قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
انیسواں پارہ

وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰي رَبَّنَا ۭ لَـقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِيْرًا    21؀
وَقَالَ [ اور کہا] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں نے جو]لَا يَرْجُوْنَ [ امید نہیں رکھتے] لِقَاۗءَنَا [ ہم سے ملاقات کرنے کی] لَوْلَآ [ کیوں نہیں] اُنْزِلَ [ اتارے گئے] عَلَيْنَا [ ہم پر] الْمَلٰۗىِٕكَةُ [ فرشتے] اَوْ نَرٰي [ یا (کیوں نہیں) ہم دیکھتے] رَبَّنَا ۭاپنے رب کو] لَـقَدِ اسْتَكْبَرُوْا [ یقینا وہ بڑے بنے ہیں] فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ [ اپنے جی (یعنی زعم) میں] وَعَتَوْ [ اور انہوں نے سرکشی کی] عُتُوًّا كَبِيْرًا [ ایک بڑی سرکشی]

يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَةَ لَا بُشْرٰى يَوْمَىِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِيْنَ وَيَقُوْلُوْنَ حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا   22؀
يَوْمَ [ جس دن]يَرَوْنَ [ وہ دیکھیں گے] الْمَلٰۗىِٕكَةَ [ فرشتوں کو] لَا بُشْرٰى [ کوئی خوشخبری نہیں ہوگی] يَوْمَىِٕذٍ [ اس دن] لِّلْمُجْرِمِيْنَ [ مجرموں کیلئے] وَيَقُوْلُوْنَ [ اور کہیں گے] حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا [ کوئی مضبوط رکاوٹ (یعنی پناہ) ہو]

وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا    23؀
وَقَدِمْنَآ [ اور ہم نے ارادہ کیا] اِلٰى مَا [ اس کی طرف جو] عَمِلُوْا [ انہوں نے عمل کئے] مِنْ عَمَلٍ [ کوئی بھی عمل] فَجَـعَلْنٰهُ [ تو ہم نے کردیا اس کو] هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا [ ایک بکھیرا ہوا غبار]



ھـ ب و

(ن) ھبوا آہستہ چلنا۔ غبار کا بلند ہونا

 ھباء مٹی کے باریک ذرات جو فضا میں پھیلے ہوتی ہیں۔ غبار۔ زیر مطالعہ آیت۔23

ن ث ر

(ن ۔ ض) نثرا کسی چیز کو بکھیرنا۔

 منشور بکھیرا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت۔23۔

 (افتعال) انتثار کسی چیز کو بکھر جانا۔ وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ (اور جب تارے بکھر جائیں گے)۔82/2۔

اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا   24؀
اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ [ جنت والے] يَوْمَىِٕذٍ [ اس دن] خَيْرٌ [ بہتر ہوں گے] مُّسْتَــقَرًّا [ بلحاظ ٹھکانے کے] وَّاَحْسَنُ [ زیادہ اچھے ہوں گے] مَقِيْلًا [ بلحاظ آرام گاہ کے]



نوٹ۔1: آیت۔24۔ میں بھی یومئذ سے مراد حشر کا دین ہے اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ میدان حشر میں جنت کے مستحق لوگوں کے ساتھ مجرمین سے مختلف معاملہ ہوگا۔ وہ عزت کے ساتھ بٹھائے جائیں گے اور روز حشر کی سخت دوپہر گزارنے کے لئے ان کو آرام کی جگہ دی جائے گی۔ اس دن کی ساری سختیاں مجرموں کے لئے ہوں گی نہ کہ نیکوکاروں کے لئے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ حضور
نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ قیامت کا عظیم الشان اور خوفناک دن ایک مومن کے لئے بہت ہلکا کردیا جائے گا حتی کہ اتنا ہلکا جتنا دنیا میں ایک فرض نماز پڑھنے کا وقت ہوتا ہے۔ (تفہیم القرآن)۔ آیت میں لفظ مقیلا استعمال ہوا ہے جو معنی خیز ہے۔ مادہ ’’ ق ی ل‘‘ سے ماضی ، مضارع اور مصدر قال۔ یقیل۔ قیلولۃ بنتا ہے اس کے معنی ہیں ’’ دوپہر کو آرام کرنا خواہ نیند نہ آئے‘‘۔ اس سے اسم الظرف مقیل بنتا ہے جس کے معنی ہیں دوپہر کو آرام کرنے یعنی قیلولہ کرنے کی جگہ ۔ اب ظاہر ہے کہ اس آیت میں مقیلا سے مراد میدان حشر کی دوپہر میں قیلولہ کرنے کی جگہ ہے۔

وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاۗءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ تَنْزِيْلًا   25؀
وَيَوْمَ [ اور جس دن] تَشَقَّقُ [ پھٹ جائے گا] السَّمَاۗءُ [ آسمان] بِالْغَمَامِ [ بادلوں کے ساتھ] وَنُزِّلَ [ اور اراتارے جائیں گے] الْمَلٰۗىِٕكَةُ [ فرشتے] تَنْزِيْلًا [ جیسے بتدریج اتارے جاتے ہیں]

اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا     26؀
اَلْمُلْكُ [ ساری بادشاہت] يَوْمَىِٕذِۨ [ اس دن] الْحَقُّ [ برحق ہوگی] لِلرَّحْمٰنِ ۭ [ رحمان کے لئے] وَكَانَ [ اور وہ (دن) ہوگا] يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا [ کافروں پر ایک سخت دن]

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا    27؀
وَيَوْمَ [ اور جس دن] يَعَضُّ [ چبائیں گے] الظَّالِمُ [ سارے ظالم لوگ] عَلٰي يَدَيْهِ [ اپنے دونوں ہاتھوں کو] يَقُوْلُ [ کہتے ہوئے] يٰلَيْتَنِي [ اے کاش میں نے] اتَّخَذْتُ [ پکڑا ہوتا] مَعَ الرَّسُوْلِ [ ان رسول کے ساتھ] سَبِيْلًا [ کوئی راستہ]

يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا   28؀
يٰوَيْلَتٰى [ ہائے بربادی] لَيْتَنِيْ [ کاش میں نے] لَمْ اَتَّخِذْ [ نہ بنایا ہوتا]فُلَانًا خَلِيْلًا [ فلاں کو دوست]

لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ  ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا    29؀
لَقَدْ اَضَلَّنِيْ [ بیشک اسی نے گمراہ کیا ہے مجھ کو] عَنِ الذِّكْرِ [ اس نصیحت سے] بَعْدَ اِذْ [ اس کے بعد کہ جب] جَاۗءَنِيْ ۭ[ وہ آئی میرے پاس] وَكَانَ [ اور ہے] الشَّيْطٰنُ [ شیطان] لِلْاِنْسَانِ [ انسان کے لئے] خَذُوْلًا [ انتہائی دغا باز]

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا    30؀
وَقَالَ [ اور کہیں گے] الرَّسُوْلُ [ یہ رسول
] يٰرَبِّ [ اے میرے رب] اِنَّ قَوْمِي [ بیشک میری قوم نے] اتَّخَذُوْا [ بنایا] ھٰذَا الْقُرْاٰنَ[ اس قرآن کو] مَهْجُوْرًا [ چھوڑا ہوا]



نوٹ۔ ا: آنحضرت
کی یہ شکایت قیامت کے روز ہوگی یا اسی دنیا میں آپ نے یہ شکایت فرمائی، ائمہ تفسیر اس میں مختلف ہیں احتمال دونوں ہیں۔ اگلی آیت اس کا قرینہ ہے کہ یہ شکایت آپ نے دنیا میں پیش فرمائی تھی جس کے جواب میں آپ کو تسلی دی گئی کہ سنت اللہ ہمیشہ سے یہی ہے کہ ہر نبی کے کچھ مجرم لوگ دشمن ہوا کرتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام اس پر صبر کرتے رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ قرآن کو مہجور کر دینے سے مراد قرآن کا انکار ہے جو کفار ہی کا کام ہے ۔ مگر بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جو مسلمان نہ اس کی تلاوت کی پابندی کرتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں ، وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے قرآن پڑھا (حدیث میں تعلم ہے یعنی سیکھا) مگر پھر اس کو بند کرکے گھر میں معلق کردیا نہ اس کی تلاوت کی پابندی کی نہ اس کے احکام میں غور کیا، قیامت کے روز قرآن اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندے نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ میرے اور اس کے معاملہ کا فیصلہ فرما دیں۔ (معارف القرآن)

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ  ۭ وَكَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًا    31؀
وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح] جَعَلْنَا [ ہم نے بنایا]لِكُلِّ نَبِيٍّ [ ہر نبی کے لئے] عَدُوًّا [ ایک دشمن] مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ ۭ [ مجرموں میں سے] وَكَفٰى [ اور کافی ہے] بِرَبِّكَ [ آپ
کا رب] هَادِيًا [ بلحاظ ہدایت دینے والے کے] وَّنَصِيْرًا [ اور مدد کرنے والے کے]



نوٹ۔2: آیت۔31۔ میں یہ جو فرمایا کہ ہم نے ان کو دشمن بنایا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا قانون فطرت یہی کچھ ہے۔ لہٰذا ہماری اس مشیت پر صبر کرو اور قانون فطرت کے تحت جن حالات سے دو چار ہونا ناگزیر ہے اس کا مقابلہ ٹھنڈے دل اور مضبوط عزم کے ساتھ کرتے چلے جاؤ۔ اس بات کی امید نہ رکھو کہ ادھر تم نے حق پیش کیا اور ادھر ایک دنیا اسے قبول کرنے کے لئے امنڈ آئے گی۔

 رہنمائی سے مراد صرف علم حق عطا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ تحریک اسلامی کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لئے اور دشمنوں کی چالوں کو شکست دینے کے لئے بروقت صحیح تدبیریں بجھانا بھی ہے۔ اور مدد سے مراد یہ ہے کہ حق اور باطل کی کشمکش میں جتنے محاذ بھی کھلیں، ہر ایک پر اہل حق کی تائید میں کمک پہنچانا اللہ کا کام ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً  ڔ كَذٰلِكَ  ڔ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا    32؀
وَقَالَ [ اور کہا] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں نے جنہوں نے] كَفَرُوْا [ انکار کیا] لَوْلَا نُزِّلَ [ کیوں نہیں اتارا گیا] عَلَيْهِ [ ان پر] الْقُرْاٰنُ [ قرآن کو] جُمْلَةً [ اکٹھا کیا ہوا] وَّاحِدَةً ڔ [ ایک بار] كَذٰلِكَ ڔ [ اسی طرح ہے] لِنُثَبِّتَ [ تاکہ ہم جما دیں]بِهٖ[ اس کے ذریعہ سے] فُؤَادَكَ[ آپ ؐ کے دل کو] وَرَتَّلْنٰهُ [ اور ہم نے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا اس کو] تَرْتِيْلًا [ جیسا ترتیل کا حق ہے]



ر ت ل

 (س) رتلا کسی چیز کا اچھے انتظام اور ترتیب میں ہونا۔

(تفعیل) ترتیلا کسی چیز کو اچھی طرح ترتیب دینا۔ ادائیگی حروف کا لحاظ رکھ کر کسی کلام کو خوش اسلوبی سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔

 زیر مطالعہ آیت۔32۔

 رتل فعل امر ہے۔ تو خوش اسلوبی سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ۔ ورتل القران ترتیلا (اور آپ
ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں قرآن کو جیسا ترتیل کا حق ہے) 73/4۔



نوٹ۔3: آیت۔32۔ میں کافروں کے اعتراض کے جوان کا مطلب یہ ہے کہ ہم پوری کتاب ایک ہی دفعہ نازل کرسکتے تھے لیکن سوال تمہارے تحمل اور لوگوں کی تربیت کا تھا۔ اس وجہ سے اس کو آہستہ آہستہ اتارا تاکہ تم بھی اس کو برداشت کرسکو اور لوگ بھی اگر سیکھنا چاہیں تو سیکھ سکیں۔ ایک استاد اگر چاہے تو پوری کتاب ایک ہی نشست میں شاگردوں کو سنا دے لیکن کیا اس طرح شاگرد کتاب سے کچھ حاصل کرسکیں گے۔

 یہ امر ملحوظ رہے کہ آسمانی کتب میں سے کوئی بھی کتاب بیک دفعہ نہیں نازل ہوئی ہے ۔ جن لوگوں نے یہ خیال کیا ہے ان کا خیال ان صحائف سے بےخبری پر مبنی ہے۔ تورات بھی پوری کی پوری بیک دفعہ نازل نہیں ہوئی۔ بیک دفعہ اس کے صرف احکام عشرہ نازل ہوئے ہیں۔ جو الواح میں لکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہوئے۔ لیکن تورات صرف احکام عشرہ ہی پر تو مشتمل نہیں ہے۔ اس میں تو شریعت موسوی کے تمام احکام و قوانین ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پوری زندگی میں درجہ بہ درجہ نازل ہوئے۔ اسی طرح انجیل تمام تر سیدنا مسیح علیہ السلام کے مواعظ حکمت پر مشتمل ہے جو مختلف مواقع پر، حالات کے تقاضوں کے مطابق آپ علیہ السلام پر نازل ہوئے اور انہوں نے ان سے اپنی قوم کو انذار کیا۔ اسی طرح زبور حضرت داؤد علیہ السلام کی منظوم مناجاتوں پر مشتمل ہے جو وقتا فوقتا ان پر القاء ہوئیں۔ غرض یہ خیال بالکل بےبنیاد ہے کہ ان میں سے کوئی کتاب بھی بیک دفعہ نازل ہوئی۔ ایسا ہو بھی کیسے سکتا تھا۔ انبیاء علیہم السلام داعی ، معلم اور مزکی ہوتے تھے ۔ انہیں اپنی قوم کا علاج اور تزکیہ کرنا ہوتا تھا ۔ اس فرض منصبی کا فطری تقاضہ یہ تھا کہ وہ اصلاح کی راہ میں تدریج کے ساتھ قدم آگے بڑھا ـ ئیں اور ہر قدم پر ضرورت کے مطابق ان کو اللہ کی طرف سے رہنمائی حاصل ہو ۔ جہاں تک مجھے علم ہے اہل کتاب کے علماء بھی اپنی کسی کتاب کے بیک دفعہ نازل ہونے کے مدعی نہیں ہیں ۔ (تدبر قرآن )

وَلَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيْرًا    33؀ۭ
وَلَا يَاْتُوْنَكَ [ وہ لوگ نہیں لاتے آپ ؐ کے پاس] بِمَثَلٍ [ کوئی مثال]اِلَّا [ مگر یہ کہ] جِئْنٰكَ [ ہم لے آتے ہیں آپ
کے پاس] بِالْحَقِّ[ حق کو] وَاَحْسَنَ [ اور زیادہ اچھے کو] تَفْسِيْرًا [ بلحاظ معنی مراد بتانے کے]



ف س د

(ن۔ ض) فسرا ڈھکی ہوئی چیز کو کھول دینا۔ مراد بتانا۔ واضح کرنا۔

(تفعیل) تفسیرا بتدریج اور تسلسل کے ساتھ مراد بتانا۔ زیر مطالعہ آیت۔33

اَلَّذِيْنَ يُحْشَرُوْنَ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ اِلٰى جَهَنَّمَ   ۙ اُولٰۗىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ سَبِيْلًا     34؀ۧ
اَلَّذِيْنَ [ وہ لوگ جن کو] يُحْشَرُوْنَ [ اکٹھا کیا جائے گا] عَلٰي وُجُوْهِهِمْ [ ان کے چہروں کے بل] اِلٰى جَهَنَّمَ ۙ [ جہنم کی طرف] اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ] شَرٌّ [ زیادہ برے ہیں] مَّكَانًا [ ٹھکانے کے لحاظ سے] وَّاَضَلُّ [ اور زیادہ گمراہ ہیں] سَبِيْلًا [ راستے کے لحاظ سے]

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَجَعَلْنَا مَعَهٗٓ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِيْرًا     35؀ښ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا [ اور بیشک ہم دے چکے] مُوْسَى [ موسیٰ علیہ السلام کو] الْكِتٰبَ [ کتاب] وَجَعَلْنَا [ اور ہم نے بنایا] مَعَهٗٓ[ ان کے ساتھ] اَخَاهُ [ ان کے بھائی] هٰرُوْنَ [ ان کے بھائی] وَزِيْرًا [ ایک معاون]



نوٹ۔ ا: آیت۔35۔ میں مذکور کتاب سے مراد غالبا وہ کتاب نہیں جو تورات کے نام سے مشہور ہے اور مصر سے نکلنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی بلکہ اس سے مراد وہ ہدایت ہیں جو نبوت کے منصب پر مامور ہونے کے وقت سے لے کر خروج تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی جاتی رہیں، قرآن مجید میں جگہ جگہ ان چیزوں کا ذکر ہے مگر اغلب یہ ہے کہ یہ چیزیں تورات میں شامل نہیں کی گئیں۔ تورات کا آغاز احکام عشرہ سے ہوترا ہے جو خروج کے بعد سے ان پر کتبوں کی شکل میں آپ علیہ السلام کو دئیے گئے تھے۔

فَقُلْنَا اذْهَبَآ اِلَى الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا  ۭ فَدَمَّرْنٰهُمْ تَدْمِيْرًا     36؀ۭ
فَقُلْنَا [ پھر ہم نے کہا] اذْهَبَآ [ تم دونوں جاؤ] اِلَى الْقَوْمِ الَّذِيْنَ [ اس قوم کی طرف جنہوں نے] كَذَّبُوْا [ جھٹلایا] بِاٰيٰتِنَا ۭ [ ہماری نشانیوں کو] فَدَمَّرْنٰهُمْ [ پھر ہم نے ہلاک کیا انہیں] تَدْمِيْرًا [ جیسے ہلاک کرتے ہیں]



 آیت۔36۔ میں جن آیات کے جھٹلانے کا ذکر ہے اس سے مراد آیات ہیں جو حضرت یعقوب علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام کے ذریعے سے مصر پہنچی تھیں اور جن کی تبلیغ بعد میں ایک مدت تک بنی اسرائیل کے صلحاء کرتے رہے۔ (تفہیم القرآن)

وَقَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰهُمْ وَجَعَلْنٰهُمْ لِلنَّاسِ اٰيَةً  ۭ وَاَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ عَذَابًا اَلِـــيْمًا    37؀ښ
وَقَوْمَ نُوْحٍ [ اور (یاد کرو) نوح علیہ السلام کی قوم کو] لَّمَّا [ جب] كَذَّبُوا [ انھوں نے جھٹلایا] الرُّسُلَ [ رسولوں کو]اَغْرَقْنٰهُمْ[ تو ہم نے غرق کیا ان کو] وَجَعَلْنٰهُمْ [ اور ہم نے بنایا ان کو] لِلنَّاسِ [ لوگوں کے لئے] اٰيَةً ۭ[ ایک نشانی] وَاَعْتَدْنَا [ اور ہم نے تیار کیا] لِلظّٰلِمِيْنَ [ ظالموں کے لئے] عَذَابًا اَلِـــيْمًا [ ایک دردناک عذاب]



ترکیب: (آیت۔37)۔ قوم نوح کے مضاف قوم کی نصب بتا رہی ہے کہ یہاں یہ مفعول کے طور پر آیا ہے۔ لیکن یہاں اس کو اغرقنا کا مفعول مقدم ماننے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اغرقنا کے ساتھ ضمیر مفعولی ہم لگی ہوئی ہے۔ اس لئے قوم نوح کو سابقہ آیت کے فعل دمرنا پر عطف بھی مانا جا سکتا ہے اور اس سے پہلے کوئی فعل محذوف بھی مانا جاسکتا ہے جیسے اہلکنا یا اذکر وغیرہ۔

وَّعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًــۢا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا   38؀
وَّعَادًا [ اور (ہم نے ہلاک کیا) عدا کو] وَّثَمُــوْدَا۟ [ اور ثمود کو] وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ[ اور کنویں والوں کو] وَقُرُوْنًــۢا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا [ اور بہت سی قوموں کو ان کے درمیان (کے عرصہ میں)]



ر س س

(ن) رسا کنواں کھودنا۔

 رس اسم ذات ہے ۔ کنواں۔ زیر مطالعہ آیت۔ 38۔

وَكُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْاَمْثَالَ ۡ وَكُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِيْرًا    39؀
وَكُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ [ اور ہم نے بیان کیں (ان میں سے) سب کے لئے] الْاَمْثَالَ ۡ [ مثالیں (سمجھانے کو)] وَكُلًّا [ اور سب کو] تَبَّرْنَا [ ہم نے برباد کیا] تَتْبِيْرًا [ جیسے برباد کرنے کا حق ہے]



 (آیت۔ 39)۔ وَكُلًّا ضَرَبْنَا اور وَكُلًّا تَبَّرْنَا میں کلا مفعول مقدم ہیں۔

وَلَقَدْ اَتَوْا عَلَي الْقَرْيَةِ الَّتِيْٓ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ۭ اَفَلَمْ يَكُوْنُوْا يَرَوْنَهَا  ۚ بَلْ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ نُشُوْرًا    40؀
وَلَقَدْ اَتَوْا [ اور بیشک وہ لوگ آچکے ہیں] عَلَي الْقَرْيَةِ الَّتِيْٓ [ اس بستی پر جس پر] اُمْطِرَتْ [ برسائی گئی] مَطَرَ السَّوْءِ ۭ[ برائی کی بارش] اَفَلَمْ يَكُوْنُوْا يَرَوْنَهَا ۚ [ تو کیا وہ لوگ دیکھتے نہیں تھے ان کو] بَلْ [ بلکہ] كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ [ وہ امید نہیں رکھا کرتے تھے] نُشُوْرًا [ جی اٹھنے کی]



نوٹ۔1: آیت۔40۔ سے معلوم ہوا کہ چونکہ وہ لوگ آخرت کے قائل نہیں تھے اس لئے ان آثار قدیمہ یعنی عبرت کے مقامات کا مشاہدہ انھوں نے محض ایک تماشائی کی حیثیت سے کیا اور ان سے کوئی عبرت حاصل نہ کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کے قائل کی نگاہ اور اس کے منکر کی نگاہ میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ ایک تماشا دیکھتا ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ تاریخ مرتب کرتا ہے، دوسرا انہی چیزوں سے اخلاقی سبق لیتا ہے اور زندگی سے ماوراء حقیقتوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَاِذَا رَاَوْكَ اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا  ۭ اَھٰذَا الَّذِيْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا    41؀
وَاِذَا [ اور جب کبھی] رَاَوْكَ [ وہ دیکھتے ہیں آپ
کع] اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ [ تو نہیں بناتے آپ کو] اِلَّا [ مگر] هُزُوًا ۭ [ مذاق کا ذریعہ] اَھٰذَا الَّذِيْ [ کیا یہ ہے وہ جس کو] بَعَثَ [ بھیجا] اللّٰهُ [ اللہ نے] رَسُوْلًا [ رسول ہوتے ہوئے]

اِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا لَوْلَآ اَنْ صَبَرْنَا عَلَيْهَا  ۭ وَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ حِيْنَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اَضَلُّ سَبِيْلًا    42؀
اِنْ [ یقینا] كَادَ [ قریب تھا کہ] لَيُضِلُّنَا [ وہ ضرور بھٹکا دے ہم کو]عَنْ اٰلِهَتِنَا [ ہمارے معبودوں سے] لَوْلَآ اَنْ [ اگر نہ ہوتا کہ]صَبَرْنَا [ ہم ڈٹے رہے] عَلَيْهَا ۭ [ ان پر] وَسَوْفَ [ اور عنقریب] يَعْلَمُوْنَ [ وہ لوگ جان لیں گے] حِيْنَ [ جس وقت] يَرَوْنَ [ وہ دیکھیں گے] الْعَذَابَ [ عذاب کو] مَنْ [ (کہ) کون]اَضَلُّ [ زیادہ جھٹکنے والا ہے] سَبِيْلًا [ راستے کے لحاظ سے]

اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٗ هَوٰىهُ  ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْهِ وَكِيْلًا    43؀ۙ
اَرَءَيْتَ [ کیا دیکھا آپ
نے] مَنِ [ اس کو جس نے] اتَّخَذَ [ بنایا] اِلٰـهَهٗ [ اپنا الہٰ] هَوٰىهُ ۭ [ اپنی خواہش کو] اَفَاَنْتَ [ تو کیا آپ ]تَكُوْنُ[ ہوں گے] عَلَيْهِ وَكِيْلًا [ اس کے وکیل]



