قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
پارہ دہم

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ  ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ    41؀
وَاعْلَمُوْٓا [ اور جان لو]اَنَّـمَا [ کہ جو کچھ ]غَنِمْتُمْ [ تم لوگوں نے غنیمت حاصل کی ]مِّنْ شَيْءٍ [ کوئی بھی چیز ]فَاَنَّ [ تو یہ کہ ]لِلّٰهِ [ اللہ کے لیے]خُمُسَهٗ [ اس کا پانچواں حصہ ہے ]وَلِلرَّسُوْلِ [ اور ان رسول کے لیے ہے ]وَلِذِي الْقُرْبٰي [ اور قرابتداروں کے لیے ہے]وَالْيَتٰمٰي [ اور یتیموں کے لیے ہے ]وَالْمَسٰكِيْنِ [ اور مسکینوں کے لیے ہے ]وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ [ اور مسافر کے لیے ہے]اِنْ [ اگر ]كُنْتُمْ [ تم لوگ ]اٰمَنْتُمْ [ ایمان لائے ]بِاللّٰهِ [ اللہ پر ]وَمَآ [ اور اس پر جو ]اَنْزَلْنَا [ ہم نے اتارا ]عَلٰي عَبْدِنَا [ اپنے بندے پر ]يَوْمَ الْفُرْقَانِ [ فیصلے کے دن ]يَوْمَ [ جس دن ] الْتَقَى [ آمنے سامنے ہوئیں ] الْجَمْعٰنِ ۭ [ دو جماعتیں ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز پر ]قَدِيْرٌ [ قدرت رکھنے والا ]



 (آیت ۔ 41) انما ایک لفظ یعنی کلمہ حصر نہیں ہے بلکہ ان اور ما موصولہ کو ملا کر لکھا گیا ہے جو کہ قرآن مجید کا مخصوص املا ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔2: 11۔ 12، نوٹ ۔2) ۔

اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰي وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ  ۭوَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ  ۙ وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا  ڏ لِّيَهْلِكَ مَنْ  هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَةٍ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَسَمِيْعٌ عَلِيْمٌ      42؀
اِذْ [ جب ]اَنْتُمْ [ تم لوگ تھے ]بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا [ نزدیکی کنارہ پر ]وَهُمْ [ اور وہ لوگ تھے ]بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰي [ دور والے کنارہ پر ]وَالرَّكْبُ [ اور سواروں کا دستہ (یعنی قافلہ ) ]اَسْفَلَ [ زیادہ نشیب میں تھا]مِنْكُمْ ۭ [ تم سے ]وَلَوْ [ اور اگر ]تَوَاعَدْتُّمْ [ تم باہم معاہدہ کرتے ]لَاخْتَلَفْتُمْ [ تو ضرور اختلاف کرتے ]فِي الْمِيْعٰدِ ۙ [ مقررہ وقت میں ]وَلٰكِنْ [ اور لیکن ]لِّيَقْضِيَ [ تاکہ پورا کرلے ] اللّٰهُ [ اللہ ]اَمْرًا [ ایک ایسے کام کو جو ]كَانَ [ تھا ]مَفْعُوْلًا ڏ [ کیا جانے والا ]لِّيَهْلِكَ [ تاکہ وہ ہلاک ہو]مَنْ : جو] [ هَلَكَ : [ ہلاک ہوا ]عَنْۢ بَيِّنَةٍ [ روشن (دلیل ) سے]وَّيَحْيٰي [ اور وہ زندہ رہے ]مَنْ [ جو ]حَيَّ [ زندہ رہا ]عَنْۢ بَيِّنَةٍ ۭ [ روشن (دلیل ) سے ]وَاِنَّ اللّٰهَ [ اور بیشک اللہ ]لَسَمِيْعٌ [ تو یقینا سننے والا ہے]عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]



ق ص و ۔ (ن، س) : قصوا اور قصا دور ہونا ۔ قصی ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے۔ دور فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِيًّا [ پھر وہ گوشہ نشین ہوئیں اس کے ساتھ ایک دور والے مکان میں] 19:22۔ اقصی ۔ مؤنث قصوی ، افعل تفضیل ہے ۔ زیادہ دور ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 42۔ اور وَجَاۗءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰى [ اور آیا ایک شخص شہر کے زیادہ دور سے دوڑتا ہوا ] 28:20۔



 (آیت ۔ 42) الرکب مبتدا ہے اور اسفل اس کی خبر ہے جو کہ افعل التفضیل ہے اور ظرف ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے ۔ اس جملہ اسمیہ کاترجمہ ماضی میں ہوگا کیونکہ بات کی ابتدا اذ سے ہوئی ہے ۔ لیھلک کی لام کی پر عطف ہونے کی وجہ سے یحیی محلا حالت نصب میں ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ    45؀ۚ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ [ اے لوگو! جو ]اٰمَنُوْٓا [ ایمان لائے ]اِذَا [ جب بھی]لَقِيْتُمْ [ تم لوگ سامنے آؤ]فِئَةً [ کسی جماعت کے ]فَاثْبُتُوْا [ تو تم لوگ ڈٹے رہو ]وَاذْكُرُوا [ اور یاد کرو] اللّٰهَ [ اللہ کو ]كَثِيْرًا [ کثرت سے]لَّعَلَّكُمْ [ شاید تم لوگ ]تُفْلِحُوْنَ [ مراد پاؤ]

وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ    46؀ۚ
وَاَطِيْعُوا [ اور اطاعت کرو ] اللّٰهَ [ اللہ کی ]وَرَسُوْلَهٗ [ اور اس کے رسول کی ]وَلَا تَنَازَعُوْا [ اور آپس میں کھینچا تانی مت کرو]فَتَفْشَلُوْا [ نتیجتا تم لوگ ہمت ہار جاؤگے] وَتَذْهَبَ [ اور نتیجتا اکھڑ جائیگی ]رِيْحُكُمْ [ تمہاری ہوا ]وَاصْبِرُوْا ۭ [ اور ثابت قدم رہو ]اِنَّ اللّٰهَ [ یقینا اللہ ] [ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ: ثابت قدموں کے ساتھ ہے ]



ترکیب : (آیت ۔ 46) فتفشلوا کا فاسببیہ ہے اور اسی پر عطف ہونے کی وجہ سے تذھب بھی حالت نصب میں آیا ہے۔



نوٹ ۔ 1: آیت ۔ 46 میں لا تنازعوا فرمایا ہے یعنی باہمی کشاکش کو روکا ہے ، رائے کے اختلاف یا اس کے اظہار سے منع نہیں کیا ، اختلاف رائے جو دیانت اور اخلاص کے ساتھ ہو وہ کبھی نزاع کی صورت اختیار نہیں کرتا ۔ نزاع وجدال وہیں ہوتا ہے جہاں اختلاف رائے کے ساتھ اپنی بات منوانے اور دوسرے کی بات نہ ماننے کا جذبہ کام کررہا ہو۔ (معارف القرآن )

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا وَّرِئَاۗءَ النَّاسِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ  ۭوَاللّٰهُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ   47؀
وَلَا تَكُوْنُوْا [ اور تم لوگ مت ہونا ] كَالَّذِيْنَ [ ان لوگوں جیسے جو ]خَرَجُوْا [ نکلے ]مِنْ دِيَارِهِمْ [ اپنے گھروں سے ]بَطَرًا [ اتراتے ہوئے]وَّرِئَاۗءَ النَّاسِ [ اور لوگوں کا دکھاوا کرتے ہوئے ]وَيَصُدُّوْنَ [ اور روکتے ہوئے]عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ: اللہ کی راہ سے ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]بِمَا [ اس کا جو ]يَعْمَلُوْنَ [ وہ لوگ کرتے ہیں ]مُحِيْطٌ [ احاطہ کرنے والا ہے ]



ب ط ر ،(س) ۔ بطرا ،(1) زیادہ نعمت پاکر بہک جانا ۔ اترا جانا ۔ (2) نعمت کی ناشکری کرنا ۔ ناقدری کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 47 اور وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍۢ بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَا [ اور ہم نے ہلاک کیں کتنی ہی ایسی بستیاں جنھوں نے ناقدری کی اپنی معیشت کی ] 28:58۔



 (آیت ۔ 47) بطرا اور رئاء الناس ، دونوں حال ہیں اور اس کے آگے پورا جملہ یصدون عن سبیل اللہ بھی حال ہے۔

وَاِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ ۚ فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْهِ وَقَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللّٰهَ  ۭوَاللّٰهُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ   48؀ۧ
وَاِذْ [ اور جب ]زَيَّنَ [ مزین کیا ]لَهُمُ [ ان کے لیے ] الشَّيْطٰنُ [ شیطان نے ] اَعْمَالَهُمْ [ ان کے اعمال کو ]وَقَالَ [ اور اس نے کہا ]لَا غَالِبَ [ کوئی غلبہ پانے والا نہیں ہے ]لَكُمُ [ تم لوگوں پر ] الْيَوْمَ [ آج کے دن ]مِنَ النَّاسِ [ لوگوں میں سے ]وَاِنِّىْ [ اور یہ کہ میں ]جَارٌ [ حمایتی ہوں ]لَّكُمْ ۚ [ تمہارے لیے ]فَلَمَّا [ پھر جب ]تَرَاۗءَتِ [ آمنے سامنے ہوئیں ] الْفِئَتٰنِ [ دو جماعتیں ]نَكَصَ [ تو وہ پلٹا ]عَلٰي عَقِبَيْهِ [ اپنی دونوں ایڑیوں پر ]وَقَالَ [ اور اس نے کہا ]اِنِّىْ [ کہ میں ] بَرِيْۗءٌ [ بری ہوں ]مِّنْكُمْ [ تم لوگوں سے ]اِنِّىْٓ [ بیشک میں ]اَرٰي [ دیکھتا ہوں ]مَا [ اس کو جو ]لَا تَرَوْنَ [ تم لوگ نہیں دیکھتے ]اِنِّىْٓ [ بیشک میں ]اَخَافُ [ ڈرتا ہوں ] اللّٰهَ ۭ [ اللہ سے ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]شَدِيْدُ الْعِقَابِ [ پکڑنے کا سخت ہے ]



ن ک ص : (ض) نکصا ۔ کسی چیز سے پیچھے ہٹنا ۔ پسپا ہونا ۔ پلٹنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 48۔

اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ ھٰٓؤُلَاۗءِ دِيْنُهُمْ  ۭوَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ     49؀
اِذْ [ جب ]يَقُوْلُ [ کہتے تھے ] الْمُنٰفِقُوْنَ [ منافق لوگ ]وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جن کے ]فِيْ قُلُوْبِهِمْ [ دلوں میں ]مَّرَضٌ [ اور ایک مرض تھا ]غَرَّ [ دھوکا دیا ]ھٰٓؤُلَاۗءِ [ ان کو ]دِيْنُهُمْ ۭ [ ان کے دین نے ] وَ [ حالانکہ ]مَنْ [ جو ]يَّتَوَكَّلْ [ بھروسہ کرتا ہے ]عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ]فَاِنَّ اللّٰهَ [ تو یقینا اللہ ]عَزِيْزٌ [ بالا دست ]حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے]

وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ يَتَوَفَّى الَّذِيْنَ كَفَرُوا   ۙ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ ۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ    50؀
وَلَوْ [ اور اگر ]تَرٰٓي [ آپ دیکھتے ]اِذْ [ جب ]يَتَوَفَّى [ پورا پورا لیتے تھے] الَّذِيْنَ [ ان کو جنھوں نے ]كَفَرُوا ۙ [ کفر کیا ] الْمَلٰۗىِٕكَةُ [ فرشتے ]يَضْرِبُوْنَ [ مارتے ہوئے]وُجُوْهَهُمْ [ ان کے چہروں کو ]وَاَدْبَارَهُمْ ۚ [ اور ان کی پیٹھوں کو ]وَذُوْقُوْا [ اور (کہتے ہوئے کہ ) چکھو]عَذَابَ الْحَرِيْقِ [ جلنے کا عذاب ]

