قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
سولواں پارہ

قَالَ اَ لَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِيَ صَبْرًا 75؀
[قَالَ: انھوں نے کہا] [اَ: کیا ] [ لَمْ اَقُلْ: میں نے نہیں کہا تھا] [لَّكَ: آپؑ سے] [انكَ: کہ آپؑ] [لَنْ تَسْتَطِيْعَ: ہرگز صلاحیت نہیں رکھیں گے] [مَعِيَ: میرے ساتھ] [صَبْرًا: صبر کرنے کی]

قَالَ اِنْ سَاَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍۢ بَعْدَهَا فَلَا تُصٰحِبْنِيْ ۚ قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّىْ عُذْرًا  76؀
[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [ان : اگر] [سَاَلْتُكَ: میں پوچھوں آپ سے] [عَنْ شَيْءٍۢ: کسی چیز کے بارے میں] [بَعْدَهَا: اس کے بعد] [فَلَا تُصٰحِبْنِيْ: تو آپ ساتھی نہ بنائیں مجھ کو] [قَدْ بَلَغْتَ: آپ پہنچ چکے ہیں] [مِنْ لَّدُنِّىْ: میرے پاس سے] [عُذْرًا: عذر کو]

فَانْطَلَقَا    ۪حَتّٰٓي  اِذَآ اَتَيَآ اَهْلَ قَرْيَـةِۨ اسْـتَطْعَمَآ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ يُّضَيِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِـيْهَا جِدَارًا يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ  ۭ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ اَجْرًا  77؀
[فَانطَلَقَا ۪: پھر وہ دونوں چلے] [حَتّٰٓي : یہاں تک کہ] [اِذَآ: جب] [اَتَيَآ: وہ دونوں پہنچے] [اَهْلَ قَرْيَـةِۨ: ایک بستی والوں کے پاس] [اسْـتَطْعَمَآ: تو دونوں نے کھانا مانگا] [اَهْلَهَا: اس (بستی) کے لوگوں سے] [فَاَبَوْا: تو انھوں نے انکار کیا] [ان : کہ] [يُّضَيِّفُوْهُمَا: وہ مہمان بنائیں دونوں کو] [فَوَجَدَا: پھر دونوں نے پایا] [فِـيْهَا: اس (بستی) میں] [جِدَارًا: ایک ایسی دیوار کو جو] [يُّرِيْدُ: ارادہ کرتی تھی] [ان : کہ] [يَّنْقَضَّ: وہ گر پڑے] [فَاَقَامَهٗ: تو انھوں نے کھڑا کردیا اس کو] [قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [لَوْ: اگر] [شِئْتَ: آپ چاہتے] [لَتَّخَذْتَ: تو آپ پکڑتے] [عَلَيْهِ: اس پر] [اَجْرًا: کوئی اجرت]

 

ق ض ض

[قَضَّا: (ن) ] میخ اکھاڑنا۔ دیوار کو ڈھانا۔ گرانا

(انفعال) اِنْقِضَاضًا دیوار کا پھٹ جانا۔ گر پڑنا۔ زیر مطالعہ آیت۔77

قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَيْنِيْ وَبَيْنِكَ ۚ سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِيْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَيْهِ صَبْرًا 78؀
[قَالَ: انھوں نے کہا] [ھٰذَا: یہ] [فِرَاقُ بَيْنِيْ وَبَيْنِكَ: آپؑ کے درمیان اور میرے درمیان کی جدائی ہے] [سَانبِئُكَ: میں بتا دوں گا آپؑ کو] [بِتَاْوِيْلِ مَا: اس کی تعبیر] [لَمْ تَسْتَطِعْ: آپؑ نے صلاحیت نہیں رکھی] [عَلَيْهِ: جس پر] [صَبْرًا: صبر کرنے کی]

فَاَرَدْنَآ اَنْ يُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا  81؀
[فَاَرَدْنَآ: پھر ہم نے چاہا ] [ان: کہ] [يُّبْدِلَهُمَا: بدلے میں دے ان دونوں کو] [رَبُّهُمَا: ان کا رب] [خَيْرًا: زیادہ اچھا] [مِّنْهُ (رح) : اس سے] [زَكٰوةً: بلحاظ پاکیزگی کے] [وَّاَقْرَبَ: اور زیادہ قریب] [رُحْمًا: بلحاظ صلہ رحمی کے]

وَاَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَيْنِ يَتِيْمَيْنِ فِي الْمَدِيْنَةِ وَكَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ يَّبْلُغَآ اَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا ڰ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِيْ ۭ ذٰلِكَ تَاْوِيْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَيْهِ صَبْرًا  82؀ۄ
[وَاَمَا: اور وہ جو] [الْجِدَارُ: دیوار تھی] [فَكَان : تو وہ تھی] [لِغُلٰمَيْنِ يَتِيْمَيْنِ: دو یتیم لڑکوں کے لئے] [فِي الْمَدِيْنَةِ: اس شہر میں] [وَكَان: اور تھا] [تَحْتَهٗ: اس کے نیچے ] [كَنْزٌ: ایک خزانہ] [لَّهُمَا: ان دونوں کے لئے] [وَكَان : اور تھا] [اَبُوْهُمَا: ان کا والد] [صَالِحًا: نیک] [فَاَرَادَ: تو ارادہ کیا] [رَبُّكَ: آپؑ کے رب نے] [ان: کہ] [يَّبْلُغَآ: وہ دونوں پہنچیں] [اَشُدَّهُمَا: اپنی پختگی کو] [وَيَسْتَخْرِجَا: اور دونوں نکالیں] [كَنْزَهُمَا: اپنے خزانے کو] [رَحْمَةً: رحمت ہوتے ہوئے] [مِّنْ رَّبِكَ: آپؑ کے رب (کی طرف) سے] [وَمَا فَعَلْتُهٗ: اور میں نے نہیں کیا یہ (سب کچھ)] [عَنْ اَمْرِيْ: اپنے حکم سے] [ذٰلِكَ: یہ] [تَاْوِيْلُ مَا: اس کی تعبیر ہے] [لَمْ تَسْطِعْ: آپؑ نے صلاحیت نہیں رکھی] [عَلَيْهِ: جس پر] [صَبْرًا: صبر کرنے کی]

 

نوٹ۔1: اس آیت ۔82۔ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی نیکیوں کی وجہ سے اس کے بال بچے بھی دنیا اور آخرت میں خدا کی مہربانی حاصل کر لیتے ہیں۔ دیکھیے آیت میں ان (لڑکوں) کی صلاحیت کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ ہاں ان کے والد کی نیک بختی اور نیک عملی بیان ہوئی ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ دراصل یہ تینوں باتیں جنھیں تم نے خطرناک سمجھا، سراسر رحمت تھیں۔ کشتی والوں کو گو قدرے نقصان ہوا لیکن اس سے پوری کشتی بچ گئی۔ بچے کے مرنے کی وجہ سے گو ماں باپ کو رنج ہوا لیکن ہمیشہ کے رنج اور عذاب سے بچ گئے اور پھر نیک بدلہ مل گیا۔ اور یہاں اس نیک شخص کی اولاد کا بھلا ہوا۔ (ابن کثیر (رح) )

 یہ مثال اس امر کی ہے کہ دنیا میں مسکینوں اور نیکوں کو اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس نقصان کے اندر ان ہی کا کوئی فائدہ مضمر ہوتا ہے۔ اس لئے انھیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہیں اور اس امر پر یقین رکھیں کہ خدا کا کوئی فیصلہ بھی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا لیکن کوئی شخص ان حکمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ (تدبر قرآن)

وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ ۭ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا 83 ؀ۭ
[وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ: یہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے] [عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ: ذوالقرنین کے بارے میں] [قُلْ: آپؐ کہیے] [سَاَتْلُوْا: میں پڑھ کر سنائوں گا] [عَلَيْكُمْ: تم لوگوں کو] [مِّنْهُ: اس میں سے] [ذِكْرًا: بطور نصیحت کے]

 

نوٹ۔1: ذوالقرنین کا نام ذوالقرنین کیوں ہوا۔ اس کی وجہ میں بےشمار اقوال اور سخت اختلافات ہیں۔ مگر اتنی بات متعین ہے کہ قرآن نے خود ان کا نام ذوالقرنین نہیں رکھا، بلکہ یہ نام یہود نے بتلایا۔ ان کے یہاں اس نام سے ان کی شہرت ہو گئی۔ واقعۂ ذوالقرنین کا جتنا حصّہ قرآن کریم نے بتلایا ہے اس سے سوال کرنے والے یہود مطمئن ہو گئے۔ انھوں نے مزید یہ سوال نہیں کئے کہ ان کا نام ذوالقرنین کیوں تھا، یہ کس ملک اور کس زمانے میں تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالات کو خود یہود نے بھی غیر ضروری اور فضول سمجھا۔ اور یہ ظاہر ہے جس سے کوئی فائدہ دین یا دنیا کا متعلق ہو یا جس پر کسی چیز کا سمجھنا موقوف ہو۔ اس لئے نہ قرآن کریم نے ان چیزوں کو بتلایا اور نہ کسی حدیث میں اس کی تفصیلات بیان کی گئیں۔ (معارف القرآن)

اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِي الْاَرْضِ وَاٰتَيْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا  84؀ۙ
[انا: بیشک ہم نے] [مَكَّنَا: اقتدار دیا] [لَهٗ: اس کو] [فِي الْاَرْضِ: زمین میں] [وَاٰتَيْنٰهُ: اور ہم نے دیا اس کو] [مِنْ كُلِ شَيْءٍ: ہر چیز میں سے] [سَبَبًا: ایک سامان]

حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَّوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا ڛ قُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ اِمَّآ اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّآ اَنْ تَتَّخِذَ فِيْهِمْ حُسْنًا  86؀
[حَتّٰٓي : یہاں تک کہ] [اِذَا: جب ] [بَلَغَ: وہ پہنچا] [مَغْرِبَ الشَّمْسِ: سورج غروب ہونے کی جگہ پر] [وَجَدَهَا: تو اس نے پایا اس کو] [تَغْرُبُ: کہ وہ غروب ہوتا ہے] [فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ: ایک دلدل والے چشمہ میں] [وَّوَجَدَ: اور اس نے پایا] [عِنْدَهَا: اس کے پاس] [قَوْمًا: ایک قوم کو] [قُلْنَا: ہم نے کہا] [يٰذَا الْقَرْنَيْنِ: اے ذوالقرنین] [اِمَآ: یا تو یہ] [ان: کہ] [تُعَذِّبَ: آپ سزا دیں] [وَاِمَآ: اور یا یہ] [ان : کہ] [تَتَّخِذَ: آپ بنائیں] [فِيْهِمْ: ان میں] [حُسْنًا: کوئی بھلائی]

قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ يُرَدُّ اِلٰى رَبِّهٖ فَيُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّكْرًا 87؀
[قَالَ: انھوں نے کہا] [اَمَا: وہ جو ہے] [مَنْ: جس نے] [ظَلَمَ: ظلم کیا] [فَسَوْفَ: تو عنقریب] [نُعَذِّبُهٗ: ہم سزا دیں گے اس کو] [ثُمَّ: پھر] [يُرَدُّ: وہ لوٹایا جائے گا] [اِلٰى رَبِهٖ: اپنے رب کی طرف] [فَيُعَذِّبُهٗ: پھر وہ عذاب دے گا اس کو] [عَذَابًا نُّكْرًا: ایک برا عذاب]

وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهٗ جَزَاۗءَۨ الْحُسْنٰى ۚ وَسَنَقُوْلُ لَهٗ مِنْ اَمْرِنَا يُسْرًا 88؀ۭ
[وَاَمَا: اور وہ جو ہے] [مَنْ: جو] [اٰمَنَ: ایمان لایا] [وَعَمِلَ: اور اس نے عمل کیا] [صَالِحًا: نیک] [فَلَهٗ: تو اس کے لئے] [جَزَاۗءَۨ: بطور بدلے کے] [الْحُسْنٰى: بھلائی ہے ] [وَسَنَقُوْلُ: اور ہم کہیں گے] [لَهٗ: اس سے] [مِنْ اَمْرِنَا: اپنے کام میں ] [يُسْرًا: آسانی (کی بات)]

 

ترکیب: (آیت۔88) جَزَائَ نِ الْحُسْنٰی مرکب اضافی نہیں ہو سکتا کیونکہ جَزَائً پر تنوین ہے۔ یہ مرکب توصیفی بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ جَزَائً نکرہ اور اَلْحُسْنٰی معرفہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں الگ الگ مفرد الفاظ ہیں۔ سادہ جملہ اس طرح ہے۔ فَلَہُ الْحُسْنٰی جَزَائً۔ ہماری ترجیح ہے کہ جَزَائً کو تمیز مانا جائے۔ یُسْرًا صفت ہے اور اس کا موصوف محذوف ہے جو کہ قَوْلًا ہو سکتا ہے۔

ثُمَّ اَتْـبَـعَ سَبَبًا  89؀
[ثُمَّ: پھر] [اَتْـبَـعَ: وہ پیچھے لگا] [سَبَبًا: ایک (سفر کے) سامان کے]

حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَـطْلُعُ عَلٰي قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًا 90؀ۙ
[حَتّٰٓي : یہاں تک کہ] [اِذَا: جب] [بَلَغَ: وہ پہنچا] [مَطْلِعَ الشَّمْسِ: سورج کے نکلنے کی جگہ] [وَجَدَهَا: تو اس نے پایا اس (سورج) کو] [تَـطْلُعُ: (کہ) وہ طلوع ہوتا ہے] [عَلٰي قَوْمٍ: ایک ایسی قوم پر] [لَمْ نَجْعَلْ: ہم نے نہیں بنایا] [لَهُمْ: جن کے لئے] [مِّنْ دُوْنِهَا: اس (سورج) کے پیچھے] [سِتْرًا: کوئی اوٹ]

كَذٰلِكَ  ۭ وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا 91؀
[كَذٰلِكَ: اس طرح ہے] [وَقَدْ اَحَطْنَا: اور ہم احاطہ کر چکے ہیں] [بِمَا: اس کا جو] [لَدَيْهِ: ان (ذوالقرنین) کے پاس ہے] [خُبْرًا: بلحاظ علم کے]

ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا 92 ؀
[ثُمَّ: پھر] [اَتْبَعَ: وہ پیچھے لگا] [سَبَبًا: ایک (سفر کے) سامان کے]

حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمَا قَوْمًا ۙ لَّا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ قَوْلًا 93؀
[حَتّٰٓي : یہاں تک کہ] [اِذَا: جب] [بَلَغَ: وہ پہنچا] [بَيْنَ السَّدَّيْنِ: دو دیواروں (یعنی پہاڑوں) کے درمیان] [وَجَدَ: تو اس نے پایا] [مِنْ دُوْنِهِمَا: ان دونوں کے] [قَوْمًا: ایک ایسی قوم کو جو] [لَّا يَكَادُوْنَ: لگتا نہیں تھا کہ] [يَفْقَهُوْنَ: وہ لوگ سمجھیں گے] [قَوْلًا: کوئی بات]

قَالُوْا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ اِنَّ يَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًاعَلٰٓي اَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا 94؀
[قَالُوْا: انھوں نے کہا] [يٰذَا الْقَرْنَيْنِ: اے ذوالقرنین] [ان : بیشک ] [يَاْجوجَ: یاجوج] [وَمَاجوجَ: اور ماجوج] [مُفْسِدُوْنَ: فساد پھیلانے والے ہیں] [فِي الْاَرْضِ: زمین میں ] [فَهَلْ: تو کیا] [نَجْعَلُ: ہم مقرر کریں] [لَكَ: آپ کے لئے] [خَرْجًا: کوئی ٹیکس] [عَلٰٓي ان : اس پر کہ] [تَجْعَلَ: آپ بنا دیں] [بَيْنَنَا: ہمارے درمیان] [وَبَيْنَهُمْ: اور ان کے درمیان] [سَدًّا: ایک دیوار]

 

نوٹ۔1: ذوالقرنین نے مشرق کی جانب جو قوم آباد پائی اس کا یہ حال تو قرآن کریم نے ذکر فرمایا کہ وہ دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی سامان، مکان، خیمہ، لباس وغیرہ کے ذریعہ نہ کرتے تھے، لیکن ان کے مذہب و امال کا کوئی ذکر نہیں فرمایا اور نہ ہی یہ کہ ذوالقرنین نے ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ اور ظاہر یہ ہے کہ وہ لوگ بھی کافر ہی تھے اور ذوالقرنین نے ان لوگوں کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو مغربی قوم کے ساتھ اوپر مذکور ہو چکا ہے۔ مگر اس کے بیان کرنے کی یہاں اس لئے ضرورت نہیں سمجھی کہ پچھلے واقہ پر قیاس کر کے اس کا بھی علم ہو سکتا ہے۔ (معارف القرآن)

قَالَ مَا مَكَّــنِّيْ فِيْهِ رَبِّيْ خَيْرٌ فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّةٍ اَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا 95؀ۙ
[قَالَ: انھوں نے کہا] [مَا: وہ] [مَكَّــنِّيْ: اختیار دیا مجھ کو] [فِيْهِ: جس میں] [رَبِيْ: میرے رب نے] [خَيْرٌ: بہتر ہے] [فَاَعِيْنُوْنِيْ: تو تم لوگ اعانت کرو میری] [بِقُــوَّةٍ: قوت کے ساتھ] [اَجْعَلْ: تو میں بنائوں] [بَيْنَكُمْ: تمھارے درمیان] [وَبَيْنَهُمْ: اور ان کے درمیان] [رَدْمًا: ایک رکاوٹ]

 

ر د م

[رَدْمًا: (ض) ] کسی رخنہ یا دروازہ کو بند کرنا۔

 رَدْمٌ رکاوٹ۔ بندش۔ زیر مطالعہ آیت۔95

 

نوٹ۔1: ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کے متعلق بعض لوگوں میں یہ غلط خیال پایا جاتا ہے کہ اس سے مراد دیوار چین ہے۔ حالانکہ دراصل یہ دیوار قفقاز کے علاقہ داغستان میں دربند اور داریال کے درمیان بنائی گئی۔ قفقاز اس ملک کو کہتے ہیں جو بحیرئہ اسود اور بحیرئہ خزر (
Caspian Sea) کے درمیان واقع ہے۔ دربند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے اس میں پہاڑ زیادہ بلند نہیں ہیں اور ان میں کوہستانی راستے بھی خاصے وسیع ہیں۔ قدیم زمانے میں شمال کی وحشی قومیں اسی راستے سے حملے کرتی تھیں۔ ان ہی حملوں کو روکنے کے لئے ایک دیوار بنائی گئی تھی جو۔50۔ میل لمبی، 29۔ فٹ بلند اور دس فٹ چوڑی تھی۔ ابھی تک یہ تحقیق نہیں ہو سکی کہ یہ دیوار کب اور کس نے بنائی تھی۔ مگر مسلمان مؤرخین اسی کو سدِّ ذوالقرنین قرار دیتے ہیں اور اس کی تعمیر کی جو کیفیت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے اس کے آثار اب بھی وہاں پائے جاتے ہیں۔ (تفہیم القرآن۔ ج 3، ص 771)

اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ ۭ حَتّٰى اِذَا سَاوٰى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوْا  ۭ حَتّٰى اِذَا جَعَلَهٗ نَارًا  ۙ قَالَ اٰتُوْنِيْٓ اُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا 96؀ۭ
[اٰتُوْنِيْ: تم لوگ دو مجھ کو] [زُبَرَ الْحَدِيْدِ: لوہے کی سلیس] [حَتّٰى: یہاں تک کہ] [اِذَا: جب] [سَاوٰى: انھوں نے برابر کیا] [بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ: (پہاڑ کے) دونوں کناروں کے درمیان کو] [قَالَ: تو کیا] [انفُخُوْا: تم لوگ پھونک مارو] [حَتّٰى: یہاں تک کہ] [اِذَا: جب] [جَعَلَهٗ: انھوں نے بنایا اس کو] [نَارًا: ایک آگ] [قَالَ: تو کہا] [اٰتُوْنِيْٓ: تم لوگ دو مجھ کو] [اُفْرِغْ: تو میں اُنڈیلوں] [عَلَيْهِ: اس پر] [قِطْرًا: پگھلے ہوئے تانبے کو]

فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ يَّظْهَرُوْهُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا 97؀
[فَمَا اسْطَاعُوْٓا: پھر وہ لوگ (یعنی یاجوج ماجوج کی قوم) استطاعت نہیں رکھیں گے] [ان : کہ] [يَّظْهَرُوْهُ: وہ چڑھ سکیں اس پر] [وَمَا اسْتَطَاعُوْا: اور نہ وہ استطاعت رکھینگے] [لَهٗ: اس میں] [نَقْبًا: نقب لگانے کی]

قَالَ ھٰذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّيْ  ۚ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ رَبِّيْ جَعَلَهٗ دَكَّاۗءَ  ۚ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّيْ حَقًّا 98؀ۭ
[قَالَ: انھوں نے کہا] [ھٰذَا: یہ] [رَحْمَةٌ: ایک رحمت ہے] [مِّنْ رَّبِيْ: میرے رب (کی طرف) سے] [فَاِذَا: پھر جب] [جَاۗءَ: آئے گا] [وَعْدُ رَبِيْ: میرے رب کا وعدہ] [جَعَلَهٗ: تو وہ بنا دے گا اس کو] [دَكَّاۗءَ: ایک نرم مٹی کا ٹلہ] [وَكَان : اور ہے ] [وَعْدُ رَبِيْ: میرے رب کا وعدہ] [حَقًّا: سچا]

وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰهُمْ جَمْعًا 99۝ۙ
[وَتَرَكْنَا: اور ہم چھوڑ دیں گے] [بَعْضَهُمْ: ان کے بعض کو] [يَوْمَىِٕذٍ: اس دن] [يَّمُوْجُ: وہ ریلا ماریں گے] [فِيْ بَعْضٍ: بعض میں] [وَّنُفِخَ: اور پھونک ماری جائے گی] [فِي الصُّوْرِ: صور میں ] [فَـجَـمَعْنٰهُمْ: پھر ہم جمع کریں گے] [جَمْعًا: جیسا جمع کرنے کا حق ہے]

وَّعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَىِٕذٍ لِّلْكٰفِرِيْنَ عَرْضَۨا  ١٠٠؀ۙ
[وَّعَرَضْنَا: اور ہم سامنے لائیں گے] [جَهَنَّمَ: جہنم کو] [يَوْمَىِٕذٍ: اس دن] [لِلْكٰفِرِيْنَ: کافروں کے لئے] [عَرْضَۨا: جیسا سامنے لانے کا حق ہے]

الَّذِيْنَ كَانَتْ اَعْيُنُهُمْ فِيْ غِطَاۗءٍ عَنْ ذِكْرِيْ وَكَانُوْا لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَمْعًا  ١٠١؀ۧ
[الَّذِينَ: وہ لوگ] [كَانتْ: نہیں] [اَعْيُنُهُمْ: جن کی آنکھیں] [فِيْ غِطَاۗءٍ: ایک پردے میں] [عَنْ ذِكْرِيْ: میری یاد سے] [وَكَانوْا لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ: اور وہ لوگ استطاعت نہیں رکھتے تھے] [سَمْعًا: سننے کی]

 

غ ط و

[غَطْوًا: (ن) ] کسی چیز کو چھپانا۔ ڈھانکنا۔

 غِطَائً پردہ۔ زیر مطالعہ آیت ۔101۔

اَفَحَسِبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ يَّــتَّخِذُوْا عِبَادِيْ مِنْ دُوْنِيْٓ اَوْلِيَاۗءَ  ۭ اِنَّآ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ نُزُلًا ١٠٢؁
[اَفَحَسِبَ: تو کیا گمان کیا] [الَّذِينَ: ان لوگوں نے جنھوں نے] [كَفَرُوْٓا: کفر کیا] [ان: کہ] [يَّتَّخِذُوْا: وہ بنا لیں گے] [عِبَادِيْ: میرے بندوں کو] [مِنْ دُوْنِيْٓ: میرے علاوہ] [اَوْلِيَاۗءَ: (اپنا) کارساز] [انآ: بیشک] [اَعْتَدْنَا: ہم نے تیار کیا] [جَهَنَّمَ: جہنم کو] [لِلْكٰفِرِيْنَ: کافروں کے لئے] [نُزُلًا: بطور ابتدائی ضیافت]

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا ١٠٣؁ۭ
[قُلْ: آپؐ کہیے] [هَلْ: کیا] [نُنَبِئُكُمْ: ہم خبر دیں تم لوگوں کو] [بِالْاَخْسَرِيْنَ: سب سے زیادہ گھاٹا پانے والوں کی] [اَعْمَالًا: بلحاظ اعمال کے]

اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ١٠4؁
[الَّذِينَ: وہ لوگ] [ضَلَّ: گم ہوئی] [سَعْيُهُمْ: جن کی بھاگ دوڑ] [فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا: دنیا کی زندگی میں] [وَ: اس حال میں کہ] [هُمْ: وہ لوگ] [يَحْسَبُوْنَ: گمان کرتے رہے] [انهُمْ: کہ وہ] [يُحْسِنُوْنَ: خوبصورت بناتے ہیں] [صُنْعًا: صنعت گری کو]

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ١٠٥؁
[اُولٰۗىِٕكَ الَّذِينَ: یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے] [كَفَرُوْا: انکار کیا] [بِاٰيٰتِ رَبِهِمْ: اپنے رب کی نشانیوں کا] [وَلِقَاۗىِٕهٖ: اور اس سے ملاقات کرنے کا] [فَحَبِطَتْ: تو اکارت گئے] [اَعْمَالُهُمْ: ان کے اعمال] [فَلَا نُقِيْمُ: پس ہم قائم نہیں کریں گے] [لَهُمْ: ان کے لئے] [يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: قیامت کے دن] [وَزْنًا: تول کو]

 

نوٹ۔1: اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارہ پانے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا میں خواہ کتنے ہی بڑے کارنامے کئے ہوں، بہرحال وہ دنیا کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے۔ اپنے محلات، اپنی یونیورسٹیاں اور لائبریریاں، اپنے کارخانے اور ملیں، اپنی سڑکیں اور ریلیں، اپنی ایجادیں اور صنعتیں، اپنے علوم و فنون، اپنی آرٹ گیلریاں اور وہ چیزیں جن پر وہ فخر کرتے ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی اپنے ساتھ لئے ہوئے وہ خدا کے یہاں نہ پہنچیں گے کہ خدا کی میزان میں اس کو رکھ سکیں۔ وہاں جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ صرف مقاصدِ عمل اور نتائجِ عمل ہیں۔ اب اگر کسی کے سارے مقاصد دنیا تک محدود تھے اور نتائج بھی اس کو دنیا ہی میں مطلوب تھے اور دنیا میں وہ اپنے نتائج دیکھ بھی چکا تو اس کا سبب کیا کرایا دنیائے فانی کے ساتھ فنا ہو گیا۔ آخرت میں جو کچھ پیش کر کے وہ کوئی وزن پا سکتا ہے وہ تو لازماً کوئی ایسا ہی کارنامہ ہونا چاہئے جو اس نے خدا کی رضا کے لئے کیا ہو، اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے کیا ہو اور ان نتائج کو مقصود بنا کر کیا ہو جو آخرت میں نکلنے والے ہیں۔ ایسا کوئی کارنامہ اگر اس کے حساب میں نہیں ہے تو وہ ساری دوڑ دھوپ بلا شبہ اکارت گئی جو اس نے دنیا میں کی تھی۔ (تفہیم القرآن)

