قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
 چودہواں پارہ

الۗرٰ    ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ     Ǻ۝
[الۗر۔۔] [ تِلْكَ: یہ] [ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ: اِس کتاب کی آیتیں ہیں] [ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ: اور واضح قرآن کی]

 

ترکیب: (آیت۔1)۔ اٰیٰتُ مضاف ہے۔ اَلْکِتٰبِ اس کا پہلا مضاف الیہ ہے۔ اور قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ اس کا دوسرا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے حالت جرّ میں آیا ہے۔

رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ    Ą۝
[رُبَمَا: بہت ہی] [ يَوَدُّ: خواہش کریں گے] [الَّذِينَ: وہ لوگ جنھوں نے] [ كَفَرُوْا: انکار کیا] [ لَوْ: کاش] [ كَانوْا: وہ ہوتے] [مُسْلِمِيْنَ: فرمانبرداری کرنے والے]

ذَرْهُمْ يَاْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا وَيُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ    Ǽ۝
[ذَرْ: آپؐ چھوڑ دیں] [هُمْ: ان لوگوں کو] [ يَاْكُلُوْا: کہ وہ کھائیں] [ وَيَتمتَّعُوْا: اور فائدہ اٹھائیں] [ وَيُلْهِهِمُ: اور غافل کرے ان کو] [ الْاَمَلُ: امید] [فَسَوْفَ: تو عنقریب] [يَعْلَمُوْنَ: وہ جان لیں گے]

 

ء م ل

 [اَمَلًا: (ن) امید کرنا۔] [اَمَلٌ: اسم ذات بھی ہے۔ امید۔ زیر مطالعہ آیت۔3۔]

 

(آیت۔3) ذَرْ فعل امر ہے۔ اس کا جواب امر ہونے کی وجہ سے یَاْکُلُوْا۔ یَتَمَتَّعُوْا۔ اور یَلَھِ مجزوم آئے ہیں۔

وَمَآ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ اِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ  Ć۝
[وَمَآ اَهْلَكْنَا: اور ہم نے ہلاک نہیں کیا] [مِنْ قَرْيَةٍ: کسی بھی بستی کو] [اِلَّا: مگر ] [وَ: اس حال میں کہ] [لَهَا: اس کے لئے تھی] [كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ: ایک معلوم کتاب]

 

 (آیت۔4)۔ اَھْلَکْنَا کا مفعول ہونے کی وجہ سے مِنْ قَرْیَۃٍ محلّا حالت نصب میں ہے۔

 

نوٹ۔1: کِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قوم کے لئے پہلے سے طے کر لیتا ہے کہ اس کو سننے، سمجھنے اور سنبھلنے کے لئے اتنی مہلت دی جائے گی اور اس حد تک اسے اپنی من مانی کرنے کاموقع دیا جاتا رہے گا۔ یہ مہلت جب تک باقی رہتی ہے وہ ڈھیل دیتا رہتا ہے اور سرکشی کرتے ہی فوراً اس نے کبھی بھی کسی قوم کو نہیں پکڑا (تفہیم القرآن سے ماخوذ)

مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَمَا يَسْتَاْخِرُوْنَ     Ĉ۝
[مَا تَسْبِقُ: آگے نہیں نکلتی] [ مِنْ اُمَّةٍ: کوئی بھی امت] [اَجَلَهَا: اپنے وقت سے] [وَمَا يَسْتَاْخِرُوْنَ: اور نہ وہ پیچھے رہتے ہیں]

 

(آیت۔5) تَسْبِقُ کا فاعل ہونے کی وجہ سے مِنْ اُمَّۃٍ محلَّا حالت رفع میں ہے۔

وَقَالُوْا يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ     Č۝ۭ
[وَقَالُوْا: اور انھوں نے کہا] [يٰٓاَيُّھَا الَّذِي: اے وہ (شخص)] [ نُزِّلَ: نازل کیا گیا] [ عَلَيْهِ: جس پر] [ الذِّكْرُ: اس نصیحت کو] [ انكَ: بیشک تو] [لَمَجْنُوْنٌ: یقینا مجنون ہے]

لَوْ مَا تَاْتِيْنَا بِالْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ     Ċ۝
[لَوْ مَا: کیوں نہیں] [ تَاْتِيْنَا: تو آتا ہمارے پاس] [ بِالْمَلٰۗىِٕكَةِ: فرشتوں کے ساتھ] [ ان: اگر [ كُنْتَ: تو ہے] [ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ: سچ کہنے والوں میں سے]

مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ     Ď۝
[مَا نُنَزِّلُ: ہم نہیں اتارتے] [ الْمَلٰۗىِٕكَةَ: فرشتوں کو] [ اِلَّا: مگر] [ بِالْحَقِّ: حق کے ساتھ] [ وَمَا كَانوْٓا: اور وہ نہ ہوئے] [ اِذًا: پھر تو] [ مُّنْظَرِيْنَ: مہلت دیئے ہوئے]

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ     ۝
[انا نَحْنُ: بیشک ہم نے ہی] [ نَزَّلْنَا: اتارا] [ الذِّكْرَ: اس نصیحت کو] [وَانا: اور بیشک ہم ] [ لَهٗ: اس کی ] [ لَحٰفِظُوْنَ: یقینا حفاظت کرنے والے ہیں]

 

نوٹـ1: حفاظت قرآن کے وعدے میں حفاظت حدیث بھی داخل ہے کیونکہ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ قرآن نہ تو صرف الفاظ قرآنی کا نام ہے اور نہ ہی صرف معانی ئِ قرآنی کا، بلکہ دونوں کے مجموعے کو قرآن کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معانی اور مضامین قرآنیہ تو دوسری کتابوں میں بھی موجود ہیں اور اسلامی تصانیف میں تو عموماً مضامین قرآنیہ ہی ہوتے ہیں، مگر ان کو قرآن نہیں کہا جاتا کیونکہ الفاظ قرآن کے نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن کریم کے متفرق الفاظ اور جملے لے کر ایک مقالہ یا رسالہ لکھ دے تو اس کو بھی قرآن نہیں کہا جائے گا خواہ اس میں ایک لفظ بھی قرآن کے باہر کا نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن صرف اس مصحف ربانی کا نام ہے جس کے الفاظ اور معانی ساتھ ساتھ محفوظ ہیں۔

 جب یہ معلوم ہوا کہ قرآن صرف الفاظ قرآن کا نام نہیں بلکہ معانی بھی اس کا ایک جز ہیں، تو حفاظت قرآن کی جو ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لی ہے اس میں جس طرح الفاظ قرآنی کی حفاظت کا وعدہ ہے اسی طرح معانی اور مضامین قرآن کی حفاظت اور معنوی تحریف سے اس کو محفوظ رکھنے کا وعدہ بھی شامل ہے۔

 اور یہ ظاہر ہے کہ معانی ئِ قرآن وہی ہیں جن کی تعلیم دینے کے لئے رسول اللہ
کو مبعوث فرمایا گیا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ’’ تاکہ آپؐ واضح کر دیں لوگوں کے لئے اس کو جو نازل کیا گیا ان لوگوں کی طرف‘‘ (16:24)۔ اور یہی معنی اس آیت کے ہیں کہ ’’ اور وہ ؐ تعلیم دیتے ہیں تم لوگوں کو کتاب کی اور حکمت کی۔‘‘ (2:151)، اور اسی لئے آپؐ نے فرمایا کہ میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اور جب رسول اللہ کو معانی ئِ قرآن کے بیان اور تعلیم کے لئے بھیجا گیا تو آپؐ نے امت کو جن اقوال و افعال کے ذریعہ تعلیم دی ان ہی کا نام حدیث ہے۔ جب حدیثِ رسولؐ درحقیقت تفسیر قرآن اور معانی ئِ قرآن ہیں، جن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قرآن کے صرف الفاظ محفوظ رہ جائیں اور معانی یعنی احادیث رسولؐ ضائع ہو جائیں۔

(معارف القرآن)

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ     10؀
[وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا: اور یقینا ہم بھیج چکے ہیں (رسولوں کو)] [ مِنْ قَبْلِكَ: آپؐ سے پہلے] [ فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگوں میں]

لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَقَدْ خَلَتْ سُـنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ     13؀
[لَا يُؤْمِنُوْنَ: یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے] [بِهٖ: اس پر] [وَقَدْ: اور گزر چکی ہے] [خَلَتْ سُـنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ: پہلے لوگوں کی عادت]

وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ  14۝ۙ
[وَلَوْ: اور اگر] [ فَتَحْنَا : ہم کھول دیں] [عَلَيْهِمْ: ان پر] [ بَابًا: ایک دروازہ] [ مِّنَ السَّمَاۗءِ: آسمان میں سے] [ فَظَلُّوْا: پھر وہ لگیں] [ فِيْهِ: اس میں] [ يَعْرُجونَ: اوپر چڑھنے]

 

ع ر ج

 [عُرُوْجًا: (ن۔ ض) اوپر چڑھنا۔ زیر مطالعہ آیت۔14۔] [مِعْرَجْ: ج مَعَارِجُ۔ چڑھنے کا آلہ۔ سیڑھی۔ مِنَ اللّٰہِ ذِی الْمَعَارِجِ (اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے یعنی مالک ہے) 70:3۔] [عَرَجًا: (س) لنگڑانا۔ لنگڑا کر چلنا۔] [اَعْرَجُ: اَفْعَلُ الوان و عیوب پر صفت ہے۔ لنگڑا۔ لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ (اندھے پر کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ ہی لنگڑے پر کوئی گناہ ہے) 24:61۔]

لَقَالُوْٓا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ   15۝ۧ
[لَقَالُوْٓا: تو ضرور کہیں گے] [ انمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ سُكِّرَتْ: موند دی گئیں] [ اَبْصَارُنَا: ہماری نگاہیں] [بَلْ: بلکہ] [ نَحْنُ: ہم] [ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ: جادو کئے ہوئے لوگ ہیں]

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَيَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِيْنَ    16۝ۙ
[وَلَقَدْ جَعَلْنَا: اور بیشک ہم نے بنائی ہیں] [ فِي السَّمَاۗءِ: آسمان میں] [بُرُوْجًا: (سیاروں کی) منزلیں] [ وَّزَيَّنّٰهَا: اور ہم نے مزین کیا ان کو] [ لِلنّٰظِرِيْنَ: دیکھنے والوں کے لئے]

 

 

 

نوٹ۔1: بعض کا قول ہے کہ بروجا سے مراد سورج اور چاند کی منزلیں ہیں۔ عطیہ  (رح)  کہتے ہیں کہ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں چوکی پہرے ہیں۔ جہاں سے سرکش شیطانوں کو مار پڑتی ہے کہ وہ بلند و بالا فرشتوں کی گفتگو نہ سن سکیں۔ فرشتوں کی باتوں کو چوری چوری سننے کے لئے جنات اوپر کو چڑھتے ہیں اور وہ ایک کے اوپر ایک ہوتے ہیں، جو آگے بڑھتا ہے شعلہ اس کو جلانے کے لئے لپکتا ہے۔ سننے والے کا کام شعلہ کبھی تو اس سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے کان میں کچھ کہہ دے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جلنے سے پہلے وہ اپنے نیچے والے ساتھی کے کان میں کہہ دے۔ پھر وہ اپنے سے نیچے والے کو اور اسی طرح مسلسل پہنچا دے اور وہ بات زمین تک آ جائے اور جادوگر یا کاہن کے کان اس سے آشنا ہو جائیں۔ پھر وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں دون کی لیتا ہے (ابن کثیر (رح) )۔ جب وہ ایک آدھ سماوی بات سچی نکلتی ہے تو ان کے معتقدین اسے ان کی سچائی کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور جو خبریں جھوٹی ثابت ہوتی ہیں ان سے اغماض برتا جاتا ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

وَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ    17۝ۙ
[وَحَفِظْنٰهَا: اور ہم نے محفوظ کیا ان کو] [مِنْ كُلِ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ: ہر دھتکارے ہوئے شیطان سے]

اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِيْنٌ     18؀
[اِلَّا: سوائے اس کے کہ] [ مَنِ: جس نے] [ اسْتَرَقَ: چپکے سے چرایا] [السَّمْعَ: سننے کو] [ فَاَتْبَعَهٗ: تو پیچھے لگتا ہے اس کے] [ شِهَابٌ مُّبِيْنٌ: ایک روشن انگارہ]

 

ش ھ ب

 [شَھَبًا: (س۔ ک) سیاہی مائل سفید ہونا۔] [شَھْبًا: (ف) گرمی کا کسی کو جھلس دینا۔] [شِھَابٌ : ج شُھُبٌ۔ شعلہ۔ انگارہ۔ زیر مطالعہ آیت۔18]

وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ     19؀
[وَالْاَرْضَ: اور (ہم نے پیدا کیا) زمین کو] [ مَدَدْنٰهَا: ہم نے (ہی) پھیلایا اس کو] [وَاَلْقَيْنَا: اور ہم نے ڈالا ] [ فِيْهَا: اس میں] [ رَوَاسِيَ: پہاڑوں کو] [ وَانۢبَتْنَا: اور ہم نے اُگایا] [ فِيْهَا: اس میں] [ مِنْ كُلِ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ: ہر ایک موزوں چیز میں سے]

 

ترکیب: (آیت۔19) مَدَدْنَا کا مفعول ھَا کی ضمیر ہے اس لئے اَلْاَرْضَ کو اس کا مفعول مقدم ماننے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اَلْاَرْضَ سے پہلے ایک فعل محذوف مانا جاتا ہے۔

وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِيْنَ     20؀
[وَجَعَلْنَا: اور ہم نے بنایا] [ لَكُمْ : تمھارے لئے] [فِيْهَا: اس میں] [ مَعَايِشَ: زندگی کے سامان] [ وَمَنْ: اور اس کے لئے] [ لَّسْتم: تم لوگ نہیں ہو] [ لَهٗ: جس کو ] [ بِرٰزِقِيْنَ: رزق دینے والے]

 

(آیت۔20)۔ وَمَنْ دراصل لِمَنْ ہے اور وجعلنا سے متعلق ہے۔ ترجمہ اسی لحاظ سے ہو گا۔

وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُهٗ  ۡ وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ     21؀
[وَ ان : اور نہیں ہے] [ مِّنْ شَيْءٍ: کوئی بھی چیز] [ اِلَّا: مگر] [ عِنْدَنَا: ہمارے پاس] [ خَزَاۗىِٕنُهٗ : اس کے خزانے ہیں] [وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ: اور ہم نہیں اتارتے اس کو (کسی چیز کو)] [ اِلَّا: مگر] [ بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ: ایک معلوم اندازے کے ساتھ]

 

(آیت۔21) ننزلہ کی ضمیر مفعولی خزاگن کے لئے نہیں ہے بلکہ من شیء کے لئے ہے۔

وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ  ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ     22؀
[وَاَرْسَلْنَا: اور ہم نے بھیجا] [ الرِّيٰحَ : ہوائوں کو] [لَوَاقِحَ: باردار کرنے والی ہوتے ہوئے (بادلوں کو)] [ فَانزَلْنَا: پھر ہم نے اتارا ] [ مِنَ السَّمَاۗءِ: آسمان سے] [ مَاۗءً: کچھ پانی] [فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ: پھر ہم نے پلایا تم لوگوں کو وہ (پانی)] [ وَمَآ انتم: اور تم لوگ نہیں ہو] [ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ: اس کے دوخانے ہیں خزانچی]

 

خ ز ن

 [خَزْنًا: (ن) کسی چیز کا ذخیرہ کرنا۔ جمع کرنا۔] [خَزِیْنَۃٌ: ج خَزَاگنُ۔ ذخیرہ کرنے کی جگہ۔ خزانہ زیر مطالعہ آیت۔21۔] [خَازِنٌ: ج خَزَنَۃٌ۔ خزانہ کا محاظ اور ذمہ دار۔ داروغہ۔ خزانچی زیر مطالعہ آیت۔22۔ وَقَالَ الَّذِیْنَ فِی النَّارِ لِخَزَنَۃِ جَھَنَّمَ (اور کہا انھوں نے جو آگ میں ہیں جہنم کے داروغوں سے) 40:49۔]

 

 ل ق ح

 [لَقْحًا: (ف) نر کھجور کا شگوفہ مادہ کھجور میں ڈالنا۔ حاملہ کرنا۔ باردار کرنا۔] [لَاقِحٌ: ج لَوَاقِحُ باردار کرنے والا یا کرنے والی۔ یہ مذکر مؤنث دونوں کے لئے آتا ہے۔ زیر مطالعہ آیت۔22۔]

 

(آیت۔22) لواقح اسم الفاعل ہے۔ اس کا مفعول محذوف ہے جو سحابا ہے کیونکہ آیت کا اگلا جملہ اس کی تائید کر رہا ہے۔

وَاِنَّا لَنَحْنُ نُـحْيٖ وَنُمِيْتُ وَنَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ    23؀
[وَانا لَنَحْنُ: اور بیشک یقینا ہم ہی] [ نُـحْيٖ: زندگی دیتے ہیں] [ وَنُمِيْتُ: اور ہم ہی موت دیتے ہیں] [ وَنَحْنُ: اور ہم ہی] [ الْوٰرِثُوْنَ : حقیقی وارث ہیں]

وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِيْنَ     24؀
[وَلَقَدْ عَلِمْنَا: اور یقینا ہم جان چکے ہیں] [الْمُسْتَقْدِمِيْنَ: آگے بڑھنے والوں کو] [مِنْكُمْ : تم میں سے] [وَلَقَدْ عَلِمْنَا: اور یقینا ہم جان چکے ہیں] [ الْمُسْتَاْخِرِيْنَ: پیچھے رہنے والوں کو]

 

 

نوٹ۔1: آیت نمبر 24 میں مستقدمین اور مستاخرین سے کون لوگ مراد ہیں، اس کے متعلق مفسرین کی آراء مختلف ہیں۔ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ مستقدمین وہ لوگ ہیں جو نماز کی صفوں میں، جہاد کی صفوں میں اور دوسرے نیک کاموں میں آگے رہنے والے ہیں اور مستاخرین وہ لوگ ہیں جو ان چیزوں میں پچھلی صفوں میں رہنے والے اور دیر کرنے والے ہیں۔ قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ اسی آیت سے نماز میں صف اوّل اور شروع وقت میں نماز ادا کرنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ
نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ اذان کہنے اور نماز کی صف اوّل میں کھڑے ہونے کی کتنی بڑی فضیلت ہے تو تمام آدمی اس کوشش میں لگ جاتے کہ پہلی ہی صف میں کھڑے ہوں اور سب کے لیے جگہ نہ ہوتی تو قرعہ اندازی کرنی پڑتی۔ (معارف القرآن)

وَاِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ ۭ اِنَّهٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ      25؀ۧ
[وَان : اور بیشک] [ رَبَّكَ: آپؐ کا رب] [ هُوَ: وہ ہی] [ يَحْشُرُهُمْ : جمع کرے گا ان کو] [انهٗ : یقینا وہ ہی] [حَكِيْمٌ: حکمت والاہے] [عَلِيْمٌ : علم والا ہے]

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ     26؀ۚ
[وَلَقَدْ خَلَقْنَا: اور یقینا ہم نے پیدا کیا ہے] [ الْانسَان: انسان کو] [مِنْ صَلْصَالٍ : ایسی کھنکتی مٹی سے جو] [مِّنْ حَمَا مَّسْنُوْنٍ: گیلے گارے سے تھی]

وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ   27؀
[وَالْجَاۗنَّ: اور جن کو!] [ خَلَقْنٰهُ: ہم نے پیدا کیا اس کو] [مِنْ قَبْلُ: اس سے پہلے] [مِنْ نَارِ السَّمُوْمِ: لُو کی آگ سے]

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ     28؀
[وَاِذْ : اور جب] [قَالَ: کہا] [ رَبُّكَ: آپؐ کے رب نے] [ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ: فرشتوں سے] [انى: کہ میں] [خَالِقٌۢ: تخلیق کرنے والا ہوں] [ بَشَرًا: ایک بشر] [مِّنْ صَلْصَالٍ: ایسی کھنکتی مٹی سے جو] [ مِّنْ حَمَا مَّسْنُوْنٍ: گیلے گارے سے ہے]

فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ    29؀
[فَاِذَا: پھر جب] [ سَوَّيْتُهٗ: میں نوک پلک درست کر لوں اس کی] [ وَنَفَخْتُ: اور میں پھونک دوں] [ فِيْهِ: اس میں] [ مِنْ رُّوْحِيْ: اپنی روح میں سے] [ فَقَعُوْا: تو تم لوگ گر پڑنا] [ لَهٗ: اس کے لئے] [ سٰجِدِيْنَ: سجدہ کرنے والے ہوتے ہوئے]

فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ    30؀ۙ
[فَسَجَدَ: پھر سجدہ کیا] [ الْمَلٰۗىِٕكَةُ: فرشتوں نے] [ كُلُّهُمْ: ان کے ہر ایک نے] [ اَجْمَعُوْنَ: سب کے سب نے]

اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ اَبٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ      31؀
[اِلَّآ: سوائے] [اِبْلِيْسَ: ابلیس کے] [اَبٰٓى: اس نے انکار کیا] [ان: کہ] [يَكُوْنَ: وہ ہو] [مَعَ السّٰجِدِيْنَ: سجدہ کرنے والوں کے ساتھ]

قَالَ يٰٓـاِبْلِيْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ    32؀
[قَالَ: کہا (اللہ تعالیٰ نے)] [ يٰٓـاِبْلِيْسُ: اے ابلیس] [ مَا لَكَ: تجھے کہا ہے] [اَلَّا تَكُوْنَ: کہ تو نہ ہوا] [ مَعَ السّٰجِدِيْنَ: سجدہ کرنے والوں کے ساتھ]

قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 33  ؀
[قَالَ: اس نے کہا] [لَمْ اَكُنْ: میں نہیں تھا] [ لِاَسْجُدَ: کہ میں سجدہ کروں] [لِبَشَرٍ: کہ میں سجدہ کروں] [خَلَقْتَهٗ: تو نے تخلیق کیا جس کو] [مِنْ صَلْصَالٍ: ایسی کھنکتی مٹی سے جو] [ مِّنْ حَمَا مَّسْنُوْنٍ: گیلے گارے سے ہے]

 

(ص ل ل)

 [صلیلا: (ص) (1) کسی چیز کا آواز کرنا۔ (2) کسی چیز کا سڑنا۔] [صلال: فعال کے وزن پر صفت ہے (قرآن مجید میں اس کے ایک لام کو ص میں بدل کر صلصال لکھا گیا ہے)۔ سڑی ہوئی خشک مٹی جو بجتی ہے یعنی آواز کرتی ہے۔ زیر مطالعہ آیت۔26۔]

 

(ح م ع)

 [حما: (ف): کنویں سے کیچڑ نکالنا۔ ] [حما: اسم ذات بھی ہے۔ کیچڑ۔ گارا۔ زیر مطالعہ آیت۔26۔] [حمئۃ: دلدل۔ حتی اذا بلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حملۃ (یہاں تک کہ جب وہ پہنچے سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر تو انھوں نے پایا کہ وہ غروب ہوتا ہے ایک دلدل والے چشمے میں) 18:86۔]

 

نوٹ۔1: یہاں قرآن اس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا، جیسا کہ نئے دور کے ڈارون سے متاثر کچھ مفسرین قرآن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ اس کی تخلیق کی ابتدا براہ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے جن کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالِ مِّنْ حَمَاِ مَّسْنُوْنِ کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی گئی۔ (فتہیم القرآن)

قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌ      34؀ۙ
[قَالَ: کیا (اللہ تعالیٰ نے)] [فَاخْرُجْ: پھر تونکل] [مِنْهَا: اس (جگہ) سے] [فَانكَ: پس تو بیشک] [رَجِيْمٌ: دھتکارا ہوا ہے]

وَّاِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِ    35؀
[وَّان: اور بیشک] [عَلَيْكَ: تجھ پر] [ اللَّعْنَةَ: لعنت ہے] [ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِ: بدلے کے دن تک]

 

نوٹ۔1: یہاں قرآن اس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا، جیسا کہ نئے دور کے ڈارون سے متاثر کچھ مفسرین قرآن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ اس کی تخلیق کی ابتدا براہ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے جن کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالِ مِّنْ حَمَاِ مَّسْنُوْنِ کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی گئی۔ (فہیم القرآن)

قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِيْٓ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ    36؀
[قَالَ: (ابلیس نے) کہا] [ رَبِ: اے میرے رب] [ فَانظِرْنِيْٓ: پس تو مہلت دے مجھ کو] [ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ: لوگوں کو اٹھائے جانے کے دن تک]

قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ    37؀ۙ
[قَالَ: (اللہ نے) کہا] [ فَانكَ: پس بیشک تو] [ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ: مہلت دیئے ہوئوں میں سے ہے]

اِلٰى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ   38؀
[اِلٰى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ : اس معلوم وقت کے دن تک]

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وَلَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ     39؀ۙ
[قَالَ: (ابلیس نے) کہا] [ رَبِ: اے میرے رب] [ بِمَآ: بسبب اس کے جو] [اَغْوَيْتَنِيْ: تو نے گمراہ کیا مجھ کو] [لَاُزَيِّنَنَّ: میں لازماً سجائوں گا] [ لَهُمْ: ان کے لئے] [فِي الْاَرْضِ: زمین میں] [وَلَاُغْوِيَنَّهُمْ: اور میں لازماً گمراہ کروں گا] [اَجْمَعِيْنَ: سب کے سب کو]

 

نوٹ۔1: شیطان نے اپنے نوٹس (آیت۔39) سے ان بندوں کو مستثنیٰ کیا جنھیں اللہ اپنے لئے خالص فرما لے (آیت۔40) اس سے یہ غلط فہمی مترشح ہو رہی تھی کہ شاید اللہ تعالیٰ بغیر کسی معقول وجہ کے جس کو چاہے گا خالص کرے گا اور وہ شیطان کی دستِ رست سے بچ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی کہ جو خود بہکا ہوا ہو گا وہی تیری پیروی کرے گا (آیت۔41)۔ بالفاظ دیگر جو بہکا ہوا نہ ہو گا وہ تیری پیروی نہ کرے گا اور وہ ہی ہمارا وہ مخصوص بندہ ہو گا جسے ہم خالص اپنا کرلیں گے۔ تجھے صرف فریب دینے کا اختیار دیا جا رہا ہے، ان پر اقتدار نہیں دیا جا رہا کہ تو ہاتھ پکڑ کر انہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے۔ (تفہیم القرآن)

 ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص اور منتخب بندوں پر شیطانی فریب کا اثر نہیں ہوتا، مگر اسی واقعہ میں آدمؑ اور بی بی حوا پر اس کا فریب چل گیا۔ اسی طرح صحابہ کرام  (رض)  کے بارے میں آیت نمبر 3:155 سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر بھی شیطان کا فریب ایک موقع پر چل گیا۔ اس لئے آیت مذکورہ میں اللہ کے مخصوص بندوں پر شیطان کا تسلط نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے قلوب و عقول پر شیطان کا ایسا تسلط نہیں ہوتا کہ وہ اپنی غلطی پر کسی وقت متنبہ ہی نہ ہوں جس کی وجہ سے ان کو توبہ نصیب نہ ہو۔ اور مذکورہ واقعات اس کے منافی نہیں کیونکہ آدمؑ اور بی بی حوا نے توبہ کی اور یہ توبہ قبول ہوئی۔ اسی طرح صحابۂ کرام (رض)  نے بھی توبہ کی اور انہیں معاف کردیا گیا۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔2: جزء مقسوم کے الفاظ سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جہنم کے مختلف دروازوں سے داخل ہونے والوں کے درمیان ایک خاص نوعیت کی درجہ بندی ہو گی، اس درجہ بندی کی بنیاد کس چیز پر ہو گی، اس باب میں کوئی قطعی بات کہنا، جبکہ خود قرآن میں اس کی کوئی تصریح نہیں ہے، مشکل ہے۔ لیکن ذہن بار بار اس طرف جاتا ہے کہ قرآن نے جن چیزوں کا اصولی مہلکات کی حیثیت سے ذکر کیا ہے، وہ اگر شمار کی جائیں تو وہ سات عنوانات کے تحت آتی ہیں اور وہ یہ ہیں: (1) شرک (2) قطع رحم (3) قتل (4) زنا (5) جھوٹی شہادت (6) کمزوروں پر ظلم (7) بغی (یعنی بغاوت) (تدبر قرآن)

اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ     40؀
[اِلَّا: سوائے] [عِبَادَكَ: تیرے بندوں کے] [ مِنْهُمُ: ان میں سے] [ الْمُخْلَصِيْنَ: (جو) ملاوٹ پاک کئے ہوئے ہیں]

قَالَ ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَــقِيْمٌ      41؀
[قَالَ: (اللہ نے) کہا] [ ھٰذَا: یہ] [ صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَــقِيْمٌ: مجھ پر (یعنی مجھ تک) ایک سیدھا راستہ ہے]

اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ    42؀
[ان: بیشک] [عِبَادِيْ: (یہ) میرے بندے ہیں] [لَيْسَ: نہیں ہے] [ لَكَ: تیرے لئے] [ عَلَيْهِمْ: ان پر] [ سُلْطٰنٌ: کوئی اختیار] [ اِلَّا: سوائے ] [ مَنِ: اس کے جس نے] [ اتَّبَعَكَ: پیروی کی تیری] [مِنَ الْغٰوِيْنَ: گمراہ ہونے والوں میں سے]

وَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِيْنَ    43؀ڐ
[وَان: اور بیشک] [جَهَنَّمَ: جہنم] [لَمَوْعِدُهُمْ: یقینا ان کے وعدے کی جگہ ہے] [اَجْمَعِيْنَ: سب کے سب کی]

لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ  ۭ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ  44؀ۧ
[لَهَا: اس کے لئے] [ سَبْعَةُ اَبْوَابٍ : سات دروازے ہیں] [ لِكُلِ بَابٍ: ہر دروازے کے لئے] [ مِّنْهُمْ: ان (گمراہوں) میں سے] [ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ: ایک تقسیم کیا ہوا حصہ ہے]

اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ    45؀ۭ
[ان : یقینا] [ الْمُتَّقِيْنَ: تقوٰی کرنے والے] [ فِيْ جَنّٰتٍ: باغوں میں] [ وَّ عُيُوْنٍ: اور چشموں میں ہونگے]

 

ترکیب: ان آیات میں قیامت کے واقعات کا ذکر ہے اس لئے جملہ اسمیہ یعنی حال اور فعل ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا۔

اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِيْنَ    46؀
[اُدْخُلُوْهَا: (کہا جائے گا) تم لوگ داخل ہو جائو ان میں] [ بِسَلٰمٍ: سلامتی کے ساتھ] [ اٰمِنِيْنَ: امن میں ہونے والے ہوتے ہوئے]

 

(آیت۔46) اٰمِنِیْنَ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔

وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰي سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ    47؀
[وَنَزَعْنَا: اور ہم کھینچ نکالیں گے] [ مَا: اس کو جو] [ فِيْ صُدُوْرِهِمْ: ان کے سینوں میں ہے] [ مِّنْ غِلٍّ: کوئی بھی کدورت] [ اِخْوَانا: (وہ بیٹھیں گے) بھائی ہوتے ہوئے] [ عَلٰي سُرُرٍ: تختوں پر] [ مُّتَقٰبِلِيْنَ: آمنے سامنے]

 

 (آیت۔47) اِخْوَانًا سے پہلے کوئی فعل محذوف مانا جائے گا۔ اِخْوَانًا اس کا حال ہے۔ مُتَقٰبِلِیْنَ بھی حال ہے۔

لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ    48؀
[لَا يَمَسُّهُمْ: نہیں چھوئے گی ان کو] [ فِيْهَا: اس میں] [ نَصَبٌ: کوئی مشقت] [ وَّمَا هُمْ: اور وہ نہیں ہونگے] [ مِّنْهَا: اس سے] [ بِمُخْرَجِيْنَ: نکالے جانے والے]

نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ     49؀ۙ
[نَبِئْ: آپؐ خبر دیں] [ عِبَادِيْٓ: میرے بندوں کو] [ انىٓ: کہ میں] [ انا الْغَفُوْرُ: ہی بےانتہا بخشنے والا ہوں] [ الرَّحِيْمُ: ہر حال میں رحم کرنے والا ہوں]

 

 

 (آیت۔49) اَنَا الْغَفُوْرُ میں اَنَا ضمیر فاصل ہے۔

وَاَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ     50؀
[وَان: اور یہ کہ] [ عَذَابِيْ: میرا عذاب] [ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ: ہی دردناک عذاب ہے]

 

 (آیت۔50) ھُوَ الْعَذَابُ میں بھی ھُوَ ضمیر فاصل ہے۔

وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ      51۝ۘ
[وَنَبِئْهُمْ: اور آپؐ خبر دیں ان کو] [ عَنْ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ: ابراہیم ؑ کے مہمانوں کے بارے میں]

اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا  ۭ قَالَ اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ     52؀
[اِذْ: جب] [ دَخَلُوْا: وہ داخل ہوئے] [ عَلَيْهِ: انؑ پر] [ فَقَالُوْا: پھر انھوں نے کہا] [ سَلٰمًا ۭ: سلام] [ قَالَ: (ابراہیمؑ نے) کہا] [ انا: کہ ہم] [ مِنْكُمْ: تم لوگوں سے] [ وَجِلُوْنَ: خوف زدہ ہیں]

قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ     53؀
[قَالُوْا: ان لوگوں نے کہا] [ لَا تَوْجَلْ: آپؑ مت ڈریں] [ انا: بیشک ہم] [ نُبَشِّرُكَ: خوشخبری دیتے ہیں آپؑ کو] [ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ: ایک صاحب علم لڑکے کی]

قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِيْ عَلٰٓي اَنْ مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ     54؀
[قَالَ: (ابراہیم ؑ نے) کہا] [ اَ: کیا] [ بَشَّرْتموْنِيْ: تم لوگوں نے خوشخبری دی مجھ کو] [ عَلٰٓي ان: اس کے باوجود کہ] [ مَّسَّنِيَ: چھوا مجھ کو] [ الْكِبَرُ: بڑھاپے نے] [ فَبِمَ: تو کس چیز کی] [ تُبَشِّرُوْنَ: تم لوگ خوشخبری دیتے ہو]

قَالُوْا بَشَّرْنٰكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِيْنَ  55؀
[قَالُوْا: انھوں نے کہا] [ بَشَّرْنٰكَ: ہم نے خوشخبری دی آپؑ کو] [ بِالْحَقِّ: حق کے ساتھ] [ فَلَا تَكُنْ: تو آپؑ مت ہوں] [ مِّنَ الْقٰنِطِيْنَ: مایوس ہونے والوں میں سے]

 

 

 [ قَنُوْطٌ فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بےانتہا مایوس ہونے والا۔ انتہائی مایوس۔ وَاِنْ مَّسُّہُ الشَّرُّ فَیَئُوْسٌ قَنُوْطٌ (اور اگر چُھوئے اس کو برائی تو انتہائی ناامید انتہائی مایوس ہے) 41:49]

قَالَ وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ     56؀
[قَالَ: (ابراہیم ؑ نے) کہا] [ وَمَنْ: اور کون] [ يَّقْنَطُ: مایوس ہوتاہے] [ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِهٖٓ: اپنے رب کی رحمت سے] [ اِلَّا: سوائے ] [ الضَّاۗلُّوْنَ: گمراہ ہونے والوں کے]

 

 ق ن ط

 [قَنَطًا: (ض۔ ک) مایوس ہونا۔ زیر مطالعہ آیت۔56]

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ     57؀
[قَالَ: (ابراہیم ؑ نے) کہا] [ فَمَا: تو کیا] [ خَطْبُكُمْ: تم لوگوں کا مدعا ہے] [ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ: اسے بھیجے ہوئے لوگو (یعنی فرشتوں)]

قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِيْنَ    58؀ۙ
[قَالُوْٓا: انھوں نے کہا] [ انآ: کہ ہم کو] [ اُرْسِلْنَآ: بھیجا گیا ہے] [ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِيْنَ: ایک مجرم قوم کی طرف]

اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ ۭ اِنَّا لَمُنَجُّوْهُمْ اَجْمَعِيْنَ     59؀ۙ
[اِلَّآ: سوائے ] [ اٰلَ لُوْطٍ ۭ : لوط ؑ کے پیروکاروں کے] [انا: بیشک ہم] [ لَمُنَجوهُمْ: ضرور نجات دینے والے ہیں ان کو] [ اَجْمَعِيْنَ: سب کے سب کو]

اِلَّا امْرَاَتَهٗ قَدَّرْنَآ  ۙاِنَّهَا لَمِنَ الْغٰبِرِيْنَ     60۝ۧ
[اِلَّا: سوائے ] [ امْرَاَتَهٗ: انؑ کی عورت کے] [ قَدَّرْنَآ ۙ: ہم نے مقرر کیا] [انهَا: بیشک وہ] [ لَمِنَ الْغٰبِرِيْنَ: لازماً پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے]

فَلَمَّا جَاۗءَ اٰلَ لُوْطِۨ الْمُرْسَلُوْنَ     61۝ۙ
[فَلَمَا: پھر جب] [ جَاۗءَ: آئے] [ اٰلَ لُوْطِۨ: آلِ لوظؑ کے پاس] [ الْمُرْسَلُوْنَ: بھیجے ہوئے (فرشتے)]

 

نوٹ۔1: فرشتوں کا یہ کہنا کہ ہم اس چیز کے ساتھ آئے ہیں جس میں یہ شک کرتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم وہ عذاب لے کر آئے ہیں جس سے آپؑ اپنی قوم کو ڈراتے رہے ہیں لیکن وہ برابر شک میں ہی پڑے رہے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: حضرت لوط ؑ کو اپنے گھر والوں کے پیچھے چلنے کی ہدایت اس غرض سے کی گئی تھی کہ ان میں سے کوئی ٹھہرنے نہ پائے۔ اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے کی ہدایت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پلٹ کر دیکھتے ہی تم پتھر کے ہو جائو گے، جیسا کہ بائبل میں بیان ہوا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیچھے کی آوازیں اور شوروغل سن کر تماشا دیکھنے کے لئے نہ ٹھہر جانا۔ یہ نہ تماشا دیکھنے کا وقت ہے اور نہ مجرم قوم کی ہلاکت پر آنسو بہانے کا۔ ایک لمحہ بھی اگر تم نے معذب قوم کے علاقے میں دم لے لیا تو بعید نہیں کہ تمھیں بھی اس ہلاکت کی بارش سے کوئی گزند پہنچ جائے (تفہیم القرآن)


 روایات میں آتا ہے کہ جب کبھی رسول اللہ
کو معذب قوموں کی بستیوں پر سے گزرنے کا اتفاق پیش آتا تو آپؐ وہاں سے تیزی سے گزر جاتے اور دوسروں کو بھی اسی کی ہدایت فرماتے۔ (تدبر قرآن)

قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ     62؀
[قَالَ: تو (لوطؑ نے) کہا] [ انكُمْ: بیشک تم لوگ] [ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ: ایک اجنبی قوم ہو]

قَالُوْا بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ      63؀
[قَالُوْا: انھوں نے کہا] [ بَلْ؛بلکہ] [ جِئْنٰكَ: ہم آئے آپؑ کے پاس] [ بِمَا؛اس کے ساتھ] [ كَانوْا فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ : جس میں یہ شک کرتے تھے]

وَاَتَيْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ     64؀
[وَاَتَيْنٰكَ: اور ہم پہنچے آپؑ کے پاس] [ بِالْحَقِّ: حق کے ساتھ] [ وَانا: اور بیشک ہم] [ لَصٰدِقُوْنَ : یقینا سچ کہنے والے ہیں]

فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّامْضُوْا حَيْثُ تُؤْمَرُوْنَ    65؀
[فَاَسْرِ: تو آپ ؑ لے کر نکلیں] [ بِاَهْلِكَ: اپنے گھر والوں کو] [ بِقِطْعٍ: ایک حصہ میں] [ مِّنَ الَّيْلِ: رات میں سے] [ وَاتَّبِعْ: اور آپؑ پیچھے چلیں] [ اَدْبَارَهُمْ: ان کی پیٹھوں کے] [ وَلَا يَلْتَفِتْ: اور چاہئے کہ مڑ کر نہ دیکھے] [ مِنْكُمْ: تم میں سے] [ اَحَدٌ: کوئی ایک بھی] [ وَّامْضُوْا: اور تم لوگ گزر جائو] [ حَيْثُ: جہاں سے] [ تُؤْمَرُوْنَ: تمھیں حکم دیا جاتا ہے]

وَقَضَيْنَآ اِلَيْهِ ذٰلِكَ الْاَمْرَ اَنَّ دَابِرَ هٰٓؤُلَاۗءِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِيْنَ     66؀
[وَقَضَيْنَآ: اور ہم نے فیصلہ کیا] [ اِلَيْهِ: اس کی طرف] [ ذٰلِكَ: الْاَمْرَاس بات کا] [ ان: کہ] [ دَابِرَ هٰٓؤُلَاۗءِ: ان لوگوں کی جڑ] [ مَقْطُوْعٌ: کاٹی جانے والی ہے] [ مُّصْبِحِيْنَ: صبح کرنے والے ہوتے ہوئے]

وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ يَسْـتَبْشِرُوْنَ    67؀
[وَجَاۗءَ: اور آئے] [ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ: شہر کے لوگ] [ يَسْـتَبْشِرُوْنَ: خوشی مناتے ہوئے]

قَالَ اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ ضَيْفِيْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ     68؀ۙ
[قَالَ: (لوطؑ نے) کہا] [ ان : بیشک] [ هٰٓؤُلَاۗءِ: یہ لوگ] [ ضَيْفِيْ: میرے مہمان ہیں] [ فَلَا تَفْضَحُوْنِ: تو تم لوگ خوارمت کرو مجھ کو]

 

ف ض ح

 [فَضْحًا: (ف) کسی کو ذلیل و خوار کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔68]

وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخْــزُوْنِ     69؀
[وَاتَّقُوا: اور ڈرو] [ اللّٰهَ: اللہ سے] [ وَلَا تُخْــزُوْنِ: اور رسوا مت کرو مجھ کو]

قَالُوْٓا اَوَلَمْ نَــنْهَكَ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ     70؀
[قَالُوْٓا: ان لوگوں نے کہا] [ اَوَ: تو کیا] [لَمْ نَــنْهَكَ: ہم نے منع نہیں کیا تھا آپؑ کو] [ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ: تمام جہان والوں (کی حمایت) سے]

قَالَ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنٰتِيْٓ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ     71؀ۭ
[قَالَ: (لوطؑ نے) کہا] [ هٰٓؤُلَاۗءِ: یہ] [ بَنٰتِيْٓ: میری بیٹیاں ہیں] [ ان : اگر] [ كُنْتم: تم لوگ ہو] [ فٰعِلِيْنَ: کام کرنے والے]

لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ      72؀
[لَعَمْرُكَ: آپؐ کی عمر کی قسم] [ انهُمْ: بیشک یہ لوگ] [ لَفِيْ سَكْرَتِهِمْ: یقینا اپنی مدہوشی میں] [ يَعْمَهُوْنَ: بھٹکتے ہیں]

فَاَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِيْنَ    73؀ۙ
[فَاَخَذَتْهُمُ: پھر پکڑا ان کو] [ الصَّيْحَةُ: چنگھاڑنے] [ مُشْرِقِيْنَ: اشراق ہوتے ہوئے]

فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّيْلٍ     74؀ۭ
[فَجَعَلْنَا: پھر کردیا ہم نے] [ عَالِيَهَا: اس کے بلند ہونے والے کو] [ سَافِلَهَا: اس کا نیچے ہونے والا] [ وَاَمْطَرْنَا: اور برسائے ہم نے] [ عَلَيْهِمْ: ان پر] [ حِجَارَةً: کچھ پتھر] [ مِّنْ سِجِّيْلٍ: سخت مٹی میں سے]

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ     75؀
[ان: بیشک] [ فِيْ ذٰلِكَ: اس میں] [ لَاٰيٰتٍ: یقینا نشانیاں ہیں] [ لِلْمُتَوَسِّمِيْنَ: صاحب فراست لوگوں کے لئے]

 

و س م

 [وَسْمًا: (ض) کسی چیز پر نشان لگانا۔ داغ دینا۔ سَنَسِمُہٗ عَلَی الْخُرْطُوْمِ (ہم داغ دیں گے اس کو ناک پر) 68:16]

 [تَوَسُّمًا: (تفعل) نشان اور علامات دیکھ کر حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرنا۔ صاحب فراست ہونا۔ مُتَوَسِّمٌ اسم الفاعل ہے۔ صاحب فراست۔ زیر مطالعہ آیت۔75۔ ]

وَاِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ     76؀
[وَانهَا: اور بیشک وہ (بستی)] [ لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ: یقینا ایک سیدھے راستے کے ساتھ ہے]

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّلْمُؤْمِنِيْنَ     77؀ۭ
[ان : بیشک] [ فِيْ ذٰلِكَ: اس میں] [ لَاٰيَةً: یقیناایک نشانی] [ لِلْمُؤْمِنِيْنَ: ایمان لانے والوں کے لئے]

وَاِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ لَظٰلِمِيْنَ     78؀ۙ
[وَان : اور بیشک] [ كَان: تھے] [ اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ: گھنے درخت والے] [ لَظٰلِمِيْنَ: یقینا ظلم کرنے والے]

 

ع ی ک

 [اَیْکًا: (ک) درختوں کا گھنا اور گنجان ہونا۔]

 [ اَیْکَۃٌ صفت ہے۔ گھنا درخت۔ زیر مطالعہ آیت۔78۔ ]

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ۘ وَاِنَّهُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِيْنٍ     79؀ۉ
[فَانتَقَمْنَا: پھر انتقام لیا ہم نے] [ مِنْهُمْ ۘ: ان سے] [ وَانهُمَا: اور بیشک وہ دونوں (بستیاں)] [ لَبِاِمَامٍ مُّبِيْنٍ: ایک واضح راستہ کے ساتھ ہیں]

وَلَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ الْمُرْسَلِيْنَ    80؀ۙ
[وَلَقَدْ كَذَّبَ: اور یقینا جھٹلا چکے ہیں] [ اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ: حجر والے] [ الْمُرْسَلِيْنَ: رسولوں کو]

 

نوٹ۔2: حجر قوم ثمود کا مرکزی شہر تھا۔ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ مقام شاہ راہ عام پر ملتا ہے اور قافلے اس وادی میں سے ہو کر گزرتے ہیں مگر نبی
کی ہدایت کے مطابق کوئی یہاں قیام نہیں کرتا۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں پہنچا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ یہاں سرخ رنگ کے پہاڑوں میں قوم ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انھوں نے چٹانوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں۔ ان کے نقش ونگار اس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج بنائے گئے ہوں ۔ ان مکانات میں اب بھی سڑی گلی ہوئی انسانی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں۔ (تفہیم القرآن)

وَاٰتَيْنٰهُمْ اٰيٰتِنَا فَكَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِيْنَ    81؀ۙ
[وَاٰتَيْنٰهُمْ: اور ہم نے دی تھیں ان کو] [ اٰيٰتِنَا: اپنی نشانیاں] [ فَكَانوْا: تو وہ لوگ تھے] [ عَنْهَا: ان سے] [ مُعْرِضِيْنَ: اعراض کرنے والے]

وَكَانُوْا يَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا اٰمِنِيْنَ     82؀
[وَكَانوْا يَنْحِتُوْنَ: اور وہ تراشتے تھے] [ مِنَ الْجبالِ: پہاڑوں سے] [ بُيُوْتًا: کچھ گھر] [ اٰمِنِيْنَ: امن میں ہونے والے ہوتے ہوئے]

فَاَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِحِيْنَ    83؀ۙ
[فَاَخَذَتْهُمُ: پھر پکڑا ان کو] [ الصَّيْحَةُ: چنگھاڑنے] [ مُصْبِحِيْنَ: صبح کرنے والے ہوتے ہوئے]

فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ    84؀ۭ
[فَمَآ اَغْنٰى: پھر کام نہ آیا] [ عَنْهُمْ: ان کے ] [ مَا: وہ جو] [ كَانوْا يَكْسِبُوْنَ: وہ لوگ کماتے تھے]

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ  ۭ وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ     85؀
[وَمَا خَلَقْنَا: اور نہیں پیدا کیا ہم نے] [ السَّمٰوٰتِ: آسمانوں کو] [ وَالْاَرْضَ: اور زمین کو] [ وَمَا: اور اس کو جو] [ بَيْنَهُمَآ: ان دونوں کے درمیان ہے] [ اِلَّا: مگر] [ بِالْحَقِّ ۭ : حق کے ساتھ] [وَان: اور یقینا] [ السَّاعَةَ: وہ گھڑی (یعنی قیامت)] [ لَاٰتِيَةٌ: ضرور آنے والی ہے] [ فَاصْفَحِ: تو آپؐ نظر انداز کریں] [ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ: خوبصورت نظر انداز کرنا]

اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ     86؀
[ان رَبَّكَ: بیشک آپؐ کا رب] [ هُوَ الْخَلّٰقُ: ہی خوب تخلیق کرنے والا ہے] [ الْعَلِيْمُ: جاننے والا ہے]

وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ     87؀
[وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ: اور یقینا ہم نے دی ہیں آپؐ کو] [ سَبْعًا: سات (آیتیں) ] [ مِّنَ الْمَثَانيْ: دہرائی جانے والیوں میں سے] [ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ: اور عظیم قرآن ]

 

نوٹ۔3: سبع من المثانی سے کیا مراد ہے، اس ضمن میں مختلف اقوال ملتے ہیں لیکن سلف کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے سورۃ الفاتحہ ہی مراد ہے اور امام بخاری (رح)  نے دو مرفوع روایتیں بھی اس امر کے ثبوت میں پیش کی ہیں کہ خود نبی
نے سبع من المثانی سے مراد سورۃ الفاتحہ بتائی ہے۔ (تفہیم القرآن)

لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ    88؀
[لَا تمدَّنَّ: آپؐ ہرگز دراز مت کریں] [ عَيْنَيْكَ: اپنی دونوں آنکھوں کو] [ اِلٰى مَا: اس کی طرف] [ مَتَّعْنَا: ہم نے برتنے کو دیا] [ بِهٖٓ: جو] [ اَزْوَاجًا: کچھ جوڑوں کو] [ مِّنْهُمْ: ان میں سے] [ وَلَا تَحْزَنْ : اور آپؐ غم مت کھائیں] [عَلَيْهِمْ: ان (کافروں) پر] [ وَاخْفِضْ: اور آپؐ نیچا رکھیں] [ جَنَاحَكَ: اپنے پہلو کو] [ لِلْمُؤْمِنِيْنَ: ایمان لانے والوں کے لئے]

 

خ ف ض

 [خَفْضًا: (ض) کسی چیز کو پست کرنا۔]

 [ اِخْفِضْ فعل امر ہے۔ تو پست کر۔ نیچا رکھ۔ زیر مطالعہ آیت۔88۔ ]

 [خَافِضٌ اسم الفائل ہے۔ پست کرنے والا۔ خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ (پست کرنے والی بلند کرنے والی) 56:3۔]

 

نوٹ۔1: المنجد میں مادہ ’’ خ ف ض‘‘ کے افعال کے معانی باب سمع اور باب کرم کے تحت دیئے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کا فعل امر تین جگہ آیا ہے اور تینوں جگہ اِخْفِضْ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں یہ لفظ باب ضرب یا باب حسب سے آیا ہے۔ غالب امکان کے پیش نظر ہم نے اس کے معنی باب ضرب کے تحت دیئے ہیں۔

وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ     89؀ۚ
[وَقُلْ: اور آپؐ کہیں] [ انىٓ: کہ میں] [ انا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ: ہی واضح (طور پر ) خبردار کرنے والا ہوں]

كَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَي الْمُقْتَسِمِيْنَ     90۝ۙ
[كَمَآ: اس کی مانند جو] [ انزَلْنَا: ہم نے اتارا] [ عَلَي الْمُقْتَسِمِيْنَ: تقسیم کرنے والوں پر]

 

نوٹ۔1: مقتسمین سے مراد یہود ہیں جنھوں نے دین کو تقسیم کر ڈالا۔ اس کی بعض باتوں کو مانا اور بعض کو نہ مانا۔ ان کے قرآن سے مراد توراۃ ہے جو ان کو دی گئی تھی جس طرح ہمیں یہ قرآن دیا گیا ہے (تفہیم القرآن)

الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِيْنَ     91؀
[الَّذِينَ: وہ لوگ جنھوں نے] [ جَعَلُوا: بنایا] [ الْقُرْاٰنَ: قرآن کو] [ عِضِيْنَ: ٹکڑے ٹکڑے]

 

ع ض و

 [عَضْوًا: (ن) متفرق کرنا۔ الگ الگ کرنا۔]

 [ عِضْۃٌ ج عِضُوْنَ۔ حصّہ۔ ٹکڑا۔ زیر مطالعہ آیت۔91۔]

فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ    92۝ۙ
[فَوَرَبِكَ: تو قسم ہے آپؐ کے رب کی] [ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ: ہم لازماً پوچھیں گے ان سے] [ اَجْمَعِيْنَ: سب کے سب سے]

عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    93؀
[عَمَا: اس کے بارے میں جو] [ كَانوْا يَعْمَلُوْنَ: یہ لوگ کرتے تھے]

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ    94؀
[فَاصْدَعْ: تو آپؐ کھول کر بیان کریں] [ بِمَا: اس کو جو] [ تُؤْمَرُ: آپؐ کو حکم دیا جاتا ہے] [ وَاَعْرِضْ: اور آپؐ اعراض کریں] [ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ: شرک کرنے والوں سے]

 

 

ص د ع

 [صَدْعًا: (ف) (!) پھاڑنا مگر جدا نہ کرنا۔ شگاف ڈالنا۔ (2) کھول کر بیان کرنا۔ ظاہر کرنا۔ صَدْعٌ اسم ذات ہے۔ شگاف۔ دراڑ۔ وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ (قسم ہے زمین کی جو دراڑ والی ہے)۔ 86:12۔ اِصْدَعْ فعل امر ہے۔ تو کھول کر بیان کر۔ ظاہر کر۔ زیر مطالعہ آیت۔94۔]

 [ تَصْدِیْعًا: (تفعیل) کثرت سے شگاف ڈالنا۔ اس کے مجہول صُدِّعَ۔ یُصَدَّعُ کے لفظی معنی بنتے ہیں کثرت سے شگاف ڈالا ہوا ہونا۔ پھر اس سے مراد لیتے ہیں دردِ سر لاحق ہونا۔ لَا یُصَدَّعُوْنَ عَنْھَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ (ان کو دردِ سر نہیں ہو گا اس سے اور نہ وہ مدہوش ہوں گے) 56:19۔]

 [تَصَدُّعًا: (تفعل) بتکلف پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہونا۔ (1) پھٹنا۔ (2) الگ الگ ہونا۔ یَوْمَگذٍ یَّصَّدَّعُوْنَ (اس دن وہ لوگ الگ الگ ہو جائیں گے) 30:43۔

 مُتَّصَدِّعٌ اسم الفاعل ہے۔ پھٹنے والا۔ الگ الگ ہونے والا۔ لَرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا المُّتَصَدِّعًا (تو آپؐ ضرور دیکھتے اس کو جھکنے والا ہوتے ہوئے پاش پاش ہونے والا ہوتے ہوئے) 59:21۔]

اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ      95؀ۙ
[انا: یقینا] [ كَفَيْنٰكَ: ہم نے کفایت کی آپؐ کی] [ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ: مذاق اڑانے والوں سے]

الَّذِيْنَ يَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ  اِلٰـهًا اٰخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ      96؀
[الَّذِينَ: وہ لوگ جو] [ يَجْعَلُوْنَ: بناتے ہیں] [ مَعَ اللّٰهِ: اللہ کے ساتھ] [ اِلٰـهًا اٰخَرَ ۚ: کوئی دوسرا الٰہ] [ فَسَوْفَ: تو عنقریب] [ يَعْلَمُوْنَ: وہ جان لیں گے]

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ      97؀ۙ
[وَلَقَدْ نَعْلَمُ: اور بیشک ہم نے جان لیا ہے] [ انكَ: کہ آپؐ] [ يَضِيْقُ: تنگ ہوتا ہے] [ صَدْرُكَ: آپؐ کا سینہ] [ بِمَا: اس سے جو] [ يَقُوْلُوْنَ: یہ لوگ کہتے ہیں]

 

نوٹ۔2: آیت۔97۔98 سے معلوم ہوا کہ جب انسان کو مخالفین کی باتوں سے رنج پہنچے اور دل تنگی پیش آئے تو اس کا روحانی علاج یہ ہے تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح و عبادت میں مشغول ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور فرما دیں گے۔ (معارف القرآن)

مورخہ یکم شعبان 1426 ھ بمطابق 6، ستمبر 2005 ء

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ      98؀ۙ
[فَسَبِحْ: پس آپ ؐ تسبیح کریں] [ بِحَمْدِ رَبِكَ: اپنے رب کی حمد کے ساتھ] [ وَكُنْ: اور آپؐ ہوں] [ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ: سجدہ کرنے والوں میں سے]

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ     99۝ۧ
[وَاعْبُدْ: اور آپؐ بندگی کریں] [ رَبَّكَ: اپنے رب کی] [ حَتّٰى: یہاں تک کہ] [ يَاْتِيَكَ: آئے آپؐ کے پاس] [ الْيَقِيْنُ: وہ یقنی بات (یعنی موت)]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ  ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ  Ǻ۝
[اَتٰٓى: ا] [ اَمْرُ اللّٰهِ: اللہ کا حکم] [ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ : پس تم لوگ جلدی مت مچائو اس کی] [سُبْحٰنَهٗ: پاکیزگی اس کی ہے] [ وَتَعٰلٰى: اور وہ بلند ہوا] [ عَمَا: اس سے جو] [ يُشْرِكُوْنَ: یہ لوگ شریک کرتے ہیں]

 

نوٹ۔1: اَتٰی ماضی کا صیغہ ہے اور اس کے معنی یہی ہیں کہ ’’ وہ پہنچا‘‘۔ اس لئے ترجمہ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔ لیکن عربی کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ مستقبل میں ہونے والی کسی بات کو یقینی بنانے کے لئے مستقبل کے بجائے ماضی کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ (دیکھیں آیت۔2:27، نوٹ۔3) یہاں آیت نمبر۔1 میں اَتٰی اسی انداز میں آیا ہے۔ اس کی توثیق آیت کے اگلے حصے فَلَاتَسْتَعْجِلُوْنَ سے ہو رہی ہے۔ اس لئے یہاں اَتٰی کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کا حکم لازماً پہنچے گا۔

يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ     Ą۝
[يُنَزِّلُ: وہ اتارتا ہے] [ الْمَلٰۗىِٕكَةَ: فرشتوں کو] [ بِالرُّوْحِ: روح ( یعنی وحی) کے ساتھ] [ مِنْ اَمْرِهٖ: اپنے حکم سے] [ عَلٰي مَنْ:: اس پر جس پر] [ يَّشَاۗءُ: وہ چاہتا ہے] [ مِنْ عِبَادِهٖٓ: اپنے بندوں میں سے] [ ان: کہ] [ انذِرُوْٓا: تم لوگ خبردار کرو] [ انهٗ: (کہ) حقیقت یہ ہے کہ] [ لَآ اِلٰهَ: کوئی بھی الٰہ نہیں ہے] [ اِلَّآ: سوائے اس کے کہ] [ انا: میں ہوں] [ فَاتَّقُوْنِ: پس تم لوگ میرا تقوٰی کرو]

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ  ۭ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ    Ǽ۝
[خَلَقَ: اس نے پیدا کیا] [ السَّمٰوٰتِ: آسمانوں کو] [ وَالْاَرْضَ: اور زمین کو] [ بِالْحَقِّ ۭـ: حق کے ساتھ] [ تَعٰلٰى: وہ بلند ہوا] [ عَمَا: اس سے جو] [ يُشْرِكُوْنَ: یہ لوگ شریک کرتے ہیں]

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ     Ć۝
[خَلَقَ: اس نے پیدا کیا] [ الْانسَان : انسان کو] [ مِنْ نُّطْفَةٍ: پانی کی ایک بوند سے] [ فَاِذَا: تو جب ہی] [ هُوَ: وہ] [ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ: واضح طور پر ہمیشہ بحث کرنے والا ہے]

 

ن ط ف

 [نَطْفًا: (ن) پانی کا تھوڑا تھوڑا بہنا۔ ٹپکنا۔]

 [ نُطْفَۃٌ پانی کی بوند۔ زیر مطالعہ آیت۔4۔ ]

وَالْاَنْعَامَ خَلَقَهَا  ۚ لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ     Ĉ۝۠
[وَالْانعام: اور (اس نے پیدا کیا) چوپایوں کو] [ خَلَقَهَا ۚ: اس نے پیدا کیا ان کو] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ فِيْهَا: ان میں] [ دِفْءٌ: سردی سے بچنے (گرم رہنے) کا سامان ہے] [ وَّمَنَافِعُ: اور کچھ (دوسرے) منافع ہیں] [ وَمِنْهَا: اور ان میں سے] [ تَاْكُلُوْنَ: تم لوگ کھاتے ہو]

 

دف ء

 [دَفْئًا: (ک) گرمی پانا۔ گرمی محسوس کرنا۔]

 [ دِفْئٌ گرمی حاصل کرنے یعنی سردی سے بچنے کا سامان۔ زیر مطالعہ آیت۔5 ]

 

نوٹ۔2: آیت نمبر۔5۔ میں چوپایوں کا ذکر کے ان کے فوائد میں سے ایک اہم فائدہ ان کا گوشت کھانا قرار دیا۔ پھر ان سے الگ کر کے آیت نمبر۔8 میں گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کی تخلیق کا ذکر کیا۔ ان کے فوائد میں سواری اور زینت کا ذکر کیا لیکن گوشت کھانے کا ذکر نہیں کیا۔ اس میں یہ دلیل پائی جاتی ہے کہ گھوڑے خچر اور گدھے کا گوشت حلال نہیں ہے۔ خچر اور گدھے کا گوشت حرام ہونے پر اتفاق ہے اور ایک حدیث میں ان کی حرمت کا صراحۃً ذکر بھی ہے، مگر گھوڑے کے معاملہ میں دو حدیثیں ہیں۔ ایک سے حلال اور دوسری سے حرام ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے اس مسئلہ میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ  (رح)  نے اس کو مکروہ قرار دیا ہے۔ (معارف القرآن)

وَلَكُمْ فِيْهَا جَمَالٌ حِيْنَ تُرِيْحُوْنَ وَحِيْنَ تَسْرَحُوْنَ     Č۝۠
[وَلَكُمْ: اور تمھارے لئے] [ فِيْهَا: ان میں ] [ جَمَالٌ: دلفریبی ہے] [ حِيْنَ: جب] [ تُرِيْحُوْنَ: شام کو واپس لاتے ہو] [ وَحِيْنَ: اور جب] [ تَسْرَحُوْنَ: چرنے کے لئے چھوڑتے ہو]

وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ ۭاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ     Ċ۝ۙ
[وَتَحْمِلُ: اور وہ اٹھاتے ہیں] [ اَثْقَالَكُمْ: تمھارے بوجھ ] [ اِلٰى بَلَدٍ: کسی شہر کی طرف] [ لَمْ تَكُوْنُوْا: تم لوگ نہیں تھے] [ بٰلِغِيْهِ: پہنچنے والے اس تک] [ اِلَّا: مگر] [ بِشِقِّ الْانفُسِ ۭ: جانوں کی مشقت سے] [ان : بیشک] [ رَبَّكُمْ: آپؐ کا رب] [ لَرَءُوْفٌ: یقینا بہت نرمی کرنے والا ہے] [ رَّحِيْمٌ : ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً   ۭ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ    Ď۝
[وَّالْخَيْلَ: اور (اس نے پیدا کیا) گھوڑوں کو] [ وَالْبِغَالَ: اور خچروں کو] [ وَالْحَمِيْرَ: اور گدھوں کو] [ لِتَرْكَبُوْهَا: تاکہ تم لوگ سواری کرو ان پر] [ وَزِيْنَةً ۭ: اور زینت کے لئے] [ وَيَخْلُقُ: اور وہ پیدا کرے گا] [ مَا: اس کو جو ] [ لَا تَعْلَمُوْنَ: تم لوگ نہیں جانتے]

 

ب غ ل

 [ بَغْلًا: (ف) کسی کو دوغلا ٹھہرانا۔]

 بَغْلٌ ج بِغَالٌ۔ خچر۔ زیر مطالعہ آیت۔8 ]

 

نوٹ۔3: آیت نمبر۔8 میں سواری کے تین جانور گھوڑے، خچر اور گدھے کا خاص طور سے بیان کرنے کے بعد فرمایا اور وہ پیدا کرے گا وہ چیزیں جن کو تم نہیں جانتے۔ اس میں وہ تمام نوایجاد سواریاں بھی داخل ہیں جن کاپرانے زمانے میں کوئی تصور بھی نہیں تھا، مثلاً ریل، موٹر، ہوائی جہاز، وغیرہ، جو اب تک ایجاد ہو چکے ہیں اور وہ تمام چیزیں بھی اس میں داخل ہیں جو آئندہ ایجاد ہوں گی۔ (معارف القرآن)

وَعَلَي اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ   ۭ وَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ     ۝ۧ
[وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر (یعنی اس تک) ہے] [قَصْدُ السَّبِيْلِ: راستے کا اعتدال] [ وَمِنْهَا: اور اس سے] [ جَاۗىِٕرٌ ۭ : کوئی بھٹکنے والا ہے] [وَلَوْ: اور اگر] [ شَاۗءَ: چاہتا] [ لَهَدٰىكُمْ: تو ضرور ہدایت دیتا تم کو] [ اَجْمَعِيْنَ: سب کے سب کو]

 

نوٹ۔4: توحید، رحمت اور ربوبیت کے دلائل پیش کر کے آیت نمبر ۔9۔ میں نبوت کی بھی ایک دلیل پیش کر دی گئی ہے۔ اس کو سمجھ لیں۔

 دنیا میں انسان کے لئے فکر و عمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملاً موجود بھی ہیں۔ ظاہر ہے یہ سارے راستے بیک وقت حق نہیں ہو سکتے۔ سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریۂ حیات صرف وہی ہو سکتا ہے جو اس سچائی کے مطابق ہو اور عمل کے بےشمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہو سکتا ہے جو صحیح نظریۂ حیات پر مبنی ہو۔

 اس صحیح راہ عمل سے واقف ہونا انسان کی اصل اور بنیادی ضرورت ہے۔ کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک بلند درجے کا جانور ہونے کی حیثیت سے اس کولاحق ہوا کرتی ہیں۔ مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہو گئی۔

 اب غور کرو کہ جس خدا نے تمھیں وجود میں لانے سے پہلے تمھارے لئے یہ کچھ سروسامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے کے بعد تمھاری حیوانی زندگی کی ایک ایک ضرورت پورا کرنے کا اتنے بڑے پیمانے پر انتظام کیا، کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمھاری انسانی زندگی کی اس اصلی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا؟ یہ بندوبست نبوت کے ذریعہ سے کیا گیا ہے۔ اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتائو کہ تمھارے خیال میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لئے اور کون سا انتظام کیا ہے؟ اس کے جواب میں تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لئے عقل و فکر دے رکھی ہے، کیونکہ انسانی عقل و فکر پہلے ہی بےشمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہ راست کی صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے اور نہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے۔ خدا کے ساتھ اس سے بڑھ کر بدگمانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمھاری پرورش کا اتنا مکمل انتظام کرے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے تم کو بھٹکنے کے لئے چھوڑ دے۔ (تفہیم القرآن)

هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّمِنْهُ شَجَـرٌ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ       10؀
[هُوَ: وہ] [ الَّذِيٓ: وہی ہے جس نے] [ انزَلَ: اتارا] [ مِنَ السَّمَاۗءِ: آسمان سے] [ مَاۗءً: کچھ پانی] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ مِّنْهُ: اس میں سے] [ شراب: پینے کی چیز ہے] [ وَّمِنْهُ: اور اس میں سے] [ شَجَـرٌ: ایسے درخت ہیں] [ فِيْهِ: جن میں] [ تُسِيْمُوْنَ: تم لوگ مویشی چراتے ہو]

يُنْۢبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُوْنَ وَالنَّخِيْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ  ۭاِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ     11؀
[يُنْۢبِتُ: وہ اگاتا ہے] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ بِهِ: اس سے ] [ الزَّرْعَ: کھیتی کو] [ وَالزَّيْتُوْنَ: اور زیتون کو] [ وَالنَّخِيْلَ: اور کھجوروں کو] [ وَالْاَعْنَابَ: اور انگوروں کو] [ وَمِنْ كُلِ الثَّمَرٰتِ ۭ: اور تمام پھلوں میں سے (بھی اگاتا ہے)] [ان : بیشک] [ فِيْ ذٰلِكَ: اس میں] [ لَاٰيَةً: یقینا ایک نشانی ہے] [ لِقَوْمٍ: ایسے لوگوں کے لئے جو] [ يَّتَفَكَّرُوْنَ: غوروفکر کرتے ہیں]

 

ترکیب: (آیت۔11) وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ عطف ہے۔ یُنْبِتُ پر۔

وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ  ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ  ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ  ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ     12۝ۙ
[وَسَخَّرَ: اور اس نے مطیع کیا] [ لَكُمُ: تمہارے لئے] [ الَّيْلَ: رات کو] [ وَالنَّهَارَ ۙ: اور دن کو] [ وَالشَّمْسَ: اور سوج کو] [ وَالْقَمَرَ ۭ: اور چاند کو] [ وَالنُّجومُ: اور تمام ستارے] [ مُسَخَّرٰتٌۢ: مطیع کئے گئے ہیں] [ بِاَمْرِهٖ ۭ : اس کے حکم سے] [ان : بیشک] [ فِيْ ذٰلِكَ: اس میں] [ لَاٰيٰتٍ: یقینا نشانیاں ہیں] [ لِقَوْمٍ: ایسے لوگوں کے لئے جو] [ يَّعقلوْنَ: سوچ سمجھ سے کام لیتے ہیں]

 

 (آیت۔12) وَ سَخَّرَ کے مفعول وَالْقَمَرَ پر ختم ہو گئے۔ آگے نیا جملہ ہے جس میں وَالنُّجُوْمُ مبتدا ہے اور مُسَخَّرٰتٌ اس کی خبر ہے، اس لئے دونوں حالت رفع میں ہیں۔

.وَمَا ذَرَاَ لَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ   ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ    13۝
[وَمَا: اور اس میں (بھی نشانیاں ہیں) جو] [ ذَرَاَ: اس نے بکھیرا] [لَكُمْ: تمھارے لئے] [ فِي الْاَرْضِ: زمیں میں] [ مُخْتَلِفًا: مختلف ہوتے ہوئے] [ اَلْوَانهٗ ۭ: ان کے رنگ] [ ان: بیشک] [ فِيْ ذٰلِكَ: اس میں] [ لَاٰيَةً: یقینا ایک نشانی ہے] [ لِقَوْمٍ: ایسے لوگوں کے لئے جو] [ يَّذَّكَّرُوْنَ: نصیحت پکڑتے ہیں]

 

 (آیت۔13)۔ مُخْتَلِفًا اسم الفائل ہے اور حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے جبکہ اَلْوَانُ اس کا فاعل ہونے کی وجہ سے حالت رفع میں ہے۔

وَهُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا  ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ     14؀
[وَهُوَ: اور وہ] [ الَّذِي: وہی ہے جس نے] [ سَخَّرَ: مطیع کیا] [ الْبَحْرَ: سمندر کو] [ لِتَاْكُلُوْا: تاکہ تم لوگ کھائو] [ مِنْهُ: اس میں سے] [ لَحْمًا طَرِيًّا: کچھ تازہ گوشت] [ وَّتَسْتَخْرِجوا: اور تاکہ تم لوگ نکالو] [ مِنْهُ: اس میں سے] [ حِلْيَةً: کچھ ایسے زیور] [ تَلْبَسُوْنَهَا ۚ : تم لوگ پہنتے ہو جن کو] [وَتَرَى: اور تو دیکھتا ہے] [ الْفُلْكَ: کشتیوں کو] [ مَوَاخِرَ: پانی چیرنے والی ہوتے ہوئے] [ فِيْهِ: اس میں] [ وَلِتَبْتَغُوْا: اور تاکہ تم لوگ تلاش کرو] [ مِنْ فَضْلِهٖ: اس کے فضل میں سے] [ وَلَعَلَّكُمْ: اور شاید تم لوگ] [ تَشْكُرُوْنَ: احسان مانو]

 

ط رو

 [طَرَاوَۃً: (ک) نرم اور تروتازہ ہونا۔]

 [ طَرِیٌّ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ تروتازہ۔ زیر مطالعہ آیت۔14۔]

م خ ر

 [مَخْرًا: (ف۔ ن) پانی کو آواز کے ساتھ چیرنا۔]

 [ مَاخِرٌ ج مَوَاخِرٌ۔ اسم الفائل ہے۔ پانی چیرنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔14۔]

 

(آیت۔14) تَرَی کا مفعول ہونے کی وجہ سے اَلْفُلْکَ حالت نصب میں ہے جبکہ مَوَاخِرَ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ یہ اَلْفُلْکَ کی صفت نہیں ہو سکتا کیونکہ اَلْفُلْکَ معرف باللّام ہے جبکہ مَوَاخِرَ نکرہ آیا ہے۔ فِیْہِ کی ضمیر اَلْبَحْرَ کے لئے ہے۔

وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَاَنْهٰرًا وَّسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ    15۝ۙ
[ وَاَلْقٰى: اور اس نے ڈالے] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں] [ رَوَاسِيَ؛کچھ پہاڑ] [ ان: کہ کہیں ] [ تميْدَ بِكُمْ: وہ لرزے تمھارے ساتھ] [ وَانهٰرًا: اور کچھ نہریں] [ وَّسُبُلًا: اور کچھ راستے] [ لَعَلَّكُمْ: شاید تم لوگ] [ تَهْتَدُوْنَ: راہ پائو]

 

(آیت۔15)۔ رَوَاسِیَ۔ اَنْھٰرًا۔ سُبُلًا اور عَلٰمٰتٍ، یہ سب اَلْقٰی کا مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں۔

وَعَلٰمٰتٍ  ۭ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُوْنَ    16۝
[وَعَلٰمٰتٍ ۭ: اور کچھ علامتیں (بھی ڈالیں)] [ وَبِالنَّجْمِ: اور اس ستارے سے] [ هُمْ: وہ لوگ] [ يَهْتَدُوْنَ : راہ پاتے ہیں]

 

نوٹ۔1: اس سورہ کی ابتداشرک کی نفی سے ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بہت بلند ہے جن کو لوگ اس کی ذات و صفات میں شریک کرتے ہیں۔ اس کے بعد آیت نمبر۔16 تک آفاق و انفس کی بہت سی نشانیاں پے در پے بیان کی گئی ہیں۔ ان سے یہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ انسان اپنے وجود سے لے کر زمین و آسمان کے گوشے گوشے تک جدھر چاہے نظر دوڑا کر دیکھ لے، ہر چیز پیغمبر کے بیان کی تصدیق کر رہی ہے۔ کہیں سے بھی شرک یا دہریت کی تائید میں کوئی شہادت فراہم نہیں ہوتی۔

اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ    17۝
[اَفَمَنْ: تو کیا وہ جو] [ يَّخْلُقُ: پیدا کرتا ہے] [ كَمَنْ: اس کی مانند ہے جو] [ لَّا يَخْلُقُ ۭ: پیدا نہیں کرتا] [ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ: تو کیا تم لوگ نصیحت نہیں پکڑو گے]

 

 پھر آیت نمبر۔17 میں سوال کیا گیا کہ اگر تم مانتے ہو (جیسا کہ فی الواقع مکہ کے مشرکین بھی مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین بھی مانتے ہیں) کہ خالق اللہ ہی ہے اور اس کائنات میں تمھارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں سے کسی کا کچھ بھی پیدا کیا ہوا نہیں ہے، تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ غیر خالق ہستیوں کی حیثیتخود خالق کے برابر ہو یا کسی طرح بھی اس کے مانند ہو۔ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ خالق اور غیر خالق کی صفات ایک جیسی ہوں گی، یا وہ ایک جنس کے افراد ہوں گے، حتیٰ کہ ان کے درمیان باپ اور اولاد کا رشتہ ہو گا؟

(تفہیم القرآن)

وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ      18؀
[وَان: اور اگر] [ تَعُدُّوْا: تم لوگ گنتی کرو گے] [ نِعْمَةَ اللّٰهِ: اللہ کی نعمت کی] [ لَا تُحْصُوْهَا ۭ: تو شمار پورا نہ کر پائو گے اس کا] [ ان : بیشک] [ اللّٰهَ: اللہ] [ لَغَفُوْرٌ: یقینا بےانتہا بخشنے والا ہے] [ رَّحِيْمٌ: ہر حال میں رحم کرنے والا ہے]

وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ      19؀
[وَاللّٰهُ: اور اللہ] [ يَعْلَمُ: جانتا ہے] [ مَا: اس کو جو] [ تُسِرُّوْنَ: تم لوگ چھپاتے ہو] [ وَمَا: اور اس کو جو] [ تُعْلِنُوْنَ: تم لوگ اعلان کرتے ہو]

وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ     20۝ۭ
وَالَّذِينَ: اور وہ لوگ جن کو] [ يَدْعُوْنَ: یہ لوگ پکارتے ہیں] [ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے علاوہ] [ لَا يَخْلُقُوْنَ: وہ پید انہیں کرتے] [ شَيْـــًٔـا: کوئی چیز ] [ وَّهُمْ: اور وہ (تو خود)] [ يُخْلَقُوْنَ: پیدا کئے گئے ہیں]

 

ترکیب: (آیت۔20)۔ یَدْعُوْنَ کا فاعل اس میں شامل ھُمْ کی ضمیر ہے اور وَالَّذِیْنَ اس کا مفعول مقدم ہے۔ (آیت۔21)۔ اَمْوَاتٌ خبر ہے۔ اس کا مبتدا ھُمْ محذوف ہے۔ اسی طرح غَیْرُ اَحْیَائٍ بھی خبر ہے اور اس کا بھی مبتدا ھُمْ محذوف ہے۔

 

نوٹ۔1: آیت نمبر۔20۔21 کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہاں جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جا رہی ہے وہ فرشتے یا جن یا شیاطین یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں بلکہ اصحاب قبور ہیں۔ اس لئے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں، ان پر اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَائٌ کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لئے مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ کے الفاظ انھیں بھی خارج از بحث کر دیتے ہیں۔ اب لامحالہ اس میں اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ سے مراد وہ انبیائ، اولیائ، شہداء اور صالحین ہیں جن کو غالی معتقدین اپنی حاجت روائی کے لئے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے تو یہ جاہلیت عرب کی تاریخ سے ان کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ عرب کے متعدد قبائل میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے اور یہ دونوں مذاہب بری طرح انبیائ، اولیاء اور شہداء کی پرستش سے آلودہ تھے۔ پھر مشرکین عرب کے بہت سے معبود گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنھیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا۔ بخاری میں ابن عباس  (رض)  کی روایت ہے کہ وَدّ، سواع، یَغوث، یَعوق، نسر، یہ سب صالحین کے نام ہیں جنھیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے۔ بی بی عائشہ (رض)  کی روایت ہے اِساف اور نائلہ دونوں انسان تھے۔ اسی طرح کی روایات لات اور مناۃ اور عُسزّٰی کے بارے میں بھی موجود ہیں۔ (تفہیم القرآن)

اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ  ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ  ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ     21۝ۧ
[اَمْوَاتٌ: (وہ لوگ) مردہ ہیں] [ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ ۚ: (وہ لوگ) کسی جان کے بغیر ہیں] [ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ۙ : اور وہ شعور نہیں رکھتے] [اَيَّان : کہ کب] [ يُبْعَثُوْنَ: وہ اٹھائے جائیں گے]

اِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ  ۚ فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّهُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ    22؀
[اِلٰـهُكُمْ؛تم لوگوں کا الٰہ] [ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ : واحد الٰہ ہے] [فَالَّذِينَ: پس وہ لوگ جو] [ لَا يُؤْمِنُوْنَ؛ایمان نہیں رکھتے] [ بِالْاٰخِرَةِ: آخرت پر] [ قُلُوْبُهُمْ: ان کے دل] [ مُّنْكِرَةٌ: انکار کرنے والے ہیں] [ وَّهُمْ: اور وہ لوگ] [ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ: بڑائی چاہنے والے ہیں]

لَاجَرَمَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْـتَكْبِرِيْنَ    23؀
[لَاجَرَمَ: کوئی شک نہیں ہے] [ ان: کہ] [ اللّٰهَ: اللہ] [ يَعْلَمُ: جانتا ہے] [ مَا: اس کو جو] [ يُسِرُّوْنَ؛یہ لوگ چھپاتے ہیں] [ وَمَا: اور اس کو جو] [ يُعْلِنُوْنَ ۭ: یہ لوگ اعلان کرتے ہیں] [ انهٗ: حقیقت یہ ہے کہ] [ لَا يُحِبُّ: وہ پسند نہیں کرتا] [ الْمُسْـتَكْبِرِيْنَ: بڑائی چاہنے والوں کو]

 

(آیت۔23)۔ اِنَّہٗ کو ضمیر الشان ماننا بہتر ہے۔

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ    24؀ۙ
[وَاِذَا: اور جب بھی ] [ قِيْلَ؛کہا جاتا ہے] [ لَهُمْ؛ان سے] [ مَاذَآ: کیا] [ انزَلَ: اتارا] [ رَبُّكُمْ ۙ : تمھارے رب نے] [قَالُوْٓا : تو وہ کہتے ہیں] [ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ: پہلے لوگوں کے افسانے ہیں]

لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ    25؀ۧ
[لِيَحْمِلُوْٓا: انجام کار وہ اٹھائیں گے] [ اَوْزَارَهُمْ: اپنے بوجھ] [ كَامِلَةً: پورے پورے] [ يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ : قیامت کے دن ] [وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِينَ: اور ان کے بوجھوں میں سے] [ يُضِلُّوْنَهُمْ: انھوں نے گمراہ کیا جن کو] [ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ : کسی علم کے بغیر] [اَلَا؛خبردار!] [ سَاۗءَ: بُرا ہے] [ مَا: وہ جو] [ يَزِرُوْنَ: یہ لوگ اٹھائیں گے]

 

(آیت۔25)۔ لِیَحْمِلُوْا پر جو لام ہے اسے لام کَیْ کے بجائے لام عاقبت (بمعنی آخرکار) ماننا بہتر ہے۔ یُضِلُّوْنَ کا فاعل اس میں شامل ھم کی ضمیر ہے اور اس کا مفعول اَلذَّیْنَمقدم ہے۔ یُضِلُّوْنَ کے ساتھ ھُمْ کی ضمیر اَلَّذِیْنَ کی ضمیر عائد ہے۔

 

نوٹ۔2: آیت نمبر۔25 میں وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَھُمْ کے الفاظ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کوئی شخص قیامت کے دن اس بنیاد پر، کہ دوسرے نے اسے گمراہ کیا ہے، اپنی ذمہ داری سے کلیۃََ بَری نہیں ہو گا، بلکہ اسے بھی اپنی گمراہی کا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کو جو عقل و بصیرت عطا فرمائی تھی اس نے اس سے کام کیوں نہیں لیا۔ اس وجہ سے جس طرح اس کو گمراہ کرنے والا اپنی حد تک اس کی گمراہی کا ذمہ دار ٹھہرے گا، اسی طرح یہ بھی اپنی حد تک اپنی گمراہی کا ذمہ دار قرار پائے گا اور اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ (تدبر قرآن) مزید وضاحت کے لئے آیت نمبر 14:21، نوٹ۔1۔ دوبارہ پڑھ لیں۔

قَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ    26؀
قَدْ مَكَرَ: چالبازی کر چکے ہیں] [ الَّذِينَ: وہ لوگ جو] [ مِنْ قَبْلِهِمْ: ان سے پہلے تھے] [ فَاَتَى: تو پہنچا] [ اللّٰهُ: اللہ] [ بُنْيَانهُمْ: ان کی عمارت پر] [ مِّنَ الْقَوَاعِدِ: بنیادوں سے] [ فَخَــرَّ: پس گر پڑی] [ عَلَيْهِمُ: ان پر] [ السَّقْفُ: چھت ] [ مِنْ فَوْقِهِمْ: ان کے اوپر سے] [ وَاَتٰىهُمُ: اور پہنچا ان پر] [ الْعَذَابُ: عذاب] [ مِنْ حَيْثُ؛جہاں سے] [ لَا يَشْعُرُوْنَ: وہ شعور نہیں رکھتے تھے]

 

س ق ف

 [سَقْفًا: (ف۔ ن) مکان پر چھت ڈالنا۔]

 [ شَقْفٌ ج سُقُفٌ۔ چھت۔ زہر مطالعہ آیت۔26۔]

ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يُخْــزِيْهِمْ وَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تُشَاۗقُّوْنَ فِيْهِمْ ۭ قَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَالسُّوْۗءَ عَلٰي الْكٰفِرِيْنَ    27؀ۙ
[ثُمَّ: پھر] [ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: قیامت کے دن] [ يُخْــزِيْهِمْ: وہ رسوا کرے گا ان کو] [ وَيَقُوْلُ: اور کہے گا] [ اَيْنَ: کہاں ہیں] [ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِينَ: میرے وہ شرکاء] [ كُنْتم تُشَاۗقُّوْنَ: تم لوگ مخالفت کرتے تھے] [ فِيْهِمْ ۭ: جن (کے بارے) میں] [ قَالَ: کہیں گے] [ الَّذِينَ: وہ لوگ جنھیں] [ اُوْتُوا: دیا گیا] [ الْعِلْمَ: علم] [ ان یقینا] [ الْخِزْيَ: ساری رسوائی] [ الْيَوْمَ: آج کے دن] [ وَالسُّوْۗءَ: اور ساری برائی (بھی)] [ عَلٰي الْكٰفِرِيْنَ: انکار کرنے والوں پر]

الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ  ۠فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْۗءٍ  ۭ بَلٰٓى اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ   28؀
[الَّذِينَ: وہ لوگ] [ تَتَوَفّٰىهُمُ: جان قبض کرتے ہیں جن کی] [ الْمَلٰۗىِٕكَةُ: فرشتے] [ ظَالِمِيْٓ انفُسِهِمْ: اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہوتے ہوئے] [ ۠فَاَلْقَوُا: تو وہ لوگ ڈالتے ہیں] [ السَّلَمَ: مکمل اطاعت] [ مَا كُنَا نَعْمَلُ: (اور کہتے ہیں) ہم عمل نہیں کرتے تھے] [ مِنْ سُوْۗءٍ ۭ: کسی بھی برائی کا] [ بَلٰٓى؛(فرشتے کہتے ہیں) کیوں نہیں] [ ان : یقینا] [ اللّٰهَ: اللہ] [ عَلِيْمٌۢ: جاننے والا ہے] [ بِمَا: اس کو جو] [ كُنْتم تَعْمَلُوْنَ: تم لوگ کرتے تھے]

 

ترکیب: (آیت۔28) ظَالِمِیْ اَنْفُسِھِمْ۔ مضاف، مضاف الیہ مل کر تَتَوَفّٰھُمْ میں ھم (مفعول) کا حال ہے۔ الملگکۃ کا نہیں ہے۔

 

نوٹ۔1: اس سورہ کی آیات 28۔29 میں اور پھر آیت۔32 میں ان لوگوں سے فرشتوں کی گفتگو کا ذکر ہے جن کی وہ روح قبض کرتے ہیں۔ یہ آیات قرآن مجید کی ان متعدد آیات میں سے ہیں جو عذاب و ثواب قبر کا ثبوت دیتی ہیں، حدیث میں قبر کا لفظ مجازاً عالم برزخ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعثِ بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی۔ منکرین حدیث کو اس پر اصرار ہے کہ یہ عالم بالکل عدم محض کا عالم ہے جس میں کوئی احساس و شعور نہ ہو گا اور کسی قسم کا عذاب یا ثواب نہ ہو گا۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ کفار کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو وہ موت کی سرحد کے پار کا حال اپنی توقعات کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتی ہیں اور فوراً سلام ٹھونک کر ملائکہ کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم کوئی برا کام نہیں کر رہے تھے۔ جواب میں ملائکہ ان کو جہنم کی پیشگی خبر دیتے ہیں۔ دوسری طرف متقی لوگوں کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو ملائکہ ان کو سلام کرتے ہیں اور جنتی ہونے کی پیشگی مبارکباد دیتے ہیں۔ کیا برزخ کی زندگی، احساس شعور، عذاب اور ثواب کا اس سے بھی زیادہ کھلا ہوا کوئی ثبوت درکار ہے؟ سب سے زیادہ صاف الفاظ میں عذاب برزخ کی تصریح سورہ مومن کی آیات 45۔46 میں کی گئی ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ فرعون اور اٰلِ فرعون کے متعلق فرماتا ہے کہ ’’ ایک سخت عذاب ان کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی صبح و شام وہ آگ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، پھر جب قیامت کی گھڑی آ جائے گی تو حکم دیا جائے گا کہ اٰلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔‘‘

 حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث، دونوں سے موت اور قیامت کے درمیان حالت کا ایک ہی نقشہ معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ موت محض جسم و روح کی علیحدگی کا نام ہے، نہ کہ بالکل معدوم ہو جانے کا۔ جسم سے علیحدہ ہو جانے کے بعد روح معدوم نہیں ہو جاتی بلکہ اس پوری شخصیت کے ساتھ زندہ رہتی ہے جو دنیا کی زندگی کے تجربات اور ذہنی و اخلاقی اکتسابات سے بنی تھی۔ اس حالت میں روح کے شعور، احساس، مشاہدات اور تجربات کی کیفیت خواب سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 2۔ ص 536)

فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا  ۭ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ   29؀
[فَادْخُلُوْٓا: پس (اب) داخل ہو جائو] [ اَبْوَابَ جَهَنَّمَ: جہنم کے دروازوں میں] [ خٰلِدِيْنَ: ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے] [ فِيْهَا ۭ: اس میں] [ فَلَبِئْسَ: تو یقینا کتنا برا ہے] [ مَثْوَى الْمُتَكَبِرِيْنَ: گھمنڈ کرنے والوں کا ٹھکانہ]

وَقِيْلَ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوْا خَيْرًا ۭ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَـنَةٌ  ۭ وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ  ۭ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِيْنَ   30؀ۙ
[وَقِيْلَ؛اور (جب) کہا جاتا ہے] [ لِلَّذِيْنَ: ان سے جنھوں نے] [ اتَّقَوْا: تقوٰی اختیار کیا] [ مَاذَآ: کیا] [ انزَلَ: اتارا] [ رَبُّكُمْ: تمھارے رب نے] [ قَالُوْا: تو وہ کہتے ہیں] [ خَيْرًا ۭ: (اس نے اتارا) بہترین کو] [ لِلَّذِيْنَ: ان کے لئے جنھوں نے] [ اَحْسَنُوْا: بلا کم و کاست کام کیا،] [ فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا: اس دنیا میں] [ حَسَـنَةٌ ۭ: (ان کے لئے) ایک بھلائی ہے] [ وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ: اور یقینا آخرت کا گھر (تو)] [ خَيْرٌ ۭ: سب سے بہتر ہے] [ وَلَنِعْمَ: اور یقینا کتنا اچھا ہے] [ دَارُ الْمُتَّقِيْنَ: تقوٰی کرنے والوں کا گھر]

 

ترکیب: (آیت۔30) خَیْرًا کی نصب بتا رہی ہے کہ اس سے پہلے اس کا فعل اَنْزَلَ محذوف ہے۔ حَسَنَۃٌ مبتدا مؤخر نکرہ ہے۔ اس کی خبر وَاجِبٌ یا ثَابِتٌ محذوف ہے۔ اس کے آگے ایک گنجائش یہ ہے کہ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا کو قائم مقام خبر مقدم مانیں اور فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا کو متعلق خبر مانیں۔ ایسی صورت میں جملہ ہو گا اَلْحَسَنَۃُ وَاجِبٌ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا۔ دوسری گنجائش یہ ہے کہ فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا کو قائم مقام خبرمانیں اور لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا کو متعلق خبر مانیں۔ ایسی صورت میں جملہ ہو گا اَلْحَسَنَۃُ وَاجِبٌ فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا۔ اگلی عبارت وَلَدَارُ الاْٰ خِرَۃُ خَیْرٌ کا تقاضہ ہے کہ دوسری گنجائش کو ترجیح دی جائے۔

جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَهَا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ لَهُمْ فِيْهَا مَا يَشَاۗءُوْنَ ۭكَذٰلِكَ يَجْزِي اللّٰهُ الْمُتَّقِيْنَ 31؀ۙ
[جَنّٰتُ عَدْنٍ: عدن کے باغات ہیں] [ يَّدْخُلُوْنَهَا: وہ لوگ داخل ہوں گے ان میں] [ تَجْرِيْ: بہتی ہیں] [ مِنْ تَحْتِهَا: ان کے نیچے سے] [ الْانهٰرُ: نہریں] [ لَهُمْ: ان کے لئے ہے] [ فِيْهَا: ان میں] [ مَا: وہ جو] [ يَشَاۗءُوْنَ ۭ: وہ لوگ چاہیں گے] [كَذٰلِكَ: اس طرح] [ يَجْزِي: بدلہ دے گا] [ اللّٰهُ الْمُتَّقِيْنَ: اللہ تقوٰی کرنے والوں کو]

الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ  ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ    32؀
الَّذِينَ: وہ لوگ] [ تَتَوَفّٰىهُمُ: جان قبض کرتے ہیں جن کی] [ الْمَلٰۗىِٕكَةُ: فرشتے] [ طَيِّبِيْنَ ۙ: خوشگوار حالت میں] [ يَقُوْلُوْنَ: وہ (فرشتے) کہیں گے] [ سَلٰمٌ: سلامتی ہے] [ عَلَيْكُمُ ۙ: تم لوگوں پر] [ ادْخُلُوا: (اب) داخل ہو جائو] [ الْجَنَّةَ: جنت میں] [ بِمَا: بسبب اس کے جو] [ كُنْتم تَعْمَلُوْنَ: تم لوگ عمل کرتے تھے]

هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ اَمْرُ رَبِّكَ ۭ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ  ۭ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ   33؀
[هَلْ يَنْظُرُوْنَ: وہ لوگ کیا انتظار کرتے ہیں] [ اِلَّآ ان: سوائے اس کے کہ] [ تَاْتِيَهُمُ: آئیں ان کے پاس] [ الْمَلٰۗىِٕكَةُ: فرشتے] [ اَوْ: یا] [ يَاْتِيَ: پہنچے] [ اَمْرُ رَبِكَ ۭ: آپؐ کے رب کا حکم] [ كَذٰلِكَ: اسی طرح] [ فَعَلَ: کیا] [ الَّذِينَ: انھوں نے جو] [ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ: ان سے پہلے تھے] [ وَمَا ظَلَمَهُمُ: اور ظلم نہیں کیا ان پر] [ اللّٰهُ: اللہ نے] [ وَلٰكِنْ: اور لیکن ] [ كَانوْٓا انفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ: وہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے]

فَاَصَابَهُمْ سَـيِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ    34؀ۧ
[فَاَصَابَهُمْ: تو لگیں ان کو] [ سَـيِّاٰتُ مَا: اس کی برائیاں جو] [ عَمِلُوْا: انھوں نے عمل کیا] [ وَحَاقَ: اور چھا گیا] [ بِهِمْ: ان پر] [ مَا: وہ] [ كَانوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ: جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے]

وَقَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ ۭ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَي الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ    35؀
[وَقَالَ: اور کہیں گے] [ الَّذِينَ: وہ لگ جنھوں نے] [ اَشْرَكُوْا: شرک کیا] [ لَوْ: اگر] [ شَاۗءَ؛چاہتا] [ اللّٰهُ؛اللہ ] [ مَا عَبَدْنَا: تو ہم بندگی نہ کرتے] [ مِنْ دُوْنِهٖ: اس کے علاوہ] [ مِنْ شَيْءٍ: کسی بھی چیز کی] [ نَحْنُ: (نہ) ہم] [ وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا: اور نہ ہی ہمارے آباء اجداد] [ وَلَا حَرَّمْنَا: اور ہم حرام نہ کرتے] [ مِنْ دُوْنِهٖ: اس کے (حکم کے) علاوہ] [ مِنْ شَيْءٍ ۭ: کسی بھی چیز کو] [ كَذٰلِكَ؛اسی طرح] [ فَعَلَ؛کیا] [ الَّذِينَ: انھوں نے جو] [ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ : ان سے پہلے تھے] [فَهَلْ: تو کیا ہے] [ عَلَي الرُّسُلِ: رسولوں پر] [ اِلَّا: سوائے اس کے کہ] [ الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ: واضح طور پر پہنچا دینا]

 

نوٹ۔1: آیت نمبر۔35 میں کہا گیا ہے کہ واضح طور پر پہنچا دینے کے سوا رسولوں پر اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہی بات ایک دوسرے پیرائے میں اس طرح کہی گئی ہے کہ ہم نے آپ کو صرف خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے (25:52)۔ قرآن مجید میں ان دونوں اسلوب کی اور بھی آیات ہیں۔ ایسی آیات کی بنیاد پر منکرین حدیث استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ
کا کام صرف یہ تھا کہ وہ قرآن پہنچا دیں۔ حالانکہ منکرین حدیث خود کو اہل قرآن کہتے ہیں، لیکن یہ استدلال بتا رہا ہے کہ قرآن مجید کا پوری طرح مطالعہ نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ قرآن مجید کے بہت سے وضاحت طلب امور کی وضاحت خود قرآن میں مجود ہے اور اس مسئلہ کی بھی پوری وضاحت قرآن میں دی ہوئی ہے۔ اگر تمام متعلقہ آیات کو سامنے رکھ کر کوئی سمجھنا چاہے تو بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے جو درج ذیل ہے:

 رسول اللہ
کا مقصد بعث یعنی مشن یہ تھا کہ وہ اللہ کے دین کو پورے نظامِ حیات پر غالب کر دیں۔ قرآن مجید یہ بات اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ دہرائی ہے۔ (9:33۔48:28۔61:9)۔ اس مشن کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس طریقۂ کار کا تعین کیا تھا وہ یہ تھا کہ رسول اللہ لوگوں کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتے تھے۔ یہ ابلاغ سے اور اس میں انداز و تبشیر از خود شامل ہے۔ لوگوں کا تزکیہ کرتے تھے۔ کتاب کی تعلیم دیتے تھے اور حکمت کی تعلیم دیتے تھے۔ آپؐ کے ان فرائض چہارگانہ کا ذکر بھی قرآن میں چار ہی مرتبہ آیا ہے۔ (2:129۔2:151۔3:164۔62:2)۔ تعلیم کتاب کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں جو احکام و ہدایات ہیں اس نے اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے اور ان پر ہم نے کس طرح عمل کرنا ہے۔ یہ مطلب کسی کا خود ساختہ نہیں ہے بلکہ اس کی سند قرآن میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ اور ہم نے نازل کیا آپؐ کی طرف اس ذکر کو (یعنی وحی غیر متلو) تاکہ آپؐ واضح کر دیں لوگوں کے لئے اس کو جو نازل کیا گیا ان لوگوں کی طرف (یعنی قرآن) (16:44)۔

 نہ صرف قرآن کے مذکورہ مقامات کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ مذکورہ غلط استدلال جن آیات کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے، ان کے سیاق و سباق سے بھی اغماض برتا گیا ہے، کیونکہ ان کے سیاق و سباق سے پوری طرح واضح ہے کہ ان میں خطاب ان لوگوں سے ہے جو ایمان لانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے ابلاغ اور انداز و تبشیر کے بعد رسول اللہ
کا کام ختم ہو جاتا ہے اور ان سے اب آپؐ بری الذمہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تسلی دی ہے کہ دوزخ میں جانے والوں کے متعلق آپؐ سے نہیں پوچھا جائے گا (2:119)۔ لیکن جو لوگ ایمان لے آئے ان کے لئے آپؐ کا کام ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا تھا۔ ان کا تزکیہ کرنا۔ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینا تاکہ وہ لوگ اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد میں رسول اللہ کے دست و بازو بنیں اور آپؐ کے مشن کی تکمیل ہو۔ اس سارے Process کے قومی اور عملی ریکارڈ کا نام حدیث ہے اور یہ اہل ایمان کے لئے ہے۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ  ۭ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ   36؀
[وَلَقَدْ بَعَثْنَا: اور یقینا ہم نے بھیجا ہے] [ فِيْ كُلِ اُمَّةٍ؛ہر ایک امت میں] [ رَّسُوْلًا: ایک رسول] [ ان : کہ] [ اعْبُدُوا: تم لوگ بندگی کرو] [ اللّٰهَ: اللہ کی] [ وَاجْتَنِبُوا: اور تم لوگ بچو] [ الطَّاغُوْتَ ۚ : سرکشی کے ذریعوں سے] [فَمِنْهُمْ مَنْ: تو ان میں وہ بھی ہیں جن کو] [ هَدَى: ہدایت دی] [ اللّٰهُ: اللہ نے] [ وَمِنْهُمْ مَنْ: اور ان میں وہ بھی ہیں] [ حَقَّتْ: ثابت ہوئی] [ عَلَيْهِ: جس پر] [ الضَّلٰلَةُ ۭ : گمراہی] [فَسِيْرُوْا: پس تم لوگ چلو پھرو] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں] [ فَانظُرُوْا: پھر دیکھو] [ كَيْفَ : کیا] [كَان: تھا] [عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ: جھٹلانے والوں کا انجام]

اِنْ تَحْرِصْ عَلٰي هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ يُّضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ   37؀
[ان : اگر] [ تَحْرِصْ: آپؐ شدید خواہش کریں] [ عَلٰي هُدٰىهُمْ: ان لوگوں کو ہدایت پر] [ فَان : تو بیشک ] [ اللّٰهَ: اللہ] [ لَا يَهْدِيْ: ہدایت نہیں دیتا] [ مَنْ: اس کو جس کو] [ يُّضِلُّ: وہ گمراہ کرتا ہے] [ وَمَا لَهُمْ: اور ان کے لئے نہیں ہے] [ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ: کوئی بھی مدد کرنے والا]

وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ  ۭ بَلٰى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ   38؀ۙ
[وَاَقْسَمُوْا: اور انھوں نے قسم کھائی] [ بِاللّٰهِ: اللہ کی] [ جَهْدَ اَيْمَانهِمْ ۙ: اپنی قسموں کا زور لگاتے ہوئے] [ لَا يَبْعَثُ: نہیں اٹھائے گا] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ مَنْ: اس کو جو] [ يَّمُوْتُ ۭ: بےجان ہوتا ہے] [ بَلٰى: کیوں نہیں] [ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا: اس پر ہے سچا وعدہ] [ وَّلٰكِنَّ: اور لیکن] [ اَكْثَرَ النَاسِ: لوگوں کے اکثر] [ لَا يَعْلَمُوْنَ: جانتے نہیں ہیں]

لِيُـبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِيْ يَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِيْنَ    39؀
[لِيُـبَيِّنَ: تاکہ وہ واضح کر دے] [ لَهُمُ الَّذِي: ان کے لئے جو ] [ يَخْتَلِفُوْنَ: اختلاف کرتے ہیں] [ فِيْهِ: اس (اٹھائے جانے) میں] [ وَلِيَعْلَمَ: اور تاکہ جان لیں] [ الَّذِينَ: وہ لوگ جنھوں نے] [ كَفَرُوْٓا: انکار کیا] [ انهُمْ: کہ وہ ہی] [ كَانوْا كٰذِبِيْنَ: جھوٹے تھے]

اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ    40؀ۧ
[انمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ قَوْلُــنَا: ہمارا کہنا ہے] [ لِشَيْءٍ: کسی چیز کے لئے] [ اِذَآ: جب بھی] [ اَرَدْنٰهُ: ہم ارادہ کرتے ہیں اس کا] [ ان: کہ] [ نَّقُوْلَ: ہم کہتے ہیں] [ لَهٗ: اس سے] [ كُنْ: تو ہو جا] [ فَيَكُوْنُ: تو وہ ہو جاتی ہے]

وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَـنَةً  ۭ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ  ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ    41؀ۙ
[وَالَّذِينَ: اور وہ لوگ جنھوں نے] [ هَاجَرُوْا: ہجرت کی] [ فِي اللّٰهِ: اللہ (کی راہ) میں] [ مِنْۢ بَعْدِ مَا: اس کے بعد کہ جو] [ ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ: ہم لازماً ٹھکانہ دیں گے ان کو] [ فِي الدُّنْيَا: دنیا میں] [ حَسَـنَةً ۭ : ایک اچھے (گھر) کا] [ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ: اور یقینا آخرت کا بدلہ] [ اَكْبَرُ ۘ: سب سے بڑا ہے] [ لَوْ: کاش] [ كَانوْا يَعْلَمُوْنَ: وہ لوگ جانتے ہوتے]

 

ترکیب: (آیت۔41) لَنُبَوِّئَنَّ کا مفعول اوّل ھُمْ کی ضمیر ہے اور اس کا مفعول ثانی محذوف ہے جو کہ دَارًا ہو سکتا ہے۔ حَسَنَۃً اس کی صفت ہے۔ یَعْلَمُوْنَ کی ضمیر فاعلی، آیت۔39 میں مذکور کٰذِبِیْنَ کے لئے ہے۔

الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ    42؀
[الَّذِينَ: (اور) جو] [ صَبَرُوْا: ثابت قدم رہے] [ وَعَلٰي رَبِهِمْ: اور اپنے رب پر ہی] [ يَتَوَكَّلُوْنَ: بھروسہ کرتے رہے]

 

 (آیت۔42) اس پوری آیت کا فقرہ گذشتہ آیت میں مذکور وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا کی صفت ہے،

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ   43؀ۙ
[وَمَآ اَرْسَلْنَا: اور ہم نے نہیں بھیجا] [ مِنْ قَبْلِكَ: آپؐ سے پہلے] [ اِلَّا: مگر] [ رِجَالًا: کچھ مردوں کو] [ نُّوْحِيْٓ: ہم وحی کرتے تھے] [ اِلَيْهِمْ: جن کی طرف] [ فَسْـــَٔـلُوْٓا: پس تم لوگ پوچھو] [ اَهْلَ الذِّكْرِ: یاد دہانی والوں (یعنی اہل کتاب) سے] [ ان : اگر] [ كُنْتم لَا تَعْلَمُوْنَ: تم لوگ نہیں جانتے]

 

 (آیت۔43) رِجَالًا نکرہ مخصوصہ ہے۔ اس کی پہلی خصوصیت نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ ہے اور دوسری خصوصیت بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ہے۔

بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ۭ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ    44؀
[بِالْبَيِّنٰتِ: (جن کو بھیجا) واضح (نشانیوں کے) ساتھ] [ وَالزُّبُرِ ۭ: اور صحیفوں کے ساتھ] [ وَانزَلْنَآ: اور ہم نے اتارا] [ اِلَيْكَ: آپؐ کی طرف] [ الذِّكْرَ: اِس یاد دہانی (یعنی وحئی غیر متلو) کو] [ لِتُبَيِّنَ: تاکہ آپؐ واضح کریں] [ لِلنَاسِ: لوگوں کے لئے] [ مَا: اس کو جو] [ نُزِّلَ: نازل کیا گیا] [ اِلَيْهِمْ: ان کی طرف (یعنی ان کے واسطے)] [ وَلَعَلَهُمْ: اور شاید وہ لوگ] [ يَتَفَكَّرُوْنَ: غور و فکر کریں]

 

(آیت۔44) وَمَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ میں۔ اِلَیْھِمْ دراصل لَھُمْ کے معنی میں ہے۔

 

نوٹ۔1: آیت۔44 کے دوسرے جز میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ
کو مامور فرمایا ہے کہ آپؐ قرآن کی نازل شدہ آیات کی وضاحت لوگوں کے سامنے کر دیں۔ یہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن کریم کے حقائق اور احکام کو صحیح طور پر سمجھنا رسول اللہ کے بیان پر موقوف ہے۔ اگر ہر انسان صرف عربی زبان اور عربی ادب سے واقف ہو کر قرآن کے احکام کو اللہ کی منشاء و مرضی کے مطابق سمجھنے پر قادر ہوتا تو رسول اللہ کو وضاحت کی خدمت سپرد کرنے کے کوئی معنی نہیں رہتے۔

 رسول اللہ
کا قرآن کی وضاحت پر مامور ہونے کا حاصل یہ ہوا کہ آپؐ سے جو بھی قول و فعل ثابت ہے وہ سب قرآن ہی کے ارشادات ہیں۔ بعض تو ظاہری طور پر کسی آیت کی تفسیر و توضیح ہوتے ہیں اور بعض جگہ بظاہر قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا مگر آپؐ کے قلب مبارک میں بطور وحی اس کا القاء کیا جاتا ہے، وہ بھی ایک حیثیت سے قرآن ہی کے حکم میں ہوتا ہے، کیونکہ قرآن کی تصریح کے مطابق آپؐ کی کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی ہے۔

 (53:3۔4)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپؐ کی تمام عبادات و معاملات بوحی خداوندی اور بحکم قرآن ہیں۔ جہاں کہیں آپؐ نے اپنے اجتہاد سے کوئی کام کیا ہے تو وحی الٰہی سے یا اس پر کوئی نکیرنہ کرنے سے اس کی تصحیح اور پھر تائید کر دی جاتی ہے اس لئے وہ بھی بحکمِ وحی ہو جاتا ہے۔ (معارف القرآن)

اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ يَاْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ    45؀ۙ
[اَفَاَمِنَ: تو کیا امن میں ہوئے] [ الَّذِينَ: وہ لوگ جنھوں نے] [ مَكَرُوا: خفیہ تدبیر کی] [ السَيِّاٰتِ: برائیوں کے لئے] [ ان: کہ] [ يَّخْسِفَ: دھنسا دے] [ اللّٰهُ: اللہ] [ بِهِمُ: ان کے ساتھ] [ الْاَرْضَ: زمین کو] [ اَوْ: یا] [ يَاْتِيَهُمُ : پہنچے ان کے پاس] [الْعَذَابُ: عذاب] [ مِنْ حَيْثُ: جہاں سے] [ لَا يَشْعُرُوْنَ: وہ لوگ شعور (بھی) نہ رکھتے ہوں]

 

خ س ف

 [خُسُوْفًا: (ض) کسی جگہ کا دھنس جانا (لازم)۔ کسی کو دھنسا دینا (متعدی)۔ زیر مطالعہ آیت۔45۔]

اَوْ يَاْخُذَهُمْ فِيْ تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِيْنَ    46؀ۙ
[اَوْ: یا] [ يَاْخُذَهُمْ: یہ کہ وہ (یعنی اللہ) پکڑے ان کو] [ فِيْ تَقَلُّبِهِمْ: ان کے گھومنے پھرنے میں] [ فَمَا هُمْ: پھر وہ لوگ نہ ہوں] [ بِمُعْجِزِيْنَ: عاجز کرنے والے]

اَوْ يَاْخُذَهُمْ عَلٰي تَخَــوُّفٍ ۭ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ     47؀
اَوْ: یا] [ يَاْخُذَهُمْ: یہ کہ وہ پکڑے ان کو] [ عَلٰي تَخَــوُّفٍ ۭ : خوف زدہ ہونے کے باوجود] [فَان : تو بیشک] [ رَبَّكُمْ: تم لوگوں کا رب] [ لَرَءُوْفٌ: یقینا بےانتہاء شفقت کرنے والا ہے] [ رَّحِيْمٌ: ہر حال میں رحم کرنے والا ہے]

اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ    48؀
[اَوَلَمْ يَرَوْا: اور کیا انھوں نے غور ہی نہیں کیا] [ اِلٰى مَا: اس کی طرف جو] [ خَلَقَ اللّٰهُ: پیدا کیا اللہ نے] [ مِنْ شَيْءٍ: کوئی بھی چیز ] [ يَّتَفَيَّؤُا: (کہ) ڈھلتے ہیں] [ ظِلٰلُهٗ: ان کے سائے] [ عَنِ الْيَمِيْنِ: دا ہنی طرف سے] [ وَالشَّمَاۗىِٕلِ: اور بائیں طرفوں سے] [ سُجَّدًا: سجدہ کرنے والے ہوتے ہوئے] [ للّٰهِ: اللہ کے لئے] [ وَهُمْ: اور وہ سب] [ دٰخِرُوْنَ: حقیر ہونے والے ہوتے ہیں]

 

 د خ ر

 [دَخْرًا: (ف۔ س) ذلیل ہونا۔ حقیر ہونا۔]

 [ دَاخِرٌ اسم الفاعل ہے۔ ذلیل و حقیر ہونے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔48]

وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّـةٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ    49؀
[وَللّٰهِ: اور اللہ کے لئے ہی] [ يَسْجُدُ: سجدہ کرتا ہے] [ مَا: وہ جو] [ فِي السَّمٰوٰتِ: آسمانوں میں ہے ] [ وَمَا: اور وہ جو] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں ہے] [ مِنْ دَاۗبَّةٍ: کوئی بھی چلنے والا] [ وَّالْمَلٰۗىِٕكَةُ: اور فرشتے (بھی)] [ وَهُمْ؛اور وہ سب] [ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ: بڑائی نہیں چاہتے]

يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ    50؀۞ۧ
[يَخَافُوْنَ: وہ ڈرتے ہیں] [ رَبَّهُمْ: اپنے رب سے] [ مِّنْ فَوْقِهِمْ: اپنے اوپر سے] [ وَيَفْعَلُوْنَ: اور وہ کرتے ہیں] [ مَا: وہ جو ] [ يُؤْمَرُوْنَ: انھیں حکم دیا جاتا ہے]

وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـهَيْنِ اثْـنَيْنِ ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ    51؀
[وَقَالَ: اور کہا] [ اللّٰهُ: اللہ نے] [ لَا تَتَّخِذُوْٓا: تم لوگ مت بنائو] [ اِلٰـهَيْنِ اثْـنَيْنِ ۚ: دو الٰہ] [ انمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ هُوَ: وہ] [ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ : واحد الٰہ ہے] [ فَاِيَّايَ: پس صرف مجھ سے ہی] [ فَارْهَبُوْنِ: پھر خوف کرو میرا]

وَلَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَهُ الدِّيْنُ وَاصِبًا  ۭ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ    52؀
[وَلَهٗ: اور اس کا ہی ہے] [ مَا: وہ جو] [ فِي السَّمٰوٰتِ: آسمانوں میں ہے] [ وَالْاَرْضِ: اور زمین میں ہے] [ وَلَهُ: اور اس کے لئے ہی ہے] [ الدِّيْنُ: مکمل نظامِ حیات] [ وَاصِبًا : لازمی ہوتے ہوئے] [ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ: تو کیا اللہ کے علاوہ (کسی) سے] [ تَتَّقُوْنَ: تم لوگ ڈرتے ہو]

 

 و ص ب

 [وُصُوْبًا: (ض) دائمی ہونا۔ لازم ہونا۔]

 [ وَِاصِبٌ فاعل کے وزن پر صفت ہے۔ دائمی۔ لازمی۔ زیر مطالعہ آیت۔52]

 

ترکیب: (آیت۔52) اَفَغَیْرَ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ تَتَّقُوْنَ کا مفعول مقدم ہے۔

وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ    53؀ۚ
[وَمَا: اور جو] [ بِكُمْ: تمھارے لئے ہے] [ مِّنْ نِّعْمَةٍ: کوئی بھی نعمت] [ فَمِنَ اللّٰهِ: تو (وہ) اللہ (کے پاس) سے ہے] [ ثُمَّ: پھر] [ اِذَا: جب بھی] [ مَسَّكُمُ: چھوتی ہے تمھیں] [ الضُّرُّ: سختی] [ فَاِلَيْهِ: تو اس کی طرف ہی] [ تَجْــــَٔــرُوْنَ: تم لوگ گڑ گڑاتے ہو]

 

 ج ء ر

 [جَأْرًا: (ف) وحشی جانور کا گھبراہٹ میں زور سے آواز نکالنا۔ چلانا۔ گڑ گڑانا۔ زیر مطالعہ آیت۔53 ]

ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُوْنَ    54؀ۙ
[ثُمَّ: پھر] [ اِذَا: جب کبھی ] [ كَشَفَ: وہ ہٹاتا ہے] [ الضُّرَّ: سختی کو] [ عَنْكُمْ: تم لوگوں سے] [ اِذَا: تب ہی] [ فَرِيْقٌ: ایک فریق ] [ مِّنْكُمْ: تم میں سے] [ بِرَبِهِمْ: اپنے رب کے ساتھ] [ يُشْرِكُوْنَ: شریک کرتے ہیں]

 

(آیت۔54) فَرِیْقٌ اسم جمع ہے اس لئے بِرَبِّھِمْ میں جمع کی ضمیر اور یُشْرِکُوْنَ جمع کے صیغے میں آیا ہے۔

لِيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰهُمْ ۭ فَتَمَتَّعُوْا  ۣ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ   55؀
[لِيَكْفُرُوْا: نتیجۃً وہ ناشکری کرتے ہیں] [ بِمَآ: اس کی جو] [ اٰتَيْنٰهُمْ ۭ: ہم نے دیا ان کو] [ فَتمتَّعُوْا ۣ : تو تم لوگ فائدہ اٹھا لو] [فَسَوْفَ: پھر عنقریب] [ تَعْلَمُوْنَ: تم لوگ جان لو گے]

 

(آیت۔55) لِیَکْفُرُوْا کے لام کو لامِ کَی کے بجائے لام عاقبت ماننا زیادہ بہتر ہے۔ تَمَتَّعُوْا میں دو امکانات ہیں۔ یہ فعل ماضی میں جمع مذکر غائب کا صیغہ بھی ہو سکتا ہے اور فعل امر میں جمع مذکر مخاطب کا صیغہ بھی ہو سکتا ہے۔ آگے تَعْلَمُوْنَ آیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ فعل امر ہے۔ اگر یَعْلَمُوْنَ آتا تو پھر اسے فعل ماضی مانا جاتا۔

وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ  ۭ تَاللّٰهِ لَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ    56؀
[وَيَجْعَلُوْنَ: اور وہ بناتے ہیں] [ لِمَا: اس کے لئے جس کا] [ لَا يَعْلَمُوْنَ: وہ لوگ علم نہیں رکھتے] [ نَصِيْبًا: ایک حصہ] [ مِّمَا: اس میں سے جو] [ رَزَقْنٰهُمْ ۭ : ہم نے روزی دی ان کو] [ تَاللّٰهِ: اللہ کی قسم] [ لَتُسْـــَٔـلُنَّ: تم لوگوں سے لازماً پوچھا جائے گا] [ عَمَا: اس کے بارے میں جو] [ كُنْتم تَفْتَرُوْنَ: تم لوگ گھڑا کرتے تھے]

 

نوٹ۔1: آیت۔56 میں ’’ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘ کے حقیقی مفہوم تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ذہن میں کچھ باتیں واضح ہونا ضروری ہیں۔ مادہ ’’ ع ل م‘‘ سے مختلف اسماء و افعال قرآن مجید میں بکثرت استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ زیادہ تر لغوی مفہوم کے بجائے اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن کی اصطلاح میں ’’ علم‘‘ ایسی معلومات کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے اپنے انبیاء و رسل کو دی ہوں۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ اور اگر آپؐ نے پیروی کی ان لوگوں کی خواہشات کی اس کے بعد کہ جو آپؐ کے پاس آیا علم میں سے۔‘‘ (2:145)۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء و رسل کو جو کچھ بتایا ہے اور بتانا ہے اس میں سے کچھ آیا ہے باقی ابھی آنا ہے۔

 اسی طرح سے قرآن میں جہاں کہیں علم کی نفی آئی ہے بالعموم وہاں مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی بات جس کی کوئی سند سابقہ انبیاء و رسل کی تعلیمات میں اور رسول اللہ
کی تعلیمات یعنی قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو۔ جیسے فرمایا ’’ اور تو پیچھے مت پڑ اس کے تیرے لئے جس کا کوئی علم نہیں ہے۔‘‘ (17:36)۔ ’’ اور اگر وہ دونوں یعنی والدین تجھ سے جہاد کریں اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے لئے، نہیں ہے تیرے لئے جس کا کوئی علم، تو ان کی اطاعت مت کر‘‘ (31:15)۔ یہ اور ایسے متعدد مقامات پر علم نہ ہونے کا مطلب ہے قرآن و حدیث میں سند نہ ہونا۔

 واضح رہے کہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر یہ لفظ اصطلاحی کے بجائے لغوی مفہوم میں بھی آیا ہے۔ جیسے قارون کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا ’’ اس نے کہا کچھ نہیں سوائے اس کے کہ مجھے ملا ہے یہ ایک علم کی بنیاد پر جو میرے پاس ہے۔‘‘ (28:78)۔ یہاں علم کا مطلب ہے تجربہ اور مہارت یعنی ہنرمندی۔ کوئی اگر آیت کے سیاق و سباق کو نظر میں رکھے تو وہ آسانی سے تمیز کرسکتا ہے کہ کہاں یہ لفظ لغوی مفہوم میں آیا ہے۔

 اس لحاظ سے آیت۔56 کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان شکرانے، نذرونیاز اور چڑھاوے میں غیر اللہ کے لئے جو حصہ مقرر کر لیتا ہے، ان ہستیوں کے وجود اور صفات کی اس کے پاس قرآن و حدیث میں کوئی سند نہیں ہے۔

وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ ۙ وَلَهُمْ مَّا يَشْتَهُوْنَ    57؀
[وَيَجْعَلُوْنَ: اور وہ لوگ بناتے ہیں] [ للّٰهِ: اللہ کے لئے] [ الْبَنٰتِ: بیٹیاں،] [ سُبْحٰنَهٗ ۙ: پاکیزگی اس کی ہے،] [ وَلَهُمْ: اور ان کے لئے] [ مَا: وہ ہے جو] [ يَشْتَهُوْنَ: وہ چاہتے ہیں]

