سورۃ البقرہ آیت نمبر  ۹۷ اور۹۸

۲ : ۶۰       قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ۝۹۷ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ۝۹۸

۱:۶۰:۲       اللغۃ

   اس قطعہ میں کوئی نیا لفظ نہیں ہے، ماسوائے ’’جبریل‘‘ اور ’’میکٰل‘‘ کے، جو دو فرشتوں کے نام ہیں اور دراصل غیر عربی کلمات ہیں۔ باقی تمام کلمات بلا واسطہ (اسی شکل میں) یا بالواسطہ (مادہ اور اصل کے لحاظ سے) پہلے گزر چکے ہیں، لہٰذا ان کا صرف ترجمہ ـــــــ اورطالبِ مزید کے لیے ـــــ لفظ کی لغوی تشریح کا گزشتہ حوالہ لکھ دیا جائے گا۔ اس کے لیے عبارت کو چند ادھورے جملوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔

۱:۶۰:۲ (۱)   [قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ]

’’قُلْ‘‘ (تو کہہ دے) جس کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلْ‘‘ ہے، کے باب، معنیٰ اور ساخت میں تعلیل وغیرہ کے مفصل بیان کے لیے دیکھیے البقرہ: ۸: [۱:۵۰:۲ (۲)] نیز [۱:۷:۲ (۵)]

(۲) ’’مَنْ‘‘ (جو کوئی - جو) دیکھئے البقرہ: ۸[۱:۷:۲ (۴)]

(۳) ’’کَانَ‘‘ (تھا - ہے) جس کا مادہ ’’ک و ن‘‘ اور وزن اصلی  ’’فَعَلَ‘‘ ہے، کے معنی، باب اور ساخت کے لیے دیکھیے البقرہ:۳۴ [۱:۲۵:۲ (۵)]

(۴) ’’عَدُوًّا‘‘ (دشمن) اس کا مادہ ’’ع د و‘‘ اور وزن  ’’فَعُولٌ‘‘ ہے (جو عبارت میں منصوب آیا ہے) اس کے باب، فعل کے معنی اور لفظ کی ساخت وغیرہ پر بحث کے لیے دیکھیے البقرہ: ۳۶ [۱:۲۶:۲ (۱۹)]

(۵) ’’لِجِبْرِیْلَ‘‘ کی ابتدائی لام (الجر) یہاں مضاف کو نکرہ بنانے کے لیے استعمال ہوئی ہے، یعنی ’’جبریل کا ایک دشمن‘‘۔ عام اضافت ہوتی تو ’’عَدُوَّ جِبْرِیلَ‘‘ آتا۔ کلمہ  ’’جبریل‘‘  ایک فرشتہ کے نام کے طور پر آیا ہے۔ عجمی لفظ اور  عَلَم (نام) ہونے کے باعث یہ لفظ غیر منصرف ہے۔ کہا گیا ہے (تفاسیر میں) کہ یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے جو  ’’جبر‘‘  (بمعنی عبد یا بندہ) اور  ’’اِیل‘‘  (بمعنی خدا) کا مرکب ہے اور یوں اس کا مطلب ’’خدا کا بندہ‘‘ ہے۔ مختلف قبائل عرب میں اس لفظ کا تلفظ کئی طرح بیان ہوا ہے، یعنی ’’جِبْرِیْل، جَبْرَئِیل، جِبْرِیْن‘‘ (بالنون) ’’جَبْرِیْل‘‘  اور ’’جَبَرَئِل‘‘[1]وغیرہ۔

یوں اس عبارت کا لفظی ترجمہ ہوا ’’کہہ دے جو کوئی ہے (’’ہو‘‘ یا ’’ہو گا‘‘۔ بوجہ شرط ماضی میں ترجمہ نہیں ہو گا) دشمن (مخالف) جبریل کا‘‘۔ اردو محاورے کی وجہ سے نکرہ مضاف ’’عَدُوًّا‘‘  کا ترجمہ نظر انداز کرنا پڑتا ہے، در اصل تو تھا ’’جبریل کا ایک دشمن‘‘ ــــــ اسی لیے بعض نے اس کا ترجمہ ’’جبریل سے عداوت رکھے‘‘ کے ساتھ کیا ہے، جو لفظ سے تو ہٹ کر ہے، مگر ایک لحاظ سے اس میں وہ ’’عَدُوًّا‘‘ کے نکرہ ہونے والی بات کا مفہوم آ گیا ہے، جو ’’جبریل کا دشمن‘‘ کہنے میں نہیں ہے۔ ’’قُلْ‘‘ کے مخاطب آنحضرتؐ ہیں، اس لیے احتراماً اس کا ترجمہ ’’تو کہہ دے‘‘ کی بجائے آپ کہہ دیجیے/ تم فرما دو‘‘ سے بھی کیا گیا ہے۔ اس عبارت میں بیانِ شرط ہے۔

