لغات و اعرابِ قرآن

کی روشنی میں

ترجمہ   قرآن   کی لغوی اور نحوی بنیادیں

مُقَدِّمَہ

       الحمد للّٰہ وحدہ والصَّلٰوۃ والسّلام علٰی عبدہ و رسولہ سیدنا محمد النّبی الامّیّ الذی لا نبیّ بعدہ۔ و علٰی الہ واصحابہ ومن دعا بدعوتہ و تمسّک بسنّتہ الی یوم الدّین ۔

          قرآنِ کریم کی عظمت و فضیلت اور اس کی اہمیت کسی تعریف یا تعارف کی محتاج نہیں۔    

          مسلمانوں کے لئے ـــ  قرآنِ عظیم کی فضیلت کا مقام یہ ہے کہ وہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ خدائے ذ والجلال والاکرام کا وہ ابدی کلام اور سرمدی پیغام ہے جو خیر الانام محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی روشن دلیل اور معروف ترین معجزہ ہے ـــ اور یہ ربّ العالمین‘ احکم الحاکمین اللہ عز ّوجلّ کی طرف سے خاتم النّبیّین رحمۃٌ لِّلعالٰمین محمد رسول اللہ ﷺ پر بذریعہ روح الامین نازل کردہ وہ کتابِ مبین ہے جو ھدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ہےـــ جو برہان و نور ہے اور جو حبْلُ اللہ المتین ہے۔

          اور غیر مسلموں کے لئے ـــ  اس کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کی انقلاب آفرینی اور اس کی کایا پلٹ ’’کیمیا گری‘‘ ان کے نزدیک بھی مسلّمہ ہے۔ یہی وہ کتابِ ہدایت ہے جس نے عربوں کو گمنامی اور گمراہی کے گڑھے سے نکال کر شہرت و حکومت اور رفعت و عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

          قرآنِ کریم کی اس عظمت اور اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

          غیر مسلم اپنی اغراض کے لئے اپنے آپ کو مطالعہ قرآن پر مجبور پاتے ہیں۔ مسلمانوں کی سربلندی کے اصل ’’قرآنی راز‘‘ سے آگاہی حاصل کرنے پر ہی وہ مسلمانوں کو اس ’’نسخۂ کیمیاء‘‘ سے غافل کر کے دوبارہ قعْر ِمذَلَّت میں گرانے کا کوئی مؤثر پروگرام بنا سکتے ہیں۔ یہ قرآنی تعلیمات کی انقلابی اہمیت اور نفوسِ انسانی میں اس کی تاثیر کا خوف ہی تو تھا جس کی بناء پر کفارِ مکہ نے قرآنِ کریم کے بارے میںـــ  وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ [حٰم السجدۃ : ۲۶] کی وہ پالیسی اپنائی تھی جس میں آج بھی اسلام کے دشمنوں کو اپنے مذموم عزائم کے لئے امید موہوم کی کچھ کرن دکھائی دیتی ہے۔

          مسلمانوں پر تو قرآنِ حکیم پر ایمان لانے کے ساتھ ہی اس کے حقوقِ اربعہ ـــ  تعلّم‘ تدبّر‘ تعمیل اور تبلیغ  ـــ کی ادائیگی واجب ہو جاتی ہے۔

ان میں سے پہلا حق ’’تعلّمِ قرآن‘‘  یعنی اسے سیکھنے کا ہے۔ جس میں قراء ت اور تلاوت کے ساتھ اس کے معانی کا علم اور اس کے احکام کا فہم بھی شامل ہے  ـــ اور اس کی روزانہ تلاوت یا قراء ت سے نہ صرف ادائے حقوقِ قرآن کی ابتداء ہوتی ہے ‘بلکہ بافہم تلاوت تو قرآنِ کریم کے باقی تمام حقوق ادا کرنے کے لئے پیہم یاددہانی کا کام بھی دیتی ہے۔تعلیم و تعلّم قرآن کے اسباب و ذرائع اور اس کے لئے مطلوب علوم و فنون متعدّد اور متنوّع ہیںـــ یا یوں سمجھئے کہ فہم اور تدّبر کے ساتھ مطالعہ قرآن کا انحصار کئی امور بلکہ علوم پر ہے ۔تاہم بلا اختلافِ احدے ـــ  یہ امر مسلّم ہے کہ اس سمت میں پہلا قدم عربی زبان کاـــ کسی درجہ مہارت تک معقول فہم ہے۔

          اور اگر عربی زبان کا یہ علم و فہم ماہرانہ اور ’’ مُنتہیانہ‘‘ درجے میں ممکن نہ ہو تو بھی کم از کم عامیانہ اور ’’ مُبتدیانہ‘‘ سطح سے خاصا اونچا ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ صرف قرآنِ کریم ہی نہیں تمام علومِ اسلامیہ کی اصل اور بنیادی کتابیں عربی زبان ہی میں ہیں۔

          اور یہاں عربی زبان سے ہماری مراد بھی قرآن و حدیث والی زبان ہے جسے اصطلاحاً ’’العربیۃ الفصحٰی‘‘ کہتے ہیںـــ اور یہی زبان دنیا بھر کے مسلمانوں کی مشترکہ دینی اور ثقافتی زبان ہے۔ عربی زبان کی تعلیم کا سب سے بڑا مقصد تو دین فہمی ہی ہے ۔ اگرچہ آج کل عربی سیکھنے کی ضرورت کئی اور پہلوؤں سے بھی محسوس ہونے لگی ہے تاہم عرب ممالک میں بولی جانے والی عام روزمرّہ کی (Colloquial) زبان ـــجسے اصطلاحاً ’’اللغۃ الدّارجۃ‘‘کہتے ہیں ـــ  اس کا سیکھنا سیاحوں اور عرب ممالک میں کام کرنے والے چھوٹے یا بڑے ملازموں یا دُکانداروں وغیرہ کے لئے چاہے کتنا ہی ضروری یا مفید ہو ـــ  قرآن فہمی توکجا قرآن کی درست قراء ت سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

          عربی (یا کسی بھی زبان) کو سیکھنے کے لئے جدید ترین نظریہ تعلیم کے مطابق  ـــ  چار مہارتوں کو بنیادی ضرورت سمجھا جاتا ہے ـــ استماع’ نطق‘  قراء ت اور کتابت (یعنی سننا، بولنا، پڑھنا اور لکھنا ) قرآن فہمی کے لئے عربی سیکھنے میں بھی یہ مہاراتِ اربعہ نا گزیر ہیں۔

          اس کا سب سے پہلا مرحلہ ناظرہ قرآن خوانی سے شروع ہوتا ہے۔ عربی حروف کے درست مخارج اوران کی اصوات (آوازوں) کو استماع او رنطق یعنی سن کر بولنے سے ہی سیکھا جاسکتا ہے۔ بعد کے مراحل میں یہ استماع و نطق عربی بول چال بذریعہ حوارو مکالمہ سیکھنے کے لئے بھی استعمال ہو سکتے ہیں اور ہونا چاہئیں ـــ  تاہم عربی زبان سیکھنے کی خشت اول، صحیح مخارج اور درست تلفظ کے ساتھ قرآن خوانی کو قرار دینا اتنا اہم کام ہے کہ مشہور مصری عالم دکتور شوقی ضیف (جن کا تخصّص ہی عربی گرامر یعنی صرف و نحو ہے) نے اپنی کتاب ’’تجدیدالنحو‘‘ کے ابتدائی دس صفحات (ص۴۹ تا ۵۸) میں کلمہ کی اقسام ثلاثہ ( اسم ، فعل ، حرف ) بیان کرنے کے فورا بعد درست قرآن خونی اور تجوید کے بنیادی قواعد پر مثلِ مخارج ، اصواتِ حروف، حرکات ، تشدید، تنوین، لین ، مدّ، تفخیم ، ترقیق، ہمزہ قطع و وصل ، حروفِ شمسی و قمری اور ادغام و ابدال پر مفصل بات کی ہےـــ(یعنی یہ تمام امور ’’قرآنی قاعدہ‘‘ میں آجانے چاہئیں ) ـــ  اور انہوں نے نطق سلیم اور تلفظ کی صحت کو عربی صرف و نحو کی تعلیم کے لئے بنیادی لازمی شرط (PRE-REQUISITE) قرار دیا ہے۔ بلکہ اس چیز سے غفلت کی بنا پر ہی مصریوں کی نئی (نوجوان) نسل  میں لغۃ فصحٰی میں گفتگو کی صورت میں کلمات کے ناقص تلفظ اور حروف کے نطق میں لا اُبالی پن پر اظہارِ افسوس کیا ہے۔ صحیح مخارج‘ درست تلفظ اور عربی حروف کی صوتی خصوصیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے رواں اور شستہ لہجے میں ناظرہ قرآن خوانی سے تعلیم زبان کی تیسری مطلوبہ مہارت یعنی قراء ت بلکہ بسرعت قراء ت  RAPID READING))کے حصول کا وہ مرحلہ طے ہو جاتا ہے جو نہ صرف تعلیم زبان (عربی ) کی اہم اساس ہے بلکہ اس کے ذریعے اس سے اگلے مراحل طے کرنے کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ اس وقت اگر تیسری مہارت زبان (قراء ت) کے ساتھ ہی بچے کے لئے زبان کی چوتھی مہارت (کتابت) کے حصول کی بنیاد رکھ دی جائے ـــ  یعنی متعلّم کو عربی حروف (بخط نسخ ) بقدرِ امکان خوشخط لکھوانے کا کام شروع کر دیاجائے ـــ  بلکہ اگر افریقی مسلم ممالک میں رائج طریقے کے مطابق متعلّم کو (چھوٹی عمر میں ہی) سبق میں پڑھی جانے والی قرآنی عبارات یا کلمات کو  ـــ  کاغذ یا تختی پر  ـــ  ہو بہو نقل نویسی کی عادت ڈالی اور مشق کرائی جائے ـــ  تو یہ چیز عربی زبان کے مؤثر اور بسرعت و سہولت تعلیم کی مضبوط اور مستحکم بنیاد ثابت ہو سکتی ہے۔

          اور اگر کسی آدمی کو ابتدائی عمرمیں ان مہارات اربعہ کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کا موقع نہیں ملا ـــ  اور اب وہ عربی زبان کے سیکھنے کا بھی خواہاں ہے تو اسے حسب ضرورت پہلے چند دن یا چند ہفتے مخارج کی صحت اور تلفظ کی درستی کے ساتھ قرآن کریم  ـــ  بلکہ عام مشکول عربی عبارات  ـــ  کی رواں قراء ت (RAPID READING) کی مشق کر لینی چاہئے۔ اور اس کے ساتھ ہی عربی عبارات کو قرآنی اسلوبِ کتابت (خط نسخ ) کے مطابق نقل کرنے یا لکھنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔

          مندرجہ بالا امور عربی زبان کی تعلیم کے لئے ’’مالا بدمنہ ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں اس کے بعد عربی صرف و نحو کے قواعد کی تدریس اور ترجمتین کے ذریعے ان کی عملی مشق کا درجہ آتا ہے  اور یہاں بھی عربی کی کسی اچھی مشکول درسی کتاب (READER) کا مطالعہ (قراء ت و معانی ) تعلیم قواعد سے پہلے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ جاری رکھنا چاہئے۔ تجربہ شاہد ہے کہ اگر اسی تدریس کو دو ڈھائی گھنٹے روزانہ (مع مشقی  کام  HOME WORK )دیئے جائیں تو طالب علم کی سابقہ تعلیمی استعداد (بی اے۔ ایف اے یا میٹرک ہونے) کے لحاظ سے ایک یا دو سال کے عرصے میں نہ صرف عربی زبان کا اچھا خاصہ ذخیرئہ  الفاظVOCABULARY) ) بلکہ وہ تمام ضروری قواعد زبان ـــ  صرف ونحو  ـــ  ذہن نشین کرائے جا سکتے ہیں ـــ  جو ترجمۂ   قرآن  کی لغوی اور نحوی بنیادوں کو سمجھنے کے لئے ضروری ہیں اور جن کا بطور سلیبس یا مقدارِ نصاب کے ہم ابھی آگے چل کر ذکر کریں گے۔

اس سے اگلے مراحل (اگر کوئی طے کرنا چاہے تو ) میں عربی نظم و نثر کی کتابیں پڑھ کر ذوقِ ادب پیدا کرنے ، اسالیب کلام سے آشنا ہونے کے بعد آخر پردرجہ تخصّص میں بلاغت اور معانی و بیان کے اصولوں سے آگاہ ہونے اور اس کے عملی اطلاق کے مراحل طے کرنے سے عربی زبان و ادب پر عبور اور مہارت کاعلمی درجہ تکمیل پذیر ہوتا ہے ـــ  تاہم یہ آخری مراحل قرآن فہمی کے بنیادی لوازمات نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کوتدبر کے ساتھ فہم قرآن کی ’’تحسینات ‘‘ اور ’’ مستحبات ‘‘ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

