور ’’عَمْر‘‘  دونوں کا مطلب ’’عمر ‘‘یا ’’زندگی کی مدت‘‘ ہی ہے، تاہم عربی میں قسم کے موقع پر ’’عَمْر‘‘  استعمال ہوتا ہے، جیسے ’’لَعَمْرُکَ‘‘  (تیری زندگی کی قسم)۔ یہ لفظ (الحجر: ۷۲ )میں استعمال ہوا ہے۔ عام استعمال (قسم کے علاوہ)  ’’عُمُر‘‘  (میم کے ضمہ کے ساتھ) ہے۔ جو قرآن کریم میں بھی سات جگہ آیا ہے۔

·       فعل ’’عمَر یعمُر‘‘  بعض دفعہ بطور فعل لازم بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’عمرَ الرجلُ عَمْراً ‘‘ کا مطلب ہے ’’اس آدمی نے (لمبی) عمر پائی‘‘۔ اور ’’عمَر المنزِلُ باَھلہ‘‘  کے معنی ہیں ’’منزل اپنے رہنے والوں سے آباد ہو گئی‘‘۔ اور ’’عمَر المالُ‘‘یا  ’’عمُر المال‘‘(کرم سے) کے معنی ہیں ’’مال زیادہ ہو گیا‘‘۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے ماضی مضارع کے صیغہ ٔہائے فعل کل چار جگہ آئے ہیں اور مزید فیہ کے ابواب  تفعیل، افتعال اور استفعال سے مختلف صیغہ ہائے فعل سات جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مادہ سے ماخوذ اور مشتق کلمات (مثلاً  عمر، معمور، معمّر، العمرۃ، عمارۃ، عمران وغیرہ) بھی ۱۶ جگہ وارد ہوئے ہیں ان پر اپنے اپنے موقع پر مزید بات ہو گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’یُعَمَّرُ‘‘  اس مادہ سے باب تفعیل کے فعل مضارع مجہول کا صیغہ (واحد مذکر غائب) ہے۔ باب تفعیل سے اس کے فعل ’’عَمَّر . . . . یُعَمِّرُ تعمِیْرًا‘‘  کے معنی ’’. . . . کو لمبی عمر دینا‘‘ بھی ہوتے ہیں اور ’’. . . . کو آباد کرنا‘‘ بھی۔ مثلاً کہتے ہیں ’’عَمَّر اللّٰہُ فلانٍا‘‘  (اللہ نے اسے لمبی عمر دی) اور  ’’عمَّر المنزلَ اھلُھا  ‘‘یا  ’’عمَّرَ الارضَ  ‘‘ کا مطلب ہے ’’گھر والوں نے منزل (گھر) کو آباد کیا‘‘ یا  ’’اس نے زمین کو آباد کیا‘‘ یعنی ’’اس پر مکان بنا کر سکونت اختیار کی‘‘۔ زیر مطالعہ لفظ کے بعد چونکہ ایک مدت کا ذکر ہے لہٰذا یہاں اس (یُعَمَّرُ) کا مطلب ہے۔ ’’اس کو (لمبی) عمر دی جائے‘‘ ویسے تو ’’یُعَمَّر‘‘  کے معنی ہیں ’’لمبی عمر دیا جاتا ہے یا دیا جائے گا‘‘۔ مگر ابتداء میں ’’تمنا‘‘ کا حرف  ’’ لَوْ ‘‘  آ جانے کی وجہ سے ترجمہ ’’عمر دی جائے‘‘ کے ساتھ ہو گا۔

(۳) ’’اَلْفَ‘‘  کا مادہ ’’ا ل ف‘‘ اور وزن  ’’فَعْلٌ‘‘ ہے (جو عبارت میں منصوب اور خفیف آیا ہے، وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد ’’ألَف. . . . یألِفُ اَلْفًا‘‘ (ضرب سے) کے معنی ہیں: ’’. . . . کو ایک ہزار دینا‘‘ اور  ’’الِفَ . . . . یألَفُ اَلْفًا و اِلافًا‘‘  (سمع سے) کے معنی ہوتے ہیں: ’’. . . . سے محبت کرنا ،. . . . کے ساتھ اُنس اور الفت رکھنا، مانوس ہونا‘‘۔ اس سے اسم الفاعل ’’اَلِفٌ ‘‘ (محبت کرنے والا) اور صفتِ مشبّہ ’’اَلِیْف‘‘  (بمعنی بہت مانوس، دوست) استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ فعل مجرد کسی طرح اور کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ مزید فیہ کے بابِ تفعیل سے فعل کے کچھ صیغے پانچ جگہ آئے ہیں اور بعض مشتق و ماخوذ کلمات (المؤلّفہ، ایلاف، الف، اٰلاف، الوف ‘‘وغیرہ) سترہ جگہ آئے ہیں۔ ان پر حسب موقع بات ہو گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’اَلْفٌ‘‘  اسی مادہ سے ماخوذ ایک لفظ ہے۔ اور عربی میں اس سے مراد ’’ایک ہزار‘‘ ہوتا ہے‘ یعنی یہ ایک اسم عدد ہے جس کے استعمال کے کچھ قواعد ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ اپنے معدود (تمیز) کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے (اس لیے خفیف استعمال ہوتا ہے) اور اس کا مورود (جسے تمیز کہتے ہیں) ہمیشہ واحد نکرہ اور مجرور آتا ہے۔ اگر گنتی میں اَلْف کی جمع آئے (مثلاً تین ہزار، دس ہزار وغیرہ) تو لفظ ’’آلاف‘‘ استعمال ہوتا ہے اور اگر بغیر مقرر گنتی کے ’’ہزاروں‘‘ کہنا ہو تو پھر اس کی جمع  ’’اُلُوف‘‘ استعمال ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ’’الف‘‘  دس جگہ آیا ہے اور اس کا تثنیہ (اَلفین  کی صورت میں) صرف ایک جگہ جمع ’’آَلاف‘‘  دو جگہ اور دوسری جمع  (الوف) بھی صرف ایک ہی جگہ آئی ہے۔

