سورۃ البقرہ آیت  نمبر  ۹۹  تا  ۱۰۱

۲ : ۶۱     وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ ۚ وَمَا يَكْفُرُ بِهَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ   (۹۹) اَوَكُلَّمَا عٰھَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ ۭ بَلْ اَكْثَرُھُمْ ل*َا يُؤْمِنُوْنَ (۱۰۰) وَلَمَّا جَاۗءَھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ نَبَذَ فَرِيْقٌ مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ڎ كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِھِمْ كَاَنَّھُمْ لَا يَعْلَمُوْن (۱۰۱)

۱:۶۱:۲       اللغۃ

اس قطعہ میں بھی بالکل نئے (بلحاظِ مادہ) صرف دو ہی لفظ آئے ہیں لہٰذا اسے ہم چھوٹے جملوں کی صورت میں لکھ کر ہر ایک کے مفردات کا صرف ترجمہ (مع گزشتہ حوالہ برائے طالب مزید) لکھتے جائیں گے۔ نئے کلمات کی وضاحت اپنے مقام پر آ جائے گی۔ نمبر حوالہ صرف اسی جملے کا دیا جائے گا جس میں کوئی نیا لفظ آئے گا۔ 

[وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ]

(۱) ’’وَ لَقَدْ‘‘ (اور ضرور بالتحقیق)۔  ’’لقد‘‘ کے لام مفتوحہ پر البقرہ: ۶۴ [۲: ۴۱: ۱ (۶)] میں اور  ’’قد‘‘ (حرف تحقیق) کے معنی و استعمال پر البقرہ: ۶۰ [۲: ۳۸: ۱ (۸)] میں بحث ہو چکی ہے۔

(۲) ’’اَنْزَلْنَا‘‘ (ہم نے اُتارا - نازل کیا) جو  ’’ن ز ل‘‘ سے بابِ افعال کا صیغہ ماضی ہے، اس باب سے اسی فعل کے معنی و طریق استعمال پر البقرہ: ۴ [۲: ۳: ۱ (۲)] میں کلمہ  ’’اُنْزِلَ‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔

(۳) ’’اِلَیْکَ‘‘ (تیری طرف) یہی مرکب جاری  [۲: ۳: ۱ (۴)] میں گزرا ہے۔

(۴)’’اٰیَات‘‘ (آیات - احکام - نشانیاں) جو  ’’آیۃ‘‘  کی جمع ہے۔ اس کے مادہ  (ا ی ی) اور فعل وغیرہ نیز اس کلمہ کے معانی پر البقرہ: ۳۹ [۲: ۲۷: ۱ (۷)] میں کلمہ  ’’آیاتنا‘‘ کے سلسلے میں مکمل بحث ہو چکی ہے۔

(۵)  ’’بَیِّنَات‘‘ (کھلی کھلی - واضح - روشن) جو  ’’بیِّنۃ‘‘  کی جمع ہے اس کے مادہ  (ب ی ن) اور فعل مجرور وغیرہ پر البقرہ: ۶ [۱:۴۳:۲ (۶)] میں اور خود اسی لفظ  (بینات) پر [۲: ۵۳: ۱ (۳)] میں بحث ہو چکی ہے۔

·       اس طرح اس حصۂ  آیت کا ترجمہ لفظی بنتا ہے ’’اور البتہ تحقیق اتاریں ہم نے تیری طرف نشانیاں ظاہر۔ واضح‘‘ــــــ ـاردو محاورے کی رعایت سے اکثر مترجمین نے  ’’لقد‘‘ کے ’’لام‘‘ اور  ’’قد‘‘  کا الگ الگ ترجمہ نہیں کیا۔ اس کی بجائے مجموعی ترجمہ ’’بالیقین‘‘ یا ’’بے شک‘‘ کی صورت میں کر دیا ہے۔ بلکہ اکثر نے اس کا ترجمہ ہی نظر انداز کر دیا ہے۔ اس کی بجائے فعل  ’’انزلنا‘‘  کا ترجمہ ماضی قریب کامل کے ساتھ ’’اُتارے ہیں‘‘ ، ’’نازل کیے ہیں‘‘ کی صورت میں کر لیا ہے (جس میں ایک طرح سے تاکید کا مفہوم آجاتا ہے) جب کہ بیشتر نے یہ بھی نہیں کیا بلکہ صرف ماضی مطلق کے ساتھ ترجمہ کر دیا ہے۔ جو ایک لحاظ سے درست نہیں۔  ’’ آیات‘‘  کا ترجمہ یہاں سیاق و سباق کی مناسبت سے ’’ آیتیں‘‘ ہی کیا گیا ہے، اگرچہ بعض نے لفظی ترجمہ ’’نشانیاں‘‘ اور ’’نشان‘‘ کیا ہے۔ اسی طرح  ’’بَیِّنات‘‘  کا ترجمہ ’’ظاہر، واضح، روشن، کھلی، سلجھی ہوئی‘‘  کیا ہے۔ سب کا مفہوم ایک ہے۔ بعض نے  ’’ آیات بینات‘‘  کا مجموعی ترجمہ ’’دلائل واضح‘‘  کیا ہے جو اصل سے کم مشکل نہیں ہے۔ 

[وَمَا یَکْفُرُ بِہَآ اِلاَّ الْفٰسِقُوْنَ]

(۱) ’’وَمَا‘‘  (اور نہیں)  ’’ما‘‘  یہاں نافیہ ہے، دیکھئے [۱:۲:۲ (۵)]

(۲) ’’یَکْفُرُ‘‘  (انکار کرتا ہے’’کفر کرتے ہیں‘‘ بوجہ آگے فاعل کے جمع آنے کے) اس فعل کے مادہ، معنی اور استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ: ۶ [۱:۵:۲ (۱)]

(۳)  ’’بِھَا‘‘  (ان کا۔ اس کا ’’ھا‘‘ آیات کے لیے ہے اس لیے ترجمہ جمع میں ہو گا)  ’’بِ‘‘  فعل ’’کفر‘‘ کے مفعول پر آنے والا صلہ ہے جس پر [۲: ۵: ۱ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔

(۴) ’’اِلَّا‘‘ (سوائے۔ مگر) اس حرف استثناء پر البقرہ: ۲۶ [۲: ۱۹: ۱ (۱۱)] میں مختصراً بات ہوئی تھی۔ مزید بات آگے ’’الاعراب‘‘ میں بھی ہو گی۔

(۵)’’الفَاسِقُون‘‘  (نا فرمان لوگ) اس کے مادہ  ’’ف س ق‘‘  اور فعل کے باب و معنی پر بلکہ خود اسی لفظ پر بات البقرہ: ۲۶ [۲: ۱۹: ۱ (۱۱)] میں ہوئی تھی۔

