اِستعاذۃ

اَعُوْذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ

قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے ـــ اور بعض کے نزدیک آخر پر بھی  ـــ  شیطانِ مردود کے شر اور اس کی وسوسہ انگیزیوں [جسے قرآنِ کریم میں    ’’ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ ‘‘ اور’’ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ‘‘ بھی کہا گیا ہے] سے بچنے کے لئے اللہ عزوجل کی پناہ اور حفاظت طلب کرنا ضروری ہے۔ اور انسان ـــ  اپنی کمزوریوں کی بناء پر ـــ  اس پناہ اور حفاظت کا سخت محتاج ہے۔ خود قرآن کریم نے اس ـــ طلب پناہ ـــ کا حکم دیاہے (النحل : ۹۸) قاریوں اور دیگر اہلِ علم میں یہ پناہ طلب کرنے لئے مختلف الفاظ اور متعدد صیغے رائج ہیں لیکن سب سے عام اور زیادہ مستعمل عبارت ’’ اَعُوذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ‘‘ ہے۔ اس پوری عبارت کا نام یا عنوان ’’استعاذہ‘‘ ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’’پناہ طلب کرنا‘‘ اور اصطلاحی معنی ہیں ’’اللہ کی پناہ طلب کرنا‘‘ اور اسی لئے ہم مختصرًا  اسے ’’اَعُوذُ بِاللّٰہِ‘‘ ہی کہتے ہیں۔

قرآن کریم میں تلاوت کے وقت ’’استعاذہ ‘‘ کا حکم تو موجود ہے مگر اس کے لئے کوئی خاص عبارت مقرر نہیں کی گئی اور اس لحاظ سے ہمارے استعاذہ کے یہ الفاظ (اَعُوْذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ) قرآنِ کریم کی کوئی آیت نہیں ہیں اور نہ ہی یہ قرآن کریم کے شروع میں لکھے جاتے ہیں ۔ قرآنِ کریم کی ابتداء تو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتب تفسیر اور کتب اعراب القرآن میں بعض مفسر ین اور نحویوں نے اپنی کتاب کا آغاز ’’استعاذہ ‘‘ پر بحث کے ساتھ کیا ہے۔ جب کہ دیگر بعض نے اپنی کتاب کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ پر بحث سے کی ہے اور استعاذہ کی بحث کو نظر انداز کر دیا ہے۔

مقدم الذکر میں طبری، طبرسی‘ ابنِ کثیر، مَغْنِیَہ،  عکبری، ابن خالَویْہ اور محی الدین الدرویش شامل ہیں جب کہ مؤخر الذکر میں زمخشری ، رازی ، آلوسی، قاسمی ، طنطاوی، بیضاوی، رشیضا، المراغی، دروِ زَہ، مکی بن طالب اور ابن الانباری کا نام لیا جا سکتا ہے۔

ہم اپنی کتاب کا آغاز ’’استعاذہ ‘‘ پر بحث سے کرتے ہیں اس لئے کہ تلاوت سے پہلے اس کا پڑھنا کم از کم بھی ’’سنتِ عین‘‘ ضرور ہے بلکہ قرآن کا حکم ہونے کی بنا پر اسے ’’واجب‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ لہٰذا پہلے اس کے معنی جاننا بھی ضروری ہے۔ اور اس غرض کے لئے ہم استعاذہ کا عام معروف صیغہ لیتے ہیں یعنی  اَعُوْذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ۔

تاہم اس تمہیدی بحث کو کتاب کے لئے مجوزہ ’’قطعہ سازی ‘‘(PARAGRAPHING) میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس کی باقاعدہ ابتداء ان شاء اللہ سورۃ الفاتحہ سے ہوگی۔

 

اَعُوذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ

اللغۃ

[اَعُوْذُ ]کا مادّہ ’’ع و ذ‘‘ (اجوف واوی )ہے اس صیغے کا وزن اصلی’ ’ اَفْعُلُ‘‘ ہے  جو تعلیل کے بعد ’’اَفُوْلُ‘‘ رہ گیا ہے۔ اس کی شکل اصلی  ’’اَعُوْذُ‘‘ ہے۔