(۴)  ’’سَنَۃٍ‘‘  کا مادہ ’’س ن ھ‘‘ بھی ہو سکتا ہے اور ’’س ن و‘‘ بھی۔ اکثر کتب لغت میں اسے ان دونوں مادوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ اور صاحب القاموس نے ’’س ن و‘‘ کو ترجیح دی ہے (اگرچہ بیان دونوں جگہ کیا ہے) اس کا اصلی وزن ’’فَعْلَۃٌ‘‘ ہے۔ اصلی شکل یا تو ’’سَنَھَۃٌ‘‘  تھی یا  ’’سَنَوَۃٌ‘‘ ۔  پھر خلاف قیاس لام کلمہ والی  ’’لا‘‘ یا ’’و‘‘ کو حذف کر دیا گیا جس طرح ’’شَفَھَۃٌ/ شَفَوَہٌ ‘‘سے  ’’شَفَۃٌ  ‘‘(ہونٹ) بنا ہے۔

·       ’’س ن ھ‘‘  مادہ سے فعل مجرد  ’’سَنِہَ یَسْنَہُ سَنَھًا‘‘  (سمع سے) کے معنی ہیں ’’بدبودار ہونا، ذائقہ اور بو بدل جانا‘‘ زیادہ تر اس کا استعمال کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’سَنِہَ الطعامُ اوِ الشرابُ‘‘  (کھانا یا مشروب بد بودار ہو گیا) اور اس کا مطلب ’’کسی چیز پر کئی برس گزر جانا‘‘ بھی ہوتا ہے اور ان ہی معانی کے لیے یہ مزید فیہ کے باب مفاعلہ اور تفعل سے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں بھی اس کے باب تفعل سے ایک صیغہ ٔفعل ایک جگہ آیا ہے۔

·       اور ’’س ن و‘‘ مادہ سے فعل مجرد  ’’سنا یسنُوْ (سنوَ یَسْنُوُ) سَنْوًا‘‘  (نصر سے) کے معنی ہیں:’’چمکنا، روشن اور بلند ہونا‘‘۔ زیادہ تر اس کے ساتھ ’’البرق‘‘  (بجلی) یا   ’’النار‘‘  (آگ) فاعل ہو کر استعمال ہوتے ہیں یعنی ’’سَنا البرقُ اَو النارُ‘‘  (بجلی یا آگ کی روشنی نمودار ہوئی) تاہم یہ بعض دوسرے معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’سَنا البابَ‘‘  (اس نے دروازہ کھول دیا) یا  ’’سَنا الدَلْوَ‘‘  (اس نے ڈول کھینچ کر (کنوئیں سے) باہر نکالا) گویا یہ لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ بلکہ ان معنوں کے لیے یہ ’’یائی اللام‘‘  (س ن ی) مادہ سے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً  ’’سَنَی (یَسْنِی سَنْیًا) البابَ‘‘  (ضرب سے) کے معنی بھی ’’دروازہ کھولا‘‘ ہی ہوتے ہیں اور ’’سنِیَ یَسْنَی سَنَائً‘‘  (سمع سے) کے معنی ’’بلند (مرتبت) ہونا‘‘ بھی ہوتے ہیں اور اس (یائی) مادہ سے بھی باب تفعل میں فعل ’’تَسَنَّی‘‘ کے معنی بھی ’’بدل جانا‘‘ (ذائقہ یا بُو) ہوتے ہیں۔ گویا اس لحاظ سے فعل ’’تَسَنَّہَ‘‘  اور ’’تَسَنَّی‘‘ کا مطلب ایک ہی ہے۔

·       قرآن کریم میں ان مادوں (سنو،سنہ  یا  سنی) سے کسی قسم کا فعل مجرد کہیں استعمال نہیں ہوا۔ اور مزید فیہ سے بھی صرف بابِ تفعل کا ایک ہی صیغہ صرف ایک جگہ (البقرہ: ۲۵۹) میں آیا ہے جو (جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے)  ’’سنہ‘‘  سے بھی ہو سکتا ہے اور  ’’سنی‘‘ سے بھی۔ (اس پر مزید بات حسب موقع ہو گی ان شاء اللہ تعالیٰ)۔ ان مادوں سے ماخوذ الفاظ (سنا۔ سَنَۃ  اور سنین) قرآن کریم میں بیس جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’سَنَۃ‘‘  بھی  ’’سنو‘‘ یا  ’’سنہ‘‘ سے بنا ہے۔ اس کا مطلب ہے ’’ایک سال‘‘ اور بعض دفعہ اس سے مراد ’’قحط والا سال‘‘ لیا جاتا ہے۔ لفظ ’’سنۃ‘‘  کی جمع  ’’سَنَھات، سنوات اور  سِنون‘‘  آتی ہے۔ ان میں سے قرآن کریم میں صرف آخری جمع سالم مذکر مجرور یا منصوب صورت میں (سِنِیْن) بکثرت استعمال ہوئی ہے جو مطلق برسوں کے علاوہ ’’قحط والے برسوں‘‘ کے لیے بھی آیا ہے۔ باقی دو جمعیں قرآن میں نہیں آئیں۔

·       اس طرح (مفردات کی اس وضاحت کی بناء پر) اس پوری عبارت  (لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَۃٍ)  کا ترجمہ ہوا  ’’کاش کہ اس کو (لمبی) عمر دی جائے ایک ہزار سال‘‘۔ اسی کو بامحاورہ کرنے کے لیے ’’کہ عمر پاوے ایک ہزار برس/ کہ اس کی عمر ہزار برس کی ہو جاوے/ اے کاش اس کی عمر ہزار برس ہو/ کہ کہیں ہزار برس جیے/ کاش جیتا رہے ہزار برس/ کاش وہ ہزار برس جیتا رہے/ کہ ہزار (ہزار) برس کی عمر پائے‘‘ کی صورت دی گئی ہے۔ اس میں محاورے ہی کی وجہ سے بہت سے حضرات نے  ’’لَوْ‘‘  (کاش کہ) کا ترجمہ نظر انداز کر دیا ہے، کیونکہ اردو کا فعل اس مفہوم کو اپنے اندر رکھتا ہے۔ اسی طرح ’’یُعَمَّر‘‘ کے فعل مجہول ہونے کو بھی تراجم میں ظاہر نہیں کیا گیا کیونکہ ’’عمر پانا‘‘ میں ’’عمر دیئے جانا‘‘ کا مفہوم آ جاتا ہے۔ اور ’’جینا‘‘ یا ’’جیتے رہنا‘‘ یا ’’عمر کا ہو جانا‘‘ بھی بلحاظ مفہوم درست ہیں، اگرچہ اصل لفظ (نص) سے ذرا ہٹ کر ہیں۔

