قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
اٹھارہواں پارہ 
 

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ Ǻ۝ۙ
قَدْ اَفْلَحَ [ مراد پاگئے ہیں ] الْمُؤْمِنُوْنَ [ ایمان لانے والے ]

الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ Ą۝ۙ
الَّذِيْنَ [ وہ لوگ ] هُمْ [ جو ] فِيْ صَلَاتِهِمْ [ اپنی نماز میں ] خٰشِعُوْنَ[ عاجزی کرنے والے ہیں ]

وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ Ǽ۝ۙ
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ ] هُمْ [ جو ] عَنِ اللَّغْوِ [ بےسود چیز سے ] مُعْرِضُوْنَ [ اعراض کرنے والے ہیں ]

وَالَّذِيْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ Ć۝ۙ
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ ] هُمْ [ جو ] لِلزَّكٰوةِ [ زکوۃ کے لئے ] فٰعِلُوْنَ[ عمل کرنے والے ہیں ]



نوٹ۔1: قرآن کریم میں عام طور پر لفظ زکوۃ اصطلاحی معنی میں آتا ہے یعنی مال کا ایک خاص حصہ کچھ شرائط کے ساتھ صدقہ کرنے کو زکوۃ کہتے ہیں ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 4۔ میں اس لفظ کے اصطلاحی معنی لینے سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ ہے جبکہ زکوۃ مدینہ میں فرض ہوئی ۔ اس کا جواب ابن کثیر اور دیگر مفسرین کی طرف سے یہ ہے کہ زکوۃ کی فرضیت مکہ ہی میں ہو چکی تھی ۔ سورہ مزمل بالاتفاق مکی ہے ۔ اس میں بھی آیت ، اقیموا الصلوۃ اتوالزکوۃ کا ذکر موجود ہے مگر سرکاری طور پر اس کے وصول کرنے کا انتظام اور نصابات وغیرہ کی تفصیلات مدینہ جانے کے بعد جاری ہوئیں ، عام طور پر قرآن کریم میں جہاں زکوۃ کا ذکر آیا ہے تو اس کو فعل اتی ، یؤتی کے کسی صیغہ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے لیکن یہاں عنوان بدل کر للزلوۃ فاعلون فرمانا اس کا قرینہ ہے کہ یہاں زکوۃ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں ہے ۔ اس بنیاد پر بعض مفسرین نے اس جگہ زکوۃ کا مضمون عام لغوی معنی میں اپنے نفس کو پاک کرنا قرار دیا ہے ۔ (معارف القرآن )

اس جگہ پر زکوۃ کے ساتھ فاعلون کے لفظ سے میرا ذہن اس کے ایک پہلو کی طرف منتقل ہوتا ہے جو آج کل ہم لوگوں کے ذہن سے بڑی حد تک اوجھل ہوچکاہے ۔ اس کے نتیجے میں کچھ ایسی
NGOs اور فلاحی ادارے وجود میں آگئے ہیں جو ناچ گانے کی محفلیں اور کلچرل شو منعقد کرکے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں ، پھر رمضان میں زکوۃ لینے اور بقر عید میں قربانی کی کھالیں جمع کرنے بھی آجاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ لوگ زکوۃ کے پیسے خرچ کرتے وقت اس کے ان مصارف کا خیال رکھیں گے جن کا فیصلہ اللہ نے کسی نبی یا رسول پر بھی نہیں چھوڑا بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کا تعین فرمایا ۔ (دیکھیں سورہ توبہ ۔ آیت ۔60 کا نوٹ ۔1) اس لئے ضروری ہے کہ اس جگہ پر زکوۃ کے ساتھ فاعلون لانے کی اہمیت کے مذکورہ پہلو کو سمجھ کر ہم لوگ ذہن نشین کرلیں ۔

اتی ، یؤتی ، ایتاء کے اصل معنی ہیں کسی چیز کو کسی تک پہنچا نا ۔ پھر دینا یا ادا کرنا اس کے مجازی معنی ہیں ۔ قرآن مجید میں زکوۃ کے ساتھ بالعموم اسی لفظ کا کوئی صیغہ یا فعل امر استعمال کرکے اللہ تعالیٰ نے ہم سے کہا ہے کہ ہم خود زکوۃ کو مستحقین تک پہنچائیں ۔ اب ظاہر ہے ۔ یہ ایک کام ہے اور اس عمل کا تقاضہ کرتا ہے کہ مستحقین کو تلاش کیا جائے ۔ پھر ان سے رابطہ کیا جائے اور زکوۃ ان کو پہنچائی جائے ۔ اس فرض کی ادائیگی کے اس پہلو کو اجاگر کرنے کے لئے غالبا اس جگہ پر زکوۃ کے ساتھ فاعلون کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ (واللہ اعلم) پہلے اسلامی حکومتیں اس عمل کا تقاضہ پورا کرتی تھیں اس لئے ان کے کارندوں کو لوگ زکوۃ ادا کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے تھے ۔ لیکن آج کل اسلامی جمہوریہ پر اس ضمن میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لئے ہمارے لئے محفوظ ترین راستہ یہ ہے کہ ہم خود زکوۃ ایسے مستحقین کو دین جن کو ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں ۔ اگر کسی ادارے کو دینا ہو تو کم از کم اتنا ضرور دیکھ لیں کہ وہ لوگ زکوۃ خرچ کرنے کے مسائل سے واقف ہوں، ان کا پورا لحاظ رکھتے ہوں اور اس ضمن میں روشن خیال نہ ہوں ، اتنا سا تردد کئے بغیر ہی اگر ہم کسی ادارے کو زکوۃ دیتے ہیں تو یہ زکوۃ پھینکنے والی بات ہے ۔ زکوۃ پہنچانے والی بات نہیں ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ دنیا میں ہم سمجھتے رہیں کہ ہم نے زکوۃ ادا کردی ہے اور میدان حشر میں پتہ چلے کہ ادا تو کی تھی لیکن پہنچائی نہیں تھی ۔ اللہ تعالیٰ ایسے پچھتاوے سے ہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔

وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ Ĉ۝ۙ
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ ] هُمْ [ جو ] لِفُرُوْجِهِمْ [ اپنی شرمگاہوں کی ] حٰفِظُوْنَ [ حفاظت کرنے والے ہیں ]

اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ Č۝ۚ
اِلَّا [ سوائے ] عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ [ اپنی بیویوں پر ] اَوْ [ یا ] مَا [ ان پر جن کے ] مَلَكَتْ [ مالک ہوئے] اَيْمَانُهُمْ [ ان کے داہنے ہاتھ ] فَاِنَّهُمْ [ تو بیشک وہ لوگ ] غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ [ بغیر ملامت کئے ہوئے ہیں ]

فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ Ċ۝ۚ
فَمَنِ [ پھر جس نے ] ابْتَغٰى [ تلاش کیا ] وَرَاۗءَ ذٰلِكَ [ اس کے سوا ] فَاُولٰۗىِٕكَ [ تو وہ لوگ] هُمُ الْعٰدُوْنَ [ ہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں]

وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ Ď۝ۙ
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لو گ] هُمْ [ جو ] لِاَمٰنٰتِهِمْ [ اپنی امانتوں کی ] وَعَهْدِهِمْ [ اپنے وعدے کی ] رٰعُوْنَ [ نگرانی کرنے والے ہیں ]

وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ ۝ۘ
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ ] هُمْ [ جو ] عَلٰي صَلَوٰتِهِمْ [ اپنی نمازوں کو ] يُحَافِظُوْنَ [ رائیگاں جانے سے بچاتے رہتے ہیں ]

اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ 10۝ۙ
اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لو گ] هُمُ الْوٰرِثُوْنَ [ ہی وارث بننے والے ہیں ]

الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ۭ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 11؀
الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو ] يَرِثُوْنَ [ وارث ہوں گے ] الْفِرْدَوْسَ ۭ [ فردوس کے ] هُمْ [ وہ لوگ ] فِيْهَا [ اس میں ] خٰلِدُوْنَ [ ہمیشہ رہنے والے ہیں ]

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ 12 ؀ۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا [ اور بیشک ہم نے پیدا کیا ] الْاِنْسَانَ [ انسان کو ] مِنْ سُلٰـلَـةٍ [ ایک جوہر سے ] مِّنْ طِيْنٍ [ مٹی میں سے ]



س ل ل : (ن) سلا ۔ (1) کسی چیز میں سے کوئی چیز آہستہ آہستہ نکالنا ۔ (2) کہیں سے کوئی چیز چپکے سے لے جانا ۔ سلالۃ کسی چیز سے نکالی ہوئی چیز ۔ خلاصہ ، جوہر ۔ ست ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 12۔ (تفعل) تسلل ۔ بھیڑ میں سے چپکے سے کھسک جانا ، آیت ۔ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ (جان لیا ہے اللہ نے ان کو جو چپکے سے سٹک جاتے ہیں تم میں سے ) 24:63 ۔

ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ 13۝۠
ثُمَّ جَعَلْنٰهُ [ پھر ہم نے بنایا اس کو ] نُطْفَةً [ ایک نطفہ ] فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ[ ایک مضبوط ٹھکانے میں ]



ترکیب: (آیت ۔ 13) فعل جعل کے دو مفعول آتے ہیں ۔ کس کو بنایا اور کیا بنایا ۔ اس طرح جعلنا کے ساتھ ضمیر مفعولی اس کا مفعول اول ہے اور نطفۃ اس کا مفعول ثانی ہے ۔

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا  ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ  ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14؀ۭ
ثُمَّ خَلَقْنَا [ پھر ہم نے پیدا کیا ] النُّطْفَةَ [ نطفہ کو ] عَلَقَةً [ ایک جما ہوا خون ہوتے ہوئے] فَخَـلَقْنَا [ پھر ہم نے پیدا کیا ] الْعَلَقَةَ [ جمے ہوئے خون کو ] مُضْغَةً [ ایک گوشت کی بوتی ہوتے ہوئے ] فَخَـلَقْنَا [ پھر ہم نے پیدا کیا ] الْمُضْغَةَ [ گوشت کی بوٹی کو ] عِظٰمًا [ ہڈیاں ہوتے ہوئے ] فَكَسَوْنَا [ پھر ہم نے پہنایا ] الْعِظٰمَ [ ہڈیوں کو ] لَحْــمًا ۤ [ کچھ گوشت ] ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ [ پھر ہم نے اٹھایا اس کو ] خَلْقًا اٰخَرَ ۭ [ ایک دوسری مخلوق ہوتے ہوئے] فَتَبٰرَكَ [ تو برکت کا سرچشمہ ہوا] اللّٰهُ [ اللہ ]اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ [ جو پیدا کرنے والوں کا سب سے احسن ہے ]



 (آیت ۔ 14) فعل خلق کا ایک ہی مفعول آتا ہے ۔ کسی کو پیدا کیا ۔ اس لئے علقۃ ۔ مضغۃ اور عظما مفعول ثانی نہیں ہو سکتے بلکہ یہ حال ہیں ۔ کسونا کا مفعول اول العظم ہے اور لحما ۔ اس کا مفعول ثانی ہے۔ فعل انشا کا بھی ایک مفعول آتا ہے اس لئے خلقا اخر حال ہے۔

ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ 15؀ۙ
ثُمَّ اِنَّكُمْ [ پھر بیشک تم لوگوں کو ] بَعْدَ ذٰلِكَ [ اس کے بعد ]لَمَيِّتُوْنَ [ یقینا مردہ ہونا ہے ]

ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ  16؀
ثُمَّ اِنَّكُمْ[ پھر بیشک تم لوگ ] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ[ قیامت کے دن ] تُبْعَثُوْنَ [ (دوبارہ ) اٹھائے جاؤگے ]



نوٹ ۔1: حضرت ابن عباس (رض) اور دیگر ائمہ کرام نے خلقا اخر کی تفسیر نفخ روح سے فرمائی ہے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ غالبا اس روح سے مراد روح حیوانی ہے کہ وہ بھی مادی اور ایک جسم لطیف ہے جو جسم حیوانی کے ہر ہر جز میں سمایا ہوا ہوتا ہے جس کو طبیب لوگ اور فلسفی لوگ روح کہتے ہیں ۔ اس کی تخلیق تمام اعضاء انسانی کی تخلیق کے بعد ہوتی ہے ۔ اور روح حقیقی جس کا تعلق عالم ارواح سے ہے وہیں سے لا کر اس کا کوئی رابطہ روح حیوانی سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے فرما دیتا ہے جس کی حقیقت کو پہچاننا انسان کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ اس روح حقیقی کی تخلیق تو تمام انسانوں کی تخلیق سے بہت پہلے ہو چکی ہے ۔ ان ارواح کو اللہ تعالیٰ نے ازل میں جمع کرکے الست بربکم فرمایا ۔ اس کا تعلق جسم انسانی کے ساتھ تخلیق اعضاء انسانی کے بعد ہوتا ہے ۔ اس جگہ نفخ روح سے اگر یہ مراد لی جائے کہ روح حیوانی کے ساتھ روح حقیقی کا تعلق اس وقت فرمایا گیا تو یہ بھی ممکن ہے ۔ (معارف القرآن ) ۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ ڰ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِيْنَ 17؀
وَلَقَدْ خَلَقْنَا [ اور بیشک ہم نے پیدا کئے ہیں ] فَوْقَكُمْ [ تم لوگوں کے اوپر ] سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ ڰ [ سات راستے ] وَمَا كُنَّا [ اور ہم نہیں ہیں ] عَنِ الْخَلْقِ [ مخلوق سے ]غٰفِلِيْنَ[ غفلت برتنے والے ]



نوٹ ۔1: سات راستوں سے غالبا مراد سات سیاروں کی گردش کے راستے ہیں اور چونکہ اس زمانے میں انسان سبع سیارہ سے ہی واقف تھا ، اس لئے سات ہی راستوں کا ذکر کیا گیا ، اس کے معنی بہر حال یہ نہیں ہیں کہ اس کے علاوہ اور دوسرے راستے نہیں ہیں ۔ اور مخلوق سے غافل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی مخلوق کی کسی حاجت سے اور کسی کی حالت سے ہم کبھی بےخبر نہیں رہے کسی چیز کو ہم نے اپنے منصوبے کے خلاف بننے اور چلنے نہیں دیا ۔ کسی چیز کی فطری ضروریات فراہم کرنے میں ہم نے کوتاہی نہیں کی ، اور ایک ایک ذرے اور ایک ایک پتے کی حالت سے ہم باخبر رہے ہیں ۔ (تفہیم القرآن )

وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ ڰ وَاِنَّا عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ 18۝ۚ
وَاَنْزَلْنَا [ اور ہم نے اتارا ] مِنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے ] مَاۗءًۢ [ کچھ پانی ] بِقَدَرٍ[ ایک اندازے سے ] فَاَسْكَنّٰهُ [ پھر ہم نے ٹھہرایا اس کو ] فِي الْاَرْضِ ڰ [ زمین میں ] وَ[ حالانکہ ] اِنَّا [ بیشک ہم ] عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ [ اس کو لے جانے پر ] لَقٰدِرُوْنَ[ یقینا قدرت رکھنے والے ہیں ]



نوٹ ۔2: آسمان سے پانی اتارنے سے مراد اگرچہ موسمی بارش بھی ہو سکتی ہے لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے ایک دوسرا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ آغاز آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اتنی مقدار میں پانی زمین پر نازل فرما دیا تھا جو قیامت تک اس کرہ ارض کی ضروریات کے لئے اس کے علم میں کافی تھا ۔ وہ پانی زمین کے نشیبی حصوں میں ٹھہر گیا جس سے سمندر وجود میں آئے اور زیر زمین پانی پیدا ہوا اب یہ اسی پانی کا الٹ پھیر ہے جو گرمی ، سردی اور ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا رہتا ہے ۔ اسی پانی کو بارشیں ، برف پوش پہاڑ ، دریا ، چشمے اور کنویں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلاتے رہتے ہیں ۔ شروع سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں ایک قطرے کی بھی کمی یا اضافہ کرنے ضرورت پیش نہیں آئی ۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانی کی حقیقت آج ہر مدرسہ کے طالب علم کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن ، دو گیسوں کے امتزاج سے بنا ہے ۔ ایک دفعہ اتنا بن گیا کہ اس سے سمندر بھر گئے اور اب اس کے ذخیرے میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوتا ، وہ کون ہے جس نے ایک وقت میں اتنی ہائیڈروجن اور آکسیجن ملا کر اتنا پانی بنادیا ۔ وہ کون ہے جو اب انہی دو گیسوں کو اس خاص تناسب سے نہیں ملنے دیتا ، جس سے پانی بنتا ہے ۔ حالانکہ دونوں گیسیں اب بھی دنیا میں موجود ہیں ۔ اور جب پانی بھاپ بن کر ہوا میں اڑ جاتا ہے تو اس وقت کون ہے جو ہائیڈروجن اور آکسیجن کو الگ الگ ہونے سے روکے رکھتا ہے ۔ کیا دہریوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ۔ (تفہیم القرآن) اس وضاحت سے انا علی ذھاب بہ لقدرون کا مطلب بھی پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پانی سے گیسوں کو الگ الگ کردے توگیسیں باقی رہ جائیں گی اور پانی ختم ہوجائے گا۔

فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ ۘلَكُمْ فِيْهَا فَوَاكِهُ كَثِيْرَةٌ وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ 19۝ۙ
فَاَنْشَاْنَا [ پھر ہم نے اگایا ] لَكُمْ [ تمہارے لئے ] بِهٖ [ اس سے ] جَنّٰتٍ [ کچھ باغات ] مِّنْ نَّخِيْلٍ [ جیسے کھجوروں کے] وَّاَعْنَابٍ ۘ [ اور انگوروں کے ] لَكُمْ [ تمہارے لئے ] فِيْهَا [ ان میں ]فَوَاكِهُ كَثِيْرَةٌ [ کثرت سے میوے ہیں ] وَّمِنْهَا [ اور ان میں سے ] تَاْكُلُوْنَ [ تم لوگ کھاتے ہو]

وَشَجَــرَةً تَخْــرُجُ مِنْ طُوْرِ سَيْنَاۗءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰكِلِيْنَ 20؀
وَشَجَــرَةً[ اور (ہم نے اگایا) ایک ایسا درخت جو ] تَخْــرُجُ [ نکلتا ہے ] مِنْ طُوْرِ سَيْنَاۗءَ [ سینا کے کوہ طور سے ] تَنْۢبُتُ [ وہ اگتا ہے ] بِالدُّهْنِ [ تیل کے ساتھ ] وَصِبْغٍ [ اور سالن کے ساتھ ] لِّلْاٰكِلِيْنَ [ کھانے والوں کے لئے ]



ذھ ن : (ن) دھنا ۔ (1) سر میں تیل لگانا ۔ (2) کسی چیز کو تر کرنا ، نرم کرنا ۔ دھن ۔ کسی چیز کا تیل یا چربی ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 20۔ دھان ۔ تیل کی تلچھٹ ۔ فکانت وردۃ کالدھان [ تو وہ ہوجائے گا ۔ گلابی جیسے تیل کی تلچھٹ ] 55: 37۔ (افعال) ادھان ۔ نرم ہونا۔ ڈھیلا پڑنا ۔ آیت ۔ وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ [ وہ لوگ چاہتے ہیں اگر آپ ڈھیلے پڑیں تو وہ لوگ ڈھیلے پڑیں گے ] 68:9۔ مدھن ۔ اسم الفاعل ہے۔ نرم ہونے والا ۔ ڈھیلا پڑنے والا ۔ آیت ۔ اَفَبِھٰذَا الْحَدِيْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَ [ تو کیا اس بات سے تم لوگ ڈھیلے پڑنے والے ہو ] 56:81۔

وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً  ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهَا وَلَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ كَثِيْرَةٌ وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ 21؀ۙ
وَاِنَّ لَكُمْ [ اور بیشک تمہارے لئے ]فِي الْاَنْعَامِ [ مویشیوں میں ] لَعِبْرَةً ۭ [ یقینا ایک عبرت ہے ] نُسْقِيْكُمْ [ ہم پینے کے لئے دیتے ہیں تم کو] مِّمَّا [ اس میں سے جو ]فِيْ بُطُوْنِهَا [ ان کے پیٹوں میں ہے] وَلَكُمْ[ اور تمہارے لئے] فِيْهَا [ ان میں ] مَنَافِعُ كَثِيْرَةٌ[ بہت سے (دوسرے ) فائدے ہیں ] وَّمِنْهَا [ اور ان میں سے ] تَاْكُلُوْنَ [ تم لوگ کھاتے (بھی ) ہو]

وَعَلَيْهَا وَعَلَي الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ 22؀ۧ
وَعَلَيْهَا [ اور ان پر ] وَعَلَي الْفُلْكِ [ اور کشتیوں پر ] تُحْمَلُوْنَ [ تم لوگ سوار کئے جاتے ہو ]

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ  ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ 23؀
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا [ اور بیشک ہم بھیج چکے ہیں ] نُوْحًا [ نوح کو ] اِلٰى قَوْمِهٖ [ ان کی قوم کی طرف ] فَقَالَ [ تو انھوں نے کہا ] يٰقَوْمِ [ اے میری قوم ] اعْبُدُوا [ تم لوگ بندگی کرو] اللّٰهَ [ اللہ کی ] مَا لَكُمْ [ نہیں ہے تمہارے لئے ] مِّنْ اِلٰهٍ [ کوئی بھی الہ ]غَيْرُهٗ ۭ [ اس کے علاوہ ] اَفَلَا تَتَّقُوْنَ [ تو کیا تم لوگ (اس کی ناراضگی سے ) نہیں بچوگے ]

فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۙ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَةً ښ مَّا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِيْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ 24؀ۚ
فَقَالَ [ تو کہا ] الْمَلَؤُا الَّذِيْنَ [ ان کے سرداروں نے جنھوں نے ] كَفَرُوْا [ انکار کیا ] مِنْ قَوْمِهٖ [ ان کی قوم میں سے ]مَا ھٰذَآ [ نہیں ہیں یہ ] اِلَّا [ مگر ] بَشَرٌ [ ایک بشر ] مِّثْلُكُمْ ۙ [ تم لوگ جیسے ] يُرِيْدُ [ وہ ارادہ رکھتے ہیں ] اَنْ [ کہ ] يَّتَفَضَّلَ [ وہ فضیلت حاصل کریں] عَلَيْكُمْ ۭ [ تم لوگوں پر ] وَلَوْ [ اور اگر ] شَاۗءَ [ چاہتا ] اللّٰهُ [ اللہ ]لَاَنْزَلَ [ تو اس نے اتارے ہوتے ] مَلٰۗىِٕكَةً ښ [ کچھ فرشتے ] مَّا سَمِعْنَا [ ہم نے نہیں سنا] بِھٰذَا [ اس کے بارے میں ]فِيْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ [ اپنے پہلے آباؤاجداد (کے قصوں ) میں ]



نوٹ ۔1: تورات اور قرآن دونوں میں رسولوں کی تاریخ کا آغاز حضرت نوح علیہ السلام ہی سے ہوتا ہے ۔ یہاں جس مقصد سے یہ سرگزشت بیان ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا اس دنیا کو پیدا کرکے اس سے بےتعلق ہو بیٹھا ہے، وہ خدا کو بالکل غلط سمجھے ہیں ۔ خدا نے ہمیشہ اس کی مادی پرورش کا بھی انتظام فرمایا ہے اور اس کی روحانی واخلاقی اصلاح کے لئے اپنے رسول بھی بھیجے ہیں ۔ جن لوگوں نے ان رسولوں کی تکذیب کی خدا نے اتمام حجت کے بعد ان کو ہلاک کردیا اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کو نجات وفلاح بخشی ۔ اس دنیا کے ساتھ خدا کا یہ معاملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے گا جب وہ نیکوکاروں اور بدکاروں کے درمیان فیصلہ کرے گا ۔ (تدبرالقرآن)

اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰى حِيْنٍ 25؀
اِنْ [ نہیں ہے ] هُوَ [ وہ ] اِلَّا [ مگر ] رَجُلٌۢ [ ایک آدمی ] بِهٖ [ اس کے ساتھ ] جِنَّةٌ [ کوئی دیوانگی ہے] فَتَرَبَّصُوْا [ تو تم لوگ انتظار کرو ] بِهٖ [ اس کے بارے میں ]حَتّٰى حِيْنٍ [ کچھ مدت تک ]

