قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
گیارہواں پارہ 

يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَيْهِمْ ۭ قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْ ۭ وَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ      94؁
يَعْتَذِرُوْنَ [ وہ لوگ معذرت پیش کریں کریں گے ] اِلَيْكُمْ [ تمہاری طرف ] اِذَا [ جب ] رَجَعْتُمْ [ تم لوگ لوٹو گے ] اِلَيْهِمْ ۭ [ ان کی طرف ] قُلْ [ آپ کہہ دیجیے ] لَّا تَعْتَذِرُوْا [ تم لوگ معذرت مت کرو ] لَنْ نُّؤْمِنَ [ ہم ہر گز نہیں مانیں گے ] لَكُمْ [ تمہاری بات ]قَدْ نَبَّاَنَا [ ہمیں بتا دیا ہے ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] مِنْ اَخْبَارِكُمْ ۭ [ تمہاری خبروں میں سے ] وَسَيَرَى [ اور دیکھے گا ] اللّٰهُ [ اللہ ] عَمَلَكُمْ [ تمہارے عمل کو ] وَرَسُوْلُهٗ [ اور اس کے رسول (بھی ) ] ثُمَّ [ پھر] تُرَدُّوْنَ [تم لوگ لوٹائے جاؤگے ] اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ [ موجود اور غائب کے جاننے والے کی طرف ] فَيُنَبِّئُكُمْ [ پھر وہ جتلادے گا تمہیں ] بِمَا [ وہ جو ] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [تم لوگ کرتے تھے ]

سَيَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْھُمْ ۭفَاَعْرِضُوْا عَنْھُمْ  ۭاِنَّھُمْ رِجْسٌ ۡ وَّمَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ  ۚجَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ      95؁
سَيَحْلِفُوْنَ [وہ لوگ قسم کھائیں گے ] بِاللّٰهِ [ اللہ کی ] لَكُمْ [ تمہارے لیے ( یعنی سامنے ) ]اِذَا [جب ] انْقَلَبْتُمْ [ تم لوگ پلٹوگے ] اِلَيْهِمْ [ ان کی طرف ] لِتُعْرِضُوْا [ تاکہ تم لوگ درگزر کرو] عَنْھُمْ ۭ [ ان سے ] فَاَعْرِضُوْا [ تو تم لوگ اعراض کرو] عَنْھُمْ ۭ [ ان سے ] اِنَّھُمْ [ بیشک وہ سب ] رِجْسٌ ۡ [ نجس ہیں ] وَّمَاْوٰىھُمْ [ اور ان کا ٹھکانہ ]جَهَنَّمُ ۚ [جہنم ہے] جَزَاۗءًۢ [ بدلہ ہوتے ہوئے ] بِمَا [اس کا جو ]كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ [ وہ کماتے تھے ]

يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ ۚ فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْھُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ      96؁
يَحْلِفُوْنَ [ وہ قسم کھائیں گے ] لَكُمْ [ تمہارے سامنے ] لِتَرْضَوْا [ تاکہ تم لوگ راضی ہوجاؤ] عَنْھُمْ ۚ [ ان سے ] فَاِنْ [ پس اگر ] تَرْضَوْا [ تم لوگ راضی ہوگے ] عَنْھُمْ [ ان سے ] فَاِنَّ [ تو بیشک ] اللّٰهَ [اللہ ] لَا يَرْضٰى [ راضی نہیں ہوگا ] عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ [ نافرمانی کرنے والے لوگوں سے ]

اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ       97؁
اَلْاَعْرَابُ [ دیہاتی لوگ ] اَشَدُّ [ زیادہ سخت ہیں ] كُفْرًا [ بلحاظ کفر کے ] وَّنِفَاقًا [ اور بلحاظ نفاق کے ] وَّاَجْدَرُ [ اور (وہ لوگ) اسی لائق ہیں ] اَلَّا يَعْلَمُوْا [ کہ وہ نہ جانیں ] حُدُوْدَ مَآ [ اس کی حدود کو جو ] اَنْزَلَ [ اتارا ] اللّٰهُ [اللہ نے ] عَلٰي رَسُوْلِهٖ ۭ [ اپنے رسول پر ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ] حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے ]



ج د ر : (ن) ۔ جدرا ، دیواروں سے گھرنا ، دیوار کی اوٹ میں ہونا ۔ جدار ، ج: جدر ۔ اسم ذات ہے ۔ دیوار ، فَوَجَدَا فِـيْهَا جِدَارًا [ تو انھوں نے پایا اس میں ایک دیوار ] 18،77 اَوْ مِنْ وَّرَاۗءِ جُدُرٍ [ یا کچھ دیواروں کے پیچھے سے ] 59: 14۔ (ک) جدارۃ ۔ لائق ہونا ۔ اہل ہونا ۔ اجدر ۔ افعل تفضیل کے وزن پر صفت ہے ۔ بہت لائق ۔ بہت اہل ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 97۔



(آیت ۔ 97) اجدر خبرہے ۔ اس کا مبتدا ہم محذوف ہے۔

وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يَّتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَاۗىِٕرَ  ۭ عَلَيْهِمْ دَاۗىِٕرَةُ السَّوْءِ  ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ        98؀
وَمِنَ الْاَعْرَابِ [ اور دیہاتیوں میں سے ] مَنْ [ وہ بھی ہیں جو ] يَّتَّخِذُ [ بناتے ہیں ] مَا [اس کو جو ] يُنْفِقُ [ وہ خرچ کرتے ہیں ] مَغْرَمًا [ ایک چٹی [ وَّيَتَرَبَّصُ [ اور انتظار کرتے ہیں ] بِكُمُ [ تمہارے لیے] الدَّوَاۗىِٕرَ ۭ [ گردش (زمانہ ) کا ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ہی ہے ] دَاۗىِٕرَةُ السَّوْءِ ۭ [ برائی کی گردش ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] سَمِيْعٌ [ سننے والا ہے ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے]

وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ ۭ اَلَآ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّھُمْ  ۭ سَـيُدْخِلُھُمُ اللّٰهُ فِيْ رَحْمَتِهٖ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     ۝ۧ
وَمِنَ الْاَعْرَابِ [ اور دیہاتیوں میں سے ] مَنْ [ وہ بھی ہیں جو ] يُّؤْمِنُ [ ایمان لاتے ہیں ] بِاللّٰهِ [ اللہ پر ] وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ [ اور آخری دن پر ] وَيَتَّخِذُ [ اور وہ بناتے ہیں ] مَا [ اس کو جو ] يُنْفِقُ [ وہ خرچ کرتے ہیں ] قُرُبٰتٍ [ قربت (کا ذریعہ ) ]عِنْدَ اللّٰهِ [ اللہ کے پاس ] وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ ۭ [ اور ان رسول کی دعاؤں (کا ذریعہ ) ] اَلَآ [ سنو !] اِنَّهَا [ یقینا یہ ] قُرْبَةٌ [ قربت کا ذریعہ ہیں ] لَّھُمْ ۭ [ ان کے لیے ] سَـيُدْخِلُھُمُ [ داخل کرے گا ان کو ] اللّٰهُ [اللہ ] فِيْ رَحْمَتِهٖ ۭ [ اپنی رحمت میں ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]غَفُوْرٌ [ بےانتہا بخشنے والا ہے ]رَّحِيْمٌ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ]



(آیت ۔ 99) یتخذ کا مفعول اول ما ہے اور قربت اس کا مفعول ثانی ہے ۔ صلوت الرسول کا مفعول اول بھی مانا جا سکتاہے ۔ اور مفعول ثانی بھی ۔ دونوں طرح سے ترجمے درست مانیں جائیں گے ۔ ہم مفعول ثانی مان کر ترجمہ کریں گے ۔

وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا  ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ    ١٠٠؁
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ [اور پہلے سبقت کرنے والے ] مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ [ مہاجروں میں سے ] وَالْاَنْصَارِ [ اور انصار میں سے ] ووَالَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] اتَّبَعُوْھُمْ [ پیروی کی ان کی ] بِاِحْسَانٍ ۙ [ بلاکم وکاست ] رَّضِيَ [ راضی ہوا ] اللّٰهُ [اللہ ] عَنْھُمْ [ ان سے ] وَرَضُوْا [اور وہ راضی ہوئے ] عَنْهُ [اس سے ] وَاَعَدَّ [ اور اس نے تیار کیے ] لَھُمْ [ ان کے لیے] جَنّٰتٍ [ایسے باغات ] تَجْرِيْ [بہتی ہیں ] تَحْتَهَا [ جن کے نیچے ] الْاَنْهٰرُ [ نہریں ] خٰلِدِيْنَ [ ایک حالت میں رہنے والے ہوتے ہوئے ] فِيْهَآ [ ان میں ] اَبَدًا ۭ [ہمیشہ ہمیش ] ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ [ یہ ہی عظیم کامیابی ہے ]



ترکیب: (آیت ۔100) وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کو مرکب توصیفی اور مبتدا اور رضی اللہ عنہم کو ان کی خبر مان کر ہم ترجمہ کریں گے ۔ اگر السابقون کو مبتدا اور الاؤلون کو اس کی خبر معرفہ مان کر ترجمہ کیا جائے تو وہ بھی درست ہوگا ۔

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ      ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ  ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ  ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ  ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ    ١٠١؀ۚ
وَمِمَّنْ [ اور ان میں سے ] حَوْلَكُمْ [ تمہارے اردگرد ] مِّنَ الْاَعْرَابِ [ دیہاتیوں میں سے ] مُنٰفِقُوْنَ ړ [ (وہ ) منافق ہیں ]وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ [ اور مدینہ والوں میں سے ] مَرَدُوْا [ جو اڑے رہے ] عَلَي النِّفَاقِ ۣ [ نفاق پر ] لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ [ آپ نہیں جانتے ان کو ] نَحْنُ [ ہم ] نَعْلَمُھُمْ ۭ [ جانتے ہیں ان کو ] سَنُعَذِّبُھُمْ [ ہم عذاب دیں گے ان کو ] مَّرَّتَيْنِ [ دو مرتبہ ] ثُمَّ [ پھر ] يُرَدُّوْنَ [ وہ لوٹائے جائیں گے ] اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ [ ایک عظیم عذاب کی طرف ]



نوٹ ۔1: آیت ۔ 101 میں ہے کہ ایسے منافق جو نفاق میں بہت آگے جا چکے ہیں ۔ انھیں عذاب عظیم یعنی دوزخ کے عذاب سے پہلے دومرتبہ عذاب دیا جائے گا ۔ اس میں ایک دنیا کی زندگی کا عذاب ہے اور دوسرا قبر کا عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ لیکن ایک صورت ایسی ہے جس میں تقریبا ہر منافق گرفتار ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ دنیا کے جن مفادات کے تحفظ کی خاطر ہو ’’ خوش رہے باغبان ، راضی رہے صیاد بھی ‘‘ کی روش اختیار کرتا ہے ، انھیں وہ محفوظ پھر بھی نہیں سمجھتا اور ہر وقت اسے کسی نہ کسی نقصان کا دھڑکا لگا رہتا ہے ۔ (اس کی مزید وضاحت کے لیے آیت ۔ 9:55 کا نوٹ ۔ 1 ، پھر سے پڑھ لیں ) یہ سوہان روح مستقل اس کی جان کو لاگو رہتا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ جھنجھلاہت ، غصہ ، اعصابی تناؤ ، بےخوابی وغیرہ میں وقفہ وقفہ سے مبتلا ہوتا رہتا ہے ، کچھ وقت گزرنے کے بعد یہی چیزیں اسے مختلف بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہیں ، جن کی فہرست کافی طویل ہے ۔ اس طرح اس کی زندگی ایک مسلسل عذاب ہی ہوتی ہے ۔

 اس دنیوی عذاب سے نجات کی ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ انسان اس حقیقت کو تسلیم کر لیے کہ کسی معاملہ میں کوشش کرنے یا نہ کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، لیکن کسی کوشش کے نتیجہ پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ ہر کوشش کا نتیجہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضہ قدرت میں رکھا ہے۔ اپنے علم اور حکمت کی بنیاد پر وہ کسی کوشش کا وہ نتیجہ عطا کرتا ہے۔ جو
Over All تناظر میں بندے کے حق میں مفید ہوتا ہے ۔ یہ ہماری اپنی کوتاہ بینی اور کم فہمی ہے کہ کسی نتیجہ کو ہم برا سمجھتے ہیں ۔ اس حقیقت پر جب دل ٹھک جائے تو پھر کسی کوشش کا جو بھی نتیجہ نکلے ، کامیابی ہو یا ناکامی ، فائدہ ہو یا نقصان اور ہرحال میں راضی برضا رہنے کا خود کو خوگر بنالے ، تو مذکورہ دنیوی عذاب سے نجات پاجائے گا ، اس کے علاوہ اس سے نجات کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّـــًٔـا  ۭعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     ١٠٢؁
وَاٰخَرُوْنَ [ اور کچھ دوسرے ہیں ] اعْتَرَفُوْا [ جنھوں نے اعتراف کیا ] بِذُنُوْبِهِمْ [ اپنے گناہوں کا ] خَلَطُوْا [ انھوں نے گڈمڈ کیا ] عَمَلًا صَالِحًا [ نیک عمل کو ] وَّاٰخَرَ سَـيِّـــًٔـا ۭ [ اور دوسرے برے کو ] عَسَى [ قریب ہے] اللّٰهُ [ اللہ ] اَنْ [ کہ ] يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۭ [ وہ توبہ قبول کرے ان کی ] اِنَّ اللّٰهَ ہ [یقینا اللہ ] غَفُوْرٌ [ بےانتہابخشنے والا ہے ] رَّحِيْمٌ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ]

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ    ١٠٣؁
خُذْ [ آپ پکڑیں (یعنی قبول کریں ) ]مِنْ اَمْوَالِهِمْ [ ان کے مالوں سے ] صَدَقَـةً [ وہ صدقہ ] تُطَهِّرُھُمْ [ جو پاک کرتا ہے ان کو ] وَتُزَكِّيْهِمْ [ اور آپ تزکیہ کرتے ہیں ان کا ] بِهَا [ جس سے ] وَصَلِّ [ اور آپ دعا دیں ] عَلَيْهِمْ ۭ [ انکو ] اِنَّ [ بیشک ] صَلٰوتَكَ [آپ کی دعا ] سَكَنٌ [ تسکین ہے ] لَّھُمْ ۭ [ ان کے لیے ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] سَمِيْعٌ [ سننے والا ہے] عَلِيْمٌ [جاننے والا ہے ]



 (آیت ۔ 103) صدقۃ نکرہ موصوفہ ہے اور تطھر واحد مؤنث کے صیغہ میں اس کی صفت ہے۔ یہاں پر تطھر کو واحد مذکر مخاطب کا صیغہ ماننے کی گنجائش نہیں ہے ۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ فعل امر خذ کا جواب امر ہونے کی وجہ سے مجزوم یعنی تطھر ہوتا ۔ آگے تزکی واحد مذکر مخاطب کا صیغہ ہے۔

اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ ھُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَيَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ     ١٠٤؁
اَ [ کیا ]لَمْ يَعْلَمُوْٓا [ انھوں نے نہیں جانا ] اَنَّ [ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ] ھُوَ [ وہ ہی ] يَقْبَلُ [ قبول کرتا ہے ] التَّوْبَةَ [ توبہ ] عَنْ عِبَادِهٖ [ اپنے بندوں سے ] وَيَاْخُذُ [ اور وہ پکڑتا (قبول کرتا ہے ) ] الصَّدَقٰتِ [ صدقات ] وَاَنَّ [ اور یہ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ] ھُوَ التَّوَّابُ [ ہی بار بار قبول کرنے والا ہے ] الرَّحِيْمُ [ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ]

وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ  ۭ وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ    ١٠٥؀ۚ
وَقُلِ [ اور آپ کہہ دیجیے ] اعْمَلُوْا [ تم لوگ عمل کرو] فَسَيَرَى [ پھر دیکھے گا ] اللّٰهُ [ اللہ ] عَمَلَكُمْ [ تمہارے عمل کو ] وَرَسُوْلُهٗ [ اور اس کا رسول ] وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ [اور مومن لوگ (بھی ) ] وستردون [ اور تم لوگ لوٹائے جاؤگے ]اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ [ موجود اور غائب کے عالم کی طرف ] فَيُنَبِّئُكُمْ [ پھر وہ جتا دے گا تم لوگوں کو ] بِمَا [ وہ جو ] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ] [ تم لوگ کرتے تھے ]

وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا يُعَذِّبُھُمْ وَاِمَّا يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ      ١٠٦؁
وَاٰخَرُوْنَ [ اور کچھ دوسرے ] مُرْجَوْنَ [ ملتوی کیے ہوئے ہیں ] لِاَمْرِ اللّٰهِ [ اللہ کے حکم کے لیے ] اِمَّا [ یا ] يُعَذِّبُھُمْ [ وہ عذاب دے گا ان کو ] وَاِمَّا [ اور یا ]يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۭ [ وہ توبہ قبول کرے گا ان کی ]وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ [ اور اللہ جاننے والاہے ] حَكِيْمٌ [ حکمت والاہے]

وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّكُفْرًا وَّتَفْرِيْقًۢا  بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ  ۭوَلَيَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰى ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّھُمْ لَكٰذِبُوْنَ     ١٠٧؁
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جنھوں نے ] اتَّخَذُوْا [ بنائی ] مَسْجِدًا [ ایک مسجد ] ضِرَارًا [ نقصان پہنچانے والی ] وَّكُفْرًا [ اور کفر کرنے والی ] وَّتَفْرِيْقًۢا [ اور پھوٹ ڈالنے کو ] بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ مومنوں کے مابین ] وَاِرْصَادًا [ اور نگران مقرر کرنے کو ] لِّمَنْ [ اس کے لیے (یعنی اس کی طرف سے ) جس نے ] حَارَبَ [ لڑائی کی ] اللّٰهَ [ اللہ ] وَرَسُوْلَهٗ [ اور اس کے رسول سے ]مِنْ قَبْلُ ۭ [ اس سے پہلے ] وَلَيَحْلِفُنَّ [ اور وہ لازما قسم کھائیں گے ] اِنْ [ (کہ ) نہیں ] اَرَدْنَآ [ ارادہ کیا ہم نے ]اِلَّا [ مگر ] الْحُسْنٰى ۭ [بھلائی کا ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] يَشْهَدُ [ گواہی دیتا ہے ] اِنَّھُمْ [ کہ وہ ] لَكٰذِبُوْنَ [ یقینا جھوٹے ہیں ]



ترکیب: (آیت ۔ 107) اتخذوا کا مفعول اول مسجدا جبکہ ضرارا ، کفرا اور تفریقا اور ارصادا مفعول ثانی ہیں ۔ ان میں ضرارا باب مفاعلہ کا ، کفرا ثلاثی مجرد کا تفریقا باب تفعیل کا اور ارصاد اور باب افعال کا مصدر ہے۔



نوٹ ۔1: مدینہ کا ایک شخص ابو عامر زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہوگیا تھا اور ابوعامر راہب کے نام سے مشہور تھا ،رسول اللہ
جب مدینہ تشریف لائے تو اس نے آپ کی مخالفت کی اور غزوہ حنین تک تمام غزوات میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی ، اس کے بعد یہ شام کی طرف چلا گیا اور قیصر روم کو آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ مدنیہ پر فوج پر کشی کرے، اس کے ساتھ ہی اس نے منافقین کو ہدایت کی کہ تم لوگ اپنی طاقت کو مجتمع کرنے کے لیے ایک مسجد بناؤ ، اس میں اپنے لوگوں کو جمع کرو اور ممکنہ حد تک اسلحہ بھی جمع کرو تاکہ وقت پر قیصر روم کی مدد کرسکو ۔ چنانچہ منافقین نے قباء کے مقام پر ایک دوسری مسجد کی بنیاد رکھی اور رسول اللہ سے درخواست کی کہ آپ اس میں ایک نماز پڑھ لیں ، تاکہ برکت ہوجائے ، آپ اس وقت غزوہ تبوک کی تیا ری میں مشغول تھے اس لیے آپ نے واپسی کے بعد اس میں نماز پڑھنے کی حامی بھر لی ، لیکن واپسی کے وقت آپ مدینہ کے قریب ایک مقام پر فروکش تھے تویہ آیات نازل ہوئیں ۔ چنانچہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ جا کر اس مسجد کو گرا دو اور اس میں آگ لگا دو ۔ مسجد قبا سے کچھ فاصلے پر یہ جگہ آج تک ویران پڑی ہے۔ (معارف القرآن )

لَا تَقُمْ فِيْهِ اَبَدًا  ۭ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ ۭ فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا  ۭوَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ   ١٠٨؁
لَا تَقُمْ [ آپ مت کھڑے ہوں ] فِيْهِ [ اس میں ] اَبَدًا ۭ [کبھی بھی ] لَمَسْجِدٌ [ بیشک ایسی مسجد ] اُسِّسَ [ بنیاد بھری گئی جس کی ] عَلَي التَّقْوٰى [ تقوی پر (یعنی سے ) ] مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ [ پہلے دن سے ] اَحَقُّ [ زیادہ حقدار ] اَنْ [کہ ] تَقُوْمَ [ آپ کھڑے ہوں ] فِيْهِ ۭ [ اس میں ]فِيْهِ [اس میں] رِجَالٌ [ ایسے مرد ہیں ] يُّحِبُّوْنَ [ جو پسند کرتے ہیں ] اَنْ [ کہ ] يَّتَطَهَّرُوْا ۭ [ وہ خوب پاک رہیں ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] يُحِبُّ [پسند کرتا ہے ] الْمُطَّهِّرِيْنَ [خوب پاک رہنے والوں کو ]



ء س س (ن) اسا ، کسی عمارت کی بنیاد رکھنا ۔ (تفعیل ) تاسیسا ، بنیاد رکھنا ۔ اس میں مبالغہ کا مفہوم ہے یعنی بنیاد بھرنا ،زیرمطالعہ آیت ۔108۔109۔

اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰي تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰي شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ     ١٠٩؁
اَفَمَنْ [تو کیا وہ ] اَسَّسَ [ جس نے بنیاد بھری ] بُنْيَانَهٗ [ اپنی عمارت کی ] عَلٰي تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ [ اللہ کے تقوی پر ]وَرِضْوَانٍ [ اور رضا مندی پر ] خَيْرٌ [ بہتر ہے ] اَمْ مَّنْ [ یا وہ ] اَسَّسَ [ جس نے بنیاد بھری ] بُنْيَانَهٗ [اپنی عمارت کی ]عَلٰي شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ [ گرنے والے چھجے کے کنارے پر ]فَانْهَارَ [ تو وہ گرپڑا ] بِهٖ [ اس کے (یعنی ) عمارت کے ساتھ ] فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ ۭ [ دوزخ کی آگ میں ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] لَا يَهْدِي [ ہدایت نہیں دیتا ] الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ [ ظالم لوگوں کو ]



ج ر ف،(ن) جرفا ، مٹی کھودنا ، مٹی کھرچنا۔ جرف ۔ دریا کا ایسا کنارہ جس کی مٹی پانی بہا لے گیا ہو ، چھجہ ۔
Cliff زیر مطالعہ آیت ۔ 109۔

ھ ور ،(ن) ھورا ۔ عمارت کا گرنا ۔ ھار ، اسم الفاعل ہے۔ قاعدہ کے مطابق اس کا اسم الفاعل ھا ئر بنتا ہے اور استعمال بھی ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ھار بھی استعمال ہوتا ہے ۔ گرنے والا ۔ زیرمطالعہ آیت ۔109۔ (الفعال) انھیارا ۔ گرپڑنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 109۔



(آیت ۔109) شفا مضاف ہے، جرف اس کا مضاف الیہ ہے، جبکہ ھار صفت ہے۔ جرف کی

لَا يَزَالُ بُنْيَانُھُمُ الَّذِيْ بَنَوْا رِيْبَةً فِيْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّآ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُھُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ           ؀ۧ
لَا يَزَالُ [ ہمیشہ رہے گا ] بُنْيَانُھُمُ الَّذِيْ [ ان کی عمارت سے جو ] بَنَوْا [ انہوں نے بنائی ] رِيْبَةً [ ایک شک ]فِيْ قُلُوْبِهِمْ [ ان کے دلوں میں ] اِلَّآ اَنْ [ سوائے اس کے کہ ] تَقَطَّعَ [ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں ] قُلُوْبُھُمْ ۭ [ ان کے دل ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ] حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے]



(آیت ۔ 110) لا یزال فعل ناقص ہے، بنیانہم اس کا اسم ہے اور ریبۃ اس کی ضمیر ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ   ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ     ۣ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ  وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ ۭ وَذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ     ١١١؁
اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ نے ] اشْتَرٰي [ خرید لیا]مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ مومنوں سے ]اَنْفُسَھُمْ [ان کی جانوں کو ] وَاَمْوَالَھُمْ [ اور ان کے مالوں کو ]بِاَنَّ [ اس کے عوض کہ ]لَھُمُ [ ان کے لیے] الْجَنَّةَ ۭ [ جنت ہے]يُقَاتِلُوْنَ [ وہ لوگ جنگ کرتے ہیں ]فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ میں ] فَيَقْتُلُوْنَ [ تو وہ قتل کیے جاتے ہیں ] وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا [ پکا وعدہ ہو اس پر (یعنی اللہ پر) ]فِي التَّوْرٰىةِ [ تورات میں ]وَالْاِنْجِيْلِ [ اور انجیل میں ] وَالْقُرْاٰنِ [اور قرآن میں ] وَمَنْ [اور کون] اَوْفٰى [ زیادہ وفا کرنے والا ]بِعَهْدِهٖ [ اپنے وعدہ کو ] مِنَ اللّٰهِ [ اللہ سے] فَاسْـتَبْشِرُوْا [ پس تم لوگ خوشی مناؤ ] بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ [ اپنے اس سودے کی جس کا ] بَايَعْتُمْ [ تم نے معاہدہ کیا ] بِهٖ ۭ [ اس سے] وَذٰلِكَ [ اور یہ ] ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ [ ہی عظیم کامیابی ہے ]