·       یوں اس حصۂ  آیت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے : ’’اور نہیں کفر کرتے/ انکار کرتے ان کا مگر نا فرمان لوگ‘‘ ــــــ  ’’مَا‘‘  (نہیں) اور  ’’اِلاَّ‘‘  (مگر) کے جمع ہونے کی وجہ سے اردو ترجمہ ’’مگر صرف وہی جو، مگر وہی جو، صرف وہی لوگ جو‘‘ کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔  ’’ومایکفر بھا‘‘ کے ترجمہ میں ’’منکر نہ ہوں گے ان سے‘‘ اور ’’نہ انکار کریں گے ان کا ‘‘ (بصیغہ مستقبل) کی بھی گنجائش موجود ہے۔ بعض نے  ’’الا‘‘ اور ’’ما‘‘کے جمع ہونے کے باعث اردو محاورے کے لیے فعل کا نفی میں ترجمہ کرنے کی بجائے فعل مثبت کے ساتھ (مگر صرف وہی لگا کر) ترجمہ کیا ہے یعنی ’’ان سے انکار صرف وہی کرتے ہیں‘‘ کی صورت میں۔ بعض نے  ’’وما یکفر‘‘ کا ترجمہ ’’کوئی انکار نہیں کرتا یا کوئی بھی انکار نہیں کرتا‘‘ سے کیا ہے۔ گویا  ’’ما یکفر‘‘ کی نفی کی وجہ سے ایک محذوف فاعل  ’’احد‘‘  فرض کر لیا گیا ہے۔ یہ تمام عمدہ تراجم ہیں۔

’’الفاسقون‘‘  کا  ترجمہ بعض نے ’’فاسق لوگ‘‘ ہی رہنے دیا ہے، بعض نے ’’عدول حکمی کے عادی‘‘ اور ’’بے حکم‘‘ کیا ہے اور بعض نے ’’بدکار‘‘ اور ’’بد کردار‘‘ بھی کر دیا ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ اردو میں ’’فسق و فجور‘‘ عموماً اکٹھا استعمال ہوتے ہیں۔ ’’بدکاری‘‘ اصل میں  ’’فجور‘‘  کا ترجمہ ہے  ’’فسق‘‘  کا نہیں۔

۱:۶۱:۲ (۱۔۲)      [اَوَکُلَّمَا عٰہَدُوْا عَہْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْہُم]

اس میں  ’’عاھَدوا‘‘ اور  ’’نبذ‘‘ نئے لفظ ہیں۔

(۱)  ’’اَوَ‘‘ (اور کیا؟  کیا؟  کیا یہ ہے کہ۔ آیا؟)۔  بیان ہو چکا ہے کہ جب ’’و‘‘ یا ’’ف‘‘ کے ساتھ حرف استفہام  (أ) لگے تو وہ ان سے پہلے آتا ہے یعنی  ’’اَوَ‘‘ یا  ’’اَفَ‘‘ کہتے ہیں اور اگر دوسرا کلمہ استفہام  (ھَلْ) لگے تو وہ بعد میں لگتا ہے، مثلاً کہیں گے  ’’وَھَلْ‘‘ یا  ’’فَھَلْ‘‘ ــــــ قرآنِ کریم میں دونوں استعمالات آئے ہیں۔

(۲)  ’’کُلَّمَا‘‘ (جب بھی۔ جب کبھی بھی۔ جب جب۔ جس بار) جو  ’’کُلَّ‘‘ اور  ’’مَا‘‘ (ظرفیہ)  کا مرکب ہے، اس پر البقرہ: ۲۰ [۱:۱۵:۲ (۳)] میں بات ہوئی تھی۔

(۳) ’’عَاھَدُوا‘‘  کا مادہ  ’’ع ھ د‘‘ اور وزن  ’’فَاعَلُوا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب وغیرہ پر البقرہ: ۲۷ [۱:۱۹:۲ (۱۳)] میں کلمہ  ’’عھد‘‘ کے سلسلے میں بات ہوئی تھی۔ یہ کلمہ  (عاھدوا) اس مادہ سے باب مفاعلہ کے فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل  ’’عَاھَدَ . . . . . یُعَاھِدُ مُعَاھَدَۃً‘‘ کے معنی ہوتے ہیں’’. . . . کو عہد یا قرار دینا،. . . . . سے عہد یا قرار باندھنا ‘‘۔  عہد دینے والا  ’’مُعَاھِد‘‘ اور جس سے عہد کیا جائے  ’’مُعَاھَد‘‘ (بصیغہ مفعول) کہلاتا ہے اور اسی کو حدیث میں  ’’ذُو عھدٍ‘‘  بھی کہا گیا ہے۔

·       بنیادی طور پر یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ آتا ہے اور جس بات پر عہد کیا جاتا ہے اس پر  ’’عَلٰی‘‘  کا صلہ آئے گا، جیسے  ’’ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ  ‘‘  (الاحزاب: ۲۳) میں ہے۔ یعنی ’’ایسے مرد جنہوں نے سچا کر دکھایا اس کو جس پر انہوں نے اللہ سے عہد باندھا تھا۔‘‘ کبھی اس کا مفعول بلکہ جس بات پر عہد کیا جائے دونوں ہی محذوف کر دیئے جاتے ہیں، جیسے اسی زیر مطالعہ آیت میں نہ تو یہ مذکور ہے کہ کس سے عہد باندھا؟ اور نہ یہ بتایا گیا ہے کہ کس بات پر عہد باندھا؟  یہ چیزیں سیاق عبارت سے سمجھی جا سکتی ہیں‘ مثلاً ’’اللہ سے عہد باندھا‘‘ اور دین پر عمل کرنے کا عہد باندھا وغیرہ۔

·       قرآنِ کریم میں باب مفاعلہ کے اس فعل کے مختلف صیغے گیارہ جگہ آئے ہیں، ان میں سے صرف چار جگہ مفعول مذکور ہوا ہے اور اس کے ساتھ  ’’عَلٰی‘‘  کا استعمال بھی صرف دو جگہ آیا ہے . . . .  (عَاھَدُوا = ’’انہوں نے عہد باندھا‘‘)۔

(۴) ’’عَھْدًا‘‘  (عہد۔ قرار) اس پر بحث کے لیے دیکھئے البقرہ: ۲۷ [۲: ۱۹: ۱ (۱۳)]۔

(۵)’’نَبَذَہٗ‘‘ ـــــــ آخری ضمیر منصوب  (ہ) کا ترجمہ تو یہاں ’’اس کو‘‘ ہے اور باقی فعل ماضی کا صیغہ  (نبَذ) ہے جس کا مادہ  ’’ن ب ذ‘‘ اور وزن  ’’فَعَلَ‘‘ ہے۔ یہ فعل مجرد  ’’نبَذ . . . . . یَنبِذُ نَبْذًا‘‘  (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’. . . .(کسی چیز) کو ناقابل توجہ سمجھ کر پرے پھینک دینا‘‘۔ مثلاً  کہتے ہیں  ’’نبَذ النَعلَ الخَلِقَ‘‘  (اس نے پرانا جوتا پھینک دیا) پھر اسی سے اس میں ’’عہد توڑ دینا‘‘ یا  ’’کسی معاملے کو ٹال دینا اور اس پر عمل نہ کرنا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں، مثلاً کہتے ہیں  ’’نبَذ العھدَ‘‘  (عہد پھینک دیا یعنی توڑ دیا) اور  ’’نبَذ الامرَ‘‘  (اس نے بات پر عمل نہ کیا) ـــــــ اس کے علاوہ یہ فعل بعض اور معانی مثلاً  ’’دل کا دھڑکنا‘‘  (نبَذ قلبُہٗ) اور ’’کھجور کا نبیذ‘‘ (ایک مشروب) بن جانا (نبَذ التمرُ) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

