قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

پارہ اول نصف دوئم

 اس قطعہ سے صرف بعض چیدہ الفاظ (مفرد و مرکب) کے ضبط بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔ اکثر الفاظ پہلے متعدد بار گزر چکے ہیں یا ان کے ضبط میں صرف حرکات کی شکل کا اختلاف ہے۔ وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى ۭ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ    ١١١؁
( وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ( ( لَنْ یَّدْخُلَ : ہرگز داخل نہیں ہو گا) (الْجَنَّۃَ : جنت میں) (اِلاَّ مَنْ : سوائے اس کے جو)

(کَانَ ھُوْدًا : یہودی ہو) (اَوْ نَصٰرٰی: یا عیسائی ہو) ( تِلْکَ اَمَانِیُّھُمْ: یہ ان کی آرزوئیں ہیں) ( قُلْ : (آپؐ ) کہئے!)

(ھَاتُوْا : تم لوگ دو) (بُرْھَانَــکُمْ: اپنی روشن دلیل) (اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ: اگر تم لوگ سچے ہو)



ھـ ت و

 ھَتْوًا (ن) : کسی چیز کو توڑ کر روندنا۔

 ھِتَائً (مفاعلہ) : دوسرے کی بات کو روندنا‘ اپنی رائے دینا۔

 ھَاتِ (ج ھَاتُوْا) : فعل امر ۔ تُو دے ‘ تُو لا ( آیت زیرِ مطالعہ)

ب ر ھـ

 بَرَھًا (س) : جسم کا صحت مند ہونا‘ صحت مند جلد کی طرح چمکدار ہونا۔

 بُرْھَانٌ : فُعلانٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ انتہائی چمکدار ‘ انتہائی روشن۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ یہ لفظ زیادہ تر فیصلہ کن دلیل کے لئے آتا ہے۔ {یٰٓـاَ یُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُّرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ} (المائدۃ:174)’’ اے لوگو! آ چکی ہے تمہارے پاس ایک انتہائی روشن دلیل تمہارے رب کی طرف سے‘‘۔

 نوٹ (1) ھُوْدًا اَوْ نَصَارٰی میں ’’ اَو‘‘ تفصیل کے لئے ہے۔ یعنی یہودی اپنے لئے اور نصاریٰ اپنے لئے یہی بات کہتے تھے۔

 نوٹ (2) اس آیت میں بُرْہَانٌ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تورات یا انجیل میں ایسی کوئی بات موجود ہے تو اسے سامنے لائو۔ بَلٰي ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗٓ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ    ١١٢؀
(بَلـٰی: کیوں نہیں) (مَنْ اَسْلَمَ : جس نے تابع فرمان کیا) ( وَجْھَــہٗ : اپنے چہرے کو) (لِلّٰہِ : اللہ کے لئے) (وَ : اس حال میں کہ) (ھُوَ : وہ) (مُحْسِنٌ : بلا کم و کاست کام کرنے والا ہے) (فَــلَــــــــہٗ : تو اس کے لئے ہے) (اَجْرُ ہٗ : اس کا اجر ) (عِنْدَ رَبِّہٖ : اس کے رب کے پاس) (وَلَا خَوْفٌ : اور کوئی خوف نہیں ہے) (عَلَیْھِمْ : ان پر ) (وَلَا ھُمْ : اور نہ ہی وہ لوگ) (یَحْزَ نُوْنَ : پچھتاتے ہیں)



و ج ھـ

 وَجَاھَۃً (ک) : بلند رتبہ ہونا‘ باعزت ہونا۔

 وَجِیْہٌ : فَعِیلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ ہمیشہ بلند رتبہ‘ باعزت۔ {اِسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ }(البقرۃ:45)’’ ان کا نام مسیح ابن مریم (ں) ہے‘ بلند رتبہ ہوتے ہوئے دنیا اور آخرت میں‘‘۔

 وَجْہٌ (ج وُجُوْہٌ) : اسم ذات ہے اور مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔

 (1) کسی چیز کا اشرف یا ابتدائی حصہ۔ {اٰمِنُوْا بِالَّذِیْ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّھَارِ وَاکْفُرُوْا اٰخِرَہٗ} (آل عمران:72) ’’ تم لوگ ایمان لائو اس پر جو نازل کیا گیا ان پر جو ایمان لائے‘ دن کے اشرف حصہ میں ( یعنی صبح کو) اور انکار کرو اس کے آخر میں

( یعنی شام‘ کو)‘‘

 (2) چہرہ (کیونکہ یہ انسان کا اشرف اور ابتدائی حصہ ہے) {فَاَلْقُوْہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًا ج} (یوسف:93) ’’ پس ڈالو اس کو میرے والد کے چہرے پر تو وہ ہو جائیں گے دیکھنے والے۔‘‘ {یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ} (آل عمران:176)’’ جس دن سفید (یعنی روشن) ہو جائیں گے کچھ چہرے اور سیاہ ہو جائیں گے کچھ چہرے‘‘۔

 (3) توجہ ‘ خوشنودی۔ {اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ} (الدہر:9)’’ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ہم کھلاتے ہیں تم لوگوں کو اللہ کی خوشنودی کے لئے۔‘‘ {اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا یَّخْلُ لَکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ} (یوسف:9)’’ تم لوگ قتل کرو یوسف ؑ کو یا پھینک دو اس کو کسی زمین میں تو خالی (یعنی خالص) ہو جائے گی تمہارے لئے تمہارے والد کی توجہ۔‘‘

 جِھَۃٌ (ج وِجْہَۃٌ) : اسم ذات ہے۔ توجہ کرنے کی سمت ۔ {وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا } (البقرۃ:148)’’ اور سب کے لئے توجہ کرنے کی کچھ سمتیں ہیں‘ وہ پھیرنے والا (یعنی اپنے چہرے کو پھیرنے والا ) ہے اس کی طرف۔‘‘

 تَوْجِیْھًا (تفعیل) : (1) کسی کا رُخ کسی جانب کرنا۔ (2) کسی کو کسی جانب بھیجنا۔ {اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ} (البقرۃ:79)’’ میں رُخ کرتا ہوں اپنے چہرے کا اس کی طرف جس نے بنایا آسمانوں اور زمین کو۔‘‘ {اَیْنَمَا یُوَجِّھْہُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ} (النحل:76)’’ جہاں کہیں وہ بھیجتا ہے اس کو تو وہ نہیں لاتا کوئی بھلائی۔‘‘

 تَوَجُّھًا (تفعّل) : اپنا رُخ کسی جانب کرنا‘ متوجہ ہونا ۔ {وَلَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَآئَ مَدْیَنَ } (القصص:22)’’ اور جب وہ متوجہ ہوئے مدین کے سامنے۔‘‘

 ترکیب: ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ اَسْلَمَ‘‘ سے ’’ مُحْسِنٌ‘‘ تک شرط ہے۔ ’’ فَلــَـــــــــــہٗ‘‘ سے ’’ یَحْزَنُوْنَ‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔ اَسْلَمَ میں شامل ضمیر ’’ ھُوَ ‘‘ اس کا فاعل ہے ‘ جو کہ مَنْ کے لئے ہے۔ مرکب اضافی وَجْھـَــــــــہٗ اس کا مفعول ہے‘ اس لئے اس کے مضاف وَجْہَ پر نصب آئی ہے۔ وَھُوَ مُحْسِنٌ کا ’’ واو‘‘ حالیہ ہے۔ مرکب اضافی اَجْرُ ہٗ مبتدأ مؤخر ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے‘ جو کہ ’’ ثَابِتٌ‘‘ ہو سکتی ہے۔ فَلَـــــــــہٗ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ خَوْفٌ مبتدأ نکرہ ہے ‘ کیونکہ اصول بیان کیا گیا ہے ۔ اس کی خبر محذوف ہے جو کہ مَوْجُوْدٌ ہو سکتی ہے۔

 نوٹ (1) قرآن مجید کا یہ ایک خاص انداز ہے کہ اکثر وہ کسی چیز کے کسی جز وکا ذکر کر کے اس چیز کے کُل کو مراد لیتا ہے۔ نماز کے ذکر میں یہ انداز نسبتاً زیادہ واضح ہے۔ جیسے {قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْـلًا} (المزمل:2) ۔ اس میں نماز کے ایک رکن ’’ قیام‘‘ کا ذکر کر کے نماز مراد لی گئی ہے۔ یا: {وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ} (البقرۃ:43) اس میں نماز کے ایک رکن ’’ رکوع‘‘ کا ذکر کر کے نماز باجماعت مراد لی گئی ہے۔ اسی طرح آیت زیرِ مطالعہ میں وَجْــہَــــــہٗ سے صرف چہرہ مراد نہیں بلکہ پوری شخصیت مراد ہے۔ وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ لَيْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰي شَيْءٍ ۠ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰى لَيْسَتِ الْيَهُوْدُ عَلٰي شَيْءٍ ۙ وَّھُمْ يَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَھُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ   ١١٣؁
(وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ : اور کہا یہود نے ) (لَیْسَتِ النَّصٰرٰی : نہیں ہیں عیسائی) ( عَلٰی شَیْ ئٍ : کسی چیز پر) (وَقَالَتِ النَّصٰرٰی : اور کہا عیسائیوں نے) (لَیْسَتِ الْیَھُوْدُ : نہیں ہیں یہود) (عَلٰی شَیْ ئٍ : کسی چیز پر) (وَّ : اس حال میں کہ) (ھُمْ یَتْلُوْنَ : وہ لوگ پڑھتے ہیں) (الْکِتٰبَ : کتاب کو ) (کَذٰلِکَ : ایسے ہی) ( قَالَ : کہا) (الَّذِیْنَ : ان لوگوں نے جو) (لَا یَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے) (مِثْلَ قَوْلِھِمْ : ان کے قول کی مانند) (فَاللّٰہُ : تو اللہ ) (یَحْکُمُ : فیصلہ کرے گا) (بَیْنَھُمْ : ان کے مابین) (یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن) (فِیْمَا : اس میں) (کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْن : وہ لوگ اختلاف کیا کرتے تھے جس میں)



 ترکیب : اَ لْــیَھُوْدُ اور اَلنَّصٰرٰی عاقل کی جمع مکسر ہیں۔ اس لئے ان کے ساتھ افعال کے مذکر اور مؤنث دونوں صیغے جائز ہیں۔ اس آیت میں قَالَتْ اور لَـیْسَتْ مؤنث کے صیغے آئے ہیں۔

 لَیْسَتِ النَّصٰرٰی اور لَیْسَتِ الْیَھُوْدُ میں النَّصٰرٰی اور اَلْیَھُوْدُ دونوں لَیْسَتْ کا اسم ہیں‘ ان کی خبر محذوف ہے جو کہ قَائِمًا ہو سکتی ہے‘ جبکہ عَلٰی شَیْ ئٍ متعلق خبر ہے۔ وَھُمْ یَتْلُوْنَ کا ’’ وائو‘‘ حالیہ ہے۔ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ کا مفعول ’’ قولاً ‘‘ محذوف ہے‘ مرکب اضافی مِثْلَ قَوْلِھِمْ اس کی صفت ہے ‘ اس لئے مضاف مِثْلَ پر نصب آئی ہے۔



 نوٹ (1) اس آیت میں اَلْکِتٰبَ سے مراد ہے توراۃ اور انجیل۔ چنانچہ توراۃ اور انجیل پڑھنے والے علماء یہود اور علمائِ نصاریٰ کے قول کو نقل کرنے کے بعد ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایسی ہی بات وہ یہود اور نصاریٰ بھی کہتے ہیں جو علم نہیں رکھتے ‘ یعنی جاہل ہیں۔ اس طرح عالم اور جاہل برابر ہو گئے۔ یہاں زندگی کے ایک اہم اصول کی جانب ہماری راہنمائی کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ subjective thinking یعنی کسی آرزو سے مغلوب سوچ انسان کو عالم‘ سے جاہل بنا دیتی ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے علماء کرام کے لئے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِهَا ۭاُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ ڛ لَھُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ    ١١٤؁
( وَمَنْ : اور کون) (اَظْلَمُ : زیادہ ظالم ہے) (مِمَّنْ : ان سے جو ) (مَّنَعَ : روکیں) ( مَسٰجِدَ اللّٰہِ : اللہ کی مسجدوں کو) (اَنْ یُّذْکَرَ : کہ یاد کیا جائے) (فِیْھَا : ان میں) (اسْمُہٗ : اس کے نام کو) (وَسَعٰی: اور کوشش کریں) (فِیْ خَرَابِھَا : ان کی ویرانی میں) (اُولٰئِکَ : یہ لوگ ہیں) (مَا کَانَ لَھُمْ : نہیں تھا جن کے لئے) (اَنْ یَّدْخُلُوْھَا : کہ وہ داخل ہوں ان میں) (اِلاَّ خَائِفِیْنَ : مگر خوف کرنے والے ہوتے ہوئے) (لَھُمْ فِی الدُّنْیَا: ان کے لئے دنیا میں ہے) (خِزْیٌ : ایک رسوائی) (وَّلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ: اور ان کے لئے آخرت میں ہے) (عَذَابٌ عَظِیْمٌ : ایک عظیم عذاب)



م ن ع

 مَنْعًا (ف) : (1) کِسی کو کسی کام سے روکنا۔ {مَا مَنَعَکَ اَ لاَّ تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ} (الاعراف:12)’’ کس چیز نے روکا تجھ کو کہ تو سجدہ نہ کرے جب میں نے حکم دیا تجھ کو‘‘۔

 (2) کسی چیز کو اپنے پاس روکنا‘ کنجوسی کرنا۔ {وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ ۔ } (الماعون) ’’ اور اپنے پاس روکتے ہیں برتنے کی چیز کو‘‘۔

 (3) کسی کو نقصان پہنچانے سے روکنا‘ کسی کو کسی سے بچانا۔ {اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤْ مِنِیْنَط} (النسائ:141)’’ کیا ہم قابو یافتہ نہ تھے تم پر اور کیا ہم نے نہیں بچایا تم کو مؤمنوں سے؟‘‘

 مَانِعٌ (مؤنث مَانِعَۃٌ) : ( اسم الفاعل) : روکنے والا‘ بچانے والا۔ {وَظَنُّوْا اَ نَّھُمْ مَّانِعَتُھُمْ حُصُوْنُــھُمْ مِّنَ اللّٰہِ}(الحشر:2)’’ اور انہوں نے گمان کیا کہ ان کو بچانے والے ہیں ان کے قلعے اللہ سے۔‘‘

 مَمْنُوْعٌ (مؤنث مَمْنُوْعَۃٌ) : (اسم المفعول) : روکا ہوا۔ {وَفَاکِھَۃٍ کَثِیْرَۃٍ ۔ لاَّ مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ ۔ } (الواقعۃ)’’ اور کثیرپھل ‘ نہ کاٹے ہوئے اور نہ روکے ہوئے۔‘‘

 مَنُوْعٌ : فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بہت روکنے والا۔ {وَاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا ۔ } (المعارج)’’ اور جب بھی پہنچے اس کو بھلائی تو بہت کنجوسی کرنے والا ہو۔‘‘

 مَنَّاعٌ : فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بہت روکنے والا۔ {مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ} (ق:25)’’ بہت روکنے والا بھلائی سے‘‘۔

س ع ی

 سَعْیًا (ف) : تیز تیز چلنا‘ کسی کام کے لئے بھاگ دوڑ کرنا‘ کوشش کرنا۔ {یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰی نُوْرُھُمْ بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ}(الحدید:12) ’’ جس دن تو دیکھے گا مؤمنوں اور مؤمنات کو‘ دوڑتا ہو گا ان کا نور ان کے سامنے ۔‘‘ {یَوْمَ یَتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی} (النّٰزعٰت:35)’’ جس دن یاد کرے گا انسان جو اس نے بھاگ دوڑ کی۔‘‘

 اِسْعَ (فعل امر) : تُو دوڑ‘ تُو کوشش کر۔ {اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ} (الجمعۃ:9)’’ جب بھی ندا دی جائے نماز کے لئے جمعہ کے دن تو تم لوگ لپکو اللہ کے ذکر کی طرف۔‘‘

 سَعْیٌ (اسم ذات) : بھاگ دوڑ‘ کوشش۔ {فَــلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ ج} (الانبیائ:94)’’ تو کسی قسم کی کوئی ناشکری نہیں ہے اس کی کوشش کی‘‘۔

خ ر ب

 خَرَبًا (س) : کسی جگہ کا اجاڑ ہونا‘ ویران ہونا۔

 خَرَابٌ (اسم ذات) : ویرانی ( آیت زیر مطالعہ)

 اِخْرَابًا (افعال) : اجاڑنا‘ ویران کرنا۔{یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَھُمْ بِاَیْدِیْھِمْ} (الحشر:2) ’’ وہ لوگ اُجاڑتے ہیں اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے۔‘‘

 ترکیب : مَنْ استفہامیہ مبتدأ ہے اور اَظْلَمُاس کی خبر ہے۔ مِمَّنْ اصل میں مِنْ اور مَنْ ہے۔ یہ مَنْ جمع کے مفہوم میں ہے۔ لفظی رعایت کے تحت فعل مَنَعَ اور سَعٰی واحد آیا ہے۔ پھر معنوی رعایت کے تحت اسم اشارہ اُولٰئِکَ اور لَھُمْ میں ھُمْکی ضمیر جمع آئی ہے۔ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مرکب اضافی ہے اور مَنَعَ کا مفعول ہے۔ فِیْھَا میں ھَاکی ضمیر مساجد کے لئے ہے جبکہ اِسْمُہٗ میں ہٗ کی ضمیر اللہ کے لئے ہے ۔ خَرَابِھَا میں بھی ھَا کی ضمیر مساجد کے لئے ہے‘ خَائِفِیْنَحال ہے۔ خِزْیٌ اور عَذَابٌ عَظِیْمٌمبتدأ مؤخر نکرہ ہیں اور ان کی خبریں محذوف ہیں۔

 ’’ اَنْ یُّذْکَرَ‘‘ کی ترکیب میں تین احتمال ہیں : (1) ’’ مَسَاجِدَ اللّٰہِ‘‘ سے بدل اشتمال ہونے کی بنا پر محلاً منصوب ہے ۔ تقدیر عبارت یوں ہے : ’’ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ ذِکْرَ اسْمِہٖ فِیْھَا‘‘۔ (2) مفعول لہٗ ہونے کی بنا پر محلاً منصوب ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہے: ’’ کَرَاھِیَۃً اَنْ یُذْکَرَ ‘‘۔ (3) محلاً مجرور ہے اور اس سے پہلے مِنْ حرفِ جر مقدر ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہے : ’’ مِنْ اَنْ یُذْکَرَ فِیْھَا‘‘ اور مِنْ حرفِ جر متعلق ہے مَنَعَ سے۔



 نوٹ (1) مفتی محمد شفیع نے ’’ معارف القرآن‘‘ میں اس آیت سے حاصل ہونے والی راہنمائی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

1) مسجد میں نماز اور ذکر سے روکنے کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ سب ناجائز اور حرام ہیں۔

2) اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی کو مسجد میں جانے سے صراحتاً روکا جائے۔

3) دوسری صورت یہ ہے کہ مسجد میں شور کر کے یا اس کے قرب و جوار میں شور کر کے لوگوں کی نماز اور ذکر میں خلل ڈالے۔ یہ بھی ذکر اللہ سے روکنے میں داخل ہے۔

4) تیسری صورت یہ ہے کہ جب لوگ اپنی نوافل یا تسبیح و تلاوت میں مصروف ہوں اس وقت مسجد میں کوئی بلند آواز سے تلاوت یا ذکر کرنے لگے تو یہ بھی نمازیوں کی نماز و تسبیح میں خلل ڈالنے اور ذکر اللہ کو روکنے کی صورت ہے۔ اس لئے یہ بھی ناجائز ہے۔

5) جس وقت لوگ نماز و تسبیح میں مشغول ہوں اس وقت مسجد میں اپنے لئے سوال کرنا یا دینی کام کے لئے چندہ کرنا ممنوع ہے۔ وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۤ فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ    ١١٥؁
(وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لئے ہی ہے ) ( الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ : مشرق اور مغرب) (فَاَیْنَمَا : پس جہاں کہیں بھی) (تُوَلُّوْا: تم لوگ پھیرو گے (اپنے چہروں کو) فَثَمَّ : تو وہیں) (وَجْہُ اللّٰہِ : اللہ کی توجہ ہے) ( اِنَّ اللّٰہَ : بیشک اللہ) (وَاسِعٌ عَلِیْمٌ: وسعت والا جاننے والا ہے)

ش ر ق

 شَرْقًا (ن ۔ س) : روشنی کا پھوٹنا‘ کسی چیز کا سرخ ہونا۔

 مَشْرِقٌ (ج مَشَارِقُ) : مَفْعِلٌ کے وزن پر اسم الظرف ہے‘ یعنی روشن یا سرخ ہونے کی جگہ یا سمت۔ اصطلاحاً سورج نکلنے کی سمت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ {لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ} (البقرۃ:177) ’’ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم لوگ پھیر دو اپنے چہروں کو مشرق اور مغرب کی طرف‘‘۔ {وَرَبُّ الْمَشَارِقِ} (الصّٰفّٰت:5)’’ اور تمام مشرقوں کا ربّ۔‘‘