ذٰلِكَ جَزَاۗؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ هُزُوًا ١٠٦؁
[ذٰلِكَ: یہ] [جَزَاۗؤُهُمْ: ان کا بدلہ ہے] [جَهَنَّمُ: جو کہ جہنم ہے] [بِمَا: بسبب اس کے جو] [كَفَرُوْا: انھوں نے انکار کیا] [وَاتَّخَذُوْٓا: اور بنایا] [اٰيٰتِيْ: میری نشانیوں کو] [وَرُسُلِيْ: اور میرے رسولوں کو] [هُزُوًا: مذاق کا ذریعہ]

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ١٠٧؁ۙ
[ان: بیشک] [الَّذِينَ: وہ لوگ جو] [اٰمَنُوْا: ایمان لائے] [وَعَمِلُوا: اور انھوں نے عمل کئے] [الصّٰلِحٰتِ: نیکیوں کے] [كَانتْ: (تو) ہیں] [لَهُمْ: ان کے لئے] [جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ: فردوس کے باغات] [نُزُلًا: بطور مہمان نوازی کے]

خٰلِدِيْنَ فِيْهَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا ١٠٨؁
[خٰلِدِيْنَ: ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے] [فِيْهَا: ان میں] [لَا يَبْغُوْنَ: وہ نہیں چاہیں گے] [عَنْهَا: ان سے] [حِوَلًا: کوئی تبدیلی]

قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا ١٠٩؁
[قُلْ: آپؐ کہیے] [لَوْ: اگر] [كَان : ہوتے] [الْبَحْرُ: سارے سمندر] [مِدَادًا: روشنائی] [لِكَلِمٰتِ رَبِيْ: میرے رب کی فرمان (لکھنے) کے لئے] [لَنَفِدَ: تو ضرور ختم ہو جاتے] [الْبَحْرُ: سارے سمندر] [قَبْلَ ان : اس سے پہلے کہ] [تَنْفَدَ: ختم ہوتے ] [كَلِمٰتُ رَبِيْ: میرے رب کے فرمان] [وَلَوْ: اور اگرچہ] [جِئْنَا: ہم لے آتے] [بِمِثْلِهٖ: اس جیسے (اور سمندر)] [مَدَدًا: بطور مدد کے]

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ  ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا ١١٠؀ۧ
[قُلْ: آپؐ کہیے] [انمَآ: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [انا: میں] [بَشَرٌ: ایک بشر ہوں] [مِّثْلُكُمْ: تم لوگوں جیسا] [يُوْحٰٓى: وحی کی جاتی ہے] [اِلَيَّ: میری طرف] [انمَآ: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [اِلٰـــهُكُمْ: تم لوگوں کا الیٰ] [اِلٰهٌ وَّاحِدٌ: واحد لٰہ ہے] [فَمَنْ: پس وہ جو] [كَان : ہے (کہ)] [يَرْجوا: امید رکھتا ہے] [لِقَاۗءَ رَبِهٖ: اپنے رب سے ملاقات کرنے کی] [فَلْيَعْمَلْ: تو اسے چاہئے کہ وہ عمل کرے] [عَمَلًا صَالِحًا: نیک عمل کے] [وَّلَا يُشْرِكْ: اور وہ شریک مت کرے] [بِعِبَادَةِ رَبِهٖٓ: اپنے رب کی بندگی میں] [اَحَدًا: کسی ایک کو]

 

نوٹ۔1: حضرت شداد بن اوس  (رض)  نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ
سے سنا ہے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر شرک اور پوشیدہ شہوت کا ہے۔ میں نے دریافت کیا یا رسول اللہ ( ) کیا آپؐ کی امت آپؐ کے بعد شرک کرے گی۔ فرمایا ہاں۔ سنو! وہ سورج، چاند، پتھر، بت کو نہ پوجے گی بلکہ اپنے اعمال میں ریاکاری کرے گی۔ پوشیدہ شہوت یہ ہے کہ صبح روزے سے ہے اور کوئی خواہش سامنے آئی تو روزہ چھوڑ دیا (ابن کثیر (رح) )

نوٹ۔2: رسول اللہ
نے فمرایا کہ میں تمھیں ایک ایسا کام بتاتا ہوں کہ جب تم وہ کام کرلو تو شرک اکبر اور شرک اصغر، سب سے محفوظ ہو جائو۔ تم تین مرتبہ روزانہ یہ دعا کیا کرو۔ اللھم انی اعوذبک ان اشرک بک و انا اعلم واستغفرک لمالا اعلم۔ (معارف القرآن)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

كۗهٰيٰعۗصۗ  Ǻ۝ڗ
كۗهٰيٰعۗصۗ ۝ڗ

ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِيَّا Ą۝ڻ
[ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِكَ: (یہ) آپؐ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے] [عَبْدَهٗ: اس کے بندے] [زَكَرِيَّا: زکریا پر]

 

ترکیب: (آیت۔2) ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ۔ یہ پورا مرکب اضافی خبر ہے اور اس کا مبتدا ھٰذَا معذوف ہے۔ زَکَرِیَّا تینوں حالتوں میں مبنی کی طرح زِکَرِیَّا استعمال ہوتا ہے۔ یہاں یہ عَبْدَہٗ کا بدل ہونے کی وجہ سے محلاً حالت نصب میں ہے۔

اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَاۗءً خَفِيًّا Ǽ۝
[اِذْ: جب ] [نَادٰى: انھوںؑ نے پکارا] [رَبَّهٗ: اپنے رب کو] [نِدَاۗءً خَفِيًّا: ایک خفیہ پکار سے]

يَّرِثُنِيْ وَيَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ ڰ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا Č۝
[يَّرِثُنِيْ: جو وارث ہو میرا] [وَيَرِثُ: اور جو وارث ہو] [مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ: یعقوبؑ کے پیروکاروں میں سے (لوگوں) کا] [وَاجْعَلْهُ: اور تو بنا اس کو] [رَبِ: اے میرے رب] [رَضِيًّا: پسندیدہ]

يٰزَكَرِيَّآ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِۨ اسْمُهٗ يَحْــيٰى ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا Ċ۝
[يٰزَكَرِيَّآ: اے زکریاؑ] [انا: بیشک ] [نُبَشِّرُكَ: ہم بشارت دیتے ہیں آپؑ کو] [بِغُلٰمِۨ: ایک ایسے لڑکے کی] [اسْمُهٗ: جس کا نام] [يَحْــيٰى: یحییٰ ہے] [لَمْ نَجْعَلْ: ہم نے نہیں بنایا] [لَهٗ: اس کے لئے] [مِنْ قَبْلُ: اس سے پہلے] [سَمِيًّا: کوئی ہم نام]

قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا Ď۝
[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [رَبِ: اے میرے رب] [انٰى: کہاں سے] [يَكُوْنُ: ہو گا] [لِيْ: میرے لئے] [غُلٰمٌ: کوئی لڑکا] [وَّ: اس حال میں کہ] [كَانتِ: ہے] [امْرَاَتِيْ: میری عورت] [عَاقِرًا: بانجھ] [وَّقَدْ بَلَغْتُ: اور میں پہنچ چکا ہوں] [مِنَ الْكِبَرِ: بڑھاپے سے (یعنی پڑھاپے کی)] [عِتِيًّا: حد سے گزرا ہوا]

قَالَ كَذٰلِكَ  ۚ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَّقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَـيْـــــًٔـا ۝
[قَالَ: (اللہ تعالیٰ نے) کہا] [كَذٰلِكَ: اس طرح سے] [قَالَ: کہہ دیا] [رَبُّكَ: آپؑ کیۃ رب نے] [هُوَ: یہ] [عَلَيَّ: مجھ پر] [هَيِّنٌ: آسان ہے] [وَّقَدْ خَلَقْتُكَ: اور میں پیدا کر چکا ہوں آپؑ کو] [مِنْ قَبْلُ: اس سے پہلے] [وَ: اس حال میں کہ] [لَمْ تَكُ: آپؑ نہیں تھے] [شَـيْـــــًٔـا: کوئی چیز]

يٰــيَحْـيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ  ۭ وَاٰتَيْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا 12۝ۙ
[يٰــيَحْـيٰى: اے یحییٰ ؑ] [خُذِ: آپؑ پکڑیں] [الْكِتٰبَ: کتاب (یعنی تورات)] [بِقُوَّةٍ: مضبوطی سے] [وَاٰتَيْنٰهُ: اور ہم نے دیا انؑ کو] [الْحُكْمَ: فیصلہ کرنے کی صلاحیت] [صَبِيًّا: بچہ ہوتے ہوئے]

 

نوٹ۔1: حضرت یحییٰ ؑ کے جو حالات مختلف انجیلوں میں بکھرے ہوئے ہیں، تفہیم القرآن میں ان کو جمع کر کے ان کی سیرت پاک کا ایک نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ ہم اس کا خلاصہ دی رہے ہیں۔

 حضرت یحییٰ ؑ ، حضرت عیسیٰ  ؑ سے چھ ماہ بڑے تھے۔ تقریباً تیس سال کی عمر میں وہ نبوت کے منصب پر عملاً مامور ہوئے۔ وہ لوگوں سے گناہوں کی توبہ کراتے تھے اور توبہ کرنے والوں کو بپتسمہ دیتے تھے یعنی توبہ کے بعد غسل کراتے تھے تاکہ روح اور جسم دونوں پاک ہو جائیں۔ یہودیہ اور یروشلم کے بکثرت لوگ ان کے معتقد ہو گئے تھے اور ان کے پاس جا کر بپتسمہ لیتے تھے۔ اسی بنا پر ان کا نام یوحنا بپتسمہ دینے والا (
JOHN THEBAPTIST) مشہور ہو گیا تھا۔

 وہ اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنتے۔ ان کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا۔ اس فقیرانہ زندگی کے ساتھ وہ منادی کرتے پھرتے تھے کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کو بادشاہی قریب آ گئی ہے۔ یعنی مسیحؑ کی دعوت نبوت کا آغاز ہونے والا ہے، وہ لوگوں کو نماز اور روزے کی تلقین کرتے تھے۔ وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ جس کے پاس دو کُرتے ہوں وہ اس کو جس کے پاس نہ ہو بانٹ دے۔ اور جس کے پاس کھانا ہو وہ بھی ایسا ہی کرے۔ محصول لینے والوں سے فرمایا کہ جو تمھارے لئے مقرر ہے اس سے زیادہ نہ لینا۔ سپاہیوں سے فرمایا کہ نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ ناحق کسی سے کچھ لو اور اپنی تنخواہ پر کفایت کرو۔

 ان کے عہد کا یہودی فرمانروا، جس کی ریاست میں وہ دعوت حق کی خدمت انجام دیتے تھے، سرتاپا رومی تہذیب میں فرق تھا۔ اس کی وجہ سے سارے ملک میں فسق و فجور پھیل رہا تھا۔ حضرت یحییٰ ؑ نے اس کو ملامت کی اور اس کی فاسقانہ حرکات کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس جرم میں اس نے ان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔

 فرمانروا کی سالگرہ کے جشن کے دربار میں ایک رقاصہ نے خوب رقص کیا جس پر خوش ہو کر اس نے کہا مانگ کیا مانگتی ہے۔ اس نے کہا مجھے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں رکھوا کر ابھی منگوا دیجئے۔ اس نے فوراً قید خانہ سے یحییٰ ؑ کا سر کٹوایا اور ایک تھال میں رکھ کر رقاصہ کی نذر کر دیا۔

وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَزَكٰوةً ۭ وَكَانَ تَقِيًّا 13؀ۙ
[وَّحَنَانا: اور شفقت (دی)] [مِّنْ لَّدُنَا: اپنے پاس سے] [وَزَكٰوةً: اور پاکیزگی (دی)] [وَكَان : اور وہؑ تھے] [تَقِيًّا: پرہیزگار]

 

ح ن ن

[صَنَانًا: (ص) ] کسی پر مہربان و شفیق ہونا۔

 صَنَانٌ اسم ذات بھی ہے۔ شفقت۔ مہربانی۔ زیر مطالعہ آیت۔13۔

 صَنَیْنٌ فعیل کے وزن پر اسم علم ہے۔ مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام جہاں جنگ حنین ہوئی تھی۔ آیت نمبر 9:25۔

وَّبَرّاً بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا ١4؁
[وَّځ ا: اور فرمانبردار (تھے)] [بِوَالِدَيْهِ: اپنے والدین کے] [وَلَمْ يَكُنْ: اور وہ نہیں تھے] [جبارًا: جبر کرنے والے] [عَصِيًّا : نافرمانی کرنے والے]

 

ترکیب: زیر مطالعہ آیات کا صحیح ترجمہ کرنے کے لئے منصوبات کی وجوہات کا تعین ضروری ہے۔ اٰتَیْنٰہُ کا مفعول ہونے کی وجہ اَلْحُکْمَ، صَنَانًا اور زَکٰوًۃ حالت نصب میں آئے ہیں جبکہ صَبِیًّا حال ہے۔ کَانَ کی خبر ہونے کی وجہ سے تَقِیًّا اور بَرًّا حالت نصب میں ہیں۔ جَبَّارًا اور عَصِیًّا خبریں ہیں لَمْ یَکُنْ کی جبکہ صَیًّا حال ہے۔

وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا 15۝ۧ
[وَسَلٰمٌ: اور سلامتی ہے] [عَلَيْهِ: انؑ پر] [يَوْمَ: جس دن] [وُلِدَ: وہ پید اکئے گئے] [وَيَوْمَ: اور جس دن] [يَمُوْتُ: وہ مریں گے ] [وَيَوْمَ: اور جس دن] [يُـبْعَثُ: وہ اٹھائے جائیں گے] [حَيًّا: زندہ ہوتے ہوئے]

وَاذْكُرْ فِى الْكِتٰبِ مَرْيَمَ  ۘاِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا 16۝ۙ
[وَاذْكُرْ: اور یاد کرو] [فِى الْكِتٰبِ: اس کتاب میں] [مَرْيَمَ: مریم کو] [اِذِ: جب] [انتَبَذَتْ: وہ علیحدہ ہوئیں] [مِنْ اَهْلِهَا: اپنے لوگوں سے] [مَكَانا شَرْقِيًّا: ایک مشرقی جگہ میں]

 

نوٹ۔1: بی بی مریم کا ایک مشرقی جگہ میں الگ ہونیکا مطلب یہ ہے کہ وہ ہیکل کے مشرقی جانب میں معتکف ہو گئیں۔ مشرقی جانب میں اس وجہ سے کہ ہیکل کا جو حصہ عورتوں کے اعتکاف اور عبادت کے لئے خاص تھا وہ مشرقی سمت میں ہی تھا۔ حضرت جبریل ؑ نے انھیں اولاد ہونے کی جو خبر دی، اس پر بی بی مریم نے جن الفاظ میں تعجب کا اظہار کیا، اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ لوقا کی یہ روایت بالکل بےسروپا ہے کہ یوسف نامی کسی شخص سے ان کا نکاح ہوا تھا۔ اگر ان کا نکاح ہوا ہوتا تو یہ خبر ان کے لئے ایک خوشخبری ہوتی اور وہ مذکورہ الفاظ میں اس پر تشویش اور حیرت کا اظہار کرنے کے بجائے اللہ کا شکر ادا کرتیں۔ لوقا کی یہ روایت یہود کی دراندازی کا مولودِ فساد ہے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کو خارق عادت ولادت کے مخالف ہیں۔ ہمارے ہاں جن لوگوں نے بےسوچے سمجھے اس روایت کو نقل کرلیا ہے انھوں نے نادانستہ یہود ہی کی مقصد براری کی ہے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: بی بی مریم کے اظہار تعجب کے جواب میں حضرت جبریل ؑ نے فرمایا کَذٰلِکَ یعنی ایسا ہی ہو گا۔ یہ ہرگز اس معنی میں نہیں ہو سکتا کہ بشر تجھ کو چھوئے گا اور اس سے تیرے ہاں لڑکا پیدا ہو گا۔ بلکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تیرے ہاں لڑکا ہو گا، باجوود اس کے کہ تجھے کسی بشر نے نہیں چھوا ہے۔ اس سے پہلے آیت نمبر۔8۔ میں حضرت زکریاؑ کا استعجاب نقل ہو چکا ہے، وہاں بھی یہی جواب دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو مطلب اس جواب کا وہاں ہے، وہی یہاں بھی ہے۔ اسی طرح سورئہ ذاریات کی آیات 28 تا 30 میں جب فرشتہ حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی بشارت دیتا ہے اور حضرت سارہ کہتی ہیں کہ مجھ بوڑھی بانجھ کے ہاں بیٹا کیسے ہو گا تو فرشتہ ان کو جواب دیتا ہے کہ کَذٰلِکَ (ایسا ہی ہو گا)۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود اولاد ہونا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کذلک کا یہ مطلب لیا جائے کہ بشر تجھے چھوئے گا اور تیرے ہاں اسی طرح لڑکا ہو گا جیسے دنیا بھر کی عورتوں کے ہاں ہوتا ہے، تو پھر بعد کے دونوں فقرے بےمعنی ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ تیرا رب کہتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لئے بہت آسان ہے اور ہم اس لڑکے کو ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔3: حضرت عیسیٰ  ؑ کی پیدائش کو نشانی اس لئے بنایا تاکہ لوگ جان لیں کہ وہ خالق ہر طرح کی پپدائش پر قادر ہے۔ حضرت آدمؑ کو بغیر عورت مرد کے پیدا کیا۔ بی بی حوّا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا۔ باقی تمام انسانوں کو مرد عورت سے پیدا کیا۔ حضرت عیسیٰ  ؑ کو بغیر مرد کے صرف عورت سے پیدا کیا۔ پس تقسیم کی یہ چار ہی صورتیں ہو سکتی تھیں جو سب پوری کر دی گئیں اور اللہ نے اپنی کمال قدرت کی مثال قائم کر دی۔ (ابن کثیر (رح) )۔

فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا    ڨ فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا 17؀
[فَاتَّخَذَتْ: پھر انھوں نے پکڑا] [مِنْ دُوْنِهِمْ: ان لوگوں کے علاوہ سے (یعنی ہٹ کر)] [حِجَابًا: ایک اوٹ] [فَاَرْسَلْنَآ: تو ہم نے بھیجا] [اِلَيْهَا: ان کی طرف] [رُوْحَنَا: اپنی روح (یعنی جبریل ؑ کو)] [فَتمثَّلَ: تو وہ شکل میں آ گئے] [لَهَا: ان کے لئے] [بَشَرًا سَوِيًّا: ایک مکمل آدمی کے]

قَالَتْ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِيًّا  18؀
[قَالَتْ: (بی بی مریم نے) کہا] [انىٓ: کہ میں ] [اَعُوْذُ: پناہ میں آتی ہوں] [بِالرَّحْمٰنِ: رحمن کی] [مِنْكَ: تجھ سے] [ان : اگر ] [كُنْتَ: تو ہے] [تَقِيًّا: پرہیزگار]

قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ڰ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِيًّا  19؁
[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [انمَآ: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [انا: میں] [رَسُوْلُ رَبِكِ: آپ کے رب کا پیغامبر ہوں] [لِاَهَبَ: کہ میں عطا کروں] [لَكِ: آپ کے لئے] [غُلٰمًا زَكِيًّا: ایک پاکیزہ لڑکا]

قَالَتْ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌ وَّلَمْ اَكُ بَغِيًّا 20؀
[قَالَتْ: انھوں نے کہا] [انٰى: کہاں سے] [يَكُوْنُ: ہو گا] [لِيْ: میرے لئے] [غُلٰمٌ: کوئی لڑکا] [وَّ: حالانکہ ] [لَمْ يَمْسَسْنِيْ: چھوا ہی نہیں مجھ کو] [بَشَرٌ: کسی آدمی نے] [وَّلَمْ اَكُ: اور نہ میں ہوں] [بَغِيًّا: کوئی زیادتی والی]

قَالَ كَذٰلِكِ ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ۚ وَلِنَجْعَلَهٗٓ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا  ۚ وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا 2١؁
[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [كَذٰلِكِ: اس طرح سے] [قَالَ: کہا] [رَبُّكِ: آپ کے رب نے ] [هُوَ: وہ ] [عَلَيَّ: مجھ پر] [هَيِّنٌ: آسان ہے] [وَلِنَجْعَلَهٗٓ: اور تاکہ ہم بنائیں اس (لڑکے) کو] [اٰيَةً: ایک نشانی] [لِلنَاسِ: لوگوں کے لئے] [وَرَحْمَةً: اور رحمت ہوتے ہوئے] [مِّنَا: ہماری طرف سے] [وَكَان : اور وہ ہے] [اَمْرًا: ایک کام] [مَّقْضِيًّا: فیصلہ کیا ہوا]

فَـحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِيًّا 22؀
[فَـحَمَلَتْهُ: پس انھوں نے اٹھایا اس (بچے) کو (پیٹ میں)] [فَانتَبَذَتْ: پھر وہ علیحدہ ہوئیں] [بِهٖ: اس کے ساتھ] [مَكَانا قَصِيًّا: ایک دور والی جگہ میں]

 

نوٹ۔1: آیت۔22۔ میں دور والی جگہ سے مراد بیت لحم ہے۔ بی بی مریم کا اپنے اعتکاف سے نکل کر وہاں جانا اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ  ؑ باپ کے بغیر پیدا ہوئے تھے۔ اگر وہ شادی شدہ ہوتیں اور شوہر سے ہی ان کے ہاں بچہ پیدا ہو رہا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ میکے اور سسرال، سب کو چھوڑ چھاڑ کر وہ زچگی کے لئے تن تنہا ایک دور دراز مقام پر چلی جاتیں۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔2: قبل از اسلام یہ بھی عبادت میں داخل تھا کہ بولنے کا روزہ رکھے۔ صبح سے رات تک کسی سے کلام نہ کرے۔ اسلام نے اس کو منسوخ کر کے یہ لازم کردیا کہ صرف برے کلام، گالی گلوچ، جھوٹ، غیبت وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔ عام گفتگو ترک کرنا اسلام میں کوئی عبادت نہیں رہی اس لئے اس کی نذر ماننا بھی جائز نہیں۔ (معارف القرآن)

فَاَجَاۗءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ  ۚ قَالَتْ يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيًّا  23؀
[فَاَجَاۗءَهَا: پھر لایا ان کو] [الْمَخَاضُ: دردِ زِہ] [اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ: کھجور کے تنے کی طرف] [قَالَتْ: انھوں نے کہا] [يٰلَيْتَنِيْ: اے کاش میں] [مِتُّ: مر جاتی] [قَبْلَ ھٰذَا: اس سے پہلے] [وَكُنْتُ: اور میں ہوتی] [نَسْيًا مَنْسِيًّا: ایک بھولی بسری چیز]

 

م خ ض

[مَخَاضًا: (س) ] حاملہ کا درد زِہ میں مبتلا ہونا۔

 مَخَاصٌ اسم ذات بھی ہے۔ درد زِہ۔ زیر مطالعہ آیت۔23۔

ض ذ ع

[جَذْعًا: (ف) ] دو اونٹوں کو ایک رسی میں باندھنا۔

 جِذْعٌ ج جُدُوْعٌ۔ درخت کا تنہ۔ زیر مطالعہ آیت۔23 اور وَلَاْوصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُدُوْعِ النَّخْلِ (اور میں لازماً پھانسی دوں گا تم لوگوں کو کھجور نے تنوں میں) 20:71

فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَآ اَلَّا تَحْزَنِيْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا 24؀
[فَنَادٰىهَا: تو آواز دی ان کو] [مِنْ تَحْتِهَآ: ان کے نیچے سے] [اَلَّا تَحْزَنِيْ: کہ آپ غمگین مت ہوں] [قَدْ جَعَلَ: بنا دی ہے] [رَبُّكِ: آپ کے رب نے] [تَحْتَكِ: آپ کے نیچے] [سَرِيًّا: ایک نہر]

وَهُزِّيْٓ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا 25؀ۡ
[وَهُزِّيْٓ: اور آپ بلائیں] [اِلَيْكِ: اپنی طرف] [بِجِذْعِ النَّخْلَةِ: کھجور کے تنے کو] [تُسٰقِطْ: تو وہ گراتا رہے گا] [عَلَيْكِ: آپ پر] [رُطَبًا: پکے ہوئے] [جَنِيًّا: چنے ہوئے پھل]

 

ھ ز ز

[ھَوًّا: (ن) ] کسی چیز کو حرکت دینا۔ ہلانا۔

 ھُزٌّ فعل امر ہے۔ زیر مطالعہ آیت۔25۔

(افتعال) اِھْتِزَازًا کسی چیز کا حرکت میں آنا۔ ہلنا۔ لہلہانا۔ فَلَمَّا رَاٰھَا تَھْتَزُّ کَاَنَّھَا جَانٌّ (پھر جب انھوںؑ نے دیکھا اس کو یعنی لاٹھی کو کہ وہ ہلتی ہے جیسے کہ وہ کوئی سانپ ہے) 27:10۔ مَاِذَا اَنْزَلْنَا عَلَیْھَا الْمَائَ اھْتَزَّتْ (پھر جب ہم نے اتارا اس پر یعنی زمین پر پانی تو وہ لہلہا اٹھی) 22:5

ج ن ی

[جَنْیًا: (ض) ] درخت سے پھل چننا۔

 جَنِیٌّ ابھی کا چنا ہوا پھل۔ تازہ پھل۔ چنا ہوا پھل۔ زیر مطالعہ آیت۔25

فَكُلِيْ وَاشْرَبِيْ وَقَرِّيْ عَيْنًا  ۚ فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا  ۙ فَقُوْلِيْٓ اِنِّىْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِـيًّا 26؀ۚ
[فَكُلِيْ: پس آپ کھائیں] [وَاشْرَبِيْ: اور پئیں] [وَقَرِّيْ: اور ٹھنڈی رکھیں] [عَيْنًا: آنکھ] [فَاِمَا: پھر اگر] [تَرَيِنَّ: آپ دیکھیں] [مِنَ الْبَشَرِ: بشر میں سے] [اَحَدًا: کسی ایک کو] [فَقُوْلِيْٓ: تو آپ کہیں] [انى: کہ میں نے] [نَذَرْتُ: منت مانی ہے] [لِلرَّحْمٰنِ: رحمن کے لئے] [صَوْمًا: روزہ رکھنے کی] [فَلَنْ اُكَلِمَ: تو میں ہرگز کلام نہیں کروں گی] [الْيَوْمَ: آج کے دن] [انسِـيًّا: کسی انسان سے]

فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ  ۭ قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَـيْـــــًٔـا فَرِيًّا 27؀
[فَاَتَتْ بِهٖ: پھر وہ لائیں اس (بچے) کو] [قَوْمَهَا: اپنی قوم کے پاس] [تَحْمِلُهٗ: اٹھاتے ہوئے اس کو] [قَالُوْا: ان لوگوں نے کہا] [يٰمَرْيَمُ: اے مریم] [لَقَدْ جِئْتِ: بیشک آپ نے کیا ہے] [شَـيْـــــًٔـا فَرِيًّا: ایک حیران کن چیز (یعنی کام)]

يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا 28؀ڻ
[يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ: اے ہارونؑ کی بہن] [مَا كَان : نہیں تھے] [اَبُوْكِ: آپ کے والد] [امْرَاَ سَوْءٍ: کسی برائی کے آدمی] [وَّمَا كَانتْ: اور نہیں تھیں] [اُمُّكِ: آپ کی والدہ] [بَغِيًّا: کوئی زیادتی والی]