·       تاہم قرآنِ کریم میں یہ فعل صرف پہلے معنی (پھینک دینا۔ اور نظر انداز کرنا) کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ البتہ بعض جگہ اس کا مفعول محذوف ہوا ہے۔ قرآنِ کریم میں اس فعل مجرد سے ماضی، مضارع (معروف، مجہول) اور فعل امر وغیرہ کے مختلف صیغے دس جگہ آئے ہیں اور مزید فیہ کے باب افتعال سے بھی ایک صیغہ فعل دو جگہ آیا ہے۔

(۶)’’فَرِیْقٌ‘‘  (گروہ۔ جماعت) اور خود لفظ  ’’فریق‘‘  بھی اردو میں مستعمل ہے۔ اس لفظ کے مادہ، فعل کے باب و معنی وغیرہ پر پہلی دفعہ البقرہ: ۵۰ [۱:۳۲:۲(۱۰)] میں کلمہ  ’’فرَقنا‘‘ میں اور خود اسی لفظ  (فریق)  پر البقرہ: ۷۵ [۱:۴۷:۲ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔

(۷)’’مِنْھُمْ‘‘  (ان میں سے)  ’’مِنْ‘‘ (تبعیضیہ) کے لیے دیکھیے [۲: ۲: ۱ (۵)]۔

·       اس طرح زیر مطالعہ عبارت  (اَوَکُلَّمَا عٰہَدُوْا عَہْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْہُم)  کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: ’’کیا اور جب کبھی بھی انہوں نے باندھا کوئی عہد (تو) پھینک دیا اس کو کسی گروہ نے ان میں سے‘‘ اس کو سلیس اور با محاورہ بنانے کے لیے بعض الفاظ کو آگے پیچھے کرنے (مثلاً ان میں سے کسی گروہ نے) کے علاوہ بعض مترجمین نے یہاں  ’’عاھَدوا‘‘  اور  ’’نبَذ‘‘ کے ماضی کے صیغوں کا ترجمہ  ’’کُلَّمَا‘‘  کی شرط کی وجہ سے حال یا مستقبل میں کیا ہے۔ یعنی ’’باندھیں گے، عہد کرتے ہیں، قول و قرار کرتے ہیں‘‘ اور ’’تو پھینک دیں گے، پھینک دیتا ہے، رد کر دیتا ہے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے محاورے کے مطابق اسے ماضی ہی رہنے دیا ہے، مثلاً ’’انہوں نے جب کبھی کوئی عہد کیا ہے تو ان ہی میں سے کسی (نہ کسی) جماعت (گروہ) نے اسے توڑ پھینکا ہے‘‘ ـــــ ’’فریق‘‘  نکرہ کا یہاں سیاق عبارت کے لحاظ سے با محاورہ ترجمہ ’’کوئی نہ کوئی فریق‘‘ یا ’’کسی نہ کسی جماعت‘‘ زیادہ موزوں ہے۔ بعض نے  ’’نبَذ‘‘ کا ترجمہ ’’پھینک دینا‘‘ کی بجائے ’’نظر انداز کر دینا‘‘، ’’رد کر دینا‘‘ یا ’’توڑ پھینکنا‘‘ سے کیا ہے جس میں محاورے کا زور ہے۔

۱:۶۱:۲ (۳)      [بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ]

(۱)  ’’بَل‘‘ ـــــ (بلکہ) اسے عربی گرامر میں حرفِ اِضراب کہتے ہیں۔ یعنی یہ بنیادی طور پر اپنے سے ما قبل (مفہوم) کی نفی یا تردید کے لیے آتا ہے اور اپنے سے ما بعد والے (مفہوم) کو ثابت کرتا یا برقرار رکھتا ہے۔ یہ بعض دفعہ کسی مفرد کلمہ پر بھی آتا ہے، اُس وقت یہ حرفِ عطف کا کام بھی دیتا ہے، یعنی اس سے پہلے اور بعد والے کلمہ (اسم) کا اعراب ایک ہی ہوتا ہے، مثلاً  ’’لَا تَقُلْ شِعرًا بل نثرًا‘‘ (شعر نہ کہو بلکہ نثر کہو) ـــــ زیادہ تر یہ کسی جملے پر ہی داخل ہوتا ہے اور اپنے سے سابق مضمون کی اپنے سے بعد والے جملے کے مضمون کے ذریعہ سے تردید کرتا ہے، یعنی سابقہ بات کو غلط اور دوسری بات کو ہی درست قرار دیتا ہے۔ ایسے موقع پر اس کا ترجمہ ’’یوں نہیں بلکہ‘‘ یا  ’’ہرگز نہیں بلکہ‘‘ سے کرنا موزوں ہوتا ہے۔ مثلاً  ’’اَمْ يَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ  ۭ بَلْ جَاۗءَهُمْ بِالْحَقِّ ‘‘(المومنون: ۷۰) یعنی ’’کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اسے پاگل پن ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ وہ تو حق لے کر آیا ہے ‘‘۔ البتہ بعض دفعہ یہ سابقہ مضمون کے اِبطال (رد کرنا) کی بجائے ایک دوسرے مضمون کی طرف انتقال (تبدیل ہونا) کے لیے بھی آتا ہے۔ اس وقت اس کا موزوں اردو ترجمہ (لیکن، مگر یا بلکہ) سے ہوتا ہے۔ جیسے  ’’ بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا  ‘‘  (الاعلی: ۱۶) میں ہے ’’مگر تم تو دنیاوی زندگی کو ہی ترجیح دیتے ہو‘‘ اور زیادہ تر اس کا استعمال ابطال کی بجائے انتقال معنی (دوسرے مضمون کی طرف جانا) کے لیے ہی ہوتا ہے ـــــ اردو فارسی کا لفظ ’’بلکہ‘‘ دراصل اسی  ’’بَلْ‘‘ کے بعد فارسی ’’کہ‘‘ لگا کر ہی بنا لیا گیا ہے ــــــ اور اس کا استعمال اردو ’’بلکہ‘‘ ہی کی طرح ہے ـــــ عربی میں کبھی نفی کے لیے اس سے پہلے (مزید تاکید اور زور کے لیے )  ’’کَلاَّ‘‘  (ہرگز نہیں) بھی آتا ہے، جیسے سبا: ۲۷ میں آیا ہے (آیت اور اس کا ترجمہ کسی مترجم نسخہ قرآن میں دیکھ لیجیے)