ترکیب : (آیت ۔ 111) وعدا ، حقا مرکب توصیفی ہے اور فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے۔ علیہ کی ضمیر اللہ کے لیے ہے ۔ اوفی ، فعل ماضی بھی ہو سکتا تھا لیکن آگے من اللہ سے معلوم ہوا کہ یہ فعل ماضی نہیں بلکہ افعل تفضیل ہے۔

اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ     ١١٢؁
اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ [ توبہ کرنے والے ] الْعٰبِدُوْنَ [ بندگی کرنے والے ] الْحٰمِدُوْنَ [حمد کرنے والے] السَّاۗىِٕحُوْنَ [ روزہ رکھنے والے ] الرّٰكِعُوْنَ [ رکوع کرنے والے ] السّٰجِدُوْنَ [ سجدہ کرنے والے] الْاٰمِرُوْنَ [ترغیب دینے والے] بِالْمَعْرُوْفِ [ بھلائی کی ]وَالنَّاهُوْنَ [ اور منع کرنے والے] عَنِ الْمُنْكَرِ [برائی سے ] وَالْحٰفِظُوْنَ [ اور حفاظت کرنے والے ]لِحُدُوْدِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کی حدود کی ]وَبَشِّرِ [ اور آپ بشارت دیجیے ] الْمُؤْمِنِيْنَ [مومنون کو ]

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ   ١١٣؁
مَا كَانَ [ نہیں ہے ] لِلنَّبِيِّ [ ان کے نبی کے لیے ] وَالَّذِيْنَ [ اور ان کے لیے جو ] اٰمَنُوْٓا [ ایمان لائے ] اَنْ [کہ ] يَّسْتَغْفِرُوْا [ وہ استغفار کریں ] لِلْمُشْرِكِيْنَ [ مشرکوں کے لیے] وَلَوْ [اور اگر چہ ] كَانُوْٓا [ وہ تھے ] اُولِيْ قُرْبٰى [ قربت والے ] مِنْۢ بَعْدِ مَا [ اس کے بعد کہ جو ] تَبَيَّنَ [ واضح ہوا ] لَھُمْ [ ان پر ] اَنَّھُمْ [ کہ وہ لوگ ] اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ [ دوزخ والے ہیں ]

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ  ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ     ١١٤؁
وَمَا كَانَ [ اور نہیں تھا ] اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ [ ابراہیم کا استغفار ]لِاَبِيْهِ [ اپنے والد کے لیے ]اِلَّا [ مگر ] عَنْ مَّوْعِدَةٍ [ ایک وعدے کے وقت سے ] وَّعَدَھَآ [ انھوں نے وعدہ کیا جس کا ] اِيَّاهُ ۚ [اس سے ] فَلَمَّا [ پھر جب ] تَـبَيَّنَ [ واضح ہوا ]لَهٗٓ [ ان پر ] اَنَّهٗ [ کہ وہ ] عَدُوٌّ [ دشمن ہے ] لِّلّٰهِ [ اللہ کا ] تَبَرَّاَ [ تو انھوں نے بیزاری کا اظہار کیا ] مِنْهُ ۭ [ اس سے ] اِنَّ [ بیشک ] اِبْرٰهِيْمَ [ ابراہیم ] لَاَوَّاهٌ [ یقینا بہت درد مند تھے ] حَلِيْمٌ [ بردبار تھے ]



ء وھ : (ن) اوھا ، دوسروں کی تکلیف کا احساس کرنا ، درد مند ہونا ۔ آہ بھرنا ۔ اواھ ، فعال ، کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بہت درد مند ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 114،

وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِلَّ قَوْمًۢا  بَعْدَ اِذْ هَدٰىھُمْ حَتّٰي يُبَيِّنَ لَھُمْ مَّا يَتَّقُوْنَ  ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ      ١١٥؁
وَمَا كَانَ [ اور نہیں ہے ] اللّٰهُ [ اللہ ] لِيُضِلَّ [ کہ وہ گمراہ کرے] قَوْمًۢا [ کسی قوم کو ] بَعْدَ اِذْ [ اس کے بعد کہ جب ] هَدٰىھُمْ [ اس نے ہدایت دی ان کو ]حَتّٰي [ یہاں تک کہ ] يُبَيِّنَ [ وہ واضح کردے ] لَھُمْ [ ان کے لیے] مَّا [ اس کو جس سے ] يَتَّقُوْنَ ۭ [ وہ بچتے رہیں ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] بِكُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز کو ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]



نوٹ ۔1: آیت ۔ 115 میں ایک قائدہ کلیہ بیان ہوا ہے جس سے قرآن مجید کے وہ تمام مقامات اچھی طرح سمجھے جا سکتے ہیں جہاں ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فعل بتایا ہے۔ اللہ کا ہدایت دینا یہ ہے کہ وہ صحیح فکر وعمل کو اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے سامنے واضح طور پر پیش کردیتا ہے ۔ پھر جو لوگ اس طریقے پر خود چلنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں انھیں اس کی توفیق بخشتا ہے ۔ اور اللہ کا گمراہی میں ڈالنا یہ ہے کہ جو صحیح فکر وعمل اس نے بتایا ہے، اگر کوئی اس کے خلاف چلنے پر اصرار کرے اور سیدھا نہ چلنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو زبردستی راہ راست پر نہیں لاتا ، بلکہ جدھر وہ خود جانا چاہتا ہے، اسی طرف اس کو جانے کی توفیق دے دیتا ہے ۔ (تفہیم القرآن)

اِنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۭ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ    ١١٦؁
اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] لَهٗ [ اس کے لیے ہی ہے ]مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [ زمین اور آسمانوں کی بادشاہت ] يُـحْيٖ [ وہ زندگی دیتا ہے ] وَيُمِيْتُ ۭ [ اور وہ موت دیتا ہے ]وَمَا لَكُمْ [ اور نہیں ہے تمہارے لیے ] مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے سوا ] مِنْ وَّلِيٍّ [ کوئی بھی کار ساز ] وَّلَا نَصِيْرٍ [ اور نہی ہی کوئی مددگار]

لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ      ١١٧؀ۙ
لَقَدْ تَّابَ [ بیشک متوجہ ہوا ہے ] اللّٰهُ [اللہ ]عَلَي النَّبِيِّ [ان نبی پر ] وَالْمُهٰجِرِيْنَ [ اور مہاجروں پر ] وَالْاَنْصَارِ [ اور انصار پر ] الَّذِيْنَ [جنہوں نے ] اتَّبَعُوْهُ [پیروی کی ان کی ]فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ [ مشکل گھڑی میں ] مِنْۢ بَعْدِ مَا [اس کے بعد کہ جو ] كَادَ يَزِيْغُ [قریب تھا کہ بہک جائیں ]قُلُوْبُ فَرِيْقٍ [ ایک فریق کے دل ] مِّنْھُمْ [ ان میں سے ] ثُمَّ [ پھر ] تَابَ [ اس نے توجہ فرمائی ] عَلَيْهِمْ ۭ [ ان پر ] اِنَّهٗ [ بیشک وہ ] بِهِمْ [ ان پر ] رَءُوْفٌ [ بےانتہا شفقت کرنے والا ہے] رَّحِيْمٌ ] [رحم کرنے والا ہے ]

وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا  ۭ حَتّٰى اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ اَنْفُسُھُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّآ اِلَيْهِ ۭ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوْبُوْا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ    ١١٨؀ۧ
وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ [ اور ان تین پر (بھی ) جن کو ] خُلِّفُوْا ۭ ا [ پیچھے کیا گیا (فیصلے کے لیے ) ] حَتّٰى [ یہاں تک کہ ] اِذَا [ جب ] ضَاقَتْ [ تنگ ہوئی ] عَلَيْهِمُ [ ان پر ] الْاَرْضُ [ زمین ] بِمَا [ ساتھ اس کے جو ] رَحُبَتْ [ وہ کشادہ تھی ] وَضَاقَتْ [ اور تنگ ہوئیں ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ] اَنْفُسُھُمْ [ ان کی جانیں ] وَظَنُّوْٓا [ اور انھوں نے خیال کیا ] اَنْ [ کہ ]لَّا مَلْجَاَ [ کوئی بھی پناہ گاہ نہیں ہے ] مِنَ اللّٰهِ [ اللہ سے (بچنے کی ) ] اِلَّآ [مگر ] اِلَيْهِ ۭ [ اس کی طرف ہی ]ثُمَّ تَابَ [ پھر اس نے توجہ فرمائی ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ] لِيَتُوْبُوْا ۭ [تاکہ وہ توبہ کریں ]اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] ھُوَ التَّوَّابُ [ ہی بار بار توبہ قبول کرنے والا ہے ] الرَّحِيْمُ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ]



 (آیت ۔ 118) وعلی الثلثۃ ،گذشتہ آیت میں لقد تاب اللہ پر عطف ہے ۔



نوٹ ۔2 غزوہ تبوک کے لیے تمام مسلمانوں کو نکلنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ اس وقت مدینہ کے لوگوں کے مختلف گروہ ہوگئے تھے ، ایک منافق ، جن کا ذکر گذشتہ آیات میں آچکا ہے ۔ مومنین کے گروہوں کا ذکر آیت ۔ 117۔118، میں آیا ہے ۔ مومنوں کا ایک گروہ حکم پاتے ہی فورا جہاد کے لیے تیارہو گیا ان کا ذکر آیت ۔ 117 میں الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ میں ہے ۔ دوسرا گروہ وہ ابتداء تردد میں رہا لیکن پھر سنبھل گیا اور سب کے ساتھ جہاد پر روانہ ہوا ۔ ان کے لیے فرمایا کاد یزیغ قلوب فریق ۔ مومنین کا تیسرا گروہ ، وہ تھا جو جہاد پر نہیں گیا بعد میں بہانے نہیں تراشے بلکہ اپنے قصور کا اعتراف کیا ، یہ کل دس صحابہ تھے ، ان میں سے سات نے خود کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرے گا تب وہ کھلیں گے ، ان کی توبہ قبول کرنے کا ذکر آیت ۔ 102 میں گزر چکا ہے۔ باقی تین نے یہ عمل نہیں کیا ۔ ان کے معاشرتی بائیکاٹ کا حکم ہوا تھا ۔ ان کی توبہ قبول کرنے کا ذکر آیت ۔ 118 میں ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ    ١١٩؁
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ [اے لوگو! جو ] اٰمَنُوا [ایمان لائے ] اتَّقُوا [ تقوی کرو] اللّٰهَ [ اللہ سے]وَكُوْنُوْا [ اور ہوجاؤ] مَعَ الصّٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والوں کے ساتھ ]

مَا كَانَ لِاَھْلِ الْمَدِيْنَةِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ يَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَلَا يَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖ  ۭذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا يُصِيْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَةٌ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَـطَــــــُٔوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيْظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ  ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ    ١٢٠؀ۙ
مَا كَانَ [ نہیں (مناسب ) تھا ]لِاَھْلِ الْمَدِيْنَةِ [ مدینہ والوں کے لیے ] وَمَنْ [ اور ان کے لیے جو ] حَوْلَھُمْ [ ان کے اردگرد ہیں ] مِّنَ الْاَعْرَابِ [ دیہاتیوں میں سے ] اَنْ [ کہ ] يَّتَخَلَّفُوْا [ وہ پیچھے رہیں ] عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ [ اللہ کے رسول سے ] وَلَا يَرْغَبُوْا [ اور یہ کہ نہ چاہیں ]بِاَنْفُسِهِمْ [ اپنی جانوں کو ]عَنْ نَّفْسِهٖ ۭ [ ان کی جان سے (زیادہ ) ] ذٰلِكَ [ یہ ]بِاَنَّھُمْ [ اس سبب سے کہ ]لَا يُصِيْبُھُمْ [ نہیں پہنچتی ان کو [ یعنی مجاہدین کو )] ظَمَاٌ [ کوئی پیاس ] وَّلَا نَصَبٌ [ اور نہ کوئی مشقت ] وَّلَا مَخْمَصَةٌ [ اور نہ کوئی شدید بھوک کا وقت ] فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ میں ]وَلَا يَـطَــــــُٔوْنَ [ اور وہ پیر سے نہیں روندتے ] مَوْطِئًا [ کسی ایسی روندنے کی جگہ کو جو ] يَّغِيْظُ [ سخت غصہ دلائے] الْكُفَّارَ [ کافروں کو ] وَلَا يَنَالُوْنَ [ اور وہ حاصل نہیں کرتے ] مِنْ عَدُوٍّ [ کسی دشمن سے ] نَّيْلًا [ کوئی مطلوبہ چیز ] اِلَّا [ مگر (یہ کہ ) ]كُتِبَ [ لکھا گیا ] لَھُمْ [ ان کے لیے ] بِهٖ [ اس کے سبب سے ]عَمَلٌ صَالِحٌ ۭ [ ایک نیک عمل ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]لَا يُضِيْعُ [ ضائع نہیں کرتا ] اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ [ بلاکم وکاست کام کرنے والوں کے اجر کو ]



ظ م ء : (س) ظمئا ، پیاسا ہونا، وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَلَا تَضْحٰي [اور یہ کہ تو پیاسا نہیں ہوگا اس میں اور نہ دھوپ لگے گی ] 20:119۔ ظما ، اسم ذات بھی ہے ، پیاس ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 120۔ ظمان ، فعلان کے وزن پر صفت ہے۔ انتہائی پیاسا ،يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً [ سمجھے گا پیاسا اس کو پانی ] 39: 24

وَلَا يُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِيْرَةً وَّلَا كَبِيْرَةً وَّلَا يَـقْطَعُوْنَ وَادِيًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ لِيَجْزِيَھُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    ١٢١؁
وَلَا يُنْفِقُوْنَ [ اور وہ خرچ نہیں کرتے ]نَفَقَةً صَغِيْرَةً [ کوئی چھوٹا خرچہ ] وَّلَا كَبِيْرَةً [ اور نہ ہی کوئی بڑا (خرچہ )] وَّلَا يَـقْطَعُوْنَ [ اور وہ نہیں کاٹتے (یعنی طے کرتے ) ] وَادِيًا [ کسی وادی کو ] اِلَّا [ مگر ( یہ کہ ) ] كُتِبَ [ لکھا گیا ]لَھُمْ [ ان کے لیے ]لِيَجْزِيَھُمُ [ تاکہ جزادے ان کو ] اللّٰهُ [ اللہ ] اَحْسَنَ [ اس کی بہترین جو ] مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [ وہ عمل کرتے تھے ]



نوٹ ۔1: گذشتہ آیات میں مسلسل غزوہ تبوک کا ذکر چلا آ رہا ہے جس میں رسول اللہ
نے نفیر عام کا اعلان کیا تھا کہ ہرشخص اس میں شریک ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں شرکت نہ کرنے والوں سے باز پرس ہوئی ۔ منافقوں کے جھوٹے عذر قبول کیے گئے اور مومنوں کی توبہ قبول کی گئی ، ان سب واقعات سے تاثر یہ ملتا ہے کہ ہر قتال فی سبیل اللہ کی مہم میں شریک ہونا ہرمسلمان پر فرض عین ہے اور شرکت نہ کرنا حرام ہے ۔ حالانکہ شرعی حکم یہ نہیں ہے۔ بلکہ عام حالات میں قتال میں شرکت فرض کفایہ ہے الا یہ کہ مسلمانوں کا امر نفیر عام کا حکم دے ۔ اسی بات کی وضاحت کے لیے آیت نمبر 122 میں ارشاد ہوا کہ مسلمانوں کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ کسی مہم پر سب کے سب نکل کھڑے ہوں ۔

اس حوالہ سے فرض کفایہ کی حقیقت سمجھ لیں ، جو فرائض شخصی نہیں بلکہ اجتماعی ہیں، انھیں شریعت نے فرض کفایہ قرار دیا ہے تاکہ تقسیم کار کے اصول پر مختلف جماعتیں فرائض ادا کرتی رہیں ، اور تمام اجتماعی فرائض ادا ہوتے رہیں ۔ مثلا نماز جنازہ اور اس کی تکفین ، مساجد کی تعمیر ونگرانی ، سرحدوں کی حفاظت قتال یعنی جنگ وغیرہ ، یہ سب فرض دینی تعلیم بھی ہے اور مذکورہ آیت میں اس کے فرض ہونے کا ذکر اس طرح فرمایا ہے کہ قتال جیسے اہم فرض میں بھی اس اہم فرض کو چھوڑنا نہیں چاہیے بلکہ جتنے افراد کی ضرورت ہے ، وہ لوگ قتال فی سبیل اللہ کے لیے نکلیں اور باقی لوگ علم دین سیکھنے اور سکھانے کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں ۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً  ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ     ١٢٢؀ۧ
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ [ اور نہیں ہیں مومن لوگ ] لِيَنْفِرُوْا [ کہ وہ نکلیں ] كَاۗفَّةً ۭ [ سب کے سب] فَلَوْلَا نَفَرَ [ تو کیوں نہیں نکلا ] مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ [ ہر ایک فرقۃسے ] مِّنْھُمْ [ ان میں سے ] طَاۗىِٕفَةٌ [ ایک گروہ ] لِّيَتَفَقَّهُوْا [ تاکہ وہ سوجھ بوجھ حاصل کریں ] فِي الدِّيْنِ [ دین میں ] وَلِيُنْذِرُوْا [ اور تاکہ وہ خبردار کریں ]قَوْمَھُمْ [ اپنی قوم کو ] اِذَا [ جب ]رَجَعُوْٓا [ وہ لوٹیں ] اِلَيْهِمْ [ ان کی طرف ] لَعَلَّھُمْ [ شایدوہ لوگ ] يَحْذَرُوْنَ [ بچتے رہیں ]



نوٹ ۔ 2 : مذکورہ آیت نمبر ۔ 122 سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ دین کا علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے ۔ لیکن دوسری طرف رسول اللہ
کا یہ فرمان موجود ہے کہ علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے ۔ اس لحاظ سے دین کا علم حاصل کرنا فرض عین معلو ہوتا ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حدیث مذکورہ آیت سے ٹکراتی ہے اور اسی سے وہ لوگ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ احادیث کی صرف اسناد کی تحقیق کافی نہیں ہے ۔ اور اب ضرورت ہے کہ احادیث کے متن کی بھی تحقیق کی جائے ، یہ بات کہنے والے لوگ نہ تو کم علم ہوتے ہیں اور نہ ہی ناسمجھ ہوتے ہیں ، اس کے باوجود اتنی ناسمجھی کی بات کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے مقامات کے سطحی تاثر کو ان کے دل کا چور لپک کر قبول کرلیتا ہے ، اس لیے وہ نہ تو خود بات کی گہرائی میں اترتے ہیں اور نہ ہی جستجو کرتے ہیں کہ ایسے مقامات کی ہمارے بزرگوں نے کیا تشریح کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں اور آیت میں علم کی مختلف سطح کے حوالے سے بات کی گئی ہے ۔ آج کل کی اصطلاح میں اس کو یوں سمجھیں کہ پرائمری کی سطح تک دین کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اس لیے یہ فرض عین کے زمرے میں آتا ہے اس کے آگے اس میں گریجویش اور ماسڑس کرنا فرض کفایہ ہے جس کا ذکر آیت مذکورہ میں آیا ہے، اب اس کو وضاحت سے سمجھ لیں ، یہ وضاحت معارف القرآن سے ماخوذ ہے۔

ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے کہ وہ اسلامی عقائد کا علم حاصل کرے ، طہارت ونجاست کے احکام سیکھے ، وہ تمام عبادات جو فرض یا واجب ہیں ان کا علم حاصل کرے، جن چیزوں کو حرام یامکروہ قرار دیا گیا ہے ان کا علم حاصل کرے ، جس کے پاس بقدر نصاب مال ہے اس پر فرض عین ہے کہ زکوۃ کے احکام معلوم کرے ، جس کو حج کی استطاعت ہے اس پر فرض عین ہے کہ وہ حج کے احکام سیکھیں ، جب نکاح کرے تو فرض عین ہے کہ نکاح وطلاق کے احکام معلوم کرے ، جن لوگوں کو خرید وفروخت ، مزدوری واجرت اور صنعت کے کام کرنے ہوتے ہیں ان پر فرض عین ہے کہ وہ بیع واجارہ کے احکام سیکھیں ، جب نکاح کرے تو فرض عین ہے کہ نکاح وطلاق کے احکام معلوم کرے،

 اس کے آگے پورے قرآن مجید کے معانی ومفاہیم کو سمجھنا ، ان میں معتبر اور غیر معتبر کی پہنچان پیدا کرنا ، ان میں صحابہ ، تابعین اور ائمہ کے اقوال سے واقف ہونا، یہ اتنا بڑا کام ہے کہ پوری عمر لگا کر بھی ان کا حق ادا نہیں ہوتا ۔ اس لیے شریعت نے اس علم کے حصول کو فرض کفایہ قرار دیا ہے کہ بقدر ضرورت کچھ لوگ یہ علوم حاصل کرلیں تو باقی مسلمان سبکدوش ہوجائیں گے ۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً  ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ    ١٢٣؁
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ [اے لوگو! جو ] اٰمَنُوْا [ایمان لائے ]قَاتِلُوا [تم لوگ جنگ کرو] الَّذِيْنَ [ ان سے جو ] يَلُوْنَكُمْ [ قریب ہیں تمہارے ] مِّنَ الْكُفَّارِ [کافروں میں سے ]وَلْيَجِدُوْا [ اور چاہیے کہ وہ پائیں ] فِيْكُمْ [ تم لوگوں میں ] غِلْظَةً ۭ [سختی ] وَاعْلَمُوْٓا [ اور جان لو ] اَنَّ [کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ] مَعَ الْمُتَّقِيْنَ [ تقوی کرنے والوں کے ساتھ ہے ]

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖٓ اِيْمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ    ١٢٤؁
وَاِذَا مَآ [ اور جب کبھی بھی ] اُنْزِلَتْ [ اتاری جاتی ہے ] سُوْرَةٌ [کوئی سورۃ ] فَمِنْھُمْ مَّنْ [ توان میں وہ بھی ہیں جو ] يَّقُوْلُ [ کہتے ہیں ] اَيُّكُمْ [ تم میں کا کون ہے ] زَادَتْهُ [زیادہ کیا جس کو ] هٰذِهٖٓ [ اس (سورۃ ) نے ] اِيْمَانًا ۚ [ بلحاظ ایمان کے ]فَاَمَّا الَّذِيْنَ [ پس لوگ وہ ہیں جو ] اٰمَنُوْا [ایمان لائے ] فَزَادَتْھُمْ [ تو اس نے زیادہ کیا ان کو ] اِيْمَانًا [بلحاظ ایمان کے ] وَّھُمْ [اور وہ لوگ ] يَسْتَبْشِرُوْنَ ]خوشی مناتے ہیں ]



ترکیب: (آیت ۔124) واذا ما میں ما ظرفیہ ہے ۔ زادت کا فاعل ھذہ ہے اور یہ اشارہ سورۃ کی طرف ہے، فزادتہم میں زادت کا فاعل اس میں شامل ھی کی ضمیر ہے جو سورۃ کے لیے ہے،

وَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ كٰفِرُوْنَ    ١٢٥؁
وَاَمَّا الَّذِيْنَ [اور جو لوگ وہ ہیں ] فِيْ قُلُوْبِهِمْ [ جن کے دلوں میں ] مَّرَضٌ [ ایک روگ ہے ] فَزَادَتْھُمْ [ تو اس نے زیادہ کی ان کو ] رِجْسًا [ بلحاظ گندگی کے] اِلٰى رِجْسِهِمْ [ ان کی (سابقہ ) گندگی کی طرف] وَمَاتُوْا [ اور وہ مرے ] وَ [ اس حال میں کہ ] ھُمْ [ وہ لوگ ] كٰفِرُوْنَ [ کفر کرنے والے تھے ]

اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ يَذَّكَّرُوْنَ    ١٢٦؁
اَوَ [ اور کیا ] لَا يَرَوْنَ [ وہ لوگ غور نہیں کرتے ] اَنَّھُمْ [ کہ وہ ] يُفْتَنُوْنَ [ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ] فِيْ كُلِّ عَامٍ [ ہر سال ] مَّرَّةً [ ایک بار ] اَوْ [ یا ] مَرَّتَيْنِ [ دوبار] ثُمَّ [ پھر (بھی) لَا يَتُوْبُوْنَ [ وہ لوگ توبہ نہیں کرتے ]وَلَا ھُمْ [ اور نہ ہی وہ لوگ ] يَذَّكَّرُوْنَ [ نصیحت حاصل کرتے ]

