قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
ستارہواں پارہ 

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ Ǻ۝ۚ
[ اِقْتَرَبَ: قریب ہوا] [ لِلنَاسِ: لوگوں کے لئے] [ حِسَابُهُمْ: ان کا حساب] [ وَ: اس حال میں کہ] [ هُمْ: وہ لوگ] [ فِيْ غَفْلَةٍ: غفلت میں] [ مُّعْرِضُوْنَ: اعراض کرنے والے ہیں]

 

ترکیب: (آیت۔2) ذِکْرٍ کی صفت ہونے کی وجہ مُحْدَثٍ حالت جر میں ہے۔ موصوف اور صفت کے درمیان میں متعلق فعل مِنْ رَبِّھِمْ آ گیا ہے۔ (آیت۔3)۔ لَاھِیَۃً حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے اور یہ اسم الفاعل ہے جس نے فعل کا کام کیا ہے۔ قُلُوْبُھُمْ اس کا فاعل ہونے کی وجہ سے حالت رفع میں ہے۔ اَسَرُّوْا جمع کا صیغہ ہے اس لئے اَلَّذِیْنَ کو اس کا فاعل نہیں مان سکتے کیونکہ ایسی صورت میں فعل واحد آنا چاہئے۔ اس لئے اس کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں۔ حافظ احمد یار صاحب مرحوم کی ترجیح یہ ہے کہ اَلَّذِیْنَ کو اَسَرُّوْا کی ضمیر فاعلی ھُمْ کا بدل مانا جائے۔

مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَـمَعُوْهُ وَهُمْ يَلْعَبُوْنَ Ą۝ۙ
[ مَا يَاْتِيْهِمْ: نہیں پہنچتی ان کے پاس [ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِهِمْ مُّحْدَثٍ: کوئی بھی نئی نصیحت ان کے رب (کی طرف) سے] [ اِلَّا: مگر] [ اسْتمعُوْهُ: وہ سنتے ہیں اس کو] [ وَ: اس حال میں کہ] [ هُمْ: وہ لوگ ] [ يَلْعَبُوْنَ: کھیلتے ہوتے ہیں]

لَاهِيَةً قُلُوْبُهُمْ ۭ وَاَسَرُّوا النَّجْوَي ڰ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ڰ هَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ Ǽ۝
[ لَاهِيَةً: غافل ہونے والے ہوتے ہوئے] [ قُلُوْبُهُمْ: ان کے دل] [ وَاَسَرُّوا: اور انھوں نے چھپایا] [ النَّجوي: سرگوشی کو] [ الَّذِينَ: ان لوگوں نے جنھوں نے] [ ظَلَمُوْا: ظلم کیا] [ هَلْ ھٰذَآ: (سرگوشی کرتے ہیں کہ) یہ کیا ہیں] [ اِلَّا: سوائے اس کے کہ] [ بَشَرٌ: ایک بشر] [ مِّثْلُكُمْ: تم لوگوں جیسے] [ اَفَتَاْتُوْنَ: تو کیا تم لوگ آتے ہو] [ السِّحْرَ: جادو کے پاس [ وَ: اس حال میں کہ] [ انتم: تم لوگ] [ تُبْصِرُوْنَ: دیکھتے ہوتے ہو

قٰلَ رَبِّيْ يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۡ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ  Ć۝
[ قٰلَ: (آپؐ) نے کہا] [ رَبِيْ: میرا رب ] [ يَعْلَمُ: جانتا ہے] [ الْقَوْلَ: ساری باتوں کو] [ فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ: جو زمین و آسمان میں ہیں] [ وَهُوَ: اور وہ ہی] [ السَّمِيْعُ: سننے والا ہے] [ الْعَلِيْمُ: جاننے والا ہے]

 

نوٹ۔1: حساب قریب آنے سے مراد قیامت ہے اور اس کا قریب آ جانا دنیا کی پچھلی عمر کے لحاظ سے ہے کیونکہ یہ امت آخری امت ہے۔ حساب قبر بھی اس میں شامل ہے جو ہر انسان کو مرنے کے فوراً بعد دینا ہوتا ہے۔ اسی لئے ہر انسان کی موت کو اس کی شخصی قیامت کہا گیا ہے۔ (معارف القرآن)

بَلْ قَالُـوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۢ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ ښ فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ Ĉ۝
[ بَلْ: بلکہ] [ قَالُـوْٓا: ان لوگوں نے کہا] [ اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۢ: خوابوں کے پراگندہ خیالات ہیں] [ بَلِ: بلکہ] [ افْتَرٰىهُ: انھوںؐ نے گھڑا اس کو] [ بَلْ: بلکہ] [ هُوَ: وہ] [ شَاعِرٌ: ایک شاعر ہیں] [ فَلْيَاْتِنَا: پس انھیںؐ چاہیے کہ وہ لائیں ہمارے پاس] [ بِاٰيَةٍ: کوئی نشانی] [ كَمَآ: جیسے کہ] [ اُرْسِلَ: بھیجے گئے] [ الْاَوَّلُوْنَ: پہلے (رسول)]

مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا  ۚ اَفَهُمْ يُؤْمِنُوْنَ Č۝
[ مَآ اٰمَنَتْ: ایمان نہیں لائی] [ قَبْلَهُمْ: ان سے پہلے] [ مِّنْ قَرْيَةٍ: کوئی بھی ایسی بستی] [ اَهْلَكْنٰهَا: ہم نے ہلاک کیا جس کو] [ اَفَهُمْ: تو کیا یہ لوگ] [ يُؤْمِنُوْنَ: ایمان لے آئیں گے (نشانی یعنی معجزہ دیکھ کر)]

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ Ċ۝
[ وَمَآ اَرْسَلْنَا: اور ہم نے نہیں بھیجا] [ قَبْلَكَ: آپؐ سے پہلے] [ اِلَّا: مگر] [ رِجَالًا: کچھ ایسے مردوں کو] [ نُّوْحِيْٓ: ہم وحی کرتے تھے] [ اِلَيْهِمْ: جن کی طرف] [ فَسْــَٔـلُوْٓا: تو تم لوگ پوچھ لو] [ اَهْلَ الذِّكْرِ: یاد دہانی والوں (اہل کتاب) سے] [ ان: اگر] [ كُنْتم: تم لوگ] [ لَا تَعْلَمُوْنَ: نہیں جانتے ہو]

وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ Ď۝
[ وَمَا جَعَلْنٰهُمْ: اور ہم نے نہیں بنایا ان کو] [ جسدًا: ایسا جسم] [ لَّا يَاْكُلُوْنَ: جو نہ کھاتے ہوں] [ الطَّعَامَ: کھانا] [ وَمَا كَانوْا: اور وہ نہیں تھے] [ خٰلِدِيْنَ: ہمیشہ رہنے والے]

ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَيْنٰهُمْ وَمَنْ نَّشَاۗءُ وَاَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِيْنَ ۝
[ ثُمَّ: پھر] [ صَدَقْنٰهُمُ: ہم نے سچ کردیا ان (رسولوں) سے] [ الْوَعْدَ: وعدے کو] [ فَانجَيْنٰهُمْ: تو ہم نے نجات دی ان (رسولوں) کو] [ وَمَنْ: اور اس کو جس کو] [ نَّشَاۗءُ: ہم نے چاہا] [ وَاَهْلَكْنَا: اور ہم نے ہلاک کیا] [ الْمُسْرِفِيْنَ: حد سے گزرنے والوں کو]

لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 10۝ۧ
[ لَقَدْ انزَلْنَآ: بیشک ہم نے اتاری ہے] [ اِلَيْكُمْ: تو لوگوں کی طرف] [ كِتٰبًا: ایک ایسی کتاب] [ فِيْهِ: جس میں] [ ذِكْرُكُمْ: تم لوگوں کا ذکر ہے] [ اَفَلَا تَعقلوْنَ: تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے]

 

نوٹ۔1: مشرکین مطالبہ کرتے کہ اگر یہ رسول ہیں تو یہ بھی اسی طرح کی کوئی نشانی دکھائیں جس طرح کی نشانیاں پہلے آنے والے رسولوں نے دکھائیں۔ نشانی سے مراد معجزات ہیں جن کا ذکر دوسرے انبیاء کی سرگزشتوں میں آیا ہے۔ ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا کیونکہ قرآن کی دعوت تمام تر آفاق و انفس اور عقل و فطرت کے دلائل پر مبنی ہے۔ وہ معجزات کے بجائے لوگوں کو آنکھیں کھولنے اور عقل و بصیرت سے کام لینے پر ابھارتا ہے، کیونکہ ایمان کا فطری راستہ یہی ہے۔ جو لوگ عقل و بصیرت سے کام نہیں لیتے وہ معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور عذاب کی نشانی دیکھ کر جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان لانا بےسود ہوتا ہے۔ اس لئے رسول اللہ
کو تسلی دی گئی کہ پہلی قوموں نے ہر قسم کی نشانیاں دیکھیں لیکن ایمان کی راہ اختیار نہ کی تو آپؐ ان سے کس طرح توقع رکھتے ہیں کہ اگر ان کو کوئی نشانی دکھا دی گئی تو یہ ایمان لانے والے بن جائیں گے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: آیت۔4 میں مشرکین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ’’ یہ شخص تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے۔‘‘ یعنی وہ نبی
کی بشریت کو اس بات کی دلیل قرار دیتے تھے کہ آپؐ نبی نہیں ہو سکتے۔ آیت۔7۔8۔ میں ان کی اس بات کا جواب دیا گیا ہے کہ پہلے زمانے کے جن لوگوں کو تم خود مانتے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے تھے، وہ سب بھی بشر ہی تھے اور بشر ہوتے ہوئے ہی خدا کی وحی سے سرفراز ہوئے تھے۔ (تفہیم القرآن)

وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ 11۝
[ وَكَمْ قَصَمْنَا: اور پیس کر رکھ دیں ہم نے کتنی ہی] [ مِنْ قَرْيَةٍ: ایسی بستیاں] [ كَانتْ: جو تھیں] [ ظَالِمَةً: ظلم کرنے والی] [ وَّانشَانا: اور ہم نے اٹھایا] [ بَعْدَهَا: ان کے بعد] [ قَوْمًا اٰخَرِيْنَ: ایک دوسری قوم]

 

[ ق ص م](ض) قَصْمًا کسی چیز کو توڑ مروڑ کر تباہ کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔11۔]

فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَنَآ اِذَا هُمْ مِّنْهَا يَرْكُضُوْنَ 12۝ۭ
[ فَلَمَآ: پھر جب ] [ اَحَسُّوْا: ان لوگوں نے محسوس کیا] [ بَاْسَنَآ: ہماری سختی کو] [ اِذَا: تب ] [ هُمْ: وہ لوگ] [ مِّنْهَا: اس سے] [ يَرْكُضُوْنَ: بھاگنے لگے]

 

 [ ر ک ض](ن) رَکْضًا (1) پائوں ہلانا۔ بھاگنا۔ (2) کسی چیز کو پائوں سے رگڑنا۔ ایڑ لگانا۔ زیر مطالعہ آیت۔12۔] [ اُرْکُضْ فعل امر ہے۔ تو رگڑ۔ اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ (آپؑ رگڑیں (زمین کو) اپنے پائوں سے) 38:42]

لَا تَرْكُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰى مَآ اُتْرِفْتُمْ فِيْهِ وَمَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْــَٔـلُوْنَ 13؀
[ لَا تَرْكُضُوْا: (کہا گیا) تم لوگ مت بھاگو] [ وَارْجِعُوْٓا: اور واپس ہو] [ اِلٰى مَآ: اس کی طرف] [ اُتْرِفْتم: تمھیں خوشحالی دی گئی] [ فِيْهِ: جس میں ] [ وَمَسٰكِنِكُمْ: اور اپنے مکانوں کی طرف] [ لَعَلَّكُمْ: شاید کہ] [ تُسْــَٔـلُوْنَ: تم لوگوں سے پوچھا جائے (یعنی کوئی پرسانِ حال ہو)]

قَالُوْا يٰوَيْلَنَآ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ 14؀
[ قَالُوْا: انھوں نے کہا] [ يٰوَيْلَنَآ: ہائے ہماری شامت] [ انا كُنَا: بیشک ہم تھے] [ ظٰلِمِيْنَ: ظلم کرنے والے]

فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىهُمْ حَتّٰى جَعَلْنٰهُمْ حَصِيْدًا خٰمِدِيْنَ  15؀
[ فَمَا زَالَتْ تِلْكَ: پھر وہ ہی رہی] [ دَعْوٰىهُمْ: ان کی پکار] [ حَتّٰى: یہاں تک کہ] [ جَعَلْنٰهُمْ: ہم نے کردیا ان کو] [ حَصِيْدًا: تہس نہس کئے ہوئے] [ خٰمِدِيْنَ: بجھ کر رہ جانے والے]

 

[ خ م د](ن۔ س) خَمْدًا آگ کے شعلوں کا تھم جانا جبکہ انگارہ نہ بجھا ہو۔ پژمردہ ہونا۔ بجھ کر رہ جانا۔

[ خَامِدٌ اسم الفاعل ہے۔ بجھ کر رہ جانے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔15۔]

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ  16؀
[ وَمَا خَلَقْنَا: اور ہم نے نہیں پیدا کیا] [ السَّمَاۗءَ: آسمان کو] [ وَالْاَرْضَ: اور زمین کو] [ وَمَا بَيْنَهُمَا: اور اس کو جو ان کے درمیان ہے] [ لٰعِبِيْنَ: کھیلنے والے ہوتے ہوئے]

لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّآ  ڰ اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ 17؀
[ لَوْ: اگر] [ اَرَدْنَآ: ہم ارادہ کرتے] [ ان: کہ] [ نَّتَّخِذَ: ہم بنائیں] [ لَهْوًا: کوئی کھلونا] [ لَّاتَّخَذْنٰهُ: تو ہم ضرور بناتے اس کو] [ مِنْ لَّدُنَآ: اپنے پاس سے] [ ان: اگر] [ كُنَا: ہم ہوتے] [ فٰعِلِيْنَ: کرنے والے]

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۭ وَلَـكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ 18؀
[ بَلْ: بلکہ] [ نَقْذِفُ: ہم پھینک مارتے ہیں] [ بِالْحَقِّ: حق کو] [ عَلَي الْبَاطِلِ: باطل پر] [ فَيَدْمَغُهٗ: تو وہ بھیجہ پلپلا کر دیتا ہے اس کا] [ فَاِذَا: پھر تب] [ هُوَ: وہ] [ زَاهِقٌ: مٹنے والا ہوتا ہے] [ وَلَكُمُ: اور تم لوگوں کے لئے] [ الْوَيْلُ: تباہی ہے] [ مِمَا: اس سے جو] [ تَصِفُوْنَ: تم لوگ بتاتے ہو]

 

[ د م غ] (ف) دَمْغًا دماغ تک زخمی کرنا۔ بھیجہ پلپلا کر دینا۔ زیر مطالعہ آیت۔18۔

وَ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ 19؀ۚ
[ وَ لَهٗ: اور اس کا ہی ہے] [ مَنْ: جو کوئی ] [ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ: زمین اور آسمانوں میں ہے] [ وَ مَنْ: اور جو کوئی] [ عِنْدَهٗ: اس کے پاس ہیں] [ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ: وہ تکبر نہیں کرتے] [ عَنْ عِبَادَتِهٖ: اس کی عبادت سے] [ وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ: اور نہ ہی وہ کاہلی کرتے ہیں]

 

ترکیب: (آیت۔20)۔ یُسَبِّحُوْنَ کا مفعول لِلّٰہِ یہاں محذوف ہے۔ اَلَّیْلَ اور اَلنَّھَارَ کی نصب یُسَبِّحُوْنَ کا مفعول ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ظرف ہونے کی وجہ سے ہے۔ (آیت۔22)۔ فِیْھِمَا میں ھُمَا کی ضمیر اور لَفَسَدَتَا کی ضمیر فاعلی ھُمَا، یہ دونوں اَلسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کے لئے ہیں۔ (آیت۔24)۔ ھٰذَا ذِکْرَُ مَنْ میں ھٰذَا قرآن کے لئے ہے۔

يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَايَفْتُرُوْنَ 20؀
[ يُسَبِحُوْنَ: وہ لوگ تسبیح کرتے ہیں (اللہ کی)] [ الَّيْلَ: رات بھر] [ وَالنَّهَارَ: اور دن بھر] [ لَايَفْتُرُوْنَ: (اور کبھی) وہ سست نہیں پڑتے]

اَمِ اتَّخَذُوْٓا اٰلِهَةً مِّنَ الْاَرْضِ هُمْ يُنْشِرُوْنَ 21؀
[ اَمِ اتَّخَذُوْٓا: کیا ان لوگوں نے بنائے] [ اٰلِهَةً: کچھ اِلٰہ] [ مِّنَ الْاَرْضِ: زمین سے] [ هُمْ: (کیا) وہ] [ يُنْشِرُوْنَ: دوبارہ زندہ کریں گے]

لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا  ۚ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ 22؀
[ لَوْ كَان : اگر ہوتے] [ فِيْهِمَآ: ان دونوں (زمین و آسمان) میں] [ اٰلِهَةٌ: کچھ اِلٰہ] [ اِلَّا: سوائے] [ اللّٰهُ: اللہ کے] [ لَفَسَدَتَا: تو ضرور دونوں کا توازن بگڑ جاتا] [ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ: پس پاکیزگی اللہ کی ہے] [ رَبِ الْعَرْشِ: جو عرش کا مالک ہے] [ عَمَا: اس سے جو] [ يَصِفُوْنَ: یہ لوگ بتاتے ہیں]

لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ 23؀
[ لَا يُسْــَٔـلُ: اس سے نہیں پوچھا جائے گا] [ عَمَا: اس کے بارے میں جو] [ يَفْعَلُ: وہ (یعنی اللہ) کرتا ہے] [ وَ: درآنحالیکہ] [ هُمْ: ان سب (زمینی اِلاہوں) سے] [ يُسْــَٔــلُوْنَ: پوچھا جائے گا]

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً  ۭ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ ۚ ھٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ  ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ  ۙ الْحَقَّ فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ 24؀
[ اَمِ اتَّخَذُوْا: کیا ان لوگوں نے بنائے] [ مِنْ دُوْنِهٖٓ: اس کے علاوہ ] [ اٰلِهَةً: کچھ اِلٰہ] [ قُلْ: آپؐ کہیے] [ هَاتُوْا: تم لوگ لائو] [ بُرْهَانكُمْ: اپنی روشن دلیل] [ ھٰذَا: یہ (قرآن میں)] [ ذِكْرُ مَنْ: ان کا ذکر ہے جو] [ مَّعِيَ: میرے ساتھ ہیں] [ وَذِكْرُ مَنْ: اور ان کا ذکر ہے جو] [ قَبْلِيْ: مجھ سے پہلے تھے] [ بَلْ: بلکہ] [ اَكْثَرُهُمْ: ان کے اکثر] [ لَا يَعْلَمُوْنَ: علم نہیں رکھتے] [ الْحَقَّ: حق کا] [ فَهُمْ: پس وہ] [ مُّعْرِضُوْنَ: اعراض کرنے والے ہیں]

 

نوٹ۔1: مشرکین یہ سمجھتے تھے کہ زمین اور آسمان کے اِلٰہ الگ الگ ہیں۔ وہ ایک رب العرش کو مانتے تھے لیکن ان کا خیال یہ تھا کہ رب العرش اپنے عرش آسمان پر براجمان ہے اور زمین چونکہ اس کی مملکت کا ایک بہت بعید علاقہ ہے اس وجہ سے وہ اس کا انتظام دوسروں کے حوالہ کر کے اس سے الگ تھلگ ہو گیا ہے۔ اور زمین میں دوسرے خدائوں کی خدائی چل رہی ہے۔ اسی وہم کے تحت وہ آسمان کے خدا سے بےنیاز ہو کر اپنے زمینی دیوتائوں کی پرستش کرتے تھے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: اس کائنات کا پورا نظام، زمین کی تہوں سے لے کر بعید ترین سیاروں تک، ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے۔ اس کائنات کی بےشمار قوتوں اور بےحد و حساب چیزوں کے درمیان اگر تناسب، توازن، ہم آہنگی اور تعاون نہ ہو تو یہ نظام ایک لمحہ بھی نہیں چل سکتا۔ اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی اٹل اور غالب ضابطہ ان تمام اشیاء اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرتے رہنے پر مجبور کر رہا ہو۔ اس کائنات کے نظام میں قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری خود اس بات پر شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25؀
[ وَمَآ اَرْسَلْنَا: اور ہم نے نہیں بھیجا] [ مِنْ قَبْلِكَ: آپؐ سے پہلے] [ مِنْ رَّسُوْلٍ: کوئی بھی رسول] [ اِلَّا: مگر یہ کہ] [ نُوْحِيْٓ: ہم وحی کرتے تھے] [ اِلَيْهِ: اس کی طرف (کہ)] [ انهٗ: حقیقت بس اتنی ہے کہ] [ لَآ اِلٰهَ: کوئی بھی اِلٰہ نہیں ہے] [ اِلَّآ: سوائے] [ انا: میرے ] [ فَاعْبُدُوْنِ: پس تم لوگ بندگی کرو میری]

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ  ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ 26؀ۙ
[ وَقَالُوا: اور ان لوگوں نے کہا] [ اتَّخَذَ: بنایا] [ الرَّحْمٰنُ: رحمن نے] [ وَلَـدًا: ایک بیٹا] [ سُبْحٰنَهٗ: اس کی پاکیزگی ہے (اس سے)] [ بَلْ: بلکہ (وہ تو)] [ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ: عزت دیئے ہوئے بندے ہیں]

لَا يَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ 27؀
[ لَا يَسْبِقُوْنَهٗ: وہ حکم عدولی نہیں کرتے اس کی] [ بِالْقَوْلِ: بات میں [ وَهُمْ: اور وہ ] [ بِاَمْرِهٖ: اس کے حکم سے] [ يَعْمَلُوْنَ: عمل کرتے ہیں]

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ  28؀
[ يَعْلَمُ: وہ جانتا ہے] [ مَا: اس کو جو] [ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ: ان کے آگے ہے] [ وَمَا: اور اس کو جو ] [ خَلْفَهُمْ: ان کے پیچھے ہے] [ وَلَا يَشْفَعُوْنَ: اور وہ لوگ شفاعت نہیں کریں گے] [ اِلَّا: مگر] [ لِمَنِ: اس کی جس کے لئے] [ ارْتَضٰى: وہ (یعنی اللہ) پسند کرے] [ وَهُمْ: اور وہ لوگ] [ مِّنْ خَشْيَتِهٖ: اس کے رعب و دبدبہ سے] [ مُشْفِقُوْنَ: ڈرنے والے ہیں]

وَمَنْ يَّقُلْ مِنْهُمْ اِنِّىْٓ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهٖ فَذٰلِكَ نَجْزِيْهِ جَهَنَّمَ  ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ 29؀ۧ
[ وَمَنْ: اور جو] [ يَّقُلْ: کہے] [ مِنْهُمْ: ان میں سے] [ انىٓ: کہ میں] [ اِلٰهٌ: اِلٰہ ہوں] [ مِّنْ دُوْنِهٖ: اس کے علاوہ ] [ فَذٰلِكَ: تو وہ ہے] [ نَجْزِيْهِ: ہم بدلہ میں دیں گے جس کو] [ جَهَنَّمَ: جہنم] [ كَذٰلِكَ: اسی طرح] [ نَجْزِي: ہم بدلہ دیتے ہیں] [ الظّٰلِمِيْنَ: ظلم کرنے والوں کو]

 

نوٹ۔1: سابق انبیاء کے جو صحیفے موجود ہیں، ان میں اگرچہ بےشمار تحریفیں ہو چکی ہیں، لیکن توحید کی تعلیم آج بھی ان میں محفوظ ہے۔ ان کے حاملوں نے اگر شرک اختیار کیا ہے تو اپنے فاسد علم کلام کے سہارے پر اختیار کیا ہے، نہ کہ ان صحیفوں کی تعلیم کی بنا پر۔ جس طرح قرآن کی نہایت واضح تعلیم توحید کے باوجود اس امت میں شرک کی بہت سی قسمیں گھس آئی ہیں، اسی طرح ان امتوں نے اپنے صحیفوں کی تعلیم کے بالکل برخلاف شرک کی لعنت اختیار کی۔ انبیاء کی تعلیم و دعوت کا جو ریکارڈ موجود ہے، وہ قرآن کے اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے کہ اللہ کے ہر رسول نے توحید ہی کی تعلیم دی ہے، شرک کی تعلیم کسی نے بھی نہیں دی ہے۔ (تدبر قرآن)۔

اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا  ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ  ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ 30؀
[ اَوَ: اور کیا] [ لَمْ يَرَ: غور نہیں کیا] [ الَّذِينَ: ان لوگوں نے جنھوں نے] [ كَفَرُوْٓا: کفر کیا] [ ان: کہ] [ السَّمٰوٰتِ: سارے آسمان] [ وَالْاَرْضَ: اور یہ زمین] [ كَانتَا: دونوں تھے] [ رَتْقًا: جوڑے ہوئے] [ فَفَتَقْنٰهُمَا: پھر ہم نے بخیہ ادھیڑا دونوں کا] [ وَجَعَلْنَا: اور ہم نے بنایا] [ مِنَ الْمَاۗءِ: پانی سے] [ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ: ہر ایک زندہ چیز کو] [ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ: تو کیا وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے]

 

[ ر ت ق](ن) رَتْقًا جوڑنا۔ ملانا۔ پھٹے ہوئے کپڑے کی سلائی کر کے ملانا۔]

[ رَتْقٌ جوڑی ہوئی چیز۔ زیر مطالعہ آیت۔30۔]

[ ف ت ق](ض) فَتْقًا جوڑی ہوئی چیز کو پھاڑ کر الگ الگ کرنا۔ بخیہ ادھیڑنا۔ کھولنا۔ زیر مطالعہ آیت۔30]

وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ  ۠ وَجَعَلْنَا فِيْهَا فِجَـاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ 31؀
[ وَجَعَلْنَا: اور ہم نے بنائے] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں] [ رَوَاسِيَ: کچھ پہاڑ] [ ان: کہ (کہیں)] [ تميْدَ: وہ لرزے ] [ بِهِمْ: ان لوگوں کے ساتھ] [ وَجَعَلْنَا: اور ہم نے بنائیں] [ فِيْهَا: ان (پہاڑوں) میں] [ فِجَـاجًا: کچھ کشادہ جگہیں] [ سُبُلًا : راستے ہوتے ہوئے] [ لَعَلَهُمْ: شاید وہ لوگ] [ يَهْتَدُوْنَ: ہدایت پائیں]