اس مادّے سے فعل ثلاثی مجرد  عَاذَ یَعُوْذُ مَعَاذًا (باب نصر سے) آتا ہے۔ (جو دراصل عَوَذَ یَعْوُذُ مَعْوَ ذًا تھا) اور اس کے معنی ہیں (کسی سے اپنی ) حفاظت طلب کرنا، (کسی کی ) پناہ لینا یا پناہ مانگنا۔ یہ فعل متعدی ہے اور اس کے ساتھ ہمیشہ ’’با‘‘ کا صلہ آتا ہے جو مکسور (بِ) ہوتا ہے ۔ یعنی ’’عَاذَبِہ‘‘ کہتے ہیں، ’’عاذہ‘‘ کہنا غلط ہے۔ اس میں ’’بِ‘‘ کے بعد اس کا ذکر ہوتا ہے جس کی پناہ مطلوب ہو اور جس شخص یا چیز یا برائی کے مقابلے پر یہ حفاظت اور پناہ درکار ہو، اس کا ذکر اس کے بعد اس طرح کیا جاتا ہے۔ کہ : (۱)اگر وہ کوئی اسم ہوتو اسے مِنْ ـــ کے بعد لاتے ہیں (۲) اگر وہ کوئی فعل ہوتو اسے صرف أَنْ ـــ کے بعد لاتے ہیں جس سے پہلے مِنْ محذوف (UNDERSTOOD) یعنی خود بخود موجود سمجھاجاتا ہے۔ (یعنی ’’مِنْ أَنْ‘‘)۔ اسم کی مثال استعاذہ کا یہی صیغہ ہے اور فعل کی ایک مثال’ ’ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ ‘‘ (البقرۃ:۶۷) ہے جس کی وضاحت اپنی جگہ آئے گی ۔ اس فعل کے استعمال کی صورت یوں ہوگی۔ اَعُوْذُ بِ … (۱) …مِنْ … (۲) یا  اَعُوْذُ بِ… (۱)…اَنْ…(۲)… یعنی میں پناہ طلب کرتا ہوں (۱) کی (۲) کے مقابلے پر یا (۲) سے بچنے کے لئے ۔

’’ اَعُوْذُ ‘‘اسی فعل ثلاثی مجرد سے مضارع معروف واحد متکلم کا صیغہ ہے جس کا لفظی ترجمہ ہوگا ’’میں پناہ مانگتا، مانگتی ہوں‘‘ یہ لفظ (اَعُوْذُ) قرآن کریم میں سات (۷) دفعہ آیا ہے۔ فعل ثلاثی مجرّد کے بعض دوسرے صیغوں مثلاً ’’عُذْتُ‘‘، ’’یَعُوْذُوْنَ‘‘ اور مصدر ’’مَعَاذ‘‘ کے علاوہ بابِ اِفعال اور اِستفعال سے بھی اس کے ’’مضارع‘‘ اور ’’امر‘‘ کے صیغے استعمال ہوئے ہیں جن کا بیان اپنی اپنی جگہ پر آئیگا۔

[بِاللّٰہِ] دراصل ’’بِ + اللّٰہ‘‘ہے۔ اس میں ’’با‘‘ حروف الجر ہے جو اسماء کے شروع میں ہمیشہ مکسور (بِ) ہی آتا ہے۔ اور بطور حرف الجر ہونے کے بھی اس (بِ) کے متعدد معنی ہیں۔ عموماً یہ الصاق  ؎۱  یا مصاحبت۱؎ ، استعانت۲؎ ، سببیت۳؎ ، تعویض ۴ ؎ ، بدل ۵؎ ، ظرفیت۶؎ اور قسم ۷؎ کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کا اردو ترجمہ حسبِ موقع (علی الترتیب)… کے ساتھ۱؎، …کے ذریعے۲؎ یا …کی مدد سے ۲؎، …کی بناء پر ۳؎ ، …کی وجہ سے ۳؎  یا …کے سبب سے۳؎ ، …کے بدلے ۴؎  ، …کی بجائے۵؎، …کے پاس سے۶؎، …کے وقت۷؎ اور …کی قسم۷ ؎  ہے‘‘ کی صورت میں کیاجاسکتا ہے۔ ان کی کئی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

کبھی یہ (بِ) بعض دوسرے حروف جارہ مثلا لام (لِ فی ، عَن، مِن، علیٰ، اِلٰی اور مَعْ کی بجائے اور ان کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور خود قرآن کریم میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ ان مواقع کا بھی اپنی اپنی جگہ ذکر آئے گا۔