 شَرْقِیٌّ : (اسم نسبت ہے) : مشرق والا‘ مشرقی۔ {لَا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ} (النور:35) ’’ نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی ہے ‘‘۔

 اِشْرَاقًا (افعال) : کسی چیز سے کسی چیز کا روشن یا سرخ ہونا۔ {وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا} (الروم:69)’’ اور جگمگا اٹھے گی زمین اپنے رب کے نور سے۔‘‘

 اَلْاِشْرَاقُ : یہ باب افعال کا مصدر ہے۔ اصطلاحاً اس کا مطلب ہے سورج سے زمین کا روشن ہونا یا روشن ہونے کا وقت جب سورج سوا نیزا بلند ہو جائے ‘ یعنی طلوعِ آفتاب کے 20 سے 25 منٹ بعد۔ {یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ} (ص:18)’’ وہ سب تسبیح کرتے ہیں عشاء اور اشراق میں۔‘‘

 مُشْرِقٌ (اسم الفاعل) : روشن ہونے والا۔ اصطلاحاً اس کا مطلب ہے سورج نکلتے ہی صبح کا وقت۔ {فَاَ تْبَعُوْھُمْ مُّشْرِقِیْنَ} (الشعرائ:60) ’’ تو انہوں نے پیچھا کیا ان کا سورج نکلتے ہی‘‘۔

غ ر ب

 غَرْبًِا (ن) : دور چلے جانا‘ دوری کی وجہ سے چھپ جانا‘ غروب ہونا۔ {وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ} (الکہف:17)’’ اور جب وہ (یعنی سورج ) غروب ہوتا ہے‘ کترا جاتا ہے ان سے بائیں جانب‘‘ ۔

 غَرَبًا (س) : سیاہ رنگ والا ہونا (سیاہی اصل رنگ کو چھپا دیتی ہے)

 غُرُوْبٌ : یہ باب نَصَرَ کے مصدر غَرْبٌ کی جمع ہے۔ {وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا ح} (طٰہٰ:130)’’ اور آپ تسبیح کریں اپنے رب کی حمد کے ساتھ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔‘‘

 مَغْرِبٌ (جمع مَغَارِبُ) : مَفعِلٌ کے وزن پر اسم الظرف ہے۔ غروب ہونے کی سمت یا وقت۔ مادہ ’’ ش ر ق‘‘ میں ’’ البقرۃ ‘‘ کی آیت 177 دیکھئے۔ نیز: {فَلَا اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ}(المعارج:40)’’ پس نہیں! میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی‘‘۔

 غَرْبِیٌّ : اسم نسبت ہے۔ مغرب والا‘ مغربی۔ مادہ ’’ ش ر ق‘‘ میں ’’ النور ‘‘ کی آیت 35 دیکھیں۔

 غُرَابٌ : اسم جنس ہے۔ کوّا (کیونکہ وہ سیاہ ہوتا ہے) {فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا} (المائدۃ:31) ’’ تو بھیجا اللہ نے ایک کوا‘‘ ۔

 غِرْبِیْبٌ (جمع غَرَابِیْبُ) : صفت ہے۔ انتہائی سیاہ‘ بھجنگ۔ {وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِیْبُ سُوْدٌ}(فاطر:27)’’ اور پہاڑوں میں سفید راستے ہیں‘ مختلف سرخی ہے ان کے رنگوں کی ‘ اور کچھ بھجنگ سیاہ ہیں‘‘ ۔

ث م م

 ثَمًّا (ن): کسی چیز کو درست کرنا۔

 ثُمَّ : پھر‘ تب‘ اس کے بعد۔ حرف عطف ہے جو کلام کی ترتیب کو درست رکھنے کے لئے آتا ہے۔ {ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا}(المائدۃ:93) ’’ پھر انہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور ایمان لائے ‘ اس کے بعد پھر انہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور بلاکم و کاست نیکی کی‘‘۔

 ثَمَّ : اشارہ بعید کے طور پر آتا ہے ۔ وہیں‘ اسی جگہ ۔ {وَاِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا} (الدھر:20)’’ جب بھی تو دیکھے گا تو وہیں تو دیکھے گا ہمیشگی والی آسودگی‘‘۔

و س ع

 سَعَۃً وَسِعَۃً ( س ‘ ح) : کشادہ ہونا (لازم) ‘ کشادہ کرنا (متعدی) ۔ {وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ ط} ’’ اور میری رحمت کشادہ ہوئی ہر چیز پر۔‘‘

 سَعَۃٌ : اسم ذات بھی ہے۔ کشادگی‘ وسعت ۔ {لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖط} (الطلاق:7) ’’ چاہئے کہ خرچ کرے کشادگی والا اپنی کشادگی میں سے‘‘۔

 وُسْعٌ : اسم ذات ہے۔ وسعت‘ اہلیت۔ {لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَاط}(البقرۃ:286) ’’ اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی جان کو مگر اس کی اہلیت کو‘‘ ۔

 وَاسِعٌ : فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل ہے۔ کشادہ کرنے والا۔ {ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ج وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔ } (المائدۃ)’’ یہ اللہ کا فضل ہے ‘ وہ دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے‘ اور اللہ کشادہ کرنے والا جاننے والا ہے‘‘۔

 وَاسِعَۃٌ : یہ وَاسِعٌ کا مؤنث ہے۔ زیادہ تر صفت کے طور پر آتا ہے۔ کشادہ ہونے والی یعنی کشادہ۔ {وَاَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ ط}(الروم:10) ’’ اور اللہ کی زمین کشادہ ہے‘‘۔

 اِیْسَاعًا (افعال) : رزق میں کشادہ ہونا‘ کسی جگہ کو کشادہ کرنا۔

 مُوْسِعٌ (اسم الفاعل) : رزق میں کشادہ ہونے والا‘ جگہ کو کشادہ کرنے والا۔ {عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُ ہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُ ہٗ} (البقرۃ:236)’’ رزق میں کشادہ ہونے والے پر ہے اس کے مقدور بھر اور تنگدست پر ہے اس کے مقدور بھر‘‘۔ {وَالسَّمَآئَ بَِنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ۔ }(الذریت)’’ اور آسمان ‘ ہم نے بنایا اس کو (اپنے) ہاتھوں سے اور بیشک ہم کشادہ کرنے والے ہیں‘‘۔

 ترکیب : اَلْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ مبتدأ مؤخر ہیں‘ خبر محذوف ہے اور قائم مقام خبر کو تاکید کے لئے مقدم کیا گیا ہے۔ اَیْنَمَا ‘ تُوَلُّوْا کا مفعول فیہ ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے۔ کلمہ شرط ہے۔ تُوَلُّوْا شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے اور فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ جواب شرط ہے۔ مضارع مجزوم تُوَلُّوْا کا فاعل اس میں شامل اَنْتُمْ کی ضمیر ہے اور اس کا مفعول وُجُوْھَکُمْ محذوف ہے۔

 نوٹ (1) یہ آیت تحویلِ قبلہ کے حکم سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے اسے تحویلِ قبلہ کے حکم کی پیش بندی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور اس پہلو سے آیت میں مشرق اور مغرب کے الفاظ کی اہمیت کو سمجھ لیں۔

 مدینہ میں ہجرت کے بعد سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھی گئی۔ اس وقت مدینہ کے نمازیوں کا رُخ شمال کی طرف ہوتا تھا ‘ کیونکہ بیت المقدس مدینہ کے شمال میں ہے۔ تحویلِ قبلہ کے بعد اب مدینہ کے نمازیوں کا رُخ جنوب کی طرف ہوتا ہے ‘ کیونکہ خانۂ کعبہ مدینہ کے جنوب میں ہے۔ اب نوٹ کریں کہ اس آیت میں شمال اور جنوب کے بجائے مشرق اور مغرب کی بات کی گئی ہے۔ اس طرح گویا چاروں سمتوں کا احاطہ کر کے فرمایا:’’ فَاَیْنَمَا‘‘ جہاں کہیں بھی ‘ یعنی جس طرف بھی رُخ کرو اللہ کی توجہ ہر طرف ہے۔

 نوٹ (2) اس میں یہ حقیقت واضح کر دی کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ کسی سمت میں مقید نہیں ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے بعد عمل کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ہر شخص کو آزادی دے دی جائے کہ جس طرف اس کا جی چاہے رُخ کر کے نماز پڑھ لے۔ دوسری یہ کہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود کوئی ایک سمت مقرر کی جائے۔ اسلام میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ اس لحاظ سے بڑا عجیب ہے کہ نہ تو افراد کو آزادی ہے کہ جدھر جی چاہے رُخ کر کے نماز پڑھیں اور نہ ہی کسی ایک سمت کا تعین ہے۔ البتہ ایک رُخ کا تعین کیا گیا ہے ۔

 ایک قبلہ مقرر کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت کا ہر فرد پابند ہے کہ وہ اسی طرف رُخ کر کے نماز پڑھے۔ اس طرح امت میں تنظیم اور اتحاد کی عملی تربیت کا اہتمام ہو گیا۔ اب ساری دنیا کے مسلمان جب قبلہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے ہیں تو نہ صرف شمال و جنوب اور مشرق و مغرب بلکہ ان کے درمیان کے تمام زاویۂ سمت کا خود بخود احاطہ ہو جاتا ہے۔ وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ لَّهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭكُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ    ١١٦؁
( وَقَالُوا : اور انہوں نے کہا ) (اتَّخَذَ : بنایا ) ( اللّٰہُ : اللہ نے ) (وَلَدًا : ایک بیٹا) (سُبْحَانَـــــہٗ : اس کی پاکیزگی ہے) (بَلْ لَّـــــہٗ : بلکہ اس کی ملکیت ہے) (مَا : جو کچھ) (فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : آسمانوں میں اور زمین میں ہے) (کُلٌّ لَّـــــہٗ : سب اس کی ) (قٰنِتُوْنَ : فرمانبرداری کرنے والے ہیں)



و ل د

 وَلَدَ (ض) لِدَۃً ۔ وِلادۃً ۔ وِلَادًا (ض) : بچہ جننا۔ {وَلَا یَلِدُوْا اِلاَّ فَاجِرًا کَفَّارًا ۔ } (نوح) ’’ اور وہ لوگ نہیں جنیں گے مگر گنہگار ناشکرے کو‘‘۔

 وَالِدٌمؤنث وَالِدَۃٌ (اسم الفاعل): پیدائش کا باعث ہونے والا۔ والد‘ باپ۔ {وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِہٖ ز} (لقمان:33) ’’ تم لوگ ڈرو ایک ایسے دن سے جب کام نہیں آئے گا کوئی باپ اپنی اولاد کے‘‘۔ {لَا تُضَارَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِھَا} (البقرۃ:233) ’’ ضرر نہ پہنچایا جائے کسی ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے ۔‘‘

 وَالِدَانِ (وَالِدٌکاتثنیہ) : اصطلاحاً ماں باپ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔{اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط} (لقمان:14)’’ کہ تو شکر کر میرا اور اپنے ماں باپ کا‘‘۔

 مَوْلُوْدٌ (اسم المفعول) : پیدا کیا ہوا‘ یعنی بچہ۔ {وَلَا مَوْلُوْدٌ ھُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ} (لقمان:33)’’ اور نہ کوئی بچہ کام آنے والا ہے اپنے باپ کے‘‘۔

 وَلَدٌ ج اَوْلَادٌ (اسم ذات) : بچہ یا بچی ‘ لیکن زیادہ تر عرف میں بیٹے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ’’ وَلَدٌ ‘‘ کا لفظ واحد‘ جمع‘ مذکر‘ مؤنث‘ سب کے لئے آتا ہے اور اس کی جمع اَوْلَادٌ ‘ وِِلْدَۃٌ ‘ اِلْدَۃٌ اور وُلْدٌ بھی آتی ہے۔

 وَلِیْدٌ ج وِلْدَانٌ : فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ کم عمر لڑکا ۔ {وَیَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَج} (الدھر:19) ’’ اور پھریں گے ان کے گرد ہمیشگی دیئے ہوئے کم عمر لڑکے۔‘‘

ق ن ت

 قَنَتَ (ن) قُنُوْتًا : اطاعت کرنا‘ فرمانبرداری کرنا۔ {وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ} (الاحزاب:31) ’’ اور جو فرمانبرداری کرے گی تم میں سے اللہ کی اور اس کے رسول کی۔‘‘

 اُقْنُتْ (فعل امر) : تو اطاعت کر‘ فرمانبرداری کر ۔ {یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ} (آل‘ عمران:43) ’’ اے مریم! آپ فرمانبرداری کریں اپنے رب کی۔‘‘

 قَانِتٌ (اسم الفاعل) : فرمانبرداری کرنے والا ۔ {اَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَائَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَائِمًا } (الزمر:9) ’’ یا وہ جو فرمانبرداری کرنے والا ہے رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرنے والا اور قیام کرنے والا ہوتے ہوئے۔‘‘

 ترکیب: ’’ اِتَّخَذَ ‘‘ فعل ’’ اَللّٰہُ‘‘ فاعل اور ’’ وَلَدًا ‘‘ مفعول‘ یہ جملہ فعلیہ ’’ قَالُوْا‘‘ کا مقولہ ہے ‘ جبکہ ’’ سُبْحٰـنَـــــہٗ‘‘ جملہ معترضہ ہے۔ مفعول مطلق ہے فعل محذوف کا۔ ’’ بَلْ‘‘ حرفِ عطف و اِضراب مقولہ کی تردید کے لئے آیا ہے۔ ’’ مَا‘‘ موصولہ مبتدأ ہے‘ اس کی خبر ’’ مَوْجُوْدٌ‘‘ محذوف ہے‘ جبکہ ’’ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ‘‘ اور ’’ لَـــــــــہٗ‘‘ متعلق خبر ہیں۔ ’’ لَـــــــــہٗ‘‘ کا لام‘ لامِ تملیک ہے۔ ’’ کُلٌّ‘‘ مبتدأ نکرہ ہے۔ لما فیہ من معنی العموم۔ ’’ قَانِتُوْنَ‘‘ خبر اور ’’ لَـــــــــہٗ‘‘ متعلق خبر ہیں۔ ’’ کُلٌّ ‘‘ ہمیشہ مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے ‘ اس کا مضاف الیہ محذوف ہے اور تقدیر عبارت یوں ہے:’’ کُلُّ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ‘‘۔ یا ’’ کُلُّھُمْ‘‘ مضاف الیہ کو حذف کر کے اس کے عوض میں ’’ کُلٌّ‘‘ کے اوپر تنوین آ گئی ۔ اس کو ’’ تنوین عوض‘‘ کہتے ہیں۔



 نوٹ (1) فعل ’’ اِتَّخَذَ‘‘ دو مفعول کا تقاضا کرتا ہے کہ کس کو بنایا اور کیا بنایا؟ اس آیت میں مفعول اوّل (کس کو بنایا) محذوف ہے اور صرف مفعول ثانی (کیا بنایا) مذکور ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس طرح سے اس نوعیت کے تمام عقائد کی تردیدہو گئی ہے۔ اگر مفعول اوّل مذکور ہوتا تو صرف مذکورہ عقیدے کی تردید ہوتی۔

 نوٹ (2) اولاد کی ضرورت صاحب اولاد کی ذات کے کسی نقص کی دلیل ہوتی ہے۔ مثلاً صاحب اولاد کی ذات کا فانی ہونا‘ تاکہ اولاد کی شکل میں اس کی ذات کا تسلسل برقرار رہے اور کوئی نام لینے والا ہو۔ یا صاحب اولاد کے کسی کام کا نامکمل رہ جانا‘ تاکہ اولاد اس کے کام کو آگے بڑھائے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ جملہ معترضہ’’ سُبْحٰـنَــــــہٗ‘‘ سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر نوعیت کے نقص سے پاک ہے۔ بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭوَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ   ١١٧؁
(بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : زمین اور آسمانوں کا ایجاد کرنے والا ہے) (وَاِذَا : اور جب بھی ) (قَضٰی : وہ فیصلہ کرتا ہے ) (اَمْرًا : کسی کام کا ) (فَاِنَّمَا : تو بس) (یَقُوْلُ : وہ کہتا ہے ) (لَــــــــہٗ : اس کو ) (کُنْ : تو ہوجا) (فَیَــــکُوْنُ : پس وہ ہو جاتاہے )



ب د ع

 بَدَعَ (ف) بَدْعًا : نمونے کے بغیر کوئی چیز بنانا‘ ایجاد کرنا۔ اس لفظ کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے تو اس کا مفہوم ہوتا ہے کہ نمونہ‘ مادہ یا اوزار وغیرہ کے بغیر ایجاد کرنا۔

 بَدِیْعٌ (فَعِیلٌ کے وزن پر اسم الفاعل ) : ایجاد کرنے والا۔ (آیت زیرِ مطالعہ)

 بِدْعٌ (صفت) : نیا‘ انوکھا ۔ {مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ } (الاحقاف:9) ’’ میں کوئی انوکھا نہیں ہوں رسولوں میں سے۔‘‘

 اِبْتِدَاعًا (باب افتعال سے) : اہتمام سے کوئی نئی چیز ایجاد کرنا۔ {وَرَھْبَانِیَّۃَنِ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ } (الحدید:27) ’’ اور رَہبانیت! انہوں نے ایجاد کیا اس کو‘ ہم نے واجب نہیں کیا جسے ان پر۔‘‘

ق ض ی

 قَضٰی (ض) قَضَائً : (1) کسی چیز کو مضبوطی سے بنانا ۔ {فَقَضٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ} (حم‘ السجدۃ:12) ’’ تو اس نے مضبوطی سے بنایا ان کو سات آسمان۔‘‘ (2) کسی کام کو پورا کر کے فارغ ہو جانا۔ {فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ } (البقرۃ:200) ’’ پس جب تم لوگ فارغ ہو جائو اپنے عبادت کے طریقوں سے تو یاد کرو اللہ کو۔‘‘ (3) کسی بات یا کام کا فیصلہ کرنا۔ {وَقَضٰی رَبُّکَ اَ لاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیَّاہُ} (بنی اسرائیل:23) ’’ اور فیصلہ کیا تیرے رب نے کہ تم لوگ عبادت مت کرو مگر اسی کی۔‘‘

 اِقْضِ (فعل امر) : تو فیصلہ کر ۔ {فَاقْضِ مَا اَنْتَ قَاضٍط اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا ۔ } (طٰہٰ) ’’ پس تو فیصلہ کر جو تو فیصلہ کرنے والا ہے۔ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ تو فیصلہ کرے گا اِس دنیا کی زندگی کا۔‘‘

 قَاضٍ (فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل): فیصلہ کرنے والا۔ (ملاحظہ کریں مذکورہ بالا آیت)

 مَقْضِیٌّ (اسم المفعول) : فیصلہ کیا ہوا۔ {وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا ۔ } (مریم) ’’ اور وہ تھا فیصلہ کیا ہوا کام۔‘‘

 ترکیب: مرکب اضافی ’’ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘‘ خبر ہے۔ اس کا مبتدأ ’’ ھُوَ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ اِذَا‘‘ کلمۂ شرط‘ ظرف اور ’’ قَضٰی اَمْرًا‘‘ اِذَا کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے محلاً مجرور۔ قَضٰی اَمْرًا شرط اور ’’ فَاِنَّمَا‘‘ میں فاء رابطہ ہے اور ’’ اِنَّمَا‘‘ میں ’’ مَا‘‘ کا فہ زائدہ ہے۔ ’’ کُنْ‘‘ کَانَ تامہ سے فعل امر ہے۔ ’’ فَیَکُوْنُ‘‘ میں ’’ فائ‘‘ استیناف اور یَکُوْنُ فعل مضارع ہے کَانَ تامہ سے اور معنی ہے فھو یحدث ۔ ’’ فَاِنَّمَا‘‘ سے ’’ فَـــیَــکُوْنُ‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔ ’’ فَــیَـــکُوْن‘‘ کو جمہور نے رفع کے ساتھ پڑھا ہے ’’ یَقُوْلُ‘‘ پر عطف کرتے ہوئے یا اس سے پہلے ’’ ھُوَ‘‘ ضمیر مبتدأ محذوف کی خبر مان کر۔ تقدیر عبارت یوں ہے: ’’ فَھُوَ یَکُوْنُ‘‘۔ وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِيْنَآ اٰيَةٌ ۭ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۭ تَشَابَهَتْ قُلُوْبُھُمْ ۭ قَدْ بَيَّنَّا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ   ١١٨؁
(وَقَالَ : اور کہا ) ( الَّذِیْنَ : ان لوگوں نے جو) (لَا یَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے) ( لَوْ لَا : کیوں نہیں) (یُکَلِّمُنَا : کلام کرتا ہم سے) ( اللّٰہُ : اللہ) ( اَوْ : یا (کیوں نہیں) تَاْتِیْنَا : آتی ہمارے پاس) ( اٰیَۃٌ : کوئی نشانی) (کَذٰلِکَ : اس کی طرح) ( قَالَ : کہا) (الَّذِیْنَ : انہوں نے جو ) ( مِنْ قَبْلِھِمْ : ان سے پہلے تھے ) ( مِّثْلَ قَوْلِھِمْ : ان کے قول کی مانند) (تَشَابَھَتْ : باہم ملتے جلتے ہوئے) (قُلُوْبُھُمْ : ان کے دل ) (قَدْ بَیَّنَّا : ہم واضح کر چکے ہیں ) (الْاٰیٰتِ : نشانیوں کو ) (لِقَوْمٍ : ایسے لوگوں کے لئے جو ) (یُّوْقِنُوْنَ : یقین کرتے ہیں)