نوٹ۔2: آیت۔43۔ میں رسول اللہ
کو تسلی دی گئی ہے کہ جن لوگوں نے اپنی عقل کو معطل کرکے اپنی باگ اپنی خواہشوں کے ہاتھ میں پکڑا دی ہے، بھلا آپ ان کی ہدایت و اصلاح کے ذمہ دار کس طرح بن سکتے ہیں۔ انسان کے اندر رہنمائی کا چراغ عقل ہے نہ کہ نفس کی خواہشات۔ تو جو لوگ اس چراغ کو گل کرکے اپنی خواہشات کے پرستار بن جائیں، ان کو راستہ دکھانا کس کے بس میں ہے۔ واضح رہے کہ خواہشیں جتنی بھی ہیں وہ سب اندھی ہیں۔ وہ صرف اپنے مطالبے کو پورا کرانا چاہتی ہے۔ ان کو اس سے کوئی بحث نہیں ہوتی کہ کیا حق ہے کیا باطل اور کیا خیر ہے کیا شر۔ تو جو شخص ان کا پیرو بن جائے اس کے لئے شیطان کے پھندے سے چھوٹنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ (تدبر قرآن) رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ اس آسمان کے نیچے اللہ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جا رہے ہیں ان میں اللہ کے نزدیک بدترین معبود وہ خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جارہی ہو۔ (تفہیم القرآن)

اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ  ۭ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًا    44؀ۧ
اَمْ[ یا] تَحْسَبُ [ آپ
سمجھتے ہیں] اَنَّ [ کہ] اَكْثَرَهُمْ [ ان کے اکثر] يَسْمَعُوْنَ [ سنتے ہیں] اَوْ يَعْقِلُوْنَ ۭ [ یا عقل سے کام لیتے ہیں] اِنْ هُمْ [ نہیں ہیں وہ] اِلَّا [ مگر] كَالْاَنْعَامِ [ چوپایوں کی مانند] بَلْ [ بلکہ] هُمْ [ وہ]اَضَلُّ[ زیادہ گمراہ ہیں] سَبِيْلًا [ بلحاظ راستے کے]

اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ  ۚ وَلَوْ شَاۗءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا  ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا    45؀ۙ
اَلَمْ تَرَ [ کیا آپ
نے غور نہیں کیا] اِلٰى رَبِّكَ [ اپنے رب (کی قدرت) کی طرف]كَيْفَ [ کیسے] مَدَّ [ اس نے دراز کیا] الظِّلَّ ۚ [ سائے کو] وَلَوْ شَاۗءَ [ اور اگر وہ چاہتا]لَجَعَلَهٗ [ تو وہ ضرور بناتا اس کو] سَاكِنًا ۚ [ ساکن] ثُمَّ جَعَلْنَا [ پھر ہم نے بنایا] الشَّمْسَ [ سورج کو] عَلَيْهِ [ اس پر] دَلِيْلًا [ ایک رہنمائی کرنے والا]

ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَيْنَا قَبْضًا يَّسِيْرًا    46؀
ثُمَّ قَبَضْنٰهُ [ پھر ہم نے سمیٹا اس کو] اِلَيْنَا [ اپنی طرف] قَبْضًا يَّسِيْرًا [ جیسے آسان سمیٹا ہو]

وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا وَّالنَّوْمَ سُـبَاتًا وَّجَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا    47؀
وَهُوَ [ اور وہ] الَّذِيْ [ وہی ہے جس نے] جَعَلَ [ بنایا] لَكُمُ [ تم لوگوں کے لئے] الَّيْلَ [ رات کو] لِبَاسًا [ ایک اوڑھنی (یعنی چھپانے کی چیز)] وَّالنَّوْمَ [ اور نیند کو] سُـبَاتًا [ آرام] وَّجَعَلَ[ اور اس نے بنایا][ النَّهَارَ: دن کو [ نُشُوْرًا: دوبارہ اٹھنے کے لیے]

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ  ۚ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً طَهُوْرًا    48؀ۙ
وَهُوَ الَّذِيْٓ [ وہی ہے جس نے] اَرْسَلَ [ بھیجا] الرِّيٰحَ [ ہواؤں کو] بُشْرًۢا [ خوشخبریاں ہوتے ہوئے] بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ۚ [ اپنی رحمت کے آگے (یعنی بارش سے پہلے)] وَاَنْزَلْنَا [ اور ہم نے اتارا] مِنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے] مَاۗءً طَهُوْرًا [ کچھ انتہائی پاک پانی]

لِّنُحْيِۦ بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا وَّنُسْقِيَهٗ مِمَّا خَلَقْنَآ اَنْعَامًا وَّاَنَاسِيَّ كَثِيْرًا    49؀
لِّنُحْيِۦ[ تاکہ ہم زندہ کریں] بِهٖ [ اس سے] بَلْدَةً مَّيْتًا [ کسی مردہ شہر کو] وَّنُسْقِيَهٗ [ اور تاکہ ہم پینے کے لئے دیں اس (پانی) کو] مِمَّا [ ان میں سے جن کو] خَلَقْنَآ [ ہم نے پیدا کیا] اَنْعَامًا [ جیسے چوپائے] وَّاَنَاسِيَّ كَثِيْرًا [ اور بہت سے انسان]

وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا ڮ فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا   50؀
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ [ اور بیشک ہم نے بار بار بیان کیا ہے اس (قرآن) کو] بَيْنَهُمْ [ ان کے مابین] لِيَذَّكَّرُوْا ڮ [ تاکہ وہ لوگ نصیحت پکڑیں] فَاَبٰٓى [ تو قبول نہ کیا] اَكْثَرُ النَّاسِ [ لوگوں کے اکثر نے] اِلَّا [ اگر] كُفُوْرًا [ ناشکری کو]

وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ نَّذِيْرًا    51۝ڮ
وَلَوْ شِئْنَا [ اور گار ہم چاہتے] لَبَعَثْنَا [ تو ہم ضرور بھیجتے] فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ [ ہر ایک بستی میں] نَّذِيْرًا [ ایک خبردار کرنے والا]

فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا    52؀
فَلَا تُطِعِ[ تو آپ کہا مت مانیں] الْكٰفِرِيْنَ [ کافروں کا] وَجَاهِدْهُمْ [ اور آپ
جہاد کریں ان سے] بِهٖ[ اس (قرآن) کے ساتھ] جِهَادًا كَبِيْرًا [ جیسے بڑا جہاد کرنے کا حق ہے]



نوٹ۔1: آیت۔52۔ میں جھاد کبیرا کا حکم آیا ہے۔ یہ آیت مکی ہے جبکہ کفار سے قتال کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے ، اسی لئے یہاں جہاد کو بہ کے ساتھ مقید کیا گیا۔ بہ کی ضمیر قرآن کے لئے ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے ذریعہ مخالفین اسلام سے جہاد کرو، بڑا جہاد۔ اس کا حاصل قرآن کے احکام کی تبلیغ اور خلق خدا کو اس کی طرف توجہ دلانے کی ہر کوشش ہے ، خواہ زبان سے ہو یا قلم سے یا دوسرے طریقوں سے۔ اس سب کو یہاں جہاد کبیر فرمایا ہے۔ (معارف القرآن)

وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ  ۚ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا   53؀
وَهُوَ [ اور وہ] الَّذِيْ [ وہی ہے جس نے] مَرَجَ [ رواں کئے] الْبَحْرَيْنِ [ دو سمندر] ھٰذَا [ یہ] عَذْبٌ [ خوشگوار ہے] فُرَاتٌ [ نہایت شیریں ہے] وَّھٰذَا [ اور یہ] مِلْحٌ [ کھاری ہے] اُجَاجٌ ۚ [ نہایت کڑوا ہے] وَجَعَلَ [ اور اس نے بنایا] بَيْنَهُمَا [ ان دونوں کے درمیان] بَرْزَخًا [ ایک پردہ] وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا [ اور ایک مضبوط رکاوٹ]



م ر ج

(ن) مرجا (1) گڈمڈ کرنا۔ الجھا دینا۔ (2) مویشی کو چرنے کے لئے یا پانی کو بہنے کے لئے چھوڑنا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 53۔

 مریج پیچیدہ یا الجھا ہوا معاملہ۔ فھم فی امر مریج (پس وہ لوگ ایک الجھے ہوئے کام میں ہیں) 50/5۔

 مارج دھواں ملا ہوا شعلہ۔ وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ (اور اس نے پیدا کیا جن کو ایک شعلہ سے آگ میں سے) 55/15۔

 مرجان چھوٹے ہوتی۔ مونگا یہ اسم جنس ہے۔ واحد مرجانۃ۔ يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ (نکلتا ہے اس میں سے موتی اور مونگا) 55/22

ف ر ت

(ک) فروتۃ شیریں ہونا۔ میٹھا ہونا۔

 فرات نہایت شیریں۔ بہت میٹھا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 53۔

م ل ح

(ن) ملحا پانی کا کھاری ہونا۔

 ملح کھاری ۔ نمکین۔ زیر مطالعہ آیت۔ 53۔

ء ج ج

(ن) اجوجا پانی کا کڑوا ہونا۔

 اجاج نہایت کڑوا۔ تلخ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 53۔



نوٹ۔1: آیت۔ 53۔ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک عظیم نشانی کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ وہ ایک طرف سے شیریں پانی کے دریا کو چھوڑتا ہے۔ دوسری طرف سے کھاری پانی کے سمندر کو۔ دونوں کی موجیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ نہیں ہوتا کہ شیریں پانی کھاری بن جائے یا کھاری پانی شیریں، بلکہ دونوں اپنی مزاجی خصوصیات باقی رکھتے ہیں، اللہ کے ان کے درمیان ایک ایسی غیر مرئی دیوار کھڑی کر دیتا ہے جو نہ کسی کو نظر آتی ہے اور نہ دونوں کا باہمی ٹکراؤ اس کو توڑ سکتا ہے۔ (تدبر قرآن)۔ یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتیہ ہے جہاں کوئی بڑا دریا سمندر میں آکر گرتا ہے۔ اس کے علاوہ خود سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتا ہے۔ ترکی کے امیر البحر سیدی علی رئیس نے اپنی کتاب میں ، جو سولہویں صدری عیسوی کی تصنیف ہے ، خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشاندہی کی ہے جس سے وہ خود اپنے بیڑے کے لئے پینے کا پانی حاصل کرتا رہا تھا۔ موجودہ زمانے میں جب امریکن کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداء وہ بھی خلیج فارس کے ان ہی چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہہ میں میٹھے پانی کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ عرصہ پہلے پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ (تفہیم القرآن) (جلت قدرتہ وھو علی ما یشاء قدیر)

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِهْرًا  ۭ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا    54؀
وَهُوَ [ اور وہ] الَّذِيْ [ وہی ہے جس نے] خَلَقَ [ پیدا کیا] مِنَ الْمَاۗءِ [ پانی سے] بَشَرًا [ بشر کو] فَجَعَلَهٗ [ پھر اس نے بنایا اس کو] نَسَبًا [ رشتہ دار باپ دادا سے] وَّصِهْرًا ۭ [ اور ناطے دار سسرال سے] وَكَانَ [ اور ہے] رَبُّكَ [ آپ
کا رب] قَدِيْرًا [ قدرت والا]

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ ۭ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلٰي رَبِّهٖ ظَهِيْرًا    55؀
وَيَعْبُدُوْنَ [ اور وہ لوگ بندگی کرتے ہیں] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ] مَا [ اس کی جو]لَا يَنْفَعُهُمْ [ نفع نہیں دیتی ان کو] وَلَا يَضُرُّهُمْ ۭ [ اور نہ نقصان پہنچاتی ہے ان کو] وَكَانَ [ اور ہیں] الْكَافِرُ [ سب کافر] عَلٰي رَبِّهٖ [ اپنے رب (کی مخالفت) پر] ظَهِيْرًا [ مدد کرنے والے]

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا   56؀
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ [ اور ہم نے نہیں بھیجا آپ
کو] اِلَّا [ مگر] مُبَشِّرًا [ خوشخبری دینے والا] وَّنَذِيْرًا [ اور خبردار کرنے والا ہوتے ہوئے]

الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِـتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ ڔ اَلرَّحْمٰنُ فَسْـَٔــلْ بِهٖ خَبِيْرًا    59؀
الَّذِيْ [ وہ جس نے] خَلَقَ [ پیدا کیا] السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں کو]وَالْاَرْضَ [ اور زمین کو] وَمَا [ اور اس کو جو] بَيْنَهُمَا [ ان دونوں کے مابین ہے]فِيْ سِـتَّةِ اَيَّامٍ [ چھ دنوں میں] ثُمَّ [ پھر] اسْتَوٰي [ وہ متمکن ہوا]عَلَي الْعَرْشِ ڔ [ عرش پر] اَلرَّحْمٰنُ [ (وہ) رحمن ہے] فَسْـَٔــلْ [ تو آپ
پوچھ لیں] بِهٖ [ اس کے بارے میں] خَبِيْرًا [ کسی باخبر سے]

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ ۚ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ ۤ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُوْرًا    60۝ڙ
وَاِذَا [ اور جب کبھی] قِيْلَ [ کہا جاتا ہے] لَهُمُ [ ان لوگوں سے] اسْجُدُوْا [ تم لوگ سجدہ کرو] لِلرَّحْمٰنِ ۚ [ رحمن کے لئے] قَالُوْا [ تو وہ کہتے ہیں] وَمَا [ اور کیا (شئے) ہے] الرَّحْمٰنُ ۤ [ رحمن] اَنَسْجُدُ [ کیا ہم سجدہ کریں] لِمَا [ اس کے لئے کس کو]تَاْمُرُنَا [ آپ
کہیں ہم سے] وَزَادَهُمْ [ اور (اس بات نے) زیادہ کیا ان کو] نُفُوْرًا [ بیزاریوں کے لحاظ سے]

تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا     61؀
تَبٰرَكَ [ بابرکت ہوا] الَّذِيْ [ وہ جس نے] جَعَلَ [ مقرر کیں]فِي السَّمَاۗءِ [ آسمان میں] بُرُوْجًا [ منزلیں] وَّجَعَلَ [ اور اس نے بنایا] فِيْهَا [ اس (آسمان) میں] سِرٰجًا [ ایک چراغ] وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا [ اور ایک چمکنے والا چاند]



س ر ج

(ن) سرجا بالوں کو گوندھ کر چوٹی بنانا۔

(افعال) اسراجا بتی اور تیل سے کسی چیز کو روشن کرنا۔

 سراج وہ چیز جو روشن کی جائے۔ چراغ۔ زیر مطالعہ آیت۔61۔



نوٹ۔1: آیات۔61۔62۔ میں پھر آفاق کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی کہ جہاں تک نشانیوں کا تعلق ہے ، ان کی کمی نہیں ہے۔ ضرورت کسی نئی نشانی کی نہیں بلکہ نشانیوں سے فائدہ اٹھانے کے ارادے اور جذبے کی ہے۔ جن کے اندر یہ جذبہ اور ارادہ نہیں پایا جاتا وہ ہر قسم کی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی اندھے ہی بنے رہتے ہیں۔ (تدبر قرآن)۔ ان ہی آیات کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل مضمون قلمبندر کیا ہے جو معارف القرآن کی جلد ششم کے صفحات ۔ 487 تا 497 پر محیط ہے۔ اس کے مضامین اتنے مربوط اور باہم اس طرح گتھے ہوئے ہیں کہ کوشش کے باوجود میں اس کا خلاصہ نہیں نکال سکتا۔ مثلا اجرام سماوی کی حقیقت اور ہیت کیا ہے۔ علم ہیئت کے قدیم و جدید نظریات اور قرآن کریم کے ارشادات۔ کائنات کے حقائق کو قرآن میں بیان کرنے کا مقصد۔ تفسیر قرآن میں فلسفی (یعنی سائنسی) نظریات کی موافقت اور مخالفت کا صحیح معیار۔ جدید تحقیقات نے انسانیت کو کیا بۃشا۔ وغیرہ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ کسی لائبریری یا مسجد سے متعلقہ جلد حاصل کرکے ہر طالب علم اس مضمون کا مطالعہ ضرور کرے۔

وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا    62؀
وَهُوَ [ اور وہ] الَّذِيْ [ وہی ہے جس نے] جَعَلَ [ بنایا] الَّيْلَ [ رات کو] وَالنَّهَارَ [ اور دن کو] خِلْفَةً [ (ایک دوسرے کے) پیچھے پیچھے آنے والا ہوتے ہوئے] لِّمَنْ [ اس کے لئے جو] اَرَادَ [ ارادہ کرے] اَنْ [ کہ] يَّذَّكَّرَ [ وہ نصیحت حاصل کرے] اَوْ اَرَادَ [ یا ارادہ کرے] شُكُوْرًا [ شکر گزاری کا]

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا     63؀
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ [ اور رحمن کے بندے] الَّذِيْنَ [ وہ ہیں جو] يَمْشُوْنَ [ چلتے ہیں]عَلَي الْاَرْضِ [ زمین پر]هَوْنًا [ نرمی سے] وَّاِذَا [ اور جب کبھی] خَاطَبَهُمُ [ خطاب کرتے ہیں ان سے] الْجٰهِلُوْنَ [ جاہل لوگ]قَالُوْا [ تو وہ کہتے ہیں] سَلٰمًا [ سلام]



 آیت۔63۔ سے آخر تک اللہ کے پسندیدہ بندوں کی صفات کا بیان ہے۔

وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا     64؀
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو] يَبِيْتُوْنَ [ رات بسر کرتے ہیں] لِرَبِّهِمْ [ اپنے رب کے لئے] سُجَّدًا [ سجدہ کرنے والے]وَّقِيَامًا [ اور قیام کرنے والے ہوتے ہوئے]

وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ڰ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا   65؀ڰ
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو]يَقُوْلُوْنَ [ کہتے ہیں] رَبَّنَا [ اے ہمارے رب] اصْرِفْ [ تو پھیر دے] عَنَّا [ ہم سے] عَذَابَ جَهَنَّمَ [ جہنم کا عذاب کو] اِنَّ [ بیشک] عَذَابَهَا [ اس کا عذاب] كَانَ [ ہے] غَرَامًا [ چمٹنے والی چیز]

اِنَّهَا سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا   66؀
اِنَّهَا [ بیشک] سَاۗءَتْ [ بری ہے] مُسْتَــقَرًّا [ قرار پکڑنے کی جگہ کے لحاظ سے] وَّمُقَامًا [ اور ٹھہرائے جانے کی جگہ کے لحاظ سے]

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا   67؀
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو] اِذَآ [ جب بھی] اَنْفَقُوْا [ خرچ کرتے ہیں]لَمْ يُسْرِفُوْا [ تو ضرورت سے زیادہ خرچ نہیں کرتے] وَلَمْ يَـقْتُرُوْا [ اور خرچ میں تنگی نہیں کرتے] وَكَانَ [ اور ہے]بَيْنَ ذٰلِكَ[ اس کے درمیان] قَوَامًا [ ایک اعتدال]

وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا    68؀ۙ
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو] لَا يَدْعُوْنَ [ نہیں پکارتے] مَعَ اللّٰهِ [ اللہ کے ساتھ]اِلٰــهًا اٰخَرَ [ کسی دوسرے الہٰ کو] وَلَا يَقْتُلُوْنَ [ اور قتل نہیں کرتے] النَّفْسَ الَّتِيْ[ اس جان کو جس کو] حَرَّمَ [ (قتل کرنا) حرام کیا] اللّٰهُ [ اللہ نے] اِلَّا [ مگر] بِالْحَقِّ [ حق کے ساتھ]وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ [ اور وہ لوگ زنا نہیں کرتے] وَمَنْ [ اور جو] يَّفْعَلْ [ کرے گا] ذٰلِكَ [ وہ] يَلْقَ [ تو وہ ملے گا] اَثَامًا [ گناہ کی سزا ہے]



ترکیب: آیت ۔68) ومن یفعل میں من شرطیہ ہے اس لئے یفعل شرط ہونے کی وجہ سء مجزوم ہے جبکہ یلق۔ یصنف اور یخلد جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہیں۔

يُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَيَخْلُدْ فِيْهٖ مُهَانًا    69؀ڰ
يُّضٰعَفْ [ کئی گناہ کیا جائے گا]لَهُ [ اس کے لئے] الْعَذَابُ [ عذاب کو] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ [ قیامت کے دن] وَيَخْلُدْ [ اور وہ ہمیشہ رہے گا] فِيْهٖ [ اس میں] مُهَانًا [ ذلیل کیا ہوا ہوتے ہوئے]

اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَـيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا     70؀
اِلَّا مَنْ [ سوائے اس کے جس نے] تَابَ [ توبہ کی] وَاٰمَنَ [ اور ایمان لایا] وَعَمِلَ [ اور اس نے عمل کیا] عَمَلًا صَالِحًا [ جیسا نیک عمل کرنے کا حق ہے] فَاُولٰۗىِٕكَ [ تو وہ لوگ ہیں] يُبَدِّلُ [ بدل دے گا] اللّٰهُ [ اللہ] سَـيِّاٰتِهِمْ [ جن کی برائیوں کو] حَسَنٰتٍ ۭ [ بھلائیوں ہوتے ہوئے] وَكَانَ [ اور ہے] اللّٰهُ [ اللہ] غَفُوْرًا [ بےانتہا بخشنے والا]رَّحِيْمًا [ ہمیشہ رحم کرنے والا]



نوٹ۔1: یبدل اللہ سیاتھم حسنت کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ توبہ کر کے ایمان وعمل صالح کی زندگی اختیار کر لیتے ہیں ان کی نیکیاں ان کے اعمال نامے کے پچھلے گناہوں کو محو کر دیتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان (برائیوں) کی جگہ پر ان کی نیکیوں کو رکھ دیتا ہے جو ان کے گناہوں کو ڈھانک لیتی ہیں ۔ (تدبر قرآن )

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا    71؀
وَمَنْ [ اور جس نے] تَابَ [ توبہ کی] وَعَمِلَ [ اور عمل کیا]صَالِحًا [ نیک] فَاِنَّهٗ [ تو بیشک وہ]يَتُوْبُ [ پلٹتا ہے] اِلَى اللّٰهِ [ اللہ کی طرف] مَتَابًا [ جیسا پلٹنے کا حق ہے]

وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ  ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا    72؀
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو] لَا يَشْهَدُوْنَ [ موقع پر موجود نہیں ہوتے] الزُّوْرَ ۙ [ جھوٹ کے] وَاِذَا [ اور جب کبھی] مَرُّوْا [ وہ گزرتے ہیں] بِاللَّغْوِ [ بےفائدہ چیز پر] مَرُّوْا [ تو وہ گزرتے ہیں]كِرَامًا [ معزز ہوتے ہوئے]

وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِـرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا    73؀
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو]اِذَا [ (کہ) جب] ذُكِّرُوْا [ انھیں یاد کرائی جاتی ہیں] بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ[ ان کے رب کی آیات] لَمْ يَخِـرُّوْا [ تو وہ نہیں گرتے] عَلَيْهَا [ ان پر] صُمًّا [ بہرے ہوتے ہوئے] وَّعُمْيَانًا [ اور اندھے ہوتے ہوئے]



نوٹ۔1: آیت ۔73۔ میں ــــ ’’ نہیں گرتے ‘‘ کا لفظ اپنے لغوی معنی کے لئے نہیں بلکہ محاورے کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ جیسے ہم اردو میں کہتے ہیں ’’ جہاد کا حکم بیٹھے رہ گے ۔‘‘ اس میں بیٹھنے کا لفظ اپنے لغوی معنی میں بلکہ جہاد کے لئے حرکت نہ کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ وہ ایسے لوگ نہیں ہیں جو اللہ کی آیت سن کر ٹس سے مس نہ ہوں ، بلکہ وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں ۔ جو ہدایات ان آیات میں آتی ہیں اس کی پیروی کرتے ہیں ۔ جو فرض قرار دیا گیا ہو اسے بجا لاتے ہیں ۔ جس کی مزمت بیان کی گئی ہو اس سے روک جاتے ہیں ۔ اور جس عذاب سے ڈرایا گیا ہو اس سے کے تصور سے کانپ اٹھتے ہیں ۔ (تفہیم القرآن )

وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا    74؀
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو] يَقُوْلُوْنَ [ کہتے ہیں] رَبَّنَا [ اے ہمارے رب] هَبْ [ تو عطا کر] لَنَا [ ہم کو] مِنْ اَزْوَاجِنَا [ ہمارے جوڑوں میں سے] وَذُرِّيّٰتِنَا [ اور ہماری اولادوں میں سے] قُرَّةَ اَعْيُنٍ [ آنکھوں کی ٹھنڈک] وَّاجْعَلْنَا [ اور تو بنا ہم کو] لِلْمُتَّقِيْنَ [ تقوی کرنے والوں کے لئے]اِمَامًا [ پیشوا]

اُولٰۗىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا    75؀ۙ
اُولٰۗىِٕكَ [ ان لوگوں کو] يُجْزَوْنَ [ بدلہ میں دیا جائے گا] الْغُرْفَةَ [ بالاخانہ] بِمَا [ بسبب اس کے جو] صَبَرُوْا [ وہ ثابت قدم رہے] وَيُلَقَّوْنَ [ اور ان کو دیا جائے گا] فِيْهَا [ اس میں] تَحِيَّةً [ دعا] وَّسَلٰمًا [ اور سلام]

خٰلِدِيْنَ فِيْهَا  ۭحَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا    76؀
خٰلِدِيْنَ [ ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے] فِيْهَا ۭ [ اس میں] حَسُنَتْ [ (یہ) اچھی ہے] مُسْـتَقَرًّا [ بلحاظ قرار پکڑنے کی جگہ کے] وَّمُقَامًا [ اور بلحاظ ٹھہرائے جانے کی جگہ کے]

قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاۗؤُكُمْ ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا    77؀ۧ
قُلْ [ آپ
کہیے] مَا يَعْبَؤُا [ پرواہ نہیں کرتا]بِكُمْ [ تمہاری] رَبِّيْ [ میرا رب] لَوْلَا [ اگر نہ ہوتا] دُعَاۗؤُكُمْ ۚ [ تم کو دعوت دیا جانا] فَقَدْ كَذَّبْتُمْ [ پس تم لوگ جھٹلا چکے] فَسَوْفَ [ تو عنقریب] يَكُوْنُ [ ہوگا] لِزَامًا [ چمٹ جانا (عذاب کا)]



ع ب ء

(ف) عبا کسی چیز کو وزن دینا۔ کسی کی پرواہ کرنا۔ زیر مطالعہ آیت ۔77



 (آیت۔77)۔ دعاء مصدر ہے اور مصدر معروف اور مجہول دونوں معنی دیتا ہے۔ یہاں دونوں معنی لینے کی گنجائش ہے۔ ہم مجہول معنی کو ترجیح دی گے کیونکہ فقد کذبتم سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

مورخہ 11 /جمادی الثانی 1428 ھ

بمطا بق 2/ جون 2007 ء

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

طٰسۗمّۗ    Ǻ۝
طسم

تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ    Ą۝
تِلْكَ [ یہ] اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ ’ واضح کتاب کی آیات ہیں]

لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ    Ǽ۝
لَعَلَّكَ [ شاید کہ آپ] بَاخِعٌ [ ہلاکت تک پہنچانے والے ہیں] نَّفْسَكَ [ اپنے آپ کو] اَلَّا [ کہ نہیں] يَكُوْنُوْا [ ہوتے یہ لوگ] مُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے]

اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ اٰيَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِيْنَ   Ć۝
اِنْ نَّشَاْ [ اگر ہم چاہیں] نُنَزِّلْ [ تو ہم اتاردیں] عَلَيْهِمْ [ ان پر] مِّنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے] اٰيَةً [ کوئی نشانی] فَظَلَّتْ [ تو ہو جائیں] اَعْنَاقُهُمْ [ ان کی گردنیں] لَهَا [ اس کے لئے] خٰضِعِيْنَ [ جھکنے والی]



خ ض ع

(ف) خضوعا عاجزی کرنا۔ تواضع کرنا۔ جھکنا۔ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ (تو تم خواتین تواضع مت کرو بات سے کہ لالچ کرے وہ جس کے دل میں کوئی مرض ہو) 33/32۔

 خاضع فاعل کے وزن پر صفت ہے۔ جھکنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔4۔



نوٹ۔1: آیت ۔4۔ کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اس کتاب پر ایمان لانے کے لئے کوئی نشانی دیکھنے ہی پر اڑے ہوئے ہیں تو یاد رکھیں کہ ہمارے پاس نشانیوں کی کمی نہیں ہے۔ ہم جب چاہیں آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتار سکتے ہیں جس کے آگے سب کی گردنیں جھک جائیں۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ سوچ سمجھ کر اپنے اختیار و ارادہ سے ایمان لائیں۔ ہمارے ہاں معتبر ایمان وہی ہے جو اختیار و ارادہ کے ساتھ لایا جائے نہ کہ مجبور ہوکر۔ (تدبر القرآن)

وَمَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِيْنَ    Ĉ۝
وَمَا يَاْتِيْهِمْ [ اور نہیں آتی ان کے پاس] مِّنْ ذِكْرٍ [ کوئی بھی نصیحت] مِّنَ الرَّحْمٰنِ[ رحمن (کے پاس) سے] مُحْدَثٍ [ نئی] اِلَّا [ مگر] كَانُوْا [ وہ لوگ ہوتے ہیں] عَنْهُ [ اس سے] مُعْرِضِيْنَ [ اعراض کرنے والے]

فَقَدْ كَذَّبُوْا فَسَيَاْتِيْهِمْ اَنْۢبٰۗـؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ    Č۝
فَقَدْ كَذَّبُوْا [ پس یہ لوگ جھٹلا چکے] فَسَيَاْتِيْهِمْ [ تو آئیں گی ان کے پاس]اَنْۢبٰۗـؤُا مَا [ اس کی خبریں جس کا] كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ [ یہ لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے]

اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ كَمْ اَنْۢبَـتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ    Ċ۝
اَوَلَمْ يَرَوْا [ تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں] اِلَى الْاَرْضِ [ زمین کی طرف] كَمْ اَنْۢبَـتْنَا [ کتنے ہی ہم نے اگائے] فِيْهَا [ اس میں] مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ [ ہر ایک نفیس و پاکیزہ جوڑے میں سے]

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً  ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ    Ď۝
اِنَّ [ بیشک] فِيْ ذٰلِكَ [ اس میں] لَاٰيَةً ۭ [ یقینا ایک نشانی ہے] وَمَا كَانَ [ اور نہیں ہیں] اَكْثَرُهُمْ [ ان کے اکثر] مُّؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے]

وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ     ۝ۧ
وَاِنَّ [ اور بیشک] رَبَّكَ [ آپ
کا رب] لَهُوَ الْعَزِيْزُ [ یقینا وہ ہی بالادست ہے] الرَّحِيْمُ [ رحم کرنے والا ہے]

وَاِذْ نَادٰي رَبُّكَ مُوْسٰٓي اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ     10۝ۙ
وَاِذْ ا [ اور جب] نَادٰي [ پکارا] رَبُّكَ [ آپ
کے رب نے] مُوْسٰٓي [ موسیٰ علیہ السلام کو] اَنِ [ کہ] ائْتِ [ آپ پہنچیں] الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ [ ظالم قوم کے پاس]

قَوْمَ فِرْعَوْنَ  ۭ اَلَا يَتَّقُوْنَ     11؀
قَوْمَ فِرْعَوْنَ ۭ [ جو فرعون کی قوم ہے] اَ [ کیا] لَا يَتَّقُوْنَ [ وہ لوگ تقوی نہیں کریں گے]

قَالَ رَبِّ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ    12۝ۭ
قَالَ [ (موسیٰ علیہ السلام ) کہا] رَبِّ [ اے میرے رب] اِنِّىْٓ [ بیشک میں]اَخَافُ [ ڈرتا ہوں] اَنْ [ کہ] يُّكَذِّبُوْنِ [ وہ لوگ جھٹلائیں گے مجھ کو]

وَيَضِيْقُ صَدْرِيْ وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ    13؀
وَيَضِيْقُ [ اور تنگ ہوتا ہے] صَدْرِيْ [ میرا سینہ] وَلَا يَنْطَلِقُ [ اور نہیں چلتی] لِسَانِيْ [ میری زبان] فَاَرْسِلْ [ پس تو بھیج] اِلٰى هٰرُوْنَ [ ہارون علیہ السلام کی طرف]

وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ    14۝ۚ
وَلَهُمْ [ اور ان کا] عَلَيَّ [ مجھ پر] ذَنْۢبٌ [ ایک گناہ ہے] فَاَخَافُ [ تو میں ڈرتا ہوں] اَنْ [ کہ] يَّقْتُلُوْنِ [ وہ قتل کریں گے مجھ کو]

قَالَ كَلَّا  ۚ فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَآ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ    15؀
قَالَ [ (اللہ نے) کہا] كَلَّا ۚ [ ہرگز نہیں] فَاذْهَبَا [ پس تم دونوں جاؤ] بِاٰيٰتِنَآ [ ہماری نشانیوں کے ساتھ] اِنَّا [ بیشک ہم] مَعَكُمْ [ تم لوگوں کے ساتھ] مُّسْتَمِعُوْنَ[ خوب سننے والے ہیں]

فَاْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ    16۝ۙ
فَاْتِيَا [ پس تم دونوں پہنچو] فِرْعَوْنَ [ فرعون کے پاس] فَقُوْلَآ [ پھر تم دونوں کہو] اِنَّا [ کہ ہم] رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کے رب کے پیغمبر ہیں]

اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ    17۝ۭ
اَنْ [ (پیغام یہ ہے) کہ] اَرْسِلْ [ تو بھیج] مَعَنَا [ ہمارے ساتھ] بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ بنی اسرائیل کو]

قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَّلَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِـنِيْنَ    18۝ۙ
قَالَ [ (فرعون نے) کہا] اَلَمْ نُرَبِّكَ [ کیا ہم نے تربیت نہیں کی تیری] فِيْنَا [ اپنے (گھر) میں] وَلِيْدًا [ بچہ ہوتے ہوئے] وَّلَبِثْتَ [ اور تو رہا] فِيْنَا [ ہم میں]مِنْ عُمُرِكَ [ اپنی عمر سے] سِـنِيْنَ [ کچھ سال]

وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِيْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ    19؀
وَفَعَلْتَ [ اور تو نے کیا] فَعْلَتَكَ الَّتِيْ [ اپنا وہ فعل (کام) جو] فَعَلْتَ [ تو نے کیا] وَاَنْتَ [ اور تو] مِنَ الْكٰفِرِيْنَ [ ناشکر گزاروں میں سے ہے]

قَالَ فَعَلْتُهَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ    20۝ۭ
قَالَ [ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا] فَعَلْتُهَآ [ میں نے کیا اس کو] اِذًا [ تب]وَّ [ اس حال میں کہ] اَنَا [ میں] مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ [ حق تلاش کرنے والوں میں سے تھا]

فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ      21؀
فَفَرَرْتُ [ پھر میں فرار ہوا]مِنْكُمْ[ تم لوگوں سے]لَمَّا [ جب] خِفْتُكُمْ [ میں ڈرا تم لوگوں سے] فَوَهَبَ [ تو عطا کیا] لِيْ [ مجھے] رَبِّيْ [ میرے رب نے]حُكْمًا [ ایک حکم] وَّجَعَلَنِيْ [ اور اس نے بنایا مجھ کو] مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ [ بھیجے ہوؤں (یعنی رسولوں) میں سے]

وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ    22؀ۭ
وَتِلْكَ [ اور یہ ہے] نِعْمَةٌ [ وہ نعمت]تَمُنُّهَا [ تو احسان رکھتا ہے جس کا]عَلَيَّ [ مجھ پر] اَنْ [ کہ] عَبَّدْتَّ [ تو نے غلام بنایا] بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ بنی اسرائیل کو]



نوٹ۔1: سورہ کی مختصر تمہید کے بعد اب تاریخی بیان کا آغاز ہو رہا ہے جس میں سات قوموں کے حالات پیش کیے گئے ہیں جنہوں نے نشانیاں اور معجزے دیکھنے کے بعد بھی انکار کیا تو ان کا کیا انجام ہوا۔ اس کی ابتدا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے قصے سے کی گئی ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جن حالات سے سابقہ پیش آیا تھا وہ ان حالات کی کہیں زیادہ سخت تھے جن سے نبی
کو سابقہ درپیش تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسی قوم کے فرد تھے جو فرعون سے بری طرح دبی ہوئی تھی، جبکہ نبی کا خاندان قریش کے دوسرے خانوانوں کے ساتھ بالکل برابر کی پوزیشن رکھتا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود اس فرعون کے گھر میں پرورش پائی تھی اور ایک قتل کے الزام میں دس سال روپوش رہنے کے بعد انھیں حکم دیا گیا تھا کہ اسی بادشاہ کے دربار میں جا کھڑے ہوں جس کے ہاں سے وہ جان بچا کر فرار ہوئے تھے۔ نبی کو ایسی کسی نازک صورتحال سے سابقہ نہ تھا۔ فرعون کی سلطنت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقتور سلطنت تھی۔ قریش کی طاقت کو اس کی طاقت سے کوئی نسبت نہ تھی۔ اس کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور ان علیہ السلام سے ٹکرا کر آخر کار تباہ ہوگیا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کفار قریش کو یہ سبق دینا چاہتا ہے کہ جب فرعون کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے کچھ پیش نہ گئی تو تم بیچارے کیا ہستی ہو نبی کے مقابلے میں بازی جیت لے جاؤ گے۔ (تفہیم القرآن)

قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ      23؀
قَالَ [ کہا] فِرْعَوْنُ [ فرعون نے] وَمَا [ اور کیا چیز ہے] رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کا رب]

قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا  ۭ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ     24؀
قَالَ [ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا] رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [ (وہ ) زمین اور آسمانوں کا رب ہے] وَمَا [ اور اس کا جو] بَيْنَهُمَا ۭ [ ان دونوں کی درمیان ہے] اِنْ كُنْتُمْ [ اگر تم لوگ]مُّوْقِنِيْنَ [ یقین کرنے والے ہو]

قَالَ لِمَنْ حَوْلَهٗٓ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ    25؀
قَالَ [ (فرعون نے) کہا]لِمَنْ [ ان سے جو] حَوْلَهٗٓ [ اسی کے اردگرد]اَ[ کیا] لَا تَسْتَمِعُوْنَ [ تم لوگ سنتے نہیں ہو]

قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ اٰبَاۗىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَ    26؀
قَالَ [ موسیٰ علیہ السلام نے) کہا] رَبُّكُمْ [ تمہارا رب ہے] وَرَبُّ اٰبَاۗىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَ اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا رب ہے]

قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْٓ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ    27؀
قَالَ [ (فرعون نے) کہا] اِنَّ [ بیشک] رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْٓ [ تم لوگوں کا وہ پیغمبر جو] اُرْسِلَ [ بھیجا گیا] اِلَيْكُمْ[ تمہاری طرف] لَمَجْنُوْنٌ [ یقینا مجنون ہے]

قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا  ۭاِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ    28؀
قَالَ [ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا]رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ (وہ) مشرق اور مغرب کا رب ہے] وَمَا [ اور اس کا جو] بَيْنَهُمَا ۭ [ ان دونوں کے درمیان ہے]اِنْ كُنْتُمْ [ اگر تم لوگ]تَعْقِلُوْنَ [ عقل سے کام لیتے ہو]

قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــهًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ    29؀
قَالَ [ (فرعون نے) کہا] لَىِٕنِ [ بیشک اگر] اتَّخَذْتَ [ تو نے بنایا] اِلٰــهًا [ کوئی الہٰ] غَيْرِيْ [ میرے علاوہ] لَاَجْعَلَنَّكَ [ تو میں لازما بنا دوں گا تجھ کو] مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ [ قید کئے ہوئے لوگوں میں سے]

قَالَ اَوَلَوْ جِئْتُكَ بِشَيْءٍ مُّبِيْنٍ    30؀ۚ
قَالَ [ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا]اَوَلَوْ [ اور کیا اگر] جِئْتُكَ [ میں لاؤں تیرے پاس] بِشَيْءٍ مُّبِيْنٍ [ ایک واضح چیز]

قَالَ فَاْتِ بِهٖٓ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ    31؀
قَالَ[ (فرعون نے) کہا]فَاْتِ [ پس تولا] بِهٖٓ [ اس کو] اِنْ كُنْتَ [ اگر تو ہے] مِنَ الصّٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والوں میں سے]

فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ    32؀ښ
فَاَلْقٰى [ تو انہوں نے ڈالا] عَصَاهُ [ اپنا عصا] فَاِذَا [ تو جب ہی] هِىَ [ وہ تھا] ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ [ ایک واضح اژدھا]

وَّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا هِىَ بَيْضَاۗءُ لِلنّٰظِرِيْنَ    33؀ۧ
وَّنَزَعَ [ اور انھوں نے کھینچ نکالا] يَدَهٗ [ اپنا ہاتھ]فَاِذَا [ تو جب ہی] هِىَ [ وہ تھا] بَيْضَاۗءُ [ سفید]لِلنّٰظِرِيْنَ [ دیکھنے والوں کے لئے]

قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗٓ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ    34؀ۙ
قَالَ[ (فرعون نے) کہا]لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗٓ [ اپنے اردگرد کے سرداروں سے] اِنَّ ھٰذَا [ بیشک یہ] لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ [ یقینا ایک عالم (یعنی ماہر) جادوگر ہے]

يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهٖ ڰ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ    35؀
يُّرِيْدُ [ وہ چاہتا ہے]اَنْ يُّخْرِجَكُمْ [ کہ وہ نکال دے تم لوگوں کو] مِّنْ اَرْضِكُمْ [ تمہاری زمین سے] بِسِحْرِهٖ ڰ [ اپنے جادو کے ذریعے] فَمَاذَا [ تو کیا (کس طرح کا)] تَاْمُرُوْنَ [ تم لوگ مشورہ دیتے ہو]

قَالُوْٓا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ وَابْعَثْ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ   36؀ۙ
قَالُوْٓا [ ان لوگوں نے کہا] اَرْجِهْ [ تو ٹال دے اس کو] وَاَخَاهُ [ اور اس کے بھائی کو] وَابْعَثْ [ اور تو بھیج] فِي الْمَدَاۗىِٕنِ [ شہروں میں]حٰشِرِيْنَ [ جمع کرنے والوں کو]

يَاْتُوْكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيْمٍ    37؀
يَاْتُوْكَ [ وہ لوگ لے آئیں گے تیرے پاس ] بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيْمٍ [ تمام جاننے والے بڑے جادوگر کو]



نوٹ۔1: حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی گفتگو کو سمجھنے کے لئے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج کی طرح قدیم زمانے میں بھی ’’ معبود‘‘ کا تصور صرف مذہبی معنوں تک محدود تھا۔ یعنی یہ کہ اسے پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا حق پہنچتا ہے اور اپنے فوق الفطری غلبہ و اقتدار کی وجہ سے اس کا یہ منصب بھی ہے کہ انسان اپنے معاملات میں اس سے دعائیں مانگے۔ لیکن کسی معبود کی یہ حیثیت کہ وہ قانونی اور سیاسی معنوں میں بھی بالادست ہے اور اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ معاملات دنیا میں وہ جو حکم چاہے دے اور انسانوں کا فرض ہے کہ اس کے امر و نہی کو قانون برتر مان کر اس کے آگے جھک جائیں،، یہ بات زمین کے فرمانرواؤں نے نہ پہلے کبھی مان کر دی تھی اور نہ آج اسے ماننے کے لئے تیار ہیں۔ دنیوی بادشاہوں اور انبیاء علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والوں کے تصادم کی اصل وجہ یہی رہی ہے۔ انھوں نے فرما نرواؤں سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت و بالدستی تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے اور فرمانروا اپنی حاکمیت مطلقہ کا دعوی کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے ہر اس شخص کو باغی اور مجرم قرار دیا جو ان کے سوا کسی اور کو قانون و سیاست کے میدان میں معبود مانے۔

 اس تشریح سے فرعون کی اس گفتگو کا صحیح مفہوم سمجھ میں آسکتا ہے اگر معاملہ صرف پوجا پاٹ کا ہوتا تو فرعون کو اس سے کوئی بحث نہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف ایک اللہ رب العالمین کا اس کا مستحق سمجھتے ہیں۔ اگر اس معنی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو توحید فی العبادت کی دعوت دی ہوتی تو اسے غضبناک ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ لیکن جس چیز نے اسے غضبناک کردیا وہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود کو رب العالمین کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرکے ایک سیاسی حکم (بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کا) اس طرح پہنچایا کہ گویا فرعون ایک ماتحت حاکم ہے اور ایک برتر حاکم کا پیغامبر اس سے اطاعت کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ اس معنی میں فرعون اپنے اوپر کسی کی سیاسی برتری ماننے کے لئے تیار نہ تھا اور وہ یہ بھی گوارہ نہیں کرسکتا تھا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی فرد اس کے بجائے کسی اور کو حاکم برتر مانے۔ (تفہیم القرآن)

فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيْقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ   38؀ۙ
فَجُمِعَ [ پس جمع کئے گئے] السَّحَرَةُ [ جادوگر لوگ]لِمِيْقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ [ ایک معلوم دن کے طے شدہ وقت کیلئے]

وَّقِيْلَ لِلنَّاسِ هَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ    39؀ۙ
وَّقِيْلَ [ اور کہا گیا] لِلنَّاسِ [ لوگوں سے] هَلْ اَنْتُمْ [ کیا تم لوگ] مُّجْتَمِعُوْنَ [ جمع ہونے والے ہو]

لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِيْنَ    40؀
لَعَلَّنَا [ شاید کہ ہم] نَتَّبِعُ [ پیروی کریں] السَّحَرَةَ [ جادوگروں کی] اِنْ [ اگر] كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِيْنَ [ وہ لوگ ہی غالب ہونے والے ہیں]

فَلَمَّا جَاۗءَ السَّحَرَةُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَىِٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ    41؀
فَلَمَّا [ پھر جب] جَاۗءَ [ آئے] السَّحَرَةُ [ جادوگر لوگ] قَالُوْا [ انھوں نے کہا] لِفِرْعَوْنَ [ فرعون سے] اَىِٕنَّ [ کیا بیشک (یعنی کیا واقعی)] لَنَا [ ہمارے لئے] لَاَجْرًا [ ضرور کوئی اجر ہے] اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ [ اگر ہم ہی غالب ہوں]

قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ    42؀
قَالَ [ (فرعون نے) کہا] نَعَمْ [ ہاں] وَاِنَّكُمْ [ اور بیشک تم لوگ] اِذًا [ تب تو] لَّمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ [ ضرور ہم ہی غالب ہونے والے ہیں]

قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰٓي اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ    43؀
[ قَالَ: کہا [ لَهُمْ: ان سے [ مُّوْسٰٓي: موسیٰ نے][ اَلْقُوْا: تم لوگ ڈالو] مَآ: اس چیز کو][ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ: تم لوگ ڈالنے والے ہو]

فَاَلْـقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ    44؀
[ فَاَلْـقَوْا : تو انہوں نے ڈالیں ][ حِبَالَهُمْ : اپنی رسیاں ][ وَعِصِيَّهُمْ : اور اپنی لاٹھیاں ][ وَقَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ: اور انہوں نے کہا فرعون کی عزت کی قسم][ اِنَّا : بےشک ہم ][ لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ: ضرور ہم ہی غالب ہونے والے ہیں]



نوٹ۔1: بعزۃ فرعون۔ یہ کلمہ ان جادوگروں کی قسم ہے جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھی۔ افسوس کہ مسلمانوں میں بھی اب ایسی قسمیں رائج ہوگئی ہیں جو اس سے زیادہ شنیع اور قبیح ہیں مثلا بادشاہ کی قسم ، تیرے سر کی قسم ، میری داڑھی کی قسم، تیرے باپ کی قبر کی قسم وغیرہ۔ اس قسم کی قسمیں کھانا شرعا جائز نہیں ہے بلکہ ان کے متعلق یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خدا کے نام کی جھوٹی قسم کھانے میں جو گناہ عظیم ہے، ان ناموں کی سچی قسم بھی گناہ میں اس سے کم نہیں۔ (معارف القرآن)

فَاَلْقٰى مُوْسٰي عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ تَلْقَفُ مَا يَاْفِكُوْنَ    45؀ښ
فَاَلْقٰى [ پھر ڈالا] مُوْسٰي [ موسیٰ علیہ السلام نے] عَصَاهُ [ اپنا عصا] فَاِذَا [ تو جب ہی] هِىَ [ وہ] تَلْقَفُ [ نگلنے لگا]مَا [ اس کو جو] يَاْفِكُوْنَ [ وہ لوگ جھوٹی بناوٹ کرتے تھے]

فَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سٰجِدِيْنَ     46؀ۙ
فَاُلْقِيَ [ پھر ڈالدئیے گئے] السَّحَرَةُ [ جادو گر لوگ] سٰجِدِيْنَ [ سجدہ کرنے والوں کی حالت میں]

قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ    47؀ۙ
قَالُوْٓا [ انھوں نے کہا] اٰمَنَّا [ ہم ایمان لائے] بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ[ تمام جہانوں کے رب پر]



