سُوْرَۃُ الفَاتِحَۃِ
تسمیہ

          قرآن کریم کی پہلی سورت کے کئی نام یا ’’لقب‘‘  کتابوں میں مذکور ہیں۔ مصاحف میں اس کا عنوان برصغیر اور بیشتر عرب اور افریقی ممالک میں اسی طرح لکھاجاتا ہے یعنی ’’سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃِ‘‘ ۔ البتہ بعض ممالک (مثلاً ترکی، ایران، نائیجیریا اور بعض دفعہ شام) کے مصاحف میں اس کا عنوان ’’سُوْرَۃُ الفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ‘‘ لکھا جاتا ہےـــ اور اس میں ’’الکتاب‘‘ سے مراد اللہ کی کتاب یعنی قرآن کریم ہی ہوتا ہے۔

          یہ سورۃ اکثر اہلِ علم کے نزدیک‘بلحاظِ نزول مکّی‘ سورت ہے۔ اور اس کی آیات کی کل تعداد جو بلا اختلاف سات (۷)ہے۔ تاہم اس بات میں اختلاف ہے کہ کہاں کہاں آیت ختم ہوتی ہے۔ مکی اور کوفی  ’’طریقہ شمار‘‘ کے مطابق ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ اس سورۃ کی پہلی مکمل آیت ہے ـــباقی پانچ طریقہ ہائے شمار ـــیعنی مدنی اوّل وثانی، بصری، دمشقی اور حفصی ـــ کے مطابق ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘‘ پر اس سورت کی آیت نمبر۱ختم ہوتی ہے یعنی ’’بسم اللہ‘‘ ا ٓیت کا جزوہے۔ ان پانچ طریقِ شمار آیات کے مطابق ’’اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ پر آیت نمبر۶ ختم ہوتی ہے جب کہ پہلے دوـــ  مکی اور کوفیـــ طریقۂ شمار کے مطابق وہاںـــ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ پرـــ اختتام آیت نہیں ہےـــ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاںـــ بر صغیر میں سورۃ کے اس پہلے ’’عَلَیْھِمْ‘‘ کے بعد غیر کوفی  آیت کا نشان ’’۵‘‘ ڈالا جاتا ہے۔ ’’پہلا‘‘ اس لئے لکھا ہے کہ سورۃ میں ’’عَلَیْھِمْ‘‘ دو دفعہ آیاہے۔

          لفظ ’’سُوْرَۃ‘‘ کی لغوی اصل کے بارے میں دو قول ہیں:

۱۔ پہلا قول:اس کا مادہ ’’س و ر‘‘ اور وزن ’’فُعْلَۃٌ‘‘ ہے۔ فعل ثلاثی مجرد سَارَ یَسُورُ سَوْرًا (باب نصر سے) کے معنی ہیں بلند ہونا دیوار پر چڑھنا اور اس مادہ سے ہی باب ’’تَفَعّل‘‘ کا ایک صیغہ فعل قرآن کریم (ص:۲۱) میں وارد ہوا ہے ـــاور اس سے ہی ’’سُوْرٌ‘‘ بمعنی شہر کی فصیل (بیرونی دیوار)  آتا ہے اور یہ لفظ بھی قرآن کریم (الحدید: ۱۳) میں آیا ہے۔ اس لفظ (سُوْرٌ) کے ایک معنی درجہ اور منزلت بھی ہیں۔ اور عربی زبان میں کامل اور مکمل اونٹنی کو بھی ’’سُورَۃٌ‘‘ کہتے ہیں۔

۲۔ دوسرا قول: اس کا مادہ ’’س ء ر‘‘ اور وزن ’’ فُعْلَۃ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد    سَأَر یَسْأَرُ سُوْراً  (باب فتح سے ) اور سَئِرَ یَسْأَرُ سُؤْراً (باب سمع سے) ہر دو کے معنی ہیں باقی بچنا، کچھ حصہ باقی رہ جانا۔اور ’’سُوْرَۃٌ ‘‘ معنی ہیں بقایا حصّہ یا (صرف) ’’حصّہ‘‘ـــ اور ھمزۂِ ساکنہ ماقبل متحرک کو اس کی حرکت کے موافق حرف (ا، و، ی) کی صورت میں پڑھنا جائز ہے یعنی عرب اس طرح بھی بولتے ہیں۔ اس بناء پر’’سُؤْرَۃ ‘‘کو’’سُوْرَہٌ‘‘ بولنا بھی جائز ہے۔ ویسے یہ مادہ اور اس سے کوئی فعل قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا ہے ـــ اس طرح لفظ ’’سُوْرَۃ‘‘ میں ـــ رتبہ، درجہ، منزلت، ایک مکمل وحدت (unit)اور حصہ کے معنی شامل ہیں۔

          لفظ ’’الفاتحۃ‘‘ کا مادہ ’’ف ت ح‘‘ اور وزن ’’فَاعِلَۃٌ‘‘ ہے۔ اور یہ فعل ثلاثی مجرد فَتَحَ یَفْتَحُ فَتْحاً بمعنی ’’کھولنا‘‘ سے اسم فاعل مؤنث کا معرف باللّام صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ’’کھولنے والی‘‘۔ یہ اس سورۃ کا معروف اور زیادہ مستعمل نام ہے۔ قرآن کریم کو شروع سے کھولیں تو سب سے پہلے یہی سورت سامنے آتی ہے۔

          اب ہم اللہ عزوجل کے بابرکت نام کے ساتھ اس سورۃ کا مطالعہـــ بلحاظ لغات و اعراب اور رسم و ضبط  ـــشروع کرتے ہیں۔

 

۱:۱     بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ             

          یہ بیان ہو چکا ہے کہ (بِسْمِ اللّٰہِ) (جسے قر ّاء کی اصطلاح میں’بَسْمَلَۃ‘‘ کہتے ہیں) مکی اور کوفی طریقۂِ شمارآیات کے مطابق سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت ہےـــ اس لئے اس کے اختتام پر آیت کا نمبر شمار(۱) دیا گیا ہے۔
۱:۱:۱     اللغۃ

۱:۱:۱(۱) [بِسْمِ] =بِ +اسْم  ـــ’’باء‘‘ (بِ) کے معنی اور مختلف استعمالات پر استعاذہ کی بحث میں بات ہوچکی ہےــیہاں یہ (بِ) ’’کے ساتھ‘‘  ،  ’’کی مدد سے ‘‘  یا صرف  ’’سے‘‘  کے معنی میں آیا ہے۔

          لفظ ’’اِسْمٌ‘‘ (جو اردو کے لفظ ’’نام‘‘ کا ہم معنی ہے) کی لغوی اصل کے بارے میں دو قول ہیں:

۱۔اکثر اہلِ لغت کے نزدیک اس کا مادہ ’’س م و‘‘ (ناقص واوی) ہے اور اس کا وزن اصلی ’’فِعْلٌ‘‘ یا  ’’فُعْلٌ‘‘ ہے۔ یعنی اس کی شکل اصلی ’’سُمْوٌ‘‘ ، ’’ سِمْوٌ‘‘ یا ’’سَمَوٌ‘‘ ہے‘‘ ـــ اہل عرب اس کے آخری واو (لام کلمہ) کو گرا کر باقی لفظ کو کئی طرح بولتے ہیں۔ مثلاً سِمٌ، سُمٌ، سُمًی، اُسْمٌ اور  اِسْمٌ ـــان میں سے زیادہ عام اور مستعمل صورت ’’اِسْم‘‘ ہی ہے۔ اس طرح اب اس کا وزن استعمالی ’’اِ فْحٌ‘‘ رہ گیا ہے۔ اس مادہ (سمو) سے فعل ثلاثی مجرد سَمَا یَسْمُوْ سُمُوًّا (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’بلند ہونا‘‘، ’’رتبہ پانا‘‘ـــ اس طرح اس لفظ (اسم) کو اپنے معنوں سے یہ مناسبت ہے کہ اپنے اسم (نام) کی وجہ سے مُسَمَّی (نام والا) دوسری چیزوں سے نمایاں اور ممتاز ہو جاتا ہے۔