 

[ ف ج ج](ن) فَجًّا دو پیروں کے درمیان فاصلہ کرنا۔ پھیلانا ۔ کشادہ کرنا۔]

[ فَجٌّ ج فِجَاجٌ۔ صفت ہے۔ کشادہ۔ پھر کشادہ راستے کے لئے بھی آتا ہے۔ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (ہر ایک دور دراز کشادہ راستے سے) 22:27۔ اور زیر مطالعہ آیت۔31]

وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ښ وَّهُمْ عَنْ اٰيٰـتِهَا مُعْرِضُوْنَ 32؀
[ وَجَعَلْنَا: اور ہم نے بنایا] [ السَّمَاۗءَ: آسمان کو] [ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا: ایک محفوظ چھت] [ وَّهُمْ: اور وہ لوگ] [ عَنْ اٰيٰـتِهَا: اس (آسمان) کی نشانیوں سے] [ مُعْرِضُوْنَ: اعراض کرنے والے ہیں]

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ  ۭ كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ 33؀
[ وَهُوَ: اور وہ] [ الَّذِي: وہی ہے جس نے] [ خَلَقَ: پیدا کیا] [ الَّيْلَ: رات کو] [ وَالنَّهَارَ: اور دن کو] [ وَالشَّمْسَ: اور سورج کو] [ وَالْقَمَرَ: اور چاند کو] [ كُلٌّ: ہر ایک ] [ فِيْ فَلَكٍ: کسی مدار میں] [ يَّسْبَحُوْنَ: تیرتے ہیں]

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ  ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ 34؀
[ وَمَا جَعَلْنَا: اور ہم نے نہیں بنائی] [ لِبَشَرٍ: کسی بشر کے لئے] [ مِّنْ قَبْلِكَ: آپؐ سے پہلے] [ الْخُلْدَ: ہمیشگی] [ اَفَا۟ىِٕنْ: پھر کیا اگر] [ مِّتَّ: آپؐ مر گئے] [ فَهُمُ: تو یہ لوگ] [ الْخٰلِدُوْنَ: ہمیشہ رہنے والے ہیں]

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً  ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ 35؀
[ كُلُّ نَفْسٍ: ہر ایک جان] [ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ: موت کو چکھنے والی ہے] [ وَنَبْلُوْكُمْ: اور ہم آزماتے ہیں تم لوگوں کو] [ بِالشَّرِّ: بُرائی سے] [ وَالْخَيْرِ: اور بھلائی سے] [ فِتْنَةً: کسوٹی ہوتے ہوئے] [ وَاِلَيْنَا: اور ہماری طرف ہی] [ تُرْجَعُوْنَ: تم لوگ لوٹائے جائو گے]

 

نوٹ۔1: آیت۔30۔ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس  (رض)  نے فرمایا کہ زمین و آسمان سب ایک ساتھ تھے، نہ بارش برستی تھی نہ پیداوار اگتی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذی روح مخلوق پیدا کی تو آسمان کو پھاڑ کر اس میں سے پانی برسایا اور زمین کو چیر کر اس میں پیداوار اگائی۔ (ابن کثیر (رح) )۔

نوٹ۔2: آج کل
Big Bang Theory کی تصدیق کے طور پر زیر مطالعہ آیت۔30۔ کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فتق کے لفظ میں پھاڑنے کا جو مفہوم ہے اس میں دھماکہ ہونا لازم نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے فتق میں دھماکہ ہوا ہو، ہو سکتا ہے نہ ہوا ہو۔ لیکن Big Bang کے نظریہ پر ہمارا اعتراض دھماکہ کے حوالہ سے نہیں ہے۔ اصل اعتراض یہ ہے کہ یہ کائنات خودبخود وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ ایک ہستی ہے جس کی قدرت اسے وجود میں لائی ہے۔ ایک مغربی مفکر نے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ ایک پریس میں دھماکہ ہوا اور ڈکشنری خودبخود وجود میں آ گئی۔ اس کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن اس بحث میں زیر مطالعہ آیت۔30۔ کا حوالہ آ ہی گیا ہے تو پھر وضاحت ضروری ہے۔

 فتق اگر فعل لازم (
IntransitiveVerb) ہوتا تو پھر یہ کہنے کی گنجائش ہوتی کہ تخلیق کائنات کا عمل خودبخود ہوا تھا، خواہ دھماکے سے ہوا یا دھماکے کے بغیر ہوا۔ لیکن یہ فعل متعدی (TransitiveVerb) ہے اس لئے ایک ایسی ہستی کو تسلیم کرنا لازم آتا ہے جو اس کائنات کو وجود میں لائی، خواہ دھماکہ کر کے لائی یا دھماکے کے بغیر۔ اس طرح یہ آیت مذکورہ نظریہ کی تصدیق نہیں بلکہ تردید کر رہی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ Big Bang کے نظریہ کو مغربی سائنس داں اور مفکرین Reject کر چکے ہیں لیکن ہم لوگ اسے قرآن مجید سے درست ثابت کرنے کے لئے الٹے لٹکے ہوئے ہیں۔

وَاِذَا رَاٰكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّـتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُـزُوًا  ۭ اَھٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ ۚ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ  36؀
[ وَاِذَا: اور جب کبھی] [ رَاٰكَ: دیکھتے ہیں آپ کو] [ الَّذِينَ: وہ لوگ جنھوں نے] [ كَفَرُوْٓا: کفر کیا] [ ان: تو نہیں] [ يَّـتَّخِذُوْنَكَ: بناتے آپؐ کو] [ اِلَّا: مگر] [ هُـزُوًا: مذاق کا ذریعہ ] [ اَ: (پھر کہتے ہیں) کیا] [ ھٰذَا: یہ ہے] [ الَّذِي: وہ جو ] [ يَذْكُرُ: ذکر کرتا ہے (یعنی باتیں بناتا ہے)] [ اٰلِهَتَكُمْ: تمھارے خدائوں کا] [ وَ: حالانکہ] [ هُمْ: وہ خود] [ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ: رحمن کے ذکر کا] [ هُمْ كٰفِرُوْنَ: ہی انکار کرنے والے ہیں]

 

ترکیب: (آیت۔40) بَلْ تَاْتِیْھِمْ میں تَاتِیْ واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ اس کی ضمیر فاعلی ھِیَ ہے جو اَلسَّاعَۃُ کے لئے ہے، اس سے پہلے کہیں اَلسَّاعَۃُ کا لفظ نہیں آیا ہے بلکہ اَلْوَعْدُ کا لفظ آیا ہے لیکن چونکہ اس سے مراد اَلسَّاعَۃُ یعنی قیامت ہے اس لئے یہاں واحد مؤنث کا صیغہ لایا گیا۔ (آیت۔41)۔ فَحَاقَ کا فاعل مَا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ ہے۔

خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ  ۭ سَاُورِيْكُمْ اٰيٰتِيْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ 37؀
[ خُلِقَ: پیدا کیا گیا] [ الْانسَان: انسان کو] [ مِنْ عَجَلٍ: جلد بازی (کی سرشت) سے] [ سَاُورِيْكُمْ: میں دکھائوں گا تم لوگوں کو] [ اٰيٰتِيْ: اپنی نشانیاں] [ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ: پس تم لوگ جلدی مت مانگو مجھ سے]

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 38؀
[ وَيَقُوْلُوْنَ: اور وہ لوگ کہتے ہیں] [ مَتٰى: کب ہے] [ ھٰذَا الْوَعْدُ: یہ وعدہ] [ ان: اگر] [ كُنْتم: تم لوگ ہو] [ صٰدِقِيْنَ: سچ کہنے والے]

لَوْ يَعْلَمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا حِيْنَ لَا يَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَلَا هُمْ يُنْــصَرُوْنَ 39؀
[ لَوْ: کاش] [ يَعْلَمُ: جانتے ہوتے] [ الَّذِينَ: وہ لوگ جنھوں نے] [ كَفَرُوْا: کفر کیا] [ حِيْنَ: (اس وقت کو) جس وقت] [ لَا يَكُفُّوْنَ: وہ نہ روک سکیں گے] [ عَنْ وُّجوهِهِمُ: اپنے چہروں سے] [ النَارَ: آگ کو] [ وَلَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ: اور نہ ہی اپنی پیٹھوں سے] [ وَلَا هُمْ: اور نہ ان کی] [ يُنْــصَرُوْنَ: مدد کی جائے گی]

بَلْ تَاْتِيْهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنْظَرُوْنَ 40؀
[ بَلْ تَاْتِيْهِمْ: بلکہ وہ (یعنی قیامت) پہنچے گی ان کے پاس] [ بَغْتَةً: بےسان و گمان] [ فَتَبْهَتُهُمْ: تو وہ مبہوت کر دے گی ان کو] [ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ: پھر انھیں استطاعت نہیں ہو گی] [ رَدَّهَا: اس کو لوٹانے کی] [ وَلَا هُمْ: اور نہ ان کو] [ يُنْظَرُوْنَ: مہلت دی جائے گی]

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَـاقَ بِالَّذِيْنَ سَخِــرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ 41؀ۧ
[ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ: اور بیشک مذاق کیا جا چکا ہے] [ بِرُسُلٍ: رسولوں کے ساتھ] [ مِّنْ قَبْلِكَ: آپؐ سے پہلے] [ فَحَـاقَ: تو چھا گیا] [ بِالَّذِينَ: ان پر جنھوں نے] [ سَخِــرُوْا: تمسخر کیا] [ مِنْهُمْ: ان میں سے] [ مَا: (وہ) جو] [ كَانوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ: وہ لوگ مذاق کیا کرتے تھے]

قُلْ مَنْ يَّـكْلَـؤُكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ ۭ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ 42؀
[ قُلْ: آپؐ کہیے] [ مَنْ: کون ] [ يَّـكْلَـؤُ: بچاتا ہے] [ كُمْ: تم لوگوں کو] [ بِالَّيْلِ: رات میں] [ وَالنَّهَارِ: اور دن میں] [ مِنَ الرَّحْمٰنِ: رحمن (کے عذاب) سے] [ بَلْ: بلکہ] [ هُمْ: وہ لوگ] [ عَنْ ذِكْرِ رَبِهِمْ: اپنے رب کے ذکر سے] [ مُّعْرِضُوْنَ: اعراض کرنے والے ہیں]

 

[ ک ل ء](ف) کَلْأً بچانا۔ حفاظت کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔42]

اَمْ لَـهُمْ اٰلِـهَةٌ تَمْــنَعُهُمْ مِّنْ دُوْنِنَا  ۭ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَـصْرَ اَنْـفُسِهِمْ وَلَا هُمْ مِّنَّا يُصْحَبُوْنَ 43؀
[ اَمْ: یا] [ لَهُمْ: ان کے لئے ] [ اٰلِـهَةٌ: کچھ ایسے الٰہ ہیں جو] [ تمــنَعُهُمْ: بچاتے ہیں ان کو] [ مِّنْ دُوْنِنَا: ہمارے علاوہ] [ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ: وہ (یعنی دوسرے الٰہ) استطاعت نہیں رکھتے] [ نَـصْرَ انـفُسِهِمْ: اپنے آپ کی مدد کرنے کی] [ وَلَا هُمْ: اور نہ ان کی ] [ مِّنَا: ہماری طرف سے] [ يُصْحَبُوْنَ: حمایت کی جائے گی]

بَلْ مَتَّعْنَا هٰٓؤُلَاۗءِ وَاٰبَاۗءَهُمْ حَتّٰى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۭاَفَلَا يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا  ۭ اَفَـهُمُ الْغٰلِبُوْنَ 44؀
[ بَلْ: بلکہ] [ مَتَّعْنَا: ہم نے فائدہ اٹھانے کو سامان دیا] [ هٰٓؤُلَاۗءِ: ان لوگوں کو] [ وَاٰبَاۗءَهُمْ: اور ان کے آباء اجداد کو] [ حَتّٰى: یہاں تک کہ] [ طَالَ: طویل ہوئی] [ عَلَيْهِمُ: ان لوگوں پر] [ الْعُمُرُ: عمر] [ اَفَلَا يَرَوْنَ: تو کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے] [ انا: کہ] [ نَاتِي: ہم آتے ہیں] [ الْاَرْضَ: زمین کی طرف] [ نَنْقُصُهَا: گھٹاتے ہوئے اس کو] [ مِنْ اَطْرَافِهَا: اس کے کناروں سے] [ اَفَـهُمُ: تو کیا یہ لوگ] [ الْغٰلِبُوْنَ: غالب آنے والے ہیں]

قُلْ اِنَّمَآ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ ڮ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاۗءَ اِذَا مَا يُنْذَرُوْنَ 45؀
[ قُلْ: آپؐ کہہ دیجئے] [ انمَآ: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ انذِرُكُمْ: میں خبردار کرتا ہوں تم لوگوں کو] [ بِالْوَحْيِ: وحی کے ذریعہ سے] [ وَلَا يَسْمَعُ: اور نہیں سنتے] [ الصُّمُّ: بہرے لوگ] [ الدُّعَاۗءَ: اس دعوت کو] [ اِذَا مَا"جب کبھی بھی] [ يُنْذَرُوْنَ: انھیں خبردار کیا جاتا ہے۔]

 

نوٹ۔1: آیت۔44 کا یہ جملہ کہ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا عربی محاورہ ہے۔ جیسے اردو میں ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص پر زمین تنگ ہو گئی۔ فلاں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ اس عربی محاورہ کا بھی یہی مفہوم ہے۔ یہ قریش کے لئے وارننگ تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرتا جا رہا ہے پھر بھی یہ ہوش میں نہیں آتے اور سمجھ رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں پر غالب آ جائیں گے۔ (حافظ احمد یار صاحب)۔ آج کے دور میں یہ آج کی طاغوتی طاقتوں کے لئے وارننگ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دن بدن ان کے گرد اللہ کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے پھر بھی آج کے ابولہب اور ابوجہل اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اسلام کو مغلوب کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

وَلَىِٕنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُوْلُنَّ يٰوَيْلَنَآ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ 46؀
[ وَلَىِٕنْ: اور بیشک اگر] [ مَّسَّتْهُمْ: چھو جائے ان کو] [ نَفْحَةٌ: کوئی ہلکا سا جھونکا] [ مِّنْ عَذَابِ رَبِكَ: آپؐ کے رب کے عذاب میں سے] [ لَيَقُوْلُنَّ: تو وہ لازماً کہیں گے] [ يٰوَيْلَنَآ: ہائے ہماری بدبختی] [ انا كُنَا: بیشک ہم تھے] [ ظٰلِمِيْنَ: ظلم کرنے والے]

 

[ ن ف ح](ف) نَفْحًا ہوا کا چلنا۔ خوشبو مہکنا۔

[ نَفْحَۃٌ ہوا کا ہلکا جھونکا۔ مہک۔ زیر مطالعہ آیت۔46]


 

ترکیب: (آیت۔47) اَلْمَوَازِیْنَ جمع ہے اور اس کی صفت اَلْقِسْطَ واحد آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اَلْقِسْطَ مصدر ہے اور مصدر کی جمع نہیں آتی۔ اِنْ کَانَ میں کَانَ کا اسم ھُوَ کی ضمیر ہے جو عَمَلٌ کے لئے ہے، اور یہاں ایک ایک عمل کی بات ہے، جیسا کہ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ سے ظاہر ہے، اس لئے واحد مذکر کا صیغہ کَانَ آیا ہے۔ اَتَیْنَا بِھَا میں واحد مؤنث کی ضمیر عَمَلٌ کی جمع مکسر اَعْمَالٌ کے لئے آئی ہے۔ اس طرح تمام اعمال کی طرف اشارہ ہو گیا۔

وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا  ۭ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا  ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَ 47؀
[ وَنَضَعُ: اور ہم رکھیں گے] [ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ: انصاف والی ترازوئیں] [ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ: قیات کے دن] [ فَلَا تُظْلَمُ: تو ظلم نہیں کیا جائے گا] [ نَفْسٌ: کسی جان پر ] [ شَـيْــــــًٔا: کچھ بھی] [ وَان: اور اگر] [ كَان: وہ (عمل) ہو گا] [ مِثْقَالَ حَبَّةٍ: ایک دانے کے ہم وزن] [ مِّنْ خَرْدَلٍ: رائی میں سے] [ اَتَيْنَا بِهَا: ہم لے آئیں گے ان سب (اعمال) کو] [ وَكَفٰى: اور کافی ہیں] [ بِنَا: ہم] [ حٰسِـبِيْنَ: بطور حساب کرنے والے کے]

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ الْـفُرْقَانَ وَضِيَاۗءً وَّذِكْرًا لِّـلْمُتَّـقِيْنَ 48؀ۙ
[ وَلَقَدْ اٰتَيْنَا: اور بیشک ہم نے دی تھی] [ مُوْسٰى: موسٰیؑ] [ وَهٰرُوْنَ: اور ہارونؑ کو] [ الْـفُرْقَان : فرقان] [ وَضِيَاۗءً: اور روشنی] [ وَّذِكْرًا: اور ایک نصیحت] [ لِـلْمُتَّـقِيْنَ: تقوٰی اختیار کرنے والوں کے لئے]

الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَهُمْ مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ 49؀
[ الَّذِينَ: وہ لوگ جو] [ يَخْشَوْنَ: ڈرتے ہیں] [ رَبَّهُمْ: اپنے رب سے] [ بِالْغَيْبِ: غیب میں (یعنی بن دیکھے)] [ وَهُمْ: اور وہ لوگ] [ مِّنَ السَّاعَةِ: اس گھڑی (یعنی قیامت) سے] [ مُشْفِقُوْنَ: ڈرنے والے ہیں]

وَھٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰهُ  ۭ اَفَاَنْتُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ 50؀ۧ
[ وَھٰذَا: اور یہ (قرآن)] [ ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ: ایک ایسی برکت دی ہوئی نصیحت ہے] [ انزَلْنٰهُ: ہم نے اتارا جس کو] [ اَفَانتم: تو کیا تم لوگ[ [ لَهٗ: اس کو] [ مُنْكِرُوْنَ: (پہچاننے سے) انکار کرنے والے ہو]

 

نوٹ۔1: حضرت صدیقہ عائشہ (رض)  نے رسول اللہ
سے دریافت کیا کہ کیا قیامت کے روز بھی آپ اپنے اہل و اولاد کو یاد رکھیں گے۔ تو فرمایا کہ قیامت میں تین مقام ایسے ہوں گے کہ ان میں کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا۔ ایک وہ وقت جب میزانِ عدل کے سامنے وزنِ اعمال کے لئے لوگ حاضر ہوں گے، جب تک معلوم نہ ہو جائے کہ اس کا نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوا یا ہلکا رہا۔ دوسرا مقام وہ ہے جب نامہائے اعمال اُڑائے جائیں گے، جب تک یہ متعین نہ ہو جائے کہ مامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں، یا بائیں ہاتھ میں یا پشت کی طرف سے آیا۔ تیسرا مقام پلصراط سے گزرنے کا وقت ہے جب تک پار نہ ہو جائیں۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔2: آیت۔48 میں اَلْفُرْقَانَ۔ ضِیَائً۔ ذَکْرًا۔ یہ تینوں الفاظ تورات کی صفت کے طور پر آئے ہیں۔ یعنی وہ حق و باطل کا فرق دکھانے والی کسوٹی تھی، اس میں انسان کو سیدھا راستہ دکھانے والی روشنی تھی اور اولاد آدم کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے والی نصیحت تھی۔ (تفہیم القرآن)۔

وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ 51؀ۚ
[ وَلَقَدْ اٰتَيْنَآ: اور بیشک ہم نے دی تھی] [ اِبْرٰهِيْمَ: ابراہیمؑ کو] [ رُشْدَهٗ: ان کی معاملہ فہمی] [ مِنْ قَبْلُ: اس سے پہلے] [ وَكُنَا: اور ہم تھے] [ بِهٖ: اس کا] [ عٰلِمِيْنَ: علم رکھنے والے]

اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّـمَاثِيْلُ الَّتِيْٓ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ 52؀
[ اِذْ: جب] [ قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [ لِاَبِيْهِ: اپنے والد سے] [ وَقَوْمِهٖ: اور اپنی قوم سے] [ مَا هٰذِهِ التماثِيْلُ: یہ مجسمے کیا ہیں] [ الَّتِيْٓ: وہ] [ انتم: تم لوگ] [ لَهَا: جن کے لئے] [ عٰكِفُوْنَ: اعتکاف کرنے والے ہو]

قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا لَهَا عٰبِدِيْنَ 53؀
[ قَالُوْا: ان لوگوں نے کہا] [ وَجَدْنَآ: ہم نے پایا] [ اٰبَاۗءَنَا: اپنے آباء اجداد کو] [ لَهَا: ان کے لئے] [ عٰبِدِيْنَ: عبادت کرنے والے]

قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 54؀
[ قَالَ: (ابراہیمؑ نے) کہا] [ لَقَدْ كُنْتم: یقینا تم لوگ] [ انتم: تم بھی] [ وَاٰبَاۗؤُكُمْ: اور تمھارے آبائو اجداد بھی] [ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ: ایک کھلی گمراہی میں ہیں]

قَالُوْٓا اَجِئْـتَنَا بِالْحَــقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِيْنَ 55؀
[ قَالُوْٓا: ان لوگوں نے کہا] [ اَ: کیا] [ جِئْـتَنَا: آپؑ آئے ہمارے پاس] [ بِالْحَــقِّ: حق کے ساتھ] [ اَمْ: یا] [ انتَ: آپؑ] [ مِنَ اللّٰعِبِيْنَ: کھیل کرنے والوں میں سے ہیں]

قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الَّذِيْ فَطَرَهُنَّ ڮ وَاَنَا عَلٰي ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ 56؀
[ قَالَ: (ابراہیمؑ نے) کہا] [ بَلْ: بلکہ] [ رَّبُّكُمْ: تم لوگوں کا رب] [ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ: زمیں اور آسمانوں کا رب ہے] [ الَّذِي: وہ جس نے] [ فَطَرَهُنَّ: وجود بخشا ان سب کو] [ وَانا: اور میں] [ عَلٰي ذٰلِكُمْ: اس پر] [ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ: گواہی دینے والوں میں سے ہوں]

وَتَاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِيْنَ  57؀
[ وَتَاللّٰهِ: اور اللہ کی قسم] [ لَاَكِيْدَنَّ: میں لازماً دائو کروں گا] [ اَصْنَامَكُمْ: تمھارے بتوں سے] [ بَعْدَ ان: اس کے بعد کہ (جب)] [ تُوَلُّوْا: تم لوگ منھ موڑو گے] [ مُدْبِرِيْنَ: پیٹھ پھیرنے والے ہوتے ہوئے]

فَجَــعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِيْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَيْهِ يَرْجِعُوْنَ 58؀
[ فَجَعَلَهُمْ: پھر انھوںؑ نے کردیا ان کو] [ جُذٰذًا: ٹکڑے ٹکڑے] [ اِلَّا: سوائے] [ كَبِيْرًا: بڑے کے] [ لَهُمْ : ان لوگوں کے لئے] [ لَعَلَهُمْ: کہ شاید وہ لوگ] [ اِلَيْهِ: اس کی طرف] [ يَرْجِعُوْنَ: رجوع کریں (یعنی اس سے پوچھیں)

 

نوٹ۔1: آیت۔51۔ میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو جو معاملہ فہمی حاصل تھی وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ کہہ کر یہ بھی بتا دیا کہ یہ عطا اللہ تعالیٰ کے علم کی بنیاد پر تھی۔ اس کی عطا اور بخشش ایسے نہیں ہے کہ جس کو جو چاہا دے دیا بلکہ وہ کسی کی استعداد اور ظرف کے متعلق اپنے علم کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر۔

قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِـهَتِنَآ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِيْنَ 59؀
[ قَالُوْا: ان لوگوں نے کہا] [ مَنْ: جس نے] [ فَعَلَ: کیا] [ ھٰذَا: یہ ] [ بِاٰلِـهَتِنَآ: ہمارے الہٰوں کے ساتھ] [ انهٗ: بیشک وہ] [ لَمِنَ الظّٰلِمِيْنَ: یقینا ظالموں میں سے ہے]

قَالُوْا سَمِعْنَا فَـتًى يَّذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهٗٓ اِبْرٰهِيْمُ  60؀ۭ
[ قَالُوْا: کچھ لوگوں نے کہا] [ سَمِعْنَا: ہم نے سنا] [ فَـتًى: ایک ایسے نوجوان کو جو] [ يَّذْكُرُ: ذکر کرتا ہے (یعنی باتیں بناتا ہے)] [ هُمْ: ان (خدائوں) کی] [ يُقَالُ: کہا جاتا ہے] [ لَهٗٓ: اس کو] [ اِبْرٰهِيْمُ: ابراہیم]

قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰٓي اَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُوْنَ  61؀
[ قَالُوْا: ان لوگوں نے کہا] [ فَاْتُوْا بِهٖ: پھر تم لوگ لائو اس کو] [ عَلٰٓي اَعْيُنِ النَاسِ: لوگوں کی آنکھوں پر (یعنی سامنے)] [ لَعَلَهُمْ: شاید وہ لوگ] [ يَشْهَدُوْنَ: گواہی دیں]

قَالُوْٓا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِاٰلِهَتِنَا يٰٓـاِبْرٰهِيْمُ 62؀ۭ
[ قَالُوْٓا: ان لوگوں نے کہا] [ ءَانتَ: کیا تو نے ہی] [ فَعَلْتَ: کیا] [ ھٰذَا: یہ] [ بِاٰلِهَتِنَا: ہمارے الہٰوں کے ساتھ] [ يٰٓـاِبْرٰهِيْمُ: اے ابراہیم]

قَالَ بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ 63؀
[ قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [ بَلْ: بلکہ] [ فَعَلَه: کیا یہ] [ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا: ان کے اس بڑے نے] [ فَسْـَٔــلُوْهُمْ: تو تم لوگ پوچھو ان (خدائوں) سے] [ ان: اگر] [ كَانوْا: یہ سب] [ يَنْطِقُوْنَ: بولتے ہیں]

 

[ ن ط ق](ض) مَنْطِقًا واضح کر کے بیان کرنا۔ بولنا۔ زیر مطالعہ آیت۔63۔

[ مَنْطِقٌ اسم ذات بھی ہے۔ کلام۔ بولی۔ یٰـاَ یُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ (اے لوگو ہمیں علم دیا گیا


