قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

دوسرا پارہ

سَيَقُوْلُ السُّفَهَاۗءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِىْ كَانُوْاعَلَيْهَا ۭ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۭ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ   ١٤٢؁
(سَیَقُوْلُ : کہیں گے ) (السُّفَھَآئُ : بیوقوف لوگ) (مِنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے) (مَا: کس چیز نے ) (وَلّٰٹھُمْ: پھیرا ان کو ) (عَنْ قِبْلَتِھِمُ الَّتِیْ: ان کے اس قبلے سے ) (کَانُوْا : وہ لوگ تھے) (عَلَیْھَا : جس پر) (قُلْ : آپؐ کہئے ) (لِّلّٰہِ : اللہ ہی کے لیے ہے ) (الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ: مشرق اور مغرب) (یَھْدِیْ : وہ ہدایت دیتا ہے ) (مَنْ یَّشَآئُ : اس کو جس کو وہ چاہتا ہے) (اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ: ایک سیدھے راستے کی طرف )



 ترکیب : ’’ سَیَقُوْلُ‘‘ کا فاعل ’’ السُّفَھَائُ‘‘ ہے اور ’’ مِنَ النَّاسِ‘‘ جار مجرور متعلق بمحذوف ’’ کَائِنِیْنَ‘‘ حال ہے ’’ السُّفَہَآئُ ‘‘ کا۔ ’’ مَا‘‘ استفہامیہ ہے اور مبتدأہے‘ جبکہ جملہ فعلیہ ’’ وَلّٰــھُمْ‘‘ اس کی خبر ہے۔’’ عَنْ قِبْلَتِھِمْ‘‘ متعلق خبر ہے اور یہ ’’ قِبْلَتِھِمْ‘‘ موصوف ہے‘ جبکہ ’’ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا‘‘ اس کی صفت ہے۔ ’’ اَلْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ‘‘ مبتدأ مؤخر ہیں ‘ ان کی خبر محذوف ہے اور ’’ لِلّٰہِ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ یَھْدِیْ‘‘ کا فاعل اس میں شامل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے اور ’’ مَنْ‘‘ اس کا مفعول ہے۔’’ یَشَائُ‘‘ کا فاعل بھی ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے اور یہ جملہ مقولہ ہے ’’ قُلْ‘‘ کا۔ وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ۭ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ ۭ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَةً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللّٰهُ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ    ١٤٣؁
(وَکَذٰلِکَ : اور اس طرح ) (جَعَلْنٰـکُمْ : ہم نے بنایا تم لوگوں کو) (اُمَّۃً وَّسَطًا: ایک معتدل امت) ( لِّــتَــکُوْنُوْا : تاکہ تم لوگ ہو جائو) (شُھَدَآئَ : گواہ) (عَلَی النَّاسِ: لوگوں پر) ( وَیَکُوْنَ : اور تاکہ ہو جائیں) (الرَّسُوْلُ : یہ رسولؐ) (عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر) (شَھِیْدًا: گواہ) (وَمَا جَعَلْنَا : اور ہم نے نہیں بنایا) (الْقِبْلَۃَ : اس قبلہ کو) (الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا : جس پر آپؐ تھے) (اِلاَّ : سوائے اس کے) (لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم جان لیں کہ ) (مَنْ : کون) (یَّـتَّبِعُ : پیروی کرتا ہے) (الرَّسُوْلَ: ان رسولؐ کی) (مِمَّنْ : اس میں سے جو ) (یَّنْقَلِبُ : پلٹ جاتا ہے) (عَلٰی عَقِبَیْہِ : اپنی دونوں ایڑیوں پر) (وَاِنْ : اور یقینا) (کَانَتْ : وہ تھی ) (لَــکَبِیْرَۃً : بھاری) (اِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ: سوائے ان لوگوں پر جنہیں) (ھَدَی اللّٰہُ: ہدایت دی اللہ نے) (وَمَا کَانَ اللّٰہُ : اور اللہ نہیں ہے ) (لِیُضِیْعَ : کہ وہ ضائع کرے ) (اِیْمَانَــکُمْ : تم لوگوں کے ایمان کو) (اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ: یقینا اللہ لوگوں پر) ( لَرَئُ وْفٌ: بےانتہا نرمی کرنے والا) ( رَّحِیْمٌ : ہر حال میں رحم کرنے والا ہے)



و س ط

 وَسَطَ (ض) وَسْطًا : کسی کے درمیان میں بیٹھنا‘ درمیان میں ہونا۔ {فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا ۔ } (العٰدیٰت) ’’ پھر وہ سب (یعنی گھوڑوں کے رسالے ) اس کے درمیان میں بیٹھے (یعنی گھس گئے جم کر)‘‘

 وَسُطَ (ک) وَسَاطَۃً : شریف ہونا‘ افضل ہونا۔

 اَوْسَطُ (مؤنث وُسْطٰی) : افعل التفضیل ہے۔ زیادہ درمیان یعنی ٹھیک یا بالکل درمیان۔ {فَکَفَّارَتُہٗ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ} (المائدۃ:89) ’’ تو اس کا کفارہ ہے کھانا کھلانا دس مسکینوں کو‘ اس کے اوسط سے جو تم لوگ کھلاتے ہو اپنے گھر والوں کو۔‘‘{حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰیق} (البقرۃ:238) ’’ تم لوگ نگہبان رہو نمازوں پر اور درمیانی نماز پر۔‘‘

 وَسَطٌ : معتدل‘ متوازن ‘ یعنی افراط و تفریط سے پاک ( آیت زیرِ مطالعہ) یہ مذکر‘ مؤنث‘ واحد‘ جمع سب کے لیے آتا ہے۔

ع ق ب

 عَقَبَ (ض‘ ن) عَقْبًا : پیر کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی مارنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے : (1) پیچھے آنا۔ (2) جانشین ہونا۔ (3) ایک چیز جانے کے بعد اس کا دوسرا رُخ سامنے آنا‘ جیسے رات کے بعد صبح کا آنا ‘ یعنی نتیجہ ظاہر ہونا‘ بدلہ سامنے آنا۔

 عُقْبٰی : افعل التفضیل کا مؤنث ہے (فُعْلٰی کے وزن پر) ۔ زیادہ یا سب سے پیچھے‘ یعنی آخر میں ظاہر ہونے والا نتیجہ یا بدلہ۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ زیادہ تر دو معانی میں آتا ہے۔ (1) آخری۔ (2) بدلہ۔ {وَیَدْرَئُ‘ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰئِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ ۔ } (الرعد) ’’ اور وہ لوگ دفع کرتے ہیں بھلائی سے برائی کو‘ ان لوگوں کے لیے ہے آخری گھر۔‘‘ {تِلْکَ عُقْبَی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا ق وَعُقْبَی الْــکٰفِرِیْنَ النَّارُ ۔ } (الرعد) ’’ یہ بدلہ ہے ان لوگوں کا جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ‘ اور کافروں کا بدلہ ہے آگ۔‘‘

 عَقِبٌ ج اَعْقَابٌ (اسم ذات ) : کسی چیز کا پچھلا حصہ۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے: (1) ایڑی۔ (2) بیٹے‘ پوتے وغیرہ۔ {فَلَمَّا تَرَآئَ‘ تِ الْفِئَتٰنِ نَـکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ} (الانفال:48) ’’ پھر جب آمنے سامنے ہوئیں دونوں فوجیں تو وہ پسپا ہوا اپنی دونوں ایڑیوں پر۔‘‘{وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ } (الزخرف) ’’ اور اس نے بنایا اس کو ایک باقی رہنے والا فرمان اپنی اولاد میں‘ شاید وہ لوگ رجوع کریں۔‘‘ {یَرُدُّوْکُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ} (آل عمران:149) ’’ تو وہ پھیر دیں گے تم لوگوں کو تمہاری ایڑیوں پر۔‘‘

 عُقْبٌ (اسم ذات) : نتیجہ‘ انجام۔ {ھُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ عُقْبًا ۔ } (الکہف) ’’ وہ بہتر ہے بطور بدلے کے اور بہتر ہے بطور انجام کے۔‘‘

 عَاقِبَۃٌ (اسم ذات) : بدلہ (خواہ اچھا ہو یا برا) {فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ۔ } (آل عمران) ’’ پس تم لوگ دیکھو کیسا تھا جھٹلانے والوں کا بدلہ۔‘‘ {اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَ ۔ } (ھود) ’’ بیشک بدلہ ہے تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے۔‘‘ {وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ ۔ } (الحج) ’’ اور اللہ کی ہی ملکیت ہے تمام کاموں کا بدلہ۔‘‘

 عَقَبَۃٌ : دشوار گزار گھاٹی۔ {فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ ۔ } (البلد) ’’ تو اس نے عبور نہیں کیا گھاٹی کو۔‘‘

 اَعْقَبَ (افعال) اِعْقَابًا : کسی چیز کے بدلے میں کچھ دینا‘ بدلہ دینا۔ {فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ} (التوبۃ:77) ’’ تو اس نے بدلے میں دیا ان کو ایک نفاق ان کے دلوں میں۔‘‘

 عَقَّبَ (تفعیل) تَعْقِیْبًا : پیچھے ہونا‘ پیچھے ڈالنا۔ {وَلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ ط} (النمل:10) ’’ وہ چل دیا پیٹھ پھیرتے ہوئے اور پیچھے ہوا ہی نہیں (یعنی مڑ کر نہ دیکھا)‘‘

 مُعَقِّبٌ (اسم الفاعل ) : پیچھے ہونے والا‘ پیچھے ڈالنے والا ۔{وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ ط} (الرعد:41) ’’ اور اللہ حکم کرتا ہے‘ کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں ہے اس کے حکم کو۔‘‘ {لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ} (الرعد:11) ’’ اس کے ہیں (یعنی اس کی ملکیت ہیں) پیچھے رہنے والے (یعنی پہرے دار) اس کے (یعنی انسان کے ) آگے سے اور اس کے پیچھے سے۔‘‘

 عَاقَبَ (مفاعلہ) مُعَاقَــبَۃً : ایک دوسرے کے پیچھے پڑنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے۔ جیسے : (1) کسی کے ساتھ زیادتی کرنا۔ (2) کسی زیادتی کا بدلہ دینا۔ (3) کسی زیادتی پر گرفت کرنا‘ سزا دینا۔ {وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖط} (النحل:126) ’’ اور اگر تم لوگ بدلہ لو‘ تو بدلہ لو اس کے جیسا تمہارے ساتھ زیادتی کی

گئی جتنی۔‘‘ {وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ } (البقرۃ) ’’ اور تم لوگ جان لو کہ اللہ سزا دینے کا سخت ہے۔‘‘

 عَاقِبْ (فعل امر) : تُو بدلہ دے‘ سزا دے۔ دیکھیے سورۃ النحل کی آیت 126۔

ض ی ع

 ضَاعَ (ض) ضِیَاعًا : کسی چیز کا تلف ہونا‘ بےکار ہونا۔

 اَضَاعَ (افعال) اِضَاعَۃً : کسی چیز کا تلف کرنا‘ ضائع کرنا۔ {اَ نِّیْ لَا اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ} (آل عمران:195) ’’ کہ میں ضائع نہیں کرتا کسی عمل کرنے والے کے عمل کو تم میں سے۔‘‘

ر ء ف

 رَئَ فَ (ف) رَأْ فَۃً : نرم دل ہونا‘ شفیق ہونا۔

 رَئُ وْ فٌ: فعول کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بہت نرمی کرنے والا‘ بہت شفقت کرنے والا۔ {وَاللّٰہُ رَئُ وْ فٌ بِالْعِبَادِ ۔ } (البقرۃ) ’’ اور اللہ بہت نرمی کرنے والا ہے بندوں سے‘‘۔

 رَاْفَــۃٌ (اسم ذات) : نرمی‘ شفقت ۔ {وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً ط} (الحدید:27) ’’ اور ہم نے بنائی (یعنی رکھی) ان کے دلوں میں جنہوں نے پیروی کی ان (علیہ السلام) کی‘ نرمی اور رحمت۔‘‘

 ترکیب : ’’ وَکَذٰلِکَ‘‘ واواستیناف‘ کاف حرفِ جر اسم مجرور ‘ جار مجرور متعلق محذوف کے ساتھ بوضع نصب میں ہے ‘ مصدر محذوف کی صفت ہے اور تقدیر عبارت یوں ہے: وَمِثْلَ ھِدَایَتِنَا مَنْ نَشَائُ جَعَلْنَاکُمْ۔ ’’ جَعَلْنَا‘‘ کا مفعول اوّل ’’ کُمْ‘‘ کی ضمیر ہے‘ جبکہ مرکب توصیفی ’’ اُمَّۃً وَّسَطًا‘‘ مفعولِ ثانی ہے۔ ’’ لِتَــکُوْنُــوْا‘‘ پر ’’ لامِ کَیْ‘‘ داخل ہوا ہے اس لیے ’’ تَــکُوْنُوْنَ‘‘ کا نونِ اعرابی گرا ہوا ہے۔ اس کا اسم ’’ واو‘‘ ہے۔ ’’ شُھَدَائَ‘‘ اس کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور ’’ عَلَی النَّاسِ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ یَـکُوْنُ‘‘ کی نصب ’’ لام کَیْ‘‘ کی وجہ سے ہے جو ’’ لِتَــکُوْنُوْا‘‘ پر آ چکا ہے اور اس کا اسم ’’ اَلرَّسُوْلُ‘‘ ہے‘ جس پر لام تعریف داخل ہوا ہے ۔ ’’ شَھِیْدًا‘‘ اس کی خبر ہے اور ’’ عَلَیْکُمْ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ وَمَا جَعَلْنَا‘‘ کا مفعولِ اوّل ’’ اَلْقِبْلَۃَ‘‘ ہے جس پر لامِ تعریف داخل ہوا ہے جبکہ مفعولِ ثانی محذوف ہے۔ ’’ اَلَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا‘‘ کا پورا فقرہ محذوف مفعول ثانی کی صفت ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہے: ’’ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ‘ اَلْقِبْلَۃَ الَّتِیْ …‘‘ یا ’’ اَلَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا‘‘ مذکور ’’ الْقِبْلَۃَ‘‘ کی صفت ہے اور مفعول ثانی محذوف ہے ۔ تقدیر عبارت یوں ہے :’’ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا قِبْلَۃً ‘‘۔ ’’ مَا جَعَلْنَا‘‘ کا مفعول ثانی ’’ عَلَیْھَا‘‘ کے بعد آنا تھا جسے محذوف کیا گیا ہے اور یہ ’’ قِبْلَۃَ‘‘ ہو سکتا ہے۔ ’’ اَلَّتِیْ‘‘ کے ساتھ ’’ کُنْتَ‘‘ کا اسم ’’ ت‘‘ ضمیر بارز ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے جو کہ ’’ قَائِمًا‘‘ ہو سکتی ہے ۔ ’’ عَقِبَیْہِ‘‘ دراصل ’’ عَقِبٌ‘‘ کا تثنیہ ’’ عَقِبَانِ‘‘ تھا۔ اس پر ’’ عَلٰی‘‘ داخل ہوا تو حالت جر میں یہ ’’ عَقِبَیْنِ‘‘ ہو گیا ‘ پھر مضاف ہونے کی وجہ سے اس کا نونِ اعرابی گر گیا‘ جبکہ ’’ ہِ‘‘ کی ضمیر اس کا مضاف الیہ ہے۔ ’’ وَاِنْ‘‘ میں ’’ وائو‘‘ حالیہ ہے۔ ’’ اِنْ‘‘ دراصل ’’ اِنَّ‘‘ ہے۔ اس کا اسم محذوف ہے۔ اَیْ والحال انھا۔ ’’ کَانَتْ‘‘ کی ضمیر ’’ ھِیَ‘‘ اس کا اسم ہے۔ اور یہ ’’ التَّحْوِیْلَۃَ‘‘ (تحویل) کے لیے ہے جبکہ ’’ لَــکَبِیْرَۃٌ‘‘ میں لامِ فارقہ ہے اور یہ ’’ کَانَتْ ‘‘ کی خبر ہے۔ ’’ وَمَا کَانَ اللّٰہُ‘‘ میں آفاقی صداقت کا بیان ہے اس لیے ’’ کَانَ‘‘ کا ترجمہ حال میں ہو گا۔

 ’’ قِبْلَۃَ‘‘ : کعبہ کا رُخ جو نماز میں سامنے ہوتا ہے۔ سامنے کا رخ۔ محاورہ ہے: ’’ اَیْنَ قِبْلَتُکَ‘‘ تمہارا رُخ کدھر کو ہے؟ جو چیز مُنہ کے سامنے ہو اس کو بھی قبلہ کہتے ہیں۔ نماز پڑھنے والے کے منہ کے سامنے کعبہ ہوتا ہے اس لیے کعبہ کو بھی قبلہ کہتے ہیں۔

 امام راغب نے ’’ مفردات ‘‘ میں اور پروفیسر عبدالرئوف مصری نے ’’ معجم القرآن‘‘ میں لکھا ہے کہ اصل لغت میں سامنے والے (مقابل) آدمی کی حالت کو قبلہ کہا جاتا تھا ‘ مجازاً سامنے والے آدمی اور سامنے کی جہت میں اس کا استعمال ہونے لگا ۔

 لیکن سورۃ یونس آیت 87 {وَاجْعَلُوْا بُیُوْتَــکُمْ قِبْلَۃً}سے مراد بقول سیوطی اور خازن نماز کا مقام ہے۔ فرعون نے چونکہ نماز پڑھنے کی ممانعت کر دی تھی اس لیے بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ گھروں کو ہی مقام نماز بنا لو اور چھپ کر گھروں میں ہی نماز پڑھا کرو۔ بعض غیر معتبر مفسرینِ لغاتِ قرآن نے اس آیت میں قِبْلَۃً کا ترجمہ کیا ہے آمنے سامنے‘ یعنی اپنے مکان آمنے سامنے بنائو تاکہ ضرورت کے وقت باہم شریک ہو سکو۔ لیکن یہ تشریح سیاقِ قرآنی کے علاوہ قدماء مفسرین کی تصریحات کے بھی خلاف ہے۔ نہ لغت اس کی اجازت دیتی ہے نہ قرینہ اس کا مقتضی ہے ‘ اور نہ ہی واقعہ اس کی تائید کرتا ہے۔

 نوٹ (1) :’’ اِنَّ‘‘ کی تخفیف (دوسرا نون حذف کر کے) جائز ہے۔ تخفیف کے بعد اگر اس کے بعد کوئی فعل آ جائے تو اس کو مہملہ بنانا واجب ہے۔ مثلاً ارشاد ربانی ہے : {وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ ۔ } (الشعرائ) اور اگر اس کے بعد اسم آ جائے تو اس کو عاملہ قرار دینا قلیل اور مہملہ قرار دینا غالب و اکثر ہے۔ مہملہ کی مثال ’’ اِنْ اَنْتَ لَصَادِقٌ‘‘ اور عاملہ کی مثال ’’ اِنْ زَیْدًا مُنْطَلِقٌ‘‘ ہے۔

 (1) تخفیف کے بعد اگر اس کو مہملہ قرار دیا جائے تو ’’ اِنْ‘‘ نافیہ اور اس کے درمیان فرق کرنے کے لیے اس کی خبر پر لامِ مفتوح لگانا واجب ہے۔ اس لام کا نام لام فارقہ ہے ۔

 (2) ’’ اِنْ ‘‘ مخففہ کے بعد صرف افعال ناسخہ لحکم المبتدأ والخبر (افعال ناقصہ اور افعال مقاربہ) آئیں گے۔ پھر اکثر و بیشتر ان افعال کے فعل ماضی ہی کا استعمال ہوتا ہے اگرچہ فعل مضارع کا استعمال بھی جائز ہے۔ مثلاً : (1) {اِنْ کَانَتْ لَــکَبِیْرَۃً اِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ} (آیت زیر مطالعہ) (2) {تَاللّٰہِ اِنْ کِدْتَّ لَتُرْدِیْنِ ۔ }(الصّٰفّٰت) (3){وَاِنْ وَّجَدْنَا اَکْثَرَھُمْ لَفٰسِقِیْنَ ۔ } (الاعراف) مضارع کی مثال : {وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ ۔ } (الشعرائ)

 نوٹ (2) : ’’ کَانَ‘‘ نافیہ ( مَا کان) کے بعد مضارع پر اگر ’’ لام‘‘ آئے تو وہ ’’ لامِ جحود‘‘ کہلاتا ہے ’’ لامِ کَیْ ‘‘ نہیں۔

 نوٹ (3) : وحی کی ایک قسم وہ ہے جسے قرآن مجید میں لکھ دیا گیا۔ اسے ’’ وحی ٔ ‘ متلو‘‘ یعنی تلاوت کی ہوئی وحی کہتے ہیں۔ وحی کی دوسری قسم وہ ہے جسے قرآن مجید میں نہیں لکھا گیا‘ لیکن نبی اکرم ﷺ کے اپنے اقوال و اعمال اسی وحی کی بناء پر تھے۔ اسے ’’ وحی ٔ غیر متلو‘‘ کہتے ہیں اور اس کا ثبوت ہمیں قرآن مجید سے ملتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ ایسے ہی مقامات میں سے ایک ہے۔

 مدینہ منورہ میں تقریباً سولہ یا سترہ مہینے حضور ﷺ نے بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھائی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس کو قبلہ ہم نے بنایا تھا‘ لیکن قرآن مجید میں یہ حکم درج نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ آپ ﷺ کا یہ عمل وحی ٔغیر متلو کے تحت تھا۔ قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَا ۠فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭوَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَهٗ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ   ١٤٤؁
(قَدْ نَرٰی : ہم نے دیکھا ہے) (تَقَلُّبَ وَجْھِکَ : آپ ﷺ کے چہرے کا پلٹنا) (فِی السَّمَآئِ : آسمان میں) (فَلَنُوَلِّیَنَّکَ : تو ہم لازماً پھیر دیں گے آپ ﷺ ‘ کو) (قِبْلَۃً : اس قبلہ کی طرف) (تَرْضٰٹھَا : آپ ﷺ راضی ہوں جس سے) (فَوَلِّ : پس آپ پھیریں) (وَجْھَکَ : اپنے چہرے کو) (شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام کی طرف) (وَحَیْثُ مَا : اور جہاں کہیں بھی ) (کُنْتُمْ : تم لوگ ہو ) (فَوَلُّوْا : تو تم لوگ پھیرو) (وُجُوْھَکُمْ : اپنے چہروں کو ) (شَطْرَہٗ : اس کی طرف

وَاِنَّ الَّذِیْنَ : اور بیشک وہ لوگ جن کو) (اُوْتُوا الْکِتٰبَ : دی گئی کتاب) (لَــیَعْلَمُوْنَ : یقینا جانتے ہیں) (اَ نَّہُ الْحَقُّ : کہ وہ ہی حق ہے ) (مِنْ رَّبِّھِمْ : ان کے رب سے ) (وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ: اور اللہ غافل نہیں ہے) (عَمَّا : اس سے جو) (یَعْمَلُوْنَ : یہ لوگ کرتے ہیں)



ش ط ر

 شَطَرَ (ن) شَطْرًا : کسی چیز کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرنا۔

 شَطْرٌ : کسی چیز کا نصف یا وسط۔ پھر کسی چیز کے رُخ یا سمت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ۔

ح ی ث

 اس مادہ سے فعل استعمال نہیں ہوتا۔

 حَیْثُ : یہ ظرفِ مکان ہے اور ضمہ پر مبنی ہے۔ جہاں‘ کہاں (یہ زیادہ تر مکانِ مبہم کے لیے آتا ہے اس لیے اس کے بعد کسی جملہ یا فقرہ سے اس کی وضاحت کی جاتی ہے) ۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ نَرٰی‘‘ کا فاعل اس میں شامل ’’ نَحْنُ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ لفظ ’’ تَقَلُّبَ‘‘ میں حرفِ لام کی ضمہ بتا رہی ہے کہ یہ باب تفعّل کے ماضی کا صیغہ نہیں ہے ‘ بلکہ اس کا مصدر ہے۔ مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین سے خالی ہے۔ ’’ وَجْہِ‘‘ اس کا مضاف الیہ بھی ہے اور آگے ضمیر ’’ کَ‘‘ کا مضاف بھی ہے۔ یہ پورا مرکب اضافی ’’ نَرٰی‘‘ کا مفعول ہے اس لیے اس کے مضاف ’’ تَقَلُّبَ‘‘ پر نصب آئی ہے۔ جبکہ ’’ فِی السَّمَائِ‘‘ متعلق’’ تَقَلُّبَ‘‘ ہے۔

 ’’ لَنُوَلِّیَنَّ‘‘ دراصل باب تفعیل میں ’’ وَلّٰی ۔ یُوَلِّیْ‘‘ کا نون ثقیلہ کے ساتھ مضارع ہے اور جمع متکلم کا صیغہ ہے۔ اس میں شامل ’’ نَحْنُ‘‘ کی ضمیر اس کا فاعل ہے ‘ جو کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس کے ساتھ ضمیر ’’ کَ‘‘ اس کا مفعولِ اوّل ہے جبکہ ’’ قِبْلَۃً‘‘ مفعول ثانی ہے اور نکرہ موصوفہ ہے ’’ تَرْضٰٹھَا‘‘ اس کی صفت ہے۔

 ’’ فَوَلِّ‘‘ واحد مذکر مخاطب کے صیغے میں فعل امر ہے۔ اس کا فاعل اس میں شامل ’’ اَنْتَ‘‘ کی ضمیر ہے۔ مرکب اضافی ’’ وَجْھَکَ‘‘ اس کا مفعول اوّل ہے اس لیے ’’ وَجْہَ‘‘‘ پر نصب آئی ہے۔ مرکب اضافی ’’ شَطْرَ الْمَسْجِدِ‘‘ مفعول فیہ (ظرفِ مکان) وَلِّ کے لیے ۔ اس لیے ’’ شَطْرَ‘‘ نصب میں ہے‘ جبکہ ’’ اَلْحَرَام‘ اَ لْمَسْجِدِ‘‘ کی صفت ہے۔ ’’ حَیْثُمَا‘‘ وا واستینافیہ ’’ حَیْثُمَا‘‘ اسمِ شرط جازم فی محل نصب علی الظرفیۃ۔ متعلق لمحذوف خبر ’’ کُنْتُمْ‘‘ المقدم (موجودین) کُنْتُمْ ’’ کَانَ‘‘ فعل ناقص ’’ تُمْ ‘‘ ضمیر بارز اس کا اسم۔ خبر موجودین مقدم ۔ یہ سارا جملہ فعل شرط ہے اور ’’ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ… اِلٰی آخِرِہٖ ‘‘ جزا ہے۔ ’’ فَوَلُّوْا‘‘ جمع مذکر مخاطب کے صیغے میں فعل امرہے۔ اس کا فاعل ’’ واو‘‘ ہے۔ ’’ وُجُوْھَکُمْ‘‘ مفعول اوّل اور ’’ شَطْرَہٗ‘‘ مفعول فیہ ظرف مکان ہے۔ اس میں ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر مسجد حرام کے لیے ہے۔ یہ جملہ فعلیہ ’’ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ‘‘ شرط کی جزا ہے۔

 {وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ} میں واواستیناف’’ اِنَّ‘‘ حرفِ مشبہ بالفعل ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ اسم موصول ’’ اُوْتُوْا‘‘ فعل ماضی مجہول ’’ واو‘‘ ضمیر بارز‘ نائب الفاعل ’’ اَلْکِتٰبَ‘‘ مفعول ثانی۔ یہ جملہ فعلیہ صلہ ہے موصول کا ۔ موصول اور صلہ مل کر اس کا اسم۔ ’’ لَیَعْلَمُوْنَ‘‘ میں ’’ لامِ مزحلقہ ‘‘ ہے ۔’’ یَعْلَمُوْنَ اَنَّــہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ‘‘ جملہ خبر یہ ہے۔ پھر ’’ یَعْلَمُوْنَ‘‘ متعدی بہ دو مفعول ۔ جملہ اسمیہ ’’ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ‘‘ اس کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے۔ ’’ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ‘‘ میں ’’ اَنَّ ‘‘ حرف مشبہ بالفعل ’’ ہ ‘‘ ضمیر اس کا اسم‘ ’’ اَلْحَقُّ ‘‘ خبر ‘ ضمیر فاصل محذوف۔ ’’ مِنْ رَّبِّھِمْ‘‘ جار مجرور متعلق ’’ کائناً ‘‘ کے ساتھ‘ یہ حال ہے ’’ اَلْحَقُّ‘‘ سے۔ ’’ اَنَّـہُ الْحَقُّ‘‘ میں ’’ ہُ‘‘ کی ضمیر ’’ اَنَّ‘‘ کا اسم ہے اور ’’ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ الْحَقُّ‘‘ خبر معرّف باللّام ہے اور ضمیر فاصل ’’ ھُوَ‘‘ کے بغیر ہے۔ پورا جملہ اس طرح ہوتا ہے: ’’ اَنَّــہٗ ھُوَ الْحَقُّ‘‘۔

 نوٹ (1) : اہل کتاب کے علماء پر یہ حقیقت پوری طرح واضح تھی کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام نے خانہ کعبہ تعمیر کیا تھا اور یہ بنو اسماعیل اور بنو اسرائیل دونوں کا قبلہ تھا۔ پھر تیرہ سو سال بعد حضرت سلیمان نے بیت المقدس تعمیر کرایا تو وہ یہودیوں کا قبلہ قرار پایا۔ لیکن اپنی کتابوں میں وہ لکھا ہوا پاتے تھے کہ ’’ اس نبی‘‘ یعنی آخری نبی (حضرت محمد ﷺ ) کا قبلہ خانہ کعبہ ہو گا۔

 ابوالعالیہ (رح)  ‘ کا ایک یہودی سے مناظرہ ہو گیا۔ یہودی نے کہا کہ حضرت موسٰیں کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ ابوالعالیہ (رح)  نے کہا نہیں‘ حضرت موسٰی ؑ بیت المقدس کے پاس نماز پڑھتے تھے لیکن آپؑ کا رُخ بیت اللہ کی طرف ہی ہوتا تھا (واضح رہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں بیت المقدس تعمیر نہیں ہوا تھا) یہودی نے انکار کیا تو ابوالعالیہ (رح)  نے کہا اس جھگڑے کا فیصلہ حضرت صالح کی مسجد کرے گی جو بیت المقدس کے نیچے ایک پہاڑ پر تھی۔ دیکھا گیا تو اس کا قبلہ بیت اللہ کی طرف تھا۔ (معارف القرآن‘ ج 1‘ ص 375) وَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِتَابِــعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِــعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙاِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ   ١٤٥؁ۘ
(وَلَئِنْ : اور اگر ) (اَتَیْتَ : آپؐ لے آئیں) (الَّذِیْنَ : ان کے پاس جن کو ) (اُوْتُوا الْکِتٰبَ : دی گئی کتاب) (بِکُلِّ اٰیَۃٍ : تمام نشانیاں (ہر نشانی) مَّا تَبِعُوْا : تو بھی وہ لوگ پیروی نہیں کریں گے) (قِبْلَتَکَ : آپؐ کے قبلے کی ) (وَمَآ اَنْتَ : اور نہ آپؐ) (بِتَابِعٍ : پیروی کرنے والے ہیں) (قِبْلَتَھُمْ : ان کے قبلے کی ) (وَمَا بَعْضُھُمْ : اور نہ ان کے کچھ لوگ ) (بِتَابِعٍ : پیروی کرنے والے ہیں) (قِبْلَۃَ بَعْضٍ : (اپنے) کچھ لوگوں کے قبلے کی) (وَلَئِنِ : اور اگر ) (اتَّبَعْتَ : آپؐ نے پیروی کی ) (اَھْوَآئَ ھُمْ : ان کی خواہشات کی) (مِّنْ بَعْدِ : اس کے بعد) (مَا جَآئَ کَ : کہ جو آیا آپؐ کے پاس

مِنَ الْعِلْمِ : علم میں سے) ( اِنَّکَ اِذًا : پھر تو یقینا آپؐ) (لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ : ظلم کرنے والوں میں ) (سے ہوں گے)



 ترکیب : ’’ وَلَئِنْ‘‘ میں واو استیناف‘ لامِ مُوَطَّئَۃٌ لِلْقَسَم ۔ ’’ اِنْ‘‘ شرطیہ۔ ’’ اَتَیْتَ‘‘ فعل ماضی۔ ’’ تَ‘‘ ضمیر بارزفاعل۔ ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ اسم موصول۔ ’’ اُوْتُوْا‘‘ فعل ماضی مجہول۔ وائو ضمیر بارز‘ نائب الفاعل ’’ الْکِتٰبَ‘‘ مفعولِ ثانی۔ ’’ بِکُلِّ اٰیَۃٍ‘‘ جار مجرور متعلق ’’ اَتَیْتَ‘‘ کے۔ فعل نائب الفاعل ‘ مفعولِ ثانی اور متعلق سے مل کر جملہ فعلیہ ہو کر صلہ ہے موصول کا۔ موصول صلہ مل کر ’’ اِتَّبَعْتَ‘‘ کا مفعول بہ۔ فعل+فاعل+مفعول مل کر جملہ فعلیہ ہو کر شرط۔ ’’ مَا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ‘‘ میں ’’ مَا‘‘ نافیہ ’’ تَبِعُوْا‘‘ فعل ‘ واو ضمیر بارز فاعل ’’ قِبْلَتَکَ‘‘ مفعول۔ فعل ‘ فاعل اور مفعول بہ مل کر جملہ فعلیہ ہو کر جوابِ قسم ہے جوابِ شرط نہیں۔ کیونکہ قسم پہلے ہے اور شرط بعد میں ہے اور قاعدہ ہے: اِذَا اجْتَمَعَ شَرْطٌ وَقَسَمٌ فَالْجَوَابُ لِلْمُتَقَدَّمِ مِنْھُمَا۔ {وَمَا اَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَھُمْ} میں’’ وائو ‘‘ عاطفہ’’ مَا‘‘ نافیہ ’’ اَنْتَ ‘‘’’ مَا ‘‘ کا اسم ’’ بِتَابِعٍ ‘‘ میں ’’ بائ‘‘ حرفِ جر زائد ’’ تَابِعٍ ‘‘ مجرور لفظاً ومنصوب محلاً ‘ کیونکہ ’’ مَا‘‘ کی خبر ہے ۔ ’’ قِبْلَتَھُمْ‘‘ ’’ تَابِعٍ ‘‘ کا مفعول اور یہ جملہ سابقہ جملہ پر عطف ہے۔ {وَمَا بَعْضُھُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ} ان کی بعینہٖ وہی ترکیب ہے جو سابقہ جملہ کی ہے۔ {وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَائَھُمْ …} میں واو استینافیہ ’’ ل‘‘ حرفِ قسم ’’ اِنْ ‘‘ حرفِ شرط ’’ اِتَّبَعْتَ‘‘ فعل ’’ تَ‘‘ ضمیر بارز فاعل ’’ اَھْوَائَ ھُمْ‘‘ مفعول بہ’’ مِنْ ‘‘ حرفِ جار ’’ بَعْدِ‘‘ مضاف ’’ مَا‘‘ موصولہ ’’ جَائَ کَ‘‘ ضمیر مستتر ھُوَ راجع ہوئے۔ ’’ مَا‘‘ فاعل’’ کَ ‘‘ ضمیر مفعول فیہ ’’ مِنَ الْعِلْمِ‘‘ جار مجرور متعلق ’’ کَائِنًا‘‘ حال ہے ’’ جَائَ ‘‘ کے فاعل ’’ ھُوَ‘‘ ضمیر سے۔ فعل ‘ فاعل ‘ مفعول فیہ اور حال مل کر جملہ فعلیہ ہو کر مضاف الیہ بعد کا۔ مضاف+ مضاف الیہ مل کر مجرور حرف جار ’’ مِنْ ‘‘ کا۔ جار مجرور متعلق ’’ اتَّبَعْتَ ‘‘ کا۔ فعل+ فاعل+ مفعول بہ اور متعلق مل کر شرط۔ {اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ}میں ’’ اِنَّ ‘‘ حرف مشبہ بالفعل ’’ کَ‘‘ ضمیر اس کا اسم ’’ اِذَا‘‘ حرفِ جواب و جزا۔ لیکن یہاں یہ فہملہ ہے ‘ حرفِ قسم کی تاکید کے لیے آیا ہے۔ ’’ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ میں ’’ ل‘‘ مزحلقہ۔ ’’ مِنْ ‘‘ حرفِ جر ’’ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ مجرور اور یہ متعلق ہے اِنَّ کی خبر کے جو محذوف ہے۔ ’’ اِنَّ ‘‘ اپنے اسم اور خبر سے مل کر جوابِ قسم ہے‘ جوابِ شرط (جزائ) نہیں ہے‘ ورنہ تو اس پر ’’ فاء ‘‘ کا استعمال کیا جاتا ۔

 (نوٹ) جیسا کہ ابھی ابھی گزار ہے کہ کسی جملہ میں اگر شرط اور قسم دونوں آ جائیں تو ان میں سے جو مقدم ہو گا تو بعد والا جملہ اس کا جواب ہو گا۔ اگر شرط پہلے ہے تو بعد کا جملہ جزاء ہو گا اور اس پر جزاء والے احکام لاگو ہوں گے۔ اور اگر قسم پہلے ہو تو بعد کا جملہ جوابِ قسم ہو گا اور اس پر جوابِ قسم کے احکام جاری ہونگے۔

 نوٹ : (1) اس آیت میں بھی انداز وہی ہے کہ خطاب نبی ﷺ سے ہے لیکن دراصل وارننگ ہم لوگوں کو دی گئی ہے۔

 (2) : اس آیت میں بھی ’’ اَھْوَائَ ھُمْ‘‘ اور ’’ مِنَ الْعِلْمِ‘‘ کا تقابلی مطالعہ ہماری راہنمائی اس حقیقت کی جانب کر رہا ہے کہ subjective thinking کے نتیجہ میں انسان جو عقائد اور نظریات قائم کرتا ہے‘ ان پر سائنٹیفک ریسرچ کے خواہ کتنے ہی ردے چڑھا لے‘ لیکن بہرحال وہ خواہشات ہی ہوتے ہیں۔ علم حاصل کرنے کا راستہ صرف ایک ہے‘ اور وہ یہ کہ علمِ وحی کی روشنی میں انسان اپنی objective thinking کی صلاحیت کو استعمال کرے۔ یہ بھی نوٹ کرلیں کہ اس راستے کی ضرورت و اہمیت فزیکل سائنس سے زیادہ سوشل سائنس میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں آج آسمان سے تارے توڑ کر لا رہی ہیں‘ سوشل سائنس میں وہی قومیں آج ترقی ٔ معکوس کا شکار ہیں۔ انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لیے اس حقیقت کا ادراک کرنا اور اس کا اعتراف کرنا ازبس ضروری ہے۔ اس ضمن میں آج کے ’’ اہل کتاب‘‘ یعنی امت وسط کی ذمہ داری دوچند ہے ‘ کیونکہ اب علمِ وحی ہمارے پاس ہے۔ اگر ہم نے اپنا فریضہ سرانجام نہ دیا تو میدان حشر میں ہم شُہَداء عَلَی النَّاسِ کا فریضہ سرانجام نہیں دے سکیں گے اور بقول مولانا مودودی (رح)  اللہ تعالیٰ ہم سے پوچھے گا کہ جب دنیا میں معصیت‘ ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا تو تم کہاں مر گئے تھے۔ اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ ۭ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ   ١٤٦؀۩
(اَ لَّذِیْنَ : وہ لوگ ) (اٰتَیْنٰھُمُ : ہم نے دی جن کو ) (الْکِتٰبَ : کتاب) (یَعْرِفُوْنَــہٗ : وہ لوگ پہچانتے ہیں اس کو) (کَمَا : جیسے کہ ) (یَعْرِفُوْنَ : وہ پہچانتے ہیں ) (اَبْنَائَ ھُمْ : اپنے بیٹوں کو) (وَاِنَّ : اور یقینا) (فَرِیْقًا : ایک ایسا فریق) (مِّنْھُمْ : ان میں ہے ) (لَـیَکْتُمُوْنَ : جو چھپاتا ہے ) (الْحَقَّ : حق کو ) (وَھُمْ : اس حال میں کہ وہ لوگ ) (یَعْلَمُوْنَ: جانتے ہیں)



ترکیب : ’’ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ

اَبْنَائَ ھُمْ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم ’’ فَرِیْقًا‘‘ ہے جو نکرہ موصوفہ ہے۔ ’’ مِنْھُمْ‘‘ جار مجرور متعلق ’’ کَائِنًا‘‘۔ ’’ کَائِنًا‘‘ اپنے متعلق سے مل کر ’’ فَرِیْقًا‘‘ کی صفت ہے۔ ’’ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ‘‘ میں ’’ ل‘‘ مزحلقہ ’’ یَکْتُمُوْنَ فعل یا فاعل ’’ الْحَقَّ‘‘ مفعول بہ ۔ ’’ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ‘‘ میں وائو حالیہ ’’ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ‘‘ جملہ فعلیہ حال۔ فعل+فاعل + مفعول بہ مل کر ان کی خبر۔

 نوٹ (1) : ’’ یَعْرِفُوْنَہٗ‘‘ میں ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر کو حضور ﷺ کے لیے بھی مانا گیا ہے‘ قرآن کے لیے بھی مانا گیا ہے اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ قبلہ کے طور پر بیت اللہ کے لیے ہے۔ میرے خیال میں یہ ضمیر ان سب کی جامع ہے ‘ کیونکہ حضور ﷺ کو انہی علامتوں سے پہچانا جاتا تھا اور اہل کتاب نے انہی علامتوں کے ذریعے حضور ﷺ کو اس طرح پہچان لیا تھا جیسے کوئی اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے۔ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ   ١٤٧؁ۧ
(اَلْحَقُّ : (یہ ہی) حق ہے ) ( مِنْ رَّبِّکَ : آپؐ کے رب کی طرف سے) (فَلَا تَـکُوْنَنََّ: پس آپؐ ہرگز نہ ہوں) (مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ: شک کرنے والوں میں سے)



م ری

 مَریٰ (ض) مِرْیَۃً : شک کی وجہ سے جھگڑا کرنا۔

 مِرْیَۃٌ ( اسم ذات ) : شک‘ شبہ ۔ {فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ ق} (ھود:17) ’’ تو آپؐ نہ ہوں کسی شبہ میں اس سے۔‘‘

 مَارٰی (مفاعلہ) مِرَائً : ایک دوسرے سے جھگڑنا۔ {اِنَّ الَّذِیْنَ یُمَارُوْنُ فِی السَّاعَۃِ لَفِیْ ضَلٰلٍ بَعِیْدٍ ۔ } (الشوریٰ) ’’ بیشک جو لوگ جھگڑتے ہیں اس گھڑی میں (یعنی قیامت کے بارے میں ) وہ دور کی گمراہی میں ہیں۔‘‘

 لَا تُمَارِ (فعل نہی) : تو مت جھگڑ۔ {فَلَا تُمَارِ فِیْھِمْ اِلاَّ مِرَائً ظَاھِرًاص} (الکہف:22) ’’ پس تو مت جھگڑ ان میں مگر ظاہری جھگڑنا (یعنی سرسری اختلاف ظاہر کردینا)‘‘

 تَمَارٰی (تفاعل) تَمَارًا : باہم کسی پر یا کسی چیز میں شک کرنا‘ جھگڑا کرنا۔ {وَلَقَدْ اَنْذَرَھُمْ بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ ۔ } (القمر) ’’ اور اس نے خبردار کیا ان کو ہماری پکڑ سے تو ان لوگوں نے جھگڑا کیا خبردار کرنے میں۔‘‘

 اِمْتَرٰی (افتعال) اِمْتِرَائً : اہتمام سے جھگڑا کرنا‘ شک کرنا۔ {اِنَّ ھٰذَا مَا کُنْتُمْ بِہٖ تَمْتَرُوْنَ ۔ } (الدُّخان) ’’ بیشک یہ وہ ہے جس میں تم لوگ شک کیا کرتے تھے۔‘‘

 مُمْتَرٍ (اسم الفاعل) : شک کرنے والا‘ جھگڑا کرنے والا ( آیت زیر مطالعہ)

 ترکیب : ’’ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ‘‘ کی ترکیب میں میرا ذہن مولانا اصلاحی کی رائے کو ترجیح دیتا ہے کہ ’’ اَلْحَقُّ‘‘ خبر معرف باللام ہے۔ اس کا مبتدأ اور ضمیر فاعل دونوں محذوف ہیں۔ پورا جملہ اس طرح ہوتا: ’’ ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ‘‘ جبکہ ’’ مِنْ رَّبِّکَ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ لَا تَــکُوْنَنَّ‘‘ واحد مذکر مخاطب کے صیغے میں ’’ یَکُوْنُ‘‘ کا فعل نہی ہے‘ نون ثقیلہ کے ساتھ۔ اس کا فاعل اس میں شامل ’’ اَنْتَ‘‘ کی ضمیر ہے۔ ’’ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ‘‘ دراصل اس کا مفعول تھا لیکن اس پر ’’ مِنْ‘‘ داخل ہونے کی وجہ سے اب متعلق فعل کہلائے گا۔ وَلِكُلٍّ وِّجْهَةٌ ھُوَ مُوَلِّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ڲ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١٤٨؁
( وَلِکُلٍّ : اور سب کے لیے ) ( وِّجْھَۃٌ : توجہ کرنے کی کچھ سمتیں ہیں ) ( ھُوَ : وہ ) ( مُوَلِّیْھَا : پھیرنے والا ہے (خود کو) اس کی طرف ) ( فَاسْتَـبِقُوا : پس تم لوگ آگے نکلنے کا مقابلہ کرو ) ( الْخَیْرٰتِ : بھلائیوں میں ) ( اَیـْنَ مَا : جہاں کہیں بھی ) (تَــکُوْنُوْا : تم لوگ ہو گے ) ( یَاْتِ بِکُمُ اللّٰہُ : اللہ لے آئے گا تم لوگوں کو ) ( جَمِیْعًا : سب کے سب کو ) ( اِنَّ اللّٰہَ : بیشک اللہ ) ( عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ : ہر چیز پر ) ( قَدِیْرٌ: قدرت رکھنے والا ہے )



وَجَہَ (ض) وَجْھًا فُلَانًا : مُنہ پر مارنا اور رد کرنا۔ لوگوں کے نزدیک وجاہت میں بڑھ جانا۔

 وَجُہَ (ک) وَجَاھَۃً : وجیہہ ہونا‘ صاحب وجاہت ہونا۔

 وَجَّہَ اِلٰی فُلَانٍ : کسی کے پاس جانا ۔ ہٗ اِلٰی فُلَانٍ : کسی کے پاس بھیجنا۔ ہُ الاَمِیرُ : باعزت بنانا۔ وَجَّہَ الشَّیْ ئَ : کسی طرف پھیردینا۔ {وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ} (الانعام:79) ’’ میں نے اپنا چہرہ پھیر لیا اس ہستی کی طرف جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا‘‘۔

 تَوَجَّہَ اِلَــیْہِ : متوجہ ہونا اور قصد کرنا۔

 اَلْوَجْہُ : چہرہ ۔ ج اَوْجُہٌ وَوُجُوْہٌ وَاُجُوْہٌ۔

 ’’ وِجْھَـۃٌ‘‘ مصدر بمعنی قبلہ یا اسم مکان ہے۔ یعنی وہ سمت جس کی طرف رُخ کیا جائے۔ اوّل صورت میں ’’ واو‘‘ کا موجود ہونا غیر قیاسی ہے۔ قیاس کا تقاضا ہے کہ اس کو حذف کردیا جائے ‘ لیکن صرف اصل پر تنبیہہ کرنے کے لیے باقی رکھا گیا ہے ۔ دوسری صورت میں ’’ واو ‘‘ کا بقاقیاسی ہے‘ مراد ہر دو صورتوں میں وہ سمت ہے جس کی طرف رُخ کیا جائے۔