۲۔بعض ماہریں لغت کے نزدیک لفظ ’’اِسْم‘‘ کا مادہ ’’و س م‘‘ (مثال واوی) اور وزن اصلی ’’فِعْلٌ‘‘ یا ’’فُعْلٌ‘‘ ہی ہے۔ یعنی شکلِ اصلی ’’وِسْمٌ‘‘ یا  ’’وُسْمٌ‘‘ (دونوں طرح) ہے۔ مگر یہاں اہلِ عرب ابتدائی ’’و‘‘ (فاء کلمہ) کو گرا کر اس کی جگہ ھمزہ (الف) لگا کر ’’اِسْمٌ‘‘ بولتے ہیں۔یعنی اس صورت میں اب اس کا وزن ’ ’ اِعْلٌ‘‘ رہ گیا ہے۔ اس مادے سے فعل ثلاثی مجرد  وَسَم یَسِم ُوَسْمًا (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’…پر ٹھپہ لگانا‘‘   ’’…کو نشان زدہ کرنا‘‘ یعنی یہ فعل متعدی ہے۔ اور اس کے ساتھ مفعول بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) آتا ہے۔ یعنی ’’وَسَمَہٗ‘‘ کہیں گے۔ اس لحاظ سے لفظ ’’اسْم‘‘ کے معنوں کو اپنے مسمَّی سے یہ مناسبت ہے کہ وہ اس کے لئے نشان یا علامتِ امتیاز ہے۔

          گویا دونوں صورتوں میں مشترک شے ’’امتیاز‘‘ ہے۔ پہلے مادّہ میں ’’ممتاز ہونا‘‘ کا مفہوم ہے اور دوسرے میں ’’ممتاز کرنا‘‘ کاـــاور لفظ ’’اسم‘‘ (نام) میں دونوں معنی شامل ہیں۔

          تاہم اہلِ علم کی اکثریت پہلے قول (’’سمو‘‘والے ) کو ترجیح دیتی ہے۔ اور اسکی ایک وجہ انکے نزدیک یہ ہے کہ ’’اسم‘‘ کی جمع ’’اَسْمَاءٌ‘‘ آتی ہے جس کا وزن ’’اَفْعَال‘‘ (اور شکل اصلی ’’اَسْمَاوٌ‘‘) ہے۔ اگر اس کامادّہ ’’وسم‘‘ ہوتا تو اس کی جمع ’’اَوْسَام‘‘ آتی۔

          دونوں صورتوں میں ’’اسم‘‘  کے شروع کا ھمزہ (بصورت الف) اصلی (یعنی مادّہ کا) نہیں ہے۔ بلکہ صرف ھمزۃ الوصل ہے جو حرفِ ساکن (’’سْ‘‘) سے پہلے ضرورتاً  (برائے تلفّظ) لگایا گیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ کسی ماقبل (اپنے سے پہلے) حرف کے ساتھ وصل (ملنے) کی صورت میں یہ تلفّظ سے ساقط (Silent) ہوجاتا ہے۔

۱:۱:۱ (۲)     [اللّٰہِ]عربی زبان میں یہ لفظ (جسے احتراماً ’’اسم جلالت‘‘ کہتے ہیں) پوری کائنات کے خالق و مالک کے نام کے طور پر قبل از اسلام دور میں بھی (بلکہ زمانہ ہائے دراز سے) استعمال ہوتا تھا۔ پھر قرآن و حدیث میں بھی یہی نام استعمال ہوا ہےــــ اس لئے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیںـــبلکہ جائز بھی نہیںـــکسی اور زبان کاـــ ان ہی معنوں کے لئے مستعملـــکوئی لفظ بھی اس کا صحیح بدل نہیں ہوسکتا۔ مثلاً فارسی کا ’’خدا‘‘، ہندی کا ’’پرماتما‘‘ یا انگریزی کا ’’GOD‘‘ وغیرہ۔ مسلمانوں کو ہمیشہ اسمِ جلالت (’’اللّٰہ‘‘) ہی کے استعمال کو ترجیح دینی چاہئے۔ یہ اسلامی ثقافت کا نشا ن ہے۔

          فارسی یا پہلوی زبان کا لفظ’’خدا ‘‘ اب بہت سے مشرقی اسلامی ملکوں میں’’اللّٰہ‘‘کے ہم معنی بلکہ مترادف کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ عام زبان میں اس کا استعمال درست بھی سمجھا جائے تب بھی دینی تحریروں میںـــ اور خصوصاً قرآن و حدیث سے ترجمہ کرتے وقت اصل لفظ ’’ اللّٰہ‘‘ کا استعمال ہی مناسب ہے۔ بعض جاہلوں نے ’’خدا‘‘ سے بھی آگے بڑھ کر ’’اللہ‘‘ کے لئے قانونِ خداوندی  کا لفظ استعمال کرڈالا ہے۔ دراصل تو اس کے پیچھے ذات الٰہی (Personal God) کے انکار کے عقیدہ کار فرماہے۔ تاہم ’’خدا‘‘ کی بجائے ’’خداوند‘‘ کا لفظ استعمال کرنا تو صریح غلطی بلکہ جہالت ہے۔ اس کے تو معنی ہی ’’خدا جیسا‘‘ کے ہیں۔ اور اسی لئے مسیحی اسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

          لفظ ’’اللّٰہ‘‘ کی لغوی اصل کے بارے میں بیشتر اہلِ علم کی رائے تو یہی ہے کہ یہ دراصل ’’اَلاِلٰہ‘‘ (اَلْ + اِلٰہ) تھا۔ یعنی ’’اِلٰہٌ ‘‘ کو معرّف بالّلام کر لیاگیا۔ پھر کثرت استعمال کی بناء پر درمیانی ھمزہ ساقط کر دیا گیا اور دونوں ’’لام‘‘ مدغم ہوگئے اور یوں ’’تشدید‘‘ پیدا ہوئی۔ اور یہ تشدید ـــبلکہ تفخیم (  ُپر کرکے پڑھنا) کے ساتھ تشدید ـــ اسمِ جلالت کی خصوصیت ہے۔ اور ’’اَلْ‘‘ کو بھی تعظیماً اس اسم کا مستقل حصہ بنا دیا گیا ہے جو کسی صورت میں اس سے الگ نہیں ہوتا۔ اور اس کا معاملہ دوسرے معرف باللّام اسماء سے مختلف ہے۔ مثلاً نداء میں اسے بالکل ہمزہ قطعی سمجھا جاتا ہے۔  یعنی ’’یَااَللّٰہ‘‘ کہیں گےاس نظریہ کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عربی جاہلی اشعار میں’ ’ اَ لْاِ لٰہ‘‘ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے [1]

          اس طرح لفظ’’ اللّٰہ ‘‘کے معنی سمجھنے کے لئے لفظ ’’اِلٰہ‘‘ کے مادہ، اشتقاقِ لغوی اور بنیادی معنی کو جاننا ضروری ہے۔ لفظ ’’اِلٰہ‘‘ کے مادہ اور اس کی لغوی اصل کے بارے میں اہلِ لغت و نحو کی آراء و اقوال کا خلاصہ یہ ہے:

          پہلا قول: اُس کا مادہ ’’ا ل ہ‘‘ اور وزن ’’فِعَال‘‘ ہے۔ اس مادّے سے مستعمل کئی افعال اس اشتقاق کی دلیل بنتے ہیں مثلاًـــ

(۱) اَلَــہَ یَأ لَـہَ (فتح سے) کے معنی عَبَدَ یَعبُدُ (نصر سے) یعنی عبادت کرنا ہیں۔ اس طرح ’’اِلاَہٌ‘‘ فِعَالٌ بمعنی مفعول ہے جیسے کتاب بمعنی مکتوب ہے۔ گویا  اِلاَہٌ = مَأْ لُوہٌ = مَعْبُودٌ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اردو میں اس کا ترجمہ’’ معبود‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ اس لفظ کا تلفظ یہی (اِلَاہٌ) ہے مگر اس کی املاء (رسم الخط) قرآن کریم میں بھیـــاور عام عربی میںـــبھی ’’اِلٰـــہ‘‘ ہی ہے۔