قَالَ رَبِّ انْــصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ 26؀
قَالَ [ (نوح نے ) کہا ] رَبِّ [ اے میرے رب ] انْــصُرْنِيْ [ تو نصرت کرمیری ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ] كَذَّبُوْنِ [ ان لوگوں نے جھٹلایا مجھ کو ]

فَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَاِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ ۙ فَاسْلُكْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۚ وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ 27؀
فَاَوْحَيْنَآ [ تو ہم نے وحی کی ] اِلَيْهِ [ ان کی طرف ] اَنِ [ کہ ] اصْنَعِ [ آپ تیار کریں ] الْفُلْكَ [ کشتی ] بِاَعْيُنِنَا [ ہماری آنکھوں (کے سامنے ) سے] وَوَحْيِنَا [ اور ہماری وحی سے ] فَاِذَا [ پھر جب ] جَاۗءَ [ آجائے ] اَمْرُنَا [ ہمارا حکم ] وَفَارَ [ اور ابل پڑے ] التَّنُّوْرُ ۙ [ تنور ] فَاسْلُكْ [ تو آپ ڈال دیں ] فِيْهَا [ اس میں ] مِنْ كُلٍّ [ ہر چیز میں سے] زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ [ دو جوڑوں کو ] وَاَهْلَكَ [ اور اپنے گھروالوں کو ] اِلَّا مَنْ [ سوائے اس کے ] سَبَقَ [ پہلے ہوچکا] عَلَيْهِ [ جس کے خلاف ] الْقَوْلُ [ فیصلہ ] مِنْهُمْ ۚ [ ان میں سے ] وَلَا تُخَاطِبْنِيْ [ اور آپ خطاب نہ کریں مجھ سے ] فِي الَّذِيْنَ [ ان کے بارے میں جنھوں نے ] ظَلَمُوْا ۚ [ ظلم کیا ] اِنَّهُمْ [ بیشک وہ لوگ ] مُّغْرَقُوْنَ (27) [ غرق کئے جانے والے ہیں ]



نوٹ ۔1: لفظ تنور کے متعدد معانی مراد لئے گئے ہیں لیکن کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ قرآن کے الفاظ کو بغیر کسی قرینے کے مجازی معنوں میں لیا جائے جبکہ ظاہری مفہوم لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے یہ الفاظ پڑھ کر ابتداء جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ کوئی خاص تنور پہلے سے نامزد کردیا گیا تھا کہ طوفان کا آغاز اس کے نیچے سے پانی ابلنے پر ہوگا ۔ دوسرے معنی سوچنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جبکہ آدمی یہ ماننے کے لئے تیار نہ ہو کہ اتنا بڑا طوفان ایک تنور کے نیچے سے پانی ابل پڑنے پر شروع ہواہوگا ۔ مگر خدا کے معاملات عجیب ہیں ۔ وہ جب کسی قوم کی شامت لاتا ہے تو ایسے رخ سے لاتا ہے جدھر اس کا وہم وگمان بھی نہیں جا سکتا ۔ (تفہیم القرآن ) ۔

فَاِذَا اسْتَوَيْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَكَ عَلَي الْفُلْكِ فَقُلِ الْـحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ 28؀
فَاِذَا [ پھر جب ] اسْتَوَيْتَ [ آپ متمکن ہوجائیں ] اَنْتَ [ آپ ] وَمَنْ [ اور وہ جو ] مَّعَكَ [ آپ کے ساتھ ہیں ] عَلَي الْفُلْكِ [ کشتی پر ] فَقُلِ [ تو آپ کہیں ] الْـحَمْدُ [ تمام شکروسپاس ]لِلّٰهِ الَّذِيْ[ اس اللہ کے لئے ہے جس نے ] نَجّٰىنَا [ نجات دی ہم کو ] مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ [ ظالم قوم سے ]

وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ 29؀
وَقُلْ [ اور آپ کہیں ] رَّبِّ [ اے میرے رب ] اَنْزِلْنِيْ [ تو اتار مجھ کو ] مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا [ ایک برکت دی ہوئی اتارنے کی جگہ میں ] وَّاَنْتَ [ اور تو] خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ [ اتارنے والوں کا بہترین ہے]

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ وَّاِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِيْنَ 30؀
اِنَّ [ بیشک ] فِيْ ذٰلِكَ [ اس میں ] لَاٰيٰتٍ [ یقینا کچھ نشانیاں ہیں ] وَّاِنْ [ اور بیشک ] كُنَّا [ ہم ]لَمُبْتَلِيْنَ [ یقینا آزمانے والے ہیں ]

ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ 31؀ۚ
[ ثُمَّ: پھر] [ اَنْشَاْنَا: ہم نے پیدا کیے ] [ مِنْۢ بَعْدِهِمْ: ان کے بعد ] [ قَرْنًا: لوگ] [ اٰخَرِيْنَ: دوسرے سب ]

فَاَرْسَلْنَا فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ  ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ 32؀ۧ
[ فَاَرْسَلْنَا: پھر ہم نے بھیجا ] [ فِيْهِمْ: ان میں] [ رَسُوْلًا: ایک رسول ] [ مِّنْهُمْ: ان میں سے ] [ اَنِ: یہ کہ ] [ اعْبُدُوا: تم سب عبادت کرو] [ اللّٰهَ : اللہ] [ مَا: نہیں] [ لَكُمْ: تمہارے لیے] [ مِنْ اِلٰهٍ: کوئی معبود] [ غَيْرُهٗ : اس کے سوا] [ اَفَلَا : تو کیا نہیں] [ تَتَّقُوْنَ: تم سب ڈرتے ]

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ وَاَتْرَفْنٰهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا  ۙ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ  ۙ يَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ 33؀۽
[ وَقَالَ: اور کہا ] [ الْمَلَاُ : سرداروں نے] [ مِّنْ قَوْمِهِ : اس کی قوم میں سے] [ الَّذِيْنَ: وہ لوگ جو] [ كَفَرُوْا : سب نے کفر کیا ] [ وَ : اور] [ كَذَّبُوْا : ان سب نے جھٹلایا] [ بِلِقَاۗءِ : ملاقات کو ] [ الْاٰخِرَةِ : آخرت] [ وَاَتْرَفْنٰهُمْ : اور ہم نے خوشحال رکھا تھا انہیں ] [ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیوی زندگی میں] [ مَا : نہیں] [ ھٰذَآ اِلَّا : یہ مگر ] [ بَشَرٌ : ایک انسان ] [ مِّثْلُكُمْ : تمہاری مثل ] [ يَاْكُلُ : وہ کھاتا ہے ] [ مِمَّا : اس سے جو] [ تَاْكُلُوْنَ : تم سب کھاتے ہو ] [ مِنْهُ : اس سے] [ وَيَشْرَبُ : اور وہ پیتا ہے ] [ مِمَّا : اس سے جو] [ تَشْرَبُوْنَ : تم سب پیتے ہو ]

وَلَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ ۙ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ 34؀ۙ
[ وَلَىِٕنْ : اور البتہ اگر ] [ اَطَعْتُمْ : تم نے کہا مانا ] [ بَشَرًا : ایک انسان ] [ مِّثْلَكُمْ : اپنے جیسا ] [ اِنَّكُمْ : بیشک تم] [ اِذًا : تب] [ لَّخٰسِرُوْنَ : یقینا وہ سب خسارہ پانے والے ]

اَيَعِدُكُمْ اَنَّكُمْ اِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَّعِظَامًا اَنَّكُمْ مُّخْــرَجُوْنَ 35؀۽
[ اَيَعِدُكُمْ : کیا وہ وعدہ دیتا ہے تمہیں ] [ اَنَّكُمْ : کہ بیشک تم ] [ اِذَا : جب] [ مِتُّمْ : تم مرگئے ] [ وَكُنْتُمْ : حالانکہ تم تھے] [ تُرَابًا : مٹی ] [ وَّعِظَامًا : اور ہڈیاں ] [ اَنَّكُمْ : کہ بیشک تم ] [ مُّخْــرَجُوْنَ : سب نکالے جانے والے ]

هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ 36؀۽
[ هَيْهَاتَ : دور ہے ] [ هَيْهَاتَ : دور ہے ] [ لِمَا : جس کا ] [ تُوْعَدُوْنَ : تم سب وعدہ دیئے جاتے ہو]

اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ 37؀۽
[ اِنْ : اگر ] [ هِىَ : وہ ] [ اِلَّا : مگر ] [ حَيَاتُنَا : ہماری زندگی ] [ الدُّنْيَا : دنیوی] [ نَمُوْتُ : ہم مرتے ہیں ] [ وَنَحْيَا : اور ہم جیتے ہیں ] [ وَمَا : اور نہ] [ نَحْنُ : ہم] [ بِمَبْعُوْثِيْنَ : سب "دوبارہ" اٹھائے جانے والے ]

اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلُۨ افْتَرٰى عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا وَّمَا نَحْنُ لَهٗ بِمُؤْمِنِيْنَ 38؀
[ اِنْ : اگر ] [ هُوَ : وہ ] [ اِلَّا : مگر ] [ رَجُلُۨ : ایک آدمی ] [ افْتَرٰى : باندھے ] [ عَلَي اللّٰهِ : اللہ تعالیٰ پر ] [ كَذِبًا : جھوٹ ] [ وَمَا : اور نہ] [ نَحْنُ : ہم] [ لَهٗ : اس کی] [ بِمُؤْمِنِيْنَ : سب ایمان لانے والے]

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ 39؀
[ قَالَ : فرمایا] [ رَبِّ : اے میرے رب] [ انْصُرْنِيْ : میری مدد فرما ] [ بِمَا : اس وجہ سے جو] [ كَذَّبُوْنِ : ان سب نے مجھے جھٹلایا ہے ]

قَالَ عَمَّا قَلِيْلٍ لَّيُصْبِحُنَّ نٰدِمِيْنَ 40؀ۚ
[ قَالَ : فرمایا] [ عَمَّا : اس سے جو] [ قَلِيْلٍ : بہت تھوڑی] [ لَّيُصْبِحُنَّ : ضرور بالضرور وہ ہوجائیں گے ] [ نٰدِمِيْنَ : سب پچھتانے والے]

فَاَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنٰهُمْ غُثَاۗءً  ۚ فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ 41؀
[ فَاَخَذَتْهُمُ : تو پکڑ لیا ان کو : الصَّيْحَةُ : چیخ ] [ بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ] [ فَجَعَلْنٰهُمْ : تو ہم نے کر ڈالا انہیں ] [ غُثَاۗءً : کوڑا ] [ فَبُعْدًا : پس دوری ] [ لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگوں کے لیے ]

ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قُرُوْنًا اٰخَرِيْنَ 42؀ۭ
[ ثُمَّ : پھر] [ اَنْشَاْنَا : ہم نے پیدا کیں ] [ مِنْۢ : سے ] [ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد ] [ قُرُوْنًا اٰخَرِيْنَ : دوسری سب امتیں ]

مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَمَا يَسْتَاْخِرُوْنَ 43؀ۭ
[ مَا : نہیں] [ تَسْبِقُ : آگے نکل سکتی ] [ مِّنْ : سے ] [ اُمَّةٍ : بہترین امت ] [ اَجَلَهَا : اپنے وقت ] [ وَمَا : اور نہ] [ يَسْتَاْخِرُوْنَ : وہ سب پیچھے رہ سکتے ہیں]

ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا  ۭ كُلَّمَا جَاۗءَ اُمَّةً رَّسُوْلُهَا كَذَّبُوْهُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَّجَعَلْنٰهُمْ اَحَادِيْثَ ۚ فَبُعْدًا لِّــقَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ 44؀
[ ثُمَّ : پھر] [ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے ] [ رُسُلَنَا : ہمارے رسول ] [ تَتْرَا : پے در پے ] [ كُلَّمَا : جب بھی] [ جَاۗءَ : آیا ہو] [ اُمَّةً : ایک گروہ ] [ رَّسُوْلُهَا : اس کا رسول ] [ كَذَّبُوْهُ : ان سب نے جھٹلایا اسے ] [ فَاَتْبَعْنَا : تو ہم نے پیچھے چلتا کیا ] [ بَعْضَهُمْ : انکے بعض کو ] [ بَعْضًا : بعض پر ] [ وَّجَعَلْنٰهُمْ : اور ہم نے بنا دیا انہیں ] [ اَحَادِيْثَ : قصے کہانیاں ] [ فَبُعْدًا : تو دوری] [ لِقَوْمٍ : اس قوم کے لیے ] [ لَا : نہیں] [ يُؤْمِنُوْنَ : وہ سب ایمان لاتے ہیں]

ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَاَخَاهُ هٰرُوْنَ ڏ بِاٰيٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ 45؀ۙ
[ ثُمَّ : پھر] [ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے ] [ مُوْسٰى : موسیٰ] [ وَاَخَاهُ : اور اس کے بھائی] [ هٰرُوْنَ : ہارون] [ بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو ] [ وَ : اور ] [ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ : واضح دلیل ]

اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا عَالِيْنَ 46؀ۚ
[ اِلٰى : کی طرف ] [ فِرْعَوْنَ : فرعون ] [ وَمَلَا۟ىِٕهٖ : اس کے سرداروں ] [ فَاسْتَكْبَرُوْا : تو ان سب نے تکبر کیا ] [ وَ : اور] [ كَانُوْا : وہ سب تھے] [ قَوْمًا : قوم ہے] [ عَالِيْنَ: سب سرکش ]

فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ 47؀ۚ
[ فَقَالُوْٓا : تو ان سب نے کہا ] [ اَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لائیں] [ لِبَشَرَيْنِ : دو آدمیوں پر ] [ مِثْلِنَا : اپنے جیسے ] [ وَ : حالانکہ] [ قَوْمُهُمَا : ان دونوں کی قوم ] [ لَنَا : ہمارے لیے] [ عٰبِدُوْنَ : سب عبادت کرنے والے ہیں]

فَكَذَّبُوْهُمَا فَكَانُوْا مِنَ الْمُهْلَكِيْنَ  48؀
[ فَكَذَّبُوْهُمَا : سو ان سب نے جھٹلایا ان دونوں کو ] [ فَكَانُوْا : تو وہ سب ہوگئے ] [ مِنَ الْمُهْلَكِيْنَ : ہلاک کیے جانے والوں میں سے ]

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ 49؀
[ وَ : اور] [ لَقَدْ : البتہ تحقیق] [ اٰتَيْنَا : ہم نے دی] [ مُوْسَى الْكِتٰبَ : موسیٰ کو کتاب] [ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ ] [ يَهْتَدُوْنَ : وہ سب ہدایت پاتے ہیں]

وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّهٗٓ اٰيَةً وَّاٰوَيْنٰهُمَآ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِيْنٍ 50۝ۧ
[ وَ : اور] [ جَعَلْنَا : ہم نے بنایا ] [ ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کا بیٹا] [ وَ : اور] [ اُمَّهٗٓ : اس کی ماں ] [ اٰيَةً : ایک نشانی ] [ وَّ ": اور] [ اٰوَيْنٰهُمَآ : ہم نے جگی دی ان دونوں کو ] [ اِلٰى رَبْوَةٍ : ایک بلند زمین کی طرف ] [ ذَاتِ قَرَارٍ : سکون و قرار والی ] [ وَّ : اور] [ مَعِيْنٍ : جاری چشمے ]

يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا  ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ  51۝ۭ
[ يٰٓاَيُّهَا : اے] [ الرُّسُلُ : بہت سے رسول] [ كُلُوْا : تم سب کھاؤ] [ مِنَ الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزوں میں سے ] [ وَ : اور] [ اعْمَلُوْا : سب عمل کرو ] [ صَالِحًا : نیک] [ اِنِّىْ : بیشک میں] [ بِمَا : اس سے جو] [ تَعْمَلُوْنَ : تم سب عمل کرتے ہو ] [ عَلِيْمٌ : خوب جاننے والا ہے]

وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ 52؀
[ وَ اِنَّ : اور بیشک ] [ هٰذِهٖٓ : یہ ] [ اُمَّتُكُمْ : تمہاری امت ] [ اُمَّةً : ایک گروہ ] [ وَاحِدَةً : صرف ایک ] [ وَّاَنَا : اور میں ہی ] [ رَبُّكُمْ : تمہارا رب ] [ فَاتَّقُوْنِ : پس تم سب مجھ سے ڈرو]

فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا  ۭ كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ 53؀
[ فَتَقَطَّعُوْٓا : پھر ان سب نے جدا جدا کرلیا ] [ اَمْرَهُمْ : اپنا معاملہ ] [ بَيْنَهُمْ : انکے درمیان] [ زُبُرًا : ٹکڑے ٹکڑے ] [ كُلُّ : ہر ] [ حِزْبٍۢ : گروہ] [ بِمَا : اس وجہ سے جو] [ لَدَيْهِمْ : انکے پاس ] [ فَرِحُوْنَ : سب خوش ]

فَذَرْهُمْ فِيْ غَمْرَتِهِمْ حَتّٰى حِيْنٍ 54؀
[ فَذَرْهُمْ : سو آپ چھوڑ دیں انہیں ] [ فِي غَمْرَتِهِمْ : ان کی غفلت میں ] [ حَتّٰى : یہاں تک کہ] [ حِيْنٍ : ایک وقت ]

اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ 55؀ۙ
[ اَيَحْسَبُوْنَ : کیا وہ سب گمان کرتے ہیں ] [ اَنَّمَا : کہ بیشک جو] [ نُمِدُّهُمْ : ہم مدد دے رہے ہیں انہیں ] [ بِهٖ : اس کے ساتھ] [ مِّنْ مَّالٍ : مال سے] [ وَّ : اور] [ بَنِيْنَ : بیٹوں : سے]

نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَــيْرٰتِ ۭ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَ 56؀
[ نُسَارِعُ : ہم جلدی کر رہے ہیں ] [ لَهُمْ : ان کے لیے ] [ فِي : میں] [ الْخَيْرٰتِ : بھلائی "کے کاموں" میں] [ بَلْ : بلکہ] [ لَا : نہیں] [ يَشْعُرُوْنَ : وہ سب شعور رکھتے]

اِنَّ الَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ خَشْـيَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ 57؀ۙ
[ اِنَّ : بیشک ] [ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو] [ هُمْ : وہ] [ مِّنْ خَشْـيَةِ : خوف سے ] [ رَبِّهِمْ : اپنے رب کو] [ مُّشْفِقُوْنَ : سب ڈرنے والے ]

وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ 58؀ۙ
[ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو ] [ هُمْ : وہ] [ بِاٰيٰتِ : آیات کو ] [ رَبِّهِمْ : اپنے رب کو] [ يُؤْمِنُوْنَ : وہ سب ایمان لاتے ہیں]

وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُوْنَ 59؀ۙ
[ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو ] [ هُمْ : وہ] [ بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ ] [ لَا : نہیں] [ يُشْرِكُوْنَ : وہ سب شریک بناتے ہیں ]

وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ 60؀ۙ
[ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو ] [ يُؤْتُوْنَ : وہ سب دیتے ہیں ] [ مَآ : نہیں] [ اٰتَوْا : وہ سب دے سکیں ] [ وَّ : اس حال میں کہ] [ قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل] [ وَجِلَةٌ : ڈرنے والے] [ اَنَّهُمْ : بیشک وہ] [ اِلٰى : کی طرف ] [ رَبِّهِمْ : اپنے رب کو] [ رٰجِعُوْنَ : سب لوٹنے والے ہیں]

اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ 61؀
[ اُولٰۗىِٕكَ : وہی لوگ] [ يُسٰرِعُوْنَ : وہ سب جلدی کرتے ہیں ] [ فِي : میں] [ الْخَيْرٰتِ : بھلائی "کے کاموں" میں] [ وَهُمْ : اور وہ] [ لَهَا : اس کیلیے ] [ سٰبِقُوْنَ : سب سبقت کرنے والے ]

وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَلَدَيْنَا كِتٰبٌ يَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 62؀
[ وَلَا : اور نہ] [ نُكَلِّفُ : ہم تکلیف دیتے ] [ نَفْسًا : کسی شخص کو] [ اِلَّا : مگر ] [ وُسْعَهَا : اس کی گنجائش کے مطابق ] [ وَ : اور] [ لَدَيْنَا : ہمارے پاس ] [ كِتٰبٌ : کتاب] [ يَّنْطِقُ : وہ بولتی ہے ] [ بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ] [ وَهُمْ : اور وہ] [ لَا : نہیں] [ يُظْلَمُوْنَ : سب ظلم کئے جائیں گے ]

بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِيْ غَمْرَةٍ مِّنْ ھٰذَا وَلَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ 63؀
[ بَلْ : بلکہ] [ قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل] [ فِي غَمْرَةٍ : غفلت میں] [ مِّنْ : سے ] [ ھٰذَا : یہ] [ وَ : اور] [ لَهُمْ : ان کے لیے] [ اَعْمَالٌ : اعمال ] [ مِّنْ : سے ] [ دُوْنِ : سوا] [ ذٰلِكَ : وہ] [ هُمْ : وہ] [ لَهَا : اس کیلیے ] [ عٰمِلُوْنَ : سب کرنے والے ]

حَتّيٰٓ اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْهِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا هُمْ يَجْــــَٔــرُوْنَ 64؀ۭ
[ حَتّيٰٓ : یہاں تک کہ ] [ اِذَآ : جب (کہ)] [ اَخَذْنَا : ہم نے لیا] [ مُتْرَفِيْهِمْ : ان کے سب خوشحال لوگوں کو ] [ بِالْعَذَابِ : عذاب کے ساتھ ] [ اِذَا : جب] [ هُمْ : وہ] [ يَجْــــَٔــرُوْنَ : وہ سب چیخ و پکار کریں گے ]

لَا تَجْــــَٔــرُوا الْيَوْمَ  ۣاِنَّكُمْ مِّنَّا لَا تُنْصَرُوْنَ 65؀
[ لَا : نہیں] [ تَجْــــَٔــرُوا : تم سب چیخو چلاؤ ] [ الْيَوْمَ : آج ] [ اِنَّكُمْ : بیشک تم] [ مِّنَّا : ہم سے ] [ لَا : نہیں] [ تُنْصَرُوْنَ : تم سب مدد کیے جاؤ گے ]

قَدْ كَانَتْ اٰيٰتِيْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُوْنَ 66؀ۙ
[ قَدْ : یقیناً] [ كَانَتْ : ہے ] [ اٰيٰتِيْ ؛میری آیتیں ] [ تُتْلٰى : تلاوت کی جاتی ہیں ] [ عَلَيْكُمْ : تم پر ] [ فَ كُنْتُمْ : ہو تم ] [ عَلٰٓي : اس بات پر ] [ اَعْقَابِكُمْ : تمہاری ایڑھیوں ] [ تَنْكِصُوْنَ : تم سب پھر جایا کرتے (تھے) ]

مُسْتَكْبِرِيْنَ ڰ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ 67؀
[ مُسْتَكْبِرِيْنَ : سب تکبر کرنے والے] [ بِهٖ : اس کو] [ سٰمِرًا : افسانہ گوئی کرتے ہوئے ] [ تَهْجُرُوْنَ : تم سب بےہودہ گوئی کرتے (تھے) ]

اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَاۗءَهُمْ مَّا لَمْ يَاْتِ اٰبَاۗءَهُمُ الْاَوَّلِيْنَ  68؀ۡ
[ اَفَلَمْ : تو کیا نہیں ] [ يَدَّبَّرُوا : ان سب نے غور کیا ] [ الْقَوْلَ : بات (پر) ] [ اَمْ : کیا] [ جَاۗءَهُمْ : آیا ان کے پاس] [ مَالَمْ : جو نہیں] [ يَاْتِ : وہ آئی ] [ اٰبَاۗءَهُمُ : ان کے باپ دادا ] [ الْاَوَّلِيْنَ : پہلے ]

اَمْ لَمْ يَعْرِفُوْا رَسُوْلَهُمْ فَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ 69؀ۡ
[ اَمْ : یا] [ لَمْ : نہیں] [ يَعْرِفُوْا : ان سب نے پہچانا ] [ رَسُوْلَهُمْ : اپنے رسول (کو) ] [ فَهُمْ : پس وہ سب ] [ لَهٗ : اس کی] [ مُنْكِرُوْنَ : سب انکار کرنے والے ]