۱:۶۰:۲ (۲) [فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ . . . . . ]

(اس عبارت سے پہلے سابقہ جملہ (نمبر ۱ جو بیان شرط ہے) کا  جواب شرط محذوف ہے، یعنی ’’فَلْیَمُتْ غَیظًا‘‘ (پس مر جائے غصہ سے) یا ’’فَلا مُوجِبَ لِعَدواتہٖ‘‘ (پس اس کی دشمنی کی کوئی وجہ نہیں) وغیرہ۔ اسی لیے اردو کے بعض مترجمین نے اس حصّہ آیت سے پہلے ’’تو ہوا کرے‘‘ یا ’’تو یہ اس کی بے وقوفی ہے اور دشمنی کی کوئی وجہ نہیں‘‘ یا ’’تو اسے غصے میں مر جانا چاہیے‘‘ وغیرہ کے توضیحی اضافے کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔

(۱)  ’’فَاِنَّہٗ‘‘ جو  ’’فَ + اِنَّ + ہٗ‘‘ ہے یہ ’’فَا‘‘ (فَ) معنی پس/ سو، جواب شرط والی ’’فا‘‘ نہیں ہے (ورنہ آگے آنے والے صیغۂ ماضی ’’نَزَّلَ‘‘  کا ترجمہ بھی (بوجہ جواب شرط) مستقبل میں کرنا پڑتا۔ لہٰذا یہ ’’فا‘‘ اس محذوف جواب شرط پر (جس کا اوپر ذکر ہوا ہے) عطف ہے، یعنی اگلے جملے کا اس جواب شرط (محذوف) سے ربط پیدا کرتی ہے۔

باقی ’’اِنَّہ‘‘  (بے شک اس لیے) ’’اِنَّ‘‘  اور اس کے اسم (ضمیر منصوب) پر مشتمل ہے اور ضمیر ’’ہُ‘‘  کا مرجع ’’جبریل‘‘ ہے۔

(۲) ’’نَزَّلَہٗ‘‘ (اس نے اسے اتارا) فعل ’’نَزَّلَ یُنَزِّلُ‘‘  (اتارنا۔ نازل کرنا) کے معنی و استعمال پر البقرہ: ۲۳ [۲: ۱۷: ۱ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ضمیر منصوب ’’ہُ‘‘  ہے، جس کا مرجع یہاں قرآن مجید ہے، جو اگرچہ اس سے پہلے عبارت میں مذکور نہیں ہوا۔ قرآن کریم کا اس طرح ذکر (بذریعہ ضمیر بغیر سابق ذکر) کئی جگہ آیا ہے اور یہ اندازِ بیان صاحب قرآن () کی عظمت و اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں مفہوم کو سمجھنے کے لیے صرف عربی گرامر کا جاننا کافی نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم کا مجموعی اسلوب اور اندازِ بیان سامنے رکھنا پڑتا ہے۔

(۳) ’’عَلٰی قَلْبِکَ‘‘ (تیرے دل پر) ’’عَلٰی‘‘ (حرف الجر) یہاں ’’پر‘‘ کے معنی میں ہے، دیگر استعمالات کے لیے [۱:۶:۱(۳)] دیکھیے۔ آخری ضمیر مجرور ’’کَ‘‘  معنی ’’تیرا ‘‘ہے اور لفظ ’’قَلْب‘‘  (دل) کی مفصل لغوی بحث [۲: ۶: ۱ (۲)] میں ہو چکی ہے۔