(۲)     اَلِہَ اِلٰیـــ(سَمِع اور فَتَح سے) کے معنی ہیں۔۔۔ (کسی میں) سکون پانا  یا غم اور مصیبت میں اس کی طرف رُخ کرنا۔ (فزَع اِلی…)کسی کے لئے بے تاب ہونا  (وُلِع ب)

(۳)     اَلِہ (سمع سے ) کے ایک معنی ’’حیرت میں ڈوب جانا ‘‘ (تحیَّر) بھی ہوتے ہیں

(۴)     اَ لـِھَہٗ (سمع اور فتح سے) کے معنی ’’…کو بچانا‘‘ اور ’’… کی حفاظت کرنا‘‘ بھی ہیں یعنی فعل متعدی ہے اور مفعول بنفسہٖ آتا ہے۔

          دوسرا قول: اس (اِلٰــہٌ) کا مادّہ ’’و ل ھ ـ‘‘ اور وزن وہی ’’فِعَال‘‘ ہے۔ اور شکل اصلی ’’وِلاہٌ ‘‘تھی جس میں ’’و‘‘ کو ’’ھمزہ‘‘ میں بدل دیا گیا۔ جس طرح ’’ وَحَدٌ ‘‘سے ’’أَحَدٌ‘‘ بنا ہے۔

          اس مادّے سے بھی بعض افعال اس اشتقاق کی دلیل بنتے ہیں مثلاًـــ

(۱)      وَلَـِہَ  یَلِہُ  وَ  یَوْلَہ  وَلَھًا  (ضرب اور سمع سے)  کے ایک معنی جوش و خروش میں آنا (طرِب) بھی ہوتے ہیں۔

(۲)     وَلِہَ (باب سمع سے) کے بھی ایک معنی ’’حیرت میں ڈوب جانا‘‘ ہیں (اَلِہ کی طرح)

(۳)     وَلِہَ اِلی…بھی اَلِہَ اِلی…کے مندرجہ بالا تمام معنوں میں مستعمل ہے۔ ان دو  مادّوں (’’ال ھ ـ‘‘ اور ’’و ل ھ ـ‘‘) کو ’’اِلٰہ‘‘ کی اصل اس دلیل پر قرار دیا جاتا ہے کہ ’’ اِلٰــہ‘‘  وہ ہے جس کے لئے بندوں کی طرف سے یہ ’’افعال‘‘ سرزد ہوتے ہوں۔ تاہم ان تمام ’’افعال‘‘ میں سے ـــ أَلِہ أَ لَہ بمعنی عبد (عبادت کرنا) اور اِلَہ  اِلِہ بمعنی منع (بچاؤ کرنا) کے سواـــکسی اور فعل سے ’’اِلٰہ‘‘ مشتق بنتا نظر نہیں آتا۔ اس لئے کہ اشتقاق کا مطلب یہ ہے کہ ’’مشتق‘‘ میں اصل فعل کے معنوں کا پایا جانا (بصورت فاعل یا مفعول یا صفت کے) ضروری ہے۔ مگر ان مذکورہ افعال میں سے (دو کو چھوڑ کر) اکثر کے معنی مخلوق میں پائے جاتے ہیں نہ کہ خالق میں  ـــ اس لئے ان لوگوں کی بات میں وزن معلوم ہوتا ہے جنہوں نے ان تمام اشتقاقات کو ایک طرح کی ذہنی عیاشی یا ’’علمی ہیضہ‘‘ قرار دیا ہے۔[2]

تیسرا قول: یہ ہے کہ اس (لفظ ’’ اِلٰہ‘‘) کا مادہ ’’ل و ھ‘‘ یا ’’ل ی ہ‘‘ ہے اور شکل اصلی  اِلْیَاہٌ  یا   لِیَاہٌ تھی۔ اس سے فعل لَاہ  یلوہُ  لَوھًا (نصر) کے ایک معنی ’’خلَق‘‘ (نصر) ’’یعنی پیدا کرنا‘‘ بھی ہیں اور لاہ یَلِیْہُ لَـیْھًا (ضرب) کے معنی ’’بلند ہونا‘‘  (عَلَا وَارْ تَفَع) ہیں اور سورج کو اِلٰھَۃٌ (دیوی) کہنے کی ایک وجہ یہی معنی ہیں۔ نیز اسی مادہ (ل ی ھ) کے اسی باب (ضرب) سے ایک معنی ’’پوشیدہ ہونا ‘‘ (تستّر و احتجب) بھی ہوتے ہیں۔۔۔ لفظ ’’اِلہ‘‘ کے ساتھ ان معنوں کی نسبت بھی ---بلحاظ اشتقاق --- قدرے معقول معلوم ہوتی ہے۔

 

          لیکن بہت سے اہل علمـــبلکہ اہلِ دل ـــ کی رائے یہ ہے کہ چاہے لفظ ’’اِلٰہ‘‘ کا اشتقاق ان تمام مادوں ـــیا ان میں سے کسی ایک مادہـــسے درست بھی ثابت کر دیا جائے جب بھی اسمِ جلالت (اللّٰہ) سرے سے اسم مشتق ہے ہی نہیں۔ یہ ’’ اَلْا ِلٰہ‘‘ سے بھی نہیں بنا۔ [3] بلکہ دراصل اسی طرح ذاتِ باری تعالیٰ کے لئے وضع کیا گیا ہے جس طرح دوسری بہت سی چیزوں کے نام ہیںـــ مثلاً تمام اسماء جامدہ جو کسی ذات پر دلالت کرتے ہیں ـــ اور ہر ہر لفظ کا مشتق ہونا لازمی بھی نہیں ہوتا۔ اور یہاں تو لفظ ’’اِلٰـہ‘‘ کے لئے بِناءِ اشتقاق بنائے گئے بیشتر معنوں کا ذات باری تعالٰی پر اطلاق بھی محلِ نظر ہے۔

 

۱:۱:۱: (۳)    [الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ] ان دو لفظوں کی لغوی اصل اور معنوں کے بارے میں مفسرین اور ائمۂِ لُغت و نحو کے اقوال کا خلاصہ حسب ذیل ہے:۔

 (۱)        ان کامادہ ’’ر ح م‘‘ ہے۔ پہلے لفظ کا وزن ’’ فَعْلَانُ‘‘ (غیر منصرف) ہے اور دوسرے کا وزن ’’فَعِیْلٌ‘‘ ہے۔ یعنی دونوں اسم مشتق ہیں۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد  رَحِم یَرْحَمُ رَحمۃً (سمع سے) ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے یعنی ’’رَحِمَہٗ‘‘ کہتے ہیںـــ ’’ رَحِمَ عَلَیْہ‘‘ کہنا بالکل غلط ہےـــ البتہ اردو میں اس کا ترجمہ ’’…پر رحم کرنا یا مہر بانی کرنا‘‘ کیا جائے گا۔ یہ ’’پر‘‘ اردو محاورے کی بنا پر آتا ہے۔ مگر عربی میں مفعول بنفسہٖ یعنی صلہ کے بغیر آتا ہے۔

(۲)     یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں مگر ’’فَعلانُ‘‘ میں بمقابلہِ ء’’فَعِیْل‘‘ زیادہ مبالغہ ہوتا ہے۔ اس لئے ’’رحمٰن‘‘ کے معنی ’’بے حد رحمت والا‘‘ اور  ’’رحیم‘‘ کے معنی ’’بہت رحمت والا‘‘ ہوں گے۔