اَمْ يَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ  ۭ بَلْ جَاۗءَهُمْ بِالْحَقِّ وَاَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ 70؀
[ اَمْ : کیا] [ يَقُوْلُوْنَ : وہ سب کہتے ہیں] [ بِهٖ : اس کو] [ جِنَّةٌ : کوئی جنوں (ہے) ] [ بَلْ : بلکہ] [ جَاۗءَهُمْ : وہ آیا ان کے پاس ] [ بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ] [ وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان میں سے اکثر ] [ لِلْحَقِّ : حق کو ] [ كٰرِهُوْنَ : سب ناپسند کرنے والے تھے ]

وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَهْوَاۗءَهُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ  ۭ بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَ  71؀ۭ
[ وَلَوِ : اور اگر ] [ اتَّبَعَ : پیروی کرے] [ الْحَقُّ : حق ] [ اَهْوَاۗءَهُمْ : ان کی خواہشات کی] [ لَــفَسَدَتِ : یقینا بگڑ جائیں ] [ السَّمٰوٰتُ : آسمانوں ] [ وَ : اور] [ الْاَرْضُ : زمین] [ وَ : اور] [ مَنْ : جو] [ فِيْهِنَّ : ان میں ] [ بَلْ : بلکہ] [ اَتَيْنٰهُمْ : ہم لائے ہیں ان کے پاس ] [ بِذِكْرِهِمْ : ان کی نصیحت کو ] [ فَهُمْ : تو وہ ] [ عَنْ ذِكْرِهِمْ : اپنی نصیحت سے ] [ مُّعْرِضُوْنَ : سب منہ موڑنے والے]

اَمْ تَسْـَٔــلُهُمْ خَرْجًا فَخَــرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ ڰ وَّهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ 72؀
اَمْ : کیا] [ تَسْـَٔــلُهُمْ : آپ سوال کرتے ہیں ان سے ] [ خَرْجًا : اجرت (کا) ] [ فَخَــرَاجُ : تو اجرت ] [ رَبِّكَ : تیرے رب ] [ خَيْرٌ : بہتر ہے] [ وَهُوَ : اور وہ] [ خَيْرُ : سب سے بہتر ہے ] [ الرّٰزِقِيْنَ : سب رزق دینے والوں سے ]

وَاِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 73؀
وَ (اور) اِنَّكَ (بلا شبہ آپ ) لَتَدْعُوْهُمْ (یقینا آپ بلاتے ہیں انہیں ) اِلٰى (کی طرف ) صِرَاطٍ (راستے) مُّسْتَقِيْمٍ (سیدھے )

وَاِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰكِبُوْنَ 74؀
وَ اِنَّ (اور بیشک ) الَّذِيْنَ (جو) لَا يُؤْمِنُوْنَ (نہیں وہ سب ایمان رکھتے) بِالْاٰخِرَةِ (آخرت پر) عَنِ الصِّرَاطِ ( راستے سے) لَنٰكِبُوْنَ (یقینا سب انحراف کرنے والے )

وَلَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّـــلَجُّوْا فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ 75؀
وَلَوْ (اور اگر) رَحِمْنٰهُمْ ( ہم رحم کریں ان پر) وَ (اور) كَشَفْنَا (ہم دور کردیں ) مَا (جو) بِهِمْ (ان کو) مِّنْ ضُرٍّ ( کوئی تکلیف) لَّـــلَجُّوْا ( ضرور اصرار کریں) فِي طُغْيَانِهِمْ (اپنی سرکشی میں ) يَعْمَهُوْنَ (وہ سب بھٹکتے رہیں )

وَلَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَـضَرَّعُوْنَ 76؀
وَ (اور) لَقَدْ (البتہ تحقیق) اَخَذْنٰهُمْ (ہم نے پکڑا انہیں ) بِالْعَذَابِ (عذاب کے ساتھ ) فَمَا (تو نہ) اسْتَكَانُوْا (وہ سب "کافروں سے" دبے ) لِرَبِّهِمْ (اپنے رب سے ) وَمَا (اور نہ) يَتَضَرَّعُوْنَ (سب عاجزی کریں )

حَتّٰٓي اِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيْدٍ اِذَا هُمْ فِيْهِ مُبْلِسُوْنَ 77؀ۧ
حَتّٰى (یہاں تک کہ ) اِذَا (جب) فَتَحْنَا (کھول دیے ہم نے ) عَلَيْهِمْ (ان پر) بَابًا (دروازہ ) ذَا عَذَابٍ (عذاب والا ) شَدِيْدٍ (بہت سخت) اِذَا (جب) هُمْ (وہ) فِيْهِ (اس میں ) مُبْلِسُوْنَ (سب نا امید ہونے والے )

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ  ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ 78؀
وَهُوَ (اور وہ ) الَّذِيْٓ ("وہ ہے"جو ) اَنْشَاَ (پیدا کیے ) لَكُمُ (تمہارے لیے) السَّمْعَ (کان ) وَ (اور) الْاَبْصَارَ (آنکھیں ) وَ (اور) الْاَفْـــِٕدَةَ (دل ) قَلِيْلًا مَا (بہت کم) تَشْكُرُوْنَ (تم سب شکر ادا کرو )

وَهُوَ الَّذِيْ ذَرَاَكُمْ فِي الْاَرْضِ وَاِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 79؀
وَهُوَ (اور وہ ) الَّذِيْ (جو) ذَرَاَكُمْ ( پھیلایا تمہیں) فِي الْاَرْضِ (زمین میں ہے) وَ (اور) اِلَيْهِ (اسی کی طرف) تُحْشَرُوْنَ (تم سب اکٹھے کئے جاؤ گے )

وَهُوَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ وَ لَهُ اخْتِلَافُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 80؀
وَهُوَ (اور وہ ) الَّذِيْ (جو) يُـحْيٖ (وہ زندگی دیتا ہے ) وَيُمِيْتُ (اور وہ موت دیتا ہے ) وَ (اور ) لَهُ (اس سے ) اخْتِلَافُ ( بدلتے رہنا) الَّيْلِ (رات ) وَ (اور) النَّهَارِ (دن ) اَفَلَا (کیا پس نہیں) تَعْقِلُوْنَ (تم سب سمجھتے)

بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ 81؀
بَلْ (بلکہ) قَالُوْا (ان سب نے کہا) مِثْلَ (مثل) مَا (نہیں) قَالَ (کہا) الْاَوَّلُوْنَ (پہلے (لوگوں نے) )

سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ  ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ  85؀
سَيَقُوْلُوْنَ (ضرور وہ سب کہیں گے ) لِلّٰهِ (اللہ کے لیے) قُلْ (آپ کہہ دیں) اَفَلَا (تو کیا نہیں) تَذَكَّرُوْنَ (سب نصیحت حاصل کرو )

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ 86؀
قُلْ (آپ کہہ دیں) مَنْ ( کون ) رَبُّ (رب) السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ (ساتوں آسمانوں (کا) ) وَ (اور) رَبُّ (رب ) الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ (بہت بڑے عرش (کا) )

سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ  ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ 87؀
سَيَقُوْلُوْنَ (ضرور وہ سب کہیں گے ) لِلّٰهِ (اللہ کے لیے) قُلْ (آپ کہہ دیں) اَفَلَا (تو کیا نہیں) تَتَّقُوْنَ (تم سب ڈرتے )

قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 88؀
قُلْ (کہہ دیں) مَنْۢ (جس نے ) بِيَدِهٖ (ہاتھ"اختیار"میں ) مَلَكُوْتُ (بادشاہی ) كُلِّ شَيْءٍ (ہر چیز (کی) ) وَهُوَ (اور وہ) يُجِيْرُ ( وہ پناہ دیتا ہے) وَ (اور) لَا يُجَارُ (نہیں پناہ دی جاسکتی ) عَلَيْهِ (اس پر) اِنْ ( اگر ) كُنْتُمْ (ہو تم) تَعْلَمُوْنَ (تم سب جانتے ہو)

سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ  ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ 89؀
سَيَقُوْلُوْنَ (ضرور وہ سب کہیں گے ) لِلّٰهِ (اللہ کے لیے) قُلْ (آپ کہہ دیں) فَاَنّٰى (تو کہاں ) تُسْحَرُوْنَ (تم سب جادو کیے جاتے ہو )

بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِالْحَقِّ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ  90؀
بَلْ (بلکہ) اَتَيْنٰهُمْ (ہم آئے ہیں ان کے پاس ) بِالْحَقِّ (حق کے ساتھ) وَاِنَّهُمْ (اور بیشک وہ ) لَكٰذِبُوْنَ (یقینا سب جھوٹے ہیں )

مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۢ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يَصِفُوْنَ 91؀ۙ
مَا (نہیں) اتَّخَذَ (رکھتا ہے) اللّٰهُ (اللہ) مِّنْ وَّلَدٍ (کوئی اولاد ) وَمَا (اور نہ) كَانَ (ہے ) مَعَهٗ (اس کے ساتھ) مِنْ اِلٰهٍ (کوئی معبود) اِذًا ( اس وقت) لَّذَهَبَ (ضرور لے جاتا ) كُلُّ (ہر ) اِلٰهٍۢ (معبود ) بِمَا ( (اس) کو جو) خَلَقَ (اس نے پیدا کیے) وَ (اور) لَعَلَا (ضرور چڑھائی کرتا ) بَعْضُهُمْ (ان میں سے بعض) عَلٰي (پر) بَعْضٍ (بعض کے) سُبْحٰنَ (پاک ہے ) اللّٰهِ (اللہ) عَمَّا ("اس" سے جو) يَصِفُوْنَ (وہ سب بیان کرتے ہیں )

عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 92؀ۧ
عٰلِمِ (جاننے والا ) الْغَيْبِ (غیب ) وَ (اور) الشَّهَادَةِ (حاضر ) فَتَعٰلٰى (پس وہ بہت بلند ) عَمَّا ("اس" سے جو) يُشْرِكُوْنَ (وہ سب شریک بناتے ہیں )

قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِيَــنِّيْ مَا يُوْعَدُوْنَ 93؀ۙ
قُلْ (کہہ دیں) رَبِّ ("اے" میرے رب) اِمَّا (اگر ) تُرِيَــنِّيْ (واقعی تو دکھائے مجھے ) مَا (جو) يُوْعَدُوْنَ (وہ سب وعدہ دیئے جاتے ہیں )

رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِيْ فِي الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ 94؀
رَبِّ (رب ) فَلَا (پس نہیں) تَجْعَلْنِيْ (تو شامل کرنا مجھے ) فِي (میں) الْقَوْمِ (قوم ) الظّٰلِمِيْنَ (سب ظالموں کا)

وَاِنَّا عَلٰٓي اَنْ نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقٰدِرُوْنَ 95؀
وَ (اور) اِنَّا ( بیشک ہم) عَلٰٓي ("اس بات" پر ) اَنْ (کہ) نُّرِيَكَ (ہم دکھائیں آپ کو ) مَا (جو) نَعِدُهُمْ (ہم وعدہ کرتے ہیں ان سے ) لَقٰدِرُوْنَ (ضرور قدرت رکھنے والے )

اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ  ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ 96؀
اِدْفَعْ (آپ ہٹائیے ) بِالَّتِيْ ( (اس) سے جو ) هِىَ (وہ ) اَحْسَنُ (بہت اچھا) السَّيِّئَةَ ( برائی (کو) ) نَحْنُ (ہم) اَعْلَمُ (خوب جاننے والے) بِمَا (اس وجہ سے جو) يَصِفُوْنَ (وہ سب بیان کرتے ہیں )

وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ 97؀ۙ
وَ (اور) قُلْ (آپ کہہ دیجیے ) رَبِّ ("اے" میرے رب) اَعُوْذُ (میں پناہ مانگتا ہوں) بِكَ (تجھ سے ) مِّنْ هَمَزٰتِ (وسوسوں سے ) الشَّيٰطِيْنِ (شیاطین (کے) )

وَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ 98؀
وَ اَعُوْذُ ( اور میں پناہ مانگتا ہوں) بِكَ (تجھ سے ) رَبِّ ("اے" میرے رب) اَنْ (کہ) يَّحْضُرُوْنِ (وہ سب حاضر ہوں میرے پاس )

حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ 99۝ۙ
حَتّيٰٓ (یہاں تک کہ ) اِذَا (جب) جَاۗءَ (آیا ہو) اَحَدَهُمُ (کسی ایک کے پاس ان میں سے) الْمَوْتُ (موت ) قَالَ (فرمایا) رَبِّ ("اے" میرے رب) ارْجِعُوْنِ (مجھے واپس لوٹا دے )

لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا  ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا  ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ١٠٠؁
لَعَلِّيْٓ (تاکہ میں ) اَعْمَلُ (میں عمل کروں گا ) صَالِحًا (نیک) فِيْمَا (جس میں ) تَرَكْتُ (میں چھوڑ آیا ہوں ) كَلَّا (ہرگز نہیں ) اِنَّهَا (بیشک وہ) كَلِمَةٌ (ایک بات ) هُوَ (وہ ) قَاۗىِٕلُهَا (کہنے والا ہے اسے ) وَ (اور) مِّنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ (ان کے پیچھے سے) بَرْزَخٌ (ایک پردہ ) اِلٰى يَوْمِ ( (اس) دن تک) يُبْعَثُوْنَ (وہ سب اٹھائے جائیں گے )

فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ١٠١؁
[ فَاِذَا (پھر جب ][ نُفِخَ (پھونکا جائے گا ][ فِي الصُّوْرِ (صور میں][ فَلَآ (تو کوئی نہیں ][ اَنْسَابَ (کوئی رشتہ داری ][ بَيْنَهُمْ (ان کے درمیان][ يَوْمَىِٕذٍ (اس دن ][ وَ (اور) لَا (نہ][ يَتَسَاۗءَلُوْنَ (وہ سب ایک دوسرے کو پوچھیں گے ]

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ١٠٢؁
[ فَمَنْ (پھر جو][ ثَقُلَتْ (بھاری ہوگئے ][ مَوَازِيْنُهٗ (اس کے پلڑے ][ فَاُولٰۗىِٕكَ (تو وہی لوگ][ هُمُ (وہ) الْمُفْلِحُوْنَ (سب کامیاب ہونے والے ہیں]

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فِيْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ ١٠٣؁ۚ
[ وَمَنْ (اور جو][ خَفَّتْ (ہلکے ہوگئے ][ مَوَازِيْنُهٗ (اس کے پلڑے ][ فَاُولٰۗىِٕكَ (تو وہی لوگ][ الَّذِيْنَ (وہ لوگ جو][ خَسِرُوْٓا سب نے نقصان میں ڈال رکھا ہے ][ اَنْفُسَهُمْ (اپنے نفسوں کو ][ فِي (میں][ جَهَنَّمَ (جہنم ][ خٰلِدُوْنَ (سب ہمیشہ رہنے والے ہیں]

تَلْفَحُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيْهَا كٰلِحُوْنَ ١٠٤؁
تَلْفَحُ (جھلسائے گی ][ وُجُوْهَهُمُ ( ان کے چہرے][ النَّارُ (آگ][ وَهُمْ (اور وہ][ فِيْهَا (اس میں][ كٰلِحُوْنَ (سب تیوری چڑھانے والے ]

اَلَمْ تَكُنْ اٰيٰـتِيْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ ١٠٥؁
[ اَ (کیا][ لَمْ (نہیں][ تَكُنْ (ہونا ][ اٰيٰتِيْ (میری آیتیں ][ تُتْلٰى (تلاوت کی جاتی ہیں ][ عَلَيْكُمْ (تم پر ][ فَكُنْتُمْ (تو تھے تم ][ بِهَا (اس کے][ تُكَذِّبُوْنَ (تم سب جھٹلاتے ہو]

قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَاۗلِّيْنَ  ١٠٦؁
[ قَالُوْا (ان سب نے کہا][ رَبَّنَا (اے ہمارے رب ][ غَلَبَتْ (غالب آگئے ][ عَلَيْنَا (ہم پر][ شِقْوَتُنَا (ہماری بد بختی ][ وَ (اور][ كُنَّا (تھے ہم ][ قَوْمًا (قوم ہے) ضَاۗلِّيْنَ (سب گمراہ ]

رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ ١٠٧؁
[ رَبَّنَآ (اے ہمارے رب ][ اَخْرِجْنَا (ہمیں نکال دے ][ مِنْهَا (اس سے][ فَاِنْ پھر اگر][ عُدْنَا ہم دوبارہ کریں ][ فَاِنَّا (تو بیشک ہم][ ظٰلِمُوْنَ (سب ظلم کرنے والے تھے]

قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِيْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ ١٠٨؁
[ قَالَ (فرمایا][ اخْسَـُٔـوْا (سب ذلیل و خوار پڑے رہو ][ فِيْهَا (اس میں][ وَلَا (اور نہ) تُكَلِّمُوْنِ ][ تم سب کلام کرو مجھ سے ]

اِنَّهٗ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ ١٠٩؀ښ
[ اِنَّهٗ بیشک یہ ][ كَانَ فَرِيْقٌ (تھا ایک گروہ][ مِّنْ (سے ][ عِبَادِيْ (میرے بندے][ يَقُوْلُوْنَ (وہ سب کہتے ہیں][ رَبَّنَآ (اے ہمارے رب ][ اٰمَنَّا (ہم ایمان لائے][ فَاغْفِرْ (سو تو بخش دے][ لَنَا (ہمارے لیے][ وَ (اور) ارْحَمْنَا (رحم فرما ہم پر][ وَاَنْتَ (اور آپ ][ خَيْرُ (سب سے بہتر ہے ][ الرّٰحِمِيْنَ (تمام رحم کرنے والوں (سے]

فَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِيًّا حَتّٰٓي اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِيْ وَكُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ ١١٠؁
[ فَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ (تو تم نے بنایا ان کو ][ سِخْرِيًّا (مذاق ][ حَتّٰى (یہاں تک کہ][ اَنْسَوْكُمْ (ان سب نے بھلا دی تمہیں ][ ذِكْرِيْ ( میری یاد][ وَكُنْتُمْ (حالانکہ تم تھے][ مِّنْهُمْ (ان میں سے ][ تَضْحَكُوْنَ (تم سب ہنسی کرتے ]

اِنِّىْ جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوْٓا ۙ اَنَّهُمْ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ  ١١١؁
[ اِنِّىْ (بیشک میں نے ][ جَزَيْتُهُمُ (میں نے بدلہ دیا انہیں ][ الْيَوْمَ (آج ][ بِمَا (اس وجہ سے جو][ صَبَرُوْٓا (ان سب نے صبر کیا ][ اَنَّهُمْ (بیشک وہ) هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ (ہی سب کامیاب ہونے والے ]

قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِيْنَ ١١٢؁
[ قٰلَ (اس نے کہا ][ كَمْ (کتنی][ لَبِثْتُمْ (تم ٹھہرے ][ فِي الْاَرْضِ (زمین میں ہے][ عَدَدَ (گنتی ][ سِنِيْنَ (سالوں کی ]

قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَسْـَٔـــلِ الْعَاۗدِّيْنَ ١١٣؁
[ قَالُوْا (ان سب نے کہا][ لَبِثْنَا (ہم ٹھہرے ][ يَوْمًا (اس دن سے][ اَوْ (یا][ بَعْضَ (بعض][ يَوْمٍ (دن ][ فَسْـَٔـــلِ (پس پوچھ لے ][ الْعَاۗدِّيْنَ (شمار کرنے والوں (سے]

قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ١١٤؁
[ قٰلَ ( اس نے فرمایا][ اِنْ ( نہیں ][ لَّبِثْتُمْ ( تم ٹھہرے][ اِلَّا ( مگر ][ قَلِيْلًا (بہت کم][ لَوْ (کاش کہ][ اَنَّكُمْ (کہ بیشک تم][ كُنْتُمْ (ہو تم][ تَعْلَمُوْنَ (تم سب جانتے ہو]

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ١١٥؁
[ اَ (کیا][ فَحَسِبْتُمْ ( پس تم نے سمجھ لیا][ اَنَّمَا (کہ بیشک محض][ خَلَقْنٰكُمْ (ہم نے پیدا کیا تمہیں ][ عَبَثًا (بے مقصد ][ وَّ (اور][ اَنَّكُمْ ( بیشک تم][ اِلَيْنَا (ہماری طرف][ لَا (نہیں][ تُرْجَعُوْنَ (تم سب لوٹائے جاؤ گے]

فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ ١١٦؁
[ فَتَعٰلَى (پس بہت بلند ][ اللّٰهُ (اللہ][ الْمَلِكُ ( بادشاہ][ الْحَقُّ (حقیقی ][ لَآ اِلٰهَ (کوئی معبود نہیں][ اِلَّا ( مگر ][ هُوَ (وہ ][ رَبُّ (رب ][ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ (عزت والے عرش کا]

وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ  ۙ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ  ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ  ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ ١١٧؁
[ وَ (اور][ مَنْ (جو][ يَّدْعُ ( وہ پکارے][ مَعَ اللّٰهِ (اللہ کے ساتھ][ اِلٰــهًا (کوئی معبود ][ اٰخَرَ ( دوسرا][ لَا بُرْهَانَ ( کوئی دلیل نہیں ][ لَهٗ (اس کے لیے][ بِهٖ (اس (بات) کی][ فَاِنَّمَا (تو بیشک بس][ حِسَابُهٗ ( اس کا حساب][ عِنْدَ (نزدیک][ رَبِّهٖ (اس کے رب][ اِنَّهٗ (بیشک یہ حقیقت ہے][ لَا (نہیں][ يُفْلِحُ (فلاح پاتے][ الْكٰفِرُوْنَ (سب کافر]

وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ ١١٨؁ۧ
[ وَ (اور][ قُلْ ( آپ کہیں)][ رَبِّ ("اے" میرے رب][ اغْفِرْ (تو بخش دے ][ وَ : اور][ ارْحَمْ ( تو رحم فرما][ وَ (اور][ اَنْتَ (تو][ خَيْرُ (بہتر ][ الرّٰحِمِيْنَ : سب رحم کرنے والوں (سے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَفَرَضْنٰهَا وَاَنْزَلْنَا فِيْهَآ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ  Ǻ۝
[ سُوْرَةٌ: (یہ) ایک ایسی سورت ہے] [ اَنْزَلْنٰهَا: ہم نے اتارہ جس کو] [ وَفَرَضْنٰهَا: اور ہم نے فرض کیا جس کو] [ وَاَنْزَلْنَا: اور ہم نے اتارا] [ فِيْهَآ: جس میں] [ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ: واضح آیات] [ لَّعَلَّكُمْ: شاید کہ تم لوگ][ تَذَكَّرُوْنَ: (1) نصیحت حاصل کرو]



نوٹ ۔1: زیر مطالعہ آیت ۔2۔ کا حوالہ اس سے پہلے سورۃ النساء کی آیت 15۔ کے نوٹ۔2 میں آچکا ہے اور وہیں پر رجم کی سزا کی بات بھی ہوچکی ہے۔ اب اس ضمن میں وہ ضروری باتیں ذہن نشین کر لیں۔ اولاً یہ کہ ’’ اسلامی قانون حکومت کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ زنی اور زانیہ کے خلاف کاروائی کرے۔ اور عدالت کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس پر سزا دے۔ اس امر پر تمام امت کے فقہاء کا اتفاق ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن) ثانیاً: یہ کہ جو لوگ ہاتھ کاٹنے اور کوڑے مارنے کی سزا کو وحشیانہ سمجھتے ہیں وہ لوگ کم از کم دنیا کے تجربات ہی سے کچھ سبق حاصل کریں۔ اسی روئے زمین پر نجد و حجاز اور یمن کی حکومتیں بھی ہیں ۔ ان میں اسلامی حدود و تعزیرات نافذ ہیں۔ اس زمانے میں آسانی سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ان کے ہاں چوری ، رہزنی، ڈکیتی اور زنا کے کتنے واقعات ہوئے اور کتنے چوروں کے ہاتھ کاٹے گئے اور کتنے زانیوں کو کوڑے لگائے گئے۔ وہاں نہ جرائم کا وجود ہے نہ مجرموں کا۔ وہاں نہ تو یہ جرائم ہوتے ہیں اور نہ ہاتھ کاٹنے اور کوڑے مارنے کی نوبت آتی ہے۔ اگر کبھی کبھار اکا دکا کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے تو مجرم کو اس کی جو سزا ملتی ہے وہ عوام کی سبق آموزی کے لئے کافی ہوتی ہے (تدبر قرآن سے ماخوذ) اور جن ممالک میں ایسے مجرموں کو ’’ مہذب‘‘ سزائیں دی جاتی ہیں وہاں پر ایسے جرائم کا ریکارڈ دیکھ لیں۔

اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ  ۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ Ą۝
[ اَلزَّانِيَةُ: زنا کرنے والی] [ وَالزَّانِيْ: اور زنا کرنے والا] [ فَاجْلِدُوْا: پس تم لوگ کھال پر مارو][ كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا: ان دونوں کے ہر ایک کو][ مِائَةَ جَلْدَةٍ ۠ : ایک سو کوڑے][ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ: اور نہ پکڑے تم لوگوں کو][ بِهِمَا: ان دونوں کے بارے میں] [ رَاْفَةٌ: کوئی نرم دلی] [ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ: اللہ کے ضابطہ حیات میں] [ اِنْ كُنْتُمْ: اگر تم لوگ][ تُؤْمِنُوْنَ: ایمان رکھتے ہو][ بِاللّٰهِ: اللہ پر][ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ : اور آخری دن پر][ وَلْيَشْهَدْ: اور چاہیے کہ معائنہ کرے][ عَذَابَهُمَا: ان دونوں کے عذاب کا][ طَاۗىِٕفَةٌ: ایک گروہ][ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ: (2) مومنوں میں سے]



نوٹ ۔2: میرے محدود مطالعہ کی حد تک زیر مطالعہ آیت۔3 کے تین طرح سے ترجمے کئے گئے ہیں اور تینوں ترجمے درست ہیں۔ ایک یہ ہے کہ لاینکح سادہ مضارع ہے اور اس کا ترجمہ ہے ’’ نکاح نہیں کرتا‘‘ دوسرا یہ ہے کہ عربی میں فعل مضارع کبھی فعل نہی کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس سے ملتا جلتا اسلوب اردو میں بھی ہے۔ کبھی ہم بچے سے کہتے ہیں ’’ اب کروگے‘‘۔ بظاہر یہ جملہ استفہامیہ ہے لیکن اس میں اصل مفہوم فعل نہی کا ہے کہ اب مت کرنا۔ اس لحاظ سے لاینکح کا دوسرا ترجمہ ہے ’’ نکاح نہ کرے‘‘۔ ان دونوں ترجموں کی صورت میں وحرم ذلک میں ذلک کا اشارہ نکاح کرنے کی طرف ہے یعنی کسی زانی یا مشرک مرد یا عورت کا نکاح کسی مسلمان مرد یا عورت سے حرام کیا گیا۔ اس ضمن میں ’’ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ نیک اور پاک دامن مسلمان کا نکاح بدکار عورت سے صحیح نہیں ہوتا جب تک وہ توبہ نہ کرلے۔ ہاں بعد از توبہ نکاح درست ہے۔ اسی طرح سے بھولی بھالی پاک دامن عفیفہ عورتوں کا نکاح زانی اور بدکار لوگوں سے منعقد ہی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ سچے دل سے اپنے اس ناپاک فعل سے توبہ نہ کرلیں‘‘۔ (منقول از ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ)

 مادہ ’’ ن ک ح‘‘ کی وضاحت میں امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے مفردات القرآن میں لکھا ہے ’’ اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے‘‘۔ اس لحاظ سے لاینکح کا تیسرا ترجمہ ہے ’’ جماع نہیں کرتا‘‘۔ اس ترجمہ کی صورت میں وحرم ذلک میں ذلک کا اشارہ عقد کے بغیر جماع کرنے یعنی زنا کرنے کی طرف ہے ’’ حضرت ابن عباس  (رض)  سے مروی ہے کہ مراد اس آیت سے یہ ہے کہ زنا مسلمانوں پر حرام ہے‘‘۔ (ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ)

اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً  ۡ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ  ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ  Ǽ۝
[ اَلزَّانِيْ: زنا کرنے والا][ لَا يَنْكِحُ : جماع نہیں کرتا][ اِلَّا : مگر][ زَانِيَةً : کسی زنا کرنے والی سے][ اَوْ مُشْرِكَةً ۡ : یا کسی شرک کرنے والی سے][ وَّالزَّانِيَةُ: اور زنا کرنے والی][ لَا يَنْكِحُهَآ: جماع نہیں کرتا اس سے][ اِلَّا : مگر][ زَانٍ : کوئی زنا کرنے والا] اَوْ مُشْرِكٌ ۚ: یا کوئی شرک کرنے والا][ وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا][ ذٰلِكَ: یہ][ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : (3) [ مومنوں پر]



نوٹ۔3: زیر مطالعہ آیت ۔4۔5۔ میں تہمت لگانے کی سزا کا ذکر ہے۔ اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کے ناجائز تعلقات کے چرچے بند کر دئیے جائیں کیونکہ اس سے معاشرے میں بےشمار برائیاں پھیلتی ہیں۔ شریعت ایک طرف حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کا جرم ثابت ہو جائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو جو کسی اور جرم پر نہیں دی جاتی ۔ اور دوسری طرف وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے وہ یا تو شہادتوں سے الزام ثابت کرے ورنہ اس پر اسی کوڑے برسا دو تاکہ آئندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلا ثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے۔ بالفرض اگر الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بدکاری کرتے دیکھ لیا ہو تب بھی اسے خاموش رہنا چاہئے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہئے۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو معاشرے میں بیہودہ چرچے کرنے کے بجائے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں جرم ثابت کرکے اسے سزا دلوائے۔ (تفہیم القرآن)

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ Ć۝ۙ
[ وَالَّذِيْنَ: اور وہ لوگ جو][ يَرْمُوْنَ: تہمت لگاتے ہیں][ الْمُحْصَنٰتِ: پاکدامن عورتوں پر][ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا: پھر وہ لوگ نہیں لاتے][ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ: چارا گواہ][ فَاجْلِدُوْهُمْ: تو تم لوگ کھال پر مارو ان کو][ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً: اسی (80) کوڑے][ وَّلَا تَــقْبَلُوْا: اور تم لوگ قبول مت کرو][ لَهُمْ: ان کو][ شَهَادَةً: کوئی گواہی][ اَبَدًا ۚ: کبھی کبھی][ وَاُولٰۗىِٕكَ: اور یہ لوگ][ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ: (4) [ ہی نافرمانی کرنے والے]



نوٹ۔1: گرشتہ آیت ۔4۔ میں زنا کا الزام لگانے کا قانون بیان ہوا تھا جس کی رو سے ضروری ہے کہ الزام لگانے والا چار عینی گواہ پیش کرے اور جو یہ نہ کرسکے تو اس پر تہمت کی حد جاری کی جائے گی۔ عام آدمی کے لئے تو یہ ممکن ہے کہ جب چار گواہ میسر نہ ہوں تو وہ خاموش رہے لیکن شوہر کے لئے یہ معاملہ سنگین ہے۔ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور گواہ موجود نہیں ہیں۔ اب اگر وہ بولے تو تہمت زنا کی سزا پائے اور نہ بولے تو اس کی زندگی وبال ہو جائے ۔ اس لئے شوہر کے معاملہ کو عام قانون سے لاگ کرکے اس کا مستقل قانون بنا دیا گیا جو زیر مطالعہ آیات میں بیان ہوا ہے۔ اس کو لعان (ایک دوسرے پر لعنت کرنا) کہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ لعان صرف میاں بیوی کے معاملہ میں ہوسکتا ہے۔ دوسروں کا حکم وہی ہے جو آیت ۔4۔ میں گزر چکا ہے۔ (معارف القرآن)

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا  ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ۝
[ اِلَّا الَّذِيْنَ: سوائے ان کے جنہوں نے][ تَابُوْا: توبہ کی][ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ: اس کے بعد][ وَاَصْلَحُوْا ۚ: اور اصلاح کی (اپنی)][ فَاِنَّ اللّٰهَ: تو بیشک اللہ][ غَفُوْرٌ: بےانتہا بخشنے والا][ رَّحِيْمٌ : (5) [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔]

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَاۗءُ اِلَّآ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۢ بِاللّٰهِ ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ Č؀
[ وَالَّذِيْنَ: اور وہ لوگ جو] [ يَرْمُوْنَ: الزام دیتے ہیں][ اَزْوَاجَهُمْ : اپنی بیویوں کو][ وَ: اس حال میں کہ][ لَمْ يَكُنْ: نہیں کرتے][ لَّهُمْ: ان کے لئے][ شُهَدَاۗءُ: کچھ گواہ][ اِلَّآ: سوائے] [ اَنْفُسُهُمْ: ان کی جانوں کے][ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ : تو اں کے ایک کی گواہی][ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۢ: چار گواہیاں ہیں][ بِاللّٰهِ ۙ : اللہ کی قسم سے][ اِنَّهٗ: (کہ) بیشک وہ][ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ: (6) یقینا سچ کہنے والوں میں سے ہے]

وَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَيْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ Ċ۝
وَالْخَامِسَةُ [ اور پانچویں بار] اَنَّ [ یہ کہ] لَعْنَتَ اللّٰهِ [ اللہ کی لعنت ہو] عَلَيْهِ [ اس پر] اِنْ [ اگر] كَانَ [ وہ ہو] مِنَ الْكٰذِبِيْنَ [ جھوٹ کہنے والوں میں سے]

وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍۢ بِاللّٰهِ ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ  Ď۝ۙ
وَيَدْرَؤُا [ اور ہٹا دے گا] عَنْهَا [ اس عورت سے] الْعَذَابَ [ سزا کو] اَنْ [ (یہ) کہ] تَشْهَدَ [ وہ عورت گواہی دے] اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍۢ [ چار گواہیاں] بِاللّٰهِ ۙ [ اللہ کی قسم] اِنَّهٗ [ (کہ) بیشک وہ] لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ [ یقینا جھوٹ کہنے والوں میں سے ہے]

وَالْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَيْهَآ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ؀
وَالْخَامِسَةَ [ اور پانچویں بار] اَنَّ [ یہ کہ] غَضَبَ اللّٰهِ [ اللہ کا غضب ہو] عَلَيْهَآ [ اس پر] اِنْ [ اگر] كَانَ [ وہ ہو] مِنَ الصّٰدِقِيْنَ[ سچ کہنے والوں میں سے]



خ م س:

) ن ۔ ض) خمسا کسی چیز کا پانچواں حصہ لینا۔

 خمسۃ اسم عدد ہے مذکر کے لئے۔ مؤنث کے لئے خمس۔ پانچ۔ وَيَقُوْلُوْنَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ (اور کہیں گے وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے) 18/22۔

 خمسون پچاس۔ فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا ۭ (تو وہ رہے ان میں ہزار برس مگر پچاس سال) 29/14

 خمس کسی چیز کا پانچواں حصہ۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ (اور جان لو کہ جو تم لوگوں نے مال غنیمت حاصل کیا کسی چیز سے تو اللہ کے لئے ہے اس کا پانچواں حصہ) 8/41۔

 خامس ترتیب میں پانچواں۔ زیر مطالعہ آیت۔

ترکیب:

 (آیت ۔6) فشھادۃ احدھم یہ پورا فقرہ مبتدا ہے اور اربع شھدت اس کی خبر ہے اس لئے اربع حالت رفع میں آیا ہے۔ جبکہ اس کی تمیز ہونے کی وجہ سے شھدت حالت نصب میں ہے۔ (آیت ۔7) گزشتہ آیت میں اربع پر عطف ہونے کی وجہ سے والخامسۃ حالت رفع میں ہے۔ (آیت۔8) یدروا کا مفعول العذاب ہے۔ جبکہ ان تشھد اربع شھدت یہ پورا جملہ اس کا فاعل ہے۔ تشھد کا مفعول ہونے کی وجہ سے اربع حالت نصب میں ہے اور اگلی آیت میں اس پر عطف ہونے کی وجہ سے ولخامسۃ حالت نصب میں ہے۔

وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ وَاَنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَكِيْمٌ  10۝ۧ
وَلَوْلَا [ اور اگر نہ ہوتا] فَضْلُ اللّٰهِ [ اللہ کا فضل] عَلَيْكُمْ [ تو لوگوں پر] وَرَحْمَتُهٗ [ اور اس کی رحمت (تویہ رہنمائی نہ ملتی)] وَاَنَّ [ اور یہ کہ] اللّٰهَ [ اللہ] تَوَّابٌ [ باربار توبہ قبول کرنے والا ہے [ حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے]

اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ ۭ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ ۭ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۭ لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ۚ وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 11؀
اِنَّ الَّذِيْنَ [ بیشک جو لوگ] جَاۗءُوْ [ آئے] بِالْاِفْكِ [ اس بہتان کے ساتھ] عُصْبَةٌ [ وہ ایک گروہ ہے] مِّنْكُمْ ۭ [ تم لوگوں میں سے] لَا تَحْسَبُوْهُ [ تم لوگ مت سمجھو اس (بہتان) کو شَرًّا [ کوئی شر] لَّكُمْ ۭ [ اپنے لئے] بَلْ هُوَ [ بلکہ وہ] خَيْرٌ [ خیر ہے] لَّكُمْ ۭ [ تم لوگوں کے لئے] لِكُلِّ امْرِۍ [ ہر ایک شخص کے لئے ہے] مِّنْهُمْ [ ان میں سے] مَّا [ وہ جو] اكْتَسَبَ [ اس نے کمایا] مِنَ الْاِثْمِ ۚ [ اس گناہ میں سے] وَالَّذِيْ [ اور وہ جس نے] تَوَلّٰى [ اپنایا] كِبْرَهٗ [ اس کے بڑے (حصہ) کو] مِنْهُمْ [ ان میں سے] لَهٗ [ اس کے لئے] عَذَابٌ عَظِيْمٌ [ ایک عظیم عذاب ہے]

لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا ۙ وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ 12؀
لَوْلَآ [ کیوں نہیں] اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ [ جب تم لوگوں نے سنا اس (بہتان) کو] ظَنَّ [ تو خیال کیا] الْمُؤْمِنُوْنَ [ مومنوں نے] وَالْمُؤْمِنٰتُ [ اور مومنات نے] بِاَنْفُسِهِمْ [ اپنی جانوں (یعنی اپنے لوگوں) پر] خَيْرًا ۙ [ بھلائی کا] وَّقَالُوْا [ اور (کیوں نہیں) کہا] ھٰذَآ [ یہ] اِفْكٌ مُّبِيْنٌ [ ایک کھلا بہتان ہے]



نوٹ ۔1: واقعہ افک کی نوعیت یہ ہے کہ غزوۂ بنی مصطلق ہے واپسی میں فوج نے شب میں کہیں پڑاؤ ڈالا۔ فوج کے کوچ سے پہلے بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ضرورت سے باہر نکلیں۔ اتنے میں کوچ کا حکم ہوگیا اور قافلہ روانہ ہوگیا۔ بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ساربان بھی یہ سمجھ کر روانہ ہوگیا کہ وہ اپنے ہووج میں سوار ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلہ روانہ ہوگیا تھا۔ ان کو اس کے سوا کوئی اور تدبیر نظر نہیں آئی کہ وہیں ٹھہر جائیں تآنکہ اللہ تعالیٰ کوئی راہ پیدا کرے۔ حضرت صفوان رضی تعالیٰ عنہ اس خدمت پر مامور تھے کہ وہ قافلہ کے پیچھے چلیں تاکہ بھولی بسری چیزوں کا جائزہ لے سکیں۔ صبح کو جب وہ پڑاؤ کی جگہ پر پہنچے اور دیکھا کہ بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیچھے رہ گئی ہیں تو انھوں نے اپنا اونٹ بٹھایا۔ بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس پر سوار ہوگئیں اور انھوں نے مہار پکڑ کر اونٹ کو قافلہ سے جا ملایا۔ فوج کے کوچ و مقام کے دوران اس قسم کے واقعہ کا پیش آجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن منافقین نے اس ذرا سی بات کو ایک افسانہ بنا ڈالا۔

 اس واقعہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے حق میں برا نہیں ہوا بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر کے پہلو ہیں۔ اس واقعہ نے معاشرہ کی اصلاح و تنظیم سے متعلق بہت سے احکام و ہدایات کے نزول کے لئے ایک سازگار فضا پیدا کر دی کہ اگر اس فضا کے پیدا ہوئے بغیر یہ احکام اترتے تو بہت سے لوگوں پر ان کی حقیقی قدروقیمت واضح نہ ہو پاتی۔ (تدبر قرآن)۔



نوٹ۔2: آیت ۔12 میں اسلامی معاشرہ کا ایک اخلاقی اصول دیا گیا کہ ہر مسلمان مردوعورت کا یہ حق ہے کہ دوسرے افراد معاشرہ ان کے بارے میں حسن ظن رکھیں۔ اور اس وقت تک ان کے اس حق کا احترام کریں جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ اس حسن ظن کے حق دار باقی نہیں رہے۔ اس حق کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے بارے میں کان میں کوئی ایسی بات پڑے جو اس حسن ظن کو مجروح کرنے والی ہو تو وہ اس کو فورا قبول نہ کرے اور نہ آگے بیان کرے بلکہ اس کو رد کردے اور اس وقت تک اس پر یقین نہ کرے جب تک اس کے سامنے اس کا کوئی معقول ثبوت نہ آجائے۔ (تدبر قرآن)

لَوْلَا جَاۗءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ  ۚ فَاِذْ لَمْ يَاْتُوْا بِالشُّهَدَاۗءِ فَاُولٰۗىِٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ 13؀
لَوْلَا [ کیوں نہیں] جَاۗءُوْ [ وہ لوگ آئے] عَلَيْهِ [ اس پر] بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ ۚ [ چار گواہوں کے ساتھ] فَاِذْ [ پھر جب] لَمْ يَاْتُوْا [ وہ لوگ نہیں آئے] بِالشُّهَدَاۗءِ [ گواہوں کے ساتھ] فَاُولٰۗىِٕكَ [ تو وہ لوگ ہیں کہ] عِنْدَ اللّٰهِ[ اللہ کے نزدیک] هُمُ الْكٰذِبُوْنَ [ وہی جھوٹے ہیں]

وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِيْ مَآ اَفَضْتُمْ فِيْهِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ  14۝ښ
وَلَوْلَا [ اور اگر نہ ہوتا] فَضْلُ اللّٰهِ [ اللہ کا فضل] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر] وَرَحْمَتُهٗ [ اللہ کے نزدیک] فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ [ دنیا اور آخرت میں] لَمَسَّكُمْ [ تو ضرور چھوتا تم لوگوں کو] فِيْ مَآ [ اس میں] اَفَضْتُمْ [ تم لوگوں نے چرچا کیا] فِيْهِ [ جس میں] عَذَابٌ عَظِيْمٌ [ ایک عظیم عذاب]

اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَــقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا ڰ وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ  15؀
اِذْ [ جب] تَلَقَّوْنَهٗ [ تم لوگ لیتے تھے اس کو] بِاَلْسِنَتِكُمْ [ اپنی زبانوں پر] وَتَــقُوْلُوْنَ [ اور کہتے تھے] بِاَفْوَاهِكُمْ [ اپنے مونہوں سے] مَّا [ وہ] لَيْسَ [ نہیں تھا] لَكُمْ [ تمہارے لئے] بِهٖ [ جس کے بارے میں] عِلْمٌ [ کوئی علم] وَّتَحْسَبُوْنَهٗ [ اور تم لوگ سمجھتے تھے اس کو] هَيِّنًا ڰ [ ہلکا] وَّهُوَ [ حالانکہ وہ] عِنْدَ اللّٰهِ [ اللہ کے نزدیک] عَظِيْمٌ [ ایک بڑی (بات) تھی]

وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِھٰذَا ڰ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ  16؀
وَلَوْلَآ[ اور کیوں نہیں] اِذْ [ جب] سَمِعْتُمُوْهُ [ تم لوگوں نے سنا اس کو] قُلْتُمْ [ تو کہا] مَّا يَكُوْنُ [ نہیں ہوگا] لَنَآ [ ہمارے لئے (مناسب)] اَنْ [ کہ] نَّتَكَلَّمَ [ ہم کلام کریں] بِھٰذَا ڰ [ اس کے بارے میں] سُبْحٰنَكَ [ پاکیزگی تیری ہے] ھٰذَا [ یہ (تو)] بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ [ ایک عظیم بہتان ہے]

يَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٖٓ اَبَدًا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ 17۝ۚ
يَعِظُكُمُ [ نصیحت کرتا ہے تم لوگوں کو] اللّٰهُ [ اللہ] اَنْ [ کہ (انہیں)] تَعُوْدُوْا [ تم لوگ پھر کرو] لِمِثْلِهٖٓ [ اس کے جیسا (کام)] اَبَدًا [ کبھی بھی] اِنْ كُنْتُمْ [ اگر تم لوگ ہو] مُّؤْمِنِيْنَ [ مومن]

وَيُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 18؀
وَيُبَيِّنُ [ اور واضح کرتا ہے] اللّٰهُ [ اللہ] لَكُمُ [ تم لوگوں کے لئے] الْاٰيٰتِ ۭ [ ان آیات کو] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے] حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے]

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ  ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ  ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 19؀
اِنَّ الَّذِيْنَ [ بیشک جو لوگ] يُحِبُّوْنَ [ پسند کرتے ہیں] اَنْ [ کہ] تَشِيْعَ [ پھیلے] الْفَاحِشَةُ [ فحاشی] فِي الَّذِيْنَ [ ان لوگوں میں جو] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے] لَهُمْ [ ان کے لئے ہے] عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ [ ایک دردناک عذاب] فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ [ دنیا اور آخرت میں] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] يَعْلَمُ [ جانتا ہے] وَاَنْتُمْ [ اور تم لوگ] لَا تَعْلَمُوْنَ [ نہیں جانتے]

وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ وَاَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ 20۝ۧ
وَلَوْلَا [ اور اگر نہ ہوتا] فَضْلُ اللّٰهِ [ اللہ کا فضل] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر] وَرَحْمَتُهٗ [ اور اس کی رحمت] وَاَنَّ اللّٰهَ (اور یہ کہ اللہ) رَءُوْفٌ [ بےانتہا نرمی کرنے والا ہے] رَّحِيْمٌ [ ہر حال میں رحم کرنے والا ہے]



نوٹ۔1: اعلی اخلاقی اقدار کے رواج کی وجہ سے مدینہ میں اخوت و محبت پر مبنی جو مسلم معاشرہ پروان چڑھ رہا تھا وہ مخالفین اسلام خصوصا منافقین کو سخت ناگوار تھا۔ ان کی یہ خواہش تھی مسلمان بھی انہی اخلاقی پستیوں کے مکین رہیں جن میں وہ خود مبتلا تھے تاکہ ان کی اخلاقی گراوٹ نمایاں نہ ہو۔ واقعہ افک ان کی اسی دبی ہوئی خواہش کا ایک حقیر سا مظہر یعنی
Tip of the lceberg تھا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو جانتا تھا جبکہ عام مسلمان اس سے بےخبر تھے۔ آیت ۔19۔ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا تاکہ اس سورہ میں دئیے جانے والے احکام کی گہرائی اور گیرائی مسلمانوں کے ذہنوں میں پوری طرح واضح ہو جائے۔

 آج کے دور میں ایک عالمی تہذیب (
Globalization) رائج کرنے کا جو طوفان برپا ہے وہ مخالفین اسلام کی اس خواہش کا مظہر ہے کہ وہ مسلم معاشروں میں اسی فحاشی اور اخلاقی پستیوں کو رواج دینا چاہتے ہیں جنہیں وہ اپنی ’’ اعلیٰ تہذیب‘‘ کا طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں۔ فحاشی اور بےحیائی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوششیں فی الحال ہر جگہ ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کی یہ جدوجہد بےسود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا۔ (آل عمران۔195)۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری اس بظاہر ناکام جدوجہد کا نتیجہ ایک دن ضرور نکلے گا۔ اگر ہماری زندگی میں نہیں تو ہمارے بعد نکلے گا مگر ان شاء اللہ نکلے گا ضرور۔

 ہمیں خبر ہے ہم ہیں چراغ آخر شب

 ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے (ظہیر کاشمیری)