 ترکیب : ’’ یُکَلِّمُ‘‘ فعل ضمیر مفعولی ’’ نَا‘‘ اس کا مفعول اور ’’ اَللّٰہُ‘‘ فاعل ہے۔ اسی طرح ’’ تَاْتِیْ‘‘ فعل‘ ضمیر مفعولی ’’ نَا‘‘ اس کا مفعول اور ’’ اٰیَۃٌ‘‘ فاعل ہے۔ ’’ کَذٰلِکَ قَالَ‘‘ کا فاعل ’’ الَّذِیْنَ‘‘ ہے اور اس کا مفعول ’’ قَوْلاً ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ مِثْلَ‘‘ اس کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ بَـــــیَّــــنَّا‘‘ کا فاعل اس میں شامل ’’ نَحْنُ‘‘ کی ضمیر ہے۔ ’’ ا لْاٰیٰتِ‘‘ اس کا مفعول ہے۔ ’’ لِقَوْمٍ‘‘ متعلق فعل ہے اور ’’ قَوْمٍ‘‘ نکرہ موصوفہ ہے‘ اس کی صفت جملہ فعلیہ ’’ یُوْقِنُوْنَ‘‘ ہے۔

 نوٹ (1) ’’ لَوْ لَا‘‘ اور ’’ لَوْمَا‘‘ جب فعل پر آتے ہیں تو زیادہ تر مضارع پر آتے ہیں۔ اس وقت ’’ لَوْ‘‘ شرطیہ نہیں ہوتا بلکہ تمنی ہوتا ہے ‘ اس لئے غیر عامل ہوتا ہے‘ یعنی مضارع کو مجزوم نہیں کرتا اور منفی ہونے کی وجہ سے ’’ کاش ایسا ہوتا‘‘ کے بجائے ’’ کیوں نہ ایسا ہوا‘‘ کے معانی دیتاہے۔ اس کے بعد اگر فعل مستقبل آئے تو بمعنی تخضیض اور اگر ماضی آئے تو بمعنی توبیخ ہوتا ہے۔

 نوٹ (2) ’’ اَوْ تَاْتِیْنَا اٰیَۃٌ‘‘ میں آیت کا لفظ قرآن مجید کی آیات کے لئے نہیں ہے‘ بلکہ کھلی نشانی کے لئے ہے اور ’’ مِنْ قَبْلِھِمْ‘‘ میں عمومیت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے اس نوعیت کے جتنے مطالبے کئے جا چکے ہیں‘ ان سب کی طرف اشارہ ہے۔ اس کی ایک بہت واضح مثال بنو اسرائیل کا حضرت موسیٰں سے یہ مطالبہ تھا کہ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا نہ دیکھ لیں ‘ اس وقت تک ہم آپ کی بات نہیں مانیں گے۔ (البقرۃ:55)

 نوٹ (3) ’’ لِقَوْمٍ‘‘ کی صفت ’’ یُوْقِنُوْنَ‘‘ آئی ہے۔ یہ دراصل علم الیقین کی بات ہے۔ اس دنیا میں انسان کا اصل امتحان علم کی بنیاد پر یقین کرنا یعنی ایمان لانا ہے۔ اور صرف علم الیقین پر ہی اجر وثواب ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کو دیکھ لینے کے بعد یقین کرنے یعنی ایمان لانے میں کوئی کمال نہیں ہے۔ اس لئے عین الیقین پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں ہے۔

 اب یہ سمجھ لیں کہ علم الیقین کے لئے objective thinking شرط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی پسند وناپسند اور معاشرتی رواج کو ایک طرف رکھتے ہوئے صحیح بات اور حقیقت کو معلوم کرنے کی خواہش رکھے اور اس کے لئے کوشش کرے۔ یہ خواہش اور تڑپ جتنی زیادہ ہوگی ‘ انسان اتنا ہی علم سے استفادہ کر کے حقائق کا یقین حاصل کرے گا۔

 اس کے برعکس subjective thinking میں انسان کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ کہیں سے اور کسی طرح سے کوئی ایسی بات ملے جس سے اس کی پسند وناپسند کی تصدیق و تائید ہوتی ہو۔ ایسا انسان کتنی بھی معلومات جمع کر لے‘ علم حاصل کرلے اور تحقیق کر لے‘ اس کے دل و دماغ کھلی کھلی نشانیوں کو بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

 اس حوالہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے تقویٰ شرط ہے (البقرۃ:2) اسی طرح ہمارے اپنے وجود اور اس کائنات میں بکھری ہوئی بےشمار نشانیوں (حٰمٓ السجدۃ:53) سے عرفان حاصل کرنے کے لئے objective thinking شرط ہے۔ ع

فیضانِ محبت عام تو ہے ‘ عرفانِ محبت عام نہیں! اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا ۙ وَّلَا تُسْـــَٔـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْمِ   ١١٩؁
(اِنَّا : بیشک ہم نے ) (اَرْسَلْنٰکَ : بھیجا آپؐ کو ) (بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ ) (بَشِیْرًا : خوشخبری دینے والا ہوتے ہوئے) ( وَّنَذِیْرًا : اور خبردار کرنے والا ہوتے ہوئے) ( وَلَا تُسْئَلُ : اور آپ سے نہیں پوچھا جائے گا) ( عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِِ : دوزخ والوں کے بارے میں)



 ترکیب : ’’ اِنَّا‘‘ دراصل’’ اِنَّ نَا‘‘ ہے۔ ضمیر منصوبہ ’ نَا‘ ’ اِنَّ‘ کا اسم ہے۔ ’’ اَرْسَلْنٰکَ‘‘ سے ’’ نَذِیْرًا‘‘ تک جملہ فعلیہ ’’ اِنَّ‘‘ کی خبر ہے۔ ’’ اَرْسَلْنَا‘‘ فعل ہے‘ اس میں شامل ’’ نَا‘‘ ضمیر متصل مرفوع کی ضمیر اس کا فاعل ہے اور ضمیر مفعولی ’’ کَ‘‘ مفعول ہے۔ ’’ بالحق‘‘ جار ومجرور یا تو ضمیر مفعولی ’’ کَ‘‘ سے حال واقع ہونے کی بنا پر مقام نصب میں ہیں اور تقدیر عبارت یوں ہے : ’’ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ وَمَعَکَ الْحَقُّ‘‘ اور یا فاعل سے حال واقع ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے ۔ تقدیر عبارت یوں ہے :’’ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ وَمَعَنَا الْحَقُّ‘‘ جبکہ ’’ بَشِیْرًا ‘‘ اور ’’ نَذِیْرًا‘‘ ضمیرمفعولی ’’ کَ‘‘ کا حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ ’’ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا‘‘ عطف ہو کر مقام نصب میں ہے ۔ وَلَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ مرفوع اور بضم التاء پڑھنے کی صورت میں حال ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہے :’’ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّغَیْرَمَسْئُوْلٍ عَنْ اَصْحَابِ الْجَحِیْمِ ‘‘۔ مضارع مجہول ہے اور اس میں شامل ’’ اَنْتَ‘‘ کی ضمیر نائب الفاعل ہے۔ نیز بصیغہ نہی وَلَا تُسْئَلْ پڑھنا بھی جائز ہے ‘ اس صورت میں جملہ مستأنفہ ہو گا۔



 نوٹ (1) مطلب یہ ہے کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ حضور ﷺ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ ہم نے حق دے کر آپ کو بھیجا تھا‘ لوگوں کو خوشخبری دینا اور خبردار کرنا آپ کی ذمہ داری تھی‘ تو پھر یہ اتنے لوگ جہنمی کیوں قرار پائے۔ اس سے یہ اصول ملتا ہے کہ کسی کوشش کے نتیجے کے بارے میں قیامت کے دن انسان کو جوابدہی نہیں کرنی ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نتیجہ پر انسان کا اختیار نہیں ہے۔ کسی کوشش کا نتیجہ نکلے گا یا نہیں‘ کب نکلے گا‘ کتنا نکلے گا‘ یہ سارے فیصلے اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضۂ قدرت میں رکھے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی اختیار اس نے انسان کو delegate نہیں کیا ہے ۔ اس لئے نتیجہ سے انسان بری ٔالذمہ ہے۔

 البتہ کوشش کرنے یا نہ کرنے کا اختیار اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کوشش کی quantity اور quality دونوں پر انسان کو کنٹرول دیا گیا ہے۔ اس لئے قیامت میں اس کی کوششوں کے متعلق انسان سے پوچھا جائے گا اور اس کی اسے جواب دہی کرنی ہو گی۔ وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَهُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ ۭ قُلْ اِنَّ ھُدَى اللّٰهِ ھُوَ الْهُدٰى ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ  ١٢٠؁
(وَلَنْ تَرْضٰی : اور ہرگز راضی نہیں ہوں گے ) (عَنْکَ : آپؐ سے ) ( الْیَھُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی : یہودی اور نہ ہی عیسائی) (حَتّٰی : یہاں تک کہ ) (تَتَّبِعَ : آپؐ پیروی کریں) (مِلَّتَھُمْ : ان کے عقیدوں کی) (قُلْ : آپؐ کہئے ) (اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ : بیشک اللہ کی ہدایت) (ھُوَ الْھُدٰی : ہی کل ہدایت ہے ) (وَلَئِنِ : اور اگر) (اتَّبَعْتَ : آپؐ نے پیروی کی ) (اَھْوَآئَ ھُمْ : ان کی خواہشات کی) (بَعْدَ الَّذِیْ : اس کے بعد جو ) (جَآئَ کَ : آیا آپ کے پاس) (مِنَ الْعِلْمِ : العلم میں سے ) (مَالَکَ : تو نہیں ہے آپؐ کے لئے) (مِنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف ) سے) (مِنْ وَّلِیٍّ : کوئی بھی کارساز) (وَّلاَ نَصِیْرٍ : اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی مددگار)



رض ی

 رَضِیَ (س) رِضًی اور مَرْضَاۃً : (1) کسی سے راضی ہونا۔ اس معنی میں عموماً ’’ عَنْ‘‘ کا صلہ آتا ہے۔ {رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط} (المائدۃ:119) ’’ اللہ راضی ہوا ان سے اور وہ لوگ راضی ہوئے اس سے۔‘‘ (2) کسی چیز کو پسند کرنا۔ اس معنی میں ’’ بِ‘‘ کا صلہ آتا ہے یا مفعول بنفسہ آتا ہے۔ {اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ ج} (التوبۃ:38) ’’ کیا تم لوگوں نے پسند کیا دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں۔‘‘ {وَرَضِیْتُ لَــکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط} (المائدۃ:3) ’’ اور میں نے پسند کیا تمہارے لئے اسلام کو بطور دین۔‘‘

 رَاضِیَۃً (فَاعِلٌ مؤنث فَاعِلَۃٌ کے وزن پر اسم الفاعل) : راضی ہونے والا‘ پسند کرنے والا۔ {وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۔ لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ ۔ } (الغاشیۃ) ’’ کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہونے والے ہیں‘ اپنی کوشش پر راضی ہونے والے ہیں۔‘‘

 مَرْضِیَّۃٌ : ناقص کے اسم المفعول کے وزن مَرْضِیٌّ کا مؤنث ہے۔ مطلب ہے پسند کیا ہوا‘ پسندیدہ۔ {یٰـاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ۔ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ۔ } (الفجر) ’’ اے مطمئن جان! تو واپس چل اپنے رب کی طرف ‘ پسند کرنے والی ہوتے ہوئے‘ پسندیدہ ہوتے ہوئے۔‘‘

 رَضِیٌّ : فَعِیْلٌ کے وزن پر اسم المفعول کے معنی میں صفت ہے۔ {وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیًّا ۔ } (مریم) ’’ اور تو بنا اس کو‘ اے میرے ربّ‘ پسندیدہ۔‘‘

 رِضْوَانٌ (اسم ذات): خوشنودی ۔ {وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ} (التوبۃ:73) ’’ اور اللہ کی خوشنودی سب سے بڑی ہے۔‘‘

 اِرْضَائٌ (باب اِفعال) : کسی کو راضی کرنا۔ {یُرْضُوْنَــــکُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ} (التوبۃ:8) ’’ وہ راضی کرتے ہیں تم لوگوں کو اپنے مُنہ سے (یعنی اپنی باتوں سے) ۔‘‘

 تَرَاضٍ : باب تفاعل کا مصدر ہے۔ باہم ایک دوسرے سے راضی ہونا۔ {اِلاَّ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْقف} (النسائ:29) ’’ سوائے اس کے کہ وہ ہو کوئی سودا تم لوگوں کے باہم راضی ہونے سے۔‘‘

 اِرْتِضَائٌ (اِفتعال ) : اہتمام سے پسند کرنا۔ {وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلاَّ لِمَنِ ارْتَضٰی} (الانبیائ:28) ’’ اور وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر جس کے لئے وہ پسند کرے گا۔‘‘

مِلَّۃ

 امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے کہ دین کی طرح ’’ مِلَّۃ‘‘ بھی اس دستور الٰہی کا نام ہے جو اللہ اپنے بندوں کے لئے جاری فرماتا ہے‘ تاکہ اس پر چل کر انسان قربِ خداوندی حاصل کرسکے اور یہ دستور انبیاء کی وساطت سے بندوں تک پہنچتا ہے۔ لیکن قرآن مجید میں لفظ ملت کا اطلاق کئی جگہ باطل مذاہب پر بھی ہوا ہے جو خود انسانوں کا تراشیدہ تھا‘ دستور الٰہی پر مبنی نہ تھا۔ جیسا کہ حضرت یوسف نے جیل خانہ کے دونوں قیدیوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:{اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ ۔ } اسی طرح سورۃ ’’ ص‘‘ میں اللہ عزوجل نے قریش کا قول نقل فرمایا ہے : {مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِی الْمِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ} (آیت 7) اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ بغوی نے معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ ’’ ابن عباس‘ کلبی اور مقاتل کے نزدیک ملۃٌ آخرۃٌ سے مراد نصرانیت ہے ‘ اس لئے کہ نصرانیت توحید سے خالی ہو چکی تھی (اور تثلیث پر مبنی تھی) مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مذہب قریش مراد ہے‘‘۔ مِلۃٌ آخرۃٌ سے مذہب قریش مراد ہو یا تثلیث پر مبنی نصرانیت‘ دونوں دستور الٰہی پر مبنی نہیں تھیں۔ اس صورت میں راغب کا یہ کہنا کہ ملت دین ہی کی طرح دستور الٰہی کا نام ہے ‘ بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے ۔ شاید راغب کی مراد یہ ہو کہ ’’ مِلَّۃ‘‘ اصل میں تو دستور الٰہی ہی کا نام ہے جو انبیاء کی معرفت بھیجا جاتا ہے ‘ لیکن اگر انسانی دماغ کبھی اس میں خرد برد کرلیں تب بھی بطور مجاز اس پر لفظ ملت کا اطلاق ہو جاتا ہے کیونکہ خرد برد کرنے والوں کے دعویٰ میں تو شکستہ اور بریدہ دین یا دستور بھی اللہ کا بھیجا ہوا دین ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!

 امام راغب نے ملۃ اور دین کا فرق ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ لفظ ’ ملت‘ کی اضافت صرف انبیاء کی طرف ہوتی ہے کسی غیر نبی کی طرف نہیں‘ اسی طرح اس کی اضافت اللہ کی طرف بھی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ’’ مِلّۃُ اللّٰہ‘‘ اور ’’ مِلۃُ زیدٍ‘‘ یا’’ مِلَّتِی‘‘ نہیں کہا جاتا ۔ ہاں ’ دین‘ کا استعمال عام ہے‘‘۔

 معلوم ایسا ہوتا ہے کہ لفظ ’’ ملت‘‘ کی انبیاء کے ساتھ تخصیص بھی امام راغب کے اسی نظریہ پر مبنی ہے کہ ملت صرف دستور الٰہی کا نام ہے جو انبیاء کی معرفت بھیجا جاتا ہے۔ کیونکہ غیر انبیاء کی طرف اضافت خود سورئہ یوسف کی آیت {اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ ۔ } میں موجود ہے۔

 امام راغب نے لفظ ’’ ملت‘‘ کا استعمالی ماخذ أمللت الکتاب کو قرار دیا ہے ‘ اگر کوئی تحریر آپ کسی سے لکھوائیں تو کہیں گے أمللت الکتاب ۔ تو گویا اللہ کی جاری کردہ یا تحریر کردہ چیز ’’ ملۃ‘‘ ہوئی۔

 ترکیب : واواستیناف اور ’’ لَــنْ‘‘ حرفِ نفی‘ نصب اور استقبال ہے۔ ’’ تَرْضٰی‘‘ فعل مضارع منصوب بِلَنْ ہے۔ ’’ عَنْکَ‘‘ جار ومجرور متعلق ’’ تَرْضٰی‘‘ ’’ الْیَھُوْدُ‘‘ فاعل ’’ وَلَا النَّصَارٰی‘‘ اَ لْیَھُوْدُپر عطف ہے۔ ’’ حَتّٰی‘‘ حرف غایت و جر ’’ تَـــــتَّبِعَ‘‘ فعل مضارع منصوب بان مضمرۃ وجوبا بعد حتی ’’ مِلَّتَھُمْ‘‘ مفعول بہ اور فاعل تَتَّبِعَ میں اَنْتَ ضمیر مقدر۔ ’’ قُلْ‘‘ فعل امر مبنی علی السکون والجملۃ مستانفۃ ۔ ’’ اِنَّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل ’’ ھُدَی اللّٰہِ‘‘ اس کا اسم۔’’ ھُوَ‘‘ مبتدا ’’ الْھُدٰی‘‘ اس کی خبر‘ یہ جملہ اسمیہ ’’ اِنَّ‘‘ کی خبر ’’ وَلَئِنْ‘‘ واو استیناف ۔ ’’ لام‘‘ موطئہ للقسم ’’ اِنْ‘‘ حرف شرطِ جازم ’’ اِتَّبَعْتَ ‘‘ فعل ماضی محلاً مجزوم تاء ضمیر بارز فاعل ’’ اَھْوَائَ ھُمْ‘‘ مفعول بہ۔ جواب شرط محذوف ہے جس پر جواب قسم دلالت کرتا ہے۔ ’’ بَعْدَ‘‘ ظرف۔ ’’ اَلَّذِیْ‘‘ اسم موصول بعد کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے محلاً مجرور‘ اور یہ متعلق ہے ’’ اِتَّبَعْتَ‘‘ کے ’’ جَائَ کَ‘‘ صلہ ہے موصول کا۔ ’’ مِنَ الْعِلْمِ‘‘ لفظاً مجرور محلاً منصوب ہے جَائَ کے خبر فاعل سے حال ہونے کی بناء پر۔ تقدیر عبارت یوں ہے ’’ جَائَ کَ کَاَنَّ مِنَ الْعِلْمِ ۔ ’’ مَالَکَ‘‘ ما نافیہ ’’ لَکَ‘‘ جار مجرور متعلق لمحذوف خبر مقدم ’’ مِنَ اللّٰہِ‘‘ جار مجرور متعلق ولی کے۔ ’’ مِنْ وَّلِیٍّ‘‘ من جر زائد ولی مجرور لفظاً مرفوع محلا عَلٰی انہ مبتدا مؤخر۔ ’’ وَلَا نَصِیْرٍ‘‘ عطف علی ’’ ولی‘‘۔



نوٹ (1) لفظ ’’ ھُدًی‘‘ مبنی کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس آیت میں ’’ ھُدَی اللّٰہِ‘‘ کے حوالے سے یہ بات نوٹ کرلیں کہ مبنی کی طرح ہونے کے باوجود جب یہ مضاف بنتا ہے تو اس کی تنوین ختم ہو جاتی ہے۔

 نوٹ (2) پنجابی کی ایک کہاوت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کہنا بیٹی سے لیکن سنانا بہو کو۔ اس آیت میں خطاب کا انداز یہی ہے۔ بظاہر خطاب حضور ﷺ سے ہے لیکن درحقیقت ہم لوگوں کے کان کھولے گئے ہیں اور خبردار کیا گیا ہے۔