۱:۵۹:۲ (۵)     [وَمَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ]

عبارت میں نیا وضاحت طلب لفظ ’’بِمُزَحْزِحِہٖ‘‘ہے، بلکہ اس کی ابتدائی  ’’با (ب)‘‘  کا تو کوئی ترجمہ نہیں ہو گا، کیونکہ یہ وہ  ’’با (ب)‘‘ ہے جو ’’مَا‘‘ الحجازیۃ  (نافیہ) کی خبر پر آتی ہے۔ دیکھیے  ــــــ [۲: ۲: ۱ (۵)] میں ـــــــ  اور آخری ضمیر مجرور  (ہ)  بھی یہاں بمعنی ’’اس کو‘‘ ہے۔ باقی کلمات بھی پہلے گزر چکے ہیں، ان کا صرف ترجمہ لکھ دینا کافی ہے۔ مثلاً ’’وَ‘‘ (’’اور‘‘ یا  ’’حالانکہ‘‘) [دیکھیے [۱:۴: ۱(۳)]۔ ’’ مَا ‘‘ (نہیں ہے) الحجازیہ کا حوالہ ابھی اوپر بیان ہوا ہے۔ ’’ھُوَ‘‘  (وہ) معروف ضمیر ہے۔ ’’مِن‘‘ (سے) کی وضاحت چاہیں تو [۱:۲:۲ (۵)] میں دیکھ لیجیے۔ ’’العذاب‘‘ (سخت سزا۔ عذاب) کی لغوی تشریح البقرہ: ۷ [۱:۶:۲ (۶)] میں گزر چکی ہے اور ’’اَن‘‘ (یہ کہ) یا صرف ’’کہ‘‘ پر [۱:۱۹:۲ (۲)] میں بات ہوئی تھی اور آخری لفظ ’’یُعَمَّرَ‘‘ پر تو ابھی اسی قطعہ میں اوپر [۱:۵۹:۲ (۴)] میں بات ہوئی ہے۔

·       اس طرح نیا لفظ یہاں ’’مُزَحْزِحٌ‘‘ ہے (جو عبارت میں مجرور اور خفیف آیا ہے، اس کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی)۔ یہ رباعی (چار حرفی مادہ ’’ز ح ز ح‘‘ سے ہے۔ بلکہ دراصل تو اس کا تعلق ثلاثی مادہ ’’ز ح ح‘‘ سے ہے کیونکہ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’زَحَّ. . . .یَزُحُّ زَحًّا‘‘  (نصر سے) کے معنی ’’. . . . کو اپنی جگہ سے ہٹا دینا‘‘ ہوتے ہیں اور رباعی فعل ’’زَحْزَح. . . . یُزَحْزِحُ زَحْزَحَۃً‘‘ کے معنی بھی ’’. . . .کو دور کر دینا، . . . .کو پرے سرکا دینا‘‘ ہوتا ہے۔ اور  جس چیز سے دور کر دیا جائے اس پر ’’عن‘‘  کا صلہ بھی لگتا ہے اور ’’مِن‘‘ بھی، اور قرآن کریم میں اس کے ساتھ دونوں صلوں کا استعمال آیا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل سے ماضی مجہول کا ایک صیغہ صرف ایک جگہ (آل عمران: ۱۸۵) آیا ہے۔

·       زیر مطالعہ ’’مُزَحْزِحٌ‘‘اس فعل سے صیغۂ اسم الفاعل ہے اور اس کا مطلب (ترجمہ) ہے ’’دورکر دینے والا /سر کا دینے والا‘‘ جس کا بامحاورہ ترجمہ بعض نے ’’بچانے والا ،نجات دینے والا‘‘ سے کیا ہے اور بعض نے اس کاترجمہ صیغۂ فعل ’’مُزَحْزِحٌ‘‘ (چھڑا سکنا۔ بچا سکنا، دور کرنا وغیرہ ) سے ہی کر لیا ہے جیسا کہ ابھی بیان ہو گا۔

·       اس طرح اس زیر مطالعہ عبارت ’’ وَمَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ ‘‘:کا لفظی ترجمہ بنا  ’’حالانکہ نہیں ہے وہ دور کرنے والا اس (آدمی) کو عذاب سے کہ اس کو لمبی عمر دی جائے۔‘‘ اس پر مزید بات تو ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی، سردست اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ یہاں ’’ھو‘‘ (وہ)اور ’’ اَنْ یُعَمَّرَ‘‘:(کہ وہ زیادہ عمر پائے) ایک دوسرے کے لیے ہی آئے ہیں اور عبارت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ’’وہ چیز یعنی زیادہ عمرپانا اس (آدمی)کو عذاب سے دور کر دینے والا نہیں ہے/ہو گا‘‘ـــــــ  اس مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیے مترجمین نے مندرجہ بالالفظی ترجمہ کو بامحاورہ کرنے کے لیے کس کس طرح ترجمہ کیا ہے اس کا اندازہ تراجم کے درج ذیل تقابلی مطالعہ سے ہو گا جس سے آپ یہ بھی دیکھ سکیں گے کہ کون بامحاورہ اور لفظی ترجمہ دونوں کا توازن بر قرار رکھ سکا ہے اور کون محاورہ یا مفہوم کی وضاحت کے لیے اصل الفاظ سے کتنا دور گیا ہے، کیونکہ بلحاظ مفہوم تو یہ سب تراجم درست ہی ہیں مثلاً:

·       ’’نہیں اس کو بچانے والا عذاب سے اس قدر جینا/ نہیں اس کو نجات دینے والا عذاب سے اس قدر جینا  / اتنی عمر پانا /  اتنی عمر دیاجانا‘‘۔ اس میں ’’مزحزح‘‘ کا لفظی ترجمہ ’’دور ہٹانے والا‘‘کی بجائے ’’بچانے والا‘‘ یا ’’نجات دینے والا‘‘ کیا گیا ہے ان معنی کے لیے الگ عربی لفظ (مثلا  ’’وَقی یقِی  یا  انجی یُنجِی‘‘سے اسم الفاعل آتے ہیں مگر یہاں محاورے کی بناء پر یہ ترجمہ اختیار کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس میں فعل مجہول کے صیغۂ مضارع کی بجائے مصدری صورت میں ترجمہ ’’عمر دیا جانا‘‘ (یا جینا  یا عمر پانا) سے کیا گیا ہے۔ اس’’عمر دیا جانا‘‘ میں مجہول فعل کا مفہوم موجود ہے اور مصدر کے ساتھ ترجمہ کرنے کی وجہ یہاں ’’اَن‘‘ کا استعمال ہے[’’اَنْ‘‘ کے مصدری استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ:۲۶[۱:۱۹:۲ (۲)]