 پرندوں کی بولی کا) 27:16]

[ (افعال) اِنْطَاقًا بولنے کی صلاحیت دینا۔ قوت گویائی دینا۔ اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْئٍ (ہمیں گویائی دی اس اللہ نے جس نے گویائی دی ہر چیز کو) 41:21]

فَرَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْٓا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ  64؀ۙ
[ فَرَجَعُوْٓا: تو وہ لوگ لوٹے] [ اِلٰٓى انفُسِهِمْ: اپنے نفسوں کی طرف (یعنی سوچ میں پڑ گئے)] [ فَقَالُوْٓا: پھر ان لوگوں نے کہا] [ انكُمْ: کہ] [ انتم: تم لوگ ہی] [ الظّٰلِمُوْنَ: ظلم کرنے والے ہو]

ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰي رُءُوْسِهِمْ ۚ لَــقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰٓـؤُلَاۗءِ يَنْطِقُوْنَ  65؀
[ ثُمَّ: پھر] [ نُكِسُوْا: اوندھے ڈالے گئے] [ عَلٰي رُءُوْسِهِمْ: اپنے سروں پر (پھر کہنے لگے)] [ لَقَدْ عَلِمْتَ: یقینا آپؑ جان چکے ہیں] [ مَا هٰٓؤُلَاۗءِ يَنْطِقُوْنَ: یہ لوگ نہیں بولتے]

 

[ ن ک س](ن) نَکْسًا الٹا پھیرنا۔ اوندھا کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔65۔]

[ نَاکِسً اسم الفاعل ہے۔ اوندھا کرنے والا۔ اِذِالْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُئُ وْسِھِمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ (جب مجرم لوگ اپنے سروں کو اوندھا کرنے والے ہیں اپنے رب کے پاس) 32:12]

[ (تفعیل) تَنْکِیْسًا بتدریج الٹا پھیرنا۔ وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ (اور وہ ہم عمر دیتے ہیں جس کو (پھر) ہم الٹا پھیرتے ہیں جس کو پیدائش میں) 36:68]

قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَـيْــــًٔا وَّلَا يَضُرُّكُمْ 66؀ۭ
قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [ اَفَتَعْبُدُوْنَ: تو کیا تم لوگ بندگی کرتے ہو] [ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے علاوہ] [ مَا: اس چیز کی جو] [ لَا يَنْفَعُكُمْ: نفع نہیں دیتی تم کو] [ شَـيْــــًٔا: کچھ بھی] [ وَّلَا يَضُرُّكُمْ: اور نہ نقصان دیتی ہے تم کو]

اُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 67؀
[ اُفٍّ: تُف ہے] [ لَكُمْ: تم لوگوں پر] [ وَلِمَا: اور ان چیزوں پر جن کی] [ تَعْبُدُوْنَ: تم بندگی کرتے ہو] [ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے علاوہ] [ اَفَلَا تَعقلوْنَ: تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لو گے]

 

نوٹ۔1: آیت نمبر۔63۔ میں حضرت ابراہیم ؑ نے پہلے یہ کہا کہ یہ کام ان بتوں کے اس بڑے نے کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ یقین نہیں آتا تو ان سے پوچھ لو۔ یہ دوسرا فقرہ خود ظاہر کر رہا ہے کہ پہلے فقرہ میں حضرت ابراہیم ؑ نے بت شکنی کے فعل کو بڑے بت کی طرف جو منسوب کیا ہے، اس سے ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا، بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ بات انھوں نے اس لئے کہی تھی کہ وہ لوگ جواب میں خود اس کا اقرار کریں کہ ان کے یہ معبود بالکل بےبس ہیں اور ان سے کسی فعل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ایسے مواقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلاف واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ نہ تو وہ خود جھوٹ کی نیت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ ہی اس کے مخاطب اسے جھوٹ سمجھتے ہیں۔ کہنے والا اسے حجت قائم کرنے کے لئے کہتا ہے اور سننے والا بھی اسے اسی معنی میں لیتا ہے۔ (تفہیم القرآن)۔ آگے آیت۔64۔65۔ بتا رہی ہیں کہ ان لوگوں نے حضرت ابراہیم سے یہ نہیں کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو بلکہ ان کی بات کو ان کی حجت ہی سمجھا اور سوچ میں پڑ گئے۔

نوٹ۔2: نُکِسُوْا عَلٰی رُئُ وْسِھِمْ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا جواب سنتے ہی پہلے تو انھوں نے اپنے دلوں میں سوچا کہ واقعی ظالم تو تم خود ہو، کیسے بےبس معبودوں کو خدا بنائے بیٹھے ہو جو اپنی زبان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان پر کیا بیتی۔ آخر یہ ہماری کیا مدد کریں گے جو خود اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے۔ لیکن پھر ان پر ضد اور جہالت سوار ہوگئی جس نے ان کی عقل کو اوندھا کر دیا۔ دماغ سیدھا سوچتے سوچتے پھر الٹا سوچنے لگا۔ (تفہیم القرآن)

قَالُوْا حَرِّقُـوْهُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ 68؀
[ قَالُوْا: ان لوگوں نے کہا] [ حَرِّقُـوْهُ: تم لوگ جلا کر بھسم کر دو اس کو] [ وَانصُرُوْٓا: اور تم لوگ مدد کرو] [ اٰلِهَتَكُمْ: اپنے الہٰوں کی] [ ان : اگر] [ كُنْتم: تم لوگ ہو] [ فٰعِلِيْنَ: (کچھ) کرنے والے]

قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ 69؀ۙ
[ قُلْنَا: ہم نے کہا] [ يٰنَارُ: اے آگ] [ كُـوْنِيْ: تو ہو جا] [ بَرْدًا: ٹھنڈک] [ وَّسَلٰمًا: اور سلامتی] عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ: ابراہیم پر]

 

[ ب ر د](ن) بَرْدًا ٹھنڈا کرنا۔]

[ بَرْدٌ اسم ذات بھی ہے۔ ٹھنڈک۔ سردی زیر مطالعہ آیت۔69۔]

[ بَرَدٌ ٹھنڈی چیز۔ اولے۔ وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَائِ مِنْ جِبَالٍ فِیْھَا مِنْ بَرَدٍ (اور وہ اتارتا ہے آسمان سے پہاڑوں میں سے جس میں کچھ اولے ہیں) 24:43]

[ بَارِدٌ فَاعِلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ ٹھنڈا کرنے والا یعنی ٹھنڈا۔ ھٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ (یہ نہانے کی جگہ ہے ٹھنڈا کرنے والی اور پینے کو) 38:42]

وَاَرَادُوْا بِهٖ كَيْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْسَرِيْنَ  70؀ۚ
[ وَاَرَادُوْا: اور انھوں نے ارادہ کیا] [ بِهٖ: انؑ کے ساتھ] [ كَيْدًا: چالبازی کا] [ فَجَعَلْنٰهُمُ: تو ہم نے بنا دیا ان لوگوں کو] [ الْاَخْسَرِيْنَ: انتہائی خسارہ پانے والے]

وَنَجَّيْنٰهُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا لِلْعٰلَمِيْنَ 71؀
[ وَنَجَّيْنٰهُ: اور ہم نے نجات دی انؑ کو] [ وَلُوْطًا: اور لوطؑ کو] [ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ: اس زمین کی طرف] [ بٰرَكْنَا: ہم نے برکت دی] [ فِيْهَا: جس میں] [ لِلْعٰلَمِيْنَ: جہانوں کے لئے]

وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ  ۭ وَيَعْقُوْبَ نَافِلَةً  ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِيْنَ 72؀
[ وَوَهَبْنَا: اور ہم نے عطا کیا] [ لَهٗٓ: انؑ کو] [ اِسْحٰقَ: اسحاق] [ وَيَعْقُوْبَ: اور یعقوبؑ (بھی)] [ نَافِلَةً: اضافی ہوتے ہوئے] [ وَكُلًّا: اور سب کو] [ جَعَلْنَا: ہم نے بنایا] [ صٰلِحِيْنَ: نیک]

وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاۗءَ الزَّكٰوةِ  ۚ  وَكَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَ 73؀
[ وَجَعَلْنٰهُمْ: اور ہم نے بنایا ان سب کو] [ اَىِٕمَّةً: ایسے امام جو] [ يَّهْدُوْنَ: ہدایت دیتے تھے] [ بِاَمْرِنَا: ہمارے حکم سے] [ وَاَوْحَيْنَآ: اور ہم نے وحی کی] [ اِلَيْهِمْ: ان کی طرف] [ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ: بھلائیوں کے عمل کرنے کی] [ وَاِقَامَ الصَّلٰوةِ: اور نماز کے قائم کرنے کی] [ وَاِيْتَاۗءَ الزَّكٰوةِ: اور زکٰوۃ کے پہنچانے کی] [ وَكَانوْا: اور وہ سب تھے] [ لَنَا: ہماری ہی] [ عٰبِدِيْنَ: بندگی کرنے والے]

ڌوَلُوْطًا اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا وَّنَجَّيْنٰهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَـبٰۗىِٕثَ  ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِيْنَ 74؀ۙ
[ وَلُوْطًا: اور لوطؑ کو] [ اٰتَيْنٰهُ: ہم نے دی ان کو] [ حُكْمًا: حکمت] [ وَّعِلْمًا: اور علم] [ وَّنَجَّيْنٰهُ: اور ہم نے نجات دی انؑ کو] [ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ: اس بستی سے جو] [ كَانتْ تَّعْمَلُ: عمل کرتی تھی] [ الْخَـبٰۗىِٕثَ": خباثتوں کے] [ انهُمْ: بیشک وہ لوگ] [ كَانوْا: تھے] [ قَوْمَ سَوْءٍ: برائی کی قوم] [ فٰسِقِيْنَ: نافرمانی کرنے والے]

وَاَدْخَلْنٰهُ فِيْ رَحْمَتِنَا  ۭ اِنَّهٗ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ 75؀ۧ
[ وَاَدْخَلْنٰهُ: اور ہم نے داخل کیا انؑ] [ فِيْ رَحْمَتِنَا: اپنی رحمت میں] [ انهٗ: بیشک وہ] [ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ: نیک لوگوں میں سے تھے]

 

نوٹ۔1: عقل پرستوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آگ ٹھنڈک اور سلامتی کیسے ہو سکتی ہے۔ جبکہ خدا پرستوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب اللہ نے آگ کو حکم دیا تھا تو وہ ٹھنڈک اور سلامتی کیسے نہ ہوتی۔ ہمارا ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہے اور اس کائنات میں اللہ کے سوا جو کچھ بھی ہے، کسی بھی چیز کا وجود اس کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے اور دائمی نہیں بلکہ اِلٰی اَجَلٍ مُسَمًّی ہے یعنی فانی ہے۔ اسی طرح سے ہر چیز کی خصوصیت اللہ کی عطا کردہ ہے اور اس کے حکم کے تابع ہے۔ وہ جب چاہے کسی چیز کی خاصیت معطل کرسکتا ہے یا سلب کرسکتا ہے۔ دو مریض ہیں۔ دونوں کی تشخیص یکساں ہے اور دونوں کو یکساں دوا دی جا رہی ہے۔ ایک صحت یاب ہو جاتا ہے۔ دوسرے کا انتقال ہو جاتا ہے۔ کیوں؟ جواب میں عقل پرست ہو سکتا یہ ہوا ہو، ہو سکتا ہے وہ ہوا ہو، کرتے ہیں لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی معقول اور ٹھوس جواب نہیں ہے۔ سوائے رَجْمًا بِالْغَیْبِ کے۔ جبکہ ہمارے پاس اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ مرنے والے مریض کے لئے دوا کی تاثیر کو اللہ نے سلب کرلیا تھا۔ یہ ایمان اور عقیدہ رکھنے والوں کو قرآن میں مذکور معجزوں کو سمجھنے میں اور ماننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ عقل پرستوں کے ایمان کا یہ حصّہ (
Part)، Out of order ہو گیا ہے۔ انھیں چاہئے کہ وہ کسی ایکسپرٹ سے اس کی Repair کرا لیں۔

وَنُوْحًا اِذْ نَادٰي مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ 76؀ۚ
[ وَنُوْحًا: (اور یاد کرو) نوحؑ کو] [ اِذْ: جب] [ نَادٰي: انھوںؑ نے پکارا (ہم کو)] [ مِنْ قَبْلُ: اس سے پہلے] [ فَاسْتَجبنَا: تو ہم نے جواب دیا (یعنی قبول کیا)] [ لَهٗ: انؑ کو] [ فَنَجَّيْنٰهُ: پھر ہم نے نجات دی ان کو] [ وَاَهْلَهٗ: اور ان کے گھر والوں کو] [ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ: اس عظیم دکھ سے]

وَنَــصَرْنٰهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا  ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِيْنَ 77؀
[ وَنَــصَرْنٰهُ: اور ہم نے نصرت دی انؑ کو] [ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ: اس قوم پر جس نے] [ كَذَّبُوْا: جھٹلایا] [ بِاٰيٰتِنَا: ہماری نشانیوں کو] [ انهُمْ: بیشک وہ لوگ ] [ كَانوْا: تھے] [ قَوْمَ سَوْءٍ: بُرائی کی قوم] [ فَاَغْرَقْنٰهُمْ: تو ہم نے غرق کیا ان کو] [ اَجْمَعِيْنَ: سب کے سب کو]

وَدَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِيْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ  ۚ وَكُنَّا لِحُـكْمِهِمْ شٰهِدِيْنَ 78؀ڎ
[ وَدَاوٗدَ: اور (یاد کرو) دائودؑ کو] [ وَسُلَيْمٰنَ: اور سلیمانؑ کو] [ اِذْ: جب] [ يَحْكُمٰنِ: وہ دونوں فیصلہ کرتے تھے] [ فِي الْحَرْثِ: اس کھیتی (کے بارے) میں] [ اِذْ: جب] [ نَفَشَتْ: رات کو چر گئیں] [ فِيْهِ: جس میں] [ غَنَمُ الْقَوْمِ: قوم کی بکریاں] [ وَكُنَا: اور ہم تھے] [ لِحُـكْمِهِمْ: ان کے فیصلے کے] [ شٰهِدِيْنَ: موقعہ پر موجود رہنے والے]

 

ن ف ش

[ نَفْشًا: (ن) (1) روئی یا اون دھننا۔ کسی چیز کو روندنا۔ (2) مویشی کا رات کو چرواہے کے بغیر چرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔78]

[ مَنْفُوْشٌ اسم المفعول ہے۔ دھنا ہوا۔ روندا ہوا۔ وَ تَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْشِ (اور ہو جائیں گے پہاڑ دھنی ہوئی اون کی مانند) 101:5]

فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ ۚ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا  ۡ وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ  ۭ وَكُنَّا فٰعِلِيْنَ 79؀
[ فَفَهَّمْنٰهَا: پھر ہم نے سمجھا دیا وہ] [ سُلَيْمٰنَ: سلیمانؑ کو] [ وَكُلًّا: اور سب کو] [ اٰتَيْنَا: ہم نے دی] [ حُكْمًا: حکمت] [ وَّعِلْمًا: اور علم] [ وَّسَخَّرْنَا: اور ہم نے تابع کیا] [ مَعَ دَاوٗدَ: دائودؑ کے ساتھ] [ الْجبالَ: پہاڑوں کو] [ يُسَبِحْنَ: وہ تسبیح کرتے تھے] [ وَالطَّيْرَ: اور پرندوں کو (بھی)] [ وَكُنَا: اور ہم ہیں] [ فٰعِلِيْنَ: کر گزرنے والے]

 

ف ھـ م

[ فَھَمًا: (س) کسی کام یا بات کی حقیقت کو سمجھنا۔]

[ تَفْھِیْمًا: (تفعیل) سمجھانا۔ زیر مطالعہ آیت۔79]

وَعَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ 80؀
[ وَعَلَّمْنٰهُ: اور ہم نے سکھائی انؑ کو] [ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ: زرہ (بنانے) کی صنعت] [ لَكُمْ: تم لوگوں کے لئے] [ لِتُحْصِنَكُمْ: تاکہ وہ تمھیں بچائے] [ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ: تمھاری جنگ میں] [ فَهَلْ: تو کیا] [ انتم: تم لوگ] [ شٰكِرُوْنَ: شکر کرنے والے ہو]

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا  ۭ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ 81؀
[ وَلِسُلَيْمٰنَ: اور (ہم نے تابع کیا) سلیمانؑ کے لئے] [ الرِّيْحَ: ہوا کو] [ عَاصِفَةً: تیزو تند ہوتے ہوئے] [ تَجْرِيْ: وہ چلتی تھی] [ بِاَمْرِهٖٓ: انؑ کے حکم سے] [ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ: اس زمین کی طرف] [ بٰرَكْنَا: ہم نے برکت دی] [ فِيْهَا: جس میں] [ وَكُنَا: اور ہم ہیں] [ بِكُلِ شَيْءٍ: سب چیز کا] [ عٰلِمِيْنَ: علم رکھنے والے]

وَمِنَ الشَّيٰطِيْنِ مَنْ يَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَيَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ  ۚ وَكُنَّا لَهُمْ حٰفِظِيْنَ 82؀ۙ
[ وَمِنَ الشَّيٰطِيْنِ: اور (ہم نے تابع کئے) شیطانوں میں سے] [ مَنْ: وہ جو] [ يَّغُوْصُوْنَ: غوطے لگاتے تھے] [ لَهٗ: انؑ کے لئے] [ وَيَعْمَلُوْنَ: اور وہ کرتے تھے] [ عَمَلًا: کچھ (دوسرے) کام] [ دُوْنَ ذٰلِكَ: اس کے علاوہ] [ وَكُنَا: اور ہم تھے] [ لَهُمْ: ان کی] [ حٰفِظِيْنَ: نگرانی کرنے والے]

 

[ غ و ص] غَوْصًا پانی میں غوطہ لگانا۔ زیر مطالعہ آیت۔82۔]

[ غَوَّاصٌ فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بار بار غوطہ لگانے والا۔ وَالشَّیٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّائٍ وَّ غَوَّاصٍ (اور شیاطین کو بھی سب کے سب عمارت تعمیر کرنے والے اور غوطے لگانے والے)۔ 38:37]


 

نوٹ۔1: آیات۔78 سے 82 تک ہر آیت میں بات مکمل ہونے کے بعد ایک ایک جملے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ دراصل انسان کی دائمی رہنمائی کے لئے ہے۔ قیامت تک جو بھی دل کی آنکھیں کھول کر قرآن کا مطالعہ کرے گا اس کے لئے ان اضافی جملوں میں ایک ہدایت ہے اور جو بھی اس ہدایت پر عمل کرے گا وہ اپنے آپ کو شرک کی ایک قسم سے بچا لے جائے گا۔ اب یہ بات سمجھ لیں کہ ہدایت کیا ہے اور اس پر عمل نہ کرنا شرک کیسے ہے۔

 ہدایت یہ ہے کہ کسی نوع کا کوئی اختیار مل جائے، ذہن کسی بات کی تہہ تک پہنچ جائے، کسی مسئلہ کا حیرت انگیز حل سمجھ میں آ جائے، ریسرچ کر کے کوئی ایجاد کرنے میں کامیاب ہو جائے، عوامل قدرت میں سے کسی پر کنٹرول حاصل ہو جائے جیسے بجلی پر قابو پانا، کوئی حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دے لے، غرضیکہ کوئی بھی کامیابی ہو یا کوئی بھی نعمت ملے، انسان کو چاہئے کہ اسے اپنی محنت، ذہانت اور صلاحیت کا نتیجہ نہ سمجھے، بلکہ ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ یہ اللہ نے دی ہے تو اسے ملی ہے۔ ثانیاً یہ کہ اسے دے کر اللہ تعالیٰ اس سے بےتعلق نہیں ہو گیا بلکہ ہر چیز ، ہر آن اور ہر لمحہ اس کی نظر میں ہے اور اس کے کنٹرول میں ہے۔ ثالثاً یہ کہ جب بھی اس کامیابی یا نعمت کا خیال آئے یا اس سے استفادہ کرے تو اللہ کا شکر ادا کرے۔

 اب ایمانداری سے سوچیں کہ ایسے موقعوں پر ہم کیا کرتے ہیں۔ زیادہ تر تو اسے ہم اپنا ہی کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ میں نے اتنی محنت کی، یہ عقلمندی دکھائی، اتنی مشکلات پر قابو پایا تب کہیں یہ کام ہوا ہے، اگر کبھی ہم اپنی ذات کے خول سے باہر نکلتے بھی ہیں تو اس کا کریڈٹ اپنے کسی کرم فرما کو دیتے ہیں۔ میرے وکیل نے تو کمال ہی کر دیا۔ یہ میرے ڈاکٹر کی تشخیص کا کرشمہ ہے۔ بس میرا دوست کام آ گیا۔ ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ کی ذات عموماً ہمارے ذہن سے اوجھل ہوتی ہے۔ جو کام بنانے والی یا نعمت دینے والی اصل ہستی ہے اس جگہ ہم انسانی قابلیت اور صلاحیت کولا کر بٹھا دیتے ہیں اور اس کے گن گاتے رہتے ہیں۔ یہ شرک کی ایک قسم ہے۔ اسی سے بچنے کے لئے مذکورہ آیات میں اصل حقیقت کی نشاندہی کرنے والے جملوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ان کی رہنمائی میں اگر ہم اس طرح سوچیں کہ مجھے یا فلاں کو اللہ نے توفیق دی اور مدد کی تو یہ کام ہو گیا، تو اس قسم کے شرک سے ہم خود کو بچا لے جائیں گے۔

 سوچنے کے جس انداز کو اوپر شرک کی ایک قسم قرار دیا گیا ہے وہ کسی کی ذہنی اختراع نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں اس کا متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ہم صرف تین آیات کا ترجمہ دے رہے ہیں جو ہم نے مولانا احمد رضا خانصاحب بریلوی کے ترجمہ سے نقل کیا ہے۔ (1) اور تمہارے پاس جو نعمت ہے سب اللہ کی طرف سے ہے۔ پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کی طرف پناہ لے جاتے ہو۔ پھر جب وہ تم سے برائی ٹال دیتا ہے تو تم میں ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے (النحل۔53۔54) (2) پھر جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں اللہ کو پکارتے ہیں ایک اسی پر عقیدہ لا کر پھر جب وہ انھیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے۔ جبھی شرک کرنے لگتے ہیں (العنکبوت۔65)۔ (3) اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع لاتے ہوئے پھر جب وہ انھیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ دیتا ہے جبھی ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔ (الروم۔33)

 سورۃ الکھف کی آیات۔32 تا 44 میں ہم مادہ پرستی کا شرک پڑھ چکے اور اس کی آیت۔110 میں ریاکاری کا شرک بھی پڑھ لیا۔ ان کے ساتھ قابلیت و صلاحیت کے شرک اور اس کی دیگر اقسام کو ذہن میں رکھ کر سوچیں اور اندازہ کریں کہ شرک سے مکمل اجتناب کتنا مشکل کام ہے۔ ہم کسی ایک قسم کے شرک سے خود کو بچا لیتے ہیں تو کسی دوسری قسم کے شرک میں جا کر پھنس جاتے ہیں۔ ہم میں بہت کم ایسے نصیبے والے ہوں گے جو ہر نوع کے شرک سے پاک ہوں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی نشاندہی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ اور لوگوں کے اکثر اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر اس حال میں کہ وہ شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔‘‘ (یوسف۔106)

 حضرت ابراہیمؑ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید میں تقریباً پانچ چھ جگہ اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے وَمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ اب اندازہ کریں کہ یہ کتنا بڑا سر ٹیفکیٹ ہے، کتنا عظیم
Testimonial ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو دیا ہے۔ ہم لوگ تو ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے لیکن ان کی گرد کے جتنا قریب ہو سکیں ہمارے حق میں اتنا ہی بہتر ہے۔ اس کے لئے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم خود کو شرک سے محفوظ نہ سمجھیں۔ پھر ہر نوع کے شرک سے بچنے کے لئے مسلسل شعوری کوشش کرتے رہیں اور ساتھ میں وہ دعا بھی مانگتے رہیں سورۃ الکھف کی آیت۔110۔ کے نوٹ۔2 میں دی ہوئی ہے۔

وَاَيُّوْبَ اِذْ نَادٰي رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ 83؀ښ
[ وَاَيُّوْبَ: اور (یاد کرو) ایوبؑ کو] [ اِذْ: جب] [ نَادٰي: انھوں ؑ نے پکارا] [ رَبَّهٗٓ: اپنے رب کو] [ انى: کہ] [ مَسَّنِيَ: چھوا مجھ کو] [ الضُّرُّ: تکلیف نے] [ وَانتَ: اور تو ہی] [ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ: رحم کرنے والوں کا سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے]

فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّاٰتَيْنٰهُ اَهْلَهٗ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِكْرٰي لِلْعٰبِدِيْنَ 84؀
[ فَاسْتَجبنَا: تو ہم نے جواب دیا] [ لَهٗ: انؑ کو] [ فَكَشَفْنَا: پھر ہم نے ہٹا دیا] [ مَا: اس کو جو] [ بِهٖ: انؑ پر تھی] [ مِنْ ضُرٍّ: کسی تکلیف میں سے] [ وَّاٰتَيْنٰهُ: اور ہم نے دیئے انؑ کو] [ اَهْلَهٗ: ان کے گھر والے] [ وَمِثْلَهُمْ: اور ان کے جیسے (اور بھی)] [ مَّعَهُمْ: ان کے ساتھ ] [ رَحْمَةً: بطور رحمت کے] [ مِّنْ عِنْدِنَا: اپنے پاس سے] [ وَذِكْرٰي: اور بطور نصیحت کے] [ لِلْعٰبِدِيْنَ: بندگی کرنے والوں کے لئے]

وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِدْرِيْسَ وَذَا الْكِفْلِ ۭ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيْنَ 85؀ښ
[ وَاِسْمٰعِيْلَ: اور (یاد کرو) اسماعیلؑ کو] [ وَاِدْرِيْسَ: اور ادریسؑ کو] [ وَذَا الْكِفْلِ: اور ذوالکفل کو] [ كُلٌّ: (یہ لوگ) سب] [ مِّنَ الصّٰبِرِيْنَ: صبر کرنے والوں میں سے تھے]

وَاَدْخَلْنٰهُمْ فِيْ رَحْمَتِنَا  ۭ اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ 86؀
[ وَاَدْخَلْنٰهُمْ: اور ہم نے داخل کیا ان کو] [ فِيْ رَحْمَتِنَا: اپنی رحمت میں] [ انهُمْ: بیشک وہ لوگ] [ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ : صالح لوگوں میں سے تھے]

وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادٰي فِي الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ  87؀ښ
[ وَذَا النُّوْنِ: اور مچھلی والے کو] [ اِذْ: جب] [ ذَّهَبَ: وہ گئے] [ مُغَاضِبًا: غصّہ کرتے ہوئے (اپنی قوم سے)] [ فَظَنَّ: پھر انھوںؑ نے سمجھا] [ ان: کہ] [ لَّنْ نَّقْدِرَ: ہم ہرگز گرفت نہیں کریں گے] [ عَلَيْهِ: ان پر] [ فَنَادٰي: پھر انھوںؑ نے پکارا] [ فِي الظُّلُمٰتِ: اندھیروں میں] [ ان: کہ] [ لَّآ اِلٰهَ: کوئی بھی الٰہ نہیں] [ اِلَّآ: سوائے] [ انتَ: تیرے] [ سُبْحٰــنَكَ: پاکیزگی تیری ہے] [ انى: بیشک میں ہی] [ كُنْتُ: ہوں ] [ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ: ظلم کرنے والوں میں سے]

فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ  ۙ وَنَجَّيْنٰهُ مِنَ الْغَمِّ  ۭ وَكَذٰلِكَ نُـــــْۨـجِي الْمُؤْمِنِيْنَ 88؀
[ فَاسْتَجبنَا: پھر ہم نے جواب دیا] [ لَهٗ: انؑ کو] [ وَنَجَّيْنٰهُ: اور ہم نے نجات دی انؑ کو] [ مِنَ الْغَمِّ: اس غم سے] [ وَكَذٰلِكَ: اور اس طرح] [ نُـــــْۨـجِي: ہم نجات دیتے ہیں] [ الْمُؤْمِنِيْنَ: ایمان لانے والوں کو]

 

نوٹ۔1: حضرت ادریسؑ اور حضرت ذوالکفلؑ کی سرگشتِ حیات بالکل پردئہ خفا میں ہیں۔ قدیم صحیفوں میں ان ناموں سے ان کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اب یا تو یہ ہوا کہ عربی لب و لہجہ میں یہ نام بالکل بدل گئے ہیں یا قدیم صحیفوں سے ان کے نام غائب ہو گئے۔ جو بھی شکل ہوئی ہو بہرحال ان دو نبیوں کے نام قرآن ہی کے ذریعہ سے متعارف ہوئے ہیں اور صبر ان کی نمایاں خصوصیت بتائی گئی ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ تورات یا قرآن، کسی میں بھی تمام انبیاء کرام کے نام اور حالات مذکور نہیں ہیں۔ تمام انبیاء کرام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔ (تدبر قرآن)

وَزَكَرِيَّآ اِذْ نَادٰي رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ 89؀ښ
[ وَزَكَرِيَّآ: اور (یاد کرو) زکریاؑ کو] [ اِذْ: جب] [ نَادٰي: انھوںؑ نے پکارا] [ رَبَّهٗ: اپنے رب کو] [ رَبِ: اے میرے رب] [ لَا تَذَرْنِيْ: تو مت چھوڑ مجھ کو] [ فَرْدًا: تنہا] [ وَّانتَ: اور تو ہی] [ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ: وارثوں کا بہترین ہے]

فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ  ۡ وَوَهَبْنَا لَهٗ يَحْــيٰى وَاَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ  ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا  ۭ وَكَانُوْا لَنَا خٰشِعِيْنَ 90؀
[ فَاسْتَجبنَا: تو ہم نے جواب دیا] [ لَهٗ: ان کو] [ وَوَهَبْنَا: اور ہم نے عطا کیا] [ لَهٗ: ان کو] [ يَحْــيٰى: یحییٰ ؑ] [ وَاَصْلَحْنَا: اور ہم نے صحت ٹھیک کی] [ لَهٗ: ان کے لئے] [ زَوْجَهٗ: ان کی بیوی کی] [ انهُمْ: بیشک وہ لوگ] [ كَانوْا يُسٰرِعُوْنَ: سبقت کرتے تھے] [ فِي الْخَــيْرٰتِ: بھلائیوں میں] [ وَيَدْعُوْنَنَا: اور وہ پکارتے تھے ہم کو] [ رَغَبًا: التجا کرتے ہوئے] [ وَّرَهَبًا: اور ڈرتے ہوئے] [ وَكَانوْا: اور وہ تھے] [ لَنَا: ہمارے لئے] [ خٰشِعِيْنَ: فروتنی کرنے والے]

وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَآ اٰيَةً لِّـلْعٰلَمِيْنَ 91؀
[ وَالَّتِيْٓ: اور (یاد کرو) اس خاتون کو جس نے] [ اَحْصَنَتْ: حفاظت کی] [ فَرْجَهَا: اپنی عصمت کی] [ فَنَفَخْنَا: تو ہم نے پھونکا] [ فِيْهَا: ان (خاتون) میں] [ مِنْ رُّوْحِنَا: اپنی روح میں سے] [ وَجَعَلْنٰهَا: اور ہم نے بنایا ان کو] [ وَابْنَهَآ: اور ان کے بیٹے کو] [ اٰيَةً: ایک نشانی] [ لِـلْعٰلَمِيْنَ: تمام جہانوں کے لئے]

 

ف ر ج

[ فَرْجًا: کسی چیز میں شگاف ڈالنا۔ دراڑ پیدا کرنا۔ وَاِذَا لسَّمَائُ فُرِجَتْ (جب آسمان میں شگاف ڈالا جائے گا) 77:9]

[ فَرْجٌ ج فُرُوْجٌ۔ اسم ذات بھی ہے۔ شگاف۔ دراڑ۔ پھر کنایہ کے طور پر انسان کی شرمگاہ کے لئے بھی آتا ہے۔ زیر مطالعہ آیت۔91۔ وَمَالَھَا مِنْ فُرُوْجٍ (اور نہیں ہے اس میں یعنی آسمان میں کوئی بھی دراڑیں) 50:6]


 

ترکیب: (آیت۔91) ۔ فیھا کی ضمیر اَلَّتِیْ کے لئے ہے۔ یہ فَرْجَھَا کے لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ عربی میں فَرْجٌ مذکر لفظ ہے۔ (آیت۔92) اِنَّ کا اسم ھٰذِہٖ ہے اور محلاًّ حالت نصب میں ہے۔ اُمَّتُکُمْ اس کی خبر ہے، جبکہ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً حال ہونے کی وجہ سے نصب میں ہے۔

اِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ڮ وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ 92؀
[ ان: بیشک] [ هٰذِهٖٓ: یہ] [ اُمَّتُكُمْ: تم لوگوں کا دین ہے] [ اُمَّةً وَّاحِدَةً: ایک ہی دین ہوتے ہوئے] [ وَّانا: اور میں] [ رَبُّكُمْ: تم لوگوں کا رب ہوں] [ فَاعْبُدُوْنِ: پس تم لوگ بندگی کرو میری]

وَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ ۭكُلٌّ اِلَيْنَا رٰجِعُوْنَ 93؀ۧ
[ وَتَقَطَّعُوْٓا: اور لوگوں نے ٹکڑے ٹکڑے کیا] [ اَمْرَهُمْ: اپنے کام کو] [ بَيْنَهُمْ: آپس میں] [ كُلٌّ: (وہ) سب ہیں] [ اِلَيْنَا: ہماری طرف ہی] [ رٰجِعُوْنَ: لوٹنے والے]

 

(آیت۔93) تَقَطَّعُوْا باب تفعل ہے جس سے زیادہ تر افعال لازم آتے ہیں لیکن تَقَطَّعُوْا لازم اور متعدی، دونوں طرح آتا ہے اور قرآن مجید میں بھی یہ دونوں طرح آیا ہے۔ یہاں اَمْرَھُمْ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ متعدی ہے۔

 

نوٹ۔2: وَتَقَطَّعُوْا اَمْرَھُمْ میں اَمْرَھُمْ کا لفظ جامع ہے۔ اس میں یہ صورتحال بھی شامل ہے کہ کچھ لوگ نَبِیِّ وقت پر ایمان نہیں لائے جس کی وجہ سے مذاہب الگ ہو گئے۔ اور اس میں ہماری موجودہ صورتحال بھی شامل ہے۔ ہم لوگ اللہ کی وحدانیت، آخرت، رسول اللہ
کی رسالت اور آپؐ کے تاقیامت نَبِیِّ وقت ہونے پر ایمان رکھتے ہوئے فروعی معاملات میں اختلاف کر کے فرقوں میں بٹے ہیں۔ اس لئے ہمارا ہر فرقہ آیت۔94۔ میں مذکور وَھُوَ مُؤْمِنٌ کی شرط پوری کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی فرقے کے اہل علم دوسرے فرقے کو کافر قرار نہیں دیتے اہل علم کی بات کے مقابلہ میں نیم خواندہ واعظین کی بات میں کوئی وزن نہیں ہے۔ اس لحاظ سے آیت۔94۔ میں بشارت ہے کہ ہمارے کسی فرقے کا کوئی شخص جو بھی نیکیاں کرے گا تو ان شاء اللہ اس کا اجر ضائع نہیں ہو گا۔

 آیت کے اس مفہوم کی تائید ایک حدیث سے ہوتی ہے۔ حضرت عمر (رض)  سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ
کو فرماتے سنا۔ آپؐ فرماتے کہ میں نے اپنے رب سے اپنے صحابہ کے اختلاف کے بارے میں پوچھا جو میرے بعد ہو گا، تو اللہ نے میری طرف وحی کی کہ اے محمد ( ) تیرے صحابہ میرے نزدیک آسمان میں ستاروں کے مرتبہ میں ہیں۔ ان کے بعض زیادہ قوی ہیں بعض سے اور ہر ایک کے لئے نور ہے۔ پس وہ شخص جس نے کوئی چیز لی اس میں سے جس پر وہ (یعنی صحابہ (رض) ) ہیں، جو ان کے اختلاف میں سے ہے، تو وہ شخص میرے نزدیک ہدایت پر ہے۔ حضرت عمر (رض)  نے فرمایا (کہ اس کے بعد) رسول اللہ نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ ان میں سے جس کی بھی تم لوگ پیروی کرو گے تو تم لوگ ہدایت پائو گے۔ (مشکٰوۃ۔ باب مناقب الصحابہ (رض) )

فَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهٖ  ۚ وَاِنَّا لَهٗ كٰتِبُوْنَ 94؀
[ فَمَنْ: پھر جو] [ يَّعْمَلْ: عمل کرے گا] [ مِنَ الصّٰلِحٰتِ: نیکیوں میں سے] [ وَ: اس حال میں کہ] [ هُوَ: وہ] [ مُؤْمِنٌ: ایمان لانے والا ہو] [ فَلَا كُفْرَان: تو کسی قسم کی کوئی ناقدری نہیں ہو گی] [ لِسَعْيِهٖ: اس کی سعی کی] [ وَانا: اور بیشک ہم] [ لَهٗ: اس کو] [ كٰتِبُوْنَ: لکھنے والے ہیں]

 

نوٹ۔1: رسول اللہ
فرماتے ہیں ہم انبیاء کی جماعت ایسے ہیں جیسے ایک باپ کے فرزند کہ دین سب کا ایک ہے یعنی اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کی عبادت، گو احکامِ شرع گوناگوں ہیں۔ پھر لوگوں نے اختلاف کیا۔ بعض اپنے نبیوں پر ایمان لائے اور بعض نہ لائے۔ قیامت کے دن سب کا لوٹنا ہماری طرف ہے۔ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ (ابن کثیر (رح) )

وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ 95؀
[ وَحَرٰمٌ: اور (لوٹنا) حرام ہے] [ عَلٰي قَرْيَةٍ: کسی ایسی بستی پر] [ اَهْلَكْنٰهَآ: ہم نے ہلاک کیا جس کو] [ انهُمْ: کہ وہ لوگ ] [ لَا يَرْجِعُوْنَ: نہیں لوٹیں گے]

 

نوٹ۔1: آیات۔95۔96 کے سرسری مطالعہ سے یہ مفہوم ذہن میں آتا ہے کہ جس بستی کو اللہ نے ہلاک کیا اس کے لوگ نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں یعنی اس کے بعد وہ لوٹ سکیں گے۔ لیکن ان آیات کا یہ مفہوم نہیں ہے۔ اگر ایک حدیث ذہن میں ہو تو آدمی کا ذہن ان آیات کے صحیح مفہوم تک پہنچ جاتا ہے۔

 ’’ ایک حدیث میں یاجوج و ماجوج کی یورش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت قیامت اس قدر قریب ہوگی جیسے پورے پیٹوں کی حاملہ کہ نہیں کہہ سکتے کب وہ بچہ جن دے، رات کو یا دن کو۔‘‘ (منقول از تفہیم القرآن)

 اب ان آیات کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے کہ ہلاک شدہ بستیوں کے لوگ واپس نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ یاجوج و ماجوج کھول دیئے جائیں یعنی یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ اردو محاورہ ہم اسے اس طرح کہیں گے کہ وہ لوگ قیامت تک نہیں لوٹیں گے۔

حَتّٰٓي اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ 96؀
[ حَتّٰٓي : یہاں تک کہ] [ اِذَا: جب] [ فُتِحَتْ: کھولے جائیں گے] [ يَاْجوجُ وَمَاجوجُ: یاجوج اور ماجوج] [ وَهُمْ: اور وہ لوگ] [ مِّنْ كُلِ حَدَبٍ: ہر بلندی سے] [ يَّنْسِلُوْنَ: تیزی سے پھسلتے ہوں گے]

 

ح دب

[ حَدَبًا: (س) آدمی کا کبڑا ہونا۔

حَدَبٌ کبڑا پن۔ پھر کسی زمین کی اونچی جگہ کو بھی مجازاً حَدَبٌ کہتے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ 96۔

وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِىَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا  ۭ يٰوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِيْنَ  97؀
[ وَاقْتَرَبَ: اور (جب) قریب آ لگے] [ الْوَعْدُ الْحَقُّ: سچا وعدہ] [ فَاِذَا: تو جب ہی] [ هِىَ: وہ] [ شَاخِصَةٌ: کھلی کی کھلی رہ جانے والی ہیں] [ اَبْصَارُ الَّذِينَ: ان لوگوں کی آنکھیں جنھوں نے] [ كَفَرُوْا: کفر کیا] [ يٰوَيْلَنَا: (وہ کہیں گے) ہائے ہماری شامت] [ قَدْ كُنَا: ہم رہے] [ فِيْ غَفْلَةٍ: غفلت میں] [ مِّنْ ھٰذَا: اس سے] [ بَلْ: بلکہ] [ كُنَا: ہم ہی تھے] [ ظٰلِمِيْنَ: ظلم کرنے والے]

اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ  ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀
[ انكُمْ: بیشک تم لوگ] [ وَمَا: اور وہ جس کی] [ تَعْبُدُوْنَ: تم لوگ بندگی کرتے ہو] [ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے علاوہ] [ حَصَبُ جَهَنَّمَ: جہنم کا ایندھن ہیں] [ انتم: تم لوگ] [ لَهَا: اس کے لئے] [ وٰرِدُوْنَ: پہنچنے والے ہو]

 

نوٹ۔2: آیت۔98۔ میں مَاتَعْبُدُوْنَ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں اس سے مراد وہ بت اور پتھر ہیں جن کی مشرکین پرستش کرتے ہیں۔ ان کو جہنم کا ایندھن بنانے سے مقصود ان پتھروں کو سزا دینا نہیں ہے بلکہ ان کے پجاریوں کو یہ دکھانا ہے کہ جن کو الٰہ سمجھ کے تم ان کی پرستش کرتے رہے ان کی یہاں کیا گت بن رہی ہے۔ بعض مشرک قومیں جو انبیاء اور صالحین کی پرستش کرتی ہیں ان کا انجام یہاں زیر بحث نہیں ہے۔ ان کے معاملات کی تفصیل قرآن کے دوسرے مقامات پر آئی ہے کہ قیامت کے دن وہ لوگ اپنے پجاریوں سے اعلان براءت کر دیں گے (تدبر قرآن)

لَوْ كَانَ هٰٓؤُلَاۗءِ اٰلِهَةً مَّا وَرَدُوْهَا  ۭ وَكُلٌّ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 99؀
[ لَوْ: اگر] [ كَان: ہوتے] [ هٰٓؤُلَاۗءِ: یہ سب] [ اٰلِهَةً: کوئی الٰہ] [ مَا وَرَدُوْهَا: تو وہ نہ پہنچتے اس تک] [ وَكُلٌّ: اور سب] [ فِيْهَا: اس میں] [ خٰلِدُوْنَ: ہمیشہ رہنے والے ہیں]

لَا يَسْمَعُوْنَ حَسِيْسَهَا  ۚ وَهُمْ فِيْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَ ١٠٢؀ۚ
[ لَا يَسْمَعُوْنَ: وہ لوگ نہیں سنیں گے] [ حَسِيْسَهَا: اس کی سرسراہٹ] [ وَهُمْ: اور وہ] [ فِيْ مَا: اس میں ہوں گے جو] [ اشْتَهَتْ: چاہیں گے] [ انفُسُهُمْ: ان کے جی] [ خٰلِدُوْنَ: ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے]

لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ  ۭ ھٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ١٠٣؁
[ لَا يَحْزُنُهُمُ: غمگین نہیں کرے گی ان کو] [ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ: وہ بڑی دہشت] [ وَتَتَلَقّٰىهُمُ: اور استقبال کریں گے ان کا] [ الْمَلٰۗىِٕكَةُ: فرشتے] [ ھٰذَا: (اور کہیں گے) یہ] [ يَوْمُكُمُ الَّذِي: تم لوگوں کا وہ دن ہے جس کا] [ كُنْتم تُوْعَدُوْنَ: تم لوگوں کو وعدہ دیا گیا تھا

 

ف ز ع

[ فَزَعًا: (س) دہشت زدہ ہونا۔ گھبرانا۔ وَیَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ (اور جس دن پھونکا جائے گا صور میں تو دہشت زدہ ہو جائیں گے وہ جو آسمانوں میں ہیں اور وہ جو زمین میں ہیں۔) 27:87

فَزَعٌ اسم ذات بھی ہے۔ دہشت۔ گھبراہٹ۔ زیر مطالعہ آیت۔103۔

(تفعیل) تَفْزِیْعًا کسی سے دہشت دور کرنا۔ حَتّٰی اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِھِمْ (یہاں تک کہ جب دہشت دور کر دی جائے گی ان کے دلوں سے) 34:23

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَـطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ  ۭ كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ  ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا  ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ ١٠٤؁
[ يَوْمَ: جس دن ] [ نَطْوِي: ہم لپیٹیں گے] [ السَّمَاۗءَ: آسمان کو] [ كَـطَيِّ السِّجِلِ: جیسے عدالتی کاروائی کا لپیٹنا] [ لِلْكُتُبِ: لکھی ہوئی ہونے کے لئے] [ كَمَا: جیسے کہ] [ بَدَانآ: ہم نے ابتدا کی] [ اَوَّلَ خَلْقٍ: پہلی تخلیق کی] [ نُّعِيْدُهٗ: (ویسے ہی) ہم واپس لائیں گے اس کو] [ وَعْدًا عَلَيْنَا: وعدہ ہوتے ہوئے ہم پر] [ انا: بیشک] [ كُنَا: ہم ہیں] [ فٰعِلِيْنَ: (وعدہ پورا) کرنے والے]

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ ١٠٥؁
[ وَلَقَدْ كَتَبْنَا: اور بیشک ہم لکھ چکے ہیں] [ فِي الزَّبُوْرِ: زبور میں] [ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ: نصیحت کے بعد] [ ان: کہ ] [ الْاَرْضَ: یہ زمین] [ يَرِثُهَا: وارث ہوں گے اس کے] [ عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ: میرے نیک بندے]

 

نوٹ۔1: آیت۔105 میں جس زمین کا ذکر ہے اس سے مراد جنت کی زمین ہے کیونکہ آیت۔104۔ میں بتایا ہے کہ ایک دن اللہ تعالیٰ اس آسمان یعنی موجودہ نظام شمسی کی بساط لپیٹ دے گا۔ یہی بات سورئہ ابراہیم کی آیت۔48۔ میں اس طرح آئی ہے کہ جس دن یہ زمین دوسری زمین سے اور آسمان دوسرے آسمان سے بدل دیئے جائیں گے۔ اس لئے آیت زیر مطالعہ میں دوبارہ تخلیق کی جانے والی زمین کا ذکر ہے اور اس کے وارث صالحین ہوں گے، یہ بات سورئہ زمر میں مزید واضح ہو جاتی ہے۔ جس میں آیت۔67 سے 73 تک قیامت قائم ہونے، حساب کتاب اور فیصلے ہونے، پھر دوزخیوں کے دوزخ میں اور جنتیوں کے جنت میں داخلے کا ذکر کرنے کے بعد آیت۔74۔ میں جنت میں داخل ہوتے وقت ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔ وہ کہیں گے تمام شکرو سپاس اس اللہ کے لئے ہے جس نے سچ کیا ہم سے اپنا وعدہ اور ہم کو وارث بنایا اس زمین کا کہ ہم ٹھکانہ بنائیں اس جنت میں سے جہاں ہم چاہیں۔

 آیت زیر مطالعہ میں زبور کا حوالہ ہے۔ ویسے تو زبور میں یہ بات جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہی ہوں گے لیکن باب۔37۔ تو پورے کا پورا اسی حقیقت کی وضاحت کے لئے مخصوص ہے۔ اس کی نوعیت قطعہ بند نظم کی مانند ہے جس میں پہلے وعظ و نصیحت کی باتیں آتی ہیں پھر ٹیپ کے بند کی طرح یہ بات آتی ہے کہ زمین اور ملک کے وارث خدا کے نیک بندے ہوں گے۔ اور تکرار کے ساتھ ہی یہ بشارت بھی ہے کہ یہ وراثت دائمی اور ابدی ہو گی۔ ظاہر ہے کہ یہ ابدی وراثت کی بشارت موجودہ زمین سے متعلق نہیں ہے۔ اس کی نہ تو کوئی چیز ابدی ہے اور نہ اس کی وراثت صالحین کے لئے مخصوص ہے۔ بلکہ یہ زمین اور اس کی ہر چیز فانی ہے اور اس میں نیک و بد دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک مدت تک کے لئے مہلت بخشی ہے۔

 موجودہ زمین میں عارضی وراثت جس قاعدے پر تقسیم ہوتی ہے اسے سورئہ اعراف کی آیت۔128۔ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ’’ زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے۔‘‘ مشیت الٰہی کے تحت یہ وراثت مومن و کافر سب کو ملتی ہے مگر جزائے اعمال کے طور پر نہیں بلکہ امتحان کے طور پر۔ جیسا کہ اس سے اگلی آیت۔129۔ میں فرمایا ’’ اور وہ تم کو زمین میں خلیفہ بنائے گا پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ اس وراثت میں ہمیشگی نہیں ہے۔ یہ محض ایک امتحان کا موقعہ ہے جو خدا کے ایک ضابطے کے مطابق مختلف قوموں کو باری باری دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس آخرت میں زمین کا دوامی بندوبست ہو گا اور اللہ تعالیٰ صرف مومنین صالحین کو اس کا وارث بنائے گا، امتحان کے طور پر نہیں بلکہ جزائے اعمال کے طور پر۔ یہ وراثت دائمی اور ابدی ہو گی۔ (تدبر قرآن اور تفہیم القرآن سے ماخوذ)۔

اِنَّ فِيْ ھٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِيْنَ ١٠٦؀ۭ
[ ان : بیشک] [ فِيْ ھٰذَا: اس میں] [ لَبَلٰغًا: ایک پیغام ہے] [ لِقَوْمٍ عٰبِدِيْنَ: بندگی کرنے والے لوگوں کے لئے]

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ  ١٠٧؁
[ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ: اور ہم نے نہیں بھیجا آپؐ کو] [ اِلَّا: مگر] [ رَحْمَةً: رحمت ہوتے ہوئے] [ لِلْعٰلَمِيْنَ: تمام جہانوں کے لئے]

قُلْ اِنَّمَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّـمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ١٠٨؁
[ قُلْ: آپؐ کہیے] [ انمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ يُوْحٰٓى: وحی کی جاتی ہے] [ اِلَيَّ: میری طرف] [ انمَآ: کہ بس] [ اِلٰــهُكُمْ: تم لوگوں کا الٰہ] [ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ: واحد الٰہ ہے] [ فَهَلْ: تو کیا] [ انتم: تم لوگ] [ مُّسْلِمُوْنَ: فرمانبرداری کرنے والے ہو]

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُكُمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ  ۭ وَاِنْ اَدْرِيْٓ اَقَرِيْبٌ اَمْ بَعِيْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ ١٠٩؁
[ فَان: پھر اگر] [ تَوَلَوْا: وہ لوگ منھ موڑیں] [ فَقُلْ: تو آپؐ کہہ دیں] [ اٰذَنْتُكُمْ: میں نے آگاہ کیا تمھیں] [ عَلٰي سَوَاۗءٍ: برابر پر (یعنی پوری طرح)] [ وَان اَدْرِيْٓ: اور میں نہیں جانتا] [ اَ: آیا] [ قَرِيْبٌ: قریب ہے] [ اَمْ: یا] [ بَعِيْدٌ: دور ہے] [ مَا: وہ جس کا] [ تُوْعَدُوْنَ: تم لوگوں سے وعدہ کیا جاتا ہے]

اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَـــهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَيَعْلَمُ مَا تَكْتُمُوْنَ ١١٠؁
[ انهٗ: بیشک وہ ] [ يَعْلَمُ: جانتا ہے] [ الْجَـــهْرَ: نمایاں کئے جانے کو] [ مِنَ الْقَوْلِ: بات میں سے] [ وَيَعْلَمُ: اور وہ جانتا ہے] [ مَا: اس کو جو] [ تَكْتموْنَ: تم لوگ چھپاتے ہو]

وَاِنْ اَدْرِيْ لَعَلَّهٗ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ ١١١؁
[ وَان اَدْرِيْ: اور میں نہیں جانتا] [ لَعَلَهٗ: شاید وہ (وعدہ کی تاخیر)] [ فِتْنَةٌ: آزمائش ہو] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ وَمَتَاعٌ: اور برتنے کا سامان ہو] [ اِلٰى حِيْنٍ: ایک وقت تک]

قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ  ۭ وَرَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ  ١١٢؀ۧ
[ قٰلَ: (حضورؐ نے) کہا] [ رَبِ: اے میرے رب] [ احْكُمْ: تو فیصلہ کر دے] [
بِالْحَقِّ: حق کے ساتھ] [ وَرَبُّنَا: اور ہمارا رب] [ الرَّحْمٰنُ: وہ رحمن ہے] [ الْمُسْتَعَان : جس سے مدد مانگی جاتی ہے] [ عَلٰي مَا: اس پر جو] [ تَصِفُوْنَ: تم لوگ باتیں بناتے ہو]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ  Ǻ۝
[ يٰٓاَيُّهَا النَاسُ: اے لوگو] [ اتَّقُوْا: تم لوگ بچو] [ رَبَّكُمْ: اپنے رب (کی نافرمانی) سے] [ ان: یقینا] [ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ: اس گھڑی کا زلزلہ] [ شَيْءٌ عَظِيْمٌ: ایک عظیم چیز ہے]

 

نوٹ۔1: زیر مطالعہ پہلی آیت میں جس زلزلہ کا ذکر ہے یہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے۔ نبی
نے بتایا ہے کہ لفخ صور کے تین مواقع ہیں۔ پہلے نفخ فَزَع ہو گا جو عام سراسیمگی پیدا کرے گا۔ دوسرا نفخ صَعْق ہو گا جب سب مر کر گر جائیں گے اور تیسرے نفخ پر سب لوگ زندہ ہو کر خدا کے حضور پیش ہو جائیں گے۔ پہلے نفخ کی تفصیلی کیفیت بیان کرتے ہوئے نبی نے بتایا کہ اس وقت زمین کی حالت اس کشتی کی سی ہوگی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو۔ یا اس معلق قندیل کی سی ہوگی جس کو ہوا کے جھونکے بری طرح جھنجھوڑ رہے ہوں۔ (تفہیم القرآن)۔

يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ Ą۝
[ يَوْمَ: جس دن] [ تَرَوْنَهَا: تم لوگ دیکھو گے اس کو (کہ)] [ تَذْهَلُ: غافل ہو جائے گی] [ كُلُّ مُرْضِعَةٍ: ہر دودھ پلانے والی] [ عَمَآ: اس سے جس کو] [ اَرْضَعَتْ: اس نے دودھ پلایا] [ وَتَضَعُ: اور ڈال دے گی] [ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ: ہر حمل والی] [ حَمْلَهَا: اپنے حمل کو] [ وَتَرَى: اور تو دیکھے گا] [ النَاسَ: لوگوں کو] [ سُكٰرٰي: بہت نشہ میں] [ وَ: حالانکہ ] [ مَا هُمْ: وہ نہیں ہوں گے] [ بِسُكٰرٰي: نشہ میں] [ وَلٰكِنَّ: اور لیکن (بلکہ)] [ عَذَابَ اللّٰهِ: اللہ کا عذاب] [ شَدِيْدٌ: شدید ہے]

 

ذ ھـ ل

[ ذَھْلًا: (ف) بھول جانا۔ غافل ہو جانا۔ زیر مطالعہ آیت۔2

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّيَتَّبِـعُ كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍ Ǽ۝ۙ
[ وَمِنَ النَاسِ: اور لوگوں میں سے] [ مَنْ: وہ (بھی ہے) جو] [ يُّجَادِلُ: بحث کرتا ہے] [ فِي اللّٰهِ: اللہ (کے بارے) میں] [ بِغَيْرِ عِلْمٍ: کسی علم کے بغیر] [ وَّيَتَّبِـعُ: اور وہ پیروی کرتا ہے] [ كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍ: ہر ایک سرکش شیطان کی]

كُتِبَ عَلَيْهِ اَنَّهٗ مَنْ تَوَلَّاهُ فَاَنَّهٗ يُضِلُّهٗ وَيَهْدِيْهِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِ Ć۝
[ كُتِبَ: لکھا گیا] [ عَلَيْهِ: اس (شخص) پر] [ انهٗ: (کہ) حقیقت یہ ہے کہ] [ مَنْ: جو] [ تَوَلَّاهُ: دوست بناتا ہے اس (شیطان) کو] [ فَانهٗ: تو پھر تو وہ] [ يُضِلُّهٗ: گمراہ کرے گا اس کو] [ وَيَهْدِيْهِ: اور وہ راہنمائی کرے گا اس کی] [ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِ: شعلوں والی آگ کے عذاب کی طرف]

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ  ۭ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ  ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــــًٔا  ۭ وَتَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍۢ بَهِيْجٍ Ĉ۝
[ يٰٓاَيُّهَا النَاسُ: اے لوگو] [ ان: اگر] [ كُنْتم: تم لوگ ہو] [ فِيْ رَيْبٍ: کسی شک میں] [ مِّنَ الْبَعْثِ: (دوبارہ) اٹھائے جانے سے] [ فَانا: تو بیشک ہم نے] [ خَلَقْنٰكُمْ: پیدا کیا تم لوگوں کو] [ مِّنْ تُرَابٍ: ایک مٹی سے] [ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ: پھر ایک نطفہ سے] [ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ: پھر ایک جمے ہوئے خون سے] [ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ: پھر ایک چکنی کی ہوئی گوشت کی بوٹی سے] [ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ: اور بغیر چکنی کی ہوئی (بوٹی) سے] [ لِنُبَيِّنَ: تاکہ ہم واضح کریں] [ لَكُمْ: تمھارے لئے (حقائق کو)] [ وَنُقِرُّ: اور ہم ٹھہراتے ہیں] [ فِي الْاَرْحَامِ: رحموں میں] [ مَا: اس چیز کو جس کو] [ نَشَاۗءُ: ہم چاہتے ہیں] [ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى: ایک معین مدت تک] [ ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ: پھر ہم نکالتے ہیں تم لوگوں کو] [ طِفْلًا: ایک بچہ ہوتے ہوئے] [ ثُمَّ: پھر (ہم بڑھاتے ہیں)] [ لِتَبْلُغُوْٓا: تاکہ تم لوگ پہنچو] [ اَشُدَّكُمْ: اپنی پختگی کو] [ وَمِنْكُمْ مَنْ: اور تم میں وہ بھی ہے جس کو] [ يُّتَوَفّٰى: موت دی جاتی ہے] [ وَمِنْكُمْ مَنْ: اور تم میں وہ بھی ہے جو] [ يُّرَدُّ: لوٹا دیا جاتا ہے] [ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ: عمر کے سب سے گھٹیا (حصّہ) کی طرف] [ لِكَيْلَا يَعْلَمَ: تاکہ وہ نہ جانے] [ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ: جاننے کے بعد سے] [ شَيْــــًٔا: کچھ بھی] [ وَتَرَى: اور تو دیکھتا ہے] [ الْاَرْضَ: زمین کو] [ هَامِدَةً: بنجر حالت میں] [ فَاِذَآ: پھر جب ] [ انزَلْنَا: ہم اتارتے ہیں] [ عَلَيْهَا: اس پر] [ الْمَاۗءَ: پانی] [ اهْتَزَّتْ: تو وہ لہلہاتی ہے] [ وَرَبَتْ: اور ابھرتی ہے ] [ وَانۢبَتَتْ: اور وہ اگاتی ہے] [ مِنْ كُلِ زَوْجٍۢ بَهِيْجٍ : ہر ایک شاداب جوڑے میں سے]

 

 م ض غ

[ مَضْغًا: (ف) چبانا]

مُضْغَۃٌ گوشت کا چھوٹا ٹکڑا جو چبانے کے لئے منہ میں ڈالا جا سکے۔ گوشت کی بوٹی۔ زیر مطالعہ آیت۔5

ط ف ل

[ طُفُوْلَۃً: (خ) نرم و نازک ہونا۔]


 ظِفْلٌ ج اَطْفَالٌ۔ بچہ۔ زیر مطالعہ آیت۔5

ھـ م د

[ ھَمْدًا آگ کا بجھنا۔ ٹھنڈا ہونا۔ زمین کا روئیدگی کے بغیر ہونا۔]

[ ھَامِدَۃٌ فَاعِلَۃٌ کے وزن پر صفت ہے۔ بجھنے والی یعنی ٹھنڈی۔ بغیر روئیدگی کے ہونے والی یعنی بنجر۔ زیر مطالعہ آیت۔5]

ب ھـ ج

[ بَھَاجَۃً خوشنما ہونا۔ سرسبز و شاداب ہونا۔]

[ بَھْجَۃٌ اسم ذات ہے۔ خوشنمائی۔ شادابی۔ فَاَنْبَتْنَا بِہٖ حَدَاگقَ ذَاتَ بَھْجَۃٍ (پھر ہم نے اگائے اس سے باغات شادابی والے (27:60)]

[ بَھِیْجٌ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ خوشنما۔ شاداب۔ زیر مطالعہ آیت۔5]


 

نوٹ۔1: خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تَرَابٍ کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان ان مادوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے۔ یا یہ کہ نوع انسانی کا آغاز حضرت آدمؑ سے کیا گیا جو براہ راست مٹی سے بنائے گئے تھے اور پھر آگے نسل انسانی کا سلسلہ نطفہ سے چلا۔ اس کے آگے اشارہ ہے ان مختلف اطوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں جو آج کل صرف طاقتور دور بینوں ہی سے نظر آسکتی ہیں، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اس زمانے کے عام بدّو بھی واقف تھے۔ اسقاط کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے اس لئے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔2: اَرْذَلِ الْعُمُرِ کا مطلب ہے وہ عمر جس میں انسان کے عقل و شعور اور حواس میں خلل آنے لگے۔ نبی کریم
نے ایسی عمر سے پناہ مانگی ہے اور آپؐ یہ دعا بکثرت مانگتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ (یعنی بزدلی سے) وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ اُرَدُّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَ عَذَابِ الْقَبْرِ (معارف القرآن)

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّهٗ يُـحْيِ الْمَوْتٰى وَاَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ Č۝ۙ
[ ذٰلِكَ: یہ] [ بِان: اس سبب سے ہے کہ] [ اللّٰهَ: اللہ] [ هُوَ الْحَقُّ: ہی حق ہے] [ وَانهٗ: اور یہ کہ وہ ہی] [ يُـحْيِ: زندگی دیتا ہے] [ الْمَوْتٰى: مردوں کو] [ وَانهٗ: اور یہ کہ وہ] [ عَلٰي كُلِ شَيْءٍ: ہر چیز پر] [ قَدِيْرٌ: قدرت رکھنے والا ہے]

وَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيْهَا  ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُوْرِ Ċ۝
[ وَّان: اور یہ کہ] [ السَّاعَةَ: وہ گھڑی (یعنی قیامت)] [ اٰتِيَةٌ: آنے والی ہے] [ لَّا رَيْبَ: کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے] [ فِيْهَا: اس میں] [ وَان: اور یہ کہ] [ اللّٰهَ: اللہ] [ يَبْعَثُ: (دوبارہ) اٹھائے گا] [ مَنْ: ان کو جو] [ فِي الْقُبُوْرِ: قبروں میں ہیں]

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ Ď۝ۙ
[ وَمِنَ النَاسِ: اور لوگوں میں سے] [ مَنْ: وہ (بھی ہے) جو] [ يُّجَادِلُ: بحث کرتا ہے] [ فِي اللّٰهِ: اللہ (کے بارے) میں] [ بِغَيْرِ عِلْمٍ: کسی علم کے بغیر] [ وَّلَا هُدًى: اور نہ کسی ہدایت سے] [ وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ: اور نہ کسی روشن کتاب سے]

ثَانِيَ عِطْفِهٖ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ  ۭ لَهٗ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّنُذِيْقُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَذَابَ الْحَرِيْقِ  ۝
[ ثَانيَ عِطْفِهٖ: اپنے پہلو کو موڑنے والا ہوتے ہوئے] [ لِيُضِلَّ: تاکہ وہ گمراہ کرے (لوگوں کو)] [ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: اللہ کے راستہ سے] [ لَهٗ: اس کے لئے ہے] [ فِي الدُّنْيَا: دنیا میں] [ خِزْيٌ: ایک رسوائی] [ وَّنُذِيْقُهٗ: اور ہم چکھائیں گے اس کو] [ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: قیامت کے دن] [ عَذَابَ الْحَرِيْقِ: شعلے کا عذاب]

 

ع ط ف

[ عَطْفًا: (س) مائل ہونا۔ لگام موڑنا۔]

[ عِطْفٌ ہر چیز کا کنارہ۔ پہلو۔ زیر مطالعہ آیت۔9]


 

نوٹ۔1: کہتے ہیں مَرَّ ثَانِیَ عِطْفِہٖ وہ تکبر کے ساتھ چلا (المنجد)۔ اس طرح یہ دراصل تکبر کے اظہار کے لئے عربی محاورہ ہے۔ ’’ اس میں تین کیفیتیں شامل ہیں۔ جاہلانہ ضد اور ہٹ دھرمی۔ تکبر اور غرور نفس۔ اور کسی سمجھانے والے کی بات کی طرف التفات نہ کرنا۔‘‘ (تفہیم القرآن)۔ آدمی کے پاس دلیل نہ ہو اور وہ اپنے غلط موقف سے دستبردار ہونے کے لئے بھی تیار نہ ہو تو اس کے پندار کو بڑی چوٹ لگتی ہے۔ اس کا انتقام وہ اپنے غرور کا مظاہرہ کر کے لینے کی کوشش کرتا ہے۔ (تدبر القرآن)

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدٰكَ وَاَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ 10۝ۧ
[ ذٰلِكَ: (اور ہم کہیں گے) یہ] [ بِمَا: اس سبب سے ہے جو] [ قَدَّمَتْ: آگے بھیجا] [ يَدٰكَ: تیرے دونوں ہاتھوں نے] [ وَان: اور یہ کہ] [ اللّٰهَ: اللہ] [ لَيْسَ بِظَلَّامٍ: ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے] [ لِـلْعَبِيْدِ: بندوں پر]

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ  ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ 11؀
[ وَمِنَ النَاسِ: اور لوگوں میں سے] [ مَنْ: وہ (بھی ہے) جو] [ يَّعْبُدُ: بندگی کرتا ہے] [ اللّٰهَ: اللہ کی] [ عَلٰي حَرْفٍ: ایک کنارے پر] [ فَان: پھر اگر] [ اَصَابَهٗ: آ لگے اس کو] [ خَيْرُۨ: کوئی بھلائی] [ اطْـمَان: تو وہ مطمئن ہوتا ہے] [ بِهٖ: اس سے] [ وَان: اور اگر ] [ اَصَابَتْهُ: آ لگے اس کو] [ فِتْنَةُۨ: کوئی آزمائش] [ انقَلَبَ: تو وہ الٹا پھر جاتا ہے] [ عَلٰي وَجْهِهٖ: اپنے منہ کے بل] [ خَسِرَ: اس نے نقصان اٹھایا] [ الدُّنْيَا: دنیا میں] [ وَالْاٰخِرَةَ: اور آخرت میں] [ ذٰلِكَ: یہ] [ هُوَ الْخُسْرَان الْمُبِيْنُ: ہی صریح خسارہ ہے]

 

نوٹ۔2: کنارے کنارے اللہ اور اس کے رسول
کی اطاعت کرنے والے نزول قرآن کے وقت بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ آج کے دور میں ایسے مسلمانوں کے لئے اسلام ان کے گلے کا چھچھوندر ہے جو نہ اگلے بنے نہ نگلے بنے۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہو گئے ہیں۔ اب اگر اسلام چھوڑتے ہیں تو خاندان برادری کے رشتے ناطے کٹ جاتے ہیں۔ باپ کی وراثت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ وہ نقصان ہے جو یہ لوگ Afford نہیں کرسکتے۔ اور اگر اسلام پر پوری طرح عمل کرتے ہیں تو اپنے مغربی آقائوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ اس پریشانی میں کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہیں اور مولوی کو برا بھلا کہتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کی صحیح تعبیر نہیں کرتے۔ پھر خود قرآن و حدیث کی من مانی تاویلیں کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر بھی کسی کروٹ چین نصیب نہیں ہوتا۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر وہ محاورہ ذہن میں آتا ہے کہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا یعنی خَسِرَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔

يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهٗ وَمَا لَا يَنْفَعُهٗ  ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ 12۝ۚ
[ يَدْعُوْا: وہ پکارتا ہے] [ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے علاوہ] [ مَا: اس چیز کو جو] [ لَا يَضُرُّهٗ: نقصان نہیں پہنچاتی اس کو] [ وَمَا: اور اس کو جو] [ لَا يَنْفَعُهٗ: نفع نہیں دیتی اس کو] [ ذٰلِكَ: یہ] [ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ: ہی دور والی گمراہی ہے]

مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَاۗءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهٗ مَا يَغِيْظُ 15؀
[ مَنْ: جو] [ كَان: ہے (کہ)] [ يَظُنُّ: گمان کرتاہے] [ ان: کہ] [ لَّنْ يَّنْصُرَهُ: ہرگز مدد نہیں کرے گا ان ( نبیؐ) کی] [ اللّٰهُ: اللہ] [ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ: دنیا اور آخرت میں] [ فَلْيَمْدُدْ: تو اسے چاہئے کہ وہ تان لے] [ بِسَبَبٍ: ایک رسی کو] [ اِلَى السَّمَاۗءِ: آسمان تک] [ ثُمَّ لْيَقْطَعْ: پھر اسے چاہئے کہ وہ کاٹ دے (اللہ کی مدد کو)] [ فَلْيَنْظُرْ: پھر وہ دیکھے ] [ هَلْ يُذْهِبَنَّ: کیا لے جاتی ہے] [ كَيْدُهٗ: اس کی تدبیر] [ مَا: اس چیز کو جو] [ يَغِيْظُ: خون کھولاتی ہے (اس کا)]

 

نوٹ۔1: آیت۔15 کا حاصل یہ ہے کہ اسلام کا راستہ روکنے والے یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس کے دین کی مدد نہ کرے، تو یہ جبھی ہو سکتا ہے کہ جب معاذ اللہ آنحضرت
سے منصبِ نبوت سلب ہو جائے اور آپؐ پر وحی آنا منقطع ہو جائے۔ جو رسول اللہ سے وحی کو منقطع کرنے کا کام کرنا چاہتا ہے تو وہ کسی طرح آسمان پر پہنچے اور وہاں جا کر اس سلسلہ وحی کو ختم کر دے۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ تو پھر اسلام کے خلاف غیظ و غضب کا کیا نتیجہ۔ یہ تفسیر دُرِّ منثور میں ابن زید سے روایت کی ہے اور میرے نزدیک یہ سب سے بہتر اور صاف تفسیر ہے۔ قرطبی نے اسی تفسیر کو ابونحاس سے نقل کر کے فرمایا کہ یہ سب سے احسن تفسیر ہے اور حضرت ابن عباس  (رض)  سے بھی اس تفسیر کو نقل کیا گیا ہے۔ (معارف القرآن)

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ 16؀
[ وَكَذٰلِكَ: اور اس طرح] [ انزَلْنٰهُ: ہم نے اتارا اس (قرآن) کو] [ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ: واضح نشانیاں ہوتے ہوئے] [ وَّان اللّٰهَ: اور یہ کہ اللہ] [ يَهْدِيْ: ہدایت دیتا ہے] [ مَنْ: اس کو جسے] [ يُّرِيْدُ: وہ ارادہ کرتا ہے]

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَادُوْا وَالصّٰبِــِٕــيْنَ وَالنَّصٰرٰي وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُـوْٓا ڰ اِنَّ اللّٰهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ  17؀
[ ان الَّذِينَ: بیشک وہ لوگ جو] [ اٰمَنُوْا: ایمان لائے ] [ وَالَّذِينَ: اور وہ جو] [ هَادُوْا: یہودی ہوئے] [ وَالصّٰبِــِٕــيْنَ: اور صابئین] [ وَالنَّصٰرٰي: اور نصارٰی] [ وَالْمَجوسَ: اور مجوسی] [ وَالَّذِينَ: اور وہ جنھوں نے] [ اَشْرَكُـوْٓا: شرک کیا] [ ان اللّٰهَ: (تو) بیشک اللہ] [ يَفْصِلُ: فیصلہ کرے گا] [ بَيْنَهُمْ: ان کے مابیں] [ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: قیامت کے دن] [ ان اللّٰهَ: بیشک اللہ] [ عَلٰي كُلِ شَيْءٍ: ہر چیز پر] [ شَهِيْدٌ: عینی شاہد ہے]

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ  ۭ وَكَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ  ۭ وَمَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ 18؀ڍ
[ اَلَمْ تَرَ: کیا تو نے غور نہیں کیا] [ ان اللّٰهَ: کہ اللہ] [ يَسْجُدُ: سجدہ کرتے ہیں] [ لَهٗ: اس کو] [ مَنْ: وہ جو] [ فِي السَّمٰوٰتِ: آسمانوں میں ہیں] [ وَمَنْ: اور وہ جو] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں ہیں] [ وَالشَّمْسُ: اور سورج ] [ وَالْقَمَرُ: اور چاند ] [ وَالنُّجومُ: اور ستارے] [ وَالْجبالُ: اور پہاڑ] [ وَالشَّجَرُ: اور درخت] [ وَالدَّوَاۗبُّ: اور جانور ] [ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَاسِ: اور لوگوں میں سے اکثر] [ وَكَثِيْرٌ: اور اکثر (وہ ہیں)] [ حَقَّ: ثابت ہوا] [ عَلَيْهِ: جن پر] [ الْعَذَابُ: عذاب] [ وَمَنْ: اور جس کو] [ يُّهِنِ اللّٰهُ: ذلیل کرتاہے اللہ] [ فَمَا لَهٗ: تو نہیں ہے اس کے لئے] [ مِنْ مُّكْرِمٍ: کوئی بھی عزت دینے والا] [ ان اللّٰهَ: بیشک اللہ] [ يَفْعَلُ: کر گزرتا ہے] [ مَا: وہ جو] [ يَشَاۗءُ: وہ چاہتا ہے]

ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ ۡ فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ ۭ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ  19؀ۚ
[ ھٰذٰنِ: یہ] [ خَصْمٰنِ: دو حجت بحث کرنے والے (گروہ) ہیں] [ اخْتَصَمُوْا: جنھوں نے حجت تکرار کی] [ فِيْ رَبِهِمْ: اپنے رب (کے بارے) میں] [ فَالَّذِينَ: پس وہ لوگ جنھوں نے] [ كَفَرُوْا: انکار کیا] [ قُطِّعَتْ: کاٹے جائیں گے] [ لَهُمْ: ان کے لئے ] [ ثِيَابٌ: کپڑے] [ مِّنْ نَارٍ: کسی آگ میں سے] [ يُصَبُّ: انڈیلا جائے گا] [ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ: ان کے سروں کے اوپر سے [ الْحَمِيْمُ: کھولتا پانی]

 

س ب ب

[ صَبًّا: (ن) اوپر سے پانی گرانا۔ برسانا۔ انڈیلنا۔ زیر مطالعہ آیت۔19]


 

ترکیب: (آیت۔19 ) خَصْمٌ مصدر ہے اور مصدر کی تثنیہ اور جمع نہیں آتی۔ لیکن بعض مصادر اسم الفاعل کے معنی میں بھی آتے ہیں۔ ان معانی میں پھر ان کی تثنیہ اور جمع آتی ہیں۔ جیسے رَبٌّ (پالنا) مصدر ہے لیکن اسم الفاعل (پالنے والا) کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس معنی میں اس کی جمع ارباب آتی ہے۔ اسی طرح خَصْمٌ (زبانی جھگڑا کرنا) مصدر ہے لیکن یہاں یہ اسم الفاعل (زبانی جھگڑا کرنے والا) کے معنی میں آیا ہے اس لئے اس کا تثنیہ خَضْمٰنِ استعمال ہوا ہے۔

 

نوٹ۔1: آیت۔19۔ میں اللہ کے بارے میں جھگڑا کرنے والے تمام گروہوں کو ان کی کثرت کے باوجود دو فریقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک فریق وہ جو انبیاء کی بات مان کر اللہ کی صحیح بندگی اختیار کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو ان کی بات نہیں مانتا اور کفر کی راہ اختیار کرتا ہے۔ خواہ اس کے اندر آپس میں کتنے ہی اختلافات ہوں اور اس کے کفر نے کتنی ہی مختلف صورتیں اختیار کرلی ہوں۔ (تفہیم القرآن)

يُصْهَرُ بِهٖ مَا فِيْ بُطُوْنِهِمْ وَالْجُلُوْدُ 20؀ۭ
[ يُصْهَرُ: گلایا جائے گا] [ بِهٖ: اس سے] [ مَا: اس کو جو] [ فِيْ بُطُوْنِهِمْ: ان کے پیٹوں میں ہے] [ وَالْجُلُوْدُ: اور کھالوں کو (بھی)]

 

ص ھـ ر

[ صَھْرًا: (ف) ] (1) پگھلانا۔ گلانا (2) قریب و نزدیک کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔20

(مغاعلہ) مُصَاھَرَۃً ایک دوسرے کے قریب ہونا۔ شادی سے رشتہ دار بننا۔


 صِھْرٌ سسرالی رشتے داری۔ فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّ صِھْرًا (پھر اس نے بنایا اس کو رشتہ دار باپ دادا سے اور ناطے دار سسرال سے) 25:54

وَلَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيْدٍ  21؀
[ وَلَهُمْ: اور ان کے لئے] [ مَّقَامِعُ: ہتھوڑے ہیں] [ مِنْ حَدِيْدٍ: لوہے میں سے]

 

ق م ع

[ قَمْعًا: (ف) کسی چیز کو کوٹنا۔ ذلیل کرنا۔


 مِقْمَعٌ ج مَقَامِعُ۔ کوٹنے کا آلہ۔ ہتھوڑا۔ زیر مطالعہ آیت۔21

كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا  ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ 22؀ۧ
[ كُلَمَآ: جب کبھی] [ اَرَادُوْٓا: وہ ارادہ کرتے ہیں] [ ان: کہ] [ يَّخْرُجوا: وہ نکلیں] [ مِنْهَا: اس سے] [ مِنْ غَمٍّ: (اس کی) بےچینی سے] [ اُعِيْدُوْا: تو وہ لوٹا دیئے جائیں گے] [ فِيْهَا: اس میں]ۤ [ وَذُوْقُوْا: اور (کہا جائے گا) چکھو] [ عَذَابَ الْحَرِيْقِ: شعلے کا عذاب]

اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًا  ۭ وَلِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ 23؀
[ ان اللّٰهَ: بیشک اللہ] [ يُدْخِلُ: داخل کرے گا] [ الَّذِينَ: ان لوگوں کو جو] [ اٰمَنُوْا: ایمان لائے] [ وَعَمِلُوا: اور عمل کئے] [ الصّٰلِحٰتِ: نیکیوں کے] [ جَنّٰتٍ: ایسے باغات میں] [ تَجْرِيْ: بہتی ہیں] [ مِنْ تَحْتِهَا: جن کے نیچے سے ] [ الْانهٰرُ: نہریں] [ يُحَلَوْنَ: ان کو آراستہ کیا جائے گا] [ فِيْهَا: ان (باغات) میں] [ مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ: مثلاً سونے کے کنگنوں سے] [ وَّلُؤْلُؤًا: اور موتی سے] [ وَلِبَاسُهُمْ: اور ان کا لباس] [ فِيْهَا: ان (باغات) میں] [ حَرِيْرٌ: باریک ریشم ہے]

 

ل ء ل ء

[ لاَ ْٔلَأَۃً: (رباعی) ستارے یا بجلی کا چمکنا۔


 لُؤْ لُؤٌ موتی زیر مطالعہ آیت۔23

 

(آیت۔23)۔ یُحَلَّوْنَ کا نائب فاعل اس میں شامل ھُمْ کی ضمیر ہے جبکہ اس کا مفعول ثانی مِنْ اَسَاوِرَ بھی ہے اور لُؤْلُؤًا بھی ہے۔ اس لئے یہ حالت نصب میں ہے۔ مِنْ اَسَاوِرَ کا مِنْ بیانیہ ہے۔ اردو میں اس کا مفہوم ’’ جیسے‘‘ یا ’’ مثلاً‘‘ کے الفاظ سے ادا ہوتا ہے جبکہ مِنْ ذَھَبٍ کا مِنْ تبعیضیہ ہے۔ ترجمہ اسی لحاظ سے ہو گا۔

 

نوٹ۔2: آیت۔23۔ سے یہ شبہہ ہوتا ہے کہ کنگن پہننا عورتوں کا زیور ہے اور مردوں کے لئے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے سر پر تاج پہننا عام مردوں کا رواج نہیں ہے بلکہ شاہی اعزاز ہے اسی طرح کنگن پہننا بھی شاہی اعزاز ہے۔ اس لئے اہل جنت کو کنگن پہنائے جائیں گے۔

 رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ جو شخص ریشمی کپڑا دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں نہ پہنے گا اور جو دنیا میں شراب پئے گا وہ آخرت کی شراب سے محروم رہے گا اور جو دنیا میں سونے چاندی کے برتنوں میں پیئے گا وہ آخرت میں سونے چاندی کے برتنوں میں نہ پیئے گا۔ پھر آپؐ نے فرمایا یہ تینوں چیزیں اہل جنت کے لئے مخصوص ہیں۔ آپؐ کے ایک دوسرے ارشاد میں ہے کہ جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں نہ پہنے گا اگرچہ جنت میں داخل بھی ہوجائے۔ دوسرے اہل جنت ریشم پہنیں گے یہ نہیں پہن سکے گا۔ قرطبی نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ جنت میں اہل جنت کے درجات مختلف اور اعلیٰ و ادنیٰ ہوں گے۔ اس لئے یہ بھی اسی کی ایک صورت ہو گی۔ (معارف القرآن)

وَهُدُوْٓا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ښ وَهُدُوْٓا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِيْدِ  24؀
[ وَهُدُوْٓا: اور ان کی رہنمائی کی جائے گی] [ اِلَى الطَّيِّبِ: پاکیزہ کی طرف] [ مِنَ الْقَوْلِ: بات میں سے] [ وَهُدُوْٓا: اور ان کی رہنمائی کی جائے گی] [ اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِيْدِ: الحمید (یعنی اللہ تعالیٰ) کے راستے کی طرف

 

(آیت۔24)۔ یہاں پر اَلْحَمِیْدِ اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر نہیں آیا ہے بلکہ اس کے نام کے طور پر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے جو دوسرا لفظ قرآن میں اس کے نام کے طور پر آیا ہے وہ اَلرَّحْمٰن ہے۔ (حافظ احمد یار صاحب)۔ جیسے اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی (الرحمن یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر متمکن ہوا) 20:5۔

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِيْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَاۗءَۨ الْعَاكِفُ فِيْهِ وَالْبَادِ  ۭ وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۢ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ 25؀ۧ
[ ان الَّذِينَ: بیشک وہ لوگ جنھوں نے] [ كَفَرُوْا: انکار کیا] [ وَيَصُدُّوْنَ: اور روکتے ہیں (لوگوں کو)] [ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: اللہ کے راستے سے] [ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: اور مسجد حرام سے] [ الَّذِي: وہ (مسجد) ] [ جَعَلْنٰهُ: ہم نے بنایا جس کو] [ لِلنَاسِ: لوگوں کے لئے] [ سَوَاۗءَۨ: برابر (کا حق) ہے] [ الْعَاكِفُ: ٹھہرنے والے (یعنی مکہ کے شہری) کا] [ فِيْهِ: اس (مسجد) میں] [ وَالْبَادِ: اور صحرا نشین (یعنی آفاقی) کا] [ وَمَنْ: اور جو] [ يُّرِدْ: ارادہ کرے گا] [ فِيْهِ: اس (مسجد) میں] [ بِاِلْحَادٍۢ: کسی کج روی کا] [ بِظُلْمٍ: کسی ظلم کے ساتھ] [ نُّذِقْهُ: تو ہم چکھائیں گے اس کو] [ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ: ایک درد ناک عذاب میں سے]

 

(آیت۔25) سَوَائً کو اگر پچھلے جملے سے متعلق مانیں تو آگے اَلْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ کے کوئی معنی نہیں بنتے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ پچھلا جملہ لِلنَّاسِ پر ختم ہو گیا اور سَوَائً سے نیا جملہ شروع ہو رہا ہے۔ یہ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے اور یہ اَلْعَاکِفُ اور اَلْبَادِ کا حال ہے۔ نوٹ کرلیں کہ بَادٍ یہاں حالت رفع میں ہے۔

 

نوٹ۔3: آیت۔25۔ میں ہے کہ مسجد حرام پر مکہ کے شہریوں اور باہر سے آنے والے یعنی آفاقی، دونوں کا حق برابر ہے۔ اس ضمن میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ مسجد حرام اور حرم شریف مکہ کے وہ تمام حصّے جن سے افعال حج کا تعلق ہے، جیسے صفا مروہ کے درمیان کا میدان اور منٰی، عرفات اور مزدلفہ کا پورا میدان، یہ سب زمینیں دنیا کے مسلمانوں کے لئے وقف عام ہیں۔ نیز جس ظالمانہ الحاد کے نتیجے میں عذاب الیم کی وعید سنائی گئی ہے وہ بھی صرف مسجد حرام سے متعلق نہیں بلکہ مناسک حج سے متعلق سب ہی مقامات کے لئے ہے۔ (حافظ ابن قیم (رح) ) کسی شخص کی ذاتی ملکیت ان پر نہ کبھی ہوئی ہے، نہ ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کے علاوہ مکہ مکرمہ کے مکانات اور باقی حرم کی زمینوں کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ وہ بھی وقفِ عام ہیں۔ ان کا فروخت کرنا یا کرایہ پر دینا حرام ہے۔ دوسری رائے یہ ہے مکہ کے مکانات کسی کی ملکیت ہو سکتے ہیں۔ ان کی خرید و فروخت اور ان کو کرایہ پر دینا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح)  سے دو روایتیں منقول ہیں۔ ایک پہلے قول کے مطابق، دوسری دوسرے قول کے مطابق اور فتوٰی دوسرے قول پر ہے۔ (معارف القرآن)

وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ 26؀
[ وَاِذْ بَوَّانا: اور جب ہم نے نشاندہی کی] [ لِاِبْرٰهِيْمَ: ابراہیمؑ کے لئے] [ مَكَان الْبَيْتِ: اس گھر (یعنی خانۂ کعبہ) کی جگہ کی] [ ان لَّا تُشْرِكْ: (اور حکم دیا) کہ شریک مت کرنا] [ بِيْ: میرے ساتھ] [ شَيْـــــًٔا: کسی کو بھی] [ وَّطَهِرْ: اور پاک رکھنا] [ بَيْتِيَ: میرے گھرکو] [ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ: طواف کرنے والوں کے لئے] [ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ: اور قیام کرنے والوں کے لئے] [ وَالرُّكَّعِ: اور رکوع کرنے والوں کے لئے] [ السُّجودِ: سجدہ کرنے والوں کے لئے]

وَاَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ 27؀ۙ
[ وَاَذِّنْ: اور آپؑ اعلان کریں] [ فِي النَاسِ: لوگوں میں] [ بِالْحَجِّ: حج کے لئے] [ يَاْتُوْكَ: تو وہ لوگ آئیں گے آپؑ کے پاس] [ رِجَالًا: پیدل چلنے والے ہوتے ہوئے] [ وَّعَلٰي كُلِ ضَامِرٍ: اور ہر ایک دبلی پتلی (سواری) پر] [ يَاْتِيْنَ: وہ سب (سواریاں) آئیں گی] [ مِنْ كُلِ فَجٍّ عَمِيْقٍ: ہر ایک کشادہ دور دراز راستوں سے]

 

ض م ر

[ ضُمُوْرً: (ن) دبلا پتلا ہونا۔ نحیف و لاغر ہونا۔


 ضَامِرٌ فَاعِلٌ کے وزن پر صفت۔ دبلا۔ لاغر۔ زیر مطالعہ آیت۔27

ع م ق

[ عُمْقًا: (س۔ ک) (1) دور دراز ہونا۔ لمبا یا طویل ہونا۔ (2) گہرا ہونا۔

عَمِیْقٌ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ لمبا۔ گہرا۔ زیر مطالعہ آیت۔27

لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ  ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْرَ 28؀ۡ
[ لِيَشْهَدُوْا: تاکہ وہ دیکھیں] [ مَنَافِعَ: فائدہ اٹھانے کی چیزوں کو] [ لَهُمْ: اپنے لئے] [ وَيَذْكُرُوا: اور یاد کریں] [ اسْمَ اللّٰهِ: اللہ کا نام] [ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ: معلوم دنوں میں] [ عَلٰي مَا: اس پر جو] [ رَزَقَهُمْ: اس نے عطا کیا ان کو] [ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْانعام: بےزبان مویشیوں میں سے] [ فَكُلُوْا: پھر تم لوگ کھائو] [ مِنْهَا: اس میں سے] [ وَاَطْعِمُوا: اور کھلائو] [ الْبَاۗىِٕسَ: بدحال کو] [ الْفَقِيْرَ: محتاج کو]

ثُمَّ لْيَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوْا بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ 29؀
[ ثُمَّ لْيَقْضُوْا: پھر چاہئے کہ وہ فارغ ہوں ] [ تَفَثَهُمْ: اپنے میل کچیل سے] [ وَلْيُوْفُوْا: اور چاہئے کہ وہ پوری کریں] [ نُذُوْرَهُمْ: اپنی منتیں] [ وَلْيَطَّوَّفُوْا: اور چاہئے کہ وہ طواف کریں] [ بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ: اس قدیم گھر کا]

 

ت ف ث

[ تَفَثًا: (س) کسی چیز پر میل کچیل چڑھ جانا۔


 تَفَثٌ اسم ذات بھی ہے۔ میل کچیل۔ زیر مطالعہ آیت۔29

ع ت ق

[ عَتْقًا: (ص۔ ن) (1) آزاد ہونا۔ (2) پرانا ہونا۔


 عَتِیْقٌ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ آزاد۔ پرانا۔ زیر مطالعہ آیت۔29۔

 

نوٹ۔1: حضرت ابن عباس  (رض)  سے نقل کیا گیا ہے کہ جب ابراہیمؑ کو حج کے اعلان کا حکم ہوا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ (یہاں تو میدان ہے کوئی سننے والا نہیں) جہاں آبادی ہے وہاں میری آواز کیسے پہنچے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کی ذمہ داری صرف اعلان کرنے کی ہے’ اس کو ساری دنیا میں پہنچانے کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا۔ بعض روایات میں ہے کہ انھوں نے جبل ابی قبیس پر چڑھ کر یہ اعلان کیا۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ابراہیمؑ کی یہ آواز اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں پہنچا دی۔ صرف اس وقت کے زندہ انسانوں تک ہی نہیں بلکہ جو انسان آئندہ تاقیامت پیدا ہونے والے تھے ان سب تک یہ آواز پہنچا دی گئی۔ جس جس نے اس آواز کے جواب میں لبیک اللھم لبیک کہا اسے حج نصیب ہو گا۔ حضرت ابن عباس  (رض)  نے فرمایا کہ حج کے تلبیہ کی اصل بنیاد یہی نداء ابراہیمی کا جواب ہے (معارف القرآن)

ذٰلِكَ  ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ  ۭ وَاُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ 30؀ۙ
[ ذٰلِكَ: یہ ہے [ وَمَنْ: اور جو] [ يُّعَظِّمْ: تعظیم کرتاہے] [ حُرُمٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی حرمتوں کی] [ فَهُوَ: تو وہ] [ خَيْرٌ: بہتر ہے] [ لَهٗ: اس کے لئے] [ عِنْدَ رَبِهٖ: اس کے رب کے پاس] [ وَاُحِلَّتْ: اور حلال کئے گئے] [ لَكُمُ: تم لوگوں کے لئے] [ الْانعام: چوپائے] [ اِلَّا مَا: سوائے اس کے جو] [ يُتْلٰى عَلَيْكُمْ: پڑھ کر سنایا جاتا ہے تم کو] [ فَاجْتَنِبُوا: پس تم لوگ بچو] [ الرِّجس: گندگی سے] [ مِنَ الْاَوْثَان: مثلاً بتوں سے] [ وَاجْتَنِبُوْا: اور تم لوگ بچو] [ قَوْلَ الزُّوْرِ: جھوٹ کی بات سے]

 

و ث ن

[ وُثُوْنًا: (ض) عہد پر جمے رہنا۔ ثابت رہنا۔


 وَ ثَنٌ ج اَوْثَانٌ۔ بت۔ زیر مطالعہ آیت۔30۔

حُنَفَاۗءَ لِلّٰهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهٖ ۭ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ 31؀
[ حُنَفَاۗءَ: یکسو ہوتے ہوئے] [ للّٰهِ: اللہ کے لئے] [ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهٖ: اس کے ساتھ (کسی کو) شریک کرنے والے نہ ہوتے ہوئے] [ وَمَنْ: اور جو] [ يُّشْرِكْ: شرک کرتا ہے] [ بِاللّٰهِ: اللہ کے ساتھ] [ فَكَانمَا: تو وہ اس کی مانند ہے کہ جو] [ خَرَّ: گرا] [ مِنَ السَّمَاۗءِ: آسمان سے] [ فَتَخْطَفُهُ: پھر اچک لیتے ہیں اس کو] [ الطَّيْرُ: پرندے] [ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ: یا گراتی ہے اس کو] [ الرِّيْحُ: ہوا] [ فِيْ مَكَان سَحِيْقٍ: کسی دور والی جگہ میں]

 

س ح ق

[ سُحْقًا: (س) ] دور ہونا۔


 سُحْقٌ اسم ذات بھی ہے۔ دوری۔ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ (پس دوری سے دوزخ والوں کے لئے) 67:11۔

 سَحِیْقٌ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ دور۔ زیر مطالعہ آیت۔31۔

ذٰلِكَ  ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ  32؀
[ ذٰلِكَ: یہ ہے]ۤ [ وَمَنْ: اور جو] [ يُّعَظِّمْ: تعظیم کرتا ہے] [ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ: اللہ کا شعور حاصل کرنے کی علامتوں کی] [ فَانهَا: تو یقینا یہ] [ مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ: دلوں کے تقوٰی میں سے ہے]

لَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَآ اِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ 33؀ۧ
[ لَكُمْ: تم لوگوں کے لئے] [ فِيْهَا: ان (چوپایوں) میں] [ مَنَافِعُ: کچھ فائدہ اٹھانے کی چیزیں ہیں] [ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى: ایک مقررہ مدت تک] [ ثُمَّ مَحِلُّهَآ: پھر ان (چوپایوں) کی منزل] [ اِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ: اس قدیم گھر کی طرف ہے]

 

نوٹ۔1: اہل عرب ہدی کے جانوروں کو بیت اللہ کی طرف جب لے جاتے تھے تو ان سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا، جیسے سواری کرنا، سامان لادنا، دودھ پینا وغیرہ، ان کے نزدیک گناہ تھا۔ اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے آیت۔33۔ میں فرمایا کہ ایک مقررہ مدت تک تم ان جانوروں سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ ایسا کرنا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف نہیں ہے۔ مقررہ مدت کی تفسیر میں اختلاف رائے ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ مقررہ مدت سے مراد یہ ہے کہ جب تک جانور کو قربانی کے لئے نامزد کر کے اسے ہدی سے موسوم نہ کردیا جائے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مقررہ مدت سے مراد قربانی کا وقت ہے۔ پہلی رائے اس لحاظ سے کمزور ہے کہ ہدی کے سوا دوسرے جانوروں سے استفادہ کرنے کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا نہ ہے۔ اس لئے مذکورہ آیت میں استفادہ کی اجازت ہدی کے جانوروں سے متعلق ہے۔ شوافع نے دوسری رائے کو اختیار کیا ہے جبکہ حنفی پہلی رائے کے قائل ہیں لیکن اتنی گنجائش دیتے ہیں کہ بشرط ضرورت استفادہ جائز ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ  ۭ فَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗٓ اَسْلِمُوْا  ۭ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ 34؀ۙ
[ وَلِكُلِ اُمَّةٍ: اور ہر امت کے لئے] [ جَعَلْنَا: ہم نے مقرر کیا] [ مَنْسَكًا: قربانی کا ایک طریقہ] [ لِيَذْكُرُوا: تاکہ وہ یاد کریں] [ اسْمَ اللّٰهِ: اللہ کے نام کو] [ عَلٰي مَا: اس پر جو] [ رَزَقَهُمْ: اس نے عطا کیا ان کو] [ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْانعام: بےزبان مویشیوں میں سے] [ فَاِلٰـهُكُمْ: پس تم لوگوں کا اِلٰہ] [ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ: واحد اِلٰہ ہے] [ فَلَهٗٓ: تو اس کی ہی] [ اَسْلِمُوْا: تم لوگ فرمانبرداری کرو] [ وَبَشِّرِ: اور آپؐ بشارت دیں] [ الْمُخْبِتِيْنَ: عاجزی کرنے والوں کو]

 

نوٹ۔1: آیت۔34۔ میں بتایا گیا ہے کہ شرائع الٰہی میں قربانی ایک قدیم ترین عبادت ہے۔ اس حقیقت کی شہادت کے لئے یہ کافی ہے کہ تورات اور قرآن دونوں میں حضرت آدمؑ کے بیٹے ہابیل کی قربانی کا ذکر موجود ہے (تدبر قرآن)۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں ہے۔ پچھلی سب امتوں کے بھی ذمہ قربانی کی عبادت لگائی گئی تھی۔ (معارف القرآن)

الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ عَلٰي مَآ اَصَابَهُمْ وَالْمُقِيْمِي الصَّلٰوةِ  ۙ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ  35؀
[ الَّذِينَ: وہ لوگ (کہ)] [ اِذَا: جب بھی] [ ذُكِرَ: ذکر کیا جاتا ہے] [ اللّٰهُ: اللہ کا] [ وَجِلَتْ: تو کانپ اٹھتے ہیں] [ قُلُوْبُهُمْ: ان کے دل] [ وَالصّٰبِرِيْنَ: اور صبر کرنے والوں کو] [ عَلٰي مَآ: اس پر جو] [ اَصَابَهُمْ: آپڑے ان پر] [ وَالْمُقِيْمِي الصَّلٰوةِ: اور نماز کے قائم رکھنے والوں کو] [ وَمِمَا: اور اس میں سے جو] [ رَزَقْنٰهُمْ: ہم نے عطا کیا ان کو] [ يُنْفِقُوْنَ: وہ لوگ خرچ کرتے ہیں]

 

ترکیب: آیت۔35۔ میں اَلْمُقِیْمِی الصَّلٰوۃِ آیا ہے۔ اس میں اَلْمُقِیْمِیْنَ کا نون اعرابی گرا ہوا ہے اور اَلصَّلٰوۃِ حالت جر میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ مرکب اضافی ہے لیکن یہاں مضاف پر لام تعریف لگا ہوا ہے۔ حافظ احمد یار صاحب کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں یہ واحد مقام ہے جہاں ایسا ہے۔ اس کی مختلف تاویلیں کی گئی ہیں لیکن ان کے خیال میں اس کی کوئی معقول تاویل نہیں ہے۔ اس لئے اس کو ایک استثنائی صورت قرار دینا بہتر ہے۔

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِيْهَا خَيْرٌ  ڰ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا صَوَاۗفَّ  ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ  ۭ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 36؀
[ وَالْبُدْنَ: اور مکہ میں قربانی کے جانوروں کو!] [ جَعَلْنٰهَا: ہم نے بنایا ان کو] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ: اللہ کا شعور حاصل کرنے کی علامتوں میں سے] [ لَكُمْ: تم لوگوں کے لئے] [ فِيْهَا: ان میں] [ خَيْرٌ: بھلائی ہے] [ فَاذْكُرُوا: پس تم لوگ یاد کرو] [ اسْمَ اللّٰهِ: اللہ کا نام] [ عَلَيْهَا: ان پر] [ صَوَاۗفَّ: (ان کی) قطار بنانے والے ہوتے ہوئے] [ فَاِذَا: پھر جب] وَجبتْ: گر جائیں ] [ جُنُوْبُهَا: ان کے پہلو] [ فَكُلُوْا: تو تم لوگ کھائو] [ مِنْهَا: ان میں سے] [ وَاَطْعِمُوا: اور کھلائو] [ الْقَانعَ: قناعت کرنے والے کو] [ وَالْمُعْتَرَّ: اور صورت سوال بننے والے کو] [ كَذٰلِكَ: اس طرح] [ سَخَّرْنٰهَا: ہم نے مسخر کیا ان کو] [ لَكُمْ: تمھارے لئے] [ لَعَلَّكُمْ: شاید کہ تم لوگ] [ تَشْكُرُوْنَ: شکر کرو]

 

و ج ب

[ وَجُوْبًا: (ض) ثابت و لازم ہونا۔ واجب ہونا۔ اس معنی میں قرآن میں استعمال نہیں ہوا۔


 وَجْبًا کسی چیز کا زمین پر گرنا۔ سورج کا ڈوبنا۔ زیر مطالعہ آیت۔36۔

ع ر ر

[ عَرًّا (1): (ن۔ ض) خارش زدہ ہونا۔ (2) سائل بن کر آنا۔


 مَعَرَّۃٌ اسم ذات ہے۔ تکلیف۔ برائی۔ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْھُمْ مَّعَرَّۃٌ بِغَیْرِ عِلْمٍ (نتیجۃً آ لگے تم لوگوں کو ان سے کوئی برائی کسی علم کے بغیر) 48:25

(افتعال) اِعْتِرَارًا بغیر سوال کے بخشش کے لئے آنا (المنجد) مانگنے کے لئے سامنے آنا لیکن منہ سے کچھ نہ کہنا۔ صورت سوال بننا (حافظ احمد یار صاحب)

 مُعْتَرٌّ اسم الفاعل ہے۔ صورت سوال بننے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔36

 

نوٹ۔1: یہاں قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے۔ وہ صرف حاجیوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ ہر ذی استطاعت مسلمانوں کے لئے عام ہے، جہاں بھی وہ ہوں۔ یہ بات متعدد احادیث میں وارد ہوئی ہے اور بکثرت روایات سے ثابت ہے کہ نبی
خود مدینہ کے زمانۂ قیام میں ہر سال بقر عید کے موقع پر قربانی کرتے رہے ہیں اور مسلمانوں میں آپؐ کی سنت سے یہ طریقہ جاری ہوا۔ رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ جو شخص استطاعت رکھتا ہو پھر قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کرلیا اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہئے اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پا لیا۔ پس یہ بات شک و شبہہ سے بالا تر ہے کہ بقر عید کے روز جو قربانی عام مسلمان دنیا بھر میں کرتے ہیں کہ نبی کی جاری کی ہوئی سنت ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یا سنت۔ ابراہیم نخعی، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام محمد اور امام ابویوسف اس کو واجب مانتے ہیں۔ جبکہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ سنت ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔2: پاکستان میں کچھ
NGOs اور فلاحی ادارے ایسے بھی ہیں جو زکٰوۃ اور قربانی کی کھالیں جمع کرتے ہیں اور لوگوں کو پٹّی بھی پڑھاتے ہیں کہ قربانی کرنے کے بجائے وہی پیسے اگر ان کو دے دیئے جائیں جو وہ غرباء پر خرچ کریں تو ثواب زیادہ ملے گا۔ پھر جب ان کا رمضان اور بقر عید کا سیزن گزر جاتا ہے تو وہ لوگ ناچ گانے کی محفلیں سجا کر پیسے اکٹھا کرتے ہیں۔ پیٹ ان کا پھر بھی نہیں بھرتا اور وہاں سے ھل من مزید کی ہی صدا آتی رہتی ہے۔ قربانی نہ کرنے کے لئے ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں جو قربانی کا حکم ہے وہ حاجیوں کے لئے ہے۔ ان کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمان بقر عید پر جو قربانی کرتے ہیں اس کا قرآن مجید میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ یہ مولویوں کی بنائی ہوئی باتیں ہیں، ان کی دلیل میں خامی یہ ہے کہ یہ لوگ آیت نمبر۔36۔ کو اس کے سیاق یعنی آیت نمبر۔34 سے الگ کر کے بیان کرتے ہیں۔ اگر دونوں آیتوں کو ملا کر غور کیا جائے تب پوری بات سمجھ میں آتی ہے۔

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ  ۭ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ  ۭ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ 37؀
[ لَنْ يَّنَالَ: ہرگز نہیں پہنچے گا] [ اللّٰهَ: اللہ کو] [ لُحُوْمُهَا: ان کا گوشت] [ وَلَا دِمَاۗؤُهَا: اور نہ ہی ان کا خون] [ وَلٰكِنْ: اور لیکن] [ يَّنَالُهُ: پہنچتاہے اس کو] [ التَّقْوٰي: تقوٰی] [ مِنْكُمْ: تم لوگوں سے] [ كَذٰلِكَ: اس طرح] [ سَخَّرَهَا: اس نے مسخر کیا ان کو] [ لَكُمْ: تم لوگوں کے لئے] [ لِتُكَبِرُوا: تاکہ تم بڑائی بیان کرو] [ اللّٰهَ: اللہ کی ] [ عَلٰي مَا: اس پر جس کی] [ هَدٰىكُمْ: اس نے ہدایت کی تم کو] [ وَبَشِّرِ: اور آپؐ بشارت دیجیے] [ الْمُحْسِنِيْنَ: بلا کم وکاست کام کرنے والوں کو]

اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ 38؀ۧ
[ ان اللّٰهَ: بیشک اللہ] [ يُدٰفِعُ: ہٹاتا ہے (برائی کو)] [ عَنِ الَّذِينَ: ان لوگوں سے جو] [ اٰمَنُوْا: ایمان لائے] [ ان اللّٰهَ: بیشک اللہ] [ لَا يُحِبُّ: پسند نہیں کرتا] [ كُلَّ خَوَّان: کسی بھی بار بار وعدہ خلافی کرنے والے کو] [ كَفُوْرٍ: انتہائی ناشکری کرنے والے کو]

 

 آیت نمبر۔34۔ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کی عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا تھا۔ پھر یہ کہ تم لوگوں کا اِلٰہ بھی وہی اِلٰہ ہے جو ان امتوں کا ہے۔ اس کے آگے اس کا منطقی نتیجہ محذوف (
understood) چھوڑ دیا ہے یعنی اس لئے تم لوگوں کا بھی قربانی کا ایک طریقۂ عبادت ہے۔ پھر فرمایا فَلَہٗ اَسْلِمُوْا (پس اس کی ہی تم لوگ فرمانبرداری کرو)۔ یعنی اس اِلٰہ کی فرمانبرداری کرو جس نے ہر امت کے لئے قربانی کی عبادت مقرر کی ہے اور اپنی قربانی کی عبادت میں عقلی گھوڑے مت دوڑائو۔ اس کے بعد آیت۔36۔ میں اَلْبُدْنُ یعنی مکہ میں قربان کئے جانے والے جانوروں کے لئے بتایا کہ یہ شعائر اللہ ہیں۔ پھر آیت۔37۔ میں بتایا کہ قربانی کہیں بھی ہو، ان سب کی روح ایک ہی ہے اور وہ ہے تقوٰی، یعنی اس وقت سے ڈرنا جب اللہ کے سامنے جوابدہی کے لئے کھڑا ہونا ہے اور اللہ کی نافرمانی سے بچنا۔

 آیت۔34۔ میں ہم نے جو بات محذوف مانی ہے اس کی سند رسول اللہ
کا وہ عمل ہے جو تواتر سے ثابت ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آپ نے حج تو ایک کیا ہے۔ اگر قربانی کا حکم صرف حاجیوں کے لئے ہوتا تو آپ حج میں قربانی کرتے اور باقی سالوں میں نہ کرتے یا کبھی کر لیتے، کبھی نہ کرتے۔ لیکن آپ نے مدینہ میں بلاناغہ ہر سال نہ صرف خود قربانی کی بلکہ لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا اور اس کے لئے اتنی تاکید کی کہ کسی صاحب استطاعت نے اگر قربانی نہیں کرنی ہے تو وہ عیدگاہ میں نہ آئے۔ آپ نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ بقر عید کی نماز کے بعد سے تین دن تک جو قربانی ہوگی وہ اللہ کی مقرر کردہ عبادتِ قربانی میں شمار ہوگی بشرطِ نیت۔ اس کے بعد سے اگلے سال بقر عید کی نماز سے پہلے تک جتنی قربانیاں ہوں گی وہ بقر عید کی عبادت میں شمار نہیں ہوں گی۔ یہ مذکورہ آیت کی عملی تفسیر ہے۔

 ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ بقر عید کی قربانی واجب ہے یا سنت۔ اگر سنت بھی مانا جائے تو ماننا پڑے گا کہ یہ سنتِ غیر مؤکدہ یعنی مستحب نہیں ہے کہ کرلے تو ثواب ہے اور نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے جو واجب کے ہی درجہ میں ہوتی ہے۔ اس کے نہ کرنے میں سب سے بڑا حرج یہ ہے کہ یہ عبادت نہ کرنے والے کا عیدگاہ میں آنا اللہ کے حبیب
کو پسند نہیں ہے۔

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا  ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ  39؀ۙ
[ اُذِنَ: اجازت دی گئی] [ لِلَّذِيْنَ: ان کے لئے جن سے] [ يُقٰتَلُوْنَ: جنگ کی جاتی ہے] [ بِانهُمْ: اس وجہ سے کہ ان پر] [ ظُلِمُوْا: ظلم کیا گیا] [ وَان اللّٰهَ: اور بیشک اللہ] [ عَلٰي نَصْرِهِمْ: انکی مدد کرنے پر] [ لَقَدِيْرُۨ: یقینا قدرت رکھنے والا ہے]

 

نوٹ۔1: آیت۔39۔ پہلی آیت ہے جو قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس میں صرف اجازت دی گئی ہے۔ بعد میں سورئہ بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کا حکم دیا گیا ہے۔ اجازت اور حکم میں صرف چند مہینوں کا فصل ہے۔ اجازت کی یہ آیت ذی الحجہ 1 ھ میں نازل ہوئی اور حکم جنگ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان 2 ھ میں نازل ہوا۔ (تفہیم القرآن)

الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ  ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا  ۭوَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ 40؀
[ الَّذِينَ: وہ لوگ جن کو] [ اُخْرِجوا: نکالا گیا] [ مِنْ دِيَارِهِمْ: ان کے گھر سے] [ بِغَيْرِ حَقٍّ: کسی حق کے بغیر] [ اِلَّآ ان: مگر (اس لئے) کہ] [ يَّقُوْلُوْا: وہ لوگ کہتے ہیں (کہ)] [ رَبُّنَا: ہمارا رب] [ اللّٰهُ: اللہ ہے] [ وَلَوْلَا: اور اگر نہ ہوتا] [ دَفْعُ اللّٰهِ: اللہ کا دفع کرنا] [ النَاسَ: لوگوں کو] [ بَعْضَهُمْ: ان کے بعض کو] [ بِبَعْضٍ: بعض سے] [ لَّهُدِّمَتْ: تو ضرور ڈھائی جاتیں] [ صَوَامِعُ: خانقاہیں] [ وَبِيَعٌ: اور (نصارٰی کی) عبادت گاہیں] [ وَّصَلَوٰتٌ: اور (یہودیوں کے) عبادت خانے] [ وَّمَسٰجِدُ: اور مسجدیں] [ يُذْكَرُ: یاد کیا جاتا ہے] [ فِيْهَا: جن میں] [ اسْمُ اللّٰهِ: اللہ کا نام] [ كَثِيْرًا: کثرت سے] [ وَلَيَنْصُرَنَّ: اور لازماً مدد کرے گا] [ اللّٰهُ: اللہ] [ مَنْ: اس کی جو] [ يَّنْصُرُهٗ: مدد کرتاہے اس کی] [ ان اللّٰهَ: بیشک اللہ] [ لَقَوِيٌّ: یقینا قوی ہے] [ عَزِيْزٌ: بالادست ہے]

 

ھـ دم

[ ھَدْمًا: (ض) ] کسی چیز کو زمین پر گرا دینا۔ عمارت ڈھانا۔ زیر مطالعہ آیت۔40۔

ص م ع

[ صَمَعًا: (س) ] کانوں کا چھوٹا ہونے کے سبب سر سے چمٹا ہوا ہونا۔


 صَوْمَعَۃٌ ج صَوَامِعُ۔ ایسی عمارت جس کا سر لمبا اور نوکدار ہو جیسے گرجا گھر، راہب کی کوٹھری، خانقاہ۔ زیر مطالعہ آیت۔40

 

نوٹ۔2: آیت۔40۔ میں سب سے پہلے نصارٰی کی خانقاہوں اور ان کے گرجوں کا ذکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے جذبۂ جہاد پر سب سے زیادہ معترض نصارٰی ہی تھے۔ اگرچہ ان کی مخالفت کے محرکات بعض اور بھی تھے لیکن اس میں ان کے رہبانی تصور کو بڑا دخل تھا۔ قرآن نے ان کے اسی تصور پر یہاں ضرب لگائی ہے کہ جو لوگ جہاد کو دینداری کے خلاف قرار دے رہے ہیں وہ اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ اگر دینداری کا یہی تصور پہلے بھی ہوتا تو آج زمین پر خدا کی عبادت کا کوئی ایک گوشہ بھی محفوظ نہ ہوتا۔ یہاں نصارٰی اور یہود کی جن عبادتگاہوں کا حوالہ ہے، اصلاً ان کی حیثیت وہی تھی جو ہمارے ہاں مساجد کی ہے۔ ان میں خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب اہل کتاب شرک اور بدعت میں مبتلا ہوئے (تدبر قرآن)

نوٹ۔3: معروف کتاب ’’ اظہار الحق‘‘ کے مصنف مولانا رحمت اللہ کیرانوی (رح)
  کا کہنا ہے کہ جہاد کا حکم شریعت محمدیؐ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ گذشتہ پیغمبروں کو بھی اس کا حکم تھا اور انھوں نے جہاد کیا ہے۔ بائبل میں اس کی مثالیں اور شواہد بکثرت ہیں۔ مولانا نے ان میں سے صرف اکیس مثالیں نقل کی ہیں۔ ان کی کتاب کے اردو ترجمہ ’’ بائبل سے قرآن تک‘‘ کی جلد۔3۔ کے صفحات 455 سے 469 پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں کتاب استثناء کے باب۔20 کی آیات۔ 10 تا 17۔ کا حوالہ دے کر مولانا (رح)  فرماتے ہیں کہ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے چھ قبائل کے حق میں یہ حکم دیا تھا کہ ان میں سے ہر جاندار کو تلوار کی دھار سے قتل کیا جائے، خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں یا بچے، ان کے علاوہ دوسری قوموں کے لئے یہ حکم دیا گیا کہ پہلے ان کو صلح کی دعوت دی جائے، پھر اگر وہ قبول کرلیں اور اطاعت قبول کریں اور جزیہ ادا کرنا منظور کریں تو بہتر ہے اور اگر وہ تیار نہ ہوں اور لڑائی کریں تو ان پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے مردوں کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا ائے، عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا جائے اور ان کے جانوروں اور اموال کو لوٹ لیا جائے اور مجاہدین میں تقسیم کردیا جائے۔

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ 41؀
[ الَّذِينَ: وہ لوگ (کہ)] [ ان: اگر] [ مَّكَّنّٰهُمْ: ہم اختیار دیں ان کو] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں] [ اَقَامُوا: تو وہ قائم کریں گے] [ الصَّلٰوةَ: نماز کو] [ وَاٰتَوُا: اور پہنچائیں گے] [ الزَّكٰوةَ: زکٰوۃ کو] [ وَاَمَرُوْا: اور حکم دیں گے] [ بِالْمَعْرُوْفِ: بھلائی کا] [ وَنَهَوْا: اور منع کریں گے] [ عَنِ الْمُنْكَرِ: بُرائی سے] [ وَللّٰهِ: اور اللہ کے لئے ہی ہے] [ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ: تمام معاملات کا انجام]

وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّثَمُوْدُ 42؀ۙ
[ وَان: اور اگر] [ يُّكَذِّبُوْكَ: یہ لوگ جھٹلاتے ہیں آپ
کو] [ فَقَدْ كَذَّبَتْ: تو جھٹلا چکی ہے] [ قَبْلَهُمْ: ان سے پہلے] [ قَوْمُ نُوْحٍ: نوحؑ کی قوم] [ وَّعَادٌ: اور عاد] [ وَّثَمُوْدُ: اور ثمود]

وَقَوْمُ اِبْرٰهِيْمَ وَقَوْمُ لُوْطٍ 43؀ۙ
[ وَقَوْمُ اِبْرٰهِيْمَ: اور ابراہیمؑ کی قوم] [ وَقَوْمُ لُوْطٍ: اور لوطؑ کی قوم]

وَّاَصْحٰبُ مَدْيَنَ ۚ وَكُذِّبَ مُوْسٰى فَاَمْلَيْتُ لِلْكٰفِرِيْنَ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ ۚ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ 44؀
[ وَّاَصْحٰبُ مَدْيَنَ: اور مدین والے] [ وَكُذِّبَ: اور جھٹلایا گیا] [ مُوْسٰى: موسٰی علیہ السلام کو] [ فَاَمْلَيْتُ: تو میں نے ڈھیل دی] [ لِلْكٰفِرِيْنَ: انکار کرنے والوں کو] [ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ: پھر میں نے پکڑا ان کو] [ فَكَيْفَ: تو کیا] [ كَان: تھا] [ نَكِيْرِ: میرا عدم عرفان]

 

ترکیب: (آیت۔44) نَکِیْرِ کی جر بتا رہی ہے کہ یہاں یائے متکلم محذوف ہے یعنی یہ نَکِیْرِیْ ہے۔

فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ 45؀
[ فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ: تو بستیوں میں سے کتنی ہی ہیں] [ اَهْلَكْنٰهَا: ہم نے ہلاک کیا جن کو] [ وَ: اس حال میں کہ] [ هِىَ: وہ] [ ظَالِمَةٌ: ظلم کرنے والی تھیں] [ فَهِيَ: نتیجۃً وہ] [ خَاوِيَةٌ: اوندھی پڑی ہیں] [ عَلٰي عُرُوْشِهَا: اپنی چھتوں پر] [ وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ: اور کتنے ہی بیکار چھوڑے ہوئے کنویں ہیں] [ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ: اور کتنے ہی مزیّن کئے ہوئے محل (خالی پڑے) ہیں]

 

ب ء ر

[ بَأَرًا: (ف) ] گڑھا کھودنا۔


 بِئْرٌ کنواں۔ (مؤنث سماعی ہے) زیر مطالعہ آیت۔45۔

ع ط ل

[ عَطَالَۃً: (ن) ] مزدور کا بیکار ہونا۔

(تفعیل) تَعْطِیْلًا کسی چیز کا بیکار چھوڑ دینا۔ مویشیوں کو چرواہے کے بغیر چھوڑ دینا۔ وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (اور جب اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی) 81:4


 مُعَطَّلَۃٌ اسم المفعول ہے۔ بیکار چھوڑی ہوئی۔ زیر مطالعہ آیت۔45۔

 

(آیت۔45) بِئْرٍ اور قَصْرٍ کی جر بتا رہی ہے کہ یہ دونوں کَاَیِّنْ مِّنْ پر عطف ہیں۔

اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِهَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا  ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ 46؀
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا: تو کیا انھوں نے سیر نہیں کی] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں] [ فَتَكُوْنَ: تاکہ ہوتے] [ لَهُمْ: ان کے لئے] [ قُلُوْبٌ: کچھ ایسے دل] [ يَّعقلوْنَ: وہ لوگ عقل کرتے] [ بِهَآ: جن سے] [ اَوْ اٰذَان: یا کچھ ایسے کان] [ يَّسْمَعُوْنَ: وہ لوگ سنتے] [ بِهَا: جن سے ] [ فَانهَا: تو حقیقت یہ ہے کہ] [ لَا تَعْمَى: اندھی نہیں ہوتیں] [ الْاَبْصَارُ: آنکھیں] [ وَلٰكِنْ: اور لیکن] [ تَعْمَى: اندھے ہوتے ہیں] [ الْقُلُوْبُ: دل] [ الَّتِيْ: وہ جو] [ فِي الصُّدُوْرِ: سینوں میں ہیں]

 

(آیت۔46)۔ فَاِنَّھَا میں اِنَّھَا ضمیر الشان ہے۔

 

نوٹ۔1: آیت۔46۔ کا مطلب یہ ہے کہ تباہ شدہ تہذیبوں اور قوموں کے آثار اور کھنڈرات اللہ نے زمین پر چھوڑے ہی اس لئے ہیں کہ ان کو دیکھ کر اور ان کی داستانیں سن کر لوگ عبرت حاصل کریں اور اپنا طرز عمل درست کریں لیکن لوگ ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ عرب کے شعراء ان آثار پر تو خون کے آنسو روتے تھے اور لوگوں کو رلاتے تھے لیکن اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے تاریخ کے ان آثار اور کھنڈرات سے کوئی سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی حال آج کے ماہرین آثار قدیمہ کا ہے۔ انھوں نے کھدائیاں کر کے بےشمار آثار سے عجائب خانے تو بھر دیئے لیکن ان کی ساری تحقیق صرف اس پر مرتکز ہے کہ یہ آثار پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے ہیں یا سات ہزار برس پہلے کی تہذیب کے ہیں لیکن وہ اصل حقیقت جس کی طرف یہ آثار اشارہ کر رہے ہیں، کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ (تدبر قرآن سے ماخوذ)

نوٹ۔2: یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے ترجمہ سے قرآن نہیں پڑھا تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ قرآن میں کیا ہے۔ میں ایک بینک منیجر کے پاس بیٹھا تھا۔ اس کی میز پر ایک گلوب رکھا تھا جس کا آدھا حصّہ روشن تھا اور آدھا حصّہ اندھیرے میں تھا۔ پہلی نظر میں ایسا لگا کہ گلوب ساکت ہے لیکن غور سے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ وہ آہستہ آہستہ گردش کر رہا ہے اور اس کے علاقے بار بار اندھیرے سے نکل کر روشنی میں اور روشنی سے نکل کر اندھیرے میں جا رہے ہیں۔ پھر میں نے گھڑی سے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ اس گلوب کی ایک گردش ڈھائی منٹ میں پوری ہوتی ہے۔ اس وقت مجھے خیال آیا تھا کہ اس گلوب پر اگر کوئی مخلوق آباد ہوتی تو ان کا ایک دن ہمارے ڈھائی منٹ کے برابر ہوتا۔ پھر جب قرآن میں زیر مطالعہ آیت۔47۔ پڑھی تو مجھے وہ گلوب یاد آیا اور بات سمجھ میں آ گئی کہ اس کائنات میں کہیں وئی ایسا سیارہ موجود ہے جس کے گلوب کی ایک گردش ہمارے ایک ہزار سال میں پوری ہوتی ہے۔ پھر جب سورہ معارج ی آیت۔4۔ پڑھی تو معلوم ہوا کہ کوئی ایسا سیارہ بھی ہے جس کے گلوب کی ایک گردش ہمارے پچاس ہزار سال میں پوری ہوتی ہے۔


 میں نے سائنس نہیں پڑھی ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ آئن سٹائن کی
Time and space تھیوری کیا ہے۔ لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ کوئی مسلمان سائنسداں اس تھیوری کا جائزہ لے اور بتائے کہ یہ تھیوری قرآن کے حقائق کے مطابق ہے یا اس میں کسی ترمیم کی ضرورت ہے۔

وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ  ۭ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ 47؀
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ: اور یہ لوگ جلدی طلب کرتے ہیں آپ
سے] [ بِالْعَذَابِ: عذاب کو] [ وَلَنْ يُّخْلِفَ: اور ہرگز خلاف نہیں کرے گا] [ اللّٰهُ: اللہ] [ وَعْدَهٗ: اپنے وعدے کے] [ وَان: اور بیشک] [ يَوْمًا: ایک دن] [ عِنْدَ رَبِكَ: آپ کے رب کے پاس] [ كَاَلْفِ سَنَةٍ: ہزار سال کی مانند ہے] [ مِّمَا: اس میں سے جو] [ تَعُدُّوْنَ: تم لوگ گنتے ہو]

وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَمْلَيْتُ لَهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَا  ۚ وَاِلَيَّ الْمَصِيْرُ  48؀ۧ
[ وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ: اور بستیوں میں سے کتنی ہی ہیں] [ اَمْلَيْتُ: میں لے ڈھیل دی] [ لَهَا: جن کو] [ وَ: اس حال میں کہ] [ هِىَ: وہ] [ ظَالِمَةٌ: ظلم کرنے والی تھیں] [ ثُمَّ اَخَذْتُهَا: پھر میں نے پکڑا ان کو] [ وَاِلَيَّ: اور میری طرف ہی] [ الْمَصِيْرُ: لوٹنا ہے]

قُلْ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّمَآ اَنَا لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ 49؀ۚ
قُلْ [ آپ کہیے ] يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ [ اے لوگو] اِنَّمَآ [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] اَنَا [ میں ] لَكُمْ [ تم لوگوں کے لئے] نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ [ ایک واضح خبردار کرنے والا ہوں ]

فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ  50؀
فَالَّذِيْنَ [ پس وہ لوگ جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ] وَعَمِلُوا [ اور عمل کئے] الصّٰلِحٰتِ [ نیکیوں کے ] لَهُمْ [ ان کے لئے ] مَّغْفِرَةٌ [ مغفرت ہے ]وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ [ اور باعزت روزی ہے ]

وَالَّذِيْنَ سَعَوْا فِيْٓ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيْنَ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ 51؀
وَالَّذِيْنَ [ اور جن لوگوں نے ] سَعَوْا [ بھاگ دوڑ کی ] فِيْٓ اٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں میں ] مُعٰجِزِيْنَ [ (ان کو ) عاجز کرنے والے ہوتے ہوئے ] اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ ]اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ [ دوزخ والے ہیں ]

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ اِلَّآ اِذَا تَـمَنّىٰٓ اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْٓ اُمْنِيَّتِهٖ ۚ فَيَنْسَخُ اللّٰهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ  ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 52؀ۙ
وَمَآ اَرْسَلْنَا [ اور ہم نے نہیں بھیجا ] مِنْ قَبْلِكَ [ آپ سے پہلے ] مِنْ رَّسُوْلٍ [ کوئی بھی رسول ] وَّلَا نَبِيٍّ [ اور نہ ہی کوئی نبی ] اِلَّآ [ مگر یہ کہ ] اِذَا [ جب ] تَـمَنّىٰٓ [ وہ تمنا کرتے ] اَلْقَى [ تو ڈالتا ] الشَّيْطٰنُ [ شیطان ] فِيْٓ اُمْنِيَّتِهٖ ۚ[ ان کی خواہش میں ] فَيَنْسَخُ [ پھر منسوخ کرتا ہے ] اللّٰهُ [ اللہ ] مَا [ اس کو جو ] يُلْقِي [ ڈالتاہے ] الشَّيْطٰنُ [ شیطان ] ثُمَّ يُحْكِمُ [ پھر محکم کرتا ہے ] اللّٰهُ [ اللہ ] اٰيٰتِهٖ ۭ [ اپنی نشانیوں کو ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ] حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے ]



نوٹ ۔1: آیت نمبر ۔52 کے دو معانی کئے گئے ہیں ۔ ایک وہ جس کو ہم نے ترجیح دی ہے ۔ اس میں یہ محذوف ہے کہ نبی کس بات کی تمنا کرتا ہے اور شیطان ان کی تمنا میں کیا ڈالتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ نبی کی تمنا تو شب وروز یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کی ہدایت اترے ۔ اس کے لئے وہ طرح طرح کے جتن کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن شیاطین ہر وقت ان کی گھات میں رہتے ہیں اور جہاں ان کو نبی کی کوئی بات بنتی نظر آتی ہے ، فورا اسکے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے شروع کردیتے ہیں ۔ یہاں الشیطن پر لام جنس ہے اور اس سے مراد شیاطین جن وانس دونوں ہیں ۔ یعنی دونوں گٹھ جوڑ کر نبی کو شکست دینے کے لئے ایک متحدہ محاذ بنا لیتے ہیں ۔ (تدبر قرآن سے ماخوذ)

اس آیت کے دوسرے معنی کی بنیاد یہ ہے کی عربی میں تمنی کا لفظ تلاوت کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور امنیۃ تلاوت کی ہوئی بات کو بھی کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس آیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ جب کوئی نبی کوئی بات بیان کرتا یا اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے تو شیطان اس بیان کی ہوئی بات یا آیت کے بارے میں سننے والوں کے ذھن میں طرح طرح کے شکوک وشبہات پیدا کردیتا ہے ۔ مثلا نبی
نے آیت حرم علیکم المیتۃ (2: 173۔) پڑھ کرسنائی تو شیطان نے شبہ ڈالا کہ دیکھو اپنا مارا ہوا تو حلال اور اللہ کا مارا ہوا حرام کہتے ہیں ۔ (ترجمہ شیخ الہند سے ماخوذ)

لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْقَاسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَفِيْ شِقَاقٍۢ بَعِيْدٍ 53؀ۙ
لِّيَجْعَلَ [ تاکہ وہ بنائے ] مَا [ اس کو جو ] يُلْقِي [ ڈالتا ہے ] الشَّيْطٰنُ [ شیطان ] فِتْنَةً [ ایک آزمائش ] لِّلَّذِيْنَ [ ان کے لئے ]فِيْ قُلُوْبِهِمْ [ جن کے دلوں میں ] مَّرَضٌ [ کوئی بیماری ہے ] وَّالْقَاسِيَةِ [ اور سخت ہونے والے ہیں ] قُلُوْبُهُمْ ۭ [ جن کے دل ] وَاِنَّ [ اور بیشک ] الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والے ]لَفِيْ شِقَاقٍۢ بَعِيْدٍ [ یقینا ایک دور والی مخالفت میں ہیں ]

وَّلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوْا بِهٖ فَتُخْبِتَ لَهٗ قُلُوْبُهُمْ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 54؀
وَّلِيَعْلَمَ [ اور تاکہ جان لیں ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جن کو ] اُوْتُوا [ دیا گیا ] الْعِلْمَ [ علم ] اَنَّهُ [ کہ یہ ہی ] الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ [ حق ہے آپ کے رب (کی طرف) سے ] فَيُؤْمِنُوْا [ نتیجتا وہ لوگ ایمان لائیں ] بِهٖ [ اس پر ] فَتُخْبِتَ [ نتیجتا عاجزی اختیار کریں ] لَهٗ [ اس کے لئے ] قُلُوْبُهُمْ ۭ [ ان کے دل ]وَاِنَّ اللّٰهَ [ اور بیشک اللہ ] لَهَادِ الَّذِيْنَ [ یقینا ان کو ہدایت دینے والا ہے جو ] اٰمَنُوْٓا [ ایمان لائے ] اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ [ سیدھے راستے کی طرف ]

وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ يَاْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيْمٍ 55؀
وَلَا يَزَالُ [ اور ہمیشہ رہیں گے ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] كَفَرُوْا [ انکار کیا ]فِيْ مِرْيَةٍ [ کسی (نہ کسی ) شک میں ] مِّنْهُ [ اس سے ] حَتّٰى [ یہاں تک کہ ] تَاْتِيَهُمُ [ پہنچے ان کے پاس ] السَّاعَةُ [ وہ گھڑی (یعنی قیامت ) ] بَغْتَةً [ اچانک ] اَوْ يَاْتِيَهُمْ [ یا پہنچے ان کے پاس ] عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيْمٍ[ ایک بےبرکت دن کا عذاب ]