کبھی یہ (بِ) عربی زبان کے محاورے میں اس طرح بھی استعمال ہوتا ہے کہ وہاں اس کے اپنے کوئی معنی نہیں ہوتے مگر پوری ترکیب کو ایک خاص معنی دے دیتا ہے۔ مثلا ’’ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ …‘‘ یا كَفٰي بِاللّٰهِ شَهِيْدًا ‘‘ کی قسم کی تراکیب میں  ـــ ان پر بھی بحث اپنے اپنے موقع پر ہوگی۔

کبھی یہ (بِ) مختلف افعال کے ساتھ بطور ’’صلہ‘‘ لگ کر متعدد اور متنوّع معنی پیدا کرتا ہے زیادہ تریہ تعدِیہ کے لئے یعنی فعل متعدی کے ساتھ آتا ہے اور اکثر فعل لازم کو تعدِیہ دینے (متعدی بنانے) کا کام دیتا ہے۔ یہ سب چیزیں اپنے اپنے موقع پر ہمارے مطالعہ میں آئیں گی۔ (ان شاء اللہ)

یہاں (اَعُوْذُ بِاللّٰہِ میں) یہ (بِ) فعل ’’عَاذَ یَعُوْذُ‘‘ کے صلے کے طور پر آیا ہے جیسا کہ ابھی اوپر ’’اَعُوْذُ‘‘ کی بحث میں بھی بیان ہوا ہے۔ اس جگہ (استعاذہ میں) ’’بِاللّٰہ‘‘ کا ترجمہ ’’اللہ سے، اللہ کے ساتھ، اللہ کے ذریعے یا اللہ کی مدد سے ‘‘(جو بذاتِ خود درست ہیں) کی بجائے ’’اللہ کی‘‘ کے ساتھ کرنا اردو محاورے کے لحاظ سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس ترکیب جملہ (اَعُوْذُ بِا للّٰہِ) کے مزید با محاورہ تراجم آگے چل کر آیات میں اس کے استعمال پر سامنے آئیں گے۔[1]

اسم جلالت اللہ جو یہاں با اللہ میں آیا ہے کی لغوی وضاحت آگے ’’بسم اللہ ‘‘ میں آرہی ہے  [مِنَ الشَّیْطٰنِ] جو دراصل مِنْ + الشَّیْطٰن ہے۔ اس میں ’’مِنْ‘‘ حرف الجر ہے اور اس کے بھی متعدد معنی ہیں۔ موقع استعمال کے لحاظ سے اردو میں اس کا ترجمہ … سے، … سے لے کر ، (… تک)، میں سے ، … کی قِسم سے ، … کی نسبت، … کی بجائے، … کابنا ہوا، … کے مقابلے پر، اور کبھی ’’جیسا کہ‘‘ سے بھی ہوسکتا ہے ـــ  ’’مِنْ‘‘ کے مختلف استعمالات پر مزید بحث ابھی آگے چل کر سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں آئے گی۔ ’’مِنْ‘‘ کو آگے کسی لفظ (مثلاً کسی معرّ ف بالّلام) کے ساتھ ملاتے وقت اس کے نون کو ہمیشہ فتحہ  (ـــــَــــ) دی جاتی ہے۔ اس وقت اسے ’’مِنَ‘‘ پڑھا جاتا ہے۔

[اَلشَّیطٰنِ]  یہ لفظ جو عام عربی املاء میں ’’شیطان‘‘ لکھا جاتا ہے اتنا معروف لفظ ہے کہ اس کا اردو میں کسی اور طرح ترجمہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی ۔ صرف اردو، فارسی اور پنجابی ہی نہیں، دنیا کی متعدد اسلامی زبانوں میں یہ جانا پہچانا اور عام مستعمل لفظ ہے، حتی کہ انگریزی میں بھی SATAN یاSATANIC وغیرہ کی تراکیب متعارف ہیں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ اکثر ’’ابلیس‘‘ (جس پر بحث اپنی جگہ آئے گی) کے لقب یا صفاتی نام کے طور پر استعمال ہوا ہے گویا یہ ایک خاص شریر، سرکش اور بدروح یا شخصیت کا نام ہے۔ اسی لئے محاورے میں ہر متمرد، سرکش، سراپا  بدی یاشر کو بھی شیطان کہتے ہیں، چاہے وہ انسان ہو یا جن یا حیوان۔ اور قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ پر یہ لفظ ان معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے ۔