فَاَشَارَتْ اِلَيْهِ ۭ قَالُوْا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا 29؁
[فَاَشَارَتْ: تو انھوں نے اشارہ کیا] [اِلَيْهِ: اس (بچے) کی طرف] [قَالُوْا: ان لوگوں نے کہا] [كَيْفَ: کیے] [نُكَلِمُ: ہم کلام کریں] [مَنْ: اس سے جو] [كَان : ہے] [فِي الْمَهْدِ: پلنگڑے میں] [صَبِيًّا: بچہ ہوتے ہوئے]

قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ ڜ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِيْ نَبِيًّا 30؀ۙ
[قَالَ: اس (بچے) نے کہا] [انى: کہ میں] [عَبْدُ اللّٰهِ: اللہ کا بندہ ہوں] [اٰتٰىنِيَ: اس نے دی مجھ کو] [الْكِتٰبَ: کتاب] [وَجَعَلَنِيْ: اور اس نے بلایا مجھ کو] [نَبِيًّا: ایک نبی]

وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ  ۠وَاَوْصٰىنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا 31؀ډ
[وَّجَعَلَنِيْ: اور اس نے بنایا مجھ کو] [مُبٰرَكًا: برکت دیا ہوا] [اَيْنَ مَا: جہاں کہیں بھی] [كُنْتُ : میں ہوں] [
وَاَوْصٰىنِيْ: اور اس نے تاکید کی مجھ کو] [بِالصَّلٰوةِ: نماز کی] [وَالزَّكٰوةِ: اور زکٰوۃ کی] [مَا دُمْتُ: جب تک میں رہوں] [حَيًّا: زندہ]

وَځ ا بِوَالِدَتِيْ  ۡ وَلَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا 32؁
[وَځ ا: اور (بتایا مجھ کو) فرمانبردار] [بِوَالِدَتِيْ: میری والدہ کا] [وَلَمْ يَجْعَلْنِيْ: اور اس نے نہیں بنایا مجھ کو] [جبارًا: جبر کرنے والا] [شَقِيًّا: نامراد]

 

نوٹ۔1: آیت۔32۔ میں یہ نہیں ہے کہ اس نے مجھے اپنے والدین کا فرمانبردار بنایا ہے جیس اکہ حضرت یحییٰ ؑ کے ذکر میں آیت۔14۔ میں والدین کا لفظ آیا ہے۔ کیونکہ حضرت یحییٰ ؑ کے والد اور والدہ، دونوں تھے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف والدہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ اس بات کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ حضرت عیسیٰ  ؑ کے والد نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ؑ کو قرآن مجید میں ہر جگہ عیسیٰ  ؑ ابن مریم کہا گیا ہے۔

وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا 33؀
[وَالسَّلٰمُ: اور سلام ہے] [عَلَيَّ: مجھ پر] [يَوْمَ: جس دن] [وُلِدْتُّ: میں پیدا کیا گیا] [وَيَوْمَ: اور جس دن] [اَمُوْتُ: میں مروں گا] [وَيَوْمَ: اور جس دن] [اُبْعَثُ: میں اٹھایا جائوں گا] [حَيًّا: زندہ ہوتے ہوئے]

ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ  ۚ قَوْلَ الْحَــقِّ الَّذِيْ فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ 34؁
[ذٰلِكَ: یہ] [عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ: عیسیٰ  ؑ ابن مریم ہیں] [قَوْلَ الْحَــقِّ الَّذِي: (میں کہتا ہوں) انؑ کی سچی بات] [فِيْهِ: جن (کے بارے) میں] [يَمْتَرُوْنَ: یہ لوگ جھگڑتے ہیں]

مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّــتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ  ۙ سُبْحٰــنَهٗ  ۭ اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ 35؀ۭ
[مَا كَان : نہیں ہے] [للّٰهِ: اللہ کے لئے] [ان : کہ] [يَّــتَّخِذَ: وہ بنائے ] [مِنْ وَّلَدٍ: کوئی بھی اولاد] [سُبْحٰــنَهٗ: پاکیزگی اس کو ہے] [اِذَا: جب بھی] [قَضٰٓى: وہ فیصلہ کرتا ہے] [اَمْرًا: کسی کام کا] [فَانمَا: تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [يَقُوْلُ: وہ کہتا ہے] [لَهٗ: اس کو (کہ)] [كُنْ: تو ہو جا] [فَيَكُوْنُ: تو وہ ہو جاتا ہے]

وَاِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ  ۭھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ 36؁
[وَان : اور بیشک] [اللّٰهَ: اللہ] [رَبِيْ: میرا رب ہے] [وَرَبُّكُمْ: اور تم لوگوں کا رب ہے] [فَاعْبُدُوْهُ: پس تم لوگ بندگی کرو اس کی] [ھٰذَا: یہ] [صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ: ایک سیدھا راستہ ہے]

فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَيْنِهِمْ  ۚ فَوَيْلٌ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيْمٍ 37؀
[فَاخْتَلَفَ: پھر اختلاف کیا] [الْاَحْزَابُ: گروہوں نے] [مِنْۢ بَيْنِهِمْ: ان لوگوں میں سے] [فَوَيْلٌ: پس تباہی ہے] [لِـلَّذِيْنَ: ان کے لئے جنھوں نے] [كَفَرُوْا: انکار کیا] [مِنْ مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيْمٍ: ایک عظیم دن کے دیکھنے کے وقت سے]

اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ  ۙيَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 38؀
[اَسْمِعْ بِهِمْ: کیا خوب سننے والے ہوں گے] [وَاَبْصِرْ: اور دیکھنے والے ہوں گے] [يَوْمَ: جس دن] [يَاْتُوْنَنَا: یہ لوگ آئیں گے ہمارے پاس] [لٰكِنِ: لیکن] [الظّٰلِمُوْنَ: یہ ظالم لوگ] [الْيَوْمَ: آج کے دن ] [فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ: ایک کھلی گمراہی میں ہیں]

وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ  ۘ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَّهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ  39؁
[وَانذِرْهُمْ: اور آپؐ خبردار کر دیں ان کو] [يَوْمَ الْحَسْرَةِ: حسرتوں کے دن سے] [اِذْ: جب] [قُضِيَ: فیصلہ کردیا جائے گا] [الْاَمْرُ: تمام معاملات کا] [وَهُمْ: اور (ابھی) یہ لوگ] [فِيْ غَفْلَةٍ: غفلت میں ہیں] [وَّهُمْ: اور یہ لوگ] [لَا يُؤْمِنُوْنَ: ایمان نہیں لائیں گے]

 

نوٹ۔1: تمام معاملات کا فیصلہ ہو جانے کے بعد والے دن کو حسرتوں کا دن اس لئے کہا گیا کہ اہل جہنم کو حسرت ہوگی کہ اگر وہ مومن صالح ہوتے تو ان کو جنت ملتی۔ جبکہ اہل جنت کو بھی ایک خاص قسم کی حسرت ہو گی۔ رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ اہل جنت کو کسی چیز پر حسرت نہ ہو گی۔ بجز ان لمحاتِ وقت کے جو بغیر ذکر اللہ کے گزر گئے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ہر مرنے والے کو حسرت و ندامت سے سابقہ پڑے گا۔ صحابۂ کرام (رض)  نے سوال کیا کہ یہ ندامت و حسرت کس بناء پر ہوگی تو آپؐ نے فرمایا کہ نیک اعمال کرنے والوں کو اس پر حسرت ہوگی کہ اور زیادہ نیک اعمال کیوں نہ کر لئے کہ اور زیادہ درجات جنت ملتے اور بدکار کو اس پر حسرت ہوگی کہ وہ اپنی بدکاری سے باز کیوں نہ آ گیا۔ (معارف القرآن)

اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ 40؀ۧ
[انا: بیشک] [نَحْنُ: ہم ہی [نَرِثُ: وارث ہوں گے] [الْاَرْضَ: اس زمین کے] [وَمَنْ: اور ان کے جو] [عَلَيْهَا: اس پر ہیں] [وَاِلَيْنَا: اور ہماری طرف ہی] [يُرْجَعُوْنَ: لوٹائے جائیں گے]

وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ ڛ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا 41؀
[وَاذْكُرْ: اور یاد کرو] [فِي الْكِتٰبِ: اس کتاب میں] [اِبْرٰهِيْمَ: ابراہیمؑ کو] [انهٗ: بیشک وہ] [كَان: تھے] [صِدِّيْقًا: ایک انتہائی سچے] [نَّبِيًّا: (اور) ایک نبی]

اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَـيْــــــًٔــا 42؀
[اِذْ: جب] [قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [لِاَبِيْهِ: اپنے والد سے] [يٰٓاَبَتِ: اے میرے والد] [لِمَ تَعْبُدُ: آپ کیوں بندگی کرتے ہیں] [مَا: اس کی جو] [لَا يَسْمَعُ: نہیں سنتا] [وَلَا يُبْصِرُ: اور نہیں دیکھتا] [وَلَا يُغْنِيْ: اور کام نہیں آتا] [عَنْكَ: آپ کے] [شَـيْــــــًٔــا: کچھ بھی]

يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ قَدْ جَاۗءَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِيْٓ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا 43؀
[يٰٓاَبَتِ: اے میرے والد] [انى: بیشک] [قَدْ جَاۗءَنِيْ: آ چکا ہے میرے پاس] [مِنَ الْعِلْمِ: علم میں سے] [مَا: وہ جو] [لَمْ يَاْتِكَ: نہیں پہنچا آپ تک] [فَاتَّبِعْنِيْٓ: پس آپ پیروی کریں میری] [اَهْدِكَ: تو میں ہدایت دوں گا ] [صِرَاطًا سَوِيًّا: آپ کو ایک ہموار راستے کی]

يٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَ  ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِيًّا 44؀
[يٰٓاَبَتِ: اے میرے والد ] [لَا تَعْبُدِ: آپ بندگی مت کریں] [الشَّيْطٰنَ: شیطان کی] [ان : بیشک] [الشَّيْطٰنَ: شیطان] [كَان : ہے] [لِلرَّحْمٰنِ: رحمان کا] [عَصِيًّا: نافرمان]

يٰٓاَبَتِ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّيْطٰنِ وَلِيًّا 45؁
[يٰٓاَبَتِ: اے میرے والد] [انىٓ: بیشک] [اَخَافُ: میں ڈرتا ہوں] [ان : کہ] [يَّمَسَّكَ: چھولے آپ کو] [عَذَابٌ: کوئی عذاب] [مِّنَ الرَّحْمٰنِ: رحمن (کی طرف) سے] [فَتَكُوْنَ: نتیجۃً آپ ہو جائیں] [لِلشَّيْطٰنِ: شیطان کے] [وَلِيًّا: ایک کارندے]

قَالَ اَ رَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِــهَـتِيْ يٰٓاِبْرٰهِيْمُ  ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَـــنَّكَ وَاهْجُرْنِيْ مَلِيًّا  46؀
[قَالَ: (والد نے) کہا] [اَ: کیا] [ رَاغِبٌ: روگردانی کرنے والا ہے] [انتَ: تو] [عَنْ اٰلِــهَـتِيْ: میرے معبودوں سے] [يٰٓاِبْرٰهِيْمُ: اے ابراہیم ؑ] [لَىِٕنْ: بیشک اگر] [لَمْ تَنْتَهِ: تو باز نہ آیا] [لَاَرْجُمَـــنَّكَ: تو میں لازماً سنگسار کروں گا تجھ کو] [وَاهْجُرْنِيْ: اور تو چھوڑ دے مجھ کو] [مَلِيًّا: ہمیشہ کے لئے]

قَالَ سَلٰمٌ عَلَيْكَ ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ  ۭاِنَّهٗ كَانَ بِيْ حَفِيًّا 47؁
[قَالَ: انھوں ؑ نے کہا] [سَلٰمٌ: سلامتی ہو] [عَلَيْكَ: آپ پر] [سَاَسْتَغْفِرُ: میں مغفرت مانگوں گا] [لَكَ: آپ کے لئے] [رَبِيْ: اپنے رب سے] [انهٗ: بیشک وہ] [كَان : ہے] [بِيْ: مجھ پر] [حَفِيًّا: شفقت کرنے والا]

وَاَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَاَدْعُوْا رَبِّيْ ڮ عَسٰٓى اَلَّآ اَكُوْنَ بِدُعَاۗءِ رَبِّيْ شَقِيًّا 48؁
[وَاَعْتَزِلُكُمْ: اور میں کنارہ کش ہوتا ہوں آپ سب سے] [وَمَا: اور اس سے جس کو] [تَدْعُوْنَ: آپ لوگ پکارتے ہیں] [مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے سوا] [وَاَدْعُوْا: اور میں پکارتا ہوں] [رَبِيْ: اپنے رب کو] [عَسٰٓى: امید ہے] [اَلَّآ اَكُوْنَ: کہ میں نہیں ہوں گا ] [بِدُعَاۗءِ رَبِيْ: اپنے رب کو پکارنے سے] [شَقِيًّا: نامراد]

فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ  ۙ وَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ  ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا 49؁
[فَلَمَا: پھر جب] [اعْتَزَلَهُمْ: وہؑ کنارہ کش ہوئے ان سے] [وَمَا: اور اس سے جس کی] [يَعْبُدُوْنَ: وہ لوگ بندگی کرتے تھے] [مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے علاوہ] [وَهَبْنَا: تو ہم نے عطا کیا] [لَهٗٓ: انؑ کو] [اِسْحٰقَ: اسحاقؑ] [وَيَعْقُوْبَ: اور یعقوبؑ] [وَكُلًّا: اور ہر ایک کو] [جَعَلْنَا: ہم نے بنایا] [نَبِيًّا: نبی]

وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا 50؀ۧ
[وَوَهَبْنَا: اور ہم نے عطا کیا] [لَهُمْ: انؑ کے لئے] [مِّنْ رَّحْمَتِنَا: اپنی رحمت میں سے] [وَجَعَلْنَا: اور ہم نے بنایا] [لَهُمْ: ان ؑ کے لئے] [لِسَان صِدْقٍ: سچائی کی بات] [عَلِيًّا: بلند ہونے والی ہوتے ہوئے]

وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مُوْسٰٓى ۡ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا 51؀
وَاذْكُرْ: اور یاد کرو] [فِي الْكِتٰبِ: اس کتاب میں] [مُوْسٰٓى: موسٰیؑ کو] [انهٗ: بیشک وہ] [كَان : تھے] [مُخْلَصًا: چنے ہوئے] [وَّكَان : اور وہ تھے] [رَسُوْلًا: رسول] [نَّبِيًّا: نبی]

 

نوٹ۔1: قرآن مجید میں رسول اور نبی، دونوں الفاظ ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی شخصیت کو کہیں صرف رسول کہا گیا ہے اور کہیں صرف نبی اور کہیں رسول اور نبی ایک ساتھ۔ لیکن بعض مقامات پر رسول اور نبی کے الفاظ اس طرح بھی استعمال ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں مرتبے یا کام کی نوعیت کے لحاظ سے کوئی اصطلاحی فرق ہے۔ مثلاً سورئہ حج کی آیت۔52۔ میں فرمایا ’’ ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر……‘‘۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ رسول اور نبی کے درمیان کوئی معنوی فرق ضرور ہے۔ اہل تفسیر نے اس پر بحث کی ہے لیکن قطعی دلائل کے ساتھ کوئی بھی رسول اور نبی کی الگ الگ حیثیتوں کا تعین نہیں کرسکا۔ البتہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ رسول کا لفظ نبی کی نسبت خاص ہے۔ یعنی ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ اس کی تائید ایک حدی سے بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ
سے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپؐ نے 313 یا 315 بتائی۔ اور انبیاء کی تعداد پوچھی گئی تو آپؐ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی (تفہیم القرآن)

وَنَادَيْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَيْمَنِ وَقَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا 52؀
[وَنَادَيْنٰهُ: اور ہم نے پکارا انؑ کو] [مِنْ جانب الطُّوْرِ الْاَيْمَنِ: طور کی داہنی جانب سے] [وَقَرَّبْنٰهُ: اور ہم نے قربت دی انؑ کو] [نَجِيًّا: سرگوشی والا ہوتے ہوئے]

وَوَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَآ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِيًّا 53؁
[وَوَهَبْنَا: اور ہم نے عطا کیا] [لَهٗ: انؑ کے لئے] [مِنْ رَّحْمَتِنَآ: اپنی رحمت سے] [اَخَاهُ: انؑ کے بھائی] [هٰرُوْنَ: ہارون کو] [نَبِيًّا: نبی ہوتے ہوئے]

وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ ۡ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا 54؀ۚ
[وَاذْكُرْ: اور یاد کرو] [فِي الْكِتٰبِ: اس کتاب میں] [اِسْمٰعِيْلَ: اسماعیل ؑ کو] [انهٗ: بیشک وہ] [كَان : تھے] [صَادِقَ الْوَعْدِ: وعدے کے سچے] [وَكَان : اور وہ تھے] [رَسُوْلًا: رسول] [نَّبِيًّا: نبی]

وَكَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ  ۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِيًّا 55؀
[وَكَان يَاْمُرُ: اور حکم کرتے تھے] [اَهْلَهٗ: اپنے گھر والوں کو] [بِالصَّلٰوةِ: نماز کا] [وَالزَّكٰوةِ: اور زکٰوۃ کا] [وَكَان : اور وہ تھے] [عِنْدَ رَبِهٖ: اپنے رب کے پاس] [مَرْضِيًّا: پسند کئے ہوئے]

وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ ۡ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا 56؀ڎ
[وَاذْكُرْ: اور یاد کرو] [فِي الْكِتٰبِ: اس کتاب میں] [اِدْرِيْسَ: ادریسؑ کو] [انهٗ: بیشک وہ] [كَان : تھے] [صِدِّيْقًا نَّبِيًّا: سچے نبی]

 

نوٹ۔2: حضرت ادریس ؑ کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بنی اسرائیل سے بھی پہلے گزرے ہیں۔ کوئی حدیث ایسی نہیں ملی جس سے ان کی شخصیت کے تعین میں کوئی مدد ملتی ہو۔ البتہ قرآن کا ایک اشارہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ وہ نوحؑ سے پہلے ہیں۔ کیونکہ بعد والی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ انبیاء جن کا ذکر گزرا ہے، آدمؑ کی اولاد، نوحؑ کی اولاد، ابراہیم ؑ کی اولاد اور اسرائیل ؑ کی اولاد سے ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ، عیسیٰ اور موسٰی علیھم السلام تو بنی اسرائیل میں سے ہیں، حضرت اسمٰعیل، اسحق اور یعقوب علیھم السلام اولاد ابراہیم ؑ سے ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ اولاد نوحؑ سے ہیں۔ ان کے بعد صرف حضرت ادریسؑ ہی رہ جاتے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اولاد آدمؑ سے ہیں۔ اور وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا کا سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حؑضرت ادریسؑ کو بلند مرتبہ عطا کیا تھا۔ لیکن اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر یہ بات ہمارے ہاں بھی مشہور ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو آسمان پر اٹھا لیا۔ (تفہیم القرآن)

وَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا 57؁
[وَّرَفَعْنٰهُ: اور ہم نے بلند کیا انؑ کو] [مَكَانا عَلِيًّا: ایک بالا تر مقام پر]

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ  ۡ وَّمِنْ ذُرِّيَّةِ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْرَاۗءِيْلَ ۡ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا  ۭاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا 58؀۞
[اُولٰۗىِٕكَ الَّذِينَ: یہ وہ لوگ ہیں] [انعَمَ: انعام کیا] [اللّٰهُ: اللہ نے] [عَلَيْهِمْ: جن پر] [مِّنَ النَّبِيّٖنَ: نبیوں میں سے] [مِنْ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ: آدمؑ کی اولاد میں سے] ۤ[ وَمِمَنْ: اور ان میں سے جن کو] [حَمَلْنَا: ہم نے سوار کیا] [مَعَ نُوْحٍ: نوحؑ کے ساتھ ] [وَّمِنْ ذُرِّيَّةِ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْرَاۗءِيْلَ: اور ابراہیمؑ اور اسرائیلؑ کی اولاد میں سے] [وَمِمَنْ: اور ان میں سے جن کو] [هَدَيْنَا: ہم نے ہدایت دی] [وَاجْتَبَيْنَا: اور ہم نے منتخب کیا] [اِذَا: جب] [تُتْلٰى عَلَيْهِمْ: پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان کو] [اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ: رحمن کی آیتیں] [خَرُّوْا: تو وہ گر پڑتے ہیں] [سُجَّدًا: سجدہ کرنے والے ہوتے ہوئے] [وَّبُكِيًّا: اور روتے ہوئے]

فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّـبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا 59؀ۙ
[فَخَــلَفَ: پھر جانشین ہوئے] [مِنْۢ بَعْدِهِمْ: ان کے بعد] [خَلْفٌ: کچھ ایسے جانشین جنھوں نے] [اَضَاعُوا: ضائع کیا] [الصَّلٰوةَ: نماز کو] [وَاتَّـبَعُوا: اور انھوں نے پیروی کی] [الشَّهَوٰتِ: خواہشات کی] [فَسَوْفَ: تو عنقریب] [يَلْقَوْنَ: وہ لوگ ملیں گے] [غَيًّا: گمراہی سے]

 

نوٹ۔1: نماز کو ضائع کرنے سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک نماز کو اس کے وقت سے تاخیر کر کے پڑھنا ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ نماز کے آداب و شرائط میں سے کسی میں کوتاہی کرنا، جس میں وقت بھی شامل ہے، نماز کو ضائع کرنا ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اضاعتِ صلٰوۃ سے مراد ہے جماعت کے گھر میں نماز پڑھ لینا ہے۔ رسول اللہ
نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو نماز میں اقامت نہ کرے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جو رکوع اور سجدے میں جلدی کرے اور رکوع سے سیدھا کھڑا ہونے کا اور دو سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھنے کا اہتمام نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی یعنی ضائع ہو جاتی ہے۔ (معارف القرآن)

اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَــنَّةَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ شَـيْــــــًٔا 60؀ۙ
[اِلَّا مَنْ: سوائے اس کے جس نے] [تَابَ: توبہ کی] [وَاٰمَنَ: اور ایمان لایا] [وَعَمِلَ: اور عمل کیا] [صَالِحًـا: نیک ] [فَاُولٰۗىِٕكَ: تو وہ لوگ] [يَدْخُلُوْنَ: داخل ہوں گے] [الْجَــنَّةَ: جنت میں] [وَلَا يُظْلَمُوْنَ: اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا] [شَـيْــــــًٔا: کچھ بھی]

جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَهٗ بِالْغَيْبِ  ۭ اِنَّهٗ كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِيًّا 61 ؁
[جَنّٰتِ عَدْنِۨ : عدن کے باغات] [الَّتِيْ: جن کا] [وَعَدَ: وعدہ کیا] [الرَّحْمٰنُ: رحمن نے] [عِبَادَهٗ: اپنے بندوں سے] [بِالْغَيْبِ: غیب میں] [انهٗ: حقیقت یہ ہے کہ] [كَان : ہے] [وَعْدُهٗ: اس کا وعدہ] [مَاتِيًّا: پورا کیا ہوا]

لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا  ۭ وَلَهُمْ رِزْقُـهُمْ فِيْهَا بُكْرَةً وَّعَشِيًّا 62؀
[لَا يَسْمَعُوْنَ: وہ نہیں سنیں گے] [فِيْهَا: اس میں ] [لَغْوًا: کوئی بیہودہ بات] [اِلَّا: مگر] [سَلٰمًا: سلام] [وَلَهُمْ: اور ان کے لئے] [رِزْقُـهُمْ: ان کی روزی ہے] [فِيْهَا: اس میں] [بُكْرَةً: صبح کے وقت] [وَّعَشِيًّا: اور شام کے وقت]

تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا 63؁
[تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ: یہ وہ جنت ہے جس کا] [نُوْرِثُ: ہم وارث بنائیں گے] [مِنْ عِبَادِنَا: اپنے بندوں میں سے] [مَنْ: اس کو جو] [كَان : تھا] [تَقِيًّا: پرہیزگار]

وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ۚ لَهٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْــنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّا 64؀ۚ
[وَمَا نَتَنَزَّلُ: اور ہم نہیں اترتے] [اِلَّا: مگر] [بِاَمْرِ رَبِكَ: آپؐ کے رب کے حکم سے] [لَهٗ: اس کا ہی ہے] [مَا: وہ جو] [بَيْنَ اَيْدِيْــنَا: ہمارے سامنے ہے] [وَمَا: اور وہ جو] [خَلْفَنَا: ہمارے پیچھے ہے] [وَمَا: اور وہ جو ] [بَيْنَ ذٰلِكَ: اس کے درمیان ہے] [وَمَا كَان: اور نہیں ہے] [رَبُّكَ: آپؐ کا رب] [نَسِـيًّا: بھولنے والا]

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ ۭ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا 65؀ۧ
[رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ: زمین اور آسمانوں کا رب ہے] [وَمَا: اور اس کا جو] [بَيْنَهُمَا: ان دونوں کے درمیان ہے] [فَاعْبُدْهُ: پس آپؐ بندگی کریں اس کی] [وَاصْطَبِرْ: اور آپؐ ڈٹے رہیں] [لِعِبَادَتِهٖ: اس کی بندگی کے لئے] [هَلْ: کیا] [تَعْلَمُ: آپؐ جانتے ہیں] [لَهٗ: اس کے] [سَمِيًّا: کسی ہم نام کو]

 

نوٹ۔2: یہ عجیب اتفاق ہے کہ مشرکین اور بت پرستوں نے اگرچہ عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہت سے انسانوں، فرشتوں، پتھروں اور بتوں کو شریک کر ڈالا تھا اور ان سب کو الٰہ یعنی معبود کہتے تھے مگر کسی نے لفظ اللہ، کسی معبود باطل کا نام کبھی نہیں رکھا۔ یہ ایک تکوینی اور تقدیری امر تھا کہ دنیا میں اللہ کے نام سے کوئی بت اور کوئی باطل الٰہ کبھی موسوم نہیں ہوا۔ (معارف القرآن)

وَيَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَيًّا 66؀
[وَيَقُوْلُ: اور کہتا ہے] [الْانسَان: انسان] [ءَ: کیا] [اِذَا مَا: جب کبھی] [مِتُّ: میں مر جائوں گا] [لَسَوْفَ: تو عنقریب (پھر)] [اُخْرَجُ: میں نکالا جائوں گا] [حَيًّا: زندہ ہوتے ہوئے]

اَوَلَا يَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَـيْـــــًٔـا 67؁
[اَوَ: تو کیا] [لَا يَذْكُرُ: یاد نہیں کرتا] [الْانسَان: انسان ] [انا: کہ] [خَلَقْنٰهُ: ہم نے پیدا کیا اس کو] [مِنْ قَبْلُ: اس سے پہلے] [وَ: اس حال میں کہ] [لَمْ يَكُ: وہ نہیں تھا] [شَـيْـــــًٔـا: کوئی چیز]

فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيٰطِيْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا  68؀ۚ
[فَوَرَبِكَ: تو آپؐ کے رب کی قسم] [لَنَحْشُرَنَّهُمْ: ہم لازماً اکٹھا کریں گے ان کو] [وَالشَّيٰطِيْنَ: اور شیطانوں کو] [ثُمَّ: پھر] [لَنُحْضِرَنَّهُمْ: ہم لازماً حاضر کریں گے ان کو] [حَوْلَ جَهَنَّمَ: جہنم کے گرد] [جِثِيًّا: گھٹنوں کے بل گرے ہوئے]