·       بہت سے مترجمین نے ’’مُزَحْزِحٌ‘‘(اسم الفاعل) کا ترجمہ فعل مضارع ’’ یُزَحْزِحُ‘‘کی طرح کر دیا ہے، مثلاً ’’اور کچھ اس کو سرکانہ دے گا عذاب سےاِتَّا جینا  / اس قدر جینا‘‘۔ ’’وہ اسے عذاب سے دُور نہ کرے گا اتنی عمر دیا جانا‘‘ یا  ’’حالانکہ اتنی عمر پانا(بھی) اس کو عذاب سے نہیں چھڑا سکتا‘‘ـــــ  ان ترجموں (اتنی عمر، اس قدر جینا) میں ’’اتنی‘‘ اور ’’اس قدر ‘‘سے اشارہ ہزار برس جینے کی تمنا کی طرف ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ ورنہ اصل عربی عبارت میں اس ’’اتنی‘‘ اور ’’اس قدر‘‘ کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے۔ اِسی ہزار برس کی عمر کی تمنا کو سامنے رکھتے ہوئے بعض نے ’’اَنْ یُعَمّر‘‘ کا ترجمہ ’’اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے‘‘ اور ’’اتنی عمر وہ پا بھی جائے‘‘ (تو یہ اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی /تو نہیں بچا سکتی) کی صورت میں کیا ہے۔ یہ اسم الفاعل کا ترجمہ فعل کے صیغے کی طرح کرنا اردو محاورے کی مجبوری ہے۔ اسی طرح ’’مل بھی جائے‘‘ اور ’’پا بھی لے‘‘ میں’’بھی‘‘ کا استعمال بھی اردو محاورے کے لیے ہی ہے۔ بعض نے ابتدائی ’’ھو‘‘ کا ترجمہ ’’یہ امر‘‘ سے کیا ہے، یعنی ’’یہ امر عذاب سے تو نہیں بچا سکتا  کہ(کسی کی) بڑی عمر ہو جاوے‘‘۔یہاں بھی ’’عمر لمبی دیا جائے‘‘ کی بجائے’’ بڑی عمر ہو جاوے‘‘ سے ترجمہ اردو محاورے کے لحاظ سے ہی درست ہے اور بعض نے اس کا ترجمہ کیا ہے ’’حالانکہ اتنی مدت جیتا بھی ر ہے تو بھی یہ درازئ عمر اس کو عذاب سے نجات دینے والی نہیں‘‘جو مفہوم کے اعتبار سے تو عمدہ ہے مگر اصل الفاظ سے بہت دور ہو گیا ہے۔ اس کی بجائے اوپر یہی مفہوم رکھنے والے مختصر تراجم پر نظر ڈال لیجیے (مثلاً ’’اتنی عمر پانا بھی اس کو عذاب سے نہیں چھڑا سکتا‘‘) ان تراجم میں ’’بچا سکنا۔ چھڑا سکنا‘‘ وغیرہ میں یہ ’’سکنا‘‘ کا اضافہ بھی اردو محاورے کے مطابق نفی کے زور کو ظاہر کرنے کے لیے کرنا پڑا ہے۔

۱:۵۹:۲ (۶)     [وَاللّٰہُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ]

اس عبارت میں بلحاظ اصل تو کوئی لفظ بھی نیا نہیں، البتہ بلحاظ استعمال اور ساخت بعض کلمات کی وضاحت کی ضرورت ہو گی۔

(۱)  ’’وَاللّٰہُ‘‘ میں ’’وَ‘‘  استیناف کی ہے، یعنی یہاں سے ایک الگ مضمون شروع ہوتا ہے۔ اسی لیے اس سے سابقہ عبارت کے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے۔ اب اس ’’وَ‘‘ کا اردو ترجمہ تو اور ہی کیا جاتا ہے مگر مفہوم اس میں ’’اور یہ بات بھی قابل ذکر یا قابل غور ہے کہ ‘‘  کا ہوتا ہے۔

(۲) ’’بَصِیْرٌ‘‘ کے معنی ہیں ’’خوب دیکھنے والا، ہر قت دیکھنے والا‘‘۔ کیونکہ یہ صفت مشبہ ہے اس کا مادہ ’’ب ص ر‘‘ اور وزن ’’فَعِیْلٌ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد  (بصِر اور بصُر) کے معنی (دیکھنا ۔دیکھ لینا ) اور اس کے ساتھ ’’با‘‘  (ب) کے صلہ کے استعمال پر (یعنی ’’بصِرَہ اور بصُرہ بہ‘‘ کے معنی پر مفصل بات البقرہ:۷[۱:۶:۲(۴)] میں کلمہ ’’ابصار‘‘ کے ضمن میں گزری تھی۔ اور پھر البقرہ ۱۷  [۱:۱۳:۲(۱۱) ]میں بھی کچھ بات ہوئی تھی۔

(۳) ’’بِمَا‘‘(اس کو جو کہ)۔ اس کی ’’با (ب)‘‘ تو وہی ہے جو فعل ’’بصُربہ‘‘ میں مفعول سے پہلے بطور صلہ آتی ہے اور ’’مَا‘‘  موصولہ ہے۔ فعل کے ساتھ اگر کوئی صلہ استعمال ہوتا ہو تو وہ صلہ اس فعل سے بننے والی صفت مشبّہ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی یہاں ’’بصیر بما‘‘  ایک طرح سے ’’یبصُرْ بما‘‘  کے برابر ہے۔ البتہ فعل کی بجائے صفت مشبّہ کے استعمال میں دوام و استمرار اور قدرے مبالغہ کا مفہوم ہوتا ہے، مثلاً ’’یبصُر بِما‘‘ کا ترجمہ ہوتا ’’وہ دیکھ لیتا ہے اسے جو‘‘ مگر اب ’’بصیر بما‘‘ کا ترجمہ ہو گا:۔ ’’وہ خوب اچھی طرح اور ہر وقت دیکھنے والا (یعنی دیکھتا رہتا) ہے اس کو جوکہ ‘‘۔