 نوٹ (3) اس آیت میں استعمال ہونے والے الفاظ ’’ مِلَّتَھُمْ‘‘ اور ’’ اَھْوَائَ ھُمْ‘‘ نیز ’’ ھُدَی اللّٰہ‘‘ اور ’’ اِلْعِلْمِ‘‘ کے مابین جو ربط و ترتیب ہے اس پر اگر تھوڑا سا غور کریں تو آیت کے بین السطور پیغام کو آسانی سے سمجھاجا سکتا ہے۔ وہ پیغام یہ ہے کہ یہود‘ عیسائی یا دنیا کے دیگر عقائد و نظریات کی بنیاد دراصل ان عقائد کے حامل افراد کی خواہشات پر رکھی گئی ہے۔ ایسے نظریات میں علم کا جو عنصر شامل ہوتا ہے ‘ اسے analyse کرنے کے بجائے rationalise کیا جاتا ہے یعنی subjective thinking سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رُسل کے ذریعہ جو ہدایت بھیجی ہے اس کی بنیاد اصل اور حقیقی علم پر ہے اور وہ انسانی خواہشات سے پاک ہے۔

 کسی استثناء کے بغیر دنیا کے تمام نظریات اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ کسی چیز کا حقیقی علم اس کے ڈیزائنر اور مینوفیکچرر کے پاس ہی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا کے تقریباً تمام نظریات اللہ تعالیٰ کو کسی نہ کسی نام سے جانتے ہیں اور اسے اس کائنات کا مصور اور خالق تسلیم کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے بعد اس کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کو ترجیح دینا بالکل غیر منطقی حرکت ہے۔ اس صورت میں انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو ان کی خواہشات کے حوالے کردیا جائے۔ اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ   ١٢١۝ۧ
( اَلَّذِیْنَ : وہ لوگ ) (اٰتَیْنٰھُمْ : ہم نے دی جن کو ) (الْکِتٰبَ : کتاب) (یَتْلُوْنَــــــہٗ : وہ لوگ تلاوت کرتے ہیں اس کی) (حَقَّ تِلَاوَتِہٖ : جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے) (اُولٰئِکَ : وہ لوگ ) (یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ : ایمان لاتے ہیں اس پر) (وَمَنْ : اور جو ) (یَّکْفُرْ بِہٖ : انکار کرتا ہے اس کا) (فَاُولٰئِکَ : تو وہ لوگ ) (ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ : ہی خسارہ پانے والے ہیں)



 ترکیب : ’’ اٰتَیْنَا ‘‘ کا فاعل ’’ نَا ‘‘ ضمیر بارز مرفوع متصل ہے نہ کہ ’’ نَحْنُ‘‘ جو ضمیر مرفوع منفصل ہے۔ اس کا مفعولِ اوّل ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَ لَّذِیْنَ‘‘ کے لئے ہے اور اس کا مفعول ثانی ’’ اَلْکِتٰبَ‘‘ ہے۔ یہ پورا جملہ ’’ اَ لَّذِیْنَ‘‘ کا صلہ ہے۔ اور یہ صلہ اور موصول مل کر مبتدأ ہے۔ ’’ یَتْلُوْنَ ‘‘ کا فاعل وائو ضمیر مرفوع بارز متصل ہے جو ’’ اَ لَّذِیْنَ‘‘ کے لئے ہے‘ اس کا مفعول ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَ لْکِتٰبَ‘‘ کے لئے ہے‘ جبکہ مرکب اضافی ’’ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ‘‘ صفت ہے اور موصوف ’’ تِلَاوَۃً ‘ ‘ محذوف ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہے : تِلَاوَۃً حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اور پھر یہ مفعول مطلق ہے۔ ’’ یَتْلُوْنَـــہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ‘‘ یہ جملہ فعلیہ ہو کرخبر اوّل ’’ اُولٰئِکَ‘‘ مبتدا ٔہے اور جملہ فعلیہ ’’ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ‘‘ اس کی خبر ہے۔ پھر یہ مبتدأ و خبر مل کر جملہ اسمیہ ہو کر دوسری خبر ہے۔ اور یہ ترتیب محی الدین درویش نے اپنی کتاب اعراب القرآن میں کی ہے۔ جبکہ عکبری نے املاء ما منّ بہ الرحمان میں لکھا ہے کہ ’’ بِہٖ‘‘ میں ’’ ہٖ‘‘ کی ضمیر ’’ اَ لْکِتٰبَ‘‘ کے لئے ہے۔ ’’ مَن‘‘ شرطیہ ہے اس لئے ’’ یَکْفُرْ بِہٖ‘‘ مضارع مجزوم ہے اور یہ شرط ہے۔ جبکہ ’’ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘ جواب شرط ہے۔ ’’ یَتْلُوْنَـــہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ‘‘ کا جملہ ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر یا ’’ اَلْکِتَاب‘‘ سے حال ہونے کی بنا پر مقام نصب میں ہے ’’ اَ لَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ‘‘ کی خبر نہیں ہے۔ کیونکہ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا کی ہے وہ سب کے سب اس کی ایسی تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے اور ظاہر ہے کہ اہل کتاب کے سارے کے سارے افراد ایسے نہیں ہیں۔

 حق کے اصلی معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں اور اس کا استعمال چار طرح ہوتا ہے: (1) اس ذات کے لئے جو اپنی حکمت کے اقتضاء کی بناء پر کسی شے کی ایجاد فرمائے۔ اللہ عزوجل کو اسی لئے حق کہا جاتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : {وَرُدُّوْا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰــھُمُ الْحَقُّ} (یونس:30) {فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّـکُمُ الْحَقُّ} (یونس:32)

 (2) وہ چیز کہ جو حکمت کے اقتضاء کے مطابق ایجاد کی گئی ہو۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کل فعل حق ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : {ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَائً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ ط مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلاَّ بِالْحَقِّ ج} (یونس:5)

 (3) کسی شے کے متعلق وہ اعتقاد رکھنا جو نفس الامر کے مطابق ہو ۔ ارشاد ربانی ہے : {فَھَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ}(البقرۃ:213)

 (4) وہ قول یا فعل جو اسی طرح واقع ہو جس طرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو کہ جس مقدار اور جس وقت میں اس کا ہونا واجب ہے۔ چنانچہ قولِ حق اور فعلِ حق اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{وَلٰـکِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ} (السجدۃ:13)

 آیت زیر بحث میں ’’ حق ‘‘ کا مؤخر الذکر مفہوم مراد ہے۔



 نوٹ (1) اس آیت کے الفاظ عمومیت کے حامل ہیں۔ اس لئے شریعت موسوی ؑ میں تورات‘ شریعت عیسوی ؑ میں انجیل اور شریعت محمدیؐ میں قرآن مجید پر ’’ الْکِتٰب‘‘ کا اطلاق ہو گا۔

 نوٹ (2) لفظ تلاوت کا مطلب ہے کتاب پڑھ کر اس کی پیروی کرنا۔ اس لئے ’’ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ‘‘ کا تعلق شریعت پر عمل کرنے سے ہے۔ اسی طرح ’’ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ‘‘ اور ’’ یَکْفُرْ بِہٖ‘‘ ایمانِ عملی اور انکارِ عملی کے لئے آیا ہے۔ اور شریعت پر عمل نہ کرنے والے کا شمار خسارہ پانے والوں میں ہو گا۔

 نوٹ (3) شریعت موسوی ؑ اور شریعت عیسوی ؑ کے زمانے میں سمجھ اور عمل کے بغیر مجرد تورات یا انجیل کی تلاوت بھی ثواب سے خالی نہیں تھی۔ اسی طرح آج کے زمانے میں مجرد قرآن مجید کی تلاوت بھی ثواب سے خالی نہیں ہے۔ لیکن اس ثواب کے ہوتے ہوئے بھی شریعت پر عمل نہ کرنا خسارے کا سودا ہے۔ کیونکہ جنت میں کم تر درجہ پانا بھی خسارہ ہے‘ براستہ (via) جہنم‘ جنت میں جانا بھی خسارہ ہے ‘ اور جس کے لئے خلود فی النار کا حکم ہو گا تو وہ خسارے کی انتہا ہے۔ يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ  ١٢٢۝
(یٰــبَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ : اے اسرائیل ؑ کے بیٹو) (اذْکُرُوْا : تم لوگ یاد کرو ) (نِعْمَتِیَ : میری نعمت کو ) (الَّتِیْ : جس کو کہ) (اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کیا ) (عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر) ( وَاَ نِّیْ : اور یہ کہ ) (فَضَّلْتُـکُمْ: میں نے فضیلت دی تم لوگوں کو) (عَلَی الْعٰلَمِیْنَ : سب جہانوں پر )



 یٰــبَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ ۔ ’’ یَا‘‘ حرفِ ندا ’’ بَنِیْ‘‘ منادیٰ مضاف ‘ علامت نصب ’’ یاء ‘‘ ہے‘ کیونکہ یہ ملحق بجمع مذکر سالم ہے۔ ’’ ابْنٌ‘‘ کی اصل ’’ بَنَــوٌ‘‘ بر ورزن ’’ فَعَلٌ‘‘ ہے ۔ ناقص واوی ہے اور دلیل یہ ہے کہ اس کا مصدر ’’ بُنُوَّۃٌ ‘‘ ہے۔ اس کی جمع مکسر ’’ اَبْنَائٌ ‘‘ اور جمع سلامت ’’ بُنُوْنَ ‘‘ آتی ہے۔

 بعض علماء کا خیال ہے کہ اس کا لام کلمہ بجائے ’’ واؤ‘‘ کے ’’ یائ‘‘ ہے اور یہ ناقص یائی ہے۔ اور یہ مشتق ہے بَنٰی یَبْنِیْ بِنَائً بمعنی وضع الشی ٔ ‘ علی الشیء سے ۔ چونکہ ’’ ابن ‘‘ فرع ہونے کی بناء پر موضوع اور ’’ اَبٌ ‘ ‘ اصل ہونے کی بناء پر موضوع علیہ ہے۔ باقی رہا اس کے مصدر کا ’’ بُنُوَّۃٌ ‘‘ کے وزن پر آنا تو یہ اس کے ناقص واوی ہونے کی دلیل نہیں ‘ کیونکہ فَتٰی جو ناقص یائی ہے اس کا مصدر بھی ’’ فُتُوَّۃٌ ‘‘ کے وزن پر آتا ہے۔ ’’ اسرائیل‘‘ اسباب منع صرف میں سے علمیت اور عجمہ ہونے کی بنا پر غیر منصرف ہے ۔ اس کے مختلف تلفظ ہیں: ’’ اسرائیل‘ سراییل‘ اسرایل‘ اسرال اور اسرائین۔

 اسی انداز کی آیت کریمہ چونکہ پہلے گزر چکی ہے اس لئے ترکیب کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِيْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ   ١٢٣؀
(وَاتَّقُوْا : اور تم لوگ بچو) (یَوْمًا : ایک ایسے دن سے جب ) (لاَّ تَجْزِیْ : کام نہیں آئے گی ) (نَفْسٌ : کوئی جان ) (عَنْ نَّفْسٍ : کسی جان کے ) (شَیْئًا : کچھ بھی) (وَّلَا یُقْبَلُ : اور قبول نہیں کیا جائے گا) (مِنْھَا : اس سے ) (عَدْلٌ : بدلے میں کچھ ) (وَّلَا تَنْفَعُھَا : اور نفع نہیں دے گی اس کو) (شَفَاعَۃٌ : کوئی شفاعت ) (وَّلَا ھُمْ : اور نہ ہی وہ لوگ ) (یُنْصَرُوْنَ : مدد دیئے جائیں گے )

 نوٹ (1) بلیغ کلام کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ بات کی ابتداء جامع بات سے ہوتی ہے‘ پھر اس کی تفصیل بیان کی جاتی ہے ‘ اور بات ختم کرتے وقت خلاصہ کے طور پر جامع بات کا اعادہ کیا جاتا ہے ۔ جیسے ہم کہیں ’’ تکبر بہت بری چیز ہے‘‘۔ پھر تکبر کی تعریف‘ اس کی علامات‘ اس کے اثرات اور نقصانات بیان کرنے کے بعد بات ختم کرتے ہوئے کہیں ’’ غرضیکہ تکبر بہت بری چیز ہے‘‘۔

 آیات زیر مطالعہ میں سورۃ البقرۃ کی آیت 47 کو لفظ بہ لفظ اور آیت 48 کو تھوڑی سی لفظی تبدیلی کے ساتھ دہرایا گیا ہے۔ یہ وہی بلاغت کا انداز ہے اور اس سے معلوم ہو گیا کہ بنواسرائیل سے براہِ راست خطاب اب اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ ۭ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ   ١٢٤؀
(وَاِذِ ابْتَلٰی : اور جب آزمایا ) (اِبْرٰھٖمَ : ابراہیم ؑ کو) (رَبُّـــــہٗ : ان کے رب نے ) (بِکَلِمٰتٍ : کچھ فرمانوں سے) (فَاَتَمَّھُنَّ تو انہوں نے پورا کیا ان کو) ( قَالَ : اس نے ( یعنی اللہ نے) کہا) (اِنِّیْ : کہ میں ) (جَاعِلُکَ : بنانے والا ہوں آپؑ کو) (لِلنَّاسِ : لوگوں کے لئے ) (اِمَامًا : ایک پیشوا) (قَالَ : انہوں ؑ نے کہا) (وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ : اور میری نسل میں سے) (قَالَ : اس نے کہا ) (لَا یَنَالُ : نہیں پہنچتا) (عَھْدِیْ : میرا وعدہ) (الظّٰلِمِیْنَ : چیزوں کو غلط جگہ رکھنے والوں کو)





ت م م

 تَمَّ(ض) تَمَامًا : کسی چیز کی ہر کمی یا نقص کا دور ہو جانا‘ پورا ہونا‘ تمام ہونا۔ {وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ} (الانعام:115) ’’ اور پورا ہوا تیرے رب کا فرمان۔‘‘

 اَتْمَمَ ۔ اِتْمَامًا (افعال) : پورا کرنا‘ تمام کرنا ۔{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـــکُمْ دِیْنَــکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْـکُمْ نِعْمَتِیْ } (المائدۃ:3) ’’ آج میں نے مکمل کیا تمہارے لئے تمہارے دین کو اور میں نے تمام کی تم پر اپنی نعمت۔‘‘

 اَتْمِمْ (فعل امر) : تو پورا کر۔ {رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا} (التحریم:8) ’’ اے ہمارے رب! تو پورا کر دے ہمارے لئے نور کو۔‘‘

 مُتِمٌّ (اسم الفاعل) : پورا کرنے والا ۔{وَاللّٰہُ مُتِمُّ نَوْرِہٖ} (الصّف:8) ’’ اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے۔‘‘

ذُرِّیَّۃٌ

 ذُرِّیَّـــۃ : اولاد۔ اصل میں چھوٹے بچوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ‘ مگر عرف میں چھوٹی اور بڑی سب اولاد کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اصلاً تو یہ جمع ہے مگر واحد اور جمع دونوں کے لئے مستعمل ہے۔ ’’ ذُرِّیَّـــۃٌ ‘‘ کے ماخذ کے بارے میں تین اقوال ہیں: (1) یہ ’’ ذرأٌ‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی پیدا کرنے اور پھیلانے کے ہیں‘ اس کی ہمزہ متروک ہو گئی ہے ‘ جیسے ’’ بَرِیَّــــۃٌ‘‘ میں۔ (2) اس کی اصل ’’ ذُرْوِیَۃٌ ‘‘ ہے۔ (3) یہ ’’ ذرٌّ ‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی بکھیرنے کے ہیں۔ ’’ فُعْلِیَّۃٌ ‘‘ کے وزن پر ہے‘ جیسے ’’ قُمْرِیَّــــۃٌ‘‘ ۔’’ ذُرَارِیْ‘‘ اور ’’ ذُرِّیَّاتٌ‘‘ جمع۔

ن ی ل

 نَالَ (ف) نَیْــــــــلًا : (1) مطلوبہ چیز کو حاصل کرنا (2) مطلوب کا پہنچنا۔ {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط} (آل عمران:92) ’’ تم لوگ ہرگز حاصل نہیں کرو گے نیکی کو یہاں تک کہ تم لوگ انفاق کرو اس میں سے جو تم کو محبوب ہے۔‘‘ {لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَائُ ھَا} (الحج:37) ’’ ہرگز نہیں پہنچتا اللہ کو ان کا گوشت اور نہ ہی ان کا خون۔‘‘

 نَیْلٌ (اسم ذات) : مطلوبہ چیز۔ {وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْــــلًا} (التوبۃ:120) ’’ اور وہ لوگ حاصل نہیں کرتے کسی دشمن سے کوئی مطلوبہ چیز۔‘‘

 ترکیب : ’’ اِذْ‘‘ فعل محذوف کا مفعول فیہ ہونے کی بنا پر مقام نصب میں ہے ۔ تقدیر عبارت یوں ہے:’’ اُذْکُرْ اِذِ ابْتَلٰی ‘‘ اِبْتَلٰیفعل‘ ’ اِبْرٰھٖمَ‘‘ مفعول اور ’’ رَبُّــــــــہٗ‘‘ فاعل ہے۔ ’’ رَبُّــــــہٗ‘‘ میں’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ابراہیمَ کے لئے ہے جبکہ ’’ بِکَلِمٰتٍ‘‘ متعلق فعل ہے۔ ’’ فا ‘‘ عاطفہ ’’ اَتَمَّ‘‘ فعل‘ اس کا فاعل اس میں شامل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ابراہیم ؑ کے لئے ہے اور ’’ ھُنَّ‘‘ ضمیر مفعولی ہے جو ’’ کَلِمٰتٍ‘‘ کے لئے ہے۔ اور یہ جملہ عطف ہے اِبْتَلٰی پر ۔’’ اِنِّیْ‘‘ میں ’’ اِنَّ‘‘ کے ساتھ اس کا اسم یائے متکلم ہے اور ’’ جَاعِلُکَ اِمَامًا‘‘ اس کی خبر ہے۔ جبکہ ’’ لِلنَّاسِ‘‘ متعلق جَاعِلُکَ ہے۔ یا یہ حال ہونے کی بناء پر مقام نصب میں ہے اور عبارت یوں ہے: انی جاعلک امامًا للناس۔ اسم الفاعل ’’ جَاعِلٌ‘‘ مضاف ہونے کی وجہ سے ’’ جَاعِلُ‘‘ آیا ہے اور فعل کا کام کر رہا ہے۔ ضمیر مفعولی ’’ کَ‘‘ اس کا مفعول اوّل اور ’’ اِمَامًا‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ لَا یَنَالُ‘‘ کا فاعل ’’ عَھْدِیْ‘‘ ہے اور’’ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ مفعول ہے۔ ’’ قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ‘‘ اصل میں ’’ قَالَ اجْعَلْ فَرِیْقًا مِنْ ذُرِّیَّتِیْ اِمَامًا‘‘ ہے۔



 نوٹ (1) اس آیت میں ہماری راہنمائی کے متعدد پہلو ہیں۔ ان میں سے چند کو سمجھ کر ذہن نشین کر لیں۔ (1) ’’ اِبْتَلٰی‘‘ کے فاعل کے لئے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے لفظ رب آیا ہے۔ رب اس ہستی کو کہتے ہیں جو کسی چیز کو درجہ بدرجہ ترقی دے کر اس کے درجۂ کمال تک پہنچا دے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ حضرت ابراہیم کی آزمائشیں نعوذ باللہ کسی غلطی یا خطا کی پاداش میں نہیں تھیں ‘ بلکہ ان کی تربیت کی غرض سے تھیں۔

 (2) حضرت ابراہیم کے امتحانات کی نوعیت علمی (Theoritical) نہیں تھی‘ بلکہ (Practical) تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملی ثابت قدمی یعنی صبر سے علم اور یقین‘ دونوں کی کیفیت از خود عیاں ہو جاتی ہے۔ اور جب کسی انسان کا علم و یقین عمل میں ڈھلتا ہے تو اس کا نقد انعام ہے لوگوں کی امامت۔

 (3) حضرت ابراہیمں نے اپنی نسل میں امامت کا جو سوال کیا تھا وہ دنیوی غرض سے نہ تھا بلکہ آخرت کے رتبہ اور مقام کے لئے تھا۔ اس سے واضح ہو گیا کہ ہم لوگ جو بھی نیک اعمال کرتے ہیں اس کا فائدہ ہمارے آباء و اجداد کو پہنچتا ہے۔

 (4) حضرت ابراہیمں کے سوال کا اللہ تعالیٰ نے جو جواب دیا وہ منفی نہیں بلکہ مثبت ہے۔ البتہ مشروط ہے۔ اس لئے لَا یَنَالُ سے پہلے نَعَمْ وَلٰـــکِنْ محذوف مان کر پڑھیں تو بات پوری طرح سمجھ میں آجائے گی۔