نوٹ۔2: آیت نمبر 7/115 کے نوٹ۔1۔ میں جادوگروں کے ایمان لانے کا جو پس منظر بیان ہوا ہے اسے دوبارہ پڑھ کر اپنے ذہن میں تازہ کر لیں۔ پھر لاضیر پر غور کریں جس میں لائے نفی جنس استعمال ہوا ہے ، تو پھر ان شاء اللہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ آبا واجداد کے کسی نظریہ یا عقیدے (
Dogma) کی کیفیت انسان کے قلب و ذہن میں ایسی ہی ہوتی ہے جیسے زمین پر پھیلی ہوئی کوئی بیل بوٹی جس کی جڑ زمین میں گہری نہیں ہوتی اور جس کو آسانی سے اکھیڑا جا سکتا ہے۔ لیکن انسان اپنے علم کی بنیاد پر سوچ سمجھ کر جب کوئی نظریہ یا عقیدہ اپناتا ہے تو وہ اس کے قلب و ذہن میں رچ بس جاتا ہے ۔ اس کو اکھاڑنا آسان نہیں ہے۔ انسان جان دینا گوارہ کر لیتا ہے لیکن اس سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک بالکل نئی کیفیت ہے۔ ایک بالکل الگ نشہ ہے۔ یہ وہ نشہ نہیں جسے تلخی ایام کی ترشی اتار دے۔

رَبِّ مُوْسٰي وَهٰرُوْنَ     48؀
رَبِّ مُوْسٰي وَهٰرُوْنَ [ جو ہارون اور موسیٰ علیہ السلام کا رب ہے]

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ  ۚ اِنَّهٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ  ۚ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ڛ لَاُقَـطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِيْنَ    49؀ۚ
قَالَ [ (فرعون نے) کہا] اٰمَنْتُمْ [ تم لوگوں نے بات مان لی]لَهٗ [ اس کی] قَبْلَ اَنْ [ اس سے پہلے کہ]اٰذَنَ [ میں اجازت دینا] لَكُمْ ۚ [ تم لوگوں کو] اِنَّهٗ [ بیشک یہ]لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ [ تم لوگوں کا وہ بڑا ہے جس نے] عَلَّمَكُمُ [ سکھایا تم لوگوں کو] السِّحْرَ ۚ [ جادو کرنا] فَلَسَوْفَ [ تو یقینا عنقریب] تَعْلَمُوْنَ ڛ [ تم لوگ جان لوگے] لَاُقَـطِّعَنَّ [ میں لازما کاٹوں گا] اَيْدِيَكُمْ [ تمہارے ہاتھوں کو] وَاَرْجُلَكُمْ [ اور تمہارے پیروں کو]مِّنْ خِلَافٍ [ مخالف (طرف) سے]وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ [ اور میں لازما پھانسی دوں گا تم لوگوں کو] اَجْمَعِيْنَ [ سب کے سب کو]

قَالُوْا لَا ضَيْرَ ۡ اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ    50؀ۚ
قَالُوْا [ انھوں نے کہا] لَا ضَيْرَ ۡ [ کسی قسم کی کوئی بھی تکلیف نہیں ہے] اِنَّآ [ بیشک ہم] اِلٰى رَبِّنَا [ اپنے رب کی طرف] مُنْقَلِبُوْنَ [ لوٹنے والے ہیں]



ض ی ر

(ض) ضیرا نقصان دینا۔ تکلیف پہنچانا۔

 ضیر اسم ذات بھی ہے۔ نقصان ۔ تکلیف۔ زیر مطالعہ آیت ۔50۔

اِنَّا نَــطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰيٰنَآ اَنْ كُنَّآ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِيْنَ    51؀ۉ
اِنَّا [ بیشک ہم] نَــطْمَعُ [ آرزو کرتے ہیں]اَنْ [ کہ]يَّغْفِرَ [ بخش دے]لَنَا [ ہمارے لئے] رَبُّنَا [ ہمارا رب]خَطٰيٰنَآ [ ہماری خطاؤں کو] اَنْ [ (اس سبب سے) کہ] كُنَّآ [ ہم ہوئے]اَوَّلَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں کے پہلے]



نوٹ۔1: آیت۔51 اور 52۔ کے درمیان سرگزشت کا کچھ حصہ محذوف ہے۔ قرآن اور تورات ، دونوں کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ اس مقابلہ میں شکست کھانے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے درمیان ایک عرصے تک کشمکش چلتی رہی۔ اس دوران میں مصر پر بہت سی آفتیں نازل ہوئیں جن سے ملک تباہی کے کنارے آلگا۔ مجبور ہوکر فرعون نے بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت تو دے دی لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پوری قوم کو لے کر نکلے تو اس کی رائے بدل گئی اور اس نے تعاقب کا فیصلہ کیا۔ آیت۔ 52۔ میں اسی صورت حال کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو بذریعہ وحی ہدایت کر دی کہ تم راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر نکل جاؤ اور ساتھ ہی اس بات سے بھی آگاہ کردیا کہ اگرچہ فرعون نے تم کو جانے کی اجزت دے دی ہے لیکن اس کے باوجود تعاقب کیا جائے گا۔ (تدبر قرآن)

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْٓ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ    52؀
وَاَوْحَيْنَآ[ اور ہم نے وحی کی]اِلٰى مُوْسٰٓي [ موسیٰ علیہ السلام کی طرف] اَنْ اَسْرِ [ کہ آپؑ رات میں لے کر نکلیں] بِعِبَادِيْٓ [ میرے بندوں کو] اِنَّكُمْ [ بیشک تم لوگ]مُّتَّبَعُوْنَ [ پیچھا کیے جانے والے ہو]

فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ    53؀ۚ
فَاَرْسَلَ [ تو بھیجا] فِرْعَوْنُ [ فرعون نے] فِي الْمَدَاۗىِٕنِ [ شہروں میں] حٰشِرِيْنَ[ اکٹھا کرنے والوں کو]

اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيْلُوْنَ    54؀ۙ
اِنَّ [ بیشک] هٰٓؤُلَاۗءِ[ یہ لوگ]لَشِرْذِمَةٌ قَلِيْلُوْنَ [ یقینا ایک تھوڑی سی جماعت ہیں]

وَاِنَّهُمْ لَنَا لَغَاۗىِٕظُوْنَ    55؀ۙ
وَاِنَّهُمْ[ اور بیشک وہ لوگ]لَنَا [ ہمارا] لَغَاۗىِٕظُوْنَ [ یقینا خون کھولا نے والے ہیں]

وَاِنَّا لَجَمِيْعٌ حٰذِرُوْنَ   56؀ۭ
وَاِنَّا [ اور بیشک ہم] لَجَمِيْعٌ [ یقینا سب کے سب]حٰذِرُوْنَ [ بچاؤ کی تیاری کرنے والے ہیں]

فَاَخْرَجْنٰهُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ    57؀ۙ
فَاَخْرَجْنٰهُمْ [ پھر ہم نے نکالا ان کو] مِّنْ جَنّٰتٍ [ باغوں سے]وَّعُيُوْنٍ [ اور چشموں سے]

وَّكُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ كَرِيْمٍ    58؀ۙ
وَّكُنُوْزٍ [ اور خزانوں سے]وَّمَقَامٍ كَرِيْمٍ [ اور باعزت مقام سے]

كَذٰلِكَ ۭ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ   59؀ۭ
كَذٰلِكَ ۭ [ اسی طرح ہے] وَاَوْرَثْنٰهَا [ اور ہم نے وارث بنایا ان (چیزوں) کا] بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ نبی اسرائیل کو]



نوٹ۔2: واورثنھا میں ضمیر مفعولی ھا سے مراد بعینہ وہی نعمتیں نہیں ہیں جن سے فرعونیوں کو اللہ تعالیٰ نے نکالا بلکہ اسی نوع کی وہ نعمتیں ہیں جو بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے کے بعد فلسطین میں حاصل ہوئیں۔ چنانچہ الاعراف کی آیت ۔ 137۔ میں اس کی تصریح بھی ہے۔ اس آیت میں ارض مبارک سے مراد فلسطین ہے۔ مصر سے نکلنے اور صحرا نور دی کا دور ختم ہونے کے بعد یہی زرخیز علاقہ بنی اسرائیل کے قبضے میں آیا ہے ۔ مصر کے کسی علاقے پر بنی اسرائیل کا قبضہ تاریخ سے ثابت نہیں ہے۔

 واضح رہے کہ عربی میں ضمیروں کا اس طرح کا استعمال معروف ہے۔ قرآن مجید میں اس کی متعدد مثالیں ہیں۔ سورہ مائدہ کی آیت۔ 102۔ اس کی نہایت واضح مثال ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو بنی اسرائیل کے سوالات کی نوعیت کے سوالات کرنے سے روکا گیا ہے۔ اس میں الفاظ آئے ہیں قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ (پوچھ چکی ہے ان کو ایک قوم تم لوگوں سے پہلے)۔ ظاہر ہے کہ یہاں مفعولی ضمیر ھا جن سوالات کے لئے ہے بعینہ وہی سوالات بنی اسرائیل نے نہیں کئے تھے۔ بلکہ اسی قبیل کے سوالات کئے تھے۔ اسی طرح آیت زیر بحث میں بھی بعینہ وہی باغ چشمے اور خزانے مراد نہیں ہیں جن کا سابق آیت میں ذکر ہے بلکہ اسی نوع کی وہ نعمتیں اور برکتیں مراد ہیں جو بنی اسرائیل کو مصر سے ہجرت کے بعد فلسطین میں حاصل ہوئیں۔ (تدبر قرآن)

فَاَتْبَعُوْهُمْ مُّشْرِقِيْنَ    60؀
فَاَتْبَعُوْهُمْ [ پھر وہ لوگ پیچھے لگے ان کے]مُّشْرِقِيْنَ [ سورج نکلتے ہی]

فَلَمَّا تَرَاۗءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰٓي اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ    61؀ۚ
فَلَمَّا [ پھر جب] تَرَاۗءَ [ ایک دوسرے کو دیکھا] الْجَمْعٰنِ [ دو جماعتوں نے]قَالَ [ تو کہا]اَصْحٰبُ مُوْسٰٓي [ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے] اِنَّا [ بیشک ہم] لَمُدْرَكُوْنَ [ یقینا پکڑے جانے والے ہیں]

قَالَ كَلَّا  ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ    62؀
قَالَ [ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا]كَلَّا ۚ [ ہرگز نہیں]اِنَّ [ یقینا ] مَعِيَ [ میرے ساتھ]رَبِّيْ[ میرا رب ہے] سَيَهْدِيْنِ [ وہ راہ سمجھائے گا مجھ کو]

فَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ۭ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ    63؀ۚ
فَاَوْحَيْنَآ [ تو ہم نے وحی کی]اِلٰى مُوْسٰٓي [ موسیٰ علیہ السلام کی طرف] اَنِ [ کہ] اضْرِبْ [ آپ علیہ السلام ماریں] بِّعَصَاكَ [ اپنی لاٹھی سے] الْبَحْرَ ۭ[ سمندر کو] فَانْفَلَقَ [ پھر وہ پھٹ گیا] فَكَانَ [ تو ہو گیا] كُلُّ فِرْقٍ [ ہر ٹکڑا] كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ [ بڑے تودے کے مانند]



ط و د

(ن) طودا ثابت قدم ہونا۔ جما ہوا ہونا۔

 طود اسم ذات بھی ہے۔ ٹیلہ۔ پہاڑ کا بڑا ٹکڑا۔ تو وہ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 63۔

وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِيْنَ    64؀ۚ
وَاَزْلَفْنَا [ اور ہم نے نزدیک کیا] ثَمَّ [ وہیں پر] الْاٰخَرِيْنَ [ دوسروں کو]

وَاَنْجَيْنَا مُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗٓ اَجْمَعِيْنَ    65؀ۚ
وَاَنْجَيْنَا [ اور ہم نے نجات دی] مُوْسٰي [ موسیٰ علیہ السلام کو] وَمَنْ [ اور ان کو جو ] مَّعَهٗٓ [ ان کے ساتھ تھے] اَجْمَعِيْنَ [ سب کو]

ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِيْنَ    66؀ۭ
ثُمَّ [ پھر] اَغْرَقْنَا [ ہم نے غرق کیا] الْاٰخَرِيْنَ [ دوسروں کو]

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً  ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ   67؀
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [ بیشک اس میں] لَاٰيَةً ۭ [ یقینا ایک نشانی ہے]وَمَا كَانَ [ اور نہیں تھے] اَكْثَرُهُمْ [ ان کے اکثر] مُّؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے]

وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ    68؀ۧ
وَاِنَّ رَبَّكَ [ اور بیشک آپ
کا رب]لَهُوَ الْعَزِيْزُ [ یقینا وہی بالادست ہے] الرَّحِيْمُ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِيْمَ    69؀ۘ
وَاتْلُ [ اور آپ
پڑھ کر سنائیے] عَلَيْهِمْ [ ان لوگوں کو]نَبَاَ اِبْرٰهِيْمَ [ ابراہیم ؑ کی خبر]

اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَا تَعْبُدُوْنَ     70؀
اِذْ قَالَ [ جن ابھوں نے کہا] لِاَبِيْهِ [ اپنے والد سے] وَقَوْمِهٖ [ اور اپنی قوم سے] مَا [ کسی کی] تَعْبُدُوْنَ [ تم لوگ عبادت کرتے ہو]

قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِيْنَ     71؀
قَالُوْا [ ان لوگوں نے کہا] نَعْبُدُ [ ہم عبادت کرتے ہیں] اَصْنَامًا [ کچھ مورتیوں کی]فَنَظَلُّ [ پھر ہم ہو جاتے ہیں] لَهَا [ ان کے لئے]عٰكِفِيْنَ [ اعتکاف کرنے والے]

قَالَ هَلْ يَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَ    72؀ۙ
قَالَ [ (ابراہیم علیہ السلام نے) کہا] هَلْ [ کیا] يَسْمَعُوْنَكُمْ [ وہ (مورتیاں) سنتی ہیں تم کو] اِذْ تَدْعُوْنَ [ جب تم لوگ پکارتے ہو]

اَوْ يَنْفَعُوْنَكُمْ اَوْ يَضُرُّوْنَ   73؀
اَوْ[ یا] يَنْفَعُوْنَكُمْ [ وہ فائدہ دیتی ہیں تم کو]اَوْ يَضُرُّوْنَ [ یا نقصان پہنچاتی ہیں]

قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ    74؀
قَالُوْا [ ان لوگوں نے کہا]بَلْ وَجَدْنَآ [ بلکہ ہم نے پایا]اٰبَاۗءَنَا [ اپنے آباؤ اجداد کو] كَذٰلِكَ [ (کہ) اس طرح] يَفْعَلُوْنَ [ وہ لوگ کرتے تھے]

قَالَ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ    75؀ۙ
قَالَ [ (ابراہیم علیہ السلام نے) کہا]اَفَرَءَيْتُمْ [ تو کیا تم لوگوں نے غور کیا]مَّا [ ان پر جن کی]كُنْتُمْ [ تم لوگ] تَعْبُدُوْنَ [ عبادت کرتے ہو]

اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ   76؀ڮ
اَنْتُمْ [ تم] وَاٰبَاۗؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ [ اور تمہارے اگلے باپ دادا]

فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّيْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ   77؀ۙ
فَاِنَّهُمْ [ تو بیشک وہ سب] عَدُوٌّ [ دشمن ہیں]لِّيْٓ [ میرے]اِلَّا [ سوائے] رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کے رب کے]

الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ   78؀ۙ
الَّذِيْ [ وہ جس نے] خَلَقَنِيْ [ پیدا کیا مجھ کو] فَهُوَ [ تو وہ ہی]يَهْدِيْنِ [ ہدایت دیتا ہے مجھ کو]

وَالَّذِيْ هُوَ يُطْعِمُنِيْ وَيَسْقِيْنِ    79؀ۙ
وَالَّذِيْ [ اور وہ جو (کہ)]هُوَ [ وہ ہی] يُطْعِمُنِيْ[ کھلاتا ہے مجھ کو]وَيَسْقِيْنِ [ اور پلاتا ہے مجھ کو]

وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ   80؀۽
وَاِذَا [ اور جب کبھی] مَرِضْتُ [ میں بیمار ہوتا ہوں] فَهُوَ [ تو وہ ہی] يَشْفِيْنِ [ شفا دیتا ہے مجھ کو]

وَالَّذِيْ يُمِيْـتُـنِيْ ثُمَّ يُحْيِيْنِ   81؀ۙ
وَالَّذِيْ [ اور وہ جو] يُمِيْـتُـنِيْ [ موت دے گا مجھ کو] ثُمَّ [ پھر] يُحْيِيْنِ [ وہ زندگی دے گا مجھ کو]

وَالَّذِيْٓ اَطْمَــعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْۗـــــَٔــتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ   82؀ۭ
وَالَّذِيْٓ [ اور وہ جس سے] اَطْمَــعُ [ میں آرزو کرتا ہوں] اَنْ [ کہ] يَّغْفِرَ [ وہ بخش دے] لِيْ [ میرے لئے] خَطِيْۗـــــَٔــتِيْ[ میری خطا کو] يَوْمَ الدِّيْنِ [ بدلے کے دن]

رَبِّ هَبْ لِيْ حُكْمًا وَّاَلْـحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ   83؀ۙ
رَبِّ [ اے میرے رب] هَبْ [ تو عطا کر] لِيْ [ مجھ کو] حُكْمًا [ فیصلہ کرنے کی طاقت] وَّاَلْـحِقْنِيْ [ اور تو ملا دے مجھ کو]بِالصّٰلِحِيْنَ [ نیک لوگوں کے ساتھ]

وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ   84؀ۙ
وَاجْعَلْ[ اور توبنا دے] لِّيْ [ میرے لئے] لِسَانَ صِدْقٍ[ سچائی کی زبان] فِي الْاٰخِرِيْنَ [ آخری لوگوں میں]



نوٹ۔1: آیت۔84 میں لسان سے مراد ذکر ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا یا مجھے ایسے پسندیدہ طریقے اور عمدہ نشانیاں عطا فرما جس کی دوسرے لوگ قیامت تک پیروی کریں اور مجھے ذکر خیر سے یاد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی۔ آیت۔ 89 میں قلب سلیم سے مراد ایسا دل ہے جس میں شرک و کفر نہ ہو۔ (معارف القرآن)

وَاجْعَلْنِيْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيْمِ    85؀ۙ
وَاجْعَلْنِيْ [ اور تو بنا دے مجھ کو] مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيْمِ [ سدا بہار باغ کے وارثوں میں سے]

وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ    86؀ۙ
وَاغْفِرْ [ اور تو بخش دے] لِاَبِيْٓ [ میرے والد کو] اِنَّهٗ [ بیشک وہ ] كَانَ [ تھا] مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ [ بھٹک جانے والوں میں سے]

وَلَا تُخْزِنِيْ يَوْمَ يُبْعَثُوْنَ    87؀ۙ
وَلَا تُخْزِنِيْ [ اور تو رسوانہ کرنا مجھ کو]يَوْمَ [ جس دن] يُبْعَثُوْنَ [ لوگ اٹھائے جائیں گے]

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ    88؀ۙ
يَوْمَ [ جس دن] لَا يَنْفَعُ [ نفع نہیں دے گا] مَالٌ [ کوئی مال] وَّلَا بَنُوْنَ [ اور نہ ہی بیٹے]

اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ   89؀ۭ
اِلَّا مَنْ [ سوائے اس کے جو] اَتَى [ پہنچا] اللّٰهَ [ اللہ کے پاس] بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ [ قلب سلیم کے ساتھ]

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَ    90؀ۙ
وَاُزْلِفَتِ [ اور قریب کی جائے گی] الْجَنَّةُ [ جنت] لِلْمُتَّقِيْنَ [ پرہیزگاروں کے لئے]

وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغٰوِيْنَ    91۝ۙ
وَبُرِّزَتِ [ اور سامنے لائی جائے گی] الْجَحِيْمُ [ دوزخ] لِلْغٰوِيْنَ [ گمراہ ہونے والوں کے لئے]

وَقِيْلَ لَهُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ    92۝ۙ
وَقِيْلَ [ اور کہا جائے گا] لَهُمْ [ ان سے] اَيْنَ مَا [ کہاں ہیں وہ جن کی]كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ [ تم لوگ عبادت کرتے تھے]

مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ  ۭ هَلْ يَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ يَنْتَصِرُوْنَ    93؀ۭ
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے علاوہ] هَلْ [ کیا] يَنْصُرُوْنَكُمْ [ وہ سب مدد کریں گے تمہاری] اَوْ يَنْتَصِرُوْنَ [ یا وہ بدلہ لیں گے]

فَكُبْكِبُوْا فِيْهَا هُمْ وَالْغَاوٗنَ    94؀ۙ
فَكُبْكِبُوْا [ پھر پھینکے جائیں گے] فِيْهَا [ اس میں] هُمْ [ وہ سب] وَالْغَاوٗنَ [ اور گمراہ ہونے والے]



ک ب ک ب

(رباعی) کبکبۃ الٹا پچھاڑنا۔ گڑھے میں پھینکنا۔ زیر مطالعہ آیت ۔94۔

وَجُنُوْدُ اِبْلِيْسَ اَجْمَعُوْنَ    95؀ۭ
وَجُنُوْدُ اِبْلِيْسَ [ اور ابلیس کے لشکر] اَجْمَعُوْنَ [ سب کے سب]

قَالُوْا وَهُمْ فِيْهَا يَخْتَصِمُوْنَ   96؀ۙ
قَالُوْا [ وہ کہیں گے]وَ[ اس حال میں کہ] هُمْ [ وہ سب] فِيْهَا [ اس میں ] يَخْتَصِمُوْنَ [ جھگڑے ہوں گے]

تَاللّٰهِ اِنْ كُنَّا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ   97؀ۙ
تَاللّٰهِ [ اللہ کی قسم]اِنْ كُنَّا [ یقینا ہم تھے] لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ[ بیشک ایک کھلی گمراہی میں]

اِذْ نُسَوِّيْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   98؀
اِذْ [ جب] نُسَوِّيْكُمْ [ ہم برابر کرتے تھے تم کو] بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ[ رب العالمین کے]



نوٹ۔1: آیت۔ 98۔ کی تفسیر میں ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یعنی ہم تمہارے احکام کی اس طرح اطاعت کرتے رہے جس طرح خداوند عالم کے احکام کی اطاعت کرنی چاہیے تھی۔ (منقول از تدبر قرآن)۔ ضروری ہے کہ آیت کے اس مفہوم کو ذہن میں رکھ کر ہر شخص اپنے گریبان میں منہ ڈالے اور دیکھے کہ موجودہ دور کے تہذیبی تصادم میں وہ کہاں کھڑا ہے اور اس ضمن میں اس کا رویہ قیامت کے دن اس کو کہاں لے جاکے کھڑا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ترقی پسندی کے شرک سے اپنی امان میں رکھے اور ہمیں قلب سلیم عطا فرمائے۔

نوٹ۔2: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں نشانی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی قوم دنیا سے مٹ گئی اور ایسی مٹی کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ (حالانکہ اس وقت وہ قوم دنیا کی واحد سپر پاور تھی)۔ اس میں سے اگر کسی کو بقا نصیب ہوا تو صرف ابراہیم علیہ السلام اور ان کے مبارک فرزندوں (اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام) کی اولاد ہی کو نصیب ہوا۔ قرآن میں اگرچہ اس عذاب کا ذکر نہیں کیا گیا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نکل جانے کے بعد ان کی قوم پر آیا لیکن سورۃ التوبہ کی آیت ۔70۔ میں اس کا شمار معذب قوموں ہی میں کیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَمَآ اَضَلَّنَآ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ    99؀
وَمَآ اَضَلَّنَآ [ اور گمراہ نہیں کیا ہم کو] اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ[ مگر مجرموں نے]

فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِيْنَ   ١٠٠؀ۙ
فَمَا لَنَا [ تو نہیں ہیں ہمارے لئے] مِنْ شَافِعِيْنَ [ کوئی بھی شفاعت کرنے والے]

وَلَا صَدِيْقٍ حَمِيْمٍ    ١٠١؁
وَلَا صَدِيْقٍ حَمِيْمٍ [ اور نہ کوئی گرمجوش دوست]

فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ   ١٠2؁
فَلَوْ اَنَّ [ تو کاش کہ] لَنَا [ ہمارے لئے ہوتی] كَرَّةً [ ایک اور باری] فَنَكُوْنَ [ نتیجتاً ہم ہوتے] مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں میں سے]

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً  ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ   ١٠٣؁
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [ بیشک اس میں ] لَاٰيَةً ۭ [ یقینا ایک نشانی ہے] وَمَا كَانَ [ اور نہیں تھے]اَكْثَرُهُمْ [ ان کے اکثر] مُّؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے]

وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ   ١٠٤؀ۧ
وَاِنَّ رَبَّكَ [ اور بیشک آپ
کا رب] لَهُوَ [ یقینا وہی] الْعَزِيْزُ [ بالادست ہے] الرَّحِيْمُ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ   ١٠٥؁ښ
كَذَّبَتْ [ جھٹلایا] قَوْمُ نُوْحِۨ [ نوح علیہ السلام کی قوم نے] الْمُرْسَلِيْنَ [ بھیجے ہوؤں (یعنی رسولوں) کو]

اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ  ١٠٦۝ۚ
اِذْ قَالَ [ جب کہا] لَهُمْ [ ان سے] اَخُوْهُمْ [ ان کے بھائی] نُوْحٌ [ نوح علیہ السلام نے] اَلَا تَتَّقُوْنَ [ کیا تم لوگ تقویٰ اختیار نہیں کرو گے]

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ   ١٠٧؁ۙ
اِنِّىْ[ بیشک میں] لَكُمْ [ تمہارے لئے] رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ [ ایک امانتدار رسول ہوں]

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ   ١٠٨۝ۚ
فَاتَّقُوا [ پس تم لوگ تقویٰ اختیار کرو] اللّٰهَ [ اللہ کا] وَاَطِيْعُوْنِ [ اور اطاعت کرو میری]

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   ١٠٩۝ۚ
وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ [ اور میں نہیں مانگتا تم سے] عَلَيْهِ [ اس پر] مِنْ اَجْرٍ ۚ [ کوئی بھی اجرت] اِنْ [ نہیں ہے] اَجْرِيَ [ میری اجرت] اِلَّا [ مگر] عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کے رب پر]

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ   ١١٠۝ۭ
فَاتَّقُوا [ پس تقوی اختیار کرو] اللّٰهَ [ اللہ کا] وَاَطِيْعُوْنِ [ اور اطاعت کرو میری]

قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ   ١١١۝ۭ
قَالُـوْٓا [ ان لوگوں نے کہا] اَنُؤْمِنُ لَكَ [ کیا ہم مان لیں تیری بات] وَ[ اس حال میں کہ] ااتَّبَعَكَ[ تیری پیروی کرتے ہیں] الْاَرْذَلُوْنَ [ حقیر لوگ]



نوٹ۔1: آیت ۔111۔ حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان نہ لانے کی وجہ ان کی قوم نے یہ بیان کی کہ آپ کے ماننے والے سارے رذیل لوگ ہیں ہم عزت دار شریف ان میں کیسے مل جائیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے جواب فرمایا کہ مجھے ان کے اعمال کا حال معلوم نہیں ۔ اس میں ارشاد فرما دیا کہ تم لوگ مال ودولت اور عزت وجاہ کو شرافت کی بنیاد سمجھتے ہو تو یہ غلط ہے۔ شرافت ورذالت کا مدار دراصل اعمال و اخلاق پر ہے۔ تم نے جن پر حکم لگا دیا کہ یہ سب رذیل ہیں، یہ تمہاری جہالت ہے۔ ہم کسی شخص کے اعمال واخلاق کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ اس لئے ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے کہ حقیقتاً کون رذیل ہے اور کون شریف ہے۔ (معارف القرآن)

قَالَ وَمَا عِلْمِىْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    ١١٢۝ۚ
قَالَ [ نوح علیہ السلام نے) کہا] وَمَا عِلْمِىْ[ اور میں کیا جانوں]بِمَا [ اس کو جو] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [ یہ لوگ عمل (یعنی پیشہ) کرتے رہتے ہیں]

اِنْ حِسَابُهُمْ اِلَّا عَلٰي رَبِّيْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ    ١١٣۝ۚ
اِنْ [ نہیں ہے] ان [ نہیں ہے] حِسَابُهُمْ [ ان کا حساب] اِلَّا [ مگر]عَلٰي رَبِّيْ [ میرے رب پر] لَوْ[ کاش] تَشْعُرُوْنَ [ تم شعور رکھتے ہوتے

وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِيْنَ    ١١٤۝ۚ
وَمَآ اَنَا [ اور میں نہیں ہوں] بِطَارِدِ [ دھتکارنے والا] الْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں کو]

اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ    ١١٥؁ۭ
اِنْ اَنَا [ نہیں ہوں میں ]اِلَّا [ مگر]نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ [ ایک واضح خبردار کرنے والا]

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِيْنَ    ١١٦؀ۭ
قَالُوْا [ ان لوگوں نے کہا] لَىِٕنْ [ یقینا اگر] لَّمْ تَنْتَهِ [ تو باز نہ آیا] يٰنُوْحُ [ اے نوح] لَتَكُوْنَنَّ [ تو لازما تو ہوجائے گا] مِنَ الْمَرْجُوْمِيْنَ[ سنگسار کئے ہوئوں میں سے]

قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِيْ كَذَّبُوْنِ   ١١٧؀ښ
قَالَ[ نوح نے کہا] رَبِّ [ اے میرے رب]اِنَّ [ بےشک] قَوْمِيْ[ میرے قوم نے]كَذَّبُوْنِ [ جھٹلایا مجھ کو]

فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ   ١١٨؁
فَافْتَحْ [ پس تو فیصلہ کر دے] بَيْنِيْ [ میرے درمیان ]وَبَيْنَهُمْ[ اور ان کے درمیان] فَتْحًا [ جیسے فیصلہ کرنے کا حق ہے] وَّنَجِّـنِيْ [ اور تو نجات دے مجھ کو]وَمَنْ [ اور ان کو جو] مَّعِيَ [ میرے ساتھ ہیں]مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں میں سے]

فَاَنْجَيْنٰهُ وَمَنْ مَّعَهٗ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ   ١١٩؀ۚ
فَاَنْجَيْنٰهُ [ تو ہم نے نجات دی ان کو] وَمَنْ [ اور ان کو بھی جو ] مَّعَهٗ[ ان کے ساتھ تھے] فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ [ بھری ہوئی کشتی ]



ش ح ن

(ف) شحنا کسی چیز کو کسی چیز سے بھرنا۔ پر کرنا۔ کسی پر کچھ لادنا۔

 مشحون اسم المفعول ہے۔ بھرا ہوا۔ پر کیا ہوا۔ لادا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 119۔

ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبٰقِيْنَ   ١٢٠؀ۭ
ثُمَّ [ بھر ] اَغْرَقْنَا [ ہم نے غرق کیا] بَعْدُ [ بعد میں] الْبٰقِيْنَ [ باقی لوگوں کو ]

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً  ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ   ١٢١؁
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [ بےشک اس میں] لَاٰيَةً ۭ [ یقینا ایک نشانی ہے] وَمَا كَانَ [ اور نہیں تھے] اَكْثَرُهُمْ [ ان کے اکثر] مُّؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے]

وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ   ١٢٢؀ۧ
وَاِنَّ رَبَّكَ [ اور بےشک آپ کا رب ] لَهُوَ [ یقینا وہی ] الْعَزِيْزُ [ بالا دست ہے] الرَّحِيْمُ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے

كَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِيْنَ   ١٢٣؀ښ
كَذَّبَتْ [ جھٹلایا] عَادُۨ [ عاد نے] الْمُرْسَلِيْنَ [ بھیجے ہوؤں کو]

اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ   ١٢٤؀ۚ
اِذْ قَالَ [ جب کہا] لَهُمْ [ ان سے] اَخُوْهُمْ [ ان کے بھائی] هُوْدٌ [ ھود علیہ السلام نے] اَلَا تَتَّقُوْنَ [ کیا تم لوگ تقوی اختیار نہیں کرو گے]

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ   ١٢٥؀ۙ
اِنِّىْ [ بیشک میں]لَكُمْ [ تمہارے لئے] رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ [ ایک امانتدار رسول ہوں]

فَاتَّـقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ   ١٢٦؀ۚ
فَاتَّـقُوا [ پس تقوی اختیار کرو] اللّٰهَ [ اللہ کا] وَاَطِيْعُوْنِ [ اور اطاعت کرو میری]

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   ١٢٧؀ۭ
وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ [ اور میں نہیں مانگتا تم لوگوں سے] عَلَيْهِ [ اس پر] مِنْ اَجْرٍ ۚ[ کوئی بھی اجرت] اِنْ اَجْرِيَ [ نہیں ہے میری اجرت] اِلَّا [ مگر] عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کے رب پر]

اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ   ١٢٨؀ۙ
اَتَبْنُوْنَ [ کیا تم لوگ تعمیر کرتے ہو]بِكُلِّ رِيْعٍ [ ہر ٹیلے پر] اٰيَةً[ کوئی نشان] تَعْبَثُوْنَ [ (پھر) مذاق کرتے ہو (راہگیروں سے)]



ر ی ع۔

(ض) ریعا نشوونما پانا۔ زیادہ ہونا۔

 ریع بلند جگہ۔ ٹیلہ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 128۔



نوٹ۔1: آیت۔128۔ کی تفسیر میں ایک رائے یہ ہے کہ یہ لوگ سرراہ بلند جگہوں پر بارہ دری یا اسی قسم کی دیگر تعمیرات کرتے تھے۔ پھر وہاں بیٹھ کر راہ چلنے والوں سے تمسخر کرتے اور انھیں پریشان کرتے تھے۔ (تفسیر تعیمی) ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ لوگ بلند جگہوں پر ایسی یادگاریں تعمیر کرتے تھے جن میں کسی کو افادیت نہیں ہوتی تھی، جن کا مقصد دولت کی نمائش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔ (تفہیم القرآن)

وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ   ١٢٩؀ۚ
وَتَتَّخِذُوْنَ [ اور تم لوگ بناتے ہو] مَصَانِعَ [ محلات] لَعَلَّكُمْ [ شاید کہ تم لوگ]تَخْلُدُوْنَ [ ہمیشہ رہو گے]

وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ   ١٣٠؀ۚ
وَاِذَا [ اور جب کبھی] بَطَشْتُمْ [ تم لوگ گرفت کرتے ہو] بَطَشْتُمْ [ تو گرفت کرتے ہو] جَبَّارِيْنَ [ انتہائی جبر کرنے والے ہوتے ہوئے]

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ   ١٣١؀ۚ
فَاتَّقُوا [ پس تقوی اختیار کرو] اللّٰهَ [ اللہ کا] وَاَطِيْعُوْنِ [ اور اطاعت کرو میری]

وَاتَّــقُوا الَّذِيْٓ اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَ   ١٣٢؁ۚ
وَاتَّــقُوا [ اور تقوی اختیار کرو] الَّذِيْٓ [ اس کا جس نے] اَمَدَّكُمْ [ مدد پہنچائی تم کو] بِمَا [ اس چیز سے جس کو] تَعْلَمُوْنَ [ تم لوگ جانتے ہو]

اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّبَنِيْنَ   ١٣٣؀ڌ
اَمَدَّكُمْ [ اس نے مدد پہنچائی تم کو] بِاَنْعَامٍ[ چوپایوں سے] وَّبَنِيْنَ[ اور بیٹیوں سے]

وَجَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ   ١٣٤؀ۚ
وَجَنّٰتٍ [ اور باغوں سے] وَّعُيُوْنٍ [ اور چشموں سے]

اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ   ١٣٥؀ۭ
اِنِّىْٓ [ بیشک میں] اَخَافُ [ ڈرتا ہوں] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر] عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ [ ایک عظیم دن کے عذاب سے]

قَالُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْنَآ اَوَعَــظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِيْنَ   ١٣٦؀ۙ
قَالُوْا [ ان لوگوں نے کہا] سَوَاۗءٌ [ برابر ہے] عَلَيْنَآ [ ہم پر] اَوَعَــظْتَ [ آپ
وعظ کریں]اَمْ [ یا] لَمْ تَكُنْ [ آپؐ نہ ہوں]مِّنَ الْوٰعِظِيْنَ [ وعظ کرنے والوں میں سے]

اِنْ ھٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِيْنَ  ١٣٧؀ۙ
اِنْ ھٰذَآ [ نہیں ہے یہ] اِلَّا [ مگر] خُلُقُ الْاَوَّلِيْنَ [ پہلے لوگوں کا طریقہ]

وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ   ١٣٨؀ۚ
وَمَا نَحْنُ [ اور ہم نہیں ہیں] بِمُعَذَّبِيْنَ [ عذاب دئیے جانے والے]

فَكَذَّبُوْهُ فَاَهْلَكْنٰهُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً  ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ   ١٣٩؁
فَكَذَّبُوْهُ [ پھر انھوں نے جھٹلایا اس کو] فَاَهْلَكْنٰهُمْ ۭ [ تو ہم نے ہلاک کیا ان کو] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً ۭ [ بیشک اس میں یقینا ایک نشانی ہے ] وَمَا كَانَ [ اور نہیں تھے]اَكْثَرُهُمْ [ ان کے اکثر] مُّؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے]

وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ   ١٤٠؀ۧ
وَاِنَّ رَبَّكَ [ اور بیشک آپ
کا رب] لَهُوَ [ یقینا وہی] الْعَزِيْزُ [ بالا دست ہے] الرَّحِيْمُ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ   ١٤١؀ښ
[ كَذَّبَتْ: جھٹلایا][ ثَمُوْدُ: ثمود نے][ الْمُرْسَلِيْنَ: بھیجے ہوؤں کو]

اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ   ١٤٢؀ۚ
[ اِذْ قَالَ: جب کہا][ لَهُمْ: ان سے][ اَخُوْهُمْ صٰلِحٌ: ان کے بھائی صالح][ اَلَا تَتَّقُوْنَ: کیا تم لوگ تقوی اختیار نہیں کرو گے]

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ    ١٤٣؀ۙ
[ اِنِّىْ: بےشک میں][ لَكُمْ: تمہارے لیے][ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ: ایک امانت دار رسول ہوں]

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ    ١٤٤؀ۚ
[ فَاتَّقُوا: پس تقوی اختیار کرو][ اللّٰهَ: اللہ کا][ وَاَطِيْعُوْنِ: اور اطاعت کرو میری]

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ  ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   ١٤٥؀ۭ
[ وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ: اور میں نہیں مانگتا تم لوگوں سے][ عَلَيْهِ: اس پر ][ مِنْ اَجْرٍ : کوئی بھی اجرت][ ۚ اِنْ اَجْرِيَ: نہیں ہے میری اجرت][ اِلَّا: مگر][ عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ: تمام جہانوں کے رب پر]

اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا هٰهُنَآ اٰمِنِيْنَ  ١٤٦؀ۙ
[ اَتُتْرَكُوْنَ: کیا تم لوگ چھوڑ دیے جاؤ گے][ فِيْ مَا: اس میں جو][ هٰهُنَآ: یہاں ہے][ اٰمِنِيْنَ: امن والے ہوتے]

فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ   ١٤٧؀ۙ
[ فِيْ جَنّٰتٍ: باغوں میں][ وَّعُيُوْنٍ: اور چشموں میں]

وَّزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيْمٌ    ١٤٨؀ۚ
[ وَّزُرُوْعٍ: اور کھیتیوں میں][ وَّنَخْلٍ: اور کھجوروں میں][ طَلْعُهَا هَضِيْمٌ: جس کی کونپ نرم وملائم ہوتی ہے۔]

وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ   ١٤٩؀ۚ
وَ (اور) تَنْحِتُوْنَ ( تم سب تراشتے ہو) مِنَ الْجِبَالِ (پہاڑوں سے) بُيُوْتًا (گھر) فٰرِهِيْنَ (سب اتراتے ہوئے )

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ   ١٥٠؀ۚ
[ فَاتَّقُوا اللّٰهَ: سو ڈرو تم اللہ سے][ وَاَطِيْعُوْنِ : اور میری اطاعت کرو]

وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ   ١٥١؀ۙ
[ وَلَا تُطِيْعُوْٓا: اور نہ تم اطاعت کرو][ اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ: حد سے بڑھے ہوئے لوگوں کی]

الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ    ١٥٢؁
[ الَّذِيْنَ (جو)][ يُفْسِدُوْنَ ( وہ سب فساد کرتے ہیں)][ فِي الْاَرْضِ (زمین میں ) وَ (اور)][ لَا (نہیں) يُصْلِحُوْنَ ( وہ سب اصلاح کرتے ہیں) ]

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ   ١٥٣؀ۚ
[ قَالُوْٓا: ان لوگوں نے کہا][ اِنَّمَآ اَنْتَ: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ][ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ: جادو کیے ہوئے لوگوں میں سے]

مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ښ فَاْتِ بِاٰيَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ   ١٥٤؁
[ مَآ (نہیں )][ اَنْتَ (تو) ][ اِلَّا ( مگر ) بَشَرٌ (ایک انسان )][ مِّثْلُنَا (ہمارے جیسا ) [ فَاْتِ (پس تو لے آ ) بِاٰيَةٍ (کسی نشانی کو)][ اِنْ ( اگر ) [ كُنْتَ (ہے تو) مِنَ الصّٰدِقِيْنَ (سچوں میں سے) ]

قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ   ١٥٥؀ۚ
[ قَالَ: صالح نے کہا][ هٰذِهٖ: یہ][ نَاقَةٌ: ایک اونٹنی ہے][ لَّهَا: اس کے لیے ہے][ شِرْبٌ: پینے کی اک باری][ وَّلَكُمْ: اور تمہارے لیے][ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ: ایک معلوم دن کی پینے کی باری ]

وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيْمٍ   ١٥٦؁
[ وَلَا تَمَسُّوْهَا: اور تم لوگ مت چھونا اس کو][ بِسُوْۗءٍ: کسی برائی سے][ فَيَاْخُذَكُمْ: ورنہ پکڑے گا تم کو][ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيْمٍ: ایک عظیم دن کا عذاب]

فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِيْنَ   ١٥٧؀ۙ
[ فَعَقَرُوْهَا: پھر انہوں نے ٹانگیں کاٹ دی اس کی][ فَاَصْبَحُوْا: نتیجہ وہ ہوگئے][ نٰدِمِيْنَ: پچھتانے والے]

فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً  ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ    ١٥٨؁
[ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ ۭ: تو پکڑا ان کو عذاب نے][ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً ۭ: بےشک اس میں نشانی ہے][ وَمَا كَانَ: اور نہیں تھے][ اَكْثَرُهُمْ: ان کے اکثر][ مُّؤْمِنِيْنَ: ایمان لانے والے]

وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ    ١٥٩؀ۧ
[ وَاِنَّ رَبَّكَ: اور بےشک آپ کا رب][ لَهُوَ الْعَزِيْزُ: یقینا وہی بالادست][ الرَّحِيْمُ: ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِۨ الْمُرْسَلِيْنَ   ١٦٠؀ښ
كَذَّبَتْ [ جھٹلایا] قَوْمُ لُوْطِۨ[ لوط علیہ السلام کی قوم نے] الْمُرْسَلِيْنَ [ بھیجے ہوؤں کو]

اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ    ١٦١؀ۚ
اِذْ قَالَ [ جب کہا] لَهُمْ [ ان سے]اَخُوْهُمْ [ ان کے بھائی] لُوْطٌ [ لوط علیہ السلام نے] اَلَا تَتَّقُوْنَ [ کیا تم لوگ تقوی اختیار نہیں کرو گے]

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ   ١٦٢؀ۙ
اِنِّىْ [ بیشک میں]لَكُمْ [ تمہارے لئے] رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ [ ایک امانتدار رسول ہوں]

فَاتَّــقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ   ١٦٣؀ۚ
فَاتَّــقُوا [ پس تقوی اختیار کرو] اللّٰهَ [ اللہ کا] وَاَطِيْعُوْنِ [ اور اطاعت کرو میری]

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ  ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   ١٦٤؀ۭ
وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ [ اور میں نہیں مانگتا تم سے] عَلَيْهِ [ اس پر]مِنْ اَجْرٍ ۚ[ کوئی بھی اجرت]اِنْ اَجْرِيَ [ نہیں ہے میری اجرت] اِلَّا [ مگر] عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کے رب پر]

اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ   ١٦٥؀ۙ
اَتَاْتُوْنَ [ کیا تم لوگ آتے ہو] الذُّكْرَانَ [ مردوں کے پاس] مِنَ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں میں سے]

وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ  ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ   ١٦٦؁
وَتَذَرُوْنَ [ اور چھوڑتے ہو] مَا [ اس کو جو] خَلَقَ [ پیدا کیا] لَكُمْ [ تمہارے لئے]رَبُّكُمْ [ تمہارے رب نے] مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ ۭ[ تمہاری بیویں میں سے] بَلْ اَنْتُمْ [ بلکہ تم لوگ] قَوْمٌ عٰدُوْنَ [ حد سے بڑھنے والی قوم ہو]

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ   ١٦٧؁
قَالُوْا [ ان لوگوں نے کہا] لَىِٕنْ [ بیشک اگر] لَّمْ تَنْتَهِ [ تو باز نہ آیا] يٰلُوْطُ [ اے لوط علیہ السلام] لَتَكُوْنَنَّ [ تو لازما تو ہو جائے گا]مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ [ نکالے جانے والوں میں سے]

قَالَ اِنِّىْ لِعَمَلِكُمْ مِّنَ الْقَالِيْنَ   ١٦٨؀ۭ
قَالَ [ (لوط علیہ السلام نے) کہا] اِنِّىْ [ بیشک میں] لِعَمَلِكُمْ [ تمہارے عمل کے لئے]مِّنَ الْقَالِيْنَ [ بغض رکھنے والوں میں سے ہوں]



ق ل و

(ن) قلوا کسی سے بغض رکھنا۔ بیزار ہونا۔ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى (نہیں چھوڑا آپ
کو آپ کے رب نے اور نہ وہ بیزار ہوا) 93/3۔

 قال اسم الفاعل ہے۔ بغض رکھنے والا۔ بیزار ہونے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔168۔

رَبِّ نَجِّنِيْ وَاَهْلِيْ مِمَّا يَعْمَلُوْنَ    ١٦٩؁
رَبِّ [ اے میرے رب] نَجِّنِيْ [ تو نجات دے مجھ کو] وَاَهْلِيْ [ اور میرے گھر والوں کو] مِمَّا [ اس سے جو] يَعْمَلُوْنَ [ یہ لوگ کرتے ہیں]

فَنَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ اَجْمَعِيْنَ   ١٧٠؀ۙ
فَنَجَّيْنٰهُ [ تو ہم نے نجات دی ان کو] وَاَهْلَهٗٓ [ اور ان ؑ کے گھر والوں کو] اَجْمَعِيْنَ [ سب کو]

اِلَّا عَجُوْزًا فِي الْغٰبِرِيْنَ   ١٧١؀ۚ
اِلَّا عَجُوْزًا [ سوائے ایک بڑھیا کے]فِي الْغٰبِرِيْنَ [ پیچھے رہ جانے والوں میں]

ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِيْنَ   ١٧٢؀ۚ
ثُمَّ [ پھر] دَمَّرْنَا [ ہم نے ہلاک کیا] الْاٰخَرِيْنَ [ دوسروں کو]

وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ    ١٧٥؀ۧ
وَاِنَّ رَبَّكَ [ اور بیشک آپ
کا رب] لَهُوَ [ یقینا وہی] الْعَزِيْزُ[ بالادست ہے] الرَّحِيْمُ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]



نوٹ۔1: بحیرہ مردار کے جنوب اور مشرق میں جو علاقہ آج انتہائی ویران اور سنسان حالت میں پڑا ہوا ہے، اس میں بکثرت پرانی بستیوں کے کھنڈروں کی موجودگی پتہ دیتی ہے کہ یہ کسی زمانے میں نہایت آباد رہا تھا۔ آج وہاں سینکڑوں برباد شدہ بستیوں کا آثار ملتے ہیں۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس علاقے کی آبادی کی خوشحالی کا دور 2300 قبل مسیح سے 1900 قبل مسیح تک رہا ہے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق مؤرخین کا اندازہ یہ ہے کہ وہ دو ہزار برس قبل مسیح کے زمانے میں گزرے ہیں۔ اس لحاظ سے آثار کی شہادت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ علاقہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے عہد ہی میں برباد ہوا ہے۔ (تفہیم القرآن)

كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــيْكَةِ الْمُرْسَلِيْنَ   ١٧٦؀ښ
كَذَّبَ [ جھٹلایا]اَصْحٰبُ لْــــَٔــيْكَةِ [ گھنے درخت والوں نے] الْمُرْسَلِيْنَ [ بھیجے ہوؤں کو]

اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ   ١٧٧؀ۚ
اِذْ قَالَ [ جب کہا] لَهُمْ [ ان سے] شُعَيْبٌ [ شعیب علیہ السلام نے]اَلَا تَتَّقُوْنَ [ کیا تم لوگ تقوی اختیار نہیں کرو گے]

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ   ١٧٨؀ۙ
اِنِّىْ لَكُمْ [ بیشک میں تمہارے لئے] رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ [ ایک امانتدار رسول ہوں]

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ   ١٧٩؀ۚ
فَاتَّقُوا [ تو تقوی اختیار کرو] اللّٰهَ [ اللہ کا] وَاَطِيْعُوْنِ [ اور اطاعت کرو میری]