(۴) ’’یَعْمَلُوْنَ‘‘  کے فعل ’’عمِل یَعْمَل عَمَلاً‘‘ (کام کرنا۔ عمل کرنا) کے مادہ (ع م ل) اور باب وغیرہ کے استعمال پر البقرہ:۲۵ [۱:۱۸:۲ (۲)] میں بات ہوئی تھی  ’’یَعْمَلُوْنَ‘‘ کا ترجمہ ہو گا ’’وہ عمل کرتے ہیں، وہ کام کرتے ہیں ‘‘۔

·       اس طرح زیر مطالعہ جملے (واللّٰہ بصیر بما یعملون) کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’اللہ تعالیٰ خوب ہر وقت دیکھنے والا ہے اس کو جو عمل وہ کرتے ہیں‘‘۔ یہاں بھی اردو محاورے کے لیے تقریباً تمام مترجمین نے ’’بصیر‘‘ کا ترجمہ صفت مشبّہ کی طرح کرنے کی بجائے صیغۂ فعل ’’یبصُر‘‘ کی طرح کر دیا ہے یعنی ’’اللہ دیکھتا ہے‘‘ کی صورت میں۔ البتہ بیشتر حضرات نے صفت مشبّہ کے استمرار اور دوام کے مفہوم کو ’’دیکھ رہا ہے‘‘ کی صورت میں ظاہر کیا ہے، بلکہ بعض نے اسی لیے ’’خوب دیکھ رہا ہے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے اور بعض نے ’’حق تعالیٰ کے پیش نظر ہیں‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ اس ’’پیش نظر‘‘ میں (ہر وقت نظر کے سامنے رہنا) کا مفہوم موجود ہے۔ اسی طرح ’’بما یعملون‘‘ (جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کو)  کا ترجمہ بھی بعض نے تو ’’جو کچھ/ جو وہ کرتے ہیں/ جو کام وہ کرتے ہیں‘‘ سے ہی کیا ہے۔ بعض نے اس میں بھی ’’کر رہے ہیں‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ یعنی ان کے ہر وقت کے عمل۔ بعض نے ’’بما یعملون‘‘ کی (’’ما‘‘ کے مصدریہ استعمال کے لیے دیکھیے البقرہ: ۷۵ [۲: ۴۷: ۱ (۵)]) ترجمہ ’’ان کے کام، ان کے کوتک (کرتوت)‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ کیونکہ بلحاظ مفہوم یہاں دراصل ان کے ’’بُرے اعمال‘‘ ہی مراد ہے، اگرچہ ’’مَا‘‘  میں تو تمام اعمال (اچھے بُرے سب ہی) آ جاتے ہیں۔

 

۲:۵۹:۲      الاعراب

حصّہ ’’اللغۃ ‘‘ کی طرح نحوی ترکیب کے لحاظ سے بھی اس قطعہ کو (جو ایک ہی آیت پر مشتمل ہے) چار جملوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس میں ایک حصّہ (مرکب جارّی) ایسا بھی ہے جو بلحاظ اعراب اپنے سے ما قبل جملے کا حصہ بھی بن سکتا ہے اور اپنے سے مابعد کا بھی۔ جس کی وجہ سے ترجمہ میں بھی فرق ہو گا۔ بہرحال اعراب کی تفصیل یوں ہے:

(۱) وَلَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰي حَيٰوةٍ ڔ

[وَ] عاطفہ ہے اور  [لتجدنھم] کا ابتدائی حصہ (لتجدنَّ)  فعل مضارع مؤکد بلام و نون ثقیلہ ہے۔ یہ لام مفتوحہ (لَ)  تاکید کے لیے آتا ہے (بمعنی ’’ضرور ہی‘‘) اور بعض نحوی اس سے پہلے ایک قَسم (مثلاً  واللّٰہِ = بخدا) محذوف سمجھتے ہیں جس کے جواب پر یہ (لام تاکید) لگتا ہے۔ (خیال رہے کہ فعل مضارع  ـــــــ بلکہ امر اور نھی بھی ــــــــ اس لام کے بغیر صرف آخر پر نون ثقیلہ (نَّ)  یا خفیفہ (نْ)  لگانے سے بھی مؤکد ہو سکتے ہیں)  ’’لتجدنَّ‘‘  کے بعد ضمیر منصوب ’’ھم‘‘ اس فعل (وجد یجد) کا مفعول اوّل ہے۔ اس کے بعد  [احرَصَ الناسِ] کا ابتدائی کلمہ ’’اَحْرَصَ‘‘  (جو صیغۂ افعل التفضیل ہے) اس فعل (لتجدنّ) کا دوسرا مفعول (لہٰذا منصوب) ہے اور ’’سب کے مقابلے میں‘‘ کے مفہوم کے لیے یہ ’’الناسِ‘‘  کی طرف مضاف ہے (اسی لیے ’’الناس‘‘  مجرور (بالاضافہ) ہے) یعنی ’’سب لوگوں سے زیادہ حریص ‘‘ [علی حیوۃ] کا  ’’علی‘‘  حرف الجر ہے جو فعل ’’حرَص یحرِص‘‘ کے مفعول پر بطور صلہ لگتا ہے۔ گویا  ’’احرص‘‘ یہاں ’’یحرصون علی. . . .‘‘ کے مفہوم میں ہے ’’حیوۃ‘‘  مجرور بالجر ہے اور یہ مرکب جارّی (علی حیوۃ) ’’احرص‘‘ سے متعلق ہیں۔ یعنی اس کے معنی میں شامل ’’فعل‘‘ (یحرصون)  سے متعلق ہیں۔ یہاں لفظ ’’حیوۃ‘‘ کو نکرہ (بجائے ’’الحیوۃ‘‘) لانے کی ایک دلچسپ توجیہ بلحاظ بلاغت یوں بیان کی گئی ہے کہ انسان ساری زندگی کا حریص نہیں ہوتا، جو گزر چکی وہ تو گزر چکی۔ دراصل وہ بقایا یعنی مستقبل کی زندگی کا حریص ہوتا ہے جو زندگی کا ’’کچھ حصہ‘‘ ہے۔  اس لیے یہاں لفظ ’’حیـاۃ‘‘  نکرہ لایا گیا ہے۔ یعنی ’’کچھ زندگی‘‘ پر حریص۔ ویسے نکرہ چونکہ تعظیم اور تحقیر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے یہاں ’’حیاۃ‘‘  بمعنی ’’معمولی زندگی، حقیر زندگی‘‘ بھی لیا جا سکتا ہے۔