(۴) ’’بِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘  (اللہ کے حکم سے)۔ ’’بَا‘‘ (بِ)  کے استعمالات پر بحث استعاذہ میں اور البقرہ: ۴۵ [ ۲: ۳۰: ۱ (۱)] میں گزری تھی۔ اسم جلالت ’’اللّٰہ‘‘ اور باء الجر ’’بِ‘‘  کے درمیان کلمہ ’’اِذْن‘‘ ہے، جس کے مادہ فعل مجرد کے باب و معنی وغیرہ پر البقرہ: ۱۹ [۲: ۱۴: ۱ (۹)] میں کلمہ ’’آذَان‘‘  (جمع اُذُن  بمعنی  کان) کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ زیر مطالعہ کلمہ ’’اِذْن‘‘  ویسے تو ثلاثی مجرد فعل کا مصدر ہے مگر یہ بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے (یعنی ’’اجازت دینا‘‘ اور ’’اجازت‘‘ دونوں طرح)۔ یہاں یہ لفظ در اصل تو ’’اجازت‘‘ ہی کے معنی میں تھا مگر یہ معنی ’’حکم‘‘ اس لیے لیا گیا ہے کہ جبریل ؑ نے قرآن اتارنے کی اجازت خود تو حاصل نہیں کی بلکہ اسے خود اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا تھا‘ اس لیے اس کا ترجمہ یہاں ’’حکم‘‘ ہی کیا گیا ہے۔ جبریل ؑ فرشتے کا کام پیغمبروں تک اللہ کا کلام اور اس کے احکام پہنچانا ہے۔

·       یوں اس عبارت ’’ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ  ‘‘  کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’پس بے شک اسی نے اتارا اس کو تیرے دل پر اللہ کی اجازت سے‘‘۔ اکثر مترجمین نے یہاں ’’اس کو‘‘ (نَزَّلَہ کی ضمیر مفعول) کا وضاحتی ترجمہ بصورت ’’یہ کلام، یہ قرآن، اس قرآن، یہ کتاب‘‘ وغیرہ سے کیا ہے۔ بعض نے ’’نَزَّلَ‘‘  کا  ترجمہ ’’پہنچا دیا ہے‘‘ (قلب تک) اور ’’ڈالا ہے‘‘ (دل میں) سے کیا ہے، جو صرف محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہے، ورنہ اصل لفظ سے تو ہٹ کر ہے۔ ’’باِذن اللّٰہ‘‘ کے لفظ معنی اور ترجمہ (حکم) کی مناسبت پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے۔

۱:۶۰:۲ (۳)     [مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَ ھُدًی وَّ بُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ]

یہ عبارت کوئی مستقل جملہ نہیں بلکہ یہ سابقہ جملہ کے ’’نَزَّلہ‘‘  کی ضمیر مفعول (جس سے مراد قرآن کریم ہے) کا ’’حال‘‘ ہو کر اسی جملے (نمبر ۲ بالا) کا ہی حصہ ہیں۔ کلمات کا ترجمہ (اور مزید کے طالب کے لیے) گزشتہ حوالہ درج ذیل ہے۔

(۱) ’’مُصَدِّقًا لِّمَا‘‘  (سچا کہنے ولا اس کو جو) یعنی ’’تصدیق کرنے والا ہوتے ہوئے اس کی جو‘‘ ــــــ یہی ترکیب اس سے پہلے البقرہ : ۴۱ [۲: ۲۸: ۱ (۹)] میں گزر چکی ہے، جس میں ’’مصدِّق‘‘  اور ’’لِ‘‘  اور’’مَا‘‘  سب کی وضاحت ہوئی تھی۔

(۲) ’’بَیْنَ یَدَیْہِ‘‘  (اس کے دونوں ہاتھوں کے درمیان، یعنی اس کے آگے، اس کے پہلے، اپنے سے قبل)۔ لفظ ’’یَد‘‘  (ہاتھ) کی لغوی وضاحت کے علاوہ قریباً یہی ترکیب ’’ بَیْنَ یَدَیْھَا‘‘  کی صورت میں البقرہ: ۶۶ [۲: ۴۶: ۱ (۶)] میں گزری ہے۔ وہاں آخر پر واحد مؤنث ضمیر مجرور ’’ھا‘‘  تھی، یہاں واحد مذکر ضمیر مجرور ’’ہ‘‘  ہے۔

(۳) ’’وَ ھُدًی‘‘  (اور ہدایت، رہنمائی ہوتے ہوئے) لفظ ’’ھُدًی‘‘  کی مفصل لغوی تشریح کے لیے دیکھ لیجیے البقرہ: ۲ [۱:۱:۲(۶)] اور اس کے مادہ اور اس سے فعل مجرد وغیرہ کی بات الفاتحہ: ۶ [۱: ۵: ۱(۱)] میں گزری تھی۔