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   ١٨٠؀ۭ
وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ [ اور میں نہیں مانگتا تم سے] عَلَيْهِ [ اس پر] مِنْ اَجْرٍ ۚ [ کوئی بھی اجرت] اِنْ اَجْرِيَ [ نہیں ہے میری اجرت] اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ مگر تمام جہانوں کے رب پر]

اَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِيْنَ   ١٨١؀ۚ
اَوْفُوا [ تم لوگ پورا بھرو] الْكَيْلَ [ پیمانے کو] وَلَا تَكُوْنُوْا [ اور تم لوگ مت ہو] مِنَ الْمُخْسِرِيْنَ [ خسارہ دینے والوں میں سے]

وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْـتَقِيْمِ   ١٨٢؀ۚ
وَ [ اور] زِنُوْا [ تم لوگ وزن کرو] بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْـتَقِيْمِ [ سیدھی ترازو سے]

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَاۗءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ   ١٨٣؀ۚ
وَلَا تَبْخَسُوا [ اور حق سے کم مت دو] النَّاسَ [ لوگوں کو] اَشْيَاۗءَهُمْ [ ان کی چیزیں]وَلَا تَعْثَوْا [ اور انتشار مت پھیلاؤ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں] مُفْسِدِيْنَ [ نظم بگاڑنے والے ہوتے ہوئے]



نوٹ۔1: وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَاۗءَهُمْ کی ایک صورت اشیاء میں ملاوٹ بھی ہے کہ کوئی شخص گندم میں جو ، گھی میں چربی اور دودھ میں پانی ملا کر فروخت کرے۔ اس طرح وہ بظاہر خریدار کو وزن یا پیمانہ کے اعتبار سے تو چیز پوری کر دیتا ہے لیکن اس کے اندر اصل شے کم ہوتی ہے۔ (تدبر قرآن)

وَاتَّقُوا الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِيْنَ    ١٨٤؀ۭ
وَاتَّقُوا [ اور تم لوگ تقویٰ اختیار کرو] الَّذِيْ [ اس کا جس نے]خَلَقَكُمْ [ پیدا کیا تم لوگوں کو] وَالْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِيْنَ [ اور پہلی خلقت کو ]

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ   ١٨٥؀ۙ
قَالُوْٓا [ ان لوگوں نے کہا] اِنَّمَآ [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] اَنْتَ [ تو] مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ [ جادو کئے ہوؤں میں سے ہے]

وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ    ١٨٦؀ۚ
وَمَآ اَنْتَ [ اور تو نہیں ہے]اِلَّا بَشَرٌ [ مگر ایک بشر] مِّثْلُنَا [ ہمارے جیسا] وَاِنْ [ اور بیشک] نَّظُنُّكَ [ ہم گمان کرتے ہیں تجھ کو] لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ [ یقینا جھوٹ کہنے والوں میں سے]

فَاَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ    ١٨٧؀ۭ
فَاَسْقِطْ [ پس تو گرا] عَلَيْنَا [ ہم پر] كِسَفًا [ کوئی ٹکڑا] مِّنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے] اِنْ كُنْتَ [ اگر تو ہے] مِنَ الصّٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والوں میں سے]

قَالَ رَبِّيْٓ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ    ١٨٨؁
قَالَ [ (شعیب علیہ السلام نے) کہا] رَبِّيْٓ [ میرا رب] اَعْلَمُ [ سب سے زیادہ جاننے والا ہے]بِمَا [ اس کو جو] تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ کوتے ہو]

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ  ۭ اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ    ١٨٩؁
فَكَذَّبُوْهُ [ پھر ان لوگوں نے جھٹلایا ان کو] فَاَخَذَهُمْ [ تو پکڑا ان لوگوں کو] عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ۭ [ سائبان کے دن کے عذاب نے] اِنَّهٗ [ حقیقت یہ ہے کہ] كَانَ [ وہ تھا] عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ [ ایک عظیم دن کا عذاب]

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً  ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ    ١٩٠؁
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [ بیشک اس میں ]لَاٰيَةً ۭ[ یقینا ایک نشانی ہے] وَمَا كَانَ [ اور نہیں تھے] اَكْثَرُهُمْ [ ان کے اکثر] مُّؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے]

وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ    ١٩١؀ۧ
وَاِنَّ رَبَّكَ[ اور بیشک آپ
کا رب] لَهُوَ [ یقینا وہی] الْعَزِيْزُ [ بالادست ہے] الرَّحِيْمُ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   ١٩٢؀ۭ
وَاِنَّهٗ [ اور بیشک یہ (قرآن)] لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ یقینا تمام جہانوں کے رب کا اتارنا ہے]

نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ    ١٩٣؀ۙ
نَزَلَ بِهِ [ اتارا اس کو] الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ [ روح الامین نے]

عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ    ١٩٤؀ۙ
عَلٰي قَلْبِكَ [ آپ
کے دل پر] لِتَكُوْنَ [ تاکہ آپ ہو جائیں] مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ[ خبردار کرنے والوں میں سے]

بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ    ١٩٥؀ۭ
بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ [ واضح عربی زبان میں]

وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ    ١٩٦؁
وَاِنَّهٗ [ اور بیشک یہ] لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ [ یقینا پہلوں کے صحیفوں میں ہے]



نوٹ۔1: وانہ لفی زبر الاولین۔ یہ قرآن کے حق میں میں سابق صحیفوں کی شہادت کا حوالہ ہے کہ اس کا ذکر اور اس کی پشین گوئی انبیاء سابقین کے صحیفوں میں موجود ہے۔ آیت کا یہ مفہوم نہایت واضح ہے۔ لیکن معلوم نہیں کس طرح بعض فقہاء کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ انھوں نے اس آیت سے یہ استباط کیا ہے کہ قرآن کسی عجمی زبان میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ کسی دوسری زبان میں اگر قرآن کو منتقل کیا جائے تو وہ قرآن نہیں ہوگا بلکہ اس کا ترجمہ ہوگا اور ترجمہ اور اصل میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ پورے قرآن کو تو درکنار قرآن کی کسی ایک سورہ بلکہ ایک آیت کے ترجمہ کو قرآن کی سورہ یا اس کی آیت کا قائم مقام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہمارے نزدیک اس آیت سے یہ استنباط بالکل بےجوڑا اور بجائے خود بالکل غلط بلکہ دین کے لئے ایک شدید فتنہ ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ جن فقہاء کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے ، کسی غلط فہمی کی بنا پر منسوب کی گئی ہے۔ (تدبر القرآن)

نوٹ۔2: یہ آیت منجملہ ان دلائل کے ہے جو اس رائے کے حق میں پیش کئے جاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ لے تو نماز ہو جاتی ہے۔ بنائے استدلال علامہ ابوبکر جصاص کے الفاظ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرما رہا ہے کہ یہ قرآن پچھلی کتابوں میں بھی تھا اور ظاہر ہے کہ ان کتابوں میں وہ عربی الفاظ کے ساتھ نہ تھا۔ لہٰذا کسی دوسری زبان میں اس کے مضامین کو نقل کر دینا اسے قرآن ہونے سے خارج نہیں کر دیتا۔ لیکن اس استدلال کی کمزروی بالکل ظاہر ہے۔ قرآن مجید ہو یا کوئی دوسری آسمانی کتاب ، ہر کتاب جس زبان میں بھی آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معنی اور لفظ دونوں کے ساتھ آئی ہے۔ اس لئے قرآن کی تعلیم جن پچھلی کتابوں میں تھی، انسانی لفظ میں نہیں ، خدائی الفاظ ہی میں تھی اور ان میں سے کسی کے ترجمہ کو بھی کتاب اللہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اصل کا قائم مقام ٹھہرایا جاسکے۔ رہا قرآن تو اس کے متعلق بار بار صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ وہ لفظاً لفظاً عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ مثلاً یوسف۔2، الرعد۔37، الزمر۔28۔ اور خود اسی آیت زیر بحث سے پہلے فرمایا جاچکا ہے کہ روح الامین اسے عربی زبان میں لے کر اترے۔ اب اس کے متعلق یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا کوئی ترجمہ جو کسی انسان نے دوسری زبان میں کیا ہو وہ بھی قرآن ہی ہوگا اور اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے الفاظ کے قائم مقام ہوں گے۔ (تفہیم القرآن)

اَوَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ اٰيَةً اَنْ يَّعْلَمَهٗ عُلَمٰۗؤُا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ   ١٩٧؀ۭ
اَوَ [ اور کیا] لَمْ يَكُنْ [ ہوئی ہی نہیں] لَّهُمْ [ ان کے لئے] اٰيَةً [ کوئی نشانی] اَنْ [ (اس میں ) کہ] يَّعْلَمَهٗ [ علم رکھتے ہیں اس کا] عُلَمٰۗؤُا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ بنی اسرائیل کے عالم لوگ]

وَلَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰي بَعْضِ الْاَعْجَمِيْنَ    ١٩٨؀
وَلَوْ [ اور اگر] نَزَّلْنٰهُ [ ہم اتارتے اس کو] عَلٰي بَعْضِ الْاَعْجَمِيْنَ [ غیر عربی لوگوں کے کسی پر]

فَقَرَاَهٗ عَلَيْهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِيْنَ   ١٩٩؀
فَقَرَاَهٗ عَلَيْهِمْ [ پھر وہ اسے پڑھ کر سناتا ان لوگوں کو] مَّا كَانُوْا [ تو وہ نہ ہوتے] بہ [ اس پر] بِهٖ مُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے]

كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ    ٢٠٠؀ۭ
كَذٰلِكَ [ اس طرح] سَلَكْنٰهُ [ ہم نے ڈالا اس (انکار) کو] فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ [ جرم کرنے والوں کے دلوں میں]

لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ   ٢٠١؀ۙ
لَا يُؤْمِنُوْنَ [ وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے] بِهٖ [ اس پر] حَتّٰى [ یہاں تک کہ] يَرَوُا [ وہ دیکھیں] الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ [ دردناک عذاب کو]

فَيَاْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ   ٢٠٢؀ۙ
فَيَاْتِيَهُمْ [ نتیجتاً وہ پہنچے گا ان کے پاس]بَغْتَةً [ اچانک] وَّهُمْ [ اس حال میں کہ وہ]لَا يَشْعُرُوْنَ [ شعور نہ رکھتے ہوں گے]

فَيَقُوْلُوْا هَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَ   ٢٠٣؀ۭ
فَيَقُوْلُوْا [ نتیجتاً وہ کہیں گے] هَلْ نَحْنُ [ کیا ہم] مُنْظَرُوْنَ [ مہلت دئیے ہوئے ہوں گے]

اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُوْنَ   ٢٠٤؁
اَفَبِعَذَابِنَا [ تو کیا ہمارے عذاب کی]يَسْتَعْجِلُوْنَ [ یہ لوگ جلدی مچاتے ہیں]

اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِـنِيْنَ   ٢٠٥؀ۙ
اَفَرَءَيْتَ [ تو کیا آپ
نے گور کیا] اِنْ [ اگر] مَّتَّعْنٰهُمْ [ ہم فائدہ اٹھانے دیں ان کو] سِـنِيْنَ [ سالوں (تک)]

ثُمَّ جَاۗءَهُمْ مَّا كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ   ٢٠٦؀ۙ
ثُمَّ جَاۗءَهُمْ [ پھر آئے ان کے پاس] مَّا [ وہ جو] كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ [ ان سے وعدہ کیا گیا تھا]

مَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يُمَـتَّعُوْنَ   ٢٠٧؀ۭ
مَآ اَغْنٰى [ تو کام نہیں آئے گا]عَنْهُمْ[ ان کے] مَّا [ وہ جو] كَانُوْا يُمَـتَّعُوْنَ [ یہ لوگ فائدہ اٹھانے دئیے گئے تھے]

وَمَآ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ اِلَّا لَهَا مُنْذِرُوْنَ   ٢٠٨؀
وَمَآ اَهْلَكْنَا [ اور ہم نے نہیں ہلاک کیا] مِنْ قَرْيَةٍ [ کسی بھی بستی کو] اِلَّا [ مگر (یہ کہ)] لَهَا [ ان کے لئے] مُنْذِرُوْنَ خبردار کرنے والے تھے]

ۇ ذِكْرٰي ڕ وَمَا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ   ٢٠٩؁
ۇ ذِكْرٰي [ نصیحت کیلئے] ڕ وَمَا كُنَّا [ اور ہم نہیں ہیں] ظٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والے]

وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ   ٢١٠؁
وَمَا تَنَزَّلَتْ [ اور نہیں اترتے] بِهِ [ اس (قرآن) کے ساتھ] الشَّيٰطِيْنُ [ شیاطین]

وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ   ٢١١؀ۭ
وَمَا يَنْۢبَغِيْ [ اور یہ لائق نہیں ہوتا ہے]لَهُمْ [ ان کے لئے] وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ [ اور نہ وہ استطاعت رکھتے ہیں (اس کی)]

اِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ   ٢١٢؀ۭ
اِنَّهُمْ [ بیشک وہ سب] عَنِ السَّمْعِ [ سننے سے]لَمَعْزُوْلُوْنَ[ الگ کئے ہوئے ہیں]

فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ    ٢١٣؀ۚ
فَلَا تَدْعُ [ پس آپ
مت پکاریں] مَعَ اللّٰهِ [ اللہ کے ساتھ] اِلٰـهًا اٰخَرَ [ کسی دوسرے الہ کو] فَتَكُوْنَ [ ورنہ آپ ہو جائیں گے] مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ[ عذاب دئیے ہوئوں میں سے ]



نوٹ۔1: آیت۔213۔ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی
سے شرک کا کوئی خطرہ تھا اور اس بنا پر آپ کو اس سے روکا گیا۔ دراصل اس سے مقصود کفار و مشرکین کو وارننگ دینا ہے۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ حق کے معاملہ میں کسی کے ساتھ رو رعایت کا کوئی کام نہیں۔ خدا کو سب سے بڑھ کر اپنی مخلوق میں کوئی عزیز و محبوب ہوسکتا ہے تو وہ اس کا رسول پاک ہے۔ لیکن بالفرض وہ بھی بندگی کی راہ سے ہٹ جائے اور خدائے واحد کے سوا کسی اور کو معبود کی حیثیت سے پکار بیٹھے تو وہ بھی پکڑے نہیں بچ سکتا۔ اس معاملہ میں جب خود محمد کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں تو اور کون ہے جو خدا کی خدائی میں کسی اور کو شریک ٹھہرانے کے بعد یہ امید کرسکتا ہو کہ خود بچ نکلے گا یا کسی کے بچانے سے بچ جائے گا۔ (تفہیم القرآن)

وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ   ٢١٤؀ۙ
وَاَنْذِرْ [ اور آپ
خبردار کریں]عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ [ اپنے قریبی رشتہ داروں کو]

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ   ٢١٥؀ۚ
وَاخْفِضْ [ اور آپ
نیچا رکھیں]جَنَاحَكَ [ اپنے پہلو کو] لِمَنِ [ اس کے لئے جس نے] اتَّبَعَكَ [ پیروی کی آپ کی] مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ[ ایمان لانے والوں میں سے]



نوٹ۔2: آیت ۔ 215۔
۶ٍ21۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قریش اور آس پاس کے اہل عرب میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو رسول اللہ کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے مگر انھوں نے عملا آپ کی پیروی اختیار نہ کی تھی۔ بلکہ وہ بدستور اپنی گمراہ سوسائٹی میں اسی طرح کی زندگی بسر کر رہے تھے جیسی دوسرے کفار کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے ماننے والوں کو ان سے الگ قرار دیا جنہوں نے ایمان لانے کے بعد آپ کا اتباع بھی اختیار کیا۔ تواضع برتنے کا حکم صرف اسی دوسرے گروہ کے لئے تھا۔ باقی رہے جو حضور کی فرمانبرداری سے منہ موڑے ہوئے تھے ، جن میں آپ کی صداقت کو ماننے والے بھی شامل تھے اور آپ کا انکار کرنے والے بھی ، ان کے متعلق حضور کو ہدایت کی گئی کہ ان سے بےتعلقی کا اظہار کردو۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔2: آیت۔215۔216۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قریش اور آس پاس کے اہل عرب میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو رسول اللہ
کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے مگر انھوں نے عملا آپ کی پیروی اختیار نہ کی تھی۔ بلکہ وہ بدستور اپنی گمراہ سوسائٹی میں اسی طرح کی زندگی بسر کر رہے تھے جیسی دوسرے کفار کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے ماننے والوں کو ان سے الگ قرار دیا جنہوں نے ایمان لانے کے بعد آپ کا اتباع بھی اختیار کیا، تواضع برتنے کا حکم صرف اسی دوسرے گروہ کے لئے تھا۔ باقی رہے وہ لوگ جو حضور کی فرمابنرداری سے منہ موڑے ہوئے تھے ۔ جن میں آپ کی صداقت کو ماننے والے بھی شامل تھے اور آپ کا انکار کرنے والے بھی ، ان کے متعلق حضور کو ہدایت کی گئی کہ ان سے بےتعلقی کا اظہار کردو۔ (تفہیم القرآن)

فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ   ٢١٦؀
فَاِنْ [ پھر اگر] عَصَوْكَ [ وہ لوگ نافرمانی کریں آپ
کی]فَقُلْ [ تو آپ کہہ دیجئے] اِنِّىْ[ کہ میں] بَرِيْۗءٌ [ بری ہوں] مِّمَّا [ اس سے جو] تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ کرتے ہو]

ۚ وَتَوَكَّلْ عَلَي الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ   ٢١٧؀ۙ
ۚ وَتَوَكَّلْ [ اور آپ
بھروسہ کریں] عَلَي الْعَزِيْزِ [ بالادست پر] الرَّحِيْمِ [ ہمیشہ رحم کرنے والے پر]

الَّذِيْ يَرٰىكَ حِيْنَ تَقُوْمُ   ٢١٨؀ۙ
الَّذِيْ [ وہ جو] يَرٰىكَ [ دیکھتا ہے آپ
کو] حِيْنَ تَقُوْمُ [ جب آپ قیام کرتے ہیں]

وَتَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ  ٢١٩؁
وَتَقَلُّبَكَ [ اور آپ
کے پھرنے کو] فِي السّٰجِدِيْنَ [ سجدہ کرنے والوں میں]

اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ    ٢٢٠؁
اِنَّهٗ [ حقیقت یہ ہے کہ] هُوَ السَّمِيْعُ [ وہ ہی سننے والا ہے] الْعَلِيْمُ [ جاننے والا ہے

هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰي مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ   ٢٢١؀ۭ
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ[ کیا میں خبر دوں تم لوگوں کو]عَلٰي مَنْ [ اس کی جس پر] تَنَزَّلُ [ اترتے ہیں] الشَّيٰطِيْنُ [ شیاطین]

تَنَزَّلُ عَلٰي كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِـيْمٍ   ٢٢٢؀ۙ
تَنَزَّلُ [ وہ اترتے ہیں] عَلٰي كُلِّ اَفَّاكٍ [ ہر ایک بہتان باز پر]اَثِـيْمٍ [ گنہگار پر]

يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَ   ٢٢٣؀ۭ
يُّلْقُوْنَ [ وہ لا ڈالتے ہیں] السَّمْعَ [ سنی ہوئی (بات) کو] وَ [ اس حال میں کہ] اَكْثَرُهُمْ[ ان کے اکثر] كٰذِبُوْنَ [ جھوٹ کہنے والے ہوتے ہیں]

وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ   ٢٢٤؀ۭ
وَالشُّعَرَاۗءُ [ اور شاعر لوگ] يَتَّبِعُهُمُ [ پیروی کرتے ہیں انکی] الْغَاوٗنَ[ گمراہ لوگ]

اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّانْتَــصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا  ۭ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ   ٢٢٧؀ۧ
اِلَّا الَّذِيْنَ [ سوائے ان کے جو] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے] وَعَمِلُوا [ اور انھوں نے عمل کئے] الصّٰلِحٰتِ [ نیکیوں کے] وَذَكَرُوا [ اور یاد کیا] اللّٰهَ [ اللہ کو] كَثِيْرًا [ کثرت سے] وَّانْتَــصَرُوْا [ اور انھوں نے بدلہ لیا] مِنْۢ بَعْدِ مَا [ اس کے بعد کہ جو] ظُلِمُوْا ۭ[ ان پر ظلم کیا گیا]وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جان لیں گے جنہوں نے] ظَلَمُوْٓا [ ظلم کیا] اَيَّ مُنْقَلَبٍ [ کون سی پلٹنے کی جگہ] يَّنْقَلِبُوْنَ [ وہ لوگ پلٹیں گے]

مورخہ 19/رجب 1428 ھ

بمطابق 4/اگست 2007 ء

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

طٰسۗ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ   Ǻ۝ۙ
طٰسۗ ۣ[ تِلْكَ [ یہ] اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ [ قرآن کی آیتیں ہیں] وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ [ اور ایک واضح کتاب کی]

هُدًى وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ   Ą۝ۙ
هُدًى [ ہدایت ہوتے ہوئے] وَّبُشْرٰي [ اور بشارت ہوتے ہوئے]لِلْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں کیلئے]

الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ   Ǽ۝
الَّذِيْنَ[ وہ لوگ جو] يُقِيْمُوْنَ [ قائم کرتے ہیں] الصَّلٰوةَ [ نماز کو]وَيُؤْتُوْنَ[ اور پہنچاتے ہیں]

 الزَّكٰوةَ [ زکوٰۃ کو] وَهُمْ [ اور وہ] بِالْاٰخِرَةِ [ آخرت پر] هُمْ [ وہ ہی] يُوْقِنُوْنَ [ یقین رکھتے ہیں]



نوٹ۔1: آیت۔3۔ میں اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا ذکر اہل ایمان کی جامع صفت کی حیثیت سے ہوا ہے۔ ان دونوں چیزوں کی حیثیت دین میں تمام نیکیوں کے شیرازے کی ہے، خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھنے والی ہوں یا حقوق العباد سے۔ ان کا ذکر ہوگیا تو گویا سب کا ذکر ہوگیا۔ (تدبر القرآن)

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُوْنَ   Ć۝ۭ
اِنَّ الَّذِيْنَ [ بیشک جو لوگ]لَا يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان نہیں لاتے]بِالْاٰخِرَةِ[ آخرت پر] زَيَّنَّا [ ہم نے سجا دیا] لَهُمْ [ ان کے لئے] اَعْمَالَهُمْ[ ان کے اعمال کو] فَهُمْ [ تو وہ] يَعْمَهُوْنَ [ بھٹکتے پھرتے ہیں]

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَهُمْ سُوْۗءُ الْعَذَابِ وَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ   Ĉ۝
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ [ یہ وہ لوگ ہیں] لَهُمْ [ جن کے لئے]سُوْۗءُ الْعَذَابِ [ عذاب کی برائی ہے] وَهُمْ [ اور وہ]فِي الْاٰخِرَةِ [ آخرت میں] هُمُ [ وہ ہی] الْاَخْسَرُوْنَ [ سب سے زیادہ خسارہ پانے والے ہیں]



نوٹ۔2: آیت۔5۔ میں عذاب کی برائی کی صورت ، وقت اور جگہ کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ کیو نکہ یہ اس دنیا میں بھی مختلف افراد، گروہوں اور قوموں کو بےشمار مختلف طریقوں سے دیا جاتا ہے ۔ اس دنیا سے رخصت ہو تے وقت ، عین موت کے دروازے پر بھی اس کا ایک حصہ ظالموں کو پہنچتا ہے ۔ موت کے بعد عالم بر زخ میں بھی اس سے آدمی دو چار ہوتا ہے ۔ اور پھر روز حشر سے تو اس کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا جو پھر کہیں جا کر ختم نہ ہو گا ۔ (تفہیم القرآن )

وَاِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ   Č۝
وَاِنَّكَ [ اور بیشک آپ
کو] لَتُلَقَّى [ یقینا پہنچایا جاتا ہے] الْقُرْاٰنَ [ قرآن] مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ [ ایک علیم حکیم (ذات) کے پاس سے]

اِذْ قَالَ مُوْسٰي لِاَهْلِهٖٓ اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا  ۭ سَاٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِخَــبَرٍ اَوْ اٰتِيْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ   Ċ۝
اِذْ قَالَ[ جب کہا ]مُوْسٰي [ موسیٰ علیہ السلام نے] لِاَهْلِهٖٓ [ اپنے اہل خانہ سے] اِنِّىْٓ [ کہ میں نے] اٰنَسْتُ [ دیکھا] نَارًا ۭ [ ایک آگ]سَاٰتِيْكُمْ [ میں لاؤں گا تمہارے پاس ] مِّنْهَا [ اس سے] بِخَــبَرٍ [ کوئی خبر]اَوْ اٰتِيْكُمْ [ یا میں لاؤں گا تمہارے پاس] بِشِهَابٍ قَبَسٍ[ کوئی سلگتا انگارہ] لَّعَلَّكُمْ [ شاید تم لوگ] تَصْطَلُوْنَ [ آگ تاپو]