ع ق م : (س) عقما۔ کسی چیز کا ایسا خشک ہونا کہ اس میں کوئی چیز جذب نہ ہوسکے ۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے ۔ بےبرکت ہونا ۔ بانجھ ہونا۔ سخت ہونا ۔ خشک ہونا ۔ عقیم ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے ۔ بےبرکت ۔ بانجھ ، سخت ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 55۔

اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ ۭ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ 56؀
اَلْمُلْكُ [ کل بادشاہت ] يَوْمَىِٕذٍ[ اس دن ] لِّلّٰهِ ۭ [ اللہ کے لئے ہوگئی ] يَحْكُمُ [ وہ فیصلہ کرے گا ] بَيْنَهُمْ ۭ [ ان کے درمیان ] فَالَّذِيْنَ [ پھر وہ لوگ جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ] وَعَمِلُوا [ اور عمل کئے ] الصّٰلِحٰتِ [ نیکیوں کے] فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ [ سدابہار باغات میں ہوں گے ]

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا فَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ 57؀ۧ
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جنھوں نے ] كَفَرُوْا [ انکار کیا ] وَكَذَّبُوْا [ اور جھٹلایا ] بِاٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں کو ] فَاُولٰۗىِٕكَ [ تو وہ لوگ ہیں ] لَهُمْ [ جن کے لئے ] عَذَابٌ مُّهِيْنٌ [ ایک ذلیل کرنے والاعذاب ہوگا ]

وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًا  ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ 58؀
وَالَّذِيْنَ [ اور جنھوں نے ] هَاجَرُوْا [ ہجرت کی ] فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ میں ] ثُمَّ [ پھر ] قُتِلُوْٓا [ وہ قتل کئے گئے ]اَوْ [ یا ] مَاتُوْا [ مرگئے ] لَيَرْزُقَنَّهُمُ [ تو لازما روزی دے گا ان کو ] اللّٰهُ [ اللہ ] رِزْقًا [ جیسا خوبصورت روزی کا حق ہے]وَاِنَّ اللّٰهَ[ اور بیشک اللہ ] لَهُوَ [ یقینا وہی ] خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ [ روزی دینے والوں کا بہترین ہے ]

لَيُدْخِلَنَّهُمْ مُّدْخَلًا يَّرْضَوْنَهٗ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَعَلِيْمٌ حَلِيْمٌ  59؀
لَيُدْخِلَنَّهُمْ [ وہ لازما داخل کرے گا ان کو ] مُّدْخَلًا [ داخل کرنے کی ایسی جگہ میں ] يَّرْضَوْنَهٗ ۭ [ وہ لوگ پسند کریں گے جس کو ]وَاِنَّ اللّٰهَ [ اور بیشک اللہ ] لَعَلِيْمٌ [ یقینا جاننے والا ہے ] حَلِيْمٌ [ بردبارہے ]

ذٰلِكَ  ۚ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ 60؀
ذٰلِكَ ۚ [ یہ ہے ] وَمَنْ[ اور جو ] عَاقَبَ [ بدلہ لے ] بِمِثْلِ مَا [ اس کے جیسا ]عُوْقِبَ [ اس پر زیادتی کی گئی ] بِهٖ [ جیسی ] ثُمَّ [ پھر ] بُغِيَ [ چڑھائی کی گئی ] عَلَيْهِ [ اس پر ] لَيَنْصُرَنَّهُ [ تو لازما مدد کرے گا اس کی ] اللّٰهُ ۭ [ اللہ ] اِنَّ اللّٰهَ[ بیشک اللہ ] لَعَفُوٌّ [ یقینا بےانتہا درگزر کرنے والا ہے ] غَفُوْرٌ[ بخشنے والا ہے ]



نوٹ ۔1: ایک شخص نے اپنے دشمن سے برابر برابر بدلہ لے لیا جس کا تقاضہ یہ تھا کہ اب دونوں برابر ہوگئے آگے یہ سلسلہ ختم ہو۔ مگر دشمن نے مشتعل ہوکر مزید ظلم کیا تو یہ شخص پھر مظلوم ہی رہ گیا ۔ اس آیت میں ایسے مظلوم کی امداد کا وعدہ ہے ۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ آدمی پہلے یہ ظلم پر صبر کرے ۔ معاف کردے اور بدلہ نہ لے ۔ قرآن کریم کی متعدد ہدایات کے مطابق اس طرز عمل کا افضل ہونا ثابت ہے۔ شخص مذکور نے برابر کا بدلہ لیا تو اس نے افضل قرآنی ہدایات پر عمل ترک کردیا ۔ اس سے شبہ ہوسکتا تھا کہ اب یہ شاید اللہ کی نصرت سے محروم ہوجائے ۔ اس لئے آخر آیت میں ارشاد فرما دیا ان اللہ لعفو غفور [ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص سے افضل پر عمل نہ کرنے کی کوتاہی پر کوئی مواخذہ نہیں فرمائے گا بلکہ اب بھی اگر مخالف نے اس پر دوبارہ ظلم کیا تو اس کی امداد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگئی ۔ ( معارف القرآن)

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ 61؀
ذٰلِكَ [ یہ ] بِاَنَّ [ اس سبب سے کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ] يُوْلِجُ [ داخل کرتا ہے ] الَّيْلَ [ رات کو ] فِي النَّهَارِ [ دن میں ] وَيُوْلِجُ [ اور داخل کرتا ہے ] النَّهَارَ [ دن کو ] فِي الَّيْلِ [ رات میں ] وَاَنَّ [ اور یہ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ] سَمِيْعٌۢ [ سننے والا ہے [ بَصِيْرٌ[ دیکھنے والا ہے ]

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ الْبَاطِلُ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ 62؀
ذٰلِكَ [ یہ ] بِاَنَّ [ اس سبب سے کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ] هُوَ الْحَقُّ [ ہی حق ہے ] وَاَنَّ [ اور یہ کہ ] مَا [ وہ جس کو ] يَدْعُوْنَ [ یہ لوگ پکارتے ہیں ] مِنْ دُوْنِهٖ [ اس کے علاوہ [ هُوَ الْبَاطِلُ [ وہ ہی باطل ہے ] وَاَنَّ [ اور یہ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ] هُوَ الْعَلِيُّ [ ہی بالا تر ہے ] الْكَبِيْرُ [ بڑا ہے ]

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً  ۡ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ  63؀ۚ
اَلَمْ تَرَ [ کیا تو نے دیکھا ہی نہیں ] اَنَّ [ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ نے ] اَنْزَلَ [ اتارا ] مِنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے ] مَاۗءً ۡ [ کچھ پانی ] فَتُصْبِحُ [ تو ہوجاتی ہے ] الْاَرْضُ [ زمین ] مُخْضَرَّةً ۭ [ سرسبز ہوجانے والی ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] لَطِيْفٌ [ باریک بین ہے ] خَبِيْرٌ [ باخبر ہے ]

لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ  ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ 64؀ۧ
لَهٗ [ اس کا ہی ہے ] مَا [ وہ جو ] فِي السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں میں ہے ] وَمَا [ اور وہ جو ] فِي الْاَرْضِ ۭ [ زمین میں ہے ] وَاِنَّ اللّٰهَ [ اور بیشک اللہ ] لَهُوَ [ یقینا وہ ہی ہے ] الْغَنِيُّ [ بےنیاز ] الْحَمِيْدُ [ حمد کیا ہوا ]

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ  ۭ وَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ 65؀
اَلَمْ تَرَ [ کیا تو نے دیکھا ہی نہیں ] اَنَّ اللّٰهَ [ کہ اللہ نے ] سَخَّرَ [ مسخر کیا ] لَكُمْ [ تم لوگوں کے لئے ] مَّا [ اس کو جو ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ہے ] وَالْفُلْكَ [ اور کشتی کو ] تَجْرِيْ [ وہ چلتی ہے ] فِي الْبَحْرِ [ سمندر میں ] بِاَمْرِهٖ ۭ [ اس کے حکم سے ] وَيُمْسِكُ [ اور وہ تھامتا ہے ] السَّمَاۗءَ [ آسمان کو ] اَنْ [ کہ (کہیں ) ] تَقَعَ [ وہ گرپڑے ] عَلَي الْاَرْضِ [ زمین پر ] اِلَّا [ مگر ] بِاِذْنِهٖ ۭ [ اس کی اجازت سے [ اِنَّ اللّٰهَ[ بیشک اللہ ] بِالنَّاسِ [ لوگوں پر ] لَرَءُوْفٌ [ یقینا بےانتہا نرمی کرنے والا ہے ]رَّحِيْمٌ [ ہرحال میں رحم کرنے والا ہے ]

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَحْيَاكُمْ  ۡ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ  ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ  66؀
وَهُوَ [ اور وہ ] الَّذِيْٓ [ وہ ہے جس نے ] اَحْيَاكُمْ ۡ [ زندگی دی تم لوگوں کو ] ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ[ پھر وہ موت دے گا تم کو ] ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ۭ [ پھر وہ زندگی دے گا تم کو ]اِنَّ الْاِنْسَانَ [ بیشک انسان ]لَكَفُوْرٌ [ یقینا انتہائی ناشکرا ہے ]

لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ  ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْمٍ 67؀
لِكُلِّ اُمَّةٍ [ ہر ایک امت کے لئے ] جَعَلْنَا [ ہم نے مقرر کیا ] مَنْسَكًا [ بندگی کا ایک طریقہ ] هُمْ [ وہ لوگ ] نَاسِكُوْهُ [ بندگی کرنے والے ہیں اس (طریقے ) سے ] فَلَا يُنَازِعُنَّكَ [ پس وہ لوگ ہر گز جھگڑا نہ کریں آپ سے ] فِي الْاَمْرِ [ اس معاملہ میں ] وَادْعُ [ اور آپ دعوت دیں ] اِلٰى رَبِّكَ ۭ [ اپنے رب کی طرف ] اِنَّكَ [ بیشک آپ ] لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْمٍ[ یقینا سیدھی رہنمائی پر ہیں ]



نوٹ ۔ 1۔ آیت ۔67۔ کا مفہوم یہ ہے کہ مخالفین اسلام جو شریعت محمدیہ کے احکام میں بحث کرتے ہیں اور بنیاد یہ ہوتی ہے کہ ان کے مذہب میں وہ احکام نہ تھے تو وہ سن لیں کہ پچھلی کسی شریعت وکتاب سے نئی شریعت وکتاب کا معارضہ کرنا باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کو اس کے وقت میں ایک خاص شریعت وکتاب دی ۔ جس کا اتباع اس امت پر اس وقت تک درست تھا جب تک کوئی دوسری امت اور دوسری شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ آگئی اور جب دوسری شریعت آگئی تو اتباع اس جدید شریعت کا کرنا ہے ۔ اگر اس کا کوئی حکم پہلی شریعت کے مخالف ہے تو پہلے حکم کو منسوخ سمجھا جائے گا ۔ (معارف القرآن )

وَاِنْ جٰدَلُوْكَ فَقُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ 68؀
وَاِنْ [ اور اگر ] جٰدَلُوْكَ [ وہ لوگ بحث کریں آپ سے ] فَقُلِ [ تو آپ کہئے ] اللّٰهُ [ اللہ ] اَعْلَمُ [ خوب جانتا ہے ] بِمَا [ اس کو جو] تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ کرتے ہو]

اَللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ 69؀
اَللّٰهُ [ اللہ ] يَحْكُمُ [ فیصلہ کرے گا ] بَيْنَكُمْ [ تم لوگوں کے درمیان ] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ [ قیامت کے دن ] فِيْمَا [ اس چیز (کے بارے ) میں ] كُنْتُمْ [ تم لوگ ] فِيْهِ [ جس میں ] تَخْتَلِفُوْنَ [ اختلاف کرتے ہو]

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ  ۭ اِنَّ ذٰلِكَ فِيْ كِتٰبٍ  ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ 70؀
اَلَمْ تَعْلَمْ [ کیا تو نے جانا ہی نہیں ]اَنَّ اللّٰهَ [ کہ اللہ ] يَعْلَمُ [ جانتا ہے ] مَا [ اس کو جو ] فِي السَّمَاۗءِ[ آسمان میں ] وَالْاَرْضِ ۭ [ اور زمین میں ہے ] اِنَّ ذٰلِكَ [ بیشک یہ ] فِيْ كِتٰبٍ ۭ[ ایک کتاب میں ہے ] اِنَّ ذٰلِكَ [ بیشک یہ ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] يَسِيْرٌ [ آسان ہے ]

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّمَا لَيْسَ لَهُمْ بِهٖ عِلْمٌ ۭ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ 71؀
وَيَعْبُدُوْنَ [ اور وہ لوگ بندگی کرتے ہیں ] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ] مَا [ اس کی ] لَمْ يُنَزِّلْ [ اس نے اتاری ہی نہیں ] بِهٖ [ جس کی ] سُلْطٰنًا [ کوئی سند ] وَّمَا [ اور اس کی ] لَيْسَ لَهُمْ [ نہیں ہے ان کے لئے ] بِهٖ [ جس کا ] عِلْمٌ ۭ [ کوئی علم ] وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ[ اور نہیں ہے ظالموں کے لئے ] مِنْ نَّصِيْرٍ[ کوئی بھی مدد گار ]

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ  ۭ يَكَادُوْنَ يَسْطُوْنَ بِالَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا  ۭ قُلْ اَفَاُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكُمْ ۭ اَلنَّارُ  ۭ وَعَدَهَا اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا  ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ 72؀ۧ
وَاِذَا [ اور جب بھی ] تُتْلٰى عَلَيْهِمْ [ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان کو ] اٰيٰتُنَا [ ہماری آیتیں ] بَيِّنٰتٍ [ واضح ہوتے ہوئے ] تَعْرِفُ [ تو آپ پہنچانیں گے ] فِيْ وُجُوْهِ الَّذِيْنَ [ ان کے چہروں میں جنھوں نے ] كَفَرُوا [ انکار کیا ] الْمُنْكَرَ ۭ [ ناگواری کو ] يَكَادُوْنَ [ وہ ایسے لگتے ہیں کہ ] يَسْطُوْنَ [ حملہ کرکے مغلوب کریں ] بِالَّذِيْنَ [ ان کو جو ] يَتْلُوْنَ عَلَيْهِمْ [ پڑھ کر سناتے ہیں ان کو ] اٰيٰتِنَا ۭ [ ہماری آیتیں ] قُلْ [ آپ کہئے ] اَفَاُنَبِّئُكُمْ [ تو کیا میں خبردوں تم لوگوں کو ] بِشَرٍّ [ ایک ایسی برائی کی جو ] مِّنْ ذٰلِكُمْ ۭ [ اس سے ( زیادہ بری ) ہے ] اَلنَّارُ ۭ [ (وہ ) آگ ہے ] وَعَدَهَا [ وعدہ کیا جس کا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] الَّذِيْنَ [ ان سے جنھوں نے ] كَفَرُوْا ۭ [ انکار کیا ] وَبِئْسَ [ اور کتنی بری ہے وہ ] الْمَصِيْرُ [ لوٹنے کی جگہ ]



س ط و : (ن) سطوا ۔ کسی پر حملہ کر کے مغلوب کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔72۔

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ  ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ  ۭ وَاِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ  ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ 73؀
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ [ اے لوگو] ضُرِبَ [ بیان کی گئی ] مَثَلٌ [ ایک مثال ]فَاسْتَمِعُوْا [ تو تم لوگ غور سے سنو] لَهٗ ۭ [ اس کو ] اِنَّ الَّذِيْنَ [ بیشک وہ جن کو ] تَدْعُوْنَ [ تم لوگ پکارتے ہو] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ] لَنْ يَّخْلُقُوْا [ ہر گز پیدا نہیں کریں گے ] ذُبَابًا [ ایک مکھی ] وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا [ اور اگرچہ وہ سب اکٹھا ہوں ] لَهٗ ۭ [ اس کے لئے ] وَاِنْ يَّسْلُبْهُمُ [ اور اگر چھین لے ان سے ] الذُّبَابُ [ مکھی ] شَيْـــــًٔـا [ کوئی چیز ] لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ [ تو وہ چھڑا نہ سکیں گے اس (چیز) کو ] مِنْهُ ۭ [ اس (مکھی ) سے ] ضَعُفَ [ لاچار ہوا ] الطَّالِبُ [ طلب کرنے والا] وَالْمَطْلُوْبُ [ اور جس سے طلب کیا گیا ]



ذب ب: (ن) ذبا ۔ کسی سے کوئی چیز دفع کرنا ۔ مکھی اڑانا ۔ ذباب ۔ مکھی ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 73۔

س ل ب : (ن) سلبا ۔ کوئی چیز زبردستی لے لینا ۔ چھیننا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 73۔



نوٹ۔ 1: کسی کلام کی بلاغت کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ کوئی نئی بات ایجاد کرے یعنی ایسی بات کہے جو پہلے نہیں کی گئی ۔ بلاغت کی اس صفت کے لئے اختراع کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور زیر مطالعہ آیت ۔ 73 اس کی ایک اعلی مثال ہے ۔ جن لوگوں کی عربی ادب اور شاعری پر نظر ہے وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ضعف الطالب والمطلوب کی حقیقت کی وضاحت اور اس کے لئے ایسی مثال پہلے کبھی نہیں دی گئی (حافظ احمد یار صاحب مرحوم )

نوٹ ۔2: ضعف الطالب والمطلوب میں نہایت بلیغ اشارہ اس حقیقت کی طرف ہے کہ انسان کسی کو معبود مانتا ہے تو اس وجہ سے مانتا ہے کہ اس سے اس کے ضعف وناتوانی کا مداوا ہوتا ہے لیکن ان نادانوں نے اپنا معبود ان کو بنایا ہے جو ان سے بھی بڑھ کر عاجز و بےبس ہیں ۔ یہ لوگ اس پر تو قادر ہیں کہ اپنے چہرے سے مکھی ہانک سکتے ہیں ۔ لیکن انکے معبود بےچارے اپنے چہرے سے مکھی بھی ہانک سکنے پر قادر نہیں ہیں۔ پھر آگے بتایا کہ ان نادانوں نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھ کر جوان کی پوجا شروع کررکھی ہے ، یہ محض انکی حماقت اور خدا کی شان سے بےخبری کا نتیجہ ہے ۔ فرشتے خدا کی بیٹیاں اور اس کے شریک نہیں ہیں بلکہ اس کے بندے ہیں ۔ اگر ان کو کوئی مرتبہ حاصل ہے تو یہ ہے کہ جس طرح وہ انسانوں میں سے خاص خاص بندوں کو وہ اپنا پیغمبر بناتا ہے اسی طرح فرشتوں میں سے اپنے خاص خاص بندوں یعنی فرشتوں کو اپنے پیغمبروں کے پاس اپنا قاصد بنا کر بھیجتا ہے ۔ (تدبر القرآن )

مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ  ۭاِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ 74؀
مَا قَدَرُوا [ ان لوگوں نے قدر نہیں کی ] اللّٰهَ [ اللہ کی ] حَقَّ قَدْرِهٖ ۭ [ جیسا اس کی قدر کرنے کا حق ہے ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] لَقَوِيٌّ [ یقینا قوت والا ہے ] عَزِيْزٌ [ بالادست ہے ]

اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ 75؀ۚ
اَللّٰهُ [ اللہ ] يَصْطَفِيْ [ چن لیتا ہے ] مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ [ فرشتوں میں سے ] رُسُلًا [ کچھ پیغام پہنچانے والوں کو ] وَّمِنَ النَّاسِ ۭ [ اور انسانوں میں سے (بھی ) ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] سَمِيْعٌۢ [ سننے والا ہے ] بَصِيْرٌ [ دیکھنے والا ہے ]

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ 76؀
يَعْلَمُ [ وہ جانتا ہے ] مَا [ اس کو جو ]بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ [ ان کے آگے ہے ] وَمَا [ اور اس کو جو ] خَلْفَهُمْ ۭ [ ان کے پیچھے ہے ] وَاِلَى اللّٰهِ [ اور اللہ کی طرف ہی ] تُرْجَعُ [ لوٹائے جائیں گے ] الْاُمُوْرُ [ تمام معاملات ]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَــيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 77؀ڋ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ [ اے وہ لوگو جو ] اٰمَنُوا [ ایمان لائے ] ارْكَعُوْا [ تم لوگ رکوع کرو ] وَاسْجُدُوْا [ اور سجدہ کرو ] وَاعْبُدُوْا [ اور بندگی کرو ] رَبَّكُمْ [ اپنے ربک کی ] وَافْعَلُوا [ اور عمل کرو ] الْخَــيْرَ [ بھلائی کے ] لَعَلَّكُمْ [ شاید تم لوگ ] تُفْلِحُوْنَ السجدہ عند الشافعی [ فلاح پاؤ]

وَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ  ۭ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ  ۭ مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ  ۭهُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ ڏ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ښ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ ۭ هُوَ مَوْلٰىكُمْ ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ  78؀ۧ
وَجَاهِدُوْا [ اور تم لوگ جدوجہد کرو ]فِي اللّٰهِ [ اللہ (کی راہ ) میں ] حَقَّ جِهَادِهٖ ۭ [ جیسا اس کی جدوجہد کا حق ہے ] هُوَ [ اس نے ] اجْتَبٰىكُمْ [ پسند کیا تم کو ] وَمَا جَعَلَ [ اور اس نے نہیں بنائی ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ]فِي الدِّيْنِ [ دین میں ]مِنْ حَرَجٍ ۭ [ کوئی بھی تنگی ] مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ ۭ [ (پیروی کرو) اپنے باپ ابراہیم کے دین کی ] هُوَ [ اس نے ] سَمّٰىكُمُ [ نام رکھا تم لوگوں کا ] الْمُسْلِـمِيْنَ ڏ [ مسلمین (یعنی فرمانبرداری کرنے والے ) ] مِنْ قَبْلُ [ اس سے پہلے ] وَفِيْ ھٰذَا [ اور اس (قرآن ) میں ] لِيَكُوْنَ [ تاکہ ہوجائیں ] الرَّسُوْلُ [ یہ رسول ] شَهِيْدًا [ گواہ ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ] وَتَكُوْنُوْا [ اور تم لوگ ہوجائو] شُهَدَاۗءَ [ گواہ ] عَلَي النَّاسِ ښ [ لوگوں پر ] فَاَقِيْمُوا [ پس تم لوگ قائم کرو ] الصَّلٰوةَ [ نماز ] وَاٰتُوا [ اور پہنچاؤ] الزَّكٰوةَ [ زکوۃ ] وَاعْتَصِمُوْا [ اور تم لوگ مضبوطی سے تھام لو] بِاللّٰهِ ۭ [ اللہ کو ] هُوَ [ وہ ] مَوْلٰىكُمْ ۚ [ تمہارا کارساز ہے ] فَنِعْمَ [ تو کتنا ہی اچھا ہے ] الْمَوْلٰى [ کارساز ] وَنِعْمَ [ اور کتنا ہی اچھا ہے ] النَّصِيْرُ[ مدد گار ]



نوٹ ۔1: سورہ بقرہ کی آیت ۔ 143 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے تم کو ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگ گواہ ہوجاؤ لوگوں پر اور یہ رسول گواہ ہو جائیں تم لوگوں پر ۔ یہی بات یہاں ایک مختلف پیرائے میں کہی گئی ہے اور ساتھ ہی اس ذمہ داری سے عہدہ براء ہونے کی لئے ہدایات بھی دی گئیں ہیں ۔ سب سے پہلے رکوع وسجود کا حکم ہوا ۔ یہ نماز کی تعبیر ہے ۔ ان الفاظ سے جب نماز کی تعبیر کی جاتی ہے تو اس وقت پر نماز کی ادائیگی کے ساتھ نمازوں میں شغف اور انہماک کی طرف اشارہ ہوتا ہے ۔ جس کا اہتمام ذمہ داریوں کا اہل بننے کے لئے ضروری ہے ۔ پھر فرمایا واعبدوا ربکم یعنی زندگی کے سارے گوشوں میں خدا کی ہی بندگی اور اسی کی اطاعت کرو۔ اس کے آگے ہے وافعلوالخیر ۔ یعنی مزید نیکیاں اور بھلائیاں بھی کرو ۔ یہ ان نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف اشارہ ہے جو اگرچہ فرض نہیں ہیں لیکن وہ فضائل میں داخل ہیں اور زندگی کو سنوارنے میں انکو بڑا دخل ہے ۔ پھر فرمایا وجاھدوا فی اللہ ۔ اوپر کی اخلاقی وروحانی تیاری کے ساتھ ساتھ یہ عملی جدوجہد کی ہدایت ہے ۔ یہاں جہاد سے مراد قتال نہیں ہے ۔ یہاں جہاد سے مراد ہروہ جدوجہد ہے جو اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے بندے کے بس میں ہو۔ اس کے آگے حق جہادہ کا اضافہ کیا ۔ یعنی یہ جدوجہد نیم دلی اور کمزوری کے ساتھ مطلوب نہیں ہے بلکہ اس کے لئے جی جان کی بازی لگا دی جائے (تدبر قرآن سے ماخوذ )

میرے خیال میں جی جان کی بازی لگا دینے کایہ مطلب نہیں ہے کہ زندگی کی دیگر ذمہ داریوں کو چھوڑ چھاڑ کے انسان صرف دعوت و تبلیغ کی جدوجہد میں لگ جائے ۔ میری رائے یہ ہے کہ اپنے ظروف واحوال میں رہتے ہوئے اس کام کے لئے کچھ نہ کچھ وقت وہ ضرور نکالے اگر روزانہ ممکن نہیں ہے تو کم از کم
Weekends پر وقت ضرور نکالے ۔ پھر اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق وہ جو بھی کام کرسکتا ہے اس پر مداومت اختیار کرے اور ثابت قدم رہے تو ان شاء اللہ حق جہادہ کا تقاضہ پورا ہوجائے گا ۔ رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ بہتر عمل وہ ہے جو مستقل ہو خواہ تھوڑا ہو۔ نیز اس سے پہلی آیت میں جن نیک اعمال کا ذکر ہوا ہے وہ بھی جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتے ہیں ۔ انہیں اپنے وقت پر سرانجام دینا اور ادائیگی میں کوتاہی نہ کرنا بھی جان کی بازی لگانیکے مترادف ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو ان کاموں سے بھی جان بچاتے پھرتے ہیں ۔