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ وَمَنْ يَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ فَاِنَّهٗ يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ  ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ مَا زَكٰي مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا  ۙ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ 21؀
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ [ اے لوگو جو] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے] لَا تَتَّبِعُوْا [ تم لوگ پیروی مت کرو] خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ [ شیطان کے نقوش قدم کی] وَمَنْ [ اور جو] يَّتَّبِعْ [ پیروی کرے گا] خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ [ شیطان کے نقوش قدم کی] فَاِنَّهٗ [ تو بیشک وہ (تو)] يَاْمُرُ [ ترغیب دیتا ہے] بِالْفَحْشَاۗءِ [ فحاشی کی] وَالْمُنْكَرِ ۭ [ اور برائی کی] وَلَوْلَا [ اور اگر نہ ہوتا] فَضْلُ اللّٰهِ [ اللہ کا فضل] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر] وَرَحْمَتُهٗ [ اور اس کی رحمت] مَا زَكٰي [ تو پاک نہ ہوتا] مِنْكُمْ [ تم میں سے] مِّنْ اَحَدٍ [ کوئی ایک بھی] اَبَدًا ۙ [ کبھی بھی] وَّلٰكِنَّ [ اور لیکن] اللّٰهَ [ اللہ] يُزَكِّيْ [ پاک کرتا ہے] مَنْ [ اس کو جس کو] يَّشَاۗءُ ۭ [ وہ چاہتا ہے] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] سَمِيْعٌ [ سننے والا ہے] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے]

وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ  ډ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا  ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ  ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 22؀
وَلَا يَاْتَلِ [ اور قسم نہ کھائیں] اُولُوا الْفَضْلِ [ فضل والے] مِنْكُمْ [ تم میں سے] وَالسَّعَةِ [ اور وسعت والے] اَنْ [ کہ] يُّؤْتُوْٓا [ وہ (نہ) دیں] اُولِي الْقُرْبٰى [ قرابی والوں کو] وَالْمَسٰكِيْنَ [ اور مسکینوں کو] وَالْمُهٰجِرِيْنَ [ اور مہاجروں کو] فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ډ [ اللہ کی راہ میں] وَلْيَعْفُوْا [ اور چاہیے کہ وہ معاف کر دیں] وَلْيَصْفَحُوْا ۭ [ اور چاہئے کہ وہ درگزر کریں] اَلَا تُحِبُّوْنَ [ کیا تم لوگو پسند نہیں کرتے] اَنْ [ کہ] يَّغْفِرَ [ بخش دے] اللّٰهُ [ اللہ] لَكُمْ ۭ [ تم لوگوں کو] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] غَفُوْرٌ [ بےانتہاء بخشنے والا ہے] رَّحِيْمٌ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]



نوٹ۔1: جو لوگ دوسروں کے عزت و ناموس کے معاملہ میں ہر قسم کی باتیں بےپروائی سے قبول کر لیتے ہیں اور ان سے بدگمانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ غمازی کرتا ہے کہ وہ اپنے باپ میں ضرورت سے زیادہ حسن ظن رکھتے ہیں اور ایک قسم کے ادعائے تزکیہ میں مبتلا ہیں خواہ ان کو اپنے اس باطن کا شعور ہو یا نہ ہو۔ اسی مخفی چور سے آیت ۔20۔ میں ان لوگوں کو آگاہ کیا کہ وہ شخص یاد رکھے کہ جن کو بھی کوئی پاکی و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے تو وہ محض اللہ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر اس کی توثیق شامل حال نہ ہو تو کوئی پاک نہیں ہو سکتا۔ تو کسی کو اپنے تقویٰ و تزکیہ کا اتنا غرہ نہ ہونا چاہئے کہ وہ دوسروں کے معاملہ میں ہر قسم کی باتیں بےتحقیق قبول کرلے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میری برأت نازل فرما دی تو حضرت ابوبکر  (رض)  نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ مسطح  (رض)  کی مدد نہیں کریں گے۔ کیونکہ انھوں نے نہ رشتہ داری کا لحاظ کیا اور نہ ان احسانات کی ہی کچھ شرم کی جو وہ ساری عمر ان پر اور ان کے خاندان پر کرتے رہے۔ جب آیت۔21۔ نازل ہوئی تو ابوبکر  (رض)  نے فورا کہا کہ واللہ ہم ضرور چاہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ہمای خطائیں معاف فرمائے۔ چنانچہ انھوں نے پھر مسطح  (رض)  کی مدد شروع کر دی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس  (رض)  کی رایت ہے کہ یہ قسم کچھ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے کھالی تھی کہ جب لوگوں نے اس بہتان میں حصہ لیا ہے ان کی وہ کوئی مدد نہ کریں گے۔ اس آیت کے نزول کے بعد سب نے اس عہد سے رجوع کر لیا۔ اس طرح وہ تلخی آنا فانا دور ہوگئی جو اس فتنہ نے معاشرے میں پھیلا دی تھی ۔ (تفہیم القرآن)

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ  ۠ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ  23؀ۙ
اِنَّ الَّذِيْنَ [ بیشک جو لوگ] يَرْمُوْنَ [ الزام دیتے ہیں] الْمُحْصَنٰتِ [ پاکدامن] الْغٰفِلٰتِ [ بےخبر (بھولی بھالی)] الْمُؤْمِنٰتِ [ مومن خواتین کو] لُعِنُوْا [ ان پر لعنت کی گئی] فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۠ [ دنیا اور آخرت میں] وَلَهُمْ [ اور ان کے لئے ہے] عَذَابٌ عَظِيْمٌ [ ایک عظیم عذاب]



نوٹ۔1: بہتان طرازی اور الزم تراشی کرنے والے مجرم قیامت کے دن نہ تو خود کوئی عذر پیش کرسکیں گے اور نہ ان کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے کسی خارجی شہادت کی ضرورت ہوگی۔ اس دن ان کی زبانیں اور ہاتھ پاؤں خود ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ انھوں نے کیا کیا تہمتیں تراشیں اور کیسے کیسے فساد برپا کئے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کا واجبی بدلہ پورا پورا چکا دے گا اور ان کے ساتھ نہ کوئی رعایت ہوگی نہ کوئی زیادتی۔ اس دنیا میں تو حالات پر بہت کچھ پردہ پڑا ہوا ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام حقائق کو آشکارا کرنے والا ہے۔ اسی طرح اس دنیا میں اچھے برے لوگ باہم جوڑ دیئے جائیں گے اور پاکیزہ مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کی رفاقت نصیب ہوگی۔ اور اس دن یہ لوگ ان خرافات اور بکواسوں سے بری کر دئیے جائیں گے جو اس دنیا میں ان کے خلاف کی جاتی ہیں۔ (تدبر قرآن)

يَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَاَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 24؀
يَّوْمَ [ جس دن] تَشْهَدُ [ گواہی دیں گے] عَلَيْهِمْ [ ان کے خلاف] اَلْسِنَتُهُمْ [ ان کی زبانیں] وَاَيْدِيْهِمْ [ اور ان کے ہاتھ] وَاَرْجُلُهُمْ [ اور ان کے پیر] بِمَا [ اس کی جو] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [ وہ لوگ کیا کرتے تھے]

يَوْمَىِٕذٍ يُّوَفِّيْهِمُ اللّٰهُ دِيْنَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِيْنُ 25؀
يَوْمَىِٕذٍ [ اس دن] يُّوَفِّيْهِمُ [ پورا پورا دے گا ان کو] اللّٰهُ [ اللہ] دِيْنَهُمُ الْحَقَّ [ ان کا برحق بدلہ][ وَيَعْلَمُوْنَ : اور وہ لوگ جان لیں گے]اَنَّ اللّٰهَ: کہ اللہ][ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِيْنُ : ہی واضح حق ہے][

اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ  ۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ  ۚ اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ  ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ 26؀ۧ
اَلْخَبِيْثٰتُ [ گندی عورتیں] لِلْخَبِيْثِيْنَ [ گندے مردوں کے لئے ہیں] وَالْخَبِيْثُوْنَ [ اور گندے مرد] لِلْخَبِيْثٰتِ ۚ [ گندی عورتوں کے لئے ہے] وَالطَّيِّبٰتُ [ اور پاک عورتیں] لِلطَّيِّبِيْنَ [ پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں] وَالطَّيِّبُوْنَ [ اور پاکیزہ مرد] لِلطَّيِّبٰتِ ۚ [ پاکیزہ عورتوں کے لئے ہے] اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ] مُبَرَّءُوْنَ[ بری کئے ہوئے ہیں] مِمَّا [ اس سے جو] يَقُوْلُوْنَ ۭ [ یہ لوگ کہتے ہیں] لَهُمْ [ ان کے لئے ہے] مَّغْفِرَةٌ [ مغفرت] وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ [ اور باعزت روزی]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا  ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 27؀
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ [ اے لوگو جو] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے] لَا تَدْخُلُوْا [ تم لوگ داخل مت ہو] بُيُوْتًا [ ایسے گھروں میں جو] غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ [ تمہارے گھروں کے علاوہ ہیں] حَتّٰى [ یہاں تک کہ] تَسْتَاْنِسُوْا [ تم لوگ اجازت مانگ لو] وَتُسَلِّمُوْا [ اور تم لوگ سلامتی کی دعا دے لو] عَلٰٓي اَهْلِهَا ۭ [ اس (گھر) کے لوگوں پر] ذٰلِكُمْ [ یہ] خَيْرٌ [ بہتر ہے] لَّكُمْ [ تمہارے لئے] لَعَلَّكُمْ [ شاید تم لوگ] تَذَكَّرُوْنَ [ نصیحت حاصل کرو]

فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ ۚ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ 28؀
فَاِنْ [ پھر اگر] لَّمْ تَجِدُوْا [ تم لوگ نہ پاؤ] فِيْهَآ [ اس (گھر) میں] اَحَدًا [ کسی ایک کو] فَلَا تَدْخُلُوْهَا [ تو مت داخل ہو اس میں] حَتّٰى [ یہاں تک کہ] يُؤْذَنَ [ اجازت دی جائے] لَكُمْ ۚ [ تمہیں] وَاِنْ [ اور اگر] قِيْلَ [ کہا جائے] لَكُمُ [ تم لوگوں سے] ارْجِعُوْا [ کہ واپس جاؤ] فَارْجِعُوْا [ تو واپس ہو جاؤ] هُوَ [ یہ] اَزْكٰى [ زیادہ پاکیزہ ہے] لَكُمْ ۭ [ تمہارے لئے] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] بِمَا [ اس کو جو] تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ کرتے ہو]عَلِيْمٌ [ ہمیشہ جاننے والا ہے

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِيْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْتُمُوْنَ 29؀
لَيْسَ [ نہیں ہے] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر] جُنَاحٌ [ کوئی گناہ] اَنْ [ کہ] تَدْخُلُوْا [ تم لوگ داخل ہو] بُيُوْتًا [ ایسے گھروں میں جو] غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ [ بغیر سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں] فِيْهَا [ ان میں] مَتَاعٌ [ کچھ سامان ہے] لَّكُمْ ۭ [ تمہارے لئے] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] يَعْلَمُ [ جانتا ہے] مَا [ اس کو جو] تُبْدُوْنَ [ تم لوگ ظاہر کرتے ہو] وَمَا [ اور اس کو جو] تَكْتُمُوْنَ[ تم لوگ چھپاتے ہو]



نوٹ۔1: اس سورہ کے آغاز میں آیت ۔ 26۔ تک جو احکام دئیے گئے ہیں وہ اس لئے ہیں کہ معاشرے میں برائی رونما ہو جائے تو اس کا تدارک کیسے کیا جائے۔ اب وہ احکام دئیے جا رہے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ تمدن کے طور طریقوں کی اصلاح کر کے ان اسباب کا سدباب کردیا جائے جن سے اس طرح کی خرابیاں رونما ہوتی ہیں۔ اسلامی شریعت جرم کے ساتھ اسباب جرم ، محرکات جرم اور رسائل ، ذرائع جرم پر بھی پابندی لگاتی ہے تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی عرصے پر ہی روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں۔ (تفہیم القرآن)۔ آج کے دور میں سعودی عرب میں ایسے جرائم کے ریکارڈ کا موازنہ مہذب دینا میں ایسے جرائم کے ریکارڈ سے کرلیا جائے تو ان احکام کی حکمت اور افادیت پوری طرح واضح ہو جائے گی۔

نوٹ۔2: زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ’’ صبح بخیر یا شام بخیر‘‘ کہتے ہوئے بےتکلف ایک دوسرے کے گھروں میں داخل ہو جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کیلئے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے (
Privacy) کا حق حاصل ہے اور کسی دوسرے شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو۔ رسول اللہ نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا۔ حتی کی دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط میں نظر دوڑائی وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ 30؀
قُلْ [ آپ
کہہ دیجئے] لِّلْمُؤْمِنِيْنَ [ مومنوں سے] يَغُضُّوْا [ تو وہ نیچی رکھیں گے] مِنْ اَبْصَارِهِمْ [ اپنی بصارتوں کو] وَيَحْفَظُوْا [ اور حفاظت کریں گے] فُرُوْجَهُمْ ۭ [ اپنی شرمگاہوں کی] ذٰلِكَ [ یہ] اَزْكٰى [ پاکیزہ تر ہے] لَهُمْ ۭ [ ان کے لئے] اِنَّ اللّٰهَ [ یقینا اللہ] خَبِيْرٌۢ [ با خبر ہے] بِمَا [ اس سے جو] يَصْنَعُوْنَ [ یہ لوگ کاریگری کرتے ہیں

غ ض ض:

(ن) غضا پست کرنا۔ نیچا کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔30۔

 اغضض فعل امر ہے۔ تو پست کر۔ تو نیچا رکھ۔ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ (اور تو نیچا رکھ اپنی آواز سے) 31/19



ترکیب: (آیت ۔30) یغضوا اور یحفظوا فعل امر غائب نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو لیغضوا اور لیحفظوا آتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دراصل فعل امر قل کا جواب امر ہونے کی وجہ سے مضارع مجزوم ہیں۔ ترجمہ میں اس فرق کو ظاہر کیا جائے گا۔

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ  ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ  ۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 31؀
وَقُلْ [ آپ
کہہ دیجئے] لِّلْمُؤْمِنٰتِ [ مومنات سے] يَغْضُضْنَ [ تو وہ نیچی رکھیں گی] مِنْ اَبْصَارِهِنَّ [ اپنی بصارتوں کو] وَيَحْفَظْنَ [ اور حفاظت کریں گے] فُرُوْجَهُنَّ [ اپنی شرمگاہوں کی] وَلَا يُبْدِيْنَ [ اور (یہ کہ) وہ ظاہر مت کریں] زِيْنَتَهُنَّ [ اپنے بناؤ سنگھار کو] اِلَّا مَا [ سوائے اس کے جو] ظَهَرَ [ (خود ہی) ظاہر ہوا] مِنْهَا [ اس میں سے] وَلْيَضْرِبْنَ [ اور چاہئے کہ وہ لپیٹ لیں] بِخُمُرِهِنَّ [ اپنی اوڑھنیوں کو] عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ [ اپنے گریباں پر] وَلَا يُبْدِيْنَ [ اور ظاہر مت کریں] زِيْنَتَهُنَّ [ اپنے بناؤ سنگھار کو] اِلَّا [ مگر] لِبُعُوْلَتِهِنَّ [ اپنے شوہروں کے سامنے] اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ [ یا اپنے باپوں کے سامنے] اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ [ یا اپنے شوہروں کے باپوں کے سامنے] اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ [ یا اپنے بیٹوں کے سامنے] اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ [ یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے سامنے] اَوْ اِخْوَانِهِنَّ [ یا اپنے بھائیوں کے سامنے] اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ [ یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں کے سامنے] اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ [ یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے سامنے] اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ [ یا اپنی عورتوں کے سامنے] اَوْ مَا [ یا اس کے سامنے جس کے] مَلَكَتْ [ مالک ہوئے] اَيْمَانُهُنَّ [ ان کے داہنے ہاتھ] اَوِ التّٰبِعِيْنَ [ یا تابع لوگ (یعنی نوکر) کے سامنے] غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ [ جو بغیر (جنسی) حاجت والے ہوں] مِنَ الرِّجَالِ[ مردوں میں سے] اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ [ یا ایسے بچوں کے سامنے جنہوں نے] لَمْ يَظْهَرُوْا [ (ابھی) نہیں جانا] عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ [ خواتین کے بھیدوں کو] وَلَا يَضْرِبْنَ[ اور وہ مت ماریں (زمین پر)] بِاَرْجُلِهِنَّ [ اپنے پیروں کو] لِيُعْلَمَ [ کہ جانا جائے] مَا [ وہ جس کو] يُخْفِيْنَ [ وہ چھپاتی ہیں] مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۭ [ اپنے سنگھار (یعنی زیورات) میں سے] وَتُوْبُوْٓا [ اور تم لوگ توبہ کرو] اِلَى اللّٰهِ [ اللہ سے] جَمِيْعًا [ سب کے سب] اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ [ اے ایمان لانے والو] لَعَلَّكُمْ [ شاہد تم لوگ] تُفْلِحُوْنَ [ فلاح پاؤ]



ج ی ب:

(ض) جیبا قمیص میں گریبان بنانا۔

 جیب ج جیوب۔ اسم ذات ہے۔ گریبان۔ وادخل یدک فی جیبک (اور آپ علیہ السلام داخل کریں اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں) 27/12۔ اور زیر مطالعہ آیت۔31

ع و ر:

(ن) عورا کسی چیز کو لے جانا اور تلف کر دینا۔ پانی کے چشمہ یا کنویں کو بند کر دینا یا بند ہو جانا۔

(افعال) اعوارا سوار میں نیزہ کی جگہ کا واضح ہونا۔ کسی چھپائی ہوئی چیز کا ظاہر ہو جانا۔

 عورۃ ج عورات۔ ہر وہ چیز جس کا نمایاں ہونا نا گوار یا ناپسندیدہ ہو۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے۔ (1) غیر محفوظ (
Vulnerable) جگہ۔ (2) بھید۔ راز۔ ان بیوتنا عورۃ (بیشک ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں)۔ (33 /13)۔ اور زیر مطالعہ آیت۔ 31۔



 (آیت۔ 31)۔ یغضن اور یحفظن بھی فعل امر قل کا جواب امر ہونے کی وجہ سے مضارع مجزوم ہیں جبکہ لا یبدین فعل نہی ہے۔ اس آیت میں ایھا المؤمنون کے بجائے ایہ المؤمنون لکھنا قرآن کا مخصوص املا ہے۔



نوٹ۔1: غض بصر کے حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا ہے۔ من ابصارھم میں من تبعیض کا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جائے۔ بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگار پر یہ پابندی عائد کرتا ہے۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ ہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا۔ دوسروں کے ستر پر نگاہ ڈالنا یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا۔ رسول اللہ
نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔ ایک اور حدیث میں آپ کا ارشاد ہے کہ جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹالے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ 32؀
وَاَنْكِحُوا [ اور تم لوگ نکاح کر دو] الْاَيَامٰى [ بےنگاحوں کا] مِنْكُمْ [ تم میں سے] وَالصّٰلِحِيْنَ [ اور نیکوں کا] مِنْ عِبَادِكُمْ [ تمہارے غلاموں میں سے] وَاِمَاۗىِٕكُمْ ۭ [ اور اپنی کنیزوں میں سے] اِنْ يَّكُوْنُوْا [ اگر وہ لوگ ہوں] فُقَرَاۗءَ [ مفلس] يُغْنِهِمُ [ تو غنی کردے گا ان کو] اللّٰهُ [ اللہ]مِنْ فَضْلِهٖ ۭ [ اپنے فضل سے] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] وَاسِعٌ[ وسعت والا ہے] عَلِيْمٌ[ جاننے والا ہے]



ء ی م:

(ض) ایما مرد کار انڈیا عورت کا بیوہ ہو جانا۔

 ایم ج ایامی۔ صفت ہے۔ رانڈ۔ بیوہ ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 32



نوٹ۔1: آیت ۔32۔ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس کا بھی نکاح ہو جائے گا اللہ اس کو مال دار بنا دے گا۔ بلکہ مدعا یہ ہے کہ لوگ اس معاملہ میں بہت زیادہ حسابی بن کر نہ رہ جائیں۔ اس میں لڑکے والوں کو تلقین ہے کہ کسی نوجوان کو محض اس لئے نہ بٹھا رکھیں کہ ابھی وہ زیادہ نہیں کما رہا ہے۔ تھوڑی آمدنی بھی ہو تو اللہ کے بھروسے پر شادی کر ڈالنی چاہئے۔ بسا اوقات خود شادی ہی آدمی کے حالات درست ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بیوی کی مدد سے اخراجات قابو میں آجاتے ہیں۔ ذمہ داریاں سر پر آجانے کے بعد آدمی پہلے سے زیادہ محنت اور کوشش کرنے لگتا ہے۔ بیوی معاش کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا سکتی ہے۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ مستقبل میں کس کے لئے کیا لکھا ہے۔ اسے کوئی بھی نہیں جان سکتا۔ اچھے حالات برے حالات میں بدل سکتے ہیں اور برے حالات اچھے حالات میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے آدمی کو ضرورت سے زیادہ حساب لگانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ (تفہیم القرآن) البتہ اگر تھوڑی بہت آمدنی بھی نہ ہو تو ایسے لوگوں کے لئے اگلی آیت میں ہدایت ہے کہ وہ اللہ کے فضل کا انتظار کریں اور برائیوں سے بچتے رہیں۔

نوٹ۔2: مکاتبت کے لفظی معنی تو ہیں ’’ لکھا پڑھی‘‘ مگر اصلاح میں یہ لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے کہ کوئی غلام یا لونڈی اپنی آزادی کے لئے اپنے آقا کو ایک معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کرے اور جب آقا اسے قبول کرلے تو دونوں کے درمیان شرائط کی لکھا پڑھی ہو جائے۔ اسلام میں غلاموں کی آزادی کے لئے جو صورتیں رکھی گئی ہے ، یہ ان میں سے ایک ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔3: غلامی اسلام کے اپنے نظام کا کوئی جز نہیں تھی بلکہ اس کو اسلام نے اس قوت کے بین الاقوامی اور ملکی حالت کے تحت محض اس لئے گوارہ کرلیا تھا کہ اگر بیک جنبش قلم اس کے خاتمہ کا اعلان کردیا جاتا تو اس سے معاشرے کے اندر سخت قسم کی معاشرتی اور معاشی الجھنیں پیدا ہو جاتیں۔ اس دور میں اول تو جنگی قیدیوں کے مسئلہ کا معروف حل یہی تھا کہ جنگی قیدیوں کو فاتحین غلام بنا لیں۔ ثانیا ہر منڈی میں غلاموں اور لونڈیوں کو خرید و فروخت کا کاروبار ہوتا تھا اور ہر ذی استطاعت کے گھر میں ہر سن و سال کی لونڈیاں اور غلام موجود تھے۔ ایسے حالات میں اگر بیک وقت اعلان کردیا جاتا کہ تمام لونڈیاں اور غلام آزاد ہیں تو ان سب کو معاشرے میں کہاں کھپایا جاتا۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی تھی جو یہ صلاحیت نہیں رکھتے تھے کہ خود اپنی کفالت کا بار اٹھا سکیں۔ غلامی کی صورت میں تو ان کے کفالت کی ذمہ داری قانونا ان کے مالکوں کے اوپر تھی لیکن آزاد ہو جانے کی صورت میں ان کیلئے اس کے سوا کوئی سبیل باقی نہ رہتی کہ بھیک مانگیں اور معاشرے پر ایک بوجھ بنیں۔ بالخصوص لونڈیوں کا مسئلہ اور بھی پیچیدہ تھا۔ ان مصالح کی وجہ سے اسلام نے ان کی آزادی کی ایسی راہ اختیار کی جس سے یہ خطرات بھی پیدا نہیں ہوتے اور بتدریج تمام ذی صلاحیت غلام اور لونڈیاں آزاد ہوکر اسلامی معاشرے کے جزو بھی بن گئے