نوٹ۔1: ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے کلام کا آگ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ آگ (یا آگ نما جو بھی چیز تھی وہ) اللہ تعالیٰ کی عام مخلوقات کی طرح ایک مخلوق تھی۔ اسی لئے آیت۔8۔ کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول حضرت ابن عباس  (رض)  ، مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اور عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ من فی النار سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوں۔ کیونکہ آگ آئی حقیقی آگ تو تھی نہیں۔ جس بقعہ مبارکہ (یعنی زمین کا مبارک قطعہ) میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پہنچ گئے تھے وہ دور سے پورا آگ معلوم ہوتا تھا۔ اس لئے موسیٰ علیہ السلام اس آگ کے اندر ہوئے اور من حولہا سے مراد فرشتے ہیں جو آس پاس موجود تھے۔ (معارف القرآن)

فَلَمَّا جَاۗءَهَا نُوْدِيَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا  ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   Ď۝
فَلَمَّا [ پھر جب] جَاۗءَهَا [ وہ آئے اس کے پاس] نُوْدِيَ [ تو ندا دی گئی] اَنْۢ [ کہ] بُوْرِكَ [ برکت دی گئی]مَنْ [ اس کو جو]فِي النَّارِ [ اس آگ میں ہے] وَمَنْ [ اور اس کو جو] حَوْلَهَا ۭ [ اس کے اردگرد ہے] وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ [ اور پاکیزگی اللہ کی ہے] رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ جو تمام جہانوں کا رب ہے]

اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْـنًۢا بَعْدَ سُوْۗءٍ فَاِنِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ    11؁
اِلَّا [ مگر] مَنْ [ جس نے]ظَلَمَ [ ظلم کیا] ثُمَّ [ پھر] بَدَّلَ [ بدلہ میں کی] حُسْـنًۢا [ نیکی] بَعْدَ سُوْۗءٍ [ برائی کے بعد] فَاِنِّىْ [ تو بیشک میں] غَفُوْرٌ [ بےانتہا بخشنے والا ہوں] رَّحِيْمٌ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہوں]



نوٹ۔2: آیت ۔11۔ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ پچھلی آیت میں انبیاء علیہ السلام پر خوف نہ ہونے کا ذکر تھا، پھر بسبیل تذکرہ ان لوگوں کا بھی ذکر کردیا جن پر خوف طاری ہونا چاہئے، یعنی وہ لوگ جن سے کوئی خطا سرزد ہوئی پھر توبہ کرکے نیک عمل اختیار کرلئے۔ ایسے حضرات کی اگرچہ اللہ تعالیٰ خطا معاف کر دیتے ہیں مگر معانی کے بعد گناہ کے بعض آثار باقی رہنے کا احتمال ہے، اس سے یہ حضرات ہمیشہ خائف رہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ کے رسول ڈرا نہیں کرتے بجز ان کے جن سے کوئی خطا سرزد ہوگئی ہو پھر توبہ بھی کرلی ہو۔ اس میں اشارہ اس طرف پایا گیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلا ارادہ ایک قبطی کا قتل ہوگیا تھا۔ وہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا مگر اس کا یہ اثر رہ گیا کہ موسیٰ علیہ السلام پر خوف طاری ہوگیا۔ اگر یہ لغزش نہ ہوتی تو یہ وقتی خوف بھی نہ ہوتا۔ (معارف القرآن)

 ہمارے مستقل معاون اسکواڈرن لیذر (ر) حافظ عزیز احمد صاحب کی رائے میں ایک امکان یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ خوف اسی طرح کا خوف ہو جو پہلی وحی کے وقت رسول اللہ
کو لاحق ہوا۔ آخر یہ بھی تو پہلی ہی وحی تھی۔ واللہ اعلم۔

وَاَدْخِلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاۗءَ مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ  ۣ فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهٖ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ    12؀
وَاَدْخِلْ [ اور آپ داخل کریں] يَدَكَ [ اپنا ہاتھ] فِيْ جَيْبِكَ [ اپنے گریبان میں] تَخْرُجْ [ تو وہ نکلے گا] بَيْضَاۗءَ [ سفید ہوتے ہوئے]مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ ۣ [ کسی بھی برائی (بیماری) کے بغیر]فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ [ (یہ دو نشانیاں ) نو نشانیوں میں سے ہیں] اِلٰى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهٖ ۭ [ فرعون اور اس کی قوم کی طرف]اِنَّهُمْ [ بیشک وہ سب]كَانُوْا [ ہیں] قَوْمًا فٰسِقِيْنَ[ ایک نافرمانی کرنے والی قوم ]

قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّةَ اَهْلِهَآ اَذِلَّةً  ۚ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ   34؁
قَالَتْ [ اس نے کہا] اِنَّ [ بیشک ] الْمُلُوْكَ [ بادشاہ لوگ]اِذَا [ جب کبھی]دَخَلُوْا [ داخل ہوتے ہیں] قَرْيَةً [ کسی بستی میں] اَفْسَدُوْهَا [ تو وہ نظم بگاڑتے ہیں اس کا] وَجَعَلُوْٓا [ اور وہ کر دیتے ہیں] اَعِزَّةَ اَهْلِهَآ [ اس کے با اختیار لوگوں کو] اَذِلَّةً ۚ [ ذلیل ] وَكَذٰلِكَ [ اور اسی طرح] يَفْعَلُوْنَ [ یہ لوگ کریں گے]

وَاِنِّىْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ   35؀
وَاِنِّىْ [ اور بیشک میں] مُرْسِلَةٌ [ بھیجنے والی ہوں] اِلَيْهِمْ [ ان کی طرف] بِهَدِيَّةٍ [ ایک تحفے کے ساتھ] فَنٰظِرَةٌۢ [ پھر دیکھنے والی ہوں]بِمَ[ اس کو جس کے ساتھ] يَرْجِعُ [ لوٹتے ہیں] الْمُرْسَلُوْنَ [ بھیجے ہوئے]

وَاسْـتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُوْدُهٗ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ اِلَيْنَا لَا يُرْجَعُوْنَ    39؀
وَاسْـتَكْبَرَ [اور بڑے بنے] هُوَ [وہ] وَجُنُوْدُهٗ [اور اس کے لشکر] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] بِغَيْرِ الْحَقِّ [حق کے بغیر] وَظَنُّوْٓا [اور انہوں نے گمان کیا] اَنَّهُمْ [کہ وہ لوگ] اِلَيْنَا [ہماری طرف] لَا يُرْجَعُوْنَ [لوٹائے نہیں جائیں گے]

فَاَخَذْنٰهُ وَجُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِي الْيَمِّ  ۚ فَانْــظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيْنَ    40؀
فَاَخَذْنٰهُ [پھر ہم نے پکڑا اس کو] وَجُنُوْدَهٗ [اور اس کے لشکروں کو] فَنَبَذْنٰهُمْ [پھر ہم نے پھینکا ان سب کو] فِي الْيَمِّ ۚ [پانی میں] فَانْــظُرْ [تو آپ
دیکھ لیں] كَيْفَ كَانَ [کیسا تھا] عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيْنَ [ظلم کرنے والوں کا انجام]

وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ    Č۝
وَمَنْ جَاهَدَ [اور جو جدوجہد کرتا ہے] فَاِنَّمَا [تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] يُجَاهِدُ [وہ جدوجہد کرتا ہے] لِنَفْسِهٖ ۭ [اپنے نفس کے (بھلے کے) لئے] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] لَغَنِيٌّ [یقینا بےنیاز ہے] عَنِ الْعٰلَمِيْنَ [تمام جہانوں سے]۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَـيِّاٰتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   Ċ۝
وَالَّذِيْنَ [اور وہ لوگ جو] اٰمَنُوْا [ایمان لائے] وَعَمِلُوا [اور انھوں نے عمل کئے] الصّٰلِحٰتِ [نیکیوں کے] لَنُكَفِّرَنَّ [تو ہم لازما دور کریں گے] عَنْهُمْ [ان سے] سَـيِّاٰتِهِمْ [ان کی برائیوں کو] وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ [اور ہم لازما بدلہ دیں گے ان کو] اَحْسَنَ الَّذِيْ [اس کے بہترین سے جو] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [وہ عمل کیا کرتے تھے]۔

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِ اٰيٰتُنَا وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْهَا كَاَنَّ فِيْٓ اُذُنَيْهِ وَقْرًا ۚ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ  Ċ۝
وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِ [اور جب بھی پڑھی جاتی ہیں اس پر] اٰيٰتُنَا [ہماری آیتیں] وَلّٰى [تو وہ مڑ جاتا ہے] مُسْتَكْبِرًا [بڑا بنتے ہوئے] كَاَنْ [جیسے کہ] لَّمْ يَسْمَعْهَا [اس نے سنا ہی نہیں ان کو] كَاَنَّ [گویا کہ] فِيْٓ اُذُنَيْهِ [اس کے دونوں کانوں میں] وَقْرًا ۚ [کوئی بوجھ ہے] فَبَشِّرْهُ [تو آپ
خوشخبری دیں اس کو] بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ [ایک دردناک عذاب]۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتُ النَّعِيْمِ Ď۝ۙ
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [بیشک جو لوگ ایمان لائے] وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ [اور انھوں نے عمل کئے نیکیوں کے] لَهُمْ [ان کے لئے] جَنّٰتُ النَّعِيْمِ [دائمی نعمتوں کے باغات ہیں]۔

يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ 17۝ۚ
يٰبُنَيَّ [اے میرے بچے] اَقِمِ [تو قائم رکھ] الصَّلٰوةَ [نماز کو] وَاْمُرْ [اور توکید کر] بِالْمَعْرُوْفِ [بھلائی کی] وَانْهَ [اور تو منع کر] عَنِ الْمُنْكَرِ [برائی سے] وَاصْبِرْ [اور تو صبر کر] عَلٰي مَآ [اس پر جو] اَصَابَكَ ۭ [آلگے تجھ کو] اِنَّ ذٰلِكَ [بیشک یہ] مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ [معاملات کی ثابت قدمی میں سے ہے]۔

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ 18؀ۚ
وَلَا تُصَعِّرْ [اور تو مت پھلا] خَدَّكَ [اپنے گال کو] لِلنَّاسِ [لوگوں کے لئے] وَلَا تَمْشِ [اور تو مت چل] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] مَرَحًا ۭ [اتراتا ہوا] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] لَا يُحِبُّ [پسند نہیں کرتا] كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ [کسی بھی اکڑنے والے فخر کرنے والے کو]۔



(س) صعرا منہ کا ٹیڑھا ہونا۔

(تفعیل) تصعیرا تکبر سے رخسار ٹیڑھا کرنا۔ پھیلانا۔ زیر مطالعہ آیت ۔18۔

(خ د د)

(ن) خدا چوٹ کا نشان چھوڑنا۔ زمین میں گڑھا کرنا۔

 خد گڑھا۔ رخسار (چہرے کا گڑھا)۔ زیر مطالعہ آیت۔ 18۔

 خدۃ ج اخدود۔ گڑھا۔ کھائی۔ خندق۔ قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ (مارے گئے کھائیاں (کھودنے) والے)۔

فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا  ۚ اِنَّا نَسِيْنٰكُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ  14؀
فَذُوْقُوْا [تو چکھو] بِمَا [اس کو جو] نَسِيْتُمْ [تم لوگوں نے بھلا دیا]لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ۚ [تمہاری اس دن کی ملاقات کو] اِنَّا نَسِيْنٰكُمْ [بیشک ہم نے بھلا دیا تم کو] وَذُوْقُوْا [اور تم لوگ چکھو] عَذَابَ الْخُلْدِ [ہمیشگی کے عذاب کو]بِمَا [بسبب اس کے جو] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [تم لوگ کیا کرتے تھے]۔

اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ  15۝۞
اِنَّمَا [کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [يُؤْمِنُ : ایمان لاتے ہیں] [بِاٰيٰتِنَا : ہماری نشانیوں پر] الَّذِيْنَ [وہ لوگ جو (ہیں کہ)] اِذَا ذُكِّرُوْا [جب ان کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے] بِهَا [ان (نشانیوں) کے ذریعہ سے] خَرُّوْا [تو وہ گر پڑتے ہیں] سُجَّدًا [سجدہ کرنے والوں کی حالت میں] وَّسَبَّحُوْا [اور تسبیح کرتے ہیں] بِحَمْدِ رَبِّهِمْ [اپنے رب کی حمد کے ساتھ] وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ [اور وہ لوگ بڑے نہیں بنتے]۔

تُرْجِيْ مَنْ تَشَاۗءُ مِنْهُنَّ وَ تُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاۗءُ ۭ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَلِــيْمًا  51؀
تُرْجِيْ [آپ
مؤخر کریں] مَنْ تَشَاۗءُ [اس کو جس کو آپ چاہیں] مِنْهُنَّ [ان میں سے] وَ تُـــــْٔوِيْٓ [اور آپ ٹھہرائیں] اِلَيْكَ [اپنے پاس] مَنْ تَشَاۗءُ ۭ [جس کو آپ چاہیں] [وَمَنِ ابْتَغَيْتَ: اور جس کو آپ چاہیں] مِمَّنْ [ان میں سے جن کو] عَزَلْتَ [آپ نے کنارے کیا] فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۭ [تو کوئی بھی الزام نہیں ہے آپ پر] ذٰلِكَ اَدْنٰٓى [یہ زیادہ قریب ہے] اَنْ تَقَرَّ [کہ ٹھنڈی ہوں] اَعْيُنُهُنَّ [ان (ازواج) کی آنکھیں] وَلَا يَحْزَنَّ [اور وہ غمگین نہ ہوں] وَيَرْضَيْنَ [اور وہ راضی ہوں] بِمَآ [اس سے جو] اٰتَيْتَهُنَّ [آپ دیں ان کو] كُلُّهُنَّ ۭ [وہ سب کی سب] وَاللّٰهُ يَعْلَمُ [اور اللہ جانتا ہے] مَا [اس کو جو] فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ [تم سب کے دلوں میں] وَكَانَ اللّٰهُ [اور ہے اللہ] عَلِــيْمًا [جاننے والا] حَلِــيْمًا [تحمل والا]۔

لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَــبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيْبًا  52؀ۧ
لَا يَحِلُّ لَكَ [حلال نہیں ہوں گی آپ
کے لئے] النِّسَاۗءُ [عورتیں] مِنْۢ بَعْدُ [اس کے بعد سے] وَلَآ اَنْ تَــبَدَّلَ بِهِنَّ [اور نہ یہ کہ آپ تبدیل کریں ان کے بدلے] مِنْ اَزْوَاجٍ [بیویوں سے] وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ [اور اگرچہ بھلا لگے آپ کو] حُسْنُهُنَّ [ان کا حسن] اِلَّا مَا [سوائے اس کے جس کا] مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۭ [مالک ہوا آپ کا داہنا ہاتھ] وَكَانَ اللّٰهُ [اور ہے اللہ] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ہر چیز پر] رَّقِيْبًا [نگہبانی کرنے والا]۔

فَلَمَّا جَاۗءَتْهُمْ اٰيٰتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ    13۝ۚ
فَلَمَّا [ پھر جب]جَاۗءَتْهُمْ [ آئیں ان کے پاس] اٰيٰتُنَا [ ہماری نشانیاں] مُبْصِرَةً [ بینا کرنے والی ہوتے ہوئے]قَالُوْا [ تو انھوں نے کہا] ھٰذَا [ یہ] سِحْرٌ مُّبِيْنٌ [ ایک کھلا جادو ہے]

وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا  ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ    14۝ۧ
وَجَحَدُوْا [ اور انھوں نے جانتے بوجھتے انکار کیا] بِهَا [ ان کا] وَ [ حالانکہ] اسْتَيْقَنَتْهَآ [ یقین حاصل کر چکے تھے ان (نشانیوں) کا] اَنْفُسُهُمْ [ ان کے جی (یعنی دل)] ظُلْمًا [ ظلم کرتے ہوئے] [ وَّعُلُوًّا ۭ: اور سرکشی کرتے ہوئے][ فَانْظُرْ [ تو آپ
دیکھیں] كَيْفَ [ کیسا] كَانَ [ تھا] عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ [ نظم بگاڑنے والوں کا انجام ]

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًا ۚ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلٰي كَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ    15؁
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا [ اور بیشک ہم دے چکے ہیں] دَاوٗدَ [ داود علیہ السلام کو]وَسُلَيْمٰنَ [ اور سلیمان علیہ السلام کو] عِلْمًا ۚ [ ایک علم] وَقَالَا [ اور ان دونوں نے کہا] الْحَمْدُ [ تمام حمد] لِلّٰهِ الَّذِيْ [ اس اللہ کے لئے ہے جس نے [ فَضَّلَنَا [ فضیلت دی ہم کو] عَلٰي كَثِيْرٍ [ بہتوں پر] مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ [ اپنے مومن بندوں میں سے]

وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۭ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ    16؀
وَوَرِثَ [ اور وارث ہوئے] سُلَيْمٰنُ [ سلیمان علیہ السلام] دَاوٗدَ [ داود علیہ السلام کے] وَقَالَ [ اور انھوں نے کہا] يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ [ اے لوگو] عُلِّمْنَا [ علم دیا گیا ہم کو]مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ پرندوں کی بولی کا] وَاُوْتِيْنَا [ اور دیا گیا ہم کو] مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۭ[ ہر چیز میں سے] اِنَّ ھٰذَا [ بیشک یہ] لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ [ یقینا یہی واضح فضل ہے]



نوٹ۔1: مذکورہ آیات میں ایک اہم سبق یہ ہے کہ اپنے زمانے کی سب سے زیادہ طاقتور حکومت کے فرمان روا اور ایجادات و صنعت گری میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہونے کے باوجود حضرت داود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے اندر ایک لمحہ کے لئے بھی یہ گھمنڈ نہیں پیدا ہوا کہ یہ سب کچھ ان کے اپنے ذاتی کارنامے ہیں بلکہ وہ برابر اپنے رب کے شکر گزار رہے کہ یہ عزت و فضیلت ان کو اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کا اصل عبرانی نام سولو مون ہے جو سلیم کا ہم معنی ہے۔ وہ 965 ق م میں حضرت داؤد علیہ السلام کے جانشین ہوئے اور 926 ق م تک، تقریبا چالیس سال فرما نروار ہے۔ ان کے حدود سلطنت کے متعلق ہمارے مفسرین نے بہت مبالغہ سے کام لیا ہے۔ وہ انھیں دنیا کے بہت بڑے حصے کا حکمراں بتاتے ہیں حالانکہ ان کی مملکت صرف موجودہ فلسطین و شرق اردن پر مشتمل تھی۔ اور شام کا ایک حصہ بھی اس میں شامل تھا ۔ (تفہیم القرآن)

وَحُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ   17؀
وَحُشِرَ [ اور اکٹھا کئے گئے] لِسُلَيْمٰنَ [ سلیمان علیہ السلام کے لئے] جُنُوْدُهٗ [ ان کے لشکر] مِنَ الْجِنِّ [ جنوں میں سے] وَالْاِنْسِ [ اور انسانوں میں سے] وَالطَّيْرِ [ اور پرندوں میں سے] فَهُمْ [ پھر ان کی] يُوْزَعُوْنَ [ صف بندی کی جاتی]





و ز ع

(ف) وزعا (1) روکنا۔ منع کرنا۔ (2) قطار بنانا۔ صفت بندی کرنا (گڈمڈ ہونے سے روکنے کے لئے)۔ زیر مطالعہ آیت۔17

حَتّىٰٓ اِذَآ اَتَوْا عَلٰي وَادِ النَّمْلِ ۙ قَالَتْ نَمْــلَةٌ يّـٰٓاَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ ۚ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَجُنُوْدُهٗ  ۙ وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ    18؀
حَتّىٰٓ اِذَآ [ یہاں تک کہ جب] اَتَوْا [ وہ سب پہنچے] عَلٰي وَادِ النَّمْلِ ۙ [ چونٹیوں کی وادی پر]قَالَتْ [ تو کہا] نَمْــلَةٌ [ ایک چونٹی نے] يّـٰٓاَيُّهَا النَّمْلُ[ اے چونٹیو] ادْخُلُوْا [ تم لوگ داخل ہو جاؤ]مَسٰكِنَكُمْ ۚ [ اپنے گھروں میں] لَا يَحْطِمَنَّكُمْ [ ہرگز نہ روندنے پائے تم لوگوں کو] سُلَيْمٰنُ [ سلیمان علیہ السلام ]وَجُنُوْدُهٗ ۙ[ اور ان کے لشکر] وَ [ اس حال میں کہ] هُمْ [ انھیں] لَا يَشْعُرُوْنَ [ شعور نہ ہو]





ح ط م

(ض) خطما تورنا۔ روندنا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 18۔

 حطمۃ صفت ہے اور اس پر تائے مبالغہ ہے۔ ظالم اور بےدرد چرواہا۔ بےدردی سے روندنے والا۔كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ (ہرگز نہیں ! وہ لازما پھینکا جائے گا روندنے والی میں) 104/4۔

 حطام روندی ہوئی چیز۔ لَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا (اگر ہم چاہیں تو ہم یقینا بنا دیں اس کو روندا ہوا) 56/65

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ    19؀
فَتَبَسَّمَ [ تو وہ مسکرائے] ضَاحِكًا [ ہنستے ہوئے] مِّنْ قَوْلِهَا [ اس کی بات سے]وَقَالَ [ اور کہا] رَبِّ[ اے میرے رب] اَوْزِعْنِيْٓ [ تو میرے دل میں ڈال دے] اَنْ اَشْكُرَ[ کہ میں شکر ادا کروں] نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ [ تیری اس نعمت کا جو] اَنْعَمْتَ [ تو نے انعام کی]عَلَيَّ [ مجھ پر] وَعَلٰي وَالِدَيَّ [ اور میرے والدین پر] وَاَنْ[ اور یہ کہ] اَعْمَلَ [ میں عمل کروں] صَالِحًا [ ایسے نیک] تَرْضٰىهُ [ تو پسند کرے جس کو] وَاَدْخِلْنِيْ [ اور تو داخل کر دے مجھ کو] بِرَحْمَتِكَ [ اپنی رحمت سے] فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ [ اپنے نیک بندوں میں]





 (افعال) ایزاعا کسی کو کسی چیز کا گرویدہ بنا۔ (یعنی دوسری چیزوں پر توجہ کرنے سے روک دینا) ۔ شیفتہ کرنا۔

 اوزع فعل امر ہے۔ تو گرویدہ کر۔ تو شیفتہ بنا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 19۔

ب س م

(ض) بسما مسکرانا۔

(تفعل) تبسما بتکلف مسکرانا۔ زیر مطالعہ آیت۔19۔

وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ اَرَى الْهُدْهُدَ ڮ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ    20؀
وَتَفَقَّدَ [ اور انھوں نے جائز ہ لیا] الطَّيْرَ [ پرندوں کا] فَقَالَ [ تو کہا] مَا لِيَ[ میرے لئے کیا ہے]

لَآ اَرَى [ میں نہیں دیکھتا] الْهُدْهُدَ ڮ[ ہدہد کو]اَمْ [ یا] كَانَ [ وہ ہے] مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ [ غائب ہونے والوں میں سے]



نوٹ۔1: حضرت عبد اللہ ابن عباس  (رض)  سے سوال کیا گیا کہ تمام پرندوں میں ہدہد کی تفتیش کی کیا وجہ پیش آئی تو آپ نے فرمایا کہ سلیمان علیہ السلام نے کسی ایسے مقام پر قیام فرمایا جہاں پانی نہیں تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہدہد کو یہ خاصیت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں کو اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو دیکھ لیتا ہے۔ وہ ہدہد سے یہ معلوم کرانا چاہتے تھے کہ اس میدان میں کس جگہ زمین کھودنے سے کافی پانی مل سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ جنات کو حکم دیتے کہ اس جگہ زمین کو کھود کر پانی نکالو۔ ہدہد اپنی تیز نظر اور بصیرت کے باوجود شکاری کے جال میں آسانی سے پھنس جاتا ہے۔ اس حوالے سے ابن عباس  (رض)  نے فرمایا کہ جاننے والو اس حقیقت کو پہچانو کہ ہدہد زمین کی گہرائی کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے مگر زمین کے اوپر پھیلا ہوا جال اس کی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے جس میں وہ پھنس جاتا ہے۔ (معارف القرآن

لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗٓ اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ    21؀
لَاُعَذِّبَنَّهٗ [ میں لازما سزا دوں گا اس کو] عَذَابًا شَدِيْدًا [ ایک سخت سزا] اَوْ [ یا] لَاَاذْبَحَنَّهٗٓ [ میں لازما ذبح کردوں گا اس کو] اَوْ[ یا] لَيَاْتِيَنِّيْ [ وہ لازما آئے گا میرے پاس ]بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ [ کسی واضح دلیل کے ساتھ]

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ    22؀
فَمَكَثَ [ تو وہ (ہدہد) ٹھہرا (یعنی آیا)] غَيْرَ بَعِيْدٍ[ کسی دوری کے بغیر (یعنی جلد ہی)] فَقَالَ [ پھر اس نے کہا] اَحَطْتُّ [ میں نے احاطہ کیا] بِمَا [ اس (بات) کا]لَمْ تُحِطْ [ آپ علیہ السلام نے احاطہ نہیں کیا] بِهٖ [ جس (بات) کا] وَجِئْتُكَ [ اور میں آیا آپ علیہ السلام کے پاس] مِنْ سَبَاٍۢ [ سبا سے] بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ [ ایک یقینی خبر کے ساتھ]

اِنِّىْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ    23؁
اِنِّىْ [ بیشک میں نے] وَجَدْتُّ [ پایا] امْرَاَةً [ ایک ایسی عورت کو جو] تَمْلِكُهُمْ [ اختیار رکھتی ہے ان لوگوں پر] وَاُوْتِيَتْ [ اور اس کو دیا گیا] مِنْ كُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز میں سے]وَّ لَهَا [ اور اس کے لئے] عَرْشٌ عَظِيْمٌ [ ایک بڑا تخت ہے

وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُوْنَ    24۝ۙ
وَجَدْتُّهَا [ میں نے پایا اس کو] وَقَوْمَهَا [ اور اس کی قوم کو (کہ)] يَسْجُدُوْنَ [ وہ لوگ سجدہ کرتے ہیں] لِلشَّمْسِ [ سورج کو]مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ] وَزَيَّنَ [ اور سجا دیا] لَهُمُ [ ان کے لئے] الشَّيْطٰنُ [ شیطان نے ] اَعْمَالَهُمْ [ ان کے اعمال کو] فَصَدَّهُمْ [ نتیجتاً اس نے روک دیا ان کو] عَنِ السَّبِيْلِ [ راستہ سے] فَهُمْ [ تو وہ لوگ] لَا يَهْتَدُوْنَ [ ہدایت نہیں پاتے

اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ    25؀
اَلَّا يَسْجُدُوْا [ یعنی وہ لوگ سجدہ مت کریں] لِلّٰهِ الَّذِيْ [ اس اللہ کو جو]يُخْرِجُ [ نکالتا ہے] الْخَبْءَ [ پوشیدہ زانوں کو] فِي السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں سے] وَالْاَرْضِ [ اور زمین سے] وَيَعْلَمُ [ اور وہ چانتا ہے]مَا [ اس کو جو] تُخْفُوْنَ [ تم لوگ چھپاتے ہو] وَمَا [ اور اس کو جو] تُعْلِنُوْنَ[ تم لوگ اعلان کرتے ہو]



خ ب ء

(ف) خباء کسی چیز کو چھپانا۔ پوشیدہ کرنا۔

 خبء اسم جنس ہے۔ چھپائی ہوئی چیزیں ۔ پوشیدہ و خزانے۔ زیر مطالعہ آیت۔ 25۔

اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ   26۝۞
اَللّٰهُ [ اللہ] لَآ اِلٰهَ [ کوئی بھی الہ نہیں ہے] اِلَّا هُوَ [ مگر وہی] رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ [ جو عرش عظیم کا مالک ہے]

قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ    27؀
قَالَ [ (سلیمان علیہ السلام نے) کہا] سَنَنْظُرُ [ میں دیکھوں گا] اَ [ آیا] صَدَقْتَ [ تو نے سچ کہا] اَمْ [ یا] كُنْتَ [ تو ہے] مِنَ الْكٰذِبِيْنَ [ جھوٹ کہنے والوں میں سے]

اِذْهَبْ بِّكِتٰبِيْ ھٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُوْنَ    28؁
اِذْهَبْ [ تو جا ] بِّكِتٰبِيْ ھٰذَا [ میرے اس خط کے ساتھ] فَاَلْقِهْ [ پھر تو ڈال دے اس کو]اِلَيْهِمْ [ ان لوگوں کی طرف] ثُمَّ تَوَلَّ [ پھر تو منہ موڑ لے] عَنْهُمْ [ اس سے] فَانْظُرْ [ پھر تو دیکھ] مَاذَا [ کیا ہے جو] يَرْجِعُوْنَ [ وہ لوٹاتے ہیں]

قَالَتْ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّىْٓ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ    29؀
قَالَتْ [ اس (ملکہ) نے کہا] يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا [ اسے سردارو ] اِنِّىْٓ [ بیشک] اُلْقِيَ [ ڈالا گیا] اِلَيَّ [ میری طرف] كِتٰبٌ كَرِيْمٌ [ ایک نامہ گرامی]

اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ   30۝ۙ
اِنَّهٗ [ بیشک وہ] مِنْ سُلَيْمٰنَ [ سلیمان علیہ السلام (کی طرف) سے ہے]وَاِنَّهٗ [ اور بیشک وہ]بِسْمِ اللّٰهِ [ اللہ کے نام سے ہے] الرَّحْمٰنِ[ جو رحمن ہے] الرَّحِيْمِ [ رحیم ہے]



نوٹ۔1: حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط سے نیز رسول کریم
کے تمام مکاتیب سے ثابت ہوتا ہے کہ خط کے شروع میں بسم اللہ لکھنا سنت انبیاء ہے۔ لیکن قرآن و سنت کے نصوص و اشارات سے فقہا نے یہ کلیہ قاعدہ لکھا ہے کہ جس جگہ بسم اللہ یا اللہ تعالیٰ کا کوئی نام لکھا جائے ، اگر اس جگہ اس کاغذ کے بےادبی سے محفوظ رکھنے کا کوئی اہتمام نہیں، بلکہ وہ پڑھ کر ڈال دیا جاتا ہے تو ایسے خطوط اور ایسی چیز پر بسم اللہ یا اللہ تعالیٰ کا کوئی نام لکھنا جائز نہیں۔ کیونکہ وہ اس طرح اس بےادبی کے گناہ میں شریک ہو جائے گا۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ ادائے سنت کے لئے زبان سے بسم اللہ کہہ لے تحریر میں نہ لکھے۔ (معارف القرآن)

اَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ    31۝ۧ
اَلَّا تَعْلُوْا [ کہ تم لوگ سرکشی مت کرو] عَلَيَّ [ میرے خلاف] وَاْتُوْنِيْ [ اور تم لوگ آؤ میرے پاس]مُسْلِمِيْنَ [ فرمانبردار ہوتے ہوئے]

قَالَتْ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ فِيْٓ اَمْرِيْ ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ   32؀
قَالَتْ [ اس نے کہا] يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا [ اے سردارو] اَفْتُوْنِيْ [ تم لوگ فتوی دو مجھے]فِيْٓ اَمْرِيْ ۚ [ میرے کام میں] مَا كُنْتُ [ میں نہیں ہوں]قَاطِعَةً [ کاٹنے والی (یعنی طے کرنے والی)] اَمْرًا [ کسی کام کو] حَتّٰى [ یہاں تک کہ] تَشْهَدُوْنِ [ تم لوگ میرے پاس موجود ہو]

قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍ  ڏ وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ فَانْظُرِيْ مَاذَا تَاْمُرِيْنَ    33؀
قَالُوْا [ ان لوگوں نے کہا] نَحْنُ [ ہم لوگ]اُولُوْا قُوَّةٍ [ قوت والے ہیں] وَّاُولُوْا بَاْسٍشَدِيْدٍ ڏ [ اور سخت جنگجو ہیں]وَّالْاَمْرُ [ اور فیصلہ کرنا ] اِلَيْكِ [ تیری طرف سے] فَانْظُرِيْ [ پس تو دیکھ]مَاذَا [ کیا ہے جو] تَاْمُرِيْنَ [ تو حکم دیتی ہے]

فَلَمَّا جَاۗءَ سُلَيْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ ۡفَمَآ اٰتٰىـنِۦ اللّٰهُ خَيْرٌ مِّمَّآ اٰتٰىكُمْ ۚ بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ   36؀
فَلَمَّا [ پھر جب] جَاۗءَ [ وہ آیا] سُلَيْمٰنَ [ سلیمان علیہ السلام کے پاس] قَالَ [ تو انھوں نے کہا]اَ [ کیا]تُمِدُّوْنَنِ[ تم لوگ امداد کرتے ہو میری] بِمَالٍ ۡ [ کچھ مال سے] فَمَآ [ تو وہ جو] اٰتٰىـنِۦ [ دیا مجھ کو] اللّٰهُ [ اللہ نے] خَيْرٌ[ بہتر ہے] مِّمَّآ [ اس سے جو] اٰتٰىكُمْ ۚ [ اس نے دیا تم کو]بَلْ [ بلکہ] اَنْتُمْ [ تم لوگ] بِهَدِيَّتِكُمْ [ اپنے تحفے سے]

تَفْرَحُوْنَ [ خوش ہوتے ہو]

اِرْجِعْ اِلَيْهِمْ فَلَنَاْتِيَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّنْهَآ اَذِلَّةً وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ    37؀
اِرْجِعْ [ تو لوٹ جا] اِلَيْهِمْ [ ان کی طرف] فَلَنَاْتِيَنَّهُمْ [ تو ہم لازما پہنچیں گے ان کے پاس] بِجُنُوْدٍ [ ایک ایسے لشکر کے ساتھ] لَّا قِبَلَ [ کوئی طاقت نہیں ہے] لَهُمْ [ ان کے لئے] بِهَا [ جس پر] وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ [ اور ہم لازما نکالیں گے ان کو] مِّنْهَآ [ وہاں سے] اَذِلَّةً [ ذلیل ہونے والے ہوتے ہوئے] وَّ [ اس حال میں کہ] ہم [ وہ لوگ] هُمْ صٰغِرُوْنَ [ حقیر ہونے والے ہیں]



نوٹ۔1: آیات 37۔38۔ کے درمیان میں یہ قصہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ سفارت ملکہ کا تحفہ واپس لے کر پہنچی اور جو کچھ اس نے دیکھا تھا عرض کر دیا۔ ملکہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے جو حالات سنے ان کی بنا پر اس نے یہی مناسب سمجھا کہ ان سے ملاقات کے لئے خود بیت المقدس جائے۔ چنانچہ وہ فلسطین کی طرف روانہ ہوئی اور دربار سلیمانی میں اطلاع بھیجوا دی۔ ان تفصیلات کو چھوڑ کر آیت۔ 38۔ میں اب اس وقت کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے جب ملکہ بیت المقدس کے قریب پہنچ گئی تھی اور ایک دو دن میں حاضر ہونے والی تھی۔ (تفہیم القرآن)

قَالَ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ يَّاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ    38؀
قَالَ [ (سلیمان علیہ السلام نے) کہا]يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا [ اے سردارو]اَيُّكُمْ [ تم میں کا کون] يَاْتِيْنِيْ [ لائے گا میرے پاس] بِعَرْشِهَا [ اس کے تخت کو] قَبْلَ اَنْ [ اس سے پہلے کہ] يَّاْتُوْنِيْ [ وہ سب آئیں میرے پاس]مُسْلِمِيْنَ [ فرمانبرادار ہوتے ہوئے]

قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ  ۚ وَاِنِّىْ عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ اَمِيْنٌ    39؁
قَالَ [ کہا] عِفْرِيْتٌ [ ایک ہوشیار سردار نے] مِّنَ الْجِنِّ [ جنوں میں سے] اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ [ میں لاؤں گا آپ کے پاس اس کو] قَبْلَ اَنْ [ اس سے پہلے کہ] تَقُوْمَ [ آپ علیہ السلام کھڑے ہوئے] مِنْ مَّقَامِكَ ۚ [ اپنی جگہ سے] وَاِنِّىْ[ اور بیشک میں] عَلَيْهِ [ اس پر] لَقَوِيٌّ [ یقینا قوت رکھنے والا ہوں]اَمِيْنٌ [ امانتدار ہوں]





ع ف ر

(ض) عفرا زمین پر پٹک دینا۔ زمین میں دھنسا دینا۔

 عفریت ہوشیار۔ کاموں کو کر ڈالنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔39



ترکیب: (آیت۔39) انا اتیک میں اتی کے دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ یہ اسم الفاعل اتی ہے جو مضاف بننے کی وجہ سے اتی ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ واحد متکلم کا صیغہ اتی ہے۔ دونوں طرح سے ترجمے صحیح مانے جائیں گے۔

قَالَ الَّذِيْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ  ۭ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ ڷ لِيَبْلُوَنِيْٓ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ  ۭ وَمَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّيْ غَنِيٌّ كَرِيْمٌ    40؀
قَالَ الَّذِيْ [ کہا اس نے]عِنْدَهٗ [ جس کے پاس]عِلْمٌ [ ایک علم تھا] مِّنَ الْكِتٰبِ [ کتاب میں سے] اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ [ میں لاتا ہوں آپ ؑ کے پاس اس کو] قَبْلَ اَنْ [ اس سے پہلے کہ]يَّرْتَدَّ [ لوٹے] اِلَيْكَ [ آپ علیہ السلام کی طرف] طَرْفُكَ ۭ [ آپ علیہ السلام کی پلک] فَلَمَّا [ تو جب] رَاٰهُ [ انھوں ؑ نے دیکھا اس کو]مُسْتَقِرًّا [ ٹھہرا (یعنی رکھا) ہوا]عِنْدَهٗ [ اپنے پاس] قَالَ [ نو انھوں نے کہا] ھٰذَا [ یہ] مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ [ میرے رب کے فضل میں سے ہے] ڷ لِيَبْلُوَنِيْٓ [ تاکہ وہ آزمائے مجھ کو] ءَ [ آیا] اَشْكُرُ [ میں شکر کرتا ہوں]اَمْ [ یا] اَكْفُرُ ۭ [ میں ناشکری کرتا ہوں] وَمَنْ شَكَرَ [ اور جو شکر کرتا ہے] فَاِنَّمَا [ تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] يَشْكُرُ [ وہ شکر کرتا ہے] لِنَفْسِهٖ ۚ [ اپنے آپ کے لئے] وَمَنْ [ اور جو] كَفَرَ [ ناشکری کرتا ہے]فَاِنَّ رَبِّيْ[ تو بیشک میرا رب] غَنِيٌّ [ بےنیاز ہے] كَرِيْمٌ [ بزرگ و برتر ہے



نوٹ۔2: جس شخص نے پلک جھپکنے میں تخت حاضر کردیا تھا، اس کے بارے میں قطعی طور پر یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھا، اس کے پاس کس قسم کا علم تھا اور اس کتاب سے کون سی کتاب مراد ہے جس کا علم اس کے پاس تھا۔ ان امور کی کوئی وضاحت نہ قرآن میں ہے اور نہ کسی حدیث میں ہے۔ ان کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ لیکن یہ سب محض قیاسات ہیں جو بلا دلیل و ثبوت قائم کر لیے گئے ہیں۔ ہم صرف اتنی ہی بات جانتے اور مانتے ہیں جنتی قرآن میں فرمائی گئی ہے۔ وہ شخص بہرحال جن کی نوع میں سے نہ تھا اور بعید نہیں کہ وہ کوئی انسان ہی ہو۔ اس کے پاس کوئی غیر معمولی علم تھا اور وہ اللہ کی کسی کتاب سے ماخوذ تھا۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔3: تورات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کے بعد ملکہ اپنی مملکت کو واپس چلی گئی۔ یہ بات بالکل قرین قیاس ہے اور قرآن میں کوئی چیز اس کے خلاف نہیں جاتی۔ جب ملکہ نے سیاست اور مذہب دونوں میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی اطاعت کرلی تو دین اور سیاست دونوں کے نقطہ نظر سے یہی بات صحیح تھی کہ وہ اپنے ملک میں جاکر حکومت ان اصولوں کے مطابق چلائیں جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کو بتائے۔ بعض تفسیری روایات میں یہ جو آیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان سے نکاح کرکے ان کو اپنے حرم میں داخل کر لیا، یہ بات صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ (تدبر قرآن)

قَالَ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ اَتَهْتَدِيْٓ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِيْنَ لَا يَهْتَدُوْنَ    41؀
قَالَ [ (سلیمان علیہ السلام نے ) کہا] نَكِّرُوْا [ تم لوگ بھیس بدل دو] لَهَا [ اس (ملکہ) کے لئے] عَرْشَهَا [ اس کے تخت کا] نَنْظُرْ[ تو ہم دیکھیں گے] اَ [ آیا] تَهْتَدِيْٓ [ وہ سمجھتی ہے] اَمْ [ یا] تَكُوْنُ [ وہ ہوتی ہے]مِنَ الَّذِيْنَ[ ان لوگوں میں سے جو] لَا يَهْتَدُوْنَ [ سمجھ نہیں پاتے]

فَلَمَّا جَاۗءَتْ قِيْلَ اَهٰكَذَا عَرْشُكِ  ۭ قَالَتْ كَاَنَّهٗ هُوَ  ۚ وَاُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِيْنَ   42؁
فَلَمَّا [ پھر جب] جَاۗءَتْ [ وہ آئی] قِيْلَ [ تو کہا گیا] اَ[ کیا] هٰكَذَا [ ایسا ہی ہے] عَرْشُكِ ۭ [ تیرا تخت] قَالَتْ [ اس (ملکہ) نے کہا] كَاَنَّهٗ [ جیسے کہ یہ] هُوَ ۚ [ وہ ہی ہے] وَاُوْتِيْنَا [ اور ہم کو دیا گیا] الْعِلْمَ [ علم ] مِنْ قَبْلِهَا [ اس (معجزہ) سے پہلے] وَكُنَّا [ اور ہم ہو چکے] مُسْلِمِيْنَ[ فرمانبردار]





(آیت۔42) من قبلہا میں ھا کی ضمیر کا مرجع محذوف ہے جو واقعۃ یا معجزۃ ہوسکتا ہے۔ اور اس سے مراد یہ معجزہ ہے کہ ملکہ اپنا تخت اپنے محل میں چھوڑ کر آئی تھی اور جب وہ سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچی تو اس کا تخت وہاں رکھا ہوا تھا۔

وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ  ۭ اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ    43؀
وَصَدَّهَا [ اور روک رکھا تھا اس (ملکہ) کو] مَا [ ان چیزوں نے جن کی] كَانَتْ تَّعْبُدُ [ وہ عبادت کیا کرتی تھی] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے علاوہ ] اِنَّهَا [ بیشک وہ] كَانَتْ[ تھی] مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ[ ایک کافر قوم میں سے]





 (آیت۔43) اس آیت کے دو طرح ترجمے کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ ما کانت تعبد میں ما کو صد کا فاعل مانا گیا ہے۔ اس طرح مطلب یہ ہوگا کہ جن چیزوں کی وہ پوجا کرتی تھی انھوں نے اس کو ایمان لانے سے روک دیا تھا۔ دوسرا یہ کہ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فارسی ترجمہ میں اور شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اردو ترجمہ میں صد کی ضمیر فاعلی ھو کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے مانا ہے۔ اس طرح مطلب یہ ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ کو ان چیزوں سے روک دیا جن کی وہ پوجا کرتی تھی۔ پروفیسر حافظ احمد یار صاحب مرحوم کا کہنا ہے کہ گرامر کے لحاظ سے دوسرے ترجمہ کی گنجائش نہیں نکلتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صد میں جس کو روکتے ہیں وہ مفعول بنفسہ آتا ہے۔ کہتے ہیں صدہ عن کذا۔ آیت میں اگر ہوتا وصدھا عما کانت تعبد تب یہ ترجمہ ٹھیک ہوتا لیکن عما کے بجائے صرف ما آیا ہے اس لئے پہلا ترجمہ بہتر ہے۔

قِيْلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ  ۚ فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا  ۭ قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِيْرَ ڛ قَالَتْ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   44؀ۧ
قِيْلَ [ کہا گیا] لَهَا [ اس سے] ادْخُلِي [ تو داخل ہو] الصَّرْحَ ۚ [ محل میں] فَلَمَّا [ تو جب] رَاَتْهُ [ اس نے دیکھا اس (کے صحن) کو] حَسِبَتْهُ [ تو اس نے گمان کیا اس کو] لُجَّةً [ پانی کا ایک ذخیرہ] وَّكَشَفَتْ [ اور اس نے کھولا] عَنْ سَاقَيْهَا ۭ[ اپنی دونوں پنڈلیوں کو] قَالَ [ (سلیمان علیہ السلام نے) کہا]اِنَّهٗ [ بیشک یہ] صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ [ چکنا کیا ہوا محل ہے] مِّنْ قَوَارِيْرَ ڛ[ شیشوں سے] قَالَتْ [ اس نے کہا] رَبِّ [ اے میرے رب]اِنِّىْ [ بیشک میں نے] ظَلَمْتُ [ ظلم کیا] نَفْسِيْ [ اپنے آپ پر] وَاَسْلَمْتُ [ اور میں نے فرمانبرداری قبول کی]مَعَ سُلَيْمٰنَ [ سلیمان علیہ السلام کے ساتھ] لِلّٰهِ [ اللہ کی] رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ جو تمام جہانوں کا رب ہے]





ص ر ح

(ک) صراحۃ صاف ہونا۔ خالص ہونا۔ واضح ہونا۔

(ف) صرحا ظاہر کرنا۔ واضح کرنا۔

 صرح ہر بلند عمارت (ظاہر ہونے کی وجہ سے) زیر مطالعہ آیت۔44

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِيْقٰنِ يَخْتَصِمُوْنَ    45؀
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ [ اور بیشک ہم بھیج چکے]اِلٰى ثَمُوْدَ [ ثمود کی طرف]اَخَاهُمْ [ ان کے بھائی] صٰلِحًا [ صالح علیہ السلام کو] اَنِ [ کہ] اعْبُدُوا [ تم لوگ بندگی کرو] اللّٰهَ [ اللہ کی] فَاِذَا [ تو جب ہی] هُمْ [ وہ لوگ] فَرِيْقٰنِ [ دو فرقے تھے] يَخْتَصِمُوْنَ[ جھگڑے ہوئے]



نوٹ۔1: ثمود یوں کے شہر میں ان کے نوسردار تھے۔ انہی کے مشورے سے اونٹنی کو مار ڈالا گیا تھا۔ جب انھوں نے اونٹنی کو قتل کیا اور دیکھا کہ کوئی عذاب نہیں آیا تو اب نبی اللہ کے قتل پر آمادہ ہوگئے اور شبخوں مارنے کی سازش کی لیکن اس عمل کرنے سے پہلے عذاب آگیا اور سارے ہلاک ہوگئے۔ (ابن کثیر)

قَالَ يٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ  ۚ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ    46؁
قَالَ [ (صالح علیہ السلام نے) کہا] يٰقَوْمِ [ اے میری قوم] لِمَ [ کیوں] تَسْتَعْجِلُوْنَ [ تم لوگ جلدی مچاتے ہو] بِالسَّيِّئَةِ [ برائی کی]قَبْلَ الْحَسَنَةِ ۚ [ بھلائی سے پہلے]لَوْلَا [ کیوں نہیں] تَسْتَغْفِرُوْنَ [ تم لوگ مغفرت مانگتے] اللّٰهَ [ اللہ سے] لَعَلَّكُمْ [ شاید تم لوگوں پر] تُرْحَمُوْنَ [ رحم کیا جائے]

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ  ۭ قَالَ طٰۗىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ   47؀
قَالُوا [ ان لوگوں نے کہا] اطَّيَّرْنَا [ ہم منحوس سمجھتے ہیں] بِكَ [ آپ علیہ السلام کو] وَبِمَنْ [ اور ان کو جو] مَّعَكَ ۭ [ آپ علیہ السلام کے ساتھ ہیں] قَالَ [ (صالح علیہ السلام نے ) کہا] طٰۗىِٕرُكُمْ [ تم لوگوں کی نحوست] عِنْدَ اللّٰهِ [ اللہ کے پاس سے ہے] بَلْ اَنْتُمْ [ بلکہ تم لوگ] قَوْمٌ [ ایک ایسی قوم ہو جن کو] تُفْتَنُوْنَ [ آزمایا جاتا ہے]

وَكَانَ فِي الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ    48؀
وَكَانَ [ اور تھا] فِي الْمَدِيْنَةِ [ اس شہر میں] تِسْعَةُ رَهْطٍ [ نوافراد کا ایک ایسا جتھا جو] يُّفْسِدُوْنَ [ نظم بگاڑتے تھے] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں]وَلَا يُصْلِحُوْنَ[ اور اصلاح نہیں کرتے تھے]