           تخصّص زبان کے اس آخری درجہ سے پہلے  اور قواعد صرف و نحو کے ایک معقول اور معیاری نصاب (جن کا ذکرآگے آئے گا ) کی کامیاب تکمیل کے بعد قرآن کریم کو  ـــ  ترجمہ کی حد تک  ـــ  براہ راست سمجھنے کے کام کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ طالب علم اس مرحلے پر فہم قرآن کے دو بنیادی عناصر  ـــ  لغات (مادہ اشتقاق کی بحث ) اور وجوہ اعراب کی بنیاد سے آگاہ ہو چکا ہوتا ہے وہ کلمات کی بنائی اور اعرابی حرکات کے تغیرات کے اسباب و نتائج کو جاننے لگتا ہے اور معجم (ڈکشنری) کے استعمال پر قادر ہونے کی بناء پر وہ کلمات کے لغوی معنی کی بحث کو سمجھ سکتاہے۔ بلکہ عبارت کے اندر کلمات کے باہمی تعلق (ترکیب) کی بناء پر عبارت کے معنی متعین کرنے پر قادر ہوسکتاہے۔ گویا وہ براہ راست فہم قرآن کی دہلیز پر آ کھڑا ہوتا ہے۔( شاہ ولی اللہ ؒ کا نظریہ)

          ’’لغاتِ قرآن ‘‘ اور ’’اعراب قرآن‘‘ کا فہم قرآن سے کتنا گہرا تعلق ہے اس کا اندازہ اس بات سے کر لیجئے کہ عموماً ہر قابلِ ذکر مفسر اپنی کتاب (تفسیر ) میں تفسیر آیات (مثلاً بعض واقعات یا احکام کی تفصیل یا کسی نکتہ آفرینی وغیرہ ) سے پہلے نص قرآنی (عبارت) کے مفرد کلمات (الفاظ) کی لغوی تشریح اور مرکب کلمات (جملوں) میں کم از کم بعض اہم اعراب کی توضیح ضروری سمجھتا ہے  ـــ  اور بعض تفاسیر (مثلاً کشاف، بیضاوی وغیرہ ) اپنی اس خصوصیت کی بنا پر اہل علم کے ہاں زیادہ مقبول ہوئی ہیں۔

          خیال رہے کہ عربی دنیا کی واحد زندہ اور ترقی یافتہ زبان ہے جس میں کلمات (خصوصاً اسماء و افعال ) کی بنیاد (عموماً) ایک سہ حرفی مادہ ہوتا ہے ـــ  اگرچہ بعض دوسری سامی زبانوں مثلاً عبرانی، سریانی، آرامی، امہری، حبشی وغیرہ میں بھی یہ ’’مادہ کلمات‘‘ والی بات پائی جاتی ہے لیکن ان میں سے اکثر یا تو اب مردہ زبانیں شمار ہوتی ہیں یا ان زبانوں کے مقابلے پر عربی میں یہ چیز زیادہ وسیع اور ایسی ترقی یافتہ صورت میں پائی جاتی ہے کہ ایک ایک مادہ سے نکلنے والے مشتق اور جامد کلمات میں سے معانی و مفاہیم کے اتنے چشمے پھوٹتے ہیں جنہوں نے عربی زبان کو ایک دریائے ناپیدا کنار بنا دیا ہے۔

عربی زبان اپنی ترقی کے یہ مدارج طے کرکے ظہور اسلام اور نزول قرآن سے پہلے (خصوصاً حجاز میں ) اپنے بلوغ کو پہنچ چکی تھی۔ قرآن اور اسلام کی بدولت اسی عربی زبان کو حیاتِ دوام حاصل ہوئی۔ اور یہی زبان آج تک دنیائے اسلام کی مشترک دینی اور ثقافتی زبان ہے دوسری طرف عربی دنیا کی ان چند زبانوں میں سے ایک ہے جن میں اسماء و افعال کے آخری حصے میں تصریف سے بعض قواعد و ضوابط کے ساتھ ایک تبدیلی (INFLECTION) واقع ہوتی ہے۔ جسے اعرابی تبدیلی یا اعرابی حالتیں یا صرف ’’اعراب‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ خصوصیت دنیا کی بعض قدیم زبانوں مثلاً یونانی، لاطینی وغیرہ میں بھی موجود تھی۔مگر آج کی زندہ زبانوں میں سے یہ چیز صرف تین زبانوں ـــ  عربی ، جرمن اور امہری (حبشی) ـــ  میں پائی جاتی ہے  ـــ اور عربی میں بھی یہ چیز قرآن کریم کی برکت سے صرف لغۃِ فصحٰی یعنی علمی عربی میں پائی جاتی ہے ورنہ روزمرہ کی بول چال ـــ   لغۃ دارجہ  ـــ میں تو عرب بھی اسے خیر باد کہہ چکے ہیں۔

          فہم قرآن کی کسی بھی علمی کوشش میں عربی زبان کی ان دو خصوصیات یعنی لغوی ا ور نحوی پہلوؤں  ـــ  لغات اور اعراب  ـــ  کو مدِ نظر رکھے بغیر چارہ نہیں۔ تفسیر کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔ یا یوں کہئے کہ نص قرآنی (عبارت) کی تفسیر و توضیح کے کام کا آغاز ان دو امورسے ہی کیا جا سکتا ہے۔

          بلکہ ’’لغات و اعرابِ قرآن‘‘ کی اسی اہمیت کے پیش نظر ان موضوعات پر مستقل تالیفات موجود ہیں جو خصوصاً ان دو موضوعات سے متعلق مشکل (غریب) کلمات یعنی ’’غریب المفردات‘‘ اور مشکل مرکبات یعنی ’’غریب الاعراب‘‘ سے بحث کرتی ہیں۔ مثلاً حسین بن محمد المعروف راغب اصفہانی (المتوفی ۵۰۲ھ) کی المفر دات فی غریب القرآن اور (عبد الرحمن بن محمد المعروف ابن لانباری (المتوفی ۵۷۷ھ) کی البیان فی غریب اعراب القرآن ـــ اور یہ تو ہم نے صرف دو کتابوں کا نام لیا ہے ورنہ ان    دو موضوعات    میں سے ہر ایک موضوع پر بلکہ بعض دفعہ ان کے ضمنی موضوعات پر مستقل تالیفات میں یا بعض بڑی کتابوں کے مختص ابواب میں بحث کی گئی ہے۔ جن کامختصر تعارف بھی ایک مستقل مقالے کا محتاج ہے۔ صرف ابن الندیم (متوفی ۳۹۰ ھ ۱۰۰۰ء  ) نے الفھرست میں اس قسم کی انیس کتابوں کا ذکر کیاہے۔

          اور یہ بھی خیال رہے کہ یہ دو امور (لغات اور اعراب قرآن) اگرچہ فہم قرآن یا ترجمۂ   قرآن   کی بنیاد ہیں  ـــ  تاہم یہی اور محض یہی فیصلہ کن عامل نہیں ہیں۔ اس لئے کہ فہم قرآن کے دوسرے عوامل و ذرائع خصوصاً سنت رسول ، تفسیرِ ماثور، سیرت طیبہ اور تاریخ عرب وغیرہ سے بھی استفادہ ناگزیر ہے۔ اور پھر لغوی مباحث میں بھی عام و خاص، حقیقت و مجاز، صریح و کنایہ اور تشبیہ و استعارہ وغیرہ کے قواعد استعمال کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر تو اس معاملے میں ایمان (عقیدہ کی درستی) تقویٰ ، خدا خوفی، دیانتداری اور اخلاصِ نیت کا دخل ہے۔ ورنہ کسی عبارت کو من مانے معنی ’’پہنانا‘‘  ـــ  یا کسی مجموعۂ عبارات میں سے اپنی مرضی کے موافق عبارت اور کلمات نکال دکھانا۔ یہ تو حضرتِ انسان کی وہ خصوصیت ہے جس کے مظاہر صرف ’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘ کی قسم کے نام نہاد مذہبی رہنماؤں کی تحریر و تقریر میں ہی نہیں بلکہ ہماری عدالتی کارروائیوں میں وکلاء کے باہم متصادم دلائل میں اور سیاسی لیڈروں کے مناظرانہ بیانات میں مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔
(وَ کَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلاً ـــ  ((الکھف: ۵۴ (

          اس جملئہ معترضہ کے باوجود اس میں شک نہیں کہ لغات و اعراب قرآن کے علم کے بغیر قرآن کریم سے براہِ راست علمی یافکری رابطہ ممکن نہیں ـــ  اس رابطہ کے بعد قرآن کریم سے ہدایت و رہنمائی پانا  ـــ  یا قرآن کے ذریعے ہی اپنی گمراہی کو مستحکم کرنا ـــ  یہ تو ’’نصیب اپنا اپنا‘‘ والی بات ہے اور اس نصیب کا تعین کرنے والے اندرونی بیرونی عوامل کی بحث ایک الگ مسئلہ ہے۔

          جیسا کہ ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے اس موضوع کی اہمیت کی بناء پر عربی زبان میں تولغاتِ قرآن اور اعرابِ قرآن پر متعدد اعلیٰ پایہ کی تالیفات موجود ہیں۔ تاہم اردو زبان میں ابھی اس چیز کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ اور لغات القرآن پر تو پھر بھی اردو میں اچھا خاصا کام ہوچکا ہے۔ اگرچہ ان میں سے بعض میں صرف اپنی اغراض کے لئے کام دینے والے الفاظ و معانی جمع کرکے اپنے لئے لغات القرآن کے نام پر ایک خود ساختہ سند مہیا کرنے کی کوشش ہی کی گئی ہے۔ تاہم معقول اور دیانتدارانہ علمی کام بھی ضرور ہوا ہے۔ لیکن اعراب القرآن پر ابھی تک اردو میں کوئی کام نظر سے نہیں گزرا بعض تفاسیر (مثلاً حقانی) میں ترکیب نحوی کے نام سے اعراب القرآن کی کسی کتاب (عموما عکبری) سے کچھ اقتباس بزبانِ عربی شامل کر دیئے گئے ہیں۔

           اردو زبان میں اس موضوع پر کام نہ ہونے کی وجہ یہ تاثّر یا خیال بھی ہے کہ اعراب کی بحث کو تو وہی سمجھے گا جس نے اچھی خاصی عربی گرامر پڑھی ہو  اور جس نے اتنی عربی پڑھ لی ہو اس کو اردو میں اعراب سمجھانے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ ورنہ لوگ اب تک بیضاوی اور زمخشری کا ترجمہ بھی کر چکے ہوتے۔

           یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ لغات اور اعراب کی بحث سمجھنے کے لئے ایک خاص سطح تک کی عربی دانی یا عربی صرف و نحو کے قواعد سے واقفیت ضروری ہے۔

          تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس معیار تک  ـــ بلکہ اس سے زیادہ  ـــ عربی جاننے والوں میں سے بھی بہت کم لوگ ایسے ملیں  گے جنہوں نے کبھی پورے قرآن کریم کا لغات و اعراب کے ساتھ مطالعہ کیا ہو۔ اور اس میں یونیورسٹی اور درسِ نظامی کے فاضلین کا حال یکساں ہے۔ کسی ضرورت کے تحت یا کسی موقع کی مناسبت سے اس قسم کی بحث پر کسی کتاب میں نظر ڈال لینا اور بات ہے لیکن پورے قرآن کریم کا بالا ستیعاب اس طریقے سے مطالعہ اور بات ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اعراب و لغات کے بیان کے ساتھ پورے قرآن مجید کا مطالعہ کہیں بھی داخل نصاب نہیں ہے۔

          عربی جاننے والوں کو غم ہائے روزگار سے  اس کی فرصت ہی نہیں مل پاتی ۔جب تک یہ چیز نصاب میں مقرر نہ کر دی جائے  ـــ   پابندی کے ساتھ کم از کم پورے قرآن کا آیت بآیت اور لفظ بلفظ اس طریقے پر مطالعہ تقریباً ناممکن ہے۔

          یہ تجر بہ غالباً صرف مرکزی انجمن خُدَّام القرآن کے زیر اہتمام قرآن اکیڈمی میں ہی کیا گیا ۔ جس میں روزانہ دو پیریڈ (کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ) دیتے ہوئے کم و بیش ایک برس میں الحمد سے والناس تک پورا قرآن اعراب و لغات کے حوالے سے پڑھایا گیا ہے اور جزوی طور پر ’’منتخب نصاب‘‘  کی صورت میں اب بھی شامل تدریس ہے۔

          اردو زبان میں مستند اور دستیاب تراجم قرآن کی تعداد اس وقت درجن سے بھی زیادہ ہو چکی ہے اور عام اردو د ان پڑھا لکھا طبقہ اس سے استفادہ بھی کرتا ہے۔ تاہم اس میں قاری کو مترجم (ترجمہ کنندہ) کے علم و دیانت پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہر شخص اپنے ’’مکتب فکر‘‘ کے ترجمہ کو ہی ترجیح دیتا بلکہ اسی میں محصور ہوکر رہ جاتا ہے۔ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب ہدایت کے فہم کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا  ـــ  ترجمہ کی حد تک  ـــ  مطالعہ بھی اتنی اونچی علمی سطح پر تو کیا جائے کہ پڑھنے والا اپنے لغات و اعراب کے علم کی بناء پر ترجمۂ قرآن کی لغوی اور نحوی بنیاد کو سمجھ سکتا ہو۔

          حقیقت یہ ہے کہ یہی دو امور ۔ لغات و اعراب ـــ  ہی ترجمۂ   قرآن  یا براہ راست فہم قرآن کی بنیاد اور جان ہیں۔

 

