قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
بارہواں پارہ 

وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا  ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ        Č۝
وَمَا [ اور نہیں ہے ] مِنْ دَاۗبَّةٍ [ کسی قسم کا کوئی چلنے والا ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] اِلَّا [ مگر ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] رِزْقُهَا [ اس کا رزق ہے ] وَيَعْلَمُ [ اور وہ جانتا ہے ] مُسْتَــقَرَّهَا [ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو ] وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ [ اور اس کو بطور امانت رکھے جانے کی جگہ کو ] كُلٌّ [ سب کچھ ] فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ [ ایک واضح کتاب میں ہے]



نوٹ ۔2: آیت ۔6 میں ہے کہ سب کا رزق اللہ کے ذمہ ہے ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بعض جانور اور انسان بھوکے پیاسے مرجاتے ہیں ۔ علماء نے اس کے متعدد جواب دیئے ہیں ۔ ایک جواب یہ بھی ہے کہ رزق کی ذمہ داری اسی وقت تک ہے جب تک عمر پوری نہیں ہوجاتی ۔ جب عمر پوری ہوگئی تو اس کو بہر حال مرنا ہے ۔ اس کا عام سبب امراض ہوتے ہیں ۔ کبھی جلنا یا غرق ہونا یا چوٹ یا زخم بھی سبب ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رزق بند کردیا جائے جس سے موت واقع ہوجائے ۔ (معارف القرآن )

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا  ۭ وَلَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُوْلَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْــرٌ مُّبِيْنٌ       Ċ۝
وَهُوَ [اور وہ ] الَّذِيْ [ وہ ہے جس نے ] خَلَقَ [ پیدا کیا ] السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ [ آسمانوں کو اور زمین کو ] فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ [ چھ دنوں میں ] وَّ [ اس حال میں کہ ] كَانَ [ تھا ] عَرْشُهٗ [ اس کا عرش ] عَلَي الْمَاۗءِ [ پانی پر ] لِيَبْلُوَكُمْ [ تاکہ وہ آزمائے تم لوگوں کو ] اَيُّكُمْ [(کہ) تم میں کا کون ] اَحْسَنُ [ زیادہ اچھا ہے] عَمَلًا ۭ [بلحاظ عمل کے ] وَلَىِٕنْ [ اور البتہ اگر] قُلْتَ [ آپ کہیں گے ] اِنَّكُمْ [ کہ تم لوگ ] مَّبْعُوْثُوْنَ [ اٹھائے جانے والے ہو] مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ [ موت کے بعد] لَيَقُوْلَنَّ [ تو لازما کہیں گے ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] كَفَرُوْٓا [ کفر کیا ] اِنْ [ نہیں ہے ] ھٰذَآ [ یہ ] اِلَّا [ مگر ] سِحْــرٌ مُّبِيْنٌ [ ایک کھلا جادو]



 (آیت ۔ 7) لیقولن کا فاعل الذین اسم ظاہر آگیا ہے اس لئے یہاں پر لیقولن واحد آیا ہے ۔



نوٹ ۔3: آیت ۔ 7 میں ہے کہ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ یہ جملہ معترضہ ہے جو غالبا لوگوں کے اس سوال کے جواب میں فرمایا گیا کہ آسمان اور زمین اگر پہلے نہ تھے تو پہلے کیا تھا ؟ اس سوال کو نقل کئے بغیر اس کا مختصر جواب دیا گیا ہے کہ پہلے پانی تھا ۔ ہم نہیں کہہ سکتے اس پانی سے مراد کیا ہے ۔ یہی پانی جسے ہم اس نام سے جانتے ہیں یا یہ لفظ محض استعارے کے طور پر مادے کی اس مائع (
Fluid) حالت کے لئے استعمال کیا گیا ہے جو موجودہ صورت میں ڈھالے جانے سے پہلے تھی ۔ رہا یہ ارشاد کہ اس کا عرش پانی پر تھا ، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ اس کی سلطنت پانی پر تھی۔ ( تفیہم القرآن )

وَلَىِٕنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰٓى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّيَقُوْلُنَّ مَا يَحْبِسُهٗ  ۭ اَلَا يَوْمَ يَاْتِيْهِمْ لَيْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ       Ď۝ۧ
وَلَىِٕنْ [ اور البتہ اگر ] اَخَّرْنَا [ ہم ملتوی رکھیں ] عَنْهُمُ [ ان سے ] الْعَذَابَ [ عذاب کو ] اِلٰٓى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ [ ایک گنتی کئے ہوئے عرصہ تک ] لَّيَقُوْلُنَّ [ تو وہ لوگ لازما کہیں گے ] مَا [ کیا چیز ] يَحْبِسُهٗ ۭ [ روکتی ہے اس کو ] اَلَا [ سن لو] يَوْمَ [ جس دن ] يَاْتِيْهِمْ [ وہ آئے گا ان کے پاس ] لَيْسَ [ تو وہ نہیں ہے ] مَصْرُوْفًا [ پھیرا جانے والا ] عَنْهُمْ [ ان سے ] وَحَاقَ [ اور چھا جائے گا ] بِهِمْ [ ان پر] مَّا [ وہ ] كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ [جس کا وہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں ]