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْكُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ     51؀ۙ
ذٰلِكَ [ یہ ]بِمَا [ بسبب اس کے ہے جو ]قَدَّمَتْ [ آگے بھیجا ]اَيْدِيْكُمْ [ تمہارے ہاتھوں نے ]وَاَنَّ [ اور یہ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ]لَيْسَ [ نہیں ہے]بِظَلَّامٍ [ کچھ بھی ظلم کرنے والا]لِّلْعَبِيْدِ [ بندوں پر ]



ترکیب : (آیت ۔ 51) لیس بظلام کا ترجمہ سمجھنے کے لیے آیت نمبر ۔ 3: 182، نوٹ ۔ 3 کو دوبارہ دیکھ لیں ۔

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ  ۭكَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ شَدِيْدُ الْعِقَابِ    52؀
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ [ فرعون کے پیروکاروں کی عادت کی طرح ]وَالَّذِيْنَ [ اور ان کی طرح جو ]مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ [ ان سے پہلے تھے]كَفَرُوْا [ انھوں نے انکار کیا ]بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی نشانیوں کا ]فَاَخَذَهُمُ [ تو پکڑ ان کو ] اللّٰهُ [ اللہ نے ]بِذُنُوْبِهِمْ ۭ [ ان کے گناہوں کے سبب سے]اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]قَوِيٌّ [ قوت والا ہے]شَدِيْدُ الْعِقَابِ [ پکڑنے کا سخت ہے ]

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ      53؀ۙ
ذٰلِكَ [ یہ ]بِاَنَّ [ اس سبب سے ہے کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ]لَمْ يَكُ [ ہر گز نہیں ہے] مُغَيِّرًا [ بدلنے والا ]نِّعْمَةً [ کسی ایسی نعمت کو ]اَنْعَمَهَا [ اس نے انعام کیا جسے ]عَلٰي قَوْمٍ [ کسی قوم پر ]حَتّٰي [ یہاں تک کہ ]يُغَيِّرُوْا [ وہ لوگ بدلیں ] مَا [ اس کو جو ]بِاَنْفُسِهِمْ ۙ [ ان کے جیبوں میں ہے ]وَاَنَّ [ اور یہ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ]سَمِيْعٌ [ سننے والا ہے ]عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]



 (آیت ۔ 53) بان کا اسم اللہ ہے ۔ اور لم یک مغیرا پورا جملہ اس کی خبر ہے ۔ اس جملہ میں لم یک دراصل لم یکن ہے۔ اس کا دونوں طرح استعمال جائز ہے۔ اور قرآن مجید میں بھی یہ دونوں طرح آیا ہے ۔ اس جملہ میں لم یک کا اسم ھو کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے جبکہ مغیرا اسم الفاعل ہے۔ اس نے فعل کا عمل کیا ہے ۔ اور نعمۃ اس کا مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ یغیروا کا فاعل اس میں ھم کی ضمیر ہے جو قوم کے لیے ہے ۔



نوٹ ۔1: اللہ تعالیٰ کی نعمت ورحمت تو اس کے رب العالمین ہونے کے نتیجہ میں خود بخود ہے ۔ البتہ اس نعمت کو قائم رکھنے کا ایک ضابطہ آیت نمبر 53 میں بیان کیا گیا ہے کہ جس قوم کو اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دیتے ہیں ، اسے اس وقت تک واپس نہیں لیتے جب تک وہ اپنے حالات اور اعمال کو بدل کر خود ہی اللہ کے عذاب کو دعوت نہ دے ۔

قریش کے متعلق تفسیر مظہری میں معتمد کتب تاریخ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ کلاب بن مرہ ، رسول اللہ
کے نسب میں تیسرے دادا ہیں، دین ابراہیم واسماعیل کے پابند اور اس پر قائم تھے، قصی بن کلاب کے زمانہ میں قریش میں بت پرستی کا آغاز ہوا ۔ ان سے پہلے کعب بن لوی ان کے دینی قائد تھے، وہ جمعہ کے روز سب کو جمع کرکے خطبہ دیا کرتے اور بتلایا کرتے تھے کہ ان کی اولاد میں خاتم الانبیاء ( ) پیدا ہوں گے ۔ ان کا اتباع سب پر لازم ہوگا ۔ جو ان پر ایمان نہ لائے گا اس کا کوئی عمل قبول نہ ہوگا ۔ آنحضرت کے بارے میں ان کے عربی اشعار شعراء جاہلیت میں مشہور ومعروف ہیں ۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)

قریش نے بت پرستی اختیار کرکے اور رسول اللہ
کی مخالفت کرکے اپنی موت وہلاکت کو دعوت دی ۔

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ فَاَهْلَكْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ ۚ وَكُلٌّ كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ    54؀
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ [ فرعون کے پیروکاروں کی عادت کی طرح ]وَالَّذِيْنَ [ اور ان کی طرح جو ]مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ [ ان سے پہلے تھے ]كَذَّبُوْا [ انھوں نے جھٹلایا ]بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ [ اپنے رب کی نشانیوں کو ]فَاَهْلَكْنٰهُمْ [ تو ہم نے ہلاک کیا ان کو ]بِذُنُوْبِهِمْ [ ان کے گناہوں کے سبب سے ]وَاَغْرَقْنَآ [ اور ہم نے غرق کیا ]اٰلَ فِرْعَوْنَ ۚ [ فرعون کے پیروکاروں کو ]وَكُلٌّ [ اور سب کے سب ]كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والے تھے ]

اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ   55؀ڻ
اِنَّ [ بیشک ]شَرَّ الدَّوَاۗبِّ [ چلنے والے جانداروں کے بدترین ]عِنْدَ اللّٰهِ [ اللہ کے نزدیک ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ]كَفَرُوْا [ کفر کیا ]فَهُمْ [ پھر وہ لوگ ]لَا يُؤْمِنُوْنَ: ایمان نہیں لاتے ہیں ]

اَلَّذِيْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِيْ كُلِّ مَرَّةٍ  وَّهُمْ لَا يَتَّقُوْنَ     56؀
اَلَّذِيْنَ [ وہ لوگ ]عٰهَدْتَّ [ آپ نے معاہدہ کیا ]مِنْهُمْ [ جن سے ]ثُمَّ [ پھر ] يَنْقُضُوْنَ [ وہ توڑتے ہیں ]عَهْدَهُمْ [ اپنے عہد کو ]فِيْ كُلِّ مَرَّةٍ [ ہر بار ]وَّهُمْ [ اور وہ لوگ ]لَا يَتَّقُوْنَ [ ڈرتے نہیں (عہد توڑنے سے ) ]



 (آیت ۔ 56) لا یتقون کا مفعول نقض العھد محذوف ہے۔

فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ    57؀
فَاِمَّا [ تو اگر کبھی بھی ]تَثْقَفَنَّهُمْ [ آپ پائیں ان کو ]فِي الْحَرْبِ [ جنگ میں ]فَشَرِّدْ [ تو آپ بھگائیں]بِهِمْ [ ان کے ذریعہ سے]مَّنْ [ ان کو جو]خَلْفَهُمْ [ ان کے پیچھے ہیں ]لَعَلَّهُمْ [ شاید وہ لوگ ]يَذَّكَّرُوْنَ [ نصیحت حاصل کریں ]



ش ر د : (ن) شردا ۔ بدکنا ۔ بھاگنا ۔ (تفعیل ) تشریدا ،ڈرانا ۔ بھگانا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 57۔



 (آیت ۔ 57) فشرد کا مفعول من ہے جبکہ خلفہم ظرف ہونے کی وجہ سے نصیب میں ہے۔

وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ   58؀ۧ
وَاِمَّا [ اور اگر کبھی بھی ]تَخَافَنَّ [ آپ کو خوف ہو ]مِنْ قَوْمٍ [ کسی قوم سے ]خِيَانَةً [ کسی خیانت کا (معاہدہ میں )]فَانْۢبِذْ [ تو آپ پھینک دیں (معاہدہ کو ) ]اِلَيْهِمْ [ ان کی طرف ]عَلٰي سَوَاۗءٍ ۭ [ برابر برابر پر ]اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]لَا يُحِبُّ [ پسند نہیں کرتا ] الْخَاۗىِٕنِيْنَ [ خیانت کرنے والوں کو ]



نوٹ ۔2: آیت ۔ 58 کی رو سے ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اگر کسی سے ہمارا معاہدہ ہو اور ہمیں اس کے طرز عمل سے یہ شکایت ہوجائے کہ وہ عہد کی پابندی میں کوتاہی برت رہا ہے یا یہ اندیشہ ہو کہ موقع پاتے ہی وہ ہمارے ساتھ غداری کرے گا ، تو ہم اپنی جگہ خود فیصلہ کرلیں کہ اب معاہد نہیں رہا۔ اس کے برعکس اس آیت میں ہمیں پابند کیا گیا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو کوئی کاروائی کرنے سے پہلے فریق ثانی کو بتادیں کہ اب معاہدہ باقی نہیں رہا تاکہ فسخ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو حاصل ہے ویسا ہی اس کو بھی ہوجائے ۔ ( فَانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ کا یہی مطلب ہے ) البتہ اگر فریق ثانی علی الاعلان معاہدہ توڑ چکا ہو اور اس نے صریح طور پر ہمارے خلاف معاندانہ کاروائی کی ہو تو ایسی صورت میں فسخ معاہدہ کا نوٹس دینا ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ ہمیں بلا اطلاع جنگی کاروائی کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔ اس کی سند یہ ہے کہ قریش نکے جب بنی خزایہ کے معاملہ میں صلح حدیبیہ کو اعلانیہ توڑ دیا تو رسول اللہ
نے انھیں فسخ معاہدہ کا نوٹس دینے ضرورت نہیں سمجھی اور بلا اطلاع مکہ پر چڑھائی کی ۔ (تفہیم القرآن )

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا  ۭ اِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ     59؀
وَلَا يَحْسَبَنَّ [ اور ہر گز گمان نہ کریں ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] كَفَرُوْا [ کفر کیا ]سَبَقُوْا ۭ [ (کہ ) وہ لوگ بھاگ نکلے]اِنَّهُمْ [ یقینا وہ لوگ]لَا يُعْجِزُوْنَ [ عاجز نہیں کریں گے (ہم کو ) ]

وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ ۭوَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ     60؀
وَاَعِدُّوْا [ اور تم لوگ تیار کرو]لَهُمْ [ ان کے لیے ]مَّا [ اس کو جو ] اسْـتَـطَعْتُمْ [ تمہارے بس میں ہے ]مِّنْ قُوَّةٍ [ قوت میں سے ]وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ [ اور گھوڑوں کے تیار کرنے سے ]تُرْهِبُوْنَ [ تم لوگ دھاک بٹھاؤگے ]بِهٖ [ اس سے ]عَدُوَّ اللّٰهِ [ اللہ کے دشمنوں پر ]وَعَدُوَّكُمْ [ اور اپنے دشمنوں پر ]وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ [ ان کے علاوہ میں سے ]لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ [ تم لوگ نہیں جانتے ان کو ]اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ ۭ [ اللہ جانتا ہے ان کو ]وَمَا [ اور جو ]تُنْفِقُوْا [ تم لوگ خرچ کروگے ]مِنْ شَيْءٍ [ کس چیز میں سے ]فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ میں ]يُوَفَّ [ تو اس کو پورا پورا لوٹایا جائے گا ]اِلَيْكُمْ [ تمہاری طرف ]وَاَنْتُمْ [ اور تم پر ]لَا تُظْلَمُوْنَ [ ظلم نہیں کیا جائے گا ]



نوٹ ۔ 1: عرب کا عام دستور یہ تھا کہ جب کوئی مہم پیش آتی تو رضا کار سپاہی ، جو سامان اسے میسر ہوتا ، اس کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ۔ آیت نمبر ۔ 60 میں ہدایت کی گئی ہے کہ سامان جنگ اور ایک مستقل فوج (
Standing Army) ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوری جنگی کاروائی کی جاسکے ۔

وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ  ۭاِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ       61؀
وَاِنْ [ اور اگر ]جَنَحُوْا [ وہ لوگ مائل ہوں ]لِلسَّلْمِ [ صلح کے لیے]فَاجْنَحْ [ تو آپ بھی مائل ہوں ]لَهَا [ اس کے لیے ]وَتَوَكَّلْ [ اور آپ بھروسہ رکھیں ]عَلَي اللّٰهِ ۭ [ اللہ پر ]اِنَّهٗ [ بیشک وہ ]هُوَ السَّمِيْعُ [ ہی سننے والا ہے ] الْعَلِيْمُ [ جاننے والا ہے ]

وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُ   ۭهُوَ الَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ     62؀ۙ
وَاِنْ [ اور اگر ]يُّرِيْدُوْٓا [ وہ لوگ ارادہ کریں ]اَنْ [ کہ ]يَّخْدَعُوْكَ [ وہ دھوکہ دیں آپ کو ]فَاِنَّ [ تو بیشک ]حَسْبَكَ [ کافی ہے آپ کو ] اللّٰهُ ۭ [ اللہ ]هُوَ [ وہ ] الَّذِيْٓ [ وہ ہے جس نے ]اَيَّدَكَ [ تقویت دی آپ کو ]بِنَصْرِهٖ [ اپنی مدد کے ذریعہ سے ]وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ [ اور مومنوں کے ذریعہ سے ]

وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ  ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۭاِنَّهٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ      63؀
وَاَلَّفَ [ اور اس نے محبت پیدا کی ]بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ ۭ [ ان کے دلوں کے مابین ]لَوْ [ اگر ]اَنْفَقْتَ [ آپ خرچ کرتے ]مَا [ اس کو جو ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ہے] جَمِيْعًا [ سب کا سب ]مَّآ اَلَّفْتَ [ تو آپ محبت پیدا نہ کرسکتے ]بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ [ ان کے دلوں کے مابین ]وَلٰكِنَّ [ اور لیکن ] اللّٰهَ [ اللہ نے ]اَلَّفَ [ محبت پیداکی ]بَيْنَهُمْ ۭ [ ان کے مابین ]اِنَّهٗ [ بیشک وہ ]عَزِيْزٌ [ بالا دست ہے]حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے ]

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ     64؀ۧ
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ [ اے نبی ]حَسْبُكَ [ کافی ہے آپ کو ] اللّٰهُ [ اللہ ]وَمَنِ [ اور ان کو جو ] اتَّبَعَكَ [ ہم قدم رہے آپ کے]مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ مومنوں میں سے ]

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ ۭاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا  مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ     65؀
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ [ اے نبی ]حَرِّضِ [ آپ اکسائیں ] الْمُؤْمِنِيْنَ [ مومنوں کو ]عَلَي الْقِتَالِ ۭ [ جنگ پر ]اِنْ [ اگر]يَّكُنْ [ ہوں کے ]مِّنْكُمْ [ تم میں سے]عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ [ ثابت قدم رہنے والے ہیں ]يَغْلِبُوْا [ تو وہ غالب ہوں گے ]مِائَـتَيْنِ ۚ [ دوسوپر ]وَاِنْ [ اور اگر ]يَّكُنْ [ ہوں گے ]مِّنْكُمْ [ تم میں سے ]مِّائَةٌ [ (ثابت قدم رہنے والے) ایک سو]يَّغْلِبُوْٓا [ تو وہ غالب ہوں گے]اَلْفًا [ ایک ہزار پر ]مِّنَ الَّذِيْنَ [ ان میں سے جنھوں نے]كَفَرُوْا [ کفر کیا ]بِاَنَّهُمْ [ اس سبب سے کہ وہ لوگ ]قَوْمٌ [ ایک ایسی قوم ہیں جو ]لَّا يَفْقَهُوْنَ [ سوجھ بوجھ نہیں رکھتے]



نوٹ ۔ 1: آج کل کی اصطلاح میں جس چیز کو اخلاقی قوت (
Morale) کہتے ہیں ، آیت ۔ 65 میں اسی کو فقہ یعنی سمجھ بوجھ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ لفظ اس مفہوم کے لیے جدید اصطلاح سے زیادہ سائنٹیفک ہے۔ جو شخص اپنے مقصد کا صحیح شعور رکھتا ہو اور ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر اس لیے لڑ رہا ہو کہ اس مقصد کے ضائع ہوجانے کے بعد جینا بےقیمت ہے ، وہ بےشعوری سے لڑنے والے آدمی سے کئی گنا زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ پھر جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی ، اس کے ساتھ اپنے تعلق ، حیات دنیا ، حیات بعد موت وغیرہ کی حقیقتوں کو اچھی طرح سمجھتا ہو، اس کی طاقت کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو قومیت یا وطنیت کا شعور لیے ہوئے میدان میں آئیں ۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ ایک سوجھ بوجھ رکھنے والے مومن اور ایک کافر کے درمیان ، حقیقت کے شعور اور عدم شعور کی وجہ سے فطرۃ ایک اور دس کی نسبت ہے لیکن اس کے ساتھ صبر کی صفت بھی ایک لازمی شرط ہے۔ (تفہیم القرآن )

اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا  ۭفَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفَيْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِ  ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ   66؀
اَلْئٰنَ [ اب]خَفَّفَ [ ہلکا کیا (بوجھ) ] اللّٰهُ [ اللہ نے]عَنْكُمْ [ تم لوگوں سے ] وَعَلِمَ [ اور اس نے جانا ]اَنَّ [ کہ ]فِيْكُمْ [ تم لوگوں میں ]ضَعْفًا ۭ [ کچھ کمزوری ہے ]فَاِنْ [ پس اگر ]يَّكُنْ [ ہوں گے ]مِّنْكُمْ [ تم میں سے ]مِّائَةٌ صَابِرَةٌ [ ثابت قدم رہنے والے ایک سو ]يَّغْلِبُوْا [ تو وہ غالب ہوں گے ]مِائَتَيْنِ ۚ [ دو سو پر ]وَاِنْ [ اور اگر ]يَّكُنْ [ ہوں گے]مِّنْكُمْ [ تم میں سے ]اَلْفٌ [ (ثابت قدم رہنے والے ] ایک ہزار ]يَّغْلِبُوْٓا [ تو وہ غالب ہوں گے ]اَلْفَيْنِ [ دو ہزار پر ]بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کی اجازت سے ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]مَعَ الصّٰبِرِيْنَ [ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے ]

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ  ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا  ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ    ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ      67؀
مَا كَانَ [ نہیں ہے (مناسب ) ]لِنَبِيٍّ [ کسی نبی کے لیے]اَنْ [ کہ ]يَّكُوْنَ [ ہوں ]لَهٗٓ [ اس کے لیے ]اَسْرٰي [ کچھ قیدی ]حَتّٰي [ یہاں تک کہ ]يُثْخِنَ [ وہ خوب خونریزی کرے]فِي الْاَرْضِ ۭ [ زمین میں ]تُرِيْدُوْنَ [ تم لوگ چاہتے ہو ]عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ [ دنیا کا سامان ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]يُرِيْدُ [ چاہتا ہے ] الْاٰخِرَةَ ۭ [ آخرت کو ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]عَزِيْزٌ [ بالادست ہے ]حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے ]



ث خ ن : (ک) ثخانۃ ۔ گاڑھا ہونا ۔ (افعال ) اثخانا ۔ گاڑھا کرنا ۔ پھر استعارۃ خوب خونریزی کرنے کے لیے آتا ہے۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 67۔



نوٹ۔2: جنگ بدر میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں لگ گیا اور بہت کم لوگوں نے کچھ دور تک دشمنوں کا تعاقب کیا ، حالانکہ اگر مسلمان پوری طاقت سے ان کا تعاقب کرتے تو قریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہوگیا ہوتا ، مسلمانوں کی اس روش پر آیت نمبر۔ 67 میں اللہ تعالیٰ نے گرفت کی ہے اور بتایا ہے کہ تم لوگ ابھی نبی کے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجھے ہو ۔ نبی اصل کام یہ نہیں ہے کہ فدیے اور غنائم وصول کرکے خزانے بھرے، بلکہ اس کے نصب العین سے جو چیز براہ راست تعلق رکھتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے۔ (تفہیم القرآن )

لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِــيْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ      68؀
لَوْلَا [ اگر نہ ہوتا]كِتٰبٌ [ لکھا ہوا ]مِّنَ اللّٰهِ [ اللہ (کی طرف ) سے ]سَبَقَ [ پہلے سے ]لَمَسَّكُمْ [ تو ضرور چھوتا تم کو ]فِــيْمَآ [ اس میں جو ]اَخَذْتُمْ [ تم لوگوں نے لیا]عَذَابٌ عَظِيْمٌ [ ایک بڑا عذاب ]

فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا    ڮ وَّاتَّقُوا اللّٰهَ   ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ      69؀ۧ
فَكُلُوْا [ پس تم لوگ کھاؤ]مِمَّا [ اس میں سے جو ]غَنِمْتُمْ [ تم نے غنیمت حاصل کی ]حَلٰلًا [ حلال ہوتے ہوئے ]طَيِّبًا ڮ [ پاکیزہ ہوتے ہوئے]وَّاتَّقُوا [ اور تقوی اختیار کرو] اللّٰهَ ۭ [ اللہ کا ]اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]غَفُوْرٌ [ بخشنے والا ہے]رَّحِيْمٌ [ رحم کرنے والا ہے]

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ قُلْ لِّمَنْ فِيْٓ اَيْدِيْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓي  ۙ اِنْ يَّعْلَمِ اللّٰهُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ خَيْرًا يُّؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ      70؀
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ [ اے نبی ]قُلْ [ آپ کہہ دیجیے [ لِّمَنْ [ ان سے جو ]فِيْٓ اَيْدِيْكُمْ [ تمہارے ہاتھوں (یعنی قبضہ ) میں ہیں ]مِّنَ الْاَسْرٰٓي ۙ [ قیدیوں میں سے ]اِنْ [ اگر ]يَّعْلَمِ [ جانے گا ] اللّٰهُ [ اللہ ]فِيْ قُلُوْبِكُمْ [ تمہارے دلوں میں ]خَيْرًا [ کوئی بھلائی ]يُّؤْتِكُمْ [ تو وہ دے گا تم کو ]خَيْرًا مِّمَّآ [ اس سے بہتر جو ]اُخِذَ [ لیا گیا ]مِنْكُمْ [ تم سے ]وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ [ اور وہ بخش دے گا تم لوگوں کو ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]غَفُوْرٌ [ بےانتہا بخشنے والا ہے ]رَّحِيْمٌ [ ہرحال میں رحم کرنے والا ہے ]

وَاِنْ يُّرِيْدُوْا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْكَنَ مِنْهُمْ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ       71؀
وَاِنْ [ اور اگر ]يُّرِيْدُوْا [ وہ ارادہ کریں گے ]خِيَانَتَكَ [ آپ سے خیانت کا ]فَقَدْ خَانُوا [ تو انہوں نے خیانت کی ہے ] اللّٰهَ [ اللہ سے ]مِنْ قَبْلُ [ اس سے پہلے] فَاَمْكَنَ [ نتیجتا اس نے (آپ کے ) قابو میں دیا ] [ مِنْهُمْ ۭ : ان کو] [ وَاللّٰهُ : اور اللہ ] [ عَلِيْمٌ : بہت جاننے والا ہے ] [ حَكِيْمٌ : حکمت والا ہے]