          اس کے ذریعے ہی  ـــ

۱ ۔       یہ پتہ چل سکتا ہے کہ کس مترجم نے کن لغوی معنوں کو ترجیح دی ہے۔

۲۔      یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کس مترجم نے ترکیب نحوی میں کس چیز کو ملحوظ رکھا ہے۔

۳۔     اس بات کی نشاندہی ممکن ہے کہ کسی مترجم نے کہاں اور کس نوعیت کی غلطی کی ہے۔ اس غلطی کا معمولی یا سنگین ہونا’ اوردانستہ یا نا دانستہ    ہونا ایک اضافی بات ہے۔

۴۔      اور اس کے ذریعے ہی کسی مترجم کی الفاظ ترجمہ کے انتخاب میں غلطی یا درستی سامنے آتی ہے اور خوب اور خوب تر کا فرق بھی واضح اور نمایاں ہوجاتا ہے۔

          جب راقم الحروف کو قرآن اکیڈمی میں پہلے دو سالہ کورس کے طلبہ کو ترجمۂ   قرآن پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی توپہلے تو یہی خیال میں آیا کہ مختلف تراجم سامنے رکھ کر ان کے حوالے سے ترجمہ پڑھایا جائے (یعنی یہ بتایا جائے کہ فلاں صاحب نے یوں ترجمہ کیا ہے اور فلاں نے یوں ـــ وغیرہ ) لیکن ہفتہ بھر میں یہ محسوس کر لیا گیا کہ اس طرح تو طالب علموں کو تراجم میں (باہمی) فرق کی وجہ معلوم ہی نہیں ہو سکے گی۔ چونکہ یہ کلاس عربی صرف و نحو کا وہ ضروری نصاب مکمل کر چکی تھی جس کا ذکر ابھی آئے گا  ـــ  اس لئے یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ لغات و اعراب کے بارے میں طلبہ کے اس علمی اور ذہنی پس منظرر کے حوالے سے اصلی لفظی ترجمۂ   قرآن    ـــ  یعنی فہمِ معنیٔ عبارت  ـــ  کی بات کی جائے اور پھر اردو محاورہ کی خاطر کی جانے والی تبدیلیوں اور انتخاب الفاظ میں کسی مترجم کے معیار اور اس ذوق کا موجودہ تراجم کے ذریعے تقابلی مطالعہ بھی کیا جائے  ـــ  وقت کی کمی کے باعث ہم جملہ تراجم قرآن کا کما حقہ تقابلی مطالعہ تو نہ کرسکے  ـــ  تاہم موقع اور ضرورت کے لحاظ سے بعض دفعہ اس تقابلی مطالعہ نے خوب فائدہ بھی پہنچایا اور اس میں ایک لطف بھی آیا ـــ

          یوں قرآن اکیڈمی میں ترجمۂ   قرآن   کی اس تدریس سے ہی راقم الحروف کے ذہن میں یہ بات آئی  ـــ  اور اس کا محرک کلاس کے بعض ذہین طلبہ کے کچھ سوالات بھی بنے  ـــ  کہ اردو میں ’’لغات و اعرابِ قرآن ‘‘کی روشنی میں ’’ترجمۂ   قرآن   کی لغوی اور نحوی بنیادیں‘‘ واضح کرنے کے لئے ایک کتاب لکھی جائے جس کے اندر کلاس میں کئے گئے اجمالی کام کی تفصیل آجائے۔ اس کتاب کا نام (یا عنوان ) مندرجہ بالا واوین میں دی گئی عبارتوں میں سے ایک کو ہی قرار دیا جائے۔ سرد ست پہلے نام کو اختیار کر لیا گیا ہے۔

          اس کتاب کی تالیف کے سلسلے میں راقم الحروف کواپنے لئے کچھ رہنما اصول مقرر کرلینا ضروری معلوم ہوا ۔ ان کی تفصیل یوں ہے۔

۱۔       جہاں تک کلماتِ قرآن کی لغوی تحقیق (لغات القرآن) کا تعلق ہے۔ اس میں مادہ اور اشتقاق کی صرفی بحث سے آگے کسی کلمہ کے لغوی معانی کی بحث میں محتاط ہونا ضروری سمجھا گیا ۔ اس لئے کہ لغات (ڈکشنری) کی مثال تو ایک ایسے ’’کباڑ خانہ‘‘ کی ہے جس میں سے ہر آدمی اپنی ضرورت کی چیز ڈھونڈ نکالتا ہے۔ ہمارے نزدیک کسی کلمہ یا عبارت کے متعدد لغوی معانی سے انتخاب یا ترجیح میں سیاقِ عبارت کے علاوہ سنت رسول اور مستند تفسیر ماثور کو نظر انداز کرنا صریح گمراہی اور دانستہ یا نا دانستہ اسلام دشمنی ہے۔ قرآن و سنت نے عربی زبان کے جن کلمات کو ایک ’’دینی اصطلاح ‘‘ بنا دیا اب اس کے اصطلاحی معنی سے ہٹ کرلغت کے کونوں کھدروں سے کوئی شے تلاش کرکے لانے کی کوشش کرنا محض کولمبس بننے کے شوق اور خواہش کا اظہار ہے۔ یہ چیز دین یا قرآن کی کوئی خدمت نہیں ہے۔

          اس لئے اس معاملے میں ہم نے عام بڑی معاجم (ڈکشنریوں) اور غریب القرآن پر لکھی گئی مخصوص کتابوں کے علاوہ مستند تفاسیر میں سے شرحِ مفردات والے حصوں سے استفادہ کیا ہے۔ اور بعض جگہ الفاظ کے معنی عربی الفاظ میں نقل کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں جن قوامیس اور تفاسیر سے خصوصا استفادہ کیا گیا ہے ان میں سے اہم یہ ہیں۔

القاموس المحیط (فیروز آبادی) اور اس کی شرح تاج العروس پر مبنی ’’مد القاموس‘‘یعنی LANE ‘S LEXICAN المفردات (راغب) قاموسِ قرآن (قرشی) معجم غریب القرآن (فواد عبد الباقی ) تفاسیر میں سے زمَحشری ، طبرسی اور آلوسی کے لغوی مباحث کے ساتھ المُصحف المُیسَّر کے حواشی اور جلالین۔

۲۔      اعراب القرآن کے معاملے میں نہ صرف مذکورہ بالا تفاسیر کے نحوی مباحث کو سامنے رکھا گیا ہے بلکہ اعراب القرآن کی مختص کتابوں سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے۔ جن میں سے خصوصاً قابلِ ذکر یہ ہیں۔ العکبری کی ’’التبیان فی اعراب القرآن‘‘ جو (’’املاء ما منّ بہ الرّحمن ‘‘کے نام سے مشہو رہے ) ابن الانباری کی ’’البیان فی غریب اعراب القرآن‘‘ القیسی کی ’’مشکل اعراب القرآن‘‘ اور الزجاج کی ’’اعراب القرآن‘‘۔ تاہم کتاب اعراب القرآن کے بعض مباحث کو ہم نے اپنی کتب میں شامل نہیں کیا۔ اس کی تفصیل یوں ہے۔

          (الف) اعراب القرآن کی کتابوں میں عموماً اور بعض تفاسیر میں بھی قراء ات سبعہ میں سے متعدد قرا ء ات کے مطابق اعراب بیان کئے جاتے ہیں۔ ہم نے اس معاملے میں ان کتابوں سے اپنا استفادہ صرف قراء ت حفص (عن عاصم) تک محدود رکھا ہے۔ اس لئے کہ بر صغیر بلکہ تمام ایشیائی ممالک میں  ـــ  اور افریقی ممالک میں سے مصر میں بھی ـــ  صرف یہی قراء ت متداول ہے۔ اور اسی کو سمجھنا اور سمجھانا ہمارا مقصد اوّلین ہے۔

          (ب) اعراب القرآن کی کتابوں میں بعض ایسی توجیہات اور تاویلات بھی مذکور ہوتی ہیں جن کا فہم عبارت سے چنداں تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً بعض مبنی کلمات میں رفع، نصب یاجر  ـــ  تینوں اعراب کی وجہ ثابت کر دکھانا۔ بعض افعال میں نصب اور جزم دونوں کے امکانات بیان کرنا، یا بعض مشکل اعراب میں مختلف نحوی آراء (یا امکانات) لکھ کر کسی کو غلط اور کسی کو درست قرار دینا وغیرہ  ـــ  یا مثلاً اس قسم کے ’’نحوی مباحث‘‘ کہ بسم اللہ میں ’’ب‘‘ کی زیر (کسرہ) کیوں ہے فتحہ یا ضمہ کیوں نہیں؟  ـــ  یا ضمیر ’’نحن‘‘میں آخری نون پر پیش (ضمہ) کیوں ہے؟ وغیرہ

 

 
          بعض مشکل اعراب کی توجیہ و تاویل مقدرات اور محذوفات کے ذریعے کرنے کی یقینا ضرورت پڑتی ہے، تاہم اس معاملے میں نحوی بزرگوں کے بہت سے مباحث کو ایک قسم کا ’’علمی ہیضہ‘‘ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس کا رونا ابن مضاء القرطبی سے لے کر مصری موٗ لفین دکتور شوقی ضیف اور عباس حسن تک نے رویا ہے۔ اور اسی وجہ سے مصر میں سرکاری سطح پر ’’تیسیر النحو‘‘کے لئے کئی بار کوشش کی گئی ۔ جس کو بعض علماء نے ’’روایت سے انحراف‘‘ کہہ کر رد کرنے کی کوشش بھی کی اور بعض ’’اصلاحات‘‘ کو قبول بھی کرلیا گیا۔ اور اس ’’تعسیر النحو‘‘ اور ’’تیسیر النحو‘‘ کے مظاہر ہمیں عباس حسن کی علم نحو پر سب سے جامع اور مبسوط کتاب "النحو الوافی‘‘ اور دکتور شوقی ضیف کی مختصر مگر جامع کتاب ’’تجدید النحو‘‘میں نظر آتے ہیں۔ مقدم الذکر نے نحو کے مسائل کو ایک طرح سے ’’ضروری ‘‘اور ’’زائد از ضرورت‘‘ (یا خالص علمی و نظریاتی مسائل ) میں تقسیم کرکے ہر ایک کو الگ الگ بیان کیا ہے۔ جب کہ شوقی ضیف نے ’’نحو‘‘کے غیر ضروری جھاڑ جھنکار کو کاٹ پھینکا ہے اور صرف زبان (عربی) کو درست بولنے، لکھنے اور سمجھنے کی حد تک ضروری قواعد کو بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں بعض روایتی اصطلاحات کی جگہ نئی اصطلاحات میں قواعد ِ زبان بیان کئے ہیں۔

اس طرح آج کل نحو کی تعلیم اور تدریس کو ’’وظیفی (FUNCTIONAL)”اور ’’تخصیصی (SPECIALISED)”میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ تخصیصی پر عبور پانے کی ضرورت صرف ان حضرات کو ہے جنہوں نے تمام عمر مدارس یا جامعات میں عربی نحو کی تعلیم و تدریس کو ہی اپنا پیشہ یا مہارت خصوصی بنانا ہو

جہاں تک زبان کے درست بولنے،لکھنے اور سمجھنے کا تعلق ہے اس کے لئے ’’نحو و ظیفی‘‘ کے مسائل تک کی تعلیم کافی ووافی ہے اور اس درجہ تک پہنچنا بھی کوئی معمولی کارکردگی (ACHIEVEMENT) نہیں ہے، بنا بریں ہم نے کتب اعراب القرآن میں بیان کردہ مشکل یا ’’دقیق‘‘ مباحث کو شامل نہیں کیا ہے۔

          (ج) کتب اعراب القرآن میں عموماً نص قرآنی کے ایک ایک کلمہ (اسم ہو یا فعل یا حرف ) پر بات نہیں کی جاتی، بلکہ صرف چیدہ چیدہ اور قدرے مشکل اعراب والی آیات اور عبارات کو ہی زیر بحث لایا جاتا ہے اور بعض (مثلاً مکی بن طالب القیسی) نے تو صاف لکھا ہے کہ ’’ہماری کتاب مبتدیوں کے لئے نہیں بلکہ صرف منتہی اور ماہر نحو حضرات کے لئے لکھی گئی ہے‘‘ ـــ  اعراب القرآن کی کتابوں میں سے حال ہی میں دارا لارشاد حمص (شام) سے شائع ہونے والی استاد محی الدین الدرویش مرحوم کی کتاب ’’اعراب القرآن وبیانہ‘‘ واحد کتاب ہے جس میں قرآن کریم کے ایک ایک کلمہ پر نحوی بحث کی گئی ہے۔ ہم نے اس کتاب کو ہی نمونہ بناتے ہوئے نحو کے بظاہر معمولی اور مبتدیایہ مباحث کو بھی شامل بحث کر لیا ہے کیونکہ اس سے نحو کے ذریعے قرآن سمجھنے اور قرآن کے ذریعے نحو کے مسائل کو سمجھنے اور ان کا اعادہ کرنے کا دو طرفہ عمل جاری رہ سکتا ہے۔