(۳)     ’’رحمٰن‘‘ تو صیغۂِ مبالغہ ہے مگر ’’رحیم‘‘ صفتِ مشبّہ ہے یعنی ’’رحمٰن‘‘ کثرتِ رحمت پر اور ’’رحیم‘‘ دوامِ رحمت پر دلالت کرتا ہے۔ اس طرح ’’ رحمٰن ‘‘کے معنی ’’بکثرت رحمت والا‘‘ اور ’’رحیم‘‘ کے معنی’’ ہمیشہ رحمت والا‘‘ ہوں گے۔ اسی چیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان اسماء کا اردو ترجمہ یوں کیا جاتا ہےـــ

          الرحمٰن= بڑا مہر بان۔ نہایت مہربان۔ بے حد مہر بان۔ نہایت رحم کرنے والا۔

          الرحیم= مہربان۔بڑا رحم والا۔ نہایت رحم والا۔ بار بار رحم کرنے والا۔

(۴)     ’’الرحمٰن‘‘ اسم صفت کے طور پر بھی صرف ’’ اللّٰہ‘‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے، جبکہ ’’رحیم‘‘ غیر اللہ کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے اور (قرآن کریم میں) ہوا ہےـــ ’’الرحمن‘‘ ہمیشہ معرفہ (معرّف باللّام) آتا ہے۔ (ماسوائے نِدا کے یعنی جب منادٰی ہو) مگر ’’الرحیم‘‘  معرفہ نکرہ دونوں طرح آتا ہے۔

 

 (۵)     قرآن کریم میں متعدد بار ’’الرحمن‘‘ بھی ’’اللّٰہ‘‘  کی طرح ایک مستقل اسم کے طور پر استعمال ہوا ہے۔[4] بلکہ بعض جگہ تو گویا ’’اللہ‘‘ کے بدل اور مترادف کے طور پر آیا ہے۔ جب کہ ’’الرحیم‘‘ ہر جگہ بطور ’’صفت‘‘ کے ہی آیا ہے۔

(۶)     ’’الرحیم‘‘ قرآن کریم میں ہر جگہ ’’رحمت‘‘ سے متعلق ہو کر آیا ہےـــ [اور یہ لفظ (رحیم) قرآن کریم میں بصیغہ نکرہ یا معرفہ مجموعی طور پر (۹۰) جگہ آیا ہے]ـــ جبکہ ’’الرحمن‘‘ عذاب ، حکومت، ہیبت اور اقتدار کے ذکر کے ساتھ مربط ہو کر بھی وارد ہوا ہے۔[5]  یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ لفظ ’’رحیم‘‘ کی جمع’’ رحماء‘‘ مستعمل ہے جبکہ لفظ رحمٰن کی جمع نہیں آتی۔

(۷)     بعض اہل علم کے نزدیک ’’رحمن‘‘ دراصل غیر عربی (دخیل) لفظ ہے جو اپنی اصل زبان میں ’’اللّٰہ ہی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا پھر عربی میں بھی ’’اللّٰہ‘‘ کے ہم معنیـــ یا ’’اللّٰہ‘‘ ہی کا دوسرا نام سمجھا جانے اور استعمال کیا جانے لگاـــ اور اس مقصد کے لئے یہ ہمیشہ معرف باللام آتا ہے۔ اکثر اہلِ علم نے اس کی اصل عبرانی یا سُریانی بتائی ہے اور یہ کہ اصل میں ’’رخمان‘‘ یا ’’رھمان‘‘ تھا۔ [6] قرآن کریم میں حضرت ہارون علیہ السلام کے قول (طہ:۹۰)سے بھی کم از کم بالواسطہ طور پر اس نظریہ کی تائید کا کچھ پہلو نکلتا ہے۔

(۸)     مندرجہ بالا نمبر۵؎،۶؎،۷؎ کی روشنی میں ’’رَحمٰن‘‘ کامادہ ’’ر ح م‘‘ سے مشتق ہونا بھی محل نظر ٹھہرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سے عجمی الفاظ عربی اوزان پر پورے اترتے نظرا ٓتے ہیں تاہم یہ ان کے عربی الاصل ہونے کی پکی دلیل نہیں ہوتی۔

(۹)     یہ بھی ممکن ہے کہ لفظ ’’رحمن‘‘ اپنے اصل معنوں میں بھی ’’رحمت والا‘‘ ہی کے معنی میں مستعمل ہوتا ہوـــ پھر عربی میں بھی ان ہی معنی کے ساتھ آیا ہو۔ عربی کی طرح عبرانی، سریانی ، آرامی وغیرہ بھی سامی زبانیں ہیں اور ان سب میں الفاظ کی بنیاد عموماً ایک تین حرفی مادہ ہوتا ہے (جو یہاں ’’رحم‘‘ ہے)اور ان ز بانوں کے بعض مادوں میں لفظی اور معنوی مماثلت اور مشارکت عام پائی جاتی ہے جس طرح آریائی زبانوں کے بہت سے ہم معنی کلمات کا تلفظ بھی مماثل یعنی ملتا جلتا پایا جاتا ہے مثلاً سنسکرت بھراتر، فارسی   برادر اور انگریزی Brotherوغیرہ میں۔

(۱۰)     بہر حال اگر یہ لفظ عجمی بھی تھا۔ تب بھی ظہورِ اسلام کے وقت یہ عربی زبان میں اپنے مذکورہ معنی کے ساتھ مستعمل تھاـــ قرآن کریم (الفرقان: ۶۰) اور واقعاتِ سیرت (مثلاً صلح نامہ حدیبیہ کی تحریر کے وقت) میں جہاں کفارِ مکہ کے ’’اَلرَّحْمٰن‘‘ سے شناسائی کے انکار کرنے کا ذکر آتا ہے وہ صرف اظہارِ تکبر اور ’’ناک چڑھانے‘‘ والی بات تھی ورنہ ’’الرحمن‘‘ کا استعمال جاہلی شاعری میں بھی پایا جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ و ہ لوگ ذات باری تعالیٰ کے لئے ’’اللّٰہ‘‘ کا لفظ زیادہ استعمال کرتے تھےـــ مزید تفصیل کے لئے تفسیر ابنِ کثیرج ا ص ۷۳، تفسیر کشاف ج ا ص ۴۲ (مع حاشیہ) قاموسِ قرآن ج ۲ص۷۶، وغیرہ کو دیکھئے۔

 

۲:۱:۱    الاعراب

       ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘

کے شروع کی ’’باء‘‘ (بِ) حرف الجر ّ ہے اور (’’اسم‘‘) مجرور بالجر ہے جس میں علامت ِجر ’’م‘‘ کا کسرہ (ــــــِــــ) ہے۔ اور یہ آگے مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف ہے ۔ (نہ اس پر لام تعریف آیا ہے نہ آخر پر تنوین)۔

          [’’اللّٰہِ‘‘] مجرور بالاضافۃ ہے (اسم کا مضاف الیہ ہو کر) اور اس میں علامت ِجر آخری ’’ھاء‘‘ کی زیر (کسرہ) ہے۔

          [’’الرحمٰن‘‘] بلحاظ اعراب ’’اللّٰہ‘‘کے تابع ہے[7] اور پھر اس کی بھی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

 (۱)      عَلَم جیسی صفت غالب ہونے کی وجہ سے یہ ’’اللّٰہِ‘‘ کا بدل بھی ہوسکتا ہے۔ (خیال رہے یہاں بھی لفظ ’’بدل ‘‘ نحوی اصطلاح ہے۔)

(۲)     اللہ کی نعت (صفت) بھی ہوسکتا ہےـــ دونوں صورتوں میں وہ لفظ ’’اللہ‘‘ کی وجہ سے مجرور ہے اور علامت ِ جر ’’نِ‘‘ کا کسرہ (ــــــِــــ) ہے۔ لفظ ’’الرحمن‘‘ویسے تو غیر منصرف ہے مگر معرّف باللام ہونے کی وجہ سے بحالتِ  جر اس کے آخر پر کسرہ(ــــــِــــ)  آئی ہے۔