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ  ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُهَاجِرُوْا  ۚ وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰي قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ  ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ    72؀
[ اِنَّ: بیشک] [ الَّذِيْنَ: وہ لوگ جو] [ اٰمَنُوْا: ایمان لائے] [ وَهَاجَرُوْا: اور ہجرت کی] وَجٰهَدُوْا [ اور جہاد کیا ]بِاَمْوَالِهِمْ [ اپنے اموال سے ]وَاَنْفُسِهِمْ [ اور اپنی جانوں سے]فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ میں ]وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جنھوں نے ] اٰوَوْا [ ٹھکانہ دیا ]وَّنَــصَرُوْٓا [ اور مدد کی ]اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ ہیں (کہ ) ]بَعْضُهُمْ [ ان کے بعض ]اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭ [ بعض کے کارساز ہیں ]وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو ]اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ]وَلَمْ يُهَاجِرُوْا [ اور ہجرت نہیں کی ]مَا لَكُمْ [ تو تمہارے لیے نہیں ہے ]مِّنْ وَّلَايَتِهِمْ [ ان سے کوئی بھی سروکار ]مِّنْ شَيْءٍ [ کسی چیز میں ]حَتّٰي [ یہاں تک کہ ]يُهَاجِرُوْا ۚ [ وہ لوگ ہجرت کریں ]وَاِنِ [ اور اگر ] اسْتَنْصَرُوْكُمْ [ وہ مدد مانگیں تم سے]فِي الدِّيْنِ [ دین میں ]فَعَلَيْكُمُ [ تو تم لوگوں پر (واجب ) ہے] النَّصْرُ [ مدد کرنا ]اِلَّا [ سوائے ]عَلٰي قَوْمٍۢ [ ایسی قوم کے خلاف ] [ بَيْنَكُمْ (کہ ) تمہارے درمیان ]وَبَيْنَهُمْ [ اور ان کے درمیان ]مِّيْثَاقٌ ۭ [ کوئی معاہدہ ہے ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]بِمَا [ اس کو جو ]تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ کرتے ہو ]بَصِيْرٌ [ دیکھنے والا ہے ]



نوٹ ۔1: آیت ۔ 72 میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ ’’ ولایت ‘‘ (یعنی سرپرستی اور ذمہ داری ) کا تعلق صرف ان مسلمانوں کے درمیان ہوگا جو یا تو اسلامی ریاست کے باشندے ہوں یا ہجرت کرکے آگئے ہوں اور جو مسلمان اسلامی ریاست سے باہر ہوں ان کے ساتھ ولایت کا تعلق نہیں ہوگا ۔ اس عدم ولایت کے قانونی نتائج بہت وسیع ہیں ، مثلا دارالکفر اور دارالاسلام کے مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے ، ایک دوسرے کے گارڈ ین نہیں ہوسکتے وغیر ہ ، اس کے باوجود ان کے درمیان دینی اخوت کا رشتہ قائم رہے گا ۔ اگر کہیں ان پر ظلم ہورہا ہو اور وہ اسلامی حکومت اور اس کے باشندوں سے مدد مانگیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کریں ، لیکن یہ فریضہ اندھا دھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا ۔ (تفہیم القرآن )

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭاِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ     73؀ۭ
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جنھوں نے ]كَفَرُوْا [ کفر کیا ]بَعْضُهُمْ [ ان کے بعض ] اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭ [ بعض کے کارساز ہیں ]اِلَّا تَفْعَلُوْهُ [ اگر تم لوگ نہیں کرو گے اس کو ]تَكُنْ [ تو ہوجائے گا (یعنی پھیل جائے گا ) ]فِتْنَةٌ [ تشدد ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ]وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ [ اور ایک بڑا عدم توازن ]



ترکیب: (آیت ۔ 73) الا استثناء کا نہیں ہے بلکہ ان شرطیہ اور لا نافیہ کو ملا کر لکھا گیا ہے ۔ تفعلوہ میں ضمیر مفعولی آیت نمبر ۔ 72 کے حکم کے لیے ہے جس میں معاہدہ کی پابندی کی شرط کے ساتھ غیر ملکی مسلمانوں کی مدد کا حکم ہے۔ تکن جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے ۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ      74؀
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو ]اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ]وَهَاجَرُوْا [ اور ہجرت کی ]وَجٰهَدُوْا [ اور جہاد کیا ]فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ میں ]وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جنھوں نے ]اٰوَوْا [ ٹھکانہ دیا ]وَّنَصَرُوْٓا [ اور مدد کی ]اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ ]هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ [ ہی مومن ہیں ]حَقًّا ۭ [ حقیقتا ]لَهُمْ [ ان کے لیے]مَّغْفِرَةٌ [ مغفرت ہے ]وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ [ اور باعزت روزی ہے ]

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ   ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ      75؀ۧ
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو ]اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ]مِنْۢ بَعْدُ [ اس کے بعد ]وَهَاجَرُوْا [ اور ہجرت کی ]وَجٰهَدُوْا [ اور جہاد کیا ]مَعَكُمْ [ تمہارے ساتھ (ملکر) ] فَاُولٰۗىِٕكَ [ تو وہ لوگ ]مِنْكُمْ ۭ [ تم میں سے ہیں ]وَاُولُوا الْاَرْحَامِ [ اور رشتوں والے ] [ بَعْضُهُمْ : ان کے بعض ]اَوْلٰى [ زیادہ قریب ہیں ]بِبَعْضٍ [ بعض سے ]فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کی کتاب میں ]اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]بِكُلِّ شَيْءٍ [ ہرچیز کو ]عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]



نوٹ ۔ 2: آیت ۔ 75 میں وضاحت ہے کہ اسلامی بھائی چارے کی بنا پر میراث قائم نہ ہوگی ۔ میراث کے معاملہ میں رشتہ داری کا تعلق ہی قانونی حقوق کی بنیاد رہے گا۔ یہ ارشاد اس بنا پر فرمایا گیا کہ ہجرت کے بعد نبی کریم
نے مہاجرین اور انصار کے درمیان جو مواخاۃ کرائی تھی اس کی وجہ سے بعض لوگ یہ خیال کررہے تھے کہ یہ دینی بھائی ایک دوسرے کے وارث بھی ہوں گے۔ (تفہیم القرآن )

بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ     Ǻ۝ۭ
بَرَاۗءَةٌ [ (یہ اعلان ) براءت ہے ]مِّنَ اللّٰهِ [ اللہ کی طرف سے ]وَرَسُوْلِهٖٓ [ اور اس کے رسول کی طرف سے ]اِلَى الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کے لیے جن سے]عٰهَدْتُّمْ [ تم لوگوں نے معاہدہ کیا ]مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ [ مشرکوں میں سے ]



ترکیب: (آیت ۔ 1) براء ۃ خبر ہے ۔ اس کا مبتدا محذوف ہے ۔ جو کہ ھذہ ہوسکتا ہے ۔

فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ    Ą۝
فَسِيْحُوْا [ پس چل پھر لو ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ]اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ [ چار مہینے] وَّاعْلَمُوْٓا [ اور جان لو]اَنَّكُمْ [ کہ تم لوگ ]غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۙ [ اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو]وَاَنَّ [ اور یہ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ]مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ [ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے ]

س ی ح : (ض) سیحا (1) پانی کا زمین پر بہنا ۔ زمین پر چلنا پھرنا ۔ (2) عبادت کے لیے پھرنا ۔ سح ، فعل امر ہے۔ تو چل پھر ۔ زیرمطالعہ آیت ۔2۔ سائح ۔ اسم الفاعل ہے۔ عبادت کے لیے پھرنے والا ۔ روزہ دار ۔ اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ [ توبہ کرنے والے ، عبادت کرنے والے ، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے ] 9: 112۔



( آیت ۔ 2) اربعۃ پر نصب اس کے ظرف زمان ہونے کی وجہ سے ہے ۔

وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ڏ وَرَسُوْلُهٗ  ۭ فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ   Ǽ۝ۙ
وَاَذَانٌ [ اور (یہ ) اعلان ہے ]مِّنَ اللّٰهِ [ اللہ کی طرف سے ]وَرَسُوْلِهٖٓ [ اور اس کے رسول کی طرف سے ]اِلَى النَّاسِ [ لوگوں کے لیے ]يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ [ بڑے حج کے دن ]اَنَّ [ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ]بَرِيْۗءٌ [ بری الذمہ ہے]مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ڏ [ مشرکوں سے ]وَرَسُوْلُهٗ ۭ [ اور اس کے رسول (بھی) ]فَاِنْ [ تو اگر ]تُبْتُمْ [ تم لوگ توبہ کرلو ]فَهُوَ [ تو یہ ]خَيْرٌ [ بہتر ہے ]لَّكُمْ ۚ [ تمہارے لیے ]وَاِنْ [ اور اگر ]تَوَلَّيْتُمْ [ تولوگوں نے منہ موڑا ]فَاعْلَمُوْٓا [ تو جان لو]اَنَّكُمْ [ کہ تم لوگ ]غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۭ [ اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو ]وَبَشِّرِ [ اور آپ کو خوشخبری دیں ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جنھوں نے ]كَفَرُوْا [ کفر کیا ]بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ [ ایک درد ناک عذاب کی ]



(آیت ۔ 3) اذان کا مبتدا بھی محذوف ہے جو کہ ھذا ہوسکتا ہے۔ ورسولہ کی رفع بتارہی ہے کہ یہ مبتدا ہے اور اس کی خبر بری ء محذوف ہے۔



نوٹ۔1: آیت ۔ 3 میں حج اکبر کی اصطلاح آئی ہے، اس کو سمجھ لیں ۔ ذوالحجہ کی مقررہ تاریخوں میں جو حج کیا جاتا ہے ۔ اسے حج اکبر کہتے ہیں اور عمرے کو حج اصغر کہتے ہیں ۔ کسی سال اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو ہم لوگ اسے حج اکبر کہتے ہیں ، یہ اصطلاح یقیناغلط ہے لیکن اس کی فضیلت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ عرب لوگ اسے اجتماع سعدین کہتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں ۔ کسی سال اگر عید جمعہ کے دن ہو تو اسے بھی اجتماع سعدین کہتے ہیں اور اس کی فضیلت کے بھی قائل ہیں ۔

موجودہ صورتحال کا مجھے علم نہیں ہے لیکن چند سال پہلے تک سعودی عرب میں مقامی لوگوں پر یہ پابندی تھی کہ ان میں سے کوئی شخص حج کر لیتا تھا تو آئندہ سال تک وہ حج نہیں کرسکتا تھا تاکہ باہر سے آنے والے حاجیوں کے لیے گنجائش اور سہولت ہو۔ لیکن جس سال اجتماع سعدین ہوتا تھا ۔ اس سال یہ پابندی اٹھالی جاتی تھی ۔

اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ    Ć۝
اِلَّا الَّذِيْنَ [ سوائے ان کے جن سے ]عٰهَدْتُّمْ [ تم نے معاہدہ کیا ]مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ [ مشرکوں میں سے ]ثُمَّ [ پھر ]لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ [ انہوں نے کمی نہیں کی تم سے ] شَيْــــًٔـا [ کچھ بھی ]وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا [ اور انہوں نے مدد نہیں کی ]عَلَيْكُمْ [ تمہارے خلاف ]اَحَدًا [ کسی ایک کی بھی ]فَاَتِمُّــوْٓا [ تو پورا کرو]اِلَيْهِمْ [ ان سے ] عَهْدَهُمْ [ ان کے عہد کو ]اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ [ ان کی مدت تک ]اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]يُحِبُّ [ پسند کرتا ہے ] الْمُتَّقِيْنَ [ تقوی کرنے والوں کو ]

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ    Ĉ۝
فَاِذَا [ پھر جب ] انْسَلَخَ [ گزر جائیں ] الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ [ محترم (یعن پناہ والے ) مہینے ]فَاقْتُلُوا [ تو قتل کرو] الْمُشْرِكِيْنَ [ مشرکوں کو ]حَيْثُ [ جہاں ] وَجَدْتُّمُــوْهُمْ [ تم لوگ پاؤ ان کو ]وَخُذُوْهُمْ [ اور پکڑو ان کو ]وَاحْصُرُوْهُمْ [ اور گھیروان کو ]وَاقْعُدُوْا [ اور بیٹھو ]لَهُمْ [ ان کے لیے ]كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ [ ہر گھات لگانے کی جگہ پر ]فَاِنْ [ پھر اگر ]تَابُوْا [ وہ لوگ توبہ کریں ]وَاَقَامُوا [ اور قائم کریں ] الصَّلٰوةَ [ نماز]وَاٰتَوُا [ اور ادا کریں ] الزَّكٰوةَ [ زکوۃ ]فَخَــلُّوْا [ تو چھوڑ دو ] سَـبِيْلَهُمْ ۭ [ ان کا راستہ ]اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]غَفُوْرٌ [ بخشنے والا ہے ]رَّحِيْمٌ [ رحم کرنے والا ہے ]