          (د) اعراب القرآن کی کتابوں میں عموماً کلمات کے مادہ اور اشتقاق بلکہ بعض دفعہ صرفی تعلیلات کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے۔ ہم نے اس  کے لئے الگ عنوان (اللغۃ) مقرر کیا ہے۔ اس حصے میں سب سے پہلے ہر کلمہ کا ’’مادہ ‘‘ اور ’’وزن ‘‘ ہی بیان کیا گیا ہے۔ اور پھر اس کے معانی وغیرہ کی بات کی گئی ہے اور عنوان (الاعراب) کے تحت کسی کلمہ کے دوسرے کلمات کے ساتھ تعلق یعنی ترکیب نحوی کی بات کی گئی ہے۔ جس سے عبارت کے معنی متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس لئے بعض جگہ ہم نے کسی عبارت کے تقابلی ترجمہ کا ذکر اسی  ـــ  ’’ الاعراب ‘‘ والے  ـــ  عنوان کے تحت کیا ہے۔

          اس کے علاوہ کتاب میں اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ہر کلمہ کا (اسم یا فعل کی حد تک )’’مادہ ‘‘اور’’وزن‘‘بیان کرنے کے بعد تعلیل صرفی (اگر کوئی ہوئی ہو تو)کی طرف بھی ’’وزن اصلی ‘‘اور ’’شکل اصلی ‘‘لکھ کر اشارہ کر دیا ہے۔ تعلیل کے قاعدے کو ہر جگہ بیان نہیں کیا گیا۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ مطالعہ کنندہ ہمارے مطلوبہ معیار کے نصاب کو (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) پڑھ چکا ہے اور وہ صرف اتنے اشارہ سے ہی تعلیل کو سمجھ جائے گا۔ نیز یہ طریقہ اس کے لئے پڑھے ہوئے قواعد صرف کے اعادہ ، یا ددہانی اور مزید مشق کا باعث بھی بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے مادہ کے بنیادی معنی کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہر ’’مادہ ‘‘سے فعل ثلاثی مجرد (اگر مستعمل ہے ) اپنے باب اور مصدر سمیت بیان کیا ہے اور عموماً وہی مصدر لیا گیا ہے جو قرآن کریم میں کسی جگہ مستعمل ہوا ہو ـــ  ورنہ کسی ایک آسان سے مصدر کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے  ـــ  اور اگر وہ فعل ثلاثی مجرد قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا تو اس بات کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے۔

          ہم نے }اللغۃ{کے عنوان کے تحت کسی مفرد کلمہ کے اردو معنی بیان کرنے میں اور }الاعراب{کے عنوان کے تحت کسی عبارت کے بلحاظ ترکیب اردو معنی کے بیان میں، قرآن کریم کے قریباً تمام متداول اردو تراجم  ـــ بلکہ بغرض نشان دہی بعض گمراہ کن تراجم کو بھی  ـــ  سامنے رکھا ہے اور کئی جگہ ، مترجم کا نام لئے بغیر تقابلی مطالعہ کے لئے مختلف تراجم کے اقتباسات پیش کئے ہیں۔ اس سے مطالعہ کنندہ کو ترجمہ کے غلط یا درست ہونے یا اس میں زبان اور محاورے کے لحاظ سے کسی خوبی کی کمی بیشی کا بھی پتہ چل سکتا ہے۔ اور آغاز میں عام آدمی کے لیے مختلف تراجم بھی سامنے آجاتے ہیں۔

          گذشتہ صفحات میں بار بار یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہماری یہ  کتاب کم تعلیم یافتہ لوگوں اور محض مبتدیوں کے لئے نہیں ہے  ـــ  اور نہ ہی اس سے علماء و فضلاء کو چراغ دکھانا مقصود ہے  ـــ  البتہ ان کے لئے بھی شاید یہ اس لحاظ سے قابل توجہ قرار پائے کہ اس میں بعض منتشر معلومات کو یکجا (جمع) کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اہل علم و فضل کی طرف سے تنقید و تبصرہ کی صورت میں ہر قسم کی راہنمائی کو بخوشی بلکہ بشکریہ قبول کیاجائے گا۔

          یہ کتاب بنیادی طور پر  ـــ  لغۃ واعراب کی حد تک  ـــ  صرف ان لوگوں کے لئے لکھی گئی ہے جو عربی صرف و نحو کا کم از کم مندرجہ ذیل نصاب پڑھ چکے ہوں۔ اس نصاب کے مطالعہ میں اس حقیقت کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہر نئی زبان ابتداء میں مشکل معلوم ہوتی ہے۔ تھوڑی سی محنت کے بعد اللہ تعالیٰ آسان فرمادیتا ہے اور پھر جس قدر محنت کی جاتی ہے آسانیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ عربی سیکھنے جیسی نعمت کے لئے ذوق و شوق اور محنت بہر حال ضروری ہیں۔

مجوزہ نصابِ صرف و نحو

کلمہ اور اس کی اقسامِ ثلاثہ (اسم ‘ فعل ‘ حرف)

اِسم

مطالعہ اسم کے چار پہلو : ۔ حالت، جنس ، عدد، وسعت

(۱)      اسم بلحاظ حالت: حالاتِ (استعمال)کی تبدیلی کی بناء پر اسم کے آخر میں تبدیلی یعنی اعراب کا تعارف ۔ اعراب (آخر کی تبدیلی) قبول کرنے یا نہ کرنے کے لحاظ سے اسم کی تقسیم : معرب، غیر منصرف اور مبنی

          اعرابی تبدیلی کی تین صورتیں: رفع ، نصب اور جرّ  کا تعارف۔

          اسماء میں اعرابی علامات ۔  ۱۔ معرب اسماء ۲۔ منقوص، ممدود اور مقصور آیہ کا اعراب ۔ غیر منصرف اسماء کی معروف اقسام اور ان کی پہچان (مثلاً عجمی نام، عورتوں کے نام ’’ۃ‘‘ پر ختم ہونے والے نام وغیرہ(

(۲)     اسم بلحاظ جنس: تذکیر و تانیث ۔ حقیقی اور قیاسی مؤ نث۔ علاماتِ تانیث ۔ تائے مربوطہ اور تائے مبسوطہ کا فرق ۔ سماعی مؤنث (باقاعدہ اور بے قاعدہ) اسم کی بصورتِ تذکیر و تانیث اعرابی علامات۔

(۳)     اسم بلحاظ عدد: مُفرَد (واحد)، مثنّٰی (تثنیہ) اور جمع  ـــ  جمع سالم مذکر۔ جمع سالم مؤنث۔ جمع مکسَّر۔ اسم جمع ۔ واحد ۔تثنیہ اور جمع (مذکر ومؤنث) میں علاماتِ اعراب۔ مشابہ تثنیہ اور مشابہ جمع سالم مذکر کلمات کا اعراب ـــ  اعراب بالحَرکات اور اعراب بالحروف کی پہچان اور اسم کی عربی گردان کی مشق بذریعہ جدولی وضاحت ۔

(۴)    اسم بلحاظ وسعت (دلالت): اسم ذات، اسم معنی (عدد، مصدر) اسم صفت۔ نکرہ، معرفہ ، معرفہ کی اقسام۔ معرف باللّام ۔ ہمزۃ الوصل اور ہمزۃ القطع۔ ہمزۃ الوصل والے اسماء ثمانیہ( تعارف)۔

·       ضمیر کا مفہوم اور ضمائر کی اقسام:        ضمائر کی بلحاظ مدلول غائب، حاضر اور متکلم میں تقسیم۔

ضمائر کی اعرابی استعمال کے لحاظ سے تقسیم:۔

·       مرفوع، منصوب اور مجرور ضمیریں، منفصل اور متصل ضمیر کا مطلب اور ان کی رفع ، نصب ، جر کی مختلف شکلیں ـــ  یکساں اور مختلف شکلوں کی پہچان۔

·       اسم اشارہ ، اسم استفہام ، اسم موصول، اسم شرط اور اسم عدد کی اقسام اور ان میں مبنی و معرب کی پہچان اور علامات۔

·       مرکبات:  توصیفی ، اضافی ، جاری، اشاری، ظرفی اور عددی مرکبات کے قواعد، اسماء ستہ مکبرہ میں سے صرف چار (ذو،اب ، اخ اور فم) کی اعرابی گردان)جس میں ذوکی بلحاظ جنس اور بلحاظ عدد تمام صورتیں شامل ہوں)

·       جملہ اسمیہ کے اجزاء کی ترتیب اور ترکیب، مفرد یا مرکب مبتداء اورخبر کی پہچان اور ان کے استعمال کے ضروری بنیادی قواعد۔

فعل

·       مادہ، وزن:۔ حروف ِ مادہ کی تعداد کے لحاظ سے فعل کی تقسیم ۔ ثلاثی ، رباعی۔

·       فعل کی تقسیم بلحاظ زمانہ: ۔ ماضی، مضارع (برائے حال و مستقبل ) ، امر۔

·       مادہ سے اشتقاقِ افعال :۔    تصریفات الفعل (گردانوں) کے ذریعے فعل کے مختلف صیغوں کے ساخت اور پہچان کے طریقوں کی مشق۔

·       فعل ثلاثی مجرد: ۔ ماضی اور مضارع کی تصریف (گردان) ۔ ابواب ثلاثی مجرد۔

·       فعل ثلاثی مزید فیہ کے صرف دس (قرآنی) ابواب (یعنی اِفعال، تفعیل، مفاعلۃ، تفعّل، تفاعل، افتعال، انفعال ، افعِلال، افعیلال اور استفعال) کے ماضی اور مضارع کی گردانیں اور ان کے مصادر اور اوزان کی پہچان۔

·       فعل رباعی مجرّد اور اس کے مزید فیہ (سے صرف باب اِفعَّلال ) کے ماضی مضارع کی گردان۔

·       تقسیم فعل بلحاظ معنی: ۔      فعل لازم اور متعدی کا تعارف اور اس کی پہچان (بذریعہ معنی یا بذریعہ باب) کا طریقہ  ـــ  لازم ابوابِ فعل۔

·       فعل معروف اور فعل مجہول کا مفہوم:۔مختلف (متعدی )ابواب سے فعل و مجہول ـــ  ماضی اور مضارع ـــ  کی گردانیں اور صیغوں کی پہچان کی مشق  ـــ  بصیغۂ مجہول استعمال ہونے والے بعض افعال کا تعارف  (مثل ، غشی، وذکم)

·       مضارع کے تغیرات: ۔     فعل مجرود مزیدفیہ کے مختلف ابواب سے مضارع منصوب بِلَنْ، مضارع مجزوم بِلَمْ اور مضارع مُؤکَّد بالنّون ثقیلہ و خفیفہ کی گردانیں ـــ

·       فعل امر اور فعل نہی (حاضر) کی تعریف (گردان )۔ امر غائب اور نہی غائب (معروف اور مجہول)کی گردان۔

·       فعل کی اقسام بلحاظ نوعیت حروف مادہ: صحیح اور غیر صحیح (سالم  غیر سالم) فعل اور اس کی اقسام: مھموزاور مضاعف کے تغیرات (تخفیف وادغام ) کے قواعد اور مختلف ابواب سے ان کے ماضی اور مضارع (معروف و مجہول ) مع تغیراتِ ثلاثہ (نصب، جزم اور تاکید) کی گردان۔ اور مضاعف سے فعل امرو نہی کی گردان اور صیغوں کی متبادل صورتوں کی پہچان۔

·       فعل غیر صحیح مُعْتَلّ (واوی یائی) کی اقسام : مثال ، اجوف، ناقص اور لفیف (مقرون و مفروق) کے قواعدِ تعلیلات (اعلال) ـــ  ہر قسم کے فعل کی مجرّد اور مزید فیہ کے (مستعمل ) ابواب سے فعل ماضی اور مضارع (معروف و مجہول) اور امر و نہی کی گردانیں  ـــ معتل ابواب سے فعل مضارع کے تغیرات ثلاثہ (نصب، جزم ، توکید ) کے ساتھ گردانیں او رصیغوں کی شناخت۔

·       باب افتعال، تفعل اور تفاعل (کی تاء)میں ابدال و ادغام کے لازمی اور جوازی قواعد اور ان ابواب سے ماضی مضارع (معروف و مجہول) اور امر و نہی کی گردانیں اور صیغوں کی پہچان۔

·       صرفی قواعد (تخفیف ، ادغام‘ تعلیل وغیرہ) کی بناء پر شکل بدلنے والے افعال کے صیغوں میں ’’وزن اصلی‘‘ اور ’’شکل اصلی ‘‘ کی پہچان۔

·       جملہ فعلیہ کی ترکیب، اس کے اجزاء کی ترتیب اور اس میں عددو جنس کے استعمال کے قواعد۔ نون الوقایۃ کے مواقع استعمال۔

·       افعال ناقصہ ، لیس اور ما ا لمجازیہ ، افعال مقاربہ ، افعال الشروع، افعال الرجاء، افعال القلوب، غیر منصرف افعال، اسماء الافعال، افعال مدح و ذم‘ افعال تعجب کا تعارف۔

مادہ سے اشتقاق اسماء( قرآنی مثالیں اور استعمال)

          (۱) ابواب ثلاثی مجرد صحیح اور غیر صحیح سے اسماء مُشتَقّہ کے اوزان: ۔ اسم الفاعل، اسم المفعول، اسم الظرف، اسم الآلہ ، اسم الصفۃ المشبّہ، افعل التفضیل، افعل الوان و عیوب اور اسم المبالغہ کے اوزان اور ان کی بناء پر اسمائے مشتقہ بنانے کی مشق اور ان اسماء کی گردانیں اور بدل جانے والی صورتوں کی پہچان ـــ