 (5) اللہ تعالیٰ کے مشروط جواب سے معلوم ہوجاتا ہے کہ امامت کے مقام و رتبہ کا تعلق نسل سے نہیں بلکہ عمل سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امامت دراصل زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت ہے اور یہ کسی باغی یا نافرمان کو نہیں دی جا سکتی۔ وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ۭ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ  اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ۭ وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ   ١٢٥؁
(وَاِذْ جَعَلْنَا : اور جب ہم نے بنایا) (الْبَیْتَ : اس گھر کو ) (مَثَابَۃً : اپنے اصل کی طرف لوٹنے کا ایک ٹھکانہ) (لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لئے ) (وَاَمْنًا : اور امن میں ہونا) (وَاتَّخِذُوْا : اور تم لوگ بنائو) (مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ : ابراہیم ؑ کے کھڑے ہونے کی جگہ میں سے) (مُصَلًّی : نماز کی جگہ) (وَعَھِدْنَا : اور ہم نے تاکید کی ) (اِلٰی اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ : ابراہیم ؑ کو اور اسماعیل ؑ کو) (اَنْ طَھِّرَا : کہ وہ دونوں پاک رکھیں) (بَیْتِیَ : میرے گھر کو ) (لِلطَّآئِفِیْنَ : طواف کرنے والوں کے لئے) (وَالْعٰکِفِیْنَ : اور اعتکاف کرنے والوں کے لئے ) (وَالرُّکَّعِ : اور رکوع کرنے والوں کے لئے) (السُّجُوْدِ : سجدہ کرنے والوں کے لئے)



ب ی ت

 بَاتَ (ض) بَیْتًا : کسی جگہ رات گزارنا۔ {وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ۔ } (الفرقان:) ’’ اور وہ لوگ جو رات گزارتے ہیں اپنے رب کے لئے سجدے کی حالت میں اور قیام کی حالت میں۔‘‘

 بَیْتٌ ج بُیُوْتٌ (اسم ذات) : رات گزارنے کا ٹھکانہ‘ گھر۔ {اَوْ یَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ} (بنی اسرائیل :93) ’’ یا ہوتا تیرے لئے کوئی گھر سنہرا۔‘‘ {لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا} (النور:27) ’’ تم لوگ داخل مت ہو کچھ گھروں میں اپنے گھروں کے علاوہ‘ یہاں تک کہ اجازت طلب کر لو۔‘‘

 بَیَاتٌ (اسم ذات) : رات۔ {اِنْ اَتٰٹکُمْ عَذَابُہٗ بَیَاتًا اَوْ نَھَارًا} (یونس:50) ’’ اگر پہنچے ‘ تم لوگوں کو اس کا عذاب رات کے وقت یا دن کے وقت۔‘‘

 تَبْـیِـــیْــتًا (تفعیل) : (1) رات میں حملہ کرنا‘ شب خون مارنا۔ (2) رات میں سوچ بچار کرنا‘ مشورہ کرنا۔ {قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ} (النمل:49) ’’ انہوں نے کہا آپس میں قسم کھائو اللہ کی کہ ہم لازماً شب خون ماریں گے اس پر۔‘‘{وَاللّٰہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ ج} (النسائ:81) ’’ اور اللہ لکھتا ہے جو وہ لوگ رات میں مشورہ کرتے ہیں۔‘‘

ط و ف

 طَافَ (ن) طَوَافًا : کسی کے گرد چکر لگانا‘ گھیرنا۔ {یَطُوْفُ عَلَیْھِمْ غِلْمَانٌ لَّھُمْ} (الطور:24) ’’ چکر لگاتے ہیں ان کے گرد کچھ خدام ان کے لئے۔‘‘

 یُطَافُ (مضارع مجہول) : چکر دیا جانا‘ گردش میں لایا جانا۔ {یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ گردش دیئے جائیں گے ان کے لئے شراب کے جام۔‘‘

 طَائِفٌ ( فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل): چکر لگانے والا‘ گھیرنے والا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) ذہن میں گردش کرنے والا خیال‘ وسوسہ ۔ {اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا} (الاعراف:201) ’’ بیشک جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کو جب بھی چھوتا ہے کوئی وسوسہ شیطان سے تو وہ لوگ خود کو یاد کراتے ہیں۔‘‘ (2) کوئی آفت جو انسان پر گھوم جائے۔ {فَطَافَ عَلَیْھَا طَائِفٌ مِّنْ رَّبِّکَ وَھُمْ نَائِمُوْنَ} (القلم:19) ’’ تو چکر لگایا اس پر ایک آفت نے آپؐ کے رب کی طرف سے اس حال میں کہ وہ لوگ سو رہے تھے۔‘‘ (3) طواف کرنے والا۔ آیت زیرِمطالعہ۔

 طَائِفَۃٌ : فَاعِلٌ کے مؤنث فَاعِلَۃٌ کا وزن ہے۔ اس کا زیادہ تر استعمال کسی بڑی جماعت‘ کے چھوٹے گروہ کے لئے ہوتا ہے۔ {وَدَّتْ طَآئِفَۃٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَـــکُمْط}(آل عمرآن:69) ’’ تمنا کی اہل کتاب کے ایک گروہ نے کہ کاش وہ لوگ بھٹکا دیں تم لوگوں کو۔‘‘

 طَوَّافٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ) : بار بار چکر لگانے والا‘ خادم۔ {طَوّٰفُوْنَ عَلَیْکُمْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط} (النور:58) ’’ بار بار چکر لگانے والے ہیں تمہارے گرد‘ تم سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہو۔‘‘

 طُوْفَانُ ( فُعْلَانُ کے وزن پر مبالغہ) : بےانتہا گھیرنے والا۔ زیادہ تر انتہائی تیز ہوا اور بارش کے لئے آتا ہے‘ سائیکلون (Cyclone) ۔{فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ الطُّوْفَانَ} (الاعراف:133) ’’ تو ہم نے بھیجا ان پر سائیکلون۔‘‘

ع ک ف

 عَکَفَ (ن) عَکْفًا : تعظیماً کسی سے وابستہ رہنا‘ چپکے بیٹھے رہنا (لازم) ‘ وابستگی سے روکنا (متعدی) ۔ {فَاَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَّعْکُفُوْنَ عَلٰی اَصْنَامٍ لَّھُمْ ط} (الاعراف:138) ’’ تو وہ لوگ پہنچے ایک قوم پر جو چپکے بیٹھے رہتے ہیں اپنے بُتوں پر۔‘‘

 عَاکِفٌ (اسم الفاعل) : رُکا رہنے والا‘ اعتکاف کرنے والا۔ {قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَھَا عٰکِفِیْنَ ۔ } (الشعرائ) ’’ انہوں نے کہا ہم عبادت کرتے ہیں کچھ بُتوں کی تو ہم ہو جاتے ہیں ان کے لئے اعتکاف کرنے والے۔‘‘

 مَعْکُوْفٌ (اسم المفعول) روکا ہوا۔{وَالْھَدْیُ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّــــہٗ ط} (الفتح:25) ’’ اور قربانی کے جانور روکے گئے ہیں کہ وہ پہنچیں اپنی جگہ پر۔‘‘

 ترکیب : ’’ جَعَلْنَا‘‘ کا فاعل ’’ نَا‘‘ ضمیر بارز مرفوع متصل ہے ( نہ کہ ’’ نَحْنُ‘‘ جو ضمیر مرفوع منفصل ہے) جو اللہ کے لئے ہے۔ ’’ جَعَلْنَا‘‘ کا مفعول اوّل ’’ اَلْبَیْتَ‘‘ ہے اور اس پر لام تعریف لگا ہے‘ جبکہ ’’ مَثَابَۃً‘‘ مفعول ثانی ہے۔ یہ ترکیب اس صورت میں ہے اگر ’’ جَعَلْنَا‘‘ کو بمعنی’’ صَیَّرْنَا‘‘ لیا جائے۔ اور اگر ’’ جَعَلْنَا‘‘ بمعنی ’’ خَلَقْنَا‘‘ لیا جائے تو ’’ مَثَابَۃً‘‘ مفعول ثانی نہیں بلکہ ’’ اَلْبَیْتَ‘‘ سے حال ہونے کی بنا پر منصوب ہو گا‘ کیونکہ اس صورت میں ’’ جَعَلْنَا‘‘ متعدی بیک مفعول ہو گا۔ ’’ لِلنَّاسِ‘‘ یا تو صفت ہے مَثَابَۃً کی اور تقدیر عبارت یوں ہے: مَثَابَۃً کَا ئِنَۃً لِلنَّاسِ۔ اس صورت میں یہ کَائِنَۃً محذوف کے متعلق ہو گا اور یا ’’ جَعَلْنَا‘‘ کے متعلق ہے اور تقدیر عبارت یوں ہے: لِاَجْلِ نَفْعِ النَّاسِ۔’’ اَمْنًا‘‘ مصدر ہے اور ’’ مَثُوْبَۃً‘‘ پر عطف ہے۔

 ’’ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلّٰی‘‘ ’’ اِتَّخِذُوْا‘‘ فعل یا فاعل ’’ مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَِ‘‘ متعلق ’’ اِتَّخِذُوْا‘‘ ’’ مُصَلًّی‘‘ مفعول بہٖ جملہ فعلیہ مقولہ (مفعول) ہے فعل محذوف ’’ قُـــــلْـــنَا‘‘ کا جو معطوف ہے ’’ وَاِذْ جَعَلْنَا‘‘ پر اور عبارت یوں ہے: ’’ وَقُلْنَا اتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی‘‘۔’’ مُصَلًّی‘‘ باب تفعیل کا اسم ظرف ہے۔ ’’ اَلْعٰکِفِیْنَ‘‘ ’’ اَلرُّکَّعِ‘‘ اور ’’ اَلسُّجُوْدِ‘‘ یہ سب ’’ اَلطَّائِفِیْنَ‘‘ پر داخل ہونے والے حرف جر’’ لِ‘‘ کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے حالت جر میں ہیں۔



 نوٹ (1) لفظ ’’ مَثَابَۃً‘‘ کے معنی ’’ اپنے اصل کی طرف لوٹنے کا ایک ٹھکانہ ‘‘ ہیں۔ بار بار لوٹنے کا مفہوم از خود شامل ہے۔ جیسے ہر شخص سارا دن گھوم پھر کر شام کو اپنے گھر کی طرف لوٹتا ہے۔ اس کی تصدیق ایک حدیثِ قدسی سے ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو بندہ ایسا ہو کہ میں نے اس کو صحت عطا کر رکھی ہے اور اس کی روزی میں وسعت دے رکھی ہے اور اس پر پانچ سال ایسے گزر جائیں کہ وہ میرے دربار میں حاضر نہ ہو تو وہ یقینا محروم ہے۔ اسی مضمون کی کئی اور احادیث بھی روایت کی گئی ہیں (منقول از فضائل حج‘ صفحہ 34) یہی وجہ ہے کہ امام شافعی (رح)  اور امام احمد (رح)  کے نزدیک عمرہ کرنا واجب ہے ‘ جبکہ امام مالک (رح)  اور امام ابوحنیفہ (رح)  کے نزدیک یہ سنت ہے۔

 اب جب کبھی کسی اخبار یا رسالہ میں آپ کوئی ایسا مضمون یا ایڈیٹر کے نام خط پڑھیں جس میں نفلی حج اور عمرہ پر کئے جانے والے اخراجات کو wastage اور ملکی معیشت کے لئے نقصان دہ قرار دیا گیا ہو اور اس پیسے کے زیادہ مفید استعمال بتائے گئے ہوں‘ تو اس وقت آپ آیت زیر مطالعہ ‘ مذکورہ حدیث قدسی اور ائمہ کرام کے اقوال کو ذہن میں ضرور تازہ کرلیا کریں۔ اس طرح آپ پیسے کو اپنا الٰہ بنانے کے شرک سے ان شاء اللہ محفوظ رہیں گے۔

 نوٹ (2) طواف کے بعد دو رکعت نماز کا واجب ہونا اس آیت سے معلوم ہوا اور مقام ابراہیم کے ساتھ ’’ مِنْ‘‘ کے اضافے سے معلوم ہوا کہ یہ حرمِ مکہ میں کہیں بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ حجۃ الوداع میں بی بی اُمّ سلمہ  (رض)  کو طواف کے بعد نماز کا موقع نہیں ملا تو مکہ شہر سے نکلنے کے بعد ادا کی۔ (معارف القرآن) ۔ وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِيْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّهٗٓ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ  ١٢٦؀
(وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا ) (اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم ؑ نے) ( رَبِّ : اے میرے ربّ!) (اجْعَلْ : تو بنا دے) (ھٰذَا : اس کو ) (بَلَدًا اٰمِنًا : امن میں ہونے والا شہر) (وَّارْزُقْ : اور تو رزق دے ) (اَھْلَـــــــہٗ : اس کے لوگوں کو ) (مِنَ الثَّمَرٰتِ : پھلوں میں سے) (مَنْ : اس کو جو ) (اٰمَنَ : ایمان لائے ) (مِنْھُمْ : ان میں سے ) (بِاللّٰہِ : اللہ پر ) (وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخری دن پر) (قَالَ : اس نے کہا) (وَمَنْ کَفَرَ : اور جس نے کفر کیا) (فَاُمَتِّعُـــہٗ : تو میں فائدہ اٹھانے کے لئے دوں گا اس کو (بھی) (قَلِیْــــــــلًا : تھوڑا سا سامان) (ثُمَّ : پھر) (اَضْطَرُّہٗ : میں مجبور کروں گا اس کو) (اِلٰی عَذَابِ النَّارِ : آگ کے عذاب کی طرف ) ( وَبِئْسَ : اور وہ بہت ہی برا) (الْمَصِیْرُ : لوٹنے کا ٹھکانہ ہے)



ب ل د

 بَلَدَ (ن) بُلُوْدًا : کسی جگہ آباد ہونا‘ شہر بنانا۔

 بَلَدٌ واحد بَلْدَۃٌ جمع بِلَادٌ (اسم جنس) : شہر ‘ بستی۔ {وَتَحْمِلُ اَثْقَالَـــکُمْ اِلٰی بَلَدٍ} (النحل:7) ’’ اور وہ (یعنی چوپائے) اٹھاتے ہیں تمہارے بوجھ کسی شہر تک۔‘‘ {وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَائً طَھُوْرًا ۔ لِّنُحْیِیَ بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا} (الفرقان:48‘49) ’’ اور اس نے اتارا آسمان سے کچھ پاکیزہ پانی تاکہ وہ زندہ کرے اس سے کسی مردہ شہر کو۔‘‘ {لاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ ۔ } (آل عمران) ’’ ہرگز دھوکہ نہ دے تجھ کو گھومنا پھرناان لوگوں کا جنہوں نے کفر کیا‘ شہروں میں۔‘‘

ص ی ر

 صَارَ (ض) صَیْرًا اور مَصِیْرًا : منتقل ہونا‘ لوٹنا ۔{اَ لَآ اِلَی اللّٰہِ تَصِیْرُ الْاُمُوْرُ ۔ } (الشوریٰ) ’’ خبردار رہو! اللہ کی طرف ہی لوٹتے ہیں تمام امور۔‘‘ {وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ ۔ } (النور) ’’ اور اللہ کے لئے ہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہت ہے ‘ اور اللہ کی طرف ہی لوٹنا ہے۔‘‘

 مَصِیْرٌ : مصدر کے علاوہ اسم الظرف بھی ہے۔ لوٹنے کا ٹھکانہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ رَبِّ‘‘ کی جر بتا رہی ہے کہ اس کی یائے متکلم محذوف ہے اور یہ ’’ رَبِّیْ‘‘ تھا۔ اس سے قبل حرف ندا ’’ یَا‘‘ کو بھی محذوف مانا جا سکتا ہے۔ فعل امر ’’ اِجْعَلْ‘‘ کا مفعول اوّل ’’ ھٰذَا‘‘ ہے جبکہ مرکب توصیفی ’’ بَلَدًا اٰمِنًا‘‘ مفعول ثانی ہے۔ فعل امر ’’ اُرْزُقْ‘‘ کا مفعول ’’ اَھْلَـــــہٗ‘‘ ہے۔ اس میں ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر’’ بَلَدًا اٰمِنًا‘‘ کے لئے ہے۔ ’’ مِنَ الثَّمَرٰتِ‘‘ متعلق فعل ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ اَھْــلَــــــہٗپرحرفِ عطف نہیں ہے بلکہ اس سے بدل بعض ہے۔ ’’ قَالَ‘‘ کا فاعل اس میں شامل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ ’’ وَمَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُـــــہٗ قَلِیْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّہٗ‘‘ میں’’ مَنْ‘‘ بمعنی ’’ اَ لَّذِیْ‘‘ موصول ’’ کَفَرَ‘‘ اس کا صلہ یا ’’ مَنْ‘‘ نکرہ موصوفہ ’’ کَفَرَ‘‘ اس کی صفت۔ موصول اور صلہ مل کر یا موصوف اور صفت مل کر فعل محذوف کے لئے مفعول۔ تقدیر عبارت یوں ہے:’’ قَالَ وَارْزُقْ مَنْ کَفَرَ‘‘۔’’ فَاُمَتِّعُـــــہٗ‘‘ جملہ فعلیہ معطوف ہے ’’ وَارْزُقْ‘‘ فعل محذوف پر۔

 (نوٹ) ’’ مَنْ‘‘ کو مبتدا ٔقراردے کر ’’ فَاُمَتِّعُــــہٗ‘ ‘ کو خبر بنانا بھی جائز ہے ‘ کیونکہ ’’ مَنْ‘‘ بمعنی ’’ اَ لَّذِیْ‘‘ ہے اس لئے ’’ اَ لَّذِیْ‘‘ کی خبر پر ’’ فائ‘‘ لگانا درست ہے‘ کیونکہ ’’ اَ لَّذِیْ‘‘ اسم موصول متضمن معنی شرط بھی ہے‘ اس لئے اس کی خبر پر فاء لگانا درست ہے ۔ علاوہ ازیں ’’ من‘‘ کو شرطیہ قرار دے کر ’’ فَاُمَتِّعُـــــہٗ‘‘ کو اس کا جواب قرار دینا بھی درست ہے۔ ’’ قَلِیْــــلًا‘‘ صفت ہے اور اس کا موصوف محذوف ہے جو ’’ مَتَاعًا‘‘ ہو سکتا ہے۔ یہ مرکب توصیفی ’’ اُمَتِّعُ‘‘ کا مفعول ثانی ہے جبکہ اس سے متصل ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر اس کا مفعول اوّل ہے جو ’’ مَنْ کَفَرَ‘‘ کے لئے ہے۔ ’’ اَضْطَرُّہٗ‘‘ کی ضمیر مفعولی بھی ’’ مَنْ کَفَرَ‘‘ کے لئے ہے۔



 نوٹ (1) البقرۃ کی آیت 124 میں حضرت ابراہیمنے اپنی نسل میں امامت کے لئے سوال کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ یہ نافرمانوں کو نہیں ملے گی۔ اس کا لحاظ کرتے ہوئے اس آیت میں حضرت ابراہیم ؑ نے صرف مؤمنوں کے لئے رزق کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے تصحیح فرما دی کہ امامت اور چیز ہے‘ رزق کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ اس لئے رزق مؤمن‘ کافر سب کو دیا جائے گا۔ وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ ۭ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ   ١٢٧؁
( وَاِذْ : اور جب ) ( یَرْفَعُ : بلند کر رہے تھے) ( اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم ؑ) (الْقَوَاعِدَ : بنیادوں کو ) ( مِنَ الْبَیْتِ : اس گھر کی ) (وَاِسْمٰعِیْلُ : اور اسماعیل ؑ) (رَبَّـنَا : (تو وہ دونوں کہتے تھے) اے ہمارے ربّ) (تَقَبَّلْ : تو قبول فرما) (مِنَّا : ہم سے ) ( اِنَّکَ اَنْتَ : بیشک تو ہی) (السَّمِیْعُ : سننے والا) (الْعَلِیْمُ: جاننے والا ہے)



ق ع د

 قَعَدَ (ن) قُعُوْدًا : بیٹھنا۔ {وَقَعَدَ الَّذِیْنَ کَذَبُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَــہٗ ط} (التوبۃ:90) ’’ اور بیٹھے وہ لوگ جنہوں نے جھوٹ بولا اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے‘‘۔

 اُقْعُدْ (فعل امر) : تو بیٹھ۔ { وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ ۔ } (التوبۃ) ’’ اور کہا گیا تم لوگ بیٹھو‘ بیٹھنے والوں کے ساتھ۔‘‘

 قَاعِدٌ : فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل ہے۔ بیٹھنے والا۔ { فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ ۔ } (المائدۃ) ’’ پس جائیں آپؑ اور آپؑ کا ربّ‘ تو دونوں قتال کریں‘ بیشک ہم یہیں بیٹھنے والے ہیں۔‘‘

 قُعُوْدٌ : یہ مصدر بھی ہے اور قَاعِدٌ کی جمع مکسر بھی ہے۔ یعنی اس کا معنی ’’ بیٹھنا‘‘ بھی ہے اور ’’ بیٹھنے والے‘‘ بھی ہے۔ {اِنَّــکُمْ رَضِیْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِیْنَ ۔ } (التوبۃ) ’’ بیشک تم لوگ راضی ہوئے بیٹھنے پر پہلی مرتبہ‘ پس تم لوگ بیٹھو پیچھے رہنے والوں کے ساتھ۔‘‘ {اِذْ ھُمْ عَلَیْھَا قُعُوْدٌ ۔ } (البروج) ’’ جب وہ لوگ اس پر (یعنی آگ پر) بیٹھنے والے ہیں۔‘‘