یہ لفظ بصیغہ واحد معرف باللام (اَلشَّیطٰنِ) قرآن کریم میں ستّر(۷۰) کے قریب مقامات پر اور بصیغہ واحد نکرہ (شیطان) چھ جگہ پر آیا ہے اور ان میں سے اکثر جگہ پر یہ ’’ابلیس‘‘ ہی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اور بصیغہ جمع (شیاطین) یہ لفظ قرآن کریم میں کل اٹھارہ جگہ (کہیں معرفہ کہیں نکرہ) آیا ہے۔ واحد نکرہ اور جمع (معرفہ یا نکرہ) کی صورت میں یہ دوسرے معنی (یعنی متمرد، سرکش وغیرہ) میں ہی مستعمل ہوا ہے۔

اس لفظ (شیطان) کے مادّہ اور وزن کی بات  ـــ اپنے طریق کار کے مطابق ـــ  شروع میں ہی کرنا تھی مگر یہ اس لئے نہیں کیا گیا کہ اس کے مادّہ کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں۔ اور اس کی تفصیل یوں ہے۔[2]

پہلاقول: اکثر اہلِ لغت کے نزدیک لفظ ’’شیطان‘‘ کا مادّہ ’’ش ط ن‘‘ اور وزن ’’فَیْعَال‘‘ ہے۔ اس مادّے سے فعل ثلاثی مجرد ’’شَطَنَ یَشطُنُ شُطُوناً (باب نصر سے) ہمیشہ لازم آتا ہے اور اس کے ایک معنی ہیں ’’بہت دور ہونا یا چلے جانا‘‘ انتہائی گہرے کنویں کو ’’بئرشَطُون‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح ’’شیطان‘‘ کے لغوی معنی میں ’’خیر سے دوری‘‘ یا ’’رحمت سے دوری‘‘ کی مناسبت پائی جاتی ہے۔

دوسرا قول: بعض کے نزدیک اس لفظ  ـــ  شیطان  ـــ کا مادّہ ’’ش ی ط‘‘ اور وزن ’’فَعْلَانٌ‘‘ ہے۔ اس مادّے سے فعل ثلاثی مجرد ’’شَاطَ یَشِیطُ شَیطاً ‘‘(باب ضرب سے) فعل لازم آتا ہے اور اس کے معنی ’’بربادہونا‘‘ بھی ہیں اور ’’جل جانا ‘‘ بھی۔ اور اسی مادّے سے باب استفعال (’’استشاط‘‘) ’’غصے یا حسد سے جل بھن جانا‘‘ کے لئے آتا ہے۔ اس طرح ’’ فَعْلَان‘‘ میں، جو اسم الصفۃ کا وزن ہے۔ ان معنوں کی مناسبت بھی ظاہر ہے۔

تاہم ان دونوں ’’مادّوں‘‘ سے کوئی فعل ---مجرد یا مزیدفی ---قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ لفظ ’’شیطان‘‘ کی ان دونوں ’’مادّوں‘‘ کے ساتھ معنوی مناسبت ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس لفظ کے معنی معاجم یا قوامیس (ڈکشنریوں) میں عموماً ان دونوں ہی مادّوں کے تحت بیان کئے جاتے ہیں تاہم اکثر اہلِ لغت ’’شَطَن‘‘ کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لئے ان کے پاس کچھ مزید لغوی دلائل بھی ہیں

(الرَّجِیْمِ) کا مادّہ ’’ر ج م‘‘ اور وزن ’’فَعِیل‘‘ ہے۔ اس مادّہ سے فعل ثلاثی مجرد  رَجَمَ یَرجُمُ رَجماً (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’(کسی کو) پتھر مارنا‘‘ یعنی یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ ـــ  بغیر صلہ کے ـــ  آتا ہے اور یہیں سے یہ فعل ’’پتھر مار کر بھگا دینا‘‘ یا ’’پتھر مار مار کر ہلاک کردینا‘‘ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ لفظ ’’رجیم‘‘ اور ’’مرجوم‘‘ ہم معنی ہیں یعنی ’’پتھر مار کو دور بھگایا ہوا‘‘۔ جس کا ترجمہ ’’مردود‘‘ ’’لعین‘‘ اور ’’راندہ‘‘ کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔ ’’فعیل‘‘ اکثر ’’مفعول‘‘ کے معنوں میں آتا ہے جیسے’’کفّ خضیب‘‘ اور’’لِحیۃ دَھین‘‘ ’’پتھرمارنا‘‘ کے بنیادی معنی سے ہی اس فعل (رجَم) میں مار ڈالنا (قتل)، نشانہ بنانا (رمیٰ)،دھتکار دینا (طرد)،گالی دینا (شتم) اور تیر تُکّہ لگانا یا اٹکل پچو بات کرنا (توہَّم) کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال پر بھی حسب ِ موقع بات ہوگی۔