·       آج کل جدید عربی میں اس کے بعد  ’’وَ‘‘  کا استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں  ’’فلانٌ یُخطئُ بَلْ وَ یُصِرُّ‘‘  (فلاں غلطی کرتا ہے بلکہ اس پر اصرار بھی کرتا ہے) یہ اسلوب قرآنِ کریم میں کہیں نہیں آیا، بلکہ پرانی عربی میں بھی کہیں نہیں آیا ـــــــ یہ صرف جدید استعمال ہے  ــــــ یہ لفظ  (بَلْ)  قرآنِ مجید میں پچیس کے قریب مقامات پر آیا ہے۔

(۲)’’اَکْثَرُھُمْ‘‘  (ان کے اکثر۔ ان میں سے بہت زیادہ۔ ان کی اکثریت) ــــــ لفظ  ’’اکثر‘‘ جو  ’’ک ث ر‘‘ سے افعل التفضیل ہے اس کے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ: ۶ ۲[۲: ۱۹: ۱ (۱۰)] میں کلمہ  ’’کثیر‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔

(۳)’’لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘  (ایمان نہیں لاتے/ رکھتے) یہ فعل  ’’آمَنَ یُؤمنُ اِیمانًا‘‘ سے فعل مضارع منفی کا صیغہ ہے۔ بابِ افعال کے اس فعل کے معنی اور استعمال کے لیے البقرہ: ۳ [۲: ۲: ۱ (۱)] دیکھئے۔

·       یوں اس عبارت  (بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ)  کا لفظی ترجمہ ہے ’’بلکہ اکثر ان کے ایمان نہیں لاتے‘‘۔ اسی کو بعض نے ’’بلکہ ان میں سے اکثر یقین نہیں کرتے‘‘، ’’بلکہ ان میں سے بہت سے تو ایمان ہی نہیں رکھتے‘‘ کی صورت دی ہے۔ بعض نے  ’’لا یُؤمِنُون‘‘   کا ترجمہ ’’بے ایمان ہیں‘‘ کیا ہے، یعنی جملہ فعلیہ کا ترجمہ جملہ اسمیہ (خبر) کے ساتھ جس کی کوئی مجبوری نہ تھی۔ بعض حضرات نے  ’’بَل‘‘  کا ترجمہ ’’اصل یہ ہے/ حقیقت یہ ہے‘‘ سے کیا ہے۔ گویا یہ یوں نہیں/ یہی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے‘‘ کی با محاورہ صورت ہے۔ بعض نے  ’’اکثرھم‘‘  کا ترجمہ ’’ان میں زیادہ تو ایسے ہی نکلیں گے‘‘ سے کیا ہے جو ترجمہ کی حد سے تو تجاوز ہے البتہ مفہوم درست ہے۔

[وَلَمَّا جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ]

اس عبارت کے تمام کلمات پہلے گزر چکے ہیں۔

(۱) ’’وَ لَمَّا‘‘ (اور جب/ جس وقت)  ’’لمَّا‘‘کے معنی اور استعمال پر البقرہ: ۷ [۲: ۱۳: ۱ (۴)] میں بات ہوئی تھی۔

(۲)  ’’جَائَ ھُمْ‘‘ (ان کے پاس آیا) فعل  ’’جَائَ یَجِیْئُ  (آنا) پر البقرہ: ۷۱ [۲: ۴۴: ۱ (۱۴)] میں کلمہ  ’’جِئْتَ‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔

        (۳)’’رَسُولٌ‘‘ (ایک رسول/ پیغمبر) لغوی تشریح کے لیے دیکھیے البقرہ: ۸۷ [۲: ۵۳: ۱ (۱) و (۴)] جہاں  ’’الرّسل‘‘ اور  ’’رسول‘‘  دونوں کلمات آئے ہیں۔

(۴)  ’’مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ‘‘ (اللہ کے پاس سے۔ اللہ کی طرف سے) مزید لغوی تشریح چاہیں تو  ’’مِنْ‘‘ کے لیے [۲: ۲: ۱ (۵)] اور  ’’عِنْدَ‘‘ کے لیے [۲: ۳۴: ۱ (۶)] دیکھیے۔

(۵)’’مُصَدِّقٌ‘‘ (سچ بتانے والا۔ تصدیق کرنے والا) یہ لفظ جو مادہ  ’’ص د ق‘‘ سے باب تفعیل کا اسم الفاعل ہے اس کی مزید لغوی تشریح کے لیے چاہیں تو البقرہ: ۴۱ [۲: ۲۸: ۱ (۹)] دیکھ لیجیے۔

(۶)  ’’لِمَا‘‘ (اس چیز کے لیے جو کہ/ اس چیز کی جو کہ) لام الجر  (ل) کے معنی و استعمال پر [۱: ۲ : ۱ (۴)] میں اور  ’’ما‘‘  موصولہ پر [۲: ۲: ۱ (۵)] پر بات ہو چکی ہے۔

(۷) ’’مَعَھُمْ‘‘ (ان کے ساتھ) ’’مَعَ‘‘ کے معنی و استعمال پر البقرہ: ۱۴ [۲: ۱۱: ۱ (۵)] میں بات ہوئی تھی۔

·       یوں اس زیر مطالعہ عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور جب آیا ان کے پاس ایک پیغمبر اللہ کی طرف سے (جو) سچ بتانے والا (ہے) اس چیز کا جو ان کے پاس ہے ‘‘۔ اس کو سلیس اردو کی شکل دینے کے لیے مترجمین کو نہ صرف عبارت کی اردو ساخت کے مطابق کلمات میں تقدیم و تاخیر (آگے پیچھے کرنا) سے کام لینا پڑا بلکہ محاورے کا لحاظ رکھتے ہوئے بھی بعض تبدیلیاں کرنی پڑیں، مثلاً ’’جب ان کے پاس خدا کی طرف سے پیغمبر آیا‘‘۔ بعض نے  ’’جَائَ ھُمْ‘‘  کا ترجمہ ’’ان کے پاس پہنچا‘‘ کر لیا ہے جو محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہے۔ بعض نے  ’’رسول‘‘ سے مراد نبی کریم ہی لے کر ترجمہ کیا ہے ـــــ اسی طرح لفظ  ’’مصدِّق‘‘  کا ترجمہ بعض نے فعل مضارع کی طرح ’’تصدیق کرتا ہے، تصدیق کر رہے ہیں، سچا بتاتا ہے‘‘ کی صورت میں کر دیا ہے جسے اردو محاورے کی مجبوری کہہ سکتے ہیں مگر جن حضرات نے اس  (مصدِّقٌ)  کا ترجمہ حال کی طرح ’’تصدیق کرتے ہوئے، تصدیق فرماتا، سچ بتاتے ہوئے‘‘ کیا ہے وہ بلحاظ ترجمہ محل نظر ہے کیونکہ یہاں  ’’مصدِّق‘‘  رسول کی صفت ہے حال نہیں ہے۔ بلکہ اردو محاورے میں بھی حال کا ترجمہ بھی صفت سے کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح بعض نے  ’’لِمَا‘‘  کا ترجمہ ’’اس کتاب کی جو، ان کتابوں کی جو‘‘ سے کیا ہے، اسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال ـــــ  یہ عبارت مکمل جملہ نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے اس میں بیانِ شرط کا سا مفہوم ہے، یعنی ’’جب یوں ہوا تو ـــــ‘‘ اس ’’تو‘‘ یا جوابِ شرط کا بیان اگلے جملے میں آئے گا اور یوں یہ دونوں جملے مل کر ایک طویل مکمل جملہ بنتے ہیں۔

[نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ کِتَابَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ]

جہاں تک مفردات کا تعلق ہے اس عبارت کے تمام کلمات کسی نہ کسی صورت میں پہلے زیر بحث آ چکے ہیں۔ لہٰذا ذیل میں ان کے صرف ترجمہ اور لغوی تشریح کے سابقہ حوالے پر اکتفاء کیا جائے گا۔

(۱)  ’’نبَذ‘‘ (پرے پھینک دیا۔ پھینک مارا، ڈال دیا، پھینک دی)۔ اس فعل کے باب معنی اور استعمال پر ابھی اوپر اسی زیر مطالعہ قطعہ یعنی [۲: ۶۱: ۱ (۱ - ۲)] میں بات ہوئی تھی۔

(۲)’’فَرِیْقٌ‘‘ (ایک گروہ/ جماعت/ فریق نے) یہ لفظ ابھی اوپر گزرا ہے۔

(۳)’’مِنَ الَّذِیْنَ‘‘ (ان لوگوں میں سے جو کہ) یعنی یہ ’’پھینکنے والا گروہ ان میں سے تھا جو . . . . . . .‘‘۔ ’’مِن‘‘  یہاں تبعیضیہ ہے (دیکھئے [۲: ۲: ۱ (۷۵)])  ’’الذین‘‘  اسم موصول برائے جمع مذکر ہے۔

(۴)’’اُوتُوا‘‘ (وہ دیئے گئے۔ ان کو دیا گیا/ دی گئی) یہ  ’’ا ت ی‘‘  مادہ سے  ’’اُفْعِلُوا‘‘ کے وزن پر باب اِفعال کا فعل ماضی مجہول صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس کی اصل شکل  ’’أُأْتِیُوْا‘‘  تھی۔ جس میں  ’’أُ أْ‘‘  تو  ’’أُوْ‘‘  بنتا ہے اور واو الجمع سے ما قبل والا حرفِ علت (جو یہاں  ’’ی‘‘ ہے) ساقط ہو جاتا ہے اور عین کلمہ (جو یہاں  ’’ت‘‘ ہے) کی کسرہ  (ـــــِــــ) کو واو الجمع کے مطابق ضمہ  (ــــُـــــ)  میں بدل دیا جاتا ہے۔ یوں یہ لفظ  ’’اُوتُوا‘‘  کی شکل میں لکھا اور بولا جاتا ہے۔ باب اِفعال کے اس فعل  ’’آتٰی یُؤتِی ایتائً‘‘  (کو دینا) کے معنی و استعمال پر البقرہ: ۴۳ یعنی [۲: ۲۹: ۱ (۵)] میں مفصل بحث گزر چکی ہے۔

(۵)’’الکتابَ‘‘ (کتاب) دیکھئے [۲: ۱: ۱ (۲)]۔

(۶)’’کِتَابَ اللّٰہِ‘‘ (اللہ کی کتاب کو) (دیکھئے آگے بحث ’’الاعراب ‘‘)۔ 

(۷)  ’’وَرَائَ . . . . .‘‘  (. . . . .کے پرے، . . . . . .کے پیچھے)۔ اس لفظ پر مکمل لغوی بحث البقرہ: ۹۱ یعنی [۲: ۵۶: ۱ (۱)] میں دیکھیے۔

(۸)’’ظُھُوْرِھِمْ‘‘ (ان کی/ اپنی پیٹھوں . . . . .) لفظ  ’’ظُھُور‘‘، ’’ظَھْرٌ‘‘ (پیٹھ) کی جمع مکسر ہے۔ اس کے مادہ  ’’ظ ھ ر‘‘ سے فعل مجرد وغیرہ پر البقرہ: ۸۵ [۲: ۵۲: ۱ (۳)] میں کلمہ ’’تَظاھَرُون ‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ قرآنِ کریم میں لفظ  ’’ظَھْر‘‘ (بصیغہ واحد) چار جگہ اور  ’’ظُھْور‘‘  (بصیغہ جمع) گیارہ جگہ آیا ہے۔ دونوں کلمات ہر جگہ مرکب (اضافی) کی شکل میں آئے ہیں۔

·       مفردات کی اس وضاحت اور الگ الگ ترجمہ کے بعد آپ دیکھ سکتے ہیں کہ زیر مطالعہ عبارت (نبَذ فریقٌ . . . . .ظُھورِھم) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’(تو) پھینک دیا ایک گروہ نے ان میں سے جن کو دی گئی تھی کتاب اللہ کی کتاب کو پرے (پیچھے) اپنی پیٹھوں کے ‘‘۔ سلیس اردو بنانے کے لیے ایک تو الفاظ میں تقدیم و تاخیر (اردو فقرے کی ساخت کے مطابق) کرنی پڑے گی مثلاً ’’جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو اپنی پیٹھوں پیچھے پھینک دیا‘‘ کی شکل دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض تبدیلیاں اردو محاورے کی خاطر کرنی پڑتی ہیں مثلاً اردو میں ’’پیٹھوں‘‘ (جمع) کی بجائے ’’پیٹھ‘‘ (واحد) کے ساتھ ترجمہ کرنے کی یہی وجہ ہے یعنی ’’پیٹھ پیچھے پھینک دیا/ ڈال دیا/ پھینک مارا ‘‘۔ وغیرہ ہیں۔ بعض نے اس کے لیے فارسی ترکیب ’’پس پشت‘‘ (ڈال دیا) اختیار کی ہے جو اصلی عربی سے کم مشکل نہیں ہے۔ اسی طرح  ’’الذین اوتوا الکتاب‘‘ (جن کو کتاب دی گئی) کا ترجمہ ایک مختصر لفظ ’’اہل کتاب‘‘ کے ساتھ کرنے کی وجہ بھی محاورہ ہی ہے۔

۱:۶۱:۲ (۴)     [کَأَنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ]

        یہ سادہ اور آسان سا جملہ اسمیہ ہے۔ اس میں:

(۱)  ’’کَأَنَّ‘‘ (گویا کہ) مشہور حرف مشبّہ بالفعل ہے (باقی حروف مشبّہ بالفعل ’’اِنَّ، اَنَّ،  لٰکِنَّ، لَیْتَ اور لَعَلَّ‘‘ ہیں جن کے معنی علی الترتیب ’’بے شک، کہ بے شک، لیکن، کاش کہ اور شاید کہ‘‘ ہیں) یہ سب جملہ اسمیہ میں مبتدأ کو (جسے اِنَّ کا اسم کہا جاتا ہے) نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں۔ ’’کَأَنَّ‘‘  کی خبر اگر کوئی اسم جامد (غیر مشتق) ہو تو اس میں تشبیہ کا مفہوم ہوتا ہے جیسے  ’’کأَنَّ زیدًا اسدٌ‘‘ (گویا کہ زید شیر ہے) اور اگر اس کی خبر کوئی اسم مشتق (اسم الفاعل، اسم المفعول وغیرہ) یا کوئی جملہ فعلیہ ہو (جیسے زیر مطالعہ عبارت میں ہے) تو اس میں عموماً ’’ظن‘‘ یعنی گمانِ غالب کا مفہوم ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں  ’’کَأَنَّ‘‘  بیس سے زائد جگہ آیا ہے اور زیادہ تر اس کا اسم کوئی ضمیر (ہ - ھا - ھم - ھن وغیرہ) آئی ہے۔ کبھی حروفِ مشبّہ بالفعل کے بعد (ساتھ)  ’’ما‘‘  زائدہ بھی لگتا ہے جسے  ’’ما  کافّہ‘‘ کہتے ہیں۔ جیسے  ’’انَّما، کأَنَّما  وغیرہ میں ہے۔ اس سے معنی میں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا (البتہ تاکید کا مفہوم زیادہ ہو جاتا ہے) مگر اس صورت میں حروفِ مشبّہ بالفعل کا کوئی عمل نہیں ہوتا۔  ’’کَأَنَّمَا‘‘  بھی قرآنِ کریم میں پانچ مقامات پر استعمال ہوا ہے۔

(۲)’’ھُمْ‘‘  (وہ) یہ ضمیر یہاں ’’کَأَنَّ‘‘  کا اسم ہو کر آئی ہے۔

(۳)’’لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘  (وہ نہیں جانتے) اس کا فعل  ’’عَلِمَ یعلَم‘‘  (جاننا) کئی دفعہ گزر چکا ہے۔ پہلی دفعہ اس کے باب اور معنی و استعمال پر الفاتحہ: ۲ [۱: ۲: ۱ (۴)] میں کلمہ  ’’عالَمین‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی اور پھر البقرہ: ۱۳ [۲: ۱: ۱ (۳)] میں یہی لفظ  ’’لَا یعلمون‘‘  گزرا ہے۔

·       اس عبارت کا سادہ لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’گویا کہ وہ نہیں جانتے‘‘ جس کی ایک صورت ’’گویا ان کو معلوم نہیں‘‘ یا ’’گویا ان کو علم نہیں‘‘ بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم اردو محاورے کے مطابق مفہوم میں زور پیدا کرنے کے لیے بیشتر مترجمین نے یہاں ’’کچھ‘‘ اور ’’ہی‘‘ کا اضافہ کیا ہے، یعنی ’’گویا ان کو کچھ علم ہی نہیں/ کچھ خبر ہی نہیں/ علم ہی نہیں رکھتے/ جانتے ہی نہیں‘‘ وغیرہ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے، اگرچہ اصل عبارت میں  ’’شیئًا‘‘  وغیرہ کی قسم کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ یعنی ان کی عملی حالت دیکھ کر گمانِ غالب یہی ہوتا ہے کہ گویا وہ بالکل بے خبر ہیں (کتاب اللہ سے). . . . .قصہ تو یہود کا ہے مگر اس میں غور اور عبرت کا مقام (قرآن کے حوالے سے) مسلمانوں کے لیے بھی ہے۔

 

۲: ۶۱: ۲     الاعراب

بیانِ اعراب کے لیے اس قطعہ کو سات چھوٹے جملوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں سے دو کا باہمی تعلق شرط اور جوابِ شرط کا سا ہے۔ لہٰذا ان دونوں کو مجموعی طور پر لے کر ہی جملہ شمار کیا جا سکتا ہے۔ تفصیل یوں ہے:

(۱)  وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ

[وَ]  یہاں مستانفہ ہے  [لَقَدْ]  حرفِ تاکید اور حرفِ تحقیق جمع ہو گئے ہیں  [اَنْزَلْنَا]  فعل ماضی معروف مع ضمیر تعظیم  ’’ نَحْنُ ‘‘ ہے [ِاِلَیْک]  جار (الٰی)  اور مجرور (ک)  مل کر متعلق فعل  ’’اَنْزَلْنَا‘‘  ہیں جو مفعول سے مقدم آئے ہیں کیونکہ در اصل تو بنتا تھا  ’’لَقَدْ اَنْزَلْنَا آیاتٍ بیّناتٍ الیک‘‘ . . . . .[آیاتٍ]  فعل  ’’انزلنا‘‘  کا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے، علامت نصب  ’’اتٍ‘‘ ہے کیونکہ یہ جمع مؤنث سالم ہے [بیناتٍ]  صفت ہے (آیات کی) اس لیے منصوب ہے۔ یہ بھی اسی طرح جمع مؤنث سالم ہے۔

(۲) وَمَا یَکْفُرُ بِہَآ اِلاَّ الْفٰسِقُوْنَ

[وَ]  عاطفہ ہے اور  [مَا]  نافیہ ہے [یَکفُر]  فعل مضارع معروف صیغہ واحد مذکر مؤنث ہے  [بِھَا]  جار (بِ)  اور مجرور  (ھَا)  مل کر متعلق فعل  ’’یکفر‘‘ ہے۔ یا اگر  ’’بِ‘‘  کو فعل  ’’یکفر‘‘  کا صلہ قرار دیں تو پھر مرکب جاری  (بھا)  کو مفعول سمجھ کر محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں۔  [اِلَا]  حرف استثناء ہے، اس سے پہلے فعل  ’’یکفر‘‘  کا فاعل  ’’احدٌ‘‘  محذوف ہے۔ [الفَاسِقُون]  یہاں   یکفر  کا فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے (علامت رفع آخری نون سے ما قبل ــــُـــــ وْ ) ہے ــــ چونکہ یہاں حرف استثناء سے پہلے جملہ منفی غیر تام (غیر مکمل) ہے اس لیے  ’’الفاسقون‘‘  کا اعراب موقع کے مطابق رفع کا ہے۔ یعنی اگر  ’’ما‘‘  نافیہ اور  ’’الا‘‘  کو ہٹا دیں تو باقی  ’’یکفر الفاسقون‘‘  ہی بنتا ہے۔

(۳) ’’اَوَکُلَّمَا عٰہَدُوْا عَہْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ‘‘