 قَاعِدَۃٌ ج قَوَاعِدُ : یہ قَاعِدٌ کا مؤنث ہے۔ بیٹھنے والی۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً : (1) عمر رسیدہ خاتون۔ (2) قاعدہ کلیہ‘ اصول۔ (3) بنیاد۔ {وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآئِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِکَاحًا} (النور:60) ’’ اور عمر رسیدہ خواتین عورتوں میں سے جو توقع نہیں کرتیں نکاح کی۔‘‘

 قَعِیْدٌ : یہ واحد‘ جمع‘ مذکر‘ مؤنث‘ سب کے لئے آتا ہے۔ فعیل کے وزن پر اسم الفاعل ہے۔ ہمیشہ بیٹھنے والا۔ محافظ۔ نگران۔ {اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ ۔ } (ق) ’’ جب لیا دو لینے والوں نے دائیں سے اور بائیں سے ‘ وہ نگران ہیں (یعنی کراماً کاتبین فرشتے) ۔‘‘

 مَقْعَدٌ ج مَقَاعِدُ : مَفْعَلٌ کے وزن پر اسم الظرف ہے۔ بیٹھنے کی جگہ۔ { فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِھِمْ} (التوبۃ:81) ’’ خوش ہوئے پیچھے کئے گئے لوگ اپنے بیٹھنے کی جگہ سے۔‘‘{ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِط} (آل عمران:121) ’’ آپؐ بٹھاتے تھے مؤمنوں کو بیٹھنے کی جگہوں پر (یعنی مورچوں پر) قتال کے لئے۔‘‘

 ترکیب : ’’ اِبْرٰھٖمُ‘‘ اور ’’ اِسْمٰعِیْلُ‘‘ کی رفع بتا رہی ہے کہ یہ دونوں ’’ یَرْفَعُ‘‘ کے فاعل ہیں‘’’ اَلْقَوَاعِدَ‘‘ مفعول ہے اور ’’ مِنَ الْبَیْتِ‘‘ ’’ اَلْقَوَاعِدَ‘‘ سے حال ہونے کی بنا پر مقام نصب میں ہے اور تقدیر عبارت یوں ہے: ’’ وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ کَائِنَۃً مِنَ الْبَیْتِ‘‘۔ ’’ رَبَّــنَا‘‘ میں ’’ رَبَّ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ اس سے پہلے حرف ندا ء ’’ یا‘‘ محذوف ہے۔ اور اس سے پہلے ’’ یَـقُوْلَانِ‘‘ بھی محذوف ہے۔ ان کا اسمِ ضمیر’’ کَ‘‘ ہے جبکہ ’’ اَنْتَ‘‘ ضمیر فاصل ہے کیونکہ خبر معرف باللام ہے۔ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۠ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ  ١٢٨؁
(رَبَّــنَا : اے ہمارے ربّ) (وَاجْعَلْنَا : اور تو بنا دے ہم دونوں کو) (مُسْلِمَیْنِ : فرماں بردار) (لَکَ : اپنا) (وَ : اور (تو بنا دے) مِنْ ذُرِّیَّتِنَا : ہماری نسل سے) (اُمَّــۃً مُّسْلِمَۃً : ایک فرماں بردار امت) (لَّکَ : اپنی) (وَ : اور) (اَرِ : تو سمجھا دے ) (نَا : ہم کو) (مَنَاسِکَنَا : ہماری بندگی کے طریقے) (وَتُبْ عَلَیْنَا : اور تو توبہ قبول فرما ہماری) ( اِنَّکَ : بیشک تو ) (اَنْتَ التَّوَّابُ : ہی تو بار بار توبہ قبول کرنے والا) (الرَّحِیْمُ : ہر حال میں رحم کرنے والا ہے )



ا م م

 اَمَّ (ن) اِمَامَۃً وَاَمًّا وَاِمَامًا ۔ الْقَوْمَ وَبِالْقَوْمِ : امام بننا۔

 اُمَّـــــۃٌ : امت‘ جماعت‘ مدت‘ طریقہ‘ دین۔ ہر وہ جماعت جس کے ارکان میں کسی قسم کا کوئی رابطۂ اشتراک موجود ہو اسے امت کہا جاتا ہے ‘ خواہ یہ اتحاد مذہبی وحدت کی بنا پر ہو یا جغرافیائی اور عصری وحدت کی وجہ سے ‘ اور خواہ اس رابطہ میں امت کے اپنے اختیار کو دخل ہو یا نہ ہو۔ اخفش نے تصریح کی ہے کہ امت باعتبار لفظ کے واحد ہے اور باعتبار معنی کے جمع۔ نیز حیوان کی ہر جنس ایک امت ہے۔ (ملاحظہ ہو عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری‘ 5:198‘ باب قول النبی ﷺ لا نکتب ولا نحسب) ابن درستویہ کا بیان ہے کہ جہاں بھی امت کے معنی مدت کے ہوں گے وہاں اس کا مضاف محذوف ہو گا اور مضاف الیہ مضاف کے قائم مقام سمجھا جائے گا۔ (ملاحظہ ہو فتح القدیرللشوکانی‘ 3:29) ۔ اس لحاظ سے {وَلَئِنْ اَخَّرْنَا عَنْھُمُ الْعَذَابَ اِلٰی اُمَّۃٍ مَّعْدُوْدَۃٍ} اور {وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ} میں لفظ ’’ زَمن‘‘ یا ’’ حِین ‘‘ محذوف ہے۔ گویا اصل میں یوں تھا : اِلٰی زَمَنِ اُمَّۃٍ مَعْدُوْدَۃٍ اور بَعْدَ حِیْنِ اُمَّۃٍ ۔ زَمن اور حِین کو حذف کر کے مضاف الیہ یعنی لفظ امت کو اس کا قائم مقام سمجھا گیا۔

 امت کے مجازی معنی طریقہ اور دین کے بھی آتے ہیں ۔ عرب بولتے ہیں: فُلَانٌ لَا اُمَّۃَ لَــہٗ ۔ یعنی فلاں کا کوئی دین اور طریقہ نہیں۔ (عمدۃ القاری‘ 5:198)

ن س ک

 نَسَکَ (ن) نَسْکًا : درویش بننا۔ بندگی کرنا۔ قربانی کرنا۔

 نُسُکٌ (اسم الفعل) : قربانی ۔{ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ } (الانعام) ’’ بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میرا عرصۂ حیات اور عرصۂ موت اللہ کے لئے ہے جو تمام عالَموں کا رب ہے۔‘‘

 نَاسِکٌ (اسم الفاعل) : بندگی کرنے والا ۔ { لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا ھُمْ نَاسِکُوْہُ} (الحج:67) ’’ ہر ایک امت کے لئے ہم نے بنایا ایک بندگی کا طریقہ ‘ وہ لوگ بندگی کرنے والے ہیں اس پر۔‘‘

 مَنْسَکٌ ج مَنَاسِکُ : مَفْعَلٌ کے وزن پر اسم الظرف ہے۔ بندگی کرنے کی جگہ۔ استعارۃً بندگی کے طریقہ کے لئے آتا ہے۔ لفظ ’’ مَنْسَکٌ‘‘ کے لئے متذکرہ بالا آیت (الحج:67) دیکھیں۔ ’’ مَنَاسِکُ ‘‘ کا لفظ آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔

 ترکیب : ’’ وَاجْعَلْ‘‘ کا مفعول اوّل ’’ نَا‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ مُسْلِمَیْنِ‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ وَ‘‘ عطف ہے ’’ نَا‘‘ ضمیر متکلم پر ’’ اجْعَلْ‘‘ کے تحت ہے۔ ’’ مِنْ ذُرِّیَّتِنَا‘‘ مفعول ثانی اور ’’ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً‘‘ مفعول اوّل ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ’’ اُمَّۃً‘‘ مفعول اوّل ہے ’’ مِنْ ذُرِّیَّتِنَا‘‘ ’’ اُمَّۃً‘‘ کی صفت ہے جو مقدم ہونے کی بنا پر حال ہے اور ’’ مُسْلِمَۃً‘‘ مفعول ثانی ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ ’’ مِنْ ذُرِّیَّتِنَا‘‘ اس کا مفعول اوّل اور مرکب توصیفی ’’ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً‘‘ مفعول ثانی ہے۔ فعل امر ’’ اَرِ‘‘ کا مفعول اوّل ’’ نَا‘‘ کی ضمیر ہے اور مرکب اضافی ’’ مَنَاسِکَنَا‘‘ مفعول ثانی ہے۔ اسی لئے ’’ مَنَاسِکَ‘‘ منصوب آیا ہے۔ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ    ١٢٩؀ۧ
(رَبَّــنَا : اے ہمارے ربّ) (وَابْعَثْ : اور تو بھیج) (فِیْھِمْ : ان میں ) (رَسُوْلًا : ایک ایسا رسول) (مِّنْھُمْ : ان ) (میں سے یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ : جو پڑھ کر سنائے ان کو) (اٰیٰتِکَ : تیری آیات) (وَیُعَلِّمُھُمُ : اور جو تعلیم دے ان کو) (الْکِتٰبَ : کتاب کی) (وَالْحِکْمَۃَ : اور حکمت کی) (وَیُزَکِّیْھِمْ : اور جو تزکیہ کرے ان کا) ( اِنَّکَ : بیشک تو

اَنْتَ الْعَزِیْزُ : ہی تو بالادست ) (الْحَکِیْمُ : حکمت والا ہے)





ع ز ز

 عَزَّ (ض) عِزًّا : مغلوبیت سے محفوظ ہونا‘ سخت ہونا۔

 عَزَّ (ن) عَزًّا : کسی پر غالب آنا ۔ { وَعَزَّنِیْ فِی الْخِطَابِ ۔ } (صٓ) ’’ اور وہ غالب آیا مجھ پر بات میں۔‘‘

 عِزٌّ: مصدر کے علاوہ اسم ذات بھی ہے۔ مغلوبیت سے حفاظت‘ پناہ‘ مدد ۔ {وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِھَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَھُمْ عِزًّا ۔ } (مریم) ’’ اور ان لوگوں نے بنایا اللہ کے علاوہ ایک الٰہ تاکہ وہ ہو ان کے لئے ایک پناہ۔‘‘

 عِزَّۃٌ (اسم ذات) : (1) سختی‘ بےجا خود داری‘ گھمنڈ (2) غلبہ‘ عزت۔ { بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّۃٍ وَّشِقَاقٍ ۔ } (صٓ) ’’ جن لوگوں نے کفر کیا وہ گھمنڈ اور مخالفت کرنے میں ہیں۔‘‘ { مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا ط} (فاطر:10) ’’ جو چاہا کرتا ہے عزت کو‘ تو عزت کُل کی کُل اللہ کے لئے ہی ہے‘‘۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو عزت اللہ تعالیٰ سے حاصل نہ ہو وہ سراسر ذلت ہے (مفردات) ۔

 عَزِیْزٌ ج اَعِزَّۃٌ : فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ (1) سخت‘ بھاری‘ گراں (2) غالب‘ بالادست (جس کے اختیارات پر کوئی تحدیدات (limitations) نہ ہوں) {لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ}(التوبۃ:128) ’’ آ چکا ہے تمہارے پاس ایک رسولؐ تم میں سے‘ گراں ہے اس پر وہ جس سے تم لوگ مشکل میں پڑو۔‘‘{ اَذِلَّــۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ز} (المائدۃ:54) ’’ نرم ہیں مؤمنوں پر‘ سخت ہیں کافروں پر۔‘‘ {اِنَّہٗ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ } (العنکبوت) ’’ بیشک وہی بالادست حکمت والا ہے۔‘‘

 اَعَزُّ : افعل التفضیل ہے۔ زیادہ سخت ‘ زیادہ عزت والا۔ { لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّط} (المنافقون:8) ’’ لازماً نکالے گا زیادہ عزت والا اس میں سے زیادہ ذلت والے کو۔‘‘

 عُزّٰی : فُعْلٰی کے وزن پر افعل التفضیل کا مؤنث ہے۔ زیادہ سخت۔ زیادہ عزت والی۔ ’’ اَلْعُزّٰی‘‘ ایک بت کا نام۔ {اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی }(النجم) ’’ کیا تم نے دیکھا لات اور عزیٰ کو (بتوں کے نام)؟‘‘

 اَعَزَّ (افعال) اِعْزَازًا : کسی کو عزت دینا۔ { وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط} (آل عمران:26) ’’ اور تو عزت دیتا ہے اس کو جس کو تو چاہتا ہے اور تو ذلت دیتا ہے اس کو جس کو تو چاہتا ہے‘ تیرے ہاتھ میں کُل خیر ہے۔‘‘

 عَزَّزَ (تفعیل) تَعْزِیْزًا : کسی کو سخت کرنا‘ قوت دینا۔ { اِذْ اَرْسَلْنَا اِلَیْھِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْھُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ} (یٰسٓ:14) ’’ جب ہم نے بھیجا ان کی طرف دو کو تو ان لوگوں نے جھٹلایا دونوں کو ‘ تو ہم نے تقویت دی تیسرے سے۔‘‘

 ترکیب : فعل امر ’’ اِبْعَثْ‘‘ کا مفعول ’’ رَسُوْلًا‘‘ ہے۔ فِیْھِمْ میں ھُمْ کی ضمیر کا مرجع اُمَّۃ ہے۔ پھر امت میں اگرچہ تاء تانیث لگی ہے‘ لیکن چونکہ معنی مذکر ہے اس لئے ضمیر مذکر ’’ ھُمْ‘‘ کی لوٹائی گئی۔ رَسُوْلاً نکرہ موصوفہ ہے‘ صفت ’’ مِنْھُمْ‘‘ ہے۔ تقدیر عبارت ’’ یَتْلُوْ رَسُوْلًاکَائِنًا مِّنْھُمْ۔ عَلَیْھِمْ‘‘ سے لے کر ’’ یُزَکِّیْھِمْ‘‘ تک یا تو صفت ہے یا حال ہے۔ ’’ یَتْلُوْا‘‘ ’’ یُعَلِّمُ ‘‘ اور ’’ یُزَکِّیْ‘‘ تینوں افعال مضارع ہیں ‘ لیکن یہ دعا میں آئے ہیں‘ اس لئے ترجمہ میں اس کا لحاظ کرنا ہو گا۔





 نوٹ (1) : آج کے دور میں ہمارے لئے اس آیت میں کیا راہنمائی ہے‘ اس کو سمجھ لیں۔’’ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ‘‘ میں قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا شامل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جو احکام‘ ہدایات اور ترغیبات دی ہیں‘ ان سے اللہ تعالیٰ کی حقیقی مرضی اور منشا کیا ہے‘ حضور ﷺ اس کی تعلیم دے گئے ہیں‘ اس لئے تعلیم کتاب میں ہمارے لئے احادیث کو بھی سمجھ کر پڑھنا شامل ہے۔

 اللہ تعالیٰ کے احکام میں کیا حکمت مضمر ہے‘ یعنی ان احکام کے ’’ کیوں اور کیسے‘‘ کی وضاحت بھی حضور ﷺ اور صحابہ کرام  کر گئے ہیں‘ جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ ان احکام پر ہمارے عمل کرنے یا نہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں نہ کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی کمی ہوتی ہے‘ بلکہ یہ احکام صرف اور صرف انسان کی عارضی اور دائمی‘ دونوں زندگیوں کی بھلائی کے لئے دیئے گئے ہیں۔ یہ حقیقت اگر ذہن نشین ہو جائے تو پھر ان احکام پر عمل کرنا ہلکا اور آسان ہو جاتا ہے۔ اس لئے تعلیم حکمت میں ہمارے لئے سیرت اور آثارِ صحابہ کا مطالعہ شامل ہے۔

 نوٹ (2) : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی دعا کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ آگے چل کر تین مقامات (البقرۃ:151۔ آل عمران:164۔ الجمعۃ:2) پر اس دعا کی قبولیت کا اعلان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہی الفاظ کو دہرایا ہے‘ البتہ ان کی ترتیب میں ایک تبدیلی کی ہے جو غور طلب ہے۔

 حضرت ابراہیم کی دعا میں ترتیب یہ ہے : (1) تلاوتِ آیات‘ (2) تعلیم کتاب‘ (3) تعلیم حکمت اور (4) تزکیہ۔ دعا کی قبولیت کا اعلان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ ترتیب رکھی ہے: (1) تلاوتِ آیات‘ (2) تزکیہ‘ (3) تعلیم کتاب اور (4) تعلیم حکمت۔ مذکورہ تبدیلی پر غور کرنے سے جو بات سامنے آتی ہے اسے سمجھ لیں۔

 ایسے عقائد و نظریات جو اِس کائنات کی صداقتوں پر مبنی نہ ہوں‘ انسان کے اندرحُبِّ دنیا اور پھر حُبِّ عاجلہ کو جنم دیتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں پھر انسان اپنی فطرت کی پکار کا گلا گھونٹنا شروع کر دیتا ہے۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے انسان کے سامنے وہ عقائد و نظریات آتے ہیں جو اس کائنات کی صداقتوں پر مبنی ہیں۔ ان سے انسان کی فطرت کی پکار کو تقویت حاصل ہوتی ہے‘ جس کے نتیجے میں اس کے اندر تقویٰ کا جذبہ ابھرتا ہے اور پروان چڑھتا ہے۔ یہ اصل تزکیہ ہے اور اس کا ذریعہ قرآن مجید ہے۔

 تقویٰ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا معلوم کرنے کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔ پھر زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کے لئے مطلوبہ قوتِ عمل بھی تقویٰ کا جذبہ ہی فراہم کرتاہے۔ اس طرح انسان اللہ کے احکام پر عمل کرنا شروع کردیتا ہے‘ خواہ ان کی حکمت اس کی سمجھ میں آئی ہو یا نہ آئی ہو۔ اس لئے تعلیم کتاب کو تزکیہ کے بعد اور تعلیم حکمت سے پہلے رکھا گیا ہے۔

 تعلیم حکمت ایک اضافی سہولت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا کی ہے۔ جیسے آخرت پر ایمان اور یقین ہوتے ہوئے حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے اطمینانِ قلب کی درخواست کی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا ۔ (دیکھئے البقرۃ:260) اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اپنے اعمال کی جواب دہی اور نتائج کے لئے انسان پر حجت اس کی عقل نہیں بلکہ اس کی فطرت ہے‘ جس کے ساتھ اسے اس امتحان گاہ میں بھیجا جاتا ہے۔ فطرت کے ساتھ اسے عقل بھی دی جاتی ہے اور قرآن مجید عقل کی نفی نہیں کرتا‘ البتہ وہ ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھتا ہے۔ اور قرآن نے عقل کو فطرت کے ماتحت رکھا ہے۔

 نوٹ (3) : ایک رائے یہ ہے کہ اس آیت میں حضور ﷺ کے مقصد بعثت کا بیان ہے۔ لیکن میرا ذہن اس رائے کو ترجیح دیتا ہے کہ اس آیت میں آپؐ کے مقصد بعثت کو پورا کرنے کا طریقۂ کار (Modus Operendi) کا بیان ہے‘ جبکہ آپ ﷺ کے مقصد بعثت کا بیان التوبۃ:33‘ الفتح:28‘ اور الصف:9 میں آیا ہے۔ وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰھٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ ۭ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَا ۚ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ   ١٣٠؁
(وَمَنْ : اور کون ) (یَّرْغَبُ عَنْ : اعراض کرتا ہے) ( مِلَّۃِ اِبْرٰھٖمَ : ابراہیم ؑ کے دین سے) (اِلاَّ مَنْ : سوائے اس کے جو ) (سَفِہَ : بیوقوف ہوا) (نَفْسَہٗ : بلحاظ اپنے نفس کے ) (وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰــہُ : اور ہم نے چنا ہے اس ؑکو) (فِی الدُّنْیَا : دنیا میں ) (وَاِنَّــہٗ : اور یقینا وہ) (فِی الْاٰخِرَۃِ : آخرت میں) (لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ : صالحین میں سے ہے)



ر غ ب

 رَغِبَ (س) رَغَبًا : (1) خواہش کرنا‘ (2) التجا کرنا‘ مانگنا۔ اس معنی میں عموماً ’’ اِلٰی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے ۔ (3) اعراض کرنا‘ مُنہ موڑنا۔ اس معنی میں عموماً ’’ عَنْ‘‘ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ {وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ} (النسائ:127) ’’ اور تم لوگ چاہتے ہو کہ نکاح کرو ان عورتوں سے۔‘‘

 رَاغِبٌ : فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل ہے۔ چاہنے والا‘ التجا کرنے والا‘ اعراض کرنے والا۔ { اِنَّا اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ ۔ } (التوبۃ) ’’ بیشک ہم اللہ سے التجا کرنے والے ہیں۔‘‘ {اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِھَتِیْ یٰــاِبْرٰھِیْمُ ج} (مریم:46) ’’ کیا اعراض کرنے والا ہے تو میرے معبودوں سے اے ابراہیم؟‘‘

 اِرْغَبْ(فعل امر) : تو مانگ‘ التجا کر۔ {فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ۔ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ ۔ } (الانشراح) ’’ پس جب بھی فارغ ہو تو محنت کر اور اپنے رب سے مانگ۔‘‘