ر ص د : (ن) ۔ رصدا ۔ گھات میں بیٹھنا ۔ رصد ۔ اسم الفاعل کے مفہوم میں صفت ہے ۔ (واحد جمع ، مذکر ، مؤنث ، سب کے لیے یکساں آتا ہے ] گھات میں بیٹھنے والے ۔ فَمَنْ يَّسْتَمِعِ الْاٰنَ يَجِدْ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا (پس جو کان لگائے گا اب تو وہ پائے گا اپنے لیے ایک گھات میں بیٹھا ہوا انگارہ ] 72:9۔ مرصد ۔ اسم الظرف ہے۔ گھات لگانے کی جگہ ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 5۔ مرصاد ۔ مفعال کے وزن پر اسم الآلہ ہے ۔ گھات میں بیٹھنے کا آلہ ۔ پھر گھات لگانے کی مستقل جگہ کے لیے آتا ہے ۔ اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا [ بیشک جہنم ہے گھات لگانے کی ایک مستقل جگہ ] 78:21۔ (افعال) ارصادا ۔ گھات لگانے کے لیے کسی کو بٹھاننا ۔ نگران مقرر کرنا ۔ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ [ اور نگران مقرر کرنے کو اس کے لیے یعنی اس کی طرف سے جس نے لڑائی کی اللہ سے اور اس کے رسول سے اس سے پہلے ] 9:107۔



نوٹ ۔ 2: آیت نمبر 5 میں حکم دیا گیا ہے کہ مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ ، انھیں قتل کرو، انھیں پکڑو ، انھیں گھیرو اور ہر جگہ ان کے لیے گھات لگا کر بیٹھو ۔ اسلام کے مخالفین ، اسلام کو ایک انتہا پسند اور تشدد پسند مذہب قرار دینے کے لیے اس آیت کا بہت حوالہ دیتے ہیں ، جس ان کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے کہ اس حکم سے پہلے یہ شرط بھی ہے کہ جب پناہ کے یعنی نوٹس کے چار مہینے گزر جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ پھر بھی یہ سخت زیادتی اور تشدد ہے ۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے سورۃ التوبہ کی آیات کی ترتیب نزولی اور ترتیب مصحف کے فرق کو اور اس وقت کے تاریخی پس منظر کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔ اس لاعلمی کی وجہ سے ہمارے سادہ لوح مسلمان بھائی مخالفین کے اعتراض سے متاثر ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں ، خواہ زبان سے نہ بھی کہیں ، کہ ان کی بات درست ہے ۔ اس سورہ کی ترتیب نزولی کو سمجھنے سے پہلے یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ رسول اللہ
جب تبوک کے لیے 9 ھ میں روانہ ہوئے تھے تو رجب کا مہینہ تھا اور مدینہ واپس آئے تو رمضان کا مہینہ تھا ۔ اس سفر میں پورے پچاس روز صرف ہوئے بیس دن تبوک میں قیام میں اور تیس دن آمد ورفت میں ۔

سورۃ التوبہ تین خطبوں پر مشتمل ہے جو وقفہ قفہ سے یکے بعد دیگرے نازل ہوئے ۔ سب سے پہلے رکوع ۔ 6 کی ابتداء سے رکوع ۔ 9 کے اختتام کی آیات رجب 9 ھ میں نازل ہوئیں ۔ اس وقت رسول اللہ
غزوہ تبوک کی تیاری کررہے تھے۔ اس میں اہل ایمان کو جہاد پر اکسایا گیا ہے اور ان لوگوں پر ملامت کی گئی ہے جو غزوہ تبوک میں شرکت سے جی چرا رہے تھے ۔ اس کے بعد رکوع ۔ 10 سے سورہ کے آخر تک کی آیات غزوہ تبوک سے واپسی پر نازل ہوئیں ۔ ان میں کچھ ٹکڑے ایسے بھی ہیں جو انہیں ایام میں مختلف مواقع پر اترے اور سب سے آخر میں سورہ کے آغاز سے رکوع ۔ 5 کے آخر تک کی آیات ذی القعد 9 ھ میں نازل ہوئیں ، جن میں مشرکوں کو چار مہینے کا نوٹس دیا گیا کہ اگر اسلام ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے تو جہاں ان کا جی چاہے چلے جائیں اور عرب کا علاقہ خالی کردیں ۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ نوٹس کی مدت گزرنے کے بعد مشرکوں کو تلاش کرو ، گھیرو اور پکڑکر اپنے باختیار حاکموں کے حوالے کردو ، ان کے سامنے اگر اس کا مشرک ہونا ثابت ہوگیا تو وہ اس کے قتل کا حکم دے گا ۔ اس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اسلام ہر مرحلہ پر نظم وضبط اور ڈسپلن کا مطالبہ کرتا ہے اور کسی بھی حال میں انارکی کی اجازت نہیں دیتا اور اب اس ’’ سخت زیادتی اور تشدد ‘‘ والے حکم کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ہوگا ۔

6 ھ میں صلح حدیبیہ کے نتیجے میں مسلمانوں کو موقع ملا کہ وہ امن اور سکون سے اسلام کی تبلیغ کرسکیں ، چنانچہ دو سال کی قلیل مدت میں عرب کے گوشے گوشے میں اسلام پھیل گیا ۔ پھر 8 ھ میں فتح مکہ نے مشرکوں کی کمر توڑ دی ، عرب کے دیگر علاقوں میں جو مشرک باقی بچے تھے انھوں نے اپنی ساری طاقت مجتمع کر کے حنین کے میدان میں جھونک دی ، وہاں شکت کھانے کے بعد جزیرہ نماء عرب میں مشرکوں کا قلع قمع ہوگیا ۔ صرف چند پراگندہ عناصر عرب کے مختلف گوشوں میں باقی رہ گئے تھے ، ان گنے چنے لوگوں نے اب روم کی سرحد پر آباد عیسائی قبائل اور مدینہ کے منافقین کے ساتھ مل کر خفیہ سازشوں اور ریشہ دوانی کی راہ اختیار کی ۔ اس کے نتیجے میں غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانے میں سویلم کے گھر میں منافقین کا ایک گروہ جمع ہوکر مسلمانوں کو جنگ میں شرکت سے باز رکھنے کی کوشش کررہا تھا ۔ رسول اللہ
نے اس گھر کو جلانے کا حکم دیا لیکن اس کے مکینوں اور وہاں جمع ہونے والے افراد کو قتل کا حکم نہیں دیا ۔ انھیں کی ریشہ دوانی سے مسجد ضرار قائم ہوئی ۔ تبوک سے واپسی پر آپ نے اسے ڈھانے اور جلانے کا حکم دیا لیکن اسے بنانے والوں کو قتل نہیں کرایا ۔

اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر دیکھیں کہ اب اللہ تعالیٰ اس فساد کی جڑ کو اکھاڑنے کا حکم دے رہا ہے کہ ان کو چار مہینے کا نوٹس دو کہ یا تو اپنی حرکت سے باز آجائیں یا اپنا مال ودولت لے کر اپنے آقائوں کے دیس میں منتقل ہوجائیں ورنہ انھیں قتل کیا جائے گا ۔ اب فیصلہ کریں کہ کون صحیح الدماغ انسان اسے سخت زیادتی اور تشدد والا حکم قرار دے گا ، الا یہ کہ اس کی نیت میں فطور ہو۔ کسی ریاست میں رہتے ہوئے ، بیرونی طاقتوں سے ساز باز کرکے، ریاست کے خلاف ریشہ دوانی کرنے والے مجرموں کو جو سزا دی جاتی ہے اور ان کے ساتھ عملا جو سلوک ہوتا ہے ۔ وہ پوری دنیا جانتی ہے ۔ ایسے مجرموں سے اسلام نے جو فراخدلانہ سلوک کیا ہے اس کی کوئی مثال بھی پوری تاریخ انسانیت سے دنیا ممکن نہیں ہے۔ پھر بھی الزام اسلام پر ہے کہ یہ تشدد پسند ہے ۔ ناطقہ سربگریباں ہے، اسے کیا کہیے ۔

وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ  ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُوْنَ    Č۝ۧ
وَاِنْ [ اور اگر ]اَحَدٌ [ کوئی ایک ]مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ [ مشرکوں میں سے] اسْتَجَارَكَ [ پناہ مانگے آپ سے ]فَاَجِرْهُ [ تو آپ پناہ دیں اس کو ]حَتّٰي [ یہاں تک کہ ] يَسْمَعَ [ وہ سن لے ]كَلٰمَ اللّٰهِ [ اللہ کے کلام کو ]ثُمَّ [ پھر ]اَبْلِغْهُ [ آپ پہنچا دیں اس کو ]مَاْمَنَهٗ [ اس کی امن کی جگہ پر ]ذٰلِكَ [ یہ ]بِاَنَّهُمْ [ اس سبب سے کہ وہ لوگ ]قَوْمٌ [ ایک ایسی قوم ہیں جو ]لَّا يَعْلَمُوْنَ [ علم نہیں رکھتے ]

كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ  ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ   Ċ۝
كَيْفَ [ کیسے ]يَكُوْنُ [ ہوگا ]لِلْمُشْرِكِيْنَ [ مشرکوں کے لیے]عَهْدٌ [ کوئی عہد ] عِنْدَ اللّٰهِ [ اللہ کے پاس ]وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ [ اور اس کے رسول کے پاس ]اِلَّا [ سوائے ] الَّذِيْنَ [ ان کے جن سے ]عٰهَدْتُّمْ [ تم لوگوں نے معاہدہ کیا ]عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ [ مسجد حرام کے پاس ]فَمَا [ پس جب تک ] اسْتَقَامُوْا [ وہ لوگ سیدھے رہیں ]لَكُمْ [ تمہارے لیے]فَاسْتَقِيْمُوْا [ تو تم لوگ سیدھے رہو]لَهُمْ ۭ [ ان کے لیے]اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]يُحِبُّ [ پسند کرتا ہے ] الْمُتَّقِيْنَ [ تقوی کرنے والوں کو ]



ترکیب: (آیت ۔ 7) فما استقاموا میں ماظرفیہ ہے۔

كَيْفَ وَاِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً  ۭ يُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَتَاْبٰي قُلُوْبُهُمْ ۚ وَاَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ   Ď۝ۚ
كَيْفَ [ کیسے (ہوگا کوئی عہد) ] وَ [ اس حال میں کہ ]اِنْ [ اگر ]يَّظْهَرُوْا [ وہ لوگ غالب ہوں ]عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ]لَا يَرْقُبُوْا [ تو وہ لحاظ نہیں کریں گے ]فِيْكُمْ [ تم میں ]اِلًّا [ کسی رشتہ داری کا ]وَّلَا ذِمَّةً ۭ [ اور نہ کسی عہد کا ] يُرْضُوْنَكُمْ [ وہ راضی کرتے ہیں تم لوگوں کو ]بِاَفْوَاهِهِمْ [ اپنے مونہوں سے (یعنی باتوں سے) ] وَ [ حالانکہ ]تَاْبٰي [ انکار کرتے ہیں ]قُلُوْبُهُمْ ۚ [ ان کے دل ]وَاَكْثَرُهُمْ [ اور ان کے اکثر ]فٰسِقُوْنَ [ عہد سے نکلنے والے ہیں ]



ء ل ل : (ن) الا ۔ کسی حالت کا اتنا صاف اور واضح ہونا کہ انکار ممکن نہ ہو ۔ رشتہ دار ہونا ۔ ال ، رشتہ داری ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 8۔

ذم م ۔ (ن) ۔ ذما: کسی کی مذمت کرنا ۔ برا بھلا کہنا ۔ مذموم ۔ اسم المفعول ہے۔ مذمت کیا ہوا ۔ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا [ نتیجتا تو بیٹھ رہے گا ملامت کیا ہوا ، دھتکارا ہوا] 17:22۔ ذمۃ ، ایسی ذمہ داری یا عہد جس کو پورا کرنا قابل مذمت ہو۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 8۔