 اسلام نے غلاموں کو آزادوں کی صف میں لانے کے لئے بتدریج ہدایات جاری کی تھیں۔ (1) مکی زندگی کے بالکل انتدائی دور ہی سے غلام آزاد کرنے کو ایک بہت بری نیکی قرار دیا۔ (2) رسول اللہ
نے واضح الفاظ میں غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک کی ہدایت کی بلکہ مالکوں پر ان کے انسانی حقوق کو شرعی درجہ سے دیا جس سے ان کے معاملہ میں مالکوں کی وہ خود مختیاری ختم ہوگئی جو زمانہ جاہلیت میں ان کو حاصل تھی۔ (3) بعض گناہوں اور کوتاہیوں کی صورت میں غلام آزاد کرنے کو کفارہ قرار دیا۔ (4) ذی صلاحیت لونڈیوں اور غلاموں کے نکاح کر دینے کی ہدایت کی تاکہ معاشرے میں ان کا معاشرتی معیار اونچا ہو۔ (5) بیت المال اور اموال زکوۃ کے مصارف میں ایک مستقل مد ’’ فی الرقاب‘‘ بھی رکھی گئی تاکہ غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی کی مہم تیز ہو۔ (6) اسیران جنگ سے متعلق بالعموم یہ پالیسی اختیار کی گئی ہے کہ خاص خاص سرغنوں کو تو بیشک قتل کیا گیا۔ لیکن عام قیدیوں کو فدیہ لے کردیا احسانا چھوڑ دیا گیا۔ (7) آخر میں مکاتبت کو ایک قانونی حیثیت دے دی گئی جس کے بعد ہر ذی صلاحیت غلام اور لونڈی کے لئے آزادی کی ہدایت سے کشادہ راہ کھل گئی۔ اس قانون نے عملا غلامی کا خاتمہ کردیا اور صرف وہ غلام بچ رہے جو ہاتھ پیر مارنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ (تدبر قرآن سے ماخوذ)۔

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ  ۭ وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا ڰ وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ ۭ وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا  ۭ وَمَنْ يُّكْرِھْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 33؀
وَلْيَسْتَعْفِفِ [ اور چاہیے کہ (برائیوں سے) بچے رہیں] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو] لَا يَجِدُوْنَ [ نہیں پاتے] نِكَاحًا [ نکاح (کے سامان) کو] حَتّٰى [ یہاں تک کہ] يُغْنِيَهُمُ [ غنی کر دے ان کو] اللّٰهُ [ اللہ] مِنْ فَضْلِهٖ ۭ [ اپنے فضل سے] وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو] يَبْتَغُوْنَ [ چاہتے ہیں] الْكِتٰبَ [ (آزادی کی) لکھت پڑھت] مِمَّا [ ان میں سے جن کو] مَلَكَتْ [ مالک ہوئے] اَيْمَانُكُمْ [ تمہارے داہنے ہاتھ] فَكَاتِبُوْهُمْ [ تو لکھ کر دوان کو]اِنْ عَلِمْتُمْ [ اگر تم جانتے ہو] فِيْهِمْ [ ان میں] خَيْرًا ڰ [ کوئی بھلائی] وَّاٰتُوْهُمْ [ اور تم لوگ دوان کو] مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِيْٓ [ اللہ کے اس مال میں سے جو] اٰتٰىكُمْ ۭ [ اس نے دیا تم کو] وَلَا تُكْرِهُوْا [ اور تم لوگ مجبور مت کرو] فَتَيٰتِكُمْ [ اپنی کنیزوں کو] عَلَي الْبِغَاۗءِ [ زیادتی (یعنی بدکاری) پر] اِنْ اَرَدْنَ [ اگر وہ ارادہ کریں] تَحَصُّنًا [ برائی سے بچنے کا] لِّتَبْتَغُوْا [ تاکہ تم لوگ تلاش کرو (یعنی کماؤ)] عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ [ دنیوی زندگی کا سامان] وَمَنْ [ اور جو کوئی] يُّكْرِھْهُّنَّ [ مجبور کرے گا ان کو] فَاِنَّ اللّٰهَ [ تو بیشک اللہ] مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ [ ان کو مجبور کئے جانے کے بعد] غَفُوْرٌ [ بےانتہاء بخشنے والا ہے] رَّحِيْمٌ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے

وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ 34؀ۧ
وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ [ اور بیشک ہم نے اتارا ہے] اِلَيْكُمْ [ تم لوگوں کی طرف] اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ [ خوب واضح کرنے والی نشانیاں] وَّ مَثَلًا [ اور کچھ مثال (یعنی حال)] مِّنَ الَّذِيْنَ [ ان لوگوں (کے حالات) میں سے جو] خَلَوْا [ گزرے] مِنْ قَبْلِكُمْ [ تم سے پہلے] وَمَوْعِظَةً [ اور نصیحت (بھی اتاری)] لِّلْمُتَّقِيْنَ [ تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے]

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ ۭ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ  ۙ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ  ۭ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ  ۭ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۭ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ  35؀ۙ
اَللّٰهُ [ اللہ] نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [ آسمانوں اور زمین کا نور ہے] مَثَلُ نُوْرِهٖ[ اس کے نور کی مثال] كَمِشْكٰوةٍ[ ایک ایسے طاق کی سی ہے] فِيْهَا [ جس میں] مِصْبَاحٌ ۭ [ ایک چراغ ہے] اَلْمِصْبَاحُ [ وہ چراغ] فِيْ زُجَاجَةٍ ۭ [ ایک شیشے کے برتن (قندیل) میں ہے] اَلزُّجَاجَةُ [ وہ قندیل] كَاَنَّهَا [ (ایسے ہے) جیسے کہ وہ] كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ ایک چمکدار ستارہ ہے] يُّوْقَدُ [ اس کو چمکایا جاتا ہے] مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ [ ایک ایسے برکت دئیے ہوئے درخت سے جو] زَيْتُوْنَةٍ [ ایک ایسا زیتون کا درخت ہے جو] لَّا شَرْقِيَّةٍ [ نہ مشرقی ہے] وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ [ اور نہ مغربی ہے] يَّكَادُ [ قریب ہے کہ] زَيْتُهَا [ اس کا تیل] يُضِيْۗءُ [ روشن ہو جائے] وَلَوْ [ اور اگرچہ] لَمْ تَمْسَسْهُ [ چھوا ہی نہیں اس کو] نَارٌ ۭ [ کسی آگ نے] نُوْرٌ [ (یہ) ایک نور ہے] عَلٰي نُوْرٍ ۭ [ نور پر] يَهْدِي [ ہدایت دیتا ہے] اللّٰهُ [ اللہ] لِنُوْرِهٖ [ اپنے نور کی] مَنْ [ اس کو جس کو] يَّشَاۗءُ ۭ [ وہ چاہتا ہے] وَيَضْرِبُ [ اور بیان کرتا ہے] اللّٰهُ [ اللہ] الْاَمْثَالَ [ مثالیں] لِلنَّاسِ ۭ [ لوگوں کے لئے] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] بِكُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز کو] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے]



زج ج:

(ض) زججا ابروکا دراز اور باریک ہونا۔

 زجاج اسم جنس ہے۔ واحد زجاجۃ۔ شیشے کا ٹکڑا ۔ شیشے کا برتن زیر مطالعہ آیت۔35۔



نوٹ۔1: آسمانوں اور زمین کا لفظ قرآن مجید میں بالعموم ’’ کائنات‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ البتہ دوسرے الفاظ میں اللہ نور السموت والارض کا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور سے مراد وہ چیز ہے جس کی بدولت اشیاء کا ظہور ہوتا ہے۔ (تفہیم القرآن)۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرفان وہ نور ہے جس کی بدولت اس کائنات کے اسرار و رموز انسان کی سمجھ میں آنا شروع ہو جاتے ہیں اور اسے اس بنیادی سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ ہم کون ہیں ۔ کہاں سے آتے ہیں، کیوں آتے ہیں ۔ پھر کہاں چلے جاتے ہیں اور کیوں جاتے ہیں۔ پھر اسے کائنات کی ہر چیز بالحق یعنی بامقصد اور الی اجل مسمی نظر آنے لگتی ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ معرفت الٰہی سے محروم ہوتے ہیں وہ علمی دنگل میں عقلی قلابازیاں کھاتے رہتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک فلسفہ بگھارتے ہیں لیکن ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ’’ سنی جو حکایت ہستی تو درمیان سے سنی +نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم‘‘۔

نوٹ۔2: بعض مفسرین نے فی بیوت سے مراد مساجد لی ہیں اور ان کو بلند کرنے سے مراد ان کی تعمیر کرنا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا لیا ہے۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے ان سے مراد اہل ایمان کے گھر لئے ہیں اور ان کو بلند کرنے کا مطلب ان کے نزدیک انھیں اخلاقی حیثیت سے بلند کرنا ہے۔ ’’ ان میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے‘‘۔ یہ الفاظ بظاہر مسجد والی تفسیر کی زیادہ تائید کرتے نظر آتے ہیں مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسری تفسیر کی بھی اتنی ہی تائید کرتے ہیں جتنی پہلی تفسیر کی۔ اس لئے کہ اللہ کی شریعت کہانت زدہ مذاہب کی طرح عبادت کو صرف عبادت گاہوں تک ہی محدود نہیں رکھتی جہاں کاہن یا پجاری طبقے کے کسی فرد کی پیشوائی کے بغیر مراسم بندگی ادا نہیں کیے جاسکتے، بلکہ یہاں مسجد کی طرح گھر بھی عبادت گاہ ہے۔ اور ہر شخص اپنا پروہت آپ ہے۔ چونکہ اس سورۃ میں تمام ترخانگی زندگی کو اعلیٰ و ارفع بنانے کے لئے ہدایت دی گئی ہیں۔ اس لئے دوسری تفسیر ہم کو موقع و محل کے لحاظ سے زیادہ موزوں لگتی ہے۔ اگرچہ پہلی تفسیر کو بھی رد کرنے کے لئے کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ کیا مضائقہ ہے اگر اس سے مراد مومنوں کے گھر اور ان کی مسجدیں ، دونوں ہی ہوں۔ (تفہیم القرآن)

فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ  ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ 36؀ۙ
فِيْ بُيُوْتٍ [ کچھ ایسے گھروں میں] اَذِنَ [ اجازت دی] اللّٰهُ [ اللہ نے] اَنْ [ کہ] تُرْفَعَ [ جن کو بلند کیا جائے] وَيُذْكَرَ [ اور یاد کیا جائے] فِيْهَا [ جن میں] اسْمُهٗ ۙ [ اس کانام] يُسَبِّحُ [ تسبیح کرتے ہیں] لَهٗ [ اس کی] فِيْهَا [ ان میں] بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ [ صبح اور شام کو]

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوةِ  ۽ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ 37؀ڎ
رِجَالٌ [ کچھ ایسے مرد] لَّا تُلْهِيْهِمْ [ غافل نہیں کرتی جن کو] تِجَارَةٌ [ کوئی تجارت] وَّلَا بَيْعٌ [ اور نہ کوئی خرید و فروخت] عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ [ اللہ کی یاد سے] وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ[ اور نماز قائم کرنے سے] وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوةِ ۽ [ اور زکوۃ پہنچانے سے] يَخَافُوْنَ [ وہ لوگ ڈرتے ہیں] يَوْمًا [ ایک ایسے دن سے] تَتَقَلَّبُ [ الٹ پلٹ جائیں گے] فِيْهِ [ جس میں] الْقُلُوْبُ [ دل] وَالْاَبْصَارُ [ اور آنکھیں]

لِيَجْزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَيَزِيْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ  ۭ وَاللّٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ  38؀
لِيَجْزِيَهُمُ [ تاکہ بدلہ دے ان کو] اللّٰهُ [ اللہ] اَحْسَنَ مَا [ اس کے بہترین سے جو] عَمِلُوْا [ انھوں نے عمل کئے] وَيَزِيْدَهُمْ[ اور تاکہ وہ زیادہ دے ان کو] مِّنْ فَضْلِهٖ ۭ [ اپنے فضل سے] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] يَرْزُقُ [ عطا کرتا ہے] من [ اس کو جس کو] مَنْ يَّشَاۗءُ [ وہ چاہتا ہے] بِغَيْرِ حِسَابٍ [ بےحساب]

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۢ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً  ۭ حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَهٗ لَمْ يَجِدْهُ شَـيْــــًٔـا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ  ۭ وَاللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ 39؀ۙ
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جنہوں نے] كَفَرُوْٓا [ انکار کیا (معرفت رب کا)] اَعْمَالُهُمْ [ ان کے اعمال ] كَسَرَابٍۢ بِقِيْعَةٍ [ ریتیلے میدانوں میں ایک سراب کی مانند ہیں] يَّحْسَبُهُ [ سمجھتا ہے اس کو] الظَّمْاٰنُ [ پیاسا] مَاۗءً ۭ [ پانی] حَتّيٰٓ [ یہاں تک کہ] اِذَا جَاۗءَهٗ [ جب وہ آتا (یعنی پہنچتا ( ہے اس کے پاس] لَمْ يَجِدْهُ [ تو وہ نہیں پاتا اس کو] شَـيْــــًٔـا [ کوئی چیز] وَّ وَجَدَ [ اور وہ پاتا ہے] اللّٰهَ [ اللہ کو] عِنْدَهٗ [ اس کے پاس (یعنی وہاں)] فَوَفّٰىهُ [ تو وہ پورا پورا چکا دیتا ہے اس کو] حِسَابَهٗ ۭ [ اس کا حساب] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] سَرِيْعُ الْحِسَابِ [ حساب لینے کا تیز ہے]



نوٹ۔1: کچھ لوگ انکار حق اور غلط عقائد کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ اگر آخرت ہوئی بھی تو ہماری یہ نیکیاں وہاں ہمارے کام آئیں گی۔ آیت۔39۔ کی مثال ایسے ہی لوگوں کے لئے ہے۔ ایمان صادق و کامل کے بغیر دنیا میں کی گئی نیکیاں دنیا میں تو کچھ فائدہ دے سکتی ہیں لیکن آخرت میں ان کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہاں پر اللہ تعالیٰ ان کے کفر و نفاق کا ان کو پورا پورا بدلہ دے گا اور ان کے نیک اعمال آخرت میں ان کے کچھ بھی کام نہیں آئیں گے۔

اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ يَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ۭ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَهٗ لَمْ يَكَدْ يَرٰىهَا  ۭ وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ 40؀ۧ
اَوْ كَظُلُمٰتٍ [ یا (ان کے اعمال) اندھیروں کی مانند ہیں) فِيْ بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ [ ایک ایسے بےپایاں سمندر میں] يَّغْشٰـىهُ [ چھاتی ہے جس پر] مَوْجٌ [ ایک موج] مِّنْ فَوْقِهٖ [ اس کے اوپر سے] مَوْجٌ [ ایک (اور) موج] مِّنْ فَوْقِهٖ [ اس کے اوپر سے] سَحَابٌ ۭ [ بادل] ظُلُمٰتٌۢ [ اندھیرے ہیں] بَعْضُهَا [ ان کے بعض] فَوْقَ بَعْضٍ ۭ [ بعض کے اوپر] اِذَآ [ جب] اَخْرَجَ [ وہ نکالتا ہے] يَدَهٗ [ اپنا ہاتھ] لَمْ يَكَدْ [ تو لگتا نہیں کہ] يَرٰىهَا ۭ [ وہ دیکھے اس کو] وَمَنْ [ اور وہ] لَّمْ يَجْعَلِ [ بنایا ہی نہیں] اللّٰهُ [ اللہ] لَهٗ [ جس کے لئے] نُوْرًا [ کوئی نور] فَمَا لَهٗ [ تو نہیں ہے اس کے لئے] مِنْ نُّوْرٍ ]

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ  ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ  ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ 41؀
اَلَمْ تَرَ[ کیا تو نے غور نہیں کیا] اَنَّ اللّٰهَ [ کہ اللہ (وہ ہے)] يُسَبِّحُ لَهٗ [ تسبیح کرتے ہیں جس کی] مَنْ [ وہ سب جو] فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [ آسمانوں اور زمین میں ہیں] وَالطَّيْرُ [ اور پرندے (بھی)] صٰۗفّٰتٍ ۭ [ قطار بنانے والے ہوتے ہیں] كُلٌّ [ ہر ایک نے] قَدْ عَلِمَ [ جان لیا ہے] صَلَاتَهٗ [ اپنی نماز کو] وَتَسْبِيْحَهٗ ۭ [ اور اپنی تسبیح] وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ [ اور اللہ جاننے ولا ہے] بِمَا [ اس کو جو] يَفْعَلُوْنَ [ وہ سب کرتے ہیں]

وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ  42؀
وَلِلّٰهِ [ اور اللہ ہی کی ہے] مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ [ آسمانوں اور زمین کی حکومت] وَاِلَى اللّٰهِ [ اور اللہ ہی کی طرف] الْمَصِيْرُ [ لوٹنا ہے]

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهٗ ثُمَّ يَجْعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ ۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْهَا مِنْۢ بَرَدٍ فَيُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ يَّشَاۗءُ  ۭ يَكَادُ سَـنَا بَرْقِهٖ يَذْهَبُ بِالْاَبْصَارِ 43؀ۭ
اَلَمْ تَرَ [ کیا تو نے دیکھا ہی نہیں] اَنَّ اللّٰهَ [ کہ اللہ] يُزْجِيْ [ ہانکتا ہے] سَحَابًا [ بادل کو] ثُمَّ يُؤَلِّفُ [ پھر وہ جمع کرتا ہے] بَيْنَهٗ [ آپس میں اس کو] ثُمَّ يَجْعَلُهٗ [ پھر وہ کرتا ہے اس کو] رُكَامًا [ تہہ در تہہ] فَتَرَى [ پھر تو دیکھتا ہے] الْوَدْقَ [ بارش (کے قطرے) کو] يَخْرُجُ [ وہ نکلتا ہے] مِنْ خِلٰلِهٖ ۚ [ اس کی دراڑوں سے] وَيُنَزِّلُ [ اور وہ اتارتا ہے] مِنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے] مِنْ جِبَالٍ [ کچھ ایسے پہاڑوں میں سے] فِيْهَا [ جن میں ہیں] مِنْۢ بَرَدٍ [ کچھ اولے] فَيُصِيْبُ بِهٖ [ پھر وہ لگاتا ہے انہیں] مَنْ [ اس کو جسے] يَّشَاۗءُ [ وہ چاہتا ہے] وَيَصْرِفُهٗ [ اور وہ پھیر دیتا ہے انہیں] عَنْ مَّنْ [ اس سے جس سے] يَّشَاۗءُ ۭ [ وہ چاہتا ہے] يَكَادُ [ قریب ہوتا ہے کہ ] سَـنَابَرْقِهٖ [ اس کی بجلی کی چمک]يَذْهَبُ [ لے جائے] بِالْاَبْصَارِ[ آنکھوں کو]



ودق

(ض) ودقا پانی ٹپکنا۔ بارش کا گرنا۔

 ودق اسم ذات بھی ہے۔ بارش۔ زیر مطالعہ آیت۔43



نوٹ۔1: وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْهَا مِنْۢ بَرَدٍ سے مراد سردی سے جمے ہوئے بادل بھی ہوسکتے ہیں جنہیں مجازا آسمان کے پہاڑ کہا گیا ہو۔ اور زمین کے پہاڑ بھی ہوسکتے ہیں جو آسمان میں بلند ہیں۔ جن کی چوٹیوں پر جمی ہوئی برف کے اثر سے بسا اوقات ہوا اتنی سرف ہو جاتی ہے کہ بادلوں میں انجماد پیدا ہونے لگتا ہے اور اولوں کی شکل میں بارش ہونے لگتی ہے۔ (تفہیم القرآن)

يُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ 44؀
يُقَلِّبُ [ باربار پلٹتا ہے] اللّٰهُ [ اللہ] الَّيْلَ [ رات کو] وَالنَّهَارَ ۭ [ اور دن کو] اِنَّ [ بیشک]فِيْ ذٰلِكَ [ اس میں] لَعِبْرَةً [ یقینا ایک عبرت ہے] لِّاُولِي الْاَبْصَارِ [ بصیرت والوں کیلئے]

وَاللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي بَطْنِهٖ  ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي رِجْلَيْنِ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰٓي اَرْبَعٍ  ۭ يَخْلُقُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ  45؀
وَاللّٰهُ [ اور اللہ نے] خَلَقَ [ پیدا کیا] كُلَّ دَاۗبَّةٍ [ ہر ایک چلنے والے جاندار کو] مِّنْ مَّاۗءٍ ۚ[ ایک پانی سے] فَمِنْهُمْ مَّنْ [ تو ان میں وہ ابھی ہیں جو] يَّمْشِيْ [ چلتے ہیں] عَلٰي بَطْنِهٖ ۚ[ اپنے پیٹ پر] وَمِنْهُمْ مَّنْ [ اور ان میں وہ بھی ہیں جو] يَّمْشِيْ [ چلتے ہیں] عَلٰي رِجْلَيْنِ ۚ [ وہ ٹانگوں پر] وَمِنْهُمْ مَّنْ [ اور ان میں وہ بھی ہیں جو] يَّمْشِيْ [ چلتے ہیں] عَلٰٓي اَرْبَعٍ ۭ[ چار پر] يَخْلُقُ [ پیدا کرتا ہے] اللّٰهُ [ اللہ] مَا [ وہ جو] يَشَاۗءُ ۭ[ وہ چاہتا ہے] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ[ ہر چیز پر] قَدِيْرٌ [ قدرت رکھنے والا ہے]

لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ  ۭ وَاللّٰهُ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 46؀
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ [ بیشک ہم نے اتاری ہیں] اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ ۭ [ خوب واضح کرنے والی نشانیاں] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] يَهْدِيْ [ ہدایت دیتا ہے] مَنْ [ اس کو جسے] يَّشَاۗءُ [ وہ چاہتا ہے] اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ [ ایک سیدھے راستے کی طرف

وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ  ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ  47؀
وَيَقُوْلُوْنَ [ اور وہ لوگ کہتے ہیں] اٰمَنَّا [ ہم ایمان لائے] بِاللّٰهِ [ اللہ پر] وَبِالرَّسُوْلِ [ اور ان رسول پر] وَاَطَعْنَا [ اور ہم نے اطاعت کی] ثُمَّ [ پھر] يَتَوَلّٰى [ روگردانی کرتا ہے] فَرِيْقٌ [ ایک فریق] مِّنْهُمْ [ ان میں سے] مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ۭ [ اس (اقرار) کے بعد] وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ[ اور وہ لوگ نہیں ہیں] بِالْمُؤْمِنِيْنَ[ ایمان لانے والے]



نوٹ ۔1: آیت ۔47۔ سے معلوم ہوگیا کہ کلمہ پڑھ لینے اور ایمان کا دعوی کرنے سے ایمان کا حق پورا نہیں ہو جاتا۔ بلکہ اس کے لئے شرط لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول
کی بےچون و چرا اطاعت کی جائے۔ اگر کوئی شخص یہ شرط پوری نہیں کرتا تو وہ اللہ کے نزدیک مومن نہیں ہے۔ پھر آیت ۔48۔49۔ میں اس قاعدہ کلمہ کی وضاحت منافقوں کے ایک مخصوص طرز عمل کے حوالہ سے کی گئی ہے۔ ابتداء جب تک اطراف مدینہ میں یہود بھی اپنے اپنے حلقوں میں اثر و رسوخ رکھتے تھے ، منافقین کی یہ روش رہی کہ وہ اپنے مقدمے ان ہی کی عدالتوں میں لے جاتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہود نے شریعت الٰہی میں تحریف کرکے اس کو خواہشات نفس کے سانچے میں ڈھال لیا تھا۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کے حکام کو رشوت دے کر خریدا جاسکتا تھا۔ اس صورت حال سے منافقین یہ فائدہ اٹھاتے تھے کہ اگر ان کو رسول اللہ کی عدالت سے حسب منشاء فیصلہ حاصل کرنے کی توقع ہوتی تب تو اپنے ایمان و اسلام کی نمائش کرتے ہوئے آپ کی عدالت میں مقدمہ لاتے اور اگر یہ توقع نہ ہوتی تو یہود کی عدالتوں سے رجوع کرتے۔ (تدبر قرآن سے ماخوذ)