          [الرحیم] یقینا صفت ہے۔ تاہم اگر ’’الرّحمن‘‘ کو بدل مانا جائے تو پھر یہ ’’الرحمن‘‘ کی صفت ہی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بدل کے بعد مُبدَل منہ (جو یہاں ’’اللّٰہ‘‘ ہے) کی صفت نہیں آیا کرتی۔ اور اگر ’’الرحمن‘‘ کو (اللہ کی) صفت مانا جائے تو پھر ’’الرحیم‘‘ بھی اس (اللّٰہ) کی دوسری صفت ہوسکتا ہے۔ اور اس کے مجرور ہونے کی یہ دونوں وجہیں ہوسکتی ہیں۔ علامت ِ جر اس میں آخری میم (مِ) کا کسرہ (ــــــِــــ) ہے۔

          لفظوں کے الگ الگ معنی اور مندرجہ بالا ترکیب (نحوی) کے مطابق پوری ’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ کا لفظی ترجمہ کچھ یوں ہوگا۔

(۱)      الرحمن کو بدل مانیں تو ترجمہ ’’اللّٰہ یعنی بڑے مہربان ’’رحمن‘‘ کے نام کے ساتھ‘‘ ہوگا۔

(۲)     اور اگر ’’الرحمن الرحیم‘‘ دونوں کو صفت (نعت) مانیں تو اردو ترجمہ ’’رَحِیْم و رَحمٰن‘‘ یعنی دائم الرحمتہ اور کثیر الرحمۃ اللہ کے نام کے ساتھ ‘‘ہوگا۔

ـــ اس لئے کہ اردو میں عموماً صفت اپنے موصوف سے پہلے آتی ہے۔ تاہم اردو کے محاورے کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’اللہ کے نام کے ساتھ جو بے حد مہربان باربار رحم کرنے والا ہے‘‘ سے کیا جاتا ہےـــیہاں ’’جو‘‘ کسی اسم موصول کا ترجمہ نہیں بلکہ اردو میں صفت موصوف کی ترکیب کا ایک انداز ہے۔

اردو ترجمہ اور عربی ترکیب (نحوی) سے ظاہر ہے کہ پوری ’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ ایک مکمل جملہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو (سارا بھی) ایک مرکب جارّی (یعنی جار و مجرور) ہی رہ جاتا ہے۔ مکمل جملہ (مرکب تام یا مفید) بنانے کے لئے اس کے شروع میں کسی مبتداء یا فعل کی ضروت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً

(۱)      یا تو اس کے شروع میں لفظ ’’ابتدائی‘‘ مقد ّر (Understood) مانیں تو یہ جملہ اسمیہ بن کر ذہن میں آئے گا اور اس کا ترجمہ کچھ یوں سمجھا جائے گا ’’میری ابتداء یا میرا آغاز یا میرا شروع اللہ کے نام سے ہے جو۔۔۔۔الخ‘‘

(۲)     یا پھر کوئی فعل مثلاً ’’أَبْتَدِیئُ  یا  اِبْتَدَأْتُ‘‘ مقدر (Understood) سمجھیں تو جملہ فعلیہ بن کر ذہن میں آئے گا اور اس کا ترجمہ کچھ یوں بنے گاـــ ’’میں ابتداء کرتا ہوں یا شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو …الخ‘‘ـــ اور ’’بسم اللّٰہ‘‘ کے اردو تراجم میں کسی نہ کسی طرح لفظ ’’شروع‘‘ لانے کی وجہ یہی ہے۔

          ’’بسم اللّٰہ‘‘ کے شروع میں کوئی فعل نہ لانے کا یاایک فائدہ یہ ہے کہ آپ ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ  ‘‘ پڑھ کر جو کام بھی کریں (اور مسلمان کو ہر کام بسم اللّٰہ کے ساتھ شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے)۔   تو ’’بسم اللّٰہ‘‘ کی بِ (کے ساتھ) کی وجہ سے اس فعل (یعنی کام) کے مطابق معنی خود بخود سمجھے جائیں گے۔ مثلاً أَکُلُ (میں  کھاتا ہوں) أَشْرَبُ (میں پیتا ہوں) أَکْتَبُ (میں لکھتا ہوں) أَرْکَبُ (میں سوار ہوتا ہوں) أَقرَأُ (میں پڑھتا ہوں) یا أَذَبحُ (میں ذبح کرتا ہوں) ( وغیرہ) اللہ کے نام کے ساتھ جو … اِلی آخرہ۔

 

۱:۱: ۳     الرسم

          ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘کا یہ طریق املا ء رسم عثمانی کے مطابق ہے۔ اور عربی زبان کے عام رسم املائی میں بھی اسے لکھنے کا یہی قرآنی طریقہ اختیار کیاجاتا ہے۔ اس کے ’’رسم‘‘   کی حسب ذیل خصوصیات قابلِ توجہ ہیں:

۱۔ اس میں ’’اسم‘‘ کا ابتدائی ہمزۃ الوصل (جو الف کی شکل میں ہوتا ہے) حذف کرکے ’’باء‘‘ (بِ) کے ساتھ ملا کر لکھاجاتا ہے یعنی ’’بِسْم‘‘ جس میں ’’اسم‘‘ کا ’’الف‘‘ جو ھمزۃ الوصل ہے) خطاً اور لفظاً دونوں طرح محذوف ہے۔ نہ لکھا جاتا ہے نہ پڑھا جاتا ہے۔ ’’اسم‘‘ کا یہ ’’الف‘‘ اگرچہ ھمزۃ الوصل ہی ہے اور اگر لکھا بھی جاتا تب بھی یہاں (بوجہ وصل) پڑھا نہ جاتا ۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ’’بِاسمِ ربِّکَ‘‘ وغیرہ میں آیا ہے۔ تاہم اسے کتابت میں حذف صرف اس وقت کیا جاتا ہے جب یہ (یعنی لفظ اسم) اسمِ جلالت (اللّٰہ) کی طرف مضاف ہو اور اس (اسم) سے پہلے ’’باء‘‘ (بِ) آرہی ہوـــ یعنی صرف ’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ کی صورت میںـــ قرآن کریم میں ہر سورت کی ابتدائی ’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ کے علاوہ دو اور مقامات پر یہ اس ترکیب اور اس کتابت کے ساتھ آیا ہے (ھود: ۴۱ اور النحل ۳۰) اگریہ لفظ (اسم) اللہ تعالیٰ کے کسی اور صفاتی نام کی طرف مضاف ہو تو ’’بِاسم‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ (اگرچہ الف بوجہ ہمزۃ الوصل ہونے کے پڑھا نہیں جاتا)۔ اسکی تین مثالیں تو قرآن کریم میں ہی آئی ہیں(الواقعۃ: ۷۴،۹۶ اور الحاقۃ: ۵۲)[8]

          اگر (بِ کے علاوہ) کوئی اور حرفِ جاّر آجائے تو ’’اسم‘‘ کا ھمزۃ الوصل کتابت میں حذف نہیں ہوگا۔ مثلاً کوئی کہے ’’لِاسْمِ اللّٰہِ حلاوۃٌ‘‘ (اللہ تعالیٰ کے نام میں ایک مٹھاس ہے) یا کوئی کہے ’’لَیْسَ اسْمٌ کَاسْمِ اللّٰہِ (کوئی نام اللہ تعالیٰ کے نام کی مانند نہیں ہے)ـــ بلکہ بعض اہلِ علم تو اس ’’رسم‘‘ کو اس حد تک ’’بسم اللّٰہ‘‘ کی خصوصیت بتاتے ہیں کہ اگر ’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ کے بعد’’ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ  ‘‘کی بجائے کوئی اور صفاتی نام لکھے جائیں تو بھی اسم کا ھمزہ حذف نہ ہوگا مثلاً ’’بِاسْمِ اللّٰہِ الْمَلِکِ القُدُوس‘‘ لکھنے میںـــ خیال رہے (بِ) کے علاوہ کسی دوسرے حرف الجر ّکے ساتھ لفظ اسم کے مرکب ہوکر آنے کی قرآن کریم میں کوئی مثال نہیں ہے۔