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ    58؀ۚ
[وَاِذَا؛اور جب کبھی] [ بُشِّرَ: خوشخبری دی جاتی ہے] [ اَحَدُهُمْ؛ان کے کسی ایک کو] [ بِالْانثٰى: مؤنث (یعنی بیٹی) کی] [ ظَلَّ؛تو ہو جاتا ہے] [ وَجْهُهٗ: اس کا چہرہ] [ مُسْوَدًّا؛سیاہ ] [ وَّهُوَ؛اور وہ] [ كَظِيْمٌ: غم زدہ ہے]

 

نوٹ۔1: تفسیر روح البیان میں ہے کہ مسلمان کو چاہئے کہ لڑکی پیدا ہونے سے زیادہ خوشی کا اظہار کرے تاکہ اہل جاہلیت کے فعل پر ردّ ہو جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ وہ عورت مبارک ہوتی ہے جس کے پہلے پیٹ سے لڑکی پیدا ہو۔ آیت نمبر۔42:49 میں بیٹوں سے پہلے بیٹیوں کا ذکر کرنے سے اس کی طرف اشارہ پایاجاتا ہے کہ پہلے لڑکی پیدا ہونا افضل ہے (معارف القرآن)

يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْۗءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ  ۭ اَيُمْسِكُهٗ عَلٰي هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّهٗ فِي التُّرَابِ  ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ    59؀
[يَتَوَارٰى: وہ چھپتا ہے] [ مِنَ الْقَوْمِ: لوگوں سے] [ مِنْ سُوْۗءِ مَا: اس کی برائی (کے سبب) سے] [ بُشِّرَ؛اس کو خوشخبری دی گئی] [ بِهٖ ۭ؛جس کی] [ اَيُمْسِكُهٗ: چاہے وہ تھام لے اس کو] [ عَلٰي هُوْنٍ: رسوائی کے باوجود] [ اَمْ يَدُسُّهٗ: یا وہ دھنسا دے اس کو] [ فِي التُّرَابِ ۭ: مٹی میں] [ اَلَا: خبردار] [ سَاۗءَ: کتنا برا ہے] [ مَا: وہ جو] [ يَحْكُمُوْنَ: یہ لوگ فیصلہ کرتے ہیں]

د س س


 [دَسًّا: (ن) کسی چیز کو کسی چیز کے نیچے چھپا دینا۔ کسی چیز میں ٹھونس دینا۔ زیر مطالعہ آیت۔59]

لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۚ وَلِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى  ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ     60؀ۧ
[لِلَّذِيْنَ: ان کے لئے جو] [ لَا يُؤْمِنُوْنَ: ایمان نہیں لاتے] [ بِالْاٰخِرَةِ: آخرت پر] [ مَثَلُ السَّوْءِ ۚ: بُرائی کی مثال ہے] [ وَللّٰهِ: اور اللہ کے لئے] [ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى ۭ : بلند ترین مثال ہے] [ وَهُو: اور وہ ہی] [ الْعَزِيْزُ: بالادست ہے] [ الْحَكِيْمُ: حکمت والا ہے]

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ    61؀
[وَلَوْ: اور اگر] [ يُؤَاخِذُ: پکڑے] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ النَاسَ: لوگوں کو] [ بِظُلْمِهِمْ: ان ظلم کے سبب سے] [ مَا تَرَكَ: تو وہ نہ چھوڑے] [ عَلَيْهَا: اس پر] [ مِنْ دَاۗبَّةٍ: کوئی بھی چلنے والا] [ وَّلٰكِنْ: اور لیکن ] [ يُّؤَخِّر: وہ مہلت دیتا ہے] [ُهُمْ؛ان کو] [ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ: ایک معین مدت تک] [ فَاِذَا؛پھر جب] [ جَاۗءَ؛آ جائے ] [ اَجَلُهُمْ؛ان کا وقت] [ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ: تو وہ لوگ پیچھے نہیں ہوں گے] [ سَاعَةً: ایک گھڑی (لمحہ) بھر] [ وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ: اور نہ ہی آگے ہوں گے]

وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُـبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ۙ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ    64؀
[وَمَآ انزَلْنَا: اور ہم نے نہیں اتارا] [ عَلَيْكَ: آپؐ پر] [ الْكِتٰبَ: اس کتاب کو] [ اِلَّا: مگر اس واسطے ] [ لِتُـبَيِّنَ: کہ آپؐ واضح کر دیں] [ لَهُمُ: ان کے لئے] [ الَّذِي: اس کو] [ اخْتَلَفُوْا: انھوں نے اختلاف کیا] [ فِيْهِ ۙ: جس میں] [ وَهُدًى: اور ہدایت کے واسطے] [ وَّرَحْمَةً: اور رحمت کے واسطے] [ لِقَوْمٍ: ایسے لوگوں کے لئے] [ يُّؤْمِنُوْنَ: جو ایمان رکھتے ہیں]

 

 (آیت۔24)۔ ھُدًی اور رَحْمَۃً کو یہاں حال کے بجائے مفعول لَہٗ ماننا بہتر ہے۔

وَاللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا  ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ   65؀ۧ
[وَاللّٰهُ: اور اللہ نے] [ انزَلَ: اتارا] [ مِنَ السَّمَاۗءِ: آسمان سے] [ مَاۗءً: کچھ پانی] [ فَاَحْيَا بِهِ: پھر اس نے زندہ کیا اس سے] [ الْاَرْضَ: زمین کو] [ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ: اس کی موت کے بعد] [ ان : بیشک ] [ فِيْ ذٰلِكَ: اس میں] [ لَاٰيَةً: یقینا ایک نشانی ہے] [ لِقَوْمٍ: ایسے لوگوں کے لئے] [ يَّسْمَعُوْنَ: جو کان دھرتے ہیں]

 

 نوٹ۔1: آیت۔65 میں ہے کہ آسمان سے پانی برستا ہے تو مردہ زمین جی اٹھتی ہے۔ اس کے آگے یہ نہیں فرمایا کہ اس میں ان کے لئے نشانی ہے جو دیکھتے ہیں بلکہ فرمایا کہ ان کے لئے نشانی ہے جو سن کر سمجھتے ہیں۔ اس سماعت کا تعلق گذشتہ آیت۔64 سے ہے جس میں قرآن کو ہدایت اور رحمت کہا گیا ہے۔ اس طرح مطلب یہ ہوا کہ جس طرح آسمان سے برسنے والے پانی سے مردہ زمین جی اٹھتی ہے اسی طرح آسمان سے برسنے والی اس وحی یعنی قرآن سے ان کے مردہ دل جی اٹھتے ہیں جو اس کو سن کر سمجھتے ہیں (تفسیر ابن کثیر سے ماخوذ)۔

وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً   ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ   66؀
[وَان : اور بیشک] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ فِي الْانعام: چوپایوں میں] [ لَعِبْرَةً ۭ: یقینا ایک عبرت ہے] [ نُسْقِيْكُمْ: ہم پلاتے ہیں تم لوگوں کو] [ مِّمَا: اس میں سے جو] [ فِيْ بُطُوْنِهٖ: ان کے پیٹوں میں ہے] [ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ: خون اور گوبر کے درمیان سے] [ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا: (خون اور گوبر کی) ملاوٹ سے پاک دودھ] [ سَاۗىِٕغًا: خوشگوار ہوتے ہوئے] [ لِلشّٰرِبِيْنَ: پینے والوں کے لئے]

 

 ف ر ث

 [فَرَثًا: (س) شکم سیر ہونا۔]

 [ فَرْثٌ گوبر (جب تک اوجھڑی میں رہے) زیر مطالعہ آیت۔66۔ ]

 

(آیت۔66) اَلْاَنْعَام اسمِ جنس ہے۔ اس لئے بُطُوْنِہٖ میں واحد مذکر کی ضمیر چہٖ بھی جائز ہے۔ نُسْقِیْ کا مفعول اوّل کُمْ کی ضمیر ہے اور اس کا مفعول ثانی لَبَنًا خَالِصًا ہے جبکہ سَاگغًا حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔

وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِيْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّرِزْقًا حَسَـنًا  ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ    67؀
[وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِيْلِ وَالْاَعْنَابِ: انگور اور کھجور کے پھلوں سے] [ تَتَّخِذُوْنَ: تم لوگ بناتے ہو] [ مِنْهُ: جس سے] [ سَكَرًا: کچھ نشہ آور چیز] [ وَّرِزْقًا حَسَـنًا ۭ: اور کچھ اچھا رزق] [ ان: بیشک] [ فِيْ ذٰلِكَ: اس میں] [ لَاٰيَةً: یقینا ایک نشانی ہے] [ لِقَوْمٍ: ایسے لوگوں کے لئے] [ يَّعقلوْنَ: جو عقل سے کام لیتے ہیں]

 

نوٹ۔2: آیت 67۔ میں نشہ اور رزق حسن کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے نشہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ چنانچہ مکہ میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابۂ کرام میں سے تاڑنے والے تاڑ گئے تھے کہ نشہ نے حرام ہونا ہے۔ چنانچہ مدینہ میں اس کے حرام ہونے کا حکم آ گیا۔ (حافظ احمد یار صاحب مرحوم)

 صحابۂ کرام کا رویہ یہ تھا کہ وہ لوگ قرآن میں اللہ کی منشا و مرضی تلاش کرتے تھے۔ اس لئے اس آیت میں ان کو صاف نظر آ گیا کہ نشہ ہمارے رب کو پسند نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے ترقی پسند مسلمان بھائی قرآن میں اپنی مرضی کا جواز تلاش کرتے ہیں۔ اس لئے ان کو اسی آیت میں نشہ کے جائز ہونے کا جواز نظر آتا ہے اور اس کے حرام ہونے کا حکم نظر نہیں آتا کیونکہ اس میں حرام کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ رِجْسٌ (نجاست) کا لفظ آیا ہے۔ فکر ہرکس بقدرِ ہمت اوست۔

نوٹ۔3: رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ مکھیوں کی تمام قسمیں جہنم میں جائیں گی جو وہاں جہنمیوں پر بطور عذاب مسلط کر دی جائیں گی۔ مگر شہد کی مکھی جہنم میں نہیں جائے گی (معارف القرآن)۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ باقی مکھیاں اپنے لئے جیتی ہیں جبکہ شہد کی مکھی دوسروں کے لئے جیتی ہے۔

نوٹ۔4: شہد کی افادیت کے متعلق جو کچھ تفاسیر میں ہے اور حکیم لوگوں نے جو نسخے تجویز کئے ہیں ان کو ہماری خوش اعتقادی پر محمول کر کے نظر انداز کردیا جاتا ہے، کیونکہ ان کا کوئی سائنٹفک ثبوت نہیں ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کی تسلی کے لئے ہماری خوش اعتقادی کا اب سائنٹفک ثبوت بھی سامنے آ گیا ہے۔ مغربی ممالک میں شہد سے مختلف بیماریوں کے علاج کے جو تجربے کئے گئے ہیں ان کے متعلق کینیڈا کے ایک ہفت روزہ ’’ ویکلی ورلڈ نیوز‘‘ نے اپنی 17۔ جنوری 1995 ء کی اشاعت میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کے کچھ اقتباسات درج ہیں:

جوڑوں کا درد: ایک حصہ شہد دو حصے نیم گرم پانی میں حل کریں اور بعد میں اس میں ایک چھوٹے چمچ کے برابر دارچینی کا پائوڈر ملا لیں۔ جسم کے درد والے حصہ پر اس مرکب کی ہلکی ہلکی مالش کریں۔ اس سے چند ہی منٹوں میں درد میں فوری طور پر افاقہ ہو گا یا پھر
Arthritis کے مریض یہ بھی کرسکتے ہیں کہ روزانہ صبح و شام ایک پیالی گرم پانی دو چمچ شہد اور ایک چھوٹا چمچ دار چینی کا پائوڈر ملا کر یہ مرکب باقاعدگی سے پئیں۔ درد چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہو اس سے افاقہ ہو گا۔

 اس علاج کے سلسلے میں کو پن ہیگن یونیورسٹی میں حال ہی میں ایک تجربہ کیا گیا۔ ایک ڈاکٹر نے
Arthritis کے تقریباً دو ہزار مریضوں کو روزانہ ناشتے سے قبل ایک شربت باقاعدگی سے پلانا شروع کیا جو صرف ایک چمچ شہد اور نصف چمچ دار چینی کے پائوڈر پر مشتمل تھا۔ ایک آدھ ہفتے میں ہی 731 مریضوں کا درد ختم ہو گیا اور ایک ماہ میں تو وہ سارے مریض جو درد کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر تھے، چلنے پھرنے لگے۔

کولسٹرول میں کمی: سولہ اونس چائے کے پانی میں دو چمچ شہد اور تین چمچ دار چینی کا پائوڈر ملا کر پلانے سے دو گھنٹے میں مریض کے خون میں موجود کولسٹرول میں دس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس سلسلے میں ہونے والی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ دن میں تین دفعہ اس طرح پینے سے کولسٹرول کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر الیکزانڈر اندریو اور اردک ویگوئیل مین نے ایک مشہور میڈیکل جرنل میں یہ انکشاف کیا ہے کہ اگر روزانہ اس طرح چائے بنا کر پی جائے تو خون میں کولسٹرول کی مقدار چاہے خطرے کی حدود کو چھو رہی ہو تو وہ بھی کنٹرول ہو جاتی ہے۔ اور چربی کی مقدار بھی اپنی حد میں رہتی ہے۔ اس جرنل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روز مرہ غذا میں خالص شہد کے باقاعدہ استعمال سے کولسٹرول کی شکایت کبھی بھی پید انہیں ہو سکتی۔

امراضِ قلب: روزانہ صبح ناشتے میں بریڈ یا روٹی کے ساتھ جام یا جیلی لینے کی بجائے شہد اور دارچینی کے پائوڈر کا پیسٹ بنا کر لینے سے جسم میں اور خون کی نالیوں میں جمع ہونے والی چربی پگھل جاتی ہے اور اس طرح امراضِ قلب کے حملے سے انسان محفوظ رہتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جن لوگوں کو ایک دفعہ ہارٹ اٹیک ہو چکا ہو وہ بھی دوسرے اٹیک سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کے باقاعدہ استعمال سے دل کی دھڑکن معمول پر رہتی ہے اور تنفس کی تکلیف میں بھی افاقہ ہوتا ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں کئے جانے والے تجربات کی روشنی میں ایک اہم بات سامنے آئی ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ خون کی نالیوں میں جو سختی آ جاتی ہے اور ان کی لچک ختم ہو جاتی ہے۔ شہد اور دارچینی کے باقاعدہ استعمال سے یہ صورتحال ختم ہو جاتی ہے۔ ان کا لچکیلاپن بحال ہو جاتا ہے اور برقرار رہتا ہے۔

وبائی بیکٹیریا سے جسم کی حفاظت: ماہرین ڈاکٹر اور تجربات کرنے والے سائنسدانوں کا بیان ہے کہ شہد اور دار چینی استعمال کرنے والوں کے جسموں میں موجود بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی قوتِ مدافعت میں تین گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس سے انہیں وبائی بیکٹیریا اور بیماریوں کے دیگر جراثیم سے تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ شہد میں اللہ تعالیٰ نے بےشمار مقوی اجزاء اور وٹا من رکھے ہیں جو اس قسم کے جراثیم کا فوری طور پر خاتمہ کر دیتے ہیں۔

طویل العمری (لمبی عمر) : چین اور مشرقِ وسطیٰ کے حکماء کا دعویٰ ہے کہ شہد اور دارچینی کے پائو ڈر کی چائے پینے والے کبھی بھی بوڑھے نہیں ہوتے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ تین کپ پانی میں چار چمچ شہد ایک چمچ دار چینی کا پائوڈر ڈال کر اسے ابالا جائے اور اس کی چائے بنائی جائے۔ دن میں تین چار دفعہ اس طرح کی چائے پینے سے جلد کے خلیے جوان رہتے ہیں اور عمر بڑھنے کے باوجود جلد میں ڈھیلا پن نہیں آتا۔ اس سے لمبی عمر پانے کے امکانات بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور سو سال کی عمر میں بھی آدمی جوانوں کی طرح کام کرسکتا ہے۔

چہرے کے کیل مہاسے وغیرہ: تین چمچ برابر شہد کو ایک چمچ کے برابر دارچینی کے پائوڈر میں ملا کر پیسٹ بنا لیں۔ رات کو سوتے وقت چہرے کے کیلوں پر اچھی طرح مل لیں۔ صبح اٹھ کر چنے کے بیسن سے یا سادہ پانی سے چہرہ دھو لیں۔ اس عمل کو دو ہفتے تک دھرائیں۔ اس سے پرانے سے پرانے اور مستقل مہاسے بھی صاف ہو جائیں گے۔

کینسر: جاپان اور آسٹریلیا میں کئے جانے والے حالیہ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ پیٹ اور گلے کے غدود کا کینسر شہد اور دارچینی کی مدد سے روکا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے کینسر کا شکار ہونے والے مریضوں کو روزانہ دن میں تین بار شہد اور دارچینی کا مرکب دیا جاتا ہے۔ جس سے انہیں دیگر دوائوں کے مقابل کہیں جلد افاقہ محسوس ہوا۔ معلومات کے مطابق ان مریضوں کو روزانہ دن میں تین بار ایک چمچ شہد اور ایک چمچ دارچینی کا پائوڈر ملا کر ایک ماہ تک دیا جاتا رہا جس کا مثبت نتیجہ سامنے آیا۔ معالج کا کہنا ہے کہ ایسے مریضوں کو صرف ڈاکٹروں کے مشوروں پر ہی عمل کرنا چاہیے لیکن پھر بھی اس نے کہا کہ میں ایسے ڈاکٹروں کو مشورہ دوں گا کہ وہ اس طرح کے علاج کو بلاجھجھک اپنا سکتے ہیں کیونکہ اس کے نتائج نہایت حواصلہ افزاء ہیں۔

خالص شہد کا ٹیسٹ: پانی سے بھرے شیشے کے برتن میں چند قطرے ڈالیں اگر جوں کے توں جا کر تہہ میں بیٹھ جائیں تو خالص اور اگر پھیل جائیں تو نقلی اور نہ خالص۔

نقصان: شہد اور گھی مساوی وزن میں استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ شہد کے ساتھ مچھلی، خربوزہ، سرکہ اور مولی نہ کھائیں۔ اگر طبیعت میں گرمی ہو تو موسمِ گرما میں شہد میں دودھ، پانی اور دہی ملا کر استعمال کریں۔

وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ   68؀ۙ
[وَاَوْحٰى: اور وحی کیا] [ رَبُّكَ: آپؐ کے رب نے] [ اِلَى النَّحْلِ: شہد کی مکھی کی طرف] [ ان: کہ] [ اتَّخِذِيْ: تو بنا] [ مِنَ الْجبالِ: پہاڑوں میں سے] [ بُيُوْتًا: کچھ گھر] [ وَّمِنَ الشَّجَرِ: وَمِمَا: اور اس میں سے جو] [ يَعْرِشُوْنَ: یہ لوگ چھت ڈالتے ہیں]

ثُمَّ كُلِيْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُكِيْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا  ۭ يَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ     69؀
[ثُمَّ: پھر] [ كُلِيْ: تو کھا] [ مِنْ كُلِ الثَّمَرٰتِ: سارے پھلوں میں سے] [ فَاسْلُكِيْ: پھر تو چل ] [ سُبُلَ رَبِكِ: اپنے رب کے راستوں میں] [ ذُلُلًا ۭ: جو سدھائے ہوئے ہیں] [ يَخْرُجُ؛نکلتی ہے] [ مِنْۢ بُطُوْنِهَا: ان کے پیٹوں سے] [ شراب: پینے کی ایک چیز] [ مُّخْتَلِفٌ: مختلف ہیں] [ اَلْوَانهٗ: اس کے رنگ] [ فِيْهِ: اس میں] [ شِفَاۗءٌ: شفا ہے] [ لِلنَاسِ ۭ: لوگوں کے لئے] [ ان: بیشک] [ فِيْ ذٰلِكَ: اس میں] [ لَاٰيَةً: ایک نشانی ہے] [ لِقَوْمٍ: ایسے لوگوں کے لئے] [ يَّتَفَكَّرُوْنَ: جو غوروفکر کرتے ہیں]

وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ ڐوَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا  ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ    70؀ۧ
[وَاللّٰهُ: اور اللہ ہی نے] [ خَلَقَكُمْ: پیدا کیا تم لوگوں کو] [ ثُمَّ: پھر] [ يَتَوَفّٰىكُمْ: وہ وفات دیتا ہے تم کو] [ ڐوَمِنْكُمْ مَنْ: اور تم میں سے وہ بھی ہے جو] [ يُّرَدُّ: لوٹا دیا جاتا ہے] [ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ: عمر کے سب سے گھٹیا (حصہ) کی طرف] [ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ: تاکہ وہ نہ جانے] [ بَعْدَ عِلْمٍ: جاننے کے بعد] [ شَـيْــــًٔـا: کچھ بھی] [ ۭان : بیشک ] [ اللّٰهَ: اللہ] [ عَلِيْمٌ: جاننے والا ہے] [ قَدِيْرٌ: قدرت والا ہے]

وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِيْنَ فُضِّلُوْا بِرَاۗدِّيْ رِزْقِهِمْ عَلٰي مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيْهِ سَوَاۗءٌ  ۭ اَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ     71؀
[وَاللّٰهُ: اور اللہ ہی نے ] [ فَضَّلَ: فضیلت دی] [ بَعْضَكُمْ: تمھارے بعض کو] [ عَلٰي بَعْضٍ: بعض پر] [ فِي الرِّزْقِ ۚ : روزی میں] [فَمَا الَّذِينَ: تو نہیں ہیں لوگ جن کو] [ فُضِّلُوْا: فضیلت دی گئی] [ بِرَاۗدِّيْ رِزْقِهِمْ: اپنی روزی کو لوٹانے والے] [ عَلٰي مَا: اس پر جس کے] [ مَلَكَتْ اَيْمَانهُمْ: مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ ] [ فَهُمْ: کہ نتیجتاً وہ سب] [ فِيْهِ: اس میں] [ سَوَاۗءٌ ۭ: برابر ہوں] [ اَفَبِنِعْمَةِ ا للّٰهِ : تو کیا اللہ کی نعمت کا] [ يَجْحَدُوْنَ: وہ لوگ جانتے بوجھتے انکار کرتے ہیں]

 

ترکیب: (آیت۔71) فَمَا الَّذِیْنَ کا مَا نافیہ ہے۔ اَلَّذِیْنَ فُضِّلُوْا اس کا اسم ہے۔ جبکہ مرکب اضافی بِرَادِّیْ رِزْقِھِمْ اس کی خبر ہے۔ رَادِّیْ دراصل رَادُّوْنَ تھا۔ اس پر بِ داخل ہوا تو حالت جر میں یہ رَادِّیْنَ ہو گیا۔ پھر مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا تو رَادِّیْ استعمال ہوا۔ فَھُمْ کا فَا سببیہ ہے اور فِیْہِ کی ضمیر رزق کے لئے ہے۔

 

نوٹ۔1: زمانۂ حال میں لوگوں نے آیت۔71 کو اسلام کے فلسفۂ معیشت کی اصل اور قانونِ معیشت کی ایک اہم دفعہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک آیت کا منشا یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے رزق میں فضیلت عطا کی ہے ان کو اپنا رزق اپنے نوکروں کی طرف ضرور لوٹا دینا چاہئے۔ اگر نہ لوٹائیں گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پائیں گے۔ حالانکہ اس پورے سلسلۂ کلام میں قانون معیشت کے بیان کا کوئی موقع نہیں ہے۔ اوپر سے تمام تقریر شرک کے ابطال اور توحید کے اثبات میں ہوتی چلی آ رہی ہے اور آگے بھی مسلسل یہی مضمون چل رہا ہے۔ اس کے بیچ میں یکایک قانون معیشت کی ایک دفعہ بیان کر دینے کا کیا تک ہے۔ آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس کے بالکل برعکس مضمون بیان ہو رہا ہے۔ یہاں استدلال یہ ہے کہ تم خود اپنے مال میں اپنے نوکروں کو جب برابر کا درجہ نہیں دیتے تو پھر کس طرح سمجھتے ہو کہ جو احسانات اللہ نے تم پر کئے ہیں اس کے شکریہ میں اللہ کے ساتھ اس کے غلاموں کا بھی حصہ ہے اور یہ سمجھ بیٹھو کہ اختیارات اور حقوق میں اللہ کے یہ غلام بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔

 شاید لوگوں کو غلط فہمی اَفَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ انھوں نے اس کا مطلب یہ سمجھا کہ اپنے زیر دستوں کی طرف رزق نہ پھیر دینا ہی اللہ کی نعمت کا انکار ہے۔ حالانکہ جو شخص قرآن میں کچھ بھی نظر رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اللہ کی نعمت کا شکریہ غیر اللہ کو ادا کرنا قرآن کی نگاہ میں اللہ کی نعمتوں کا انکار ہے۔ فرض کریں کہ آپ ایک ضرورت مند پر ترس کھا کر اس کی مدد کرتے ہیں اور وہ اٹھ کر آپ کے سامنے ایک دوسرے آدمی کا شکریہ ادا کرتا ہے، تو آپ یہ ضرور سمجھیں گے کہ یہ ایک احسان فراموش آدمی ہے۔ کیونکہ اس شخص کی اس حرکت کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس کی جو مدد کی ہے وہ اپنی فیاضی کی وجہ سے نہیں کی ہے بلکہ اس دوسرے شخص کی خاطر کی ہے اور آپ کوئی رحیم اور شفیق انسان نہیں ہیں بلکہ محض ایک دوست نواز اور یار باش آدمی ہیں۔ چند دوستوں کے توسل سے کوئی آئے تو آپ اس کی مدد اپنے دوستوں کی خاطر کر دیتے ہیں ورنہ آپ سے کسی کو کچھ فیض حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے قرآن میں یہ بات بطور ایک قاعدۂ کلیہ کے پیش کی گئی ہے کہ محسن کے احسان کا شکریہ غیر محسن کو ادا کرنا دراصل محسن کے احسان کا انکار کرنا ہے۔

 نعمت الٰہی کے انکار کا یہ مفہوم سمجھ لینے کے بعد اَفَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ کا یہ مطلب صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ جب لوگ خود اپنی زندگی میں مالک اور نوکر کا فرق ہر وقت ملحوظ رکھتے ہیں تو پھر کیا ایک اللہ ہی کے معاملہ میں ان کو اس بات پر اصرار ہے کہ اس کے بندوں کو اس کا شریک قرار دیں اور جو نعمتیں اس سے پائی ہیں ان کا شکریہ اس کے بندوں کو ادا کریں۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ)

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِيْنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ۭ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ هُمْ يَكْفُرُوْنَ    72؀ۙ
[وَاللّٰهُ: اور اللہ ہی نے] [ جَعَلَ: بنایا ] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ مِّنْ انفُسِكُمْ: تمھارے اپنے آپ (یعنی جنس) سے] [ اَزْوَاجًا؛کچھ جوڑے] [ وَّجَعَلَ: اور اس نے بنائے] [ لَكُمْ: تمہارے لئے] [ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ: تمھارے جوڑوں (بیویوں) سے] [ بَنِيْنَ: بیٹے] [ وَحَفَدَةً: اور پوتے] [ وَّرَزَقَكُمْ: اور اس نے دیا تم کو] [ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ۭ: پاکیزہ (چیزوں) سے] [ اَفَبِالْبَاطِلِ: تو کیا باطل پر] [ يُؤْمِنُوْنَ: وہ ایمان لاتے ہیں] [ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ: اور اللہ کی نعمت کا] [ هُمْ: وہ لوگ ہی] [ يَكْفُرُوْنَ: انکار کرتے ہیں]

 

ح ف د

 [حَفْدًا: (ض) کام جلد کرنا۔ مستعدی سے خدمت کرنا۔]

 [ حَافِدٌ ج حَفَدَۃٌ۔ مستعدی سے خدمت کرنے والا ۔ پوتے نواسے وغیرہ (کیونکہ پرانے زمانے میں یہ مستعدی سے بزرگوں کی خدمت کرتے تھے) زیر مطالعہ آیت۔72۔]

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ   73؀ۚ
[وَيَعْبُدُوْنَ: اور وہ بندگی کرتے ہیں] [ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے علاوہ] [ مَا: اس کی جو] [ لَا يَمْلِكُ: اختیار نہیں رکھتے] [ لَهُمْ: ان کے لئے] [ رِزْقًا: روزی دینے کا] [ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ: زمین اور آسمانوں سے] [ شَـيْـــًٔـا: کسی چیز کا] [ وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ: اور نہ وہ استطاعت رکھتے ہیں]

 

 (آیت۔73) یَمْلِکُ کا مفعول رِزْقًا ہے۔ یہ مصدر ہے اور اس نے اپنے مفعول شَیْئًا کو نصب دی ہے۔ (دیکھیں آیت۔2:54، نوٹ۔1)

فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ    74؀
[فَلَا تَضْرِبُوْا: پس تم لوگ مت بیان کرو] [ للّٰهِ: اللہ کے لئے] [ الْاَمْثَالَ ۭ : مثالیں] [ ان : بیشک ] [ اللّٰهَ : اللہ ] [يَعْلَمُ: جانتا ہے] [ وَانتم: اور تم لوگ] [ لَا تَعْلَمُوْنَ: نہیں جانتے]

 

نوٹ۔2: آیت۔74 میں ہے کہ اللہ کے لئے مثالیں مت بیان کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو دنیوی بادشاہوں پر مت قیاس کرو کہ جس طرح کوئی ان کے مصاحبوں اور درباری ملازمین کے توسط کے بغیر ان تک اپنی درخواست نہیں پہنچا سکتا، اسی طرح اللہ کے متعلق بھی تم یہ گمان کرنے لگو کہ وہ اپنے قصر شاہی میں ملائکہ اور اولیاء کے درمیان گھرا بیٹھا ہے اور کسی کا کوئی کام ان کے واسطوں کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ (تفہیم القرآن)

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ وَّمَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَـنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّجَهْرًا  ۭ هَلْ يَسْتَوٗنَ ۭ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ  ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ    75؀
[ضَرَبَ: بیان کی] [ اللّٰهُ: اللہ نے] [ مَثَلًا: ایک مثال] [ عَبْدًا مَّمْلُوْكًا: ایک غلام بندے کی] [ لَّا يَـقْدِرُ: وہ قدرت نہیں رکھتا] [ عَلٰي شَيْءٍ: کسی چیز پر] [ وَّمَنْ: اور اس کی] [ رَّزَقْنٰهُ: ہم نے عطا کی جس کو] [ مِنَا: اپنے پاس سے] [ رِزْقًا حَسَـنًا : کچھ اچھی روزی] [ فَهُوَ: تو وہ] [ يُنْفِقُ: خرچ کرتا ہے] [ مِنْهُ: اس میں سے] [ سِرًّا: چھپاتے ہوئے] [ وَّجَهْرًا ۭ : اور نمایاں کرتے ہوئے] [هَلْ: کیا] [ يَسْتَوٗنَ ۭ : وہ سب برابر ہوتے ہیں ] [اَلْحَمْدُ: تمام شکر و سپاس] [ للّٰهِ ۭ: اللہ کے لئے ہے] [ بَلْ: بلکہ (یعنی لیکن)] [ اَكْثَرُهُمْ: ان کے اکثر] [ لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں ہیں]

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَآ اَبْكَمُ لَا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰي مَوْلٰىهُ  ۙ اَيْنَـمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْرٍ  ۭهَلْ يَسْتَوِيْ هُوَ  ۙ وَمَنْ يَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ    76؀ۧ
[وَضَرَبَ: اور بیان کی] [ اللّٰهُ: اللہ نے ] [ مَثَلًا: ایک مثال] [ رَّجُلَيْنِ: دو آدمیوں کی] [ اَحَدُهُمَآ: ان دونوں کا ایک] [ اَبْكَمُ: گونگا ہے] [ لَا يَـقْدِرُ: قدرت نہیں رکھتا] [ عَلٰي شَيْءٍ: کسی چیز پر] [ وَّهُوَ: اور وہ] [ كَلٌّ: بوجھ ہے] [ عَلٰي مَوْلٰىهُ ۙ: اپنے آقا پر] [ اَيْنَمَا: جہاں کہیں] [ يُوَجِّهْهُ: وہ بھیجتا ہے اس کو] [ لَا يَاْتِ: وہ نہیں لاتا ] [ بِخَيْرٍ ۭ: کوئی بھلائی] [هَلْ: کیا] [ يَسْتَوِيْ: برابر ہوتا ہے] [ هُوَ ۙ : وہ] [وَمَنْ: اور وہ شخص جو] [ يَّاْمُرُ: حکم کرتا ہے] [ بِالْعَدْلِ ۙ: انصاف کا] [ وَهُوَ: اور وہ] [ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ: ایک سیدھی راہ پر ہے]

 

 

 (آیت۔76) ھَلْ یَسْتَوِیْ میں فعل واحد کے صیغے میں آیا ہے کیونکہ اس کا فاعل اسم ظاہر ہے جو ھُوَ اور مَنْ ہے۔

وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ    77؀
[وَللّٰهِ: اور اللہ کے لئے ہی ہے] [ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ: زمین اور آسمانوں کا غیب] [ وَمَآ: اور نہیں ہے] [ اَمْرُ السَّاعَةِ: قیامت کا حکم] [ اِلَّا: مگر] [ كَلَمْحِ الْبَصَرِ: چشمِ زدن کی مانند] [ اَوْ: یا] [ هُوَ: وہ] [ اَقْرَبُ ۭ: زیادہ قریب ہو] [ ان: بیشک ] [ اللّٰهَ: اللہ ] [ عَلٰي كُلِ شَيْءٍ: ہر چیز پر] [ قَدِيْرٌ: قدرت رکھنے والا ہے]

 

ل م ح

 [لَمْحًا: (ف) ستارہ یا بجلی کا چمکنا۔ نظر کا اٹھنا۔ زیر مطالعہ آیت۔77۔]

 

ترکیب: (آیت۔75) ھَلْ یَسْتَوٗنَ فعل جمع کے صیغے میں آیا ہے کیونکہ اس کا فاعل اس میں شامل ھُمْ کی ضمیر ہے جو غلاموں اور انفاق کرنے والوں کے لئے ہے۔

وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ  بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا  ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ  ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ    78؀
[وَاللّٰهُ: اور اللہ ہی نے] [ اَخْرَجَكُمْ: نکالا تم لوگوں کو] [ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ: تمھاری مائوں کے پیٹوں سے] [ لَا تَعْلَمُوْنَ: تم لوگ نہیں جانتے] [ شَـيْـــًٔـا ۙ: کچھ بھی] [ وَّجَعَلَ: اور اس نے بنائے] [ لَكُمُ: تمھارے لئے] [ السَّمْعَ: سماعت] [ وَالْاَبْصَارَ: اور بصارتیں] [ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۙ: اور دل (ادراک کی صلاحیتیں)] [ لَعَلَّكُمْ: شاید کہ تم لوگ] [ تَشْكُرُوْنَ: حق مانو]

 

(آیت۔78)۔ لَا تَعْلَمُوْنَ، یہ پورا جملہ اَخْرَجَکُمْ کی ضمیر مفعولی کُمْ کا حال ہے۔

اَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِيْ جَوِّ السَّمَاۗءِ  ۭ مَا يُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُ  ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ    79؀
[اَلَمْ يَرَوْا: کیا انھوں نے غور نہیں کیا] [ اِلَى الطَّيْرِ: پرندوں کی طرف] [ مُسَخَّرٰتٍ: (کیسے وہ) سدھائے ہوئے ہیں] [ فِيْ جو السَّمَاۗءِ ۭ: آسمان کی فضا میں] [ مَا يُمْسِكُهُنَّ: نہیں تھامتا ان کو (کوئی)] [ اِلَّا: مگر] [ اللّٰهُ ۭ: اللہ ] [ ان : بیشک] [ فِيْ ذٰلِكَ: اس میں] [ لَاٰيٰتٍ: یقینا نشانیاں ہیں] [ لِقَوْمٍ: ایسے لوگوں کے لئے] [ يُّؤْمِنُوْنَ: جو ایمان لاتے ہیں]

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُيُوْتِكُمْ سَكَنًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُيُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ اِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ اَصْوَافِهَا وَاَوْبَارِهَا وَاَشْعَارِهَآ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ    80؀
[وَاللّٰهُ: اور اللہ ہی نے] [ جَعَلَ: بنایا] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ مِّنْۢ بُيُوْتِكُمْ: تمھارے گھروں سے] [ سَكَنًا: آرام] [ وَّجَعَلَ: اور اس نے بنائے] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ مِّنْ جُلُوْدِ الْانعام: چوپایوں کی کھالوں سے] [ بُيُوْتًا: کچھ گھر] [ تَسْتَخِفُّوْنَهَا: تم لوگ ہلکا پاتے ہو جن کو] [ يَوْمَ ظَعْنِكُمْ: اپنے کوچ کرنے کے دن] [ وَيَوْمَ اِقَامَتِكُمْ ۙ: اور اپنی اقامت کرنے کے دن] [ وَمِنْ اَصْوَافِهَا: اور ان کے اونوں سے] [ وَاَوْبَارِهَا: اور ان کی پشموں سے] [ وَاَشْعَارِهَآ: اور ان کے بالوں سے] [ اَثَاثًا: (اس نے بنائے) کچھ گرہستی کے سامان] [ وَّمَتَاعًا: اور کچھ برتنے کی چیزیں] [ اِلٰى حِيْنٍ: ایک مدت تک]

 

 ظ ع ن

 [ظَعْنًا: (ف) سفر پر روانہ ہونا۔ کوچ کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔80۔]

ص و ف

 [ صَوَفًا: (س) مینڈھے کا بہت اون والا ہونا۔]

 صُوْفٌ ج اَصْوَافٌ اسم ذات ہے۔ اون۔ زیر مطالعہ آیت۔80۔]

و ب ر

 [ وَبَرًا: (س) بہت پشم والا ہونا۔]

 [ وَبَرٌ ج اُوْبَارٌ۔ اسم ذات بھی ہے۔ پشم۔ خرگوش کے نرم بال۔ زیر مطالعہ آیت۔80]

ء ث ث

 [ اَثَاثًا: (ن) گھنا اور گنجان ہونا۔ بکثرت ہونا۔]

 [ اَثَاثٌ اسم ذات بھی ہے۔ گھر گرہستی کا وافر سامان۔ زیر مطالعہ آیت۔80۔]

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَـقِيْكُمُ الْحَـرَّ وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ ۭكَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ    81؀
وَاللّٰهُ: اور اللہ ہی نے] [ جَعَلَ: بنایا] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ مِّمَا: اس سے جو] [ خَلَقَ: اس نے پیدا کیا] [ ظِلٰلًا: کچھ سائے] [ وَّجَعَلَ: اور اس نے بنائے] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ مِّنَ الْجبالِ: پہاڑوں میں سے] [ اَكْنَانا: کچھ غار ] [ وَّجَعَلَ: اور اس نے بنائے] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ سَرَابِيْلَ: کچھ کرتے] [ تَـقِيْكُمُ : وہ بچاتے ہیں تم کو] [الْحَـرَّ: گرمی سے] [ وَسَرَابِيْلَ: اور کچھ کرتے] [ تَقِيْكُمْ: وہ بچاتے ہیں تم کو] [ بَاْسَكُمْ ۭ: تمھاری جنگ میں] [ كَذٰلِكَ: اس طرح] [ يُتم: وہ پوری کرتا ہے] [ نِعْمَتَهٗ: اپنی نعمت کو] [ عَلَيْكُمْ: تم لوگوں پر] [ لَعَلَّكُمْ: شاید تم لوگ] [ تُسْلِمُوْنَ: فرمانبرداری کرو]

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ  82؀
[فَان: پھر اگر ] [ تَوَلَوْا: وہ لوگ منہ پھیرتے ہیں] [ فَانمَا: تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ عَلَيْكَ: آپؐ پر] [ الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ: واضح طور پر پہنچا دینا ہے]

يَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ يُنْكِرُوْنَهَا وَاَكْثَرُهُمُ الْكٰفِرُوْنَ    83؀ۧ
[يَعْرِفُوْنَ: وہ پہچانتے ہیں] [ نِعْمَتَ اللّٰهِ: اللہ کی نعمت کو] [ ثُمَّ: پھر (بھی)] [ يُنْكِرُوْنَهَا: انکار کرتے ہیں اس کا] [ وَاَكْثَرُهُمُ: اور ان کے اکثر] [ الْكٰفِرُوْنَ: ناشکری کرنے والے ہیں]

وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ    84؀
[وَيَوْمَ: اور جس دن] [ نَبْعَثُ: ہم اٹھائیں گے] [ مِنْ كُلِ اُمَّةٍ: ہر امت سے] [ شَهِيْدًا: ایک گواہ] [ ثُمَّ: پھر] [ لَا يُؤْذَنُ: اجازت نہیں دی جائے گی (بولنے کی)] [ لِلَّذِيْنَ: ان کو جنھوں نے] [ كَفَرُوْا: کفر کیا] [ وَلَا هُمْ: اور نہ ہی وہ لوگ] [ يُسْتَعْتَبُوْنَ: منائے جائیں گے]

 

 ع ت ب

 [عَتْبًا: (ن۔ ض) خفگی کرنا۔ ملامت کرنا۔]

 [ اِعْتَابًا: (افعال) ناراضگی کے سبب کو دور کرنا۔ کسی کو راضی کرنا۔]

 مُعْتَبٌ اسم المفعول ہے۔ راضی کیا ہوا۔ وَاِنْ یَّسْتَعْتِبُوْا فَمَا ھُمْ مِّنَ الْمُعْتَبِیْنَ (اور اگر وہ لوگ رضا مندی چاہیں گے تو وہ نہیں ہوں گے راضی کئے ہوئوں میں سے) 41:24۔

 [اِسْتِعْتَابًا: (استفعال) کسی کی رضامندی چاہنا۔ کسی کو منانا۔ زیر مطالعہ آیت۔84۔]

وَاِذَا رَاَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُوْنَ     85؀
[وَاِذَا: اور جب] [ رَاَ: دیکھیں گے] [ الَّذِينَ: وہ لوگ جنھوں نے] [ ظَلَمُوا: ظلم کیا] [ الْعَذَابَ: اس عذاب کو] [ فَلَا يُخَـفَّفُ: تو وہ ہلکا نہیں کیا جائے گا] [ عَنْهُمْ: ان سے] [ وَلَا هُمْ: اور نہ ہی وہ لوگ] [ يُنْظَرُوْنَ: مہلت دیئے جائیں گے]

وَاِذَا رَاَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا شُرَكَاۗءَهُمْ قَالُوْا رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ شُرَكَاۗؤُنَا الَّذِيْنَ كُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِكَ ۚ فَاَلْقَوْا اِلَيْهِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَ    86؀ۚ
[وَاِذَا: اور جب ] [ رَاَ: دیکھیں گے] [ الَّذِينَ: وہ جنھوں نے] [ اَشْرَكُوْا: شریک کیا] [ شُرَكَاۗءَهُمْ: اپنے شریک کئے ہوئوں کو] [ قَالُوْا: تو وہ کہیں گے] [ رَبَّنَا: اے ہمارے رب] [ هٰٓؤُلَاۗءِ: یہ] [ شُرَكَاۗؤُنَا الَّذِينَ: ہمارے وہ شریک کئے ہوئے ہیں جن کو] [ كُنَا نَدْعُوْا: ہم پکارا کرتے تھے] [ مِنْ دُوْنِكَ ۚ : تیرے علاوہ] [ فَاَلْقَوْا: تو وہ (شرکائ) ڈالیں گے] [ اِلَيْهِمُ: ان (مشرکوں) کی طرف] [ الْقَوْلَ: اس بات کو] [ انكُمْ: (کہ) بیشک تم لوگ] [ لَكٰذِبُوْنَ: یقینا جھوٹ کہنے والے ہو]

وَاَلْقَوْا اِلَى اللّٰهِ يَوْمَىِٕذِۨ السَّلَمَ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ    87؀
[وَاَلْقَوْا: اور وہ (مشرک) لوگ ڈالیں گے] [ اِلَى اللّٰهِ: اللہ کی طرف] [ يَوْمَىِٕذِۨ: اس دن] [ السَّلَمَ: مکمل اطاعت] [ وَضَلَّ: اور بھٹک (یعنی گم ہو) جائے گا] [ عَنْهُمْ: ان سے] [ مَا: وہ جو] [ كَانوْا يَفْتَرُوْنَ: وہ لوگ گھڑتے تھے]

اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يُفْسِدُوْنَ   88؀
[الَّذِينَ: وہ لوگ جنھوں نے] [ كَفَرُوْا: کفر کیا] [ وَصَدُّوْا: اور انھوں نے روکا (لوگوں کو)] [ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: اللہ کی راہ سے] [ زِدْنٰهُمْ: ہم بڑھائیں گے ان کو] [ عَذَابًا؛بلحاظ عذاب کے] [ فَوْقَ الْعَذَابِ: اس عذاب کے اوپر] [ بِمَا: بسبب اس کے جو] [ كَانوْا يُفْسِدُوْنَ: وہ لوگ نظم بگاڑتے تھے]

 

نوٹ۔1: آیت۔88 میں عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو ایک عذاب خود کفر کرنے کا اور اس کے اوپر دوسرا عذاب دوسرے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا ہو گا۔ (تفہیم القرآن)

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا عَلَيْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيْدًا عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ ۭوَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ    89؀ۧ
[وَيَوْمَ: اور جس دن] [ نَبْعَثُ: ہم اٹھائیں گے] [ فِيْ كُلِ اُمَّةٍ: ہر امت میں سے] [ شَهِيْدًا: ایک گواہ] [ عَلَيْهِمْ: ان پر (یعنی ان کی خلاف)] [ مِّنْ انفُسِهِمْ: ان کے اپنوں میں سے] [ وَجِئْنَا: اور ہم لائیں گے] [ بِكَ: آپؐ کو] [ شَهِيْدًا: بطور گواہ ] [ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ: ان لوگوں پر] [ ۭوَنَزَّلْنَا: اور ہم نے نازل کیا] [ عَلَيْكَ: آپؐ پر] [ الْكِتٰبَ؛اس کتاب کو] [ تِبْيَانا؛واضح ہوتے ہوئے] [ لِكُلِ شَيْءٍ: ہر چیز کے لئے] [ وَّهُدًى: اور ہدایت] [ وَّرَحْمَةً؛اور رحمت] [ وَّبُشْرٰى: اور بشارت ہوتے ہوئے] [ لِلْمُسْلِمِيْنَ: فرمانبرداری کرنے والوں کے لئے]

اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ     90؀
[ان : بیشک ] [ اللّٰهَ: اللہ] [ يَاْمُرُ: حکم دیتا ہے] [ بِالْعَدْلِ: عدل کا] [ وَالْاِحْسَان : اور احسان کا] [ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى: اور قرابت والے کو پہچانے کا] [ وَيَنْهٰى: اور وہ منع کرتا ہے] [ عَنِ الْفَحْشَاۗءِ: بےحیائی سے] [ وَالْمُنْكَرِ: اور برائی سے] [ وَالْبَغْيِ ۚ: اور سرکشی سے] [ يَعِظُكُمْ: وہ نصیحت کرتا ہے تم کو] [ لَعَلَّكُمْ: شاید تم لوگ] [ تَذَكَّرُوْنَ: نصیحت حاصل کرو]

 

ترکیب: (آیت۔90) اِیْتَایِٔ دراصل باب افعال کا مصدر اِیْتَائٍ ہے۔ مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ختم ہوئی ہے اور ’’ ی‘‘ محض ہمزہ ء مکسورہ کی کرسی جو پڑھی نہیں جاتی۔ بِالْعَدْلِ کی با پر عطف ہونے کی وجہ سے اِیْتَائِ حالت جر میں ہے۔

 

نوٹ۔1: آیت۔90 قرآن کریم کی جامع ترین آیت ہے جس میں پوری اسلامی تعلیمات کو چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود  (رض)  نے اس کو قرآن کی جامع ترین آیت فرمایا اور حضرت اکثم بن صیفی (رض)  اسی آیت کی بناء پر اسلام میں داخل ہوئے اور جب رسول اللہ
نے یہ آیت ولید بن مغیرہ کے سامنے تلاوت فرمائی تو اس نے اپنی قوم قریش کے سامنے اپنا جو تاثر بیان کیا وہ یہ تھا: ’’ خدا کی قسم اس میں ایک خاص حلاوت ہے اور اس کے اوپر ایک خاص رونق اور نور ہے۔ اس کی جڑ سے شاخیں اور پتے نکلنے والے ہیں اور شاخوں پر پھل لگنے والا ہے۔ یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں ہو سکتا۔‘‘ (معارف القرآن)