 

ج ث و

[جَثْوًا: (ن) ] ج جِثِیٌّ۔ گھٹنوں کے بل گرنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔68۔

ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيْعَةٍ اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَي الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا 69؀ۚ
[ثُمَّ: پھر] [لَنَنْزِعَنَّ: ہم لازماً کھینچ نکالیں گے] [مِنْ كُلِ شِيْعَةٍ: ہر فرقے سے] [اَيُّهُمْ: ان کا کون (یعنی جو)] [اَشَدُّ: زیادہ سخت ہے] [عَلَي الرَّحْمٰنِ: رحمن پر] [عِتِيًّا: بیباک ہونے کے لحاظ سے]

ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِيْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِيًّا 70؀
[ثُمَّ: پھر] [لَنَحْنُ: یقینا ہم بھی] [اَعْلَمُ: زیادہ جاننے والے ہیں] [بِالَّذِينَ: ان کو جو (کہ)] [هُمْ: وہ لوگ ہی] [اَوْلٰى: زیادہ حقدار ہیں] [بِهَا: اس (جہنم) کے] [صِلِيًّا: بلحاظ تپش جھیلنے کے]

وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا  ۚ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا 71؀ۚ
[وَان : اور نہیں ہے] [مِّنْكُمْ: تم میں سے (کوئی)] [اِلَّا: سوائے اس کے کہ] [وَارِدُهَا: (وہ) پہنچنے والا ہے اس (جہنم) تک] [كَان : یہ ہے] [عَلٰي رَبِكَ: آپؐ کے رب پر] [حَتما مَّقْضِيًّا: فیصلہ کی ہوئی پکی بات]

 

ح ث م

[حَثْمًا: (ض) ] مضبوط کرنا۔ واجب کرنا۔

 حَثْمٌ قطعی۔ پکی بات۔ زیر مطالعہ آیت۔71

 

نوٹ۔1: آیت۔71۔ میں وارد ہونے کے معنی بعض روایات میں داخل ہونے کے بیان کئے گئے ہیں۔ مگر ان میں سے کسی کی بھی سند نبی
تک قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی۔ اور پھر یہ بات قرآن مجید اور ان کثیر التعداد احادیث کے بھی خلاف ہے جن میں مومنین صالحین کے دوزخ میں جانے کی قطعی نفی کی گئی ہے۔ جن میں مومنین صالحین کے دوزخ میں جانے کی قطعی نفی کی گئی ہے۔ مزید برآں لغت میں بھی ورود کے معنی دخول کے نہیں ہیں۔ اس لئے اس آیت کا صحیح مطلب یہی ہے کہ جہنم پر سے گزر تو سب کا ہو گا مگر، جیسا کہ آگے والی آیت بتا رہی ہے، پرہیزگار لوگ اس سے بچا لئے جائیں گے اور ظالم اس میں جھونک دیئے جائیں گے۔ (تفہیم القرآن)

 حضور
فرماتے ہیں اس دن بہت سے مرد عورت اس پر سے (یعنی پل صراط سے) پھسل پڑیں گے۔ اس کے دونوں کنارے فرشتوں کی صف بندی ہوگی جو اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی دعائیں کر رہے ہوں گے۔ یہ تو اللہ کی ایک قسم ہے جو پوری ہو کر رہے گی۔ پل صراط جانے کے بعد پرہیزگار تو پار ہو جائیں گے۔ ہاں کافر و گنہگار اپنے اپنے اعمال کے مطابق جہنم میں گرتے جائیں گے۔ مومن بھی اپنے اپنے اعمال کے مطابق نجات پائیں گے۔ جیسے عمل ہوں گے اتنی دیر وہاں لگ جائے گی۔ پھر یہ نجات یافتہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی سفارش کریں گے۔ ملائکہ شفاعت کریں گے اور انبیاء بھی ابن مسعود  (رض)  فرماتے ہیں کہ پل صراط سے سب کو گزرنا ہو گا یہی آگ کے پاس کھڑا ہونا ہے (یعنی آگ پر وارد ہونا ہے) (ابن کثیر (رح) )

نوٹ۔2: دوسرے مذاہب میں سے آتش پرستوں یعنی پارسی لوگوں کے ہاں بھی پل صراط کا تصور پایا جاتا ہے۔ ان کی نمازیں بھی پانچ ہیں اور ان کی نمازوں کے اوقات بھی ہم سے ملتے جلتے ہیں۔ کسی کے انتقال کے بعد وہ لوگ بھی چالیسواں کرتے ہیں۔ (شاید یہ بھی اس طرح کی خانہ ساز اور من گھڑت رسم ہے جیسے مسلمانوں کے ہاں ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ موجد کون اور نقال کون ہے) ایک پارسی دوکاندار سے اس کے مذہب کے متعلق کچھ باتیں پوچھیں تو اس نے کہا کہ ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ ہم پارسی ہیں۔ ہمارے مذہب کے بارے میں ہمارے عالم سے پوچھو۔ آج مسلمانوں میں بھی اکثر کا یہ ہی حال ہے۔ ان کو بس اتنا پتہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اسلام میں کیا ہے کیا نہیں ہے۔ یہ مولوی سے پوچھو۔ دوسری بات یہ ہے کہ آخرت میں تو پل صراط سے ہی گزر رہیں ہیں، یہاں شریعت پر عمل کرنا پل صراط سے گزرنے کے برابر ہے۔ خاص طور سے ماں اور بیوی کے حقوق میں توازن برقرار رکھنے کا مسئلہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ (حافظ احمد یار صاحب مرحوم)

ثُمَّ نُـنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِيْنَ فِيْهَا جِثِيًّا 72؀
[ثُمَّ: پھر] [نُـنَجِّي: ہم بچا لیں گے] [الَّذِينَ: ان کو جنھوں نے] [اتَّقَوْا: تقویٰ اختیار کیا] [وَّنَذَرُ: اور ہم چھوڑ دیں گے] [الظّٰلِمِيْنَ: ظالموں کو] [فِيْهَا: اس میں] [جِثِيًّا: گھٹنوں کے بل گرے ہوئے]

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا  ۙ اَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِيًّا 73؀
[وَاِذَا: اور جب] [تُتْلٰى عَلَيْهِمْ: پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان کو] [اٰيٰتُنَا: ہماری آیتیں] [بَيِّنٰتٍ: واضح ہوتے ہوئے] [قَالَ: تو کہتے ہیں] [الَّذِينَ: وہ لوگ جنھوں نے] [كَفَرُوْا: انکار کیا] [لِلَّذِيْنَ: وہ لوگ جنہوں نے] [اٰمَنُوْٓا: ایمان لائے] [اَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ: دونوں فرقوں کا کون] [خَيْرٌ: بہتر ہے] [مَّقَامًا: بلحاظ مقام و مرتبہ کے] [وَّاَحْسَنُ: اور زیادہ اچھا ہے] [نَدِيًّا: بلحاظ مجلس کے]

وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْيًا 74؀
[وَكَمْ اَهْلَكْنَا: اور کتنی ہی ہم نے ہلاک کیں] [قَبْلَهُمْ: ان سے پہلے] [مِّنْ قَرْنٍ: قومیں] [هُمْ: وہ لوگ] [اَحْسَنُ: زیادہ اچھے تھے] [اَثَاثًا: بلحاظ سازو سامان کے] [وَّرِءْيًا: اور بلحاظ ظاہری دکھاوے (
Appearance) کے]

قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلٰلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا ڬحَتّٰٓي اِذَا رَاَوْا مَا يُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ وَاِمَّا السَّاعَةَ  ۭ فَسَيَعْلَمُوْنَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضْعَفُ جُنْدًا 75؀
[قُلْ: آپؐ کہیے] [مَنْ: وہ جو] [كَان : ہے] [فِي الضَّلٰلَةِ: گمراہی میں] [فَلْيَمْدُدْ: تو چاہیے کہ مہلت دے] [لَهُ: اس کو] [الرَّحْمٰنُ: رحمن] [مَدًّا: جیسے مہلت دیتے ہیں] [حَتّٰٓی : یہاں تک کہ] [اِذَا: جب ] [رَاَوْا: وہ لوگ دیکھیں] [مَا: اس کو جو] [يُوْعَدُوْنَ: ان سے وعدہ کیا جاتا ہے] [اِمَا: خواہ] [الْعَذَابَ: عذاب کو] [وَاِمَا السَّاعَةَ: اور یا قیامت کو] [فَسَيَعْلَمُوْنَ: پھر وہ لوگ جان لیں گے] [مَنْ: کون ہے (کہ)] [هُوَ: وہ ہی] [شَرٌّ: برا ہے] [مَّكَانا: بلحاظ جگہ کے] [وَّاَضْعَفُ: اور زیادہ کمزور ہے] [جُنْدًا: بلحاظ لائو لشکر کے]

 

ترکیب: (آیت۔75) فَلْیَمْدُدْ فعل امر غائب ہے اور اس کا فاعل اَلرَّحْمٰنُ ہے اس لئے حالت رفع میں ہے۔ رَاَوْا کا مفعول مَا ہے اور مَحَلًّا حالت نصب میں ہے۔ اس کا بدل ہونے کی وجہ سے اَلْعَذَابَ اور اَلسَّاعَۃَ حالت نصب میں آئے ہیں۔ یُوْعَدُوْنَ کے دو امکان ہیں۔ اگر اس کا مصدر وَعْدٌ مانا جائے تو ترجمہ ہو گا۔ جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ اور اگر مصدر وَعِیْدٌ ہو تو ترجمہ ہو گا ’’ جس سے ان کو ڈرایا جاتا ہے۔‘‘ اور دونوں صورتوں میں ثلاثی مجرد ہی ہو گا یا اگر اس کو ثلاثی مجرد کا مضارع مجہول مانیں تو ترجمہ ہو گا ’’ جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔‘‘ اور اگر باب افعال کا مضارع مجہول مانیں تو ترجمہ ہوگا ’’ جس سے ان کو ڈرایا جاتا ہے۔‘‘ دونوں ترجمے درست مانیں جائیں گے۔

وَيَزِيْدُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا هُدًى ۭ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ مَّرَدًّا 76؀
[وَيَزِيْدُ: اور زیادہ کرتا ہے] [اللّٰهُ: اللہ] [الَّذِينَ: ان لوگوں کو جنھوں نے] [اهْتَدَوْا: ہدایت پائی] [هُدًى: بلحاظ ہدایت کے] [وَالْبٰقِيٰتُ: اور باقی رہنے والی] [الصّٰلِحٰتُ: نیکیاں] [خَيْرٌ: بہترین] [عِنْدَ رَبِكَ: آپؐ کے رب کے نزدیک] [ثَوَابًا: بلحاظ بدلے کے] [وَّخَيْرٌ: اور بہتر ہیں] [مَّرَدًّا: بلحاظ لوٹانے کے]

اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا 77؀ۭ
[اَفَرَءَيْتَ: تو کیا آپؐ نے دیکھا] [الَّذِي: اس کو جس نے] [كَفَرَ: انکار کیا] [بِاٰيٰتِنَا: ہماری نشانیوں کا] [وَقَالَ: اور کہا] [لَاُوْتَيَنَّ: مجھ کو لازماً دیا جائے گا] [مَالًا: مال] [وَّوَلَدًا: اور اولاد]

اَطَّلَعَ الْغَيْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا 78؀ۙ
[اَطَّلَعَ: کیا وہ آگاہ ہوا] [الْغَيْبَ: غیب سے] [اَمِ: یا] [اتَّخَذَ: اس نے پکڑا] [عِنْدَ الرَّحْمٰنِ: رحمن کے پاس] [عَهْدًا: کوئی عہد]

كَلَّا  ۭ سَنَكْـتُبُ مَا يَقُوْلُ وَنَمُدُّ لَهٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا 79؀ۙ
[كَلَّا: ہرگز نہیں] [سَنَكْـتُبُ: ہم لکھ لیں گے] [مَا: اس کو جو] [يَقُوْلُ: وہ کہتا ہے] [وَنَمُدُّ: اور ہم دراز کریں گے] [لَهٗ: اس کے لئے] [مِنَ الْعَذَابِ: عذاب میں سے] [مَدًّا: جیسے دراز کرتے ہیں]

وَّنَرِثُهٗ مَا يَقُوْلُ وَيَاْتِيْنَا فَرْدًا 80؀
[وَّنَرِثُهٗ: اور ہم وارث ہوں گے اس کے] [مَا: اس چیز میں جو] [يَقُوْلُ: وہ کہتا ہے] [وَيَاْتِيْنَا: اور وہ آئے گا ہمارے پاس] [فَرْدًا: تنہا ہوتے ہوئے]

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا 81؀ۙ
[وَاتَّخَذُوْا: اور انھوں نے بنائے] [مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے علاوہ] [اٰلِهَةً: کچھ الٰہ] [لِيَكُوْنُوْا: تاکہ وہ ہو جائیں] [لَهُمْ: ان کے لئے] [عِزًّا: ایک پناہ]

كَلَّا  ۭ سَيَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا 82؀ۧ
[كَلَّا: ہرگز نہیں] [سَيَكْفُرُوْنَ: وہ (الٰہ) انکار کریں گے] [بِعِبَادَتِهِمْ: ان کی عبادت کا] [وَيَكُوْنُوْنَ: اور وہ ہو جائیں گے] [عَلَيْهِمْ: ان کے ] [ضِدًّا: مخالف]

 

ض د د

[ضَدًّا: (ن) ] جھگڑے میں غالب آنا۔

 ضِدٌّ مخالف۔ دشمن۔ زیر مطالعہ آیت۔82

؀

اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ تَـــؤُزُّهُمْ اَزًّا 83؀ۙ
[اَ: کیا] [لَمْ تَرَ: آپؐ نے غور نہیں کیا] [انآ: کہ ہم نے ہی] [اَرْسَلْنَا: بھیجا] [الشَّيٰطِيْنَ: شیطان کو] [عَلَي الْكٰفِرِيْنَ: کافروں پر] [تَـــؤُزُّهُمْ: وہ اکساتے ہیں ان کو] [اَزًّا: جیسے اکسانے کا حق ہے]

 

ء ز ز

[اَزًّا: (ن) ] (1) ہانڈی کا جوش میں آنا۔ اُبلنا (لازم)۔ (2) ہانڈی کو جوش میں لانا۔ اُبالنا۔ (متعدی)۔ پھر کسی کو کسی کام پر ابھارنے، اُکسانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ زیر مطالعہ آیت۔83۔

فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا 84؀ۚ
[فَلَا تَعْجَلْ: تو آپؐ جلدی مت کریں] [عَلَيْهِمْ: ان پر (عذاب کی)] [انمَا نَعُدُّ: ہم تو بس گنتی (پوری) کرتے ہیں] [لَهُمْ: ان کے لئے] [عَدًّا: جیسے گنتی کرتے ہیں]

يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا 85؀ۙ
[يَوْمَ: (اس دن کے لئے) جس دن] [نَحْشُرُ: ہم اکٹھا کریں گے] [الْمُتَّقِيْنَ: متقی لوگوں کو] [اِلَى الرَّحْمٰنِ: رحمن کی طرف] [وَفْدًا: ایک وفد کے طور پر]

وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا 86؀ۘ
[وَّنَسُوْقُ: اور ہم ہانکیں گے] [الْمُجْرِمِيْنَ: مجرموں کو] [اِلٰى جَهَنَّمَ: جہنم کی طرف] [وِرْدًا: پیاسے ہوتے ہوئے]

لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا 87؀ۘ
[لَا يَمْلِكُوْنَ: اختیار نہیں رکھتے لوگ] [الشَّفَاعَةَ: شفاعت کا ] [اِلَّا: مگر ] [مَنِ: وہ جس نے] [اتَّخَذَ: پکڑا] [عِنْدَ الرَّحْمٰنِ: رحمن کے پاس] [عَهْدًا: کوئی عہد]

 

نوٹ۔1: آیت۔87 کے دو معانی ہو سکتے ہیں اور آیت کے الفاظ ایسے ہیں جو دونوں معانی پر یکساں روشنی ڈالتے ہیں۔ ایک یہ کہ سفارش اسی کے حق میں ہو سکے گی جس نے رحمن سے پروانہ حاصل کرلیا ہو یعنی دنیا میں ایمان لا کر اور خدا سے کچھ تعلق جوڑ کر اپنے آپ کو عفو و درگزر کا مستحق بنا لیا ہو۔ دوسرے یہ کہ سفارش وہی کرسکے گا جس کو پروانہ ملا ہو یعنی لوگوں نے جن جن کو اپنا شفیع اور سفارشی سمجھ لیا ہے وہ سفارش کرنے کے مجاز نہ ہوں گے بلکہ خدا خود جس کو اجازت دے گا وہی شفاعت کے لئے زبان کھول سکے گا۔ (تفہیم القرآن)

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا 88؀ۭ
[وَقَالُوا: اور لوگوں نے کہا] [اتَّخَذَ: بنائی] [الرَّحْمٰنُ: رحمن نے] [وَلَدًا: کوئی اولاد]

لَقَدْ جِئْتُمْ شَـيْــــــًٔـا اِدًّا 89؀ۙ
[لَقَدْ جِئْتم: یقینا تم لوگ آئے ہو] [شَـيْــــــًٔـا اِدًّا: ایک ہولناک چیز کے پاس]

 

ء د د

[اَدًّا: (ض۔ ن) ] بھاری اور دشوار ہونا۔

 اِدٌّ ہولناک۔ بھاری۔ زیر مطالعہ آیت۔89۔

تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا 90۝ۙ
[تَكَادُ: قریب ہے کہ] [السَّمٰوٰتُ: آسمان] [يَــتَفَطَّرْنَ: پھٹ پڑیں] [مِنْهُ: اس سے] [وَتَنْشَقُّ: اور پھٹ جائے] [الْاَرْضُ: زمین ] [وَتَخِرُّ: اور گر جائیں] [الْجبالُ: پہاڑ] [هَدًّا: دھڑام سے]

 

ھـ د د

[ھَدًّا: (ض) ] کسی چیز کا آواز کے ساتھ گرنا دھڑام سے گرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔90۔

اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا 91۝ۚ
[ان: (بسبب اس کے) کہ] [دَعَوْا: لوگوں نے دعویٰ کیا] [لِلرَّحْمٰنِ: رحمن کے لئے] [وَلَدًا: کسی اولاد کا]

وَمَا يَنْۢبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّـتَّخِذَ وَلَدًا 92۝ۭ
[وَمَا يَنْۢبَغِيْ: اور شایان شان نہیں ہوتا] [لِلرَّحْمٰنِ: رحمن کے لئے] [ان: کہ] [يَّـتَّخِذَ: وہ بنائے] [وَلَدًا: کوئی اولاد]

اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا 93؀ۭ
[ان: نہیں ہے] [كُلُّ مَنْ: ان کے سب کا (کوئی) جو] [فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ: زمین اور آسمانوں میں ہے] [اِلَّآ: مگر (یہ کہ)] [اٰتِي الرَّحْمٰنِ: رحمان کے پاس وہ آنے والا ہے] [عَبْدًا: بندہ ہوتے ہوئے]

لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا 94؀ۭ
[لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ: بیشک اس نے شمار پورا کیا ہے ان کا] [وَعَدَّ: اور اس نے گنتی کی] [هُمْ: ان کی] [عَدًّا: جیسے گنتی کرتے ہیں]

وَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا 95؁
[وَكُلُّهُمْ: اور ان کے سب] [اٰتِيْهِ: اس کے پاس آنے والے ہیں] [يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: قیامت کے دن] [فَرْدًا: تنہا]

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا 96؀
[ان: بیشک ] [الَّذِينَ: وہ لوگ جو] [اٰمَنُوْا: ایمان لائے] [وَعَمِلُوا: اور انھوں نے عمل کئے] [الصّٰلِحٰتِ: نیکیوں کے] [سَيَجْعَلُ: عنقریب بنا دے گا] [لَهُمُ: ان کے لئے] [الرَّحْمٰنُ: رحمن] [وُدًّا: ایک چاہت]

 

نوٹ۔1: رسول اللہ
نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو پسند فرماتے ہیں تو جبرئیل ؑ سے کہتے ہیں کہ میں فلاں آدمی سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبرئیل ؑ سارے آسمانوں میں اس کی منادی کرتے ہیں اور سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر یہ محبت زمین پر نازل ہوتی ہے۔ (یعنی، زمین والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں)۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ قرآن مجید کہ یہ آیت اس پر شاہد ہے اور زیر مطالعہ آیت۔96۔ کی تلاوت فرمائی۔ (معارف القرآن)

فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا 97؀
[فَانمَا: تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [يَسَّرْنٰهُ: ہم نے آسان کیا اس (قرآن) کو] [بِلِسَانكَ: آپؐ کی زبان میں] [لِتُبَشِّرَ: تاکہ آپؐ بشارت دیں] [بِهِ: اس سے] [الْمُتَّقِيْنَ: متقی لوگوں کو] [وَتُنْذِرَ: اور تاکہ آپؐ خبردار کریں] [بِهٖ: اس سے] [قَوْمًا لُّدًّا: ایک انتہائی ہٹ دھرم قوم کو]

وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ  ۭ هَلْ تُـحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا 98؀ۧ
[وَكَمْ اَهْلَكْنَا: اور کتنی ہی ہم نے ہلاک کیں] [قَبْلَهُمْ: ان سے پہلے] [مِّنْ قَرْنٍ: قومیں] [هَلْ: (تو) کیا] [تُـحِسُّ: آپؐ محسوس کرتے ہیں] [مِنْهُمْ: ان میں سے] [مِّنْ اَحَدٍ: کسی ایک کو بھی] [اَوْ: یا] [تَسْمَعُ: آپؐ سنتے ہیں] [لَهُمْ: ان کی] [رِكْزًا: کوئی بھنک]

 

ر ک ز

[رَکْزًا: (ض۔ ن) ] رگ کا پھڑکنا۔ حرکت کرنا

 رِکْزٌ دھیمی آواز۔ آہٹ۔ زیر مطالعہ آیت۔98

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

طٰهٰ Ǻ۝ۚ
طٰهٰ ۝ۚ

مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓي Ą۝ۙ
[مَآ انزَلْنَا: ہم نے نہیں اتارا] [عَلَيْكَ: آپؐ پر] [الْقُرْاٰنَ: اس قرآن کو] [لِتَشْقٰٓي: کہ آپؐ سختی میں پڑھیں]

اِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰى Ǽ۝ۙ
[اِلَّا تَذْكِرَةً: مگر یاددہانی کرنے کے لئے] [لِمَنْ: اس کو جو] [يَّخْشٰى: ڈر رکھتا ہے]

تَنْزِيْلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَالسَّمٰوٰتِ الْعُلٰى Ć۝ۭ
[تَنْزِيْلًا: اتارا ہوا ہوتے ہوئے] [مِّمَنْ: اس (کی طرف) سے جس نے] [خَلَقَ: پیدا کیا] [الْاَرْضَ: زمین کو] [وَالسَّمٰوٰتِ الْعُلٰى: اور بہت بلند آسمان کو]

 

ترکیب: (آیت۔4)۔ لفظ اَلْعُلٰی کو سمجھ لیں۔ مادہ ’’ ع ل و‘‘ سے افعل تفضیل میں مؤنث فُعْلٰی کے وزن پر لفظ عُلْیََا بنتا ہے۔ اس کی جمع فُعَلٌ کے وزن پر اصلاً عُلَیٌ بنتی ہے قاعدہ کے مطابق تبدیل ہو کر حالت رفع و جر میں عُلٍ اور نصب میں عُلَیًا آئے گی۔ اور جب اس پر لام تعریف داخل ہو گا تو رفع، نصب، جر، تینوں حالتوں میں یہ لفظ اَلْعُلٰی آئے گا کیونکہ اَلْعُلَیُ اَلْعُلَیَ۔ اَلْعُلَیِ، تینوں قاعدہ کے مطابق تبدیل ہو کر اَلْعُلٰی بنیں گے، یہاں پر اَلسَّمٰوٰتِ کی صفت ہونے کی وجہ سے یہ حالت نصب میں ہے۔

اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى Ĉ۝
[اَلرَّحْمَنُ: رحمن] [عَلَي الْعَرْشِ: عرش پر] [اسْتَوٰى: متمکن ہوا]

 

نوٹ۔1: زیر مطالعہ آیت نمبر۔5 قرآن مجید کے متشابہات میں سے ہے۔ اب اس کو ایک خصوصیت یہ بھی حاصل ہو گئی ہے کہ ہمارے مسیحی بھائی اکثر اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تثلیث کو ماننا ضروری ہے، جاننا ضروری نہیں ہے۔ جیسے قرآن کے متشابہات کو ماننا ضروری ہے، جاننا ضروری نہیں ہے۔ پھر زیادہ تر لوگ زیر مطالعہ آیت۔5 کا ہی حوالہ دیتے ہیں۔ جسٹس محمد تقی عثمانی صاحب نے ’’ بائبل سے قرآن تک‘‘ نامی کتاب کے مقدمہ میں اس بات کا تفصیل سے جواب دیا ہے۔ ہم اس کا ایک اقتباس نقل کر رہے ہیں تاکہ عقیدہ تثلیث اور متشابہات کا فرق واضح ہو جائے۔

 قرآن جن کو متشابہات کہتا ہے وہ عقل سے ماوراء تو ہوتے ہیں (یعنی عقل کی پہنچ سے باہر تو ہوتے ہیں) لیکن عقل کے خلاف نہیں ہوتے۔ ان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ جن کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا جیسے حروف مقطعات۔ دوسری قسم وہ ہے جن کے الفاظ سے ایک ظاہری مفہوم سمجھ میں آتا ہے، اور اگر وہ مفہوم ماورائے عقل ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہاں ظاہری مفہوم یقینا مراد نہیں ہے اور اصل مفہوم کیا ہے؟ وہ معلوم نہیں۔ مثلاً اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی۔ ان الفاظ کا ایک ظاہری مفہوم نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر سیدھا ہو گیا۔ لیکن یہ مفہوم عقل سے ماورا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات غیر متناہی ہے اور وہ کسی مکان کی قید میں مقید نہیں ہو سکتی۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اس آیت کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ کچھ اور مراد ہے جو ہمیں معلوم نہیں ہے۔

 ظاہر ہے کہ عقیدئہ تثلیث متشابہات کی پہلی قسم میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس عقیدے میں جو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ان کا ایک ظاہری مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ عقیدہ دوسری قسم میں بھی داخل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ عیسائی حضرات اگر یوں کہتے کہ اس عقیدے کا ظاہری مفہوم خلافِ عقل ہے اس لئے ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ کچھ اور مراد ہے جو ہمیں معلوم نہیں ہے، تب تو بات بن سکتی تھی۔ لیکن عیسائی مذہب تو یہ کہتا ہے کہ اس عقیدے کا ظاہری مفہوم ہی مراد ہے۔ ہر عیسائی کو ماننا پڑے گا کہ خدا تین اقنوم ہیں اور یہ تین ایک ہیں۔ گویا وہ خلاف عقل بات کو عقیدہ بناتا ہے اور اس کی دلیل کو انسانی سمجھ سے ماوراء کہتا ہے۔ اس کے برخلاف مسلمان متشابہات کے ظاہری مفہوم کو ماورائے عقل ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ اس کی صحیح مراد ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اس لئے عقیدئہ تثلیث کو قرآن کی متشابہات سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔

لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرٰى Č۝
[لَهٗ: اس ہی کا ہے] [مَا: وہ جو] [فِي السَّمٰوٰتِ: آسمانوں میں ہے] [وَمَا: اور وہ جو] [فِي الْاَرْضِ: زمین میں ہے] [وَمَا: اور وہ جو] [بَيْنَهُمَا: ان دونوں کے درمیان ہے] [وَمَا: اور وہ جو] [تَحْتَ الثَّرٰى: گیلی مٹی کے نیچے ہے (یعنی معدنیات) ]

 

ث ر ی

[ثَرًی: (س) ] مٹی کا خشک ہونے کے بعد تر اور نم ہونا۔

 ثَرٰی صفت ہے۔ تری۔ نمی۔ پھر گیلی مٹی کے لئے بھی آتا ہے، زیر مطالعہ آیت۔6


 ❜

وَاِنْ تَجْــهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي Ċ۝
[وَان : اور اگر] [تَجْــهَرْ: تم نمایاں کرو] [بِالْقَوْلِ: بات کو] [فَانهٗ: تو بیشک وہ تو] [يَعْلَمُ: جانتا ہے] [السِّرَّ: بھید کو] [وَاَخْفٰي: اور اس سے زیادہ پوشیدہ کو (یعنی نیت کو)]

 

(آیت۔7)۔ اَخْفٰی باب افعال میں ماضی کا صیغہ نہیں ہے بلکہ یہ افعل تفضیل میں اَخْفَیُ سے تبدیل ہو کر اَخْفٰی بنا ہے۔

اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۭ لَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى Ď۝
[اللّٰهُ: اللہ (وہ ہے کہ)] [لَآ اِلٰهَ: کوئی بھی اِلٰہ نہیں ہے] [اِلَّا: مگر] [هُوَ: وہ (ہی)] [لَهُ: اس کے لئے ہی] [الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى: تمام خوبصورت نام ہیں]

وَهَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى ۝ۘ
[وَهَلْ: اور کیا] [اَتٰىكَ: پہنچی آپؐ کے پاس] [حَدِيْثُ مُوْسٰى: موسٰیؑ کی بات]

اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُـثُوْٓا اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّيْٓ اٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَي النَّارِ هُدًى  10؀
[اِذْ: جب] [رَاٰ: انھوںؑ نے دیکھی] [نَارًا: ایک آگ] [فَقَالَ: تو انھوں ؑ نے کہا] [لِاَهْلِهِ: اپنے گھر والوں سے] [امْكُـثُوْٓا: تم لوگ ٹھہرو] [انىٓ اٰنَسْتُ: بیشک میں نے دیکھی] [نَارًا: ایک آگ] [لَّعَلِيْٓ: شاید کہ] [اٰتِيْكُمْ: میں لائوں تمھارے پاس] [مِّنْهَا: اس سے] [بِقَبَسٍ: کوئی انگارہ] [اَوْ: یا] [اَجِدُ: میں پائوں] [عَلَي النَارِ: آگ پر] [هُدًى: کوئی رہنمائی]

 

ق ب س

[قَبْسًا: (ض) ] آگ سے آگ جلانا۔

 قَبَسٌ آگ سے حاصل کی ہوئی آگ۔ جلتا ہوا کوئلہ۔ انگارہ۔ زیر مطالعہ آیت۔10

(افتعال) اِقْتِبَاسًا آگ یا کسی چیز سے اس کا کوئی جز یا ٹکڑا لینا۔ اُنْظُرُوْ نَا نَقْبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ (تم لوگ راہ دیکھو ہماری تو ہم کوئی حصّہ حاصل کرلیں تمہارے نور سے) 57:13

فَلَمَّآ اَتٰىهَا نُوْدِيَ يٰمُوْسٰى 11۝ۭ
[فَلَمَآ: پھر جب] [اَتٰىهَا: وہ پہنچے اس کے پاس] [نُوْدِيَ: تو آواز دی گئی] [يٰمُوْسٰى: اے موسٰی]

اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ  ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى 12۝ۭ
[انىٓ انا: بیشک میں ہی] [رَبُّكَ: آپؑ کا رب ہوں] [فَاخْلَعْ: تو آپؑ اتار دیں] [نَعْلَيْكَ: اپنے دونوں جوتے] [انكَ: بیشک آپؑ] [بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ: اس پاک کی ہوئی وادی میں ہیں] [طُوًى: جو طوٰی (کہلاتی) ہے]

 

خ ل ع

[خَلْعًا: (ف) ] کوئی پہنی ہوئی چیز اتارنا جیسے ٹوپی اتارنا۔ زیر مطالعہ آیت۔12

ن ع ل

[نَعْلًا: (ف) ] جوتا عطا کرنا یا پہنانا

 نَعْلٌ جوتا۔ زیر مطالعہ آیت۔12

ط وی

[طَیًّا: (ض) ] کسی چیز کو تہہ در تہہ لپیٹنا جیسے کپڑے کا تھان لپیٹا جاتا ہے۔ یَوْمَ نَطْوِی السَّمَائَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ (جس دن ہم لپیٹیں گے آسمان کو جیسے عدالتی ریکارڈ کا لپیٹنا لکھا ہوا ہونے کے لئے) 21:104۔

 مَطْوِیَّـۃٌ لپیٹی ہوئی۔ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ (اور آسمان لپیٹے ہوئے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں۔) 39:67

 طُوًی قرآن میں یہ اسم علم کے طور پر آیا ہے۔ ایک وادی کا نام۔ زیر مطالعہ آیت۔12۔

 

نوٹ۔1: آیت۔12۔ میں حضرت موسٰی ؑ کو جوتے اتارنے کا جو حکم ہے اس کی وجہ سے یہودیوں میں یہ شرعی مسئلہ بن گیا کہ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ نبی
نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے فرمایا کہ یہودیوں کے خلاف عمل کرو کیونکہ وہ جوتے اور چمڑے کے موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ضرور جوتے پہن کر نماز پڑھنی چاہئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ حضرت عمرو بن عاص (رض)  کی روایت ہے کہ انھوں نے نبی کو دونوں طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ ایک حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو جوتے کو پلٹ کر دیکھ لے اگر کوئی گندگی لگی ہو تو زمین سے رگڑ کر صاف کرلے اور ان ہی جوتوں کو پہنے ہوئے نماز پڑھ لے۔ ایک اور حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ اگر تم میں سے کسی نے گندگی کو پامال کیا ہو تو مٹی اس کو پاک کر دینے کے لئے کافی ہے۔ ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ ایک جگہ گندگی لگی ہوگی تو دوسری جگہ جاتے جاتے خود زمین ہی اس کو پاک کر دے گی۔ ان احادیث کی بنا پر اکثر فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ جوتا زمین کی مٹی سے پاک ہو جاتا ہے۔

 اس سلسلہ میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسجد نبوی میں چٹائی تک کا فرش نہ تھا بلکہ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ لہٰذا ان احادیث سے استدلال کر کے اگر کوئی شخص آج کی مسجدوں کے فرش پر جوتے لے جانا چاہے تو یہ صحیح نہ ہو گا۔ البتہ گھاس پر یا کھلے میدان میں جوتے پہنے پہنے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ جو لوگ میدان میں نماز جنازہ پڑھتے وقت جوتے اتارنے پر اصرار کرتے ہیں وہ دراصل احکام سے ناواقف ہیں۔ (تفہیم القرآن)

وَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى 13؀
وَانا: اور میں نے] [اخْتَرْتُكَ: چنا آپؑ کو ] [فَاسْتمعْ: تو آپؑ دھیان سے سنیں] [لِمَا: اس کو جو] [يُوْحٰى: وحی کیا جائے]

اِنَّنِيْٓ اَنَا اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ  ۙ وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ 14؁
[اننِيْٓ انا: بیشک میں ہی] [اللّٰهُ: اللہ ہوں] [لَآ اِلٰهَ: کوئی اِلٰہ نہیں] [اِلَّآ انا: سوائے میرے] [فَاعْبُدْنِيْ: پس آپؑ بندگی کریں میری] [وَاَقِمِ: اور آپؑ قائم کریں] [الصَّلٰوةَ: نماز کو] [لِذِكْرِيْ: میری یاد کے لئے]

اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ اَكَادُ اُخْفِيْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا تَسْعٰي 15؁
[ان: بیشک ] [السَّاعَةَ: وہ گھڑی (یعنی قیامت)] [اٰتِيَةٌ: آنے والی ہے ] [اَكَادُ: میں ارادہ کرتا ہوں کہ] [اُخْفِيْهَا: میں خفیہ رکھوں اس کو] [لِتُجْزٰى: تاکہ جزاء دی جائے] [كُلُّ نَفْسٍۢ: ہر جان کو] [بِمَا: اس کی جو] [تَسْعٰي: اس نے بھاگ دوڑ کی]

فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَّا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ فَتَرْدٰى 16؀
[فَلَا يَصُدَّنَّكَ: پس ہرگز نہ روکے آپؑ کو] [عَنْهَا: اس سے] [مَنْ: وہ جو] [لَّا يُؤْمِنُ: ایمان نہیں لاتا] [بِهَا: اس پر] [وَاتَّبَعَ: اور اس نے پیروی کی] [هَوٰىهُ: اپنی خواہش کی] [فَتَرْدٰى: ورنہ تُو تباہ و برباد ہو گا]

وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى ١7؁
[وَمَا تِلْكَ: اور وہ کیا ہے] [بِيَمِيْنِكَ: آپؑ کے ہاتھ میں] [يٰمُوْسٰى: اے موسٰیؑ]

قَالَ هِىَ عَصَايَ ۚ اَتَـوَكَّؤُا عَلَيْهَا وَاَهُشُّ بِهَا عَلٰي غَنَمِيْ وَلِيَ فِيْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى 18؀
[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [هِىَ: یہ] [عَصَايَ: میری لاٹھی ہے] [اَتَـوَكَّؤُا: میں ٹیک لگاتا ہوں] [عَلَيْهَا: اس پر] [وَاَهُشُّ: اور میں پتے جھاڑتا ہوں] [بِهَا: اس سے] [عَلٰي غَنَمِيْ: اپنی بکریوں پر] [وَلِيَ: اور میرے لئے] [فِيْهَا: اس میں] [مَاٰرِبُ اُخْرٰى: ضرورت پوری کرنے کے دوسرے مواقع ہیں]

 

ھـ ش ش

[ھَشًّا: (ن) ] درخت سے پتے جھاڑنا۔ زیر مطالعہ آیت۔18

ء ر ب

[اَرَبًا: (س) ] کسی چیز کا بہت دلدادہ و مشتاق ہونا۔ حاجتمند ہونا۔ ضرورت مند ہونا۔

 اِرْبَۃٌ حاجت ضرورت۔ اَوِالتَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرَبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ (یا تابع لوگ یعنی نوکر بغیر (جنسی) حاجت والے مردوں میں سے) 24:31

 مَاْرَبَۃٌ ج مَاٰرِبُ۔ اسم الظرف ہے۔ حاجت پوری کرنے کی جگہ یا وقت یعنی موقع۔ زیر مطالعہ آیت۔18

قَالَ اَلْقِهَا يٰمُوْسٰى  19؁
[قَالَ: (اللہ تعالیٰ نے) کہا] [اَلْقِهَا: آپؑ ڈال دیں اس کو] [يٰمُوْسٰى: اے موسٰیؑ]

فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِىَ حَيَّةٌ تَسْعٰي 20؀
[فَاَلْقٰىهَا: تو انھوںؑ نے ڈالا اس کو] [فَاِذَا: تو جب ہی] [هِىَ: وہ ] [حَيَّةٌ: زندہ (سانپ) تھی ] [تَسْعٰي: دوڑتی ہوئی]

قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ  ۪ سَنُعِيْدُهَا سِيْرَتَهَا الْاُوْلٰى 2١؁
[قَالَ: (اللہ تعالیٰ نے) کہا] [خُذْهَا: آپؑ پکڑیں اس کو] [وَلَا تَخَفْ: اور مت ڈریں] [سَنُعِيْدُهَا: ہم لوٹا دیں گے اس کو] [سِيْرَتَهَا الْاُوْلٰى: اس کی پہلی خصلت پر]

وَاضْمُمْ يَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاۗءَ مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ اٰيَةً اُخْرٰى 22؀ۙ
[وَاضْمُمْ: اور آپؑ ملائیں ] [يَدَكَ: اپنا ہاتھ] [اِلٰى جَنَاحِكَ: اپنی بغل کی طرف (یعنی سے)] [تَخْرُجْ: تو وہ (ہاتھ) نکلے گا] [بَيْضَاۗءَ: سفید ہوتے ہوئے] [مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ: کسی بھی برائی کے بغیر] [اٰيَةً اُخْرٰى: ایک دوسری نشانی ہوتے ہوئے]

 

ض م م

[ضَمًّا: (ن) ] دو یا دو سے زیادہ چیزوں کو باہم ملا دینا۔ زیر مطالعہ آیت۔22

لِنُرِيَكَ مِنْ اٰيٰتِنَا الْكُبْرٰى 23؀ۚ
[لِنُرِيَكَ: تاکہ ہم دکھائیں آپؑ کو] [مِنْ اٰيٰتِنَا الْكُبْرٰى: اپنی بڑی نشانیوں میں سے]

اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰي 24؀ۧ
[اِذْهَبْ: (اب) آپؑ جائیں] [اِلٰى فِرْعَوْنَ: فرعون کی طرف] [انهٗ: بیشک اس نے] [طَغٰي: سرکشی کی ہے]

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ 25؀ۙ
[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [رَبِ: اے میرے رب] [اشْرَحْ: تو کشادہ کر دے] [لِيْ: میرے لئے] [صَدْرِيْ: میرے سینے کو]

وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ 26؀ۙ
[وَيَسِّرْ: اور تو آسان کر دے] [لِيْٓ: میرے لئے] [اَمْرِيْ: میرے کام کو]

وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ 27؀ۙ
[وَاحْلُلْ: اور تو کھول دے] [عُقْدَةً: گرہ کو] [مِّنْ لِسَانيْ: میری زبان (میں) سے]

 

نوٹ۔1: حضرت موسٰی ؑ نے زبان کی گرہ کھولنے کی جو دعا مانگی تھی اس کی بائبل میں جو تشریح بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ موسٰی ؑ نے عرض کیا ’’ اے خدا وند، میں فصیح نہیں ہوں۔ نہ پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تو نے اپنے بندے سے کلام کیا بلکہ رُک رُک کر بولتا ہوں اور میری زبان کند ہے۔‘‘ مگر تلمود میں ایک لمبا چوڑا قصّہ بیان ہوا ہے کہ بچپن میں موسٰی ؑ نے انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا تھا تو زبان میں لکنت پڑ گئی۔ لیکن عقل اسے ماننے سے انکار کرتی ہے۔ اس لئے کہ اگر بچے نے آگ پر ہاتھ مارا بھی تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ انگارے کو اٹھا کر منہ میں لے جا سکے۔ بچہ تو آگ کی جلن محسوس کرتے ہی ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ قرآن کے الفاظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت موسٰی ؑ اپنے اندر خطابت کی صلاحیت نہ پاتے تھے اور ان کو اندیشہ تھا کہ نبوت کے فرائض ادا کرنے کے لئے تقریر کی ضرورت پیش آئی تو ان کی جھجھک مانع ہو گی۔ اس لئے انھوں نے دعا کی۔ ان کی یہ کمزوری دور ہو گئی۔ چنانچہ قرآن اور بائبل میں ان کی بعد کے دور کی جو تقریریں آئی ہیں وہ کمال فصاحت کی شہادت دیتی ہیں۔

يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ 28؀۠
[يَفْقَـــهُوْا: وہ لوگ سمجھیں] [قَوْلِيْ: میری بات کو]

 

ترکیب: (آیت۔28) یَفْقَھُوْا جواب امر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے اس لئے اس سے پہلے لام کَی کو محذوف نہیں مان سکتے۔

وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ 29؀ۙ
[وَاجْعَلْ: اور تو بنا دے] [لِيْ: میرے لئے] [وَزِيْرًا: ایک معاون] [مِّنْ اَهْلِيْ: میرے گھر والوں (میں) سے]

هٰرُوْنَ اَخِي 30؀ۙ
[هٰرُوْنَ: جو ہارون ہے] [اَخِي: میرا بھائی]

اشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِيْ 31؀ۙ
[اشْدُدْ: تو سخت کر دے] [بِهٖٓ: اس سے] [اَزْرِيْ: میری قوت کو]

وَاَشْرِكْهُ فِيْٓ اَمْرِيْ 32؀ۙ
[وَاَشْرِكْهُ: اور تو شریک کر دے اس کو] [فِيْٓ اَمْرِيْ: میرے کام میں]

كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيْرًا  33؀ۙ
[كَيْ: تاکہ ] [نُسَبِحَكَ: ہم تسبیح کریں تیری] [كَثِيْرًا: کثرت سے]

 

(آیات 33۔34) کَثِیْرًا حال نہیں ہے بلکہ یہ مفعول مطلق محذوف کی صفت ہے۔ یعنی یہ دراصل تَسْبِیْحًا کَثِیْرًا اور ذِکْرًا کَثِیْرًا ہے۔

وَّنَذْكُرَكَ كَثِيْرًا 34؀ۭ
[وَّنَذْكُرَكَ: اور ہم یاد کریں تجھ کو] [كَثِيْرًا: کثرت سے]

اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيْرًا 35؁
[انكَ: بیشک تو] [كُنْتَ: ہے] [بِنَا: ہم کو] [بَصِيْرًا: ہمیشہ اور ہر حال میں دیکھنے والا]

 

(آیت۔35) فَعِیْلٌ کے وزن پر عَلِیْمٌ۔ خَبِیْرٌ۔ بَصِیْرٌ وغیرہ کے ساتھ عموماً ب کا صلہ آتا ہے۔ یہاں لفظ بِنَا میں بِ دراصل بَصِیْرًا کا صلہ ہے اور نَا اس کی ضمیر مفعولی ہے۔

قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى  36؁
[قَالَ: (اللہ نے) کہا] [قَدْ اُوْتِيْتَ: آپؑ کو دی جا چکی ہے] [سُؤْلَكَ: آپؑ کی التجا] [يٰمُوْسٰى: اے موسٰیؑ]

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً اُخْرٰٓى  37؀ۙ
[وَلَقَدْ مَنَنَا: اور بیشک ہم احسان کر چکے ہیں] [عَلَيْكَ: آپؑ پر] [مَرَّةً اُخْرٰٓى: ایک اور بار (بھی)]

اِذْ اَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّكَ مَا يُوْحٰٓي 38؀ۙ
[اِذْ: جب ] [اَوْحَيْنَآ: ہم نے وحی کیا] [اِلٰٓى اُمِّكَ: آپؑ کی والدہ کی طرف] [مَا: وہ جو] [يُوْحٰٓي: وحی کیا گیا]

 

نوٹ۔1: لفظ وحی کے لغوی معنی ایسے خفیہ کلام کے ہیں جو صرف مخاطب کو معلوم ہو، اور دوسرے اس پر مطلع نہ ہوں۔ اس لغوی معنی کے اعتبار سے وحی کسی کے لئے مخصوص نہیں، نبی و رسول اور عام مخلوق بلکہ جانور تک اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو بذریعہ وحی تلقین و تعلیم کرنے کا ذکر اسی معنی کے اعتبار سے ہے۔ (آیت 16:68) موسٰی ؑ کی والدہ کی طرف وحی بھی اسی لغوی معنی کے اعتبار سے ہے۔ اس سے ان کا نبی یا رسول ہونا لازم نہیں آتا۔ جیسے بی بی مریم کو ارشادات ربانی پہنچے باوجودیکہ وہ نبی یا رسول نہیں تھیں۔ اس طرح کی لغوی وحی بطور الہام کے ہوتی ہے جیسے اولیاء اللہ کو اس قسم کے الہامات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر اس کا تعلق صرف اس شخص کی ذات سے ہوتا ہے جس کو یہ وحی الہام ہوتی ہے، اصلاح خلق اور دعوت و تبلیغ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس وحی نبوت کا منشاء ہی مخلوق کی اصلاح کے لئے کسی کو کھڑا کرنا اور دعوت و تبلیغ پر مامور کرنا ہوتا ہے۔ اس کے ذمہ لازم ہوتا ہے کہ اپنی وحی پر خود بھی ایمان لائے اور دوسروں کو بھی اپنی نبوت کو ماننے اور اپنی وحی کے ماننے کا پابند بنائے۔ جو اس کو نہ مانے اسے کافر قرار دے۔

 وحی لغوی یعنی وحی الہام میں اور وحی اصطلاحی یعنی وحی نبوت میں یہی فرق ہے۔ وحی لغوی ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ جبکہ نبوت اور وحی نبوت خاتم الانبیاء
پر ختم ہو چکی ہے۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔2: امتحانات اور آزمائشیں انسان کی تعلیم و تربیت کا لازمہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کے ذریعہ سے انسان کی اعلیٰ صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس لئے ان سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ جو شخص ان سے گھبراتا اور بھاگتا ہے وہ گویا اپنی تربیت سے گھبراتا اور بھاگتا ہے۔ ڈرنے کی کوئی چیز ہے تو وہ یہ ہے کہ امتحان میں وہ کہیں ناکام نہ رہ جائے۔ یہ امتحانات صرف مشکلات اور مصائب ہی کی راہ سے پیش نہیں آتے بلکہ انعامات اور افضال کی شکل میں بھی پیش آتے ہیں۔ مصائب و مشکلات کے امتحانات میں اللہ تعالیٰ بندے کے صبر کی تربیت فرمانا چاہتا ہے اور انعامات و افضال کے امتحان میں اس کے شکر کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ اسی صبر و شکر پر تمام اعلیٰ صفات انسانی کا انحصار ہے۔ ان ہی دونوں صفتوں کی تکمیل پر نفس مطمٔنّہکی بادشاہی حاصل ہوتی ہے اور پھر اسی کا ثمرہ وہ ابدی بادشاہی ہے جس کو قرآن نے رَاضِیَّۃً مَّرْضِیَّۃً کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ شکر کا امتحان زیادہ مشکل ہے۔ اس میں پاس ہونے والوں کا اوسط بہت کم ہے۔ وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ (34:13) میں اسی طرف اشارہ ہے۔ (تدبر قرآن)

اَنِ اقْذِفِيْهِ فِي التَّابُوْتِ فَاقْذِفِيْهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَاْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّيْ وَعَدُوٌّ لَّهٗ  ۭ وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ڬ وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ 39؀ۘ
[ان : کہ] [اقْذِفِيْهِ: آپ ڈال دیں اس (بچے) کو] [فِي التَّابُوْتِ: اس صندوق میں] [فَاقْذِفِيْهِ: پھر آپ ڈال دیں اس (صندوق) کو] [فِي الْيَمِّ: پانی میں] [فَلْيُلْقِهِ: پھر چاہیے کہ ڈال دے اس کو] [الْيَمُّ: پانی ] [بِالسَّاحِلِ: ساحل پر] [يَاْخُذْهُ: تو پکڑے اس کو] [عَدُوٌّ لِيْ: میرا دشمن] [وَعَدُوٌّ لَهٗ: اور اس (بچے) کا دشمن] [وَاَلْقَيْتُ: اور میں نے ڈال دی] [عَلَيْكَ: آپ پر (کے لئے)] [مَحَبَّةً: ایک محبت ] [مِّنِّيْ: اپنی طرف سے] [وَلِتُصْنَعَ: اور تاکہ آپؑ پروان چڑھائے جائیں] [عَلٰي عَيْنِيْ: میری آنکھ کے سامنے]

 

ق ذ ف

[قَذْفًا: (ض) ] (1) کوئی چیز پھینک دینا۔ (2) کوئی چیز کسی پر پھینک کر مارنا۔ (3) کوئی چیز کسی چیز میں ڈالنا۔ اس کے لئے عموماً فِیْ کا صلہ آتا ہے۔ حُمِّلْنَا اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَ فْنٰھَا (اٹھوائے گئے ہم سے کچھ بوجھ قوم کی زینت یعنی زیور میں سے تو ہم نے پھینک دیا ان کو) 20:87۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ (بلکہ ہم پھینک مارتے ہیں حق کو باطل پر) 21:18۔ وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ (اور اس نے ڈالا ان کے دلوں میں رعب۔ 33:26۔

 اِقْذِفِیْ یہ فعل امر میں واحد مؤنث مخاطب کا صیغہ ہے۔ تو ایک عورت پھینک دے۔ ڈال دے۔ زیر مطالعہ آیت۔39

اِذْ تَمْشِيْٓ اُخْتُكَ فَتَقُوْلُ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي مَنْ يَّكْفُلُهٗ  ۭ فَرَجَعْنٰكَ اِلٰٓى اُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ڛ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا ڢ فَلَبِثْتَ سِنِيْنَ فِيْٓ اَهْلِ مَدْيَنَ ڏ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰي قَدَرٍ يّٰمُوْسٰى 40؀
[اِذْ: جب] [تمشِيْٓ: چلتی تھیں] [اُخْتُكَ: آپؑ کی بہن] [فَتَقُوْلُ: تو انھوں نے کہا] [هَلْ: کیا] [اَدُلُّكُمْ: میں پتہ دوں تم لوگوں کو] [عَلٰي مَنْ: اس کا جو] [يَّكْفُلُهٗ: پال پوس دے اس کو] [فَرَجَعْنٰكَ: تو ہم نے واپس کیا آپؑ کو] [اِلٰٓى اُمِّكَ: آپؑ کی والدہ کی طرف] [كَيْ: تاکہ] [تَقَرَّ: ٹھنڈی ہو] [عَيْنُهَا: ان کی آنکھ] [وَلَا تَحْزَنَ: اور وہ غمگین نہ ہوں] [وَقَتَلْتَ: اور آپؑ نے قتل کیا] [نَفْسًا: ایک جان کو] [فَنَجَّيْنٰكَ: تو ہم نے نجات دی آپؑ کو] [مِنَ الْغَمِّ: غم سے] [وَفَتَنّٰكَ: اور ہم نے آزمائش میں ڈالا آپؑ کو] [فُتُوْنًا: جیسے آزمائش میں ڈالنے کا حق ہے] [فَلَبِثْتَ: پھر آپؑ ٹھہرے] [سِنِيْنَ: کچھ سال] [فِيْٓ اَهْلِ مَدْيَنَ: مدین والوں میں] [ثُمَّ: پھر] [جِئْتَ: آپؑ آئے] [عَلٰي قَدَرٍ: ایک (مقرر) اندازے پر] [يّٰمُوْسٰى: اے موسٰی ؑ]

 

د ل ل

[دَلُوْلاً: (ن) ] رہنمائی کرنا۔ راستہ دکھانا۔ زیر مطالعہ آیت۔40

 دَلِیْلٌ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ رہنمائی کرنے والا۔ دلیل۔ حجت۔ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلًا (پھر ہم نے بنایا سورج کو اس پر ایک دلیل) 25:45۔

وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ 41؀ۚ
[وَاصْطَنَعْتُكَ: اور میں نے اہتمام سے پروان چڑھایا آپؑ کو] [لِنَفْسِيْ: اپنے آپ کے لئے]

اِذْهَبْ اَنْتَ وَاَخُوْكَ بِاٰيٰتِيْ وَلَا تَنِيَا فِيْ ذِكْرِيْ 42؀ۚ
[اِذْهَبْ: آپؑ جائیں] [انتَ: آپؑ ] [وَاَخُوْكَ: اور آپؑ کے بھائی] [بِاٰيٰتِيْ: میری نشانیوں کے ساتھ] [وَلَا تَنِيَا: اور آپؑ دونوں سستی نہ کریں] [فِيْ ذِكْرِيْ: میری یاد میں]