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ ۭ هَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا  ۭ  صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ    ١٢٧؁
وَاِذَا مَآ [ اور جب کبھی بھی ] اُنْزِلَتْ [ اتاری جاتی ہے ] سُوْرَةٌ [ کوئی سورۃ ] نَّظَرَ [تو دیکھتے ہیں ] بَعْضُھُمْ [ ان کے بعض ] اِلٰى بَعْضٍ ۭ [ بعض کی طرف ] هَلْ يَرٰىكُمْ [ (پھر وہ کہتے ہیں ] کیا دیکھتا ہے تم لوگوں کو ] مِّنْ اَحَدٍ [ کوئی ایک بھی ] ثُمَّ [ پھر] انْصَرَفُوْا ۭ [ وہ پلٹ جاتے ہیں ] صَرَفَ [ پھیرا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] قُلُوْبَھُمْ [ ان کے دلوں کو ] بِاَنَّھُمْ [ بسبب اس کے کہ وہ لوگ ] قَوْمٌ [ ایک ایسی قوم ہیں جو ]لَّا يَفْقَهُوْنَ [ سوجھ بوجھ نہیں رکھتے ]



 (آیت ۔ 127) ھل یراکم سے پہلے فیقول محذوف ہے۔

لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ     ١٢٨؁
لَقَدْ جَاۗءَكُمْ [ بیشک آگیا ہے تم لوگوں کے پاس] رَسُوْلٌ [ ایک ایسا رسول ] مِّنْ اَنْفُسِكُمْ [تمھارے اپنوں میں سے] عَزِيْزٌ [گراں ہے] عَلَيْهِ [ جس پر ] مَا [ وہ جس سے ] عَنِتُّمْ [ تم لوگ مشکل میں پڑو] حَرِيْصٌ [ شدید خواہشمند ہے ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر (اس کا جو تمہیں خوش کرے ) ] بِالْمُؤْمِنِيْنَ [ مومنوں پر ] رَءُوْفٌ [ نہایت شفیق ہے ] رَّحِيْمٌ [ ہمیشہ مہربان ہے ]



 (آیت ۔ 128) اس آیت میں تین جملہ اسمیہ آئے ہیں ، پہلے جملہ میں عزیز خبر مقدم ہے ، علیہ متعلق خبر اور ما عنتم مبتدا مؤخر ہے ۔ دوسرا جملہ میں حریص خبر مقدم ہے، علیکم متعلق خبر اور اس کا مبتدا محذوف ہے جو ما فرحتم ہوسکتا، تیسرے جملہ میں بالمؤمنین متعلق خبر مقدم ، رء وف رحیم خبر اور اس کا مبتدا ھو محذوف ہے ۔

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ     ڶ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ   ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ    ١٢٩؀ۧ
فَاِنْ [ پھر (بھی) اگر] تَوَلَّوْا  [ وہ لوگ منھ موڑیں ] فَقُلْ [ تو آپ کہہ دیں ] حَسْبِيَ اللّٰهُ  [ مجھے کافی ہے اللہ] لَآ اِلٰهَ [ کوئی الہ نہیں ہے] اِلَّا [ مگر ] ھُوَ ۭ [وہ (ہی) ] عَلَيْهِ [ اس پر ہی ] تَوَكَّلْتُ [ میں نے بھروسہ کیا ] وَھُوَ [ اور وہ ]رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ [عظیم عرش کا مالک ہے ]



نوٹ ۔ 1: آخری دو آیتیں یعنی آیت نمبر 128 حضرت ابی بن کعب اور حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق ، قرآن کی آخری آیتیں ہیں ۔ ان کے بعد کوئی آیت نازل نہیں ہوئی اور رسول اللہ
کی وفات ہوگئی ۔ حضرت ابوالدرداء فرماتے ہیں کہ جو شخص صبح وشام یہ آیتیں سات مرتبہ پڑھ لیا کرے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے کام آسان فرما دیتے ہیں ۔ (معارف القرآن )

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

الۗرٰ   ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ   Ǻ۝
الۗرٰ ۣ تِلْكَ [یہ ]اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ [حکمت والی کتاب کی آیات ہیں ]

اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ڼ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ   Ą۝
اَ [کیا ] كَانَ [ یہ ہوا ] لِلنَّاسِ [ لوگوں کے لیے ] عَجَبًا [ عجب ] اَنْ [ کہ ] اَوْحَيْنَآ [ وحی کیا ہم نے ] اِلٰى رَجُلٍ [ ایک شخص کی طرف ] مِّنْھُمْ [ ان میں سے ] اَنْ [کہ ] اَنْذِرِ [ تو خبردار کر ] النَّاسَ [ لوگوں کو ] وَبَشِّرِ [اور خوشخبری دے ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جو ] اٰمَنُوْٓا [ ایمان لائے ] اَنَّ [ کہ ] لَھُمْ [ ان کے لیے ہے ] قَدَمَ صِدْقٍ [ سچائی کا رتبہ ] عِنْدَ رَبِّهِمْ ڼ [ ان کے رب کے پاس ] قَالَ [ تو کہا ] الْكٰفِرُوْنَ [ کافروں نے ] اِنَّ [ بیشک ] ھٰذَا [یہ (تو) ] لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ [ یقینا ایک کھلا جادوگر ہے ]



ترکیب: (آیت ۔2) کان کا اسم اس میں شامل ھو کی ضمیر ہے اور عجبا اس کی خبر ہے ، ان کا اسم صدق ہے اس لیے اس کے مضاف قدم پر نصب آئی ہے۔ اس کی خبر واجب یا ثابت محذوف ہے اور لہم قائم مقام خبر ہے ۔

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ  ۭمَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ  ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ  ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ    Ǽ۝
اِنَّ [ بیشک ] رَبَّكُمُ [ تم لوگوں کی پرورش کرنے والا ] اللّٰهُ الَّذِيْ [ وہ اللہ ہے جس نے] خَلَقَ [ پیدا کیا ] السَّمٰوٰتِ [آسمانوں کو ] وَالْاَرْضَ [ اور زمین کو ] فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ [ چھ دنوں میں ] ثُمَّ [پھر ] اسْتَوٰى [ وہ متمکن ہوا] عَلَي الْعَرْشِ [ عرش پر ] يُدَبِّرُ [ وہ تدبیر کرتا ہے ] الْاَمْرَ ۭ [ تمام معاملات کی ] مَا [ نہیں ہے ] مِنْ شَفِيْعٍ [ کوئی بھی شفاعت کرنے والا ] اِلَّا [ مگر ]مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ ۭ [ اس کی اجازت کے بعد] ذٰلِكُمُ اللّٰهُ [ یہ اللہ ] رَبُّكُمْ [ تم لوگوں کی پرورش کرنے والاہے ] فَاعْبُدُوْهُ ۭ [ پس تم لوگ اس کی بندگی کرو] اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ [ تو کیا تم لوگ نصیحت نہیں حاصل کرتے ]

اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا  ۭوَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا  ۭ اِنَّهٗ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ  ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ   Ć۝
اِلَيْهِ [ اس کی طرف ہی ] مَرْجِعُكُمْ [ تمہیں لوٹنا ہے] جَمِيْعًا ۭ [ سب کے سب کو ] وَعْدَ اللّٰهِ [ (بیشک ) اللہ کا وعدہ (ثابت) ہے ] حَقًّا ۭ [ حق ہوتے ہوئے] اِنَّهٗ [ بیشک وہ ] يَبْدَؤُا [ابتدا کرتا ہے ] الْخَلْقَ [ پیدا کرنے کی ] ثُمَّ [ پھر ]يُعِيْدُهٗ [ وہ دوبارہ (پیدا) کرے گا اسکو ] لِيَجْزِيَ [ تاکہ وہ بدلہ دے ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ] وَعَمِلُوا [ اور انھوں نے عمل کیے ] الصّٰلِحٰتِ [ نیک ] بِالْقِسْطِ ۭ [ انصاف سے ] وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جنھوں نے ] كَفَرُوْا [ کفر کیا ] لَھُمْ [ ان کے لیے ] شَرَابٌ [ پینے کی چیز ہے ] مِّنْ حَمِيْمٍ [ کھولتے (پانی ) سے ] وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ [ اور ایک دردناک عذاب ہے ] بِمَا [ اور بسبب اس کے جو ]كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ [ وہ لوگ کفر کرتے تھے ]



 (آیت ۔ 4) وعداللہ کی نصب بتا رہی ہے کہ اس سے پہلے ان محذوف ہے ۔ اس کی خبر بھی محذوف ہے جو ثابت یا واجب ہوسکتی ہے۔ حقا حال ہے ۔

ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ  ۭ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ  Ĉ۝
ھُوَ [وہ ] الَّذِيْ [ وہی ہے جس نے ] جَعَلَ [ بنایا ] الشَّمْسَ [ سورج کو ] ضِيَاۗءً [ روشنیاں ] وَّالْقَمَرَ [ا ورچاند کو ] نُوْرًا [ نور] وَّقَدَّرَهٗ [ اور اس نے مقرر کیا اس کو ] مَنَازِلَ [ بلحاظ منزلوں کے ] لِتَعْلَمُوْا [ تاکہ تم لوگ جان لو] عَدَدَ السِّـنِيْنَ [ سالوں کی گنتی کو ] وَالْحِسَابَ ۭ [اور حساب کو ] مَا [ نہیں ] خَلَقَ [ پیدا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] ذٰلِكَ [ یہ ] اِلَّا [ مگر ] بِالْحَقِّ ۚ [ حق کے ساتھ ] يُفَصِّلُ [ وہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے ] الْاٰيٰتِ [ نشانیوں کو ] لِقَوْمٍ [ ایسے لوگوں کے لیے جو ] يَّعْلَمُوْنَ [ علم رکھتے ہیں ]



نوٹ ۔1: لفظ ضیاء میں روشنی کے ساتھ تپش کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور نور ، خنک (یعنی ٹھنڈی ) روشنی کو کہتے ہیں اور یہ ایک امر واقعہ ہے کہ سورج کی روشنی میں تپش ہوتی ہے اور چاند کی روشنی ٹھنڈی ہوتی ہے ۔ (تدبر قرآن) ۔ ضیاء لفظ ضوء کی جمع ہے ۔ اس میں شاید اس طرف اشارہ ہے کہ روشنی کے ساتھ رنگ اور قسمیں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں ، آفتاب ان تمام اقسام کا جامع ہے جو بارش کے بعد قوس قزح میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ (معارف القرآن)

نوٹ ۔ 2: شمسی وقمری سال اور مہینے قدیم زمانہ سے معروف ہیں لیکن چاند کے ذریعے مہینہ اور تاریخ کا حساب مشاہدہ اور تجربہ سے معلوم ہے ۔ جبکہ شمس کی منزلوں کے حسابات سوائے ریاضی والوں کے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا ۔ اس لیے عوام الناس کی آسانی کی خاطر عموما احکام اسلامیہ میں قمری مہینوں اور تاریخوں کا اعتبار کیا گیا ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شمسی حساب رکھنا یا استعمال کرنا جائز ہے ۔ کوئی شخص اگر نماز ، روزہ ، حج زکوۃ ، عدت وغیرہ میں قمری حساب کو شریعت کے مطابق استعمال کرے ، تو پھر اسے اختیار ہے کہ اپنے کاروبار اور تجارت وغیرہ میں شمسی حساب استعمال کرے ۔ البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں مجموعی طور پر قمری حساب جاری رہے تاکہ رمضان اور حج وغیرہ کے اوقات معلوم ہوتے رہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ شمسی مہینوں کے علاوہ کوئی مہینہ معلوم ہی نہ ہو ، اس لیے قمری حساب کو باقی رکھنا مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ ہے ۔ اور یہ سنت رسول اللہ
ہے۔ اس کا اتباع باعث ثواب اور باعث برکت ہے۔ (معارف القرآن )

اِنَّ فِي اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَّقُوْنَ   Č۝
اِنَّ [ یقینا ]فِي اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ [ دن اور رات کے اختلاف میں ] وَمَا [ اور اس میں جو ] خَلَقَ [پیدا کیا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ]فِي السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں میں ] وَالْاَرْضِ [ اور زمین میں ] لَاٰيٰتٍ [ ضرور نشانیاں ہیں ] لِّقَوْمٍ [ایسے لوگوں کے لیے جو ] يَّتَّقُوْنَ [ تقوی کرتے ہیں ]



( آیت ۔ 6) ان کا اسم ہونے کی وجہ سے لایت حالت نصب میں ہے، اس کی خبر موجود محذوف ہے ۔ اور فی اختلاف سے لے کر والارض تک قائم مقام خبر ہے ۔

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِهَا وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ   Ċ۝ۙ
اِنَّ [ بیشک ] الَّذِيْنَ [ جو لوگ ]لَا يَرْجُوْنَ [ امید نہیں رکھتے] لِقَاۗءَنَا [ ہماری ملاقات کی ]وَ [ اس حال میں کہ ] رَضُوْا [ وہ راضی ہوئے ] بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [ دنیوی زندگی سے ] وَاطْمَاَنُّوْا [ اور مطمئن ہوئے] بِهَا [ اس پر ] وَالَّذِيْنَ [ اور جو لوگ ] ھُمْ [ وہ ہیں جو ] عَنْ اٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں سے ] غٰفِلُوْنَ [ غفلت برتنے والے ہیں ]

اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ   Ď۝
اُولٰۗىِٕكَ [ یہ وہی لوگ ہیں ] مَاْوٰىھُمُ [ جن کا ٹھکانہ ] النَّارُ [ آگ ہے ] بِمَا [بسبب اس کے جو ] كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ [ وہ کماتے تھے ]

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ  ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ    ۝
اِنَّ [بیشک ] الَّذِيْنَ [ جو لوگ ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ] وَعَمِلُوا [ اور انھوں نے عمل کیے ] الصّٰلِحٰتِ [ نیک ] يَهْدِيْهِمْ [ ہدایت دے گا ان کو ] رَبُّھُمْ [ ان کا رب ] بِاِيْمَانِهِمْ ۚ [ ان کے ایمان کی وجہ سے ] تَجْرِيْ [ بہیں گی ] مِنْ تَحْتِهِمُ [ ان کے نیچے سے ] الْاَنْهٰرُ [ نہریں ] فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ [ نعمتوں کے باغات میں ]

دَعْوٰىھُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ  ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ    ١0 ؀ۧ
دَعْوٰىھُمْ [ ان کا پکارنا ] فِيْهَا [ اس میں ] سُبْحٰنَكَ [ (کہ ) پاکی تیری ہے ] اللّٰهُمَّ [ اے اللہ ] وَتَحِيَّتُھُمْ [ اور (ہوگا ) ان کا دعادینا ] فِيْهَا [ اس میں ] سَلٰمٌ ۚ [ سلام ] وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ [ اور (ہوگا) ان کا آخری پکارنا ] اَنِ [کہ ] الْحَمْدُ [ تمام شکرو سپاس ] لِلّٰهِ [ اللہ کے لیے ہی ہے ] رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ جو تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا ہے ]



 (آیت ۔ 10) دعوہم کے پہلے یکون محذوف ہے اور یہ کان تامۃ ہے۔ دعوہم اس کا فاعل ہے اور محلا حالت رفع میں ہے ۔ فیھا کی ضمیر جنت النعیم کے لیے ہے ۔ واخر دعوہم سے پہلے بھی کان تامۃ کا یکون محذوف ہے اور اس کا فاعل ہونے کی وجہ سے آخر دعوہم کے مضاف اخر پر رفع آئی ہے۔

وَلَوْ يُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ اِلَيْهِمْ اَجَلُھُمْ   ۭ فَنَذَرُ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ    11۝
وَلَوْ [ اور اگر ] يُعَجِّلُ [ جلدی کرتا ] اللّٰهُ [ اللہ ] لِلنَّاسِ [ لوگوں کے لیے ] الشَّرَّ [ برائی میں ] اسْتِعْجَالَھُمْ [ جیسا کہ ان کا جلدی مچانا ہے ] بِالْخَيْرِ [بھلائی میں ] لَقُضِيَ [ تو ضرور پورا کردیا جاتا ] اِلَيْهِمْ [ ان کی طرف ] اَجَلُھُمْ ۭ [ ان کی مدت کو ] فَنَذَرُ [ توہم چھوڑ دیتے ہیں ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جو ] لَا يَرْجُوْنَ [ امید نہیں رکھتے ] لِقَاۗءَنَا [ ہماری ملاقات کی ] فِيْ طُغْيَانِهِمْ [ ان کی سرکشی میں] يَعْمَهُوْنَ [ بھٹکتے ہوئے ]

وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا  ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ  ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    12 ؀
وَاِذَا [اور جب کبھی ] مَسَّ [ چھوتی ہے] الْاِنْسَانَ [ انسان کو ] الضُّرُّ [ تکلیف ] دَعَانَا [ تو وہ پکارتا ہے ہم کو ] لِجَنْۢبِهٖٓ [ اپنی کروٹ کے بل ] اَوْ [ یا ] قَاعِدًا [ بیٹھے ہوئے] اَوْ [ یا ] قَاۗىِٕمًا ۚ [ کھڑے ہوئے] فَلَمَّا [ پھر جب ] كَشَفْنَا [ ہٹا دیتے ہیں ہم ] عَنْهُ [ اس سے ] ضُرَّهٗ [ اس کی تکلیف کو ] مَرَّ [ تو وہ گزرتا ہے (یعنی چل دیتا ہے ) ] كَاَنْ [ جیسے کہ ] لَّمْ يَدْعُنَآ [ اس نے پکارا ہی نہیں ہم کو ] اِلٰى ضُرٍّ [ اس تکلیف کے لیے ] مَّسَّهٗ ۭ [ جس نے چھوا اس کو ] كَذٰلِكَ [ اس طرح ] زُيِّنَ [ مزین کیا گیا ] لِلْمُسْرِفِيْنَ [ حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ] مَا [ اس کو جو ] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [وہ لوگ عمل کرتے تھے ]

وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا  ۙ وَجَاۗءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا  ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ     13؀
وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا [ اور بیشک ہم نے ہلاک کیا ہے ] الْقُرُوْنَ [ زمانوں (کے لوگوں ) کو ]مِنْ قَبْلِكُمْ [ تم لوگوں سے پہلے ] لَمَّا [ جب ] ظَلَمُوْا ۙ [ انھوں نے ظلم کیا ] وَ [ حالانکہ ] جَاۗءَتْھُمْ [آئے ان کے پاس ] رُسُلُھُمْ [ ان کے رسول ] بِالْبَيِّنٰتِ [واضح (نشانیوں ) کے ساتھ ] وَ [ اور (پھر بھی)] مَا كَانُوْا [ وہ نہیں تھے ]لِيُؤْمِنُوْا ۭ [ کہ ایمان لاتے ] كَذٰلِكَ [ اس طرح ] نَجْزِي [ ہم بدلہ دیتے ہیں ] الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ [جرم کرنے والے لوگوں کو ]



نوٹ ۔1: آیت ۔ 13 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے ’’ قرون ‘‘ کو ہلاک کیا یہ قرن کی جمع ہے۔ جس کے معنی ہیں ’’ زمانہ ‘‘ پھر عام طور پر اس سے مراد ایک عہد کے لوگ ہوتے ہیں ۔ لیکن قرآن مجید میں جس انداز سے مختلف مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’ قرن‘‘ سے مراد وہ قوم ہے جو اپنے دور میں عروج پر ہو اور کلی یا جزئی طور پر امامت پر سرفراز ہو ۔ ایسی قوم کی ہلاکت لازما یہی معنی نہیں رکھتی کہ اس کی نسل کو بالکل ختم ہی کردیا جائے ۔ بلکہ اس کا مقام عروج پر ہو اور کلی یا جزئی طور پر امامت پر سرفراز ہو۔ ایسی قوم کی ہلاکت لازما یہی معنی نہیں رکھتی کہ اس کی نسل کو بالکل ختم ہی کردیا جائے ۔ بلکہ اس کا مقام عروج وامامت سے گرا دیا جانا ، اس کے تہذیب وتمدن کا تباہ ہونا اور اس کے اجزاء کا پارہ پارہ ہوکر دوسری قوموں میں گم ہوجانا ، یہ بھی ہلاکت کی ہی ایک صورت ہے۔ (تفہیم القرآن)

ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ     14؀
ثُمَّ [ پھر ] جَعَلْنٰكُمْ [ ہم نے بنایا تم لوگوں کو ] خَلٰۗىِٕفَ [خلیفہ ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] مِنْۢ بَعْدِهِمْ [ ان کے بعدسے ] لِنَنْظُرَ [ تاکہ ہم دیکھیں ] كَيْفَ [ کیسا ] تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ عمل کرتے ہو]

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ  ۙ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْهُ  ۭ قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَاۗئِ نَفْسِيْ  ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ  ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ    15؀
وَاِذَا [ اور جب بھی ] تُتْلٰى عَلَيْهِمْ [ پڑھ کرسنائی جاتی ہیں انھیں ] اٰيَاتُنَا [ ہماری آیتیں ] بَيِّنٰتٍ ۙ [ واضح ہوتے ہوئے ] قَالَ [ تو کہتے ہیں ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو ] لَا يَرْجُوْنَ [ امید نہیں رکھتے ] لِقَاۗءَنَا [ ہماری ملاقات کی ] ائْتِ [ آپ لائیں ] بِقُرْاٰنٍ [ کوئی قرآن ]غَيْرِ ھٰذَآ [ اس کے علاوہ ] اَوْ [ یا ] بَدِّلْهُ ۭ [ آپ تبدیل کریں اس کو ] قُلْ [ آپ کہہ دیجیے ]مَا يَكُوْنُ لِيْٓ [ نہیں ہوگا (ممکن ) میرے لیے ] اَنْ [ کہ ] اُبَدِّلَهٗ [ میں تبدیل کروں اس کو ] مِنْ تِلْقَاۗئِ نَفْسِيْ ۚ [ اپنے نفس کی طرف سے ]اِنْ اَتَّبِعُ [ میں پیروی نہیں کرتا ] اِلَّا [ مگر ] مَا [ اس کی جو ] يُوْحٰٓى [ وحی کیا جاتا ہے ]اِلَيَّ ۚ [ میری طرف ] اِنِّىْٓ [بیشک میں ] اَخَافُ [ ڈرتاہوں ] اِنْ [اگر ] عَصَيْتُ [ میں نافرمانی کروں ] رَبِّيْ [ اپنے رب کی ] عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ [ایک عظیم دن کے عذاب سے ]

قُلْ لَّوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَيْكُمْ وَلَآ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ  ڮ  فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ  ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ      16؀
قُلْ [ آپ کہیے ] لَّوْ [ اگر ]شَاۗءَ [ چاہتا ] اللّٰهُ [اللہ ] مَا تَلَوْتُهٗ عَلَيْكُمْ [ تو میں اسے پڑھ کر نہ سناتا تم لوگوں کو ]وَلَآ اَدْرٰىكُمْ [ اور وہ باخبر نہ کرتا تم کو ] بِهٖ ڮ [ اس سے ] فَقَدْ لَبِثْتُ [ تو میں رہ چکا ہوں ] فِيْكُمْ [ تم لوگوں میں ] عُمُرًا [ ایک عمر ] مِّنْ قَبْلِهٖ ۭ [ اس سے پہلے ] اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ [ تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ]

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ  ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ      17؀
فَمَنْ [ پس کون ] اَظْلَمُ [ زیادہ ظالم ہے] مِمَّنِ [ اس سے جس نے] افْتَرٰي [گھڑا ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر] كَذِبًا [ ایک جھوٹ ] اَوْ [ یا ] [ كَذَّبَ (جھٹلایا ) بِاٰيٰتِهٖ (اس کی آیتوں کو ) اِنَّهٗ (بیشک یہ حقیقت ہے) لَا (نہیں) يُفْلِحُ (فلاح پاتے ) الْمُجْرِمُوْنَ (سب جرم کرنے والے )



نوٹ۔2: آیت ۔ 17 جن ظالموں کا ذکر ہے ان میں مسلیمہ کذاب بھی شامل ہے ۔ اسے ہلاک کیا گیا تو اس کی جماعت پراگندہ ہوگئی ۔ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس اس کے لوگ تو بہ کرتے ہوئے آئے اور اسلام قبول کیا ۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے کہا کہ مسلیمہ کا کوئی قرآن تو سناؤ ، انھوں نے معافی ۔ ابو بکر (رض) نے اصرار کیا کہ ضرور سنانا ہوگا تاکہ لوگ مواز نہ کرکے ہدایت والی وحی کی فضیلت کو پہچان سکیں ، انھوں نے جو کچھ سنایا اس کے چند نمونے درج ذیل ہیں،

(1) یا ضفد ع بنت صفد عین نقی کم تنقعین لا الماء تکدرین ولا الشارب تمنعین ، یعنی اے مینڈک ، اے مینڈکوں کی بیٹی تو ٹرا جتنا تو ٹراتی ہے ، (اس سے ) نہ تو پانی گدلا ہوگا اور نہ پینے والا باز رہے گا ۔

(2) والعاجنات عجنا والخابزات خبزا والاقمات لقما اھالۃ وسمنا ان قریشا قوم یعتدون ، یعنی قسم ہے آٹا گوندھنے والیوں کی جیسا کہ گوندھتے ہیں اور روٹی پکانے والیوں کی جیسا کہ پکاتے ہیں اور لقمہ بنانے والیوں کی جیسا کہ لقمہ بناتے ہیں ، چور چور کرتے ہوئے اور گھی ملاتے ہوئے بیشک قریش ایک ایسی قوم ہے جو زیادتی کرتی ہے ۔