اس مادّہ (رجم) سے قرآن کریم میں مختلف اسماء وافعال کے چودہ صیغے آئے ہیں۔ جن میں الرجیم (معرّف) دو دفعہ،  رجیم (نکرہ) چار دفعہ اور دوسرے مشتقات آٹھ دفعہ آئے ہیں۔ ان پر اپنی جگہ بات ہوگی۔

اور چونکہ عربی زبان میں کبھی ’’فعیل‘‘ بمعنی ’’فاعل‘‘ بھی استعمال ہوتاہے۔ اس لئے بعض اہلِ علم نے ’’رجیم‘‘ کے معنی ’’راجم‘‘ کے لئے ہیں یعنی گمراہ کرکے دوسروں کو رجم اور مردود بنادینے والا۔ اگرچہ یہ معنی از قسم اشارۂ بعید (FAR FETCHED) ضرور ہیں۔

 

الاعراب

(اَعُوْذُ) فعل مضارع معروف صیغہ واحد متکلم ہے۔ اس میں ضمیر مستتر ’’أَنا‘‘ بطور فاعل موجود ہے۔ یہاں فعل مضارع بغیر کسی اعرابی تبدیلی کے، اپنی اصلی حالت میں ہے جسے نحوی اصطلاح میں فعل کی حالتِ رفع کہتے ہیں۔ اور علامت ِ رفع اس میں ’’ذُ‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ) ہے۔

بِاللّٰہِ) میں با (بِ) حرف الجرّ ہے جس کی وجہ سے ’’اللّٰہِ ‘‘ مجرور ہے اور اس کی علامت جر آخری ’’ہ‘‘ کا مکسور ہونا ہے۔ جار مجرور (بِاللّٰہِ) متعلق فعل (اَعُوْذُ) ہے اور چونکہ ’’بِ‘‘ فعل (اَعُوْذُ) کا صلہ بھی ہے، اس لئے ’’بِاللّٰہ‘‘ یہاں محلا ً مفعول منصوب بھی ہے۔ اور اسی لئے بعض نحوی ایسی ’’بِ‘‘ کو بائے زائدہ کہتے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ ’’با‘‘ نہ ہوتی تو پھر’’اللّٰہ  ‘‘ فعل ’’اَعُوْذُ‘‘ کا مفعول ہو کر منصوب ہوتا۔

(مِنْ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ)= مِنْ + الشیطن + الرجیم

اس میں ’’مِنْ‘‘ حرف الجرّ اور ’’الشیطٰن‘‘ مجرور بالجر ہے جس کی علامت جرّ ’’نِ‘‘ کا مکسور ہونا ہے۔ ’’الرَّجِیم‘‘ ’’الشیطٰن‘‘ کی صفت ہونے کی وجہ سے مجرور ہے۔ (صفت موصوف کی اعرابی مطابقت کی بناء پر) اور اس (الرجیم)میں علامت جر ’’میم‘‘ کا کسرہ (ــــــِــــ) ہے۔ یہ پورا مرکب جاری (مِنْ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ) متعلق فعل ہے۔ استعاذہ کا یہ پورا جملہ جملۂ فعلیہ ہے۔ جس کا اردو ترجمہ ہوگا۔ میں پناہ مانگتا، مانگتی ہوں اللہ تعالیٰ کی شیطان مردود سے (بچنے کے لئے)

 

الرسم

’’ اَعُوذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ‘‘ یعنی صیغۂ استعاذہ اگرچہ قرآن کریم کی کوئی آیت نہیں ہے تاہم اس کے تمام کلمات قرآنی کلمات ہیں۔ بلکہ اس کا نصف ِ اوّل (اَعُوْذُ بِا للّٰہِ) البقرہ:۶۷ میں آیا ہے اور نصف ِ ثانی (مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم) قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے یعنی آلِ عمران :۳۶ اور النحل: ۹۸ میں اس لئے اس صیغہ کے کلمات کے رسم پر بات کرلینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