(۲) وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُــوْا

[وَ]  عاطفہ اور [مِنْ]  حرف الجرّ ہے [الذین]  اسم موصول ہے جو یہاں بوجہ ’’مِنْ‘‘  مجرور ہے اگرچہ مبنی ہونے کے باعث کوئی اعرابی علامت اس میں ظاہر نہیں ہوتی۔ [اَشْرَکُوْا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے اور اپنی ضمیر فاعلین (ھم) سمیت جملہ فعلیہ ہو کر ’’الذین‘‘  کا صلہ ہے۔ اور یہ سارا مرکب جارّی (من الذین اشرکوا) بلحاظ ترکیب نحوی مندرجہ بالا جملہ (۱) پر عطف (بذریعہ واو العطف جو اس کے شروع میں ہے) قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں یہاں  ’’مِنْ‘‘  صیغۂ افعل التفضیل کے دو (آدمیوں یا چیزوں یا گروہوں وغیرہ) کے باہم مقابلہ کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس سے پہلے ’’احرص‘‘  محذوف ہے، یعنی اصلی عبارت ’’و احرصَ من الذین اشرکوا‘‘  بنتی ہے، یعنی ’’مشرکوں سے بھی بڑھ کر حریص (زندگی پر پائے گا)‘‘۔ چونکہ ’’الناس‘‘ (احرص الناس والا) یعنی ’’سب لوگوں‘‘ میں عموم ہے کہ اس میں تو کافر مسلم سب شامل ہیں، اس عموم کے بعد ’’مشرکین‘‘ کی تخصیص (یعنی مشرکوں سے بھی بڑھ کر) لانے کی وجہ سے ’’احرص‘‘ کی تکرار حذف کر دی گئی ہے۔ اور اس تخصیص میں یہ مفہوم موجود ہے کہ ’’مشرکین عرب‘‘ تو مرنے کے بعد کسی زندگی کے قائل ہی نہیں تھے اور نہ ہی وہ آخرت اور اس کے حساب کتاب کو مانتے تھے، ان کے نزدیک تو جو کچھ ہے وہ یہی ’’دنیا کی زندگی‘‘ ہے۔ اس لیے وہ اگر اسی زندگی پر ریجھے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ ان کا یہ غلط عقیدہ ہو سکتا ہے، مگر تعجب تو ان اہل کتاب پر ہے (جن کا ذکر ان آیات میں چل رہا ہے) جو اللہ اور آخرت پر ایمان بھی رکھتے ہیں اور پھر دنیوی زندگی اور اس کے مفادات وغیرہ پر مشرکوں (اور آخرت کے منکروں) سے بھی بڑھ کر فریفتہ اور شیدا بنے ہوئے ہیں (آیت میں یقیناً ہم دنیا پرست قسم کے مسلمانوں کے لیے بھی مقام غور و فکر ہے)۔

·       ترکیب نحوی کے اعتبار سے اس عبارت (وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُــوْا) کا تعلق مابعد والے جملے (۳ ؎  جو آگے آ رہا ہے) سے بھی بنتا ہے۔ اس صورت میں ابتدائی ’’وَ‘‘ عطف کی نہیں بلکہ استیناف کی ہے۔ اور یہاں سے ایک الگ جملہ شروع ہوتا ہے اس صورت میں ’’مِنْ‘‘ یہاں تبعیضیہ (بمعنی ’’میں سے‘‘) ہے اور اس عبارت کے بعد ایک نکرہ موصوفہ یا اسم موصول محذوف ہے۔ گویا عبارت ’’و من الذین اشرکوا قَوْمٌ . . . .‘‘ یا  ’’الذین . . . .‘‘  بنتی ہے (یعنی ’’مشرکوں میں سے کچھ لوگ یا وہ بھی ہیں جو‘‘)۔

·       اس دو طرفہ نحوی تعلق کی بناء پر ہی اس عبارت (وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُــوْا) سے پہلے اور بعد میں (دونوں طرف) علامت معانقہ مع وقف جائز (ج) ڈالی جاتی ہے کہ اسے سابقہ جملے ( ؎۱)کا حصہ سمجھ کر بھی ترجمہ کیا سکتا ہے اور مابعد جملے (۳؎ )کے ساتھ ملا کر بھی ترجمہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے۔ اردو کے بیشتر مترجمین نے پہلی ترکیب کے ساتھ (یعنی  وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُــوْا کو سابقہ جملہ (۱؎ )کا حصہ سمجھ کر) ہی ترجمہ کیا ہے، یعنی ’’مشرکوں سے بھی بڑھ کر/ زیادہ‘‘ کی صورت میں۔ صرف ایک دو مترجمین نے دوسری ترکیب کے ساتھ (یعنی مشرکوں میں سے ایک کو تمنا ہے) ترجمہ کیا ہے۔ اعراب القرآن کی کتابوں (مثلاً عکبری کی البیان اور ابن الانباری کی ’’البیان‘‘ وغیرہ) میں پہلی ترکیب کو ’’اوجہ الوجھین‘‘  (یعنی دونوں میں سے زیادہ معقول) قرار دیا گیا ہے اور بعض (مثلاً الدرویش کی اعراب القرآن) میں تو دوسری ترکیب کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔

(۳)  يَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَةٍ  

یہ اپنی جگہ ایک مکمل جملہ ہے جس کا تعلق جملہ  (۱؎ ) (مندرجہ بالا) سے بھی ہو سکتا ہے اور اس کی ابتداء کا ایک حصہ گزشتہ عبارت  (وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُــوْا) بھی سمجھی جا سکتی ہے یعنی [یَوَدُّ] تو فعل مضارع ہے اور اس کا فاعل  [احدُھم] ہے جو مرکب اضافی ہے (اصل فاعل تو  ’’اَحَدُ‘‘  ہی ہے جو مضاف خفیف اور مرفوع ہے)۔