(3) الفیل ما الفیل وما ادرک مالفیل لہ ذنب قصیر وخر طوم طویل ، یعنی ہاتھی اور کیا ہاتھی اور تجھ کو کیا خبر کہ ہاتھی کیا ہے اس کی چھوٹی دم ہے اور لمبی سونڈ ہے۔

 حضرت عمرو بن العاص (رض) اسلام لانے سے پہلے مسیلمہ کے دوست تھے ۔ وہ اس سے ملنے گئے تو اس نے پوچھا تمہارے آدمی یعنی نبی کریم
پر آج کل کیا وحی اتری ہے ۔ انھوں نے کہا میں نے ان کے اصحاب کو ایک بڑی ہی زبردست سورت پڑھتے سنا ہے ۔ اس نے پوچھا وہ کیا ، تو انہوں نے سورۃ العصر پڑھ کر سنائی ، اس پر اس نے کہا مجھ پر بھی ایک ایسی ہی وحی اتری ہے ۔ انھوں نے پوچھا وہ کیا تو اس نے کہا یا وبریا وبر انما انت اذنان وصدروسائرک حقر ونقر ، یعنی اے جانور ، اے جانور تو تو بس دوکان ہے اور سینہ ہے (یعنی تیرے دونوں کان اور سینہ نمایاں ہیں ) اور تیرا باقی جسم حقیر اور ذلیل ہے ۔ (ابن کثیر سے ماخوذ)

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ ۭ قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ     18؀
وَيَعْبُدُوْنَ (اور وہ سب عبادت کرتے ہیں ) مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ (اللہ کے علاوہ کی) [مَا : جو] لَا يَضُرُّھُمْ [ تکلیف نہیں دیتا ہے ان کو ] وَلَا يَنْفَعُھُمْ [ اور نہ ہی نفع دیتا ہے ان کو ]وَيَقُوْلُوْنَ [ اور وہ کہتے ہیں ] هٰٓؤُلَاۗءِ [یہ لوگ ] شُفَعَاۗؤُنَا [ شفاعت کرنے والے ہیں ہماری ] عِنْدَاللّٰهِ ۭ [ اللہ کے پاس ] قُلْ [ آپ کہیے ] اَ [ کیا ] تُنَبِّـــــُٔوْنَ [ تم لوگ خبر دیتے ہو [ اللّٰهَ [ اللہ کو ] بِمَا [ اس کی جو ] لَا يَعْلَمُ [ وہ نہیں جانتا ]فِي السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں میں ] وَلَا فِي الْاَرْضِ ۭ [ اور نہ ہی زمین میں ] سُبْحٰنَهٗ [ پاکیزگی اس کی ہے ] وَتَعٰلٰى [ اور وہ بلند ہے ] عَمَّا [ اس سے جس کو ] يُشْرِكُوْنَ [ یہ لوگ شریک کرتے ہیں ]

وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا  ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَھُمْ فِيْمَا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ      19؀
وَمَا كَانَ [ اور نہیں تھے] النَّاسُ [ لوگ ] اِلَّآ [ مگر ] اُمَّةً وَّاحِدَةً [ ایک امت ]فَاخْتَلَفُوْا ۭ [ پھر انھوں نے اختلاف کیا ] وَلَوْلَا [ اور اگر نہ ہوتا ] كَلِمَةٌ [ایک فرمان] سَبَقَتْ [ جو طے ہوا ] مِنْ رَّبِّكَ [ آپ کے رب (کی طرف ) سے ] لَقُضِيَ [ تو ضرور فیصلہ کردیا جاتا ] بَيْنَھُمْ [ ان کے مابین ] فِيْمَا [ اس میں ] فِيْهِ [ جس میں ] يَخْتَلِفُوْنَ [ یہ لوگ اختلات کرتے ہیں ]



نوٹ۔3: آیت ۔19 میں ہے کہ تمام لوگ ایک ہی امت تھے ، شرک وکفر کا نام نہیں تھا ، پھر توحید میں اختلاف کرکے مختلف قومیں بنیں ۔ سب مسلمان ہونے کا زمانہ کتنا تھا ، اور کب تک رہا ؟ روایات حدیث وسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک یہی صورت تھی ، نوح علیہ السلام کے زمانے میں شرک وکفر ظاہر ہوا جس کا انھیں مقابلہ کرنا پڑا ، یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تک ایک طویل زمانہ ہے۔ دنیا میں انسانوں کی آبادی کافی پھیل چکی تھی ، ان تمام انسانوں میں رنگ وروپ اور طرز معاشرت کا اختلاف ہونا بھی ایک طبعی امر ہے اور مختلف خطوں میں پھیل جانے کے بعد وطن کا اختلاف بھی یقینی ہے ۔ لیکن قرآن نے اس نسبی ، قبائل اور وطنی اختلاف کو ، جو امور فطریہ ہیں ، وحدت امت میں خلل انداز قرار نہیں دیا اور ان اختلاف کے باوجود اولاد آدم کو امت واحدہ قرار دیا ۔ ہاں جب ایمان کے خلاف کفر وشرک پھیلا تو کافر ومشرک کو الگ قوم اور الگ ملت قرار دے کر فاختلفوا ارشاد فرمایا ، اس طرح واضح کردیا کہ اولاد آدم کو مختلف قوموں میں بانٹنے والی چیز صرف ایمان واسلام سے انحراف ہے ۔ نسبی اور وطنی رشتوں سے قومیں الگ الگ نہیں ہوتیں ۔ (معارف القرآن )

وَيَقُوْلُوْنَ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ  ۚ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوْا ۚ اِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ     20۝ۧ
وَيَقُوْلُوْنَ [ اور وہ کہتے ہیں ] لَوْلَآ [ کیوں نہیں ] اُنْزِلَ [اتاری گئی ] عَلَيْهِ [ ان پر ] اٰيَةٌ [ کوئی نشانی ] مِّنْ رَّبِّهٖ ۚ [ ان کے رب (کی طرف) سے ] فَقُلْ [ تو آپ کہیں ] اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] الْغَيْبُ [ غیب تو] لِلّٰهِ [ اللہ کے لیے ہے ] فَانْتَظِرُوْا ۚ [ پس تم لوگ انتظار کرو] اِنِّىْ [ بیشک میں (بھی) ] مَعَكُمْ [تمہارے ساتھ] مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ [ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں ]

وَاِذَآ اَذَقْــنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْھُمْ اِذَا لَھُمْ مَّكْرٌ فِيْٓ اٰيَاتِنَا  ۭ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا  ۭ اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ      21؀
وَاِذَآ [اور جب ] اَذَقْــنَا [ ہم چکھاتے ہیں ] النَّاسَ [ لوگوں کو ] رَحْمَةً [ کچھ رحمت ] مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ [ اس تکلیف کے بعد جس نے ] مَسَّتْھُمْ [چھوا ان کو ] اِذَا [ جب ہی ] لَھُمْ [ ان کے لئے ] مَّكْرٌ [ کوئی تدبیر (یعنی حیلہ بہانہ ) ہے ] فِيْٓ اٰيَاتِنَا ۭ [ ہماری نشانیوں میں] قُلِ [ آپ کہیے ] اللّٰهُ [ اللہ] اَسْرَعُ [ سب سے تیز ہے ] مَكْرًا ۭ [ بلحاظ تدبیر کرنے کے ] اِنَّ [ یقینا ] رُسُلَنَا [ ہمارے رسول (یعنی فرشتے ) ] يَكْتُبُوْنَ [ لکھتے ہیں ] مَا [ اس کو جو ]تَمْكُرُوْنَ [ تم لوگ بہانے بناتے ہو]



ترکیب : (آیت ۔ 21) بعد کا مضاف الیہ ضراء ہے اور نکرہ مخصوصہ ۔ ضراء غیر منصرف ہے اس لیے نصب اور جر دونوں حالت میں ضراء آتا ہے، مکرا تمیز ہے ۔،

ھُوَ الَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ حَتّٰى اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ ۚ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ وَّفَرِحُوْا بِهَا جَاۗءَتْهَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِيْطَ بِهِمْ  ۙ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڬ لَىِٕنْ اَنْجَيْـتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ      22؀
ھُوَ [ وہ ] الَّذِيْ [وہ ہے جو ] يُسَيِّرُكُمْ [ گھماتا پھراتا ہے تم لوگوں کو ] فِي الْبَرِّ [ خشکی میں ] وَالْبَحْرِ ۭ [ اور سمندر میں ] حَتّٰى [ یہاں تک کہ ] اِذَا [جب ] كُنْتُمْ [ تم لوگ ہوتے ہو] فِي الْفُلْكِ ۚ [ کشتی میں ] وَجَرَيْنَ [ اور وہ بہتی ہیں ] بِهِمْ [ ان کے ساتھ ] بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ [ ایک ساز گار ہوا کے ذریعہ سے ] وَّ [ اس حال میں کہ ] فَرِحُوْا [ وہ خوش ہوتے ہیں ] بِهَا [ اس سے ] جَاۗءَتْهَا [(اور جب ) آتی ہے اس (کشتی ) کے پاس ] رِيْحٌ عَاصِفٌ [ ایک تیز وتندہوا ] وَّجَاۗءَھُمُ [ اور آتی ہے ان لوگوں کے پاس ] الْمَوْجُ [موج ] مِنْ كُلِّ مَكَانٍ [ ہر جگہ سے ] وَّظَنُّوْٓا [ اور انھوں نے سمجھ لیا ] اَنَّھُمْ [ کہ وہ لوگ ہیں ] اُحِيْطَ [ احاطہ کیا گیا ] بِهِمْ ۙ [ جن کا ] دَعَوُا [تو انھوں نے پکارا ] اللّٰهَ [ اللہ کو ] مُخْلِصِيْنَ [ خالص کرنے والے ہوتے ہوئے ] لَهُ [ اس کے ] الدِّيْنَ ڬ [ دین کو ] لَىِٕنْ [ یقینا اگر ] اَنْجَيْـتَنَا [ تو نے نجات دی ہم کو ] مِنْ هٰذِهٖ [ اس سے ] لَنَكُوْنَنَّ [ تو ہم لازما ہوں گے ] مِنَ الشّٰكِرِيْنَ [ شکر کرنے والوں میں سے ]



ع ص ف : (ض) ، عصفا (1) جھونکا دینا ۔ تیزی تیزی سے چلنا ۔ (2) برباد کرنا ۔ چورا چورا کردینا ۔ فَالْعٰصِفٰتِ عَصْفًا [ پھر قسم ہے جھونکا دینے والیوں کی جیسا جھونکا دینے کا حق ہے ] 77:2۔ عصف ، اسم ذات بھی ہے ، خشک پتوں کا چورا ، بھوسا ۔ فَجَــعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ [ پھر اس نے بنا دیا ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند ] 105:5۔ عاصف ۔ فاعل کے وزن پر صفت ہے ۔ جھونکا دینے والا یعنی (1) تیز وتند (2) آندھی ۔ زیر مطالعہ آیت 22۔

م و ج : (ن) موجا سمندر کا جوش مارنا ، لہروں کا ایک دوسرے پر چڑھنا ، ریلا مارنا ۔ وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ [ اور ہم نے چھوڑیں گے ان کے بعض کو اس دن وہ ریلا ماریں گے بعض میں] 18: 99۔ موج ، اسم جنس ہے ۔ واحد موجۃ جمع اور واحد دونوں کے لیے جوج آتا ہے ۔ لہر ، موج ، زیر مطالعہ آیت ۔ 22۔



(آیت ۔ 22) جاء تھا سے پہلے واذا محذوف ہے اور ھا کی ضمیر الفلک کے لئے ہے۔

فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ  ۭ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ  ۙ مَّتَاعَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا  ۡ ثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ     23؀
فَلَمَّآ [ پھر جب ] اَنْجٰىھُمْ [ ہم نجات دیتے ہیں ان کو ] اِذَا [ جب ہی ] ھُمْ [ وہ لوگ ] يَبْغُوْنَ [ سرکشی کرتے ہیں ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] بِغَيْرِ الْحَقِّ ۭ [ حق کے بغیر ] يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ [ اے لوگوں ] اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] بَغْيُكُمْ [ تمہاری سرکشی ] عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ ۙ [ تمہاری اپنی جانوں پر ہے ]مَّتَاعَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۡ [ (تو فائدہ اٹھا لو) دنیوی زندگی کے سامان سے]ثُمَّ اِلَيْنَا [ پھر ہماری طرف ہی ] مَرْجِعُكُمْ [ تمہارا لوٹنا ہے ] فَنُنَبِّئُكُمْ [ تو ہم بتا دیں گے تم کو ] بِمَا [ وہ جو ] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [تم لوگ کرتے تھے ]



(آیت ۔ 23) متاع کی نصب بتا رہی ہے کہ اس سے پہلے فعل محذوف ہے جو فتمتعوا ہوسکتا ہے ۔

اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا يَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ  ۭحَتّٰٓي  اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ اَهْلُهَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَيْهَآ  ۙ اَتٰىھَآ اَمْرُنَا لَيْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰھَا حَصِيْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ  ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ     24؀
اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] مَثَلُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [ دنیوی زندگی کی مثال ] كَمَاۗءٍ [ ایسے پانی جیسی ہے ] اَنْزَلْنٰهُ [ ہم نے اتارا جس کو ] مِنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے ] فَاخْتَلَطَ [ تو رل مل گیا ] بِهٖ [ اس کے ذریعہ سے ] نَبَاتُ الْاَرْضِ [ زمین کا سبزہ ] مِمَّا [ جس میں سے ] يَاْكُلُ [ کھاتے ہیں ] النَّاسُ [ لوگ ] وَالْاَنْعَامُ ۭ [ اور چوپائے ] حَتّٰٓي [ یہاں تک کہ ] اِذَآ [جب ] اَخَذَتِ [ پکڑا ] الْاَرْضُ [ زمین نے ] زُخْرُفَهَا [ اپنے سنگھار کو ] وَازَّيَّنَتْ [ اور وہ سج گئی ] وَظَنَّ [ اور خیال کیا ] اَهْلُهَآ [ اس کے لوگوں نے ] اَنَّھُمْ [ کہ وہ ] قٰدِرُوْنَ [ قدرت رکھنے والے ہیں ] عَلَيْهَآ ۙ [ اس پر ] اَتٰىھَآ [(تو) آیا اس کے پاس ]اَمْرُنَا [ ہمارا حکم ] لَيْلًا [ رات کے وقت ] اَوْ [ یا ] نَهَارًا [ دن کے وقت ] فَجَعَلْنٰھَا [ پھر بنادیا ہم نے اس کو ] حَصِيْدًا [ کٹی ہوئی کھیتی ] كَاَنْ [ جیسے کہ ] لَّمْ تَغْنَ [وہ تھی ہی نہیں ] بِالْاَمْسِ ۭ [ کل کو ] كَذٰلِكَ [ اس طرح ] نُفَصِّلُ [ ہم کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ] الْاٰيٰتِ [نشانیوں کو ] لِقَوْمٍ [ ایسے لوگوں کے لیے جو ] يَّتَفَكَّرُوْنَ [ غور وفکر کرتے ہیں ]



 (آیت ۔ 24) لیلا او نھارا ،ظرف زمان ہیں۔ تغن دراصل مؤنث کا صیغہ تغنی ہے ۔ لم کی وجہ سے یا گری ہوئی ہے ۔

وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ  ۭ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ     25؀
وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] يَدْعُوْٓا [ بلاتا ہے ]اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ ۭ [ سلامتی کے گھر کی طرف ] وَيَهْدِيْ [ اور وہ ہدایت دیتا ہے ] مَنْ [ اس کو جس کو ] يَّشَاۗءُ [وہ چاہتا ہے] ااِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ [ ایک سیدھے راستے کی طرف ]

لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ  ۭ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ  ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ     26؀
لِلَّذِيْنَ [ ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ] اَحْسَـنُوا [ بلاکم وکاست کام کیا ] الْحُسْنٰى [ سب سے خوبصورت (اجر) ہے ] وَزِيَادَةٌ ۭ [(بھی ) ہے ] وَلَا يَرْهَقُ [ اور نہیں چھائے گی ] وُجُوْهَھُمْ [ان کے چہروں پر ] قَتَرٌ [ کوئی سیاہی ] وَّلَا ذِلَّةٌ ۭ [ اور نہ ہی کوئی ذلت ] اُولٰۗىِٕكَ [ یہ لوگ ] اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ [ جنت والے ہیں ] ھُمْ [ وہ لوگ ] فِيْهَا [ اس میں ] خٰلِدُوْنَ [ ہمیشہ رہنے والے ہیں ]



ر ھ ق ـ: (س) رھقا ۔ زبردستی کسی پر حاوی ہوجانا ۔ (1) زبردستی کرنا ۔ (2) کسی پر چڑھائی کرنا ، کسی کو ڈھانپ لینا ، چھا جانا ، زیر مطالعہ آیت ۔ 26۔ رھق ، اسم ذات ہے۔ زبردستی ، چودھراہٹ ، دادا گیری ، فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا [ تو انہوں نے زیادہ کیا ان کو بلحاظ سرچڑھنے کے ] 6: 72۔ (افعال ) ارھاقا ۔ کسی کو کسی پر چڑھا دینا ۔ ڈھانپ دینا ۔ ڈال دینا ۔ وَلَا تُرْهِقْنِيْ مِنْ اَمْرِيْ عُسْرًا [ اور آپ مت ڈالیں مجھ پر میرے کام کی وجہ سے ، مشکل کو ] 18:73۔

وَالَّذِيْنَ كَسَبُوا السَّيِّاٰتِ جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا  ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ  ۭ مَا لَھُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ ۚ كَاَنَّمَآ اُغْشِيَتْ وُجُوْهُھُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّيْلِ مُظْلِمًا  ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ     27؀
وَالَّذِيْنَ [ اور جنھوں نے ] كَسَبُوا [ کمائیں ] السَّيِّاٰتِ [ برائیاں ] جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ [ (تو) کسی برائی کا بدلہ ] بِمِثْلِهَا ۙ [ اسی کے جیسا ہے] وَتَرْهَقُھُمْ [ اور چھائے گی ان پر ] ذِلَّةٌ ۭ [ ایک ذلت ] مَا لَھُمْ [ نہیں ہے ان کے لیے ] مِّنَ اللّٰهِ [ اللہ سے ] مِنْ عَاصِمٍ ۚ [ کوئی بھی بچانے والا ] كَاَنَّمَآ [ جیسے کہ بس ] اُغْشِيَتْ [ ڈھانپ دیئے گئے ] وُجُوْهُھُمْ [ ان کے چہرے ] قِطَعًا [ ایک ٹکڑے سے ] مِّنَ الَّيْلِ [ رات میں سے ] مُظْلِمًا ۭ [ اندھیری ہوتے ہوتے ] اُولٰۗىِٕكَ [ یہ لوگ ] اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ [ آگ والے ہیں ] ھُمْ [ وہ ] فِيْهَا [ اس میں ] خٰلِدُوْنَ [ ہمیشہ رہنے والے ہیں ]



(آیت ۔ 27) اغثیت کا نائب فاعل وجوھہم ہے اور قطعا اس کا مفعول ثانی ہے ، جبکہ مظلما حال ہے۔

وَيَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَشُرَكَاۗؤُكُمْ ۚفَزَيَّلْنَا بَيْنَھُمْ وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِيَّانَا تَعْبُدُوْنَ      28؀
وَيَوْمَ [ اور جس دن ] نَحْشُرُھُمْ [ ہم اکٹھا کریں گے ان کو ] جَمِيْعًا [ سب کے سب کو ] ثُمَّ نَقُوْلُ [ پھر ہم کہیں گے ] لِلَّذِيْنَ [ ان سے جنھوں نے ] اَشْرَكُوْا [شرک کیا ] مَكَانَكُمْ [ (تم لوگ کھڑے ہو) اپنی جگہ پر ] اَنْتُمْ [ تم بھی ] وَشُرَكَاۗؤُكُمْ ۚ [ اور تمہارے شریک بھی ] فَزَيَّلْنَا [ پھر ہم الگ الگ کریں گے ]بَيْنَھُمْ [ (ان کو ) ان کے مابین سے ] وَقَالَ [ اور کہیں گے ] شُرَكَاۗؤُھُمْ [ ان کے شریک لوگ ] مَّا كُنْتُمْ [ نہیں تھے تم کہ ] اِيَّانَا [ صرف ہماری ہی ] تَعْبُدُوْنَ [ بندگی کرتے تھے ]



(آیت ۔ 28) مکانکم مفعول ہے اور اس کا فعل محذوف ہے ۔

فَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ       29؀
فَكَفٰى [ تو کافی ہے ] بِاللّٰهِ [ اللہ ] شَهِيْدًۢا [ بطور گواہ کے ] بَيْنَنَا [ ہمارے درمیان ] وَبَيْنَكُمْ [ اور تمہارے درمیان ] اِنْ [ یقینا ] كُنَّا [ ہم تھے ] عَنْ عِبَادَتِكُمْ [ تمہاری عبادت سے ] لَغٰفِلِيْنَ [بالکل غافل ]



(آیت ۔ 29) ان کنا میں ان مخففہ ہے جس کے معنی ہیں یقینا۔

هُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّآ اَسْلَفَتْ وَرُدُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىھُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ      30؀ۧ
هُنَالِكَ [ وہاں ] تَبْلُوْا [ جانچ لے گی ] كُلُّ نَفْسٍ [ ہرجان ] مَّآ [ اس کو جو ] اَسْلَفَتْ [ اس نے آگے بھیجا ] وَرُدُّوْٓا [ اور وہ لوٹائے جائیں گے ] اِلَى اللّٰهِ [ اللہ کی طرف ] مَوْلٰىھُمُ الْحَقِّ [ جو ان کا حقیقی آقا ہے ] وَضَلَّ [اور گم ہوجائے گا ] عَنْھُمْ [ ان سے ] مَّا [ وہ جو ] كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ [ وہ گھڑتے تھے ]



(آیت ۔ 30) اللہ کا بدل ہونے کی وجہ سے مولہم میں مولی محلا حالت جر میں ہے اس لیے اس کی صفت الحق حالت جر میں آئی ہے ۔

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ  ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ  ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ      31 ؀
قُلْ [ آپ کہئے ] مَنْ [کون ] يَّرْزُقُكُمْ [ رزق دیتا ہے تم کو ] مِّنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے ] وَالْاَرْضِ [ اور زمین سے ] اَمَّنْ [ یا کون ] يَّمْلِكُ [ اختیار رکھتا ہے ] السَّمْعَ [ سماعت پر ] وَالْاَبْصَارَ [ اور بصارتوں پر ] وَمَنْ [اور کون ] يُّخْرِجُ [نکالتا ہے ] الْـحَيَّ [ زندہ کو ] مِنَ الْمَيِّتِ [ مردہ سے ] وَيُخْرِجُ [ اور (کون) نکالتا ہے ] الْمَيِّتَ [ مردہ کو ] مِنَ الْحَيِّ [ زندہ سے ] وَمَنْ [ اور کون ] يُّدَبِّرُ [ تدبیر کرتا ہے ] الْاَمْرَ ۭ [ تمام معاملات کی ]فَسَيَقُوْلُوْنَ [ تو وہ کہیں گے کہ] اللّٰهُ ۚ [ اللہ ] فَقُلْ [ تو آپ کہیں ] اَفَلَا تَتَّقُوْنَ [ تو کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ]

فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ  ۚ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ښ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ      32؀
فَذٰلِكُمُ [ پس یہ ] اللّٰهُ [ اللہ ہے] رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۚ [ جو تمہارا حقیقی پرورش کرنے والا ہے] فَمَاذَا [ پھر کیا ہے ] بَعْدَ الْحَقِّ [ حق کے بعد] اِلَّا الضَّلٰلُ ښ [ سوائے گمراہی کے ] فَاَنّٰى [ تو کہاں سے ] تُصْرَفُوْنَ [ تم لوگ پھیرے جاتے ہو]



نوٹ ۔1: آیت 32 میں تصرفون اور آیت 35 میں توفکون یہ دونوں مضارع ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ کہاں سے تم لوگ لوٹ جاتے ہو بلکہ یہ کہا ہے کہ لوگوں کو لوٹایا جاتا ہے ۔ اس میں صاف ظاہر ہے کہ گمراہ کرنے والا کوئی شخص یا گروہ ہوتا ہے جو لوگوں کو صحیح رخ سے ہٹا کر غلط رخ پر پھیر دیتا ہے ۔ اسی بنا پر لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ تم اندھے بن کر غلط رہنمائی کرنے والوں کے پیچھے کیوں چلے جارہے ہو، اپنی عقل کیوں نہیں استعمال کرتے ، (تفہیم القرآن )

كَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَي الَّذِيْنَ فَسَقُوْٓا اَنَّھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ      33؀
كَذٰلِكَ [ اس طرح ] حَقَّتْ [ حق ہوا ]كَلِمَتُ رَبِّكَ [ آپ کے رب کا فرمان ]عَلَي الَّذِيْنَ [ ان لوگوں پر جنھوں نے ]فَسَقُوْٓا [ نافرمانی کی ] اَنَّھُمْ [ کہ وہ لوگ ] لَا يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان نہیں لاتے ]