 (آیت ۔ 8)كَيْفَ کے بعد پچھلا پورا جملہ یکون للمشرکین عہد محذوف ہے ۔

اِشْتَرَوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭاِنَّهُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    ۝
اِشْتَرَوْا [ انھوں نے خریدا ]بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی آیات کے بدلے ]ثَـمَنًا قَلِيْلًا [ تھوڑی سی قیمت کو ]فَصَدُّوْا [ پھر انھوں نے روکا ]عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭ [ اس کی راہ سے] اِنَّهُمْ [ بیشک وہ لوگ ]سَاۗءَ [ کتنا برا ہے]مَا [ جو ]كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ لوگ کرتے ہیں ]

لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً  ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُعْتَدُوْنَ     10۝
لَا يَرْقُبُوْنَ [ وہ لوگ لحاظ نہیں کرتے ]فِيْ مُؤْمِنٍ [ کسی مومن (کے بارے ) میں ]اِلًّا [ کسی رشتہ داری کا ]وَّلَا ذِمَّةً ۭ [ اور نہ کسی عہد کا ]وَاُولٰۗىِٕكَ [ اور وہ لوگ]هُمُ الْمُعْتَدُوْنَ [ ہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ]

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ ۭوَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ     11۝
فَاِنْ [ پھر اگر]تَابُوْا [ وہ توبہ کریں ]وَاَقَامُوا [ اور قائم کریں ] الصَّلٰوةَ [ نماز ] وَاٰتَوُا [ اور اداکریں ] الزَّكٰوةَ [ زکوۃ ]فَاِخْوَانُكُمْ [ تو (وہ ) تمہارے بھائی ہیں ]فِي الدِّيْنِ ۭ [ دین میں ]وَنُفَصِّلُ [ اور ہم کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ] الْاٰيٰتِ [ آیات کو ]لِقَوْمٍ [ ایسے لوگوں کے لیے جو]يَّعْلَمُوْنَ [ علم رکھتے ہیں ]



(آیت ۔ 11) فَاِخْوَانُكُمْ ، خبر ہے اور اس کا مبتدا ہم محذوف ہے ۔

وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ  ۙ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ      12؀
وَاِنْ [ اور اگر] نَّكَثُوْٓا [ وہ توڑ دیں ]اَيْمَانَهُمْ [ اپنی قسموں کو ]مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ اپنے عہد کے بعد سے ]وَطَعَنُوْا [ اور طعنہ دیں ]فِيْ دِيْنِكُمْ [ تمہارے دین میں ]فَقَاتِلُوْٓا [ تو تم لوگ جنگ کرو]اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ۙ [ کفر کے سرداروں سے ]اِنَّهُمْ [ بیشک وہ لوگ (ایسے ) ہیں ]لَآ اَيْمَانَ [ کہ کسی طرح کی کوئی بھی قسم نہیں ہے]لَهُمْ [ ان کے لیے ]لَعَلَّهُمْ [ شاید وہ لوگ ]يَنْتَهُوْنَ [ باز آجائیں ]



نوٹ۔ 1: جنگ (
War) کے لیے قرآن مجید کی اصطلاح ’’ قتال ‘‘ ہے اور آیات ۔ 12، 13، 14، میں اسی لفظ کے مختلف صیغے استعمال ہوئے ہیں ۔ کیونکہ وہاں جنگ کا حکم دینا مقصود تھا ۔ لیکن آیت ۔ 16 میں یہ بتانا مقصود ہے کہ قیامت میں جھنہم سے نجات اور جنت میں داخلہ کے لیے صرف ایمان کا زبانی اقرار کافی نہیں ہے، بلکہ اس کی کچھ اور بھی شرائط ہیں ۔ اس آیت میں پہلی شرط کی نشاندہی کرنے کے لیے لفظ قتال کے بجائے لفظ جہاد کا فعل ماضی لایا گیا ہے ۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے لفظ جہاد کو پورا مفہوم واضح ہونا ضروری ہے ۔

جہاد کا مطلب ہے کسی مقصد کے لیے جدوجہد کرنا ۔ جبکہ قرآن کی ایک اصطلاح کے طور پر اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے جدوجہد کرنا اور قرآن میں یہ لفظ عموما اسی مفہوم میں آیا ہے ۔ خواہ فی سبیل اللہ کے الفاظ لفظ مذکور ہوں یا نہ ہوں ۔ اس کے تین مرحلے ہیں ۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے ساتھ جدوجہد کرکے اسے اللہ کے احکام کی پابندی کا عادی بنائے ، اسے جہاد مع النفس کہتے ہیں اور رسول اللہ
نے اسے افضل جہاد قرار دیا ہے ۔ یہ فرض عین ہے اور جنت میں داخلہ کی شرط کے طور پر یہی مرحلہ مراد ہے ۔

اپنے آپ کو اللہ کی اطاعت کا عادی بنا لینے کے بعد انسان کو مطمئن نہیں ہوجانا چاہیے بلکہ اب دوسروں کو جہنم سے بچانے کے لیے اسلام کی دعوت وتبلیغ کی جہدوجہد میں حصہ لینا چاہیے، اس میں اپنا وات ، اپنی صلاحیت اور اپنا پیسہ صرف کرنا چاہیے ۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کا دوسرا مرحلہ ہے اور یہ فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔ 4: 95، نوٹ ۔ 2) پھر اگر ضرورت پڑے تو اسلام کی سربلندی کے لیے جنگ میں حصہ لینا چاہئے ۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کا تیسرا مرحلہ ہے اور اسے قتال فی سبیل اللہ کہتے ہیں ۔ یہ بھی فرض کفایہ ہے ، الا یہ کہ اسلامی حکومت کے امیر کی طرف سے (
General Mobilisation) کا حکم ہو ۔ رسول اللہ کے زمانے میں تمام غزوات میں شرکت فرض کفایہ تھی سوائے غزوہ تبوک کے جس میں شرکت فرض عین ہوگئی تھی ، یہی وجہ ہے کہ اس میں شرکت نہ کرنے والوں سے باز پرس ہوئی تھی ۔

اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ      13؀
اَ [ کیا ]لَا تُقَاتِلُوْنَ [ تم لوگ جنگ نہیں کرو گے ]قَوْمًا [ ایسی قوم سے ]نَّكَثُوْٓا [ جس نے توڑا ]اَيْمَانَهُمْ [ اپنی قسموں کو ]وَهَمُّوْا [ اور ارادہ کیا ]بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ [ ان رسول کو نکالنے کا ]وَهُمْ [ اور انھوں نے ]بَدَءُوْكُمْ [ ابتدا کی تم سے (زیادتی کرنے کی ) ]اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ [ پہلی مرتبہ ] اَ [ کیا ]تَخْشَوْنَهُمْ ۚ [ تم لوگ ڈرتے ہو ان سے ]فَاللّٰهُ [ تو اللہ ]اَحَقُّ [ زیادہ حقدار ہے ]اَنْ [ کہ ]تَخْشَوْهُ [ تم لوگ ڈرو اس سے ]اِنْ [ اگر ]كُنْتُمْ [ تم لوگ ہو ]مُّؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے ]

قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ    14۝ۙ
قَاتِلُوْهُمْ [ جنگ کرو ان سے ]يُعَذِّبْهُمُ [ تو عذاب دے گا ان کو ] اللّٰهُ [ اللہ ] بِاَيْدِيْكُمْ [ تمہارے ہاتھوں سے ]وَيُخْزِهِمْ [ اور وہ رسوا کرے گا ان کو ] وَيَنْصُرْكُمْ [ اور وہ مدد کرے گا تمہاری ]عَلَيْهِمْ [ ان کے خلاف ]وَيَشْفِ [ اور وہ شفادے گا ]صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے لوگوں کے سینوں کو]



ش ف ی : (ض) ۔ شفاء ۔ کوئی مرض دور کرکے صحت دینا ۔ شفادینا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 14۔ شفاء ۔ اسم ذات بھی ہے ۔ صحت یابی ۔ شفا، فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ [ اس میں شفا ہے لوگوں کے لیے ] 16:69۔



(آیت ۔ 14۔ 15) قاتلوہم فعل امر ہے ۔ اس کا جواب امر ہونے کی وجہ سے آگے یعذب ، یخز ، ینصر ، یشف اور یذھب مجزوم ہیں اور ان کے ساتھ واو عاطفہ ہیں ۔ جبکہ ویتوب اللہ کا واو عاطفہ نہیں بلکہ استینافیہ ہے، کیونکہ یتوب مجزوم نہیں ہوا ہے۔

وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ ۭ وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ   ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ       15؀
وَيُذْهِبْ [ اور وہ لے جائے گا]غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ ۭ [ انے دلوں کے غیظ وغضب کو ] وَيَتُوْبُ [ اور توبہ قبول کرے گا ] اللّٰهُ [ اللہ ]عَلٰي مَنْ [ اس کی جس کی ]يَّشَاۗءُ ۭ [ وہ چاہے گا ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے ]

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً  ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ     16۝ۧ
اَمْ [ یا ]حَسِبْتُمْ [ تولوگوں نے گمان کیا ]اَنْ [ کہ ] [ تُتْرَكُوْا : تمہیں چھوڑ دیا جائے گا ] وَ [ حالانکہ ]لَمَّا يَعْلَمِ [ ابھی تک نہیں جانا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] الَّذِيْنَ [ ان کو جنھوں نے ]جٰهَدُوْا [ جہاد کیا ]مِنْكُمْ [ تم میں سے ]وَلَمْ يَتَّخِذُوْا [ اور انھوں نے نہیں بنایا ]مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے سوا ]وَلَا رَسُوْلِهٖ [ اور نہ اس کے رسول کے سوا]وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ [ اور نہ مومنوں کے سوا]وَلِيْجَةً ۭ [ کسی کو دل کا بھیدی ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]خَبِيْرٌۢ [ باخبر ہے [ بِمَا [ اس سے جو ]تَعْمَلُوْنَ تم لوگ کرتے ہو]

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ۭاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ      17؀
مَا كَانَ [ نہیں ہے ]لِلْمُشْرِكِيْنَ [ مشرکین ]اَنْ [ کہ ]يَّعْمُرُوْا [ وہ لوگ آباد کریں ]مَسٰجِدَ اللّٰهِ [ اللہ کی مسجدوں کو ]شٰهِدِيْنَ [ گواہ ہوتے ہوئے ]عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ [ اپنے اوپر ]بِالْكُفْرِ ۭ [ کفر کے ]اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ ہیں ]حَبِطَتْ [ (کہ ) اکارت ہوئے ]اَعْمَالُهُمْ ښ [ جن کے اعمال ]وَفِي النَّارِ [ اور آگ میں ہی ]هُمْ [ وہ لوگ]خٰلِدُوْنَ [ ہمیشہ رہنے والے ہیں ]

اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ  فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ     18؀
اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ]يَعْمُرُ [ آباد کرتا ہے ]مَسٰجِدَ اللّٰهِ [ اللہ کی مسجدوں کو ]مَنْ [ وہ جو ]اٰمَنَ [ ایمان لایا ]بِاللّٰهِ [ اللہ پر ]وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ [ اور آخری دن پر ]وَاَقَامَ [ اور اس نے قائم کی ] الصَّلٰوةَ [ نماز]وَاٰتَى الزَّكٰوةَ [ اور زکوۃ دی ]وَلَمْ يَخْشَ [ اور وہ نہیں ڈرا ]اِلَّا [ مگر ] اللّٰهَ [ اللہ سے]فَعَسٰٓى [ تو امید ہے ]اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ ]اَنْ [ کہ ]يَّكُوْنُوْا [ ہوجائیں ]مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ [ ہدایت پانے والوں میں سے ]

اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰهَدَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰه ِ ۭ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِ   ۭوَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ    19۝ۘ
اَ [ کیا ]جَعَلْتُمْ [ تم لوگوں نے بنایا ]سِقَايَةَ الْحَاۗجِّ [ حاجیوں کی سبیل کو ]وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ [ اور مسجد حرام کی آبادی کو]كَمَنْ [ اس کے جیسا جو ]اٰمَنَ [ جو ایمان لایا ]بِاللّٰهِ [ اللہ پر ]وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ [ اور آخری دن پر ]وَجٰهَدَ [ اور اس نے جدوجہد کی ]فِيْ سَبِيْلِ اللّٰه ِ ۭ [ اللہ کی راہ میں ]لَا يَسْتَوٗنَ [ اور برابر نہیں ہوتے ]عِنْدَ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے پاس ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]لَا يَهْدِي [ ہدایت نہیں دیتا ] الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگوں کو ]