س ب ق

 سَبَقَ (ض) سَبْقًا : تیز چلنا‘ آگے نکلنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے: (1) کسی بات کا آگے نکلنا ‘ یعنی بات کا طے ہو جانا‘ فیصلہ ہو جانا۔ {وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ اور آگے نکل چکا ہے ہمارا فرمان (یعنی ہمارا فیصلہ ہو چکا ہے ) ہمارے بھیجے ہوئے بندوں (یعنی رسولوں) کے لیے۔‘‘ (2) کسی کی پکڑ سے آگے نکلنا‘ یعنی بھاگ نکلنا۔ {وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْاط} (الانفال:59) ’’ اور ہرگز گمان نہ کریں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہ وہ لوگ بھاگ نکلے۔‘‘ (3) کسی کام میں آگے نکلنا ‘ یعنی پہل کرنا‘ سبقت کرنا۔ {لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَا اِلَیْہِط} (الاحقاف:11) ’’ اگر وہ ہوتابہتر تو وہ لوگ ہم پر سبقت نہ کرتے اس کی طرف۔‘‘ (4) کسی کی بات سے آگے نکلنا ‘ یعنی حکم عدولی کرنا‘ نافرمانی کرنا۔ {لاَ یَسْبِقُوْنَــہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ ۔ } (الانبیائ) ’’ وہ لوگ نافرمانی نہیں کرتے اس کی بات میں اور وہ لوگ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔‘‘

 سَابِقٌ (اسم الفاعل) : آگے نکلنے والا۔ {وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِط} (یسٓ:40) ’’ اور نہ رات دن کے آگے نکلنے والی ہے۔‘‘

 مَسْبُوْقٌ (اسم المفعول) : جس کی گرفت سے نکلا گیا ‘ یعنی بےبس کیا ہوا‘ عاجز کیا ہوا۔ {وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ ۔ } (الواقعۃ) ’’ اور ہم عاجز کیے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘

 سَابَقَ (مفاعلہ) مُسَابَقَۃً : دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنا‘ لپکنا۔

 سَابِقْ (فعل امر) : تو آگے نکل ‘ تو لپک ۔ {سَابِقُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ} (الحدید:21) ’’ تم لوگ لپکو اپنے رب سے مغفرت کی طرف اور جنت کی طرف۔‘‘

 اِسْتَـبَقَ (افتعال) اِسْتِبَاقًا : اہتمام سے آگے نکلنا ‘ یعنی آگے نکلنے کا مقابلہ کرنا‘ دوڑ لگانا۔ {اِنَّا ذَھَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا} (یوسف:17) ’’ بیشک ہم گئے کہ ہم دوڑ لگاتے ہیں اور ہم نے چھوڑا یوسف (ں) کو اپنے سامان کے پاس۔‘‘

 ترکیب : اس میں ’’ واو‘‘ استیناف ہے۔ ’’ وِجْھَۃٌ‘‘ مبتدأ نکرہ ہے۔ اس کی خبر ’’ مَوْجُوْدٌ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ لِکُلٍّ‘‘ متعلق خبر تھا جو اَب قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ ھُوَ‘‘ مبتدأ اور ’’ مُوَلِّیْھَا‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ مُوَلِّیْھَا‘‘ میں اسم الفاعل ’’ مُوَلٍّ‘‘ آیا ہے۔ مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ختم ہوئی تو ’’ مُوَلِّیْ‘‘ ہوا۔ یہاں پر اسم الفاعل فعل کا کام کر رہا ہے جو دو مفعول کا تقاضا کرتا ہے۔ پورا جملہ اس طرح ہوتا: ’’ ھُوَ مُوَلٍّ نَفْسَہٗ اِلٰی تِلْکَ الْوِجْھَۃِ‘‘۔ چونکہ دونوں مفعول ’’ نَفْسٌ‘‘ اور ’’ وِجْھَۃٌ‘‘ کی ضمیریں مضاف الیہ کے طور پر آئی ہیں اس لیے مفعول اوّل ’’ نَفْسٌ‘‘ کی ضمیر کو محذوف کردیا گیا۔ یا تقدیر عبارت یوں ہے : ’’ لِکُلٍّ قِبْلَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا وِجْھَہٗ‘‘۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ ’’ ھُوَ‘‘ ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہو۔ اس صورت میں تقدیر عبارت یوں ہو گی: ’’ اَللّٰہُ مُوَلِّیْھَا اِیَّاہُ‘‘۔ ’’ فَاسْتَبِقُوْا‘‘ فعل امر ہے۔ اس کا فاعل اس میں ضمیر مرفوع متصل واو ہے۔ ’’ اَلْخَیْرٰتِ‘‘ اس کا مفعول ہے ‘ لیکن ’’ فَاسْتَبِقُوْا‘‘ کو فعل لازم ہونے کی بنا پر مفعول کی ضرورت نہیں۔ اس کو پہلے حرفِ جر ’’ اِلٰی‘‘ کے ذریعہ متعدی کیا گیا ۔ عبارت یوں ہے : ’’ فَاسْتَبِقُوْا اِلَی الْخَیْرٰتِ‘ ‘ ۔ بعد میں ’’ اِلٰی‘‘ کو حذف کردیا گیا اور ’’ اَلْخَیْرَاتِ‘‘ کو منصوب کردیا گیا اور یہ منصوب علیٰ نزع الخافض ہے۔ ’’ اَیْنَمَا‘‘ اسم شرط جازم منصوب علی الظرفیۃ المکانیۃ ہے۔ ’’ تَکُوْنُوْا‘‘ فعل شرط مجزوم ’’ واو‘‘ اس کا فاعل ’’ یَاْتِ‘‘ جواب شرط فعل اور لفظ ’’ اللہ ‘‘ فاعل ’’ بِکُمْ‘‘ جار مجرور متعلق ’’ یَاْتِ‘‘ ’’ جَمِیْعًا‘‘ حال ہے ’’ کُمْ‘‘ ضمیر سے۔ {اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ} میں ’’ اِنَّ‘ ‘ حرف مشبہ بالفعل ‘ لفظ ’’ اللہ ‘‘ اس کا اسم ’’ قَدِیْرٌ‘‘ خبر اور ’’ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ‘‘ متعلق ’’ قَدِیْرٌ‘‘ کے ہے۔ یہ جملہ اسمیہ تعلیلیہ ہے۔ ’’ لَا مَحْلَ لَھَا مِنَ الْاَعْرَابِ‘‘ ۔ ’’ تَــکُوْنُوْا‘‘ شرط ہونے کی وجہ سے اور ’’ یَاْتِ‘‘ جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے حالت جزم میں ہیں۔

 نوٹ (1) : اس آیت میں ہماری راہنمائی کی گئی ہے کہ ہر ایک نے اپنا اپنا قبلہ بنایا ہوا ہے اور وہ اُدھر ہی رُخ کرے گا۔ اس لیے اپنے قبلہ کی برتری ثابت کرنے کے لیے بحث و مباحثہ میں وقت ضائع مت کرو‘ کیونکہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ پس یہی وقت بھلائی کے کاموں میں صرف کرو اور اس میدان میں اپنے مدّمقابل سے آگے نکلنے کا مقابلہ کرو۔ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ وَاِنَّهٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ    ١٤٩؁
(وَمِنْ حَیْثُ : اور جہاں سے ) (خَرَجْتَ : آپؐ نکلیں) (فَوَلِّ : تو آپ ؐ پھیریں) (وَجْھَکَ : اپنے چہرے کو) (شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام کی طرف) (وَاِنَّــہٗ : اور بیشک یہ) (لَلْحَقُّ : حق ہے ) (مِنْ رَّبِّکَ : آپؐ کے رب کی جانب سے) (وَمَا اللّٰہُ : اور اللہ نہیں ہے ) (بِغَافِلٍ : غافل ) (عَمَّا: اس سے جو ) ( تَعْمَلُوْنَ : تم لوگ کرتے ہو)



 ترکیب :’’ واو‘‘ استیناف ’’ مِنْ ‘‘ حرف ِجر ’’ حَیْثُ‘‘ مجرور۔ جار مجرور متعلق ’’ فَوَلِّ‘‘ (متأخر) لیکن ’’ فَوَلِّ‘‘ کو متعلق ماننے سے لازم آتا ہے اعمال ’’ مَا بَعْدَ الْفَائِ فِیْمَا قَبْلَھَا وَھُوَ مُمْتَنِعٌ فَالْاَوْلٰی تَعْلِیْقُھُمَا بِفِعْلٍ مَحْذُوْفٍ یُفَسِّرُہٗ فَوَلِّ اَیْ وَلِّ وَجْھَکَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ‘‘ (خَرَجْتَ) فعل و فاعل‘ والجملۃ الفعلیۃ فی محل جر بالاضافۃ۔ ’’ فَوَلِّ‘‘ فاء رابطہ ہے‘ کیونکہ ’’ حَیْثُ‘‘ میں معنی شرط کا موجود ہے۔ ’’ وَلِّ‘‘ فعل امر‘ اس میں ضمیر اس کا فاعل ’’ وَجْھَکَ‘‘ مفعول بہ۔ ’’ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ ظرفِ مکان متعلق ’’ وَلِّ‘‘ کے۔ ’’ وَاِنَّــہٗ‘‘ میں ’’ واو ‘‘ عاطفہ یا حالیہ ’’ ہ‘ ‘ ضمیر اس کا اسم ’’ لَلْحَقُّ‘‘ میں لامِ مزحلقہ ’’ الْحَقُّ‘‘ خبر ’’ مِنْ رَّبِّکَ‘‘ جار مجرور متعلق محذوف ’’ کَائِنًا‘‘ جو حال ہے ’’ الْحَقُّ‘‘ سے۔

 نوٹ (1) : آپ پڑھ چکے ہیں کہ لامِ تعریف پر جب لامِ جارّہ (لِ) داخل ہوتا ہے تو لامِ تعریف کا ہمزۃ الوصل لکھنے میں گر جاتا ہے۔ جیسے ’’ لِلْمُتَّقِیْنَ‘‘۔ اسی طرح سے لامِ تعریف پر جب لامِ تاکید (لَ) داخل ہوتا ہے تب بھی ہمزۃ الوصل لکھنے میں گر جاتا ہے۔ اس حوالے سے نوٹ کریں کہ ’’ لَلْحَقُّ‘‘ دراصل ’’ لَ الْحَقُّ‘‘ تھا جو ’’ لَلْحَقُّ‘‘ لکھا گیا ہے۔ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَهٗ ۙ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّــةٌ ڎ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ ۤ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِيْ ۤ وَلِاُتِمَّ نِعْمَتِىْ عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ    ١٥٠؀ڒ
(وَمِنْ حَیْثُ : اور جہاں سے ) (خَرَجْتَ: آپؐ نکلیں) (فَوَلِّ : تو آپؐ پھیریں) (وَجْھَکَ : اپنے چہرے کو) (شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام کی طرف) (وَحَیْثُ مَا: اور جہاں کہیں بھی) (کُنْتُمْ : تم لوگ ہو) (فَوَلُّوْا: تو تم لوگ پھیرو) (وُجُوْھَکُمْ : اپنے چہروں کو) (شَطْرَہٗ : اس کی طرف) (لِئَلاَّ یَکُوْنَ : تاکہ نہ ہو) (لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے

عَلَیْکُمْ: تم لوگوں پر) (حُجَّۃٌ : کوئی حجت) (اِلاَّ الَّذِیْنَ : سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے) (ظَلَمُوْا: ظلم کیا

مِنْھُمْ : ان میں سے) (فَلَا تَخْشَوْھُمْ : پس تم لوگ مرعوب مت ہو ان لوگوں سے) (وَاخْشَوْنِیْ : اور مرعوب ہو مجھ سے) (وَلِاُتِمَّ : اور تاکہ میں تمام کروں) (نِعْمَتِیْ : اپنی نعمت کو) (عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر) (وَلَــعَلَّکُمْ : اور شاید کہ تم لوگ) (تَھْتَدُوْنَ : ہدایت پائو)



 ترکیب : ’’ لِئَلاَّ‘‘ میں لامِ تعلیل ’’ اَلَّا‘‘ میں ’’ اَنْ ‘‘ ناصبہ اور ’’ لَا‘‘ نافیہ ’’ یَکُوْنَ‘‘ فعل ناقص ’’ لِلنَّاسِ‘‘ جار مجرور متعلق خبر محذوف ’’ عَلَیْکُمْ‘‘ جار مجرور متعلق ’’ قائمۃً‘ ‘ محذوف جو حال ہے۔ ’’ عَلَیْکُمْ‘‘ اگرچہ ’’ حُجَّۃٌ‘‘ کی صفت ہے لیکن مقدم ہونے کی وجہ سے اس کو بجائے صفت کے حال بنا دیا گیا ہے (کَمَا ھِیَ القَاعِدَۃُ) ’’ حُجَّۃٌ‘‘ اسم ہے ’’ یَکُوْنَ‘‘ کا۔ ’’ اِلاَّ‘‘ حرف استثناء ’’ الَّذِیْنَ‘‘ موصول ’’ ظَلَمُوْا‘‘ فعل ’’ واو ‘‘ فاعل ’’ مِنْھُمْ‘‘ جار مجرور متعلق کَائِنِیْنَ حال ہے واو ضمیر سے۔ یہ صلہ ہے۔ موصول+صلہ مستثنیٰ۔ مستثنیٰ منہ ’’ النَّاس‘‘ ہے۔ ’’ فَلَا تَخْشَوْھُمْ‘‘ میں الفاء ھی الفصیحۃ ای اذا عرفتم ذالک ورسخت حقیقتہ فی نفوسکم۔ ’’ لاَ‘‘ نَاھِیَۃ ’’ تَخْشَوْھُمْ‘‘ میں ’’ تَخْشَوْا‘‘ فعل ’’ واو‘‘ ضمیر فاعل ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مفعول۔ ’’ وَاخْشَوْنِیْ‘‘ میں ’’ واو‘‘ عاطفہ ’’ اخْشَوْا‘‘ فعل+بافاعل ‘ ’’ ن‘‘ وقایہ ’’ ی‘‘ ضمیر مفعول بہ۔ ’’ وَلِاُتِمَّ ‘‘ میں ’’ واو‘‘ عاطفہ ’’ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ‘‘ جملہ فعلیہ عطف ہے لِئَلَّایَکُوْنَ … پر۔

 نوٹ (1) : تحویل قبلہ کا حکم یہودیوں پر بہت بھاری تھا۔ ان کی معزولی کے تابوت میں یہ آخری کیل تھا۔ اس لیے وہ اپنی تمام تر ذہانت اور فطانت کو بروئے کار لا کر ہر قسم کے اعتراضات کر رہے تھے اور وسوسہ اندازی کا کاروبار بھی پورے زور و شور سے جاری تھا۔ کچھ سادہ لوح صحابہ کرام (رض) کا اس طوفان سے متاثر ہو جانا ایک فطری بات تھی۔ ان کے اطمینانِ قلب کے لیے تحویل قبلہ کے حکم کی تکرار کی گئی ہے۔

 نیز ’’ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ‘‘ کے ساتھ ’’ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ‘‘ کے الفاظ لا کر اس بات کو کھول دیا گیا کہ یہ حکم جو حضور ﷺ کو دیا گیا ہے وہی حکم پوری امت کے لیے بھی ہے۔ اُصول یہ ہے کہ جو حکم حضور ﷺ کو دیا گیا ہے وہی حکم پوری امت کے لیے بھی ہے‘ لیکن تحویلِ قبلہ کے حکم کو اِس اصول پر نہیں چھوڑا گیا تاکہ آگے چل کر تعیین قبلہ کے ضمن میں کوئی مین میخ نکالنے کی یا اگرچہ‘ مگر چہ‘ چنین کہ ‘ چنانچہ کی دھونی رمانے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ مثلاً کوئی ریسرچ سکالر یہ دُور کی کوڑی لا سکتا تھا کہ چونکہ حضور ﷺ نے بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھی ہے اور بیت اللہ کی طرف بھی‘ اس لیے دونوں میں سے کسی طرف رُخ کرلیا جائے درست ہو گا۔ سچی بات یہ ہے کہ ایک دانشور دوست سے اس نکتہ پر میری بات ہو چکی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم لوگ اپنے ملّا پن سے باز آ جائیں ‘ ذرا سی وسیع النظری کا مظاہرہ کریں تو عالمی امن میں انقلاب آ جائے گا اور پاکستان کو ہونے والے فوائد کا شمار کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس کی دلیلِ قاطع سورۃ البقرۃ کی آیت 143 ہے: {وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ… الی آخر الآیۃ}

 بہرحال یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ تحویل قبلہ کے ضمن میں سورۃ البقرۃ کی آیت 142 سے اس آیت تک تکرار‘ تاکید اور وضاحت کا جو انداز اختیار کیا گیا ہے اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس نوعیت کی حجت و تکرار کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے جائیں۔

 نوٹ (2) : دوسروں کے نظریات اور طرزِ زندگی کو ترقی یافتہ سمجھنا جبکہ اسلامی نظریات اور طرزِ زندگی کو فرسودہ قرار دے کر موجودہ زمانے میں ناقابلِ عمل سمجھنا دراصل ایک ذہنی بیماری ہے جو عمل میں بھی سرایت کر جاتی ہے۔ اس قسم کی ذہنی مرعوبیت سے‘ اس آیت میں‘ بالکل دو ٹوک الفاظ میں منع فرمایا گیا ہے اور{ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِیْ} کا یہی مطلب ہے‘ کیونکہ یہ آیت صرف صحابہ کرام (رض) کے لیے ہی نہیں آئی تھی بلکہ ہمارے اور آپ کے لیے بھی آئی ہے۔

 اس حکم کے ساتھ ہی ہمارے رب نے ایک وعدہ بھی کیا ہے کہ کوئی قوم جب کبھی بھی ’’ وَاخْشَوْنِیْ‘‘ پر عمل کرے گی تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر اپنی نعمت تمام کر دے گا۔ غور کریں کہ ’’ اُتِمُّ‘‘ (میں تمام کرتا ہوں یا کروں گا) کہنے کے بجائے ’’ لِاُتِمَّ‘‘ (تاکہ میں تمام کروں) فرمایا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اتمام نعمت کا وعدہ ’’ وَاخْشَوْنِیْ‘‘ کے حکم کے ساتھ مشروط ہے۔

 میں نے اپنے دانشور دوست کے سامنے تصویر کا یہ رُخ رکھ کر انہیں دعوت دی کہ ہمارے دانشور لوگ اگر ذہنی غلامی سے آزادی حاصل کر کے ’’ وَاخْشَوْنِیْ‘‘ پر عمل پیرا ہو نے پر آمادہ ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ پاکستان پر اپنی نعمت تمام کر دے گا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ ہمارے دوست کم از کم ایک مرتبہ غور تو کرلیں کہ اس وقت پاکستان کو کتنے فوائد حاصل ہوں گے‘ لیکن وہ اپنے قبلہ سے رُخ پھیرنے پر آمادہ نہ ہوئے اور ’’ ھُوَ مُوَلِّیْھَا‘‘ کا عملی مظاہرہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اِس کے ساتھ ہی اِس آیت میں ’’ قِبْلَۃٌ‘‘ کے بجائے ’’ وِجْھَۃٌ‘‘ کا لفظ لانے کی حکمت بھی سمجھ میں آ گئی۔ ہماری کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ وہ برا وقت‘‘ آنے سے پہلے ہی‘ محض اس کی دہشت سے‘ ہمارے دوست ویزا لے کر کینیڈا چلے گئے۔ ’’ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘۔ یہ دراصل Brain Drain کا لطیف ترجمہ ہے۔ Drain کے لفظی معنی بیان کرنے سے ترجمہ کثیف ہو جاتا ہے۔ كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ    ١٥١؀ړ
(کَمَا : جیسا کہ ) (اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا ) (فِیْکُمْ : تم لوگوں میں) (رَسُوْلًا: ایک ایسا رسول) (مِّنْکُمْ : تم لوگوں میں سے) (یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ : جو پڑھ کر سناتا ہے تم لوگوں کو) (اٰیٰتِنَا : ہماری آیات) (وَیُزَکِّیْکُمْ: اور جو تزکیہ کرتا ہے تم لوگوں کا) (وَیُعَلِّمُکُمُ : اور جو تعلیم دیتا ہے تم لوگوں کو) (الْکِتٰبَ : احکام کی ) (وَالْحِکْمَۃَ : اور حکمت کی ) (وَیُعَلِّمُکُمْ : اور جو تعلیم دیتا ہے تم لوگوں کو) ( مَّا: اس کی جو ) ( لَمْ تَــکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ : تم لوگ نہیں جانتے تھے)



 ’’ کَمَا‘‘ میں ’’ کَ ‘‘ حرفِ جار ’’ ما‘‘ مصدریہ ’’ اَرْسَلْنَا‘‘ فعل فاعل ’’ فِیْکُمْ‘‘ جار مجرور متعلق ’’ اَرْسَلْنَا‘‘ ’’ رَسُوْلاً‘‘ مفعول بہ ’’ مِنْکُمْ‘‘ جار مجرور متعلق کائنًا صفت اوّل ’’ رَسُوْلاً‘‘ کی۔ ’’ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیَاتِنَا‘‘ یہ جملہ فعلیہ صفت دوم ’’ وَیُزَکِّیْکُمْ‘‘ صفت سوم۔ ’’ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ صفت چہارم۔ ’’ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَـکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘ صفت پنجم۔ ’’ اَرْسَلْنَا‘‘ فعل ‘ فاعل ‘ مفعول بہ اور متعلق سے مل کر جملہ فعلیہ بتاویل مصدر ہو کر مصدر محذوف ’’ ھِدَایَۃً‘‘ کی صفت ہو کر محل نصب میں ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہے : ’’ لَعَلَّـکُمْ تَھْتَدُوْنَ ھِدَایَۃً کَاِرْسَالِنَا رَسُوْلًا مِّنْکُمْ‘‘ ۔

 نوٹ (1) : آیت زیر مطالعہ کی ابتدا لفظ ’’ کَمَا‘‘ (جیسا کہ) سے ہوئی ہے۔ اس کا ربط گزشتہ آیت کے آخری حصے سے ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تاکہ میں تم لوگوں پر اپنی نعمت تمام کروں اور تاکہ تم لوگ ہدایت پائو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضور ﷺ کی بعثت انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا ایک احسانِ عظیم ہے اور انسانیت کی ہدایت کے لیے ہے اسی طرح تحویل قبلہ کا حکم بھی اللہ کا احسان ہے اور ہماری ہدایت کے لیے ہے۔

 نوٹ (2) : اس آیت کا مفہوم گزشتہ آیت 129 میں واضح کردیا گیا ہے۔ لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس حقیقت کو ایک مرتبہ پھر ذہن نشین کرلیا جائے کہ اسلام کے تجویز کردہ تزکیہ کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات کی تلاوت اس طرح کی جائے جیسا کہ ان کی تلاوت کا حق ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : {یَتْلُوْنَـہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط} (البقرۃ:121) ۔ باقی طریقے دیگر مذاہب سے مستعار لے کر مسلمان کیے گئے ہیں۔ نظریات و عقائد کے تزکیہ کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ممکن ہوتا ہے اور احکام کی حکمت عمل کے بعد سمجھی جاتی ہے۔

 دنیاوی معاملات میں تو کسی کام کی حکمت سمجھنے کے بعد اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا درست طریقہ کار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مختلف طریقہ ہائے کار میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا ہمیں اختیار اور آزادی حاصل ہے‘ یعنی ہمارے پاس Choice ہے‘ لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے کے بعد اس کے احکام کے ضمن میں ہماری Choice ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے احکامِ الٰہی کے لیے یہی ترتیب درست ہے کہ پہلے ان پر عمل کیا جائے اور بعد میں ان کی حکمت سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ   ١٥٢؁ۧ
(فَاذْکُرُوْنِیْ : پس تم لوگ یاد کرو مجھ کو) (اَذْکُرْْکُمْ : تو میں یاد رکھوں گا تم لوگوں کو) (وَاشْکُرُوْا لِیْ: اور تم لوگ شکر ادا کرو میرا) ( وَلَا تَــکْفُرُوْنِ : اور تم لوگ ناشکری مت کرو میری)



 ترکیب: ’’ فائ‘‘ فصیحۃ ای اذا شئتم الاھتداء الی محجۃ الصواب فاذکرونی‘‘ ۔ ’’ اذْکُرُوْنِیْ‘‘ فعل امر مبنی علی حذف النون۔’’ واو‘‘ فاعل’’ ن‘‘ وقایہ ’’ یائ‘‘ ضمیر متکلم مفعول بہ۔ ’’ اَذْکُرْکُمْ‘‘ فعل مضارع مجزوم جواب امر ہونے کی بنا پر۔ فاعل ’’ اَنَا‘‘ ضمیر مستتر۔ ’’ کُمْ‘‘ ضمیر مفعول بہ۔ ’’ وَاشْکُرُوْالِیْ‘‘ عطف ہے ’’ اذْکُرُوْنِیْ‘‘ پر۔ فعل ’’ شَکَرَ‘‘ متعدی بلاواسطہ اور کبھی متعدی بواسطہ حرف الجر ہوتا ہے۔ ’’ لِیْ‘‘ جار مجرور متعلق ’’ اشْکُرُوْا‘‘ ۔ ’’ وَلَا تَکْفُرُونِ‘‘ میں’’ واو‘‘ حرف عطف ’’ لاَ‘‘ ناہیہ’’ تَکْفُرُوْا‘‘ فعل۔ ’’ واو‘‘ ضمیر اس کا فاعل۔’’ ن‘‘ وقایہ’’ ی‘‘ ضمیر متکلم مفعول بہ۔

 نوٹ (1) : بہت عرصہ پہلے ایک کتابچہ ’’ ذکر اللہ‘‘ پڑھا تھا جو مفتی محمد شفیع صاحب (رح)  کی تحریر تھی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص زبان سے سبحان اللہ کی تکرار کر رہا ہے لیکن اس کا دماغ اور دل کہیں اور مصروف ہے۔ یہ شخص ان سے تو بہتر ہے جن کی زبان کسی قسم کی بدگوئی میں مصروف ہے‘ لیکن اس کا یہ عمل ذکر اللہ نہیں ہے ‘ بلکہ ذکر کا ذریعہ ہے۔ دوسرا شخص زبان سے الحمد للہ کی تکرار کر رہا ہے‘ اس کا ذہن بھی متوجہ ہے لیکن دل شکر کے جذبات سے خالی ہے۔ یہ پہلے شخص سے بہتر ہے ‘ لیکن یہ بھی ابھی ’’ ذریعۂ ذکر‘‘ میں ہے۔ تیسرا شخص اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں سے پھوٹ بہنے والے جذبۂ شکر کے اظہار کے لیے زبان سے الحمد للہ کی تکرار کر رہاہے۔ یہ سب سے بہتر ہے ‘ لیکن یہ بھی ابھی ذکر اللہ کی منزل تک نہیں پہنچا ہے۔ صحیح جذبات و کیفیات کے ساتھ اللہ کو یاد کرنے والے کلمات کی زبان سے تکرار کرنے کے نتیجے میں جب کسی کو معاملات کرتے وقت اللہ کے احکام یاد آنے لگیں اور وہ ان پر عمل کرے‘ تو یہ ذکر

 اللہ ہے۔ اس حوالے سے اب آپ ’’ فَاذْکُرُوْنِیْ‘‘ کا مفہوم سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کی

کوشش کریں۔

 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اس نے اللہ کو یاد کیا‘ اگرچہ اس کی نماز‘ روزہ (نفلی) وغیرہ کم ہوں ۔ اور جس نے احکامِ خداوندی کی خلاف ورزی کی اس نے اللہ کو بھلا دیا‘ اگرچہ اس کی نماز‘ روزہ (نفلی)‘ تسبیحات وغیرہ زیادہ ہوں۔ (معارف القرآن) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ  ۭاِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ    ٥٣؁
(یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو !) (اسْتَعِیْنُوْا : تم لوگ مدد طلب کرو (اللہ کی) بِالصَّبْرِ : ثابت قدمی کے ذریعے ) (وَالصَّلٰوۃِ : اور نماز کے ذریعے) (اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ) (مَعَ الصّٰبِرِیْنَ: ثابت قدم لوگوں کے ساتھ ہے)



ص ب ر

 صَبَرَ (ض) صَبْرًا : مشکل اور ناموافق حالات میں عقل کے تقاضے پر قائم رہنا‘ ثابت قدم رہنا‘ برداشت کرنا۔ {فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ ط} (الاحقاف:35) ’’ تو آپؐ ثابت قدم رہیں جیسے کہ ثابت قدم رہے عزم والے رسولوں میں سے اور آپؐ جلدی نہ کریں ان کے لیے (یعنی کافروں کے لیے عذاب کی جلدی نہ کریں)‘‘ {وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ۔ } (الشوریٰ) ’’ اور بیشک جس نے برداشت کیا اور معاف کیا تو یقینا یہ حوصلے کے کاموں میں سے ہے۔‘‘

 اِصْبِرْ (فعل امر) : تو ثابت قدم رہ‘ تو برداشت کر۔ اس کے لیے سورۃ الاحقاف کی آیت 35 ملاحظہ کیجئے !

 صَابِرٌ (اسم الفاعل) : ثابت قدم رہنے والا‘ برداشت کرنے والا۔ {اِنْ یَّــکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ ج} (الانفال:65) ’’ اگر ہوں تم میں بیس ثابت قدم رہنے والے ( جھیلنے والے ) تو وہ لوگ غالب ہوں گے دو سو پر۔‘‘

 صَبَّارٌ: فَعَّالٌکے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ مراد ہے بہت زیادہ ثابت قدم رہنے والا‘ بہت زیادہ جھیلنے اور برداشت کرنے والا۔ {اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ ۔ } (ابراہیم) ’’ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک بہت زیادہ ثابت قدم رہنے والے شکر گزار کے لیے۔‘‘

 صَبْرٌ (اسم ذات) : ثابت قدمی‘ برداشت۔{وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔ } (العصر) ’’ اور انہوں نے باہم تاکید کی حق کی اور باہم تاکید کی ثابت قدمی کی۔‘‘

 صَابَرَ (مفاعلہ) مُصَابَرَۃً : کسی کے مقابلہ پر ثابت قدمی میں غالب آنے کی کوشش کرنا۔

 صَابِرْ ج صَابِرُوْا (فعل امر) : ثابت قدمی میں غالب آئو یا غالب رہو۔ {یٰٓـــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا قف} (آل عمران:200) ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم لوگ ثابت قدم رہو اور ثابت قدمی میں غالب رہو اور باہم رابطہ رکھو۔‘‘

 اِصْطَبَرَ (افتعال) اِصْطِبَارًا : اہتمام سے ڈٹے رہنا۔

 اِصْطَبِرْ (فعل امر) : اہتمام سے ڈٹے رہو۔{وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا ط} (طٰہٰ:132) ’’ اور حکم دو اپنے گھر والوں کو نماز کا اور خود ڈٹے رہو اس (نماز) پر‘‘۔

 ترکیب : ’’ یٰٓـایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ میں ’’ یا ‘‘ حرفِ ندائ’’ اَیُّ ‘‘ منادیٰ نکرہ معینہ مقصودہ مبنی علی الضم مبدل منہ ’’ ھَا‘‘ حرفِ تنبیہہ۔ ’’ الَّذِیْنَ‘‘ اسم موصول ’’ اٰمَنُوْا‘‘ میں’’ واو‘‘ ضمیر بارز مرفوع متصل فاعل۔ فعل+فاعل جملہ فعلیہ ہوکر صلہ۔ موصول صلہ مل کر بدل۔ مبدل منہ اور بدل مل کر منادیٰ۔ ندا اور منادیٰ مل کر مبتدأ۔ ’’ اِسْتَعِیْنُوْا‘‘ فعل+فاعل ’’ بِالصَّبْرِ‘‘ جار مجرور متعلق ’’ اِسْتَعِیْنُوْا‘‘ ۔ ’’ وَالصَّلٰوۃِ‘‘ میں ’’ واو ‘‘ حرفِ عطف ’’ الصَّلٰوۃِ‘‘ معطوف بر’’ الصَّبْرِ‘‘۔’’ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ‘‘ میں ’’ اِنَّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل۔ لفظ ’’ اللہ ‘‘ اس کا اسم۔ ’’ مَعَ‘‘ ظرف مکان مضاف ’’ الصّٰبِرِیْنَ‘‘ مضاف الیہ۔ مضاف+ مضاف الیہ کا متعلق ’’ مَوْجُوْدٌ‘‘ ہے جو خبر محذوف ہے۔ ’’ اِنَّ ‘‘ اپنے اسم اور خبر سے مل کر جملہ اسمیہ تعلیلیہ لامحل لھا من الاعراب۔ استعانت کے اَفعال کا مفعول ‘ یعنی جس کی مدد طلب کی جائے ‘ وہ بنفسہٖ آتا ہے اور جس چیز کے ذریعہ اس کی مدد حاصل کی جائے اس پر ’’ بِ‘‘ کا صلہ آتا ہے۔ اس آیت میں ’’ اسْتَعِیْنُوْا‘‘ کے ساتھ ’’ بِالصَّبْرِ‘‘ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ ’’ اسْتَعِیْنُوْا‘‘ کا مفعول محذوف ہے جو کہ اللہ ہے اور ’’ بِالصَّبْرِ‘‘ متعلق فعل ہے۔ ’’ وَالصَّلٰوۃِ‘‘ کی جربتا رہی ہے کہ یہ بھی ’’ بِ‘‘ کے صلہ کے زیر اثر ہے۔ ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم منصوب ہوتا ہے اس لیے ’’ اِنَّ ھِیَ‘‘ نہیں آ سکتا ‘ کیونکہ ’’ ھِیَ‘‘ ضمیر مرفوعہ ہے۔ چنانچہ ’’ اِنَّ‘‘ کے ساتھ ضمیر منصوبہ ’’ ھَا‘‘ آئی ہے جو کہ صلوٰۃ کے لیے ہے۔ وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ   ١٥٤؁
[ وَلَا تَقُوْلُوْا: اور تم لوگ مت کہو ] [ لِمَنْ : ان کے لیے جو ] [ یُّقْتَلُ : قتل کیے جاتے ہیں اور قتل ] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں کیے جائیں گے] [ اَمْوَاتٌ : (کہ وہ لوگ) مردہ ہیں] [ بَلْ : بلکہ ] [ اَحْیَـآئٌ : (وہ لوگ) زندہ ہیں] [ وَّلٰــکِنْ : اور لیکن ] [ لَّا تَشْعُرُوْنَ : تم لوگ شعور نہیں رکھتے اور نہ رکھو گے ]

 

 

 ترکیب : ’’ وائو‘‘ عاطفہ ’’ وَلَا تَقُوْلُوْا‘‘ فعل نہی ‘ فاعل وائو ضمیر۔ ’’ لِمَنْ‘‘ میں ’’ لام‘‘ حرفِ جر ’’ مَنْ‘‘ اسم موصول ’’ یُقْتَلُ‘‘ فعل مضارع مجہول ۔ اس میں ضمیر ’’ ھُوَ‘‘ راجع بسوئے ’’ مَنْ‘‘ ’’ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ جار و مجرور متعلق ’’ یُقْتَلُ‘‘۔ فعل+نائب فاعل+متعلق جملہ فعلیہ ہو کر ’’ مَنْ‘‘ کا صلہ۔ موصول صلہ مل کر مجرور لام حرف جار کا۔ جار مجرور مل کر متعلق ’’ لَا تَقُوْلُوْا‘‘۔’’ اَمْوَاتٌ‘‘ خبر مبتدا محذوف ’’ ھُمْ‘‘۔ مبتدا خبر مل کر جملہ اسمیہ ہو کر مقولہ ’’ لَا تَقُوْلُوْا‘‘ کا۔ فعل+ فاعل+مقولہ مل کر معطوف علیہ۔ ’’ بَلْ‘‘ حرف اضراب وعطف۔ ’’ اَحْیَائٌ‘‘ خبر مبتدا محذوف ’’ ھُمْ‘‘۔’’ وائو‘‘ حالیہ ’’ لٰـکِنْ‘‘ مخففہ من المتعلقہ مہملہ ۔’’ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘ فعل+فاعل جملہ فعلیہ ہو کر حال ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مبتدا ہے۔

 نوٹ (1) : شہداء کے بہت سے درجے ہیں۔ ان میں سب سے بلند درجہ ان لوگوں کا ہے جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات سمجھ لیں کہ اس آیت میں جو ہدایت ہے وہ مقتول فی سبیل اللہ کے لیے ہے۔ جب معلوم ہو گیا کہ یہ لوگ زندہ ہیں تو ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ (1) کہاں زندہ ہیں اور (2) ان کی زندگی کی کیفیت کیا ہے؟ اس آیت میں پہلے سوال کا جواب نہیں ہے‘ البتہ آگے چل کر سورۃ آل عمران کی آیت 169 میں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں۔ دوسرے سوال کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے کہ ہم لوگ ان کی زندگی کا شعور حاصل نہیں کرسکتے۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ   ١٥٥؁ۙ
[ وَلَـنَبْلُوَنَّــکُمْ : اور ہم لازماً آزمائیں گے تم لوگوں کو ] [ بِشَیْ ئٍ : کسی چیز سے ] [ مِّنَ الْخَوْفِ : خوف میں سے] [ وَالْجُوْعِ: اور بھوک میں سے ] [ وَنَقْصٍ : اور کچھ گھاٹے سے] [ مِّنَ الْاَمْوَالِ: مالوں میں سے] [ وَالْاَنْفُسِ : اور جانوں میں سے] [ وَالثَّمَرٰتِ : اور پھلوں میں سے] [ وَبَشِّرِ: اور آپؐ بشارت دیں] [ الصّٰبِرِیْنَ: ثابت قدم رہنے والوں کو]

 

ج و ع

 جَاعَ (ن) جَوْعًا : بھوکا ہونا۔ {اِنَّ لَکَ اَلاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی ۔ } (طٰہٰ) ’’ بیشک تیرے لیے ہے کہ تو بھوکا نہیں ہو گا اس میں اور نہ ننگا۔‘‘

 جُوْعٌ (اسم ذات) : بھوک۔ {اَلَّذِیْ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ 5} (قریش:4) ’’ جو کھانا دیتا ہے ان کو بھوک میں۔‘‘

ن ق ص

 نَقَصَ (ن) نَقْصًا : کمی کرنا‘ گھٹانا۔ {قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْھُمْ 5} (قٓ:4) ’’ ہمیں علم ہے اس کا جو گھٹاتی ہے زمین ان میں سے۔‘‘

 اُنْقُصْ (فعل امر) : تو کمی کر‘ تو گھٹا۔ {اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا ۔ } (المزمل) ’’ یا آپؐ گھٹائیں اس میں سے تھوڑا سا۔‘‘

 مَنْقُوْصٌ (اسم المفعول) : کمی کیا ہوا‘ گھٹایا ہوا۔ {وَاِنَّا لَمُوَفُّوْھُمْ نَصِیْبَھُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ ۔ } (ھود) ’’ اور بےشک ہم پورا پورا دینے والے ہیں ان کو ان کا حصہ بغیر کوئی کمی کیا ہوا۔‘‘

 نَقْصٌ (اسم ذات) : کمی‘ گھاٹا ۔ (آیت زیر مطالعہ)

 ترکیب : ’’ وائو ‘‘ استیناف۔ ’’ لام ‘‘ موطئہ للقسم۔ ’’ نَبْلُوَنَّ‘‘ فعل مضارع مبنی علی الفتح۔ اس کا فاعل ’’ نَحْنُ‘‘ ضمیر مستتر وجوباً ’’ کُمْ‘‘ ضمیر مفعول بہ۔ ’’ بِشَیْ ئٍ‘‘ میں ’’ بِ‘ ‘ حرف جار ’’ شَیْ ئٍ‘‘ موصوف ’’ مِنَ الْخَوْفِ‘‘ میں’’ مِنْ ‘‘ حرفِ جار ’’ الْخَوْفِ‘‘ معطوف علیہ ’’ وَالْجُوْعِ‘‘ میں’’ وائو ‘‘ حرفِ عطف ’’ الْجُوْعِ‘‘ معطوف۔ معطوف علیہ اور معطوف مل کر مجرور۔ جار مجرور مل کر متعلق ’’ کَائِن‘‘۔ ’’ کَائِن‘‘ اپنے متعلق سے مل کر ’’ شَیْ ئٍ‘‘ کی صفت۔ موصوف صفت مل کر معطوف علیہ ۔’’ وائو ‘‘ حرفِ عطف ’’ نَقْصٍ‘‘ موصوف ’’ مِنَ الْاَمْوَالِ‘‘ میں ’’ مِنْ‘‘ حرفِ جار ’’ الْاَمْوَالِ‘‘ معطوف علیہ ’’ وائو ‘‘ حرفِ عطف۔ ’’ الْاَنْفُسِ‘‘ معطوف اول ’’ وائو‘‘ حرفِ عطف ’’ الثَّمَرَاتِ‘‘ معطوفِ ثانی۔ معطوف علیہ اپنے دونوں معطوفوں سے مل کر ’’ مِنْ‘‘ حرف جار کا مجرور ۔ جار مجرور مل کر متعلق ’’ کَائِنٌ‘‘۔ ’’ کَائِنٌ‘‘ اپنے متعلق سے مل کر صفت ہے ’’ نَقْصٍ‘‘ کی۔ ’’ نَقْصٍ‘‘ اپنی صفت سے مل کر معطوف۔ معطوف علیہ اپنے معطوف سے مل کر باء حرف جار کا مجرور۔ جار مجرور متعلق ’’ نَبْلُوَنَّ‘‘۔ ’’ نَبْلُوَنَّ‘‘ فعل+فاعل+مفعول+متعلق جملہ فعلیہ ہو کر معطوف علیہ۔ ’’ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ‘‘ میں ’’ وائو‘‘ حرفِ عطف ’’ بَشِّرْ‘‘ فعل امر۔ اس کا فاعل ضمیر مستتر ’’ اَنْتَ‘‘۔ ’’ الصَّابِرِیْنَ‘‘ موصوف۔

 نوٹ (1) : ’’ بِشَیْ ئٍ‘‘ کا لفظی ترجمہ تو یہی بنتا ہے کہ ’’ کسی چیز سے‘‘ لیکن محاورہ میں اس کا مفہوم ہے ’’ تھوڑا سا‘‘ یا ’’ ذرا سا‘‘۔ اس آیت میں یہ لفظ لا کر ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ کوئی آزمائش ہمیں کتنی بھی بڑی معلوم ہو‘ لیکن دراصل وہ چھوٹی ہی ہو گی۔ ہم لوگوں کو اس کا تجربہ بھی ہے۔ جب کوئی آزمائش گزر جاتی ہے تب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ اتنی بڑی آزمائش نہیں تھی جتنا ہم واویلا کر رہے تھے۔ اور جب کوئی نئی آزمائش آتی ہے تو ہم پچھلے تجربے کو بھول جاتے ہیں۔

 نوٹ (2) : آزمائش کے ضمن میں پہلی بات یہ نوٹ کرلیں کہ یہ ہر انسان کی ضرورت ہے۔ اس نظام سے اللہ کی کوئی غرض نہیں اٹکی ہوئی ہے۔ اس لیے اس دنیا میں عابد و زاہد ‘ فاسق و فاجر‘ مومن و کافر‘ غرض ہر قسم کے انسان کو مختلف آزمائشوں سے گزارا جاتا ہے جو مختلف قسم کے انسانوں کی مختلف ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ اس آیت کے سیاق و سباق میں نیکوکار اہل ایمان کی بات ہو رہی ہے۔ اس لیے اس مقام پر یہ بات سمجھ لیں کہ ایمان کی حالت میں عمل صالح کرنے والے لوگوں کی کون سی ضرورت ان آزمائشوں سے پوری ہوتی ہے۔

 ہماری ایک کمزوری یہ ہے کہ ہم کو کتنا بھی انعام و اکرام دے دیا جائے‘ عام طور پر ہم اس سے مطمئن نہیں ہوتے اور مزید کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ زبانی دعووں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ہماری دوسری کمزوری یہ ہے کہ اگر ہمارے مطالبے کے مطابق ہم کو دے دیا جائے تو ہم پھر بھی مطمئن نہیں ہوتے‘ کیونکہ ہم دوسرے کی تھالی میں جھانکتے ہیں کہ اس کو اتنا کیوں ملا؟ اور یہ بات طے ہے کہ میدان حشر میں ہماری یہ کمزوریاں ختم نہیں ہوں گی بلکہ زیادہ ہو جائیں گی۔

 اس کا علاج یہی ہے کہ ہمارے بلند بانگ دعووں کا لپ اسٹک اور پائوڈر آزمائش کی کڑی دھوپ میں اتار دیا جائے اور ہر ایک کے دعوے کی حقیقت ریکارڈ پر آ جائے۔ اس طرح نیکوکار اہل ایمان میدان حشر میں اطمینانِ قلب کی نعمت حاصل کریں گے۔ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ  ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ    ١٥٦؁ۭ
[ الَّذِیْنَ : وہ لوگ جو ] [ اِذَا : جب بھی] [ اَصَابَتْھُمْ : پہنچتی ہے ان کو ] [ مُّصِیْبَۃٌ : کوئی مصیبت] [ قَالُوْا : تو وہ لوگ کہتے ہیں] [ اِنَّا : بیشک ہم] [ لِلّٰہِ : اللہ کے لیے ہیں] [ وَاِنَّا : اور یقینا ہم] [ اِلَــیْہِ : اس کی طرف ہی ] [ رٰجِعُوْنَ: لوٹنے والے ہیں]

 

 

 ترکیب : ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ اسم موصول۔ ’’ اِذَا‘‘ حرف شرط ’’ اَصَابَتْھُمْ‘‘ میں’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مفعول مقدم۔ ’’ مُصِیْبَۃٌ‘‘ فاعل مؤخر۔ فعل+فاعل+مفعول جملہ فعلیہ ہو کر شرط۔ ’’ قَالُوْا‘‘ فعل ’’ وائو‘‘ ضمیر بارز فاعل ’’ اِنَّا‘‘ میں’’ اِنَّ‘‘ حرفِ مشبہ بالفعل ’’ نَا‘‘ ضمیر اسم۔ ’’ لِلّٰہِ‘‘ جار مجرور متعلق بمحذوف جملہ اسمیہ معطوف علیہ ’’ وَاِنَّا‘‘ میں ’’ وائو ‘‘ حرف عطف ’’ اِنَّ‘‘ حرفِ مشبہ بالفعل ’’ نَا‘‘ ضمیر اس کا اسم ’’ رَاجِعُوْنَ‘‘ خبر ’’ اِلَــیْہِ‘‘ رَاجِعُوْنَسے متعلق ۔ یہ جملہ اسمیہ ہو کر معطوف۔ معطوف+معطوف علیہ مقولہ ’’ قَالُوْا‘‘ کا ۔ ’’ قَالُوْا‘‘ فعل+فاعل +مقولہ مل کر جملہ فعلیہ ہو کر جزا۔ شرط+جزا مل کر صلہ موصول ’’ الَّذِیْنَ‘‘ کا ۔ موصول+صلہ صفت ’’ الصَّابِرِیْنَ‘‘ کا۔ موصوف+صفت مفعول ’’ بَشِّرْ‘‘ کا۔ ’’ بَشِّرْ‘‘ فعل +فاعل +مفعول مل کر جملہ فعلیہ ہو کر عطف ہے ’’ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ‘‘ پر۔ ’’ لَـنَــبْلُوَنَّــکُمْ‘‘ اپنے معطوف سے مل کر جواب قسم ہے فعل محذوف قسم کا۔ فعل قسم محذوف+جواب قسم جملہ قسمیہ ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ   ۣوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُهْتَدُوْنَ   ١٥٧؁
[ اُولٰٓـئِکَ : وہ لوگ ہیں] [ عَلَیْھِمْ : جن پر ہیں] [ صَلَوٰتٌ: عنایتیں] [ مِّنْ رَّبِّھِمْ : ان کے رب (کی جانب) سے] [ وَرَحْمَۃٌ: اور رحمت] [ وَاُولٰٓـئِکَ : اور وہ لوگ ] [ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ: ہی ہدایت پانے والے ہیں]