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ  ۭ قُلِ اللّٰهُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ      34؀
قُلْ [ آپ کہئے ] هَلْ [ کیا ] مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ [ تمہارے شریکوں میں سے ]مَّنْ [ کوئی ] يَّبْدَؤُا [ ابتدا کرتا ہے ] الْخَلْقَ [ پیدا کرنے کی ] ثُمَّ [ پھر ] يُعِيْدُهٗ ۭ [ واپس لاتا ہے اس کو ] قُلِ [ آپ کہئے ] اللّٰهُ [ اللہ ] يَبْدَؤُا (پہلی بار پیدا کرتا ہے ) الْخَلْقَ (مخلوق کو ) ثُمَّ (پھر) يُعِيْدُهٗ (وہی دوبارہ بناتا ہو اسے ) فَاَنّٰى (تو کہاں ) تُؤْفَكُوْنَ (تم سب پھیرے جاتے ہو )

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّهْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ  ۭ قُلِ اللّٰهُ يَهْدِيْ لِلْحَقِّ ۭ اَفَمَنْ يَّهْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ يُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا يَهِدِّيْٓ اِلَّآ اَنْ يُّهْدٰى ۚ فَمَا لَكُمْ  ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ      35؀
قُلْ (کہہ دیں) هَلْ (کیا) مِّنْ (سے ) شُرَكَاۗىِٕكُمْ (تمہارے شریکوں ) مَنْ ( جس پر ) يَّهْدِيْٓ (ہدایت دیتا ہے ) اِلَى (تک) الْحَقِّ (حق ) قُلِ (کہ دو “ کہ”) اللّٰهُ (اللہ)] يَهْدِيْ [ ہدایت دیتا ہے ] لِلْحَقِّ ۭ [ حق کے لیے ] اَفَمَنْ [ تو کیا وہ جو ] يَّهْدِيْٓ [ہدایت دیتا ہے ]اِلَى الْحَقِّ [ حق کی طرف ] اَحَقُّ [ زیادہ حقدار ہے] اَنْ [کہ ] يُّتَّبَعَ [ اس کی پیروی کی جائے] اَمَّنْ [ یا اس کی جو ] لَّا يَهِدِّيْٓ [ ہدایت نہیں پاتا] اِلَّآ اَنْ [ سوائے اس کے کہ ] يُّهْدٰى ۚ [اس کو ہدایت دی جائے ] فَمَا لَكُمْ ۣ [ تو کیا ہے تمہیں ] كَيْفَ [ کیسا ] تَحْكُمُوْنَ [ تم لوگ حکم لگاتے ہو]



ترکیب: (آیت ۔35) لا یھدی دراصل لا یھتدی ہے جو قاعدہ کے مطابق تبدیل ہوکر لا یھدی استعمال ہوا ہے۔



نوٹ ۔2: آیت ۔35 میں جو سوال کیا گیا ہے وہ بہت اہم ہے اس لیے اس کی وضاحت سے سمجھ لیں ، اس دنیا میں انسان کی ضرورتوں کا دائرہ صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے کہ اس کو زندگی بسر کرنے کا سامان ملتا رہے اور وہ آفات ومصائب سے محفوظ رہے بلکہ اس کی ایک ضرروت یہ بھی ہے کہ اسے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو ، وہ جانے کہ اپنی ذات کے ساتھ ، اس سروسامان کے ساتھ جو اس کے تصرف میں ہیں ، ان انسانوں کے ساتھ جن سے اس کو سابقہ پیش آتا ہے ، وہ کیا اور کس طرح کا معاملہ کرے جس سے اس کی زندگی کامیاب ہو اور اس کی کوشش اور محنت غلط راہوں پر صرف ہوکر تباہی وبربادی پر منتج نہ ہو ، اسی صحیح طریقے کا نام حق ہے ، اب قرآن مجید ان سب لوگوں سے پوچھتا ہے جو رسول اللہ
کی تعلیم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ، کہ اللہ کے سوا تم جن کی بندگی کرتے ہو ان میں کوئی ہے جو تمہارے لیے ہدایت حق کا ذریعہ بنتا ہو یا بن سکتا ہو ، ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی کے سوا اور کچھ نہیں ہے، کیوں ـ؟ اس کی وجہ بھی سمجھ لیں ۔

انسان اللہ کے سواجن کی بندگی کرتا ان کی دو بڑی قسمیں ہیں ۔ ایک وہ دیوی ، دیوتا اور زندہ یا مردہ انسان جن کی طرف انسان کا رجوع صرف اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ فوق الفطری طریقے سے وہ اس کی حاجتیں پوری کریں اور اس کو آفات سے بچائیں ، کبھی کسی مشرک نے ہدایت حق کے لیے ان کی طرف رجوع نہیں کیا ، اور نہ کوئی مشرک یہ کہتا ہے کہ اس کے یہ معبود اسے معاشرت ، تمدن ، سیاست ، اخلاق ، عدالت وغیرہ کے اصول سکھاتے ہیں ۔ دوسرے نمبر وہ انسان ہیں جن کے بنائے اصولوں اور قوانین کی پیروی اور اطاعت کی جاتی ہے ۔ یہ لوگ رہنما تو ضرور ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ رہنمائے حق بھی ہیں ، کیا ان میں سے کسی کا بھی علم ان تمام حقائق پر حاوی ہے جن کا جاننا انسانی زندگی کے صحیح اصول وضع کرنے کے لئے ضروری ہے کیا ان میں سے کوئی بھی ان کمزوریوں ، تعصبات ، طبعی میلانات ورجحانات وغیرہ سے بالا تر ہے جو انسانی معاشرے کے لیے منصفانہ قوانین بنانے میں مانع ہوتے ہیں ۔ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر یہ لوگ ہدایت حق کا سرچشمہ کیسے ہوسکتے ہیں ۔

اسی بنا پر قرآن یہ سوال کرتا ہے کہ لوگو! تمہارے ان مذہبی معبودوں خداؤں میں کوئی ایسا بھی ہے جو تمہاری رہنمائی کرنے والا ہو۔ آیت نمبر 31 تا 34 کے سوالات سے مل کر آیت نمبر 35 کا آخری سوال مذہب اور دین کے پورے مسئلے کا فیصلہ کرتا ہے ۔

انسان کی ساری ضرورتیں دو ہی نوعیت کی ہیں ۔ ایک یہ کہ کوئی اس کا پروردگار ہو، جو دعاؤں کا سننے والا اور حاجتوں کاپورا کرنے والا ہو ، اس کے لیے قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ کوئی ایسا رہنما ہو جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے اصول بتائے ، اس لیے بھی قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ بھی صرف اللہ کا ہی کام ہے۔ (تفہیم القرآن )

وَمَا يَتَّبِعُ اَكْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا  ۭ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔـا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ     36؀
وَمَا يَتَّبِعُ [ اور پیروی نہیں کرتے ] اَكْثَرُھُمْ [ ان کے اکثر ] اِلَّا [ مگر ] ظَنًّا ۭ [ گمان کی ] اِنَّ [ بیشک ] الظَّنَّ [ گمان ]لَا يُغْنِيْ [ بےپر واہ نہیں کرتا ] مِنَ الْحَقِّ [ حق سے ] شَـيْــــًٔـا ۭ [ کچھ بھی ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] عَلِيْمٌۢ [ جاننے والا ہے] بِمَا [ اس کو جو ]يَفْعَلُوْنَ [ وہ لوگ کرتے ہیں ]

وَمَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ     37؀ۣ
وَمَا كَانَ [ اور نہیں ہے ] هٰذَا الْقُرْاٰنُ [یہ قرآن ] اَنْ [ کہ ] يُّفْتَرٰي [ اس کو گھڑاجائے ] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ (کسی) سے ] وَلٰكِنْ [ اور لیکن (یعنی بلکہ ) ] تَصْدِيْقَ الَّذِيْ [ اس کی تصدیق کرتا ہے جو ] بَيْنَ يَدَيْهِ [ اس سے پہلے ہے ]وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ [ اور تمام فرائض کو کھول کر بیان کرتا ہے ] لَا رَيْبَ [ کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے] فِيْهِ [ جس میں ] مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے (ہونے میں)]

وَمِنْھُمْ مَّنْ يُّؤْمِنُ بِهٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ لَّا يُؤْمِنُ بِهٖ  ۭ وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِيْنَ      40؀ۧ
وَمِنْھُمْ مَّنْ [ اور ان میں وہ بھی ہیں جو ] يُّؤْمِنُ [ایمان لاتے ہیں ] بِهٖ [ اس پر ] وَمِنْھُمْ مَّنْ [ اور ان میں وہ بھی ہیں جو ] لَّا يُؤْمِنُ [ایمان نہیں لاتے ] بِهٖ ۭ [ اس پر ] وَرَبُّكَ [ اور آپ کا رب ] اَعْلَمُ [ سب سے زیادہ جاننے والا ہے ] بِالْمُفْسِدِيْنَ [ فساد پھیلانے والوں کو]

وَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّيْ عَمَلِيْ وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ  ۚ اَنْتُمْ بَرِيْۗـــــُٔوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ       41؀
وَاِنْ [اور اگر ] كَذَّبُوْكَ [ وہ لوگ جھٹلاتے ہیں آپ کو ] فَقُلْ [ تو آپ کہہ دیجئے ] لِّيْ [ میرے لیے ] عَمَلِيْ [ میرا عمل ہے ] وَلَكُمْ [ اور تمہارے لیے ] عَمَلُكُمْ ۚ [ تمہارا عمل ہے] اَنْتُمْ [ تم لوگ ] بَرِيْۗـــــُٔوْنَ [بری ہو ] مِمَّآ [اس سے جو ] اَعْمَلُ [ میں عمل کرتا ہوں ] وَاَنَا [ اور میں] بَرِيْۗءٌ [ بری ہوں ] مِّمَّا [ اس سے جو ] تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ کرتے ہو]

وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ ۭاَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوْا لَا يَعْقِلُوْنَ      42؀
وَمِنْھُمْ مَّنْ [ اور ان میں وہ بھی ہیں جو ] يَّسْتَمِعُوْنَ [ کان لگاتے ہیں ] اِلَيْكَ ۭ [ آپ کی طرف ] اَفَاَنْتَ [ تو کیا آپ ] تُسْمِعُ [ سنائیں گے] الصُّمَّ [ بہروں کو ] وَ [ اس حال میں کہ ] لَوْ [ اگر ] كَانُوْا لَا يَعْقِلُوْنَ [ وہ لوگ عقل استعمال نہیں کرتے ہیں ]



نوٹ ۔ 1: زیر مطالعہ آیات 42۔ 43 کے مخاطب اول رسول اللہ
تھے اور آپ کے توسط سے قیامت تک پیدا ہونے والے تمام مسلمان اس کے مخاطب ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ بہروں اور اندھوں کی رہنمائی نہیں کی جاسکتی ، حالانکہ ایسے لوگوں کے نہ تو کان بہرے ہوتے ہیں اور نہ آنکھیں اندھی ہوتی ہیں ۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے گزشتہ اسباق میں آیت 2:7 کے نوٹ ، 3: اور آیت 7:179 کے نوٹ ۔ 2 کا دوبارہ مطالعہ کریں ۔

آیات زیر مطالعہ کا منشا ومراد یہ یاد دلانا ہے کہ دعوت وتبلیغ کا کام ، اپنے اپنے ظروف واحوال میں، ہر شخص کا فرض ہے۔ اس جہاد کا نتیجہ تمہارے اختیار میں نہیں ہے ، یہ اللہ کا کام ہے، اس لئے نتیجہ نہ نکلنے کی صورت میں دل برداشتہ نہ ہو اور اپنا فرض ادا کرتے رہو ۔ البتہ ابتدائی کوشش کے بعد اگر واضح ہوجائے کہ کوئی شخص بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا تو اس سے خوبصورتی سے اعراض کرلو اور ایسے لوگوں کو تلاش کرو جن میں حقیقت کو سمجھنے کی طلب ہو ۔ کیونکہ پانی اسے دیتے ہیں جسے پیاس ہو۔

وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّنْظُرُ اِلَيْكَ  ۭ اَفَاَنْتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوْا لَا يُبْصِرُوْنَ      43؀
وَمِنْھُمْ مَّنْ [ اور ان میں وہ بھی ہیں جو ] يَّنْظُرُ [ دیکھتے ہیں ] اِلَيْكَ ۭ [ آپ کی طر ف ] اَفَاَنْتَ [ تو کیا آپ ] تَهْدِي [ راہ دکھائیں گے ] الْعُمْيَ [ اندھوں کو ] وَ [ اس حال میں کہ ] لَوْ [ اگر ] كَانُوْا لَا يُبْصِرُوْنَ [ وہ لوگ بصارت نہیں کرتے ہیں ]

ثُمَّ قِيْلَ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ ۚ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ      52؀
ثُمَّ (پھر) قِيْلَ (کہا جائے) لِلَّذِيْنَ (ان لوگوں کو جو) ظَلَمُوْا (ان سب نے ظلم کیا) ذُوْقُوْا (تم سب چکھو ) عَذَابَ (عذاب) الْخُلْدِ (ہمیشگی کا ) هَلْ (نہیں) تُجْزَوْنَ (تم سب بدلہ دیے جاؤ گے ) اِلَّا ( مگر ) بِمَا (اس وجہ سے جو) كُنْتُمْ (ہو تم) تَكْسِبُوْنَ (تم سب عمل کرتے ہو )

 (آیت ۔ 52) ثم قیل گذشتہ آیت کے اذا سے تسلسل میں ہے اس لیے اس کا ترجمہ بھی مستقبل میں ہوگا ۔

وَيَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ  ڼ قُلْ اِيْ وَرَبِّيْٓ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ې وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ     53؀ۧ
[وَيَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ (اور وہ سب دریافت کرتے ہیں آپ سے )] [اَ: کیا ] حَقٌّ [ حق ہے ] ھُوَ ڼ [ یہ (قرآن ) ] قُلْ [ آپ کہئے ] اِيْ [ ہاں ] وَرَبِّيْٓ [ میرے رب کی قسم ہے ] اِنَّهٗ [ بیشک یہ ] لَحَقٌّ ې [ یقینا حق ہے ] وَمَآ اَنْتُمْ [ اور تم لوگ نہیں ہو ] بِمُعْجِزِيْنَ [ عاجز کرنے والے (اس کو ) ]



 (آیت ۔ 53) احق ھو میں حق خبر مقدم اور ھو مبتدا مؤخر ہے ۔ ای عربی میں نعم کے معنی میں آتا ہے ۔ وربی کا واو قسمیہ ہے۔

وَلَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْاَرْضِ لَافْـــتَدَتْ بِهٖ  ۭ وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ  ۚ وَقُضِيَ بَيْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ     54؀
وَلَوْ [ اور اگر ] اَنَّ [(ہوتا ) کہ ] لِكُلِّ نَفْسٍ [ ہراس جان کے لئے ] ظَلَمَتْ [ جس نے ظلم کیا ] مَا [ وہ (سب کچھ ) جو ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ہے ] لَافْـــتَدَتْ [ تو وہ ضرور خود کو چھڑاتی ] بِهٖ ۭ [ اسے دے کر ] وَاَسَرُّوا [ اور وہ چھپائیں گے ] النَّدَامَةَ [ ندامت کو ] لَمَّا [ جب ] رَاَوُا [ وہ دیکھیں گے ] الْعَذَابَ ۚ [ اس عذاب کو ] وَقُضِيَ [ اور فیصلہ کیا جائے گا ] بَيْنَھُمْ [ انکے مابین ] بِالْقِسْطِ [ انصاف سے ] وَھُمْ [ اور ان پر ] لَا يُظْلَمُوْنَ [ ظلم نہیں کیا جائے گا ]

اَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَلَآ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَھُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ     55؀
اَلَآ [ سن لو] اِنَّ [ یقینا ] لِلّٰهِ [ اللہ ہی کا ہے ] مَا [ وہ (سب کچھ ) جو ] فِي السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں میں ہے ] وَالْاَرْضِ ۭ [ اور زمین میں ہے] اَلَآ [ خبردار رہو ] اِنَّ [ یقینا ] وَعْدَ اللّٰهِ [ اللہ کا وعدہ ] حَقٌّ [ حق ہے ] وَّلٰكِنَّ [ اور لیکن ] اَكْثَرَھُمْ [ ان کی اکثریت ]لَا يَعْلَمُوْنَ [ جانتی نہیں ہے ]

وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ  ۭ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ        Ǽ۝
وَّاَنِ [ اور یہ کہ ] اسْتَغْفِرُوْا [ تم لوگ مغفرت مانگو ] رَبَّكُمْ [ اپنے رب سے ] ثُمَّ [پھر ] تُوْبُوْٓا [ تم لوگ رجوع کرو] اِلَيْهِ [ اس کی طرف ] يُمَتِّعْكُمْ [ تو وہ فائدہ اٹھانے دے گا تم کو ]مَّتَاعًا حَسَنًا [ اچھے سامان سے ] اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى [ ایک مقرر وقت تک ] وَّيُؤْتِ [ اور وہ دے گا] كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ [ ہر فضیلت والے کو ] فَضْلَهٗ ۭ [ اس کی فضیلت ] وَاِنْ [ اور اگر ] تَوَلَّوْا [ تم لوگوں نے منہ موڑا ] فَاِنِّىْٓ [ تو بیشک میں] اَخَافُ [ ڈرتا ہوں ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ] عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ [ ایک بڑے دن کے عذاب سے ]



 (آیت ۔ 3) فعل امر استغفروا اور توبوا کا جواب امر ہونے کی وجہ سے یمتع اور یؤت مجزوم ہوئے ہیں ۔ فضلہ کی ضمیر کو ذی فضل کے لئے ماننا زیادہ بہتر ہے ( پروفیسر احمد یار صاحب مرحوم) ۔ اس لئے ہم ترجمہ اسی لحاظ سے کریں گے ۔

اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ ۚ وَھُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ        Ć۝
اِلَى اللّٰهِ [ اللہ کی طرف ہی ] مَرْجِعُكُمْ ۚ [ تم لوگوں کو لوٹنا ہے ]وَھُوَ [ اور وہ ] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ [ ہر چیز پر ] قدیر [ قدرت رکھنے والا ہے]

اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ        11۝
اِلَّا الَّذِيْنَ [ سوائے ان لوگوں کے جو ] صَبَرُوْا [ ثابت قدم رہے ] وَعَمِلُوا [ اور عمل کئے ] الصّٰلِحٰتِ ۭ [ نیکیوں کے] اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ ہیں ] لَهُمْ [ جن کے لئے ] مَّغْفِرَةٌ [ مغفرت ہے ] وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ [ اور بڑا اجر ہے ]



نوٹ ۔2: آیت ۔11 میں صبر کے ایک مفہوم پر روشنی پڑتی ہے ۔ صبر کی صفت اس تھڑولا پن کی ضد ہے جس کا ذکر آیات ۔ 9۔10 میں کیا گیا ہے ۔ صابر وہ شخص ہے جو زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات میں اپنے ذہن کے توازن کو برقرار رکھے ۔ اور ایک معقول رویہ پر ہر حال میں قائم رہے۔ اگر کبھی حالات ساز گار ہوں تو کامیابی کے نشے میں مست ہو کر بہکنے نہ لگے ۔ اگر کبھی مصائب ومشکلات ہوں تو انسانی سطح سے نیچے نہ اترے ۔ اللہ کی آزمائش خواہ نعمت کی صورت میں آئے یا مصیبت کی صورت میں ، وہ بہرحال بردباری پر قائم رہے ۔ (تفہیم القرآن ) اسی رویہ کو آج جذباتی بلوغت (
emotional Maturity) کہتے ہیں ۔

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ وَضَاۗىِٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ يَّقُوْلُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ جَاۗءَ مَعَهٗ مَلَكٌ  ۭ اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِيْرٌ  ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ       12۝ۭ
فَلَعَلَّكَ [ پس شائد کہ آپ ] تَارِكٌۢ [ چھوڑنے والے ہوں ] بَعْضَ مَا [ اس کے بعض کو جو ] يُوْحٰٓى [ وحی کیا گیا ] اِلَيْكَ [آپ کی طرف ] وَضَاۗىِٕقٌۢ [ اور تنگ ہونے والا ہو ]بِهٖ صَدْرُكَ [ آپ کا سینہ اس سے ] اَنْ [ کہ ] يَّقُوْلُوْا [ وہ لوگ کہیں گے ] لَوْلَآ [ کیوں نہیں ] اُنْزِلَ [ اتارا گیا ] عَلَيْهِ [ ان پر ] كَنْزٌ [ کوئی خزانہ ] اَوْ [ یا ] جَاۗءَ [ (کیوں نہیں ) آیا ] مَعَهٗ [ ان کے ساتھ ] مَلَكٌ ۭ [ کوئی فرشتہ ] اِنَّمَآ اَنْتَ [ کچھ نہیں آپ تو بس ] نَذِيْرٌ ۭ [ خبردار کرنے والے ہیں ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز پر ] وَّكِيْلٌ [ نگہبان ہے ]



 (آیت ۔ 12) اسم الفاعل تارک نے بعض کو نصب دی ہے ۔ صدرک مبتدا مؤخر ہے اور ضائق اس کی خبر مقدم ہے ۔

وَتِلْكَ عَادٌ    ڐ جَحَدُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهٗ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ        59؀
[وَتِلْكَ: اور یہ] [عَادٌ: عاد ہیں] [جَحَدُوْا: جنھوں نے جانتے بوجھتے انکار کیا] [بِاٰيٰتِ رَبِهِمْ: اپنے رب کی نشانیوں کا] [وَعَصَوْا: اور نافرمانی کی] [رُسُلَهٗ: اس کے رسولوں کی] [وَاتَّبَعُوْٓا: اور پیروی کی] [اَمْرَ كُلِ جبارٍ عَنِيْدٍ: ہر ایک زبردستی کرنے والے مخالف کے حکم کی]

 

نوٹ۔1: آیت۔59 میں رُسُلَہٗ کے الفاظ آئے ہیں جس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ عاد نے اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کی تھی۔ جبکہ ان کے پاس ایک ہی رسول، ھود ؑ آئے تھے۔ مگر جس چیز کی طرف انھوں نے دعوت دی تھی وہ وہی ایک دعوت تھی جو ہمیشہ ہر زمانے اور ہر قوم میں اللہ کے رسول پیش کرتے رہے ہیں اس لئے ایک رسول کی بات نہ ماننے کو سارے رسولوں کی نافرمانی قرار دیا گیا۔

وَاُتْبِعُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَّيَوْمَ الْقِيٰمَةِ  ۭ اَلَآ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ۭ اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ        60 ؀ۧ
[وَاُتْبِعُوْا: اور ان کے پیچھے لگا دیا گیا] [فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا: اس دنیا میں] [لَعْنَةً: ایک لعنت کو] [وَّيَوْمَ الْقِيٰمَةِ : اور قیامت کے دن (بھی)] [اَلَآ: سن لو] [ ان: بیشک] [عَادًا: عاد نے] [ كَفَرُوْا: ناشکری کی] [رَبَّهُمْ: اپنے رب کی] [اَلَا: سن لو] [بُعْدًا: دوری ہے] [لِعَادٍ: عاد کے لئے] [ قَوْمِ هُوْدٍ: ھود کی قوم کے لئے]

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ       75؀
اِنَّ : بیشک] [اِبْرٰهِيْمَ: ابراہیم ؑ] [ لَحَلِيْمٌ: بردبار تھے] [ اَوَّاهٌ: بہت دردمند تھے] [ مُّنِيْبٌ: متوجہ رہنے والے تھے]

 

 ن و ب

 [نَوْبًا: (ن) (1) واپس ہونا۔ لوٹنا۔ اس کے لئے عموماً الیٰ کا صلہ آتا ہے۔ (2) قائم مقام ہونا۔ نائب ہونا۔ اس کے لئے عموماً عن کا صلہ آتا ہے۔] [ اِنَابَۃً: (افعال) (1) کسی طرف رخ کرنا۔ متوجہ ہونا۔ اس کے لئے عموماً الیٰ کا صلہ آتا ہے۔ (2) کسی کو قائم مقام مقرر کرنا۔ نائب بنانا۔ اس کے لئے عموماً عن کا صلہ آتا ہے، (اِس معنی میں قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا)۔ وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ (اور تم پیروی کرو اس کے راستے کی جس نے رخ کیا میری طرف) 31:15] [ مُنِیْبٌ: اسم الفاعل ہے۔ رخ کرنے والا۔ متوجہ ہونے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔75۔]

يٰٓـــاِبْرٰهِيْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا  ۚ اِنَّهٗ قَدْ جَاۗءَ اَمْرُ رَبِّكَ ۚ وَاِنَّهُمْ اٰتِيْهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُوْدٍ         76؀
[يٰٓـــاِبْرٰهِيْمُ: اے ابراہیم ؑ] [اَعْرِضْ: آپؑ اعراض کریں] [عَنْ ھٰذَا : اس سے] [انهٗ: حقیقت یہ ہے کہ] [قَدْ جَاۗءَ: آ چکا ہے] [اَمْرُ رَبِكَ : آپؑ کے رب کا حکم] [وَانهُمْ: اور وہ لوگ!] [اٰتِيْهِمْ: آنے والا ہے ان کے پاس] [عَذَابٌ: ایک ایسا عذاب جو] [غَيْرُ مَرْدُوْدٍ: لوٹائے جانے والے کے علاوہ ہے]

وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍ  ۚ وَكَانُوْا فِيْهِ مِنَ الزَّاهِدِيْنَ          20۝ۧ
[وَشَرَوْهُ: اور انھوں نے سودا کیا انؑ کا] [ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ: کم قیمت پر] [ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍ : جو کچھ گنتی کے درہم تھے] [ وَكَانوْا: اور وہ تھے] [ فِيْهِ : انؑ میں] [مِنَ الزَّاهِدِيْنَ: رغبت نہ رکھنے والوں میں سے]