[اَوَ]  ہمزہ استفہام اور واو العطف کا مرکب ہے (استعمال کے لیے دیکھیے حصہ  اللغۃ  [کُلَّمَا]  اس میں ظرف اور شرط جمع ہیں۔ یعنی یہ ظرف زمان متضمن معنئ شرط ہے [عاھَدوا]  فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے۔  [عَھْدًا]  اسے فعل  ’’عاھدوا‘‘ کا مفعول بہٖ (لہٰذا منصوب) بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس صورت میں یہاں ایک مفعول محذوف ہے (مثلاً  عاھَدُوا اللّٰہَ یا عاھدوکم بھی کہہ سکتے ہیں۔  [نبَذہ] ’’نبَذ‘‘  تو فعل ماضی معروف برائے واحد مذکر غائب ہے اور ضمیر منصوب  (ہ)  مفعول بہ مقدم ہے کیونکہ مفعول کوئی ضمیر ہو تو فاعل سے پہلے آتی ہے۔  [فریقٌ]  فعل ’’نبَذ‘‘   کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے‘ علامت رفع تنوین رفع  (ــــٌـــــ)  ہے  [منھم]  جار  (مِن)  اور مجرور  (ھُم)  مل کر  ’’فریق‘‘  کی صفت یا بیان ہے۔ یعنی ایسا گروہ جو ان ہی میں سے ہے۔

(۴)  بَلْ اَکْثَرُہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ

[بَلْ]  حرفِ اضراب ہے جو یہاں سابقہ مضمون (عہد کو پرے پھینک دینا) کے ابطال کے لیے نہیں بلکہ انتقال مضمون کے لیے ہے۔ یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ عہد کی پروا نہیں کرتے بلکہ وہ تو ایمان سے ہی محروم ہیں۔  [اکثرھم]  مضاف (اکثر)  اور مضاف الیہ (ھم)  مل کر مبتدأ بنتا ہے اسی لیے ’’اکثر‘‘  مرفوع ہے۔ اور  [لا یؤمنون]  فعل مضارع منفی مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ پورا جملہ فعلیہ ہو کر  ’’اکثرھم‘‘  کی خبر بن رہا ہے۔

(۵)  وَلَمَّا جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ

[وَ]  عاطفہ ہے اور [لَمَّا]  حینیہ ظرفیہ ہے، یعنی یہ وقت کا مفہوم رکھتا ہے (’’جب‘‘ کا) جس میں ایک طرح سے شرط کا معنی بھی موجود ہے مگر یہ جازم نہیں ہے۔  [جائَ ھم]  فعل ماضی معروف (جائَ)  مع ضمیر (ھم)  مفعول بہ ہے اور [رسول]  اس فعل (جائَ)  کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے۔ [مِن عندِ اللّٰہ]  مرکب جارّی (جس میں ’’مِن‘‘  حرف الجر ہے اور  ’’عندِ‘‘  ظرفِ مضاف اور مجرور بالجر بھی ہے اور  ’’اللّٰہِ‘‘  مجرور بالاضافہ ہے)  ’’رسولٌ‘‘ (جو نکرہ موصوفہ ہے) کی صفت بنتا ہے (یعنی ایسا رسول جو اللہ کی طرف سے ہے) اور  [مصدِّقٌ]  اس  (رسول)  کی دوسری صفت ہے جو چاروں (حالت، جنس، عدد، وسعت) لحاظ سے اپنے موصوف کے مطابق ہے۔  [لِمَا]  جار (لِ)  اور مجرور  ( مَا  موصولہ) مل کر  ’’مصدِّقٌ‘‘ سے متعلق ہیں۔ یعنی یہ  کس کا مصدّق؟  کا جواب مہیا کرتا ہے۔  [مَعَھُمْ]  ظرفِ مکان مضاف (معَ)  اور مضاف الیہ  (ھُمْ)  مل کر اسم موصول  (مَا) کا صلہ بنتا ہے۔ اور یوں یہ پوری عبارت [لما معھم]  مل کر  ’’مصدِّق‘‘ کے معنی فعل (تصدیق کرتا ہے) سے متعلق ہے۔ بلحاظ معنی یہاں تک جملہ مکمل نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایک طرح سے بیان شرط ہے (اگرچہ اس میں کوئی جازم بھی نہیں اور یہ قصہ بھی زمانہ ماضی کا بیان ہو رہا ہے تاہم اس کے بعد حرفِ ربط کے طور پر اگلی عبارت سے پہلے ایک ’’تو‘‘  کا اضافہ ضروری معلوم ہوتا ہے، یعنی ’’جب. . . . . . تو . . . . . .‘‘ کی صورت میں، اس لیے اگلا جملہ اس جملے سے مربوط ہے)۔

(۶)  نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ

[نبَذ]  فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے اور  [فریقٌ]  جو یہاں نکرہ موصوفہ بھی ہے، اس فعل کا فاعل (لہذا) مرفوع ہے۔ یعنی ’’ایک ایسے گروہ نے جو‘‘۔  [من الذین]  جار (مِن) اور مجرور(الذین جو اسم موصول بھی ہے) مل کر  ’’فریقٌ‘‘ کی صفت کا کام دے رہے ہیں (یعنی جو ان لوگوں میں سے ہے جو)  [اُوتُوا]  فعل ماضی مجہول مع مرفوع ضمیر برائے نائب الفاعلین  ’’ھم‘‘ ہے اور [الکتابَ]  اس فعل کا مفعول بہ ثانی ہے جو نصب میں آیا ہے (دو مفعول والا فعل جیسے  ’’آتٰی یُؤتِی‘‘ ہے۔ مجہول آئے تو ایک مفعول نائب فاعل بن کر رفع میں آتا ہے اور دوسرا نصب میں آتا ہے) علامت نصب آخری  ’’ب‘‘  کی فتحہ  (ـــــَــــ) ہے کیونکہ یہ معرّف باللام بھی ہے۔ [کتابَ اللّٰہِ]  مرکب اضافی ہے جس میں مضاف  (کتابَ) فعل  ’’نبَذ‘‘ کا مفعول بہٖ ہونے کے باعث منصوب ہے اور آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے اس لیے یہاں بھی علامت نصب فتحہ  (ـــــَــــ) ہی رہ گئی ہے۔ اور اسم جلالت  (اللّٰہ) مجرور بالاضافہ ہے  [ورائَ ظُھورھم]  یہ مجموعی طور پر تو مرکب اضافی ہے جس میں  ’’وراء‘‘  ظرف مضاف ہے اور  ’’ظھور‘‘  اس  (وراء) کا مضاف الیہ اور آگے مضاف بھی ہے اسی لیے خفیف بھی اور مجرور بھی ہے۔ یعنی اس میں علامت جر  اب آخری  ’’ر‘‘ کی ایک کسرہ (ـــــِــــ) رہ گئی ہے اور آخر پر  (ھم)  ضمیر مجرور اس  (ظھور) کا مضاف الیہ ہے۔ اس پورے مرکب اضافی  (وراء ظھورھم) کے پہلے جزء  (وراء) کی نصب در اصل تو ظرف (مکان) ہونے کی وجہ سے ہے  ـــــــــ  تاہم بعض نحوی یہ کہتے ہیں کہ چونکہ یہاں ’’پیٹھ پیچھے/ سے پرے‘‘ کا مطلب ’’حسی‘‘ نہیں لیا جا سکتا ــــــ  یعنی کتاب کو کسی ’’جگہ‘‘ (جو حواس سے معلوم کی جا سکتی ہو) تو نہیں پھینکا تھا۔ بلکہ یہاں مجازاً  ’’پھینکے ہوئے جیسا بنا دینا‘‘ مراد ہے۔ گویا یہاں فعل  ’’نبَذ‘‘ (پھینک دیا) در اصل  ’’جعَل‘‘ یا  ’’ صبَّر ‘‘ کے معنی میں ہے جس کے دو مفعول ہوتے ہیں اس لیے یہاں ’’ وراء‘‘ در اصل مفعول بہ ثانی کا درجہ رکھتا ہے  ـــــــ لیکن یہ سب تکلف معلوم ہوتا ہے۔ اسلوب عبارت سے ہی ظاہر ہے کہ یہاں ’’پھینک‘‘ دینا سے مراد ’’حسی‘‘ طور پر پھینکنا مراد نہیں جیسا کہ حصہ  ’’اللغۃ‘‘  میں اس فعل کے معانی میں بیان ہوا ہے۔