اس صیغہ (استعاذہ) کے باقی تمام کلمات کی عام املاء اور رسمِ عثمانی میں کوئی فرق نہیں ماسوائے کلمہ ’’اَ لشَّيْطٰنِ ‘‘ کے یعنی ’’اعوذ‘‘، ’’باللّٰہ‘‘، ’’من‘‘ اور ’’الرجیم‘‘ کا رسمِ معتاد اور رسمِ عثمانی  ـــ  یعنی طریق املاء  ـــ  ایک جیسا ہے ـــ   البتہ لفظ ’’شیطن‘‘ کا معاملہ مختلف ہے۔

یہ لفظ عام عربی املاء ـــ  رسمِ معتاد ـــ میں ’’شیطان‘‘ لکھاجاتا ہے تاہم یہ لفظ جو، بصیغہ ِ ٔواحد قرآن کریم میں چونسٹھ جگہ معرف باللام اور چھ جگہ بصورتِ نکرہ آیا ہے، ان تمام مقامات پر یہ لفظ رسمِ عثمانی کے مطابق بحذف ِ الف( یعنی ’’ط‘‘ اور ’’ن‘‘ کے درمیاں الف کے بغیر) یعنی ’’شیطن‘‘ لکھاجاتا ہے۔ عام اردو فارسی یا عربی میں اس کی املاء ’’شیطان‘‘ ہی ہے مگر قرآنِ کریم میں یوں لکھنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ علماء رسم کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت عثمانؓ والے مصاحف میں یہ لفظ ہر جگہ اور ہر مصحف میں بحذف ِ الف ہی لکھاگیا تھا۔ بعض ممالک خصوصاً ترکی۔ ایران اور چین کے مصاحف میں یہ لفظ باثباتِ الف (شیطان)لکھنے کا رواج ہوگیا ہے۔ اور رسم عثمانی کے نقطہ ٔ نظر سے یہ غلطی ہے۔ البتہ صرف صیغۂِ استعاذہ میں اس طرح (باثبات الف) لکھنے کی گنجائش یوں نکلتی ہے کہ یہ صیغہ قرآنی آیت نہیں ہے۔ تاہم چونکہ اس کے دونوں حصے الگ الگ قرآن کریم کی آیات سے ہی ماخوذ ہیں۔ اس لئے مستحسن یہی ہے کہ اسے بھی قرآنی رسم کے مطابق ہی لکھاجائے۔

 

الضبط

صیغۂ استعاذہ کے ضبط کے سلسلے میں حسب ذیل امور قابلِ توجہ ہیں:

’’اَعُوْذُ‘‘  کے( ابتدائی) ہمزہء قطع پر برصغیر ‘ ترکی ‘ ایران‘ چین میں علامت قطع ’’((#‘‘ نہیں ڈالی جاتی۔ صرف پاکستانی تجویدی قرآن  مجید میں یہ علامتِ قطع ڈالی جاتی گئی ہے۔ تمام عرب ممالک خصوصاً سعودیہ ‘ مصر اور شام میں یہ علامت ڈالی جاتی ہے بلکہ بیشتر افریقی ممالک مثلاً مراکش‘ لیبیا‘ تونس میں بھی یہی علامتِ قطع’’((# ‘‘ استعمال کی جاتی ہے  یعنی اسے ’’ ((# ‘‘ لکھتے ہیں۔ البتہ نائجیریا اور غانا میں علامتِ قطع  (  (# لکھی جاتی ہے یعنی ((# لکھتے ہیں اور بعض دفعہ ’’۱‘‘  کے اوپر زرد  رنگ کا گول نقطہ ڈالتے ہیں۔یعنی ((# لکھتے ہیں ’’ ((#‘‘ سے مراد زرد نقطہ ہے ۔

’’اَعُوْذُ‘‘میں عین مضمومہ (پیش والی عین) کے بعد واو (’’  وْ  ‘‘) پر علامت سکون ڈالنے کا رواج بھی صرف برصغیر پاک وہند میں ہے۔ دنیا کے اور کسی اسلامی ملک میں واو ساکن ماقبل مضموم پر علامت سکون نہیں ڈالی جاتی۔ ’’ذ‘‘  پر علامت ضمہ ہر جگہ ڈالتے ہیں البتہ مختلف ملکوں میں حرکاتِ ثلاثہ (ـــــَــــ ـــــِــــ ـــــُـــــ) کی صورت میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔

’’بِاللّٰہ‘‘  میں ’’بِ‘‘ کے بعد والے ہمزۃ الوصل پر علامت وصل بصورت ’’ ((# ‘‘ لکھنے کا رواج صرف مصر، سعودیہ اور شام میں نظر آتا ہے باقی ایشیائی یا افریقی ملکوں میں اس کا رواج نہیں ہے۔(#)