          (۲) صحیح اور غیر صحیح مادوں سے رباعی مجرد اور ثلاثی و رباعی مزید فیہ ابواب سے (بن سکنے والے )اسماء مشتقہ کی ساخت کے قواعد اور ان کی پہچان۔

·       غیر صحیح مادوں سے قواعد صرفی کے تحت بدل جانے والے اسماء مشتقہ میں وزن اصلی اور شکل اصلی کی پہچان۔ غیر صحیح مادوں سے بننے والے بعض اسماء میں حروف مادہ کا قلب اور تعویض ( مثل ماء، شفۃ  ، سنہ،   ابن، اسم، اب، اخ، فم وغیرہ)

·       صرفِ صغیر کا تعارف اور اس کے ذریعے افعال اور اسماء مشتقہ کی ساخت اور پہچان کی مشق۔

·       اسماء مشتقہ میں سے اسماء مشبہ بالفعل (صرف فاعل، مفعول، صفۃ مشبہ اور مصدر) کے عملِ فعل کا تعارف اور عملی مثالوں سے مشق۔

حرف
حروف عاملہ اور ان کا معانی پر اثر  ـــ  جارّہ، مُشبَّہ بالفعل، نواصبِ مضارع، جوازمِ مضارع، نفی اور نداء کے حروف۔

          حروفِ غیر عاملہ اور ان کا معانی پر اثر، افعال پر داخل ہونے والے غیر عامل حروف۔ حروفِ جارہ کے فعل کے ساتھ بطور صلہ استعمال سے واقفیت۔

وجوہِ اعراب

اعراب الاسم 

مرفوعات: مبتدا، خبر ، فاعل، نائب فاعل، خبرانّ، اسم کان، مناد ٰی مفرد۔

منصوبات: مفاعیل خمسہ (مطلق، بہ ، لہ ، فیہ، معہ)، حال ، تمییز، لائے نفی جنس، نداء اور استثناء (کی بعض صورتیں )، عددی مرکبات (میں بعض معدود یا تمیز)، محذوف الناصب منصوبات، تحذیر، اغراء، اختصاص، اشتغال الفعل۔

مجرورات: مجرور بالجر اور مجرور بالاضافہ ، اضافت ظرف، بعض عددی مرکبات میں معدود یا تمیز کی جر۔

توابع

اعراب الفعل

فعل مضارع کے لفظی اور معنوی تمام نواصب اور جوازم کا مکمل تعارف۔

نعت (حقیقی و سببی )، توکید (لفظی و معنوی)، بدل (اور اس کی اقسام )‘ عطف۔

·       اس کے علاوہ مندرجہ ذیل موضوعات کا بھی کم از کم سرسری مطالعہ ضرور کر لینا چاہئے۔

(۱) مزید فیہ ابواب کے تسمیہ کے مختلف طریقے (۲) ثلاثی اور رباعی مزید فیہ کے بقیہ (غیر قرآنی ) ابواب (یعنی افعیعال، افعّوال، تفعلل، افعلال)(۳) ملحق برباعی کا تعارف (۴) خواص ابواب (۵) اسباب منع صرف(۶) اوزان جمع مکسر (قلت وکثرت) (۷) تصغیر (۸) نسبت (۹) اسم ثلاثی، رباعی اور خماسی (مجردو مزید فیہ) (۱۰) ثلاثی مجرد کے اہم اوزانِ مصادر، مصدر جامد، مصدر صناعی، اسم المرّۃ، اسم، الھیئۃ، (۱۱) نداء میں نُدبہ، اِستِغاثہ اور ترخیم کا استعمال (۱۲) تاریخ (دن، مہینہ، سال)  بیان کرنے کا طریقہ (۱۳) کسری اعداد کا طریقہ (۱۴) ظروف مُبْنِیَّہ اور حروف عاملہ وغیر عاملہ کا تفصیلی بیان (۱۵) صرفِ کبیر کا تصور۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

          مذکورہ بالا نصاب کے بیان میں موضوعات کی تدریسی تدریج سے زیادہ ان کی منطقی تقسیم اور ترتیب کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مثلاً یہ ممکن ہی نہیں کہ صرف اسم کے سارے قواعد پہلے پڑھا دیئے جائیں اور اس میں فعل یا حرف کا ذکر بھی نہ آنے دیا جائے۔ ایک ہی موضوع سے متعلق تمام قواعد کو یکجا یا یکدم پڑھانے کی کوشش ( جیسا کہ ہماری بیشتر پرانی نصابی کتابوں میں کیا گیا ہے) ہرگز مفید نہیں اس سے قواعد کے اطلاق کی عملی مشق بذریعہ تمرین و ترجمہ کے امکانات کم اور اسی نسبت سے نتائج حوصلہ شکن ہوجاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ اس لئے ضروری ہے کہ بیک وقت مختلف نحوی صرفی موضوعات (اسم، فعل ، حرف) کے قواعد و احکام کی ایک حکیمانہ امتزاج اور تدریج کے ساتھ ایسی مرحلہ وار تدریس ہو، جس میں ’’معلوم سے نامعلوم‘‘ اور ’’آسان سے مشکل‘‘ کی طرف چلنے کے زریں تعلیمی اصول کو پوری طرح مد نظر رکھا جائے اور ترجمتین اور تمرینات کے ذریعے قواعد زبان کو ذہن نشین کرانے کی مشق کرائی جائے۔

·       اس سلسلے میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ صرف و نحو-- اور خصوصاً نحوکی تعلیم کے ’’مبتدیانہ‘‘ سے لے کر ’’منتہیانہ‘‘ اور تخصصی مراحل تک بنیادی  موضوعات اور مباحث تو تقریبا یہی رہتے ہیں (جن کا اوپر نصاب میں ذکر ہوا ہے) فرق صرف نقطہ توجہ، معیار کی سطح، ہدف کی وسعت اور مسئلہ تک پہنچ اور رسائی کے طریقے کا ہوتا ہے۔ اور اس کی مثال سیرت طیبہ یا عام تاریخ جغرافیہ وغیرہ کے وہ موضوعات ہیں جن کا مطالعہ مڈل یا میٹرک میں بھی کیا جاتا ہے اور پھر ایم اے یا اس سے بالا تر سطح پر بھی وہ زیر بحث لائے جاسکتے ہیں  ـــ  لہٰذا عربی زبان کی ایسی تدریس  ـــ  جس میں مختلف صرفی و نحوی موضوعات کا حکیمانہ امتزاج اور منطقی تدریج بھی ہو اور جس کا ہدف اور مطمح نظر ’’وظیفی‘‘(FUNCTIONAL) صرف و نحو کے ان تمام قواعد کا احاطہ (اور ان کا عملی اطلاقی استعمال) تو ہو، جن کا جاننا کسی بھی عربی  ـــ  بلکہ ادبی عربی  ـــ  عبارت کو سمجھ لینے اور اپنے مافی الضمیر کو عربی زبان  ـــ  (دارجہ نہیں بلکہ فصحی) ـــ  میں درست طریقے پر سمجھانے کے لئے ضروری ہے  ـــ مگر جس میں پیشہ ورانہ تخصّص سے متعلق علم النحو کے خالص نظریاتی مباحث میں الجھنا مطلوب و مقصود نہ ہو  ـــ  ایسی تدریس کے لئے اچھے استاد کے علاوہ دو قسم کی کتابوں کے بغیر چارہ نہیں ہوگا۔

(۱)        ایک تو کوئی اچھا سا ’’درسیہ‘‘ (READER) جس میں طالب علم کیلئے معتدبہ مقدار میں ذخیرئہ الفاظ (VOCABULARY) موزوں اور منتخب قرآنی دروس اور دیگر شستہ عربی نصوص (TEXTS) کی صورت میں موجود ہو۔

(۲)     دوسرے قواعدِ صرف و نحو پر کوئی اچھی کتاب جس میں قواعد زبان کے تدریجی بیان کے ساتھ ساتھ ان کے عملی اطلاق (APPLIED GRAMMAR ) )کے لئے ترجمتین(عربی سے اردو اور اردو سے عربی) اور تمرینات کی صورت میں ’’سامانِ مشق‘‘ بھی جمع کیا گیا ہو۔

          اور ایسی مفید درسی کتابوں کے انتخاب میں ان طلبہ اور شائقین عربی کی ضروت کو خصوصاً ملحوظ رکھا جانا چاہئے جن کا اصل مسئلہ ’’وقت کی کمی‘‘ ہے۔ یعنی سکول کالج یا یونیورسٹی سطح تک کے تعلیم یافتہ لوگ جن کی معاشی مجبوریاں اور مصروفیات بھی سد راہ بنتی ہیں مگر بایں ہمہ وہ عربی زبان سیکھ کر قرآن کریم سے اپنے ایمانی اور قلبی تعلق کے ساتھ ساتھ ، اس سے اپنا ذہنی اور شعوری علمی رابطہ بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کی تعداد بھی بفضلہ تعالیٰ روز افزوں ہے ـــ  یہ حضرات اب نہ تو مدارس عربیہ میں کئی برس لگا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی ایسے پیچیدہ طریق تعلیم کے متحمل ہوسکتے ہیں جس میں ڈول کھینچنے کی مشق زیادہ کرائی جاتی ہو پانی چاہے آئے نہ آئے  ـــ  اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ’’فہم قرآن کی خاطر تعلم عربی ‘‘ کے شوق کو بعض مطلو ّلات سے شرفیاب ایسے بھاری بھر کم اہلِ علم و فضل کی تنقید بلکہ تضحیک کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے، جو ’’درجہ ضرورت‘‘ اور ’’درجہ فضیلت‘‘ کے درمیان  ـــ  یا بالفاظ دگر قواعد زبان کی تعلیم میں ’’عملی ضروریات‘‘ (FUNCTIONAL NEEDS) اور علمی نظریاتی مباحث پر مبنی ’’ ذہنی تعیشات‘‘ (INTELLECTUAL LUXURY) یا پیشہ ورانہ’’ تخصصّ (SPECIALIZATION) کے مقتضیات ‘‘کے درمیان فرق کرنے کے قائل نہیں۔

          اس وقت بازار میں ’’عربی سکھانے والی‘‘ کتابوں کی کمی نہیں تاہم ان میں سے :

(۱)     بعض کا مقصد صرف ’’عربی بول چال‘‘ سکھانا ہے۔ یہ ’’دبئی ‘‘ جانے والوں کے لئے مفید ہوں تو ہوں مگر ان کا ہمارے مقصد  ـــ  یعنی ’’قرآن فہمی کے لئے عربی ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

(۲)    بعض کتابوں کا مقصد قواعد زبان سکھانا تو ہے (جو فہم قرآن والی عربی کے لئے ضروری ہیں) مگر ان میں سے اکثر میں مشق اور ترجمہ کا سامان نہ ہونے کے برابر ہے جس سے ان کی تعلیمی افادیت کم ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ قواعد بغیر مشقوں اور جملوں اور عبارتوں (ترجمتین) کے ذہن میں جاگزین نہیں ہوسکتے ـــ  اور اسی زمرے میں آتی ہیں ہمارے درس نظامی میں متداول صرف و نحو کی معروف نصابی کتابیں، جن سب میں  ـــ  میزان و منشب سے لے کر فصول اکبری تک ۔ اور نحو میر سے لے کر ملا جامی تک  ـــ  بلکہ اوپر تک  ـــ  ہر جگہ قواعد زبان کو مجرد علمی اور نظری (THEORETICAL) انداز میں پڑھانے کا غیر فطری طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ گویا، بقول مولانا ابو الحسن علی ندوی‘‘ پیرا کی کافن پانی سے باہر سکھایا جاتا ہے۔ ‘‘

(۳)    قواعد زبان پر کسی حد تک  ـــ  اگرچہ ترجمتین کے بغیر  ـــ  سامانِ مشق والی بعض عمدہ کتابیں (مثلاً النحو الواضح) عربی زبان میں موجود ہیں تاہم اردو یا انگریزی دان اور وقت کی کمی کے ’’شکار‘‘ مبتدی کے لئے یہ بھی بے سود ہیں۔

(۴)    بعض کتابوں کا مقصد ترجمہ اور انشاء (مضمون نویسی) کی استعداد پیدا کرنا ہے (مثلاً معلم الانشاء)  ـــ  ان میں ضروری نحوی قواعد کی ترجمتین کے ذریعے مشق کا تو بہت عمدہ مواد موجود ہے مگر صرفی مباحث (خصوصا تعلیلات)سے یکسر صرف نظر کر لیا گیا ہے۔ غالباً اس مفروضہ پر کہ یہ چیزیں طالب علم پہلے پڑھ چکا ہے۔ نیز عربی انشاء پردازی ’’فہم قرآن والی عربی‘‘ کا لازمی حصہ بھی نہیں ہے۔