 

ز ھـ د

 [زُھْدًا: (ف۔ س) کسی چیز میں رغبت نہ رکھنا۔] [زَاھِدٌ: اسم الفاعل ہے۔ رغبت نہ رکھنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔20] [

(آیت۔20) دَرَاھِمُ غیر منصرف ہے یہاں بِنَّمَنٍ بِخْسٍ کا بدل ہونے کی وجہ سے دَرَاھِمَ حالت جر میں ہے۔ مَعْدُوْدَۃٍ اس کی صفت ہے۔

وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖٓ اَكْرِمِيْ مَثْوٰىهُ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا  ۭ وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۡ وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ۭ وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ         21 ؀
[وَقَالَ: اور کہا] [ الَّذِي: اس نے جس نے] [ اشْتَرٰىهُ : خریدا انؑ کو] [مِنْ مِّصْرَ: مصر سے] [لِامْرَاَتِهٖٓ: اپنی عورت سے] [ اَكْرِمِيْ: تو عزت دے] [ مَثْوٰىهُ: اسؑ کے ٹھکانہ کو] [ عَسٰٓى: ہو سکتا ہے] [ ان: کہ] [ يَّنْفَعَنَآ: وہ نفع دے ہم کو] [ اَوْ: یا] [ نَتَّخِذَهٗ: ہم بنا لیں اسؑ کو] [ وَلَدًا: بیٹا] [وَكَذٰلِكَ: اور اس طرح] [ مَكَّنَا: ہم نے جما دیا] [ لِيُوْسُفَ : یوسفؑ کو] [فِي الْاَرْضِ: اس سرزمین میں] [وَلِنُعَلِمَهٗ: اور تاکہ ہم تعلیم دیں انؑ کو] [مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ: خوابوں کی تعبیر میں سے] [ وَاللّٰهُ : اور اللہ] [غالب : غالب ہے] [عَلٰٓي اَمْرِهٖ: اپنے کام پر] [ وَلٰكِنَّ: اور لیکن] [اَكْثَرَ النَاسِ: لوگوں کی اکثریت] [لَا يَعْلَمُوْنَ: جانتی نہیں ہے]

 

ک رم

 [کَرَامَۃً: (ک) (1) بزرگ ہونا۔ معزز ہونا۔ (2) مہربانی سے فائدہ دینا۔ بخش کرنا۔ فیاض ہونا۔] [کَرِیْمٌ: ج کَرِامٌ۔ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ (1) بزرگ۔ معزز۔ مہربان (2) باعزت۔ (3) مفید۔ نفیس و پاکیزہ۔ (1) فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ (تو بیشک میرا رب غنی ہے، بزرگ و برر ہے) 27:40۔ وَجَائَ ھُمْ رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ (اور آیا ان کے پاس ایک معزز و مہربان رسول) 44:17۔ (2) لَھُمْ مَّعْفِرَۃٌ وَ رِزْقٌ کَرِیْمٌ (ان کے لئے مغفرت اور باعزت رزق ہے) 8:74۔ (3) فَاَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ (پھر ہم اُگایا اس میں ہر ایک نفیس و پاکیزہ جوڑے میں سے) 31:10۔ وَ ظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ لَا بَارِدٍ وَّ لَا کَرِیْمٌ (اور کچھ چھائوں میں، دھویں میں سے جو نہ ٹھنڈا کرے اور نہ مہربان ہو) 56:43۔44۔ وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ (اور بیشک تم لوگوں پر یقینا کچھ نگہبان ہیں جو معزز ہیں، لکھنے والے ہیں) 82:11۔] [اَکْرَامُ: افعل تفضیل ہے۔ زیادہ معزز۔ زیادہ مہربان۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَثْقٰکُمْ (بیشک تم میں کا زیادہ معزز اللہ کے یہاں تم میں کا زیادہ پرہیزگار ہے) 49:13۔] [اِکْرَامًا: (افعال) کسی کو عزت دینا۔ کسی پر مہربانی کرنا۔ اِذَامَا ابْتَلٰچہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَ نَعَّمَہٗ (جب کبھی بھی اس کا آزماتا ہے اس کا رب تو وہ مہربانی کرتا ہے اس پر اور نعمت دیتا ہے اس کو) 89:15۔] [اَکْرِمْ: فعل امر ہے۔ تو عزت دے۔ تو مہربان ہو۔ زیر مطالعہ آیت۔21] [مُکْرِمٌ: اسم الفاعل ہے۔ عزت دینے والا۔ مہربانی کرنے والا۔ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ (تو نہیں ہے اس کے لئے کوئی بھی عزت دینے والا) 22:18۔] [مُکْرَمٌ: اسم المفعول ہے۔ عزت دیا ہوا۔ بَلْ عِبَادٌ شُکْرَمُوْنَ (بلکہ وہ عزت دیئے ہوئے بندے ہیں) 21:26۔] [تَکْرِیْمًا: (تفعیل: عزت دینا۔ مہربانی کرنا۔ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ (اور بیشک ہم نے عزت دی ہے آدم ؑ کی اولاد کو) 17:70۔] [مُکَرَّمٌ: اسم المفعول ہے۔ عزت دیا ہوا۔ فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ (عزت دیئے ہوئے صحیفوں میں) 80:13۔]

 

نوٹ۔1: بائبل میں اس شخص کا نام فوطیقار لکھا ہے جس یوسف ؑنے کو خریدا تھا۔ قرآن مجید نے آگے چل کر عزیز کے لقب سے اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ شاہی خزانے کا یا باڈی گارڈوں کا افسرتھا۔ تلمود میں اس کی بیوی کا نام زلیخا لکھاہے۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے حضرت یوسف ؑ کا نکاح ہوا، اس کی کوئی اصل نہیں ہے، نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں۔ فوطیغار حصرت یوسف ؑ کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکا کسی شریف خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ اس لئے اس نے یوسف ؑ سے غلاموں کا سا برتائو نہیں کیا اور بائبل کے بیان کے مطابق انہیں اپنے گھر اور اپنی املاک کا مختار بنا دیا۔

 اب تک حضرت یوسف ؑ کی تربیت صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی۔ مگر اس وقت کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک مصر میں اللہ تعالیٰ ان سے جو کام لینا چاہتا تھا اور اس کے لئے جس تجربہ اور بصیرت کی ضرورت تھی، اس کے نشوونما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا اس لئے اس نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انھیں سلطنت مصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیا جس نے انھیں اپنی جاگیر کا مختارکار بنا دیا۔ اس طرح یہ موقع پیدا ہوا کہ انھیں ایک جاگیر کے انتظام سے وہ تجربہ حاصل ہو جائے جو آئندہ ایک بڑی سلطنت کا نظم و نسق چلانے کے لئے درکار تھا۔ واللہ غالب علی اسرہ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ (تفہیم القرآن)

 یہاں سے حضرت یوسف ؑ کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اب تک وہ نفرت اور حسد کا شکار تھے، اس سے جان چھوٹی تو عشق و ہوس نے ان پر دام پھینکنے کی کوشش کی اور یہ امتحان پہلے امتحان سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوا (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: قرآن کریم نے یہ واضح نہیں فرمایا کہ جو بربان حضرت یوسف ؑ کے سامنے آئی وہ کیا چیز تھی۔ اسی لئے اس میں مفسرین حضرات کے مختلف اقوال ہیں۔ امام تفسیر ابن جریر  (رح)  نے ان تمام اقوال کو نقل کرنے کے بعد جو بات فرمائی ہے وہ سب اہل تحقیق کے نزدیک پسندیدہ ہے کہ جتنی بات قرآن کریم نے بتلا دی ہے صرف اسی پر اکتفا کیا جائے۔ اس کے تعین میں وہ سب احتمال ہو سکتے ہیں جو حضرات مفسرین نے ذکر کئے ہیں، لیکن قطعی طور پر کسی کو متعین نہیں کیا جا سکتا۔ (معارف القرآن)

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْـــًٔـا وَّلٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ     44؀
اِنَّ اللّٰهَ [ یقینا اللہ ] لَا يَظْلِمُ [ ظلم نہیں کرتا ] النَّاسَ [ لوگوں پر ] شَيْـــًٔـا [ کچھ بھی ] وَّلٰكِنَّ [ اور لیکن ] النَّاسَ [ لوگ ] اَنْفُسَھُمْ [ اپنے آپ پر ] يَظْلِمُوْنَ [ ظلم کرتے ہیں ]

وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ ۭ قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللّٰهِ وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ      45؀
وَيَوْمَ [ اور جس دن ] يَحْشُرُھُمْ [ وہ اکٹھا کرے گا ان کو ] وہ اکٹھا کرے گا ان کو ] كَاَنْ [ گویا کہ ]لَّمْ يَلْبَثُوْٓا [ وہ لوگ ٹھہرے ہی نہیں ] اِلَّا [ مگر ] سَاعَةً [ ایک گھڑی ] مِّنَ النَّهَارِ [ دن میں سے ] يَتَعَارَفُوْنَ [ ایک دوسرے کو پہچانیں گے] بَيْنَھُمْ ۭ [ اپنے مابین ]قَدْ خَسِرَ [ گھاٹے میں پڑ چکے ہیں ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] كَذَّبُوْا [ جھٹلایا] بِلِقَاۗءِ اللّٰهِ [ اللہ کی ملاقات ] کو [ وَمَا كَانُوْا [ اور وہ نہیں تھے ] مُهْتَدِيْنَ [ہدایت پانے والے ]



ترکیب: (آیت ۔45) کان لم میں کان دراصل کان ہے ، آگے لم سے ملانے کے لئے نون خفیفہ ہوا ہے ۔



نوٹ ۔ 2: زیرمطالعہ آیت ۔ 45۔ میں ہے کہ لوگ باہم ایک دوسرے کو پہچانیں گے یعنی جب قیامت میں مردے قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے ۔ امام بغوی نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ پہچان شروع میں ہوگی ، بعد میں قیامت کے ہولناک واقعات سامنے آئیں گے تویہ پہچان منقطع ہوجائے گی اور بعض روایات می ہے کہ پہچان تو پھر بھی رہے گی مگر ہیبت کے مارے بات نہ کرسکیں گے۔ (معارف القرآن )

وَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِلَيْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِيْدٌ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ     46؀
وَاِمَّا [ اور اگر] نُرِيَنَّكَ [ ہم دکھا دیں آپ کو ] بَعْضَ الَّذِيْ [ اس کے بعض کو جو ] نَعِدُھُمْ [ ہم نے وعدہ کیا ان سے ] اَوْ [ یا ] نَتَوَفَّيَنَّكَ [ ہم وفات بھی دیں آپ کو ]فَاِلَيْنَا [ تو ہماری طرف ہی ] مَرْجِعُھُمْ [ لوٹنا ہے ان کو ] ثُمَّ [پھر ] اللّٰهُ [اللہ ] شَهِيْدٌ [گواہ ہے ] عَلٰي مَا [ اس پر جو ] يَفْعَلُوْنَ [ وہ لوگ کرتے ہیں ]



 (آیت ۔ 46) اما میں ان شرطیہ اور ما زائدہ ہے ۔

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ رَسُوْلُھُمْ قُضِيَ بَيْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ      47؀
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ [ اور ہر ایک امت کے لیے ] رَّسُوْلٌ ۚ [ ایک رسول ہے ] فَاِذَا [ پس جب بھی ] جَاۗءَ [ آتا ہے ] رَسُوْلُھُمْ [ ان کا رسول ] قُضِيَ [ تو فیصلہ کردیا جاتا ہے ] بَيْنَھُمْ [ ان کے مابین ] بِالْقِسْطِ [ انصاف سے ] وَھُمْ [ اور ان پر ] لَا يُظْلَمُوْنَ [ ظلم نہیں کیا جاتا ]

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ      48؀
وَيَقُوْلُوْنَ [ اور وہ لوگ کہتے ہیں ] مَتٰى [ کب ] هٰذَا الْوَعْدُ [ یہ وعدہ ہے] اِنْ [ اگر] كُنْتُمْ [ تم لوگ ہو ] صٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والے ]

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ  ۭ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ ۭاِذَا جَاۗءَ اَجَلُھُمْ فَلَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ      49؀
قُلْ [ آپ کہئے ] لَّآ اَمْلِكُ [ میں اختیار نہیں رکھتا ] لِنَفْسِيْ [ اپنی جان کے لیے ] ضَرًّا [ کسی تکلیف کا ]وَّلَا نَفْعًا [ اور نہ کسی نفع کا ] اِلَّا [ مگر ] مَا [وہ جو ] شَاۗءَ [ چاہے ] اللّٰهُ ۭ [ اللہ ] لِكُلِّ اُمَّةٍ [ ہر ایک امت کے لیے ] اَجَلٌ ۭ [ خاتمے کا ایک وقت ہے ] اِذَا [جب بھی ] جَاۗءَ [ آئے گا ] اَجَلُھُمْ [ ان کا وقت ]فَلَا يَسْتَاْخِرُوْنَ [ تو وہ لوگ نہ پیچھے ہوں گے ] سَاعَةً [ ایک گھڑی ] وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ [ اور نہ آگے ہوں گے ]

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُهٗ بَيَاتًا اَوْ نَهَارًا مَّاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُوْنَ      50؀
قُلْ [ آپ کہئے ] اَ [ کیا ] رَءَيْتُمْ [ تم لوگوں نے غور کیا ] اِنْ [ (کہ ) اگر ] اَتٰىكُمْ [ آئے تمہارے پاس ] عَذَابُهٗ [ اس کا عذاب ] بَيَاتًا [ رات بسر کرتے ہوئے ] اَوْ [ یا ] نَهَارًا [ دن کے وقت ] مَّاذَا [ وہ چیز ] يَسْتَعْجِلُ [ جلدی چاہتے ہیں ] مِنْهُ [ جس میں ] الْمُجْرِمُوْنَ [ مجرم لوگ ]



 (آیت ۔ 50) بیاتا کو ظرف بھی مانا جا سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ اس کو حال مانا جائے ، جبکہ نھارا ظرف ہے۔

اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ ۭ اٰۗلْــٰٔنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ      51؀
اَ [ کیا ] ثُمَّ [پھر] اِذَا [جب ] مَا [وہ جو] وَقَعَ [ واقع ہوگا ] اٰمَنْتُمْ [ تم لوگ ایمان لاؤگے ] بِهٖ ۭ [ اس پر ] اٰۗلْــٰٔنَ [ کیا اب ] وَ [ حالانکہ ] قَدْ كُنْتُمْ [ تم لوگ ] بِهٖ [ اس کی ]تَسْتَعْجِلُوْنَ [ اور وہ لوگ خبر مانگتے ہیں آپ سے (یعنی پوچھتے ہیں) ]

ھُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ      56؀
ھُوَ [ وہ ] يُـحْيٖ [ زندگی دیتا ہے ] وَيُمِيْتُ [ اور موت دیتا ہے ] وَاِلَيْهِ [ اور اس کی طرف [تُرْجَعُوْنَ [ تم لوگ لوٹائے جاؤگے ]

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ     57؀
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ [ اے لوگوں ]قَدْ جَاۗءَتْكُمْ [ آچکی ہے تمہارے پاس ] مَّوْعِظَةٌ [ ایک نصیحت ] مِّنْ رَّبِّكُمْ [ تمہارے رب (کی طرف ) سے ] وَشِفَاۗءٌ [ اور ایک شفا] لِّمَا [ اس کے لیے جو ] فِي الصُّدُوْرِ ڏ [ سینوں میں ہے ] وَهُدًى [ اور ہدایت ] وَّرَحْمَةٌ [ اور رحمت ]لِّلْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں کے لیے ]

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا  ۭ ھُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ     58؀
قُلْ [آپ کہئے] بِفَضْلِ اللّٰهِ [ اللہ کے فضل سے ] وَبِرَحْمَتِهٖ [ اور اس کی رحمت سے (یہ آئی ہیں ) ] فَبِذٰلِكَ [ پس اس سبب سے ]فَلْيَفْرَحُوْا ۭ [ پھر انہیں چاہئے کہ وہ خوش ہوں ] ھُوَ [یہ ] خَيْرٌ [بہترہے ] مِّمَّا [ اس سے جو ] يَجْمَعُوْنَ [ یہ لوگ جمع کرتے ہیں ]

قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَــعَلْتُمْ مِّنْهُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا  ۭ قُلْ اٰۗللّٰهُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَي اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ       59؀
قُلْ [ آپ کہئے ]اَ [ کیا ] رَءَيْتُمْ [ تم لوگوں نے غور کیا ] مَّآ [ اس پر جو ] اَنْزَلَ [ اتارا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] لَكُمْ [ تمہارے لیے ] مِّنْ رِّزْقٍ [ کچھ رزق میں سے ] فَجَــعَلْتُمْ [ پھر تم لوگوں نے بنایا ] مِّنْهُ [ اس میں سے ] حَرَامًا [ کچھ کو حرام ] وَّحَلٰلًا ۭ [ اور کچھ کو حلال] قُلْ [ آپ کہئے ] اٰۗللّٰهُ [ کیا اللہ نے ] اَذِنَ [ اجازت دی ] لَكُمْ [ تم لوگوں کو ] اَمْ [ یا ] عَلَي اللّٰهِ ] اللہ پر ]تَفْتَرُوْنَ [ تم لوگ گھڑتے ہو (جھوٹ ) ]



نوٹ ۔3: زیرمطالعہ آیت ۔ 59 میں رزق کا لفظ آیا ہے ۔ اردو زبان میں رزق کا اطلاق کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہاں گرفت صرف اس قانون سازی پر کی گئی ہے جو دسترخوان کی چھوٹی سی دنیا میں مذہبی ادہام یارسم ورواج کی بنا پر لوگوں نے کرڈالی ہے۔ اس غلط فہمی میں عوام ہی نہیں علماء تک مبتلاء ہیں ۔ حالانکہ عربی زبان میں رزق محض خوراک کے معنی تک محدود نہیں بلکہ عطاء بخشش اور نصیب کے معنی میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی انسان کودیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے حتی کہ اولاد تک رزق ہے۔ مشہور دعا ہے اللہم ارنا الحق وارزقنا اتباعہ یعنی اے اللہ تم ہمیں دکھا حق کو حق ہوتے ہوئے اور تو ہمیں توفیق دے اس کی پیروی کرنے کی ، یہاں رزق کا لفظ توفیق دینے کے معنی میں آیا ہے ۔ پس رزق کو محض دسترخوان کی سرحدوں تک محدود سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان پابندیوں اور آزدیوں پر اعتراض ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے معاملہ میں لوگوں نے بطور خود اختیار کرلی ہیں ، سخت غلطی ہے ۔ اور یہ کوئی معمولی غلطی نہیں ہے ۔ اس کی بدولت اللہ کے دین کی ایک بہت بڑی اصولی تعلیم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے ۔ یہ اسی غلطی کا نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حلت وحرمت کا معاملہ تو ایک دینی معاملہ سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اگر یہ اصول طے کرلیا جائے کہ انسان خود اپنے لئے حدود مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے اور اسی بنا پر اللہ اور اس کی کتاب سے بےنیاز ہوکر قانون سازی کی جانے لگے ، تو عامی تو درکنار ، علماء دین تک کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ چیز بھی دین سے اسی طرح ٹکراتی ہے جس طرح کھانے پینے کی چیزوں میں خود جائز وناجائز کا فیصلہ کرنا ۔ (تفہیم القرآن )

وَمَا ظَنُّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَھُمْ لَا يَشْكُرُوْنَ     60۝ۧ
وَمَا ظَنُّ [ اور کیا گمان ہے ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کا جو ] يَفْتَرُوْنَ [ گھڑتے ہیں ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] الْكَذِبَ [ جھوٹ ] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ [ قیامت کے دن کے بارے میں ] اِنَّ [ بیشک ] اللّٰهَ [ اللہ ] لَذُوْ فَضْلٍ [ یقینا فضل والا ہے ] عَلَي النَّاسِ [ لوگوں پر ] وَلٰكِنَّ [ اور لیکن ] اَكْثَرَھُمْ [ ان کی اکثریت ]لَا يَشْكُرُوْنَ [ شکر نہیں کرتی ]

وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْهِ  ۭ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ       61؀
وَمَا تَكُوْنُ [ اور آپ نہیں ہوتے ] فِيْ شَاْنٍ [ کسی کام میں ] وَّمَا تَتْلُوْا [ اور آپ نہیں پڑھتے ] مِنْهُ [ اس سے ] مِنْ قُرْاٰنٍ [ کچھ قرآن میں سے ] وَّلَا تَعْمَلُوْنَ [ اور تم لوگ عمل نہیں کرتے ] مِنْ عَمَلٍ [ کوئی بھی عمل ] اِلَّا [ مگر (یہ کہ ) ] كُنَّا [ہم ہوتے ہیں ] عَلَيْكُمْ [ تو لوگوں پر ] شُهُوْدًا [ موجود ] اِذْ [ جب ] تُفِيْضُوْنَ [ تم لوگ پھیلاتے ہو (یعنی تبلیغ کرتے ہو) ] فِيْهِ ۭ [ اس میں ] وَمَا يَعْزُبُ [ اور پوشیدہ نہیں ہوپاتی ] عَنْ رَّبِّكَ [ آپ کے رب سے ] مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ [ کسی بھی ذرہ کے ہم وزن (کوئی چیز ) ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ]وَلَا فِي السَّمَاۗءِ [ اور نہ ہی آسمان میں ] وَلَآ اَصْغَرَ [ اور نہ ہی زیادہ چھوٹی ] مِنْ ذٰلِكَ [ اس سے ] وَلَآ اَكْبَرَ [ اور نہ ہی زیادہ بڑی ] اِلَّا [مگر (یہ کہ ) ] فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ [ (سب کچھ ) ایک واضح کتاب میں ہے]



 ش ء ن : (ف) شانا ۔ قدرومنزلت والا کام کرنا ، اپنی فطرت کے مطابق کام کرنا ۔ شان ، اسم ذات بھی ہے ۔ کام ، مصروفیت ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 61۔

ع ز ب ــ: (ن) عزبا ، پوشیدہ ہونا ۔ غائب ہونا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 61۔



ترکیب: (آیت ۔ 61) ما تکون اور ماتتلوا کے ما کو نافیہ ماننا بہتر ہے کیونکہ آگے لا تعملون بھی آیا ہے اور اس کے آگے الا بھی آیا ہے ۔ ذرۃ پر عطف ہونے کی وجہ سے اصغر اور اکبر حالت جز میں ہیں ۔ فی کتب مبین قائم مقام خبر ہے۔ اس کا مبتدا اور خبر دونوں محذوف ہیں ۔

اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ     62۝ښ
اَلَآ [ سن لو] اِنَّ [ یقینا ] اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ [ اللہ کے دوست (وہ ہیں ) ] لَا خَوْفٌ [ کوئی خوف نہیں ہے ] عَلَيْهِمْ [ جن پر ] وَلَا ھُمْ [ اور نہ ہی وہ لوگ ] يَحْزَنُوْنَ [پچھتاتے ہیں ]



نوٹ ۔ 1: زیر مطالعہ آیات 62 تا 64 میں اللہ تعالیٰ نے ولی اللہ لوگوں کے متعلق کچھ باتیں ہمیں بتائی ہیں ۔ ان کو سمجھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ولی اللہ لوگوں کے متعلق جو عام تصور ہے وہ درست نہیں ہے۔ ’’ عوام نے جو اولیاء اللہ کی علامت کشف وکرامات یا غیب کی چیزیں معلوم ہونے کو سمجھ رکھا ہے ، یہ غلط اور دھوکہ ہے، ہزاروں اولیاء اللہ ہیں جن سے اس طرح کی کوئی چیز ثابت نہیں اور اس کے خلاف ایسے لوگوں سے کشف اور غیب کی خبریں منقول ہیں جن کا ایمان بھی درست نہیں ۔‘‘ (معارف القرآن بحوالہ تفسیر مظہری ) ۔ ان غلط تصورات سے ذہن کو صاف کرکے جب ہم مذکورہ آیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ولی اللہ کی حقیقت واضح طور پر سمجھ میں آجاتی ہے۔

مذکورہ آیات سے ایک تو یہ بات قطعی طور پر معلوم ہوئی کہ یقینا ایک ایسے مرتبہ اور مقام کا وجود ہے جسے ہم لوگ ولی اللہ کہتے ہیں اور جس کے لیے آیت میں اللہ تعالیٰ نے جمع کے صیغے میں اولیاء اللہ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس لیے ہم لوگوں کا ولی اللہ کا تصور کوئی دیوملائی تصور نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ولی اللہ کی پہچان کیا ہے ۔ پہچان یہ ہے کہ اولیاء اللہ خوف اور حزن (پچھتاوے) سے محفوظ ہوتے ہیں ، اب پہلے ان صفات کی نوعیت اور اہمیت کو سمجھ لیں پھر ہم دیکھیں گے کہ انہیں حاصل کرنے کا طریقہ کیا بتایا گیا ہے ۔