 

 ترکیب : ’’ صلٰوۃ‘‘ سے مراد ہے نماز‘ دعا‘ رحمت۔ قرآن مجید میں جہاں بھی لفظ ’’ صلٰوۃ‘‘ بغیراضافت ہے وائوکے ساتھ لکھا ہوا ہے ۔ یہ لفظ کے مفخم ہونے کی بنا پر ہے۔ جیسے زکوٰۃ۔ صلوٰۃ ’’ تَصْلِیَۃ‘‘ سے اسم ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں بہت سے اہل لغت کا بیان ہے کہ صلوٰۃ کے معنی دعا کرنے‘ برکت مانگنے اور بزرگی سے یاد کرنے کے ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : (اِذَا دُعِیَ اَحَدُکُمْ اِلٰی طَعَامٍ فَلْیُجِبْ وَاِنْ کَانَ صَائِمًا فَلْیُصَلِّ (اَیْ فَلْیَدْعُ) ۔ نیز ارشاد خداوندی ہے : {وَصَلِّ عَلَیْھِمْ 1 اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ 1 } (التوبۃ:103) ’’ اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو‘ کیونکہ تمہاری دعا ان کے لیے وجۂ تسکین ہوگی‘‘۔ ’’ فَصَلِّ عَلَیْھِمْ‘‘ اَیْ اُدْعُ لَـھُمْ۔ اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر صلوٰۃ کا مطلب ان کو سراہنا ہے۔ {اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ}(آیت زیر مطالعہ) فرشتوں کی طرف سے ’’ صَلٰوۃ‘‘ کا معنی وہی ہے جو آدمیوں کی طرف سے صلوٰۃ کا ہے (دعا اور مغفرت) ۔ اور وہ صلوٰۃ کہ جو عبادت مخصوصہ ہے (بمعنی نماز) اس کی اصل بھی دعا ہی ہے‘ جس طرح کہ کسی شے کو بعض اجزاء کے نام پر موسوم کر دیتے ہیں اسی طرح یہ عبادت یعنی نماز بھی دعا پر مشتمل ہونے کی وجہ سے صلوٰۃ سے موسوم ہوئی۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ صلوٰۃ کی اصل ’’ صلا‘‘ ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ’’ صَلَّ الرَّجُلُ‘‘ کے معنی ہیں کہ اس شخص نے اس عبادت کے ذریعہ ’’ صلا ‘‘ کو جو کہ حق تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہے ‘ اپنے اوپر سے دفع کر دیا۔ نیز عبادت خانہ کو بھی صلوٰۃ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ کنائس یہود (یہودیوں کے عبادت خانے) صلوات سے موسوم ہیں۔ {لَھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیْعٌ وَّصَلَوٰتٌ} (الحج:40)

 تنبیہہ: ہر وہ مقام کہ جہاں حق تعالیٰ نے فعل صلوٰۃ پر مدح فرمائی ہے یا اس پر رغبت دلائی ہے وہاں لفظ ’’ اِقَامَۃ‘‘ مذکور ہے۔ مثلاً: ’’ الْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ‘ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ‘‘ جبکہ منافقین کے بارے میں فرمایا گیا : {فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ ۔ }(الماعون) اور: {لَا یَاْتُوْنَ الصَّلَاۃَ اِلاَّ وَھُمْ کُسَالٰی} (التوبۃ:54) اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِاللّٰهِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا ۭ وَمَنْ تَـطَوَّعَ خَيْرًا  ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِـرٌ عَلِــيْمٌ   ١٥٨؁
[ اِنَّ : بیشک] [ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ: صفا اور مروہ ہیں] [ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ: اللہ کا شعور حاصل کرنے کی علامتوں میں سے] [ فَمَنْ : پس جس نے ] [ حَجَّ الْبَیْتَ : زیارت کی اس گھر کی] [ اَوِ اعْتَمَرَ : یا عمرہ کیا] [ فَلَا جُنَاحَ : تو کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے] [ عَلَیْہِ : اس پر ] [ اَنْ یَّطَّوَّفَ: کہ وہ بتکلف چکر لگائے ] [ بِھِمَا : ان دونوں میں] [ وَمَنْ : اور جس نے ] [ تَطَوَّعَ : نفلاً کی] [ خَیْرًا : کوئی بھلائی] [ فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ] [ شَاکِرٌ : قدر دان ہے] [ عَلِیْمٌ: جاننے والا ہے]

 

ج ن ح

 جَنَحَ (ض) جُنُوْحًا : کشتی کا کسی جانب جھک جانا‘ کسی کا کسی طرف مائل ہونا۔ {وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا} (الانفال:61) ’’ اور اگر وہ لوگ مائل ہوں صلح کے لیے تو آپؐ بھی مائل ہوں اس کے لیے۔‘‘

 اِجْنَحْ (فعل امر) : تو جھک‘ تو مائل ہو۔ (آیت مذکورہ بالا)

 جَنَاحٌ (ج) اَجْنِحَۃٌ : اسم ذات ہے۔ کسی چیز کا کوئی جانب‘ انسان کا پہلو‘ بغل‘ پرندوں کے پر۔ {وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ } (الحجر) ’’ اور آپؐ جھکائیں اپنا پہلو مؤمنوں کے لیے۔‘‘ {وَاضْمُمْ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ} (طٰہٰ:22) ’’ اور آپؐ ملا لیں اپنا ہاتھ اپنی بغل کی طرف۔‘‘{وَلَا طٰـئِـرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ} (الانعام:38) ’’ اور نہ کوئی اڑنے والا جو اڑتا ہے اپنے دونوں پروں سے۔‘‘ {جَاعِلِ الْمَلٰٓـئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْ اَجْنِحَۃٍ} (فاطر:1) ’’ فرشتوں کو بنانے والا رسول‘ جن کے پر ہیں۔‘‘

 جُنَاحٌ (اسم ذات) : کسی غلط جانب جھکائو‘ گناہ۔ ( آیت زیر مطالعہ)

ط و ع

 طَاعَ (ف۔ ن) طَوْعًا: تابع فرمان ہونا‘ فرمانبردار ہونا۔

 طَائِعٌ : تابع فرمان بنانے والا۔ {فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا ط قَالَـتَا اَتَیْنَا طَائِعِیْنَ ۔ } (حٰمٓ السجدۃ) ’’ تو اس نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے ) کہا اس سے (یعنی آسمان سے) اور زمین سے کہ تم دونوں آئو مطیع ہوتے ہوئے یا کراہیت کرتے ہوئے۔ ان دونوں نے کہا ہم آئے مطیع ہونے والے ہوتے ہوئے۔‘‘

 اَطَاعَ (افعال) اِطَاعَۃً اور طَاعَۃً : کسی کی فرمانبرداری کرنا‘ اطاعت کرنا۔ {وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَۃٌز} (النسائ:81) ’’ اور وہ لوگ کہتے ہیں فرمانبرداری کرنا ہے۔‘‘ {یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَا اَطَعْنَا اللّٰہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلاَ ۔ } (الاحزاب) ’’ وہ لوگ کہیں گے اے کاش! ہم اطاعت کرتے اللہ کی اور ہم اطاعت کرتے ان رسولؐ کی۔‘‘

 اَطِعْ (ج) اَطِیْعُوْا (فعل امر) : تو اطاعت کر‘ {اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَج} (آل عمران:32) ’’ تم لوگ اطاعت کرو اللہ کی اور اِن رسولؐ کی۔‘‘

 لَا تُطِعْ (فعل نہی) : تو اطاعت مت کر‘ تو کہنا مت مان۔ {وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا} (الکہف:28) ’’ اور تو کہنا مت مان اس کا ہم نے غافل کیا جس کے دل کو اپنی یاد سے۔‘‘

 مُطَاعٌ (اسم المفعول) : اطاعت کیا ہوا‘ بات مانا ہوا۔ {ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ ۔ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ ۔ } (التکویر) ’’ قوت والا‘ عرش والے کے پاس رہنے والا‘ مانا جانے والا‘ وہی امانت والا۔‘‘

 طَوَّعَ (تفعیل) تَطْوِیْعًا : کسی کو مطیع فرمان بنانا‘ کسی کام کے لیے راضی کرنا۔ {فَطَوَّعَتْ لَــہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ} (المائدۃ:30) ’’ پس راضی کیا اس کو اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر۔‘‘

 تَطَوَّعَ (تفعل) تَطَوُّعًا : بتکلف فرمانبرداری کرنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ پھر اصطلاحاً نفلی عبادات کرنے کے لیے آتا ہے۔ (آیت زیرِ مطالعہ)

 مُطَوِّعٌ (اسم الفاعل) : نفلی عبادت کرنا والا۔ {اَ لَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ} (التوبۃ:79) ’’ وہ لوگ جو طعن کرتے ہیں نفلی عبادت کرنے والوں کو‘‘۔

 اِسْتَطَاعَ (استفعال) اِسْتِطَاعَۃً : فرمانبرداری کرنے کے لائق ہونا‘ صلاحیت یا قدرت رکھنا۔ {فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} (التغابن:16) ’’ پس تقویٰ اختیار کرو اللہ کا اتنا جتنی تمہاری صلاحیت ہو۔‘‘

ش ک ر

 شَکَرَ (ن) شَکْرًا اور شُکُوْرًا : کسی نعمت و بھلائی کا اعتراف کرنا‘ احسان ماننا‘ شکر کرنا۔ {وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ج} (النمل:40) ’’ اور جس نے شکر کیا تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ شکر کرتا ہے اپنے آپ کے لیے۔‘‘

 اُشْکُرْ (فعل امر) : تو احسان مان‘ تو شکر کر۔ {اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَط} (لقمٰن:14) ’’ کہ تو احسان مان میرا اور اپنے والدین کا۔‘‘

 شَاکِرٌ(اسم الفاعل) : شکر کرنے والا۔ اس کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو مطلب ہوتا ہے قدر کرنے والا۔ (آیت زیر مطالعہ) اور :{شَاکِرًا ّلِاَنْعُمِہٖ ط} (النحل:121) ’’ شکر کرنے والا اس کے احسانوں کا۔‘‘

 مَشْکُوْرٌ(اسم المفعول) : شکر کیا ہوا‘ قدر کیا ہوا۔ {فَاُولٰٓــئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا ۔ } (بنی اسرائیل) ’’ تو وہ لوگ ہیں جن کی بھاگ دوڑ قدر کی ہوئی ہے۔‘‘

 شَکُوْرٌ: فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ ہے ۔ بےانتہا شکر کرنے والا۔ {اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ ۔ } (ابراہیم) ’’ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک بار بار صبر کرنے والے‘ بےانتہا شکر کرنے والے کے لیے۔‘‘{اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ ۔ } (الشوریٰ) ’’ بے شک اللہ بےانتہا بخشنے والا ‘ بےانتہا قدر کرنے والا ہے۔‘‘

 ترکیب : صَفا ایک مشہور پہاڑی کا نام ہے جو مکہ معظمہ میں مسجد حرام کے پاس ہے۔ امام بغوی لکھتے ہیں: صَفَا‘ صَفَاۃٌ کی جمع ہے۔ ’’ صَفَاۃٌ‘‘ اس سخت چٹان کو کہتے ہیں جو صاف اور ہموار ہو۔ ’’ صَفَاۃٌ‘‘ اور ’’ صَفَا‘‘ جیسے ’’ حَصَاۃٌ‘‘ اور ’’ حَصٰی‘‘ اور ’’ نَوَاۃٌ‘‘ اور ’’ نَوٰی‘‘۔ مَروۃ نرم پتھر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع ’’ مرَوَاتٌ‘‘ آتی ہے اور جمع کثرت ’’ مُرَۃٌ‘‘ ہے ۔ جیسے ’’ ثَمْرَۃٌ‘‘ کی جمع ’’ ثَمَرَاتٌ‘‘ اور ’’ ثُمَرٌ‘‘ ہے۔ (معالم التنزیل 1:111)

 ’’ اِنَّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل ’’ الصَّفَا‘‘ معطوف علیہ ’’ وائو‘‘ حرف عطف ’’ الْمَرْوَۃَ‘‘ معطوف ۔ معطوف اور معطوف علیہ مل کر ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم۔ ’’ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ‘‘ جار مجرور مل کر متعلق ’’ کَائِنَان‘‘ خبر۔ ’’ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ‘‘ میں ’’ فاء ‘‘ استیناف ’’ مَنْ ‘‘ اسم شرط جازم مبتدا’’ حَجَّ‘‘ فعل ماضی۔ اس میں ضمیر ’’ ھُوَ‘‘ اس کا فاعل ’’ الْبَیْتَ‘‘ مفعول۔ فعل+ فاعل+ مفعول جملہ فعلیہ ہو کر معطوف علیہ۔ ’’ اَوْ‘‘ حرفِ عطف ’’ اعْتَمَرَ‘‘ فعل ماضی ۔ اس میں ضمیر ’’ ھُوَ‘‘ اس کا فاعل۔ فعل+فاعل جملہ فعلیہ ہو کر معطوف۔ معطوف+مطعوف علیہ فعل شرط۔ ’’ فَلَا جُنَاحَ‘‘ میں ’’ فا‘‘ جزائیہ ’’ لا‘‘ نفی ٔجنس ’’ جُنَاحَ‘‘ اس کا اسم ’’ عَلَیہ‘‘ جار مجرور متعلق ’’ وَاقِعٌ‘‘ خبر ہے۔ ’’ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا‘‘ میں ’’ اَنْ‘‘ حرف مصدریہ ’’ یَطَّوَّفَ‘‘ فعل۔ ضمیر ’’ ھُوَ‘‘ اس کا فاعل ’’ بِھِمَا‘‘ جار مجرور اس کا متعلق۔ یہ جملہ فعلیہ بتاویل مصدرہو کر منصوب ’’ بنزع الخافض‘‘۔ تقدیر عبارت یوں ہے : ’’ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ فِیْ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا‘‘۔ ’’ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ‘‘ سے لے کر ’’ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا‘‘ تک جملہ جزاء ہے ’’ حَجَّ الْبَیْتَ‘‘ کے لیے۔ شرط اور جزا مل کر خبر ہے ’’ مَنْ‘‘ مبتداکی۔’’ وائو‘‘ حرفِ عطف ’’ مَنْ‘‘ اسم شرط جازم مبتدا’’ تَطَوَّعَ‘‘ فعل ۔ ضمیر ’’ ھُوَ‘‘ اس کا فاعل ’’ خَیْرًا‘‘ صفت ہے موصوف محذوف ’’ تَطَوُّعًا‘‘ کی ۔ موصوف صفت مفعول مطلق۔ فعل+فاعل+مفعول مطلق جملہ فعلیہ ہو کر شرط۔ ’’ فائ‘‘ جزائیہ ’’ اِنَّ‘‘ حرفِ مشبہ بالفعل ۔ لفظ ’’ اللّٰہ ‘‘ اس کا اسم ’’ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ‘‘ اس کی خبر۔ یہ جملہ اسمیہ ہو کر جزا ئ۔ شرط اور جزاء مل کر جملہ شرطیہ ہو کر ’’ مَنْ‘‘ مبتدا کی خبر ہے۔

 نوٹ (1) : زمانۂ جاہلیت میں صفا اور مروہ پر مورتیاں رکھی ہوتی تھیں اور کفار انہی کی پوجا کرنے کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے تھے۔ اس وجہ سے کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو شبہ تھا کہ کہیں اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔ اس آیت میں اس شبہ کا ازالہ کیا گیا ہے کہ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ بی بی ہاجرہ کا عمل تھا اور سنت ابراہیمی ؑ ہے۔ امام احمد (رح)  کے نزدیک حج یا عمرہ میں سعی کرنا مستحب ہے‘ امام ابوحنیفہ (رح)  کے نزدیک واجب ہے‘ جبکہ امام مالک (رح)  اور امام شافعی (رح)  کے نزدیک یہ فرض ہے۔ (معارف القرآن) اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ    ١٥٩؁ۙ
[ اِنَّ : بےشک ] [ الَّذِیْنَ : جو لوگ ] [ یَکْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں ] [ مَا : اس کو جس کو ] [ اَنْزَلْـنَا : ہم نے نازل کیا ] [ مِنَ الْبَـیِّنٰتِ وَالْھُدٰی : ہدایت اور کھلی کھلی (نشانیوں) میں سے ] [ مِنْ بَعْدِ مَا : اس کے بعد جو ] [ بَـیَّـنّٰـہُ : ہم نے واضح کیا اس کو ] [ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے ] [ فِی الْـکِتٰبِ : کتاب میں ] [ اُولٰٓـئِکَ : وہ لوگ ہیں ] [ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ: لعنت کرتا ہے جن پر اللہ ] [ وَیَلْعَنُھُمُ : اور لعنت کرتے ہیں جن پر ] [ اللّٰعِنُوْنَ: لعنت کرنے والے [

 

 

مَا:

 ’’ مَا‘‘ اسمی بھی ہوتا ہے اور حرفی بھی ۔ ہر ایک کی تین قسمیں ہیں:

(1) ’’ مَا‘‘ اسمی معرفہ :

ا)

 ناقصہ یعنی موصولہ (بمعنی وہ جو) ۔ {مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍط} (النحل:96)

ب)

معرفہ تامہ۔ {اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّاھِیَ} (البقرۃ:270) ’’ مَا‘‘ کی یہ قسم ابن خروف نے بیان کی ہے اور اس کا انتساب سیبویہ کی طرف کیا ہے۔

(2) اسمی نکرہ مجردہ ‘ یعنی حرفی معنی سے خالی:

ا)

ناقصہ یعنی موصوفہ ۔ اس ’’ مَا‘‘ کا معنی شیئٌ ہوتا ہے۔ ایک شاعر کا قول ہے :

لما نَافِعٍ یَسْعٰی اللَّبِیْبُ فَلَا تَــکُنْ

لِشَیْئٍ بَعِیْدٍ نفعہ الدھر سَاعِیًا

ترجمہ :’’ سود مند چیز کے لیے عقل مند کوشش کرتا ہے ‘ اس لیے تم کبھی اس چیز کے لیے کوشاں نہ ہو جس کا فائدہ بعید ہو‘‘۔

 {ھٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیْدٌ}میں بھی ’’ مَا‘‘ موصوفہ ہے اور عَتِیْدٌ صفت (بقول زمخشری و سیبویہ )

ب)

نکرہ تامہ ۔ اس کی تین قسمیں ہیں:

(1)

 فعل تعجب : مَا اَحْسَنَ زَیْدًا۔ اس میں ’’ مَا ‘‘ کا نکرہ تامہ ہونا تمام علماء ِبصرہ کے نزدیک مسلم ہے‘ لیکن اخنش کا قول ہے کہ اس ’’ مَا‘‘ کو ہم نکرہ تامہ بھی کہہ سکتے ہیں اور نکرہ موصوفہ اور معرفہ موصولہ بھی۔

(2)

’’ نِعْمَ‘‘ اور ’’ بِئْسَ‘‘ کے بعد جو ’’ مَا‘‘ آتا ہے وہ بھی زمخشری کے نزدیک نکرہ تامہ ہی ہے ‘ لیکن سیبویہ کے نزدیک معرفہ تامہ ہے۔

(3)

وہ ’’ مَا‘‘ جو مبالغہ کے لیے آتا ہے اور ’’ مَا‘‘ سے پہلے عامل مذکور ہوتا ہے اور ’’ مَا‘‘ کے بعد اس عامل کامعمول ہوتا ہے ‘ مثلاً: زَیْدٌ مِمَّا اَنْ یَّـکْتُبَ۔ ’’ مِنْ‘‘ حرفِ جر عامل ہے اور اَنْ یَکْتُبَ بتاویل مصدر مجرور ہے اور ’’ مَا‘‘ صرف مبالغہ کے لیے عامل اور معمول کے درمیان ذکر کیا گیا ہے‘ یعنی زید کی تخلیق ہی کتابت سے ہوئی ہے‘ زید کتابت کا بنا ہوا ہے۔ سیبویہ‘ ابن خروف اور ابن مالک نے اس ’’ مَا‘‘ کو معرفہ تامہ کہا ہے۔ ’’ مَا‘‘ کی یہ صنف قرآن مجید میں مذکور نہیں ہے۔

(3) ’’ مَا ‘‘ اسمی نکرہ غیر مجردہ یعنی حرفی معنی کو متضمن:

ا) استفہامیہ ۔ مَا ھِیَ‘ مَا لَوْنُھَا‘ مَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ۔ ما استفہامیہ اگر مجرور ہو تو ’’ الف ‘‘ کو حذف کرنا واجب ہے تاکہ استفہام اور خبر میں فرق ہو جائے۔ فَبِمَ‘ لِمَ‘ اِلٰمَ‘ عَلٰمَ۔ {فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِکْرٰٹھَا}(النّٰزعٰت:43)‘{فَنٰـظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ } (النمل) ۔ ان سب مثالوں میں ’’ مَا‘‘ استفہامیہ ہے۔{لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔ }(الانفال)‘ {یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ}(البقرۃ:4)‘ {مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ} (صٓ:75) ۔ تینوں مثالوں میں خبری ہونے کی وجہ سے ’’ مَا‘‘ کا الف حذف نہیں کیا گیا باوجودیکہ مجرور ہے۔ باوجود مجرور ہونے کے ’’ مَا‘‘ استفہامیہ کا الف باقی رہنا (حذف نہ ہونا) شاذ ہے (صرف شعر میں آیا ہے) اور شاذ قراء تِ متواترہ میں نہیں آ سکتا ‘ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ’’ مَا‘‘ استفہامیہ مجرورہ کا الف کسی جگہ باقی نہیں ہے۔ ہاں بعض مفسرین نے {بِمَا غَفَرَلِیْ رَبِّیْ} (یٰسٓ:27) میں ’’ مَا‘‘ کو استفہامیہ قرار دیا ہے۔ زمخشری نے اس ’’ مَا‘‘ کو استفہامیہ قرار دینے کا جواز نقل کیا ہے لیکن کسائی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آیت میں ’’ مَا‘‘ استفہامیہ کیسے ہو سکتا ہے ‘ کیونکہ الف باقی ہے جبکہ ’’ مَا‘‘ مجرور ہی ہے۔

 علاوہ ازیں امام رازی نے تفسیر کبیر میں آیت {فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ} (آل عمران:159) میں ’’ مَا‘‘ کو استفہامِ تعجبی کے لیے قرار دیا ہے‘ لیکن مذکورہ بالا اصول کی رو سے یہ بھی غلط معلوم ہوتا ہے ‘ کیونکہ جب مَا استفہامیہ مجرور ہے تو الف کیوں حذف نہیں کیا گیا۔

 ب) مَا شرطیہ غیر زمانیہ (بمعنی جو بھی) ۔ مثلاً :

 {مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ} (البقرۃ:197) اور

 {مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ} (البقرۃ:106)

 ج) مَا شرطیہ زمانیہ بمعنی ما دام (جب تک بھی) ۔ مثلاً:

{فَمَا اسْتَقَامُوْا لَــکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَھُمْ}(التوبۃ:7)

 قسم دوم : مَا حرفی ۔ اس کی بھی تین قسمیں ہیں :

 (1) مَا نافیہ۔ یہ اگر جملہ اسمیہ پر داخل ہو تو نجدی‘ تہامی اور حجازی استعمال میں ’’ لَیْسَ‘‘ کی طرح اسم کو رفع اور نصب کو خبر دیتا ہے۔ مثلاً:

{مَا ھٰذَا بَشَرًا}(یوسف:31) اور:{مَا ھُنَّ اُمَّھَاتِھِمْ}(المجادلۃ:2 )

اگر جملہ فعلیہ پر داخل ہو تو لفظوں میں کوئی عمل نہیں کرتا۔ مثلاً:

{وَمَا تُنْفِقُُوْنَ اِلاَّ ابْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ}(البقرۃ:272)

 جمہور کے نزدیک مضارع کا صیغہ صرف حال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ‘ لیکن ابن مالک کا قول ہے کہ کبھی استقبالی معنی کے لیے بھی مستعمل ہوتا ہے۔ مثلاً:

{قُلْ مَا یَـکُوْنُ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَــہٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ}(یونس:15)

 (2) مصدریہ۔ یہ دو قسم کا ہوتا ہے:

 ا) غیر زمانیہ۔ مثلاً:

{عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ} (التوبۃ:28)

’’ تمہارا مشقت میں پڑنا اس پر شاق ہے‘‘۔

{وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ} (آل عمران:118)

’’ تمہارا مشقت میں پڑنا وہ دل سے پسند کرتے ہیں‘‘۔

{ضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ}(التوبۃ:25)

’’ باوجود فراخ ہونے کے زمین ان پر تنگ ہو گئی‘‘۔

{فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا}(السجدۃ:14)

’’ اس دن کی پیشی کو بھولے رہنے کی وجہ سے اب (دوزخ کے عذاب کا) مزہ چکھو‘‘۔

ب) زمانیہ۔ مثلاً:

{مَا دُمْتُ حَیًّا ۔ }(مریم)

’’ میں اپنی زندگی کی مدت تک‘‘۔

{فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ}(التغابن:16)

’’ جب تک استطاعت ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔

 (نوٹ ) ابن خروف کا کہنا ہے کہ ما مصدریہ بالاتفاق حرف ہے‘ لیکن اتفاق کا قول غلط ہے‘ کیونکہ ابوبکر اور اخفش اس کو اسمیہ کہتے ہیں۔

 (3) مَا زائدہ :

 ا) کافّہ ۔ (یعنی سابق عامل کو عمل سے روک دینے والا)

عمل رفع سے روکنے والا ’’ مَا‘‘ صرف تین افعال کے بعد آتا ہے۔

 قَلَّ مَا ۔ طَالَ مَا ۔ کَثُرَ مَا ۔

عملِ نصب و رفع سے روکنے والا ’’ مَا‘‘ حرفِ مشبہ بالفعل کے بعد آتا ہے۔ مثلاً:

{اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰــہٌ وَّاحِدٌ}(النسائ:171)

{کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَھُمْ یَنْظُرُوْنَ ۔ }(الانفال)

{اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰؤُ}(فاطر:28)

 عمل جر سے روکنے والا‘ یعنی کسی حرف جر یا اسم مضاف کے عمل کو باطل کر دینے والا۔

 اوّل : مثلاً {رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ ۔ } (الحجر) ۔ یہ اکثر ماضی پر آتا ہے ‘ لیکن آیت {رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ …} میں تو مضارع پر آیا ہے‘ تو کیا یہ استعمال غلط ہے؟ رُمّانی نے کہا ہے کہ اللہ کو مستقبل کا علم بھی ماضی کی طرح ہی ہے اس لیے اس کے کلام میں وَدَّ کی جگہ یَوَدُّ بھی صحیح ہے۔ یا ’’ کاف‘‘ کے بعد ۔{اجْعَلْ لَّنَا اِلٰــھَا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃً} (الاعراف:138) یا’’ بائ‘‘ کے بعد تقلیل کے لیے۔

فَلئِنْ صِرْتَ لا تحیر جوابًا

بِمَا قَدْ تُرٰی وَاَنْتَ خَطِیْبٌ

(ترجمہ) ’’ اب اگر تو لوٹا کر جواب نہیں دے سکتا تو کیا عجب ہے ‘ کیونکہ بلاشبہ تیرا خطیب دکھائی دینا بہت کم ہے ‘‘۔

 دوم: کسی طرف مضاف کے بعد۔ مثلاً بَعْدَ مَا ‘ بَیْنَمَا‘ حَیْثُمَا‘ اِذْ مَا۔

ب) مَا زائدہ غیر کافہ۔ مثلاً:

{وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ} (فُصّلت:36)

{اَیَّامًا تَدْعُوا}(الاسرائ:110)

{اَیْنَ مَا تَــکُوْنُوْا}(البقرہ:148)

{فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا} (البقرۃ:115)

{فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ} (آل عمران:159)

{عَمَّا قَلِیْلٍ}(المؤمنون:40)

{مِمَّا خَطِیْئَاتِھِمْ} (نوح:25)

{اَیـَّمَا الْاَجَلَیْنِ}(القصص 28)

ان تمام آیات میں علمائِ بصرہ کے نزدیک مَا تاکید کے لیے زائدہ ہے۔

 آیات ذیل میں ’’ مَا‘‘ اسمیہ موصولہ ہے حرفیہ نہیں ہے:

{اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ} (لقمٰن:30)

’’ بیشک وہ چیز جو یہ مانگتے ہیں ضرور آنے والی ہے‘‘۔

{اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ ۔ نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرٰتِ} (المؤمنون:56)

{وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ}(الانفال:41)

 

ترکیب :

 {اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْـنَا مِنَ الْبَـیِّنٰتِ وَالْھُدٰی} میں’’ اِنَّ‘‘ حرفِ مشبہ بالفعل۔ ’’ الَّذِیْنَ‘ ‘ اسم موصول۔’’ یَکْتُمُوْنَ‘ ‘ فعل۔ ’’ واؤ‘ ‘ ضمیر فاعل۔ ’’ مَا‘ ‘ اسم موصول۔’’ اَنْزَلْنَا‘ ‘ فعل+فاعل۔ ضمیر عائد ’’ ہ‘‘ محذوف مفعول ۔ ’’ مِنْ‘ ‘ حرف جار ’’ اَلْبَیِّنَاتِ‘ ‘ معطوف علیہ ’’ واو‘ ‘ حرف عطف ’’ الْھُدٰی‘ ‘ معطوف۔ معطوف +معطوف علیہ مجرور۔ جار+مجرور مل کر متعلق کائناً محذوف۔ کائناً اپنے متعلق سے مل کر حال ہے ’’ ہٗ‘ ‘ ضمیر محذوف مفعول سے۔

 {مِنْ بَعْدِ مَا بَـیَّـنّٰـہُ لِلنَّاسِ فِی الْـکِتٰبِ}میں’’ مِنْ‘ ‘ حرفِ جار۔ ’’ بَعْدِ‘‘ مضاف ’’ مَا‘‘ مصدریہ ۔’’ بَیَّنَّاہ‘ ‘۔ فعل+فاعل+مفعول۔ ’’ لِلنَّاسِ‘‘ جار+مجرورمتعلق ’’ بَیَّنَّا‘‘۔’’ فِیْ الْکِتٰبِ‘‘ جار+مجرورمتعلق ’’ بَیَّنَّا‘‘-’’ بَیَّنَّاہٗ‘‘ فعل+ فاعل+ مفعول۔ دونوں متعلق مل کر بتاویل مصدر ہو کر’’ بَعْدِ‘‘ کا مضاف الیہ۔ مضاف +مضاف الیہ مل کر مجرور ’’ مِنْ‘‘ حرف جار کا۔ جار+مجرور متعلق’’ یَکْتُمُوْنَ‘‘ کا۔ ’’ یَکْتُمُوْنَ‘‘ فعل+فاعل+ مفعول +متعلق مل کر جملہ فعلیہ ہو کر صلہ موصول ’’ الَّذِیْنَ‘‘ کا۔ موصول+صلہ مل کر ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم۔

 { اُولٰٓـئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ}میں’’ اُولٰٓئِکَ‘‘ اسم اشارہ مبتدا۔ ’’ یَلْعَنُ‘‘ فعل ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مفعول بہ مقدم ۔ لفظ’’ اللّٰہُ‘‘ فاعل مؤخر ۔ فعل+فاعل+مفعول بہ مل کر جملہ فعلیہ ہو کر معطوف علیہ۔ { وَیَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ}میں’’ واؤ‘‘ حرفِ عطف ’’ یَلْعَن‘‘ فعل ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مفعول بہ مقدم۔ ’’ اللّٰعِنُوْنَ‘‘ فاعل مؤخر۔ فعل+فاعل+مفعول بہ جملہ فعلیہ ہو کر معطوف ۔ معطوف اور معطوف علیہ مل کر خبر ہے ’’ اُولٰٓئِکَ‘‘ کی۔ ’’ اُولٰٓئِکَ‘‘ مبتدا اپنی خبر سے مل کر جملہ اسمیہ ہو کر ’’ اِنَّ‘‘ کی خبرہے۔

 نوٹ (1) : حضرت ابوہریرہ (رض) اور چند دیگر صحابہ (رض) کے قول منقول ہیں کہ اگر قرآن میں یہ آیت نہ ہوتی تو وہ لوگ حدیث بیان نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک حدیث رسولؐ ‘ بھی قرآن کے حکم میں ہے ۔ (معارف القرآن) ۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے احکام کوواضح کیا ہے۔ ’’ مِنَ الْبَیِّنٰتِ‘‘ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے جو واضح احکام ہیں انہیں پھیلانا اور عام کرنا لازم ہے اور ان کو چھپانا ایک جرمِ عظیم ہے۔ اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰۗىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ    ١٦٠؁
[ اِلَّا الَّذِیْنَ : سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے] [ تَابُوْا : توبہ کی] [ وَاَصْلَحُوْا : اور اصلاح کی] [ وَبَــیَّنُوْا : اور واضح کیا] [ فَاُولٰٓـئِکَ : تو وہ لوگ ہیں] [ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ : میں توبہ قبول کرتا ہوں جن کی] [ وَاَنَا : اور میں] [ التَّوَّابُ : بار بار توبہ قبول کرنے والا ہوں] [ الرَّحِیْمُ : ہرحال میں رحم کرنے والا ہوں]

 

 ترکیب : ’’ اِلاَّ‘‘ حرفِ استثنائ۔ ’’ الَّذِیْنَ‘‘ اسم موصول ۔’’ تَابُوْا‘‘ فعل۔ ’’ واؤ‘‘ ضمیر فاعل۔ جملہ فعلیہ ہو کر معطوف علیہ۔’’ واؤ‘‘ حرف عطف۔ ’’ اَصْلَحُوْا‘‘۔ فعل فاعل جملہ فعلیہ ہو کر معطوف اوّل ۔’’ واؤ‘‘ حرفِ عطف ۔’’ بَیَّنُوْا‘‘ فعل +فاعل جملہ فعلیہ ہو کر معطوف دوم۔ معطوف علیہ معہ ہر دو معطوف صلہ۔ موصول+صلہ مستثنیٰ۔ مستثنیٰ منہ ’’ یَلْعَنُھُمْ‘‘ میں ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر ہے۔’’ فائ‘‘ رابطہ۔ لان فی الموصول رائحۃ الشرط۔ ’’ اُولٰٓئِکَ ‘‘ مبتدأ۔ ’’ اَتُوْبُ‘‘ فعل ۔ ضمیر ’’ اَنَا ‘‘ مستترفاعل ’’ عَلَیْھِمْ‘‘ جار+مجرور متعلق ’’ اَتُوْبُ‘‘ کے۔ فعل+فاعل+متعلق جملہ فعلیہ ہو کر خبر ہے’’ اُولٰٓئِکَ ‘‘ مبتدأکی۔’’ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ‘‘ میں ’’ واؤ‘‘ حرف عطف ’’ أَنا‘‘ مبتدا۔ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ خبر۔ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ   ١٦١۝ۙ
[ اِنَّ الَّذِیْنَ : بیشک جن لوگوں نے] [ کَفَرُوْا : انکار کیا] [ وَمَاتُوْا : اور مرے ] [ وَ : اس حال میں کہ ] [ ھُمْ : وہ لوگ ] [ کُفَّارٌ : انکار کرنے والے رہے] [ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ : وہ لوگ ہیں جن پر] [ لَعْنَۃُ اللّٰہِ : اللہ کی لعنت ہے ] [ وَالْمَلٰٓـئِکَۃِ : اور فرشتوں کی] [ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ: اور سب کے سب لوگوں کی]

 

 ترکیب :’’ اِنَّ‘‘ حرفِ مشبہ بالفعل۔’’ الَّذِیْنَ‘‘ اسم موصول۔ ’’ کَفَرُوْا‘‘ فعل با فاعل (جس میں وائو ضمیر بارز متصل فاعل ہے) ہو کر معطوف علیہ۔ ’’ وائو‘‘ عاطفہ اور ’’ مَاتُوْا‘‘ فعل با فاعل جملہ فعلیہ ہو کر معطوف ۔ معطوف + معطوف علیہ مل کر صلہ ہوا۔ صلہ+ موصول مل کر اِنَّ کا اسم ہوا۔ ’’ وائو‘‘ حالیہ ہے۔ ’’ ہُمْ‘‘ ضمیر مرفوع منفصل مبتدا ’’ کُفَّارٌ ‘‘ اس کی خبر ہے ۔ جملہ اسمیہ ہو کر حال ہوا۔ ’’ اُولٰٓئِکَ‘‘ مبتدا ہے’’ عَلَیْھِمْ‘‘ جار مجرور ’’ لَعْنَۃُ‘‘ مبتدأمؤخر ہے۔ لفظ جَلَالَۃ مضاف الیہ ہو کر معطوف علیہ ہوا ۔ وائو عاطفہ ’’ اَلْمَلٰٓئِکَۃِ‘‘ معطوف‘ معطوف علیہ۔ پھر وائو عاطفہ ’’ النَّاسِ‘‘ معطوف ’’ اَجْمَعِیْنَ‘‘ اس کی تاکید ہے۔ ’’ عَلَیْھِمْ‘‘ اپنے مبتدأ مؤخر اور خبر مقدم محذوف کے ساتھ مل کر جملہ اسمیہ ہو کر ’’ اُولٰٓئِکَ‘‘ مبتدا ٔکی خبر ہوا۔ مبتدا ٔخبر مل کر ’’ اِنَّ‘‘ کی خبر ہوئی ۔ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا  ۚ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْظَرُوْنَ    ١٦٢؁
[ خٰلِدِیْنَ: ہمیشہ ایک حالت میں رہنے والے ہوتے ہوئے ] [ فِیْھَا : اس میں ] [ لَا یُخَفَّفُ : ہلکا نہیں کیا جائے گا ] [ عَنْھُمُ الْعَذَابُ : ان سے عذاب کو] [ وَلَا ھُمْ : نہ ہی وہ لوگ ] [ یُنْظَرُوْنَ: مہلت دیے جائیں گے]

 

 ترکیب : ’’ خٰلِدِیْنَ‘‘ جمع مذکر اسم فاعل کا صیغہ ہے جو کہ یہاں حال بن رہا ہے۔’’ فِیْھَا‘‘ جار مجرور اس کے متعلق ہوا ۔’’ لَا‘‘ نافیہ ’’ یُخَفَّفُ‘‘ فعل مضارع مجہول‘ ’’ عَنْہُمْ‘‘ جار مجرور ہو کر متعلق فعل۔ ’’ الْعَذَابُ‘‘ فعل مجہول کا نائب فاعل ‘ جملہ فعلیہ حال ہوا۔ ’’ لا‘‘ نافیہ ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مرفوع منفصل مبتدا۔’’ یُنْظَرُوْنَ‘‘ فعل مجہول ’’ وائو ‘‘ ضمیر بارز متصل اس میں نائب فاعل جملہ فعلیہ ہو کر خبر ہوئی ’’ ھُمْ‘‘ کی۔ مبتدا خبر مل کر جملہ اسمیہ ہو کر حال ہوا۔ وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ  ١٦٣؀ۧ
[ وَاِلٰــھُکُمْ : اور تم لوگوں کا الٰہ] [ اِلٰــــہٌ وَّاحِدٌ : واحد الٰہ ہے ] [ لَا اِلٰـــہَ : کسی قسم کا کوئی الٰہ نہیں ہے] [ اِلاَّ : مگر] [ ھُوَ : وہ] [ الرَّحْمٰنُ : جو بےانتہا رحم کرنے والا ہے] [ الرَّحِیْمُ: جو ہر حال میں رحم کرنے والا ہے]

 

 ترکیب : ’’ واؤ‘‘ استیناف‘ ’’ اِلٰــہ‘‘ مبتدأ ’’ کُمْ‘‘ ضمیر مضاف الیہ ’’ اِلٰــہٌ‘‘ خبر‘ ’’ وَاحِدٌ‘‘ اس کی تاکید ہے۔ ’’ لاَ‘‘ لائے نفی ٔ جنس ’’ اِلٰـــہَ‘‘ اس کا اسم جو مبنی علی الفتح ہے۔ ’’ اِلاَّ‘‘ حرفِ استثناء ’’ ہُوَ‘‘ ضمیر مرفوع منفصل مستثنیٰ۔ لائے نفی جنس کی خبر محذوف ہے جو کہ مَوْجُوْدٌ ہے ‘ لیکن یہاں پر ’’ بِحَقٍ‘‘ جار مجرور بھی محذوف مانیں گے ۔ تقدیر عبارت یہ ہوئی:’’ لاَ مَعْبُوْدَ بِحَقٍ مَوْجُوْدٌ اِلَّا اللّٰہَ‘‘ (اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق موجود نہیں ہے) ’’ الرَّحْمٰنُ‘‘ خبر ’’ الرَّحِیْمُ‘‘ اس کا بدل ہے۔ ’’ ہُوَ‘‘ ضمیر مبتدأ محذوف ہے۔ مبتدا ٔخبر مل کر جملہ اسمیہ ہوا۔ اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ    ۠ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ   ١٦٤؁
[ اِنَّ : بےشک ] [ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں ] [ وَاخْتِلَافِ الَّــیْلِ وَالنَّھَارِ : اور دن اور رات کے اختلاف میں ] [ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ : اور کشتی میں جو ] [ تَجْرِیْ : چلتی ہے ] [ فِی الْبَحْرِ : سمندر میں ] [ بِمَا : اس کے ساتھ جو ] [ یَنْفَعُ : فائدہ دیتا ہے ] [ النَّاسَ : لوگوں کو ] [ وَمَآ : اور اس میں جو ] [ اَنْزَلَ : اُتارا ] [ اللّٰہُ: اللہ نے ] [ مِنَ السَّمَآئِ : آسمان سے ] [ مِنْ مَّآئٍ : کچھ پانی میں سے] [ فَاَحْیَا : پھر اس نے زندہ کیا ] [ بِہِ : اس سے] [ الْاَرْضَ : زمین کو ] [ بَعْدَ مَوْتِھَا : اس کی موت کے بعد] [ وَبَثَّ : اور اس نے پھیلایا] [ فِیْھَا : اس میں] [ مِنْ کُلِّ دَابَّۃٍ : تمام چلنے والے جانداروں میں سے] [ وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ : اور ہوائوں کے گھمانے میں] [ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ : اور مطیع کیے ہوئے بادل میں] [ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ : زمین اور آسمان کے درمیان] [ لَاٰیٰتٍ : یقینا نشانیاں ہیں] [ لِّقَوْمٍ : ایسے لوگوں کے لیے] [ یَّعْقِلُوْنَ: جو عقل سے کام لیتے ہیں]

 

ل ی ل

 ثلاثی مجرد سے فعل استعمال نہیں ہوتا۔

 لَـیْلٌ (اسم جنس) : رات۔ اس کی جمع لَـیَالٌ اور واحد لَیـْلَۃٌ ہے۔ {اٰیَتُکَ اَلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ۔ } (مریم) ’’ تیری نشانی ہے کہ تو کلام نہیں کرے گا لوگوں سے تین راتیں مکمل۔‘‘ {اِنَّا اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ۔ } (القدر) ’’ بیشک ہم نے نازل کیا اس کو قدر کی رات میں۔‘‘

ف ل ک

 فَلَکَ (ن) فَلْکًا : کسی چیز کا انڈے کی مانند گول ہونا‘ بیضوی ہونا۔

 فُلْکٌ (اسم ذات) : کشتی (کیونکہ یہ بیضوی ہوتی ہے) ۔ یہ واحد اور جمع دونوں کے لیے آتا ہے۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 فَلَکٌ (اسم ذات): سیاروں کی گردش کرنے کا مقررہ راستہ‘ مدار (کیونکہ آسمان میں ہر گردش کرنے والی چیز کا مدار بیضوی ہے) ۔ {کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ ۔ } (الانبیائ) ’’ سب کسی مدار میں تیرتے ہیں۔‘‘

ب ث ث

 بَثَّ (ن) بَثًّا : کسی چیز کو منتشر کرنا‘ بکھیرنا۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 بَثٌّ (اسم ذات) : پراگندگی (غم کی شدت کی وجہ سے) ۔ {اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ} (یوسف:86) ’’ میں تو بس بیان کرتا ہوں اپنی پراگندگی اور اپنا غم اللہ سے۔‘‘

 مَبْثُوْثٌ (اسم المفعول) : منتشر کیا ہوا‘ بکھیرا ہوا۔ {یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ ۔ } (القارعۃ) ’’ جس دن ہوں گے لوگ بکھیرے ہوئے پتنگوں کی مانند۔‘‘

 اِنْبَثَّ(انفعال) اِنْبِثَاثًا : کسی چیز کا منتشر ہونا‘ بکھر جانا۔

 مُنْبَثٌّ (اسم الفاعل) : منتشر ہونے والا‘ بکھرنے والا۔ {فَکَانَتْ ھَبَائً مُّنْبَثًّا ۔ } (الواقعۃ) ’’ پھر وہ ہو غبار بکھرنے والا ہوتے ہوئے۔‘‘

د ب ب

 دَبَّ (ض) دَبًّا : زمین پر گھسٹ کر چلنا ‘ رینگنا۔

 دَابٌّ (فَاعِلٌ کے وزن پر): چلنے والا‘ رینگنے والا۔ لیکن یہ اسم جنس کے طور پرآتا ہے۔ اس کی جمع دَوَابٌّ اور دَابَّۃٌ ہے۔ {اِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ ۔ } (الانفال) ’’ بیشک زمین پر چلنے والے تمام جانداروں میں سے بدترین اللہ کے نزدیک وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔‘‘ دَابَّۃٌ کے لیے آیت زیرِ مطالعہ دیکھیں۔

ص ر ف

 صَرَفَ (ض) صَرْفًا : کسی کو کسی سے پھیر دینا‘ ہٹا دینا۔ {سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَـکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ} (الاعراف:146) ’’ میں پھیر دوں گا اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کو جو تکبر کرتے ہیں زمین میں۔‘‘

 اِصْرِفْ (فعل امر) : تو پھیر دے‘ ہٹا دے۔ {رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ ق} (الفرقان:65) ’’ اے ہمارے ربّ! تو ہٹا دے ہم سے جہنم کے عذاب کو۔‘‘

 مَصْرِفٌ (اسم الظرف) : پھیرنے کی جگہ۔ {وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْھَا مَصْرِفًا ۔ } (الکہف) ’’ اور وہ لوگ نہیں پائیں گے اس سے پھیرنے کی کوئی جگہ یعنی کوئی راستہ۔‘‘