ان تمام امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے راقم الحروف کے نزدیک ان اہل علم اساتذہ عربی کی رائے قابل ترجیح اور اقرب الی الصواب ہے، جو عربی زبان اور اس کے قواعد کی تعلیم کے لئے جدید اور عملاً زیادہ مفید طریقہ تعلیم پر مبنی کتابوں کے ذریعے تدریس کے حق میں ہیں۔ خوش قسمتی سے ایسی متعدد مفید تالیفات بھی معرض وجود میں آچکی ہیں جن کو بہتر متبادل نصابی کتابوں کے طور پر استعمال کرنے سے ’’کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ‘‘ بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ اس ’’نصاب جدید کی ضرورت ‘‘ کے تحت ایسے تعلیم یافتہ طالب علم کے لئے جو کسی حد تک اردو انگریزی کی گرامر سے آشنا ہے اور جو درست اور رواں ناظرہ قرآن پڑھ سکتا ہے یعنی مشکول عربی عبارت کی   قراء ت (RAPID READING) پر قادر ہے ۔[1]
ایسے طالب عربی کے لئے عربی زبان کی تدریس کا آغاز کسی اچھے مشکول عربی ریڈر سے کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے حکومت پاکستان 
ـــ  وزارت تعلیم  ـــ  کی تیار کردہ لازمی عربی  کی کتاب ’’لغۃ الاسلام‘‘ کے پہلے دو حصے (چھٹی ساتویں جماعت والے) ایک یا ڈیڑھ مہینے میں صرف ترجمہ کے ساتھ پڑھا دیئے جائیں ۔ اس کے بعد دکتور امین المصری مرحوم کی کتاب ’’طریقہ جدیدہ‘‘ شروع کرادی جائے  ـــ  (یا اس کے بدل کے طور پر محمد بشیر کی ’’اقرأ‘‘ سے بھی ’’کام چلایا‘‘جاسکتا ہے)  ـــ  یہ ریڈر  ـــ  اور خصوصاً ’’طریقہ جدیدہ‘‘  ـــ  لغۃ فصحی میں بول چال سکھانے بلکہ ذوقِ انشاء کے بیج بونے کا کام بھی دے سکتے ہیں ـــ  دو مہینے بعد ریڈرکے سا تھ ساتھ قواعد زبان کی تدریس کے لئے عبد الستار خاں کی ’’عربی کا معلم‘‘ استعمال کی جائے  ـــ  کم از کم دو ڈھائی گھنٹے (تین پیریڈ) روزانہ کی تدریس سے کم و بیش ایک سال میں طریقہ جدیدہ (تینوں حصے ) اور عربی کا معلم (چاروں حصے) ختم کرائے جاسکتے ہیں اور اس سے طالب علم کے ذخیرئہ الفاظ میں خاطر خواہ اضافے کے علاوہ گزشتہ صفحات میں مجوزہ نصاب کا بیشتر حصہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ طالب علم میں معجم (عربی ڈکشنری) استعمال کرنے کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے اور بہتر یہ ہوگا کہ عربی سے عربی ڈکشنری کی عادت ڈالی جائے۔

اس استعداد کو مزید بڑھانے کے لئے چاہیں تو اگلے مرحلہ میں :

·       مزید ’’درسیہ‘‘(ریڈر ) کے طور پر ابو الحسن علی ندوی کی ’’قصص النّبیین‘‘ (پانچوں حصے)۔

·       قواعد نحو کے اعادہ کے لئے ’’النحو الواضح‘‘ یا شوقی ضیف کی ’’تجدید النحو‘‘ ـــ  اور

·        ـــ علم الصرف کی مزید مشق کے لئے السورتی کی ’’علم الصرف‘‘ یا امرتسری کی ’’کتاب الصرف‘‘ ـــ اور صرف کبیر (خصوصاً غیر صحیح ) کی تمرین کے لئے چرتھاولی کی ’’علم الصرف‘‘ (آخرین) یا شرتونی کی ’’جد اول تصریف الافعال‘‘  ـــ  اور

·       ترجمہ و انشاء کے لئے ندوۃ العلماء کی ’’معلم الانشاء‘‘ (پہلے دو حصے) بھی پڑھ لئے جائیں تو بہت نفع ہوگا  ـــ  عربی کی بنیادی استعداد پختہ ہوجائے گی۔

          تاہم صرف ’’طریقہ جدیدہ ‘‘ (تینوں حصے) اور ’’عربی کا معلم‘‘ (چاروں حصے) سمجھ کر ۔ سبقاً سبقاً۔ تمام مشقوں اور تمرینات کے عملی کام کے ساتھ پڑھ لینے سے بھی طالب علم وہ تمام صرفی اور نحوی قواعد پڑھ لیتا ہے جس کے بعد ’’لغات و اعراب قرآن ‘‘ سمجھانے کا کام شروع کیا جاسکتا ہے۔ کتاب ’’عربی کا معلم‘‘ اپنی بعض خامیوں اور نقائص کی بناء پر محتاجِ اصلاح و ترمیم ہونے کے باوجود، اس وقت عربی زبان کو قواعد صرف و نحو کی بناء  پر سکھانے والی بازار میں دستیاب کتابوں میں سے غالباً واحد کتاب ہے جس میں صرفی و نحوی قواعد کے قریباً مکمل بیان کے ساتھ ساتھ تمرین اور ترجمتین کے ذریعے نسبتاً زیادہ سامانِ مشق موجود ہے  ـــ   اور ساتھ ’’کلید‘‘ کی فراہمی کی بناء پر یہ کتاب بڑی حد تک ’’خو د آموزی ‘‘ کے تقاضے بھی پورے کرتی ہے۔ اس کتاب کی تدریس میں کوئی بھی سمجھدار استاد ، اس کے اسباق کی ترتیب میں مناسب ردو بدل کرلینے سے ، بہترین نتائج حاصل کر سکتا ہے ـــ  اور کوئی بھی اچھا طالب علم اس کتاب کو ایک دفعہ کسی استاد سے پڑھ لینے کے بعد از خود اور ـــ  بذریعہ کلید ـــ  اس کا اعادہ کرنے اور اس میں سے دوبارہ گزر جانے سے کم از کم قواعد ِ صرف و نحو کی حد تک اپنی ’’عربی دانی‘‘ میں استحکام پیدا کرسکتا ہے۔ اور جب تک اللہ کا کوئی بندہ اس کتاب (عربی کا معلم) کے ہی اسلوب پر ، مگر اس سے بہتر ترتیب و تدریج اور بہتر مواد کے ساتھ کوئی ’’نیا معلم عربی‘‘ شائقین کو مہیا نہیں کردیتا، اس وقت تک اس کو ہی بنیادی نصابی کتاب کے طور پر استعمال کرتے رہنا یقینا فائدہ مند ہے۔  نوٹ کسی آدمی کی ’’عربی دانی‘‘ کا سب سے بڑا معیار یا ثبوت یہ ہے کہ وہ کسی غیر مشکول عربی عبارت  ـــ  خصوصاً شعر  ـــ کو درست پڑھ سکتا ہو۔ بلکہ ایک لحاظ سے اتنی استعداد پیدا کرلینا انشا ء پردازی پر قدرت رکھنے سے بھی مشکل ہے۔ اس لئے کہ اس میں  ـــ  یعنی غیر مشکول عربی عبارت یا کتاب کو درست پڑھنے میں  ـــ  کلمات کی بنائی اور اعرابی حرکات کو نظر پڑتے ہی فوراً سمجھ جانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ ورنہ عبارت یا کلمات کے غلط تلفظ۔ اور غلط قراء ت کا امکان یا خطرہ ہوتا ہے۔حتی کہ بعض دفعہ عرب ریڈیو اسٹیشنوں سے نشرۃ الاخبار (خبریں) پڑھتے ہوئے جلدی میں عبارت غلط پڑھ کر  ـــ  معذرت کرکے  ـــ  ’’خبرخواں‘‘ کو عبارت دوہراتے ہوئے سننے کا اتفاق بھی ہوا ہے ـــ  عربی عبارت لکھتے وقت کلمات کے درست تلفظ سے زیادہ ان کے درست معنی اور درست استعمال پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس کا نمونہ تو آپ اردو میں بھی  ـــ  ’’دیکھ‘‘ سکتے ہیں۔ بعض لوگ اچھی خاصی ادیبانہ عبارت لکھ سکنے کے با وجود اپنے ہی استعمال کردہ ـــ   اور درست استعمال کردہ  ـــ کلمات کے درست تلفظ سے آگاہ نہیں ہوتے ۔ دراصل کسی بھی زبان کی تعلیم سے نہ تو ہر آدمی کا مقصد ادیب بننا ہوتا ہے اور نہ ہر آدمی کے لئے ایسا ممکن ہی ہے۔ بنیادی مسئلہ زبان کے ذخیرہٗ الفاظ  ـــ  بلکہ اس سے بھی زیادہ زبان کے قواعدِ صرف ونحو (گرامر) پر اتنی دسترس کا ہونا ہے جس کی بناء پر آدمی اس زبان کی کوئی کتاب پڑھ اور سمجھ سکتا ہو۔ دنیا کی دوسری بہت سی زبانوں میں ـــ  جن میں حروفِ علت یا ’’صائت حروف‘‘(VOWELS) حرکات کا کام دیتے ہیں ـــ  ایسی زبانوں میں تو یہ ممکن ہے کہ کسی عبارت کو سمجھے بغیر بھی بڑی حد تک درست پڑھا سکے۔ مگر عربی زبان میں ’’حروف ِ حرکات‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے معنی سمجھے بغیر عبارت کا درست پڑھنا نا ممکن ہے۔

          تاہم قرآن کریم کا معاملہ جدا ہے۔ یہاں تمام عبارت مشکول (مکمل حرکات کے ساتھ ) ہوتی ہے۔ لہٰذا قواعدِ زبان کا علم، قرآن کریم کے معنی سمجھنے میں سہولت کا باعث بنتا ہے  ـــ  اور قرآنی کلمات کے مشکول ہونے کی بناء پر خود قرآن کریم کے ذریعے ہی قواعدِ زبان کی مشق اور تمرین کا موقع مل جاتا ہے۔ ہماری اس کتاب (لغات و اعراب قرآن) میں یہی اصول مد نظر رکھا گیا ہے کہ قواعد زبان کی بناء پر نص قرآنی کا براہ راست فہم حاصل کیا جائے اور قرآن کریم کی عبارات اور اس کے کلمات کی صرفی نحوی توضیح کے ذریعے قواعدِ زبان  ـــ  یعنی صرف و نحو کے مسائل  ـــ  کی مشق اور ان کے اعادہ اور یا ددہانی کا عمل جاری رکھا جائے۔ گویا ہمارا شعار (MOTTO) یہ ہے کہ  ـــ ’’عربی سیکھئے ـــ  قرآن کیلئے۔ قرآن کے ذریعے‘‘ امید ہے کہ اس کتاب کے ذریعے عربی زبان کی صرف و نحو کا نسبتاً زیادہ مدت تک مطالعہ کرنے والوں ـــ  مثلاً درس نظامی کے موقوف علیہ یا اس سے کچھ کم تک تعلیم یافتہ حضرات  ـــ  کو اپنا علم (صرف و نحو) ، فہم قرآن میں استعمال کرنے کا موقع ملے گا، اور نسبتاً کم وقت میں قواعدِ زبان سیکھنے والوں ـــ  اور  ـــ تمام قواعد کو پوری طرح ذہن نشین نہ کرسکتے والے حضرات  ـــ  خصوصاً ہمارے مجوزہ نصاب سے کم از کم ایک دفعہ ’’گزر جانے والے ‘‘ حضرات  ـــ کو اس کتاب کے ذریعے قواعد زبان کو ذہن میں جا گزین کرنے کے لئے بتکرار ’’مشق و اعادہ‘‘ کا موقع میسر آئے گا۔ صرفی قواعد کا بیان ’’اللغۃ‘‘میں اور نحوی قواعد کا بیان ’’الاعراب ‘‘ میں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

·       ’’ لغات و اعراب قرآن ‘‘ کے اس بیان کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے ذریعے اصحاب شوق اور ارباب ذوق کو دو ایسے قرآنی علوم سے متعارف کرانے کی کوشش بھی کی گئی ہے، جو اگرچہ فہم قرآن کے لئے تو ضروری نہیں ہیں، مگر قرآن کریم کی درست کتابت اور درست قراء ت کا انحصار ان ہی دو علوم پرہے۔ اور یہ ہیں ’’علم الرسم‘‘ اور ’’علم الضبط‘‘ علم الرسم کا مقصد کلمات قرآن کے صحیح طریق املاء اور ان کے درست ہجاء (SPELLING) کا تحفظ ہے۔ اور علم الضبط کی غایت حروف پر حرکات (زبر، زیر ، پیش ، شدّ ، سکون) ڈال کر ، عربی زبان اور اس کے قواعد کو نہ جاننے والے آدمی کو بھی ، قرآن کریم کی درست قراء ت --ناظرہ قرآن خوانی-- کے قابل بنانا ہے۔ اور اسی علم کی بنا ء پر ہی دنیا بھر میں لاکھوں-- بلکہ کروڑوں مسلمان عربی زبان نہ جاننے-۔- بلکہ اپنی مادری زبان میں بھی لکھنا پڑھنا تک نہ جاننے۔۔۔کے باوجود قرآن مجید کو اس انداز میں پڑھ سکتے ہیں کہ گویا وہ اس کو سمجھ کر پڑھ رہے ہیں