(۷)   کَاَنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ

[کأنھم] حرفِ مشبہّ بالفعل  (کان) اور اس کے اسم  (ھم) پر مشتمل ہے اور  [لا یعلمون] فعل مضارع معروف منفی مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ بن کر ’’اکثرھم‘‘ کی خبر ہے۔ اگرچہ یہ ایک مستقل جملہ اسمیہ ہے تاہم سیاق و سباق عبارت کے لحاظ سے اسے ’’پھینکنے والے گروہ‘‘ کا (یعنی فعل نبذ کے فاعلین کا) حال قرار دیا جا سکتا ہے یعنی انہوں نے یہ کام بے خبروں اور جاہلوں سے مشابہ (مانند) ہوتے ہوئے کر ڈالا تھا۔

 

۲: ۶۱: ۳      الرسم

زیر مطالعہ قطعہ آیات میں بلحاظ رسم صرف چھ کلمات وضاحت طلب ہیں، یعنی  ’’ایت، بینت، الفسقون، کلما، عھدوا  اور الکتاب‘‘ (جو عبارت میں دو دفعہ آیا ہے) تفصیل نمبر وار یوں ہے:

(۱)’’ایت‘‘ جس کا عام رسم املائی  ’’ آیات‘‘ ہے۔ قرآن مجید میں یہاں اور (زیادہ تر) ہر جگہ  ’’بحذف الالف بعد الیاء‘‘  لکھا جاتا ہے چاہے مفرد ہو یا مرکب اور نکرہ ہو یا معرفہ۔ البتہ ایک دو جگہ کے بارے میں اختلاف ہے، ان کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا۔ نیز دیکھیے البقرہ: ۶۱ [۲: ۳۹: ۳] میں کلمہ  ’’ آیات اللّٰہ ‘‘  اور البقرہ: ۳۹ یعنی [۲: ۲۷: ۳] میں  ’’ایاتنا‘‘ کی بحث رسم۔

(۲)’’بینت‘‘ کا عام رسم املائی  ’’بینات‘‘ ہے مگر قرآنِ کریم میں یہ یہاں اور ہر جگہ بحذف الالف بعد النون لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھئے البقرہ: ۸۷ [۲: ۵۳: ۳] میں کلمہ  البینات  کی بحث رسم۔

(۳)’’الفسقون‘‘ جس کی عام املاء  ’’الفاسقون‘‘ ہے، قرآنِ کریم میں یہاں اور ہر جگہ  بحذف الالف بعد الفاء  لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھیے البقرہ: ۲۶ [۲: ۱۹: ۳] میں کلمہ  ’’الفاسقین‘‘  کی بحث سم۔

(۴)’’کُلَّما‘‘ یہ لفظ یہاں اور قریباً  ہر جگہ اسی طرح موصول (یعنی  ’’کُلَّ‘‘ اور ’’مَا‘‘  کو ملا کر) لکھا جاتا ہے ــــ البتہ ایک جگہ (ابراہیم: ۳۴) یہ مقطوع (بصورت  ’’کُلَّ مَا‘‘ ) لکھا جاتا ہے اور تین چار مقامات پر یہ مقطوع اور موصول کے درمیان مختلف فیہ ہے ان پر حسب موقع بات ہو گی۔ نیز دیکھیے البقرہ: ۲۰ [۲: ۱۵: ۳] (بحث الرسم)

(۵)’’عھدوا‘‘ جس کا عام رسم املائی  ’’عاھدوا‘‘ ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ یہاں تو بالاتفاق  ’’بحذف الالف بعد العین‘‘ لکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہی صیغہ فعل  (عاھَدوا)  قرآنِ کریم میں مزید تین جگہ بھی آیا ہے، ان میں سے الف (بعد العین) کے حذف اور اثبات کے بارے میں اختلاف ہے۔ اسی طرح قرآنِ کریم میں بابِ مفاعلہ کے اس فعل سے ماضی ہی کے کچھ اور صیغے  (عاھد، عاھدت، عاھدتم) بھی سات جگہ آئے ہیں، ان میں سے بھی صرف ’’عاھد‘‘ کے حذف الف (’’عٰھَدَ‘‘ لکھنے) پر اتفاق ہے مگر باقی کلمات کا رسم اِس (حذف و اثبات) کے بارے میں مختلف فیہ ہے ــــــ لہٰذا ان تمام کلمات پر حسب موقع بات ہو گی۔

(۶)’’الکتٰب اور کتٰب اللّٰہ‘‘  اس میں کلمہ  ’’کتب‘‘  کا عام رسم املائی تو  ’’ کتاب‘‘ ہے مگر قرآنِ کریم میں یہ کلمہ ہر جگہ (ما سوائے چار خاص مقامات کے)  بحذف الالف بعد التاء  ہی لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھیے البقرہ: ۲ [۲: ۱: ۳] میں  ’’الکتب‘‘ کے رسم پر بحث۔

 

۲: ۶۱: ۴      الضبط

اس قطعہ آیات میں بھی ضبط کا تنوع زیادہ تر الف محذوف، ھاء کنایہ، نون مخفاۃ  و مظہرہ، حرفِ علت کے طریق ضبط میں منحصر ہے‘ نیز افریقی مصاحف میں متطرف (آخر پر آنے والے) حروف  (ی ن ف ق)  کا عدم اعجام بھی قابل ذکر ہے۔ درج ذیل نمونوں سے آپ ضبط کے اس اختلاف یا تنوع کو سمجھ سکتے ہیں جہاں صرف حرکت کی صورت (یعنی فتحہ کسرہ ضمہ یا سکون) کا فرق ہے اسے دوبارہ نہیں لکھا گیا۔