 یہ سوچنا درست نہیں ہے کہ مدینہ کے منافقوں کے خاتمے کے ساتھ یہ روش بھی ختم ہوگئی ۔ یہ ذہنیت ہر دور میں سرگرم عمل رہی ہے اور آج بھی ہے۔ ہمارے درمیان ایسے مسلمان بھی ہیں جو اسلامی قوانین کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ تو وحشیانہ قانون ہے۔ یہ تو عورتوں پر ظلم ہے، یہ تو مزدروں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے وغیرہ۔ اور اسلامی قوانین میں جب کوئی ان کے مطلب کی بات سامنے آتی ہے تو پھر یہی لوگ اسلام کا ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں کہ دیکھو اسلام یہ کہتا ہے۔ شریعت کا یہ تقاضہ ہے کہ اس پر عمل ہونا چاہئے۔ (حافظ احمد یار صاحب کے کیسٹ سے ماخوذ)

وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ 48؀
وَاِذَا [ اور جب] دُعُوْٓا [ ان کو بلایا جاتا ہے] اِلَى اللّٰهِ [ اللہ کی طرف] وَرَسُوْلِهٖ [ اور اس کے رسول کی طرف] لِيَحْكُمَ [ تاکہ وہ فیصلہ کریں] بَيْنَهُمْ [ ان کے درمیان] اِذَا [ تب ہی] فَرِيْقٌ [ ایک فریق] مِّنْهُمْ [ ان میں سے] مُّعْرِضُوْنَ [ اعراض کرنے والا ہوتا ہے]

وَاِنْ يَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْٓا اِلَيْهِ مُذْعِنِيْنَ 49؀ۭ
وَاِنْ [ اور اگر] يَّكُنْ [ ہوتا ہے] لَّهُمُ [ ان کے لئے] الْحَقُّ [ حق] يَاْتُوْٓا [ تو وہ آتے ہیں] اِلَيْهِ [ اس (فیصلہ) کی طرف] مُذْعِنِيْنَ [ ماننے والے ہوتے ہوئے]



(س) ذعنا مطیع و فرمانبردار۔ حق ماننا۔

(افعال) اذعانا ثلاثی مجرد کا ہم معنی ہے۔

 مذعن اسم الفاعل ہے۔ مطیع ہونے والا۔ ماننے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 49

اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ يَخَافُوْنَ اَنْ يَّحِيْفَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُوْلُهٗ ۭ بَلْ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ 50؀ۧ
اَ [ کیا] فِيْ قُلُوْبِهِمْ [ ان کے دولوں میں] مَّرَضٌ [ کوئی مرض ہے] اَمِ [ یا] ارْتَابُوْٓا [ وہ شبہ میں پڑ گئے] اَمْ [ یا] يَخَافُوْنَ [ وہ ڈرتے ہیں] اَنْ [ کہ] يَّحِيْفَ [ نا انصافی کرے گا] اللّٰهُ [ اللہ] عَلَيْهِمْ [ ان کے خلاف] وَرَسُوْلُهٗ ۭ [ اور اس کا رسول] بَلْ [ بلکہ] اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ] هُمُ الظّٰلِمُوْنَ[ ہی ظلم کرنے والے ہیں]



ح ی ف

(ض) حیفا کسی پر زیادتی کرنا۔ ناانصافی کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔50۔

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا  ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ  51؀
اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] كَانَ [ (یہی) ہوتی ہے] قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ مومنوں کی بات] اِذَا [ جب بھی] دُعُوْٓا [ ان کو بلایا جائے] اِلَى اللّٰهِ[ اللہ کی طرف] وَرَسُوْلِهٖ [ اور اس کے رسول کی طرف] لِيَحْكُمَ [ تاکہ وہ فیصلہ کریں] بَيْنَهُمْ [ ان کے درمیان] اَنْ يَّقُوْلُوْا [ کہ وہ لوگ کہیں] سَمِعْنَا [ ہم نے سنا] وَاَطَعْنَا ۭ [ اور ہم اطاعت کی] وَاُولٰۗىِٕكَ [ اور وہ لوگ] هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ [ ہی فلاح پانے والے ہیں]



ترکیب: (آیت۔51) قول المؤمنین کے مضاف قوم کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ کان کی خبر ہے جبکہ آگے پورا فقرہ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا اس کا اسم ہے۔ یہاں کان آفاقی صداقت کا بیان ہے اس لئے اس کا ترجمہ حال میں ہوگا۔ دیکھیں آیت۔2/49۔



نوٹ۔2: (آیت۔51)۔ من شرطیہ ہے۔ اس لئے یطیع ۔ یخش اور یتق، یہ سب مضارع مجزوم ہیں۔ نوٹ کریں کہ مجزوم ہونے کی وجہ سے مضارع یتقی کی جب یا گرتی ہے تو یتق باقی بچتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ دراصل یتقہ ہے لیکن یہاں قاف کو ساکن کرکے یتقہ پڑھنا قرآن مجید کی مخصوص قرأت ہے (آیت ۔53) طاعۃ معروفۃ خبر ہے اس کا مبتدا محذوف ہے جو کہ المطلوب ہوسکتا ہے

وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَخْشَ اللّٰهَ وَيَتَّقْهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ 52؀
وَمَنْ [ اور جو] يُّطِعِ [ اطاعت کرتا ہے] اللّٰهَ [ اللہ کی] وَرَسُوْلَهٗ [ اور اس کے رسول
کی] وَيَخْشَ [ اور ڈرتا ہے] اللّٰهَ [ اللہ] وَيَتَّقْهِ [ اور تقوی کا زور لگاتے ہوئے] فَاُولٰۗىِٕكَ [ تو وہ لوگ] هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ [ ہی کامیاب ہونے والے ہیں]



نوٹ۔1: حضرت عمر  (رض)  ایک روز مسجد نبوی میں کھڑے تھے۔ اچانک ایک رومی دہقانی آدمی آپ کے برابر آکر کھڑا ہوگیا اور اس نے کلمہ پڑھا۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا کیا بات ہے تو اس نے کہا میں اللہ کے لئے مسلمان ہوگیا ہوں۔ حضرت عمر  (رض)  نے پوچھا کیا اس کا کوئی سبب ہے تو اس نے کہاں۔ بات یہ ہے کہ میں نے تورات ، انجیل، زبور اور انبیاء سابقین کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں۔ مگر حال میں ایک مسلمان قیدی قرآن کی ایک آیت پڑھ رہا تھا، وہ سنی تو معلوم ہوا کہ اس چھوٹی سی آیت نے تمام کتب قدیمہ کو اپنے اندر سمو لیا ہے تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ حضرت عمر  (رض)  نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے تو اس رومی نے زیر مطالعہ آیت۔52۔ تلاوت کی اور اس کے ساتھ اس کی تفسیر اس طرح بیان کی کہ من یطع اللّٰہ فرائض الٰہیہ کے متعلق ہے۔ ورسولہ سنت نبوی کے متعلق ہے۔ ویخش اللّٰہ گزشتہ عمر کے متعلق ہے۔ ویتقہ آئندہ باقی عمر کے متعلق ہے۔ جب انسان ان چار چیزوں کا عامل ہو جائے تو اس کو اولئک ہم الفائزون کی بشارت ہے۔ (معارف القرآن)

وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ اَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۭ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا  ۚ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ  53؀
وَاَقْسَمُوْا [ اور انھوں نے قسم کھائی] بِاللّٰهِ [ اللہ کی] جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ [ اپنی قسموں کا زور لگاتے ہوئے] لَىِٕنْ [ بیشک اگر] اَمَرْتَهُمْ [ آپ
حکم دیں گے ان کو] لَيَخْرُجُنَّ ۭ [ تو وہ لوگ لازما نکلیں گے] قُلْ [ آپ کہیے] لَّا تُقْسِمُوْا ۚ [ تم لوگ قسم مت کھاؤ] طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ ۭ [ (اصل مطلوب) جانی پہچانی اطاعت ہے] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ] خَبِيْرٌۢ [ باخبر ہے] بِمَا [ اس سے جو] تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگو کرتے ہو]

قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ  ۭ وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا  ۭ وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ 54؀
قُلْ [ آپ
کہیے] اَطِيْعُوا [ تم لوگ اطاعت کرو] اللّٰهَ [ اللہ کی] وَاَطِيْعُوا [ اور اطاعت کرو] الرَّسُوْلَ ۚ [ ان رسول کی] فَاِنْ [ پھر اگر] تَوَلَّوْا [ تم لوگ روگردانی کرتے ہو] فَاِنَّمَا [ تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] عَلَيْهِ [ ان پر (ذمہ داری) ہے] مَا [ اس کی جو] حُمِّلَ [ ان پر لازم کیا گیا] وَعَلَيْكُمْ [ اور تم لوگوں پر (ذمہ داری) ہے] مَّا [ اس کی جو] حُمِّلْتُمْ ۭ [ تم پر لازم کیا گیا] وَاِنْ [ اور اگر] تُطِيْعُوْهُ [ تم لوگ اطاعت کرو گے ان کی] تَهْتَدُوْا ۭ [ تو ہدایت پاؤ گے] وَمَا [ اور نہیں ہے] عَلَي الرَّسُوْلِ [ ان رسول پر (کوئی ذمہ داری)] اِلَّا [ مگر] الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ [ واضح طور پر پہنچانا]

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ  ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا  ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا  ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 55؀
وَعَدَ [ وعدہ کیا] اللّٰهُ [ اللہ نے] الَّذِيْنَ [ ان سے جو] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے] مِنْكُمْ [ تم میں سے] وَعَمِلُوا [ اور انھوں نے عمل کئے] الصّٰلِحٰتِ [ نیکیوں کے] لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ [ کہ وہ لازما جانشین بنائے گا ان کو] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں] كَمَا [ جیسے کہ] اسْتَخْلَفَ [ اس نے جانشین بنایا] الَّذِيْنَ [ ان کو جو] مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ [ ان سے پہلے تھے] وَلَيُمَكِّنَنَّ [ اور وہ لازما جما دے گا] لَهُمْ [ ان کے لئے] دِيْنَهُمُ الَّذِي [ ان کے اس دین کو جس سے] ارْتَضٰى [ وہ راضی ہوا] لَهُمْ [ ان کے لئے] وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ [ اور وہ لازما بدلہ دے گا ان کو] مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ [ ان کے خوف کے بعد] اَمْنًا ۭ [ امن] يَعْبُدُوْنَنِيْ [ وہ لوگ بندگی کریں گے میری] لَا يُشْرِكُوْنَ [ شریک نہیں کریں گے] بِيْ [ میرے ساتھ] شَـيْــــًٔـا ۭ [ کچھ بھی] وَمَنْ [ اور جو] كَفَرَ [ ناشکری کرے گا] بَعْدَ ذٰلِكَ [ اس کے بعد] فَاُولٰۗىِٕكَ [ تو وہ لوگ] هُمُ الْفٰسِقُوْنَ [ ہی نافرمانی کرنے والے ہیں]

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ 56؀
وَاَقِيْمُوا [ اور تم لوگ قائم کرو] الصَّلٰوةَ [ نماز کو] وَاٰتُوا [ اور پہنچاؤ] الزکوٰۃ [ زکوٰۃ کو] وَاَطِيْعُوا [ اور اطاعت کرو] الرَّسُوْلَ [ ان رسول
کی] لَعَلَّكُمْ [ شاید تم لوگوں پر] تُرْحَمُوْنَ [ رحم کیا جائے]

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۚ وَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ ۭ وَلَبِئْسَ الْمَصِيْرُ 57؀ۧ
لَا تَحْسَبَنَّ [ ہزگز گمان مت کرو] الَّذِيْنَ [ ان کو جنہوں نے] كَفَرُوْا [ کفر کیا] مُعْجِزِيْنَ [ عاجز کرنے والے] فِي الْاَرْضِ ۚ [ زمین میں] وَمَاْوٰىهُمُ [ اور ان کا ٹھکانہ] النَّارُ ۭ [ آگ ہے] وَلَبِئْسَ [ اور یقینا بری ہے (وہ)] الْمَصِيْرُ [ لوٹنے کی جگہ]



نوٹ۔1: یہ خطاب فرمایا رسول اللہ
کے وقت کے لوگوں کو یعنی جو ان میں اعلیٰ درجہ کے نیک اور رسول کے کامل متبع ہیں رسول اللہ کے بعد ان کو زمین کی حکومت دے گا اور جو دین اسلام خدا کو پسند ہے، ان کے ہاتھوں سے دنیا میں اس کو قائم کرے گا۔ گویا جیسا کہ لفظ استخلاف میں اشارہ ہے وہ لوگ محض دنیوی بادشاہوں کی طرح نہ ہوں گے بلکہ پیغمبر کے جانشین ہوکر آسمانی بادشاہت کا اعلان کریں گے اور دین حق کی بنیادیں جما دیں گے۔ الحمد للہ یہ وعدۂ الٰہی چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پر پورا ہوا اور دنیا نے اس پیشنگوئی کے ایک ایک حرف کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ خلفائے اربعہ کے بعد بھی کچھ بادشاہان اسلام وقتا فوقتا اس نمونے کے آتے رہے اور جب اللہ چاہے گا آئندہ بھی آئیں گے۔ احادیث سے معلوم ہوا کہ آخری خلیفہ حضرت امام مہدی ہوں گے۔ (ترجمہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ سے ماخوذ ہے)

 رسول اللہ
نے ارشاد فرمایا کہ خلافت میرے بعد تیس سال ہے پھر ملک ہوگا (یعنی بادشاہت ہوگی)۔ چنانچہ حضرت ابوبکر  (رض)  کی خلافت دو برس تین ماہ ، حضرت عمر  (رض)  کی خلافت دس سال چھ مال ، حضرت عثمان  (رض)  کی خلافت بارہ سال ، حضرت علی  (رض)  کی خلافت چار سال نو مال اور حضرت حسن  (رض)  کی خلافت چھ ماہ ہوئی۔ (تفسیر نعیمی)

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ  ۭ مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَحِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِيْرَةِ وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَاۗءِ  ڜ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ ۭ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ ۭ طَوّٰفُوْنَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭكَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 58؀
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ [ اے لوگو جو] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے] لِيَسْتَاْذِنْكُمُ [ چاہیے کہ اجازت مانگیں تم سے] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جن کے] مَلَكَتْ [ مالک ہوئے] اَيْمَانُكُمْ [ تمہارے داہنے ہاتھ] وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو] لَمْ يَبْلُغُوا [ (ابھی) نہیں پہنچے] الْحُلُمَ [ بلوغت کو] مِنْكُمْ [ تم میں سے] ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ۭ [ تین مرتبہ] مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ [ فجر کی نماز کے بعد سے] وَحِيْنَ [ اور جس وقت] تَضَعُوْنَ [ تم لوگ رکھتے ہو (اتار کے)] ثِيَابَكُمْ [ اپنے کپڑے] مِّنَ الظَّهِيْرَةِ [ دوپہر میں]وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَاۗءِ ڜ [ اور عشاء کی نماز کے بعد سے] ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ [ (یہ) بےپردگی والے تین (اوقات) ہیں] لَّكُمْ ۭ [ تمہارے لیے] لَيْسَ عَلَيْكُمْ[ نہیں ہے تم لوگوں پر] وَلَا عَلَيْهِمْ [ اور نہ ان لوگوں پر] جُنَاحٌۢ [ کوئی گناہ] بَعْدَهُنَّ ۭ [ ان (اوقات) کے بعد] طَوّٰفُوْنَ [ بار بار چکر لگانے والے ہیں] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر] بَعْضُكُمْ [ تمہارے بعض] عَلٰي بَعْضٍ ۭ [ بعض پر] كَذٰلِكَ [ اس طرح] يُبَيِّنُ [ واضح کرتا ہے] اللّٰهُ [ اللہ] لَكُمُ [ تمہارے لئے] الْاٰيٰتِ ۭ [ آیات کو] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے] حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے]

وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْاكَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭكَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهٖ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 59؀
وَاِذَا بَلَغَ [ اور جب پہنچیں] الْاَطْفَالُ [ بچے] مِنْكُمُ [ تم میں سے] الْحُلُمَ [ بلوغت کو] فَلْيَسْتَاْذِنُوْا [ تو چاہیے کہ وہ (ابھی) اجازت مانگیں] كَمَا [ جیسے کہ] اسْتَاْذَنَ [ اجازت مانگی] الَّذِيْنَ [ انھوں نے جو] مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ [ ان سے پہلے تھے] كَذٰلِكَ [ اس طرح] يُبَيِّنُ [ واضح کرتا ہے] اللّٰهُ [ اللہ] لَكُمْ [ تمہارے لئے] اٰيٰتِهٖ ۭ [ اپنی آیات کو] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے] حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے]

وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۢ بِزِيْنَةٍ  ۭوَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ  ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ  60؀
وَالْقَوَاعِدُ [ اور عمر رسیدہ خواتین] مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ [ ان عورتوں میں سے جو] لَا يَرْجُوْنَ [ امید نہیں رکھتیں] نِكَاحًا [ نکاح کی] فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ [ تو نہیں ہے ان پر] جُنَاحٌ [ کوئی گناہ] اَنْ يَّضَعْنَ [ کہ وہ رکھ دیں] ثِيَابَهُنَّ [ اپنے کپڑے (یعنی اوڑھنیاں] غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۢ [ بغیر نمایاں کرنے والیاں ہوتے ہوئے] بِزِيْنَةٍ ۭ [ زینت کو] وَاَنْ [ اور یہ کہ] يَّسْتَعْفِفْنَ [ وہ بچیں (اس سے)] خَيْرٌ [ تو بہتر ہے] لَّهُنَّ ۭ [ ان کے لئے] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] سَمِيْعٌ [ سننے والا ہے] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے]



نوٹ۔1: اس سے پہلے آیات ۔27۔28۔ میں اجازت لینے کا حکم بیان ہوا ہے کہ کسی سے ملاقات کو جاؤ تو اجازت لئے بغیر اس کے گھر میں داخل نہ ہو۔ یہ حکم ان کے لئے تھا جو باہر سے ملاقات کے لئے آئے ہوں۔ اب زیر مطالعہ آیت۔58۔59۔ میں اجازت لینے کا دوسرا حکم بیان ہوا ہے۔ اس کا تعلق ان لوگوں سے جو ایک گھر میں رہتے ہیں اور ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں۔ اور جن سے عورتوں کا پردہ بھی نہیں ہے۔ ان کے لئے حکم ہوا ہے کہ خلوت کے تین اوقات میں اجازت لے کر اندر داخل ہوں۔ (معارف القرآن)

لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَاۗىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗٓ اَوْ صَدِيْقِكُمْ ۭ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْـتَاتًا  ۭ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ 61؀ۧ
لَيْسَ [ نہیں ہے] عَلَي الْاَعْمٰى [ اندھے پر] حَرَجٌ [ کوئی حرج] وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ [ اور نہ لنگڑے پر] حَرَجٌ [ کوئی حرج ہے] وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ [ اور نہ مریض پر] حَرَجٌ [ کوئی حرج ہے] وَّلَا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ [ اور نہ تمہارے اپنے آپ پر] اَنْ [ کہ] تَاْكُلُوْا [ تم لوگ کھاؤ] مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ [ اپنے گھروں سے] اَوْ بُيُوْتِ اٰبَاۗىِٕكُمْ [ یا اپنے آباء کے گھروں سے] اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ[ یا اپنی ماؤں کے گھروں سے] اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ [ یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے] اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ [ یا اپنی بہنوں کے گھروں سے] اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ [ یا اپنے چاچوں کے گھروں سے]اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ [ یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے] اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ [ یا پنے ماموؤں کے گھروں سے] اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ [ یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے] اَوْ مَا [ یا اس (گھر) سے] مَلَكْتُمْ [ تم مالک ہوئے] مَّفَاتِحَهٗٓ [ جس کی کنجیوں کے] اَوْ صَدِيْقِكُمْ ۭ [ یا اپنے دوست (کے گھر) سے] لَيْسَ عَلَيْكُمْ [ نہیں ہے تم لوگوں پر] جُنَاحٌ [ کوئی گناہ] اَنْ تَاْكُلُوْا [ کہ تم لوگ کھاؤ] جَمِيْعًا [ سب کے سب (اکٹھا)] اَوْ اَشْـتَاتًا ۭ [ یا الگ الگ] فَاِذَا [ پھر جب بھی] دَخَلْتُمْ [ تم لوگ داخل ہو] بُيُوْتًا [ گھروں میں] فَسَلِّمُوْا [ تو سلامتی بھیجو (یعنی سلام کرو)] عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ [ اپنے لوگوں پر] تَحِيَّةً [ ایک ایسی دعا ہوتے ہوئے جو] مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ [ اللہ کے پاس سے] مُبٰرَكَةً [ برکت دی ہوئی ہو] طَيِّبَةً ۭ [ پاکیزہ ہو] كَذٰلِكَ [ اس طرح] يُبَيِّنُ [ واضح کرتا ہے] اللّٰهُ [ اللہ] لَكُمُ [ تمہارے لئے] الْاٰيٰتِ [ آیات کو] لَعَلَّكُمْ [ شاید تم لوگ] تَعْقِلُوْنَ[ عقل سے کام لو]



نوٹ۔1: پہلے یہ سمجھ لیں کہ اس آیت کے دو حصے ہیں ۔ پہلا معذور لوگوں کے بارے میں ہے اور دوسرا عام لوگوں کے بارے میں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حکم دیا کہ ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے مت کھاؤ۔ (البقرہ۔188) تو لوگ ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے میں بھی احتیاط کرنے لگے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک صاحب خانہ کی دعوت و اجازت نہ ہو، کسی عزیز یا دوست کے ہاں کھانا جائز نہیں ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جہاں تک معذور لوگوں کا تعلق ہے وہ ہر گھر اور ہر جگہ سے کھا سکتا ہے۔ جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے تو ان کے لئے ان کے اپنے گھر اور عزیزوں کے گھر یکساں ہیں۔ ان میں سے کسی کے ہاں کھانے کے لئے شرطوں کی ضرورت نہیں ہے۔ آدمی ان میں سے کسی کے گھر جائے اور گھر کا مالک موجود نہ ہو اور اس کے گھر والے کھانے کو کچھ پیش کریں تو بےتکلف کھایا جا سکتا ہے۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ)

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوْا حَتّٰى يَسْتَاْذِنُوْهُ  ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ  ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 62؀
اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] الْمُؤْمِنُوْنَ [ مومن] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ ہیں جو] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے] بِاللّٰهِ [ اللہ پر] وَرَسُوْلِهٖ [ اور اس کے رسول پر] وَاِذَا [ اور جب کبھی] كَانُوْا [ وہ ہوتے ہیں] مَعَهٗ [ ان کے ساتھ] عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ[ کسی جمع کرنے والے (یعنی اہم) معاملہ پر] لَّمْ يَذْهَبُوْا [ تو وہ جاتے ہی نہیں] حَتّٰى [ یہاں تک کہ] يَسْتَاْذِنُوْهُ ۭ [ وہ اجازت لے لیں ان سے] اِنَّ الَّذِيْنَ [ بیشک جو لوگ] يَسْتَاْذِنُوْنَكَ [ اجازت مانگتے ہیں آپ
سے] اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ] الَّذِيْنَ [ وہ ہیں جو] يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان لاتے ہیں] بِاللّٰهِ [ اللہ پر] وَرَسُوْلِهٖ ۚ [ اور اس کے رسول پر] فَاِذَا [ پھر جب بھی] اسْتَاْذَنُوْكَ [ وہ اجازت مانگیں آپ سے] لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ [ اپنی کسی مصروفیت کے لئے] فَاْذَنْ [ تو آپ اجازت دیں] لِّمَنْ [ اس کے لئے جس کو] شِئْتَ [ آپ چاہیں] مِنْهُمْ [ ان میں سے] وَاسْتَغْفِرْ [ اور آپ مغفرت مانگیں] لَهُمُ [ ان کے لئے] اللّٰهَ ۭ [ اللہ سے] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ] غَفُوْرٌ [ بےانتہا بخشنے والا ہے] رَّحِيْمٌ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]