 

و ن ی

[وَنْیًا: (ض) ] سست ہونا۔ تھکنا۔ زیر مطالعہ آیت۔42

اِذْهَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى 43؀ښ
[اِذْهَبَآ: آپؑ دونوں جائیں] [اِلٰى فِرْعَوْنَ: فرعون کی طرف] [انهٗ: بیشک اس نے] [طَغٰى: سرکشی کی ہے]

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى 44؀
[فَقُوْلَا: پھر تم دونوں کہنا] [لَهٗ: اس سے] [قَوْلًا لَّيِّنًا: نرم بات] [لَّعَلَهٗ: شاید کہ وہ] [يَتَذَكَّرُ: نصیحت حاصل کرے] [اَوْ يَخْشٰى: یا وہ ڈرے]

قَالَا رَبَّنَآ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ يَّفْرُطَ عَلَيْنَآ اَوْ اَنْ يَّــطْغٰي 45؀
[قَالَا: دونوں نے کہا] [رَبَّنَآ: اے ہمارے رب] [اننَا نَخَافُ: بیشک ہم ڈرتے ہیں ] [ان: کہ] [يَّفْرُطَ: وہ زیادتی کرے] [عَلَيْنَآ: ہم پر] [اَوْ ان: یا یہ کہ] [يَّــطْغٰي: وہ سرکشی کرے (پیغام سے)]

قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى 46؁
[قَالَ: (اللہ نے) کہا] [لَا تَخَافَآ: تم دونوں مت ڈرو] [اننِيْ: بیشک میں] [مَعَكُمَآ: تم دونوں کے ساتھ ہوں] [اَسْمَعُ: میں سنتا ہوں] [وَاَرٰى: اور میں دیکھتا ہوں]

فَاْتِيٰهُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ ڏ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ  ۭ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ  ۭ وَالسَّلٰمُ عَلٰي مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى 47؀
[فَاْتِيٰهُ: پس تم دونوں پہنچو اس کے پاس] [فَقُوْلَآ: پھر تم دونوں کہو] [انا: کہ ہم دونوں] [رَسُوْلَا رَبِكَ: تیرے رب کے رسول ہیں] [فَاَرْسِلْ: پس تو بھیج] [مَعَنَا: ہمارے ساتھ] [بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ: بنی اسرائیل کو] [وَلَا تُعَذِّبْهُمْ: اور تو عذاب مت دے ان کو] [قَدْ جِئْنٰكَ: ہم آئے ہیں تیرے پاس] [بِاٰيَةٍ: ایک نشانی کے ساتھ] [مِّنْ رَّبِكَ: تیرے رب (کی طرف) سے] [وَالسَّلٰمُ: اور سلامتی ہے] [عَلٰي مَنِ: اس پر جس نے] [اتَّبَعَ: پیروی کی] [الْهُدٰى: ہدایت کی]

 

نوٹ۔1: آیات 47۔48۔ میں فرعون کو اللہ کا جو پیغام دیا گیا، اس پر سنجیدہ طریقے سے غور کرنے کے بجائے فرعون نے سوال کیا کہ اچھا اگر رب کے پاس سے آئے ہو تو ذرا پچھلی قوموں کا حال سنائو کہ ان کا کیا بنا اور وہ کس حال میں ہیں۔ اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ اہل دربار میں ایک تعصب بھڑکا دیا جائے اور بات اصل موضوع یعنی اللہ کی تذکیر سے ہٹ جائے۔ جواب میں اگر حضرت موسٰی ؑ یہ کہتے کہ پہلی امتوں کے لوگ گمراہ اور جہنمی تھے تو چاہے یہ حق گوئی کا بڑا زبردست نمونہ ہوتا، مگر یہ جواب حضرت موسٰی ؑ کے بجائے فرعون کے مقصد کی زیادہ خدمت انجام دیتا۔ اس لیے حضرت موسٰیؑ نے دانائی سے ایسا جواب دیا جو بجائے خود حق بھی تھا اور ساتھ ساتھ اس نے فرعون کے زہریلے دانت بھی توڑ دیئے۔ آپؑ نے فرمایا کہ وہ لوگ اپنا کام کر کے خدا کی ہاں جا چکے ہیں۔ ان کا پورا ریکارڈ اللہ کے پاس محفوظ ہے۔ ان سے جو بھی معاملہ خدا کو کرنا ہے اس کو وہی جانتا ہے۔ مجھے اور تمہیں یہ فکر نہیں ہونی چاہئے کہ ان کا انجام کیا ہو گا۔ ہمیں تو اس کی فکر ہونی چاہیے کہ ہمارا انجام کیا ہو گا۔ اس طرح موسٰی ؑ نے بات کا رخ پھر اصل موضوع کی طرف موڑ دیا۔ (تدبر قرآن اور تفہیم القرآن سے ماخوذ)

اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰي مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى 48؀
[انا: بیشک] [قَدْ اُوْحِيَ: وحی کی گئی ہے] [اِلَيْنَآ: ہماری طرف] [ان : کہ] [الْعَذَابَ: عذاب] [عَلٰي مَنْ: اس پر ہے جس نے] [كَذَّبَ: جھٹلایا] [وَتَوَلّٰى: اور منہ موڑا]

قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰى 49؁
[قَالَ: (فرعون نے) کہا] [فَمَنْ: تو کون] [رَّبُّكُمَا: تم دونوں کا رب ہے] [يٰمُوْسٰى: اے موسٰیؑ]

قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى 50؀
[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [رَبُّنَا: ہمارا رب] [الَّذِيٓ: وہ ہے جس نے] [اَعْطٰي: عطا کی] [كُلَّ شَيْءٍ: ہر چیز کو] [خَلْقَهٗ: اس کی پیدائش] [ثُمَّ: پھر] [هَدٰى: اس نے ہدایت دی]

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى 51؁
[قَالَ: (فرعون نے) کہا] [فَمَا: تو کیا ہے] [بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى: پہلی امتوں کی حالت]

قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ فِيْ كِتٰبٍ ۚ لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَلَا يَنْسَى 52؀ۡ
[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [عِلْمُهَا: اس کا علم] [عِنْدَ رَبِيْ: میرے رب کے پاس] [فِيْ كِتٰبٍ: ایک کتاب میں ہے] [لَا يَضِلُّ: نہیں بھٹکتا] [رَبِيْ: میرا رب] [وَلَا يَنْسَى: اور نہ وہ بھولتا ہے]

الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّسَلَكَ لَكُمْ فِيْهَا سُبُلًا وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً  ۭ فَاَخْرَجْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى 53؁
[الَّذِي: وہ، وہ ہے جس نے] [جَعَلَ: بنایا] [لَكُمُ: تمھارے لئے] [الْاَرْضَ: زمین کو] [مَهْدًا: ایک بچھونا] [وَّسَلَكَ: اور اس نے ڈالے] [لَكُمْ: تمھارے لئے] [فِيْهَا: اس میں] [سُبُلًا: کچھ راستے] [وَّ انزَلَ: اور اس نے اتارا] [مِنَ السَّمَاۗءِ: آسمان سے] [مَاۗءً: کچھ پانی] [فَاَخْرَجْنَا (رح) : پھر ہم نے نکالے] [بِهٖٓ: اس سے] [اَزْوَاجًا: کچھ جوڑے] [مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى: متفرق سبزوں میں سے]

 

ش ت ت

[شَتًّا: (ض) ] پراگندہ ہونا۔ متفرق ہونا۔

 شَتٌّ ج اَشْتَاتٌ۔ پراگندہ۔ الگ الگ۔ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا (تم لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے کہ تم لوگ کھائو اکٹھا ہوتے ہوئے یا الگ الگ ہوتے ہوئے) 24:61

 شَتِیْتٌ ج شَتّٰی۔ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ متفرق۔ الگ الگ۔ زیر مطالعہ آیت۔53

كُلُوْا وَارْعَوْا اَنْعَامَكُمْ  ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰى54؀ۧ
[كُلُوْا: تم لوگ کھائو] [وَارْعَوْا: اور چرائو] [انعامكُمْ: اپنے مویشیوں کو] [ان: بیشک ] [فِيْ ذٰلِكَ: اس میں] [لَاٰيٰتٍ: یقینا نشانیاں ہیں] [لِاُولِي النُّهٰى: عقل والوں کے لئے]

مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى 55؁
[مِنْهَا: اس سے] [خَلَقْنٰكُمْ: ہم نے پیدا کیا تم لوگوں کو] [وَفِيْهَا: اور اس میں] [نُعِيْدُكُمْ: ہم لوٹائیں گے تم لوگوں کو] [وَمِنْهَا: اس سے] [نُخْرِجُكُمْ: ہم نکالیں گے تم لوگوں کو] [تَارَةً اُخْرٰى: دوسری مرتبہ]

وَلَقَدْ اَرَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَاَبٰى 56؀
[وَلَقَدْ اَرَيْنٰهُ: اور بیشک ہم دکھا چکے تھے اس (فرعون) کو] [اٰيٰتِنَا: اپنی نشانیاں] [كُلَّهَا: ان کی سب] [فَكَذَّبَ: تو اس نے جھٹلایا] [وَاَبٰى: اور انکار کیا]

قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰى 57؁
[قَالَ: اس نے کہا] [اَ: کیا] [جِئْتَنَا: آپؑ آئے ہمارے پاس] [لِتُخْرِجَنَا: کہ آپؑ نکالیں ہم کو] [مِنْ اَرْضِنَا: ہماری زمین سے] [بِسِحْرِكَ: اپنے جادو سے] [يٰمُوْسٰى: اے موسٰیؑ]

فَلَنَاْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهٖ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى 58؁
[فَلَنَاتِيَنَّكَ: تو ہم لازماً لائیں گے آپؑ کے پاس] [بِسِحْرٍ: ایک جادو ] [مِّثْلِهٖ: اس کے جیسا] [فَاجْعَلْ: پس آپؑ بنائیں] [بَيْنَنَا: ہمارے درمیان] [وَبَيْنَكَ: اور آپؑ کے درمیان] [مَوْعِدًا: وعدے کا ایک وقت] [لَّا نُخْلِفُهٗ: ہم خلاف نہ کریں جس کے] [نَحْنُ: ہم] [وَلَآ انتَ: اور نہ ہی آپؑ] [مَكَانا سُوًى: ایک برابر جگہ (یعنی کھلے میدان) میں]

 

نوٹ۔1: موسٰیؑ کو مقابلہ کی دعوت دینے سے فرعون کا مدعا یہ تھا کہ ایک مرتبہ جادوگروں سے لاٹھیوں کو سانپ بنوا کر دکھا دیا جائے تو موسٰیؑ کے معجزے کا جو اثر لوگوں کے دلوں پر ہوا ہے وہ دور ہو جائے گا۔ موسٰیؑ نے ان کے جشن کے دن کا انتخاب کیا تاکہ فرعون کے درباریوں کے ساتھ عوام بھی یہ مقابلہ دیکھ لیں۔ پھر مقابلہ شروع کرنے سے پہلے موسٰیؑ نے جو خطاب کیا اس سے لوگوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا۔ تفہیم القرآن میں ہے کہ یہ اختلاف فرعون کے درباریوں میں ہوا تھا۔ جبکہ معارف القرآن میں ہے کہ اختلاف ساحروں میں ہوا کہ یہ کلمات کوئی جادوگر نہیں کہہ سکتا، یہ تو اللہ ہی کی طرف سے معلوم ہوتے ہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں گروہوں میں آپس میں اختلاف ہوا، پھر درباریوں میں جوشیلے عنصر نے جہاندیدہ لوگوں کی بات نہ چلنے دی ہو اور فرعون سے مقابلہ کرانے کا فیصلہ کرا کے ساحروں کو سمجھایا ہو کہ یہ دونوں بس جادوگر ہیں اور تمھاری حکومت اور تمھاری بےمثال تہذیب کو غارت کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے اپنے اختلاف ختم کر کے پوری تیاری کے ساتھ متحد ہو کر مقابلے کے لئے آئو۔

قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّيْنَةِ وَاَنْ يُّحْشَرَ النَّاسُ ضُـحًي 59؁
[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [مَوْعِدُكُمْ؛تم لوگوں کے وعدے کا وقت] [يَوْمُ الزِّيْنَةِ: زینت (یعنی جشن) کا دن ہے] [وَان : اور یہ کہ] [يُّحْشَرَ: اکٹھا کئے جائیں] [النَاسُ: لوگ ] [ضُـحًي: چاشت کے وقت]

فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَـجَمَعَ كَيْدَهٗ ثُمَّ اَتٰى 60؀
[فَتَوَلّٰى: تو پلٹا (یعنی واپس ہوا)] [فِرْعَوْنُ: فرعون] [فَـجَمَعَ: پھر اس نے جمع کی] [كَيْدَهٗ: اپنی خفیہ تدبیر (یعنی مکمل تیاری کی)] [ثُمَّ اَتٰى: پھر وہ پہنچا (وعدے کی جگہ پر)]

قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ  ۚ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى 61؀
[قَالَ: کہا] [لَهُمْ: ان لوگوں سے] [مُّوْسٰى: موسٰیؑ نے] [وَيْلَكُمْ: تم لوگوں کی ہلاکت ہے] [لَا تَفْتَرُوْا: تم لوگ مت گھڑو] [عَلَي اللّٰهِ: اللہ پر] [كَذِبًا: کوئی جھوٹ] [فَيُسْحِتَكُمْ: ورنہ وہ اکھاڑ پھینکے گا تم کو] [بِعَذَابٍ: کسی عذاب سے] [وَ: اور] [قَدْ خَابَ: نامراد ہو گیا] [مَنِ: وہ جس نے] [افْتَرٰى: (جھوٹ) گھڑا]

فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوٰى 62؀
[فَتَنَازَعُوْٓا: تو (یہ سن کر) انھوں نے اختلاف کیا] [اَمْرَهُمْ: اپنے معاملہ میں] [بَيْنَهُمْ: آپس میں] [وَاَسَرُّوا: اور انھوں نے پوشیدہ کیا] [النَّجوٰى: سرگوشی]

قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰى 63؀
[قَالُوْٓا: (پھر) انھوں نے کہا] [ان : بیشک] [ھٰذٰىنِ: یہ دونوں] [لَسٰحِرٰنِ: یقینا جادوگر ہیں] [يُرِيْدٰنِ: چاہتے ہیں] [ان: کہ] [يُّخْرِجٰكُمْ: وہ دونوں نکال دیں تم لوگوں کو] [مِّنْ اَرْضِكُمْ: تمھاری زمین سے] [بِسِحْرِهِمَا: اپنے جادو سے] [وَيَذْهَبَا: اور وہ دونوں لے جائیں] [بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰى: تمھارے افضل طریقے (یعنی تہذیب) کو]

 

ترکیب: (آیت۔63) اس آیت میں اِنْ کو نافیہ ماننے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اِنْ نافیہ کے بعد عموماً اِلَّا آتا ہے جو کہ یہاں نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ لَسٰحِرٰنِ پر لام تاکید لگا ہوا ہے جو کہ عموماً اِنَّ کی خبر پر آتا ہے۔ اس لئے اسے اِنْ مخففہ ماننے کو ترجیح دی گئی ہے۔

فَاَجْمِعُوْا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّا  ۚ وَقَدْ اَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰى 64؀
[فَاَجْمِعُوْا: پس تم لوگ جمع کرو] [كَيْدَكُمْ: اپنے دائوں پیچ ] [ثُمَّ: پھر ] [ائْتُوْا: تم سب آئو] [صَفًّا: صف بنائے ہوئے] [وَقَدْ اَفْلَحَ: اور مراد پا لی] [الْيَوْمَ: آج کے دن] [مَنِ: اس نے جو] [اسْتَعْلٰى: غالب ہوا]

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰي 65؀
[قَالُوْا: (جادو گروں نے) کہا] [يٰمُوْسٰٓى: اے موسٰیؑ] [اِمَآ: یا یہ] [ان: کہ] [تُلْقِيَ: آپؑ ڈالیں] [وَاِمَآ: اور یا یہ] [ان : کہ] [نَّكُوْنَ: ہم ہوں] [اَوَّلَ مَنْ: اس کے پہلے جو] [اَلْقٰي: ڈالے]

قَالَ بَلْ اَلْقُوْا  ۚ فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي  66؀
[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [بَلْ: بلکہ] [اَلْقُوْا: تم لوگ ڈالو] [فَاِذَا: پھر تب ہی] [حِبَالُهُمْ: ان کی رسیاں] [وَعِصِيُّهُمْ: اور ان کی لاٹھیاں] [يُخَيَّلُ: تصور میں دی گئیں] [اِلَيْهِ: انؑ کی طرف] [مِنْ سِحْرِهِمْ: ان کے جادو سے] [انهَا: کہ وہ] [تَسْعٰي: دوڑتی ہیں]

فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى 67؀
[فَاَوْجس: تو محسوس کیا] [فِيْ نَفْسِهٖ: اپنے جی میں] [خِيْفَةً: ایک خوف ] [مُّوْسٰى: موسٰیؑ نے]

 

نوٹ۔1: آیت نمبر۔67۔ میں قرآن اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ عام انسانوں کی طرح پیغمبر بھی جادو سے متاثر ہو سکتا ہے۔ اگرچہ جادوگر اس کی نبوت سلب کر لینے، یا اس کے اوپر نازل ہونے والی وحی میں خلل ڈال دینے یا اس کو گمراہ کر دینے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن کچھ دیر کے لئے اس کے قوٰی پر یک گونہ اثر ضرور ڈال سکتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی کھل جاتی ہے جو احادیث میں نبی
پر جادو کا اثر ہونے کی روایات پڑھ کر نہ صرف ان روایات کی تکذیب کرتے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تمام حدیثوں کو ناقابلِ اعتبار قرار دینے لگتے ہیں۔ (تفہیم القرآن)

قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى 68؀
[قُلْنَا: ہم نے کہا] [لَا تَخَفْ: آپؑ مت ڈریں] [انكَ: بیشک آپؑ] [انتَ الْاَعْلٰى: ہی غالب ہیں]

وَاَلْقِ مَا فِيْ يَمِيْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا  ۭ اِنَّمَا صَنَعُوْا كَيْدُ سٰحِرٍ  ۭ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى 69؀
[وَاَلْقِ: اور آپؑ ڈال دیں] [مَا: اس کو جو] [فِيْ يَمِيْنِكَ: آپؑ کے داہنے ہاتھ میں ہے] [تَلْقَفْ: تو وہ نگل لے گا] [مَا: اس کو جو] [صَنَعُوْا: ان لوگوں نے کاریگری کی] [انمَا: بیشک وہ جو] [صَنَعُوْا: انھوں نے کاریگری کی] [كَيْدُ سٰحِرٍ: جادو کرنے والے کی چالبازی ہے] [وَلَا يُفْلِحُ: اور مراد نہیں پاتا] [السَّاحِرُ: جادو کرنے والا] [حَيْثُ: جہاں کہیں سے] [اَتٰى: وہ آئے]

 

ترکیب: (آیت۔69) اِنَّمَا یہاں پر کلمۂ حصر نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر فعل صَنَعُوْا کا مفعول کَیْدَ سٰحِرٍ نصب میں آنا چاہئے تھا لیکن یہاں کَیْدُ سٰحِرٍحالت رفع میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں اِنَّمَا دراصل اِنَّ مَا ہے۔ اس طرح اِنَّ کا اسم مَا صَنَعُوْا ہے اور کَیْدُ سٰحِرٍ اس کی خبر ہونے کی وجہ سے حالت رفع میں ہے۔

فَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَمُوْسٰى 70؀
[فَاُلْقِيَ: تو ڈال دیئے گئے] [السَّحَرَةُ: جادوگر لوگ] [سُجَّدًا: سجدہ کرنے والے ہوتے ہوئے] [قَالُوْٓا: ان لوگوں نے کہا] [اٰمَنَا: ہم ایمان لائے] [بِرَبِ هٰرُوْنَ وَمُوْسٰى: موسٰیؑ اور ہارونؑ کے رب پر]

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ  ۭ اِنَّهٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ ۡ وَلَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰي 71؀
[قَالَ: (فرعون نے) کہا] [اٰمَنْتم لَهٗ: تم لوگوں نے بات مان لی اس کی] [قَبْلَ ان : اس سے پہلے کہ] [اٰذَنَ: میں اجازت دیتا] [لَكُمْ: تم لوگوں کو] [انهٗ: بیشک یہ] [لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِي: یقینا تم لوگوں کا وہ بڑا ہے جس نے] [عَلَّمَكُمُ: سکھایا تم لوگوں کو] [السِّحْرَ: جادو] [فَلَاُقَطِّعَنَّ: تو میں لازماً کاٹوں گا] [اَيْدِيَكُمْ: تمھارے ہاتھ] [وَاَرْجُلَكُمْ: اور تمھارے پائوں] [مِّنْ خِلَافٍ: مخالف (طرف) سے] [وَّلَاُوصَلِبَنَّكُمْ: اور میں لازماً پھانسی دوں گا تم لوگوں کو] [فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ: کھجور کے تنوں میں] [وَلَتَعْلَمُنَّ: اور تم لوگ لازماً جان لو گے] [اَيُّنَآ: ہم میں کا کون] [اَشَدُّ: زیادہ سخت ہے] [عَذَابًا: بلحاظ عذاب کے] [وَّاَبْقٰي: اور زیادہ باقی رہنے والا ہے]

 

(آیت۔71) لَاُ وصَلِّبَنَّکُمْ میں وائو زائدہ ہے جو لکھی جاتی ہے، پڑھی نہیں جاتی۔

قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰي مَا جَاۗءَنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالَّذِيْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ ۭ اِنَّمَا تَقْضِيْ هٰذِهِ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا 72؀ۭ
[قَالُوْا: (جادوگروں نے) کہا] [لَنْ نُّؤْثِرَكَ: ہم ہرگز ترجیح نہیں دیں گے تجھ کو] [عَلٰي مَا: ان پر جو] [جَاۗءَنَا: آئیں ہمارے پاس] [مِنَ الْبَيِّنٰتِ: واضح (نشانیوں) میں سے] [وَالَّذِي: اور اس پر جس نے] [فَطَرَنَا: وجود بخشا ہم کو] [فَاقْضِ: پس تو فیصلہ کر] [مَآ: وہ جو ] [انتَ: تو] [قَاضٍ: فیصلہ کرنے والا ہے] [انمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [تَقْضِيْ: تو فیصلہ کرتا ہے] [هٰذِهِ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا: اس دنیوی زندگی میں]

 

ترکیب: (آیت۔72)۔ وَالَّذِیْ کے دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو عَلٰی مَا پر عطف مانا جائے۔ ایسی صورت میں ترجمہ ہو گا ’’ اور اس پر جس نے‘‘ دوسرے یہ کہ وَالَّذِیْ کے واو کو قسمیہ مانا جائے۔ پھر ترجمہ ہو گا ’’ قسم ہے اس کی جس نے‘‘ ہم پہلے امکان کو ترجیح دیں گے۔ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُنْیَا یہ پورا فقرہ ظرف ہے اس لئے اَلْحَیٰوۃَ حالت نصب میں ہے۔

اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطٰيٰنَا وَمَآ اَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ۭ وَاللّٰهُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰي 73؀
[انآ: بیشک] [اٰمَنَا: ہم ایمان لائے] [بِرَبِنَا: اپنے رب پر] [لِيَغْفِرَ: تاکہ وہ بخش دے] [لَنَا: ہمارے لئے] [خَطٰيٰنَا: ہماری خطائوں کو] [وَمَآ: اور اس کو] [اَكْرَهْتَنَا: تو نے مجبور کیا ہم کو] [عَلَيْهِ: جس پر] [مِنَ السِّحْرِ: (جیسے) جادو کرنا] [وَاللّٰهُ: اور اللہ] [خَيْرٌ: سب سے بہتر ہے] [وَّاَبْقٰي: اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے]

اِنَّهٗ مَنْ يَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ  ۭ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰي 74؀
[انهٗ: حقیقت یہ ہے کہ] [مَنْ: جو] [يَاْتِ: آئے گا] [رَبَّهٗ: اپنے رب کے پاس] [مُجْرِمًا: جرم کرنے والا ہوتے ہوئے] [فَان : تو بیشک] [لَهٗ: اس کے لئے] [جَهَنَّمَ: جہنم ہے] [لَا يَمُوْتُ: نہ وہ مرے گا] [فِيْهَا: اس میں] [وَلَا يَحْيٰي: اور نہ جیئے گا]

وَمَنْ يَّاْتِهٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰي 75؀ۙ
[وَمَنْ: اور جو] [يَاْتِهٖ: آئے گا اس کے پاس] [مُؤْمِنًا: ایمان لانے والا ہوتے ہوئے] [قَدْ عَمِلَ: اس نے عمل کئے ہیں] [الصّٰلِحٰتِ: نیکیوں کے] [فَاُولٰۗىِٕكَ: تو یہ لوگ ہیں] [لَهُمُ: جن کے لئے] [الدَّرَجٰتُ الْعُلٰي: بلند درجے ہیں]

جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا  ۭ وَذٰلِكَ جَزٰۗؤُا مَنْ تَزَكّٰى 76؀ۧ
[جَنّٰتُ عَدْنٍ: عدن کے باغات ہیں] [تَجْرِيْ: بہتی ہیں] [مِنْ تَحْتِهَا: جن کے نیچے سے] [الْانهٰرُ: نہریں] [خٰلِدِيْنَ: ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے] [فِيْهَا: ان میں] [وَذٰلِكَ: اور یہ ] [جَزٰۗؤُا مَنْ: اس کی جزا ہے جس نے] [تَزَكّٰى: پاکیزگی حاصل کی]

 

نوٹ۔1: ایک رائے یہ ہے کہ جادوگروں نے فرعون کو جو جواب دیا تھا وہ آیت۔73 پر ختم ہو گیا۔ اس کے آگے آیات 74 تا 76۔ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے جادوگروں کی بات کی تکمیل کے لئے ارشاد فرمائی ہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ آیات بھی جادوگروں کی بات ہیں اور فرعون کو ان کا جواب آیت۔76۔ پر ختم ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جادوگروں کو آخرت کی جزا و سزا کی کیفیات کا علم کیسے ہوا جسے ان آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں مختلف تاویلات کی گئی ہیں۔ لیکن اگر جادوگروں کے حضرت موسٰیؑ پر ایمان لانے کے پس منظر کو ذہن میں رکھا جائے (دیکھیں آیت۔7:120۔ نوٹ۔1) تو کسی تاویل کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور بات واضح ہو جاتی ہے کہ توحید، آخرت اور رسالت کے متعلق بنو اسرائیل کے نظریات اور تعلیمات جادوگروں کے علم میں تھیں۔ پہلے وہ ان پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ معجزہ دیکھنے کے بعد ایمان لے آئے اور تمام باتوں کی تصدیق کی۔

وَلَقَدْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى ڏ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا  ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى 77؀
[وَلَقَدْ اَوْحَيْنَآ: اور بیشک ہم نے وحی کی تھی] [اِلٰى مُوْسٰٓى: موسٰیؑ کی طرف] [ان : کہ] [اَسْرِ: آپؑ لے کر نکلیں] [بِعِبَادِيْ: میرے بندوں کو] [فَاضْرِبْ: پھر آپؑ بنائیں] [لَهُمْ: ان کے لئے] [طَرِيْقًا: ایک راستہ] [فِي الْبَحْرِ: سمندر میں] [يَبَسًا: سوکھا ہوتے ہوئے] [لَّا تَخٰفُ: آپؑ کو خوف نہیں ہوگا] [دَرَكًا: پکڑے جانے کا] [وَّلَا تَخْشٰى: اور نہ آپؑ کو ڈر ہو گا (ڈوبنے کا)]

فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِهٖ فَغَشِيَهُمْ مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ 78؀ۭ
[فَاَتْبَعَهُمْ: تو پیچھے لگا ان کے] [فِرْعَوْنُ: فرعون ] [بِجُنُوْدِهٖ: اپنے لشکروں کے ساتھ] [فَغَشِيَهُمْ: پھر ڈھانپ لیا ان کو] [مِّنَ الْيَمِّ: پانی سے] [مَا: اس چیز نے جس نے] [غَشِيَهُمْ: ڈھانپا ان کو]

وَاَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهٗ وَمَا هَدٰى 79؁
[وَاَضَلَّ: اور گمراہ کیا] [فِرْعَوْنُ: فرعون نے] [قَوْمَهٗ: اپنی قوم کو] [وَمَا هَدٰى: اور ہدایت نہیں دی]

 

نوٹ۔1: آیت۔79۔ میں جو جملہ ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی، یہ دراصل کفار مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تمھارے سردار اور لیڈر بھی تم کو اسی راستے پر لیے جا رہے ہیں جس پر فرعون اپنی قوم کو لے جا رہا تھا۔ اب تم خود دیکھ لو کہ یہ کوئی صحیح رہنمائی نہیں تھی۔ (تفہیم القرآن)

يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ قَدْ اَنْجَيْنٰكُمْ مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى 80؀
[يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ: اے بنی اسرائیل] [قَدْ انجَيْنٰكُمْ: ہم نے نجات دی ہے تم لوگوں کو] [مِّنْ عَدُوِّكُمْ: تمھارے دشمن سے] [وَوٰعَدْنٰكُمْ: اور معاہدہ کیا تم سے] [جانب الطُّوْرِ الْاَيْمَنَ: کوہ طور کی دا ہنی جانب] [وَنَزَّلْنَا: اور ہم نے اتارا] [عَلَيْكُمُ: تم لوگوں پر] [الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى: من و سلوٰی]

كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيْهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِيْ ۚ وَمَنْ يَّحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِيْ فَقَدْ هَوٰى 81؀
[كُلُوْا: تم لوگ کھائو] [مِنْ طَيِّبٰتِ مَا: ان چیزوں کے پاکیزہ سے جو] [رَزَقْنٰكُمْ: ہم نے عطا کیں تم کو] [وَلَا تَطْغَوْا: اور تم لوگ زیادتی مت کرنا] [فِيْهِ: اس میں] [فَيَحِلَّ: ورنہ اتر جائے گا] [عَلَيْكُمْ: تم لوگوں پر] [غَضَبِيْ: میرا غضب] [وَمَنْ: اور وہ] [يَّحْلِلْ: اترا] [عَلَيْهِ: جس پر] [غَضَبِيْ: میرا غضب] [فَقَدْ هَوٰى : تو وہ پستی میں گر پڑا]

وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى 82؁
[وَانى: اور بیشک میں] [لَغَفَّارٌ: یقینا بہت بخشنے والا ہوں] [لِمَنْ: اس کے لئے جو] [تَابَ: توبہ کرے] [وَاٰمَنَ: اور ایمان لائے] [وَعَمِلَ: اور عمل کرے] [صَالِحًا: نیک ] [ثُمَّ: پھر] [اهْتَدٰى: ہدایت (بھی) حاصل کرے]

وَمَآ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُــوْسٰى 83؁
[وَمَآ: اور کس چیز نے] [اَعْجَلَكَ: جلدی میں ڈالا آپؑ کو] [عَنْ قَوْمِكَ: آپؑ کی قوم سے] [يٰمُــوْسٰى: اے موسٰیؑ]

قَالَ هُمْ اُولَاۗءِ عَلٰٓي اَثَرِيْ وَعَجِلْتُ اِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى 84؁
[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [هُمْ: وہ لوگ] [اُولَاۗءِ: یہ ہیں] [عَلٰٓي اَثَرِيْ: میرے نقش قدم پر (میرے پیچھے پیچھے)] [وَعَجِلْتُ: اور میں نے جلدی کی] [اِلَيْكَ: تیری طرف] [رَبِ: اے میرے رب] [لِتَرْضٰى : تاکہ تو راضی ہو]

قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَاَضَلَّـهُمُ السَّامِرِيُّ 85؁
[قَالَ: (اللہ نے) کہا] [فَانا: تو بیشک] [قَدْ فَتَنَا: ہم نے آزمائش میں ڈالا ہے] [قَوْمَكَ: آپؑ کی قوم کو] [مِنْۢ بَعْدِكَ : آپؑ کے بعد سے] [وَاَضَلَّـهُمُ: اور گمراہ کیا ان کو] [السَّامِرِيُّ: سامری نے]

فَرَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ڬ قَالَ يٰقَوْمِ اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَـنًا ڛ اَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ يَّحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِيْ 86؁
[فَرَجَعَ: تو لوٹے] [مُوْسٰٓى: موسٰیؑ] [اِلٰى قَوْمِهٖ: اپنی قوم کی طرف] [غَضْبَان : غضبناک ہوتے ہوئے] [اَسِفًا: غمگین ہوتے ہوئے] [قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [يٰقَوْمِ: اے میری قوم] [اَلَمْ يَعِدْكُمْ: کیا وعدہ نہیں کیا تھا تم سے] [رَبُّكُمْ: تمھارے رب نے] [وَعْدًا حَسَـنًا: جیسے خوبصورت وعدے کا حق ہے] [اَفَطَالَ: تو کیا طویل ہوا] [عَلَيْكُمُ: تم لوگوں پر] [الْعَهْدُ: معاہدہ] [اَمْ: یا] [اَرَدْتم: تم لوگوں نے ارادہ کیا] [ان : کہ] [يَّحِلَّ: اتر جائے] [عَلَيْكُمْ: تم لوگوں پر] [غَضَبٌ: کوئی غضب] [مِّنْ رَّبِكُمْ: تمھارے رب سے] [فَاَخْلَفْتم: تو تم لوگوں نے خلاف کیا] [مَّوْعِدِيْ: میرے وعدے کے]

قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَي السَّامِرِيُّ 87؀ۙ
[قَالُوْا: ان لوگوں نے کہا] [مَآ اَخْلَفْنَا: ہم نے خلاف نہیں کیا] [مَوْعِدَكَ: آپؑ کے وعدے کے] [بِمَلْكِنَا: اپنے اختیار سے] [وَلٰكِنَا: اور لیکن] [حُمِّلْنَآ: اٹھوائے گئے ہم سے] [اَوْزَارًا: کچھ بوجھ] [مِّنْ زِيْنَةِ الْقَوْمِ: قوم کی زینت (زیورات) میں سے] [فَقَذَفْنٰهَا: تو ہم نے پھینک دیا ان کو] [فَكَذٰلِكَ: پھر اسی طرح] [اَلْقَي: ڈالا] [السَّامِرِيُّ: سامری نے]

 

نوٹ۔1: آیت 87۔ میں قوم کی زینت یعنی زیورات کے بوجھ کا ذکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ زیورات بنی اسرائیل ہی کے لوگوں کے تھے یا مصر کے قبطیوں کے تھے۔ اس سلسلہ میں تورات کی روایات متضاد ہیں۔ کتاب خروج کے باب۔35۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل ہی کے تھے۔ لیکن اسی کتاب کی دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے ملک چھوڑتے وقت یہ زیورات مصریوں سے مستعار لئے تھے۔ لیکن یہ دوسری روایت بالکل خلاف قیاس ہے۔ بنی اسرائیل کو مصر میں یہ حیثیت حاصل نہیں تھی کہ وہ مصریوں سے زیورات مستعار لے سکیں، بالخصوص ایسی حالت میں کہ برسوں سے ان کے درمیان ایک شدید کشمکش جاری تھی۔ اس لئے صحیح بات یہی ہے کہ یہ بنی اسرائیل ہی کے زیورات تھے۔ آیت۔7:148۔ میں مِنْ حُلِیِّھِمْ کے الفاظ سے بھی اسی بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ (تدبر قرآن)

فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْــلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰـــهُكُمْ وَاِلٰهُ مُوْسٰى ۥ فَنَسِيَ 88؀ۭ
[فَاَخْرَجَ: پھر اس نے نکالا] [لَهُمْ: ان کے لئے] [عِجْــلًا: ایک بچھڑا] [جسدًا: جو ایک ڈھانچا تھا] [لَهٗ: اس کے لئے] [خُوَارٌ: گائے کی ایک آواز تھی] [فَقَالُوْا: تو وہ لوگ بولے] [ھٰذَآ: یہ] [اِلٰـــهُكُمْ: تم لوگوں کا خدا ہے] [وَاِلٰهُ مُوْسٰى ۥ: اور موسٰیؑ کا خدا ہے] [فَنَسِيَ: پھر وہ (یعنی موسٰیؑ) بھول گئے]

اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا ڏ وَّلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا 89؀ۧ
[اَفَلَا يَرَوْنَ: تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں] [اَلَّا يَرْجِعُ: کہ وہ نہیں لوٹاتا (یعنی جواب نہیں دیتا)] [اِلَيْهِمْ: ان کی طرف] [قَوْلًا: کوئی بات] [وَّلَا يَمْلِكُ: اور وہ اختیار نہیں رکھتا] [لَهُمْ: ان کے لئے] [ضَرًّا: کسی نقصان کا] [وَّلَا نَفْعًا: اور نہ کسی نفع کا]

 

ترکیب: (آیت۔89) اَلَّا یَرْجِعُ میں اَلَّا کو اَنْ لَا ماننا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو مضارع حالت نصب میں یَرْجِعَ آتا۔ لیکن یہ حالت رفع میں یَرْجِعُ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اَنْ مخففہ ہے اور اس کا اسم محذوف ہے یعنی یہ دراصل اَنَّہٗ لَا یَرْجِعُ ہے۔

وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ ۚ وَاِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِيْ وَاَطِيْعُوْٓا اَمْرِيْ 90؁
[وَلَقَدْ قَالَ: اور بیشک کہہ چکے تھے] [لَهُمْ: ان لوگوں سے ] [هٰرُوْنُ: ہارون ] [مِنْ قَبْلُ: اس سے پہلے] [يٰقَوْمِ: اے میری قوم] [انمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [فُتِنْتم: تم لوگ بہکا دیئے گئے] [بِهٖ: اس (بچھڑے) سے] [وَان: اور یقینا ] [ رَبَّكُمُ: تم لوگوں کا رب] [الرَّحْمٰنُ: رحمن ہے] [فَاتَّبِعُوْنِيْ: پس تم لوگ پیروی کرو میری] [وَاَطِيْعُوْٓا: اور اطاعت کرو] [اَمْرِيْ: میرے حکم کی ]

قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا مُوْسٰى  91؀
[قَالُوْا: ان لوگوں نے کہا] [لَنْ نَّبْرَحَ: ہم ہرگز نہیں ہٹیں گے] [عَلَيْهِ: اس پر سے ] [عٰكِفِيْنَ: اعتکاف کرنے والے ہونے سے] [حَتّٰى: یہاں تک کہ] [يَرْجِعَ: لوٹیں ] [اِلَيْنَا: ہماری طرف] [مُوْسٰى: موسٰی]

قَالَ يٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَهُمْ ضَلُّوْٓا 92؀ۙ
[قَالَ: (موسٰیؑ نے) کہا] [يٰهٰرُوْنُ: اے ہارون] [مَا: کس چیز نے] [مَنَعَكَ: منع کیا تم کو] [اِذْ: جب] [رَاَيْتَهُمْ: تم نے دیکھا ان کو] [ضَلُّوْٓا: گمراہ ہوتے]

اَلَّا تَتَّبِعَنِ ۭ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِيْ 93؀
[اَلَّا تَتَّبِعَنِ: کہ تم میرے پیچھے نہ آئے] [اَفَعَصَيْتَ: تو کیا تم نے نافرمانی کی] [اَمْرِيْ: میرے حکم کی]

قَالَ يَبْنَـؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِيْ وَلَا بِرَاْسِيْ ۚ اِنِّىْ خَشِيْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِيْ 94؀
[قَالَ: (ہارون نے) کہا] [يَبْنَـؤُمَّ: اے میری ماں کے بیٹے] [لَا تَاْخُذْ: آپ نہ پکڑیں (مجھ کو)] [بِلِحْيَتِيْ: میری داڑھی سے] [وَلَا بِرَاْسِيْ: اور نہ میرے سر سے] [انى: بیشک ] [خَشِيْتُ: مجھے ڈر ہوا] [ان: کہ] [ تَقُوْلَ: آپ کہیں گے] [فَرَّقْتَ: تم نے تفرقہ ڈالا] [بَيْنَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ: بنی اسرائیل کے درمیان] [وَلَمْ تَرْقُبْ: اور تم نے لحاظ نہیں کیا] [قَوْلِيْ: میری بات کا]

 

ل ح ی

[لَحْیًا: (ض) درخت چھیلنا۔] [اِلْتِحَائً: (افتعال) داڑھی نکلنا۔ داڑھی چھوڑنا۔]

قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يٰسَامِرِيُّ 95؀
[قَالَ: (موسٰیؑ نے) کہا] [فَمَا خَطْبُكَ: تو تیرا کیا مدعا ہے] [يٰسَامِرِيُّ: اے سامری]

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِيْ نَفْسِيْ 96؀
[قَالَ: اس نے کہا] [بَصُرْتُ: میں نے دیکھا] [بِمَا: اس کو ] [لَمْ يَبْصُرُوْا: ان لوگوں نے نہیں دیکھا] [بِهٖ: جس کو] [فَقَبَضْتُ: تو میں نے پکڑا] [قَبْضَةً: ایک مٹھی بھر] [مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ: فرشتے کے نقش قدم سے] [فَنَبَذْتُهَا: پھر میں نے پھینک دیا اس کو] [وَكَذٰلِكَ: اور اس طرح] [سَوَّلَتْ: خوشنما بنا کر پیش کیا] [لِيْ: میرے لئے] [نَفْسِيْ: میرے جی نے]

قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِي الْحَيٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ ۠ وَاِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهٗ  ۚ وَانْظُرْ اِلٰٓى اِلٰهِكَ الَّذِيْ ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا  ۭ لَنُحَرِّقَنَّهٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهٗ فِي الْيَمِّ نَسْفًا 97؀
[قَالَ: (موسٰیؑ نے) کہا] [فَاذْهَبْ: پس تو جا (یعنی دفع ہو)] [فَان : تو بیشک] [لَكَ: تیرے لئے ہے] [فِي الْحَيٰوةِ: زندگی میں] [ان: کہ ] [تَقُوْلَ: تو کہے] [لَا مِسَاسَ: مت چھؤو] [وَان: اور بیشک] [ لَكَ: تیرے لئے] [مَوْعِدًا: ایک وعدے کا وقت ہے] [لَّنْ تُخْلَفَهٗ: تجھ سے ہرگز خلاف نہیں کیا جائے گا اس کے] [وَانظُرْ: اور تو دیکھ] [اِلٰٓى اِلٰهِكَ الَّذِي: اپنے اس اِلٰہ کی طرف] [ظَلْتَ: تو ہوا] [عَلَيْهِ: جس پر] [عَاكِفًا: اعتکاف کرنے والا] [لَنُحَرِّقَنَّهٗ: ہم لازماً جلا کر بھسم کریں گے اس کو] [ثُمَّ: پھر] [لَنَنْسِفَنَّهٗ: ہم لازماً بکھیر دیں گے اس کو] [فِي الْيَمِّ: پانی میں] [نَسْفًا: جیسے بکھیر دینے کا حق ہے]

اِنَّمَآ اِلٰــهُكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۭ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا 98؁
[انمَآ: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [اِلٰــهُكُمُ: تم لوگوں کا اِلٰہ] [اللّٰهُ الَّذِي: وہ اللہ ہے جس کے سوا] [لَآ اِلٰهَ: کوئی اِلٰہ نہیں] [اِلَّا: مگر] [هُوَ: وہی] [وَسِعَ: وہ کشادہ ہوا] [كُلَّ شَيْءٍ: ہر چیز پر] [عِلْمًا: بلحاظ علم کے]

 

نوٹ۔1 حُبِّ جاہ و ریاست میں سامری نے بچھڑے کا ڈھونگ رچایا تھا تاکہ لوگ اس کے ساتھ ہوں اور سردار مانیں۔ اس کے مناسب سزا ملی کہ کوئی پاس نہ پھٹکے۔ جو قریب جائے وہ خود دور رہنے کی ہدایت کرے۔ اور دنیا میں بالکل ایک ذلیل، اچھوت اور وحشی جانور کی طرح زندگی گزارے۔ (ترجمۂ شیخ الہند)

كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ  ۚ وَقَدْ اٰتَيْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًا 99۝ڻ
[كَذٰلِكَ: اس طرح] [نَقُصُّ: ہم سناتے ہیں] [عَلَيْكَ: آپؐ کو] [مِنْ انۢبَاۗءِ مَا: اس کی خبروں میں سے جو] [قَدْ سَبَقَ: پہلے گزرا ہے] [وَقَدْ اٰتَيْنٰكَ: اور ہم نے دی ہے آپؐ کو] [مِنْ لَّدُنَا: اپنے خزانے میں سے] [ذِكْرًا: ایک نصیحت]

لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّهُمْ فِيْهَا لَا يَسْمَعُوْنَ ١٠٠؁
[ لَهُمْ: ان کے لئے ہو گی] [ فِيْهَا: اس میں] [ زَفِيْرٌ: چیخ و پکار] [ وَّهُمْ: اور وہ لوگ] [ فِيْهَا: اس میں] [ لَا يَسْمَعُوْنَ: (کچھ) نہیں سنیں گے]

اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ١٠١؀ۙ
[ ان: بیشک] [ الَّذِينَ: وہ لوگ] [ سَبَقَتْ: آگے بڑھی] [ لَهُمْ: جن کے لئے] [ مِّنَا: ہمارے پاس سے] [ الْحُسْنٰٓى: بھلائی] [ اُولٰۗىِٕكَ: وہ لوگ] [ عَنْهَا: اس (جہنم) سے] [ مُبْعَدُوْنَ: دور رکھے جانے والے ہیں]

يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ  ۭ لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَلَبِئْسَ الْعَشِيْرُ 13؀
[ يَدْعُوْا: وہ پکارتا ہے] [ لَمَنْ: ضرور ہی اس کو] [ ضَرُّهٗٓ: جس کا نقصان] [ اَقْرَبُ: زیادہ قریب ہے] [ مِنْ نَّفْعِهٖ: اس کے نفع سے] [ لَبِئْسَ الْمَوْلٰى: یقینا بہت ہی برا کارساز ہے] [ وَلَبِئْسَ الْعَشِيْرُ: اور یقینا بہت ہی برا ساتھی ہے]

اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ  14؀
[ ان اللّٰهَ: بیشک اللہ] [ يُدْخِلُ: داخل کرے گا] [ الَّذِينَ: ان لوگوں کو جو] [ اٰمَنُوْا: ایمان لائے] [ وَعَمِلُوا: اور عمل کئے] [ الصّٰلِحٰتِ: نیکیوں کے] [ جَنّٰتٍ: ایسے باغات میں] [ تَجْرِيْ: بہتی ہیں] [ مِنْ تَحْتِهَا: جن کے نیچے سے] [ الْانهٰرُ: نہریں] [ ان اللّٰهَ: بیشک اللہ] [ يَفْعَلُ: کر گزرتا ہے] [ مَا: وہ جو] [ يُرِيْدُ: وہ ارادہ کرتا ہے]

قَالُوْٓا ءَاِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ 82؀
قَالُوْٓا (ان سب نے کہا ) ءَاِذَا (کیا جب ) مِتْنَا (ہم مرجائیں گے ) وَكُنَّا ( اور ہم ہوجائیں گے) تُرَابًا (مٹی ) وَّعِظَامًا ( اور ہڈیاں) ءَ (کیا ) اِنَّا (بیشک ہم) لَمَبْعُوْثُوْنَ (ضرور سب اٹھائے جانے والے )

لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا ھٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ 83؀
لَقَدْ (البتہ تحقیق) وُعِدْنَا (وعدہ دیے گئے ہم ) نَحْنُ (ہم) وَ (اور) اٰبَاۗؤُنَا ( ہمارے باپ دادا) ھٰذَا (یہ) مِنْ قَبْلُ (اس سے قبل) اِنْ ( اگر ) ھٰذَآ (اس کے ) اِلَّآ (مگر) اَسَاطِيْرُ ("یہ" افسانے ہیں ) الْاَوَّلِيْنَ (پہلے لوگوں کے )

قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 84؀
قُلْ (کہہ دیں) لِمَنِ (اس کیلیے ہے جو ) الْاَرْضُ (زمین) وَمَنْ (اور جو) فِيْهَآ (اس میں) اِنْ ( اگر ) كُنْتُمْ (ہو تم) تَعْلَمُوْنَ (تم سب جانتے ہو)

قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا    57؀
قُلْ [ آپ
کہیے] مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ [ میں نہیں مانگتا تم لوگوں سے] عَلَيْهِ [ اس پر] مِنْ اَجْرٍ [ کوئی بھی اجرت] اِلَّا مَنْ [ سوائے اس شخص کے جو] شَاۗءَ [ چاہے] اَنْ [ کہ] يَّتَّخِذَ [ وہ پکڑے] اِلٰى رَبِّهٖ [ اپنے رب کی طرف] سَبِيْلًا [ ایک راستہ]

وَتَوَكَّلْ عَلَي الْـحَيِّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهٖ  ۭ وَكَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِيْرَۨا    58؀ږ
وَتَوَكَّلْ [ آپ
بھروسہ کریں]عَلَي الْـحَيِّ الَّذِيْ [ اس حقیقی زندہ پو جو] لَا يَمُوْتُ [ نہیں مرتا] وَسَبِّحْ [ اور آپ تسبیح کریں] بِحَمْدِهٖ ۭ [ اس کی حمد کے ساتھ] وَكَفٰى [ اور کافی ہے] بِهٖ [ وہ] بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ [ اپنے بندوں کے گناہوں پر]خَبِيْرَۨا [ باخبر ہونے کے لحاظ سے]

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَّطَرًا  ۚ فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ   ١٧٣؁
وَاَمْطَرْنَا [ اور ہم نے برسائی] عَلَيْهِمْ [ ان پر] مَّطَرًا ۚ [ ایک برسنے والی چیز] فَسَاۗءَ [ تو برا تھا] مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ[ خبردار کئے ہوؤں کا برساؤ]

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً  ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ   ١٧٤؁
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [ بیشک اس میں] لَاٰيَةً ۭ [ یقینا ایک نشانی ہے] وَمَا كَانَ [ اور نہیں تھے] اَكْثَرُهُمْ [ ان کے اکثر] مُّؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے]

اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ   ٢٢٥؀ۙ
اَلَمْ تَرَ [ کیا آپ
نے غور نہیں کیا] اَنَّهُمْ [ کہ وہ لوگ] فِيْ كُلِّ وَادٍ [ ہر ایک وادی میں] يَّهِيْمُوْنَ [ آوارہ پھرتے ہیں]



ہ ی م

(ض) فیما (1) پیاسا ہونا۔ (2) آوارہ پھرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 225۔

 ھائم ج ہیم۔ فاعل کے وزن پر صفت ہے۔ پیاسا۔ فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْهِيْمِ (پھر پینے والے ہیں پیاسوں کا پینا)

 56/55۔

وَاَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ   ٢٢٦؀ۙ
وَاَنَّهُمْ [ اور یہ کہ وہ] يَقُوْلُوْنَ [ کہتے ہیں] مَا [ وہ جو] لَا يَفْعَلُوْنَ [ وہ کرتے نہیں]

يٰمُوْسٰٓي اِنَّهٗٓ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ    ۝ۙ
يٰمُوْسٰٓي [ اے موسیٰ علیہ السلام] اِنَّهٗٓ [ حقیقت یہ ہیکہ]اَنَا [ میں] اللّٰهُ [ اللہ ہوں] الْعَزِيْزُ [ جو بالادست ہے] الْحَكِيْمُ [ حکیم ہے]

وَاَلْقِ عَصَاكَ  ۭ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَاۗنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْ  ۭ يٰمُوْسٰي لَا تَخَفْ  ۣ اِنِّىْ لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُوْنَ    10۝ڰ
وَاَلْقِ [ اور آپ علیہ السلام ڈال دیں] عَصَاكَ ۭ [ اپنی لاٹھی] فَلَمَّا [ پھر جب] رَاٰهَا [ انھو ںؑ نے دیکھا اس (لاٹھی) کو] تَهْتَزُّ [ کہ وہ ہلتی ہے] كَاَنَّهَا [ جیسے کہ وہ] جَاۗنٌّ[ سانپ ہے] وَّلّٰى [ تو وہ چل دیے]مُدْبِرًا [ پیٹھ پھرنے والے ہوتے ہوئے] وَّلَمْ يُعَقِّبْ ۭ [ اور پیچھے ہوئے ہی نہیں] يٰمُوْسٰي [ اے موسیٰ ؑ] لَا تَخَفْ ۣ [ آپ ؑ مت ڈریں] اِنِّىْ [ بیشک میں ہوں (کہ)] لَا يَخَافُ [ نہیں ڈرتے]لَدَيَّ [ میرے پاس] الْمُرْسَلُوْنَ [ بھیجے ہوئے (رسول)]

مَنْ اَعْرَضَ عَنْهُ فَاِنَّهٗ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وِزْرًا ١٠٠؀ۙ
[مَنْ اَعْرَضَ: جو اعراض کرے گا] [عَنْهُ: اس سے] [فَانهٗ: تو یقینا وہ] [يَحْمِلُ: اٹھائے گا] [يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: قیامت کے دن] [وِزْرًا: ایک بوجھ]

خٰلِدِيْنَ فِيْهِ  ۭ وَسَاۗءَ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ حِمْلًا ١٠١؁ۙ
[خٰلِدِيْنَ: ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے] [فِيْهِ: اس (بوجھ) میں] [وَسَاۗءَ: اور برا ہے] [لَهُمْ: ان کے لئے] [يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: قیامت کے دن] [حِمْلًا: (وہ) بوجھ]

يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا ١٠٢؀ښ
[يَّوْمَ: جس دن] [يُنْفَخُ: پھونکا جائے گا] [فِي الصُّوْرِ: صور میں] [وَنَحْشُرُ: اور ہم اکٹھا کریں گے] [الْمُجْرِمِيْنَ: جرم کرنے والوں کو] [يَوْمَىِٕذٍ: اس دن] [زُرْقًا : نیلی آنکھوں والا ہوتے ہوئے]

 

[زَرَقًا: آنکھوں کا نیلا اور بےنور ہونا۔ اندھا ہونا۔) (اَزْرَقُ ، زُرْقٌ۔ افعل الوان عیوب کے وزن پر صفت ہے۔ نیلی آنکھوں والا۔ اندھا۔ زیر مطالعہ آیت۔102۔]