ترکیب : (آیت ۔ 19) الحاج پر لام جنس ہے ۔ اس لیے ترجمہ جمع میں ہوگا ۔



نوٹ ۔ 1: صحیح مسلم میں ہے کہ ایک دفعہ چند مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے، کوئی کہتا تھا میرے نزدیک اسلام لانے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے سے زیادہ کوئی عبادت نہیں ، دوسرے نے کہا کہ بہترین عمل مسجد حرام کی خدمت ہے۔ تیسرا بولا کہ جہاد فی سبیل اللہ سب سے افضل ہے ، حضرت عمر  (رض)  نے ان کو ڈانٹا کہ تم جمعہ کے وقت منبر رسول
کے پاس بیٹھ کر بحث کررہے ہو ، ذرا صبر کرو ، جب حضور فارغ ہوجائیں گے تو یہ چیز دریافت کرلی جائے گی ، جب آس سے سوال کیا تو یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (یعنی آیات ۔ 19 تا 22) ۔ (ترجمہ شیخ الہند)

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ خدمت خلق اپنی جگہ ایک بڑی نیکی ہے ۔ اس کی بلند ترین منزل یہ ہے کہ اللہ کے مہمانوں یعنی حاجیوں کی خدمت کی جائے ۔ اسی طرح کسی بھی مسجد کی خدمت کرنا بڑی نیکی کا کام ہے ۔ اس کی بلند ترین منزل مسجد حرام کی خدمت ہے۔ مذکورہ آیات میں ان میں سے کسی بھی نیکی کی نفی نہیں ہے ۔ البتہ مختلف نیکیوں میں نسبت وتناسب کے لحاظ سے یہ بتایا گیا ہے کہ ان بلند ترین نیکیوں کے مقابلہ میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی نیکی عظیم تر ہے۔

 یہ درست ہے کہ کسی کی زندگی میں قتال فی سبیل اللہ کے بہت کم مواقع آتے ہیں ۔ لیکن جہاد فی سبیل اللہ کے مواقع ہر شخص کی زندگی میں قدم قدم پر اس کے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ ایک متقی پرہیزگار انسان کے سامنے بھی معاملات میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں اور جب اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کسی لالچ کو ٹھکرائے بغیر یا کوئی نقصان برادشت کیے بغیر ممکن نہیں ہوتی ۔ یہ جہاد مع النفس کا لامتناہی سلسلہ ہے جو موت پر ہی ختم ہوتا ہے اور اسی کو رسول اللہ
نے افضل جہاد کہا ہے ۔ اسی طرح اپنی اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق اسلام کی دعوت وتبلیغ اور نشر واشاعت میں حصہ لینے کے مواقع کی کمی نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جہاد فی سبیل اللہ کے صحیح مفہوم کو سمجھیں پھر اس کی عظمت کو اپنے دل ودماغ پر نقش کریں ۔

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ  ۙ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ   ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ     20؀
اَلَّذِيْنَ [ جو لوگ ]اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ]وَهَاجَرُوْا [ اور ہجرت کی ]وَجٰهَدُوْا [ اور جدوجہد کی ]فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ میں ]بِاَمْوَالِهِمْ [ اپنے مالوں سے [ وَاَنْفُسِهِمْ ۙ [ اور اپنی جانوں سے ]اَعْظَمُ [ (وہ) سب سے عظیم ہیں ]دَرَجَةً [ بلحاظ درجہ کے]عِنْدَ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے پاس ]وَاُولٰۗىِٕكَ [ اور وہ لوگ ]هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ [ ہی کامیاب ہونے والے ہیں ]

يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَّجَنّٰتٍ لَّهُمْ فِيْهَا نَعِيْمٌ مُّقِيْمٌ      21۝ۙ
يُبَشِّرُهُمْ [ خوشبخری دیتا ہے ان کو ]رَبُّهُمْ [ ان کا رب ]بِرَحْمَةٍ [ رحمت کی ] مِّنْهُ [ اپنے پاس سے ]وَرِضْوَانٍ [ اور رضا مندی کی ]وَّجَنّٰتٍ : اور باغات کی ]لَّهُمْ [ ان کے لیے ]فِيْهَا [ ان میں ]نَعِيْمٌ مُّقِيْمٌ [ قائم رہنے والی خوشحالی ہے ]



 (آیت ۔ 21) برحمۃ کی با پر عطف ہونے کی وجہ رضوان اور جنت حالت جر میں آئے ہیں ۔

خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا   ۭاِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ      22؀
خٰلِدِيْنَ [ ایک حالت میں رہنے والے ہیں ]فِيْهَآ [ ان میں ]اَبَدًا ۭ [ ہمیشہ ہمیش ]اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]عِنْدَهٗٓ [ اس کے پاس ہی ]اَجْرٌ عَظِيْمٌ [ عظیم اجر ہے ]

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ     23؀
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ [ اے لوگو! جو ]اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ]لَا تَتَّخِذُوْٓا [ تم لوگ مت بناؤ] اٰبَاۗءَكُمْ [ اپنے آباواجداد کو ]وَاِخْوَانَكُمْ [ اور اپنے بھائیوں کو ]اَوْلِيَاۗءَ [ کار ساز ] اِنِ [ اگر] اسْتَحَبُّوا [ وہ لوگ ترجیح دیں ] الْكُفْرَ [ کفر کو ]عَلَي الْاِيْمَانِ ۭ [ ایمان پر ]وَمَنْ [ اور جو]يَّتَوَلَّهُمْ [ دوستی کرے گا ان سے ]مِّنْكُمْ [ تم میں سے] فَاُولٰۗىِٕكَ [ تو وہ لوگ ]هُمُ الظّٰلِمُوْنَ: ہی ظلم کرنے والے ہیں ]

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ     24؀ۧ
قُلْ [ آپ کہہ دیجیے ]اِنْ [ اگر ]كَانَ [ ہیں ]اٰبَاۗؤُكُمْ [ تمہارے آباواجداد ] وَاَبْنَاۗؤُكُمْ [ اور تمہارے بیٹے ]وَاِخْوَانُكُمْ [ اور تمہارے بھائی ]وَاَزْوَاجُكُمْ [ اور تمہاری بیویاں ]وَعَشِيْرَتُكُمْ [ اور تمہارے رشتہ دار ]وَاَمْوَالُۨ [ اور تمہارے وہ مال ] اقْتَرَفْتُمُوْهَا [ تم نے کمایا جن کو ]وَتِجَارَةٌ [ اور وہ تجارت ]تَخْشَوْنَ [ تم لوگ ڈرتے ہو ]كَسَادَهَا [ جس کی مندی سے ]وَمَسٰكِنُ [ اور وہ مکانات ] تَرْضَوْنَهَآ [ تم لوگ پسند کرتے ہو جن کو ]اَحَبَّ [ زیادہ پیارے ہیں ]اِلَيْكُمْ [ تمہارے لیے]مِّنَ اللّٰهِ [ اللہ سے ]وَرَسُوْلِهٖ [ اور اس کے رسول سے ]وَجِهَادٍ [ اور جدوجہد کرنے سے ]فِيْ سَبِيْلِهٖ [ اس کی راہ میں ]فَتَرَبَّصُوْا [ تو انتظار کرو ] حَتّٰي [ یہاں تک کہ ]يَاْتِيَ [ لے آئے ] اللّٰهُ [ اللہ ]بِاَمْرِهٖ ۭ [ اپنا فیصلہ ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]لَا يَهْدِي [ ہدایت نہیں دیتا ] الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ [ نافرمان لوگوں کو ]



ک س د : (ن، ک ) کساد ۔ بازار کا مندا ہونا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 24۔



 (آیت ۔ 24) اباؤکم سے مسکن تک کان کے اسم ہیں اس لیے یہ سب حالت رفع میں ہیں ۔ احب باب افعال کا فعل ماضی نہیں ہے بلکہ محبۃ سے افعل کے وزن پر افعل تفضیل ہے اور کان کی خبر ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں آیا ہے ۔

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ  ۙ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ  ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ     25؀ۚ
لَقَدْ نَصَرَكُمُ [ یقینا مدد کرچکا ہے تم لوگوں ] اللّٰهُ [ اللہ ]فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ ۙ [ بہت سے جنگ کے میدانوں میں ]وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ [ اور حنین کے دن (بھی ) ]اِذْ [ جب ]اَعْجَبَتْكُمْ [ بھلی لگی تم کو ]كَثْرَتُكُمْ [ تمہاری کثرت ]فَلَمْ تُغْنِ [ تو وہ کام نہ آئی ]عَنْكُمْ [ تمہارے ]شَيْــــًٔـا [ کچھ بھی ]وَّضَاقَتْ [ اور تنگ ہوئی ] عَلَيْكُمُ [ تم پر ] الْاَرْضُ [ زمین ]بِمَا [ ساتھ اس کے جو ]رَحُبَتْ [ وہ کشادہ تھی ]ثُمَّ [ پھر ]وَلَّيْتُمْ [ تم لوگوں نے پیٹھ پھیری ]مُّدْبِرِيْنَ [ پیٹھ دینے والا ہوتے ہوئی ]



وط ن (ص) ۔ وطنا ۔ کسی جگہ اقامت کرنا ۔ وطن بنانا ۔ موطن ۔ ج: مواطن ، مفعل کے وزن پر اسم الظرف ہے ۔ وطن لیکن اصطلاحا جنگ کے میدان کے لیے آتا ہے ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 25۔

ر ح ب (ک) ۔ رحبا ۔ کسی جگہ کا کشادہ ہونا ۔ زیر مطالعہ آیت 25۔ مرحب ۔ مفعل کے وزن پر اسم الظرف ہے۔ کشادگی کا وقت یا موقعہ ۔ زیادہ تر خوش آمدید کے معنی میں آتا ہے۔ لَا مَرْحَبًۢا بِهِمْ [ کوئی خوش آمدید نہیں ہے ان کے لیے ] 38: 59۔

ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا  ۚ وَعَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا   ۭوَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ     26؀
ثُمَّ [ پھر ]اَنْزَلَ [ اتاری ] اللّٰهُ [ اللہ نے ]سَكِيْنَتَهٗ [ اپنی سکینت ]عَلٰي رَسُوْلِهٖ [ اپنے رسول پر ]وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ [ اور مومنوں پر ]وَاَنْزَلَ [ اور اس نے اتارے ] جُنُوْدًا [ ایسے لشکر ]لَّمْ تَرَوْهَا ۚ [ تم لوگوں نے نہیں دیکھا جن کو ]وَعَذَّبَ [ اور اس نے عذاب دیا ] الَّذِيْنَ [ ان کو جنھوں نے ]كَفَرُوْا ۭ [ کفر کیا ]وَذٰلِكَ [ اور یہ (ہی ) ]جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ [ کافروں کا بدلہ ہے ]

ثُمَّ يَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ   ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ      27؀
ثُمَّ [ پھر ]يَتُوْبُ [ توبہ قبول کرے گا ] اللّٰهُ [ اللہ ]مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ [ اس کے بعد] عَلٰي مَنْ [ اس کی جس کی ]يَّشَاۗءُ ۭ [ وہ چاہے گا ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]غَفُوْرٌ [ بخشنے والا ہے]رَّحِيْمٌ [ رحم کرنے والا ہے ]

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا  ۚ وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖٓ اِنْ شَاۗءَ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ     28؀
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ [ اے لوگو! جو ]اٰمَنُوْٓا [ ایمان لائے ]اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] الْمُشْرِكُوْنَ [ مشرک لوگ ]نَجَسٌ [ نجس ہیں ]فَلَا يَقْرَبُوا [ پس وہ لوگ نزدیک مت ہوں ] الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ [ مسجد حرام کے ]بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا ۚ [ اپنے اس سال کے بعد ]وَاِنْ [ اور اگر ]خِفْتُمْ [ خوف ہو تم کو ]عَيْلَةً [ تنگ دستی کا ]فَسَوْفَ [ تو عنقریب ]يُغْنِيْكُمُ [ غنی کردے گا تم کو ] اللّٰهُ [ اللہ ]مِنْ فَضْلِهٖٓ [ اپنے فضل سے ]اِنْ [ اگر ]شَاۗءَ ۭ [ اس نے چاہا ]اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے ]