اسم جلالت ’’اللّٰہ‘‘ میں علامت ِتشدید پر علامت ِاشباع کے لئے الف مقصورہ (چھوٹا سا الف =کھڑی زبر) لکھنے کا رواج برصغیر پاک و ہند کے علاوہ ترکی اور ایران میں بھی ہے۔ مگر کسی عرب اور افریقی ملک میں اس کا رواج نہیں ہے بلکہ وہ تشدید پر صرف فتحہ (ــــــَــــ) ڈال دیتے ہیں۔ یعنی اسے ’’اللَّہ‘‘ لکھتے ہیں۔ حالانکہ تلفظ کے لحاظ سے یہ’’اَ لَّہ‘‘ نہیں بلکہ ’’اَلاَّہ‘‘ ہے۔ اس لحاظ سے برصغیر اور ترکی و ایران کا ضبط عرب اور افریقی ممالک سے یقینا بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی یا مصری یا شامی مصحف میں ہماری طرف کا کوئی آدمی ’’اللَّہ‘‘ کو صرف فتحہ سے بلا اشباع پڑھنے پر مجبور ہوگا جو صریحاً غلط ہے اور یہ عرب اور افریقی ممالک کے ضبط کا نقص ہے۔ چین میں البتہ اشباع (حرف کو کھینچ کر پڑھنا) کی علامت کے طور پر اسم جلالت کی تشدید کے اوپر ایک لمبی اور ترچھی مد ڈالتے ہیں۔ یعنی وہ (#) لکھتے ہیں۔

مِنَ کے سلسلے میں صرف یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صرف بعض افریقی ممالک (مثلاً تونس، مراکش، نائیجریا اور غانا) میں اس کے نون پر نقطہ  نہیں ڈالتے ہیں ۔ ان ممالک میں ضبط کا قاعدہ یہ ہے کہ کسی کلمہ (لفظ) کے آخر پر آنے والی ’’ی‘‘ ،  ’’ن‘‘ ، ’’ف‘‘ یا ’’ق‘‘ پر نقطے نہیں ڈالتےـــــ البتہ یہی حروف کسی کلمہ کی ابتدا ء میں  یا درمیان میں کہیں آئیں تو ان پر اپنے ملک کے رواج کے مطابق ’’نقطے‘‘ لگاتے ہیںــــ یہ اپنے  ’’رواج ‘‘ والی بات ہم نے اس لئے لکھی ہے کہ ان ممالک میں ’’فا‘‘ کے نیچےایک نقطہ اور ’’قاف ‘‘ کے اوپرایک نقطہ ڈالا جاتا ہے یعنی ’’ ف‘‘ کو ’’ (#) ‘‘ اور ’’ق‘‘ کو ’’ (#) ‘‘ لکھتے ہیں۔ البتہ تونس کے بعض مصاحف میں ان حرفوں کو ہماری طرح لکھا بھی دیکھا گیا ہے ۔
’’
الشیطن‘‘ کے شروع میں ھمزۃ الوصل پر علامتِ وصل برصغیر ‘ ترکی ‘ ایران اور چین میں نہیں ڈالی جاتی۔ مصر‘ سعودیہ اور شام میں یہ ’’ص‘‘ کے باریک سے سرے (’’#‘‘) کی شکل میں لکھتے ہیں۔ یعنی ’’(#)‘‘ ـــ افریقی ممالک میں اوپر ایک باریک سا نقطہ یا بڑا سبز رنگ کا نقطہ ڈالتے ہیں۔ یعنی ’’ (#)‘‘ یا ’’ (#) ‘‘ کی صورت میں لکھتے ہیں۔ پھر اس ھمزۃ الوصل سے ما قبل کوئی حرف مفتوح ہو  (جیسےیہاں ’’َنَ‘‘ ہے ) تو اس ھمزۃ الوصل  ( جو بصورت الف لکھا جاتا ہے) کے دائیں طرف اوپر والے سرے پر ایک باریک سی لکیر بڑھا دیتے ہیں یعنی ’’ (#) ‘‘ اور اگر ماقبل کوئی حرف مکسورہو تو یہ لکیر الف کے نیچے ڈالتے ہیں۔ یعنی ((#   ۔اور اگر  ما قبل کوئی حرفِ مضموم ہو تو یہ لکیر الف کے وسط میں ڈالتے ہیں  یعنی ((# لکھتے ہیں اس لفظ (شیطان) کے ’’ش‘‘ پر علامتِ تشدید مع فتحہ ’’ (#) ‘‘ اور ’’ یاء‘‘ پر علامتِ سکون ہر ملک میں یکساں ہی لکھی جاتی ہےـــــ البتہ ’’ط‘‘ پر برصغیر میں  کھڑی زبر ’’ ــــــٰــــ ‘‘ لکھی جاتی ہے۔ جب کہ عرب اور افریقی ممالک میں ’’ط‘‘پر فتحہ (ــــــَــــ)  ڈال کر ساتھ (’’ط‘‘کے دوسری طرف) ایک کھڑی زبر (یا الف مقصورہ) ڈالتے ہیں۔ یعنی ’’ ((# ‘‘ کی صورت میں لکھتے ہیں۔ اس لفظ (شیطان) کے آخری ’’ن‘‘ پر بعض افریقی ممالک میں نقطہ نہیں ڈالتے۔ جیسا کہ ابھی اوپر ’’مِنْ‘‘ کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔
’’
الرجیم‘‘ کےابتدائی ھمزۃ الوصل ــــ پر علامتِ وصل پاکستان‘ ترکی ‘ ایران اورچین میں نہیں ڈالتے۔ عرب ممالک میں ’’ (#) ‘‘ اور افریقی ممالک میں ’’ (#) ‘‘ یا ’’ (#)   ‘‘ کی صورت میں لکھتے ہیں جس میں ’’o‘‘ سے مراد ایک سبز گول نقطہ ہےـــ اور چونکہ اس ’’ ھمزۃ الوصل ‘‘سے ما قبل حرف مکسور (نِ)ہے۔ اس لئے اس الف کو یوں لکھتے ہیں۔ ’’#‘‘ اس لفظ (الرجیم) کے ’’ج‘‘ اور ’’میم‘‘ کے درمیان والی ’’ یاء‘‘پر علامتِ سکون ڈالنے کا رواج بھی صرف برصغیر پاک و ہند میں ہی ہے۔ عرب اور افریقی ممالک بلکہ ایرن‘ ترکی ‘ چین‘ وغیرہ میں بھی ’’ یاء ما قبل مکسور ‘‘ پر علامتِ سکون نہیں ڈالی جاتی۔