ص ف و

 صَفَا (ن) صَفْوًا : کسی چیز کا ہر طرح کی آمیزش سے پاک ہونا‘ صاف ہونا۔

 صَفْوَانٌ : چکنا پتھر (جو مٹی وغیرہ کی آمیزش سے پاک ہو) ۔ {فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ} (البقرۃ:264) ’’ تو اس کی مثال ایک چکنے پتھر کی مانند ہے جس پر کچھ مٹی ہو۔‘‘

 اَلصَّفَا : خانہ کعبہ کے پاس ایک پہاڑی کا نام (اس پہاڑی کا پتھر بالکل صاف اور چکنا ہے۔ {اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ ج} (البقرۃ:158) ’’ بیشک صفا اور مَروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔‘‘

 اَصْفٰی (افعال) اِصْفَائً : کسی کو آمیزش سے پاک کرنا ‘ یعنی دوسروں سے الگ کر کے کسی کو کسی چیز یا کسی کام کے لئے مخصوص کرنا۔ {اَفَاَصْفٰـٹکُمْ رَبُّکُمْ بِالْبَنِیْنَ}

(بنی اسرائیل:40) ’’ تو کیا مخصوص کیا تم لوگوں کو تمہارے رب نے بیٹوں کے لئے۔‘‘

 صَفّٰی (تفعیل) تَصْفِیَۃً : کسی چیز کو آمیزش سے پاک کرنا‘ صاف کرنا۔

 مُصَفًّی (اسم المفعول ) : صاف کیا ہوا ۔ { وَاَنْھٰــرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی ط} (محمد:15) ’’ اور نہریں ہیں صاف کی ہوئی شہد کی۔‘‘

 اِصْطَفٰی (افتعال) اِصْطِفَائً : کسی کو اپنے لئے خاص کرنا ۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ دو معانی میں آتا ہے: (1) چن لینا۔ (2) منتخب کرنا۔ (3) کسی کو دوسروں پر ترجیح دینا‘ پسند کرنا۔ {اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِط} (الحج:75) ’’ اللہ چن لیتا ہے فرشتوں میں سے کچھ رسول اور انسانوں میں سے۔‘‘ {اَصْطَفَی الْبَنَاتِ عَلَی الْبَنِیْنَ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ کیا اس نے ترجیح دی بیٹیوں کو بیٹوں پر؟‘‘

 مُصْطَفٰی (اسم المفعول) : چنا ہوا‘ پسند کیا ہوا۔ {وَاِنَّھُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ ۔ } (صٓ) ’’ اور بیشک وہ سب ہمارے پاس چنے ہوئے نیک لوگوں میں سے ہیں۔‘‘

 ترکیب : ’’ یَرْغَبُ‘‘ مرفوع آیا ہے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ نہیں بلکہ استفہامیہ ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ یَرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰھٖمَ‘‘ جملہ فعلیہ بن کر ’’ مَنْ‘‘ کی خبر ہے۔ ’’ اِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ‘‘ ’’ مَنْ‘‘ مستثنیٰ ہونے کی بنا پر منصوب ہے یا ’’ یَرْغَبُ‘‘ کی ضمیر سے بدل ہونے کی بنا پر حالت رفع میں ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ نکرہ موصوفہ ہے یا بمعنی ’’ اَلَّذِی‘‘ ہے۔ ’’ نَفْسَہٗ‘‘ سَفِہَ کا مفعول ہے ‘ کیونکہ ’’ سَفِہَ‘‘ بمعنی ’’ جَھَلَ ‘‘ ہے۔ اور تقدیر عبارت یوں ہے: ’’ اِلاَّ مَنْ جَھَلَ خَلْقَ نَفْسِہٖ‘‘ اس لئے ’’ نَفْسَہٗ‘‘ تمیز نہیں ہے‘ کیونکہ تمیز اسم نکرہ جبکہ یہ اسم معرفہ ہے۔ اگرچہ فراء نے اس کو تمیز ہی مانا ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ’’ نَفْسَہٗ ‘‘ منصوب بنزع الخافض ہے اور عبارت یوں ہے : سَفِہَ فِیْ نَفْسِہٖ۔ اور یہ اس صورت میں ہے کہ سَفِہَ کو متعدی بِنَفْسِہٖ نہ مانا جائے ۔ لیکن ثعلب اور مبرد نے اس کو متعدی بنفسہ ہی لکھا ہے۔ تو اس صورت میں نَفْسَہُ ‘ سَفِہَ کا مفعول بنے گا۔ ’’ اصْطَفَیْنٰــہُ‘‘ میں ’’ ہُ ‘‘ کی ضمیر ابراہیم کے لئے ہے۔ اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   ١٣١؁
(اِذْ قَالَ : جب کہا ) (لَــہٗ : اس سے ) (رَبُّــہٗ : اس کے رب نے ) (اَسْلِمْ : تو فرمانبردار ہو) ( قَالَ : (تو) اس نے کہا) (اَسْلَمْتُ : میں فرماں بردار ہوا) (لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ : تمام جہانوں کے رب کے لئے)



 ترکیب : ’’ اِذْ‘‘ یا تو ’’ اصْطَفَیْنٰــہُ‘‘ کا ظرف ہے‘ یا ’’ فِی الدُّنْیَا‘‘ سے بدل ہے‘ یا اس سے پہلے ’’ اُذْکُرْ‘‘ فعل محذوف ہے۔ ’’ اِذْ قَالَ‘‘ میں ’’ قَالَ‘‘ کا فاعل ’’ رَبُّــــہٗ‘‘ ہے۔ اس میں ’’ ہُ‘‘ کی ضمیر اور ’’ لَــہٗ‘‘ کی ضمیر‘ دونوں حضرت ابراہیم کے لئے ہیں‘ جن کا ذکر گزشتہ آیت میں آیا ہے۔ ’’ اَسْلِمْ‘‘ کے بعد ’’ قَالَ‘‘ کا فاعل اس میں شامل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے اور یہ بھی حضرت ابراہیمں کے لئے ہے۔ ’’ اَلْعٰلَمِیْنَ‘‘ پر لامِ جنس ہے۔



 نوٹ (1) : غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے ’’ اَسْلَمْتُ لَکَ‘‘ نہیں کہا۔ شاید اس لئے کہ اس میں احسان رکھنے کا پہلو ہے ۔ جیسے آج کل کے ماتحت اپنے افسر کی فرمانبرداری کر کے اس پر احسان دھرتے ہیں۔ اس لئے ’’ لَکَ‘‘ کے بجائے ’’ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کہہ کر واضح کردیا کہ انہوں نے فرمانبرداری اپنی ضرورت اور اپنے مفاد میں قبول کی ہے‘ کسی پر احسان نہیں کیا ہے۔ وَوَصّٰى بِهَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُ ۭيٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ   ١٣٢؁
( وَوَصّٰی : اور تاکید کی ( ( بِھَآ : اس کی ( ( اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم ؑ نے ( ( بَنِیْہِ : اپنے اپنے بیٹوں کو ( ( وَیَعْقُوْبُ : اور یعقوبؑ نے ( (یٰـبَنِیَّ : اے میرے بیٹو! ( ( اِنَّ اللّٰہَ : بیشک اللہ نے ( (اصْطَفٰی : چنا ( ( لَــکُمُ : تم لوگوں کے لئے ( (الدِّیْنَ : اِس دین کو ( (فَـلَا تَمُوْتُنَّ : تو تم لوگ ہرگز نہ مرنا ( (اِلاَّ وَ : مگر اس حال میں کہ ( (اَنْتُمْ : تم لوگ ( ( مُّسْلِمُوْنَ : فرمانبرداری کرنے والے ہو (



و ص ی

 وَصٰی (ض) وَصْیًا : کسی چیزکا کسی چیز سے پیوستہ ہونا‘ جیسے گھاس ایک دوسرے میں گتھی ہوتی ہے۔ کسی کام کے لئے کسی بات کا پیوستہ ہونا یعنی تاکید ہونا۔

 وَصِیَّۃٌ : فَعِیْلَۃٌ کا وزن ہے۔ تاکید‘ وصیت۔ {فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ} (النسائ:11) ’’ تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے وصیت کے بعد‘ اس نے وصیت کی جس کی‘ یا قرض کے بعد۔‘‘

 اَوْصٰی (افعال) اِیْصَائً : کسی بات یا کام کی تاکید کرنا‘ وصیت کرنا۔ {وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰــوۃِ وَالزَّکٰــوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا ۔ } (مریم) ’’ اور اس نے تاکید کی مجھ کو نماز اور زکوٰۃ کی جب تک میں ہوں زندہ۔‘‘

 مُوْصٍ (اسم الفاعل) : تاکید کرنے والا‘ وصیت کرنے والا۔ { فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا} (البقرۃ:182) ’’ تو جو خوف کرے وصیت کرنے والے سے طرفداری کا یا گناہ کا۔‘‘

 وَصّٰی (تفعیل) تَوْصِیَۃً : تاکید کرنا‘ وصیت کرنا ۔ { وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ} (لقمان:14) ’’ اور ہم نے تاکید کی انسان کو اس کے والدین کے لئے۔‘‘

 تَوَاصٰی (تفاعل) تَوَاصِیًا : باہم ایک دوسرے کو تاکید کرنا ۔ { وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ} (العصر:3) ’’ اور ان لوگوں نے باہم تاکید کی حق کی اور باہم تاکید کی صبر کی۔‘‘

 ترکیب : ’’ اِبْرٰھٖمُ‘‘ اور ’’ یَعْقُوْبُ‘‘ کی رفع بتا رہی ہے کہ یہ دونوں ’’ وَصّٰی‘‘ کے فاعل ہیں۔ ’’ بِھَا‘‘ کی ضمیر آیت 130 کے لفظ ’’ مِلَّۃِ‘‘ کے لئے ہے جبکہ ’’ بَنِیْہِ‘‘ مفعول ہے۔ ’’ اَلدِّیْنَ‘‘ پر لامِ تعریف ہے۔ ’’ وَاَنْتُمْ‘‘ کا وائو حالیہ ہے۔





 نوٹ (1) : لفظ ’’ بَنِیْہِ‘‘ کو سمجھ لیں۔ ’’ اِبْنٌ‘‘ کی جمع حالت رفع میں ’’ بَنُوْنَ‘‘ اور نصب و جر میں ’’ بَنِیْنَ‘‘ آتی ہے۔ مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں یہ ’’ بَنِیْنَ‘‘ تھا۔ پھر مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا تو ’’ بَنِیْہِ‘‘ استعمال ہوا۔ یہ بھی نوٹ کریں کہ حالانکہ یہ دو فاعلوں کا مفعول ہے لیکن پھر بھی اس کے مضاف الیہ کے طور پر تثنیہ کی ضمیر’’ ھُمَا‘‘ کے بجائے واحد کی ضمیر’’ ہُ‘‘ آئی ہے۔ اس سے یہ راہنمائی ملتی ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے اور حضرت یعقوبنے اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی۔ ترجمہ میں اس بات کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے اس جانب بھی اشارہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے تین یا تین سے زیادہ بیٹے تھے۔ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ ۭ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا ښ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ  ١٣٣؁
(اَمْ کُنْتُمْ : یا تم لوگ) (شُھَدَآئَ : موقع پر موجودتھے) (اِذْ حَضَرَ : جب سامنے آئی) (یَعْقُوْبَ : یعقوبؑ کے) (الْمَوْتُ : موت) (اِذْ قَالَ : جب انہوں نے کہا) (لِبَنِیْہِ : اپنے بیٹوں سے) (مَا : کس کی) ( تَعْبُدُوْنَ: تم لوگ عبادت کرو گے) (مِنْ بَعْدِیْ : میرے بعد ) ( قَالُوْا : ان لوگوں نے کہا) (نَعْبُدُ : ہم لوگ عبادت کریں گے) (اِلٰـھَکَ : آپ کے الٰہ کی) (وَاِلٰــہَ اٰبَآئِکَ : اور آپ کے آباء کے الٰہ کی) (اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ : ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑ اور اسحق ؑ(کے الٰہ کی) (اِلٰــھًا وَّاحِدًا : جو کہ واحد الٰہ ہے) ( وَنَحْنُ لَــہٗ : اور ہم لوگ اس کی ہی) (مُسْلِمُوْنَ: فرمانبرداری کرنے والے ہیں)



ح ض ر

 حَضَرَ (ن) حُضُوْرًا: اس کا بنیادی مفہوم ہے کسی شہر میں اقامت پذیر ہونا۔ اس کے ساتھ زیادہ تر دو معنی میں آتا ہے: (1) کسی جگہ موجود ہونا۔ (2) کسی کے سامنے ہونا یعنی حاضر ہونا۔ {حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ} (النسائ:18) ’’ یہاں تک کہ جب سامنے آئے ان کے ایک کے موت‘ تو وہ کہے کہ میں توبہ کرتا ہوں اب۔‘‘

 حَاضِرٌ : فَاعِلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ موجود‘ حاضر ۔{ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا} (الکہف:49) ’’ اور وہ لوگ پائیں گے اس کو جو انہوں نے عمل کئے‘ سامنے موجود۔‘‘

 حَاضِرَۃٌ : یہ صفت حَاضِرٌ کی مؤنث بھی ہے اور اسم ذات بھی ہے۔ اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں کوئی بستی۔ کوئی شہر۔{ اِلاَّ اَنْ تَــکُوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً} (البقرۃ:282) ’’ سوائے اس کے کہ وہ ہو کوئی حاضر تجارت۔‘‘ {وَسْئَلْھُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ} (الاعراف:163) ’’ اور ان سے پوچھو اس بستی کے بارے میں جو تھی سمندر کی بستی یعنی سمندر کے کنارے۔‘‘

 اَحْضَرَ (افعال) اِحْضَارًا : کسی کو کسی کے سامنے لانا‘ حاضر کرنا۔ {عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا اَحْضَرَتْ ۔ } (التکویر) ’’ جان لے گی ہر جان اس کو جو اس نے حاضر کیا۔‘‘

 مُحْضَرٌ (اسم المفعول) : حاضر کیا ہوا۔{ یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِّنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا} (آل عمران:30) ’’ اس دن پائے گی ہر ایک جان اس کو جو اس نے عمل کیا کسی نیکی میں سے‘ حاضر کیا ہوا۔‘‘

 اِحْتَضَرَ (افتعال) اِحْتِضَارًا : اہتمام سے سامنے کرنا ‘ یعنی باری باری سامنے کرنا۔

 مُحْتَضَرٌ (اسم المفعول) : سامنے کیا ہوا ۔ {وَنَبِّئْھُمْ اَنَّ الْمَآئَ قِسْمَۃٌ بَیْنَھُمْ کُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ ۔ } (القمر) ’’ اور ان کو خبر دو کہ پانی بانٹا ہے ان کے مابین‘ پینے کی باری پر ہر ایک سامنے کیا ہوا ہے۔‘‘

 ترکیب : ’’ کُنْتُمْ‘‘ کا اسم اس میں شامل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور’’ شُھَدَآئَ‘‘ اس کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔’’ حَضَرَ‘‘ کا مفعول’’ یَعْقُوْبَ‘‘ ہے اور فاعل ’’ اَلْمَوْتُ‘‘ ہے۔ ’’ مَا‘‘ استفہامیہ مبتدأ ‘ ’’ تَعْبُدُوْنَ‘‘ خبر اور ’’ مِنْ بَعْدِیْ‘‘ متعلق خبر ہے۔’’ نَعْبُدُ‘‘ کا مفعول ’’ اِلٰـھَکَ وَاِلٰـہَ اٰبَائِکَ‘‘ ہے۔ اس میں ’’ اٰبَائِکَ‘‘ کا بدل ’’ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ‘‘ ہیں اور ’’ اِلٰــہَ‘‘ کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے حالت جر میں ہیں ۔ جبکہ ’’ اِلٰـھًا وَّاحِدًا‘‘ لفظ ’’ اِلٰـــہَ‘‘ کا بدل ہے۔ تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   ١٣٤؁
(تِلْکَ : وہ) (اُمَّــۃٌ : ایک امت ہے جو) (قَدْ خَلَتْ : گزر چکی ہے) ( لَھَا : اس کے لئے ہی ہے ) (مَا کَسَبَتْ : وہ جو اس نے کمایا) (وَلَــکُمْ : اور تم لوگوں کے لئے ہی ہے ) (مَّا کَسَبْتُمْ : وہ جو تم لوگوں نے کمایا) (وَلَا تُسْئَلُوْنَ : اور تم لوگوں سے نہیں پوچھا جائے گا) (عَمَّا : اس کے بارے میں جو ) (کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ: وہ لوگ کیا کرتے تھے)



 ترکیب : ’’ تِلْکَ‘‘ مبتدأ جبکہ ’’ اُمَّۃٌ‘‘ خبر ہے اور نکرہ موصوفہ ہے۔ ’’ قَدْ خَلَتْ‘‘ اس کی صفت ہے۔ ’’ مَا‘‘ موصولہ ہے اور ’’ کَسَبَتْ‘‘ اس کا صلہ ہے۔ صلہ موصول مل کر مبتدأ ہیں۔ اس کی خبر’’ وَاجِبٌ‘‘ محذوف ہے اور ’’ لَھَا‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہوتی ہے۔ ’’ تُسْئَلُوْنَ‘‘ مضارع مجہول ہے اور اس کا نائب الفاعل اس میں شامل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے۔

 نوٹ (1) : یہ بات تو ہم لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے نیک اعمال کے ثواب میں اور برے اعمال کے گناہ میں ہمارے آباء و اجداد کا خصوصاً والدین کا ایک حصّہ ہوتا ہے۔ لیکن اس آیت کے حوالہ سے اب یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آباء و اجداد کی نیکیوں کے ثواب میں اور ان کی برائیوں کے گناہ میں ہم لوگوں کا یعنی اولاد کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ وَقَالُوْا كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا ۭ قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰھٖمَ حَنِيْفًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ  ١٣٥؁
(وَقَالُوْا : اور ان لوگوں نے کہا) (کُوْنُوْا : تم لوگ ہو جائو) (ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی : یہودی یا عیسائی) (تَھْتَدُوْا : تو تم لوگ ہدایت پائو گے) (قُلْ : آپؐ کہئے) (بَلْ : (ہرگز نہیں) بلکہ) (مِلَّۃَ اِبْرٰھٖمَ : (پیروی کرو) ابراہیم ؑ کے دین کی) (حَنِیْفًا : یکسو ہوتے ہوئے) (وَمَا کَانَ : اور وہ نہیں تھے) (مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ: شرک کرنے والوں میں سے)



ح ن ف

 حَنُفَ (ک) حَنَافَۃً : (1) ٹیڑھے پیر والا ہونا (ٹیڑھا پیر کسی طرف نہیں مڑتا اور ہمیشہ ایک رخ پر ہوتا ہے) ۔ (2) ہر طرف سے کٹ کر کسی ایک سمت میں یکسوہونا۔

 حَنِیْفٌ ج حُنَفَائَ : فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ ہمیشہ اور ہر حال میں یکسو۔ {اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا} (الانعام:79) ’’ بیشک میں نے متوجہ کیا اپنے چہرے کو اس کے لئے جس نے بنایا آسمانوں اور زمین کو‘ یکسوہوتے ہوئے ۔‘‘ { وَمَآ اُمِرُوْآ اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَــآئَ} (البیّنۃ:5) ’’ اور ان لوگوں کو حکم نہیں دیا گیا مگر یہ کہ وہ لوگ عبادت کریں اللہ کی‘ خالص کرنے والا ہوتے ہوئے اس کے لئے نظام حیات کو‘ یکسو ہوتے ہوئے۔‘‘

ش ر ک

 شَرِکَ (س) شَرَکًا : کسی چیزیا کام میں کسی کا ساجھی ہونا۔ حصہ دار ہونا۔

 شِرْکٌ (اسم ذات) : حصہ‘ ساجھا‘ شرکت۔{ اَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَھُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ} (فاطر:40) ’’ تم لوگ دکھائو مجھ کو کیا تخلیق کیا ان لوگوں نے زمین میں یا ان کے لئے ہے کوئی ساجھا آسمان میں؟‘‘

 شَرِیْکٌ ج شُرَکَائُ : فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ ہمیشہ اور ہر حال میں حصہ دار۔ ساجھے دار۔{ وَلَمْ یَکُنْ لَّــہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ} (الفرقان:2) ’’ اور ہے ہی نہیں اس کے لئے کوئی ساجھے دار بادشاہت میں۔‘‘ { فَاِنْ کَانُوْا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَھُمْ شُرَکَآئُ فِی الثُّلُثِ} (النسائ:12) ’’ پس اگر وہ لوگ اس سے زیادہ ہیں تو وہ لوگ حصہ دار ہیں تہائی میں۔‘‘

 اَشْرَکَ (افعال) اِشْرَاکًا : کسی کو کسی کا حصہ دار یا ساجھی بنانا یاقرار دینا ۔

{وَلَآ اُشْرِکُ بِرَبِّیْ اَحَدًا} (الکہف:38) ’’ اور میں ساجھی قرار نہیں دیتا اپنے رب کے ساتھ کسی ایک کو۔‘‘