 صَرَّفَ (تفعیل) تَصْرِیْفًا : کثرت سے پھیرنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ زیادہ تر دو معنوں میں آتا ہے: (1) کسی کو بار بار گھمانا۔ (2) کسی بات کو بار بار بیان کرنا۔ {کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْکُرُوْنَ ۔ } (الاعراف) ’’ اس طرح ہم بار بار بیان کرتے ہیں آیتوں کو ایسے لوگوں کے لیے جو شکر کرتے ہیں۔‘‘

 اِنْصَرَفَ (انفعال) اِنْصِرَافًا : کسی سے پھر جانا۔ ہٹ جانا۔ {ثُمَّ انْصَرَفُوْا ط صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ} (التوبۃ:127) ’’ پھر وہ لوگ پھر گئے تو اللہ نے پھیر دیا ان کے دلوں کو۔‘‘

س ح ب

 سَحَبَ (ف) سَحْبًا : کسی کو گھسیٹنا۔ {یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْط} (القمر:48) ’’ جس دن وہ لوگ گھسیٹے جائینگے آگ میں اپنے چہروں کے بل۔‘‘

 سَحَابٌ (اسم ذات) : بادل (کیونکہ وہ آبی بخارات کو گھسیٹتا ہے) ۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

س خ ر

 سَخَرَ(ف) سَخْرًا : کسی سے بلامعاوضہ یعنی اعزازی طور پر کام لینا۔ بیگار لینا۔

 سَخِرَ (س) سَخَرًا : کسی سے مذاق کرنا۔{فَیَسْخَرُوْنَ مِنْھُمْط سَخِرَ اللّٰہُ مِنْھُمْز} (التوبۃ:79) ’’ تو وہ لوگ مذاق کرتے ہیں ان سے۔ مذاق کیا اللہ نے ان سے۔‘‘

 سَاخِرٌ (اسم الفاعل) : مذاق کرنے والا۔{وَاِنْ کُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَ ۔ } (الزمر) ’’ اور میں تھا مذاق کرنے والوں میں سے۔‘‘

 سِخْرِیٌّ (اسم نسبت) : مذاق والا (جس سے مذاق کیا جائے)‘ مذاق کا نشانہ۔ {فَاتَّخَذْتُمُوْھُمْ سِخْرِیًّا} (المؤمنون:110) ’’ پھر بنایا تم لوگوں نے ان کو مذاق کا نشانہ۔‘‘

 سُخْرِیٌّ (اسم نسبت) : بیگار والا (جس سے بیگار لیا جائے) ‘ دوسروں کے کام آنے والا۔{لِیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّاط} (الزخرف:32) ’’ تاکہ ان کا کوئی بنائے کسی کو کام آنے والا۔‘‘ یعنی ایک دوسرے کے کام آئیں۔

 سَخَّرَ (تفعیل) تَسْخِیْرًا: کثرت سے بیگار لینا‘ کسی کو مطیع کرنا۔{وَسَخَّرَلَــکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ ج} (ابرٰھیم:32) ’’ اور اس نے مطیع کیا کشتی کو تاکہ وہ چلے سمندر میں اس کے حکم سے۔‘‘

 مُسَخَّرٌ (اسم المفعول) : مطیع کیا ہوا۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 اِسْتَسْخَرَ(استفعال) اِسْتِسْخَارًا: کسی کا مذاق اڑانا۔ {وَاِذَا رَاَوْا اٰیَۃً یَّسْتَسْخِرُوْنَ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ اور جب بھی وہ لوگ دیکھتے ہیں کوئی نشانی تو مذاق اڑاتے ہیں۔‘‘

 ترکیب : ’’ اِنَّ‘‘ حرفِ مشبہ بالفعل ہے۔ ’’ فِیْ‘‘ حرف جار۔’’ خَلْقِ‘‘ مجرور ہے۔ ’’ السَّمٰوٰت‘‘ مضاف الیہ ہے۔ ’’ واؤ‘‘ عاطفہ اور ’’ الْاَرْضِ‘‘ معطوف ہے۔ پھر’’ واؤ‘‘ عاطفہ اور ’’ اِخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ‘‘ معطوف ہے۔ پھر ’’ واؤ‘‘ عاطفہ ہے اور ’’ الْفُلْکِ‘‘ معطوف ہے۔ ’’ الَّتِیْ‘‘ اسم موصول ہے جو اپنے صلہ کے ساتھ مل کر ’’ الْفُلْکِ‘‘ کی صفت بن رہا ہے اور حالت جر میں ہے۔ ’’ تَجْرِیْ‘‘ فعل مضارع ’’ ھِیَ‘‘ ضمیر مستتر اس کا فاعل ہے۔ ’’ فِی الْبَحْرِ‘‘ جار مجرور مل کر متعلق فعل ہو کر جملہ خبریہ ہوا۔ یہ جملہ خبریہ ’’ الَّتِیْ‘‘ کا صلہ ہوا۔ موصول صلہ مل کر اپنے ماقبل کی صفت ہوا۔ ’’ بِ‘‘ حرف جار ہے۔ ’’ مَا‘‘ موصولہ ہے۔ ’’ یَنْفَعُ‘‘ فعل مضارع ’’ ھُوَ‘‘ ضمیر مستتراس کا فاعل ہے۔ ’’ النَّاسَ‘‘ مفعول ہے۔ فعل اپنے فاعل اور مفعول کے ساتھ مل کر جملہ خبریہ ہو کر صلہ ہوا۔ موصول اپنے صلہ کے ساتھ مل کر مجرور ہوا ’’ بائ‘‘ جارہ کے لیے۔ جار مجرور مل کر ’’ تَجْرِیْ‘‘ فعل کے متعلق ہوا۔ ’’ واؤ‘‘ عاطفہ ہے۔ ’’ مَا‘‘ موصولہ ہے۔ ’’ اَنْزَلَ‘‘ فعل ماضی ‘ لفظ’’ اللّٰہُ‘‘ اس کا فاعل ہے۔ ’’ ہٗ‘‘ ضمیر محذوف ہے ۔ تقدیر عبارت یوں ہے: ’’ وَمَا اَنْزَلَـہٗ‘‘۔ یہ جملہ صلہ بن رہا ہے’’ مَا‘‘ موصولہ کا۔ ’’ مِنْ‘‘ جار’’ السَّمَائِ‘‘ مجرور ہے۔ پھر’’ مِنْ ‘‘ جار’’ مَآئٍ‘‘ مجرور ہے۔’’ فَا‘‘ عاطفہ ہے جو سبب بیان کر رہی ہے۔ ’’ اَحْیَا‘‘ فعل ماضی ہے ’’ ھُوَ‘‘ ضمیر مستتر اس کا فاعل ہے۔’’ بِ‘‘ جارہ’’ ہٗ‘‘ ضمیر مجرور متصل ہے۔ جار مجرور مل کر فعل ماضی کے متعلق ہوئے۔ ’’ الْاَرْضَ‘‘ مفعول بہ ہے۔ ’’ بَعْدَ‘‘ مضاف ظرف زمان ہے‘ اس لیے مفعول فیہ بن رہا ہے۔ ’’ مَوْتِھَا‘‘ مضاف‘ مضاف الیہ ہے۔’’ واؤ‘‘ عاطفہ ہے۔ ’’ بَثَّ‘‘ فعل ماضی ہے۔ ’’ فِیْھَا‘‘ جار مجرور مل کر متعلق فعل ہوا۔ ’’ مِنْ‘‘ تبعیضیہ حرفِ جار اور’’ کُلِّ‘‘ مجرور مل کر متعلق ہے مفعول’’ بَثَّ‘‘ کاجومحذوف ہے۔ ’’ دَابَّــۃٍ‘‘ مضاف الیہ ہے۔

 ’’ واؤ‘‘ عاطفہ ’’ تَصْرِیْفِ‘‘ معطوف علی’’ السَّمَائِ‘‘ ہے۔ ’’ الرِّیَاحِ‘‘ مضاف الیہ ’’ واؤ‘‘ عاطفہ’’ السَّحَابِ‘‘ موصوف معطوف ہے۔’’ الْمُسَخَّرِ‘‘ ماقبل کی صفت ہے۔ ’’ بَیْنَ‘‘ ظرف مکان ہے جو کہ اسم مفعول ’’ الْمُسَخَّرِ‘‘ کے متعلق ہے۔’’ السَّمَآئِ‘‘ مضاف الیہ ہے۔ ’’ واؤ‘‘ عاطفہ ’’ الْاَرْضِ‘‘ معطوف ہے۔’’ لَاٰیٰتٍ‘‘ میں ’’ لام‘‘ لامِ تاکید اور’’ اٰیَاتٍ‘‘ اِنَّکا اسم ہے جو کہ مؤخر ہے۔ ’’ لِقَوْمٍ‘‘ میں’’ لام‘‘ حرف جار ’’ قَوْمٍ‘‘ مجرور ہو کر متعلق ہوا’’ آیَاتٍ‘‘ کی صفت محذوف کے ساتھ۔ ’’ یَعْقِلُوْنَ‘‘ فعل مضارع ہے۔ ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مستتر اس کا فاعل ہے ۔ فعل فاعل جملہ خبریہ ہو کر ’’ قَوْمٍ‘‘ کی صفت ہوا وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ۭ وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ ۙ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا  ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ   ١٦٥؁
[ وَمِنَ النَّاسِ : اور لوگوں میں وہ بھی ہیں ] [ مَنْ : جو ] [ یَّتَّخِذُ : بناتے ہیں ] [ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ : اللہ کے علاوہ (کچھ) کو ] [ اَنْدَادًا : (اس کا) ہم پلہ ] [ یُّحِبُّوْنَھُمْ : وہ لوگ محبت کرتے ہیں ان سے ] [ کَحُبِّ اللّٰہِ : اللہ کی محبت کی مانند ] [ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : اور جو لوگ ایمان لائے وہ ] [ اَشَدُّ : زیادہ شدید ہیں ] [ حُبًّا لِّلّٰہِ : اللہ کے لیے محبت کے لحاظ سے ] [ وَلَوْ یَرَی : اور کاش تصور کریں ] [ الَّذِیْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ] [ ظَلَمُوْا : ظلم کیا ] [ اِذْ یَرَوْنَ : (اس وقت کا) جب وہ لوگ دیکھیں گے ] [ الْعَذَابَ : عذاب کو ] [ اَنَّ الْقُوَّۃَ : (اور دیکھیں گے) کہ ساری قوت ] [ لِلّٰہِ : اللہ کے لیے ہے ] [ جَمِیْعًا : سب کی سب ] [ وَّاَنَّ اللّٰہَ : اور (دیکھیں گے) کہ اللہ ] [ شَدِیْدُ الْعَذَابِ: عذاب کا شدید ہے [

 

ح ب ب

 حَبَّ (ض) حُبًّا : پسند کرنا‘ پیار کرنا‘ محبت کرنا۔

 حَبَّ (ک) حِبًّا : پسندیدہ ہونا‘ پیارا ہونا‘ محبوب ہونا۔

 اَحَبُّ ج اَحِبَّائُ (افعل التفضیل) : زیادہ پیارا۔{وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ} (التوبۃ:24) ’’ اور مکانات‘ تم لوگ راضی ہو جن سے‘ زیادہ پیارے ہیں تم کو۔‘‘{نَحْنُ اَبْنٰؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہٗ ط} (المائدۃ:18) ’’ ہم لوگ اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے زیادہ پیارے ہیں۔‘‘

 حُبٌّ (اسم ذات) : پیار‘ محبت‘ آیت زیر مطالعہ۔

 حَبٌّ واحد حَبَّۃٌ (اسم جنس ): دانہ ۔ (کیونکہ یہ کسانوں کو بہت پیارا ہوتا ہے) ۔ {اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰیط} (الانعام:95) ’’ بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کا پھاڑنے والا ہے۔‘‘ {مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ} (البقرۃ:261) ’’ ان لوگوں کی مثال جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں ایک ایسے دانے کی مثال کی مانند ہے جو اگائے سات بالیں۔‘‘

 اَحْبَبَ (افعال) اِحْبَابًا : پیار کرنا‘ محبت کرنا۔ (یہ مادہ بابضَرَبَ اور باب افعال میں ہم معنی ہے‘ لیکن اس معنی میں قرآن مجید میں یہ صرف باب افعال سے آیا ہے) ۔ {اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰــکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ج} (القصص:56) ’’ یقینا آپؐ ہدایت نہیں دیتے اس کو جس کو آپؐ چاہیں اور لیکن (یعنی بلکہ) اللہ ہدایت دیتا ہے اس کو جس کو وہ چاہتا ہے۔‘‘

 حَبَّبَ (تفعیل) تَحْبِیْبًا : کسی کو کسی کے لیے پیارا بنا دینا۔{وَلٰــکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ} (الحُجُرات:7) ’’ بلکہ اللہ نے پیارا بنایا تمہارے لیے ایمان کو۔‘‘

 اِسْتَحَبَّ(استفعال) اِسْتِحْبَابًا : کسی کو کسی پر ترجیح دینا‘ پسند کرنا۔ {اَلَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ} (ابرٰھیم:3) ’’ وہ لوگ جو ترجیح دیتے ہیں دنیا کی زندگی کو آخرت پر۔‘‘

 ترکیب : ’’ واؤ‘‘ استینافیہ۔’’ مِنْ‘‘ حرفِ جار’’ النَّاسِ‘‘ مجرور ۔ جارومجرور مل کر متعلق بخبر مقدم جو محذوف ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ اسم موصول مبتدأ مؤخر ہے۔’’ یَتَّخِذُ‘‘ فعل مضارع ہے۔ ’’ ھُوَ‘‘ ضمیر مستتر فاعل ہے۔ ’’ مِنْ‘‘ حرفِ جار’’ دُوْنِ‘‘ مجرور ‘ لفظ ’’ اللّٰہِ‘‘ مضاف الیہ ہے۔ ’’ اَنْدَادًا‘‘ مفعول بہ ہے۔ ’’ یُحِبُّوْنَھُمْ‘‘ فعل مضارع’’ واؤ‘‘ ضمیر بارز متصل اس کا فاعل ہے۔ ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مفعول ہے۔ فعل اپنے فاعل اور مفعول کے ساتھ مل کر ’’ اَنْدَادًا‘‘ کے لیے صفت بن رہا ہے۔’’ ک‘‘ جارہ ہے ’’ حُبِّ‘‘ مجرور ہے ‘ لفظ ’’ اللّٰہِ‘‘ مضاف الیہ ہے۔ ’’ واؤ‘‘ استیناف کے لیے ہے۔ ’’ الَّذِیْنَ‘‘ اسم موصول مبتدأ ہے۔’’ اٰمَنُوْا‘‘ فعل ماضی ہے۔ ’’ واؤ‘‘ ضمیر بارز متصل اس کا فاعل ہے۔ ’’ اَشَدُّ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ حُبًّا‘‘ تمییز ہے۔ ’’ لِلّٰہِ‘‘ جار مجرور ہو کر متعلق تمییز ہوا۔ ’’ واؤ‘‘ استیناف کا ہے۔ ’’ لَوْ‘‘ حرفِ شرط غیر جازم ہے۔ ’’ یَرٰی‘‘ فعل مضارع ’’ الَّذِیْنَ‘‘ اسم موصول’’ ظَلَمُوْا‘‘ فعل با فاعل ہو کر صلہ ہوا۔ موصول صلہ مل کر فاعل ہوا ’’ یَرٰی‘‘ کا۔ ’’ اِذْ‘‘ حرف زمان ہے‘ محل نصب میں ہے اور ’’ حِیْنَ‘‘ کے معنی میں ہے۔ ’’ یَرَوْنَ‘‘ فعل مضارع بافاعل ہے’’ الْعَذَابَ‘‘ اس کا مفعول ہے۔ یہ جملہ خبریہ ہو کر’’ اِذْ‘‘ کا مضاف الیہ ہوا۔ اور’’ اِذْ‘‘ اپنے مضاف الیہ کے ساتھ مل کربتاویل مصدر ’’ یَرٰی‘‘ کا مفعول فیہ ہوا۔ پورا جملہ ’’ اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ ‘‘ شرط ہے اور جواب شرط یہاں پر محذوف ہے اور وہ ’’ لَـعَلِمُوْا‘‘ ہے۔ ’’ اَنَّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل ہے۔ ’’ الْقُوَّۃَ‘‘ اسم’’ اَنَّ‘‘ ہے۔ ’’ لِلّٰہِ‘‘ جار مجرور متعلق خبر محذوف ہے۔ ’’ جَمِیْعًا‘‘ حال ہے۔ ’’ اَنَّ‘‘ اپنے اسم و خبر محذوف کے ساتھ مل کر بتاویل مصدر مفعول ہوا۔ ’’ واؤ‘‘ عاطفہ’’ اَنَّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل‘ لفظ ’’ اللّٰہَ‘‘ اسم ’’ اَنَّ‘‘ ہے۔ ’’ شَدِیْدُ الْعَذَابِ‘‘ خبر’’ اَنَّ‘‘ ہے۔

 نوٹ (1) : دنیا کی امتحان گاہ میں بھیجنے سے پہلے انسان کو جو کچھ سکھایا یا پڑھایا جاتا ہے‘ یعنی جو اس کی فطرت میں ودیعت کیا جاتا ہے‘ اس میں اللہ کی محبت بھی شامل ہے۔ لیکن دنیا میں آنے کے بعد کچھ لوگ مادی ذرائع اور وسائل کو یعنی پیسے اور زندہ و مردہ ہستیوں کو ہی اپنا حاجت روا‘ مشکل کشا اور اَن داتا فرض کر بیٹھتے ہیں تو محبت کا یہ جذبہ ان کی طرف منتقل ہو جاتا ہے ‘ جو اس کا مذموم استعمال ہے۔ لیکن کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کچھ کو تجربہ اور کچھ کو مشاہدہ کرا دیتا ہے۔ جب سارے آسرے وسیلے جواب دے دیتے ہیں‘ اُمیدیں دم توڑجاتی ہیں‘ اس وقت جس طرح بلبلا کر انسان اللہ کو پکارتا ہے تو وہ درحقیقت اس کی فطرت کا مظہر ہے۔ جگرؔ مرحوم کو پتا نہیں تجربہ ہوا تھا یا مشاہدہ‘ لیکن اس کیفیت کو انہوں نے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے کہ ؎

مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا

ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

 واضح رہے کہ مادی اسباب کے استعمال کی ممانعت نہیں ہے ‘ بلکہ تاکید ہے‘ کیونکہ اللہ نے ہمارے لیے ان کو مسخر کیا ہے (31:20) ۔ اور انہیں دنیا کی زندگی کا سامان بنایا ہے۔ (28:60) ۔ ان میں عام انسان اور زندہ ہستیاں بھی شامل ہیں (43:32) ۔ لیکن ان کو استعمال کرتے وقت دو باتوں میں ہمارا امتحان ہے۔ اوّلاً یہ کہ حدود اللہ کے اندر رہتے ہوئے ان کو استعمال کرنا ہے۔ ثانیاً یہ کہ تکیہ اور بھروسہ یعنی توکل اسباب پر نہیں کرنا ہے‘ ورنہ پھر وہی ہو گا جس کی اس آیت میں نشاندہی کی گئی ہے۔ البتہ اگر مادی اسباب کو ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جائے اور نتیجہ کے لیے توکل اللہ پر ہو تو پھر محسن سے محبت کے فطری جذبے کا رُخ محسنِ حقیقی ہی کی جانب رہتا ہے اور یہی مطلوب ہے۔ دیگر فوائد کے ساتھ اس کا ایک نقد فائدہ یہ ہے کہ انسان کی شخصیت اپنے داخلی خلفشار سے محفوظ و مامون رہتی ہے اور اَلنَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ کی جانب اس کا سفر جاری و ساری رہتا ہے۔ اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْـبَابُ   ١٦٦؁
[ اِذْ تَـبَرَّاَ: جب اظہارِ بیزاری کریں گے] [ الَّذِیْنَ : وہ لوگ جن کی] [ اتُّبِعُوْا: پیروی کی گئی] [ مِنَ الَّذِیْنَ : ان لوگوں سے جنہوں نے] [ اتَّبَعُوْا : پیروی کی] [ وَرَاَوُا : اور وہ لوگ دیکھیں گے ] [ الْعَذَابَ : عذاب کو] [ وَتَقَطَّعَتْ : اور کٹ جائیں گے

بِھِمُ: ان کے ] [ الْاَسْبَابُ: سارے بندھن]

 

 

س ب ب

 سَبَّ (ن) سَبًّا: (1) رسّی کاٹنا‘ تعلقات کے بندھن کاٹنا۔ (2) گالی دینا (کیونکہ اس سے تعلقات منقطع ہوتے ہیں) ۔ {وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ} (الانعام:108) ’’ اور تم لوگ گالی مت دو ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اللہ کے علاوہ کسی کو‘ تو وہ لوگ برا کہیں گے اللہ کو۔‘‘

 سَبَبٌ ج اَسْبَابٌ (اسم ذات) : ایسی رسّی جس سے درخت پر چڑھا اور اترا جاتا ہے۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے: (1) رسّی (2) بندھن‘ تعلقات (3) ذریعہ‘ سامان۔ {فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآئِ} (الحج:15) ’’ تو اسے چاہیے کہ وہ تان لے کوئی رسّی آسمان کی طرف۔‘‘{وَاٰتَیْنٰہُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ سَبَبًا ۔ } (الکہف) ’’ اور ہم نے دیا اس کو ہر چیز میں سے بطور سامان کے‘‘۔’’ تعلقات‘‘ کے مفہوم کے لیے آیت زیرِ مطالعہ دیکھیں۔

 ترکیب : ’’ تَبَرَّاَ‘‘ کا فاعل ’’ اَلَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا‘‘ ہے‘ جبکہ ’’ مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا‘‘ اس کا مفعول ہے۔ ’’ رَاَوْا‘‘ کا فاعل اس میں شامل’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو گزشتہ جملہ کے فاعل اور مفعول دونوں کے لیے ہے۔’’ الْعَذَابَ‘‘ اس کا مفعول ہے۔’’ تَقَطَّعَتْ‘‘ کا فاعل ’’ الْاَسْبَابُ‘‘ ہے‘ اس پر لامِ جنس ہے ۔ اور چونکہ یہ غیر عاقل کی جمع مکسر ہے اس لیے فعل واحد مؤنث آیا ہے۔ یہاں قیامت کا ذکر ہے اس لیے ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہو گا۔ وَقَالَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا ۭ كَذٰلِكَ يُرِيْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ حَسَرٰتٍ عَلَيْهِمْ ۭ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ١٦٧؁ۧ
[ وَقَالَ : اور کہیں گے] [ الَّذِیْنَ : وہ لوگ جنہوں نے] [ اتَّـبَعُوْا : پیروی کی] [ لَوْ اَنَِّ: کاش کہ] [ لَنَا: ہمارے لیے ہوتی] [ کَرَّۃً: کوئی ایک اور باری] [ فَنَتَبَرَّاَ: تاکہ ہم اظہارِ بیزاری کرتے] [ مِنْھُمْ : ان سے ] [ کَمَا : جیسے کہ ] [ تَبَرَّئُ وْا: انہوں نے اظہار بیزاری کیا] [ مِنَّا : ہم سے] [ کَذٰلِکَ : اس طرح] [ یُرِیْھِمُ : دکھائے گا ان کو ] [ اللّٰہُ : اللہ] [ اَعْمَالَھُمْ : ان کے اعمال] [ حَسَرٰتٍ: حسرتیں ہوتے ہوئے] [ عَلَیْھِمْ : ان پر ] [ وَمَا ھُمْ : اور نہیں وہ لوگ ] [ بِخٰرِجِیْنَ : نکلنے والے] [ مِنَ النَّارِ: آگ سے]

 

 

ک ر ر

 کَرَّ (ن) کَرُوْرًا : لوٹنا‘ مڑنا۔

 کَرًّا : لوٹانا‘ موڑنا۔

 کَرَّۃٌ : ایک مرتبہ لوٹنا یا لوٹایا جانا ‘ یعنی دوسری باری‘ دوسری اننگ۔ آیت زیرِ مطالعہ

ح س ر

 حَسَرَ (ض) حَسْرًا: تھکانا‘ غمگین کرنا۔

 حَسِرَ (س) حَسَرًا : تھکنا‘ غمگین ہونا۔

 حَسْرَۃٌ ج حَسَرَاتٌ (اسم ذات) : تأسف‘ حسرت ۔ {لِیَجْعَلَ اللّٰہُ ذٰلِکَ حَسْرَۃً فِیْ قُلُوْبِھِمْ ط} (آل عمران:156) ’’ تاکہ بنائے اللہ اس کو حسرت ان کے دلوں میں۔‘‘

 حَسِیْرٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت): غم زدہ‘ ناکام۔ {یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ ۔ } (الملک:4) ’’ لوٹے گی تیری طرف نگاہ تھکی ہوئی اور وہ ناکام ہو گی‘‘۔

 مَحْسُوْرٌ (مَفْعُوْلٌ کے وزن پر صفت) : تھکایا ہوا‘ تھکاہارا۔ {فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ۔ } (بنی اسرائیل ) ’’ کہ پھر تو بیٹھے ملامت زدہ تھکا ہارا ہوتے ہوئے۔‘‘

 اِسْتَحْسَرَ (استفعال) اِسْتِحْسَارًا : تھکاوٹ محسوس کرنا‘ سستی کرنا‘ کاہلی کرنا۔

{لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا یَسْتَحْسِرُوْنَ ۔ } (الانبیائ) ’’ وہ لوگ استکبار نہیں کرتے اس کی عبادت سے اور نہ ہی سستی کرتے ہیں۔‘‘

 ترکیب : ’’ لَوْاَنَّ‘‘ کا ’’ لَوْ‘‘ تمنی ہے۔ ’’ کَرَّۃً‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور ’’ اَنَّ‘‘ کا اسم ہونے کی وجہ سے نصب میں ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ لَنَا‘‘ قائم مقام خبر مقدم۔ ’’ فَنَتَبَرَّاَ‘‘ میں مضارع منصوب آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے ’’ لام کَیْ‘‘ یا ’’ لِاَنْ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ یُرِیْ‘‘ کا فاعل ’’ اَللّٰہُ‘‘ ہے‘ اس کا مفعول اوّل ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ قَالَ الَّذِیْنَ‘‘ کے لیے ہے جبکہ ’’ اَعْمَالَھُمْ‘‘ اس کا مفعول ثانی ہے اور’’ حَسَرٰتٍ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے نصب میں آیا ہے۔

 نوٹ (1) : سورۃ البقرۃ کی آیت 48 اور 123 میں اصولی بات بیان کی گئی ہے کہ کوئی جان کسی جان کے کام نہیں آئے گی۔ اسی اصول کو دوسرے الفاظ میں پانچ مقامات پر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ (الانعام:164‘ بنی اسرائیل:15‘ فاطر:18‘ الزمر:7‘ النجم:38) ۔ اس اصول کے ایک پہلو کا نقشہ آیت زیرِ مطالعہ اور اس سے پچھلی آیت میں کھینچا گیا ہے۔ جب کسی کا کوئی باہم مشورہ یا فتویٰ غلط ثابت ہو گا اور ان پر آنکھ بند کر کے عمل کرنے والوں کو پکڑا جائے گا یا کسی پیر صاحب کی غلطی پر ان کے مرید پکڑے جائیں گے ‘ تو پھر اس وقت کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا   ڮ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ   ١٦٨؁
[ یٰٓـــاَیـُّھَا النَّاسُ : اے لوگو!] [ کُلُوْا : تم کھائو] [ مِمَّا : اس میں سے جو ] [ فِی الْاَرْضِ : زمین میں ہے] [ حَلٰلًا طَیِّبًا : حلال‘ پاکیزہ (رزق) کو] [ وَّلَا تَتَّبِعُوْا : اور تم لوگ پیروی مت کرو] [ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ : شیطان کے نقش قدم کی] [ اِنَّـہٗ : یقینا وہ] [ لَــکُمْ : تمہارے لیے ] [ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ: ایک کھلا دشمن ہے]

 

ح ل ل

 حَلَّ (ن‘ ض) حِلاًّ اور حَلَالًا : رسی کھولنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں آتا ہے: (1) گرہ کھولنا۔ (2) کسی جگہ اترنا (منزل پر سواری سے اتر کر سامان کی رسیاں کھولتے ہیں) ۔ (3) احرام کھولنا (احرام کی پابندیاں یعنی بندشیں کھل جاتی ہیں) ۔ (4) جائز ہونا‘ حلال ہونا (استعمال کرنے کی بندش کھل جاتی ہے) ۔ {اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ} (طٰہٰ:86) ’’ یا ارادہ کیا تم لوگوں نے کہ اُترے تم لوگوں پر کوئی غضب تمہارے رب کی جانب سے۔‘‘{وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ط} (المائدۃ:2) ’’ اور جب تم لوگ احرام کھولو تو شکار کر لو۔‘‘{وَلَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْ اَرْحَامِھِنَّ} (البقرۃ:228) ’’ اور جائز نہیں ہوتا ان خواتین کے لیے کہ وہ چھپائیں اس کو جو پیدا کیا اللہ نے ان کے رحموں میں۔‘‘

 اُحْلُلْ (فعل امر) : تو کھول ۔{وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ ۔ } (طٰہٰ) ’’ اور تو کھول گرہ میری زبان سے۔‘‘

 مَحِلٌّ (اسم الظرف) : اُترنے کی جگہ۔ {لَــکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ مَحِلُّھَا اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ۔ } (الحج) ’’ تم لوگوں کے لیے ہیں اس میں کچھ فائدے ایک مقررہ مدت تک ‘ پھر اس کی منزل ہے قدیم گھر کی طرف۔‘‘

 حَلِیْلٌ : (فَعِیْلٌکے وزن پر): شوہر (بیوی کے لیے ہمیشہ حلال ہوتا ہے) ۔

 حَلِیْلَۃٌ ج حَلَائِلُ (: فَعِیْلٌکے مؤنث فَعِیْلَۃٌ کے وزن پر): بیوی (شوہر کے لیے ہمیشہ حلال ہوتی ہے) ۔ {وَحَلَائِلُ اَبْنَائِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ} (النسائ:23) ’’ اور بیویاں تمہارے ان بیٹوں کی جو تمہاری صلب سے ہیں۔‘‘

 حِلٌّ (صفت بھی ہے) : جائز‘ حلال۔ {وَطَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّھُمْ ز} (المائدۃ:5) ’’ اور تم لوگوں کا کھانا حلال ہے ان لوگوں کے لیے۔‘‘

 حَلَالٌ (صفت بھی ہے) : جائز‘ حلال۔{ھٰذَا حَلٰـلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ} (النحل:116) ’’ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔‘‘

 اَحَلَّ (افعال) اِحْلَالًا: کسی چیز کو جائز کرنا‘ حلال کرنا۔{لاَ تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ ماَ اَحَلَّ اللّٰہُ لَـکُمْ} (المائدۃ:87) ’’ حرام مت کرو پاکیزہ چیزوں کو جن کو حلال کیا اللہ نے تمہارے لیے۔‘‘

 حَلَّلَ (تفعیل) تَحْلِیْلًا اور تَحِلَّــۃً : کفارہ ادا کرنا (کسی عہد یا قسم کی پابندی کھولنے کے لیے) ۔{قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَــکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْ ج} (التحریم:2) ’’ فرض کیا ہے اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کا کفارہ ادا کرنے کو۔‘‘

خ ط و

 خَطَا (ن) خَطْوًا: چلنے کے لیے قدم اٹھانا۔

 خُطْوَۃٌ ج خُطُوٰتٌ : دو قدموں کے درمیان کا فاصلہ‘ نقش قدم۔ (آیت زیرِ مطالعہ)

 ترکیب :’’ کُلُوْا‘‘ فعل امر ہے۔ اس کا فاعل’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ النَّاسُ‘‘ کے لیے ہے۔ اس کا مفعول محذوف ہے جو ’’ رِزْقًا‘‘ ہو سکتا ہے۔’’ مِمَّا فِی الْاَرْضِ‘‘ متعلق فعل ہے۔ ’’ حَلَالًا‘‘ محذوف مفعول کی صفت ہے اور ’’ طَیِّبًا‘‘ اس کی صفت ثانی ہے۔’’ لاَ تَتَّبِعُوْا‘‘ فعل نہی ہے۔ اس کا فاعل’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ النَّاسُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ‘‘ مفعول ہے اس لیے اس کا مضاف’’ خُطُوٰتِ‘‘ حالتِ نصب میں آیا ہے۔ اِنَّمَا يَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْۗءِ وَالْفَحْشَاۗءِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ    ١٦٩؁
[ اِنَّمَا : کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ یَاْمُرُکُمْ : وہ ترغیب دیتا ہے تم لوگوں کو] [ بِالسُّوْئِ : برائی کی ] [ وَالْفَحْشَآئِ : اور کھلی گمراہی کی] [ وَاَنْ : اور یہ کہ ] [ تَقُوْلُوْا : تم لوگ کہو] [ عَلَی اللّٰہِ : اللہ پر ] [ مَا : وہ جو ] [ لَا تَعْلَمُوْنَ: تم لوگ نہیں جانتے]

 

 

ف ح ش

 فَحُشَ (ک) فُحْشًا : حد سے زیادہ برا ہونا‘ بےحیا ہونا (اتنی زیادہ برائی جو فطری حیا کو ختم کر دے)‘ کھلم کھلا برائی کرنا۔

 فَاحِشَۃٌ ج فَوَاحِشُ : ہر وہ چیز جو حد سے زیادہ ہو‘ بےحیائی‘ کھلی گمراہی۔{وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْھَا اٰبَآئَ نَا} (الاعراف:28) ’’ اور جب وہ لوگ کرتے ہیں کوئی کھلی گمراہی تو کہتے ہیں ہم نے پایا اس پر اپنے باپ دادا کو۔‘‘{وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰــئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ} (الشوریٰ:37) ’’ اور جو لوگ بچتے ہیں بڑے گناہ سے اور بےحیائیوں سے۔‘‘

 فَحْشَائُ : قبیح گناہ‘ اعلانیہ برائی۔ (آیتِ زیر مطالعہ)

 ترکیب : ’’ یَاْمُرُ‘‘ فعل ہے۔ اس کا فاعل’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو گزشتہ آیت کے’’ الشَّیْطٰنِ‘‘ کے لیے ہے۔ اس کا مفعول ’’ کُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو گزشتہ آیت کے ’’ النَّاسُ‘‘ کے لیے ہے۔’’ بِالسُّوْئِ‘‘ اور’’ اَلْفَحْشَائِ‘‘ دونوں متعلق فعل ہیں۔ ’’ بِالسُّوْئِ‘‘ میں ’’ بِ‘‘ حرفِ جر ہے اور ’’ اَلْفَحْشَائِ‘‘ سے پہلے حرف جر ’’ بِ‘‘ محذوف ہے‘ اس لیے یہ دونوں مجرور ہیں۔ ’’ اَنْ تَقُوْلُوْا‘‘ میں’’ اَنْ‘‘ سے پہلے’’ یَاْمُرُکُمْ‘‘ محذوف ہے۔ وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا  ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ   ١٧٠؁
[ وَاِذَا : اور جب بھی ] [ قِیْلَ : کہا جاتا ہے ] [ لَھُمْ : ان لوگوں سے] [ اتَّبِعُوْا : تم لوگ پیروی کرو] [ مَا : اس کی جو ] [ اَنْزَلَ : اتارا] [ اللّٰہُ : اللہ نے] [ قَالُوْا : تو وہ لوگ کہتے ہیں] [ بَلْ : (ہرگز نہیں) بلکہ] [ نَتَّبِعُ : ہم پیروی کرتے ہیں] [ مَا : اس کی ] [ اَلْفَیْنَا : ہم نے پایا] [ عَلَیْہِ : جس پر ] [ اٰبَـآئَ نَا : اپنے باپ دادا کو] [ اَوَلَوْ : تو کیا اگر] [ کَانَ اٰبَـآؤُھُمْ: ان کے باپ دادا] [ لَا یَعْقِلُوْنَ: عقل سے کام نہیں لیتے] [ شَیْئًا : ذرا بھی] [ وَّلَا یَھْتَدُوْنَ: اور نہ ہی ہدایت پاتے تھے (تب بھی]

 

 

ل ف و

 لَفَا (ن) لَفْوًا : کسی چیز کو کم کرنا۔

 اَلْفَا (افعال) اِلْفَائً : کسی چیز کو پا لینا۔ (آیت زیرِ مطالعہ)

 ترکیب : ’’ اِذَا‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ قِیْلَ‘‘ سے ’’ اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ تک شرط ہے اور ’’ قَالُوْا‘‘ سے ’’ اٰبَائَ نَا‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔’’ قِیْلَ لَھُمْ‘‘ میں’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ماقبل آیت نمبر 168 کے ’’ النَّاسُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ قَالُوْا بَلْ‘‘ میں ’’ بَلْ‘‘ سے پہلے’’ کَلَّا‘‘ محذوف ہے۔ ’’ عَلَیْہِ‘‘ میں ’’ ہُ‘‘ کی ضمیر ’’ مَا‘‘ کی ضمیر عائد ہے۔ ’’ اَوَلَوْا‘‘ میں ہمزئہ استفہام ہے اور ’’ لَوْ‘‘ شرطیہ ہے۔ آگے کا پورا جملہ شرط ہے اور اس کا جوابِ شرط محذوف ہے۔ اردو میں محذوف جواب شرط ’’ تب بھی‘‘ بنتا ہے۔’’ کَانَ‘‘ کا اسم ’’ اٰبَائُ ھُمْ‘‘ ہے‘ اس لیے اس کا مضاف ’’ اٰبَائُ‘‘ رفع میں ہے۔’’ لَا یَعْقِلُوْنَ‘‘ اور’’ لاَ یَھْتَدُوْنَ‘‘ دونوں فعلیہ جملے اس کی خبر ہیں۔ ’’ شَیْئًا‘‘ مفعول مطلق ہے ۔

 نوٹ (1) : مسئلہ یہ ہے کہ ہر گروہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے باپ دادا اور بزرگ ہدایت پر تھے جبکہ دوسرے گمراہ تھے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس آیت میں ایک کسوٹی دے دی گئی ہے۔ بزرگوں کے جن اقوال و اعمال کی سند ’’ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ میں یعنی قرآن اور حدیث میں ملتی ہے ان کی تقلید کرنا درست ہے۔ اگر بزرگوں کی کچھ باتوں کی سند قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ بزرگوں کی باتیں نہیں ہیں‘ بلکہ انہیں غلط طور پر ان کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے۔ اس لیے ہماری عافیت اس میں ہے کہ کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے اس کی سند کے متعلق معلومات ضرور حاصل کرلیں اور اندھی تقلید نہ کریں۔ وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً  ۭ ۻ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ   ١٧١؁
[ وَمَثَلُ الَّذِیْنَ : اور ان لوگوں کی مثال جنہوں نے ] [ کَفَرُوْا : کفر کیا] [ کَمَثَلِ الَّذِیْ : اس کی مثال کی مانند ہے] [ یَنْعِقُ : جو ہانک پکار کرتا ہے۔] [ بِمَا : اس کو جو] [ لَا یَسْمَعُ: سن کر نہیں سمجھتا] [ اِلاَّ : سوائے] [ دُعَآئً : دعا کے] [ وَّنِدَآئً : اور آواز کے] [ صُمٌّ : بہرے ہیں] [ بُــکْمٌ : گونگے ہیں] [ عُمْیٌ : اندھے ہیں] [ فَھُمْ : پس وہ لوگ ] [ لَا یَعْقِلُوْنَ: عقل سے کام نہیں لیتے]

 

 

ن ع ق

 نَعَقَ (ض) نَعْقًا: کوے کا کائیں کائیں کرنا‘ چرواہے کا جانور ہانکنے کے لیے آواز نکالنا‘ ہانک پکار کرنا۔ (آیت زیرِ مطالعہ)

ن د و

 نَدَا (ن) نَدْوًا: مجلس میں جمع ہونا‘ مجلس میں جمع کرنا۔

ن د ی

 نَدِیَ (س) نَدًی : گیلا ہونا‘ تر ہونا۔

 نَادٍ : فَاعِلٌکا وزن ہے‘ لیکن اسم ذات کے طور پر مجلس اور اہل مجلس کے معانی میں آتا ہے۔ {وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ط} (العنکبوت:29) ’’ اور تم لوگ آتے ہو اپنی مجلس میں برائی کے ساتھ۔‘‘ {فَلْیَدْعُ نَادِیَہٗ ۔ } (العلق) ’’ پس اسے چاہیے کہ وہ بلائے اپنے اہل مجلس کو‘‘۔

 نَدِیٌّ (اسم نسبت) : مجالس والا‘ مجلسی (بیٹھک باز) ۔ {اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِیًّا ۔ } (مریم) ’’ دونوں فریقوں میں سے کون بہتر ہے بلحاظ رتبہ کے اور زیادہ اچھا ہے بطور مجالس والے کے۔‘‘

 نَادٰی (مفاعلہ) نِدَائً : بلند آواز سے پکارنا (خشک حلق سے نہیں بلکہ تر حلق سے بلند آواز نکلتی ہے) ۔ {وَنَادٰی اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبَ النَّارِ} (الاعراف:44) ’’ اور آواز دیں گے جنت والے آگ والوں کو۔‘‘

 نِدَائٌ (اسم ذات بھی ہے) : بلند آواز۔ ( آیت زیر مطالعہ)

 مُنَادٍ (اسم الفاعل): آواز دینے والا‘ پکارنے والا۔ {رَبَّـنَا اِنَّــنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ} (آل عمران:193) ’’ اے ہمارے ربّ! بےشک ہم نے سنا ایک ندا دینے والے کو جو ندا دیتا ہے ایمان کے لیے۔‘‘

 تَنَادٰی (تفاعل) تَنَادٍ: ایک دوسرے کو پکارنا۔ {فَتَنَادَوْا مُصْبِحِیْنَ ۔ } (القلم) ’’ تو انہوں نے ایک دوسرے کو پکارا صبح ہوتے ہی۔‘‘

 ترکیب : ’’ مَثَلُ‘‘ مضاف ہے۔’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ مضاف الیہ ہے‘ جس کا صلہ ’’ کَفَرُوْا‘‘ ہے۔ یہ پورا فقرہ مبتداء ہے۔ ’’ مَثَلِ‘‘ بھی مضاف ہے اور حرفِ جر’’ کَ‘‘ کی وجہ سے حالت جر میں ہے۔ ’’ اَلَّذِیْ‘‘ اس کا مضافِ الیہ ہے اور یہ فقرہ خبر ہے۔’’ یَنْعِقُ‘‘ سے ’’ نِدَائً‘‘ تک ’’ اَلَّذِیْ‘‘ کا صلہ ہے۔’’ صُمٌّ بُکْمٌعُمْیٌ‘‘ یہ تینوں خبر ہیں اور ان کا مبتداء ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر محذوف ہے۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ   ١٧٢؁
[ یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ : اے لوگو جو] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ہو] [ کُلُوْا : تم لوگ کھائو] [ مِنْ طَیِّبٰتِ مَا : ان کی پاکیزہ (چیزوں) سے جو] [ رَزَقْنٰــکُمْ : ہم نے عطا کیں تم لوگوں کو] [ وَاشْکُرُوْا : اور تم لوگ شکر کرو] [ لِلّٰہِ : اللہ کا] [ اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ

اِیَّاہُ: صرف اس کی ہے ] [ تَعْبُدُوْنَ: بندگی کرتے ہو]

 

 ترکیب :’’ یٰٓــاَیـُّھَا‘‘ حرفِ ندا ہے اور ’’ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ منادیٰ ہے ۔ فعل امر’’ کُلُوْا‘‘ کا فاعل اس میں شامل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے۔ اس کا مفعول محذوف ہے جو کہ ’’ رِزْقَکُمْ‘‘ ہوسکتا ہے۔’’ مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰــکُمْ‘‘ متعلق فعل ہے۔’’ طَیِّبٰتِ‘‘ صفت ہے جس کا موصوف محذوف ہے۔ یہ ’’ مِنْ‘‘ کی وجہ سے حالت جر میں ہے اور مضاف ہے‘ اس کا مضاف الیہ ’’ مَا‘‘ ہے۔ شروع سے’’ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہِ‘‘ تک دونوں جملے جوابِ شرط ہیں۔ ان کی شرط اگلا جملہ ہے۔ ’’ کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ‘‘ ماضی استمراری ہے لیکن ’’ اِنْ‘‘ شرطیہ کی وجہ سے ترجمہ حال میں ہو گا۔ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ   ١٧٣؁
[ اِنَّمَا : کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ حَرَّمَ : اس نے حرام کیا] [ عَلَیْکُمُ : تم لوگوں پر] [ الْمَیْتَۃَ: مردار کو] [ وَالدَّمَ : اور خون کو] [ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ : اور سور کے گوشت کو] [ وَمَا : اور اس کو ] [ اُھِلَّ : پکارا گیا] [ بِہٖ : جس پر] [ لِغَیْرِ اللّٰہِ : اللہ کے بغیر] [ فَمَنِ : پس جو] [ اضْطُرَّ : لاچار کیا گیا] [ غَیْرَ بَاغٍ : اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو] [ وَّلَا عَادٍ : اور نہ حد سے گزرنے والا ہو] [ فَلَا اِثْمَ : تو کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے] [ عَلَیْہِ : اس پر] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ] [ غَفُوْرٌ : بےانتہا بخشنے والا ہے] [ رَّحِیْمٌ: ہر حال میں رحم کرنے والا ہے]

 

خ ن ز

 خَنِزَ (س) خَنَزًا: گوشت کا سڑاند والا ہونا‘ بدبودار ہونا۔

 خِنْزِیْرٌ ج خَنَازِیْرُ : گلے کی گلٹی‘ سور۔{وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ} (المائدۃ:60) ’’ اور اس نے بنائے ان میں سے بندر اور سور۔‘‘

ھ ل ل

 ھَلَّ (ن) ھَلًّا : نیا چاند ظاہر ہونا‘ قمری مہینہ شروع ہونا۔

 ھِلَالٌ ج اَھِلَّۃٌ : ابتدائی اور آخری راتوں کا باریک چاند۔ {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ} (البقرۃ:189) ’’ یہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے باریک چاندوں کے بارے میں۔‘‘

 اَھَلَّ(افعال) اِھْلَالًا : نیا چاند دیکھ کر آواز دینا‘ پکارنا۔ (آیت زیرِ مطالعہ)

 ترکیب :’’ حَرَّمَ‘‘ فعل ہے‘ اس کا فاعل اس میں موجود ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے۔ ’’ عَلَیْکُمْ‘‘ متعلق فعل ہے۔’’ اَلْمَیْتَۃَ‘ اَلدَّمَ‘ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ‘‘ اور’’ مَا‘‘ یہ سب ’’ حَرَّمَ‘‘ کے مفعول ہیں۔ ’’ مَا‘‘ موصولہ ہے’’ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ‘‘ اس کا صلہ ہے۔’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ اُضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ‘‘ شرط ہے جبکہ’’ فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ‘‘ جواب شرط ہے۔ ’’ اُضْطُرَّ‘‘ بابِ افتعال کا ماضی مجہول ہے۔’’ غَیْرَ بَاغٍ‘‘ حال ہے‘ اس لیے مضاف ’’ غَیْرَ‘‘ پر نصب آئی ہے اور ’’ بَاغٍ‘‘ مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے حالت جر میں ہے۔’’ عَادٍ‘‘ سے پہلے ’’ غَیْرَ‘‘ محذوف ہے اس لیے یہ حالت جر میں ہے اور یہ بھی حال ہے۔ ’’ فَلَا اِثْمَ‘‘ میں لائے نفی ٔجنس ہے اس لیے ’’ اِثْمَ‘‘ تنوین کے بغیر حالت نصب میں آیاہے۔