خوف درحقیقت ایک داخلی کیفیت ہے اور اس کا تعلق مستقبل کے اندیشوں سے ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے ، کہیں ویسا نہ ہو جائے ، پتہ نہیں کیا ہونا ہے وغیرہ وغیرہ ، کوئی بظاہر کتنا بھی پرسکون اور خوش وخرم نظر آئے لیکن اگر اندرہی اندر وہ اس قسم کے اندیشوں میں مبتلا رہتا ہو تو وہ خوف سے محفوظ نہیں ہے ۔ اس کیفیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان اضطراب (
ANXIETY) اور اعصابی تناؤ (TENSION) کا شکار رہتا ہے ۔ ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی فہرست خاصی طویل ہے اس طرح حزن یعنی پچھتاوا بھی ایک داخلی کیفیت ہے اور اس کا تعلق ماضی سے ہے ۔ کاش ایسا نہ ہوتا ، کاش میں ایسا نہ کرتا وغیرہ وغیرہ ، رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ لفظ ’’ لو‘‘ (کاش) شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آئی ہے کہ پچھتاوے جب ہماری سوچ پر غالب آجاتے ہیں تو ہم قنوطیت (FRUSTRATION) کا شکار ہوجاتے ہیں جو کہ گناہ ہے (15:56) ۔ اس دور کے ماہرین نفسیات متفق ہیں کہ قنوطیت انسان کی قوت کار کو سلب کرکے اسے ناکارہ بنادیتی ہے اور اس کی شخصیت کی کشش اور جاذبیت کو ختم کرکے لوگوں کو اس سے دور کردیتی ہے چنانچہ ولی اللہ کی دوسری پہچان کی دوسری صفت یہ ہے کہ یہ لوگ پچھتاتے نہیں ہیں ۔

اس کے آگے پھر ان دونوں صفات کو حاصل کرنے والے راستے کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور پھر تقوی اختیار کرتے رہے ۔ نوٹ کریں کہ تقوی کے لیے یہاں ماضی استمراری کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ولی اللہ کے مقام تک رسائی کے لئے صرف تقوی نہیں بلکہ تقوی پر تسلسل درکار ہے ۔ کیونکہ جو چیز غلام کو آقا کا دوست بناتی ہے وہ آقا کی خوشنودی کے تجسس یعنی تقوی کا دوام ہے۔ چنانچہ جو لوگ تقوی کو اپنا طرز زندگی (
LIFESTYLE) بنا لیتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، ان بشارتوں کی ابتداء تو وہی ہے جس کا ذکر آچکا ہے ، یعنی خوف اور حزن سے نجات ، اس کے بعد پھر اس دنیا میں بشارتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو آخرت کی منزلوں یعنی قبر اور حشر وغیرہ میں جاری رہتا ہے ، یہاں تک کہ انسان اپنے گھر یعنی جنت میں داخل ہوجاتا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ نیز یہ بھی نوٹ کرلیں کہ کامیابی کے LATEST اور MOST MODERN معیار خواہ کچھ بھی ہوں ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک شاندار کامیابی یہی ہے کہ انسان اس مقام ومرتبہ کو پالے۔

اس مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ولی اللہ کا مرتبہ ومقام فردا فردا ہر ایک مسلمان کی دسترس میں ہے۔ اس کے لیے نہ تو عالم فاضل ہونا ضروری ہے اور نہ تارک الدنیا ہونا یا کسی خانقاہ میں بیٹھنا ضروری ہے کیونکہ اس منزل تک پہنچانے والا راستہ تقوی کا دوام ہے ۔ اور تقوی کا صحیح ٹیسٹ بھر پور زندگی کے منجھدار میں ہوتا ہے ۔ اس لیے عام زندگی بسر کرنے والا جو مسلمان بھی چاہے وہ کوشش کرکے ولی اللہ کامقام حاصل کرسکتا ہے ۔ اگر کسی کو منزل نہ بھی ملے تب بھی اس راہ کا راہی تو بن ہی سکتا ہے اور یہ بھی بڑی بات ہے ۔

الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ      63؀ۭ
الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ] وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ [ اور تقوی اختیار کرتے رہے ]

لَھُمُ الْبُشْرٰي فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ  ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ        64؀ۭ
لَھُمُ [ ان کے لیے ] الْبُشْرٰي [بشارت ہے ]فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [ دنیوی زندگی میں ] وَفِي الْاٰخِرَةِ ۭ [ اور آخرت میں] لَا تَبْدِيْلَ [ کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہے] لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۭ] اللہ کے فرمانوں میں ] ذٰلِكَ [یہ ] ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ [ ہی عظیم کامیابی ہے ]

وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُھُمْ ۘ اِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا  ۭ ھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ       65؀
وَلَا يَحْزُنْكَ [ اور چاہیے کہ افسردہ مت کرے آپ کو ]قَوْلُھُمْ ۘ [ ان لوگوں کی بات ]اِنَّ [یقینا ] الْعِزَّةَ [کل عزت ] لِلّٰهِ [ اللہ ہی کی (دی ہوئی ) ہے ] جَمِيْعًا ۭ [ سب کی سب ] ھُوَ السَّمِيْعُ [وہ ہی سننے والا ہے ] الْعَلِيْمُ [ جاننے والا ہے ]

اَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ  ۭ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَاۗءَ   ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ      66؀
اَلَآ [ سن لو] اِنَّ [ یقینا ] لِلّٰهِ [ اللہ ہی کا ہے ] مَنْ [ وہ جو ] فِي السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں میں ہے ] وَمَنْ [ اور وہ جو ] فِي الْاَرْضِ ۭ [ زمین میں ہے ] وَمَا [ اور کس کی ] يَتَّبِعُ [ پیروی کرتے ہیں ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو ] يَدْعُوْنَ [ پکارتے ہیں ] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ] شُرَكَاۗءَ ۭ [ شریکوں کو] اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ [ وہ پیروی نہیں کرتے ] اِلَّا [ مگر ] الظَّنَّ [ گمان کی ] وَاِنْ ھُمْ [ اور وہ نہیں ہیں ] اِلَّا [ سوائے اس کے کہ ] يَخْرُصُوْنَ (سب اٹکل دوڑاتے )

 (آیت ۔ 66) وما یتبع کا ماموصولہ ہے،۔ ان یتبعون اس کا صلہ ہے۔

ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا  ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ      67؀
[ھُوَ (وہی"ہے" ) الَّذِيْ (جو) جَعَلَ (بنائے اس نے) لَكُمُ (تمہارے لیے) الَّيْلَ (رات کو ) لِتَسْكُنُوْا (تاکہ تم سب آرام کرو )] [فِيْهِ [ اس میں ] وَالنَّهَارَ [ اور دن کو ] مُبْصِرًا ۭ [ بینا کرنے والا ہوتے ہوئے ] اِنَّ [یقینا ] فِيْ ذٰلِكَ [ اس میں ]لَاٰيٰتٍ [ لازما نشانیاں ہیں ] لِّقَوْمٍ [ایسے لوگوں کے لیے جو ] يَّسْمَعُوْنَ [ سن کر سمجھتے ہیں ]

قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ  ۭ ھُوَ الْغَنِيُّ  ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ  ۭ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۢ بِهٰذَا ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ       68؀
قَالُوا [ انھوں نے کہا ] اتَّخَذَ [ بنایا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] وَلَدًا [ ایک بیٹا ] سُبْحٰنَهٗ ۭ [ (حالانکہ ) اس کی پاکیزگی ہے (ہر ضرورت سے ) ] ھُوَ الْغَنِيُّ ۭ [ وہ ہی بےنیاز ہے ]لَهٗ [ اس کا ہی ہے ] مَا [وہ جو ] فِي السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں میں ہے ] وَمَا [اور وہ جو ] فِي الْاَرْضِ ۭ [ زمین میں ہے ] اِنْ [ نہیں ہے] عِنْدَكُمْ [ تم لوگوں کے پاس ] مِّنْ سُلْطٰنٍۢ [ کوئی بھی دلیل ] بِهٰذَا ۭ [ اس کے لیے] اَ [ کیا ] تَقُوْلُوْنَ [ تم لوگ کہتے ہو ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] مَا [ وہ جو ] لَا تَعْلَمُوْنَ [ تم لوگ نہیں جانتے ہو ]

قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ       69؀
قُلْ [ آپ کہئے ] اِنَّ [ بیشک ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو ] يَفْتَرُوْنَ [ گھڑتے ہیں ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] الْكَذِبَ [ جھوٹ ] لَا يُفْلِحُوْنَ [ وہ مراد نہیں پاتے ]

مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِيْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيْدَ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ       70؀ۧ
مَتَاعٌ [ برتنے کاسامان ہے ] فِي الدُّنْيَا [ دنیا میں ] ثُمَّ [ پھر ] اِلَيْنَا [ ہماری طرف ہی ] مَرْجِعُھُمْ [ ان کا لوٹنا ہے ] ثُمَّ [ پھر ] نُذِيْقُھُمُ [ ہم چکھائیں گے ان کو ] الْعَذَابَ الشَّدِيْدَ [ سخت عذاب ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ] كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ [ یہ لوگ کفر کرتے ہیں ]

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ  ۘ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِيْ وَتَذْكِيْرِيْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَعَلَي اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَكُمْ وَشُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِ      71؀
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ [اور آپ پڑھ کر سنائیں ان لوگوں کو ] نَبَاَ نُوْحٍ ۘ [ نوح کی خبر ] اِذْ [ جب ] قَالَ [ انھوں نے کہا ] لِقَوْمِهٖ [ اپنی قوم سے] يٰقَوْمِ [ اے میری قوم ] اِنْ [ اگر ] كَانَ [ ہے ] كَبُرَ [ بھاری ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ] مَّقَامِيْ [ میرا کھڑا ہونا ]وَتَذْكِيْرِيْ [ اور میرا نصیحت کرنا ] بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی آیات سے] فَعَلَي اللّٰهِ [ تو اللہ پر ہی ] تَوَكَّلْتُ [ میں نے (تو ) بھروسہ کیا ] فَاَجْمِعُوْٓا [پھر تم لوگ جمع کرو] اَمْرَكُمْ [ اپنے مشورہ کو ]وَشُرَكَاۗءَكُمْ [ اور اپنے شریکوں کو ] ثُمَّ [ پھر ] لَا يَكُنْ [ چاہیے کہ نہ ہو ] اَمْرُكُمْ [ تمہارا مشورہ ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر] غُمَّةً [ کسی مبہم حال میں ] ثُمَّ [ پھر ] اقْضُوْٓا [ تم لوگ فیصلہ کرو] اِلَيَّ [ میری طرف (یعنی میرے متعلق ) ] وَلَا تُنْظِرُوْنِ [ اور تم لوگ مہلت مت دو مجھ ]

فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ ۭ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ ۙ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ      72؀
فَاِنْ [ پھر اگر ] تَوَلَّيْتُمْ [ تم لوگ منھ موڑتے ہو]فَمَا سَاَلْتُكُمْ [ تو میں نہیں مانگتا تم سے ] مِّنْ اَجْرٍ ۭ [ کسی قسم کا کوئی اجر ] اِنْ اَجْرِيَ [ نہیں ہے میرا اجر ] اِلَّا [ مگر ] عَلَي اللّٰهِ ۙ [ اللہ پر ] وَاُمِرْتُ [ اور مجھے حکم دیا گیا ] اَنْ [کہ ] اَكُوْنَ [ میں ہوجاؤں ] مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ [ فرمانبرداری کرنے والوں میں سے]

فَكَذَّبُوْهُ فَنَجَّيْنٰهُ وَمَنْ مَّعَهٗ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنٰھُمْ خَلٰۗىِٕفَ وَاَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا  ۚ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِيْنَ      73؀
فَكَذَّبُوْهُ [ تو انھوں نے جھٹلایا ان کو ] فَنَجَّيْنٰهُ [ پس ہم نے نجات دی ان کو ] وَمَنْ [ اور ان لوگوں کو جو ] مَّعَهٗ [ ان کے ساتھ تھے ] فِي الْفُلْكِ [ کشتی میں ] وَجَعَلْنٰھُمْ [ اور ہم نے بنایا ان لوگوں کو ] خَلٰۗىِٕفَ [ جانشین ] وَاَغْرَقْنَا [ اور ہم نے غرق کیا ] الَّذِيْنَ [ ان کو جنھوں نے ] كَذَّبُوْا [ جھٹلایا ] بِاٰيٰتِنَا ۚ [ ہماری نشانیوں کو ] فَانْظُرْ [ تو آپ دیکھیں ] كَيْفَ [ کیسا ] كَانَ [تھا] عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِيْنَ [ خبردار کئے جانے والوں کا انجام ]

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ فَجَاۗءُوْھُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ ۭ كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِ الْمُعْتَدِيْنَ     74؀
ثُمَّ [ پھر ] بَعَثْنَا [ ہم نے بھیجے ] مِنْۢ بَعْدِهٖ [ ان کے بعد ] رُسُلًا [ کچھ رسول ] اِلٰى قَوْمِهِمْ [ ان لوگوں کی قوم کی طرف] فَجَاۗءُوْھُمْ [ تو وہ آئے ان کے پاس ] بِالْبَيِّنٰتِ [ واضح (نشانیوں ) کے ساتھ ] فَمَا كَانُوْا [ تو نہیں تھے وہ لوگ ] لِيُؤْمِنُوْا [ کہ ایمان لاتے ] بِمَا [ بسبب اس کے ] كَذَّبُوْا [ انھوں نے جھٹلایا ] بِهٖ [ جس کو ] مِنْ قَبْلُ ۭ [ پہلے سے ] كَذٰلِكَ [ اس طرح ] نَطْبَعُ [ ہم چھاپ لگاتے ہیں ] عَلٰي قُلُوْبِ الْمُعْتَدِيْنَ [ حد سے تجاوز کرنے والوں کے دلوں پر ]

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَھٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ بِاٰيٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ      75؀
ثُمَّ [ پھر ] بَعَثْنَا [ ہم نے بھیجا ] مِنْۢ بَعْدِهِمْ [ ان کے بعد ] مُّوْسٰى [ موسیٰ کو ] وَھٰرُوْنَ [اور ھارون کو ] اِلٰى فِرْعَوْنَ [ فرعون کی طرف] وَمَلَا۟ىِٕهٖ [اور اس کے سرداروں (کی طرف ) ] بِاٰيٰتِنَا [ اپنی نشانیوں کے ساتھ] فَاسْتَكْبَرُوْا [ تو وہ بڑے بننے لگے] وَكَانُوْا [ اور وہ تھے] قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ [ یقینا کھلا جادو ہے ]

فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْٓا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِيْنٌ  76؀
[فَلَمَّا [ پھر جب ] [ جَاۗءَھُمُ [ آچکا تھا انکے پاس ] [ الْحَقُّ [ حق ) مِّنْ (سے )] [ عِنْدِنَا (ہماری طرف ) قَالُوْٓا (سب نے کہا) اِنَّ (بیشک ) هٰذَا ] [ یہ [ لَسِحْرٌ [یقینا جادو ہے ] مُّبِيْنٌ [ (واضح)]

قَالَ مُوْسٰٓى اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَكُمْ ۭ اَسِحْرٌ هٰذَا  ۭ وَلَا يُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ    77؀
قَالَ [ کہا ] مُوْسٰٓى [ موسیٰ نے ]اَ [ کیا ] تَقُوْلُوْنَ [ تم لوگ کہتے ہو (یہ ) ] لِلْحَقِّ [ حق کے لئے ] لَمَّا [ جب ] جَاۗءَكُمْ ۭ [ وہ آیا تمھارے پاس] اَ [ کیا] سِحْرٌ [ جادو ہے ] هٰذَا ۭ [ یہ ] وَلَا يُفْلِحُ [ اور مراد نہیں پاتے ] السّٰحِرُوْنَ [ جادو کرنے والے ]



ترکیب: (آیت ۔ 77) اتقولون کے بعد ھذا محذوف ہے جو کہ گذشتہ آیت میں لسحر مبین کی طرف اشارہ ہے ۔ اس کے آگے سحر خبر مقدم اور ھذا مبتدا مؤخر ہے ۔

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاۗءُ فِي الْاَرْضِ ۭ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِيْنَ      78؀
قَالُوْٓا [ انہوں نے کہا ]اَ [ کیا ] جِئْتَنَا [ تو آیا ہمارے پاس ] لِتَلْفِتَنَا [ تاکہ تو پھیر دے ہم کو ] عَمَّا [ اس سے ] وَجَدْنَا [ ہم نے پایا ] عَلَيْهِ [ جس پر ] اٰبَاۗءَنَا [ اپنے آباؤاجداد کو ]وَتَكُوْنَ [ اور تاکہ ہوجائے]لَكُمَا [ تم دونوں کے لیے] الْكِبْرِيَاۗءُ [ بڑائی ] فِي الْاَرْضِ ۭ [ زمین میں ] وَمَا نَحْنُ [ اور ہم نہیں ہیں ] لَكُمَا [ تم دونوں پر ] بِمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے]



ل ف ت : (ض) لفتا ، کسی کو کسی چیز سے پھیر دینا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 78۔ (افتعال ) التفاتا ۔ اہتمام سے اپنی توجہ کسی طرف پھیرنا ۔ مڑکر دیکھنا ۔ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ [اور چاہئے کہ مڑ کر نہ دیکھے تم میں سے کوئی ایک بھی ] 81: 11



(آیت ۔ 78) لتلفتنا کے لام کی پر عطف ہونے کی وجہ سے تکون حالت نصب میں آیا ہے اور یہ واحد مونث کا صیغہ ہے ، اس کا فاعل الکبریاء ہے جو مؤنث ہے۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِيْ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ      79؀
وَقَالَ [ اور کہا ] فِرْعَوْنُ [ فرعون نے ] ائْتُوْنِيْ [ لا ؤ میرے پاس ] بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ [ ہر ایک جاننے والے جادوگر کو ]

فَلَمَّا جَاۗءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَھُمْ مُّوْسٰٓى اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ       80؀
فَلَمَّا [ پس جب ] جَاۗءَ [ آئے ] السَّحَرَةُ [ جادوگر لوگ ] قَالَ [ تو کہا ] لَھُمْ [ ان سے ] مُّوْسٰٓى [ موسیٰ نے ] اَلْقُوْا [تم لوگ ڈالو] مَآ [ اس کو جو ] اَنْتُمْ [ تم لوگ ] مُّلْقُوْنَ [ ڈالنے والے ہو]

.فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰى مَا جِئْتُمْ بِهِ  ۙ السِّحْرُ   ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَيُبْطِلُهٗ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِيْنَ       81؀
فَلَمَّآ [ پھر جب ] اَلْقَوْا [ انھوں نے ڈالا ] قَالَ [ تو کہا ] مُوْسٰى [ موسیٰ نے ] مَا جِئْتُمْ بِهِ ۙ [ تم لوگ لائے ہو جس کو ] السِّحْرُ ۭ [ (تو وہ تو ) جادو ہے ] اِنَّ اللّٰهَ [ یقینا اللہ ] سَيُبْطِلُهٗ ۭ [ باطل کرے گا (ناکارہ کرے گا) اس کو ] اِنَّ اللّٰهَ [ یقینا اللہ ]لَا يُصْلِحُ [ اصلاح نہیں کرتا ] عَمَلَ الْمُفْسِدِيْنَ [ نظم بگاڑنے والوں کے عمل کو ]



(
آیت ۔ 81) السحر سے پہلے فھو محذوف ہے۔

وَيُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ        82؀ۧ
وَيُحِقُّ [ اور حق کرتا ہے ] اللّٰهُ [ اللہ ] الْحَقَّ [ حق کو ] بِكَلِمٰتِهٖ [ اپنے فرمانوں سے ] وَلَوْ [ اور اگرچہ ] كَرِهَ [ کراہیت کریں ] الْمُجْرِمُوْنَ [ جرم کرنے والے ]

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓى اِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰي خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهِمْ اَنْ يَّفْتِنَھُمْ  ۭ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْاَرْضِ  ۚ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِيْنَ       83؀
فَمَآاٰمَنَ [ پس بات نہیں مانی ] لِمُوْسٰٓى [ موسیٰ کی ] اِلَّا [ مگر ] ذُرِّيَّةٌ [ کچھ اولاد (یعنی نوجوانوں ) نے ] مِّنْ قَوْمِهٖ [ ان کی قوم میں سے ] عَلٰي خَوْفٍ [ ایسے خوف کے باوجود ] مِّنْ فِرْعَوْنَ [ فرعون سے ] وَمَلَا۟ىِٕهِمْ [ اور ان کے سرداروں سے ] اَنْ [ کہ ] يَّفْتِنَھُمْ ۭ [ وہ آزمائش میں ڈالیں ان کو ] وَاِنَّ [ اور بیشک ] فِرْعَوْنَ [ فرعون ] لَعَالٍ [ یقینا سرکشی کرنے والا ہے ]فِي الْاَرْضِ ۚ [ زمین میں ] وَاِنَّهٗ [ اور بیشک وہ ] لَمِنَ الْمُسْرِفِيْنَ [ یقینا حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہے]

وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ      84؀
وَقَالَ [ اور کہا ] مُوْسٰى [ موسیٰ نے ] يٰقَوْمِ [ اے میری قوم ] اِنْ [ اگر ]كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ [ تم لوگ ایمان رکھتے ہو ] بِاللّٰهِ [ اللہ پر ] فَعَلَيْهِ [ تو اس پر ہی ] تَوَكَّلُوْٓا [ بھروسہ رکھو ] اِنْ [ اگر ] كُنْتُمْ [ تم لوگ ہو ] مُّسْلِمِيْنَ [ فرمانبرداری کرنے والے ]

فَقَالُوْا عَلَي اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ        85؀ۙ
فَقَالُوْا [ تو انھوں نے کہا] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ہی ] تَوَكَّلْنَا ۚ [ ہم نے بھروسہ کیا ] رَبَّنَا [ اے ہمارے رب ] لَا تَجْعَلْنَا [ تو نہ بنانا ہم کو ] فِتْنَةً [ آزمائش ] لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ [ظلم کرنے والے لوگوں کے لئے ]

وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ       86؀
وَنَجِّنَا [ اور تم نجات دے ہم کو ] بِرَحْمَتِكَ [ اپنی رحمت سے ]مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ [ کفر کرنے والے لوگوں سے ]

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰى وَاَخِيْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُيُوْتَكُمْ قِبْلَةً وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ  ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ       87؀
وَاَوْحَيْنَآ [ اور ہم نے وحی کی ] اِلٰى مُوْسٰى [ موسیٰ کی طرف] وَاَخِيْهِ [ اور ان کے بھائی کی طرف ] اَنْ [ کہ ] تَبَوَّاٰ [ تم دونوں ٹھکانہ بناؤ]لِقَوْمِكُمَا [ اپنی قوم کے لئے ] بِمِصْرَ [ مصر میں ] بُيُوْتًا [کچھ گھروں کو ] وَّاجْعَلُوْا [ اور تم لوگ بناؤ ] بُيُوْتَكُمْ [ اپنے گھروں کو ] قِبْلَةً [ قبلہ ] وَّاَقِيْمُوا [اور قائم کرو] الصَّلٰوةَ ۭ [ نماز کو ] وَبَشِّرِ [ اور آپ بشارت دیجئے ] الْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں کو ]



نوٹ ۔1: آیت 87 میں ایک خاص حکم کا ذکر ہے۔ بنی اسرائیل نمازیں صرف اپنی عبادت گاہوں میں ادا کرتے تھے اور پچھلی امتوں کے لئے بھی یہی حکم تھا ، کیونکہ ان کی نماز گھروں میں ادا نہیں ہوتی تھی ، یہ خصوصی سہولت امت محمدیہ
کو عطا ہوئی کہ ہر جگہ جہاں چاہیں ۔ نماز ادا کریں ، فرعون نے بنی اسرائیل کی تمام عبادت گاہوں کو مسمار کردیا تھا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام ، اور حضرت ہارون علیہ السلام کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے لئے مصر میں نئے مکانات بنائے جائیں اور ان کا رخ قبلہ کی طرف ہوتا کہ وہ ان ہی مکانات میں نماز ادا کرسکیں ۔ اس وقت خصوصی حالات کے تحت عارضی اجازت دی گئی تھی کہ گھروں میں ہی نماز ادا کرلیا کریں ، دوسری رائے یہ ہے کہ اس ضرورت کے وقت بھی ان کو مخصوص گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی ، عام گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت اس وقت بھی نہیں تھی ، حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے اصحاب کا قبلہ خانہ کعبہ تھا۔

اس آیت کے شروع میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو تثنیہ کے صیغے میں خطاب کیا گیا کیونکہ مکانات میں نماز کی اجازت دینا ان ہی کا کام تھا ۔ اس کے بعد اقامت صلوۃ کا حکم جمع کے صیغے میں دیا گیا کیونکہ اس حکم میں پیغمبر اور امت ، سب شامل ہیں، اس کے بعد بشارت دینے کا حکم واحد کے صیغے میں صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا کیونکہ اصل صاحب شریعت نبی آپ ہی تھے۔ (معارف القرآن )