          علم الرسم کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کو اسی ہجاء اور طریق املاء کے مطابق لکھا جائے، جو خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ کے عہد میں تیار کردہ ــــ  اور شائع کردہ ایڈیشن کے  ــــ مصاحف (نسخہ ہائے قرآن) میں اختیار کیا گیا تھا[2] اور دراصل یہ مصاحف عہد نبویؐ میں رائج خط اور طریق املاء و ہجاء کے مطابق ہی لکھے گئے تھے۔ اس لئے کہ ان کی تیاری نبی کریم   کی وفات سے ۱۵۔ ۲۰ سال بعد ہی عمل میں آئی تھی۔  اور ان کی کتابت میں اہم کردار بھی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا تھا  ـــ   جنہوں نے عہد نبویؐ میں بھی کتابت وحی کا کام کیا تھا اور عہد صدیقی میں قرآن مجید کو بصورت صُحُف (چھوٹے چھوٹے اجزاء میں ) لکھنے میں بھی ان کا بڑا حصہ تھا۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ عربی زبان کے عام طریق املاء میں بعض اصلاحات یا تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔ مگر قرآن کریم کے لئے اسی پرانے اور اصلی طریقِ املاء  جسے اب رسم عثمانی یا رسم المصحف کہا جاتا ہے ـــ  کو ہی برقرار رکھا گیا  ـــ  اس مقصد کے لئے اس علم ـــ علم الرسم  ـــ  پر متعدد اہم کتابیں تالیف کی گئیں۔ جن کی بنیاد مصاحف ِ عثمانی کے دقیق تقابلی مطالعہ اور مشاہدہ پر رکھی گئی تھی۔

          بعض خاص حالات اور اسباب کی بناء پر مشرقی اسلامی ممالک  ـــ مثلاً ترکی، ایران اور برصغیر میں رسم عثمانی کی خلاف ورزی کا ارتکاب عام ہو گیا ہے۔ اور اب اس غلطی کا ازالہ نہایت ضروری ہے۔ قرآنی رسم الخط یا رسم عثمانی کا مسئلہ آج کل خصوصا اس لئے بھی اہم ہو گیا ہے کہ بعض عرب ممالک (خصوصاً سعودیہ ) نے حکومت پاکستان کی توجہ اکثر پاکستانی مصاحف (مطبوعہ) میں رسم عثمانی کی بکثرت مخالفات اور اغلاط کی طرف مبذول کرائی ہے ـــ اور اس میں بڑی حد تک صداقت بھی ہے۔ حکومت پاکستان ازروئے آئین پاکستانی ناشرانِ قرآن کو درست کتابت (جس میں رسم عثمانی کا التزام بھی شامل ہے) کے ساتھ اشاعتِ قرآن کا پابند کرنے کی ذمہ دار ہے ـــ مگر عجیب بات ہے کہ اس معاملے میں حکومت اور ناشرین قرآن ـــ  دونوں ہی ـــ  رسم عثمانی یا رسم  مصحف کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ بہت سے عرب اور افریقی ممالک میں اشاعتِ قرآن حکومت کی نگرانی میں ہوتی ہے اور وہاں رسمِ عثمانی کے التزام کی قانونی پابندی موجود ہے۔ ساتھ ہی قرآن کریم کے کاتبوں اور ناشروں کی رہنمائی کے لئے رسمِ عثمانی کے موضوع پر عربی زبان میں متعدد اہم تالیفات موجود ہیں۔ مثلاً عرب اور افریقی ممالک میں رسم المصحف کے سلسلے میں زیادہ تر عثمان بن سعید الدانی الاندلسی (ت۔ ۴۴۴ھ ) کی ’’المقنع‘‘ اور اس کے شاگرد ابو دائود سلیمان بن نجاح الاندلسی (ت ۴۹۶ھ) کی ’’التنزیل فی ہجاء المصاحف‘‘ پر اعتما دکیا جاتا ہے۔

          (مؤخر الذکر کتاب  ابھی تک کہیں طبع نہیں ہوئی البتہ اس کے مخطوطات موجود ہیں یا بعض متا ٔخر تالیفات کی بنیاد اس پر ہے۔)

          اردو زبان میں اس موضوع پر کوئی تالیف موجود نہیں ہے ہم نے اپنی اس کتاب میں ’’لغات و اعراب ‘‘ کی بحث کے ساتھ ساتھ کلماتِ قرآن کی رسم عثمانی کے مطابق درست املاء کے طریقے سے بھی بحث کی ہے اور متفق علیہ یا مختلف فیہ رسم کا ذکر بھی کیا ہے اس مقصد کے لئے کتاب میں ’’اللغۃ‘‘اور ’’الاعراب‘‘ کی طرح ایک مستقل عنوان ’’الرسم‘‘ بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔ اور اس عنوان کے تحت رسم عثمانی کے لئے بعض دفعہ اس کے دوسرے اصطلاحی نام مثلاً ’’رسم ِ قرآنی ‘‘ یا’’رسم المصحف‘‘یا ’’ھجاء المصحف‘‘ بھی استعمال کئے گئے ہیں ـــ  اسی طرح مقابلہ اور موازنہ کے لئے عربی کے عام طریق املاء و ہجاء کا ذکر ’’رسمِ املائی ‘‘ ’’رسمِ معُتاد‘‘یا ’’رسم قیاسی‘‘کے نام سے کیا گیا ہے۔

          اس سلسلے میں ہم نے ایشیائی اور افریقی ممالک (مثلاً سعودیہ ، شام ، مصر ، تونس، لیبیا، مراکش، نائیجیریا، غانا، ترکی ، ایران اور بر صغیر پاک و ہند) کے عام مطبوعہ مصاحف اور رسمِ عثمانی پر مبنی واحد پاکستانی مصحف (مولوی ظفر اقبال مرحوم کا مرتبہ ’’ تجویدی قرآن ‘‘ کے علاوہ علم الرسم کی حسب ذیل کتابوں سے براہِ راست استفادہ بھی کیا ہے۔ (۱)الدانی کی ’’المقنع‘‘(۲) المارغنی کی ’’دلیل الحَیرَان‘‘ (جو الخرّاز کی مَورِد الظَّمآن فی رسَم احْرفِ القرآن کی شرح ہے) (۳) ابو زیتحار کی ’’لطائف البیان‘‘  (یہ بھی الخرّاز کی مختصر شرح ہے) (۴) ابن القاصح کی ’’تلخیص الفوائد‘‘ (جو شاطبی کے قصیدہ  رائیۃ العقیلہ ـــ  کی شرح ہے)۔ (۵) الضباع کی ’’سمیر الطالبین‘‘ (جو بقول مؤلف المقنع،التنزیل اور العقیلہ کے مسائل کا خلاصہ ہے) اور (۷) ارکاٹی کی ’’نثر المرجان فی رسم نظم القرآن (یہ کتاب بر صغیر کے ایک عالم کی تالیف ہے اور عربی زبان میں ہے)۔ رسم عثمانی کے مسائل کو بزبان اردو پیش کرنے اور وہ بھی ایک ایک کلمہ کو زیر بحث لانے کی سعادت (غالباً) پہلی دفعہ ہم اپنی اس کتاب (اعراب و لغات قرآن)کے ذریعے حاصل کر رہے ہیں۔

          علم الضبْط کا مختصر قصہ یوں ہے کہ حضرت عثمان ؓ والے مصاحف نہ صرف حرکات (زبر، زیر ، پیش) سے مُعرّٰی تھے بلکہ اِعجام (نقطوں کے ذریعے مشابہ حروف مثلاً د اور ذکی پہچان ) سے بھی خالی تھے۔ جب غیر عرب مسلمانوں کی تعداد بڑھی تو قرآن کریم کی درست قراء ت کے لئے علاماتِ اعجام اور علامات ضبط  ـــ یعنی حرفوں کے نقطے اور ان پر حرکات کی علامات  ـــ ایجاد کی گئیں۔ پھر ان علامات میں اصلاح اور اضافہ کا عمل جاری رہا ــــ بلکہ اب تک جاری ہے، اور اس علم کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے۔ مختلف ملکوں اور زمانوں میں مختلف علامات ضبط ایجاد ہوتی اور استعمال ہوتی رہیں اور ہو رہی ہیں۔ ہر ملک کا مسلمان بچپن میں ہی اپنے ہاں رائج طریق ضبط کی تعلیم (بذریعہ قرآنی قاعدہ ) کی بناء پر ، قرآن کریم ناظرہ درست پڑھ لیتا ہے۔ مگر کسی دوسرے ملک میں رائج مختلف اور نا آشنا طریقِ ضبط کے مطابق قرآن پڑھنا اس کے لئے دشوار ہوتا ہے۔

آج کے اسلامی ممالک کے مطبوعہ مصاحف میں موجود علاماتِ ضبط کے اسی فرق کو سمجھانے کے لئے ہم نے اس کتاب میں ’’الضبط‘‘ کے عنوان کے تحت قارئین کے سامنے ایک ہی ـــ  اور بلحاظ رسم متفق علیہ اور یکساں مکتوب  ـــ کلمہ کے مختلف طریقہ ہائے ضبط کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ممکن ہے اس کے ذریعے قاری کو کسی دوسرے ملک ـــ  خصوصاً سعودیہ کے مطبوعہ مصحف سے بھی تلاوت کرنا آسان ہوجائے۔ اس مقصد کے لئے کتاب میں ایک ہی کلمہ کو مختلف طریق ہائے ضبط کے مطابق ـــ  الگ الگ لکھ کر  ـــ ضبط میں لایا گیا ہے تاکہ قاری پر باہمی فرق واضح ہو جائے اور ساتھ ہی کہیں کہیں کسی ملک کے ضبط کا قاعدہ کلیہ بھی بیان کردیا ہے تاکہ بار بار کی تکرارِ کتابت کی ضرورت نہ رہے ـــ  خیال رہے کہ علم الرسم کی طرح علم الضبط پر بھی مستقل تالیفات موجود ہیں بلکہ مصر کے دینی مدارس ـــ  خصوصا الازہر کی مرحلہ ثانیہ کی جماعتوں میں اس علم کی تدریس داخل نصاب ہے۔ راقم الحروف کے سامنے الدانی کی ’’المحکم فی نقط المصاحف‘‘، التنسی کی ’’الطرازفی شرح ضبط الخراز‘‘، (مخطوطہ کا فوٹوسٹیٹ) احمد ابو زیتحار کی ’’السبیل الی ضبط کلمات التنزیل‘‘ اور علی محمد الضباع کی ’’سمیر الطالبین‘‘، (جس کا آخری حصہ ضبط سے متعلق ہے)  ـــ موجود تھیں، مگر اس معاملے میں زیادہ مدد مختلف ملکوں کے مصاحف سے لی گئی ہے۔ اس لئے کہ مذکورہ بالا کتابیں زیادہ تر عرب اور افریقی ممالک میں رائج طریق ضبط کی بات کرتی ہیں۔  ـــ مشرقی ممالک کے ضبط پر کوئی کتاب موجود نہیں ہے۔ ماسوائے ’’تجویدی قرآن‘‘ مطبوعہ پاکستان کے مقدمہ کے جس میں اس مصحف کے طریقِ ضبط کو متعارف کرایا گیا ہے۔ کتاب کے عنوان ’’الضبط‘‘ کے تحت مختلف ممالک کے مصاحف میں سے طریقِ ضبط کا ذکر یا اس کا نمونہ حسب ذیل ترتیب کے مطابق آئے گا۔ (۱) بر صغیر پاک و ہند کا عام ضبط (۲)  ترکی  اور ایران (۳) عرب ممالک (مصر، سعودیہ، شام ، ان سب کا ضبط یکساں ہے) (۴) افریقی ممالک (تونس ، مراکش ، نائیجیریا ، لیبیا وغیرہ اب سب میں انداز خطاطی اور ’’اسلوب قلم‘‘ کے فرق کے باوجود طریق ضبط یکساں بلکہ بیشتر عرب ممالک کے ضبط سے مماثل ہے)

          اگر کسی کلمہ میں اختلاف ضبط کاباعث اختلافات قراء ت ہے (مثلاً ورش، قالون یا الدوری کی قراءت جو افریقی ممالک میں رائج ہیں اور ان کے مطابق لکھے گئے مطبوعہ مصاحف بھی دستیاب ہیں) تو اسے نظر انداز کر دیاگیا ہے۔ کیونکہ اس کتاب میں بحثِ اعراب کی طرح ضبط کے معاملے میں بھی صرف قراء ت حفص عن عاصم پر  انحصار کیا گیا ہے۔

          کتاب میں آیات سور کو مختلف ’’قطعات‘‘میں تقسیم کر کے ہر قطعہ کی گنتی (PARAGRAPHING) کا ایک خاص طریقہ اختیار کیا گیا ہے جس میں سب سے پہلے سورۃ کا نمبر، پھر اس سورۃ کی زیر مطالعہ ’’قطعہ آیات‘‘ (جو ایک یا ایک سے زیادہ آیات پر مشتمل ہوگا) کا مسلسل ترتیبی نمبراور اس کے بعد ’’اللغۃ‘‘ عنوان کے لئے (۱) ’’الاعراب‘‘ کے لئے (۲) الرسم کے لئے (۳)اور ’’الضبط‘‘ کے لئے (۴) نمبر ہوگا۔ اور یہ نمبر سطر کے دائیں طرف حاشیہ میں یا حاشیہ سے شروع کرکے اس طرح لکھے جائیں گے مثلاً ۲: ۳:۲ کا مطلب ہو گا سورۃ البقرہ کے دوسرے قطعہ آیات میں بحث الرسم اسی طرح ۲:۳:۲ کا مطلب ہوگا سورۃ البقرہ کے تیسرے قطعہ میں بحث الاعراب و ہکذا۔