 (آیت ۔ 8) لیقولن کا فاعل اسم ظاہر نہیں ہے بلکہ اس میں شامل ضمیر ہے اس لئے یہاں پر یہ جمع کے صیغے میں آیا ہے۔ لیس کا اسم اس میں شامل ھو کی ضمیر ہے جو العذاب کے لئے ہے ۔ اور مصروفا اس کی خبر ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔

وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ  ۚ اِنَّهٗ لَيَـــُٔــوْسٌ كَفُوْرٌ       ۝
وَلَىِٕنْ [اور البتہ اگر ] اَذَقْنَا [ ہم چکھا دیں ] الْاِنْسَانَ [ انسان کو ] مِنَّا [ اپنی (طرف) سے ] رَحْمَةً [ کوئی رحمت ] ثُمَّ [ پھر ] نَزَعْنٰهَا [ ہم کھینچ لیں اس کو ] مِنْهُ ۚ [ اس سے ] اِنَّهٗ [ بےشک وہ ] لَيَـــُٔــوْسٌ [ یقینا بےانتہا مایوس ہے ] كَفُوْرٌ [ بےانتہاناشکرا ہے ]



نوٹ ۔1: آیت ۔ 9۔10 میں یہ بات قابل غور ہے کہ دنیا کی آسائش اور تکلیف دونوں کے بارے میں قرآن کریم نے اذقنا یعنی چکھانے کا لفظ استعمال کرکے اس طرف اشارہ کردیاکہ اصل اسائش اور تکلیف آخرت کی ہے ۔ دنیا کی آسائش اور تکلیف نہ تو مکمل ہیں اور نہ دائمی ہیں ، بلکہ نمونے اور چکھنے کے درجہ میں ہیں تاکہ انسان کو آخرت کی آسائش اور تکلیف کا کچھ اندازہ ہو سکے اور اس لئے بھی یہاں کی راحت زیادہ خوش ہونے کی چیز نہیں ہے اور نہ تکلیف پر زیادہ غم کرنا چاہئے (معارف القرآن ) ۔ اور دنیا میں اچھے برے حالات میں جو صحیح رویہ ہے ، اس کی نشاندہی اگلی آیت ۔11 میں کی گئی ہے۔

وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ نَعْمَاۗءَ بَعْدَ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْهُ لَيَقُوْلَنَّ ذَهَبَ السَّـيِّاٰتُ عَنِّيْ ۭ اِنَّهٗ لَفَرِحٌ فَخُــوْرٌ        10۝
وَلَىِٕنْ [ اور البتہ اگر ] اَذَقْنٰهُ [ ہم چکھائیں اس کو ] نَعْمَاۗءَ [ کوئی آسائش ] بَعْدَ ضَرَّاۗءَ [ ایسی تکلیف کے بعد] مَسَّتْهُ [ اس کو چھوا جس نے ] لَيَقُوْلَنَّ [ تو وہ لازما کہے گا ] ذَهَبَ [ گئیں ] السَّـيِّاٰتُ [ برائیاں ] عَنِّيْ ۭ [ مجھ سے ] اِنَّهٗ [ بیشک وہ ] لَفَرِحٌ [ یقینا بہت خوش ہے ] فَخُــوْرٌ [ بےانتہا فخر کرنے والا ]



ترکیب : (آیت ۔10) نعماء اور ضراء دونوں میں غیر منصرف ہیں ۔ اذقنا کا مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے نعماء حالت نصب میں ہے جبکہ بعد کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے ضراء حالت جر میں ہے ۔ اور ضراء نکرہ مخصوصہ ہے ، مستہ اس کی خصوصیت ہے ۔