 نوٹ (1) : اس آیت میں ’’ وَمَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ‘‘ کے الفاظ نسبتاً زیادہ غور طلب ہیں۔ مردار‘ خون اور سور کا نام لینے کے بعد کسی چیز کا نام نہیں لیا گیا‘ بلکہ ’’ وَمَا‘‘ (اور اس کو) کہا گیا جس کی وجہ سے اس میں عمومیت پیدا ہو گئی اور اس میں ہروہ چیز (صرف جانور نہیں) شامل ہو جائے گی جس پر آیت کے اس حصے کا اطلاق ہو گا۔ اسی طرح’’ اُھِلَّ‘‘ (پکارا گیا) کے ساتھ نام کے لفظ کا صراحتاً ذکر نہیں کیا گیا۔ اس وجہ سے اس میں بھی عمومیت پیدا ہوئی اور اس میں نام پکارنے کے علاوہ دیگر نیتیں بھی شامل ہو گئیں۔ اس بنیاد پر علماء کرام چار صورتوں کو حرام قرار دیتے ہیں جس کی تفصیل معارف القرآن میں دی ہوئی ہے۔ ہم ان چار صورتوں کی صرف نشاندہی کر دیتے ہیں۔

1) ایسا جانور جس کو ذبح کرتے وقت اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام لیا جائے۔

2) ایسا جانور جس کو ذبح کرتے وقت نام تو اللہ کا لیا جائے لیکن اس سے مقصود غیر اللہ کا تقرب ہو۔

3) کسی جانور پر علامت لگا کر غیر اللہ کے تقرب اور تعظیم کے خیال سے چھوڑ دیا جائے اور اس سے کوئی کام وغیرہ نہ لیا جائے‘ تو یہ عمل حرام ہے۔ البتہ کوئی دوسرا شخص ایسا کوئی جانور خرید کر اگر ذبح کر کے کھائے تو اس کے لیے حلال ہے۔

4) جانوروں کے علاوہ ایسی دوسری چیزیں مثلاً مٹھائی یا کھانا وغیرہ بھی حرام ہیں جن پر غیر اللہ کے نام کی نذر (منت) مانی گئی ہو۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۙ اُولٰۗىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ښ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ    ١٧٤؁
[ اِنَّ الَّذِیْنَ : بیشک وہ لوگ جو] [ یَکْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں] [ مَا : اس کو جو] [ اَنْزَلَ : اتارا] [ اللّٰہُ: اللہ نے] [ مِنَ الْکِتٰبِ : کتاب میں سے] [ وَیَشْتَرُوْنَ : اور وہ لوگ خریدتے ہیں] [ بِہٖ : اس کے بدلے] [ ثَمَنًا قَلِیْلًا : تھوڑی قیمت] [ اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ] [ مَا یَاْکُلُوْنَ : نہیں کھاتے] [ فِیْ بُطُوْنِھِمْ : اپنے پیٹوں میں] [ اِلاَّ : مگر] [ النَّارَ : آگ] [ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ : اور کلام نہیں کرے گا ان سے] [ اللّٰہُ : اللہ] [ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن ] [ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ : اور نہ ان کا تزکیہ کرے گا] [ وَلَھُمْ : اور ان کے لیے ہے ] [ عَذَابٌ اَلِیْمٌ: ایک دردناک عذاب]

 

ب ط ن

 بَطَنَ (ن) بَطْنًا: چھپا ہوا ہونا‘ پوشیدہ ہونا۔ {وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ ط} (الانعام:151) ’’ اور تم لوگ قریب مت جائو بےحیائیوں کے‘ جو ظاہر ہوا اس سے اور جو پوشیدہ رہا۔‘‘

 بَاطِنٌ: (اسم الفاعل کے وزن پر صفت): پوشیدہ ہونے والا ‘ یعنی پوشیدہ۔{وَذَرُوْا ظَاھِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ ط} (الانعام:120) ’’ اور تم لوگ چھوڑ دو گناہ کے ظاہرکو اور اس کے پوشیدہ کو۔‘‘

 بِطَانَۃٌ جمع بَطَائِنُ : رازدار‘ بھیدی‘ کپڑے کا استر۔{لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ} (آل عمران:118) ’’ تم لوگ مت بنائو کسی کو رازدار اپنوں کے سوا۔‘‘{مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی فُرُشٍ بَطَائِنُھَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ط} (الرحمٰن:54) ’’ ٹیک لگائے ہوئے بچھونوں پر‘ ان کے استر بھڑکیلے ریشم کے ہوں گے۔‘‘

 بَطْنٌ ج بُطُوْنٌ : پیٹ‘ کسی وادی کا نشیبی حصہ۔ {فَمِنْھُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطْنِہٖ ط} (النور:45) ’’ تو ان میں سے کوئی ہے جو چلتا ہے اپنے پیٹ کے بل۔‘‘{وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْھُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ} (الفتح:24) ’’ اور وہی ہے جس نے روکا ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے مکہ کے نشیب میں۔‘‘ آیت زیر مطالعہ میں لفظ ’’ بُطُونٌ‘‘ (جمع) آیا ہے۔

 ترکیب : ’’ یَکْتُمُوْنَ‘‘ کا مفعول’’ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ ہے۔’’ بِہٖ‘‘ میں’’ ہُ‘‘ کی ضمیر ’’ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ مَایَاْکُلُوْنَ‘‘ سے ’’ النَّارَ‘‘ تک جملہ منفی ہے اس لیے ’’ اِلاَّ‘‘ غیر مؤثر ہے اور ’’ یَاْکُلُوْنَ‘‘ کا مفعول ہونے کی وجہ سے ’’ النَّارَ‘‘ منصوب ہے۔

 نوٹ (1) : ’’ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ کی ’’ تفسیر نعیمی‘‘ میں ان الفاظ سے وضاحت کی گئی ہے: ’’ چھپانا یہ بھی ہے کہ کتاب کے مضمون پر کسی کو مطلع نہ ہونے دیا جائے‘‘۔ آج کل ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ درس قرآن میں جانے سے اور ترجمہ و تفسیر سے قرآن کا مطالعہ کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ علم کتابوں میں نہیں ملتا۔ ایسے لوگوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ وہ کس جرم کا ارتکاب کررہے ہیں۔

 ۔ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ  ۚفَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَي النَّارِ ١٧٥؁
[ اُولٰٓئِکَ : وہی لوگ ہیں] [ الَّذِیْنَ : جنہوں نے] [ اشْتَرَوُا: خریدا] [ الضَّلٰلَۃَ : گمراہی کو] [ بِالْھُدٰی : ہدایت کے بدلے] [ وَالْعَذَابَ : اور عذاب کو] [ بِالْمَغْفِرَۃِ : مغفرت کے بدلے] [ فَمَآ : تو کس چیز نے] [ اَصْبَرَھُمْ : صبر دیاان کو] [ عَلَی النَّارِ: آگ پر]

 

ترکیب :’’ فَمَا‘‘ میں ’’ مَا‘‘ اسم تعجب ہے اور مبتداء ہے۔’’ اَصْبَرَ‘‘ فعل‘ اس کا فاعل اس میں شامل’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مَا‘‘ کے لیے ہے اور ’’ ھُمْ‘‘ اس کی ضمیر مفعولی ہے۔ ’’ اَصْبَرَھُمْ‘‘ جملہ فعلیہ مبتداء ’’ مَا‘‘ کی خبر ہے اور ’’ عَلَی النَّارِ‘‘ متعلق خبر ہے۔

 

 نوٹ (1) : اوپر ترکیب میں بتایا گیا ہے کہ ’’ مَا‘‘ اسم تعجب ہے۔ اس سلسلہ میں یہ سمجھ لیں کہ مَا اَفْعَلَہٗ اوراَفْعِلْ بِہٖ دو وزن ہیں جو اظہارِ تعجب کے لیے آتے ہیں اور ان کو’’ تعجب کے دو صیغے‘‘ (صِیْغَتَا التَّعَجُّبِ) کہتے ہیں۔ جیسے ’’ مَا اَحْسَنَہٗ‘‘ (کس چیز نے حسین بنایا اس کو) یا ’’ مَا اَحْسَنَ رَشِیْدًا‘‘ (کس چیز نے حسین بنایا رشید کو) ۔ اس کی ترکیب اوپر بتا دی گئی ہے اور لفظی ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے ‘ لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ رشید کتنا حسین ہے۔ اس طرح ’’ مَا اَصْبَرَھُمْ عَلَی النَّارِ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ کتنے ثابت قدم ہیں آگ پر۔

 اسی طرح ’’ اَحْسِنْ بِہٖ‘‘ یا’’ اَحْسِنْ بِرَشِیْدٍ‘‘ میں ’’ اَحْسِنْ‘‘ فعل امر ہے۔ ’’ بِ‘‘ زائدہ ہے اور ’’ ہُ‘‘ ضمیر مفعولی ہے۔ ’’ بِرَشِیْدٍ‘‘ میں بھی ’’ بِ‘‘ زائدہ ہے اور ’’ رَشِیْدٍ‘‘ مفعول ہے۔ اس طرح اس کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’ تو خوبصورتی دے اس کو‘‘ یعنی تو خوبصورت سمجھ اس کو۔ اور’’ تو خوبصورتی دے رشید کو‘‘ یا’’ تو خوبصورت سمجھ رشید کو‘‘۔ لیکن مفہوم یہی ہے کہ رشید کتنا خوبصورت ہے۔ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَـقِّ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِي الْكِتٰبِ لَفِيْ شِقَاقٍۢ بَعِيْدٍ   ١٧٦۝ۧ
[ ذٰلِکَ : وہ] [ بِاَنَّ : اس سبب سے کہ] [ اللّٰہَ : اللہ نے ] [ نَزَّلَ : اُتارا ہے] [ الْکِتٰبَ : کتاب کو ] [ بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ] [ وَاِنَّ : اور یقینا] [ الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے ] [ اخْتَلَفُوْا : اختلاف کیا] [ فِی الْکِتٰبِ : کتاب میں] [ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ : وہ لوگ دور کی مخالفت میں ہیں]

 

ب ع د

 بَعُدَ (ک) بُعْدًا : دُور ہونا۔ {وَلٰــکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْھِمُ الشُّقَّۃُ ط} (التوبۃ:42) ’’ اور لیکن دُور ہوئی اِن پر مسافت۔‘‘

 بَعِدَ(س) بَعَدًا : تباہ وبرباد ہونا‘ ہلاک ہونا۔ {اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ ۔ } (ھود) ’’ خبردار! ہلاکت ہے اہل مدین کے لیے جیسے ہلاک ہوئے ثمود۔‘‘

 بَعِیْدٌ: (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے): دُور۔{ذٰلِکَ ھُوَ الضّٰلٰلُ الْبَعِیْدُ ۔ } (الحج) ’’ یہی دُور کی گمراہی ہے۔‘‘

 بُعْدٌ (اسم ذات) : دُوری یا فاصلہ‘ ہلاکت۔{یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ} (الزخرف:38) ’’ کاش میرے اور تیرے مابین دو مشرقوں کا فاصلہ ہوتا۔‘‘ {اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ ۔ } (ھود) ’’ خبردار! ہلاکت ہے اہل مدین کے لیے جیسے ہلاک ہوئے ثمود۔‘‘

 بَعْدٌ (ظرف زمان) : کسی کے پیچھے یا بعد۔ یہ زیادہ تر مضاف بن کر آتا ہے۔ اگر اس کا مضاف الیہ مذکور ہو تو ظرف ہونے کی وجہ سے ’’ بَعْدَ‘‘ آتا ہے اور اگر محذوف ہو تو پھر یہ مبنی برضمہ (بَعْدُ) ہوتا ہے۔{رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا} (آل عمران:8) ’’ اے ہمارے ربّ! تو ٹیڑھا مت کر ہمارے دلوں کو اِس کے بعد کہ تو نے ہدایت دی ہم کو۔‘‘{ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ} (البقرۃ:52) ’’ پھر ہم نے معاف کیا تم لوگوں کو اس کے بعد۔‘‘{لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ ط} (الروم:4) ’’ اللہ کے لیے ہی ہیں سب کام اس سے پہلے اور اس کے بعد۔‘‘

 اَبْعَدَ (افعال) اِبْعَادًا : دور کرنا‘ دور رکھنا۔

 مُبْعَدٌ (اسم المفعول) : دُور کیا ہوا‘ دُور رکھا ہوا۔{اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی اُولٰئِکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ ۔ } (الانبیائ) ’’ بیشک جن لوگوں کے لیے آگے آئی ہماری طرف سے نیکی وہ لوگ اس سے دور رکھے جائیں گے۔‘‘

 بَاعَدَ(مفاعلہ) مُبَاعَدَۃً : کسی کو کسی سے دور کرنا۔

 بَاعِدْ (فعل امر) : تو دُور کردے۔ {رَبَّنَا بٰعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا} (سبا:19) ’’ اے ہمارے ربّ! تو دور کر دے (یعنی دراز کر دے) ہمارے سفروں کے درمیان کو۔‘‘

 ترکیب : ’’ ذٰلِکَ‘‘ کا اشارہ گزشتہ آیت میں مذکور عذاب کی طرف ہے۔ ’’ بِاَنَّ‘‘ کا ’’ بِ‘‘ سببیہ ہے۔ ’’ اَنَّ‘‘ کا اسم لفظ ’’ اَللّٰہَ‘‘ ہے‘ اس لیے منصوب ہے۔’’ نَزَّلَ الْکِتٰبَ‘‘ جملہ فعلیہ ’’ اَنَّ‘‘ کی خبر ہے ‘ اس لیے ترجمہ میں لفظ ’’ ہے‘‘ کا اضافہ ہو گا۔ ’’ بِالْحَقِّ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ اَلَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْکِتٰبِ‘‘ یہ پور اجملہ ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے جو ’’ قَائِمٌ‘‘ ہو سکتی ہے۔ ’’ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔

 نوٹ (1) : اہل کتاب نے اللہ کے دین کو اتنا مسخ کردیا تھا کہ یہ معلوم کرنا ممکن نہ رہا کہ حلال کیا ہے‘ حرام کیا ہے اور حق کیا ہے‘ باطل کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کر کے حق و باطل کو پوری طرح واضح کر دیا۔ دور کی مخالفت سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی چیز کی مخالفت میں اتنی دور نکل جائے کہ اسے اپنے نفع و نقصان کا بھی ہوش نہ رہے اور وہ مغفرت کو چھوڑ کر عذاب خریدنے لگے۔ لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ  ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا  ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ   ١٧٧؁
[ لَـیْسَ الْبِرَّ : کل نیکی یہی نہیں ہے ] [ اَنْ تُوَلُّوْا : کہ تم لوگ پھیر لو ] [ وُجُوْھَکُمْ : اپنے چہروں کو ] [ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ : مشرق اور مغرب کی طرف ] [ وَلٰــکِنَّ : اور لیکن (بلکہ) ] [ الْبِرَّ : نیکی ] [ مَنْ : اس کی ہے جو ] [ اٰمَنَ : ایمان لایا ] [ بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخری دن پر ] [ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ : اور فرشتوں پر ] [ وَالْکِتٰبِ : اور کتاب پر ] [ وَالنَّبِیّٖنَ : اور نبیوں پر ] [ وَاٰتَی : اور (جس نے) دیا ] [ الْمَالَ : مال ] [ عَلٰی حُبِّہٖ : اس کی محبت کے باوجود ] [ ذَوِی الْقُرْبٰی : قرابت داروں کو ] [ وَالْیَتٰمٰی : اور یتیموں کو ] [ وَالْمَسٰکِیْنَ : اور مسکینوں کو ] [ وَابْنَ السَّبِیْلِ: اور راستے کے بیٹے (مسافر) کو ] [ وَالسَّائِلِیْنَ : اور مانگنے والوں کو ] [ وَفِی الرِّقَابِ: اور گردنوں (غلاموں) کے آزاد کرانے میں ] [ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ : اور (جس نے) قائم کیا نماز کو ] [ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ : اور (جس نے) پہنچایا زکوٰۃ کو ] [ وَالْمُوْفُوْنَ : اور (جو) پورا کرنے والے ہیں ] [ بِعَھْدِھِمْ : اپنے عہد کو ] [ اِذَا : جب بھی ] [ عٰھَدُوْا: وہ لوگ باہمی معاہدہ کریں ] [ وَالصّٰبِرِیْنَ : اور ثابت قدم رہنے والے ] [ فِی الْبَاْسَآئِ : (فقرو فاقہ کی) سختیوں میں ] [ وَالضَّرَّآئِ : اور تکالیف میں ] [ وَحِیْنَ الْبَاْسِ: اور گھمسان کی جنگ کے وقت ] [ اُولٰٓئِکَ : یہ ] [ الَّذِیْنَ : وہ لوگ ہیں جنہوں نے ] [ صَدَقُوْا : سچ کر دکھایا (نیکی کو) ] [ وَاُولٰٓئِکَ : اور یہ لوگ ] [ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ : ہی متقی ہیں]

 

ی ت م

 یَتِمَ (س) یَتْمًا : چھوٹے بچے کا والدین کی شفقت سے محروم ہونا۔

 یَتِیْمٌ ج یتامٰی (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفتِ مشبہ کا صیغہ): انسانوں میں ایسا بچہ جس کا باپ مر گیا ہو۔ جانوروں میں ایسا بچہ جس کی ماں مر گئی ہو۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

س ب ل

 سَبَلَ (ن) سَبْلًا : لٹکنا‘ بہنا‘ رواں دواں ہونا۔

 سَبِیْلٌ (ج) سُبُلٌ : فَعِیْلٌ کا وزن ہے۔ متعدد معانی میں آتا ہے: (1) آسان راستہ ‘ کھلی سڑک۔ {وَاِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ} (الحجر:76) ’’ اور یقینا وہ (یعنی بستی) ایک مستقل سڑک پر واقع ہے۔‘‘ {اَلَّذِیْ جَعَلَ لَــکُمُ الْاَرْضَ مِھٰدًا وَّجَعَلَ لَــکُمْ فِیْھَا سُبُلًا} (الزخرف:10) ’’ جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو فرش اور اس نے بنائے تمہارے لیے اس میں راستے۔‘‘ (2) راہ‘ طریقہ (کسی نظریہ یا ضابطہ کے مطابق عمل کرنے کا طریقہ) {وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی} (النسائ:115) ’’ اور جس نے پیروی کی مؤمنوں کے طریقے کے علاوہ‘ تو ہم پھیر دیں گے اس کو اُدھر جدھر وہ پھرا۔‘‘ {وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ} (الانعام:55) ’’ اور تاکہ واضح ہو جائے مجرموں کا طریقہ۔‘‘ {وَمَالَنَا اَلَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَقَدْ ھَدٰٹنَا سُبُلَنَا} (ابراھیم:12) ’’ اور ہمیں کیا ہے کہ ہم تو کّل نہ کریں اللہ اس پر اس حال میں کہ اس نے ہمیں راہنمائی دی ہے ہمارے طریقوں کی۔‘‘ (3) راہ‘ ذریعہ (کسی تک پہنچنے یا خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ) ۔ {وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} (البقرۃ:195) ’’ اور تم لوگ خرچ کرو اللہ کی راہ میں۔‘‘{وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا} (العنکبوت:69) ’’ اور جن لوگوں نے جدوجہد کی ہمارے لیے ان کی ہم لازماً راہنمائی کریں گے اپنی راہوں کی۔‘‘ (4) الزام (کسی پر گرفت حاصل کرنے کا ذریعہ) {مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ} (التوبۃ:91) ’’ بلا کم و کاست کام کرنے والوں پر کوئی الزام نہیں ہے۔‘‘

ر ق ب

 رَقَبَ (ن) رَقُوْبًا : نگہبانی کرنا‘ انتظار کرنا‘ کسی بات کا لحاظ کرنا۔ {لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلاَّ وَّلَا ذِمَّۃً} (التوبۃ:10) ’’ وہ لوگ لحاظ نہیں کرتے کسی مومن سے قرابت داری کا اور نہ ذمہ داری کا۔‘‘

 رَقِیْبٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت مشبہ ): نگہبانی کرنے والا‘ نگہبان۔ {مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ} (ق:18) ’’ مُنہ سے نہیں نکلتی کوئی بات مگر یہ کہ اس کے پاس ہے ایک چوکس نگہبان۔‘‘

 رَقَبَۃٌ (ج) رِقَابٌ (اسم ذات): گردن (کیونکہ گردن کو مختلف سمت میں گردش دے کر انسان نگہبانی کرتا ہے) ۔ {فَکَفَّارَتُہٗ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَــبَۃٍ} (المائدۃ:89) ’’ تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے اس کے اوسط سے جو تم لوگ کھلاتے ہو اپنے گھر والوں کو یا ان کو (دس مسکینوں کو) کپڑا پہنانا ہے یا کسی گردن کا آزاد کرنا ہے۔‘‘ تَحْرِیْرُ رَقَـبَۃٍکسی غلام کو آزاد کرانے کے لیے عربی محاورہ ہے۔ {فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ} (محمد:4) ’’ پس جب تم لوگ مقابل ہو ان کے جنہوں نے کفر کیا تو گردنوں کا مارنا ہے۔‘‘

 تَرَقَّبَ (تفعّل) تَرَقُّبًا : کسی چیز سے بچنے کے لیے خود اپنی نگہبانی کرنا‘ چوکنا ہونا۔ {فَخَرَجَ مِنْھَا خَائِفًا یَّــتَرَقَّبُ} (القصص:21) ’’ تو وہ نکلا وہاں سے ڈرتے ہوئے ‘ اپنی نگہبانی کرتے ۔‘‘

 اِرْتَقَبَ (افتعال) اِرْتِقَابًا : اہتمام سے انتظار کرنا۔

 اِرْتَقِبْ ( فعل امر) : تو انتظار کر۔{فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ} (الدُّخان:10) ’’ پس تو انتظار کر اس دن کا جب آسمان لائے گا ایک واضح دھواں۔‘‘

 مُرْتَقِبٌ (اسم الفاعل) : انتظار کرنے والا ۔ {فَارْتَقِبْ اِنَّھُمْ مُّرْتَقِبُوْنَ} (الدُّخان:59) ’’ پس تو انتظار کر‘ بےشک وہ لوگ بھی انتظار کرنے والے ہیں۔‘‘

 ترکیب : استاد محترم پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم کی یہ رائے ہے‘ اور میرا ذہن اسی کو ترجیح دیتا ہے ‘ کہ ’’ اَنْ تُوَلُّوْا‘‘ سے ’’ وَالْمَغْرِبِ‘‘ تک پورا جملہ ’’ لَیْسَ‘‘ کا اسم ہے‘ جبکہ ’’ الْبِرَّ‘‘ اس کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ اسے تاکید کے لیے مقدم کیا گیا ہے اور اس پر لامِ جنس ہے ۔ ’’ اَنْ‘‘ کی وجہ سے ’’ تُوَلُّوْا‘‘ مضارع منصوب ہے۔ اس کا فاعل اس میں شامل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے۔ ’’ وُجُوْھَکُمْ‘‘ مفعول ہے اور ’’ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ‘‘ مفعول فیہ ہے۔

 ’’ لٰــکِنَّ‘‘ کا اسم ہونے کی وجہ سے ’’ الْبِرَّ‘‘ منصوب ہے اور’’ مَنْ‘‘ اس کی خبر ہے۔ یہ ’’ مَنْ‘‘ موصولہ ہے اور ’’ اٰمَنَ بِاللّٰہِ‘‘ سے ’’ اِذَا عَاھَدُوْا‘‘ تک کے جملے اس کا صلہ ہیں۔’’ اَلْیَوْمَ‘‘ سے ’’ النَّبِیّٖنَ‘‘ تک تمام الفاظ سے پہلے حرف جر ’’ بِ‘‘ محذوف ہے اس لیے یہ سب مجرور ہیں۔

 

 ’’ اٰتَی‘‘ سے پہلے ’’ مَنْ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ الْمَالَ‘‘ اس کا مفعول اوّل ہے۔ ’’ عَلٰی حُبِّہٖ‘‘ متعلق فعل ہے اور اس میں ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر’’ اَلْمَالَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ ذَوِی الْقُرْبٰی‘‘ سے ’’ فِی الرِّقَابِ‘‘ تک ’’ اٰتَی‘‘ کے مفعول ثانی ہیں۔ اسی طرح ’’ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ‘‘۔ ’’ اٰتَی الزَّکٰوۃَ‘‘ اور’’ اَلْمُوْفُوْنَ‘‘ سے پہلے بھی ’’ مَنْ‘‘ محذوف ہے۔

 

 اردو میں ہم کہتے ہیں ’’ حامد کو شاباش ہے‘‘۔ یہ دراصل ایک جملے کا تخفیف شدہ محاورہ ہے۔ پورا جملہ تھا ’’ میں حامد کو شاباش دیتا ہوں‘‘۔ اس جملے میں حامد مفعول ہے۔ عربی میں کسی کی تعریف کرنے کے اس انداز کا محاورہ یہ ہے کہ صرف مفعول کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی ’’ حامد کوشاباش ہے‘‘ کا عربی محاورہ میں ترجمہ ہوگا ’’ وَحَامِدًا‘‘۔ اس انداز کو اِضمارِ اَعْنِیکہتے ہیں۔ اب نوٹ کرلیں کہ اس آیت میں ’’ وَالصّٰبِرِیْنَ‘‘ اِضمارِ اَعْنِیکی وجہ سے منصوب ہے۔

 نوٹ (1) : عربی میں کسی قریبی چیز کی بلندی اور عظمت کے اظہار کے لیے اشارہ قریب کے بجائے اشارئہ بعید استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لحاظ سے اس آیت میں ’’ اُولٰئِکَ‘‘ کا ترجمہ ’’ وہ‘‘ کے بجائے ’’ یہ‘‘ کیا گیا ہے۔

 نوٹ (2) : کتاب ’’ آسان عربی گرامر ‘‘ حصہ اوّل کے پیراگراف 7:19 میں آپ کو بتایا گیا تھا کہ لفظ ’’ ذُوْ‘‘ (والا) جب مضاف بن کر آتا ہے تو رفع‘ نصب اور جر میں یہ ’’ ذُوْ۔ ذَا۔ ذِی‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ اب نوٹ کرلیں کہ اس کی جمع رفع میں’’ ذَوُوْ‘‘ اور نصب و جر دونوں میں ’’ ذَوِیْ‘‘ آتی ہے۔ اس آیت میں مفعول ہونے کی وجہ سے ’’ ذَوِیْ‘‘ منصوب ہے۔

 نوٹ (3) : یہ آیت تحویل قبلہ کے حکم کا تتمّہ ہے۔ اس حکم سے ذہنوں میں جو الجھن پیدا ہوئی تھی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان نیکی کے کسی جزو کو ہی کُل نیکی سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس آیت میں اسی غلطی کی نشاندہی کرنے کے بعد کل نیکی کی تعریف (Definition) بیان کر دی گئی ہے۔ ہمارے لیے اس کی افادیت یہ ہے کہ کسی کو کچھ لوگ جب نیک اور پارسا قرار دیں تو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کی اس بات پر آنکھ بند کر کے یقین نہ کر بیٹھے‘ بلکہ اس آیت میں دیے گئے نیکی کے معیار پر ہر پہلو سے خود کو پرکھ کر اپنے سود و زیاں کا حساب خود کر لے۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي ۭ اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بِالْاُنْـثٰى ۭ فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ ۭ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَـةٌ  ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ    ١٧٨؁
[ یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ] [ کُتِبَ : فرض کیا گیا ] [ عَلَیْکُمُ : تم لوگوں پر ] [ الْقِصَاصُ : بدلہ فِی الْقَتْلٰی: مقتولوں میں (یعنی مقتولوں کا) ] [ اَلْحُرُّ : (قاتل) آزاد ہے (توبدلہ ہے) ] [ بِالْحُرِّ : آزاد سے] [ وَالْعَبْدُ : اور غلام ہے ] [ بِالْعَبْدِ : (تو) غلام سے] [ وَالْاُنْثٰی : اور عورت ہے ] [ بِالْاُنْثٰی: (تو) عورت سے ] [ فَمَنْ عُفِیَ لَــہٗ : پس جس کے لیے معاف کی گئی] [ مِنْ اَخِیْہِ : اس کے بھائی (کی طرف) سے] [ شَیْ ئٌ : کوئی چیز ] [ فَاتِّبَاعٌ : تو پیروی کرنا ہے ] [ بِالْمَعْرُوْفِ : بھلے طریقے سے] [ وَاَدَآئٌ : اور ادائیگی ہے] [ اِلَیْہِ : اس کی طرف ] [ بِاِحْسَانٍ: خوبصورت انداز سے] [ ذٰلِکَ : یہ] [ تَخْفِیْفٌ : ہلکا کرنا ہے ] [ مِّنْ رَّبِّـکُمْ: تمہارے رب (کی جانب) سے] [ وَرَحْمَۃٌ: اور رحمت ہے ] [ فَمَنِ اعْتَدٰی : پس جو زیادتی کرے گا] [ بَعْدَ ذٰلِکَ : اس کے بعد] [ فَلَـہٗ : تو اس کے لیے ہے] [ عَذَابٌ اَلِیْمٌ : ایک دردناک عذاب ]

 

ق ص ص

 قَصَّ (ن) قَصًّا اور قَصَصًا : کسی چیز کو قینچی سے کاٹنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ زیادہ تر دو مفہوم میں استعمال ہوتا ہے: (1) کوئی واقعہ یا قصہ بیان کرنا‘ سنانا۔ (2) کسی کے نقوش یا آثار پر چلنا‘ پیچھا کرنا۔{وَعَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُج} (النحل:118) ’’ اور ان لوگوں پر جو یہودی ہوئے ‘ ہم نے حرام کیا اس کو جو ہم نے سنایا آپؐ ‘ کو اس سے پہلے۔‘‘ {فَارْتَدَّا عَلٰٓی اٰثَارِھِمَا قَصَصًا ۔ } (الکہف) ’’ تو وہ دونوں واپس ہوئے اپنے نقش قدم پر پیچھا کرتے ہوئے۔‘‘

 قُصِّ اور اُقْصُصْ : فعل امر ہیں (مضاعف میں فعل امر ادغام کے ساتھ اور ادغام کے بغیر ‘ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے): تو سنا‘ تو پیچھا کر۔ {وَقَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّیْہِز} (القصص:11) ’’ اور انہوں نے کہا انؑ کی بہن سے تو پیچھا کر ان کا۔‘‘ {فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ۔ } (الاعراف) ’’ پس آپؐ بیان کریں واقعات شاید وہ لوگ غور و فکر کریں۔‘‘

 قِصَّۃٌ ج قَصَصٌ(اسم ذات ): واقعہ‘ قصہ۔{لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ…} (یوسف:111) ’’ یقینا ان کے قصوں میں ایک عبرت ہے…‘‘

 قِصَاصٌ : کسی جرم یا کسی کام کا بدلہ (یعنی کام کے آثار کا پیچھا کرتے ہوئے کام کرنے والے تک پہنچنا ‘ تاکہ اس کے ساتھ بھی وہی کام کیا جائے) ۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

ح رر

 حَرَّ (س) حَرَارًا : آزاد ہونا۔

 حَرَّ (ن ۔ ض) حَرَارَۃً : گرم ہونا۔

 حُرٌّ ( صفت) : آزاد۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 حَرٌّ (اسم ذات) : گرمی۔ {وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّط} (التوبۃ:81) ’’ اور ان لوگوں نے کہا کہ تم لوگ مت نکلو گرمی میں۔‘‘

 حَرُوْرٌ (فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ) : سخت گرمی‘ لو‘ تیز دھوپ۔ {وَلَا الظِّلُّ وَلاَ الْحَرُوْرُ ۔ } (فاطر) ’’ اور نہ سایہ اور نہ تیز دھوپ۔‘‘

 حَرِیْرٌ (فَعِیْلٌ کا وزن) : باریک ریشم۔ {وَلِبَاسُھُمْ فِیْھَا حَرِیْرٌ ۔ } (الحج) ’’ اور ان کا لباس ہے اس میں باریک ریشم۔‘‘

 حَرَّرَ (تفعیل) تَحْرِیْرًا: کسی کو آزاد کرنا۔ {فَتَحْرِیْرُ رَقَـبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍط} (النسائ:92) ’’ تو ایک مومن گردن (یعنی مومن غلام) کا آزاد کرنا۔‘‘

 مُحَرَّرٌ (اسم المفعول) : آزاد کیا ہوا۔ {رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا…} (آل عمران:35) ’’ اے میرے ربّ! میں نے نذر کیا تیرے لیے اس کو جو میرے پیٹ میں ہے آزاد کیا ہوا…‘‘

ء ن ث

 اَنُثَ (ک) اَنَثًا : نرم و ملائم ہونا‘ مادہ ہونا‘ عورت ہونا۔

 اُنْثٰی ج اِنَاثٌ ( فُعْلٰی کا وزن) : مادہ‘ مؤنث۔ {اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰـثًاج} (النسائ:117) ’’ وہ لوگ نہیں پکارتے اس کے (یعنی اللہ کے) علاوہ مگر کچھ مؤنثوں کو۔‘‘

ء د ی

 اَدٰی (ض) اَدْیًا : کسی کا حق پہچاننا‘ حق دینا۔

 اَدَائٌ ( اسم ذات) : ادائیگی‘ واپسی۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 اَدّٰی (تفعیل) تَـأْدِیَۃً : حق دار کو اس کا حق واپس کرنا۔ {وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لاَّ یُؤَدِّہٖ اِلَیْکَ…} (آل عمران:75) ’’ اور ان میں وہ بھی ہے جو کہ اگر توامین بنائے اس کو ایک دینار کا تو وہ واپس نہیں کرے گا اس کو تیری طرف…‘‘

 اَدِّ (فعل امر) : تو واپس کر۔ {اَنْ اَدُّوْا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِط} (الدّخان:18) ’’ کہ تم لوگ واپس کرو میری طرف اللہ کے بندوں کو۔‘‘

 ترکیب : ’’ کُتِبَ‘‘ ماضی مجہول ہے ’’ اَلْقِصَاصُ‘‘ اس کا نائب فاعل ہے‘ جبکہ ’’ عَلَیْکُمْ‘‘ اور ’’ فِی الْقَتْلٰی‘‘ متعلق فعل ہیں۔’’ اَلْحُرُّ ‘ وَالْعَبْدُاور وَالْاُنْثٰی‘‘ تینوں مبتدأ ہیں۔ ان کی خبریں ’’ قِصَاصٌ‘‘ محذوف ہیں‘ جبکہ’’ بِالْحُرِّ‘ بِالْعَبْدِ اور بِالْاُنْثٰی‘‘ متعلق خبر تھیں جو اب قائم مقام خبر ہیں۔ ’’ فَمَنْ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ عُفِیَ‘‘ سے’’ شَیْئٌ‘‘ تک جملہ فعلیہ اس کی خبر ہے۔ ’’ عُفِیَ‘‘ ماضی مجہول ہے ’’ شَیْئٌ‘‘ اس کا نائب فاعل ہے‘ جبکہ ’’ لَـہٗ‘‘ اور ’’ مِنْ اَخِیْہِ‘‘ متعلق فعل ہیں۔ ’’ لَـہٗ‘‘ میں’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے جو قاتل کے لیے آیا ہے۔’’ اَخِیْ‘‘ کا لفظ مقتول کے ولی کے لیے ہے اور اس کے ساتھ ’’ ہِ‘‘ کی ضمیر ’’ مَنْ‘‘ یعنی قاتل کے لیے ہے۔ ’’ فَاتِّبَاعٌ‘‘ اور’’ اَدَائٌ‘‘ مبتدأ نکرہ ہیں‘ کیونکہ عام قاعدے کا بیان ہے۔ ان دونوں کی خبر محذوف ہے جو ’’ وَاجِبٌ‘‘ یا’’ لاَزِمٌ‘‘ ہو سکتی ہے۔ ’’ بِالْمَعْرُوْفِ‘ اِلَـیْہِاور بِاِحْسَانٍ‘‘ متعلق خبر ہیں۔’’ اِلَـیْہِ‘‘ میں’’ ہِ‘‘ کی ضمیر ’’ اَخِیْ‘‘ یعنی مقتول کے ولی کے لیے ہے۔ ’’ ذٰلِکَ‘‘ مبتدأ ہے۔’’ تَخْفِیْفٌ‘‘ اس کی خبر اوّل ہے اور ’’ رَحْمَۃٌ‘‘ خبر ثانی ہے ‘ جبکہ ’’ مِنْ رَّبِّکُمْ‘‘ متعلق خبر ہیں۔ ’’ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘ جوابِ شرط ہے۔

 نوٹ (1) : مادہ ’’ ق ت ل ‘‘ کی لغت سورۃ البقرۃ کی آیت 72 کے تحت پیش کر دی گئی ہے۔ وہاں پر لفظ ’’ قَتْلٰی‘‘ سہواً رہ گیا تھا۔ اب نوٹ کرلیں کہفَعِیْلٌکے وزن پر ’’ قَتِیْلٌ‘‘ بمعنی مقتول آتا ہے اور اس کی جمع ’’ قَتْلٰی‘‘ ہے۔

 نوٹ (2) : عرب کے دو قبائل میں جنگ ہوئی جس میں طرفین کے بہت سے آدمی‘ آزاد‘ غلام اور عورتیں قتل ہو گئے۔ ابھی ان کا تصفیہ ہونے نہیں پایا تھا کہ ان دونوں قبیلوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد قصاص لینے کی بات شرو ع ہوئی تو بڑے قبیلے نے کہا کہ ہم اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک ہمارے غلام کے بدلے دوسرے کا آزاد آدمی اور عورت کے بدلے میں مرد قتل نہ کیا جائے۔

 اس مطالبہ کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی کہ: {اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰیط}۔ اسلام نے اپنا عادلانہ قانون یہ نافذ کردیا کہ جس نے قتل کیا ہے وہی قصاص میں قتل کیا جائے۔ قاتل اگر عورت یا غلام ہے تو اس کے بدلے میں کسی بےگناہ آزاد کو قتل کرنا ظلم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ جس نے قتل کیا ہے وہی قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ (منقول از معارف القرآن)

 معارف القرآن‘ تفہیم القرآن اور دیگر تفاسیر کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آیت کے مذکورہ حصہ میں اصل حکم یہ ہے کہ یہ مت دیکھو کہ مقتول کون ہے۔ وہ خواہ آزاد ہو‘ یا غلام ہو ‘ یا عورت ہو‘ بہرصورت قاتل کو گرفتار کرنا اسلامی اجتماعیت {یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا}

یعنی حکومت پر اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے۔ پھر جب قاتل پر جرم ثابت ہو جائے تو یہ مت دیکھو کہ قاتل آزاد ہے ‘ یا غلام ہے ‘ یا عورت ہے‘ بہرصورت بدلے میں اس کو قتل کرنا حکومت پر فرض کیا گیا ہے۔ کسی صدرِ مملکت‘ حتیٰ کہ کسی ’’ اسلامی جمہوریہ‘‘ کے صدرِ مملکت کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی قاتل کو معاف کر دے۔ یہ اختیار صرف مقتول کے وارثوں کو حاصل ہے۔

 اس پر اجماعِ اُمّت ہے کہ مقتول کے وارثوں کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ خود قاتل سے بدلہ لیں۔ اس کے لیے حکومت سے رجوع کرنا لازمی ہے۔ پھر اگر وہ قاتل کو معاف نہیں کرتے تو حکومت اس کو قصاص میں قتل کرے گی۔ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّـٰٓــاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ   ١٧٩؁
[ وَلَــکُمْ : اور تم لوگوں کے لیے] [ فِی الْقِصَاصِ : (قتل کے) بدلے میں] [ حَیٰوۃٌ : زندگی ہے] [ یّٰـاُولِی الْاَلْبَابِ : اے عقل والو] [ لَعَلَّـکُمْ: شاید کہ تم لوگ] [ تَتَّقُوْنَ: تقویٰ اختیار کرو]

 

ل ب ب

 لَبَّ (ن) لَــبًّا : کسی چیز کا ست یا جوہر نکالنا‘ بادام یا اخروٹ وغیرہ کی گری نکالنا۔

 لَـبَـبًا : عقل مند ہونا ۔ (انسان کا جوہر اس کی عقل ہے) ۔

 لَبٌّ ج اَلْبَابٌ (اسم ذات) : خالص عقل۔ (جو آمیزش یعنی وہم اور جذبات وغیرہ سے پاک ہو) ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ حَیٰوۃٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے۔ ’’ لَـکُمْ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے جبکہ ’’ فِی الْقِصَاصِ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ اُولِیْ‘‘ مضاف ہے اور حرفِ ندا ’’ یَا‘‘ کی وجہ سے منصوب ہے اور ’’ اَلْاَلْبَابِ‘‘ مضاف الیہ ہے۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا  ښ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ  ۚ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ    ١٨٠؁ۭ
[ کُتِبَ : فرض کیا گیا] [ عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر] [ اِذَا : جب کبھی] [ حَضَرَ : سامنے آئے] [ اَحَدَکُمُ : تم میں سے کسی ایک کے] [ الْمَوْتُ : موت] [ اِنْ : (اور) اگر] [ تَرَکَ : اس نے چھوڑا] [ خَیْراً : کچھ مال] [ الْوَصِیَّۃُ : وصیت کو] [ لِلْوَالِدَیْنِ : والدین کے لیے] [ وَالْاَقْرَبِیْنَ : اور قرابت داروں کے لیے] [ بِالْمَعْرُوْفِ: دستور کے مطابق] [ حَقًّا : حق ہوتے ہوئے] [ عَلَی الْمُتَّقِیْنَ : متقی لوگوں پر]

 

 

ت رک

 تَرَکَ (ن) تَرْکًا : کسی چیز کو چھوڑ دینا۔{لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ…} (النسائ:7) ’’ مردوں کے لیے ایک حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑا والدین نے…‘‘

 اُتْرُکْ (فعل امر): تو چھوڑ دے‘ ترک کر دے ۔ {وَاتْرُکِ الْبَحْرَ رَھْوًاط} (الدّخان:24) ’’ اور آپؑ چھوڑ دیں سمندر کو تھما ہوا۔‘‘

 تَارِکٌ (اسم الفاعل): چھوڑنے والا۔ {اَئِنَّا لَتَارِکُوْآ اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ کیا ہم لوگ اپنے خدائوں کو چھوڑنے والے ہیں ایک مجنون شاعر کے لیے؟‘‘

 ترکیب : ’’ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ‘‘ اور ’’ اِنْ تَرَکَ خَیْرًا‘‘ شرط ہے۔ باقی آیت جوابِ شرط ہے۔ ’’ کُتِبَ‘‘ ماضی مجہول ہے اور اس کا نائب فاعل’’ الْوَصِیَّۃُ‘‘ ہے۔ ’’ عَلَیْکُمْ‘‘ اور’’ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ‘‘ متعلق فعل ہیں‘ جبکہ ’’ حَقًّا‘‘ مفعول مطلق ہے ’’ کُتِبَ الْوَصِیَّۃُ‘‘ کا۔

 نوٹ (1) : سورۃ النساء میں آیات میراث کے نزول کے بعد ورثاء کے لیے وصیت کرنا فرض نہیں رہا۔ البتہ غیر ورثاء کے لیے ایک تہائی مال کے اندر اندر وصیت کی جا سکتی ہے۔ دو تہائی مال ورثاء میں لازماً تقسیم ہو گا۔ فَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ فَاِنَّمَآ اِثْمُهٗ عَلَي الَّذِيْنَ يُبَدِّلُوْنَهٗ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ     ١٨١؁ۭ
[ فَمَنْ : پس جس نے ] [ بَدَّلَـہٗ : تبدیل کیا اس کو] [ بَعْدَ مَا : اس کے بعد کہ جو] [ سَمِعَہٗ : اس نے سنا اس کو ] [ فَاِنَّمَا : تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ اِثْمُہٗ : اس کا گناہ ] [ عَلَی الَّذِیْنَ : ان لوگوں پر ہے جو] [ یُبَدِّلُوْنَـہٗ: تبدیل کرتے ہیں اس کو ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ] [ سَمِیْعٌ: سننے والا ہے ] [ عَلِیْمٌ: جاننے والا ہے]

 

 ترکیب : ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔’’ بَدَّلَـہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَاِنَّمَا‘‘ سے ’’ یُبَدِّلُوْنَہٗ‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔’’ بَدَّلَـہٗ ‘ سَمِعَہٗ اور یُبَدِّلُوْنَہٗ ‘‘ میں’’ ہٗ‘‘ کی مذکر ضمیریں’’ اَلْوَصِیَّۃُ‘‘ کے لیے آئی ہیں جو کہ مؤنث ہے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے لیکن سیاق و سباق کا تقاضا ہے کہ ان ضمیروں کو ’’ اَلْوَصِیَّۃُ‘‘ کے لیے ہی مانا جائے۔ اس کا جواز تلاش کرنے سے بہتر ہے کہ اس صورت حال کو ہم قرآن مجید کے ایک استثناء کے طور پر قبول کر لیں۔ ’’ اِثْمُہٗ‘‘ میں ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر’’ بَدَّلَ‘‘ کے مصدر’’ تَـبْدِیْلٌ‘‘ کے لیے ہے۔ فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًـا فَاَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     ١٨٢؁ۧ
[ فَمَنْ : پس جس کو ] [ خَافَ : اندیشہ ہو] [ مِنْ مُّوْصٍ : کسی وصیت کرنے والے سے] [ جَنَفًا : جانبداری کا] [ اَوْ اِثْمًا : یا کسی گناہ کا] [ فَاَصْلَحَ: پھر اس نے درست کردیا (یعنی دستور کے مطابق کر دیا) ] [ بَیْنَھُمْ : ان لوگوں کے مابین] [ فَلَا اِثْمَ : تو کوئی گناہ نہیں ہے] [ عَلَیْہِ: اس پر ] [ اِنَّ اللّٰہَ: یقینا اللہ] [ غَفُوْرٌ: بےانتہا بخشنے والا ہے] [ رَّحِیْمٌ: ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

 

ج ن ف

 جَنِفَ (س) جَنَفًا : راستہ سے ہٹ جانا‘ فیصلے میں جانبداری کرنا۔

 جَنَفٌ (اسم ذات): جانبداری‘ معروف سے انحراف۔ آیت زیر مطالعہ۔

 تَجَانَفَ (تفاعل) تَجَانُفًا : کسی کی طرف مائل ہونا‘ جھکنا۔

 مُتَجَانِفٌ(اسم الفاعل) : مائل ہونے والا‘ جھکنے والا ۔ {فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاّثْـمٍ …} (المائدۃ:3) ’’ پس جو لاچار ہوجائے بھوک میں جھکنے والا نہ ہوتے ہوئے گناہ کی طرف…‘‘

 ترکیب : ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ خَافَ‘‘ سے ’’ بَیْنَھُمْ‘‘ تک شرط ہے اور ’’ فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ‘‘ جوابِ شرط ہے۔’’ مِنْ مُّوْصٍ‘‘ متعلق فعل ہے ‘ جبکہ ’’ جَنَفًا‘‘ اور’’ اِثْمًا‘‘ دونوں ’’ خَافَ‘‘ کے مفعول ہیں۔’’ فَاَصْلَحَ‘‘ کا مفعول’’ اَلْوَصِیَّۃُ‘‘ محذوف ہے۔’’ بَیْنَھُمْ‘‘ میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ان لوگوں کے لیے ہے جن کے لیے وصیت کی گئی ہے۔ ’’ اِثْمَ‘‘ سے پہلے لائے نفی ٔجنس ہے۔