البتہ ایران اور ترکی میں یہاں ’’ج‘‘ کے نیچے صرف کسرہ (ــــــِــــ) کی بجائے کھڑی زیر (ــــــٖــــ) لکھنے کا رواج ہے ۔

اس طرح صیغۂِ استعاذہ کے مختلف اجزاء (کلمات) کی صورتِ ضبط یوں بنتی ہے۔

نوٹ کیجئے بنیادی رسم الخط ہر صورت میں یکساں ہے۔

نوٹ: تلاوت سے پہلے یا بعد استعاذہ پڑھنے میں کیا حکمت ہے! کن امور میں بندے کو خدا کی پناہ طلب کرنے کا حکم (بصیغۂِ امر) یا اس بات کی تعلیم بذریعہ قصہ دی گئی ہے اور کیوں! نیز ’’شیطان‘‘ کی حقیقت پر مباحث (اگرچہ ان میں سے بیشتر ’’ذہن فرسا‘‘ہیں) وغیرہ کے لئے ایسی تفاسیر کی طرف رجوع کیجئے جو اسناد اور اعتقاد کے لحاظ سے قابل اعتماد ہوں۔

 

 



[1]   ’’بِ‘‘ کے مختلف استعمالات کی تفصیل اور مثالوں کے لئے کسی اچھی عربی معجم (ڈکشنری) میں ’’ب کی پٹی‘‘ کے شروع میں دیکھ لیجئے۔ نحو کی کتابوں میں حروف المعانی کے ضمن میں بھی اس پر بحث ملے گی اور۔ افعال کے ساتھ بطور صلہ استعمال کی مثالیں قرآنِ کریم میں بھی بکثرت آئیں گی۔

[2]     مثلاً ملاحظہ ہو۔ اعراب ِ ثلاثین سورۃ من القرآن الکریم لابن خالویۃ ص ۷ ۔ ۸ تفسیر طبری (طبع البابی) ج ۱ ‘ ص : ۴۹‘ تفسیر ابن کثیر (طبع دارالمعارف) ج ۱‘ ص : ۶۴‘ طبرسی (طبع بیروت) ج ۱ ‘ ص ۳۸۔