          پیرا گرافنگ کا یہ طریقہ آگے چل کر کسی گذشتہ بحث کی طرف اشارہ یا حوالہ کا کام دے گا۔ کتاب میں قرآن کریم کی ترتیبِ تلاوت کے مطابق ہر سورت کا آیت بآیت لفظ بلفظ مطالعہ کرنے کے لئے طریق کار یہ اختیار کیا گیا ہے کہ اولاً زیر مطالعہ آنے والا ایک ’’قطعۂ آیت‘‘ بطور عنونِ بحث لکھا گیا ہے۔ جس میں نصّ قرآنی کا کچھ حصہ جو کم از کم ایک آیت (یا اس سے زیادہ ) پر مشتمل اور فی نفسہ ایک مستقل مفہوم کا حامل ہو ـــ  درج کیا گیا ہے ـــ اس کے بعد اس ’’قطعہ آیات‘‘ یا قرآنی عبارت کے ایک ایک لفظ پر باری باری چار مقررہ عنوانات (۱۔اللغۃ، ۲۔ الاعراب، ۳۔ الرسم، ۴۔ الضبط)کے تحت بحث کی گئی ہے۔

          پہلی دفعہ ( یعنی بطور عنوان بحث) لکھتے وقت قرآنی نص (عبارت)عام پاکستانی مصاحف کی بہترین نمائندگی کرنے والے مصحف یعنی انجمن حمایت اسلام ، لاہور کے مطبوعہ نسخہ قرآن کے مطابق لکھی گئی ہے اور قطعہ آیات کی اس (بطور عنوان) کتابت میں ضبط کلمات کا بھی عام پاکستانی (برصغیر میں رائج) طریقہ استعمال کیا گیا ہے، البتہ اگر اس میں رسم عثمانی کی مخالفت والی کوئی غلطی ہے تو اسے درست کر کے لکھا گیا ہے اور ’’بحث الرسم‘‘ میں اس قسم کے اختلافات کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ اس سے پاکستانی مصاحف میں رسم عثمانی سے متعلق اغلاط اور ان کی نوعیت کا بھی پتہ چل سکتا ہے ـــ  ضبط کا تقابلی مطالعہ آخر پر کیا گیا ہے۔

          ’’قطعہ آیات‘‘   کی کتابت کے بعد ’’عنواناتِ اربعہ‘‘کے تحت بحث کرتے وقت قرآنی کلمات عام عربی املاء (رسم معتاد) کے مطابق لکھے گئے ہیں ۔ جس طرح دارالمعرفہ، بیروت (۱۹۸۳ء) والے نسخہ تفسیر جلالین میں کیا گیا ہے جو مصحف برسم عثمانی کے حاشیے پر چھپی ہے ۔ مگر حاشیے میں وارد آیات کے اجزاء کو رسم املائی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔

·       اصحاف ذوق اور اہل علم کے لئے کتاب میں ’’شمارِ آیاتِ قرآن ‘‘ کے بارے میں معلومات کو بھی شامل کر لیاگیا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ ـــ  اختلافاتِ قراء ات کی طرح قرآن کریم کی ان آیات کی گنتی کے لئے بھی سات مختلف روایات یا طریقے ہیں۔ جوائمہ قراء ات کی طرح اس فن (عدِّ  آیات) کے ائمہ کی طرف منسوب ہیں۔ اسے علم الفواصل کہتے ہیں اور اس فن کی مستقل تالیفات بھی ہیں اور قراء ات کی بڑی کتابوں میں بھی اس مقصد کے لئے مستقل ابواب اور فصول یا ابحاث موجود ہیں ـــ  شمار آیات کے ان طریقوں کو (۱)المَدنی الاول (۲) المَدنی الاخیر یا الثانی (۳) المکّی (۴) البصْری (۵) الَّدمِشْقِی (۶)الحِمصی اور (۷) الکوفی (طریقہ) کہا جاتا ہے  اور ان میں سے ہر ایک کے نزدیک قرآنی آیات کی کل تعداد علی الترتیب یوں ہے۔ (۱) ۶۲۱۷ (۲)۶۲۱۴  (۳)۶۲۱۰ (۴)۶۲۰۴ (۵)۶۲۲۷ (۶)۶۲۳۲ اور (۷)۶۲۲۳۔ خیال رہے کہ اس اختلافِ شمار کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بعض نے کچھ آیات چھوڑ دی ہیں اور بعض نے لے لی ہیں ـــ  بلکہ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ آیت ختم کہا ں ہوتی ہے؟ ـــ  چونکہ آیات کا تعین اجتہادی نہیں بلکہ توقیفی ہے یعنی آنحضرت سے روایت پر مبنی ہے اس لئے اس میں فہم راوی کی وجہ سے اس اختلاف کا ہونا نا گزیر تھا۔

          دنیا کے مختلف اسلامی ملکوں کے مصاحف میں شمارِ آیات کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ مصر اور تمام ایشیائی ممالک میں شمار آیات کا کوفی طریقہ رائج ہے ـــ  اور صرف بر صغیر میں مزید یہ رواج بھی ہے کہ غیر کوفی آیت پر ’’۵‘‘ کا نشان ڈالتے ہیں۔ تاہم اسے گنتی میں شمار نہیں کیا جاتا۔ بعض پاکستانی مصاحف میں کہیں غلطی سے آیت (کوفی) سمجھ کر نمبر بھی ڈال دیا گیا ہے۔ یا غلطی ہی سے بعض جگہ ’’۵‘‘ کا غیر کوفی آیت والا نشان ڈال دیا ہے ـــ  حالانکہ وہاں کسی طریقے سے بھی آیت ختم نہیں ہوتی۔ اس قسم کی اغلاط کی اسی آخری حصۂ بحث میں نشاندہی کر دی گئی ہے۔

          ہم نے کتاب میں بر صغیر میں رائج ـــ  غیر کوفی آیت کی نشاندہی کرنے کے  ـــ طریقے کا اتباع کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ کس جگہ شمارِ آیت متفق علیہ ہے اور کہاں اختلاف ہے؟ اور مذکورہ بالا سات ’’اصحاب شمار‘‘ میں سے کس کس نے کہاں کہاں اختلاف کیا ہے؟ اس بارے میں ہماری معلومات کا مصدر البنّاء کی ’’اتحاف فضلاء البشر‘‘اور عبد الفتاح قاضی ‘‘ کی ’’نفائس البیان‘‘ ہیں بہر حال کتاب میں آیات کی گنتی کوفی طریقۂ شمار کے مطابق ہی کی گئی ہے اور آیت کا نمبر شمار (سورت وار ) ہر آیت کے اختتام پر درج کیا گیا ہے۔ اس موضوع (عد ّ   آیات) کے لئے کوئی الگ عنوان مقرر نہیں کیا گیا، بلکہ مذکورہ چاروں عنواناتِ بحث کے خاتمے پر زیر مطالعہ ’’قطعہ آیات‘‘ کے بارے میں یہ گنتی والی بات بھی کر دی گئی ہے۔

          اس مقدمہ میں ہم نے اپنی اس کتاب [’’لغات و اعراب قرآن (مع بیان رسم و ضبط)‘‘] کے تعارف سے زیادہ عربی زبان کی تدریس کے مختلف رائج طریقوں پر بات کی ہے۔ دراصل قرآن فہمی کے لئے  ـــ ترجمہ کی لغوی ، نحوی بنیادوں کو سمجھ سکنے کی حد تک  ـــ عربی کے ایک نئے نصاب اور نئے طریقہ تدریس کی شدید ضرورت ہے۔ جس میں جدید تعلیم یافتہ شائقینِ فہم قرآن کی رعایت ہو اور اس میں درجہ تخصّص پر زور نہ دیا جائے جو صرف پیشہ ورانہ مہارت کا میدان ہے۔ ہماری آرزو ہے کہ تعلیم عربی اور فہم قرآن کو لازم ملزوم سمجھتے ہوئے دونوں کی اشاعت کے لئے ایک مہم چلائی جائے جس کا نعرہ (SLOGAN) یا شعار (MOTTO) ہو: ’’عربی سیکھئے قرآن کے لئے ، قرآن کے ذریعے ‘‘۔

          اور اس مقصد کے لئے اس مقدمہ میں بیان کردہ نصاب اور اس کی تدریس کا نیا طریقہ اس ’’شعار‘‘ کے حصہ اول کے تقاضے پورے کرے گا اور حصہ دوم (قرآن کے ذریعے عربی سیکھنے ) کا کام انشاء اللہ بڑی حد تک ہماری یہ تالیف سر انجام دے سکے گی ۔

          ان گزار شات کے ساتھ کتاب قارئین کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ ہم اپنے قارئین سے درخواست گزار ہیں خصوصاً اہل علم و فضل سے  ـــ کہ وہ ہماری کوتاہیوں کی نشاندہی فرمائیں اور اپنے نا صحانہ مشوروں سے ہماری رہنمائی فرمائیں۔ کوئی انسانی کام خطا و سہو سے مبرا نہیں ہوسکتا ـــ   اور انسانی خطا کی یا تو پردہ پوشی کرنی چاہئے یا اصلاح  ـــ  اس کے علاوہ کوئی تیسرا طریقہ کم از کم کسی اچھے مسلمان کے لئے زیبا نہیں۔

          اور آخر پر اللہ عزّوجلّ کے حضور اپنی ان تمام کوتاہیوں اور خطاؤں کی معافی اور مغفرت کا طلبگار ہوں جو اس کی کتاب عظیم (قرآن کریم) کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں مجھ سے سر زد ہوئی ہیں  ـــ اور امید اور دعاکرتا ہوں ـــ  (اور اپنے قارئین سے بھی اس دعا کی درخواست کرتا ہوں) کہ اللہ جل شانہ اپنے حبیب خاتم النّبیین سیدنا محمد کی امت کے اس حقیر ترین فرد کی یہ حقیر سی خدمت قرآن قبول فرمائے اور اس کتاب کو قارئین کے لئے نفع بخش اور مؤلف کے لئے باقیہ ، صالحہ اور صدقۂ جاریہ بنادے ۔ آمین

خادم القرآن و الابرار

حافظ احمد یار
لاہور
جنوری 1989

 

ملاحظہ

 کتاب میں حوالہ کیلئے قطعہ بندی (پیرا گرافنگ) میں بنیادی طور پر تین ارقام (نمبر) اختیار کئے گئے ہیں۔ سب سے پہلا (دائیں طرف والا) ہندسہ سورۃ کا نمبر شمار ظاہر کرتا ہے۔ اس سے اگلا( درمیانی) ہندسہ اس سورۃ کا قطعہ نمبر ( جو زیر مطالعہ ہے اور جو کم از کم ایک آیت پر مشتمل ہوتا ہے) ظاہر کرتا ہے ۔ اس کے بعد والا (تیسرا) ہندسہ کتاب کے مباحثِ اربعہ (اللّغۃالاعرابالرسم ‘ اور ضبط ) میں سے زیرِ مطالعہ مبحث کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی علی الترتیب اللغہ کیلئے ۱؎ ‘ الاعراب کیلئے ۲؎ ‘ الرسم کیلئے ۳؎‘ اور الضبط کیلئے ۴؎ کا ہندسہ لکھا گیا ہے۔ بحث اللغہ میں چونکہ متعدد کلمات زیر بحث آتے ہیں۔ اس لئے یہاں حوالہ کی مزید آسانی کےلئے نمبر ۱ کے بعد قوسین ( بریکٹ ) میں متعلقہ کلمہ کا ترتیبی نمبر بھی دیا جاتا ہے۔ مثلاً ۱:۵:۲(۳)  کا مطلب ہے سورۃ البقرہ کے پانچویں قطعہ میں بحث اللغہ کا تیسرا لفظ اور ۳:۵:۲ کا مطلب ہے سورۃ البقرہ کے پانچویں قطعہ میں بحث الرسم ۔ وھٰکذا۔

 



[1] برصغیرمیں انگریزوں سے پہلے بلکہ ان کے زمانے میں بھی دینی مدارس میں عربی صرف و نحو کی  تعلیم کے لئے فارسی دان ’’قرآن خوان‘‘ ہونا بنیادی ضرورت سمجھا جاتا تھا کیونکہ عام تعلیم کا آغاز اولاً قرآن پڑھنے ـــ  بلکہ حفظ کرنے سے  ـــ اور پھر فارسی پڑھنے سے ہوتا تھا۔ درسِ نظامی کی بیشتر ابتدائی نصابی کتابوں میں فارسی کو ہی ذریعہ تعلیم سمجھا گیا ہے۔ اب اردو تراجم و حواشی فارسی عربی کی جگہ لے رہے ہیں۔

 

[2]ان مصاحف کی تیاری ایک معروف تاریخی واقعہ ہے۔ جس کی تفصیلات اس وقت موضوع بحث نہیں۔ مگر جن کو تاریخ اسلام یا تاریخ علم الرسم کی کسی کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے۔