 نوٹ (1) : اگر کسی وصیت میں جانبداری کا پہلو ہو تو گواہوں کی طرف سے اس میں اصلاح کی کوشش وصیت تبدیل کرنے کے ضمن میں نہیں آئے گی ‘ جس کی گزشتہ آیت میں ممانعت کی گئی ہے۔ البتہ گواہوں کو خود وصیت میں اصلاح کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اگر موقع ہو تو وصیت سنتے وقت وصیت کرنے والے کو اس میں اصلاح پر آمادہ کرے۔ بصورتِ دیگر وصیت صحیح بیان کرنے کے بعد وارثوں کی باہمی رضامندی سے اس میں اصلاح کرائے۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ   ١٨٣؁ۙ
[ یٰٓــاَیُّھَا الَّذِیْنَ : اے لوگو جو] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے] [ کُتِبَ : فرض کیا گیا] [ عَلَیْکُمُ : تم لوگوں پر] [ الصِّیَامُ : روزہ رکھنے کو] [ کَمَا : جیسا کہ ] [ کُتِبَ : فرض کیا گیا] [ عَلَی الَّذِیْنَ : ان لوگوں پر جو] [ مِنْ قَبْلِکُمْ : تم سے پہلے تھے] [ لَعَلَّکُمْ : شاید کہ تم لوگ ] [ تَتَّقُوْنَ: تقویٰ اختیار کرو]

 

ص و م

 صَامَ (ن) صِیَامًا : کسی کام سے رک جانا‘ روزہ رکھنا۔ {وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّــکُمْ…} (البقرۃ:184) ’’ اور یہ کہ تم لوگ روزہ رکھو ‘ زیادہ بہتر ہے تم لوگوں کے لیے…‘‘

 صَوْمٌ (اسم ذات [ واحد اور جمع دونوں کے لیے]) : کسی کام سے رک جانے کا عہد‘ روزہ۔ {اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا ۔ } (مریم) ’’ میں نے منت مانی الرحمن کے لیے ایک روزے کی‘ پس میں ہرگز بات نہیں کروں گی آج کسی انسان سے۔‘‘

 صَائِمٌ (فَاعِلٌ کے وزن پر صفت): روزہ رکھنے والا‘ روزہ دار۔ {وَالصَّائِمِیْنَ وَالصّٰئِمٰتِ…} (الاحزاب:35) ’’ اور روزے دار مرد اور روزے دار عورتیں…‘‘

 ترکیب : ’’ یٰٓــاَیـُّھَا‘‘ ندا اور ’’ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ منادیٰ ہے۔ ’’ کُتِبَ‘‘ ماضی مجہول ہے اور ’’ اَلصِّیَامُ‘‘ اس کا نائب فاعل ہے‘ جبکہ’’ عَلَیْکُمْ‘‘ متعلق فعل ہے۔ اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ۭ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَ يَّامٍ اُخَرَ  ۭ وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ۭ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ  ۭ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ   ١٨٤؁
[ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ : گنے ہوئے کچھ دن ہیں] [ فَمَنْ کَانَ : پس جو ہو] [ مِنْکُمْ : تم میں سے ] [ مَّرِیْضًا : مریض ] [ اَوْ عَلٰی سَفَرٍ : یا کسی سفر پر ] [ فَعِدَّۃٌ : تو شمار ہے] [ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ: دوسرے کسی دنوں سے] [ وَعَلَی الَّذِیْنَ : اور ان لوگوں پر جو ] [ یُطِیْقُوْنَـــــــہٗ : طاقت رکھتے ہیں اس کی] [ فِدْیَۃٌ : فدیہ ہے ] [ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ : ایک مسکین کا کھانا] [ فَمَنْ تَطَوَّعَ : پھر جو نفلاً زیادہ کرے] [ خَیْرًا : کسی نیکی کو ] [ فَھُوَ خَیْرٌ : تو یہ بہتر ہے ] [ لَّــــــہٗ: اس کے لیے] [ وَاَنْ : اور یہ کہ ] [ تَصُوْمُوْا : تم لوگ روزہ رکھو] [ خَیْرٌ : زیادہ اچھا ہے ] [ لَّکُمْ : تمہارے لیے ] [ اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو ]

 

س ف ر

 سَفَرَ (ن) سَفْرًا : کسی چیز سے پردہ اٹھانا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً : (1) لکھنا ‘ حقائق سے پردہ اٹھانا۔ (2) سفر پر روانہ ہونا‘ راستوں سے پردہ اٹھانا۔

 سَفَرٌ ج اَسْفَارٌ (اسم ذات): سفر۔ آیت زیر مطالعہ ۔{رَبَّنَا بٰعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا} (سبا:19) ’’ اے ہمارے ربّ! تو دراز کر دے ہمارے سفروں کے درمیان (یعنی منزلوں کو)‘‘

 سِفْرٌ ج اَسْفَارٌ (اسم ذات): کتاب۔ {کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاط} (الجمعۃ:5) ’’ اس گدھے کی مثال کی مانند ہے جو اٹھاتا ہے کتابیں۔‘‘

 سَافِرٌ ج سَفَرَۃٌ (اسم الفاعل) لکھنے والا۔ {بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ ۔ } (عبس) ’’ لکھنے والوں کے ہاتھوں میں۔‘‘

 اَسْفَرَ (افعال) اِسْفَارًا : کسی چیز کے رنگ سے پردہ اٹھنا‘ چمکنا‘ روشن ہونا۔ {وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ ۔ } (المدثر) ’’ اور صبح جب وہ روشن ہو۔‘‘

 مُسْفِرٌ(اسم الفاعل): چمکنے والا‘ روشن ہونے والا۔ {وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ ۔ } (عبس) ’’ کچھ چہرے اس دن روشن ہونے والے ہیں۔‘‘

ط و ق

 طَاقَ (ن) طَوْقًا : گلے میں حلقہ یا طوق ہونا‘ کسی کام کی اہلیت یا طاقت ہونا۔

 طَاقَـۃٌ (اسمِ ذات): قدرت‘ طاقت۔ {رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖج} (البقرۃ:286) ’’ اے ہمارے ربّ! تو وہ بوجھ نہ اٹھواہم سے جس کی طاقت نہیں ہے ہم کو۔‘‘

 اَطَاقَ (افعال) اِطَاقَۃً : کسی کام کو کرنے کی طاقت یا قدرت رکھنا۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 ترکیب : مرکب توصیفی’’ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘ گزشتہ آیت کے ’’ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ‘‘ کا مفعول فیہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔’’ کَانَ‘‘ سے ’’ عَلٰی سَفَرٍ‘‘ تک شرط ہے اور ’’ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ‘‘ جوابِ شرط ہے۔ ’’ کَانَ‘‘ کا اسم اس میں شامل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے۔ جبکہ ’’ مَرِیْضًا‘‘ خبر ہے۔ ’’ عَلٰی سَفَرٍ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ اس جملہ میں آفاقی صداقت کا بیان ہے اس لیے’’ کَانَ‘‘ کا ترجمہ حال میں ہو گا۔

 ’’ فَعِدَّۃٌ‘‘ مبتدأ نکرہ ہے ‘ کیونکہ عام قاعدہ بیان ہو رہا ہے ۔ اس کی خبر ’’ وَاجِبٌ‘‘ محذوف ہے۔ متعلق خبر’’ اَیـَّامٍ اُخَرَ‘‘ مرکب توصیفی ہے۔’’ فُعْلٰی‘‘ کی جمع ’’ فُعَلٌ‘‘ کے وزن پر ’’ اُخَرٌ‘‘ آنا چاہیے ‘ لیکن یہ خلافِ قاعدہ ’’ اُخَرُ‘‘ غیر منصرف استعمال ہوتا ہے۔ اور ’’ اُخَرَ‘‘ یہاں ’’ اَیَّامٍ‘‘ کی صفت ہونے کی وجہ سے مجرور ہے۔’’ فِدْیَۃٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے۔ اس کی بھی خبر ’’ وَاجِبٌ‘‘ محذوف ہے۔’’ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔’’ یُطِیْقُوْنَہٗ‘‘ میں ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ’’ اَلصِّیَامُ‘‘ کے لیے ہے۔’’ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ‘‘ بدل ہے ’’ فِدْیَۃٌ‘‘ کا۔

 نوٹ (1) : اسلام کے دیگر احکام کی طرح روزے کو بھی بتدریج فرض کیا گیا۔ شروع میں ہر مہینہ کے تین دن روزہ رکھنے کی ہدایت تھی ‘ لیکن یہ فرض نہیں تھا۔ پھر مدینہ میں یہ آیات نازل ہوئیں جس میں روزہ فرض کیا گیا۔ اس میں مریض اور مسافر کے علاوہ ان لوگوں کو بھی رخصت دی گئی جو طاقت رکھنے کے باوجود روزہ نہیں رکھنا چاہتے تھے کہ وہ روزے کے بدلے فدیہ دے دیں۔ یہ بھی عبوری حکم تھا۔ حتمی حکم کی آیات بعد میں نازل ہوئیں۔

 نوٹ (2) : ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حاضر و ناظر ہے ‘ لیکن زندگی کی گہماگہمی میں ہمیں یہ احساس نہیں رہتا کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوتے ہیں اور جس حال میں ہوتے ہیں اللہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے اور ہم جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہوتا ہے (57:4) ۔ اللہ کے حاضر وناظر ہونے کے احساس کا تقویٰ کے ساتھ ایک مثبت ربط (Positive Correlation) ہے۔ یہ احساس جیسے جیسے زیادہ ہوتا ہے تقویٰ کی کیفیت بھی اسی تناسب سے گہری ہوتی ہے۔ اور یہ احساس جتنا کم ہو گا تقویٰ میں بھی اتنی کمی ہو جائے گی۔

 اب نوٹ کریں کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا کُل کا کُل مدار اس احساس پر ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں اللہ ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں دیکھ رہا ہے۔ لاشعور کی سطح سے اس احساس کو بلند کر کے اگر ہم پورے شعوری احساس کے ساتھ ایک مہینے کے روزے رکھیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ رمضان کے بعد بھی تقویٰ کی کیفیت برقرار رہے۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ  ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ  ۭ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ   ١٨٥؁
[ شَھْرُ رَمَضَانَ : (یہ) رمضان کا مہینہ ہے] [ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ : اتارا گیا جس میں] [ الْقُرْاٰنُ : قرآن کو] [ ھُدًی : ہدایت ہوتے ہوئے] [ لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے ] [ وَبَیِّنٰتٍ : اور واضح ہوتے ہوئے] [ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ : ہدایت اور فرقان میں سے] [ فَمَنْ : پس جو] [ شَھِدَ : موجود ہو] [ مِنْکُمُ : تم میں سے] [ الشَّھْرَ : اس مہینہ میں] [ فَلْیَصُمْہُ : تو اسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے اس میں] [ وَمَنْ کَانَ : اور جو ہو] [ مَرِیْضًا : مریض ] [ اَوْ عَلٰی سَفَرٍ : یا کسی سفر پر ] [ فَعِدَّۃٌ : تو گنتی ہے ] [ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ : دوسرے کسی دنوں سے] [ یُرِیْدُ اللّٰہُ : اللہ چاہتا ہے ] [ بِکُمُ : تم لوگوں کے لیے] [ الْیُسْرَ : آسانی] [ وَلَا یُرِیْدُ : اور وہ نہیں چاہتا] [ بِکُمُ : تم لوگوں کے لیے] [ الْعُسْرَ : سختی] [ وَلِتُکْمِلُوا : اور تاکہ تم لوگ پورا کرو] [ الْعِدَّۃَ : گنتی کو ] [ وَلِتُــــکَبِّرُوا: اور تاکہ تم لوگ بڑائی بیان کرو] [ اللّٰہَ : اللہ کی ] [ عَلٰی مَا : اس پر جو ] [ ھَدٰٹکُمْ: اس نے ہدایت دی تم کو] [ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ : اور شاید کہ تم لوگ شکر ادا کرو۔

 

ش ھـ ر

 شَھَرَ (ف) شَھْرًا: (1) کسی کی مشہوری کرنا۔ (2) ایک مہینہ کی مدت گزارنا۔

 شَھْرٌ ج شُھُوْرٌ اور اَشْھُرٌ (اسم ذات) : مہینہ‘ ماہ۔{اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا…} (التوبۃ:36) ’’ بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے پاس بارہ مہینے ہیں…‘‘ {فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ} (التوبۃ:2) ’’ پس گھوم پھر لو زمین میں چار مہینے۔‘‘

ر م ض

 رَمِضَ (س) رَمَضًا : دن کا گرم ہونا‘ گرم زمین پر پائوں جلنا۔

 رَمَضَانُ : ہجری سال کا نواں مہینہ‘ رمضان۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

ق ر ء

 قَرَأَ (ف) قُرْاٰنًا اور قِرَائَ ۃً: دو چیزوں کو اکٹھا کرنا‘ جمع کرنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً: (1) پڑھنا (پڑھنے والا الفاظ کو اکٹھا کرتا ہے) ۔ (2) پڑھ کر سنانا۔ اس معنی میں ’’ عَلٰی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ (3) مدت گزارنا۔ (کسی مقررہ وقت کے شروع ہونے اور ختم ہونے کے لمحہ کو اکٹھا کرنے سے ایک مدت وجود میں آتی ہے) ۔ {فَاِذَا قَرَاْنٰـہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَـہٗ ۔ } (القیٰمۃ) ’’ پھر جب ہم پڑھیں اس کو تو آپؐ پیروی کریں اس کے پڑھنے کی۔‘‘{وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰـہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ…} (بنی اسرائیل :106) ’’ اور قرآن‘ ہم نے الگ الگ کیا اس کو تاکہ آپؐ پڑھ کر سنائیں اسے لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر…‘‘

 اِقْرَأْ (فعل امر) : تو پڑھ۔ {اِقْرَأْ کِتٰبـَکَ} (بنی اسرائیل :14) ’’ تو پڑھ اپنی کتاب کو۔‘‘

 قُرْاٰنٌ (اسم ذات بھی ہے) : پڑھی جانے والی چیز‘ پیغام‘ خط‘ کتاب وغیرہ۔ اصطلاحاً اب اس لفظ کا استعمال صرف آخری وحی کے لیے مخصوص ہے۔ اس لیے کسی اور کتاب وغیرہ کے لیے اس کا استعمال غلط مانا جاتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ۔

 قُرْئٌ ج قُرُوْئٌ (اسم ذات): مدت۔ قرآن مجید میں اسے خواتین کے ایک طہر اور حیض کی جامع مدت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ {وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَـۃَ قُرُوْئٍط} (البقرۃ:228) ’’ اور طلاق دی ہوئی خواتین رکی رہتی ہیں اپنے نفس سے تین مدتوں تک۔‘‘

 اَقْرَأَ (افعال) اِقْرَائً : کسی کو پڑھانا۔ {سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰی ۔ } (الاعلیٰ) ’’ ہم پڑھائیں گے آپؐ‘ کو پھر آپؐ ‘ نہیں بھولیں گے۔‘‘

ی س ر

 یَسَُرَ (ض۔ ک) یَسْرًا : نرم و آسان ہونا (لازم)‘ نرم و آسان کرنا (متعدی)‘ رزق و روزی میں کشادہ ہونا۔

 مَیْسُوْرٌ (اسم المفعول) : نرم و آسان کیا ہوا۔ {فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا ۔ }

(بنی اسرائیل ) ’’ پس تو کہہ ان سے نرم کی ہوئی بات۔‘‘

 یَسِیْرٌ( فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت): نرم‘ آسان۔ {اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ ۔ } (الحج) ’’ یقینا یہ اللہ پر آسان ہے۔‘‘

 یُسْرٰی (فُعْلٰیکا وزن ہے) : نرمی‘ سہولت‘ کشادگی۔ {وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰی ۔ } (الاعلیٰ) ’’ اور ہم پہنچائیں گے آپؐ ‘ کو کشادگی اور سہولت تک۔‘‘

 یُسْرٌ(اسم ذات): نرمی‘ آسانی۔ {فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۔ اِنَّ مَعَ الْـعُسْرِ یُسْرًا ۔ } (الانشراح) ’’ پس یقینا سختی کے ساتھ نرمی ہے‘ یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘

 مَیْسَرَۃٌ : رزق میں کشادگی۔{فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ ط} (البقرۃ:280) ’’ تو مہلت ہے رزق میں کشادگی تک۔‘‘

 مَیْسِرٌ : جوا‘ سٹہ۔{یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ} (البقرۃ:219) ’’ یہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے جوئے اور شراب کے بارے میں۔‘‘

 یَسَّرَ (تفعیل) تَیْسِیْرًا: (1) کسی چیز کو کسی کے لیے رفتہ رفتہ آسان کر دینا۔ (2) کسی کو کسی جگہ پہنچا دینا (یعنی رفتہ رفتہ راستہ آسان کرنا) ۔ {وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ} (القمر:17) ’’ اور ہم نے آسان کردیا قرآن کو یاد دہانی کے لیے۔‘‘ پہنچانے کے مفہوم کے لیے سورۃ الاعلیٰ کی آیت 8 دیکھیں۔

 یَسِّرْ(فعل امر): تو آسان کر۔ {وَیَسِّرْ لِیْ اَمْرِیْ ۔ } (طٰہٰ) ’’ اور تو آسان کر دے میرے لیے میرے کام کو۔‘‘

 تَـیَسَّرَ (تفعّل) تَـیَسُّرًا: آسان ہونا۔{فَاقْرَئُ‘ وْا مَا تَـیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِط} (المزّمّل:20) ’’ تو تم لوگ پڑھو اس کو جو آسان ہو قرآن میں سے۔‘‘

 اِسْتَیْسَرَ (استفعال) اِسْتِیْسَارًا: آسان سمجھنا۔ {فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ ج} (البقرۃ:196) ’’ پھر اگر تم لوگ گھیر لیے جائو تو جو آسان ہو قربانی میں سے۔‘‘

ع س ر

 عَسُِرَ (س ۔ ک) عُسْرًا: سخت اور دشوار ہونا‘ رزق میں تنگ دست ہونا۔

 عَسِرٌ (صفت) : سخت ‘ مشکل۔ {یَقُوْلُ الْـکٰفِرُوْنَ ھٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ ۔ } (القمر) ’’ کہیں گے کافر لوگ یہ ایک سخت دن ہے۔‘‘

 عَسِیْرٌ( فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ): سخت‘ دشوار۔ {وَکَانَ یَوْمًا عَلَی الْــکٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا ۔ } (الفرقان) ’’ اور کافروں پر وہ ایک سخت دن ہوگا۔‘‘

 عُسْرٌ( اسم ذات) : سختی‘ تنگی۔ آیت زیر مطالعہ۔

 عُسْرٰی (فُعْلٰی کا وزن ہے) : سختی‘ دشواری۔{فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی ۔ } (اللّیل) ’’ پس ہم پہنچائیں گے اس کو سختی اور دشواری تک۔‘‘

 تَعَاسَرَ (تفاعل) تَعَاسُرًا: باہم سختی کرنا‘ ضد کرنا۔ {وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَـہٗ اُخْرٰی ۔ } (الطلاق) ’’ اور اگر باہم ضد کرو گے تو دودھ پلائے گی اس کے لیے دوسری۔‘‘

ک م ل

 کَمُلَ (ک) کَمَالاً : کسی چیز کے اجزاء اور صفات کی کمی کا ختم ہونا‘ مکمل ہونا‘ پورا ہونا۔

 کَامِلٌ (فَاعِلٌ کے وزن پر صفت): پورا ہونے والا‘ یعنی پورا‘ مکمل۔ {لِیَحْمِلُوْآ اَوْزَارَھُمْ کَامِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ…} (النحل:25) ’’ تاکہ وہ لوگ اٹھائیں اپنے بوجھ پورے کے پورے قیامت کے دن…‘‘

 اَکْمَلَ (افعال) اِکْمَالاً : پورا کرنا‘ مکمل کرنا۔{اَلْـیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَــکُمْ دِیْنَـکُمْ…} (المائدۃ:3) ’’ آج کے دن میں نے مکمل کیا تمہارے لیے تمہارے نظامِ حیات کو…‘‘

 ترکیب : ’’ شَھْرُ رَمَضَانَ‘‘ خبر ہے۔ اس کا مبتدأ’’ ھِیَ‘‘ محذوف ہے جو کہ ’’ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘ کا بدل ہے۔’’ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ‘‘ صفت ہے ’’ شَھْرُ رَمَضَانَ‘‘ کی۔ ’’ ھُدًی‘‘ اور ’’ بَیِّنٰتٍ‘‘ حال ہیں ’’ الْقُرْاٰنُ‘‘ کے‘ اس لیے نصب میں ہیں۔ ’’ فَمَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَلْیَصُمْہُ‘‘ جوابِ شرط ہے۔ ’’ الشَّھْرَ‘‘ پر لامِ تعریف ہے اور ’’ فَلْیَصُمْہُ‘‘ فعل امر غائب ہے اور اس میں ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ’’ الشَّھْرَ‘‘ کے لیے ہے۔

 نوٹ (1) : یہ روزوں کا حتمی حکم ہے۔ اس میں مریض اور مسافر کی رعایت برقرار رکھی گئی ہے‘ لیکن فدیہ دے کر روزہ نہ رکھنے کی رعایت منسوخ کر دی گئی۔ وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ   ١٨٦؁
[ وَاِذَا : اور جب بھی ] [ سَاَلَکَ : پوچھیں آپؐ سے] [ عِبَادِیْ : میرے بندے] [ عَنِّیْ : میرے بارے میں] [ فَاِنِّیْ : تو یقینا میں تو] [ قَرِیْبٌ : قریب ہوں] [ اُجِیْبُ : میں قبول کرتا ہوں] [ دَعْوَۃَ الدَّاعِ : ہر پکارنے والے کی پکار کو

اِذَا : جب بھی ] [ دَعَانِ : وہ پکارے مجھ کو ] [ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا : پس چاہیے کہ وہ لوگ حکم مانیں] [ لِیْ : میرا

وَلْیُؤْمِنُوْا : اور چاہیے کہ وہ لوگ ایمان لائیں] [ بِیْ : مجھ پر ] [ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ : شاید کہ وہ لوگ ہدایت پائیں]

 

ج و ب

 جَابَ (ن) جَوْبًا : (1) کوئی فاصلہ طے کرنا۔ (2) کسی چیز کو کاٹنا یا تراشنا (کاٹنے والا کاٹتے یا تراشتے ہوئے ایک فاصلہ طے کرتا ہے) ۔ {وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ ۔ } (الفجر) ’’ اور ثمود کے ساتھ (کیا معاملہ کیا؟) جنہوں نے تراشا پتھروں کو وادی میں۔‘‘

 جَوَابٌ (اسم ذات) : کسی بات کا جواب (کہنے والے کی بات جتنا فاصلہ طے کر کے آتی ہے‘ جواب دینے والے کی بات وہی فاصلہ طے کرتی ہے) ۔ {وَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْآ اَخْرِجُوْھُمْ} (الاعراف:82) ’’ اور نہیں تھا انؑ کی قوم کا جواب مگر یہ کہ تم لوگ نکالو اِن کو۔‘‘

 اَجَابَ (افعال) اِجَابَۃً : (1) بات کا جواب دینا ۔ (2) کسی کی بات یعنی حکم کو ماننا ۔ (3) کسی کی بات یعنی درخواست کو قبول کرنا۔ {مَا ذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ } (القصص) ’’ کیا جواب دیا تم لوگوں نے رسولوں کو؟‘‘ {اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ} (النمل:62) ’’ یا کون بات قبول کرتا ہے لاچار کی جب بھی وہ پکارے اس کو؟‘‘

 اَجِبْ (فعل امر) : تو کہنا مان‘ تو قبول کر۔ {یٰـقَوْمَنَا اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰہِ} (الاحقاف:31) ’’ اے ہماری قوم! تم لوگ کہنا مانو اللہ کی دعوت دینے والے کا۔‘‘

 مُجِیْبٌ (اسم الفاعل) : ماننے والا‘ قبول کرنے والا۔ {اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ ۔ } (ھود) ’’ یقینا میرا رب قریب ہے‘ قبول کرنے والا ہے۔‘‘

 اِسْتَجَابَ (استفعال) اِسْتِجَابَۃً : یہ مادہ باب استفعال اور باب افعال میں ہم معنی ہے‘ اس فرق کے ساتھ کہ باب استفعال میں جواب دینے‘ بات ماننے اور قبول کرنے کو ضروری سمجھنے کا مفہوم ہے۔ ترجمے میں یہ فرق واضح کرنا مشکل ہوتا ہے۔ {فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ} (آل‘ عمران:195) ’’ پس قبول کی ان کی بات ان کے رب نے۔‘‘

 اِسْتَجِبْ (فعل امر) : تو ضرور کہنا مان‘ تو ضرور قبول کر۔ {یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ} (الانفال:24) ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ! تم لوگ ضرور حکم مانو اللہ کا اور رسولؐ ‘ کا۔‘‘

ر ش د

 رَشَِدَ (ن۔ س) رَشْدًا : صحیح یعنی نیک راہ پر چلنا‘ ہدایت یافتہ ہونا‘ ہدایت پانا‘ آیت زیرِ مطالعہ۔

 رَاشِدٌ(اسم الفاعل) : ہدایت پانے والا۔ {اُولٰٓـئِکَ ھُمُ الرّٰشِدُوْنَ ۔ } (الحجرات) ’’ وہ لوگ ہی ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘

 رَشِیْدٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : ہدایت یافتہ‘ نیک چلن۔ {اَلَـیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ ۔ } (ھود) ’’ کیا تم لوگوں میں کوئی نیک چلن مرد نہیں ہے؟‘‘

 رَشَادٌ (اسم ذات) : نیکی‘ بھلائی‘ ہدایت ۔{وَمَآ اَھْدِیْکُمْ اِلاَّ سَبِیْلَ الرَّشَادِ ۔ } (المؤمن) ’’ اور میں ہدایت نہیں دیتا تم لوگوں کو مگر نیکی کے راستے کی۔‘‘

 رَشَدٌ : بھلی راہ‘ نیک راہ۔ {اَمْ اَرَادَ بِھِمْ رَبُّھُمْ رَشَدًا ۔ } (الجن) ’’ یا ارادہ کیا ان کے لیے ان کے رب نے نیک راہ کا۔‘‘

 رُشْدٌ : (1) نیک راہ‘ ہدایت ۔ (2) سوجھ بوجھ‘ معاملہ فہمی (جو ہدایت کا باعث ہے) ۔ {قَدْ تَّـبَـیَّـنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّج} (البقرۃ:256) ’’ واضح ہو چکی ہے ہدایت گمراہی سے۔‘‘ {فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْدًا} (النسائ:6) ’’ پھر اگر تم لوگ پائو ان میں کوئی سمجھ بوجھ۔‘‘

 اَرْشَدَ (افعال) اِرْشَادًا : صحیح راہ بتانا‘ ہدایت دینا۔

 مُرْشِدٌ (اسم الفاعل) : سیدھی راہ بتانے والا‘ ہدایت دینے والا۔ {فَلَنْ تَجِدَ لَـہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ۔ } (الکہف) ’’ پھر تو نہیں پائے گا اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا رفیق۔‘‘

 ترکیب : ’’ اِذَا‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ سَاَلَ‘‘ سے ’’ عَنِّیْ‘‘ تک شرط ہے‘ جبکہ ’’ فَاِنِّیْقَرِیْبٌ‘‘ جوابِ شرط ہے۔ ’’ سَاَلَ‘‘ کا فاعل ’’ عِبَادِیْ‘‘ ہے اور ’’ کَ‘‘ اس کی ضمیر مفعولی ہے اور ’’ عَنِّیْ‘‘ متعلق فعل ہے۔’’ فَاِنِّیْ‘‘ میں ’’ ی‘‘ ضمیر مبتدأ ہے جسے اب ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم کہینگے ۔’’ قَرِیْبٌ‘‘ اس کی خبر اوّل ہے‘ اور ’’ اُجِیْبُ‘‘ سے ’’ دَعَانِ‘‘ تک جملہ شرطیہ ہے جس میں شرط مؤخر اور جوابِ شرط مقدم ہے ۔ ’’ دَعْوَۃَ الدَّاعِ‘‘ مرکب اضافی ہے اور ’’ اُجِیْبُ‘‘ کا مفعول ہے اس لیے اس کا مضاف منصوب ہے۔ ’’ اَلدَّاعِ‘‘ پر لام جنس ہے۔ ’’ دَعَانِ‘‘ میں ’’ نِ‘‘ دراصل ’’ نِیْ‘‘ ہے جو ’’ دَعَا‘‘ کی ضمیر مفعولی ہے۔ ’’ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا‘‘ اور ’’ وَلْیُؤْمِنُوْا‘‘ فعل امر غائب ہیں۔ ان کے فاعل ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیریں ہیں جو ’’ عِبَادِیْ‘‘ کے لیے ہیں۔

 نوٹ (1) : فَاِنِّیْ قَرِیْبٌکی مزید وضاحت کے لیے سورۃالمجادلۃ کی آیت 7 کا پورا مفہوم ذہن میں رکھیں ‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ جہاں کہیں تین اشخاص باتیں کرتے ہیں‘ وہاں چوتھا اللہ ہوتا ہے۔

 اب ذرا سوچیں کہ اپنے ڈرائنگ روم میں سیاست پر گفتگو کے دوران جب ہم شخصیات کو زیرِبحث لاتے ہیں ‘ اس وقت یا تو ہم غیبت کرتے ہیں یا بہتان لگاتے ہیں۔ کیونکہ لگایا جانے والا الزام اگر درست ہے تو غیبت ہے اور اگر غلط ہے تو بہتان ہے۔ یہ کام کرتے ہوئے اگر ہمیں احساس ہو جائے کہ ڈرائنگ روم میں ہم نشینوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھی ہے جو ہمیں دیکھ رہا ہے اور سن رہا ہے تو یقینا ہمارا رویہ تبدیل ہو گا۔ اسی طرح ٹی وی لائونج‘ دفتر اور دکان وغیرہ میں اس احساس کو جگا کر تجربہ کرلیں اور پھر متعلقہ آیات کا مفہوم ذہن میں دہراتے رہیں تو اِن شاء اللہ رمضان کا فیض جاری رہے گا‘ خواہ نفلی ر وزے رکھیں یا نہ رکھیں۔

 نوٹ (2) : اس آیت میں دوسری اہم بات یہ اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہے۔ اس کے لیے عابد‘ زاہد‘ فاسق اور فاجر وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی گئی ہے۔ دوسری طرف ہمارا یعنی عام مسلمانوں کا تجربہ یہ ہے کہ ہماری اکثر دعائیں قبول نہیں ہوتیں‘ اس لیے ہم ایسے پہنچے ہوئے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جن کی دعایا سفارش قبول ہو جائے۔ اس بظاہر تضاد کی وجہ یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کا مفہوم ہمارے ذہن میں محدود ہے‘ جبکہ قرآن و حدیث میں اسے وسیع تر مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس فرق کو سمجھ لیں۔

 اپنے وسیع تر مفہوم میں کسی بھی دعا کے قبول ہونے کی صورتیں یہ ہیں : (1) جو چیز ہم مانگ رہے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے علم میں اگر وہ ہمارے لیے مفید ہے اور فوری طور پر ملنے میں ہمارا کوئی نقصان بھی نہیں ہے‘ تو اللہ تعالیٰ وہ چیز ہمیں اسی وقت دے دیتا ہے۔ (2) جو چیز ہم مانگ رہے ہیں وہ ہمارے لیے مفید تو ہے‘ لیکن اس کا فوری طور پر ملنا ہمارے لیے مفید نہیں ہے‘ تو ایسی صورت میں دعا کے قبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز ہمیں اس وقت دی جائے جب اس کا ملنا ہمارے لیے مفید ہو۔ (3) جو چیز ہم مانگ رہے ہیں وہ ہمارے لیے مفید نہیں ہے‘ تو ایسی صورت میں دعا کی قبولیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ چیز ہم کو نہ دی جائے اور اس کے بدلے کوئی مفید چیز دی جائے ‘ یا کوئی اور تکلیف یا پریشانی دور کر دی جائے‘ یا کسی آنے والی پریشانی کو روک دیا جائے۔ (4) دعا کی قبولیت کی ایک آخری شکل یہ بھی ہے کہ بندے کی دعا مذکورہ بالا کسی بھی طریقے سے اس دنیا میں قبول نہ کی جائے‘ بلکہ اس کا ثواب آخرت کے لیے محفوظ کردیا جائے۔ نبی اکرم ﷺ نے خبر دی ہے کہ قیامت میں ایسا ثواب جب بندے کے سامنے لایا جائے گا تو وہ اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کرے گا کہ تو نے میری باقی دعائیں دنیا میں کیوں قبول کر لیں؟

 دعا کی قبولیت کا مفہوم اگر سمجھ میں آ گیا ہے تو اب یقین کرلیں کہ اللہ ہر بندے کی سنتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے کہ بندہ اسے پکارے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعا دل سے نکلے اور ذہن اس پر مرتکز ہو۔ اگر دعا کے رٹے رٹائے الفاظ زبان ادا کر رہی ہو اور دل و دماغ کولمبس بنے پھر رہے ہوں‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اللہ کو پکارا ہی نہیں۔ اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ۭ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۭعَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ۠وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ ۚ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ   ١٨٧؁
[ اُحِلَّ : حلال کیا گیا ] [ لَــــکُمْ : تم لوگوں کے لیے ] [ لَیـْـــــــلَۃَ الصِّیَامِ : روزہ رکھنے کی رات میں] [ الرَّفَثُ : مباشرت کو

اِلٰی نِسَآئِ کُمْ: تمہاری عورتوں کی طرف] [ ھُنَّ : وہ ] [ لِبَاسٌ : لباس ہیں] [ لَّــکُمْ : تم لوگوں کے لیے ] [ وَاَنْتُمْ : اور تم لوگ ] [ لِبَاسٌ : لباس ہو ] [ لَّھُنَّ : ان کے لیے ] [ عَلِمَ : جانا ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ اَ نَّـــکُمْ : کہ تم لوگ] [ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے رہتے ہو] [ اَنْفُسَکُمْ : اپنے آپ سے] [ فَتَابَ : تو اس نے شفقت کی ] [ عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [ وَعَفَا : اور اس نے درگزر کیا ] [ عَنْکُمْ : تم سے ] [ فَالْئٰنَ : تو اب ] [ بَاشِرُوْ : تم لوگ مباشرت کرو] [ ھُنَّ : ان سے ] [ وَابْتَغُوْا : اور تم لوگ تلاش کرو] [ مَا : اس کو جو ] [ کَتَبَ اللّٰہُ : اللہ نے لکھا ] [ لَــکُمْ : تمہارے لیے ] [ وَکُلُوْا : اور تم لوگ کھائو] [ وَاشْرَبُوْا : اور پیئو] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ یَتَـبَیَّنَ : واضح ہو جائے ] [ لَـــــــکُمُ : تمہارے لیے ] [ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ : سفید دھاگہ ] [ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ: کالے دھاگے سے] [ مِنَ الْفَجْرِ : فجر میں ] [ ثُمَّ اَتِمُّوا : پھر تم لوگ پورا کرو] [ الصِّیَامَ : روزہ رکھنے کو ] [ اِلَی الَّـیْلِ: رات تک ] [ وَلَا تُبَاشِرُوْ: اور تم لوگ مباشرت مت کرو] [ ھُنَّ : ان سے ] [ وَ : اس حال میں کہ ] [ اَنْتُمْ : تم لوگ ] [ عٰکِفُوْنَ : اعتکاف کرنے والے ہو ] [ فِی الْمَسٰجِدِ : مسجدوں میں ] [ تِلْکَ : یہ ] [ حُدُوْدُ اللّٰہِ : اللہ کی حدود ہیں ] [ فَلَا تَقْرَبُوْ : تو تم لوگ قریب مت ہو ] [ ھَا: ان کے ] [ کَذٰلِکَ : اس طرح ] [ یُـبَـیِّنُ اللّٰہُ: اللہ واضح کرتا ہے ] [ اٰیٰتِہٖ : اپنی نشانیوں کو ] [ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے ] [ لَعَلَّھُمْ : شاید کہ وہ لوگ ] [ یَتَّقُوْنَ : تقویٰ اختیار کریں ]

 

ر ف ث

 رَفِـثَ (س) رَفَـثًا : کوئی فحش بات کرنا۔ پھر کنایۃً مباشرت کے لیے بھی آتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ۔

 رَفَثٌ (اسم ذات) : فحش کلام۔{فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ط} (البقرۃ:197) ’’ تو نہ کوئی فحش بات ہے اور نہ کوئی گناہ ہے اور نہ کوئی جھگڑا ہے حج میں۔‘‘

خ و ن

 خَانَ (ن) خَوْنًا : ڈول کی رسی کے ایک ایک بل کا ٹوٹ جانا‘ عہد شکنی کرنا‘ خیانت کرنا۔{فَقَدْ خَانُوا اللّٰہَ مِنْ قَبْلُ} (الانفال:71) ’’ وہ لوگ عہد شکنی کر چکے ہیں اللہ سے اس سے پہلے۔‘‘

 خِیَانَۃٌ (اسم ذات) : عہد شکنی‘ خیانت۔{وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً} (الانفال:58) ’’ اور اگر تمہیں خوف ہو کسی قوم سے کسی عہد شکنی کا۔‘‘

 خَائِنٌ (اسم الفاعل) : وعدہ خلافی کرنے والا۔ {اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ ۔ } (الانفال) ’’ یقینا اللہ وعدہ خلافی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘

 خَوَّانٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ): بار بار وعدہ خلافی کرنے والا۔ {اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ ۔ } (الحج) ’’ بے شک اللہ محبت نہیں کرتا کسی بھی بار بار وعدہ خلافی کرنے والے سے‘ انتہائی ناشکری کرنے والے سے۔‘‘

خ ی ط

 خَاطَ (ض) خَیْطًا : کپڑا سینا۔

 خَیْطٌ (اسم ذات) : دھاگہ‘ ڈوری۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 خِیَاطٌ (اسم ذات) : سوئی۔ {حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِط} (الاعراف:40) ’’ یہاں تک کہ داخل ہو اونٹ سوئی کے ناکے میں۔‘‘

ب ی ض

 بَاضَ (ض) بَیْضًا : پرندے کا انڈا دینا۔ کسی چیز پر سفیدی کا غالب ہونا۔

 بَیْضٌ (اسم جنس): انڈا۔ {کَاَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ جیسے کہ وہ محفوظ کیے ہوئے انڈے ہیں۔‘‘

 اَبْـیَضُ مؤنث بَیْضَائُ ج بِیْضٌ (اَفْعَلُ الوان و عیوب کے وزن پر صفت) : سفید رنگ والا یعنی سفید۔ {وَنَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ھِیَ بَیْضَآئُ لِلنّٰظِرِیْنَ ۔ } (الاعراف) ’’ اور انہوںؑ نے نکالا اپنا ہاتھ تو جب ہی (یعنی اسی وقت) وہ سفید تھا دیکھنے والوں کے لیے۔‘‘{وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیْضٌ} (فاطر:27) ’’ اور پہاڑوں میں سفید گھاٹیاں ہیں۔‘‘

 اِبْیَضَّ(اِفْعِلَالٌ) اِبْیِضَاضٌ : سفید ہو جانا۔ {وَابْیَضَّتْ عَیْنٰـہُ مِنَ الْحُزْنِ} (یوسف:84) ’’ اور سفید ہو گئیں انؑ کی دونوں آنکھیں غم سے۔‘‘

س و د

 سَادَ (ن) سِیَادَۃً وَسُوْدًا : بزرگ ہونا‘ کسی گروہ یا قوم کا سردار ہونا۔

 سَوِدَ (س) سَوَدًا : سیاہ ہونا‘ کالا ہونا۔

 سَیِّدٌ ج سَادَۃٌ : سردار‘ آقا۔ {وَاَلْـفَیَا سَیِّدَھَا لَدَا الْبَابِ ط} (یوسف:25) ’’ اور وہ دونوں ملے عورت کے آقا (یعنی شوہر) سے دروازے کے پاس۔‘‘{رَبَّـنَآ اِنَّــآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآئَ‘ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلاَ ۔ } (الاحزاب) ’’ اے ہمارے ربّ! بےشک ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑوں کی تو انہوں نے بھٹکایا ہم کو سیدھے راستے سے۔‘‘

 اَسْوَدُ ج سُوْدٌ (افعل الوان و عیوب کے وزن پر صفت) : کالے رنگ والا یعنی کالا۔ {وَغَرَابِیْبُ سُوْدٌ ۔ } (فاطر) ’’ اور کچھ انتہائی سیاہ ہیں۔‘‘

 اِسْوَدَّ (اِفْعِلَالٌ) اِسْوِدَادًا : کالا ہوجانا۔{یَـوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌج} (آل عمران:106) ’’ جس دن سفید ہو جائیں گے کچھ چہرے اور سیاہ پڑ جائیں گے کچھ چہرے۔‘‘

 مُسْوَدٌّ (اسم الفاعل) : سیاہ پڑنے والا‘ کالا ہونے والا۔{اَلَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلَی اللّٰہِ وُجُوْھُھُمْ مُّسْوَدَّۃٌ ط} (الزمر:60) ’’ جن لوگوں نے جھوٹ کہا اللہ پر ان کے چہرے سیاہ پڑنے والے ہیں۔‘‘

ح د د

 حَدَّ (ن) حَدًّا : کسی چیز کا آخری کنارہ یا انتہا مقرر کرنا۔ جیسے کسی پلاٹ کے کناروں‘ یعنی حدوں کا تعین کرنا۔

 حَدَّ (ض) حِدَّۃً : (1) غضب ناک ہونا‘ سخت ہونا۔ (2) کسی چیز کا تیز ہونا جیسے چھری کا تیز ہونا۔

 حَدٌّ ج حُدُوْدٌ (اسم ذات) : کنارہ‘ انتہا‘ حد۔{وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِط} (التوبۃ:112) ’’ اور حفاظت کرنے والے اللہ کی حدود کی۔‘‘ (اللہ کی حدود کا مطلب ہے اس کی دی ہوئی اجازت کی انتہا‘ جس کے آگے اس کی نافرمانی شروع ہوتی ہے) ۔

 حَدِیْدٌ (فَعِیْلٌکا وزن): (1) لوہا۔ (2) تیز۔ {اٰتـُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِط} (الکہف:96) ’’ تم لوگ لائو میرے پاس لوہے کے تختے۔‘‘{فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ ۔ } (قٓ) ’’ پس تیری بصارت آج تیز ہے۔‘‘

 حَادَّ (مفاعلہ) حِدَادًا : ایک دوسرے پر تیز ہونا‘ باہم مخالفت کرنا‘ طعنہ دینا۔ {سَلَقُوْکُمْ بِاَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ} (الاحزاب:19) ’’ وہ لوگ چڑھائی کریں گے تم لوگوں پر طعنہ دینے والی زبانوں سے۔‘‘{اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ فِی الْاَذَلِّیْنَ ۔ } (المجادلۃ) ’’ بیشک جو لوگ مخالفت کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی‘ وہ لوگ انتہائی ذلیلوں میں ہیں۔‘‘

 ترکیب : ’’ اُحِلَّ‘‘ ماضی مجہول ہے اور ’’ اَلرَّفَثُ‘‘ اس کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے ‘ جبکہ ’’ لَـیْلَۃَ‘‘ ظرف ہونے کی وجہ سے نصب میں ہے۔ ’’ ھُنَّ‘‘ اور  ’’ اَنْتُمْ‘‘ مبتدأہیں اور ’’ لِبَاسٌ‘‘ خبر ہے۔ ’’ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ‘‘ ماضی استمراری ہے لیکن یہ ’’ اَنَّـکُمْ‘‘ کی خبر ہے‘ اس لیے ترجمہ حال میں ہو گا۔ ’’ فَتَابَ عَلَیْکُمْ‘‘ یہاں پر اپنے لغوی مفہوم میں ہے۔ ’’ بَاشِرُوْا‘‘ فعل امر ہے‘ اس کا فاعل اس میں شامل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ ھُنَّ‘‘ اس کا مفعول ہے۔’’ وَابْتَغُوْا‘‘ کا مفعول’’ مَا‘‘ ہے۔ ’’ حَتّٰی‘‘ کی وجہ سے ’’ یَتَـبَیَّنَ‘‘ منصوب ہے اور ’’ اَلْخَیْطُ الْاَبْیَضُ‘‘ اس کا فاعل ہے۔’’ اَتِمُّوْا‘‘ کا فاعل’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ اَلصِّیَامَ‘‘ اس کا مفعول ہے۔ ’’ اِلَی الَّـیْلِ‘‘ دو لام یعنی ’’ اللَّـیْلِ‘‘ کے بجائے ایک لام سے لکھا گیا ہے‘ یہ قرآن مجید کا مخصوص املاء ہے۔ ’’ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ‘‘ کا وائوحالیہ ہے۔ ’’ یُـبَـیِّنُ‘‘ کا فاعل’’ اَللّٰہُ‘‘ ہے اور ’’ اٰیٰتِہٖ‘‘ اس کا مفعول ہے اس لیے اس کا مضاف ’’ اٰیٰتِ‘‘ منصوب ہے۔

 نوٹ (1) : مادہ ’’ ب ی ض ‘‘ اور ’’ س و د ‘‘ کی لغت میں ثلاثی مزید فیہ کے باب اِفْعِلَالٌکا ذکر آیا ہے۔ قرآن مجید میں اس باب کا استعمال نسبتاً کم ہوا ہے اس لیے ’’ آسان عربی گرامر‘‘ نامی کتابچہ میں یہ نہیں پڑھایا گیا۔ اس کے ماضی‘ مضارع اور مصدر کا وزن یہ ہے : اِفْعَلَّ‘ یَفْعَلُّ‘ اِفْعِلَالًا۔ اس کی ابتداء میں ہمزۃ الوصل ہے۔ یہ باب زیادہ تر ’’ اَفْعَلُ‘‘ کے وزن پر آنے والے اَلوان و عیوب کے لیے آتا ہے ‘ اور اس میں مفہوم یہ ہوتا ہے کہ‘ مذکورہ صفت میں تبدیل ہو جانا یا اس صفت کا حامل ہو جانا۔

 نوٹ (2) : اگر اپنے آپ سے خیانت کرنے پر صحابہ کرام (رض) توبہ کرتے اور وعدہ کرتے کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے ‘ تو ہم کہتے کہ فَتَابَ عَلَیْکُمْ اصطلاحی مفہوم میں ہے اور اس کے مطابق ترجمہ کرتے۔ لیکن اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے اس بات کو جانا اور اپنے حکم میں خود ہی نرمی کر دی۔ اس لیے اس آیت میں فَتَابَ عَلَیْکُمْ اپنے لغوی مفہوم میں ہے‘ اور ترجمہ اسی لحاظ سے کیا گیا ہے۔