(۴) ’’وَ بُشْرٰی‘‘ (اور خوشخبری ہوتے ہوئے) کلمہ ’’بُشْرٰی‘‘  (بمعنی خوشخبری) کے مادہ (ب ش ر) سے فعل مجرد وغیرہ کی بحث البقرہ: ۲۵ [۱:۱۸:۲(۱)] میں گزری تھی۔ اس مادہ سے ماخوذ یہ لفظ (بشری) معرفہ، نکرہ، مفرد، مرکب صورتوں میں قرآن حکیم کے اندر ۱۵ جگہ وارد ہوا ہے۔ لفظ ’’بِشَارَۃ‘‘ (اردو میں ’’بشارت‘‘) بھی اس کے ہم معنی ہے۔

(۵) ’’لِلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ (ایمان لانے والوں کے لیے)۔ کلمہ ’’مُؤْمِن‘‘  (جس کی جمع مجرور ’’مُؤْمِنِیْن‘‘  یہاں آئی ہے) کے مادہ ’’أمن‘‘ سے بابِ افعال ’’آمَنَ یُؤمِنُ‘‘ کے معنی وغیرہ پر البقرہ: ۳[۱:۲:۲ (۱)] میں بات ہو چکی ہے۔ یہ (مؤمن)  اس فعل سے صیغہ اسم الفاعل ہے جس کی جمع سالم مجرور ’’مُؤمِنین‘‘ کے معنی ’’ایمان لانے والے‘‘ ہے۔

·       یوں اس عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’سچا کہنے والا ہوتے ہوئے اس کو جو اس کے دونوں ہاتھوں کے آگے (سامنے) ہے اور ہدایت ہوتے ہوئے اور خوشخبری ہوتے ہوئے ایمان لانے والوں کے لیے‘‘۔ اردو محاورے میں اس طرح ’’حال‘‘ کا ترجمہ فٹ نہیں بیٹھتا اس لیے اسے کم از کم ’’اور حالت یہ ہے کہ وہ (قرآن) اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والا اور ہدایت اور خوشخبری ہے اہل ایمان کے لیے‘‘ کرنا پڑا۔ بہت سے مترجمین نے ’’مُصَدِّق‘‘  اسم الفاعل کا ترجمہ فعل ’’یُصَدِّقُ‘‘ کے ساتھ کر لیا ہے۔ یعنی ’’تصدیق کررہا ہے‘‘ اور ’’سچ بتاتا ہے‘‘ اور ’’تصدیق کرتا ہے‘‘ اور بعض نے ’’حال‘‘ یا ’’حالت یہ ہے‘‘ کی بجائے صرف خبر کی طرح ترجمہ کر دیا ہے۔ یہ سب اردو محاورے کے باعث کرنا پڑا ہے، کیونکہ عربی کے ’’حال‘‘ ہونے والی ترکیب اردو عبارت کی ساخت میں غیر مانوس لگتی ہے، لہٰذا اسے ’’خبر‘‘ یا  ’’صفت‘‘ کے طور پر بیان کرنا پڑتا ہے۔

۱:۶۰:۲ (۴)     [مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّلّٰہِ وَ مَلٰئِکَتِہٖ وَ رُسُلُہٖ وَ جِبْرِیْلَ وَ مِیْکٰلَ]

یہ بھی مکمل جملہ نہیں بلکہ اس میں صرف بیان شرط ہے، جواب شرط اس سے اگلے جملے میں ہے۔مفردات کا الگ الگ ترجمہ مع گزشتہ حوالہ (برائے ضرورت مند) درج ذیل ہے:

(۱) ’’مَنْ‘‘  (جو کوئی بھی، جو) یہاں موصولہ شرطیہ ہے [۲: ۷: ۱ (۴)]

(۲) ’’کَانَ‘‘  (ہے، ہو گا) دیکھیے اوپر شروع آیت ’’قُلْ مَنْ کَانَ. . . .‘‘

(۳) ’’عَدُوًّا لِّلّہِ‘‘ (اللہ کا دشمن‘ اللہ سے عداوت رکھنے والا) یہی الفاظ اوپر گزرے ہیں۔ وہاں ’’عَدُوًّا‘‘ کے بعد ’’لِجِبْرِیلَ‘‘ تھا یہاں ’’لِلّٰہِ‘‘ ہے۔