          رہی یہ بات کہ آخر اس املائی فرق کی وجہ کیا ہے؟ یا یہ کہ ’’ب‘‘ کا نبرہ (دندانہ) اونچا کیوں لکھا جاتا ہے۔ مثلاً ’’بِسْم‘‘کیوں نہیں لکھاجاتا؟ وغیرہ اس قسم کے سوالات کتبِ رسم میں اٹھا کر ان کے جواب بھی لکھے گئے ہیں ـــ ایسے بزرگوں پرا للہ کی رحمت ہو مگر ان کے ان ’’منطقیانہ‘‘ اور ’’فلسفیانہ‘‘ ارشادات سے اس فلسفی کی کہانی یاد آئی ہے۔ جس نے دیوار پر اُپلے لگے دیکھے تو فلسفیانہ توجیہات میں کھو گیاـــ سیدھی سی بات یہ ہے کہ مصاحفِ عثمانی میں یہ الفاظ و مرکبات اسی طرح لکھے گئے تھے۔ ہم رسم ِ عثمانی کی تقلید اور اس کے اتباع کے پابند ہیں اس پر تنقید یا اس کی توجیہہ نہ جائز ہے نہ لازم۔ اور نہ ہی ہر عقلی توجیہہ ہمیشہ درست ہوتی ہے[9]

 

      ۲۔    (اللہ)

اسمِ جلالت کی املاء ’’اللّٰہ‘‘ ہے۔ حالانکہ اس کا تلفظ ’’اَللَّا ہُ‘‘ یا ’’اَلاّہ‘‘ ہے۔ تاہم قرآن کریم میں ہمیشہـــ اور اس کے اتباع میں عام عربی املاء میں اسے ہمیشہ اسی طرح (اللّٰہ) لکھا جاتا ہے۔ یعنی ’’ا ل ل ہ‘‘ کے ساتھ۔ خط یا اندازِ کتابت مختلف ہوسکتا ہے مگر بنیادی رسم اور  املاء یہی رہے گا۔ مثلاً لاہوری اردو نستعلیق میں اسے ’’اللہ#-‘‘ لکھتے ہیں۔ اور یہ بالکل درست ہے۔  اس میں اصل املاء محفوظ ہے ۔اس اردو کتابت کے موجد حافظ محمد یوسف سدیدیؒ تھے۔ فارسی، ترکی (جب یہ بحروف عربی لکھی جاتی تھی) اور پرانی اردو نستعلیق میں اسے اللہ ۔ ’’#‘‘ کی صورت میں بھی لکھا جاتا (رہا) ہے۔ جو بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ اس میں دوسری ’’ل‘‘ کو بالکل نبرہ ( دندانہ) کی شکل دے دی گئی ہے۔ ( یعنی ب   یا   ن   یا ی  کی مانند) اور آخری ’’ھ‘‘ نستعلیق کے لحاظ سے تو ’’ د‘‘ کا آخری پیوند معلوم ہوتا ہے۔ تاہم املا کے بنیادی چار حروف (ا ل ل ہ)اس میں موجود ضرور ہیں۔ چاہے ان کے لکھنے کا انداز علمی لحاظ سے معیوب سمجھا جائے ۔ اس سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بعض افریقی ممالک ( مثلاً غانا کے مصاحف میں یہ لفظ اللہ  ’’#‘‘ لکھا جاتا ہے ۔ اس میں آخری ترچھا حصہ تو ’’#‘‘ ہی ہے جسے  ’’#‘‘ کی طرح لکھ دیا گیا ہے ۔ البتہ درمیانی ’’لام‘‘ کو  ب/ن/ی وغیرہ کے نبرہ (دندانہ) کی طرح لکھا گیا ہے۔ یعنی اردو کے قدیم نستعلیق خط کی مانند ۔ چین میں یہ لفظ ’’اللہ ۔  )  (# کی شکل میں لکھا گیا ہے۔ یعنی دونوں لام  (کے سرے )  آخری  )  (#سے زرا نیچے رہ جاتے ہیں۔ تاہم اصل املا ( ال ل ہ)محفوظ ہے ۔

 

۳۔    (الرَّحْمٰنِ)

اس جگہ (بسم اللہ میں) بلکہ پورے قرآن مجید میں ہر جگہ (’’م‘‘ کے بعد والے) الف کے حذف کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اور یہ لفظ قرآن کریم میں ـــبسم اللہ کے علاوہـــ ستاون (۵۷) دفعہ آیا ہے)ـــ اور رسمِ عثمانی میں اس کا اسی طرح (بحذف الف) لکھاجانا بلا اختلاف ثابت ہے ـــیعنی اسے ’’الرحمان‘‘ لکھنا سخت غلطی ہے۔ اور اسی قرآنی رسم الخط کے اتباع میں ـــیہ لفظ عام عربی املاء میں بھی عموماً اسی طرح (بحذف الف) لکھا جاتا ہے۔ بلکہ جہاں بھی یہ اسم ’’اللّٰہ‘‘ کے بدل یا اس کی صفت کے طور پر مستعمل ہو وہاں بھی اسے اسی رسم کے ساتھ لکھنے کا رواج ہے۔ مثلاً ’’عبدالرحمن‘‘ میں۔

۴۔   (الرَّحِيْمِ )

          اور (الرحیم) کی یہ املاء تو خیر عربی کے عام املائی قواعد کے بھی مطابق ہی ہے۔

 

۴:۱:۱     الضبط

’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ میں چار کلمات کی ابتداء میں ھمزۃ الوصل آتا ہے۔ (اسم، اللّٰہ، الرحمن اور الرحیم) ’اسم‘ کے ہمزہ کے کتابت میں محذوف ہونے کی بات ابھی بحث الرسم میں ہوچکی ہے۔ باقی تین کلمات کا ھمزۃ الوصل کتابت میں موجود رہتا ہے اگرچہ بوجہ وصل پڑھا نہیں جاتا۔ ھمزۃ کی اس ’’خاموشی‘‘ کو عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں ھمزہ (بصورت الف) پر وصل (صلہ) کی علامت ڈال کر ظاہر کیا جاتا ہے  اور یہ علامت عرب ممالک میں ’’ص ‘‘ کا باریک سر ا)  (#ہوتا ہے )  (#۔ افریقی ممالک میں یہ اکثر سیاہ گول نقطہ کی شکل میں لکھتے ہیں ۔ البتہ بعض ممالک میں یہ نقطہ باریک اور بعض ممالک میں زیادہ نمایاں لکھا جاتا ہے۔ )  (#۔بعض افریقی ممالک میں ھمزۃ الوصل کیلئے الف کے اوپر بڑا سا سبز رنگ کا گول نقطہ ڈالا جاتا ہےـــ اسکے مقابلے پر ھمزۃ القطع کے لئے زرد رنگ کا بڑا سا گول نقطہ ڈالتے ہیںـــ تاہم یہ اہتمام صرف رنگ دار طباعت میں کیا جاتاہےـــ یا قلمی مصاحف کے دور میں مختلف رنگ کی سیاہی استعمال کی جاتی تھیـــ یعنی تمام حروف کالی سیاہی سے تمام حرکات سرخ روشنائی سے، ھمزۃ الوصل سبز گول نقطے سے اور ھمزۃ القطع زرد گول نقطے سے ظاہر کئے جاتے تھے ـــ آج کل طباعت میں سب کچھ کالی سیاہی میں چھپنے کے باعث ھمزۃ الوصل کے لیے ا لف پر گول نقطہ اور  ھمزۃ القطع کے لئے  )  (#کی علامت استعمال ہوتی ہے   )  (#۔  بر صغیر، ایران، ترکی اور بیشتر مشرقی ممالک میں یہ طریقہ رائج ہے کہ جو بھی حرف ’’خاموش‘‘ ہے یعنی پڑھنے میں نہیں آتا اس کو ہرطرح کی علامت ضبط سے عاری یعنی خالی رکھا جاتا ہے۔ اور یہ قاعدہ صرف ھمزۃ الوصل میں ہی نہیں بلکہ حرفِ شمسی سے ماقبل لام اور واو جمع کے بعد آنے والے الف پر اور وصلِ حروف کی بعض دوسری صورتوں میں بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ جس کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