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ  ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ          13؀
اَمْ [ یا ] يَقُوْلُوْنَ [ وہ لوگ کہیں گے ] افْتَرٰىهُ ۭ [ اس نے گھڑا ہے اس کو (یعنی قرآن کو ) ] قُلْ [ آپ کہئے ] فَاْتُوْا [ تو تم لوگ لے آؤ] بِعَشْرِ سُوَرٍ [ دس سورتیں ] مِّثْلِهٖ [ اس کے مانند] مُفْتَرَيٰتٍ [ گھڑی ہوئی ] وَّادْعُوْا [ اور تم لوگ بلالو ] مَنِ [ اس کو جس کو ] اسْتَطَعْتُمْ [ (بلانے کی ) تم استطاعت رکھتے ہو ]مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ] اِنْ [ا گر] كُنْتُمْ [ تم لوگ ] صٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والے ہو ]

فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰهِ وَاَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ        14؀
فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا [ پھر اگر وہ لوگ جواب نہ دیں ] لَكُمْ [ تم کو ] فَاعْلَمُوْٓا [ تو جان لو] اَنَّمَآ اُنْزِلَ [ کہ اس کو تو بس اتارا گیا ]بِعِلْمِ اللّٰهِ [ اللہ کے علم سے ] وَاَنْ [ اور یہ کہ ] لَّآ اِلٰهَ [ کوئی بھی الہ نہیں ہے ] اِلَّا [ مگر ] هُوَ ۚ [ وہ ] فَهَلْ [ تو کیا ] اَنْتُمْ [ تم لوگ ] مُّسْلِمُوْنَ [ فرمانبرداری کرنے والے ہو ]



 (آیت ۔14) فالم دراصل فان لم ہے ۔

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ       15؀
مَنْ [ جو ] كَانَ [ وہ ہے ] يُرِيْدُ [ جو چاہتا ہے ] الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا [ دنیوی زندگی کو ] وَزِيْنَتَهَا [ اور اس کی زینت کو ] نُوَفِّ [ تم ہم پورا پورا دیں گے ] اِلَيْهِمْ [ ان کی طرف ] اَعْمَالَهُمْ [ ان کے اعمال (کے اجر) کو] فِيْهَا [ اس (دنیا) میں] وَهُمْ [ اور وہ لوگ] فِيْهَا [ اس (دنیا ) میں ] لَا يُبْخَسُوْنَ [ حق سے کم نہ دیئے جائیں گے ]



 (آیت ۔ 15) من شرطیہ ہے ۔ کان یرید ۔ کو ماضی استمراری ماننے کی گنجائش ہے لیکن ہماری ترجیح ہے کہ کان کو فعل ناقص مانیں ۔ اس کا اسم اس میں شامل ضمیر ہے اور یرید سے آگے جملہ فعلیہ اس کی خبر ہے ۔ اس طرح یہ جملہ اسمیہ ہوگا اور اس کا ترجمہ حال میں ہوگا ۔ من کا جواب شرط ہونے کی وجہ سے نوف مجزوم ہوا ہے ، دونوں جگہ فیھا کی ضمیر الحیوۃ الدنیا کے لئے ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ      16؀
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ [ یہ وہ لوگ ہیں ] لَيْسَ [ نہیں ہے ] لَهُمْ [ جن کے لئے ] فِي الْاٰخِرَةِ [ آخرت میں ] اِلَّا [ مگر ] النَّارُ ڮ [آگ ] وَحَبِطَ [ اور اکارت ہوا ] مَا [ وہ جو ]صَنَعُوْا [ انھوں نے کاریگری کی ] فِيْهَا [ اس (دنیا ) میں ] وَبٰطِلٌ [ اور باطل ہونے والا ہے ] مَّا [ وہ جو ]كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [ یہ لوگ کرتے تھے ]

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْمَةً  ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ  ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ  ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ      17؀
اَفَمَنْ [ تو کیا وہ لوگ جو ] كَانَ [ ہوں ] عَلٰي بَيِّنَةٍ [ ایک شفاف (فطرت) پر ] مِّنْ رَّبِّهٖ [ اپنے (کی جانب ) سے ] وَيَتْلُوْهُ [ اور اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہو] شَاهِدٌ [ ایک گواہی دینے والا (قرآن ) ] مِّنْهُ [ اس (کی طرف) سے ] وَمِنْ قَبْلِهٖ [ اور اس سے پہلے ] كِتٰبُ مُوْسٰٓى [ موسیٰ کی کتاب ہو ] اِمَامًا [ رہنما ہوتے ہوئے ] وَّرَحْمَةً ۭ [ اور رحمت ہوتے ہوئے (ان کے برابر ہوں گے جوان سے محروم ہیں ) ] اُولٰۗىِٕكَ [ یہ لوگ ہی] يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان لاتے ہیں ] بِهٖ ۭ [ اس (قرآن ) پر ] وَمَنْ [اور جو کوئی ] يَّكْفُرْ [ انکار کرے گا ] بِهٖ [ اس (قرآن ) کا ] مِنَ الْاَحْزَابِ [ تمام گروہوں میں سے ] فَالنَّارُ [ تو آگ] مَوْعِدُهٗ ۚ [ اس کے وعدہ کی جگہ سے ] فَلَا تَكُ [ پس آپ مت ہوں ] فِيْ مِرْيَةٍ [ کسی شک میں ] مِّنْهُ ۤ [ اس (قرآن ) سے ] اِنَّهُ [ یقینا یہ ] الْحَقُّ [ ہی حق ہے ] مِنْ رَّبِّكَ [ آپ کے رب (کی جانب ) سے ] وَلٰكِنَّ [اور لیکن ]اَكْثَرَ النَّاسِ [ لوگوں کی اکثریت ] لَا يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان نہیں لائے گی ]