نوٹ۔1: زیر مطالعہ آیت۔62۔ میں حکم ہے کہ جب رسول اللہ
کسی دینی جہاد وغیرہ کے لئے لوگوں کو جمع کریں تو ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ سب جمع ہو جائیں اور پھر آپ کی اجازت کے بغیر نہ جائیں۔ اور رسول اللہ کو یہ ہدایت ہے کہ کوئی خاص حرج نہ ہو تو اجازت دے دیا کریں۔ اسی ضمن میں ان منافقین کی مذمت ہے جو حاضر تو ہو جاتے ہیں مگر پھر کسی کی آڑ لے کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ عام مجلسوں کا حکم نہیں ہے بلکہ اس وقت کا ہے جب آپ نے ان کو کسی ضرورت سے جمع کیا ہو جیسا کہ واقعہ خندق میں ہوا۔ اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ چونکہ یہ حکم دینی اور اسلامی ضرورت کے لئے جاری کیا گیا ہے اور ایسی ضرورت ہر زمانے میں ہوسکتی ہے اس لئے یہ حکم آپ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ مسلمانوں کے ہر امام و امیر جس کے قبضہ میں زمام حکومت ہو۔ اس کا اور اس کی مجلس کا بھی یہی حکم ہے کہ جب وہ جمع ہونے کا حکم دے تو اس کی تعمیل واجب ہو جاتی ہے اور بغیر اجازت واپس جانا ناجائز ہے۔ اور اسلمی آداب معاشرت کے لحاظ سے یہ حکم باہمی اجتماعات اور عام مجلسوں کے لئے مستحب ہے۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)

لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا  ۭ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا  ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63؀
لَا تَجْعَلُوْا [ اور تم لوگ مت بناؤ [ دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ[ ان رسول کے بلانے کو [ بَيْنَكُمْ[ تمہارے درمیان سے (کسی کو)][ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۭ]تمہارے کسی کے کسی کو بلانے کی مانند [ قَدْ يَعْلَمُ[ جان چکا ہے][ اللّٰهُ [ اللہ][ الَّذِيْنَ ][ ان لوگوں کو جو][ يَتَسَلَّـلُوْنَ[ چپکے سے سٹک جاتے ہیں][ مِنْكُمْ][ تم میں سے][ لِوَاذًا ۚ[ کسی کی آڑ لیتے ہوئے][ فَلْيَحْذَرِ [ پس چاہیے کہ بچیں ][ الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو][ يُخَالِفُوْنَ[ خلاف کرتے ہیں][ عَنْ اَمْرِهٖٓ[ ان کے حکم کے][ اَنْ [ کہ][ تُصِيْبَهُمْ [ آلگے ان کو][ فِتْنَةٌ ][ فتنہ ][ اَوْ يُصِيْبَهُمْ [ یا آلگے ان کو][ عَذَابٌ اَلِيْمٌ[ کوئی دردناک عذاب]



ل و ذ

 (ن) لوذا کسی چیز میں چھپنا۔ پناہ لینا۔

(مفاعلہ) لواذا ایک دوسرے سے پناہ لیان۔ بچ کر نکل جانا۔ آیت زیر مطالعہ ۔ 63

اَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  ۭ قَدْ يَعْلَمُ مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ  ۭ وَيَوْمَ يُرْجَعُوْنَ اِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا  ۭ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ  64؀ۧ
اَلَآ: (کان کھول کر) سن لو][ اِنَّ لِلّٰهِ[ بےشک اللہ ہی کا ہے][ مَا: وہ جو][ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ[ آسمان اور زمین میں ہے][ قَدْ يَعْلَمُ: اس نے جان لیا ہے][ مَآ: اس کو][ اَنْتُمْ: تم لوگ][ عَلَيْهِ ۭ: جس پر ہو][ وَيَوْمَ: اور جس دن ][ يُرْجَعُوْنَ: وہ لوگ لوٹائے جائیں گے][ اِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُمْ: اس کی طرف تو وہ بتا دے گا ان کو][ بِمَا عَمِلُوْا ۭ: وہ جو انہوں نے عمل کیا][ وَاللّٰهُ: اور اللہ ][ بِكُلِّ شَيْءٍ: ہر چیز کا ][ عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا Ǻ۝ۙ
تَبٰرَكَ [ بابرکت ہوا] الَّذِيْ [ وہ جس نے] نَزَّلَ [ اتارا] الْفُرْقَانَ [ فرق واضح کرنے والے (قرآن) کو] عَلٰي عَبْدِهٖ [ اپنے بندے پر] لِيَكُوْنَ [ تاکہ وہ ہو جائے] لِلْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کے لئے] نَذِيْرَۨا [ ایک خبردار کرنے والا]

الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهُ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا Ą۝
الَّذِيْ [ وہ] لَهٗ [ جس کے لئے ہے] مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت] وَلَمْ يَتَّخِذْ [ اور اس نے بنایا ہی نہیں] وَلَدًا [ کوئی بیٹا] وَّلَمْ يَكُنْ [ اور ہوا ہی نہیں] لَّهُ [ اس کا] شَرِيْكٌ [ کوئی شریک] فِي الْمُلْكِ [ بادشاہت میں] وَخَلَقَ [ اور اس نے پیدا کیا] كُلَّ شَيْءٍ [ ہر چیز کو] فَقَدَّرَهٗ [ پھر اس نے اندازہ مقرر کیا اس کا] تَقْدِيْرًا [ جیسا اندازہ مقرر کرنے کا حق ہے]



نوٹ۔1: آیت۔2۔ میں ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو وجوہ بخشا ہے۔ بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لئے صورت ، جسامت، قوت واستعداد ، اوصاف و خصائص ، کام اور کام کا طریق، بقاء کی مدت، عروج و ارتقاء کی حد اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں۔ اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب وہ وسائل اور مواقع پیدا کئے ہیں جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے اپنے حصے کا کام کر رہی ہے (تفہیم القرآن)۔ اسی کو تقدیر کہتے ہیں۔

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً لَّا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــــًٔا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ وَلَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا يَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَيٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا Ǽ۝
وَاتَّخَذُوْا [ اور ان لوگوں نے بنائے] مِنْ دُوْنِهٖٓ [ اس کے علاوہ] اٰلِهَةً [ کچھ ایسے الہٰ جو] لَّا يَخْلُقُوْنَ [ پیدا نہیں کرتے] شَـيْـــــًٔا [ کوئی چیز] وَّهُمْ [ اور وہ لوگ (خود)] يُخْلَقُوْنَ [ پیدا کئے جاتے ہیں]وَلَا يَمْلِكُوْنَ [ اور وہ اختیار نہیں رکھتے] لِاَنْفُسِهِمْ [ اپنی جانوں کے لئے] ضَرًّا [ کسی نقصان کا] وَّلَا نَفْعًا [ اور نہ کسی نفع کا] وَّلَا يَمْلِكُوْنَ [ اور وہ اختیار نہیں رکھتے] مَوْتًا [ مرنے کا] وَّلَا حَيٰوةً [ اور نہ زندہ رہنے کا] وَّلَا نُشُوْرًا [ اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کا]

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكُۨ افْتَرٰىهُ وَاَعَانَهٗ عَلَيْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ڔ فَقَدْ جَاۗءُوْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا Ć۝ڔ
وَقَالَ الَّذِيْنَ [ اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے] كَفَرُوْٓا [ انکار کیا] اِنْ ھٰذَآ [ نہیں ہے یہ] اِلَّآ اِفْكُۨ [ مگر ایک جھوٹ] افْتَرٰىهُ [ اس نے گھڑا اس کو] وَاَعَانَهٗ [ اور اعانت کی اس کی] عَلَيْهِ [ اس پر]قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ڔ [ ایک دوسری قوم نے] فَقَدْ جَاۗءُوْ[ پس وہ لوگ آئے ہیں] ظُلْمًا [ ظلم کے ساتھ] وَّزُوْرًا [ اور جھوٹ کے ساتھ]



نوٹ۔2: آیت۔4۔5۔ میں جو اعتراض نقل کیا گیا ہے یہ وہی اعتراض ہے جو آج کل کے مغربی علماء قرآن مجید کے خلاف پیش کرتے ہیں ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ مشرکین مکہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ نبی
بچپن میں جب عیسائی راہب سے ملے تھے اس وقت یہ مضامین سیکھ لئے تھے۔ اور نہ یہ کہا کہ جوانی میں تجارتی سفروں کے دوران راہبوں اور یہودی علماء سے یہ معلومات حاصل کی تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ سفرا کیلئے نہیں بلکہ قافلوں کے ساتھ ہوئے تھے۔ اور وہ جانتے تھے کہ اگر ہم یہ الزام لگائیں گے تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں ہم کو جھٹلا دیں گی۔ اس کے علاوہ مکے کا عام آدمی پوچھے گا اگر یہ معلومات آپ کو تیرہ برس کی عمر میں عیسائی راہب سے حاصل ہوگئی تھیں یا 25 برس کی عمر میں تجارتی سفروں کے دوران حاصل ہوئی تھیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ چالیس برس کی عمر تک ان کا یہ سارا علم چھپا رہا اور کبھی ایک لفظ بھی ان کی زبان سے ایسا نہ نکلا جو اس علم کی غمازی کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ نے ایسے سفید جھوٹ کی جرأت نہ کی اور اسے بعد کے زیادہ بےحیا لوگوں کے لئے چھوڑ دیا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ اگلے لوگوں کی کتابوں کے اقتباسات راتوں کو ترجمہ اور نقل کرائے جاتے ہیں۔ پھر یہ کسی سے پڑھواکر سنتے ہیں اور یاد کرکے ہم کو سناتے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ چند آدمیوں کے نام لیتے تھے جو آزاد کردہ غلام تھے۔ مکہ میں رہتے تھے اور اہل کتاب تھے۔

 بظاہر یہ اعتراض وزنی معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے جواب میں قرآن نے کوئی دلیل نہیں پیش کی اور صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ تم ظلم کر رہے ہو اور جھوٹ کہتے ہو، یہ تو اللہ کا کلام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایسا ہی بےوزن اعتراض تھا کہ اس کے جواب میں بس ظلم اور جھوٹ کہہ دینا کافی تھا۔ کیا وجہ ہے کہ اس مختصر جواب کے بعد نہ عوام نے کسی واضح جواب کا مطالبہ کیا، نہ ایمان لانے والوں کے دلوں میں کوئی شک پیدا ہوا اور نہ مخالفین یہ کہہ سکے کہ ہمارے اس اعتراض کا جواب نہیں بن پڑ رہا ہے اور محض ظلم اور جھوٹ کہہ کر بات ٹالی جا رہی ہے۔ اس گتھی کا حل ہمیں اسی ماحول سے مل جاتا ہے جس میں یہ اعتراض کیا گیا تھا۔

 پہلی بات یہ تھی کہ مکہ کے سرداروں کے لئے یہ کچھ بھی مشکل نہ تھی کہ وہ مذکورہ افراد کے گھروں پر چھاپے مار کر پرانی کتابیں اور ان کے ترجمے برآمد کرکے عوام کے سامنے پیش کر دیتے۔ لیکن وہ بس زبانی دعوے کرتے رہے اور کبھی بھی یہ فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں جن لوگوں کا نام لیتے تھے وہ مکہ کے رہنے والے تھے۔ ان کی قابلیت کسی سے چھپی ہوئی نہ تھی۔ ہر شخص دیکھ سکتا تھا کہ نبی
جو کلام پیش کر رہے ہیں وہ کس پائے اور مرتبے کا ادب ہے اور مذکورہ لوگ کس درجے کے ہیں۔ اس وجہ سے کسی نے بھی اس اعتراض کو کوئی وزن نہ دیا۔ ہر شخص سمجھتا تھا کہ ان باتوں سے بس چلے دل کے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں ورنہ اس اعتراض میں کوئی جان نہیں ہے۔ اور اگر یہ لوگ ایسی ہی قابلیت رکھتے تھے تو انہوں نے اس سے خود اپنا چراغ کیوں نہ چلایا۔ اور نہ ہی نبی نے اسے اپنے کلام کے طور پر پیش کیا۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ)

وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا Ĉ۝
وَقَالُوْٓا [ اور انھوں نے کہا]اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ [ پہلے لوگوں کے قصے ہیں] اكْتَتَبَهَا [ اس نے تصنیف کیا ان کو] فَهِيَ [ پس وہ] تُمْلٰى عَلَيْهِ [ پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اس پر] بُكْرَةً [ صبح] وَّاَصِيْلًا [ اور شام]

قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِيْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا Č۝
قُلْ [ آپ
کہیے] اَنْزَلَهُ [ اس کا اتارا] الَّذِيْ [ اس نے جو] يَعْلَمُ [ جانتا ہے] السِّرَّ [ سارے بھیدوں کو] فِي السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں میں] وَالْاَرْضِ ۭ [ اور زمین میں] اِنَّهٗ [ یقینا وہ] كَانَ [ ہے] غَفُوْرًا [ بےانتہا بخشنے والا] رَّحِيْمًا [ ہمیشہ رحم کرنے والا]

وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ  ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا Ċ۝
وَقَالُوْا [ اور انہوں نے کہا] مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ [ اس رسول
کو کیا ہے (یعنی کیسا ہے) يَاْكُلُ [ جو کھاتا ہے] الطَّعَامَ [ کھانا] وَيَمْشِيْ [ اور چلتا ہے] فِي الْاَسْوَاقِ ۭ [ بازاروں میں] لَوْلَآ [ کیوں نہیں] اُنْزِلَ [ اتارا گیا] اِلَيْهِ [ اس کی طرف] مَلَكٌ [ کوئی فرشتہ] فَيَكُوْنَ [ تو وہ ہو جانا] مَعَهٗ [ اس کے ساتھ]نَذِيْرًا [ ایک خبردار کرنے والا]

اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا  ۭ وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا Ď۝
اَوْ يُلْقٰٓى [ یا ڈالا جاتا] اِلَيْهِ [ اس کی طرف] كَنْزٌ [ کوئی خزانہ] اَوْ تَكُوْنُ [ یا ہوتا] لَهٗ [ اس کے لئے] جَنَّةٌ [ کوئی باغ] يَّاْكُلُ [ وہ کھاتا] مِنْهَا ۭ [ اس میں سے] وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ [ اور ظالموں نے کہا] اِنْ تَتَّبِعُوْنَ [ تم لوگ پیروی نہیں کرتے] اِلَّا [ مگر]رَجُلًا مَّسْحُوْرًا [ ایک جادو کئے ہوئے شخص کی]

اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا ۝ۧ
اُنْظُرْ [ آپ
دیکھیں] كَيْفَ [ کیسے] ضَرَبُوْا [ انہوں نے بیان کیں] لَكَ [ آپ کے لئے] الْاَمْثَالَ [ مثالیں] فَضَلُّوْا [ تو وہ گمراپ ہوئے]فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ [ پھر وہ استطاعت نہیں رکھتے] سَبِيْلًا [ کسی راستے کی]

تَبٰرَكَ الَّذِيْٓ اِنْ شَاۗءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ  ۙ  وَيَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا 10؀
تَبٰرَكَ [ بابرکت ہوا] الَّذِيْٓ [ وہ جو] اِنْ شَاۗءَ [ اگر چاہے] جَعَلَ [ تو بنادے] لَكَ [ آپؐ کے لئے] خَيْرًا مِّنْ ذٰلِكَ [ اس سے بہتر] جَنّٰتٍ [ باغات] تَجْرِيْ [ بہتی ہوں] مِنْ تَحْتِهَا [ جن کے نیچے سے] الْاَنْهٰرُ ۙ [ نہریں]وَيَجْعَلْ [ اور وہ بنا دے] لَّكَ [ آپ
کے لئے]قُصُوْرًا [ کچھ محلات]

بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ  ۣ وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيْرًا 11۝ۚ
بَلْ [ بلکہ] كَذَّبُوْا [ انہوں نے جھٹلایا] بِالسَّاعَةِ ۣ [ اس گھڑی (یعنی قیامت) کو] وَاَعْتَدْنَا [ اور ہم نے تیار کیا] لِمَنْ [ اس کے لئے جس نے] كَذَّبَ [ جھٹلایا] بِالسَّاعَةِ [ اس گھڑی کو] سَعِيْرًا [ ایک شعلوں والی آگ]



نوٹ۔1: بل کذبوا بالساعۃ کا مطلب یہ ہے کہ جو باتیں یہ کر رہے ہیں ان کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کو واقعی قرآن کے جعلی کلام ہونے کا خدشہ ہے یا ایمان نہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ
کھانا کھاتے ہیں ، بازاروں میں چلتے ہیں، نہ آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ ہے، نہ کوئی خزانہ ہے۔ اصل وجہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مانتے۔ جس نے ان کو حق اور باطل کے معاملہ میں بالکل غیر سنجیدہ بنا دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ دوسرے سے کسی غور و فکر اور تحقیق و جستجو کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ اس لئے آپ کی دعوت کو رد کرنے کے لئے ایسی مضحکہ خیز حجتیں پیش کرتے ہیں۔ (تفہیم القرآن)

اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيْرًا 12؀
اِذَا [ جب] رَاَتْهُمْ [ وہ (آگ) دیکھے گی ان کو] مِّنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ [ دور والی جگہ سے] سَمِعُوْا [ تو وہ سنیں گے] لَهَا [ اس کو] تَغَيُّظًا [ غصہ سے کھولتے ہوئے] وَّزَفِيْرًا [ اور چنگھاڑتے ہوئے]

وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا 13۝ۭ
وَاِذَآ [ اور جب] اُلْقُوْا [ وہ لوگ ڈالے جائیں گے] مِنْهَا [ اس میں سے] مَكَانًا ضَيِّقًا [ ایک تنگ جگہ میں] مُّقَرَّنِيْنَ [ جکڑے ہوئے]دَعَوْا [ تو وہ دعا کریں گے] هُنَالِكَ [ وہیں] ثُبُوْرًا [ ہلاک ہونے کی]

لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِيْرًا 14؀
لَا تَدْعُوا [ تم لوگ دعا مت کرو] الْيَوْمَ [ آج کے دن] ثُبُوْرًا وَّاحِدًا [ ایک مرتبہ ہلاک ہونے کی] وَّادْعُوْا [ اور دعا کرو] ثُبُوْرًا كَثِيْرًا [ کثرت سے (یعنی بار بار) ہلاک ہونے کی]

قُلْ اَذٰلِكَ خَيْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ ۭ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاۗءً وَّمَصِيْرًا 15؀
قُلْ[ آپ
کہیے] اَذٰلِكَ [ کیا یہ] خَيْرٌ [ بہتر ہے]اَمْ [ یا] جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِيْ [ ہمیشگی کا وہ باغ جس کا] وُعِدَ [ وعدہ کیا گیا] الْمُتَّقُوْنَ ۭ [ تقوی کرنے والوں سے] كَانَتْ لَهُمْ [ وہ (باغ) ہوگا ان کے لئے] جَزَاۗءً [ ایک بدلہ] وَّمَصِيْرًا [ اور ایک لوٹنے کی جگہ]

لَهُمْ فِيْهَا مَا يَشَاۗءُوْنَ خٰلِدِيْنَ  ۭ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْـُٔـوْلًا 16؀
لَهُمْ [ ان کے لئے] فِيْهَا [ اس میں ہے] مَا [ وہ جو] يَشَاۗءُوْنَ[ وہ چاہیں گے] خٰلِدِيْنَ ۭ [ ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے] كَانَ عَلٰي رَبِّكَ [ یہ ہے آپ
کے رب پر]وَعْدًا مَّسْـُٔـوْلًا [ ایک مانگا ہوا وعدہ]

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ هٰٓؤُلَاۗءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيْلَ 17؀ۭ
وَيَوْمَ [ اور جس دن] يَحْشُرُهُمْ [ وہ اکٹھا کرے گا ان لوگوں کو] وَمَا [ اور ان کو جن کی] يَعْبُدُوْنَ [ یہ لوگ بندگی کرتے ہیں]مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ] فَيَقُوْلُ [ پھر وہ کہے گا] ءَ اَنْتُمْ [ کیا تم لوگوں نے ہی]اَضْلَلْتُمْ [ گمراہ کیا] عِبَادِيْ هٰٓؤُلَاۗءِ[ میرے ان بندوں کو] اَمْ هُمْ [ یا وہ لوگ (خود) ہی] ضَلُّوا [ بھٹک گئے] السَّبِيْلَ [ راستے سے]



نوٹ۔1: عربی میں عام طور پر غیر عاقل چیزوں کے لئے ما اور عاقل لوگوں کے لئے من آتا ہے ۔ اس لئے آیت ۔17 میں مایعبدون سے مراد وہ بت اور مورتیاں معلوم ہوتی ہیں جن کو پوجا جاتا ہے ۔ لیکن آگے کی عبارت بتا رہی ہے اس سے مراد عاقل لوگ ہیں ۔ تفسیر نعیمی میں ہے کہ یہاں عاقل اور غیر عاقل دونوں مراد ہیں ۔ اللہ تعالیٰ بتوں کو قوت گویائی عطا کرے گا ۔ تفہیم القرآن اور تدبر قرآن میں ہے کہ اس سے مراد انبیاء اور صلحاء ہیں اور میدان حشر میں وہ اپنے پر ستاروں سے اعلان برأت کریں گے ۔

قَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ يَنْۢبَغِيْ لَنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ وَلٰكِنْ مَّتَّعْتَهُمْ وَاٰبَاۗءَهُمْ حَتّٰي نَسُوا الذِّكْرَ  ۚ وَكَانُوْا قَوْمًۢا بُوْرًا 18؀
قَالُوْا [ وہ کہیں گے] سُبْحٰنَكَ [ پاکیزگی تیری ہے] مَا كَانَ [ نہیں تھا] يَنْۢبَغِيْ [ سزا وار] لَنَآ [ ہمارے لئے] اَنْ نَّتَّخِذَ [ کہ ہم بناتے]مِنْ دُوْنِكَ[ تیرے علاوہ] مِنْ اَوْلِيَاۗءَ [ کوئی بھی کار ساز] وَلٰكِنْ [ اور لیکن]مَّتَّعْتَهُمْ [ تو نے عرصہ تک فائدہ اٹھانے دیا ان کو] وَاٰبَاۗءَهُمْ [ اور ان کے پاپ دادا کو]حَتّٰي [ یہاں تک کہ] نَسُوا [ یہ لوگ بھول گئے] الذِّكْرَ ۚ[ ساری نصیحتوں کو] وَكَانُوْا [ اور وہ تھے] قَوْمًۢا بُوْرًا [ ایک ہلاک ہونے والی قوم]

فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ ۙ فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ صَرْفًا وَّلَا نَصْرًا ۚ وَمَنْ يَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيْرًا 19؀
فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ [ تو انھوں نے جھٹلا دیا ہے تم لوگوں کو] بِمَا [ اس میں جو]تَقُوْلُوْنَ ۙ [ تم لوگ کہتے ہو] فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ [ پس تم لوگ استطاعت نہیں رکھتے] صَرْفًا [ ہٹانے کی (عذاب کو] وَّلَا نَصْرًا ۚ [ اور نہ مدد کرنے کی] وَمَنْ [ اور جس نے] يَّظْلِمْ [ ظلم کیا] مِّنْكُمْ [ تم میں سے] نُذِقْهُ [ اس کو ہم چکھائیں گے] عَذَابًا كَبِيْرًا [ ایک بڑا عذاب]

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ  ۭ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً  ۭ اَتَصْبِرُوْنَ  ۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا 20؀ۧ
وَمَآ اَرْسَلْنَا [ اور ہم نے نہیں بھیجا] قَبْلَكَ [ آپ
سے پہلے]مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ [ رسولوں میں سے (کسی کو)] اِلَّآ [ سوائے اس کے کہ] اِنَّهُمْ [ بیشک وہ سب] لَيَاْكُلُوْنَ [ یقینا کھاتے تھے] الطَّعَامَ [ کھانا] وَيَمْشُوْنَ [ اور چلتے تھے] فِي الْاَسْوَاقِ ۭ [ بازاروں میں] وَجَعَلْنَا [ اور ہم نے بنایا] بَعْضَكُمْ [ تمہارے کسی کو] لِبَعْضٍ [ کسی کے لئے] فِتْنَةً ۭ [ ایک آزمائش] اَتَصْبِرُوْنَ ۚ [ کیا تم لوگ ثابت قدم رہتے ہو] وَكَانَ [ اور ہے] رَبُّكَ [ آپ کا رب] بَصِيْرًا [ دیکھنے والا]