          اسم جلالت ’’اللّٰہ‘‘ میں درمیانی لام اشباع سے (کھینچ کر) پڑھا جاتا ہے۔ یعنی ’’ ) (# ‘‘ کی طرح۔ تاہم یہ عجیب بات ہے کہ تمام عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے ’’ اللَّہ ‘‘ لکھتے ہیں۔ حالانکہ اس ضبط کے ساتھ تو اسے ’’اَللَّہ‘‘ ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ معلوم نہیں وہ لوگ اسے کس طرح ٹھیک تلفظ سے پڑھتے ہیں۔ غالباً اپنی عربی دانی کی بنا پر یا اس لئے کہ ’’اللہ‘‘’’ ) (# ‘‘ کا یہ (باشباع) تلفظ ان کے ہاں جانا پہچانا ہے۔ تاہم نا خواندہ ـــیعنی صرف ناظرہ خواں غیر عربی دان تو اس ضبط کے ساتھ اسے کبھی درست نہیں پڑھ سکتا۔

ایران، ترکی اور بر صغیر میں اس کا ضبط یہ اختیار کیا گیاہے۔ ’’اللہ‘‘ یعنی علامت تشدید (ــــــّـــــ) کے اوپر کھڑی زبر (ــــــٰــــ) لکھی جاتی ہے۔ جو لام کے اشباع (مد طبیعی) کی علامت ہے چین میں (اور شاید وسط ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں بھی یہی طریقہ رائج رہا ہو) اس کو یوں ضبط کیا جاتاہے۔) (#یعنی پورے لفظ پر ایک لمبی ترچھی مگر باریک ’’مد‘‘ ڈال دی جاتی ہے اور یہ بھی لام کے اشباع پر دلالت کرتی ہے ـــمگر عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں قاری کو اس اشباع سے آگاہ کرنے والی کوئی علامت ِ ضبط نہیں لگائی جاتی ۔

          کتب علم الضبط میں عرب اور افریقی ممالک کے اس طریق ضبط کی ایک فلسفیانہ اور منطقی توجیہ یہ مذکور ہوئی ہے کہ یہ اسے (اسم جلالت کو) لفظ ’’اللٰت‘‘ سے ممتاز کرنے کے لئے کیا جاتا ہے جو ایک بت کا نام تھا۔ اور قرآن کریم النجم: ۱۹ میں اس کا ذکر آیا ہے۔ جس کا ضبط ان کے ہاں یوں ہے ’’اَللَّٰت‘‘ یعنی دوسرے لام پر (پہلا تو خاموش ہی ہے) تشدید معہ فتحہ ’’ـــَّــ‘‘) (# ڈال کر اس ’’ل‘‘ اور ’’ت‘‘ کے درمیاں چھوٹا سا الف (کھڑی زبر ــــــٰــــ) ڈالتے ہیں جس سے ’’لا‘‘ کی آواز پیدا ہوگی۔ حالانکہ ضبط کے اس فرق سے الٹا ’’اَللات‘‘ کے لام کے اِشباع کا تو بندو بست کر دیا گیا ہے۔ مگر ’’اللہ‘‘ کی لام کا اِشباع اشتباہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس مسئلے کا درست حل تو علم التجوید میں ہے کہ اسم جلالت (اللّٰہ)ماقبل مفتوح یا مضموم ہو تو تفخیم سے (پُر کرکے) پڑھا جائے گا مگر ’’اللات‘‘ ما قبل مضموم ہوتے ہوئے بھی مفخَّم نہیں پڑھا جائے گا۔

          تاہم ضبط کے نقطۂ نظر سے اسم جلالت میں لام کے اشباع کے لئے کوئی علامت ِ ضبط نہ ڈالنا اور عرب اور افریقی ممالک کے ضبط کا ایک عیب ہے۔ جسے مشرقی (عجمی) ممالک کے مسلمانوں نے محسوس کیا اور اس کے لئے ایک علامت (ــــــّٰـــــ)) (#  مقرر کی۔ بلکہ اب تو ایک پاکستانی عالم (مولوی ظفر اقبال مرحوم) نے ’’اللہ‘‘ کی تفخیم کے لئے بھی ایک خاص علامت) (# وضع کی ہے۔ جسے تجویدی قرآن مطبوعہ پیکجز لمیٹڈ، لاہور میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

          در اصل عرب اور افریقی ممالک میں الف مد ّہ محذوفہ میں ماقبل کی فتحہ (ــــــَــــ) لکھے بغیر مدّ کا تصور ہی نہیں ہے۔ اس لئے وہ اسم جلالت کے لام پر شد اور فتحہ) (#ڈالتے ہیں۔ اب اگر اس کے ساتھ مد کی خاطر الف محذوفہ کا اثبات (بصورت چھوٹا الف یا کھڑی زبر) بھی کیا جائے تو پھر اسے ) (#’’اللّٰـَہ ‘‘ لکھنا پڑھے گا۔ جو ان کے ضبط کے مطابق لکھتے ہوئے ’’اَللَّـٰت‘‘ سے مشابہ ہی ہوجائے گا۔ اس لئے ان تمام ملکوں میں یہ لفظ یعنی اسم جلالت غلط علامت ضبط کے ساتھ لکھا جاتا ہے اور اس کا درست پڑھنا صرف شفوی (زبانی) تعلیم پر منحصر ہےـــ

          بر صغیر وغیرہ میں صرف کھڑی زبر (ـــــٰــــ) کو الف ماقبل مفتوح (ــــــَــــا)کے برابر سمجھا جاتاہے اور یوں اسم جلالت پر ڈالی گئی علامت) (#کے برابر سمجھ کر پڑھا جاتاہے اور یہ بات عرب اور افریقی ملکوں کے اہل علم تک سمجھ نہیں پائے۔

          اسم جلالت کے اس ذرا مفصل تقابلِ ضبط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عرب اور افریقی ممالک کا ضبط غیر عربی دان ناظرہ خوانوں کے لئے موجب التباس ہے اور ’’اللہ‘‘ جیسے اہم کلمہ کے (جسے نہ صرف لام کے اشباع بلکہ اس کی تفخیم کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ جب کہ اس کا ماقبل مضموم یا مفتوح ہو) غلط پڑھنے کا باعث بن سکتا ہے۔

          [الرَّحْمٰنِ]کی ’’میم‘‘ کے اشباع کے لئے بھی (اور تمام محذوف الالف الفاظ) --- اسماء ہوں یا افعال یا حروف کے لئے بھی) مختلف علامت ضبط کا رواج ہے۔ عرب اور افریقی ممالک میں اس کے لئے میم پر فتحہ (ــــــَــــ) ڈال کر ساتھ چھوٹا سا الف (جو محذوف تھا) لکھتے ہیں) (#  اس لئے کہ اس کا اصل تلفظ ’’الرحمان‘‘ تھا مگر رسمِ عثمانی  میں اس کا الف محذوف تھا۔ اس لئے میم پر فتحہ (مَ) کے بعد اس محذوف الف کی یادگار چھوٹا سا الف یا کھڑی لکیر ڈالی جاتی ہے تاکہ اسے ’’ما‘‘ پڑھا جاسکے۔ بعض ممالک مثلاً لیبیا میں یہ محذوف الف خاصا ’’موٹا‘‘ اور نمایاں لکھا جاتا ہے) (#   اور بعض عرب اور افریقی ملکوں (مثلاً تونس) میں اسے عام کتابت سے باریک مگر زیادہ لمبا کرکے لکھا جاتا ہے۔#  تاہم عام طور پر اسے عام کتابت کے الف (ا) سے قریباً نصف یا تہائی کے برابر ہی لکھتے ہیں۔