 نوٹ (3) : ابتدا میں روزوں میں سو جانے کے بعد کھانے پینے وغیرہ کی ممانعت تھی۔ یہ حکم قرآن میں کہیں مذکور نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم سے صحابہ کرام (رض) اس حکم پر عمل کرتے تھے۔ اس آیت میں پہلے اس حکم کو حکمِ الٰہی قرار دیا گیا‘ پھر آسانی کے لیے اس کو منسوخ کیا گیا (معارف القرآن) ۔ اس طرح یہ بھی قرآن مجید کے ان مقامات میں سے ایک ہے جس سے وحی ٔ غیر متلو کا ثبوت ملتا ہے۔ وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ   ١٨٨؁ۧ
[ وَلَا تَاْکُلُوْا : اور تم لوگ مت کھائو ] [ اَمْوَالَـــــکُمْ : اپنے مال ] [ بَیْنَــــکُمْ : آپس میں ] [ بِالْبَاطِلِ : ناحق ] [ وَتُدْلُوْا : اور تم لوگ مت لٹکائو] [ بِھَا : ان کو ] [ اِلَی الْحُکَّامِ : حاکموں کی طرف ] [ لِتَاْکُلُوْا : تاکہ تم لوگ کھائو ] [ فَرِیْقًا : کوئی ٹکڑا] [ مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ : لوگوں کے مال سے] [ بِالْاِثْمِ : گناہ سے ] [ وَ: اس حال میں کہ ] [ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم لوگ جانتے ہو]

 

د ل و

 دَلَا (ن) دَلْوًا : (1) کنوئیں میں ڈول ڈال کر کھینچنا۔ (2) بہلا پُھسلا کر کام نکالنا۔

 دَلْوٌ (اسم ذات) : ڈول۔ {فَاَدْلٰی دَلْوَہٗ ط} (یوسف:19) ’’ تو اس نے کنوئیں میں لٹکایا اپنا ڈول۔‘‘

 اَدْلٰی (افعال) اِدْلَائً : کنویں میں کوئی چیز لٹکانا۔ اوپر دیکھیں (یوسف:19)

 دَلّٰی (تفعیل) تَدْلِیَۃً : بہلا پھسلا کر گمراہ کرنا‘ نرمی سے پھسلا دینا۔ {فَدَلّٰٹھُمَا بِغُرُوْرٍج} (الاعراف:22) ’’ تو اس نے پھسلا دیا ان دونوں کو دھوکے سے۔‘‘

 تَدَلّٰی (تفعّل) تَدَلًّی : لٹکنا‘ اُترنا۔ {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۔ } (النجم) ’’ پھر وہ نزدیک ہوا‘ پھر وہ اُترا۔‘‘

 ترکیب : ’’ لاَ تَاْکُلُوْا‘‘ فعل نہی ہے۔ اس کا فاعل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ اَمْوَالَـکُمْ‘‘ مفعول ہے‘ جبکہ ’’ بَیْنَـکُمْ‘‘ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ لاَ تَاْکُلُوْا‘‘ کے لائے نہی کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ’’ تُدْلُوْا‘‘ کا نون اعرابی گرا ہوا ہے۔ اس طرح یہ بھی فعل نہی ہے۔ ’’ بِھَا‘‘ میں ’’ ھَا‘‘ کی ضمیر ’’ اَمْوَالَــکُمْ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ لِتَاْکُلُوْا‘‘ کا فاعل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے۔ ’’ فَرِیْقًا‘‘ اس کا مفعول ہے اور یہاں اپنے لغوی مفہوم میں آیا ہے۔ ’’ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘ کا وائوحالیہ ہے۔

 نوٹ (1) : اس آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ حاکموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تم جانتے ہو کہ مال دوسرے شخص کا ہے‘ تو محض کسی قانونی نقص کی وجہ سے اس کا مقدمہ عدالت میں نہ لے جائو۔ اگر عدالت نے تمہارے حق میں فیصلہ دے دیا تو اس دنیا میں تم اس کے قانونی مالک ہو گے‘ لیکن اللہ کے نزدیک وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا۔ (تفہیم القرآن) يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ  ۭ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِھَا وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى ۚ وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا    ۠   وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ   ١٨٩؁
[ یَسْئَلُوْنَکَ : وہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے ] [ عَنِ الْاَھِلَّۃِ : باریک چاندوں کے بارے میں] [ قُلْ : آپؐ ‘ کہہ دیجیے کہ ] [ ھِیَ : یہ ] [ مَوَاقِیْتُ : زمانے کی سرحدوں کو شناخت کرنے کے ذریعے ہیں] [ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے ] [ وَالْحَجِّ : اور حج کے لیے ] [ وَلَـیْسَ الْبِرُّ : اور یہ اصل نیکی نہیں ہے] [ بِاَنْ تَاْتُوا : کہ تم لوگ آئو ] [ الْبُیُوْتَ : گھروں میں

مِنْ ظُھُوْرِھَا : ان کے پچھواڑوں سے] [ وَلٰــکِنَّ الْبِرَّ : اور لیکن (بلکہ) اصل نیکی] [ مَنِ : اس کی ہے جس نے ] [ اتَّـقٰی : تقویٰ اختیار کیا ] [ وَاْتُوا : اور تم لوگ آئو ] [ الْبُیُوْتَ : گھروں میں] [ مِنْ اَبْوَابِھَا : ان کے دروازوں سے] [ وَاتَّقُوا اللّٰہَ: اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو] [ لَــعَلَّــکُمْ تُفْلِحُوْنَ: شاید کہ تم لوگ فلاح پائو]

 

و ق ت

 وَقَتَ (ض) وَقْتًا : کسی کام کے کرنے کے زمانے کی سرحد مقرر کرنا‘ وقت مقرر کرنا۔

 وَقْتٌ (اسم ذات) : زمانے کی طے شدہ سرحد‘ وقت۔ {فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ ۔ اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ ۔ } (الحجر) ’’ پس بیشک تو مہلت دیے ہوئوں میں سے ہے‘ معلوم وقت کے دن تک۔‘‘

 مَوْقُوْتٌ (اسم المفعول) : مقرر کیا ہوا وقت۔ {اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًا ۔ } (النسائ) ’’ بیشک نماز مؤمنوں پر مقرر کیے ہوئے وقت پر فرض ہے۔‘‘

 مِیْقَاتٌ ج مَوَاقِیْتُ (مِفْعَالٌ کے وزن پر اسم آلہ) : کسی کام کے کرنے کی سرحد کو شناخت کرنے کا آلہ: (1) طے شدہ وقت۔ (2) نشان زدہ جگہ۔ {فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ۔ } (الشُّعرائ) ’’ تو جمع کیے گئے سب جادوگر ایک معلوم دن کے طے شدہ وقت پر۔‘‘{وَلَمَّا جَآئَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا} (الاعراف:143) ’’ اور جب آئے موسٰی ؑ ہماری طے شدہ جگہ پر۔‘‘

 وَقَّتَ (تفعیل) تَوْقِیْتًا : مقررہ وقت یا جگہ پر جمع کرنا‘ اکٹھا کرنا۔ {وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ ۔ } (المرسلـٰت) ’’ اور جب تمام رسول جمع کیے جائیں گے‘‘۔’’ اُ قِّتَتْ‘‘ اصل میں ’’ وُقِّتَتْ‘‘ تھا۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب وائو کسی کلمہ کے شروع میں آ رہی ہو اور اس کا ضمہ لازم ہو تو اسے ہمزہ سے بدلا جا سکتا ہے۔ اسی بناء پر ’’ وُجُوْہٌ ‘‘ کو’’ اُجُوْہٌ‘‘ پڑھنا جائز ہے۔

 ترکیب : ’’ یَسْئَلُوْنَ‘‘ فعل ہے۔ اس کا فاعل ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور مفعول ’’ کَ‘‘ کی ضمیر ہے۔ ’’ ھِیَ‘‘ مبتدأ ہے۔ ’’ مَوَاقِیْتُ‘‘ اس کی خبر ہے ‘ جبکہ ’’ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ اَلْحَجِّ‘‘ کی جر بتا رہی ہے کہ یہ ’’ لِلنَّاسِ‘‘ کے حرف جارہ ’’ لِ‘‘ کے زیر اثر ہے۔ ’’ لَیْسَ‘‘ کا اسم ’’ اَلْبِرُّ‘‘ ہے اور ’’ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ‘‘ پورا جملہ اس کی خبر ہے‘ جبکہ ’’ مِنْ ظُھُوْرِھَا‘‘ متعلق فعل ہے ۔ ’’ لٰـکِنَّ‘‘ کا اسم’’ اَلْبِرَّ‘‘ ہے اور ’’ مَنْ‘‘ اس کی خبر ہے جو کہ مضاف الیہ ہے۔ اس کا مضاف’’ بِرُّ‘‘ محذوف ہے ۔ پورا جملہ اس طرح ہو تا’’ وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ بِرُّ مَنْ‘‘ (اور لیکن (بلکہ) اصل نیکی اس کی نیکی ہے جس نے) ۔ ’’ اَلْبِرُّ‘‘ اور ’’ اَلْبِرَّ‘‘ دونوں پر لامِ جنس ہے۔

 نوٹ (1) : چاند کا گھٹنا بڑھنا ایک ایسا منظر ہے جس نے ہر زمانے میں انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ اس لیے اس کے متعلق طرح طرح کے اوہام دنیا میں رائج رہے ہیں اور اب تک رائج ہیں‘ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ چاند میں کمی و بیشی کا کوئی اثر انسان کی قسمت پر پڑتا ہے۔ اہل عرب میں بھی ایسے اوہام پائے جاتے تھے جن کی حقیقت نبی اکرم ﷺ سے دریافت کی گئی۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ چاند کا گھٹنا بڑھنا اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ایک قدرتی کیلنڈر ہے۔ (تفہیم القرآن)

 نوٹ (2) : حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عظمت کی وجہ سے صحابہ کرام (رض) نے سوالات بہت کم کیے ہیں ‘ اور ان کے جن سوالات کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ کل چودہ ہیں‘ جن میں ایک سوال اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ ہے‘ دوسرا یہ ہے‘ اور ان کے بعد سورۃ البقرۃ میں ہی چھ سوال اور مذکور ہیں ‘ جبکہ باقی چھ سوالات مختلف سورتوں میں آئے ہیں۔ (معارف القرآن)

 نوٹ (3) : اس آیت کے ’’ لَـیْسَ الْبِرُّ‘‘ والے جز وسے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ جس چیز کو اسلام نے عبادت یا ضروری قرار نہیں دیا اسے اپنی طرف سے ضروری یا عبادت سمجھ لینا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح جو چیز شرعاً جائز ہو اس کو گناہ سمجھنا بھی گناہ ہے۔ بدعات کے ناجائز ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ (معارف القرآن) وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ   ١٩٠؁
[ وَقَاتِلُوْا : اور تم لوگ قتال کرو] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں] [ الَّذِیْنَ : ان لوگوں سے جو ] [ یُـقَاتِلُوْنَــکُمْ : قتال کرتے ہیں تم لوگوں سے] [ وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی مت کرو] [ اِنَّ اللّٰہَ : بیشک اللہ ] [ لَا یُحِبُّ : محبت نہیں کرتا] [ الْمُعْتَدِیْنَ : زیادتی کرنے والوں سے]

 

 ترکیب : ’’ قَاتِلُوْا‘‘ فعل امر ہے۔ اس کا فاعل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے ‘ جبکہ ’’ اَلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَـکُمْ‘‘ پورا جملہ اس کا مفعول ہے۔ ’’ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ متعلق فعل ہے ۔ ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم لفظ’’ اللّٰہَ‘‘ ہے اور ’’ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ‘‘ پورا جملہ اس کی خبرہے۔ وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ۭكَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ    ١٩١؁
[ وَاقْـتُلُوْھُمْ : اور تم لوگ قتل کرو ان کو ] [ حَیْثُ : جہاں کہیں ] [ ثَقِفْتُمُوْھُمْ : تم لوگ پائو ان کو ] [ وَاَخْرِجُوْھُمْ : اور نکالو ان کو ] [ مِّنْ حَیْثُ : جہاں سے ] [ اَخْرَجُوْکُمْ : انہوں نے نکالا تم کو] [ وَالْفِتْنَۃُ : اور آزمائش (دین میں ] [ اَشَدُّ : زیادہ شدید ہے] [ مِنَ الْقَتْلِ : قتل سے ] [ وَلَا تُقٰتِلُوْ: اور تم لوگ جنگ مت کرو] [ ھُمْ : ان سے ] [ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام کے پاس] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ] [ یُقٰتِلُوْکُمْ : وہ لوگ جنگ کریں تم سے] [ فِیْہِ : اس میں ] [ فَاِنْ : پس اگر قٰــتَـلُوْکُمْ : وہ لوگ جنگ کریں تم سے (اس میں) ] [ فَاقْتُلُوْھُمْ : تو تم لوگ قتل کرو ان کو (اس میں) ] [ کَذٰلِکَ : اس طرح] [ جَزَآئُ الْـکٰفِرِیْنَ : کافروں کی جزا ہے]

 

ث ق ف

 ثَقِفَ (س) ثَقَفًا : (1) مہارتِ نگاہ سے کسی چیز کا ادراک کرنا‘ کسی چیز کو پا لینا۔ آیت زیر مطالعہ۔ (2) کامیاب ہونا‘ کسی کو جا پکڑنا۔{اِنْ یَّثْـقَفُوْکُمْ یَـکُوْنُوْا لَـکُمْ اَعْدَائً} (المُمتحنۃ:2) ’’ اگر وہ لوگ پکڑ پائیں تم کو تو وہ لوگ ہو جائیں گے تمہارے دشمن۔‘‘

 ترکیب: اس آیت میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیریں گزشتہ آیت کے ’’ اَلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَـکُمْ‘‘ کے لیے ہیں۔’’ اَلْفِتْنَۃُ‘‘ مبتدأ ہے اور اس کے بعد ’’ فِی الدِّیْنِ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ اَشَدُّ‘‘ تفضیل بعض ہے اور خبر ہے۔’’ فِیْہِ‘‘ میں ’’ ہُ‘‘ کی ضمیر مسجدِ حرام کے لیے ہے۔ ’’ فَاِنْ قٰـتَلُوْکُمْ‘‘ کے بعد ’’ فِیْہِ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ جَزَائُ الْـکٰفِرِیْنَ‘‘ مرکب اضافی ہے اور مبتدأ مؤخر ہے۔

 نوٹ (1) : مَکّہ میں مسلمان کمزور تھے تو انہیں حکم دیا گیا تھا کہ مخالفین کے ظلم پر صبر کریں اور ثابت قدم رہیں۔ اس حکم میں پہلی ترمیم سورۃ الحج کی آیت 39 میں نازل ہوئی جس میں مخالفین سے جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے بعد مذکورہ بالا آیات (190‘191) میں ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ لیکن بچوں‘ بوڑھوں‘ عورتوں اور زخمیوں پر ہاتھ اٹھانے ‘ کھیتوں اور مویشیوں کو تباہ کرنے اور اسی قسم کے دوسرے وحشیانہ افعال کی اجازت نہیں ہے۔ یہ سب ’’ زیادتی کرنے‘‘ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت آئی ہے۔

 نوٹ (2) : بات جنگ کرنے کے حکم سے شروع ہوئی ہے۔ اس لیے ’’ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ‘‘ کے حکم کا اطلاق ان لوگوں پر ہو گا جن کے خلاف اعلانِ جنگ ہو اور جو جنگ میں حصہ لے رہے ہوں۔ عام حالات میں کسی غیر مسلم پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔ جزیرہ نمائے عرب کے باہر مفتوحہ علاقوں میں خلفاء راشدین کا طرزِ عمل اس بات کی سند ہے۔

 نوٹ (3) : فتنہ ایک کثیر المعانی لفظ ہے۔ اس آیت میں یہ لفظ جس مفہوم میں استعمال ہوا ہے‘ اسے سمجھ لیں۔ کوئی قوم رائج الوقت نظریات کی جگہ اپنے عقائد و نظریات سے اپنے نظامِ حیات کی اصلاح کی جب کوشش کرتی ہے تو رائج الوقت نظریات کے ٹھیکیدار اس کا مقابلہ بالعموم دلائل کے بجائے جبر سے کرتے ہیں۔ یہ جبر خواہ معاشی ناکہ بندی (sanctions) کی شکل میں ہو‘ ہتھیاروں کے استعمال کی شکل میں ہو یا تشدد (persecution) کی کوئی بھی شکل ہو‘ ان سب کو یہاں فتنہ کہا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فتویٰ یہ ہے کہ persecution قتل سے زیادہ گھنائونا جرم ہے‘ اس لیے اس نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ persecution کے مقابلے کے لیے جوابی کارروائی کریں‘ خواہ اس کے لیے ہتھیار ہی کیوں نہ اٹھانے پڑیں ۔ اس جوابی کارروائی کو دہشت گردی قرار دینا ذہنی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے۔ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     ١٩٢؁
[ فَاِنِ : پس اگر ] [ انْتَھَوْا : وہ لوگ باز آئیں] [ فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [ غَفُوْرٌ: بےانتہا بخشنے والا ہے] [ رَّحِیْمٌ : ہر حال میں رحم کرنے والا ہے]

 

ن ھـ ی

 نَھٰی (ف) نَھْیًا : (1) کسی کام سے منع کرنا‘ روکنا۔ (2) ذہین ہونا‘ زیرک ہونا (تاکہ صحیح چیز سے روکے) ۔ {اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِط} (العنکبوت:45) ’’ بے شک نماز روکتی ہے بےحیائیوں سے اور برائی سے۔‘‘

 اِنْہَ (فعل امر) : تو منع کر‘ تو روک۔ {وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ} (لقمن:17) ’’ تو ترغیب دے نیکی کی اور منع کر برائی سے۔‘‘

 نَاہٍ (اسم الفاعل) : منع کرنے والا۔ {اَلْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} (التوبۃ:112) ’’ ترغیب دینے والے نیکی کی اور منع کرنے والے برائی سے۔‘‘

 نُھٰی (اسم ذات) : ذہانت‘ فراست۔ {اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّھٰی ۔ } (طٰہٰ) ’’ یقینا اس میں نشانیاں ہیں ذہانت والوں کے لیے۔‘‘

 تَنَاھٰی (تفاعل) تَنَاھِیًا : باہم ایک دوسرے کو روکنا۔ {کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنِ مُنْکَرٍ} (المائدۃ:79) ’’ وہ لوگ ایک دوسرے کو نہیں روکا کرتے تھے کسی برائی سے۔‘‘

 اِنْتَھٰی (افتعال) اِنْتِھَائً : اہتمام سے خود کو منع کرنا‘ رک جانا‘ باز آنا۔ {اِنْ یَّنْتَھُوْا یُغْفَرْلَھُمْ} (الانفال:38) ’’ اگر وہ لوگ باز آ جائیں تو انہیں معاف کردیا جائے گا۔‘‘

 اِنْـتَہِ (فعل امر) : تو باز آ۔ {وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰـثَۃٌط اِنْتَھُوْا خَیْرًا لَّــکُمْط} (النسائ:171) ’’ اور تم لوگ مت کہو کہ (اللہ) تین ہیں۔ تم لوگ باز آئو‘ تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘

 مُنْتَھٍی (اسم الفاعل) : رکنے والا‘ باز آنے والا۔ {فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ ۔ } (المائدۃ) ’’ تو کیا تم لوگ باز آنے والے ہو؟‘‘

 مُنْتَھًی (اسم المفعول ہے جو ظرف کے معنی میں استعمال ہوتا ہے) : رکنے کی جگہ۔ {عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی ۔ } (النجم) ’’ رکنے کے بیری کے درخت کے پاس۔‘‘

 ترکیب : ’’ فَاِنِ انْـتَھَوْا‘‘ شرط ہے اور ’’ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ جواب شرط ہے۔ ’’ اِنْـتَھَوْا‘‘ فعل ماضی میں جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے ‘ اس لیے اس پر حرفِ شرط ’’ اِنْ‘‘ نے کوئی عمل نہیں کیا۔

 نوٹ (1) : باز آنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر وہ لوگ اپنی پوجا پاٹ سے باز آ جائیں‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ لوگ اپنی تشدد کی روش سے باز آ جائیں تو چونکہ اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے اس لیے تم بھی ان سے کچھ نہ کہو اور انہیں معاف کر دو۔ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ ۭ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِمِيْنَ    ١٩٣؁
[ وَقٰتِلُوْہُمْ : اور تم لوگ جنگ کرو ان سے] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ لاَ تَـکُوْنَ : نہ ہو ] [ فِتْنَۃٌ : کوئی تشدد] [ وَّیَکُوْنَ : اور (یہاں تک کہ) ہو] [ الدِّیْنُ : نظامِ حیات ] [ لِلّٰہِ : اللہ کے لیے ] [ فَاِنِ انْتَہَوْا : پھر اگر وہ لوگ باز آ جائیں] [ فَلاَ عُدْوَانَ : تو کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں ہے (ان پر) ] [ اِلاَّ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ: مگر ظلم کرنے والوں پر]

 

 ترکیب :’’ حَتّٰی‘‘ کے بعد ’’ اَنْ‘‘ مقدر ہے جس کی وجہ سے ’’ لَا تَـکُوْنَ‘‘ منصوب ہے اور یہ ’’ کَانَ‘‘ تامّہ ہے۔ ’’ فِتْنَۃٌ‘‘ اس کا فاعل ہے۔’’ یَکُوْنَ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ ’’ تَـکُوْنَ‘‘ پر عطف ہے۔ یہ ’’ کَانَ‘‘ ناقصہ ہے اور ’’ اَلدِّیْنُ‘‘ اس کا اسم ہے۔ ’’ لِلّٰہِ‘‘ متعلق خبر محذوف ہے۔’’ فَلَا عُدْوَانَ‘‘ پر لائے نفی ٔجنس ہے اور یہ مبتدأ ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے جو کہ ’’ وَاجِبٌ‘‘ یا ’’ ثَابِتٌ‘‘ ہو سکتی ہے۔ قائم مقام خبر’’ عَلَیْھِمْ‘‘ بھی محذوف ہے۔ ’’ اِلاَّ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ‘‘ اس کا استثناء ہے۔

 نوٹ (1) : اوپر ترکیب میں ’’ کَانَ‘‘ تامّہ کی بات ہوئی ہے‘ اسے سمجھ لیں۔ ’’ کَانَ‘‘ افعالِ ناقصہ میں سے ہے۔ اس لیے عام طور پر اس کا ایک اسم اور ایک خبر ہوتی ہے‘ تب بات مکمل ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی اس کا صرف اسم ہوتا ہے اور خبر کوئی نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ’’ کَانَ‘‘ فعل ہوتا ہے اور اس کا اسم دراصل اس کا فاعل ہوتا ہے اور فعل فاعل مل کر بات مکمل کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ اس آیت میں ہے۔ ایسے ’’ کَانَ‘‘ کو ’’ کَانَتامّہ ‘‘ کہتے ہیں۔

 نوٹ (2) : ’’ لاَ تَـکُوْنَ‘‘ کا فاعل اگر ’’ اَلْفِتْنَۃُ‘‘ ہوتا تو اس کا مطلب ہوتا کہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں پر جو تشدد ہو رہا ہے وہ ختم ہو جائے۔ لیکن یہاں پر ’’ فِتْنَۃٌ‘‘ نکرہ لا کر ہدایت کی گئی ہے کہ جنگ کر کے جس تشدد کو تم نے ختم کیا ہے‘ اب غالب ہونے کے بعد خود اس کا ارتکاب مت کرنا۔ اس لیے مذہب کی بنیاد پر کسی غیر مسلم پر کسی قسم کا تشدد جائز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈبل اسٹینڈرڈ میڈ اِن یو۔ ایس۔ اے کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔

 اب سوال یہ ہے کہ مذہبی تشدد اگر ناجائز ہے تو پھر نظامِ حیات اللہ کے لیے ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ غلبہ حاصل کرنے کے بعد اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے Personal Laws ان کے عقائد و نظریات کے مطابق ہی رہیں گے اور انہیں ان پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہو گی۔ جبکہ دین اللہ کے لیے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے Public Laws قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے۔

 نوٹ (3) : ’’ فَــلَا عُدْوَانَ‘‘ میں اصل ہدایت یہ ہے کہ غلبہ حاصل کرنے کے بعد مغلوب مخالفین کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے۔ البتہ اس سے وہ لوگ مستثنیٰ ہوں گے جن کے جرائم کی نوعیت زیادہ سنگین اور فہرست طویل ہو۔ جنگ بدر کے تمام جنگی قیدی رہا کیے گئے‘ لیکن دو کو قتل کیا گیا۔ فتح مکہ میں عام معافی کے اعلان کے ساتھ سترہ افراد کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جن میں سے چار قتل بھی کیے گئے۔ اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ    ١٩٤؁
[ اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ : محترم مہینہ ] [ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ: محترم مہینے سے ہے] [ وَالْحُرُمٰتُ : اور تمام محترم چیزیں] [ قِصَاصٌ: بدلہ ہیں] [ فَمَنِ: پس جو ] [ اعْتَدٰی : زیادتی کرے] [ عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [ فَاعْتَدُوْا : تو تم لوگ (بھی) زیادتی کر لو] [ عَلَیْہِ : اس پر ] [ بِمِثْلِ مَا: اس جیسی سے جو ] [ اعْتَدٰی : اس نے زیادتی کی ] [ عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر] [ وَاتَّقُوا اللّٰہَ : اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو] [ وَاعْلَمُوْآ : اور جان لو ] [ اَنَّ اللّٰہَ : کہ اللہ ] [ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ: متقی لوگوں کے ساتھ ہے]

 

 ترکیب :’’ اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ‘‘ مبتدأ ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے جو کہ ’’ قَائِمٌ‘‘ ہو سکتی ہے۔ ’’ بِالشَّھْرِ الْحَرَامِ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ ’’ اَلْحُرُمٰتُ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ قِصَاصٌ‘‘ خبر ہے۔ ’’ قِصَاصٌ‘‘ واحد ‘ تثنیہ ‘ جمع سب کے لیے آتا ہے ‘ کیونکہ مبتدأ اور خبر میں عدد کی مناسبت اس صورت میں ضروری ہوتی ہے جبکہ مبتدأ اور خبر دونوں اسم مشتق ہوں۔ ’’ فَمَنِ اعْتَدٰی‘‘ شرط ہے ’’ فَاعْتَدُوْا‘‘ جوابِ شرط ہے۔

 نوٹ (1) : آیت کے شروع میں اصولی بات عربی محاورہ میں بیان کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مہینے کا احترام اس کا احترام کرنے سے ہوتا ہے اور ہر احترام دراصل بدلہ ہوتا ہے۔ یعنی ایک فریق کسی محترم چیز کا جتنا احترام کرے گا اتنا ہی دوسرا فریق بھی کرے گا۔ اگر ایک فریق احترام نہ کرے تو دوسرے فریق سے بھی احترام کی پابندی ختم ہو جاتی ہے۔ آگے پھر اسی کی وضاحت ہے۔ وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ    ٻوَاَحْسِنُوْا ڔ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ    ١٩٥؁
[ وَاَنْفِقُوْا : اور تم لوگ مال خرچ کرو] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) ] [ وَلاَ تُلْقُوْا : اور تم لوگ مت پھینکو (اپنے آپ کو) ] [ بِاَیْدِیْکُمْ : اپنے ہاتھوں سے ] [ اِلَی التَّہْلُکَۃِ: بربادی کی طرف ] [ وَاَحْسِنُوْا: اور تم لوگ بلا کم و کاست کام (جہاد) کرو] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ یُحِبُّ : محبت کرتا ہے] [ الْمُحْسِنِیْنَ : بلاکم و کاست کام کرنے والوں سے]

 

ھـ ل ک

 ھَلَکَ (ض) ھَلَاکًا : (1) تباہ و برباد ہونا۔ (2) کسی جاندار کا مردہ ہونا‘ مرنا‘ ہلاک ہونا۔ {ھَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ ۔ } (الحاقۃ) ’’ تباہ و برباد ہوئی (یعنی جاتی رہی) مجھ سے میری قوت‘‘۔ {حَتّٰی اِذَا ھَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ مِنْ م بَعْدِہٖ رَسُوْلًا ط} (المؤمن:34) ’’ یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو تم لوگوں نے کہا ہرگز نہیں بھیجے گا اللہ انؑ کے بعد کوئی رسول‘‘۔

 ھَالِکٌ (اسم الفاعل) : ہلاک ہونے والا‘ تباہ و برباد ہونے والا۔ {کُلُّ شَیْ ئٍ ھَالِکٌ اِلاَّ وَجْھَہٗط} (القصص:88) ’’ ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔‘‘

 مَھْلِکٌ (اسم الظرف) : ہلاک ہونے کی جگہ یا وقت۔ {مَا شَھِدْنَا مَھْلِکَ اَھْلِہٖ} (النمل:49) ’’ ہم موجود نہیں تھے اس کے گھر والوں کے ہلاک ہونے کے وقت۔‘‘

 تَھْلُکَۃٌ (اسم ذات) : تباہی‘ بربادی‘ ہلاکت۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 اَھْلَکَ (افعال) اِھْلَاکًا : تباہ وبرباد کرنا‘ ہلاک کرنا۔ {اَھْلَکْتُ مَالًا لُّبَدًا ۔ } (البلد) ’’ میں نے برباد کیا ڈھیروں مال۔‘‘ {لَوْ شِئْتَ اَھْلَکْتَھُمْ مِّنْ قَـبْلُ} (الاعراف:155) ’’ اگر تو چاہتا تو ہلاک کرتا ان کو اس سے پہلے۔‘‘

 مُھْلِکٌ (اسم الفاعل) : برباد کرنے والا‘ ہلاک کرنے والا۔ {ذٰلِکَ اَنْ لَّمْ یَـکُنْ رَّبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا غٰفِلُوْنَ ۔ } (الانعام) ’’ یہ اس لیے کہ نہیں ہے تیرا رب بستیوں کا ہلاک کرنے والا ظلم سے اس حال میں کہ اس کے لوگ غافل ہوں۔‘‘

 ترکیب : انفاق کا لفظ مال خرچ کرنے کے لیے ہی آتا ہے اس لیے ’’ اَنْفِقُوْا‘‘ کا مفعول محذوف ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ سیاق و سباق کے لحاظ سے اس آیت میں ’’ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ سے مراد جہاد ہے اس لیے اس کے بعد ’’ لِلْجِھَادِ‘‘ محذوف مانا جائے گا۔ ’’ وَلَا تُلْقُوْا‘‘ کا مفعول ’’ اَنْفُسَکُمْ‘‘ محذوف ہے‘ جبکہ ’’ اَمْوَالَــکُمْ‘‘ کو محذوف ماننے کی بھی گنجائش ہے۔

 نوٹ (1) : مسلمانوں میں کچھ تربیت یافتہ پہلوان پائے جاتے ہیں جو قرآن کے ساتھ کشتی لڑتے ہیں۔ ایسے لوگ اس آیت میں ’’ وَلَا تُلْقُوْا‘‘ کے بعد ’’ اَنْفُسَکُمْ‘‘ کے بجائے ’’ اَمْوَالَـکُمْ‘‘ کو محذوف مانتے ہیں اور مطلب یہ نکالتے ہیں کہ جہاد کے لیے خرچ کر کے اپنا مال تباہی کی طرف مت پھینکو۔ یہ کھلی اور ننگی جہالت‘ بددیانتی اور دھوکہ دہی ہے۔ ان کی اتنی بات تو درست ہے کہ گرامر کے لحاظ سے یہاں ’’ اَمْوَالَــکُمْ‘‘ کو محذوف ماننے کی گنجائش ہے‘ لیکن ایسی صورت میں اس آیت کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جہاد کے لیے مال خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں سے اپنے مال کو تباہی کی طرف مت پھینکو‘ یعنی اگر جہاد پر خرچ نہیں کرو گے تو تمہارا مال تباہ ہو جائے گا۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جو قومیں جہاد ترک کر دیتی ہیں وہ خود بھی تباہ و برباد ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ ان کا مال بھی مٹی ہو جاتا ہے۔

 نوٹ (2) : اس آیت سے فقہاء نے یہ حکم بھی نکالا ہے کہ مسلمانوں پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی دوسرے حقوق فرض ہیں (یعنی ان کے مال میں)‘ مگر وہ نہ دائمی ہیں اور نہ ان کے لیے کوئی نصاب متعین ہے‘ بلکہ جب اور جتنی ضرورت ہو اس کا انتظام کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ (معارف القرآن) ۔

 حضرت ابوایوب انصاری (رض) کا قول ہے کہ اس آیت میں ہلاکت سے مراد ترک جہاد ہے‘ اسی لیے انہوں نے ساری عمر جہاد میں صرف کر دی اور قسطنطنیہ میں شہید ہو کر وہیں مدفون ہوئے۔ (معارف القرآن) وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ۭ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهٗ  ۭ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِهٖٓ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْيَةٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ ۚ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ     ۪ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ   ۭتِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُهٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ    ١٩٦؁ۧ
[ وَاَتِمُّوا : اور تم لوگ پورا کرو ] [ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ : حج کو اور عمرے کو ] [ لِلّٰہِ : اللہ کے لیے ] [ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ : پھر اگر تم لوگ روک دیے جائو ] [ فَمَا : تو جو ] [ اسْتَیْسَرَ : آسان ہو ] [ مِنَ الْہَدْیِ : قربانی کے جانور میں سے وہ (واجب ہے تم پر) ] [ وَلاَ تَحْلِقُوْا : اور تم لوگ مت مونڈو ] [ رُئُ وْسَکُمْ : اپنے سروں کو ] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ یَبْلُغَ الْہَدْیُ : پہنچے قربانی کا جانور ] [ مَحِلَّہٗ : اپنی منزل پر ] [ فَمَنْ : پھر جو ] [ کَانَ : ہو ] [ مِنْکُمْ : تم میں سے ] [ مَّرِیْضًا : مریض ] [ اَوْ بِہٖٓ اَذًی : یا اس کو تکلیف ہو ] [ مِّنْ رَّاْسِہٖ : اپنے سر سے ] [ فَفِدْیَۃٌ : تو فدیہ (واجب) ہے ] [ مِّنْ : جیسے ] [ صِیَامٍ : روزہ رکھنا ] [ اَوْ صَدَقَۃٍ : یا کوئی صدقہ ] [ اَوْ نُسُکٍ : یا کوئی قربانی ] [ فَاِذَآ : پس جب ] [ اَمِنْتُمْ : تم لوگ امن میں ہو ] [ فَمَنْ : پھر جو ] [ تَمَتَّعَ : فائدہ اٹھائے ] [ بِالْعُمْرَۃِ : عمرے سے ] [ اِلَی الْحَجِّ : حج تک ] [ فَمَا : تو جو ] [ اسْتَیْسَرَ : آسان ہو ] [ مِنَ الْہَدْیِ : قربانی کے جانور میں سے وہ (واجب ہے اس پر ) ] [ فَمَنْ : پھر جو ] [ لَّمْ یَجِدْ : نہ پائے (اس کو) ] [ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ : تو تین دن کا روزہ رکھنا (واجب) ہے ] [ فِی الْْحَجِّ : حج میں ] [ وَسَبْعَۃٍ : اور سات ] [ اِذَا رَجَعْتُمْ : جب تم لوگ لوٹو ] [ تِلْکَ : یہ ] [ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ : پورے دس ہیں ] [ ذٰلِکَ : یہ ] [ لِمَنْ : اس کے لیے ہے جس کے ] [ لَّمْ یَکُنْ اَہْلُہٗ : گھر والے نہیں ہیں ] [ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: مسجدِ حرام کے حاضرین ] [ وَاتَّقُوا اللّٰہَ : اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ] [ وَاعْلَمُوْآ : اور تم لوگ جان لو ] [ اَنَّ اللّٰہَ : کہ اللہ ] [ شَدِیْدُ الْعِقَابِ : سخت سزا دینے والا ہے [

 

ح ص ر

 حَصَرَ (ن) حَصَرًا : تنگی کرنا‘ گھیرنا۔

 حَصِرَ (س) حَصْرًا : تنگی محسوس کرنا۔ گھٹن محسوس کرنا ۔ {اَوْ جَآئُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُھُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ} (النسائ:90) ’’ یا وہ لوگ آئیں تمہارے پاس تنگی محسوس کرتے ہوئے اپنے سینوں میں کہ وہ قتال کریں تم سے۔‘‘

 اُحْصُرْ (باب نَصَرَ سے فعل امر) : تو گھیر‘ تو قید کر۔{وَخُذُوْھُمْ وَاحْصُرُوْھُمْ} (التوبۃ:5) ’’ اور تم لوگ پکڑو ان کو اور قید کرو ان کو۔‘‘

 حَصُوْرٌ (فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ) : بہت زیادہ گھیرا ہوا۔ اصطلاحاً عورتوں سے

بے رغبتی کرنے والے کے لیے آتا ہے۔ {وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا} (آل عمران:39) ’’ اور سردار اور عورتوں سے بےرغبتی والا اور نبی۔‘‘

 حَصِیْرٌ (فَعِیْلٌ کا وزن) : گھیرنے والا۔ اصطلاحاً قید خانے کے لیے آتا ہے۔ {وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا ۔ } (بنی اسرائیل ) ’’ اور ہم نے بنایا جہنم کو کافروں کے لیے ایک قید خانہ۔‘‘

 اَحْصَرَ (افعال) اِحْصَارًا : کسی کو کسی کام سے روک دینا۔ ( آیت زیرِ مطالعہ)

ح ل ق

 حَلَقَ (ن) حَلْقًا : گلے پر مارنا‘ حلق کاٹنا‘ ذبح کرنا۔

 حَلَقَ (ض) حَلْقًا : چھیلنا‘ بال مونڈنا۔ ( آیت زیرِ مطالعہ)

 حَلَّقَ (تفعیل) تَحْلِیْقًا : اچھی طرح مونڈنا۔

 مُحَلِّقٌ (اسم الفاعل) : مونڈنے والا۔ {اٰمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ} (الفتح:27) ’’ امن میں ہوتے ہوئے‘ مونڈتے ہوئے اپنے سروں کو۔‘‘

ب ل غ

 بَلَغَ (ن) بُلُوْغًا : کسی مقصود چیز کی انتہا تک پہنچنا۔ {وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَط} (الانعام:19) ’’ اور وحی کیا گیا میری طرف یہ قرآن تاکہ میں خبردار کروں تم لوگوں کو اس قرآن کے ذریعے اور اس کو جس کو یہ پہنچا۔‘‘{حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃًلا} (الاحقاف:15) ’’ یہاں تک کہ جب وہ پہنچا اپنی شدت کو اور وہ پہنچا چالیس سال کو۔‘‘

 بَالِغٌ (اسم الفاعل) : پہنچنے والا۔ {فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُج} (الانعام:149) ’’ پس اللہ کی ہے پہنچنے والی (یعنی سمجھ میں آنے والی) دلیل۔‘‘ {وَمَنْ یَّـتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗط اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖط} (الطلاق:3) ’’ اور جو بھروسہ کرتا ہے اللہ پر تو وہ اس کے لیے کافی ہے۔ یقینا اللہ اپنے کام کو پہنچنے والا ہے۔‘‘

 مَبْلَغٌ (اسم الظرف) : پہنچنے کی جگہ۔ {ذٰلِکَ مَبْلَغُھُمْ مِّنَ الْعِلْمِط} (النجم:30) ’’ یہ ان کے پہنچنے کی انتہا ہے علم میں سے۔‘‘

 بَلُغَ (ک) بَلَاغَۃً : آسانی سے پہنچنا‘ واضح ہونا‘ فصیح ہونا۔

 بَلِیْغٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : واضح‘ فصیح۔{وَقُلْ لَّھُمْ فِیْ اَنْفُسِھِمْ قَوْلًا بَلِیْغًا ۔ } (النسائ) ’’ اور آپؐ ذکہیں ان سے ان کے بارے میں کوئی واضح بات۔‘‘

 اَبْلَغَ (افعال) اِبْلَاغٌ : پہنچانا۔ {لِیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّھِمْ} (الجن:28) ’’ تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے پہنچادیا ہے اپنے رب کے پیغامات کو۔‘‘

 بَلَاغٌ (یہ باب افعال کا ایک مصدر بھی ہے اور اسم ذات بھی) : پہنچانا‘ پیغام۔ {مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلاَّ الْبَلٰغُط} (المائدۃ:99) ’’ ان رسولؐ پر نہیں ہے مگر پہنچانا۔‘‘{اِنَّ فِیْ ھٰذَا لَــبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَ ۔ } (الانبیائ) ’’ یقینا اس میں ایک پیغام ہے عبادت گزاروں والی قوم کے لیے۔‘‘

 اَبْلِـغْ (فعل امر) : تو پہنچا۔ {حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗط} (التوبۃ:6) ’’ یہاں تک کہ وہ سنے اللہ کا کلام ‘ پھر اسے پہنچا دو اس کی امن کی جگہ۔‘‘

 بَلَّغَ (تفعیل) تَبْلِیْغًا : آہستہ آہستہ یا رفتہ رفتہ پہنچانا۔ {اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ} (الاحزاب:39) ’’ وہ لوگ جو آہستہ آہستہ پہنچاتے رہتے ہیں اللہ کے پیغامات۔‘‘

 بَلِّغْ (فعل امر) : تو آہستہ آہستہ پہنچاتا رہ۔ تبلیغ کرتا رہ۔ {یٰٓــاَیـُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط} (المائدۃ:67) ’’ اے رسولؐ ! آپؐ پہنچاتے رہیں اس کو جو نازل کیا گیا آپؐ ‘ کی طرف آپؐ کے رب کی جانب سے۔‘‘

ا ذ ی

 اَذَی (س) اَذًی : تکلیف پہنچنا‘ دکھ پہنچنا۔

 اَذًی (اسم ذات بھی ہے) : جسمانی اور نفسیاتی تکلیف‘ اذیت‘ کوفت۔ (آیت زیرِمطالعہ)

 آذٰی (افعال) اِیْذَائً : تکلیف پہنچانا‘ اذیت دینا۔ {لاَ تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی} (الاحزاب:69) ’’ تم لوگ مت ہو ان کی طرح جنہوں نے اذیت دی موسٰی ؑ کو۔‘‘

 اٰذِ (فعل امر) : تو تکلیف دے‘ دکھ دے۔ {وَالَّذَانِ یَاْتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْھُمَاج} (النسائ:16) ’’ اور وہ دونوں جو پہنچتے ہیں تم میں سے اس تک (یعنی یہ کام کرتے ہیں) تو تم لوگ تکلیف دو ان دونوں کو۔‘‘

 ترکیب : ’’ وَاَتِمُّوْا‘‘ فعل امر ہے۔ ’’ اَلْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ‘‘ اس کا مفعول ہے اور ’’ لِلّٰہِ‘‘ متعلق فعل ہے۔ ’’ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ‘‘ جواب شرط ہے۔ ’’ فَمَا‘‘ کا’’ مَا‘‘ موصولہ ہے۔ ’’ اِسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ‘‘ اس کا صلہ ہے۔ یہ صلہ موصول مل کر مبتدأ ہے‘ جبکہ اس کی خبر اور متعلق خبر ’’ وَاجِبٌ عَلَیْکُمْ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ لَا تَحْلِقُوْا‘‘ فعل نہی ہے۔ اس کا فاعل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ رُ ئُ وْسَکُمْ‘‘ مفعول ہے۔ ’’ یَبْلُغُ‘‘ فعل لازم ہے ۔ ’’ الْھَدْیُ‘‘ فاعل ہے اور اس کا مفعول نہیں آئے گا۔’’ مَحِلَّہٗ‘‘ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ فَمَنْ کَانَ‘‘ سے ’’ رَاْسِہٖ‘‘ تک شرط ہے اور ’’ فَفِدْیَۃٌ‘‘ جواب شرط ہے۔ ’’ مِنْ‘‘ بیانیہ ہے۔ ’’ صِیَامٍ ‘ صَدَقَۃٍ ‘ نُسُکٍ‘‘ فدیہ کی وضاحت کے لیے ہے۔ ’’ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ‘‘ شرط ہے‘ اس کی ضمیر مفعولی ’’ ہُ‘‘ محذوف ہے جو کہ ’’ الْھَدْیَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ فَصِیَامُ‘‘ سے ’’ اِذَا رَجَعْتُمْ‘‘ تک جواب شرط ہے۔ اس کے بعد ’’ وَاجِبٌ عَلَیْہِ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ تِلْکَ‘‘ مبتدأ اور ’’ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ‘‘ خبر ہے۔ یہ جملہ تاکید کے لیے ہے۔ ’’ ذٰلِکَ‘‘ کا اشارہ اس آیت میں مذکور واجبات کی طرف ہے اور یہ مبتدأ ہے۔ اس کی بھی خبر ’’ وَاجِبٌ‘‘ محذوف ہے‘ جبکہ ’’ لِمَنْ‘‘ سے ’’ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ تک متعلق خبر ہے۔ ’’ لَمْ یَـکُنْ‘‘ کا اسم ’’ اَھْلُہٗ‘‘ ہے جبکہ ’’ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ کَانَ‘‘ کی خبر ہونے کی وجہ سے ’’ حَاضِرِیْنَ‘‘ نصب میں ہے اور مضاف ہونے کی وجہ سے اس کا نون اعرابی گرا ہوا ہے۔ ’’ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘ مرکب اضافی ہے لیکن اردو محاورہ کی وجہ سے اس کا ترجمہ مرکب توصیفی کا ہو گا۔ (البقرۃ:2۔

 نوٹ (1) : اس آیت میں یہ نہیں کہا کہ حج یا عمرہ کرو‘ بلکہ کہا گیا ہے کہ انہیں پورا کرو۔ اس لیے حج یا عمرہ کی نیت سے احرام باندھ لینے کے بعد اسے پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی مجبوری لاحق ہو جائے تو قربانی کر کے احرام کھول دے‘ لیکن بعد میں اس کی قضا لازمی ہے۔ (معارف القرآن)

 نوٹ (2) : قربانی سے پہلے سر مونڈنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کسی بیماری یا مجبوری سے ایسا کرنا پڑ جائے تو فدیہ میں روزے رکھنے ہوں گے‘ یا صدقہ دینا ہو گا یا قربانی کرنی ہو گی۔ اس آیت میں اس کا نصاب نہیں دیا گیا۔ البتہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تین روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے یا کم از کم ایک بکری کی قربانی دے۔ (معارف القرآن)

 نوٹ (3) : اسلام سے پہلے ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج کرنے کو گناہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے ٹھیک ہے جو مسجدِ حرام کے حاضرین ہیں ‘ یعنی جن کی رہائش حرم کی میقاتوں کے اندر ہے۔ لیکن باہر والوں کے لیے یہ مشکل تھا کہ وہ عمرہ کر کے واپس جائیں اور حج کے لیے دوبارہ سفر کریں۔ چنانچہ اس آیت میں باہر والوں یعنی آفاقی لوگوں کو اجازت دی گئی کہ ایک ہی سفر میں وہ عمرہ سے حج تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمرہ کرنے کے بعد وہ احرام کھول دیں اور حج کے لیے دوبارہ احرام باندھیں‘ البتہ ایسے حاجیوں کے لیے قربانی کرنا ضروری ہے۔ اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْهُ اللّٰهُ    ڼوَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى ۡ وَاتَّقُوْنِ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ    ١٩٧؁
[ اَلْحَجُّ : حج (کے)] [ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ : جانے پہچانے مہینے ہیں ] [ فَمَنْ : تو جس نے ] [ فَرَضَ : فرض کیا (خود پر)