ع ی ل : (ض) عیلا ۔ تنگ دست ہونا ۔ محتاج ہونا۔ عیلۃ ۔ مصدر بھی ہے اور اسم ذات بھی ہے ۔ تنگ دستی ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 28۔ عائل : فاعل کے وزن پر صفت ہے ۔ تنگ دست ہونے والا یعنی تنگ دست ۔ وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى [ اور اس نے پایا آپ کو تنگ دست تو اس نے غنی کیا ] 93: 8۔



ترکیب : (آیت ۔ 28) المشرکون مبتدا ہے اور جمع ہے اس کی خبر نجس واحد آئی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نجس مصدر ہے اور مصدر کی جمع نہیں آتی ۔ یہ واحد اور جمع کے لیے یکساں آتا ہے ۔

قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ     29؀ۧ
قَاتِلُوا [ تم لوگ جنگ کرو] الَّذِيْنَ [ ان سے جو ]لَا يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان نہیں لاتے ] بِاللّٰهِ [ اللہ پر ]وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ [ اور نہ ہی آخری دن پر ]وَلَا يُحَرِّمُوْنَ [ اور نہ ہی وہ حرام ٹھہراتے ہیں ]مَا [ اسے جس کو ]حَرَّمَ [ حرام کیا ] اللّٰهُ [ اللہ نے] وَرَسُوْلُهٗ [ اور اس کے رسول نے ]وَلَا يَدِيْنُوْنَ [ اور نہ ہی وہ ضابطہ حیات بناتے ہیں ]دِيْنَ الْحَقِّ [ حق کے ضابطہ کو ]مِنَ الَّذِيْنَ [ ان لوگوں میں سے ]اُوْتُوا [ جن کو دی گئی ] الْكِتٰبَ [ کتاب ]حَتّٰي [ یہاں تک کہ ]يُعْطُوا [ وہ دے دیں ] الْجِزْيَةَ [ جزیہ ]عَنْ يَّدٍ [ ہاتھ سے ] وَّ [ اس حال میں کہ ]هُمْ [ وہ لوگ ] صٰغِرُوْنَ [ چھوٹے ہونے والے ہیں ]



ع ط و۔ (ن) عطوا ۔ ہاتھ بڑھانا ۔ لینا ۔ (افعال ) اعطاء ۔ ہاتھ بڑھا کر دینا ۔ خوش دلی سے دینا ۔ حق سے زیادہ دینا ۔ عطا کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 29۔ عطاء ۔ اسم ذات ہے ۔ عطیہ ۔ بخشش ۔ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا [ اور نہیں آپ کے رب کی بخشش روکی ہوئی ] ۔17:20۔ (تفاعل ) تعاطیا ۔ کسی کی طرف ہاتھ بڑھانا [ لینے یا پکڑنے کے لیے ]فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ [ پھر انہوں نے پکارا اپنے ساتھی کو تو اس نے ہاتھ بڑھایا پھر کاٹا ] ۔ 54:29۔



(آیت ۔ 29) قاتلوا کے بعد الذین کی وضاحت لایؤمنون سے لیے کر اوتوا الکتب تک ہے ۔ حتی کا تعلق قاتلوا سے ہے یعنی جنگ کرو یہاں تک کہ۔



نوٹ ۔1: ابتداء جزیہ کا حکم یہود ونصاری کے لیے تھا لیکن آگے چل کر نبی کریم
نے مجوس سے جزیہ لے کر انھیں ذمی بنایا ۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بیرون عرب کی تمام قوموں پر اس حکم کو عام کردیا ۔ (تفہیم القرآن )

نوٹ ۔ 2: جزیہ ادا کرنے سے غیر مسلم رعایا کے جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہوجاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انھیں کچھ رعایتیں بھی حاصل ہوجاتی ہیں ۔ مثلا اسلامی ریاست میں لازمی فوجی خدمت سے یہ لوگ مستثنی ہوتے ہیں ۔ اسلام کے مالی احکام بھی ان پر لاگو نہیں ہوتے مثلا زکوۃ ، عشر ، فطرانہ قربانی وغیرہ ۔

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ  ۭ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ  ۚ يُضَاهِــــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ    30؀
وَقَالَتِ [ اور کہا ] الْيَهُوْدُ [ یہود نے کہ ]عُزَيْرُۨ [ عزیر ] ابْنُ اللّٰهِ [ اللہ کے بیٹے ہیں ]وَقَالَتِ [ اور کہا ] النَّصٰرَى [ نصاری نے کہ ] الْمَسِيْحُ [ مسیح ] ابْنُ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے بیٹے ہیں ]ذٰلِكَ [ یہ ]قَوْلُهُمْ [ ان کی بات ]بِاَفْوَاهِهِمْ ۚ [ ان کے مونہوں سے ]يُضَاهِــــُٔـوْنَ [ مشابہت کرتے ہیں ]قَوْلَ الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کی بات سے جنھوں نے ]كَفَرُوْا [ کفر کیا ]مِنْ قَبْلُ ۭ [ اس سے پہلے ]قٰتَلَهُمُ [ ہلاک کرے ان کو ] اللّٰهُ [ اللہ ]اَنّٰى [ کہاں سے ]يُؤْفَكُوْنَ [ یہ پھیرے جاتے ہیں ]



ض ھ ی : (ف) ضھی ۔ زمین کا بنجر ہونا ۔ (مفاعلہ) مضاھاۃ ۔ کسی کے مشابہ ہونا۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 30۔



ترکیب: (آیت ۔ 30) يُضَاهِــــُٔـوْنَ کا مادہ ’’ ض ھ ی ‘‘ ہے ۔ اس سے باب مفاعلہ کا مضارع یضاھون بنتا ہے لیکن ہماری قراءت میں يُضَاهِــــُٔـوْنَ پڑھا جاتا ہے ۔ اس کا ہمزہ اصلی نہیں ہے۔

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ  ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا  ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ     31؀
اِتَّخَذُوْٓا [ انھوں نے بنایا ]اَحْبَارَهُمْ [ اپنے علماء کو ] [ وَرُهْبَانَهُمْ : اور اپنے درویشوں کو] اَرْبَابًا [ بہت سے رب ]مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ]وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ [ اور ابن مریم مسیح کو (بھی ) ]وَمَآ اُمِرُوْٓا [ اور ان کو حکم نہیں دیا گیا ]اِلَّا [ سوائے اس کے ]لِيَعْبُدُوْٓا [ کہ وہ بندگی کریں ]اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ [ واحد الہ کی ]لَآ اِلٰهَ [ کوئی الہ نہیں ہے ]اِلَّا [ سوائے ]هُوَ ۭ [ اس کے ]سُبْحٰنَهٗ [ پاکیزگی اس کی ہے ]عَمَّا [ اس سے جو ]يُشْرِكُوْنَ [ یہ لوگ شرک کرتے ہیں ]



نوٹ ۔1: حضرت عدی بن حاتم (رض) ایمان لانے سے پہلے عیسائی تھے ۔ انھوں نے آیت ۔ 31 کے حوالے سے رسول اللہ
سے پوچھا تھا کہ اس آیت میں ہم پر علماء اور درویشوں کو رب بنا لینے کے الزام کی حقیقت کیا ہے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہود ونصاری اپنے علماء اور درویشوں کو رب نہیں بناتے ۔ جواب میں رسول اللہ نے ان سے پوچھا کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ جس کو وہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم لوگ حرام مان لیتے ہو اور جس کو وہ لوگ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو، حضرت عدی (رض) کے کہا کہ یہ تو ہم کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا یہی ان کو رب بنانا ہے۔

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ  32؀
يُرِيْدُوْنَ [ وہ لوگ ارادہ کرتے ہیں ]اَنْ [ کہ ]يُّطْفِــــُٔـوْا [ بجھا دیں ]نُوْرَ اللّٰهِ [ اللہ کے نور کو ]بِاَفْوَاهِهِمْ [ اپنے مونہوں سے ]وَيَاْبَى [ اور انکار کرتا ہے ] اللّٰهُ [ اللہ ]اِلَّآ اَنْ [ مگر یہ کہ ]يُّتِمَّ [ وہ پورا کرکے رہے گا ]نُوْرَهٗ [ اپنے نور کو ]وَلَوْ [ اور اگرچہ ]كَرِهَ [ کراہیت کریں ] الْكٰفِرُوْنَ [ کافر لوگ ]

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ  ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ    33؀
هُوَ [ وہ ] الَّذِيْٓ [ وہ ہے جس نے ]اَرْسَلَ [ بھیجا ]رَسُوْلَهٗ [ اپنے رسول کو] بِالْهُدٰي [ ہدایت کے ساتھ]وَدِيْنِ الْحَقِّ [ اور حق کے دین کے ساتھ ]لِيُظْهِرَهٗ [ تاکہ وہ غالب کرے اس کو ]عَلَي الدِّيْنِ [ ضابطہ حیات پر ]كُلِّهٖ ۙ [ اس کے کل پر ]وَلَوْ [ اور اگرچہ ]كَرِهَ [ کراہیت کریں ] الْمُشْرِكُوْنَ [ مشرک لوگ ]

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ   ۭ وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ  ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ    34؀ۙ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ [ اے لوگوجو ]اٰمَنُوْٓا [ ایمان لائے ]اِنَّ [ بیشک ]كَثِيْرًا [ بہت سے ]مِّنَ الْاَحْبَارِ [ علماء میں سے ]وَالرُّهْبَانِ [ اور درویشوں میں سے ]لَيَاْكُلُوْنَ [ کھاتے ہیں ]اَمْوَالَ النَّاسِ [ لوگوں کے مال ]بِالْبَاطِلِ [ باطل (طریقوں ) سے ] وَيَصُدُّوْنَ [ اور روکتے ہیں ]عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کی راہ میں ]وَالَّذِيْنَ [ اور جو لوگ ]يَكْنِزُوْنَ [ ذخیرہ کرتے ہیں ] الذَّهَبَ [ سونے کا ]وَالْفِضَّةَ [ اور چاندی کا ]وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا [ اور وہ لوگ خرچ نہیں کرتے ان کو ]فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ [ اللہ کی راہ میں ]فَبَشِّرْهُمْ [ تو آپ خوشخبری دیں ان کو ]بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ [ ایک درد ناک عذاب کی ]



ک ن ز (ض) ۔ کنزا ، کوئی چیز جمع کرکے محفوظ کرنا ۔ ذخیرہ کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 34۔ کنز ۔ ج: کنوز ۔ اسم ذات بھی ہے۔ ذخیرہ ۔ خزانہ ۔ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [ کیوں نہیں اتارا گیا ان پر کوئی خزانہ ] 11:12۔ وَاٰتَيْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ [ اور ہم نے دیا اس کو خزانوں میں سے ] 28:76



 (آیت ۔ 34۔ 35) لاینفقونھا ۔ یحمی علیھا اور فتکوی بھا میں ھا کی ضمیریں الذھب اور الفضۃ کے لیے ہیں ۔ ذھب کا لفظ مذکر مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔ یحمی باب افعال کا مضارع مجہول ہے ۔ ثلاثی مجرد کا نہیں ہوسکتا کیونکہ وہاں پر یہ فعل لازم ہے۔



نوٹ ۔ 2، آیت ۔ 34۔35 میں جب سونے چاندی کی مذمت اتری اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں اس کا چرچا ہوا تو حضرت عمر (رض) نے کہا میں پوچھ آتا ہوں ۔ ان کے سوال پر رسول اللہ
نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوۃ اسی لیے مقرر فرمائی ہے کہ بعد کا مال پاک ہوجائے ۔ میراث کامقرر کرنا بتا رہا ہے کہ جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ حضرت عمر یہ سن کر مارے خوشی کے تکبریں کہنے لگے ۔ (ابن کثیر )