          بر صغیر پاک و ہِند اور ترکی و ایران میں کھڑی زبر (ـــــٰــــ) کو الف ماقبل مفتوح (ــــــَــــ ا)کے برابر سمجھا جاتا ہے  یعنی ) (# کو ’’ما‘‘ ہی پڑھا جاتا ہے

لہٰذا اسی طرح صرف کھڑی زبر لکھنا کافی سمجھا جاتا ہے۔ یعنی ’’ الرَّحْمٰنِ ‘‘) (# ہی لکھتے ہیں۔ چین میں اسم جلالت کی طرح اس لفظ پر بھی لمبی ترچھی مد لکھتے ہیں ۔ یعنی)  (#  لکھتے ہیں ۔اور جیسا کہ پہلے بحثِ استعاذہ میں لفظ ’’مِنْ‘‘ اور ’’شَیطٰن‘‘ کے آخری نون کے سلسلے میں بیان ہوا یہاں بھی بیشتر افریقی ممالک میں آخری نون پر نقطہ نہیں ڈالتے یعنی اسے ) (# ہی لکھتے ہیں۔  اور بعض جگہ آخری نون پر نقطہ ڈالتے بھی ہیں تو ’’ن‘‘ کے ’’پیٹ‘‘ میں نہیں بلکہ دائیں طرف کے (پہلے ) سرے پر لکھتے ہیںـــ (یعنی الرحمن)) (#

          (الرَّحِیْم) میں ’’حاء‘‘ (ح) کے بعد والی ’’یاء‘‘ (ی) پر برصغیر پاک وہند کے سوا دنیا کے کسی اسلامی ملک میں بھی علامت سکون (ــْـ) نہیں ڈالی جاتیـ(الرَّحِیْم) ــ سب جگہ اسے الرَّحِیم ہی لکھتے ہیں بلکہ ان ملکوں میں ’’یا‘‘ما قبل مکسور (ــــِــــ ی) پر کہیں بھی سکون کی علامت نہیں لکھی جاتی۔ صرف ’’یا‘‘ ما قابل مفتوح (ــــَــــ یْ) پر ہی یہ علامت ڈالتے ہیں  صرفی نحوی منطق کے اعتبار سے یہ قاعدہ درست ہے۔ تاہم یہ غیر عربی ان ناظرہ خوان کے لئے یہ ضبط بھی ناقص اور باعثِ التباس ہوسکتا ہے۔ اس لئے بر صغیر میں اس ’’یا‘‘ پر علامت ِ سکون ڈال کر (الرَّحِیْم) لکھتے ہیں۔

          ایران اور ترکی میں (عرب ملکوں کی طرح )اس ’’یاء‘‘ پر علامتِ سکون تو نہیں ڈالتے مگر ’’حاء‘‘ کے نیچے عام کسرہ (ــــــِــــ) کی بجائے علامتِ اشباع والی کھڑی زیر (ــــــٖــــ)ڈال کر (الرَّحٖیم) لکھتے ہیں۔

          مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں  ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ کے ضبط کی مندرجہ ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں:

 

 

اس ضمن میں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حرف ’’میم‘‘ جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ ہی میں تین جگہ آتا ہے، کو کتاب مصحف (خصوصاً افریقی ممالک میں ) اس طرح لکھتے ہیں کہ اس کے سرے کو اندر سے ہمیشہ خالی لکھتے ہیں اس کی و جہ ایک حدیث نبویؐ ہے کہ آنحضورؐ نے اپنے ایک کاتبِ وحی کو فرمایا تھا۔ ’’ لَا تُعَوِّرِ المِیْمَ‘‘ لَا تُعَوِّرِ المِیْمَ  کہ میم کو اس کی آنکھ مٹا کر نہ لکھو‘‘ (#)۔ یہ ہدایت ’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘کی کتابت کے بارے میں مروی ہے ۔ تاہم اس کو قرآن کریم کی کتابت میں ہر جگہ ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ البتہ برصغیر ترکی اور ایران میں اس کی ہر جگہ پابندی نہیں کی جاتی ۔



[1] تفصیل کے لئے دیکھئے زمخشری (کشاف) ج ۱ ص ۳۵‘ روح المعانی ج ۱ ص : ۵۵

 

[2] تفصیل کے لئے دیکھئے روح المعانی ج ۱ ص:۵۵ اور تفسیر طبری ج ۱  ص : ۴۰ نیز اعراب القرآن للدرویش ج ۱ ص : ۸ و ۹

 

 [3] اس لئے کہ قرآنِ کریم میں تو کہیں : ’’اَلْاِلٰہ‘‘ استعمال نہیں ہوا۔ جاہلی اشعار میں اس کا استعمال ممکن ہے کسی خاص ’’معبودِ باطل‘‘ کے لئے ہی ہوا ہو جو شاعر کا معھودِ ذہنی ہو کیونکہ لفظ ’’الہ‘‘ کا اطلاق ’’معبودِ برحق‘‘ اور ’’معبودِ باطل‘‘ ہر دو پر ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی جمع ’’ آلھۃ‘‘ آتی ہے جبکہ

 

  [4] لفظ ’’الرحمن‘‘ قرآنِ کریم میں (۵۷) جگہ آیا ہے جس میں سے کم از کم (۴۵) مقامات ایسے ہیں جہاں وہ ’’اللہ‘‘ کی جگہ بطور اسم استعمال ہوا ہے۔ سورہ مریم‘ طہٰ‘ الانبیاء‘ یٰسین‘ الزخرف اور الملک میں اس قسم کے استعمال کی زیادہ مثالیں ملتی ہیں۔مثلاً البقرۃ : ۱۱۶‘ مریم : ۷۸ و ۸۸ اورا لبقرہ : ۸۰ اور الاسراء : ۱۱۰   تو    ان معنوں کے لئے بالکل واضح ہے۔

[5]  مثلاً مریم : ۴۵‘ الفرقان : ۲۶ اور النباء : ۳۴ میں      

[6]  ابن کثیر (طبع دارالمعارف) ج ۱ ص ۷۳‘ مزید حوالوں کے لئے دیکھئے قاموسِ قرآن (قرشی) ج ۲ ص ۷۵‘ نیز دیکھئے ’’مد القاموس‘‘ تحت مادہ ’’رحم‘‘ جہاں اس کی اصل بحروف عبرانی لکھی ہے۔ غرائب اللغۃ العربیہ (ص : ۱۸۲) میں اس کی اصل آرامی بتائی گئی ہے اور اس کی اصل شکل ’’رخمونو‘‘ بحروفِ سریانی لکھی گئی ہے۔

 

  [7] لفظ تابع یہاں نحوی اصطلاح کے طور پر آیا ہے۔ توابع اربعہ رفعت‘ عطف‘ توکید اور بدل اور ان کے احکام نحو کا معروف موضوع ہے۔

 

[8]  قرآنِ کریم میں لفظ ’’اسم‘‘ کل ۲۷ دفعہ آیا ہے۔ نو دفعہ تو ’’اسم اللہ‘‘ آٹھ بار ’’اسم ربک‘‘ ایک دفعہ ’’اسم ربہ‘‘ کی صورت میں پانچ مقامات پر ’’اسمہ‘‘ اور تین جگہ ’’بسم اللہ‘‘ اور ایک جگہ ’’بِئسَ الْاِسْمُ الفُسُوقِ‘‘ کی شکل میں مزید وضاحت کے لئے دیکھئے المعجم المفہرس (فواد عبدالباقی) تحت مادہ ’’سمو‘‘۔

 

  [9] مزید بحث کے لئے چاہیں تو دیکھئے نشر المرجان ج ۱ ص : ۹۳ ۔ ۹۴ البیان (للانباری) ج ۱ ص ۲۱ اور القیسی کی ’’مشکل الاعراب‘‘ ج ۱ ص ۱۵ خصوصاً مقدم الذکر جس میں ’’بسم اللہ‘‘ کی کتابت کے بارے میں بعض ماثور ہدایات بھی مذکور ہیں جن میں سے بعض کی صحت بھی محلِ نظر ہے۔