·       پھر یہ عبارت (  يَوَدُّ اَحَدُھُمْ) ’’لتجدنھم‘‘  کی ضمیر مفعول (ھم) کا حال بھی ہو سکتی ہے یعنی ’’تو ان لوگوں کو سب لوگوں سے بڑھ کر زندگی کے حریص پائے گا بلکہ مشرکوں سے بھی بڑھ کر حریص، اس حالت میں کہ ان میں کا ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ . . . .‘‘ یعنی مقدر عبارت کچھ یوں بنے گی:’’  و لتجدنھم احرص الناس وادّاً (ای مُتَمَنِّینًا) احدُھم‘‘ (یعنی ہر ایک کو گرفتارِ آرزو پاؤگے۔ یا ان میں سے ہر ایک کو اس حالت میں پاؤگے کہ . . . .  یود. . . .)

·       اور اسی عبارت  (یود احدھم) کو  ’’من الذین اشرکوا‘‘ کے محذوف مبتدأ مؤخر (مثلاً  قَوْمٌ) کی صفت قرار دیں تو یہ جملہ مستانفہ ’’یود احدھم‘‘ سے نہیں بلکہ ’’ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُــوْا ‘‘ سے شروع سمجھا جا سکتا ہے، جیسا کہ اوپر (جملہ نمبر ۲ ؎ میں) بیان ہوا ہے۔

·       [لَوْ] حرف تمنّی ہے اور نحوی حضرات اسے  ’’انْ‘‘  (ناصبہ یعنی ’’کہ‘‘) کے معنوں میں لیتے ہیں اگرچہ یہ نصب نہیں دیتا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ فعل ’’ودَّ یَودُّ‘‘ کے بعد یا تو  ’’لَوْ‘‘  آتا ہے یا پھر اس کی بجائے ’’اَن‘‘  استعمال ہوتا ہے، اس لیے گویا  ’’لَوْ‘‘ بمعنی ’’أنْ‘‘  (کہ) استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں دونوں استعمالات کی مثالیں موجود ہیں، مثلاً  ’’ اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَهٗ جَنَّةٌ ‘‘  (البقرہ: ۲۶۶) اور  ’’یودُّ‘‘ کے بعد ’’لَوْ‘‘ کے استعمال کی مثال تو زیر مطالعہ آیت ہی ہے۔ اور اسی (أنْ) والے مفہوم کی بناء پر ’’لَوْ‘‘ کو مصدریہ بھی کہتے ہیں اور اس کا یہ استعمال فعل ’’ود یود‘‘ کے ساتھ مخصوص ہے۔ جیسے یہاں ’’لَوْ‘‘ کے بعد [یعمّرُ] ہے۔ فعل مضارع مجہول مع ضمیر نائب الفاعل (ھو) ہے۔ اسے مصدر مؤول کے معنی میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ عبارت ’’یود احدھم  تعمیر (یعنی  ان یعمّرُ . . . .) کے معنی میں ہے، یعنی ’’ان میں کا ایک ایک . . . . ’’عمر پانا‘‘ (عمر دیا جانا) چاہتا ہے‘‘۔ یعنی ’’لَوْ‘‘ سے شروع ہونے والی عبارت فعل  ’’ودّ یودّ‘‘  کا مفعول لہٰذا محلاً منصوب ہے ۔[الفَ سنۃٍ]  مرکب عددی ہے جس کا ابتدائی حصہ’’الفَ‘‘  یہاں ظرف (زماں) ہونے کے باعث منصوب ہے (اور آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے) اور اسے مفعول فیہ بھی کہتے ہیں۔ اور لفظ  ’’سنۃٍ‘‘ اس عدد (الفَ) کی تمیز (یا معدود) ہے، جو ہمیشہ واحد نکرہ مجرور ہوتی ہے ۔ ’’سنۃٍ‘‘ کی جَر کی یہی وجہ ہے۔ یہاں ’’ایک ہزار سال‘‘ کی عمر سے مراد مطلقاًبہت لمبی عمر ہو سکتی ہے, ہزار کی مخصوص گنتی ضروری نہیں۔

(۴) وَمَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ

[وَ] حالیہ (بمعنی ’’حالانکہ‘‘) ہے اور ’’ما‘‘ نافیہ حجازیہ ہے(جس کی خبر پر ’’بِ‘‘  آتی ہے یا خبر منصوب ہوتی ہے) اور [ھُوَ] ضمیر مرفوع اس (مَا) کا اسم ہے [بمزحزحہ] کی ’’بِ‘‘  زائدہ ہے (جو ’’ما‘‘ کی خبر پر آئی ہے، اس کا الگ ترجمہ نہیں کیا جا سکتا) اور ’’مزحزحہ‘‘  (مضاف مضاف الیہ مل کر) جس کی ضمیر مجرور اسی  ’’ھُوَ‘‘ (اسم  مَا)  کے لیے ہے  ’’ما‘‘  کی خبر لہٰذا محلاً منصوب ہے (اگرچہ ’’بِ‘‘  کی وجہ سے لفظاً مجرور ہو گئی ہے) ۔ [من العذاب] جار مجرور ’’مزَحْزِحِہ‘‘  (کے معنی فعل) سے متعلق ہے [أن یُعمَّر] ’’أنْ‘‘  ناصبہ مصدریہ ہے، اس لیے ’’یُعمَّرَ‘‘  مضارع (مجہول صیغۂ واحد مذکر غائب) منصوب ہو گیا ہے، علامت نصب  ’’ر‘‘  کی فتحہ ہے۔ اور مصدریہ ہونے کے باعث ’’اَنْ یُعَمَّر‘‘ کو مصدر مؤول ’’تعمیرُہ‘‘ کے ہم معنی سمجھا جا سکتا ہے اور یہ  (تعمیرُہ  یا  ’’ان یُعَمَّرہ‘‘) ’’مزحزحہ‘‘ کے معنئ فعل (یعنی  ’’ یُزَحْزِحہ‘‘ کے مفہوم میں۔ کیونکہ ’’مزَحزِحٌ‘‘  اسم الفاعل ہے جو فعل کا  سا عمل کرتا ہے) کا فاعل لہٰذا محلاً مرفوع ہے۔ یعنی ’’وما ھو (اَنْ) یُزحزحَہ من العذاب تعمیرُہ‘‘ (وہ (ایسا) نہیں کہ ہٹا دے اس کو عذاب سے اس کا عمر پانا)۔