(۴) ’’وَ مَلٰئِکَتِہٖ‘‘ (اور اس کے فرشتوں کا (دشمن))۔ لفظ ’’مَلائِکۃ‘‘ کے مادہ اور اشتقاق کی مفصل بحث البقرہ: ۳ [۲:۲۱:۲(۲)] میں گزر چکی ہے، یہاں ضمیر مجرور (ہ)  اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، یعنی’’لِلّٰہِ وَ لِمَلٰئِکتہٖ‘‘  مراد ہے۔

(۵) ’’وَ رُسُلِہٖ‘‘  (اور اس کے رسولوں کا (دشمن))۔ ’’وَ‘‘ (اور) اور آخری ضمیر (ہ)  بمعنی ’’اس کے‘‘ کو چھوڑ کر باقی لفظ ’’رُسُل‘‘  ہے، جو ’’ رَسُول‘‘  (پیغمبر) کی جمع ہے۔اس مادہ (ر س ل) کے فعل مجرد کی بحث کے علاوہ (جو قرآن میں استعمال نہیں ہوا) اور خود لفظ ’’الرسل‘‘ (جو اس کی معرف باللام شکل ہے) پر البقرہ: ۸۷ [۲: ۵۳: ۱ (۱ ور ۴)] میں بات ہوئی تھی۔

(۶) ’’وَ جِبْرِیْلَ‘‘ (اور جبریل کا) اس پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے۔

(۷) ’’وَ مِیْکٰلَ‘‘ (اور میکائیل کا) لفظ ’’میکٰل‘‘  خاص قرآنی رسم ہے، اردو میں یہ ’’میکائیل‘‘ استعمال ہوا ہے۔ ’’جبریل‘‘ کی طرح یہ بھی ایک فرشتہ کا نام ہے اور یہ بھی در اصل عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی بھی ’’خدا کا معمولی بندہ‘‘ بتائے جاتے ہیں اور اس نام کو بھی اہل عرب چار طرح بولتے ہیں یعنی ’’میکال‘‘ (اہل حجاز کی بولی میں) اور میکائِل  اور ’’میکایِل‘‘ اور’’میکا أَل‘‘  [2]

·       یوں اس زیر مطالعہ عبارت کا ترجمہ لفظی بنتا ہے ’’جو کوئی بھی ہو (گا) دشمن (دشمنی رکھے گا) اللہ کے لیے اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور جبرئیل اور میکائیل (فرشتوں) کا . . .  .‘‘ اور اسے سلیس بنانے کے لیے اردو فقرے کی ترتیب الفاظ میں کچھ ردوبدل کر لیا جاتا ہے۔

(۸) ’’فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلْکٰفِریْنَ‘‘  یہاں ابتدائی ’’فَا‘‘  جوابِ شرط والی ہے کیونکہ اس کے بعد جملہ اسمیہ آیا ہے۔ یہاں (سابقہ آیت کی طرح) کسی محذوف جوابِ شرط کی ضرورت نہیں۔ عبارت کے تمام الفاظ بہت آسان اور پہلے کئی بار گزر چکے ہیں۔ بلکہ ان میں سے ’’فا‘‘ (فَ)  (پس)، ’’اِنَّ‘‘ (بے شک) اور ’’عَدُوّ‘‘ (دشمن) تو اسی قطعہ میں گزرے ہیں اور ’’الکٰفِرین‘‘  ـــــــ   جو ’’کفَر یکفُر‘‘سے اسم الفاعلین (مجرور بلام الجر) ہے  ـــــــ اس پر تفصیلی بات البقرہ: ۱۹ [۲: ۱۴: ۱ (۱۴)] میں ہوئی تھی، بلکہ یہ لفظ تو اردو میں اتنا عام ہے کہ تمام مترجمین نے اس کا ترجمہ ہی ’’ کافروں‘‘ رہنے دیا ہے۔

·       اس عبارت کا لفظی ترجمہ تو ہے: ’’پس بے شک اللہ دشمن ہے کافروں کے لیے‘‘ چونکہ ’’الکافِرین‘‘  کا لام تعریف یہاں عہد کا ہو سکتا ہے، یعنی وہ کافر جن کی بات ہو رہی ہے، اس لیے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ایسے کافروں کا‘‘ اور بعض نے ’’ان کافروں کا‘‘ سے کیا ہے۔ اسی طرح جوابِ شرط پر ’’اِنَّ‘‘  آنے کے زور کو بعض نے ترجمہ میں ’’اللہ بھی (دشمن ہے)‘‘ کی صورت میں ظاہر کیا ہے۔