نوٹ۔2: آیت۔90 میں جن چیزوں کو کرنے یا چھوڑنے کا حکم تھا ان کے تقاضوں میں سے اب خاص طور سے ایفائے عہد کی تاکید کی گئی ہے۔ یہ چیزبذاتِ خود بھی ایک بہت بڑی خوبی ہے، لیکن اس کا مسلم قوم کی عروج و ترقی پر بےانتہا اثر پڑنے والا تھا۔ اسی لئے حکم دیا کہ جب خدا کا نام لے کر معاہدے کرتے ہو تو خدا کے نام کی حرمت قائم رکھو۔ کسی قوم یا کسی شخص سے معاہدہ ہو (بشرطیکہ خلاف شرع نہ ہو) تو مسلمان کا فرض ہے کہ اسے پورا کرے خواہ اس میں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ سمجھنا چاہئے کہ قسم کھانا گویا اللہ کو اس کا گواہ یا ضامن بنانا ہے۔ پھر اگلی آیت میں بتایا کہ عہد باندھ کر توڑنا ایسی حماقت ہے جیسے کوئی عورت دن بھر سوت کاتے اور شام کو اسے توڑ کر پارہ پارہ کر دے۔ یہ سخت عاقبت نااندیشی ہے کیونکہ اگر اعتبار نہ رہے تو دنیا کا نظام مختل ہو جائے گا (ترجمہ شیخ الہند (رح)  سے ماخوذ)

نوٹ۔3: کاتے ہوئے سوت کو توڑنا عربی کا محاورہ ہے۔ اس کا مفہوم اردو کے اس محاورہ سے ادا ہوتا ہے کہ اپنے سارے کئے کرائے پر پانی پھیرنا۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی شخص، ادارہ یا قوم اگر وعدہ خلافی یا عہد شکنی کرتی ہے تو اس کے سارے کئے کرائے پر پانی کیسے پھر جاتا ہے، یہ بات انگریزی کی ایک کہاوت سے سمجھ میں آتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر دولت چلی گئی تو کچھ نہیں گیا اگر صحت چلی گئی تو کچھ گیا اور اگر
Reputation چلی گئی تو سب کچھ چلا گیا۔ حقیقت یہی ہے کہ وعدہ خلافی اور عہد شکنی سے وقتی طور پر اگر کوئی فائدہ ہو بھی تب بھی اس کے دور رس نتائج ہمیشہ نقصان دہ ہی نکلتے ہیں۔ اور آدمی مدتوں کی محنت سے اپنی جو اچھی (Reputation) بناتا ہے وہ کسی ایک وعدہ خلافی یا عہد شکنی سے جاتی رہتی ہے۔

وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ     91؀
[وَاَوْفُوْا: اور تم لوگ پورا کرو] [ بِعَهْدِ اللّٰهِ: اللہ کے عہد کو] [ اِذَا: جب بھی] [ عٰهَدْتم: تم لوگ باہم معاہدہ کرو] [ وَلَا تَـنْقُضُوا: اور مت توڑو] [ الْاَيْمَان : قسموں کو] [ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا: ان کو پکا کئے جانے کے بعد] [ وَ: اس حال میں کہ] [ قَدْ جَعَلْتم: تم لوگ بنا چکے ہو] [ اللّٰهَ: اللہ کو] [ عَلَيْكُمْ: اپنے آپ پر] [ كَفِيْلًا ۭ: ایک ضامن ] [ ان: بیشک] [ اللّٰهَ: اللہ] [ يَعْلَمُ: جانتا ہے] [ مَا: اس کو جو] [ تَفْعَلُوْن: تم لوگ کرتے ہو]

 

 

 و ک د

 [وَکُوْدًا: (ض) کسی جگہ اقامت کرنا۔ کسی کام کی مشق کرنا۔]

 [تَوْکِیْدًا: (تفعیل) معاہدہ کو پکا کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔91]

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا  ۭ تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ  ۭ اِنَّمَا يَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ  ۭ  وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ مَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ    92؀
[وَلَا تَكُوْنُوْا: اور تم لوگ مت ہونا] [ كَالَّتِيْ: اس عورت کی مانند جس نے] [ نَقَضَتْ: توڑا] [ غَزْلَهَا: اپنے کاتے ہوئے سوت کو] [ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ: قوت دئے جانے کے بعد] [ انكَاثًا ۭ: ریزے ریزے] [ تَتَّخِذُوْنَ: تم لوگ بناتے ہو] [ اَيْمَانكُمْ: اپنی قسموں کو] [ دَخَلًۢا: باعث فساد] [ بَيْنَكُمْ: اپنے مابین] [ ان : تاکہ] [ تَكُوْنَ: ہو جائے] [ اُمَّةٌ: ایک گروہ] [ هِىَ: (کہ) وہ ہی] [ اَرْبٰى: زیادہ بڑھنے والا ہو] [ مِنْ اُمَّةٍ ۭ: دوسرے گروہ سے] [ انمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ يَبْلُوْكُمُ: آزماتا ہے تم کو] [ اللّٰهُ: اللہ] [ بِهٖ ۭ: اس سے] [ وَ: اور] [ لَيُبَيِّنَنَّ: وہ لازماً واضح کرے گا] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: قیامت کے دن] [ مَا: اس کو] [ كُنْتم فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ: تم لوگ اختلاف کرتے تھے جس میں]

 

 غ ز ل

 [غَزْلًا: (ض) سوت یا اون بٹنا۔ کاتنا۔]

 [ غَزْلٌ کاتا ہوا سوت۔ زیر مطالعہ آیت۔92 ]

 

(آیت۔92) اُمَّۃٍ مؤنث لفظ ہے۔ لیکن اس پر مِنْ داخل ہوا ہے اس لئے افعل تفضیل کا مؤنث رُبْوٰی کے بجائے مذکر اَرْبٰی آیا ہے۔

وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ يُّضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ    93؀
[وَلَوْ: اور اگر] [ شَاۗءَ: چاہتا] [ اللّٰهُ: اللہ] [ لَجَعَلَكُمْ: تو وہ بنا دیتا تم سب کو] [ اُمَّةً وَّاحِدَةً: ایک (ہی) امت] [ وَّلٰكِنْ: اور لیکن] [ يُّضِلُّ: وہ گمراہ کرتا ہے] [ مَنْ: اس کو جس کو] [ يَّشَاۗءُ: وہ چاہتا ہے] [ وَيَهْدِيْ: اور وہ ہدایت دیتا ہے] [ مَنْ: اس کو جس کو] [ يَّشَاۗءُ ۭ: وہ چاہتا ہے] [ وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ: اور تم سے لازماً پوچھا جائے گا] [ عَمَا: اس کے بارے میں جو] [ كُنْتم تَعْمَلُوْنَ: تم لوگ عمل کرتے تھے]

وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا وَتَذُوْقُوا السُّوْۗءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ     94؀
[وَلَا تَتَّخِذُوْٓا: اور تم لوگ مت بنائو] [ اَيْمَانكُمْ: اپنی قسموں کو] [ دَخَلًۢا: باعث فساد] [ بَيْنَكُمْ: اپنے مابین ] [ فَتَزِلَّ: نتیجتاً پھسل جائے] [ قَدَمٌۢ: کوئی قدم] [ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا: اس کے جمے رہے کے بعد] [ وَتَذُوْقُوا: اور نتیجتاً تم لوگ چکھو] [ السُّوْۗءَ: بُرائی کو] [ بِمَا: بسبب اس کے جو] [ صَدَدْتم: تم نے روکا (لوگوں کو)] [ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ: اللہ کی راہ سے] [ وَلَكُمْ: اور تمھارے لئے] [ عَذَابٌ عَظِيْمٌ: ایک بڑا عذاب ہے]

 

(آیت۔94) فاسببیہ ہونے کی وجہ سے فَتَزِلَّ حالت نصب میں ہے۔ قَدَمٌ مؤنث سماعی ہے اس لئے واحد مؤنث کا صیغہ تَزِلَّ آیا ہے۔ فاسببیہ پر عطف ہونے کی وجہ سے تَذُوْقُوْا حالت نصب میں ہے۔

وَلَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا  ۭ اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ     95؀
[وَلَا تَشْتَرُوْا: اور تم لوگ مت خریدو] [ بِعَهْدِ اللّٰهِ: اللہ کے عہد کے بدلے] [ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭ: تھوڑی سی قیمت] [ انمَا: بیشک وہ جو] [ عِنْدَ اللّٰهِ: اللہ کے پاس ہے] [ هُوَ: وہ (ہی)] [ خَيْرٌ: بہتر ہے] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ ان : اگر] [ كُنْتم: تم لوگ] [ تَعْلَمُوْنَ: جانتے ہو]

 

ترکیب: (آیت۔95) اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰہ میں اِنَّمَا کلمۂ حصر نہیں ہے بلکہ اِنَّ کے اسم مَا کو اس کے ساتھ ملا کر لکھا گیا ہے اور عِنْدَ اللّٰہ اس کی خبر ہے۔ (دیکھو آیت۔2:11۔12، نوٹ۔2)۔

مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ  ۭ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ     96؀
[مَا: وہ جو] [ عِنْدَكُمْ: تم لوگوں کے پاس ہے] [ يَنْفَدُ: فنا ہو جائے گا] [ وَمَا: اور وہ جو] [ عِنْدَ اللّٰهِ: اللہ کے پاس ہے] [ بَاقٍ ۭ: باقی رہنے والا ہے] [ وَلَنَجْزِيَنَّ: اور ہم لازماً پورا پورا دیں گے] [ الَّذِينَ: ان کو جو] [ صَبَرُوْٓا: ثابت قدم رہے] [ اَجْرَهُمْ: ان کا اجر] [ بِاَحْسَنِ مَا: اس کے بہترین کے مطابق جو] [ كَانوْا يَعْمَلُوْنَ: وہ عمل کرتے تھے]

 

 ن ف د

 [ نَفَادًا: (س) ختم ہونا۔ فنا ہونا۔ زیر مطالعہ آیت۔96۔]

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً  ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    97؀
[مَنْ: جس نے] [ عَمِلَ: عمل کیا] [ صَالِحًا: کوئی نیک (عمل)] [ مِّنْ ذَكَرٍ: کسی مرد میں سے] [ اَوْ انثٰى: یا کسی عورت میں سے] [ وَ: اس حال میں کہ] [ هُوَ: وہ] [ مُؤْمِنٌ: صاحب ایمان ہو] [ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ : تو ہم لازماً جِلائیں گے اس کو] [ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ : جیسے پاکیزہ جینا ہوتا ہے] [ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ: اور ہم لازماً پورا پورا دیں گے ان کو] [ اَجْرَهُمْ: ان کا اجر] [ بِاَحْسَنِ مَا: اس کے بہترین کے مطابق جو] [ كَانوْا يَعْمَلُوْنَ: وہ عمل کرتے تھے]

 

 

 (آیت۔97) عَمِلَ کا مفعول عَمَلًا محذوف ہے اور صَالِحًا اس کی صفت ہے۔ نُحْیِیَنَّ کا مفعول چہٗ کی ضمیر ہے اور حَیٰوۃً طَیِّبَۃً مفعول مطلق ہے۔ یہاں باب افعال کے مصدر کے بجائے تلاثی مجرد کا مصدر حَیٰوۃً مفعول مطلق کے طور پر آیا ہے اور طَیِّبَۃً اس کی صفت ہے۔

 

نوٹ۔1: پاکیزہ زندگی مال و دولت اور دنیوی عیش و آرام کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے اور ان کے بغیر بھی۔ ان چیزوں کا زندگی کی پاکیزگی سے کوئی ربط نہیں ہے۔ صحابۂ کرام (رض)  میں ایسے بھی تھے جن پر اکثر فاقے گزرتے رہتے تھے اور وہ بھی تھے جن کی دولت کا حساب نہیں تھا۔ لیکن تمام صحابۂ کرام (رض)  جیسی پاکیزہ زندگی گزار گئے ہیں وہ تو پھر تابعین کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔ ہم لوگ تو کسی شمار و قطار میں نہیں ہیں۔

 جن لوگوں کو پاکیزہ زندگی کی ایک ہلکی سی رمق بھی نصیب ہو جاتی ہے ان کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی کوئی چیز اگر چھن جائے تو انسان ہونے کے ناطے افسوس تو ان کو بھی ہوتا ہے لیکن ان کا افسوس یاس اور ناامیدی میں تبدیل نہیں ہوتا بلکہ وہ بہت جلد اپنے افسوس پر قابو پا لیتے ہیں اور اگر کوئی چیز ان کو مل جائے تو خوشی تو ان کو بھی ہوتی ہے لیکن اس خوشی میں وہ آپے سے باہر نہیں ہوتے اور جلد ہی اپنی خوشی پر قابو پا لیتے ہیں۔ گویا ان کی زندگی سورۃ الحدید کی آیت۔23 کی ہدایت کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہوتی ہے۔ اس خصوصیت کی تاثیر یہ ہوتی ہے کہ ان کی زندگی ماضی کے پچھتاوں اور مستقبل کے اندیشوں سے پاک ہوتی ہے۔ پھر اس تاثیر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے سینے بغض و عداوت اور حرص و ہوس کی اس آگ سے پاک ہوتے ہیں جس کو قرآن مجید میں اَلَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْگدَۃِ کہا گیا ہے۔ (104:7) یعنی جو انسان کے حوش و حواس پر چھا جاتی ہے اور اچھے بھلے آدمی کی مت مار دیتی ہے۔

 پاکیزہ زندگی کی یہ باطنی کیفیت اس دنیا کی جنت ہے جس کے لئے امام ابن تیمیہ  (رح)  کہا کرتے تھے کہ میری جنت میرے سینے میں ہے۔ یہ جنت ان لوگوں کا نقد انعام ہے جو حالت ایمان میں نیک اعمال کرتے ہیں اور آخرت میں ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ جس شخص نے دنیا میں چھوٹی اور بڑی ہر طرح کی نیکیاں کی ہوں گی، اسے وہ اونچا مرتبہ دیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہو گا۔‘‘ (تفہیم القرآن) رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ اس کی نیکی کا بدلہ دنیا میں عطا فرماتا ہے اور آخرت کی نیکیاں بھی اسے دیتا ہے، ہاں کافر اپنی نیکیاں دنیا میں ہی کھا لیتا ہے۔ آخرت میں اس کے ہاتھ میں کوئی نیکی باقی نہیں رہتی۔ (بحوالہ مسلم منقول از ابن کثیر)

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ     98؀
[فَاِذَا: پس جب کبھی] [ قَرَاْتَ: آپؐ پڑھیں] [ الْقُرْاٰنَ: قرآن] [ فَاسْتَعِذْ: تو پناہ مانگ لیں] [ بِاللّٰهِ: اللہ کی] [ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ: دھتکارے ہوئے شیطان سے]

اِنَّهٗ لَيْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ     99؀
[انهٗ: حقیقت یہ ہے کہ] [ لَيْسَ: نہیں ہے] [ لَهٗ: اس کے لئے] [ سُلْطٰنٌ: کوئی اختیار] [ عَلَي الَّذِينَ: ان پر جو] [ اٰمَنُوْا: ایمان لائے] [ وَعَلٰي رَبِهِمْ: اور اپنے رب پر ہی] [ يَتَوَكَّلُوْنَ: وہ لوگ بھروسہ کرتے ہیں]

اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَي الَّذِيْنَ يَتَوَلَّوْنَهٗ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِهٖ مُشْرِكُوْنَ     ١٠٠؀ۧ
[انمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ سُلْطٰنُهٗ: اس کا اختیار] [ عَلَي الَّذِينَ: ان پر ہے جو] [ يَتَوَلَوْنَهٗ: دوست بناتے ہیں اس کو] [ وَالَّذِينَ هُمْ: اور ان پر ہی (یعنی بالخصوص) جو] [ بِهٖ: اس کے (یعنی شیطان کے) سبب سے] [ مُشْرِكُوْنَ: شرک کرنے والے ہوتے ہیں]

وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍ  ۙ وَّاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ  ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ     ١٠١؁
[وَاِذَا: اور جب کبھی] [ بَدَّلْنَآ: ہم تبدیل کرتے ہیں] [ اٰيَةً: کسی آیت کو] [ مَّكَان اٰيَةٍ ۙ: کسی آیت کی جگہ] [ وَّاللّٰهُ؛اور اللہ] [ اَعْلَمُ: سب سے زیادہ جاننے والا ہے] [ بِمَا: اس کو جو] [ يُنَزِّلُ: وہ نازل کرتا ہے] [ قَالُوْٓا؛تو وہ لوگ کہتے ہیں] [ انمَآ: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ انتَ: آپؐ] [ مُفْتَرٍ ۭ: گھڑنے والے ہیں] [ بَلْ: بلکہ ] [ اَكْثَرُهُمْ: ان کے اکثر] [ لَا يَعْلَمُوْنَ؛علم نہیں رکھتے]

قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ    ١٠٢؁
[قُلْ: آپؐ کہئے] [ نَزَّلَهٗ: اتارا اس کو] [ رُوْحُ الْقُدُسِ: روح القدس یعنی جبرئیل ؑ نے] [ مِنْ رَّبِكَ: آپؐ کے رب (کی طرف) سے] [ بِالْحَقِّ: حق کے ساتھ] [ لِيُثَبِتَ: تاکہ وہ جمادے] [ الَّذِينَ: ان کو جو] [ اٰمَنُوْا: ایمان لائے] [ وَهُدًى: اور ہدایت ہوتے ہوئے] [ وَّبُشْرٰى: اور بشارت ہوتے ہوئے] [ لِلْمُسْلِمِيْنَ: فرمانبرداری کرنے والوں کے لئے]

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ  ۭ لِسَانُ الَّذِيْ يُلْحِدُوْنَ اِلَيْهِ اَعْجَمِيٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ     ١٠٣؁
[وَلَقَدْ نَعْلَمُ: اور بیشک ہم نے جان لیا ہے] [ انهُمْ: کہ یہ لوگ] [ يَقُوْلُوْنَ: کہتے ہیں] [ انمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ يُعَلِمُهٗ: سکھاتا ہے انؐ کو] [ بَشَرٌ ۭ: ایک بشر] [ لِسَان الَّذِي: اسی کی زبان ] [ يُلْحِدُوْنَ: یہ لوگ مائل (یعنی اشارہ) کرتے ہیں] [ اِلَيْهِ: جس کی طرف] [ اَعْجَمِيٌّ: غیر عربی ہے] [ وَّھٰذَا: اور یہ] [ لِسَان : زبان ہے] [ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ: واضح عربی]

 

 

ع ج م

 [عُجْمَۃً: (ک) لکنت کا ہونا۔ ہکلانا۔]

 [ اَعْجَمُ اَفْعَلُ الوان و عیوب کے وزن پر صفت ہے لیکن اس کی جمع اَفْعَلُ التفضیل کے اوزان پر آتی ہے۔ یعنی اَعْجَمُوْنَ اور اَعَاجِمُ (1) صاف بیان نہ کرنے والا خواہ عربی ہو (2) غیر عربی خواہ فصیح عربی بولتا ہو۔ وَلَوْ نَزَّلْنٰہُ عَلٰی بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ (اور اگر ہم نازل کرتے اس کو غیر عربی لوگوں کے کسی پر) (26:198)

 اَعْجَمِیٌّ اسم نسبت ہے۔ غیر عرب سے نسبت والی کوئی چیز۔ زیر مطالعہ آیت ۔103۔]

 

نوٹ۔1: آیات کے منسوخ ہونے اور اس کی حکمت کا ذکر سورۃ البقرہ کی آیت۔106 میں آ چکا ہے اور اس کے نوٹ میں اس کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ یہاں آیات کی تبدیلی سے مراد احکام کی تبدیلی ہے۔ ہم اس کی دو مثالیں دے رہے ہیں جو ترجمہ شیخ الہند (رح)  سے موخوذ ہے۔ سورۃ المزمل کی ابتدائی تین آیات میں حکم تھا کہ رات کا تقریباً آدھا حصّہ نماز پڑھیں۔ یہ تہجد کی نماز تھی۔ رسول اللہ
اور صحابہ کرام (رض)  اس پر عمل پیرا تھے۔ پھر ایک سال بعد (بحوالہ تفسیر نعیمی) اسی سورہ میں آیت نمبر۔20 نازل ہوئی جس کے مطابق تہجد فرض کے بجائے نفل ہو گئی اور وقت کی مقدار لوگوں کی سہولت پر چھوڑ دی گئی۔ اسی طرح مکہ میں قتال سے ممانعت اور ہاتھ روکے رکھنے کا حکم تھا۔ پھر سورۃ الحج میں اس کی اجازت دی گئی اور بعد میں قتال فی سبیل اللہ فرض کفایہ ہوگیا۔

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ  ۙ لَا يَهْدِيْهِمُ اللّٰهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ     ١٠٤؁
[ان: بیشک] [ الَّذِينَ: جو لوگ] [ لَا يُؤْمِنُوْنَ: ایمان نہیں لاتے] [ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۙ: اللہ کی آیتوں پر] [ لَا يَهْدِيْهِمُ: ہدایت نہیں دے گا ان کو] [ اللّٰهُ: اللہ] [ وَلَهُمْ: اور ان کے لئے] [ عَذَابٌ اَلِيْمٌ: ایک درد ناک عذاب ہے]

اِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ    ١٠٥؁
[انمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ يَفْتَرِي: گھڑتے ہیں] [ الْكَذِبَ: جھوٹ کو] [ الَّذِينَ: وہ لوگ جو] [ لَا يُؤْمِنُوْنَ: ایمان نہیں لاتے] [ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۚ : اللہ کی آیتوں پر] [ وَاُولٰۗىِٕكَ: اور وہ لوگ] [ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ: ہی جھوٹ کہنے والے ہیں]

مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ      ١٠٦؁
[مَنْ: جس نے] [ كَفَرَ: انکار کیا] [ بِاللّٰهِ: اللہ کا] [ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانهٖٓ؛اپنے ایمان کے بعد] [ اِلَّا: سوائے اس کے] [ مَنْ: جس کو] [ اُكْرِهَ: مجبور کیا گیا] [ وَ: اس حال میں کہ] [ قَلْبُهٗ: اس کا دل] [ مُطْمَـﭟ: مطمئن ہو] [ بِالْاِيْمَان : ایمان پر] [ وَلٰكِنْ: اور لیکن ] [ مَنْ: جس نے] [ شَرَحَ: کشادہ کیا] [ بِالْكُفْرِ: کفر سے] [ صَدْرًا: سینے کو] [ فَعَلَيْهِمْ: تو ان لوگوں پر] [ غَضَبٌ: ایک غضب ہے] [ مِّنَ اللّٰهِ ۚ: اللہ (کی طرف) سے] [ وَلَهُمْ: اور ان کے لئے ] [عَذَابٌ عَظِيْمٌ: ایک بڑا عذاب ہے]

 

نوٹ۔1: آیت۔106 سے ثابت ہوا کہ جس شخص کو کلمۂ کفر کہنے پر اس طرح مجبور کردیا گیا کہ اگر وہ کلمہ نہ کہے تو اس کو قتل کردیا جائے تو ایسے اکراہ کی حالت میں اگر وہ زبان سے کلمۂ کفر کہہ دے مگر اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یہ رخصت کا پہلو ہے۔ جبکہ عزیمت یہ ہے کہ جان دے دے لیکن کلمۂ کفر نہ کہے۔ صحابۂ کرام (رض)  میں دونوں مثالیں ہیں۔ حضرت یاسر (رض)  کو کلمۂ کفر کہنے سے انکار کرنے پر قتل کردیا گیا۔ جبکہ ان کے صاحبزادے حضرت عمار (رض)  نے جان بچانے کی خاطر کلمۂ کفر کہہ دیا۔ دشمنوں سے رہائی پا کر رسول اللہ
کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ بیان کیا۔ آپؐ نے پوچھا کہ اس وقت تمھارے دل کا کیا حال تھا۔ انھوں  (رض)  نے کہا کہ دل تو ایمان پر جما ہوا تھا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ تم پر اس کا کوئی وبال نہیں۔ آپؐ کے اس فیصلہ کی تصدیق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)۔

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ  ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ    ١٠٧؁
[ذٰلِكَ: یہ] [ بِانهُمُ: اس سبب سے کہ انھوں نے] [ اسْتَحَبُّوا: ترجیح دی] [ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا: نزدیکی زندگی کو] [ عَلَي الْاٰخِرَةِ ۙ: آخری (زندگی) پر] [ وَان : اور یہ کہ ] [ اللّٰهَ: اللہ] [ لَا يَهْدِي: ہدایت نہیں دیتا] [ الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ: انکار کرنے والے لوگوں کو]

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ    ١٠٨؁
[اُولٰۗىِٕكَ: یہ] [ الَّذِينَ: وہ %D