وَقَالَ مُوْسٰى رَبَّنَآ اِنَّكَ اٰتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَهٗ زِينَةً وَّاَمْوَالًا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا  ۙرَبَّنَا لِيُضِلُّوْا عَنْ سَبِيْــلِكَ ۚ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓي اَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ       88؀
وَقَالَ [ اور کہا ] مُوْسٰى [ موسیٰ نے ] رَبَّنَآ [ اے ہمارے رب ] اِنَّكَ [ بیشک ] اٰتَيْتَ [ تو نے دیا ] فِرْعَوْنَ [ فرعون کو ] وَمَلَاَهٗ [ اور اس کے سرداروں کو ] زِينَةً [ زینت ]وَّاَمْوَالًا [اور مال ] فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۙ [ دنیوی زندگی میں ] رَبَّنَا [ اے ہمارے رب ] لِيُضِلُّوْا [ تاکہ وہ گمراہ کریں (لوگوں کو ) ] عَنْ سَبِيْــلِكَ ۚ [ تیری راہ سے ] رَبَّنَا [ اے ہمارے رب ] اطْمِسْ [ تو تہس نہس کردے ] عَلٰٓي اَمْوَالِهِمْ [ ان کے مالوں کو ] وَاشْدُدْ [ اور تو سخت کردے ] عَلٰي قُلُوْبِهِمْ [ ان کے دلوں کو ]فَلَا يُؤْمِنُوْا [ نتیجتا وہ ایمان نہ لائیں ] حَتّٰى [ یہاں تک کہ ] يَرَوُا [وہ دیکھیں ] الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ [ دردناک عذاب کو ]

قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَــقِيْمَا وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَايَعْلَمُوْنَ       89؀
قَالَ [ کہا (اللہ نے ) ] قَدْ اُجِيْبَتْ [ قبول کی گئی ہے ] دَّعْوَتُكُمَا [ تم دونوں کی دعا] فَاسْتَــقِيْمَا [ پس ڈٹے رہو ] وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ [ اور تم دونوں ہر گز پیروی مت کرنا ]سَبِيْلَ الَّذِيْنَ [ ان کے راستے کی جو ] لَايَعْلَمُوْنَ [ علم نہیں رکھتے ]

وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُهٗ بَغْيًا وَّعَدْوًا  ۭحَتّٰٓي  اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ ۙقَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ        90؀
وَجٰوَزْنَا [ اور ہم نے پار کیا ] بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ بنی اسرائیل کو ] الْبَحْرَ [ سمندر کے ] فَاَتْبَعَھُمْ [تو پیچھے لگا ان کے ] فِرْعَوْنُ [فرعون ] وَجُنُوْدُهٗ [ اور اس کا لشکر ] بَغْيًا [ سرکشی کرتے ہوئے ] وَّعَدْوًا ۭ [ اور دشمنی کرتے ہوئے ] حَتّٰٓي [ یہاں تک کہ ] اِذَآ [جب ] اَدْرَكَهُ [ آلگا اس کو ] الْغَرَقُ ۙ [ ڈوبنا ] قَالَ [ تو اس نے کہا ] اٰمَنْتُ [ میں ایمان لایا ] اَنَّهٗ [ اس کا کہ ] لَآ اِلٰهَ [ کوئی بھی الہ نہیں ہے ] اِلَّا الَّذِيْٓ [ سوائے اس کے ] اٰمَنَتْ [ایمان لائے ] بِهٖ [ جس پر ] بَنُوْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ بنی اسرائیل ] وَاَنَا [ اور میں ہوں ] مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ [ فرمانبرداری کرنے والوں میں سے]

اٰۗلْئٰنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ        91؀
اٰۗلْئٰنَ [ کیا اب ]وَقَدْ عَصَيْتَ [ اور تو نافرمانی کرچکا ہے ] قَبْلُ [ پہلے ] وَكُنْتَ [ اور تو تھا ] مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ [ نظم بگاڑنے والوں میں سے]

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَةً  ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ        92۝ۧ
فَالْيَوْمَ [پس آج ] نُنَجِّيْكَ [ بچا رکھیں گے تجھ کو ] بِبَدَنِكَ [ تیرے بدن کے ساتھ ] لِتَكُوْنَ [ تاکہ تو ہوجائے ] لِمَنْ [ ان کے لئے جو ] خَلْفَكَ [ تیرے پیچھے (آنے والے ) ہیں ] اٰيَةً ۭ [ ایک نشانی ] وَاِنَّ [ اور بیشک ] كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ [ لوگوں میں سے اکثر ] عَنْ اٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں سے ] لَغٰفِلُوْنَ [غفلت برتنے والے ہیں ]



ب د ن : (ن) بدنا ، موٹے یا فربہ جسم والا ہونا ۔ بدن ، اسم ذات بھی ہے ۔ جسم ، زیر مطالعہ آیت 92۔ بدنۃ ، ج: بدن ، قربانی کے فربہ جانور جو مکہ میں ذبح کئے جائیں ۔ وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ [ اور قربانی کے فربہ جانور ہم نے بنایا ان کو تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں سے ] 22:36۔

وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ ۭ اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَھُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ          93؀
وَلَقَدْ بَوَّاْنَا [ اور ہم ٹھکانہ دے چکے ہیں ] بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ بنی اسرائیل کو ] مُبَوَّاَ صِدْقٍ [ ایک سچائی کا ٹھکانہ ] وَّرَزَقْنٰھُمْ [ اور ہم نے رزق دیا ان کو ] مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ۚ [پاکیزہ (چیزوں ) میں سے ]فَمَا اخْتَلَفُوْا [تو انھوں نے اختلاف نہیں کیا] حَتّٰى [ یہاں تک کہ ] جَاۗءَھُمُ [ آیاان کے پاس ] الْعِلْمُ ۭ [ علم] اِنَّ [ یقینا ] رَبَّكَ [آپ کا رب] يَقْضِيْ [ فیصلہ کرے گا] بَيْنَھُمْ [ ان کے درمیان ] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ [ قیامت کے دن ] فِيْمَا [ اس میں ] كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ [ جس میں وہ اختلاف کرتے تھے ]



ترکیب: (آیت ۔ 93) مبوا صدق میں مبوا دراصل اسم المفعول مبوا ہے جو ظرف کے معنی میں آیا ہے اس لئے حالت نصب میں ہے اور مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ختم ہوئی ہے۔



نوٹ ۔1: آیت ۔ 93 کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دین میں جو تفرقے کئے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو حقیقت کا علم نہیں تھا اور ناوافقیت کی بنا پر انھوں نے ایسا کہا ، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ان کے اپنے نفس کی شرارتوں کا نتیجہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ دین یہ ہے ۔ اس کے باوجود انھوں نے اللہ کی دی ہوئی بنیادوں کو چھوڑ کر کچھ دوسری بنیادوں پر اپنے فرقوں کی بنیادیں کھڑی کرلیں ۔ (تفہیم القرآن ) ۔

فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ  ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ        94۝ۙ
فَاِنْ [ پھر اگر ] كُنْتَ [ آپ ہیں ]فِيْ شَكٍّ [شک میں] مِّمَّآ [ اس کے بارے میں جس کو ] اَنْزَلْنَآ [ ہم نے اتارا ] اِلَيْكَ [ آپ کی طرف ] فَسْــــَٔـلِ [ تو آپ پوچھیں ] الَّذِيْنَ [ ان سے جو ] يَقْرَءُوْنَ [ پڑھتے ہیں ] الْكِتٰبَ [ کتاب کو ] مِنْ قَبْلِكَ ۚ [ آپ سے پہلے سے]لَقَدْ جَاۗءَكَ [ یقینا آچکا ہے آپ کے پاس] الْحَقُّ [ حق ] مِنْ رَّبِّكَ [ آپ کے رب (کی طرف ) سے] فَلَا تَكُوْنَنَّ [ تو آپ ہر گز مت ہوں ] مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ [ شک کرنے والوں میں سے ]

وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَتَكُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ          95؀
وَلَا تَكُوْنَنَّ [ اور آپ ہرگز مت ہوں ] مِنَ الَّذِيْنَ [ ان لوگوں میں سے جنھوں نے] كَذَّبُوْا [ جھٹلایا ] بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی نشانیوں کو ] فَتَكُوْنَ [ ورنہ آپ ہو جائیں گے ] مِنَ الْخٰسِرِيْنَ [ خسارہ اٹھانے والوں میں ]



 (آیت ۔ 95) فتکون کا فاسببیہ ہے۔



نوٹ ۔ 2: آیات 94۔95 میں ایک خاص انداز خطاب اختیار کیا گیا ہے جس کے لئے پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ کہنا بیٹی کو تو سنانا بہو کو ، اس پر اتفاق رائے ہے کہ ان آیات میں یہی انداز خطاب اختیار کیا گیا ہے ۔ البتہ اس بات پر دو آراء ہیں کہ رسول اللہ
کو خطاب کرکے دراصل کس کو سنانا مقصود ہیں ۔

(1) حضرت قتادہ کا قول ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ نہ میں شک کرتا ہوں اور نہ مجھے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ اس آیت میں امت کو ثابت قدم رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ (ابن کثیر) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں دراصل امت کے ایسے افراد کو سنانا مقصود ہے جو ایمان کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن دل میں کچھ شکوک وشبہات بھی ہوتے ہیں ۔ اللہ کے احکام کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اپنے عمل سے اس کی تکذیب کرتے ہیں ، جیسے تسلیم کرتے ہیں کہ نماز فرض ہے لیکن پڑھتے نہیں ہیں وغیرہ ۔

(2) دوسری رائے یہ ہے کہ ان لوگوں کو سنانا مقصود ہے جو سب کچھ سمجھنے کے باوجود محض اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکار اور تکذیب کرتے ہیں ۔ ان کی اس روش پر اظہار ناراضگی کے لئے اللہ تعالیٰ نے براہ راست ان کو خطاب کرنے کے بجائے رسول اللہ
سے خطاب کرکے ان کو سنایا ہے ( تدبر قرآن سے ماخوذ ) ۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ ان آیات کی دونوں آراء کو جامع سمجھا جائے ]

نوٹ ۔ 3: حضرت یونس علیہ السلام کا زمانہ 860 ق م سے 784 قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے ۔ اگر چہ اسرائیلی نبی تھے ، مگر ان کو اشور

(اسریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا ۔ اسی لئے اشوریوں کو یہاں قوم یونس کہا گیا ہے ۔ اس قوم کا مرکز نینوی کا مشہور شہر تھا ۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت نینوی تقریبا ساٹھ میل میں پھیلا ہوا تھا ۔ جب یہ قوم ایمان لے آئی تو اس کی مہلت عمر میں اضافہ کردیا گیا ۔ بعد میں اس نے پھر گمراہیاں اختیار کرنا شروع کردیں ، ناحوم نبی (720 تا 698 ق م) نے آخری وارننگ دی ۔ خبردار کیا مگر کوئی اثر نہ ہوا ، پھر صفنیاہ نبی مبعوث ہوئے مگر (640 تا 409 ق م) وہ بھی کارگر نہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے میڈیا والوں کو ان پر مسلط کردیا ۔ اشوری فوج شکست کھا کر نینوی میں محصور ہوگئی ۔ کچھ مدت تک اس نے سخت مقابلہ کیا ۔ پھر دجلہ کی طغیانی نے شہر کی فیصل توڑ دی اور حملہ آور اندر گھس گئے ۔ پورا شہر جلا کر خاک کردیا ۔ اشور کا بادشاہ اپنے محل میں آگ لگا کر جل مرا ۔ اس کے ساتھ ہی اشوری سلطنت اور تہذیب بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی ۔ زمانہ حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ان میں آتش زدگی کے نشانات کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ (تفہیم القرآن )

اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ        96۝ۙ
اِنَّ [ بیشک ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ] حَقَّتْ [ حق ہوا] عَلَيْهِمْ [ جن پر ]كَلِمَتُ رَبِّكَ [ آپ کے رب کا فرمان] لَا يُؤْمِنُوْنَ [ وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے]

وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ        97؀
وَلَوْ [ اور اگرچہ (یعنی خواہ ) ] جَاۗءَتْھُمْ [ آئے ان کے پاس ]كُلُّ اٰيَةٍ [ ہر ایک نشانی ] حَتّٰى [ یہاں تک کہ ] يَرَوُا [ وہ دیکھیں ] الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ] درد ناک عذاب کو ]



 (آیت ۔ 97) حتی کا تعلق گزشتہ آیت کے لایؤمنون سے ہے ۔

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ ۭ لَمَّآ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰى حِيْنٍ        98؀
فَلَوْلَا كَانَتْ [ پس کیوں نہ ہوئی ] قَرْيَةٌ [ کوئی ایسی بستی ] اٰمَنَتْ [ جو ایمان لاتی ] فَنَفَعَهَآ [ پھر نفع دیتا ان کو ] اِيْمَانُهَآ [ ان کا ایمان ] اِلَّا [ سوائے ] قَوْمَ يُوْنُسَ ۭ [ یونس کی قوم کے ] لَمَّآ [ جب] اٰمَنُوْا  [وہ لوگ ایمان لائے ] كَشَفْنَا [ تو ہم نے کھول دیا ] عَنْھُمْ [ ان سے] عَذَابَ الْخِزْيِ [ رسوائی کے عذاب کو ] فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [ دنیوی زندگی میں ] وَمَتَّعْنٰھُمْ [ اور ہم نے فائدہ پہنچا یا ان کو ] اِلٰى حِيْنٍ [ ایک مدت تک ]



 (آیت ۔ 98) فنفعھا ایمانھا میں ھا کی ضمیریں قریۃ کے لئے ہیں ۔ لفظی رعایت سے یہ ضمیریں واحد مؤنث آئی ہیں جبکہ یہاں قریۃ سے مراد اہل قریہ ہیں، اس لئے یہاں ھا سے مراد ھم ہے، جس کو ترجمہ میں ظاہر کیا جائے گا ،

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا  ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ        99؀
وَلَوْ [ اور اگر ] شَاۗءَ [ چاہتا ] رَبُّكَ [ آپ کا رب] لَاٰمَنَ [ تو ضرور ایمان لاتے ] مَنْ [ جو ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ہیں ] كُلُّھُمْ [ ان کے کل ] جَمِيْعًا ۭ [ سب کے سب ] اَفَاَنْتَ [ تو کیا آپ ] تُكْرِهُ [ زبردستی کریں گے ] النَّاسَ [ لوگوں سے ] حَتّٰى [ یہاں تک کہ ]يَكُوْنُوْا [ وہ ہوجائیں ] مُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے ]

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ  ۭ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ       ١٠٠؀
وَمَا كَانَ [ اور (ممکن ) نہیں ہے ] لِنَفْسٍ [ کسی جان کے لئے ] اَنْ [ کہ ] تُؤْمِنَ [ وہ ایمان لائے ] اِلَّا [ مگر ] بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کی اجازت سے ]وَيَجْعَلُ [ اور وہ ڈالتا ہے ] الرِّجْسَ [ گندگی کو ] عَلَي الَّذِيْنَ [ ان لوگوں پر جو ] لَا يَعْقِلُوْنَ [ عقل نہیں کرتے ]



 (آیت ۔100) تومن واحد مؤنث کا صیغہ ہے اس کی ضمیر فاعلی ھی ، نفس کے لئے ہے ۔

قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  ۭ وَمَا تُغْنِي الْاٰيٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ      ١٠١؀
قُلِ [ آپ کہئے ] انْظُرُوْا [ تم لوگ دیکھو] مَاذَا [ اس کو جو] فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [ آسمانوں اور زمین میں ہے ] وَمَا تُغْنِي [ اور کام نہیں آتیں ] الْاٰيٰتُ [ نشانیاں ]وَالنُّذُرُ [ اور ڈرانے والے ] عَنْ قَوْمٍ [ ایسے لوگوں کے ] لَّا يُؤْمِنُوْنَ [ جو ایمان نہیں لاتے ]



 (آیت ۔ 101) النذر جمع مکسر ہے نذیر کا ۔

فَهَلْ يَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَيَّامِ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ قُلْ فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ        ١٠٢؁
فَهَلْ يَنْتَظِرُوْنَ [ تو وہ لوگ کیا انتظار کرتے ہیں ] اِلَّا [سوائے ]مِثْلَ اَيَّامِ الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کے دنوں کے جیسے کا ] خَلَوْا [ جو گزرے ] مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ [ ان سے پہلے ] قُلْ [ آپ کہہ دیجئے] فَانْتَظِرُوْٓا [ پس تم لوگ انتظار کرو ] اِنِّىْ [ بیشک میں (بھی) ] مَعَكُمْ [ تمہارے ساتھ ] مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ [انتظار کرنے والوں میں سے ہوں ]

ثُمَّ نُنَجِّيْ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَ  ۚ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِيْنَ        ١٠٣؀ۧ
ثُمَّ [پھر ] نُنَجِّيْ [ ہم بچا لیتے ہیں ] رُسُلَنَا [ اپنے رسولوں کو ] وَالَّذِيْنَ [ اور ان کو جو ] اٰمَنُوْا [ایمان لائے ] كَذٰلِكَ ۚ [ اسی طرح (ہے ) ] حَقًّا [ حق ہوتے ہوئے ] عَلَيْنَا [ ہم پر ] نُنْجِ [ (کہ ) ہم بچا لیں ] الْمُؤْمِنِيْنَ [ایمان لانے والوں کو ]



 (آیت ۔ 103) ننج دراصل مضارع میں جمع متکلم کا صیغہ ننجی ہے ی حرف علت ہے ، لفظ میں آخری ہونے کی وجہ سے ساکن ہوئی ۔ پھر المومنین میں لام بھی ساکن ہے ۔ دوساکن جمع ہوئے ۔ اس لئے ی گر گئی ہے ۔

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ ښ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ         ١٠٤؀ۙ
قُلْ [ آپ کہئے [يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ ] اے لوگو] اِنْ [ اگر ] كُنْتُمْ [ تم لوگ ہو ] فِيْ شَكٍّ [ کسی شک میں ] مِّنْ دِيْنِيْ [ میرے دین سے ] فَلَآ اَعْبُدُ [ تو میں (تو ) بندگی نہیں کرتا ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کی جن کی ] تَعْبُدُوْنَ [ تم لوگ بندگی کرتے ہو] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ] وَلٰكِنْ [ اور لیکن ( یعنی بلکہ ) ] اَعْبُدُ [ میں بندگی کرتا ہوں] اللّٰهَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ ښ [ اس اللہ کی جو پورا پورا لے لیتا ہے تم کو (یعنی موت دیتا ہے ) وَاُمِرْتُ [اور مجھے حکم دیا گیا ] اَنْ [ کہ ] اَكُوْنَ [ میں ہوجاؤں ] مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں میں سے ]

وَاَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا  ۚ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ        ١٠٥؁
وَاَنْ [ اور یہ کہ ] اَقِمْ [ تو سیدھا رکھ ] وَجْهَكَ [ اپنے چہرے کو ] لِلدِّيْنِ [ دین کے لئے ] حَنِيْفًا ۚ [ یکسوہوتے ہوئے] وَلَا تَكُوْنَنَّ [ اور تو ہر گز مت ہونا ] مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ [ شرک کرنے والوں میں سے ]

وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ  ۚ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِيْنَ        ١٠6؁
وَلَا تَدْعُ [ اور تو مت پکار ] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [اللہ کے علاوہ ] مَا [ اس کو جو ]لَا يَنْفَعُكَ [ نفع نہیں دیتا ہے تجھ کو ] [وَلَا يَضُرُّكَ ۚ [ اور نہ نقصان دیتا ہے تجھ کو] [ فَاِنْ [ پھر اگر ] فَعَلْتَ [ تو نے کیا (ایسا) ] فَاِنَّكَ [ تو بیشک تو ] اِذًا [ جب تو] مِّنَ الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والوں میں سے ہے ]

وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا ھُوَ ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِهٖ   ۭ يُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ  ۭ وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ         ١٠٧؁
وَاِنْ [ اور اگر] يَّمْسَسْكَ [ چھوئے تجھ کو ] اللّٰهُ [ اللہ ] بِضُرٍّ [ کسی تکلیف سے ] فَلَا كَاشِفَ [ تو کوئی بھی کھولنے والا نہیں ہے ] لَهٗٓ [ اس کو ] اِلَّا [ مگر ] ھُوَ ۚ [ وہ (یعنی اللہ ) ] وَاِنْ [ اور اگر ] يُّرِدْكَ [ وہ ارادہ کرے تیرے لیے ] بِخَيْرٍ [ کسی بھلائی کا ] فَلَا رَاۗدَّ [ تو کوئی بھی لوٹانے والا نہیں ہے ] لِفَضْلِهٖ ۭ [ اس کے فضل کو ] يُصِيْبُ [ وہ پہنچاتا ہے ] بِهٖ [ اسے (یعنی فضل ) ] مَنْ [ اس کو جس کو ] يَّشَاۗءُ [ وہ چاہتا ہے ] مِنْ عِبَادِهٖ ۭ [ اپنے بندوں میں سے ] وَھُوَ [ اور وہ ہی ] الْغَفُوْرُ [ بےانتہا بخشنے والا ہے ] الرَّحِيْمُ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا  ۭ وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ        ١٠٨؀ۭ
قُلْ [ آپ کہئے ] يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ [ اے لوگو] قَدْ جَاۗءَكُمُ [ آچکا ہے تمہارے پا س] الْحَقُّ [ حق]مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ [تمہارے رب (کے پاس) سے ] فَمَنِ [ پس جس نے ] اهْتَدٰى [ ہدایت پائی ]فَاِنَّمَا [ تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ]يَهْتَدِيْ [ وہ ہدایت پاتا ہے ] لِنَفْسِهٖ ۚ [ اپنے آپ کے لئے] وَمَنْ ضَلَّ [ اور جو گمراہ ہوا] فَاِنَّمَا [ تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] يَضِلُّ [ وہ گمراہ ہوتا ہے ] عَلَيْهَا ۭ [ اس پر (یعنی اپنی جان پر )]وَمَآ اَنَا [ اور میں نہیں ہوں ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ] بِوَكِيْلٍ [ کوئی اختیار والا ]

وَاتَّبِعْ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتّٰى يَحْكُمَ اللّٰهُ     ښ      وَھُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ          ١٠٩؀ۧ
وَاتَّبِعْ [ اور آپ پیروی کریں ] مَا [ اس کی جو ] يُوْحٰٓى [ وحی کیا گیا ] اِلَيْكَ [ آپ کی طرف ] وَاصْبِرْ [ اور آپ صبر کریں ] حَتّٰى [ یہاں تک کہ ] يَحْكُمَ [ فیصلہ کرے ] اللّٰهُ [ اللہ ] وَھُوَ [ اور وہ ]خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ [ فیصلہ کرنے والوں کا بہترین ہے ]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

الۗرٰ   ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ         Ǻ۝ۙ
[الۗرٰ ۣ،قف] كِتٰبٌ [ (یہ ) ایک کتاب ہے ] اُحْكِمَتْ [محکم کیا گیا ] اٰيٰتُهٗ [ اسکی آیتوں کو ] ثُمَّ [پھر ] فُصِّلَتْ [ ان کو کھولا گیا ] مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ [ ایک باخبر حکمت والے کے خزانے سے ]



ترکیب: (آیت ۔1) کتب خبر ہے۔ اس کا مبتدا ھذا محذوف ہے ۔ احکمت اور فصلت کا نائب فاعل ایتہ ہے۔ لدن مضاف ہے اور حکیم خبیر اس کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے حالت جر میں ہیں ۔

اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ  ۭ اِنَّنِيْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ        Ą۝ۙ
اَلَّا تَعْبُدُوْٓا [ کہ تم لوگ بندگی مت کرو] اِلَّا [مگر ] اللّٰهَ ۭ [ اللہ کی ] اِنَّنِيْ [ بیشک میں ] لَكُمْ [ تمہارے لیے] مِّنْهُ [ اس (کی طرف ) سے ] نَذِيْرٌ [ایک خبر دار کرنے والا ہوں ] وَّبَشِيْرٌ [ اور ایک بشارت دینے والا ہوں ]



نوٹ ۔1: آیت 2: 78 کی لغت میں لفظ ’’ امۃ ‘‘ کے دو مفہوم دئیے گئے ہیں ۔ (1) دین (2) کسی دین کے پیروکار لوگ ۔ اب نوٹ کرلیں کہ اس کا ایک تیسرا مفہوم بھی ہے ۔ کسی دین یا اس کے پیروکاروں کے عروج کی مدت یا عرصہ۔ اس مفہوم میں یہ لفظ قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے ۔ ایک زیر مطالعہ آیت ۔ 8 اور پھر سورہ یوسف کی آیت ۔ 45 میں ۔

اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ ۭ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ  ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ     Ĉ۝
اَلَآ [ سن لو] اِنَّھُمْ [ بیشک وہ لوگ ] يَثْنُوْنَ [ دوہرا کرتے ہیں ] صُدُوْرَھُمْ [ اپنے سینوں کو ] لِيَسْتَخْفُوْا [ تاکہ وہ چھپ جائیں ] مِنْهُ ۭ [ اس سے] اَلَا [ سن لو] حِيْنَ [ جس وقت ] يَسْتَغْشُوْنَ [وہ چھپنا چاہتے ہیں ] ثِيَابَھُمْ ۙ [ اپنے کپڑوں (کے ذریعہ ) سے ] يَعْلَمُ [ تو وہ تو جانتا ہے] مَا [ اس کو جو ] يُسِرُّوْنَ [ وہ لوگ چھپاتے ہیں ] وَمَا [ اور اس کو جو ] يُعْلِنُوْنَ ۚ [ اعلانیہ کرتے ہیں ] اِنَّهٗ [ بیشک وہ ] عَلِيْمٌۢ [ وہ جاننے والاہے ] بِذَاتِ الصُّدُوْرِ [ سینوں والی (بات) کو ]