 شِرْکٌ : یہ ثلاثی مجرد میں اسم ذات بھی ہے اور بابِ افعال کے مصدر کے طور پر بھی آتا ہے۔ البتہ باب افعال میں اس کا استعمال اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنے کے معنی میں مخصوص ہے۔ {اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ۔ } (لقمان:13) ’’ بیشک اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک قرار دینا ایک عظیم ظلم ہے‘‘۔

 اَشْرِکْ (فعل امر) : تو ساجھی بنا‘ تو حصہ دار بنا۔ { وَاَشْرِکْہُ فِیْ اَمْرِیْ ۔ } (طٰہٰ) ’’ اور تو ساجھی بنا اس کو میرے کام میں۔‘‘

 مُشْرِکٌ (اسم الفاعل) : ساجھی بنانے والا‘ شرک کرنے والا ۔ { اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ} (التوبۃ:28) ’’ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ شرک کرنے والے پلید ہیں۔‘‘

 شَارَکَ (مفاعلہ) مُشَارَکَۃٌ : باہم ایک دوسرے کا حصہ دار بننا۔ شریک ہونا۔

 شَارِکْ (فعل امر) : تو حصہ دار بن‘ شریک ہو۔{ وَشَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ} (بنی اسرائیل:64) ’’ اور تو شریک ہو ان کے ساتھ مال میں اور اولاد میں۔‘‘

 اِشْتَرَکَ (افتعال) اِشْتِرَاکًا : اہتمام سے شریک ہونا۔

 مُشْتَرِکٌ (اسم الفاعل) : شریک ہونے والا۔{فَاِنَّھُمْ یَوْمَئِذٍ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِکُوْنَ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ پس یقینا وہ لوگ اس دن عذاب میں شریک ہونے

والے ہیں۔‘‘

 ترکیب : ’’ کُوْنُوْا‘‘ کَانَکا فعل امر ہے۔ اس کا اسم اس میں شامل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ تَھْتَدُوْا‘‘ جو اب امر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔’’ بَلْ‘‘ سے پہلے ’’ کَلاَّ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ مِلَّۃَ اِبْرٰھٖمَ‘‘ مرکب اضافی ہے اور اس کے مضاف ’’ مِلَّۃَ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ کسی محذوف فعل کا مفعول ہے‘ جو’’ نَــتَّبِعُ‘‘ یا ’’ اِتَّبِعُوْا‘‘ ہو سکتا ہے۔’’ حَنِیْفًا‘‘ کا ’’ اِبْرٰھٖم‘‘ سے حال ہونا قیاساً ضعیف ہے‘ کیونکہ ابراہیم مضاف الیہ ہے اور مضاف الیہ سے حال ہونا قلیل الاستعمال ہے۔ لہٰذا یا تو’’ اِتَّبِعُوْا‘‘ یا’’ نَتَّبِعُ‘‘ فعل محذوف کی ضمیر فاعلی سے حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے اور یا فعل محذوف’’ اعنی‘‘ کا مفعول ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔’’ مَا کَانَ‘‘ میں ’’ کَانَ‘‘ کا اسم اس میں شامل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ابراہیم ؑ کے لئے ہے۔’’ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘ کَانَکی خبر ہے۔



 نوٹ (1) : اس کا یہ مطلب نہیں کہ چاہے یہودی ہو جائو یا عیسائی ہو جائو‘ ہدایت پائو گے۔ مطلب یہ ہے کہ یہودی کہتے ہیں کہ یہودی ہو گے تو ہدایت پائو گے اور عیسائی کہتے ہیں کہ عیسائی ہو گے تو ہدایت پائو گے۔ دونوں کے اقوال کو یہاں یکجا نقل کیا گیا ہے۔ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ   ١٣٦؁
(قُوْلُوْآ : تم لوگ کہو) (اٰمَنَّا : ہم لوگ ایمان لائے) (بِاللّٰہِ : اللہ پر) (وَمَآ : اور اس پر جو) (اُنْزِلَ : اتارا گیا) (اِلَــیْنَا : ہماری طرف) (وَمَآ : اور اس پر جو) (اُنْزِلَ : اتارا گیا) (اِلٰی اِبْرٰھٖمَ : ابراہیم ؑ کی طرف) (وَاِسْمٰعِیْلَ : اور اسمٰعیل ؑ ) (ی طرف) (وَاِسْحٰقَ : اور اسحاقؑ کی طرف) (وَیَعْقُوْبَ : اور یعقوبؑ کی طرف) (وَالْاَسْبَاطِ : اور ان کی نسل کی طرف) (وَمَآ : اور اس پر جو) (اُوْتِیَ مُوْسٰی : دیا گیاموسٰی ؑ کو) (وَعِیْسٰی : اور عیسیٰ  ؑ کو) (وَمَآ : اور اس پر جو) (اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ : دیا گیا انبیاء ؑکو) (مِنْ رَّبِّھِمْ : ان کے رب کی جانب سے) (لَا نُفَرِّقُ : ہم فرق نہیں کرتے) (بَیْنَ اَحَدٍ : کسی ایک کے مابین) (مِّنْھُمْ : ان میں سے) (وَنَحْنُ لَــہٗ : اور ہم اس کے ہی) (مُسْلِمُوْنَ: فرمانبردار ہیں)



س ب ط

 سَبِطَ (س) سَبَطًا : بالوں کا سیدھا اور دراز ہونا۔

 سِبْطٌ ج اَسْبَاطٌ : اولاد کی اولادیں یعنی پوتے‘ نواسے اور ان کی اولاد۔ نسل۔ (آیت زیرِ مطالعہ)

 ترکیب : ’’ قُوْلُوْا‘‘ فعل امر ہے۔ ’’ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ‘‘ میں لفظ اللہ پر جو حرف جارہ ’’ بِ‘‘ ہے‘ یہ آگے چاروں جگہ لفظ ’’ مَا‘‘ سے پہلے محذوف ہے ‘ یعنی وہ دراصل ’’ بِمَا‘‘ ہیں۔ ’’ اِبْرٰھٖمَ‘‘ سے لے کر ’’ وَالْاَسْبَاطِ‘‘ تک تمام الفاظ ’’ اِلٰی‘‘ کے زیر اثر حالت جر میں ہیں۔ ’’ اُوْتِیَ‘‘ باب افعال کا ماضی مجہول ہے۔ ’’ مُوْسٰی‘ عِیْسٰی‘‘ اور ’’ النَّبِیُّوْنَ‘‘ اس کے نائب فاعل ہونے کی وجہ سے حالت رفع میں ہیں۔ ’’ نَحْنُ‘‘ مبتدأ ‘ ’’ مُسْلِمُوْنَ‘‘ خبر اور ’’ لَـہٗ‘‘ متعلق خبر مقدم ہے تاکید کے لئے۔’’ لَـہٗ‘‘ میں ’’ ٹہٗ‘‘ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ۚ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ   ١٣٧؁ۭ
(فَاِنْ اٰمَنُوْا : پس اگر وہ لوگ ایمان لائیں) (بِمِثْلِ مَا : اس کے مانند) (اٰمَنْتُمْ : تم لوگ ایمان لائے) (بِہٖ : جیسے ) (فَقَدِ اھْتَدَوْا : تو ان لوگوں نے ہدایت پا لی) ( وَاِنْ تَوَلَّوْا : اور اگر وہ لوگ اعراض کریں) (فَاِنَّمَا : تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ) (ھُمْ : وہ لوگ) (فِیْ شِقَاقٍ: مخالفت کرنے میں (اَڑے ہوئے) ہیں) (فَسَیَکْفِیْکَھُمُ: تو بےنیاز کرے گا آپؐ ‘ کو ان سے) ( اللّٰہُ : اللہ ) (وَھُوَ : اور وہی) (السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ: ہرحال میں سننے والا جاننے والا ہے)



ک ف ی

 کَفٰی (ض) کِفَایَۃً : (1) کسی ضرورت کی تکمیل کے لئے دوسروں سے بےنیاز ہونا۔ کافی ہونا (لازم ۔ اس مفہوم میں عموماً اس کے فاعل پر ’’ بَا‘‘ زائدہ آتا ہے ‘ یعنی اس کے کوئی معنی نہیں ہوتے‘ جیسے ’’ مَا‘‘ اور ’’ لَـیْسَ‘‘ کی خبر پر آتا ہے) ۔ {وَکَفٰی بِاللّٰہِ نَصِیْرًا ۔ } (النسائ) ’’ اور کافی ہے اللہ بطور مددگار کے‘‘۔ (2) کسی کو کسی سے بےنیاز کرنا (متعدی۔ اس مفہوم میں اس کے دو مفعول درکار ہوتے ہیں: کس کو بےنیاز کیا اور کس سے بےنیاز کیا۔ اور عموماً دونوں بنفسہ آتے ہیں) ۔ {اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِ یْنَ ۔ } (الحجر) ’’ بیشک ہم نے بےنیاز کیا آپؐ‘ کو مذاق اڑانے والوں سے‘‘۔

 کَافٍ (اسم الفاعل) : کافی ہونے والا‘ بےنیاز کرنے والا۔{ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ} (الزمر:36) ’’ کیا اللہ بےنیاز کرنے والا نہیں ہے اپنے بندے کو؟‘‘

 ترکیب : ’’ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَا اٰمَنْتُمْ بِہٖ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَقَدِ اھْتَدَوْا‘‘ جواب شرط ہے۔ اسی طرح ’’ وَاِنْ تَوَلَّوْا‘‘ شرط ہے اور ’’ فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ‘‘ جواب شرط ہے۔

 ’’ اٰمَنُوْا‘ اِھْتَدَوْا‘‘ اور ’’ تَوَلَّوْا‘‘ کے فاعل ان میں شامل’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیریں ہیں جو آیت نمبر۔135 میں مذکور یہود و نصاریٰ کے لئے ہیں۔ ’’ بِمِثْلِ مَا اٰمَنْتُمْ بِہٖ‘‘ ۔ ’’ بَا‘‘ زائدہ ہے اور مثل مصدر محذوف ’’ اِیْمَانًا‘‘ کی صفت ہے۔ ’’ مَا‘‘ مصدریہ ہے اور تقدیر عبارت یوں ہے: ’’ فَاِنْ اٰمَنُوْا اِیْمَانًا مِثْلَ اِیْمَانِــکُمْ‘‘ ۔ یا ’’ مِثْل‘‘ زائد ہے اور ’’ مَا‘‘ بمعنی ’’ الَّذِیْ‘‘ ہے اور عبارت یوں ہے : ’’ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْ اٰمَنْتُمْ بِہٖ‘‘ ۔ ’’ ھُمْ‘‘ مبتدأ ہے ‘ اس کی خبر محذوف ہے جو ’’ قَائِمٌ‘‘ یا ’’ رَاسِخٌ‘‘ ہو سکتی ہے‘ جبکہ ’’ فِیْ شِقَاقٍ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ ’’ سَیَکْفِیْ‘‘ کا فاعل’’ اَللّٰہُ‘‘ ہے۔ اس کا مفعولِ اوّل ’’ کَ‘‘ کی ضمیر ہے جو حضور ﷺ کے لئے ہے اور مفعول ثانی ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو یہود و نصاریٰ کے لئے ہے۔

 نوٹ (1) : آیت 13 میں جو بات {کَمَا اٰمَنَ النَّاسُ} کے الفاظ میں کہی گئی تھی وہی بات اس آیت میں {بِمِثْلِ مَا اٰمَنْتُمْ بِہٖ} کے الفاظ میں کہی گئی ہے۔ اس حوالہ سے یہ بات دوبارہ ذہن نشین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس وہی ایمان مقبول ہے جو صحابۂ کرام کے ایمان جیسا ہو۔ غیر مستند اور خود ساختہ توہمات پر ایمان لانا نیکی نہیں ہے۔ ان کو قرآن مجید میں ’’ اَ مَانِی‘‘ کہا گیا ہے۔ صِبْغَةَ اللّٰهِ ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً ۡ وَّنَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ   ١٣٨؁
(صِبْغَۃَ اللّٰہِ : (ہم قبول کرتے ہیں) اللہ کے دین کو) (وَمَنْ : اور کون) (اَحْسَنُ : زیادہ اچھا ہے) (مِنَ اللّٰہِ : اللہ سے) (صِبْغَۃً : بلحاظ دین کے) (وَنَحْنُ : اور ہم) (لَــہٗ : اس کی ہی ) (عٰبِدُوْنَ: بندگی کرنے والے ہیں)



ص ب غ

 صَبَغَ (ف) صَبْغًا : کسی پر کوئی رنگ چڑھانا۔ بپتسمہ دینا۔ مذہب میں پختہ کرنا۔

 صِبْغَۃٌ : مذہب کا رنگ ‘ بپتسمہ کا رنگ‘ دین ( آیت زیرِ مطالعہ)

 صِبْغٌ : سالن یا سرکہ وغیرہ (کیونکہ ان میں پانی پر کوئی رنگ چڑھ جاتا ہے) ۔ { تَنْبُتُ بِالدُّھْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰکِلِیْنَ} (المؤمنون:20) ’’ وہ اُگتا ہے چکنائی کے ساتھ اور سالن کے ساتھ کھانوں والوں کے لئے۔‘‘

 ترکیب : ’’ صِبْغَۃَ اللّٰہِ‘‘ میں مضاف کی نصب بتار ہی ہے کہ یہ مرکب اضافی مفعول ہے اور اس کا فعل محذوف ہے جو کہ نَقْبَلُ یا ’’ اِتَّبِعُوْا‘‘ ہو سکتا ہے۔ یا یہ بدل ہے ’’ مِلَّۃَ اِبْرٰھٖمَ‘‘ سے۔ ’’ مَنْ‘‘ مبتدأ‘ ’’ اَحْسَنُ‘‘ خبر اور ’’ مِنَ اللّٰہِ‘‘ متعلق خبر ہے ‘ جبکہ ’’ صِبْغَۃً‘ اَحْسَنُ‘‘ کی تمیز ہے۔ ’’ نَحْنُ‘‘ مبتدأ اور ’’ عٰبِدُوْنَ‘‘ خبر ہے ‘ جبکہ متعلق خبر ’’ لَـہٗ‘‘ کو تاکید کے لئے مقدم کیا گیا ہے۔ قُلْ اَتُحَاۗجُّوْنَـــنَا فِي اللّٰهِ وَھُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۚ وَلَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۚ وَنَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَ    ١٣٩؁
(قُلْ : کہو) (اَتُحَآجُّوْنَنَا: کیا تم لوگ دلیل بازی کرتے ہو ہم سے؟) ( فِی اللّٰہِ : اللہ (کے بارے ) میں) (وَھُوَ رَبُّنَا ) (حالانکہ وہ ہمارا رب ہے) (وَرَبُّــکُمْ : اور تمہارا رب ہے) (وَلَنَـآ : اور ہمارے لئے ہی ہیں) (اَعْمَالُــنَا : ہمارے اعمال) (وَلَــکُمْ : اور تمہارے لئے ہی ہیں) (اَعْمَالُــکُمْ : تمہارے اعمال) ( وَنَحْنُ : اور ہم ) (لَــہٗ : اس کے لئے ہی ) (مُخْلِصُوْنَ: خالص کرنے والے ہیں (اپنے اعمال کو)



 ترکیب : ’’ اَتُحَاجُّوْنَنَا‘‘ میں ہمزہ استفہام کا ہے۔’’ تُحَاجُّوْنَ‘‘ فعل مضارع ہے اور اس کے ساتھ ضمیر مفعولی’’ نَا‘‘ ہے۔ ’’ وَھُوَ رَبُّنَا‘‘ کا واوحالیہ ہے۔ ’’ ھُوَ‘‘ مبتدأ’’ رَبُّنَا‘‘ خبر اوّل اور’’ رَبُّـکُمْ‘‘ خبر ثانی ہے۔ ’’ اَعْمَالُنَا‘‘ مبتدأ مؤخر ہے اور اس کی خبر محذوف ہے جبکہ ’’ لَنَا‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔’’ نَحْنُ‘‘ مبتدأ ’’ لَـہٗ‘‘ متعلق خبر مقدم اور اسم الفاعل’’ مُخْلِصُوْنَ‘‘ خبر بھی ہے اور فعل کا کام بھی کر رہا ہے۔ اس کا مفعول’’ اَعْمَالَنَا‘‘ محذوف ہے۔



 نوٹ (1) : عمل کو ملاوٹ سے پاک کرنے یعنی خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے عمل کرے اور اسی سے اجر و ثواب کی امید رکھے۔ اللہ کے سوا کسی سے نہ تو اجر کی توقع کرے اور نہ ہی مدح و ستائش کی خواہش دل میں پیدا ہونے دے۔

 ’’ بعض بزرگوں کا قول ہے کہ اخلاص ایک ایسا عمل ہے جس کو نہ تو فرشتے پہچان سکتے ہیں اور نہ شیطان‘ وہ صرف بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک راز ہے‘‘۔ (معارف القرآن) اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى ۭ قُلْ ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰهُ ۭ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ   ١٤٠؁
(اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ : یا تم لوگ کہتے ہو کہ) (َ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ: ابراہیم ؑ اور اسماعیل ) (ؑاور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور ان کی اولادیں‘) (کَانُوْا : وہ سب تھے) (ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی : یہودی یا عیسائی) (قُلْ : کہو) (ئَ اَنْتُمْ : کیا تم لوگ) (اَعْلَمُ : زیادہ جانتے ہو ) (اَمِ اللّٰہُ : یا اللہ (زیادہ جانتا ہے) وَمَنْ : اور کون ) (اَظْلَمُ: زیادہ ظالم ہے) (مِمَّنْ : اس سے جس نے ) (کَتَمَ : چھپایا) (شَھَادَۃً : اس گواہی کو جو ) (عِنْدَہٗ : اس کے پاس ہے ) (مِنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے) (وَمَا اللّٰہُ : اور اللہ) (بِغَافِلٍ : غافل نہیں ہے ) () (عَمَّا : اس سے جو) (تَعْمَلُوْنَ: تم لوگ کرتے ہو)





 ترکیب : ’’ اِبْرٰھٖمَ‘‘ سے لے کر ’’ وَالْاَسْبَاطَ‘‘ تک‘ یہ سب ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم ہے‘ جبکہ ’’ اِنَّ‘‘ کی خبر کے طور پر پورا جملہ آیا ہے جو کہ ’’ کَانُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی‘‘ ہے۔ اس جملہ میں ’’ کَانُوْا‘‘ کا اسم اس میں شامل ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو کہ ’’ اِبْرٰھٖمَ‘‘ سے لے کر ’’ وَالْاَسْبَاطَ‘‘ تک سب کے لئے ہے۔ جبکہ اس کی خبر ’’ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی‘‘ ہے۔ ’’ئَ اَنْتُمْ‘‘ مبتدأ اور ’’ اَعْلَمُ‘‘ خبر ہے۔ ’’ اَمِ اللّٰہُ‘‘ پھر مبتدأ ہے اور اس کی خبر ’’ اَعْلَمُ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ استفہامیہ مبتدأ اور ’’ اَظْلَمُ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ مِمَّنْ‘‘ اصل میں ’’ مِنْ مَنْ‘‘ ہے۔ یہ ’’ مَنْ‘‘ استفہامیہ بھی مبتدأ ہے اور ’’ کَتَمَ‘‘ سے لے کر’’ مِنَ اللّٰہِ‘‘ تک پورا جملہ فعلیہ اس کی خبر ہے۔ ’’ کَتَمَ‘‘ فعل‘ اس کا فاعل اس میں شامل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مَنْ‘‘ کے لئے ہے۔ اس کا مفعول ’’ شَھَادَۃً‘‘ ہے جو نکرہ مخصوصہ ہے۔ ’’ کُنْتُمْ‘‘ متعدی بہ دہ مفعول ہوتا ہے‘ دوسرا مفعول محذوف ہے اور عبارت یوں ہے: ’’ کَتَمَ النَّاسُ شَھَادَۃً‘‘ اور ’’ عِنْدَہٗ‘‘ اور ’’ مِنَ اللّٰہِ‘‘ یہ دونوں’’ شَھَادَۃً‘‘ کی صفات ہیں۔ جبکہ ’’ عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ‘‘ اس کی خصوصیت ہے۔ لفظ’’ اَللّٰہُ‘‘ مَا نافیہ کا اسم ہے اور ’’ بِغَافِلٍ‘‘ اس کی خبر ہے۔ جبکہ ’’ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ عَمَّا‘‘ دراصل ’’ عَنْ مَا‘‘ ہے۔ تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـَٔـلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   ١٤١؁ۧ
(تِلْکَ : وہ) (اُمَّــۃٌ : ایک امت ہے جو) (قَدْ خَلَتْ : گزر چکی ہے) ( لَھَا : اس کے لئے ہی ہے ) (مَا کَسَبَتْ : وہ جو اس نے کمایا) (وَلَــکُمْ : اور تم لوگوں کے لئے ہی ہے ) (مَّا کَسَبْتُمْ : وہ جو تم لوگوں نے کمایا) (وَلَا تُسْئَلُوْنَ : اور تم لوگوں سے نہیں پوچھا جائے گا) (عَمَّا : اس کے بارے میں جو ) (کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ: وہ لوگ کیا کرتے تھے)