·       یہاں ضمیر منفصل ’’ھو‘‘ کی (بلحاظ مرجع) دو صورتیں ممکن ہیں۔ اول یہ کہ یہ  ’’احدھم‘‘ کے لیے ہے۔ اس صورت میں جملے کی ترکیب وہی بنتی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے یعنی عبارت یوں بنتی ہے۔’’و ما ذلک المتمنی بمزحزحہ‘‘ . . . . اور ترجمہ یہ ہوا کہ ’’وہ (تمنا کرنے والا) ایسا نہیں کہ ہٹا دینے والا ہو اس کو عذاب سے یہ کہ وہ عمر پا لے‘‘ (یعنی وہ صاحب تمنا ایسا نہیں کہ لمبی عمر پانا اس کو عذاب سے ہٹا لے) دوسری صورت اس ضمیر (ھو) کی یہ ہو سکتی ہے کہ وہ ’’ان یُعمَّر‘‘ ہی کے لیے ہے، یعنی ’’ان یُعَمَّر‘‘ اسی ضمیر کا بدل یعنی ’’ما‘‘  کا اسم ہو کر محلاً رفع میں ہے (سابقہ ترکیب میں وہ فاعل ہو کر محل رفع میں تھا) گویا عبارت (مقدر) کچھ یوں بنتی ہے ’’و ما ھو ای ان یُعمَّر بمزحزحہ من العذاب یا ’’و ما التعمیرُ‘‘ (مصدر مؤول)  بمزحزحہ من العذاب‘‘۔ یعنی ’’نہیں ہے وہ (امر) یعنی اس کا لمبی عمر پانا، ایسا کہ ہٹا دینے والا ہو اس کو عذاب سے ‘‘۔

·       دونوںصورتوں میں عذاب سے ہٹانے کا فاعل ’’ان یعمر‘‘ (عمر پانا) ہے اس لیے ترجمہ میں کوئی خاص فرق نہیں۔ حصہ ’’اللغۃ ‘‘ میں یہ دوسرا (بدل والا) ترجمہ کیا گیا تھا۔ اکثر مترجمین نے اسی کو سامنے رکھ کر ترجمہ کیا ہے۔ اور اسی لیے ’’ان یعمر‘‘  کا ترجمہ پہلے کر دیا گیا ہے کہ وہ ’’فاعل‘‘ یا اسم ’’ما‘‘ ہے۔

(۵)  وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ

[وَ] مستانفہ ہے  [اللّٰہُ]  مبتدأ مرفوع ہے اور [بصیر] اس کی خبر مرفوع ہے [بما یعملون] ’’بِ‘‘  حرف الجر یہاں صلۂ فعل کے طور پر آیا ہے (یعنی  یبصر ب . . . . کے معنی ہیں)  ’’ما‘‘  موصولہ ہے اور ’’یعملون‘‘  فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے اور یہ جملہ فعلیہ ’’یعملون‘‘  (جو دراصل ’’یعملونہ‘‘  تھا، یعنی اس میں ’’ما‘‘  موصولہ کی ضمیر عائد محذوف ہے) ’’ما‘‘  کا صلہ ہے اور یوں یہ سارا مرکب جارّی (بما یعملون) متعلق خبر (بصیر) ہے۔ اس کے ترجمہ میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ ورنہ حصہ اللغۃ دیکھ لیں۔

 

۲: ۵۹: ۳      الرسم

اس پوری عبارت میں بلحاظ ’’رسم‘‘ صرف ایک لفظ ’’حیوۃ‘‘ قابل ذکر ہے۔ باقی تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم قرآنی یکساں ہے۔

·       لفظ ’’حیوۃ‘‘ کے رسم پر اس سے پہلے البقرہ:۸۵ [۳:۵۲:۲] میں بات ہوئی تھی، بلکہ اس سے پہلے البقرہ: ۳ [۲: ۲: ۳] میں لفظ ’’الصلوٰۃ‘‘ کے ضمن میں وہ آٹھ کلمات بیان ہوئے تھے جو قرآن مجید میں الف کی بجائے ’’و‘‘ سے لکھے جاتے ہیں (یعنی ان میں ’’و‘‘ کو ہی بصورت الف پڑھا جاتا ہے) بشرطیکہ یہ کسی ضمیر کی طرف مضاف نہ ہوں، ان آٹھ حروف میں سے ایک یہ ’’حیوۃ‘‘  یا ’’الحیوۃ‘‘ بھی ہے۔ اگر یہ کسی ضمیر کی طرف مضاف ہوں تو ’’الف‘‘ کے ساتھ ہی لکھا جائے گا جیسے  ’’حیاتی، حیاتنا‘‘  وغیرہ میں ہے۔ آپ کی آسانی کے لیے وہ آٹھ کلمات یہاں دوبارہ لکھے جاتے ہیں: الصلوٰۃ- الزکوٰۃ - الحیوۃ - الغدوٰۃ - مشکوٰۃ - النجوٰۃ - الوبوٰۃ - اور   منوٰۃ۔ان میں سے بعض معرف باللام یا اس کے بغیر (نکرہ) دونوں طرح قرآن میں آئے ہیں اور بعض خاص لفظوں کے بارے میں استثناء یا اختلاف اپنی جگہ بیان ہو گا۔

 

۲:۵۹:۴      الضبط

اس قطعہ کے کلمات کے ضبط میں تنوع زیادہ تر ساکن حرف علت، نون مخفاۃ، ہمزۃ الوصل، الف محذوفہ، ہائے کنایہ، اسم جلالت اور اقلاب نون، میم کے ضبط میں منحصر ہے۔ اس کے علاوہ افریقی مصاحف میں  ف اور ق کے اعجام میں فرق اور نون متطرفہ کا عدم اعجام قابل غور ہے۔ حسب ذیل نمونوں میں اس کی توضیح موجود ہے۔ جہاں صرف حرکات کی شکل کا اختلاف ہے ‘ ان کو دوبارہ نہیں لکھا گیا۔