يَّتَخَافَتُوْنَ بَيْنَهُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا ١٠٣؁
[يَّتَخَافَتُوْنَ: وہ لوگ سرگوشی کریں گے] [بَيْنَهُمْ: آپس میں] [ان لَّبِثْتم: تم لوگ نہیں ٹھہرے] [اِلَّا: مگر] [عَشْرًا: دس (ساعتیں)]

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ اِذْ يَقُوْلُ اَمْثَلُهُمْ طَرِيْقَةً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا يَوْمًا ١٠٤؁ۧ
[نَحْنُ: ہم] [اَعْلَمُ: زیادہ جاننے والے ہیں] [بِمَا: اس کو جو] [يَقُوْلُوْنَ: وہ لوگ کہیں گے] [اِذْ يَقُوْلُ: جب کہے گا] [اَمْثَلُهُمْ: ان کا زیادہ افضل] [طَرِيْقَةً: بلحاظ طریقے کے] [ان لَّبِثْتم: تم لوگ نہیں ٹھہرے] [اِلَّا: مگر] [يَوْمًا: ایک دن]

وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا ١٠٥؁ۙ
[وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ: اور یہ پوچھتے ہیں آپؐ سے] [عَنِ الْجبالِ: پہاڑوں کے بارے میں] [فَقُلْ: تو آپؐ کہہ دیجئے] [يَنْسِفُهَا: اکھاڑ پھینکے گا ان کو] [رَبِيْ: میرا رب] [نَسْفًا: جیسا اکھاڑنے کا حق ہے]

فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا ١٠٦؀ۙ
[فَيَذَرُهَا: پھر وہ چھوڑ دے گا ان کو] [قَاعًا: ریتیلا میدان] [صَفْصَفًا: ہموار]

[ق و ع](ن) قَوْعًا پچھلے پائوں لوٹنا۔ قَاعٌ ج قِیْعَۃٌ۔ نرم اور ریتیلا میدان۔ زیر مطالعہ آیت۔106۔ اَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ (ان کے اعمال ایک سراب کی مانند ہیں کسی ریتیلے میدان میں) 24:39۔]

لَّا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا ١٠٧؀ۭ
[لَّا تَرٰى: آپؐ نہیں دیکھیں گے] [فِيْهَا: اس میں] [عِوَجًا: کوئی ٹیڑھا پن] [وَّلَآ اَمْتًا: اور نہ کوئی اونچی جگہ ]

 

[ء م ت](ض) اَمْتًا اندازہ لگانا۔ قصد کرنا۔ اَمْتٌ اونچا مقام۔ زیر مطالعہ آیت۔107۔]

يَوْمَىِٕذٍ يَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهٗ ۚ وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا هَمْسًا ١٠٨؁
[يَوْمَىِٕذٍ: اس دن] [يَّتَّبِعُوْنَ: وہ لوگ پیچھا کریں گے] [الدَّاعِيَ: پکارنے والے (فرشتے) کا] [لَا عِوَجَ: کوئی ٹیڑھا پن نہ ہو گا] [لَهٗ: جس کے لئے] [وَخَشَعَتِ: اور جھک جائیں گی] [الْاَصْوَاتُ: آوازیں] [لِلرَّحْمٰنِ: رحمان کے لئے] [فَلَا تَسْمَعُ: پھر آپؐ نہیں سنیں گے] [اِلَّا: مگر] [هَمْسًا: کھسر پھسر]

 

[ھـ م س](ض) ھَمْسًا آہستہ آہستہ باتیں کرنا۔ ھَمْسٌ ہلکی آواز۔ آہٹ۔ کھسر پھسر۔ زیر مطالعہ آیت۔108۔]

 

نوٹ۔1: اردو محاروں میں آنکھوں کا سرخ ہو جانا غصّہ کی علامت ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ غصّے سے اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ اسی طرح عربی میں آنکھوں کا نیلا ہو جانا خوف اور دہشت کی علامت ہے اور آیت۔102۔ زُرْقًا اسی مفہوم میں آیا ہے کہ قیامت کی ہولناکی دیکھ کر اس کی دہشت سے ان کی آنکھیں نیلی ہو جائیں گی۔ (حافظ احمد یار صاحب مرحوم)

يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِيَ لَهٗ قَوْلًا ١٠٩؁
[يَوْمَىِٕذٍ: اس دن] [لَّا تَنْفَعُ: نفع نہیں دے گی] [الشَّفَاعَةُ: شفاعت] [اِلَّا: مگر] [مَنْ: وہ ] [اَذِنَ: اجازت دی] [لَهُ: جس کو] [الرَّحْمٰنُ: رحمن نے] [وَرَضِيَ: اور وہ راضی ہوا] [لَهٗ: جس کی ] [قَوْلًا: بات سے]

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا ١١٠؁
[يَعْلَمُ: وہ جانتا ہے] [مَا: اس کو جو] [بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ: ان لوگوں کے آگے ہے] [وَمَا: اور اس کو جو] [خَلْفَهُمْ: ان کے پیچھے ہے] [وَلَا يُحِيْطُوْنَ: اور وہ لوگ احاطہ نہیں کرتے] [بِهٖ: اس کا] [عِلْمًا: بلحاظ علم کے]

وَعَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ  ۭ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا ١١١؁
[وَعَنَتِ: اور جھک جائیں گے] [الْوُجوهُ: تمام چہرے] [لِلْحَيِّ: حقیقی زندہ کے لئے] [الْقَيُّوْمِ: حقیقی نگراں و کفیل کے لئے] [وَقَدْ خَابَ: اور نامراد ہو چکا] [مَنْ: وہ جس نے] [حَمَلَ: اٹھایا] [ظُلْمًا: ظلم کو]

[ع ن و](ن) عُنُوًّا ذلیل ہونا۔ جھک جانا۔ زیر مطالعہ آیت۔111۔]

وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا هَضْمًا ١١٢؁
[وَمَنْ: اور وہ جس نے] [يَّعْمَلْ: عمل کئے] [مِنَ الصّٰلِحٰتِ: نیکیوں میں سے] [ وَ: اس حال میں کہ] [هُوَ: وہ] [مُؤْمِنٌ: مومن ہے] [فَلَا يَخٰفُ: تو اسے خوف نہیں ہو گا] [ظُلْمًا: کسی زیادتی کا] [وَّلَا هَضْمًا: اور نہ کسی حق تلفی کا]

 

[ھـ ض م](ض) ھَضْمًا کسی نرم چیز کو کچل کر توڑنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے۔ (1) کسی کے حق کو کم کرنا۔ (2) نرم و ملائم ہونا۔]

[ ھَضْمٌ اسم ذات بھی ہے۔ حق تلفی۔ زیر مطالعہ آیت۔112۔]

[ ھَضِیْمٌ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ نرم۔ ملائم۔ وَ نَخْلٍ طَلْعُھَا ھَضِیْمٌ (اور کھجوریں جن کے خوشے ملائم ہوں گے) 26:148۔]

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا وَّصَرَّفْنَا فِيْهِ مِنَ الْوَعِيْدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ اَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا ١١٣؁
[وَكَذٰلِكَ: اور اس طرح] [ انزَلْنٰهُ: ہم نے اتارا اس کو] [قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا: عربی قرآن ہوتے ہوئے] [وَّصَرَّفْنَا: اور ہم نے بار بار بیان کیا] [ فِيْهِ: اس میں] [مِنَ الْوَعِيْدِ : وارننگ میں سے] [ لَعَلَهُمْ: شاید وہ لوگ] [يَتَّقُوْنَ: تقوٰی اختیار کریں] [اَوْ: یا] [ يُحْدِثُ: وہ وجود دے] [لَهُمْ: ان کے لئے] [ذِكْرًا: کسی یاد کو]

فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۚ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰٓى اِلَيْكَ وَحْيُهٗ ۡ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا ١١٤؁
[فَتَعٰلَى: تو بلند ہوا] [ اللّٰهُ: اللہ] [الْمَلِكُ: جو حقیقی بادشاہ ہے] [الْحَقُّ: جو کل حق ہے] [وَلَا تَعْجَلْ: اور آپؐ جلدی نہ کریں] [بِالْقُرْاٰنِ: قرآن کے بارے میں] [مِنْ قَبْلِ ان: اس سے پہلے کہ] [ يُّقْضٰٓى: پورا کیا جائے] [اِلَيْكَ: آپؐ کی طرف] [وَحْيُهٗ: اس کا وحی کرنا] [وَقُلْ: اور آپؐ کہیے] [رَّبِ: اے میرے رب] [زِدْنِيْ: تو زیادہ کر مجھ کو] [عِلْمًا: بلحاظ علم کے]

وَلَقَدْ عَهِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا ١١٥؀ۧ
[وَلَقَدْ عَهِدْنَآ: اور بیشک ہم نے عہد لیا تھا] [اِلٰٓى اٰدَمَ: آدمؑ سے] [مِنْ قَبْلُ: اس سے پہلے] [فَنَسِيَ: تو وہ بھول گئے] [وَلَمْ نَجِدْ: اور ہم نے نہیں پائی] [لَهٗ: انؑ میں] [عَزْمًا: کوئی ثابت قدمی۔]

 

نوٹ۔1: قیامت کے دن سفارش وہی کرسکے گا جسے اللہ تعالیٰ اجازت دے گا اور اسی کے حق میں کرسکے گا جس کے لئے بارگاہ الٰہی سے سفارش کرنے کی اجازت مل جائے۔ یہ دونوں باتیں قرآن مجید کے اور دوسرے مقامات پر کھول کر بتا دی گئی ہیں۔ پھر آیت۔110۔ میں وجہ بتائی گئی ہے کہ شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے۔ فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت و کردار اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بوجھ لے کر آیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے پچھلے کارناموں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجے کا مجرم ہے۔ قابلِ معافی ہے یا نہیں۔ پوری سزا کا مستحق ہے یا اس کے ساتھ رعایت بھی کی جا سکتی ہے، ایسی حالت میں یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ، انبیاء اور صلحاء کو سفارش کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں سفارش چاہے کر دے۔ ایک معمولی افسر اپنے چھوٹے سے محکمہ میں اگر اپنے ہر دوست یا عزیز کی سفارش سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمہ کا ستیا ناس کر کے رکھ دے گا۔ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کے ہاں غیر مشروط سفارشوں کا بازار گرم ہو۔ اللہ کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہو گا لیکن وہ مشروط ہوگی جس کا ذکر آیت۔109 میں ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ اَبٰى ١١٦؁
[وَاِذْ: اور جب ] [قُلْنَا: ہم نے کہا] [لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ: فرشتوں سے] [اسْجُدُوْا: تم لوگ سجدہ کرو] [لِاٰدَمَ: آدمؑ کو] [فَسَجَدُوْٓا: تو سب نے سجدہ کیا] [اِلَّآ: سوائے] [اِبْلِيْسَ: ابلیس کے] [اَبٰى: اس نے انکار کیا]

 

[ب ل ی](س) بِلًی کسی چیزکا پرانا اور بوسیدہ ہونا۔ زیر مطالعہ آیت۔120]

فَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰي ١١٧؁
[فَقُلْنَا: تو ہم نے کہا] [يٰٓاٰدَمُ: اے آدمؑ] [ان : بیشک ] [ھٰذَا: یہ ] [عَدُوٌّ: دشمن ہے] [لَّكَ: آپؑ کا] [وَلِزَوْجِكَ: اور آپؑ کی زوجہ کا] [فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا: پس وہ ہرگز نہ نکالے آپؑ دونوں کو] [مِنَ الْجَنَّةِ: اس باغ سے] [فَتَشْقٰي: پھر آپؑ تکلیف میں پڑیں گے]

اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَلَا تَعْرٰى ١١٨؀ۙ
[ان : بیشک ] [لَكَ: آپؑ کے لئے ہے] [اَلَّا تَجوعَ: کہ آپؑ بھوکے نہ ہوں گے] [فِيْهَا: اس میں] [وَلَا تَعْرٰى: اور نہ آپؑ ننگے ہوں گے]

 

[ع ر ی](س) عُرْیَۃً ننگا ہونا۔ زیر مطالعہ آیت۔118]

[عَرَائٌ کھلا میدان۔ فَنَبَذْنٰہُ بِالْعَرَائِ وَھُوَ سَقِیْمٌ (تو ہم نے ڈال دیا انؑ کو کھلے میدان میں اس حال میں کہ وہ بیمار تھے) 37:145۔]

وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَلَا تَضْحٰي ١١٩؁
[وَانكَ: اور یہ کہ آپؑ] [لَا تَظْمَؤُا: پیاسے نہ ہوں گے] [فِيْهَا: اس میں ] [وَلَا تَضْحٰي: اور نہ آپؑ کو دھوپ لگے گی]

فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰٓاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى ١٢٠؁
[فَوَسْوَسَ: پھر برا خیال ڈالا] [اِلَيْهِ: انؑ کی طرف] [الشَّيْطٰنُ: شیطان نے] [قَالَ: اس نے کہا] [يٰٓاٰدَمُ: اے آدمؑ ] [هَلْ: کیا] [اَدُلُّكَ: میں رہنمائی کروں آپؑ کی] [عَلٰي شَجَرَةِ الْخُلْدِ: ہمیشگی کے درخت تک] [وَمُلْكٍ: اور ایسی بادشاہت تک جو] [لَّا يَبْلٰى: بوسیدہ نہ ہو گی]

فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى ١٢١؀ډ
[فَاَكَلَا: پھر کھایا ان دونوں نے] [مِنْهَا: اس (درخت) سے] [فَبَدَتْ: تو ظاہر ہوئیں] [لَهُمَا: ان دونوں کے لئے] [سَوْاٰتُهُمَا: ان دونوں کی ستریں] [وَطَفِقَا: اور وہ دونوں لگے] [يَخْصِفٰنِ: چپکانے] [عَلَيْهِمَا: اپنے اوپر] [مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ: باغ کے پتوں میں سے] [وَعَصٰٓى: اور کہنا نہ مانا] [اٰدَمُ: آدمؑ نے] [رَبَّهٗ: اپنے رب کا] [فَغَوٰى: تو وہ بھٹک گئے]

ثُمَّ اجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدٰى ١٢٢؁
[ثُمَّ: پھر] [اجْتَبٰىهُ: نوازا انؑ کو] [رَبُّهٗ: انؑ کے رب نے] [فَتَابَ عَلَيْهِ: تو اس نے توجہ کی انؑ پر] [وَهَدٰى: اور اس نے ہدایت دی]

قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ  ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى ڏ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي ١٢٣؁
[قَالَ: (اللہ نے) کہا] [اهْبِطَا: تم دونوں اترو] [مِنْهَا: اس (باغ) سے] [جَمِيْعًۢا: سب کے سب] [بَعْضُكُمْ: تم لوگوں کا کوئی] [لِبَعْضٍ: کسی کے لئے] [عَدُوٌّ: دشمن ہے] [فَاِمَا: پھر اگر] [يَاْتِيَنَّكُمْ: پہنچے تم لوگوں کو] [مِّنِّيْ: مجھ سے] [هُدًى: کوئی ہدایت] [ڏ فَمَنِ اتَّبَعَ: پھر جس نے پیروی کی] [هُدَايَ: میری ہدایت کی] [فَلَا يَضِلُّ: تو وہ گمراہ نہیں ہوگا] [وَلَا يَشْقٰي: اور نہ وہ نامراد ہو گا۔]

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى ١٢٤؁
[وَمَنْ: اور جس نے] [اَعْرَضَ: اعراض کیا] [عَنْ ذِكْرِيْ: میری یاد سے] [فَان: تو بیشک] [ لَهٗ: اس کے لئے ہے] [مَعِيْشَةً ضَنْكًا: ایک کمزور معیشت] [وَّنَحْشُرُهٗ: اور ہم اٹھائیں گے اس کو] [يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: قیامت کے دن] [اَعْمٰى: اندھا]

 

[ض ن ک ](ک) ضَنَاکَۃً (ا) کمزور رائے یا کمزور عقل والا ہونا۔ (2) تنگ ہونا۔

[ ضََنْکٌ کمزور۔ تنگ۔ زیر مطالعہ آیت۔124۔]

قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا ١٢٥؁
[قَالَ: وہ کہے گا] [رَبِ: اے میرے رب] [لِمَ: کیوں] [حَشَرْتَنِيْٓ: تو نے اٹھایا مجھ کو] [اَعْمٰي: اندھا ] [وَ: حالانکہ][قَدْ كُنْتُ: میں (ہمیشہ) رہا] [بَصِيْرًا: دیکھنے والا]

قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا  ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى ١٢٦؁
[قَالَ: (اللہ تعالیٰ) کہے گا] [كَذٰلِكَ: اسی طرح ہے] [اَتَتْكَ: پہنچیں تیرے پاس] [اٰيٰتُنَا: ہماری نشانیاں] [فَنَسِيْتَهَا: پھر تو نے بھلا دیا ان کو] [وَكَذٰلِكَ: اور اسی طرح] [الْيَوْمَ: آج] [تُنْسٰى: تجھ کو بھلایا جائے گا]

وَكَذٰلِكَ نَجْزِيْ مَنْ اَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْۢ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ  ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَاَبْقٰي ١٢٧؁
[وَكَذٰلِكَ: اور اسی طرح ] [نَجْزِيْ: ہم بدلہ دیتے ہیں] [مَنْ: اس کو جس نے] [اَسْرَفَ: حد سے تجاوز کیا] [وَلَمْ يُؤْمِنْۢ: اور ایمان لایا ہی نہیں] [بِاٰيٰتِ رَبِهٖ: اپنے رب کی نشانیوں پر] [وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ: اور یقینا آخرت کا عذاب] [اَشَدُّ: سب سے شدید ہے] [وَاَبْقٰي: اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے]

اَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ يَمْشُوْنَ فِيْ مَسٰكِنِهِمْ  ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰى ١٢٨؀ۧ
[اَفَلَمْ يَهْدِ: تو کیا سمجھایا نہیں] [لَهُمْ: ان لوگوں کو (اس مشاہدہ نے کہ)] [كَمْ اَهْلَكْنَا: کتنی ہی ہم نے ہلاک کیں] [قَبْلَهُمْ: ان لوگوں سے پہلے] [مِّنَ الْقُرُوْنِ: قوموں میں سے] [يَمْشُوْنَ: یہ لوگ چلتے ہیں] [فِيْ مَسٰكِنِهِمْ: جن کی رہنے کی جگہوں میں ] [ان : بیشک] [فِيْ ذٰلِكَ: اس میں] [لَاٰيٰتٍ: یقینا نشانیاں ہیں] [لِاُولِي النُّهٰى: ذہانت والوں کے لئے]

وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَّاَجَلٌ مُّسَمًّى ١٢٩؀ۭ
[وَلَوْلَا: اور اگر نہ ہوتا کہ] [كَلِمَةٌ: ایک فرمان] [سَبَقَتْ: طے ہوا] [مِنْ رَّبِكَ: آپؐ کے رب کی طرف سے] [لَكَان : تو ضرور ہوتا ] [لِزَامًا: چمٹنا (عذاب کا)] [وَّاَجَلٌ مُّسَمًّى: اور ایک معین مدت (اگر طے نہ ہوتی)]

فَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَــقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا  ۚ وَمِنْ اٰنَاۗئِ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى ١٣٠؁
[فَاصْبِرْ: پس آپؐ صبر کریں] [عَلٰي مَا: اس پر جو] [يَــقُوْلُوْنَ: یہ لوگ کہتے ہیں] [وَسَبِحْ: اور آپؐ تسبیح کریں] [بِحَمْدِ رَبِكَ: اپنے رب کی حمد کے ساتھ] [قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ: سورج کے طلوع ہونے سے پہلے] [وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا: اور اس کے غروب ہونے سے پہلے] [وَمِنْ اٰنَاۗئِ الَّيْلِ: اور رات کے کچھ حصّوں میں سے] [فَسَبِحْ: پھر آپؐ تسبیح کریں] [وَاَطْرَافَ النَّهَارِ: اور دن کے کناروں پر (بھی)] [لَعَلَّكَ: شاید کہ آپؐ] [تَرْضٰى: راضی ہوں]

 

نوٹ۔1: حضرت سعید بن جبیر (رح)  نے مَعِیْشَۃً ضَنْکًا (کمزور معیشت یا تنگ معیشت) کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ان سے قناعت کا وصف سلب کرلیا جائے گا اور حرصِ دنیا بڑھا دی جائے گی، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے پاس کتنا ہی مال و دولت جمع ہو جائے، اس کو قلبی سکون نصیب نہیں ہو گا۔ مال بڑھانے کی فکر اور اس میں نقصان کا خطرہ اس کو ہمیشہ بےچین رکھے گا۔ اور یہ بات عام اہل تمول میں مشاہد و معروف ہے کہ ان کے پاس سامان راحت تو بہت جمع ہو جاتا ہے مگر جس کا نام راحت ہے وہ نصیب نہیں ہوتی۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔2: آیت۔130۔ میں نماز کے اوقات کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ سورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز، سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز اور رات کے اوقات میں عشاء اور تہجد کی نماز۔ رہے دن کے کنارے تو وہ تین ہی ہو سکتے ہیں۔ ایک کنارہ صبح ہے، دوسرا کنارہ زوالِ آفتاب اور تیسرا کنارہ شام ہے۔ اس لئے دن کے کناروں سے مراد فجر، ظہر اور مغرب کی نماز ہی ہو سکتی ہے۔ (تفہیم القرآن)۔ اس مقام پر اور قرآن کے دوسرے مقامات پر نماز کے اوقات کی طرف جو اشارے ہیں ان کی تشریح کے لئے حضرت جبریلؑ بھیجے گئے تھے جنھوں نے نماز کے ٹھیک ٹھیک اوقات کی تعلیم رسول اللہ
کو دی تھی۔ (دیکھیں آیت۔17:78، نوٹ۔1)

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ڏ لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ  ۭ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَّاَبْقٰي ١٣١؁
[وَلَا تمدَّنَّ: اور آپؐ ہرگز دراز مت کریں] [عَيْنَيْكَ: اپنی دونوں آنکھوں کو] [اِلٰى مَا: اس کی طرف] [مَتَّعْنَا: ہم نے برتنے کو دیا] [بِهٖٓ: جو] [اَزْوَاجًا: کچھ جوڑوں کو] [مِّنْهُمْ: ان میں سے] [زَهْرَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا: دنیوی زندگی کی رونق کے طور پر] [ڏ لِنَفْتِنَهُمْ: تاکہ ہم آزمائیں ان کو] [فِيْهِ: اس میں] [وَرِزْقُ رَبِكَ: اور آپؐ کے رب کا (دیا ہوا) رزق] [خَيْرٌ: سب سے بہتر ہے] [وَّاَبْقٰي: اور سدا بہار ہے]

 

[ز ھـ ر](س) زَھَرًا حسین ہونا۔ بارونق ہونا۔]

[ زَھْرَۃٌ اسم ذات ہے۔ حُسن۔ رونق۔ زیر مطالعہ آیت۔131۔]

وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا  ۭ لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا  ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكَ  ۭ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى ١٣٢؁
[وَاْمُرْ: اور آپؐ حکم دیں] [اَهْلَكَ: اپنے لوگوں کو] [بِالصَّلٰوةِ: نماز کا] [وَاصْطَبِرْ: اور آپؐ ثابت قدم رہیں] [عَلَيْهَا: اس پر] [لَا نَسْــَٔــلُكَ: ہم نہیں مانگتے آپؐ سے] [رِزْقًا: کوئی روزی] [نَحْنُ: ہم ہی] [نَرْزُقُكَ: روزی دیتے ہیں آپؐ کو] [وَالْعَاقِبَةُ: اور (بھلا) انجام] [لِلتَّقْوٰى: پرہیزگاری کا ہے]

وَقَالُوْا لَوْلَا يَاْتِيْنَا بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ اَوَلَمْ تَاْتِهِمْ بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى ١٣٣؁
[وَقَالُوْا: اور ان لوگوں نے کہا] [لَوْلَا: کیوں نہیں] [يَاْتِيْنَا: وہؐ آتے ہمارے پاس] [بِاٰيَةٍ: کسی نشانی کے ساتھ] [مِّنْ رَّبِهٖ: اپنے رب (کی طرف) سے] [اَوَ: تو کیا] [لَمْ تَاْتِهِمْ: پہنچی نہیں ان کے پاس] [بَيِّنَةُ مَا: اس کی روشن (نشانی) جو] [فِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى: اگلے اوراق میں ہے]

 

[ص ح ف] ثلاثی مجرد سے فعل نہیں آتا۔]

[ صَحِیْفَۃٌ ج صُحْفٌ۔ پھیلی ہوئی چیز۔ لکھا ہوا کاغذ۔ ورق۔ زیر مطالعہ آیت۔133۔]

[صَحْفَۃٌ ج صِحَافٌ۔ چوڑی پلیٹ۔ یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَھَبٍ وَّ اَکْوَابٍ (گردش دی جائیں گی ان پر سونے کی رکابیاں اور آبخورے) 43:71۔]

وَلَوْ اَنَّآ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى ١٣٤؁
[وَلَوْ: اور اگر ] [انآ: یہ کہ] [اَهْلَكْنٰهُمْ: ہم ہلاک کرتے ان کو] [بِعَذَابٍ: کسی عذاب سے] [مِّنْ قَبْلِهٖ: اس سے پہلے] [لَقَالُوْا: تو وہ لوگ ضرور کہتے] [رَبَّنَا: اے ہمارے رب] [لَوْلَآ: کیوں نہیں [اَرْسَلْتَ: تو نے بھیجا] [اِلَيْنَا: ہماری طرف] [رَسُوْلًا: کوئی رسول] [فَنَتَّبِعَ: نتیجتاً ہم پیروی کرتے] [اٰيٰتِكَ: تیری نشانیوں کی] [مِنْ قَبْلِ ان: اس سے پہلے کہ [ نَّذِلَّ: ہم ذلیل ہوتے] [وَنَخْزٰى: اور ہم رسوا ہوتے]

قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْا ۚ فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ اَصْحٰبُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدٰى ١٣٥؀ۧ
[ قُلْ: آپؐ کہہ دیجیے] [ كُلٌّ: سب] [ مُّتَرَبِصٌ: انتظار کرنے والے ہیں] [ فَتَرَبَّصُوْا: پس تم لوگ (بھی) انتظار کرو] [ فَسَتَعْلَمُوْنَ: پھر تم لوگ جان لو گے] [ مَنْ: کون] [ اَصْحٰبُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ: ہموار راستے والے ہیں] [ وَمَنِ: اور کس نے] [ اهْتَدٰى: ہدایت پائی]

 

نوٹ۔1: اَھْلُ الرَّجُلِ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب ہوں، یا ہم دین ہوں، یا کسی صنعت اور یا کسی مکان میں شریک ہوں۔ (مفردات القرآن۔ مادہ ’’ ء ھ ل‘‘)

 آیت۔132۔ میں لفظ اھل صرف اہل بیت کے مفہوم میں نہیں ہے۔ یہ لفظ عربی میں وسیع معنوں میں آتاہے مثلاً اہل کتاب، اہل قریہ، اہل حدیث وغیرہ۔ لسان العرب میں ہے کہ اہل الرجل سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس شخص سے خاص تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔ نبی کے اہل سے اس کے امتی مراد ہوتے ہیں۔ اس طرح اس آیت میں بھی اہل سے وہ تمام لوگ مراد ہیں جو نبی
پر ایمان لائے تھے، عام اس سے کہ وہ حضور کے خاص متعلقین (یعنی رشتہ دار) ہوں یا دوسرے عام مسلمان، ان سب کو نبی کے اہل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (تدبر قرآن)۔