·       اس قطعہ میں جبریل، میکائیل کا ذکر آنے کی وجہ سے، ان فرشتوں کے بارے میں مزید وضاحت اور آیت میں ان سے جس دشمنی کا ذکر ہے اس کا پس منظر یعنی آیت کا شان نزول جاننے کے لیے کسی اچھی اور مستند تفسیر کو دیکھ لیجیے۔ کیونکہ یہ بات تو آیت کے ترجمہ سے ہی معلوم ہو جاتی ہے کہ اس میں بیان کردہ بات کا کوئی خاص پس منظر ہے۔ وہ کیا ہے؟ اس کا جواب تفاسیر میں ملتا ہے۔

 

۲:۶۰:۲      الاعراب

زیر مطالعہ دونوں آیات بلحاظِ ترکیب نحوی دو شرطیہ جملوں پر مشتمل ہیں۔ ہر ایک آیت ایک بیان شرط اور ایک جواب شرط پر مشتمل ہے۔ تاہم طوالت کی بنا پر ہم ہر ایک آیت کے اجزاء کو الگ الگ بیان کریں گے۔

(۱) قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ . . . .

]قُلْ] فعل امر معروف مع ضمیر الفاعل ’’اَنْتَ‘‘ ہے اور ’’قُلْ‘‘ کے بعد آنے والی عبارت اس ’’قُلْ‘‘  کا مقول (کہی گئی بات) ہو کر مفعول، لہٰذا محلاً منصوب سمجھی جائے گی۔ [مَنْ]  اسم موصول یہاں بطور اسم شرط آیا ہے۔

]کَانَ] فعل ناقص ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے، جس میں اس کا اسم ’’ھُوَ‘‘  موجود ہے، جو ’’مَنْ‘‘  کے لیے ہے [عَدُوًّا] کَانَ  کی خبر (لہٰذا) منصوب ہے۔ [لِجِبْرِیلَ]  لام الجر اور اس کا مجرور ’’جِبِرْیلَ‘‘   مل کر متعلق خبر ’’کَانَ‘‘  ہیں۔ اس ’’جِبریل‘‘  میں علامت جر ’’ل‘‘ کی فتحہ(ــــــَــــ) ہے کیونکہ لفظ ’’جِبریل‘‘  بوجہ عجمیت اور عَلَمیت غیر منصرف ہے۔  یہاں تک بیانِ شرط مکمل ہوتا ہے۔

(۲)  فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَ ھُدًی وَّ بُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ

[فَ]  بظاہر جواب شرط کی ہے‘ لیکن اگر یوں سمجھا جائے تو اگلے فعل ’’نَزَّلَ‘‘  کا ترجمہ ’’اتارے گا‘‘ ہونا چاہیے، کیونکہ شرط اور اس کے جواب کا تعلق زمانہ مستقبل سے ہوتا ہے، شرط ماضی پر نہیں ہوتی۔ اس لیے نحویوں نے یہاں اصل جوابِ شرط محذوف مانا ہے، جیسا کہ اوپر حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں مع اضافی ترجمہ بیان ہوا ـــــ تاہم یہ ایک فنی سی وجہ ہے۔ بلحاظ معنی اس (زیر مطالعہ) عبارت کو بھی جواب شرط قرار دینا چنداں غلط بھی نہیں ہو گا۔ یوں [فَاِنَّہٗ] فَا  برائے رابطہ یا عاطفہ ہے اور ’’اِنَّہٗ ‘‘  حرفِ مشبہ بالفعل ’’اِنَّ‘‘  اور اس کے اسم منصوب (ضمیر ’’ہ‘‘) پر مشتمل ہے، جس کی خبر [نَزَّلَہٗ] ہے جو فعل ماضی معروف ’’نَزَّلَ‘‘  اور اس کے مفعول بہ (ضمیر منصوب)  ’’ہ‘‘  پر مشتمل ہے۔ [عَلٰی قَلْبِکَ]میں ’’عَلٰی‘‘  حرف الجر اور ’’قَلْبِکَ‘‘  مضاف و مضاف الیہ [قَلْب + کَ] مل کر مجرور ہے اور یہ مرکب جارّی متعلق فعل (نزَّل) ہے۔ اسی طرح [بِاِذْنِ اللّٰہ] بھی حرف الجر (بِ)  اور مرکب اضافی ’’اذنِ اللّٰہ‘‘  مجرور پر مشتمل ہے اور یہ مرکب جارّی ’’باذن اللہ‘‘  بھی دوسرا متعلق فعل ہے۔ ان دونوں تراکیب (عَلٰی قلبک اور’’باذن اللّٰہ‘‘) میں مضاف کلمہ ’’قلب‘‘  اور ’’اذن‘‘  مجرور بالجر اور بوجہ مضاف ہونے کے خفیف بھی آئے ہیں۔ یہاں تک ویسے تو جملہ مکمل ہو جاتا ہے مگر ’’نزّلہ‘‘  کی ضمیر مفعول کا مرجع (قرآن) چونکہ پہلے مذکور نہیں اس لیے اس سے اگلی عبارت میں اس (قرآن) کے پے در پے تین ’’حال‘‘ لائے گئے ہیں تاکہ واضح ہوجائے کہ بات قرآن کریم کی ہو رہی ہے، کیونکہ یہ ’’حال‘‘ (یا صفات) صرف قرآن کریم ہی پر منطبق ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ [مُصَدِّقًا]  پہلا حال ہے، یعنی حالت یہ ہے کہ وہ (قرآن) تو تصدیق کرنے والا ہے [لِمَا]  لام الجر اور ’’مَا‘‘  موصولہ ہے۔ [بَیْنَ یَدَیْہِ] میں ’’بَیْنَ‘‘  ظرف مضاف اور ’’یَدَیْہِ‘‘  خود مرکب اضافی (یَدَی  مضاف + ’’ہ‘‘  مضاف الیہ) اس ظرف کی طرف مضاف ہے، اسی لیے ’’یَدَیْ‘‘  مجرور (یعنی ’’یَد‘‘   کا تثنیہ مجرور) ہے۔ یہاں علامتِ جر ’’یا‘‘  ما قبل مفتوح (ــــــَــــ یْ) ہے۔ اور یہ سارا مرکب اضافی ’’بَیْنَ یَدَیْہِ‘‘  اسم موصول ’’مَا‘‘  کا صلہ ہے اور پھر یہ صلہ موصول مجرور (بلام الجر) ہیں اور یہ مرکب جارّی (لِمَا بین یدَیہِ) ’’مصدّقًا‘‘ سے متعلق ہیں۔ یعنی اس کے معنی فعل (تصدیق کرنا) سے متعلق ہیں، کہ کس کی تصدیق کرتا ہے؟ کا جواب اس میں موجود ہے اور ایک طرح سے یہ فعل ’’تصدیق کرنا‘‘ کے مفعول (بلحاظ معنی) ہیں۔ اسی طرح [وَھُدًی] میں ’’ھُدًی‘‘  بھی حال ہونے کی وجہ سے اور سابقہ منصوب حال (مصدّقًا)  پر معطوف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ علامت نصب بظاہر تنوین نصب (ــــًـــــ) ہے مگر در اصل یہ لفظ (ھُدًی) بھی مقصور ہوتا ہے، اس میں رفع نصب جر کی ظاہر کوئی علامت نہیں ہوتی۔ اور اسی طرح  [بُشْرٰی] بھی حال ہونے اور سابقہ حال پر عطف ہونے کے باعث منصوب ہے۔ یہ بھی اسم مقصور ہے جس میں اعرابی حالت ظاہر نہیں ہوتی۔ ’’لِلمُومنِین‘‘  جار مجرور مل کر متعلق حال  (بُشرٰی) ہیں، یعنی جس طرح ’’لِما بین یدَیہ‘‘ ، ’’مصدّقًا‘‘ سے متعلق تھا اسی طرح ’’لِلمُؤمنین‘‘  کا تعلق ’’بشرٰی‘‘  سے ہے، یعنی یہ اس ’’بشرٰی‘‘  کی وضاحت ہے کہ کس کے لیے؟ یوں یہ زیر مطالعہ پوری عبارت ایک جواب شرط کی وضاحت ہے۔

(۳) مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّلّٰہِ وَ مَلٰئِکَتِہٖ وَ رُسُلُہٖ وَ جِبْرِیْلَ وَ مِیْکٰلَ