ترکیب: (آیت ۔ 17) اس آیت کے معنی مراد کو سمجھنے کے متعدد امکانات موجود ہیں ۔ کیونکہ من کو جمع کے مفہوم میں بھی لیا جا سکتا ہے اور واحد بھی ۔ اس وقت ایک غیر معین شخص بھی مراد ہوسکتا ہے ۔ اور رسول اللہ
بھی ۔ بینۃ صفت ہے ۔ اس کا موصوف محذوف ہے جو شریعت یا سبیل بھی ہوسکتا ہے اور فطرت کی بدیہات بھی ۔ پھر آگے آنے والی ضمیروں کے مراجع کے تعین میں بھی اختلاف ممکن ہے اسی لئے اس آیت کے مختلف تراجم اور تفسیری اقوال ملتے ہیں ۔ ان میں سے کسی کو بھی غلط نہیں کہہ سکتے ۔ صرف اپنی ترجیح بیان کرسکتے ہیں ۔

من جمع کے مفہوم میں ہے کیونکہ آگے اولئک آرہا ہے ۔ یہ من استفہامیہ ہے اور اس کے سوال کا جواب محذوف ہے جسے ترجمہ میں ظاہر کرنا ضروری ہے ۔ بینۃ کا موصوف محذوف فطرت کی بدیہات ہیں ۔ یتلوہ کی ضمیر بینۃ کے لئے ہے کیونکہ مؤنث غیر حقیقی کے لئے مذکر اور مؤنث دونوں میں سے کوئی بھی ضمیر آسکتی ہے ۔ منہ کی ضمیر رب کے لئے ہے ، قبلہ کی ضمیر شاھد کے لئے ہے ۔ کتب موسیٰ مبتدا مؤخر ہے، اس کی خبر محذوف ہے اور من قبلہ قائم مقام خبر مقدم ہے جبکہ امام اور رحمۃ حال ہیں ۔ یؤمنون بہ اور یکفربہ کی ضمیریں شاھد کے لئے ہیں۔ الاحزاب پر لام جنس ہے ۔

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا  ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُعْرَضُوْنَ عَلٰي رَبِّهِمْ وَيَقُوْلُ الْاَشْهَادُ هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلٰي رَبِّهِمْ ۚ اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الظّٰلِمِيْنَ         18۝ۙ
وَمَنْ [ اور کون ] اَظْلَمُ [ زیادہ ظالم ہے ] مِمَّنِ [ اس سے جس نے ] افْتَرٰي [ گھڑا] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] كَذِبًا ۭ [ ایک جھوٹ ] اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ ہیں ] يُعْرَضُوْنَ [ جو پیش کئے جائیں گے ] عَلٰي رَبِّهِمْ [ اپنے رب پر ] وَيَقُوْلُ [ اور کہیں گے ] الْاَشْهَادُ [گواہی دینے والے ] هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ [ یہ وہ ہیں جنھوں نے ] كَذَبُوْا [ جھوٹ کہا ] عَلٰي رَبِّهِمْ ۚ [ اپنے رب پر ] اَلَا [ سن لو] لَعْنَةُ اللّٰهِ [ اللہ کی لعنت ہے ] عَلَي الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والوں پر ]



 (آیت ۔ 18) یعرضون باب افعال کا نہیں بلکہ ثلاثی مجرد کا مجہول ہے ۔

الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَهَا عِوَجًا  ۭ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ        19؀
الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو ] يَصُدُّوْنَ [ روکتے ہیں ] عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ سے ] وَيَبْغُوْنَهَا [ اور تلاش کرتے ہیں اس کو ] عِوَجًا ۭ [ کجی کو ] وَهُمْ [ اور وہ لوگ ] بِالْاٰخِرَةِ [ آخرت کا ] هُمْ كٰفِرُوْنَ [ ہی انکار کرنے والے ہیں ]