اس کی ترکیب سابقہ جملے کی سی ہے۔ یعنی [مَن] اسم شرط (موصول) ہے، [کَانَ] فعل ناقص مع اسم (ھُوَ) ہے، [عدوًّا]  اس (کَانَ)  کی خبر منصوب، [لِلّٰہ]  جار مجرور متعلق خبر کان (عدوًّا) ہے، یعنی کس کا دشمن؟ کی وضاحت ہے۔ [و ملٰئکتِہ] میں واو عاطفہ ہے ’’ملائکتِہ‘‘  مرکب اضافی مجرور بالعطف ہے۔ اسی طرح (ورُسلِہ) بھی واو العطف اور معطوف مجرور ’’رُسُلہ‘‘  پر مشتمل ہے، جس میں ’’رسُلہ‘‘  بھی مرکب اضافی ہے اور آگے [وجبریل]  اور [و میکٰل] بھی ہر ایک واو العطف کے ذریعے ’’للّٰہ‘‘  پر عطف ہو کر مجرور ہیں۔ ’’جبریل‘‘ اور ’’میکال‘‘  غیر منصرف ہیں، اس لیے ان پر علامت جر ’’ل‘‘  کی فتحہ (ـــــَــــ) ہی ہے۔ اتنا حصہ عبارت بیان شرط ہے، آگے جواب، شرط آ رہا ہے۔

(۴) فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلْکٰفِرِیْنَ

[فَا] برائے رابطہ ہے جو جواب شرط پر آتی ہے، [اِنَّ]  حرفِ مشبّہ بالفعل اور [اللّٰہ]  اس کا اسم منصوب ہے،  [عدو]  اس ’’اِنَّ‘‘  کی خبر (لہٰذا) مرفوع ہے اور [للکفرین]  جار مجرور (لام الجر +  الکافرین  مجرور) مل کر متعلق خبر ’’اِنَّ‘‘  (یعنی ’’عدو‘‘  کی وضاحت) ہیں۔

 

۲:۶۰:۳      الرسم

بلحاظ رسم قرآنی اس قطعہ میں صرف تین کلمات قابل ذکر ہیں‘ یعنی  میکٰل، ملئکتہ  اور للکفرین۔ تفصیل یوں ہے:

(۱) ’’میکٰئل‘‘  جس کا تلفظ قراء تِ حفص کے مطابق ’’میکال‘‘  (مطابق رسم املائی) ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ (جو یہاں ایک جگہ ہی آیا ہے) ’’کاف‘‘ کے بعد ’’الف‘‘ کے حذف، مگر ’’ی‘‘ کے نبرہ (دندانہ) کے اضافہ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ چونکہ اس لفظ کی بعض دوسری قراء ات بھی ہیں، لہٰذا اس کا یہ عثمانی رسم الخط ان قراءتوں کا محتمل بھی ہے مثلاً قالون کی قراء ت میں یہ ’’مِیْکٰئِل‘‘ (میکائل) پڑھتے ہیں تو وہ نبرہ (دندانہ) کو ہمزہ کا نبرہ (جو ’’ی‘‘ کے نبرہ کی طرح ہو گا) سمجھ کر ضبط اس کے مطابق کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس ’’ی‘‘ کے نبرہ کو ’’الف بصورت یاء‘‘ (موسیٰ کی طرح) سمجھ لیا جاتا ہے۔

(۲) ’’لملئکتہ‘‘  کے کلمہ ’’ملئکۃ‘‘  (جس کی عام املاء ’’ملائکۃ‘‘ ہے) قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ ’’بحذف الالف بعد اللام‘‘ لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھیے [۲: ۲۱: ۳] میں اس کلمہ کے رسم کی بحث۔

(۳) ’’للکفرین‘‘  جس کی رسم املائی ’’للکافرین‘‘ ہے۔ یہ لفظ (کفرین) یہاں اور ہر جگہ ’’بحذف الالف بعد الکاف‘‘ لکھا جاتا ہے۔ بلکہ جمع مذکر سالم عموماً ہر جگہ بحذفِ الف ہی لکھا جاتا ہے۔ مزید بحث کے لیے دیکھیے [۲: ۱۴: ۳]۔

 

۴:۶۰:۲      الضبط

    اس قطعہ کے بعض کلمات کا ضبط خصوصاً دلچسپ ہے۔ ذیل کے نمونوں سے ضبط کا یہ تنوع سمجھا جا سکتا ہے۔ جہاں صرف حرکات کی شکل کا فرق ہے  ۔ اسے دوبارہ نہیں لکھا گیا۔

 


 



[1] دیکھیے اعراب القرآن للنحاس۱: ۲۵۰۔ و نثر المرجان ۱/ ۱۹۰

 

[2] اعراب القرآن للنحاس ۱/ ۲۵۔ نیز نثر المرجان ۱/ ۱۹۱