فِیْہِنَّ : ان میں ] [ الْحَجَّ : حج کو ] [ فَلاَ رَفَثَ : تو کسی قسم کی فحش گوئی نہیں ہے] [ وَلاَ فُسُوْقَ : اور کوئی حکم عدولی نہیں ہے] [ وَلاَ جِدَالَ : اور کوئی تو تو مَیں مَیں نہیں ہے] [ فِی الْْحَجِّ : حج میں ] [ وَمَا : اور جو ] [ تَفْعَلُوْا : تم لوگ کرو گے ] [ مِنْ خَیْرٍ : کوئی بھی بھلائی ] [ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ : تو جان لے گا اس کو اللہ] [ وَتَزَوَّدُوْا : اور تم لوگ سفر خرچ ساتھ رکھو] [ فَاِنَّ : پس یقینا ] [ خَیْرَ الزَّادِ : بہترین زادِ راہ ] [ التَّقْوٰی : تقویٰ ہے ] [ وَاتَّقُوْنِ : اور تقویٰ اختیار کرو میرا ] [ یٰٓــاُولِی الْاَلْبَابِ: اے خرد مندو]

 

ج دل

 جَدَلَ (ن) جَدْلًا : رسی کو بل دینا۔

 جَدِلَ (س) جَدَلًا : بات کو بل دینا‘ گھمانا پھرانا‘ بحث کرنا۔ {وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْ ئٍ جَدَلًا ۔ } (الـکہف) ’’ اور انسان ہر چیز سے زیادہ ہے بحث کرنے میں۔‘‘

 جَادَلَ (مفاعلہ) مُجَادَلَۃً اور جِدَالًا : ایک دوسرے کی بات کو گھمانا پھرانا‘ مناظرہ کرنا۔{یَوْمَ تَاْتِیْ کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِھَا} (النحل:111) ’’ جس دن آئے گی ہر جان بحث کرتی اپنے آپ سے۔‘‘

 جَادِلْ (فعل امر) : تو مناظرہ کر۔ {وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط} (النحل:125) ’’ اور تو مناظرہ کر ان سے اس (چیز) سے جو سب سے خوبصورت ہے۔‘‘

ز و د

 زَادَ (ن) زَوْدًا : سفر کا خرچ مہیا کرنا۔

 زَادٌ (اسم ذات) : سامانِ سفر‘ زادِ راہ۔ ( آیت زیر مطالعہ)

 تَزَوَّدَ (تفعّل) تَزَوُّدًا : سفر خرچ ساتھ رکھنا۔

 تَزَوَّدْ (فعل امر) : تو سفرِ خرچ ساتھ رکھ۔ ( آیت زیر مطالعہ)

 ترکیب : ’’ اَلْحَجُّ‘‘ مبتدأ ہے اور مرکب توصیفی ’’ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ‘‘ خبر ہے۔ ’’ فَمَنْ‘‘ میں ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَلَا رَفَثَ‘‘ سے ’’ فِی الْحَجِّ‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔ ’’ فَرَضَ‘‘ کا فاعل اس کی ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اَلْحَجَّ‘‘ اس کا مفعول ہے اور ’’ فِیْھِنَّ‘‘ متعلق فعل ہے۔ اس میں ’’ ھُنَّ‘‘ کی ضمیر ’’ اَشْھُرٌ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ فَرَضَ‘‘ کے بعد ’’ عَلٰی نَفْسِہٖ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ رَفَثَ‘ فُسُوْقَاور جِدَالَ ‘‘ تینوں سے پہلے لائے نفی جنس ہیں اور یہ مبتدأ ہیں‘ ان کی خبریں محذوف ہیں جو کہ ’’ جَائِزٌ‘‘ ہو سکتی ہیں۔ ’’ مَا‘‘ شرطیہ ہے اس لیے اس کی شرط ’’ تَفْعَلُوْا‘‘ کا نون اعرابی گرا ہوا ہے اور جوابِ شرط’’ یَعْلَمْ‘‘ مجزوم ہے۔

 باب تفعّل کے ماضی ’’ تَفَعَّلَ‘‘ سے جمع مذکر غائب کا وزن ’’ تَفَعَّلُوْا‘‘ بنتا ہے۔ جبکہ اس کے فعل امر ’’ تَفَعَّلْ‘‘ سے جمع مذکر مخاطب کا وزن بھی ’’ تَفَعَّلُوْا‘‘ بنتا ہے۔ اس طرح یہ دونوں ہم شکل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ’’ تَزَوَّدُوْا‘‘ کے دونوں امکانات ہیں ‘ لیکن آیت کا مضمون بتا رہا ہے کہ یہاں یہ فعل امر ہے۔

 ’’ فَاِنَّ‘‘ کا اسم ’’ خَیْرَ الزَّادِ‘‘ ہے‘ اس لیے اس کے مضاف ’’ خَیْرَ‘‘ پر نصب آئی ہے اور مرکب اضافی ہونے کی وجہ سے یہ تفضیل کل ہے۔ اردو محاورے کی وجہ سے اس کا ترجمہ مرکب توصیفی کا ہوتا ہے۔ ’’ اِنَّ‘‘ کی خبر ’’ اَلتَّقْوٰی‘‘ ہے اور اس پر لامِ جنس ہے۔ ’’ وَاتَّقُوْنِ‘‘ میں ’’ وَاتَّقُوْا‘‘ فعل امر ہے۔ ضمیر مفعولی آنے کی وجہ سے واو الجمع کا الف گر گیا اور ’’ نِ‘‘ ضمیر مفعولی ’’ نِیْ‘‘ کا نون وقایہ ہے۔

 نوٹ (1) : سامانِ سفر ساتھ رکھنے کے حکم کے ساتھ تقویٰ کو بہترین سامانِ سفر کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف تقویٰ کافی ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ دیگر سامان کے ساتھ بہترین سامان تقویٰ بھی رکھو اور اسے مت بھولو۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ۭ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۠ وَاذْكُرُوْهُ كَمَا ھَدٰىكُمْ ۚ وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّيْنَ    ١٩٨؁
[ لَیْسَ عَلَیْکُمْ : نہیں تم لوگوں پر] [ جُنَاحٌ : کوئی گناہ ] [ اَنْ تَبْتَغُوْا : کہ تم لوگ جستجو کرو] [ فَضْلاً : کچھ روزی کی ] [ مِّنْ رَّبِّکُمْ: اپنے رب سے ] [ فَاِذَآ : پس جب بھی ] [ اَفَضْتُمْ : تم لوگ جوق در جوق نکلو] [ مِّنْ عَرَفٰتٍ : عرفات سے ] [ فَاذْکُرُوا : تو یاد کرو ] [ اللّٰہَ : اللہ کو ] [ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ: مشعر حرام کے پاس ] [ وَاذْکُرُوْہُ : اور یاد کرو اس کو ] [ کَمَا : اس طرح جیسے ] [ ہَدٰٹکُمْ : اس نے ہدایت کی تم کو ] [ وَاِنْ کُنْتُمْ : اور یقینا تم لوگ ] [ مِّنْ قَبْلِہٖ : اس سے پہلے ] [ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ : لازماً گمراہ ہونے والوں میں سے تھے]

 

ف ی ض

 فَاضَ (ض) فَـیْضًا : پیمانہ لبریز ہونے سے پانی کا بہہ نکلنا‘ ابل پڑنا‘ پھوٹ بہنا۔{اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ} (المائدۃ:83) ’’ ان کی آنکھیں ابل پڑتی ہیں آنسوسے۔‘‘

 اَفَاضَ (افعال) اِفَاضَۃً : یکبارگی پانی انڈیلنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں آتا ہے۔ مثلاً : (1) کسی جگہ سے لوگوں کا جوق در جوق نکلنا۔ ( آیت زیر مطالعہ) (2) کسی بات کو پھیلانا‘ چرچا کرنا۔ {ھُوَ اَعْلَمُ بِمَا تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ط} (الاحقاف:8) ’’ وہ خوب جانتا ہے اس کو‘ تم لوگ چرچا کرتے ہو جس کا۔‘‘

 اَفِضْ (فعل امر) : جوق در جوق نکل ۔ (آگے آیت 199 میں آیا ہے۔)

 ترکیب : ’’ لَـیْسَ‘‘ کا اسم ’’ جُنَاحٌ‘‘ نکرہ آیا ہے ‘ کیونکہ عام قاعدہ بیان ہو رہا ہے۔ ’’ اَنْ تَبْتَغُوْا‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ اِذَا‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَاذْکُرُوْا‘‘ سے ’’ ھَدٰٹکُمْ‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔ ’’ عَرَفٰتٍ‘‘ اسم عَلم یعنی ایک جگہ کا نام ہے۔ ’’ فَاذْکُرُوْا‘‘ کا فاعل اس کی ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور لفظ ’’ اللّٰہَ‘‘ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ‘ جبکہ ’’ عِنْدَ‘‘ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ اَلْمَشْعَرِ الْحَرَامِ‘‘ بھی اسمِ عَلم ہے اور مزدلفہ کی ایک پہاڑی کا نام ہے۔ ’’ وَاِنْ کُنْتُمْ‘‘ کا ’’ اِنْ‘‘ مخففہ ہے۔ ’’ مِنْ قَبْلِہٖ‘‘ میں’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ہدایت کے لیے ہے۔

 نوٹ (1) : ارشاد قرآنی ’’ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰٹکُمْ‘‘ سے ایک اور بھی اصولی مسئلہ نکل آیا کہ ذکرُ اللہ اور عبادت میں آدمی خود مختار نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو جس طرح چاہے یاد کرے‘ اور جس طرح چاہے اس کی عبادت کرے‘ بلکہ ذکرُ اللہ اور ہر عبادت کے خاص آداب ہیں‘ ان کے موافق ادا کرنا ہی عبادت ہے۔ اس کے خلاف کرنا جائز نہیں اور اس میں کمی بیشی یا مقدم مؤخر کرنا ‘ خواہ اس میں ذکرُ اللہ کی کچھ زیادتی بھی ہو‘ وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ نفلی عبادات اور صدقہ و خیرات وغیرہ میں جو لوگ بلادلیلِ شرعی اپنی طرف سے کچھ خصوصیات اور اضافے کر لیتے ہیں اور ان کی پابندی کو ضروری سمجھ لیتے ہیں ‘ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اس کو ضروری قرار نہیں دیا ‘ اور ان افعال کے نہ کرنے والوں کو خطاوار سمجھتے ہیں‘ اس آیت نے ان کی غلطی کو واضح کردیا ۔ (معارف القرآن) ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ  ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     ١٩٩؁
[ ثُمَّ اَفِیْضُوْا : پھر تم لوگ جوق در جوق نکلو] [ مِنْ حَیْثُ : جہاں سے ] [ اَفَاضَ : نکلے ] [ النَّاسُ : لوگ ] [ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت طلب کرو] [ اللّٰہَ : اللہ سے ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ غَفُوْرٌ : بےانتہا بخشنے والا ہے ] [ رَّحِیْمٌ : ہر حال میں رحم کرنے والا ہے]

 

 ترکیب : فعل امر ’’ اَفِیْضُوْا‘‘ کا فاعل اس کی ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ اَفَاضَ‘‘ کا فاعل ’’ النَّاسُ‘‘ ہے‘ جبکہ ’’ مِنْ حَیْثُ‘‘ ان دونوں کا ظرف ہے اس لیے محلاً منصوب ہے۔ فعل امر’’ اِسْتَغْفِرُوْا‘‘ کا فاعل اس کی ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور لفظ ’’ اَللّٰہَ‘‘ اس کا مفعول ہے۔

 نوٹ (1) : قریش خانہ کعبہ کے ’’ برہمن‘‘ تھے اور عام حاجیوں کی طرح عرفات جا کر قیام کرنے میں ہتک محسوس کرتے تھے‘ اس لیے وہ لوگ مزدلفہ میں قیام کرتے تھے اور وہیں سے لوٹتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وی آئی پی کلچر کے بت کو توڑنے کا حکم دیا ہے‘ لیکن ہم لوگوں نے اسے اپنے گلے میں اٹکایا ہوا ہے ‘ نہ نگلے بنتا ہے اور نہ اُگلے بنتا ہے۔ اس کلچر کو ہم برا بھلا بھی کہتے رہتے ہیں اور چھوڑتے بھی نہیں۔

یہ مسجد ہے کہ مے خانہ ‘ تعجب اس پہ آتا ہے

جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی! فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا ۭ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ   ٢٠٠؁
[ فَاِذَا : پس جب ] [ قَضَیْتُمْ : تم لوگ پورا کرلو ] [ مَّنَاسِکَکُمْ : اپنے حج کے اعمال کو] [ فَاذْکُرُوا : تو یاد کرو ] [ اللّٰہَ : اللہ کو ] [ کَذِکْرِکُمْ : تمہارے یاد کرنے کی مانند] [ اٰبَــآئَ کُمْ : اپنے آباء و اجداد کو ] [ اَوْ اَشَدَّ : یا زیادہ شدید ہوتے ہوئے ] [ ذِکْرًا : بلحاظ ذکر کے ] [ فَمِنَ النَّاسِ : پس لوگوں میں وہ بھی ہیں] [ مَنْ : جو ] [ یَّقُوْلُ : کہتے ہیں ] [ رَبَّـنَآ : اے ہمارے ربّ! ] [ اٰتِنَا : تو دے ہم کو ] [ فِی الدُّنْیَا : دنیا میں ] [ وَمَا لَہٗ : اور نہیں ہے اس کے لیے] [ فِی الْاٰخِرَۃِ : آخرت میں ] [ مِنْ خَلاَقٍ : بھلائی کا کسی قسم کا کوئی بھی حصہ]

 

 ترکیب : ’’ فَاِذَا‘‘ میں ’’ اِذَا‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَاذْکُرُوْا‘‘ سے ’’ ذِکْرًا‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔ ’’ کَذِکْرِکُمْ‘‘ میں ’’ ذِکْرِ‘‘ مصدر نے فعل کا عمل کیا ہے اور ’’ اٰبَائَ‘‘ کو نصب دی ہے۔ تفسیر حقانی کے مطابق ’’ اَشَدَّ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور ’’ ذِکْرًا‘‘ اس کی تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ یہاں جمع کے مفہوم میں ہے۔ لفظی رعایت کے تحت ’’ یَـقُوْلُ‘‘ واحد آیا ہے اور معنوی لحاظ سے ’’ رَبَّنَا اٰتِنَا‘‘ پر جمع کی ضمیر آئی ہے۔ ’’ رَبَّنَا‘‘ میں ’’ رَبَّ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ اس سے پہلے حرفِ ندا محذوف ہے۔ ’’ مَا‘‘ نافیہ ہے۔ ’’ خَلَاقٍ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور اس پر ’’ مِنْ‘‘ تبعیضیہ لگا ہوا ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے جو کہ ’’ وَاجِبًا‘‘ یا ’’ ثَابِتًا‘‘ ہو سکتی ہے۔ ’’ لَـہٗ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے اور اس کی ضمیر ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے ‘ جبکہ ’’ فِی الْاٰخِرَۃِ‘‘ متعلق خبر ہے۔ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ  ٢٠١؁
[ وَمِنْہُمْ : اور ان میں وہ بھی ہیں ] [ مَّنْ : جو ] [ یَّقُوْلُ : کہتے ہیں ] [ رَبَّنَآ : اے ہمارے ربّ] [ اٰتِنَا : تو دے ہم کو ] [ فِی الدُّنْیَا: دنیا میں ] [ حَسَنَۃً : بھلائی ] [ وَّفِی الْاٰخِرَۃِ : اور آخرت میں ] [ حَسَنَۃً : بھلائی ] [ وَّقِنَا : اور تو بچا ہم کو ] [ عَذَابَ النَّارِ: آگ کے عذاب سے ]

 

 ترکیب : ’’ مِنْھُمْ‘‘ کی ضمیر گزشتہ آیت کے لفظ ’’ النَّاس‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اٰتِنَا‘‘ میں ’’ اٰتِ‘‘ فعل امر ہے‘ ضمیر مفعولی ’’ نَا‘‘ مفعول اوّل ہے اور ’’ حَسَنَۃً‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ قِنَا‘‘ میں ’’ قِ‘‘ فعل امر ہے‘ ضمیر مفعولی ’’ نَا‘‘ مفعول اوّل ہے اور ’’ عَذَابَ النَّارِ‘‘ مفعول ثانی ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ نَصِيْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا ۭ وَاللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ   ٢٠٢؁
[ اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ ہیں ] [ لَہُمْ : جن کے لیے ] [ نَصِیْبٌ : ایک حصہ ہے ] [ مِّمَّا : اس میں سے جو ] [ کَسَبُوْا: انہوں نے ] [ کمایا] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ سَرِیْعُ الْحِسَابِ : حساب لینے میں تیز ہے ]

 

ن ص ب

 نَصَبَ (ف ۔ ض) نَصْبًا : (1) کسی چیز کو گاڑنا‘ جمانا۔ (2) کسی کو تکلیف دینا۔ {وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ ۔ } (الغاشیۃ) ’’ اور پہاڑوں کی طرف (نہیں دیکھتے کہ) کیسے وہ جمائے گئے۔‘‘

 نَصِبَ (س) نَصَبًا : محنت کرنا‘ کوشش کرنا۔

 اِنْصَبْ (فعل امر) : تو محنت کر‘ کوشش کر۔ {فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ۔ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ ۔ } (الم نشرح: الانشراح) ’’ پس جب بھی آپؐ فارغ ہوں تو آپؐ محنت کریں اور اپنے رب کی طرف پھر رغبت کریں۔‘‘

 نَاصِبٌ (اسم الفاعل) : محنت کرنے والا‘ کوشش کرنے والا۔ {وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۔ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۔ } (الغاشیۃ) ’’ کچھ چہرے اس دن خوف زدہ ہونے والے ہیں‘ عمل کرنے والے ‘ محنت کرنے والے۔‘‘

 نَصَبٌ (اسم ذات) : مشقت‘ تکلیف۔ {لَا یَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ} (الحجر:48) ’’ نہیں پہنچے گی ان کو اس میں کوئی مشقت۔‘‘

 نُصْبٌ (اسم ذات) : ایذا‘ تکلیف۔ {اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ۔ } (صٓ) ’’ کہ چھوا مجھ کو شیطان نے ایذا سے اور عذاب سے۔‘‘

 نُصُبٌ ج اَنْصَابٌ (اسم ذات) : بھینٹ چڑھانے کی علامت کے لیے گاڑے ہوئے پتھر‘ استھان‘ بت۔{وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ} (المائدۃ:3) ’’ اور جو ذبح کیا گیا استھان پر۔‘‘{اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ} (المائدۃ:90) ’’ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ نشہ اور جوا اور استھان اور پانسے نجاست ہیں۔‘‘

 نَصِیْبٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر اسم المفعول کے معنی میں صفت) : گاڑا ہوا‘ جمایا ہوا۔ پھر کسی چیز کے کسی کے لیے مقرر کردہ حصے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (آیت زیرِ مطالعہ)

س ر ع

 سَرُِعَ (س۔ ک) سَرَعًا اور سُرْعَۃً : کوئی کام تیزی سے کرنا‘ جلدی کرنا۔

 اَسْرَعُ (افعل التفضیل) : زیادہ تیز یا سب سے تیز۔ {وَھُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِیْنَ ۔ } (الانعام) ’’ اور وہ سب سے تیز حساب کرنے والا ہے۔‘‘

 سَرِیْعٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : جلدی کرنے والا‘ تیز۔ ( آیت زیر مطالعہ)

 سَارَعَ (مفاعلہ) سِرَاعًا : ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے جلدی کرنا‘ سبقت کرنا۔{وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِط} (آل عمران:114) ’’ اور وہ لوگ باہم سبقت کرتے ہیں بھلائیوں میں۔‘‘

 سَارِعْ(فعل امر) : تو سبقت کر۔ {وَسَارِعُوْآ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ} (آل عمران:133) ’’ اور تم لوگ باہم سبقت کرو مغفرت کی طرف۔‘‘

ح س ب

 حَسَبَ (ن) حَسَبًا : گنتی کرنا‘ شمار کرنا یعنی حساب رکھنا‘ حساب کرنا۔

 حَسِبَ (س۔ ح) حِسْبَانًا : خیال کرنا‘ گمان کرنا۔ {اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ} (البقرۃ:214) ’’ کیا تم لوگوں نے گمان کیا کہ تم لوگ داخل ہو گے جنت میں؟‘‘

 حَاسِبٌ (اسم الفاعل) : حساب رکھنے والا‘ حساب کرنے والا۔ اوپر لفظ ’’ اَسْرَعُ‘‘۔ (الانعام:62)

 حَسِیْبٌ (فَعِیْلٌ کا وزن) : ہمیشہ اور ہرحال میں حساب کرنے والا۔ {وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا ۔ } (النسائ) ’’ اور کافی ہے اللہ بطور حساب کرنے والے کے۔‘‘

 حُسْبَانٌ (فُعْلَانٌ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ) : (1) بےانتہا حساب رکھنے والا۔ (2) سخت پکڑ کرنے والا (حساب کے نتیجے میں)‘ آفت۔ {وَجَعَلَ الَّـیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًاط} (الانعام:96) ’’ اور اس نے بنایا رات کو سکون اور سورج اور چاند کو حساب رکھنے والا۔‘‘{وَیُرْسِلَ عَلَیْھَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآئِ} (الکہف:40) ’’ اور وہ بھیجے اس پر کوئی آفت آسمان سے۔‘‘

 حَسْبُ (اسم فعل) : حساب کتاب میں پورا ‘ یعنی کافی۔ {حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ۔ } (آل عمران) ’’ کافی ہے ہم کو اللہ اور کیا ہی اچھا وکیل ہے!‘‘

 حَاسَبَ (مفاعلہ) مُحَاسَبَۃً اور حِسَابًا : کسی سے کسی چیز کا حساب مانگنا‘ حساب لینا۔ {وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ط} (البقرۃ:284) ’’ اور اگر تم لوگ ظاہر کرو اس کو جو تمہارے جی میں ہے یا چھپائو اس کو‘ اللہ حساب لے گا تم سے اس کا۔‘‘

 اِحْتَسَبَ (افتعال) اِحْتِسَابًا : (1) اہتمام سے حساب مانگنا۔ (2) اہتمام سے خیال کرنا۔ {وَمَنْ یَّـتَّـقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّـہٗ مَخْرَجًا ۔ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ط} (الطلاق:2‘3) ’’ اور جو تقویٰ کرتا ہے اللہ کا وہ تو بناتا ہے اس کے لیے نکلنے کا ایک راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اس کو وہاں سے جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔‘‘

 ترکیب : ’’ اُولٰٓـئِکَ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا‘‘ یہ پورا جملہ اِس کی خبر ہے۔ اس جملہ میں ’’ نَصِیْبٌ‘‘ مبتدأمؤخر نکرہ ہے۔ خبر محذوف ہے اور ’’ لَھُمْ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے‘ جبکہ ’’ مِمَّا کَسَبُوْا‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ اَللّٰہُ‘‘ مبتدأ اور مرکب اضافی ’’ سَرِیْعُ الْحِسَابِ‘‘ اس کی خبر ہے۔

 نوٹ (1) : سورۃ البقرۃ کی آیت 200 میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو اپنی نیکی کا اجر دنیا میں مانگتے ہیں۔ وہاں پر بتا دیا گیا کہ ایسے لوگوں کو آخرت میں کچھ نہیں ملے گا‘ یعنی دنیا میں ملے گا یا نہیں ‘ اور ملے گا تو کتنا‘ اس کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ اپنے علم اور حکمت سے کرے گا‘ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ انہیں آخرت میں کچھ نہیں ملے گا۔ پھر آیت 201 میں ان لوگوں کا ذکر ہوا جو اپنی نیکی کا اجر دنیا اور آخرت‘ دونوں جگہ مانگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا‘ اس کی وضاحت اس آیت میں کی گئی ہے کہ جو نیکی انہوں نے کمائی ہے اس کا کچھ حصہ انہیں دنیا میں ملے گا اور کچھ حصہ آخرت میں۔ اس بات کی مزید وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے (ترجمہ نہیں) کہ ایک غازی‘ جس نے صرف اللہ کی رضا کے لیے قتال میں حصہ لیا‘ پھر مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لیا‘ اس نے اپنے اجر کا دو تہائی حصہ وصول کر لیا۔ یہ مسلم شریف کی حدیث ہے ۔ جو لوگ حدیث کے بغیر قرآن مجید سے ہی سب کچھ سمجھنا چاہتے ہیں وہ لوگ اپنی دلیل کے طور پر اس حدیث کو پیش کرتے ہیں کہ یہ حدیث آیت 201 سے ٹکراتی ہے‘ یعنی اس کے خلاف ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنی قرآن فہمی کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے جس پر ان کا تکیہ ہے۔ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْٓ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ۭ فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۚ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۙ لِمَنِ اتَّقٰى ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ  ٢٠٣؁
[ وَاذْکُرُوا : اور تم لوگ یاد کرو ] [ اللّٰہَ : اللہ کو] [ فِیْ اَ یَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ: گنے ہوئے دنوں میں] [ فَمَنْ : پس جس نے ] [ تَعَجَّلَ : جلدی کی ] [ فِیْ یَوْمَیْنِ : دو دنوں میں ] [ فَلَا اِثْمَ : تو کسی قسم کا گناہ نہیں ہے] [ عَلَیْہِ : اس پر ] [ وَمَنْ تَاَخَّرَ : اور جس نے دیر کی] [ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ : تو کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے اس پر ] [ لِمَنِ اتَّقٰی: اس کے لیے جس نے تقویٰ کیا] [ وَاتَّقُوا : اور تم لوگ تقویٰ کرو ] [ اللّٰہَ : اللہ کا] [ وَاعْلَمُوْآ : اور تم لوگ جان لو ] [ اَنَّـــکُمْ : کہ ] [ اِلَــیْہِ: اس کی طرف ہی ] [ تُحْشَرُوْنَ: تم سب اکٹھا کیے جائو گے]

 

ح ش ر

 حَشَرَ (ن) حَشْرًا : (1) جمع کرنا‘ اکٹھا کرنا۔ (2) جمع کرنے کے لیے نکالنا‘ اُٹھانا۔ {یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا ۔ } (مریم) ’’ جس دن ہم جمع کریں گے متقی لوگوں کو رحمن کی طرف بطور وفد کے۔‘‘{رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ اَعْمٰی} (طٰہٰ:125) ’’ اے میرے رب ! تو نے کیوں اٹھایا مجھ کو اندھا؟‘‘

 اُحْشُرْ (فعل امر) : تو جمع کر۔ {اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا} (الصّٰفّٰت:22) ’’ تم لوگ اکٹھا کرو ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا۔‘‘

 حَاشِرٌ (اسم الفاعل) : جمع کرنے والا۔{وَابْعَثْ فِی الْمَدَآئِنِ حٰشِرِیْنَ ۔ } (الشُّعرائ) ’’ اور تو بھیج شہروں میں جمع کرنے والوں کو۔‘‘

 مَحْشُوْرٌ (اسم المفعول) : جمع کیا ہوا۔ {وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً ط} (صٓ:19) ’’ اور پرندوں کو‘ جمع کیے ہوئے۔‘‘

 ترکیب : ’’ وَاذْکُرُوْا‘‘ کا فاعل اس کی ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے‘ لفظ ’’ اللّٰہَ‘‘ مفعول ہے اور مرکب توصیفی ’’ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ‘‘ ظرف ہے ‘ لیکن ’’ فِیْ‘‘ کی وجہ سے حالت جر میں آیا ہے۔ ’’ فَمَنْ‘‘ میں ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔’’ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ‘‘ شرط ہے جبکہ ’’ فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ‘‘ جوابِ شرط ہے اور اس پر لائے نفی ٔ‘ جنس ہے۔

 نوٹ (1) : ’’ تَعَجَّلَ‘‘ کے ساتھ دو دنوں کی وضاحت ہے لیکن ’’ تَاَخَّرَ‘‘ کے ساتھ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ حاجی کی مرضی ہے کہ جب تک اس کا جی چاہے منیٰ میں رہے‘ تین دن میں واپسی ضروری نہیں ہے۔ کچھ لوگ سعودی حکومت پر تنقید کرتے ہیں کہ تمام انتظامات ختم کر کے حاجیوں کو تین دنوں میں واپسی پر مجبور کرنا اس آیت کے خلاف ہے۔ وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ طریقہ اسلام سے بھی پہلے سے رائج ہے جسے قرآن یا حدیث میں تبدیل نہیں کیا گیا۔ نیز ان کی دلیل کی تردید اس آیت کے الفاظ ’’ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ‘‘ سے ہو جاتی ہے کہ جلدی یا دیر کرنے کی بات ان دنوں کے حوالے سے ہے۔

 اِس قسم کی بحثوں میں الجھنے کے بجائے ہمیں اپنی توجہ کو اس آیت کے اصل سبق پر مرکوز کرنا چاہیے۔ اس میں سبق یہ دیا گیا ہے کہ کسی حاجی کی فضیلت اس میں نہیں ہے کہ دس تاریخ کو حج کے ارکان سے فارغ ہونے کے بعد کون منیٰ میں دو دن رہا اور کون تین دن‘ بلکہ فضیلت اس میں ہے کہ قیام کے دوران کس نے اللہ کو کتنا یاد کیا اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچنے کی کتنی پریکٹس کی۔ جس طرح حج پر آنے کے سفر کے لیے بہترین زادِ راہ تقویٰ تھا اسی طرح واپسی کے لیے بھی بہترین زادِ راہ اور حج کا بہترین تحفہ تقویٰ ہونا چاہیے۔ اس لیے حج سے فارغ ہو کر کچھ عرصہ منیٰ میں قیام کر کے اپنے تقویٰ میں حسن و نکھار پیدا کر کے اسے خوب مستحکم کر لو‘ اس کے بعد اپنے کمرئہ امتحان میں واپس جائو۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِهٖ ۙ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ ٢٠٤؁
[ وَمِنَ النَّاسِ : اور لوگوں میں وہ بھی ہے] [ مَنْ : جو ] [ یُّعْجِبُکَ : بھلی لگتی ہے تجھ کو ] [ قَوْلُہٗ : جس کی بات ] [ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا : دنیا کی زندگی میں] [ وَیُشْہِدُ : اور جو گواہ بناتا ہے ] [ اللّٰہَ : اللہ کو ] [ عَلٰی مَا : اس پر جو ] [ فِیْ قَلْبِہٖ : اس کے دل میں ہے ] [ وَ: حالانکہ ] [ ہُوَ : وہ ] [ اَلَدُّ الْخِصَامِ : انتہائی ہٹ دھرم ‘ کٹ حجتی ہے]

 

ع ج ب

 عَجِبَ (س) عَجَبًا : حیرت زدہ ہونا‘ حیرت کرنا۔{اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَآئَ کُمْ ذِکْرٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْکُمْ} (الاعراف:63) ’’ تو کیا تم لوگ حیرت زدہ ہو کہ تمہارے پاس آئی ایک یاد دہانی تمہارے رب سے تم میں سے کسی شخص پر؟‘‘

 عَجَبٌ (مصدر کے علاوہ صفت بھی ہے) : جو چیز عام طور پر نظر نہ آتی ہو‘ غیر معمولی‘ حیران کن‘ انوکھی۔ {اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَا اِلٰی رَجُلٍ مِّنْھُمْ} (یونس:2) ’’ کیا لوگوں کے لیے حیران کن ہے کہ ہم نے وحی کی ان میں سے ایک شخص کی طرف؟‘‘

 عَجِیْبٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : حیران کن۔ {ھٰذَا شَیْئٌ عَجِیْبٌ ۔ } (قٓ) ’’ یہ ایک حیران کن چیز ہے۔‘‘

 عُجَابٌ (فُعَالٌکے وزن پر مبالغہ) : انتہائی حیران کن۔ {اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ ۔ } (صٓ) ’’ یقینا یہ ایک انتہائی حیران کن چیز ہے۔‘‘

 اَعْجَبَ (افعال) اِعْجَابًا : (1) کسی کو حیرت میں ڈالنا‘ حیرت زدہ کرنا۔ (2) دلکش لگنا‘ بھلا لگنا۔ {فَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَلَا اَوْلَادُھُمْ ط} (التوبۃ:55) ’’ تو حیران نہ کریں تجھ کو ان کے مال اور نہ ان کی اولاد۔‘‘{وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِج} (المائدۃ:100) ’’ اور اگرچہ بھلی لگے تجھ کو خباثت کی کثرت۔‘‘

ل د د

 لَدَّ (ن) لَدًّا : کسی کی بات نہ ماننا‘ ہٹ دھرم ہونا۔

 اَلَدُّ ج لُدٌّ (اَفْعَلُ التَّفْضِیْلِ) : زیادہ ہٹ دھرم یا انتہائی ہٹ دھرم۔ واحد آیت زیرِمطالعہ میں آیا ہے۔ {وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا ۔ } (مریم) ’’ اور تاکہ آپؐ خبردار کریں اس سے ایک زیادہ ہٹ دھرم قوم کو۔‘‘

خ ص م

 خَصَمَ (ض) خَصْمًا : زبانی جھگڑا کرنا‘ توتکار کرنا۔

 خَصْمٌ (اسم ذات بھی ہے) : مدّمقابل‘ فریقِ مخالف ۔ (یہ واحد‘ جمع‘ مؤنث‘ سب کے لیے آتا ہے) ۔ {وَھَلْ اَتٰٹکَ نَـبَؤُا الْخَصْمِم} (صٓ:21) ’’ اور کیا پہنچی تجھ کو مخالف فریقوں کی خبر؟‘‘

 خَصِمٌ جمع خِصَامٌ اور خَصِمُوْنَ (صفت) : کٹ حجتی‘ جھگڑالو۔ خِصَامٌ آیت زیرمطالعہ میں آیا ہے۔ {بَلْ ھُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ ۔ } (الزخرف) ’’ بلکہ وہ لوگ جھگڑالو

قوم ہیں۔‘‘

 خَصِیْمٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : ہمیشہ بحث کرنے والا‘ جھگڑالو۔ {فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ ۔ } (یٰسٓ) ’’ پس جب ہی وہ کھلے طور پر ہمیشہ بحث کرنے والا ہے۔‘‘

 اِخْتَصَمَ (افتعال) اِخْتِصَامًا : اہتمام سے ایک دوسرے سے اُلجھنا‘ جھگڑنا۔ {وَمَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ ۔ } (آل عمران) ’’ اور آپؐ ‘ نہیں تھے ان کے پاس جب وہ ایک دوسرے سے اُلجھ رہے تھے۔‘‘

 تَخَاصَمَ (تفاعل) تَخَاصُمًا : باہم جھگڑا کرنا۔ {اِنَّ ذٰلِکَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَھْلِ النَّارِ ۔ } (صٓ) ’’ بیشک یہ حق ہے‘ آگ والوں کا باہم جھگڑا کرنا۔‘‘

 ترکیب : ’’ مَنْ‘‘ نکرہ موصوفہ ہے۔ اگلا جملہ اس کی صفت ہے۔ ’’ یُعْجِبُ‘‘ کا مفعول ضمیر ’’ کَ‘‘ ہے اور ’’ قَوْلُہٗ‘‘ اس کا فاعل ہے۔ ’’ یُشْھِدُ‘‘ کا فاعل اس کی ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اَلَدُّ الْخِصَامِ‘‘ مرکب اضافی ہے‘ لیکن اُردو محاورے کی وجہ سے ترجمہ مرکب توصیفی میں ہو گا۔ وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ   ٢٠٥؁
[ وَاِذَا : اور جب ] [ تَوَلّٰی : وہ لوٹتا ہے] [ سَعٰی : تو وہ بھاگ دوڑ کرتا ہے ] [ فِی الْاَرْضِ : زمین میں ] [ لِیُفْسِدَ : تاکہ وہ ] [ نظم بگاڑے] [ فِیْہَا : اس میں ] [ وَیُہْلِکَ : اور تاکہ وہ برباد کرے ] [ الْحَرْثَ : کھیتی کو ] [ وَالنَّسْلَ : اور (مویشیوں کی) نسل کو] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ لاَ یُحِبُّ: پسند نہیں کرتا] [ الْفَسَادَ: نظم کے بگاڑ کو ]

 

ح ر ث

 حَرَثَ (ن) حَرْثًا : کھیتی کے لیے زمین تیار کرنا‘ بیج ڈالنا۔ {اَفَرَئَ‘ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ ۔ ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ ۔ } (الواقعۃ) ’’ کیا تم لوگوں نے دیکھا نہیں جو تم بیج ڈالتے ہو؟ کیا تم اُگاتے ہو اس کو یا ہم اُگانے والے ہیں؟‘‘

 حَرْثٌ (اسم ذات بھی ہے) : کھیتی‘ آیت زیرِ مطالعہ۔

ن س ل

 نَسَلَ (ض) نَسْلًا : پرندوں کے پر یا جانوروں کے اُون کا گرنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں آتا ہے ‘ مثلاً (1) گرنا یا الگ ہونا۔ (2) تیز چلنا۔ {وَھُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ ۔ } (الانبیائ) ’’ اور وہ لوگ ہر بلندی سے تیزی سے پھسلتے ہوں گے۔‘‘

 نَسْلٌ : کسی سے الگ ہونے والی چیز‘ اولاد اور اولاد کی اولاد۔ نسل۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ اِذَا‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ تَوَلّٰی‘‘ شرط ہے اور ’’ سَعٰی‘‘ سے ’’ وَالنَّسْلَ‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔ افعال ’’ تَوَلّٰی‘ سَعٰی‘ یُفْسِدَ‘‘ اور ’’ یُھْلِکَ‘‘ کے فاعل ان کی ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیریں ہیں جو گزشتہ آیت میں مذکور ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہیں۔ ’’ فِیْھَا‘‘ کی ضمیر ’’ الْاَرْضَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ لِیُفْسِدَ‘‘ میں لام ’’ کَیْ‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے ’’ یُھْلِکَ‘‘ پر بھی نصب ہے۔ معلوم ہے کہ لامِکَیْکے بعد لفظ اَنْ محذوف ہوتا ہے۔ نسل سے مراد یہاں مویشیوں کی نسل ہے۔ وَاِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُ ۭ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ   ٢٠٦؁
[ وَاِذَا : اور جب کبھی ] [ قِیْلَ : کہا جاتا ہے ] [ لَہُ : اس سے] [ اتَّقِ : تو تقویٰ کر ] [ اللّٰہَ : اللہ کا ] [ اَخَذَتْہُ : تو جکڑتا ہے اس کو ] [ الْعِزَّۃُ : گھمنڈ] [ بِالْاِثْمِ : گناہ کے سبب سے ] [ فَحَسْبُہٗ : پس کافی ہے اس کو] [ جَہَنَّمُ : جہنم ] [ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ : اور بہت برا ٹھکانہ ہے (جہنم) ]

 

م ھـ د

 مَھَدَ (ف) مَھْدًا : کسی چیز کو بچھانا‘ آرام دہ بنانا۔ {وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِھِمْ یَمْھَدُوْنَ ۔ } (الروم) ’’ اور جس نے عمل کیا کوئی نیکی کا تو اپنے لیے وہ آرام دِہ بناتے ہیں۔‘‘

 مَاھِدٌ (اسم الفاعل) : بچھانے والا‘ آرام دہ بنانے والا۔ {وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰـھَا فَنِعْمَ الْمٰھِدُوْنَ ۔ } (الذّٰریٰت) ’’ اور زمین کو ہم نے بچھایا ‘ اس کو تو ہم کتنا اچھا‘ آرام دہ بنانے والے ہیں!‘‘

 مِھَادٌ (فِعَالٌ کے وزن پر اسم المفعول) : آرام دِہ بنائی ہوئی چیز‘ آرام کا ٹھکانہ۔ (آیت زیر مطالعہ) ۔

 مَھْدٌ (اسم ذات) : بچھونا‘ چھوٹے بچے کا گہوارہ۔ {اَلَّذِیْ جَعَلَ لَــکُمُ الْاَرْضَ مَھْـدًا} (طٰہٰ:53) ’’ جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو بچھونا۔‘‘{کَیْفُ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِ} (مریم:29) ’’ ہم کیسے بات کریں اس سے جو ہے گہوارے میں؟‘‘

 ترکیب : ’’ اِذَا‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ‘‘ شرط ہے اور ’’ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ‘‘ جواب شرط ہے۔ ’’ اَخَذَتْ‘‘ کا فاعل ’’ الْعِزَّۃُ‘‘ ہے اور’’ ہُ‘‘ ضمیر مفعولی ہے‘ جبکہ ’’ بِالْاِثْمِ‘‘ متعلق فعل ہے اور اس میں ’’ بِ‘‘ سببیہ ہے۔ مرکب اضافی ’’ حَسْبُہٗ‘‘ مبتدأ ہے۔ ’’ جَھَنَّمُ‘‘ خبر ہے۔’’ لَبِئْسَ الْمِھَادُ‘‘ مبتدأ ہے اور اس کی خبر ’’ جَھَنَّمُ‘‘ محذوف ہے۔

 ترکیب : ’’ یَشْرِیْ‘‘ کا فاعل اس کی ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ نَفْسَہٗ‘‘ اس کا مفعول اوّل ہے اور مرکب اضافی ’’ اِبْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ‘‘ اس کا مفعول ثانی ہے ‘ اس لیے مضاف ’’ اِبْتِغَائَ‘‘ پر نصب آئی ہے۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ   ٢٠٧؁
[ وَمِنَ النَّاسِ: اور لوگوں میں وہ بھی ہیں] [ مَنْ : جنہوں نے ] [ یَّشْرِیْ : سودا کیا ] [ نَفْسَہُ : اپنے آپ کا ] [ ابْتِغَآئَ ] [ مَرْضَاتِ اللّٰہِ: اللہ کے راضی ہونے کی جستجو کرنے سے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ رَئُ وْفٌ : بےانتہا نرمی کرنے والاہے] [ بِالْعِبَادِ : بندوں سے ]

 

 ترکیب : ’’ یَشْرِیْ‘‘ کا فاعل اس کی ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ نَفْسَہٗ‘‘ اس کا مفعول اوّل ہے اور مرکب اضافی ’’ اِبْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ‘‘ اس کا مفعول ثانی ہے ‘ اس لیے مضاف ’’ اِبْتِغَائَ‘‘ پر نصب آئی ہے۔

 نوٹ : سورۃ البقرۃ کی آیت 200 سے آیت زیرِ مطالعہ یعنی 207 تک میں چار قسم کے حاجیوں کا ذکر آیا ہے۔ لیکن ان کے لیے حاجی کے بجائے ’’ النَّاس‘‘ کا لفظ لایا گیا ہے۔ اس سے راہنمائی یہ ملتی ہے کہ جیسے معاشرے میں مختلف کردار کے لوگ ہوتے ہیں ویسے حاجیوں میں بھی مختلف کردار کے لوگ ہوتے ہیں۔

 آیت 200 میں ’’ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ‘‘ کے الفاظ سے پہلی قسم کے حاجیوں کا ذکر ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا حج کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انہیں دنیا میں عزت و شہرت اور مقام و رتبہ حاصل ہو۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں حج کا کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ پھر آیت 201 میں ’’ وَمِنْھُمْ مَّنْ‘‘ کے الفاظ سے دوسری قسم کے حاجیوں کا ذکر ہوا۔ یہ لوگ دنیا اور آخرت دونوں جگہ کے فوائد کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔ اِن کو ان کی کمائی میں سے دونوں جگہ حصہ ملے گا۔ پھر آیت 204 میں ’’ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ‘‘ کے الفاظ سے تیسری قسم کے حاجیوں کا ذکر ہوا۔ یہ Self Centred لوگ ہیں ‘ یعنی انتہائی خود پسند لوگ جو اپنی ناک سے آگے کچھ نہیں دیکھتے اور اپنی بات کے آگے کسی کی بات کو اہمیت نہیں دیتے‘ یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی بات بھی نہیں سنتے۔ حالانکہ بات بات پر اللہ کو گواہ بناتے ہیں۔ یہ لوگ حج کرنے کے بعد بھی اپنے مخالف کو پست کرنے کے لیے کسی زیادتی یا ظلم سے دریغ نہیں کرتے۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اور آیت زیر مطالعہ میں چوتھی قسم کے حاجیوں کا ذکر ہے۔ یہ لوگ حج سے اللہ کی رضا کے علاوہ اور کوئی غرض نہیں رکھتے۔ ایسے بندوں سے اللہ تعالیٰ انتہائی نرمی کا معاملہ کرتا ہے۔ یعنی بشری تقاضوں کے تحت حج کے دوران اِن سے جو بھی بھول چوک یا لغزش ہوتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے وہ سب معاف کر دیتا ہے۔

 مذکورہ آیات کے مطالعہ سے بزرگوں کی اس بات میں بڑا وزن محسوس ہوتا ہے کہ ’’ جو کچھ آدمی کے اندر ہوتا ہے‘ حج کرنے کے بعد وہی نمایاں ہو جاتا ہے۔‘‘ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّةً   ۠وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ   ٢٠٨؁
[ یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو جو ] [ اٰمَنُوا : ایمان لائے ] [ ادْخُلُوْا : تم لوگ داخل ہو ] [ فِی السِّلْمِ: اِسلام میں ] [ کَآفَّۃً : کل کے کل ] [ وَلاَ تَـتَّبِعُوْا : اور پیروی مت کرو] [ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ : شیطان کے نقوشِ قدم کی ] [ اِنَّــہٗ : یقینا وہ ] [ لَــکُمْ : تم لوگوں کے لیے ] [ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ: ایک کھلا دشمن ہے]

 

ک ف ف

 کَفَّ (ن) کَفًّا : (1) ہتھیلی مار کر کسی کو روکنا۔ (2) ہتھیلیوں سے کوئی چیز جمع کرنا۔ {وَاِذْ کَفَفْتُ بَنِیْ اِسْرَائِ‘ یْلَ عَنْکَ} (المائدۃ:110) ’’ اور جب میں نے روکا بنواسرائیل کو آپؑ سے۔‘‘

 کَفٌّ (اسم ذات بھی ہے) : ہتھیلی ۔ {اِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ اِلَی الْمَائِ} (الرعد:14) ’’ مگر اپنی دونوں ہتھیلیوں کو پھیلانے والے کی مانند پانی کی طرف۔‘‘

 کُفَّ /کُفُّ/کُفِّ (فعل امر) : تو روک۔ {کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ} (النسائ:77) ’’ تم لوگ روکو اپنے ہاتھوں کو اور قائم کرو نماز۔‘‘

 کَافَّــۃٌ (یہ فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل کَافٌّ ہے اور اس پر تائے مبالغہ ہے جیسے ’’ عَلَّامَۃٌ ‘‘ پر ہے): (1) بہت زیادہ روکنے والا۔ (2) بہت زیادہ جمع کرنے والا۔ پھر اس سے مراد لیتے ہیں: باجماعت‘ سب کے سب۔ {وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ کَافَّۃً لِّلنَّاسِ} (سبا:28) ’’ اور ہم نے نہیں بھیجا آپؐ ‘ کو مگر روکنے والا ہوتے ہوئے لوگوں کے لیے‘‘۔{وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَافَّۃً} (التوبۃ:36) ’’ اور تم لوگ قتال کرو مشرکوں سے اکٹھے ہو کر۔‘‘

 ترکیب : فعل امر ’’ اُدْخُلُوْا‘‘ کا مفعول’’ السِّلْمِ‘‘ ہے جو ’’ فِیْ‘‘ کے صلہ کی وجہ سے مجرور ہوا ہے‘ جبکہ ’’ السِّلْمِ‘‘ کا حال ہونے کی وجہ سے ’’ کَافَّۃً‘‘ منصوب ہے۔ ’’ لَا تَتَّبِعُوْا‘‘ فعل نہی کا مفعول مرکب اضافی ’’ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ‘‘ ہے‘ اس لیے اس کا مضاف ’’ خُطُوٰتِ‘‘ حالت نصبی میں ہے۔ فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْكُمُ الْبَيِّنٰتُ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ    ٢٠٩؁
[ فَاِنْ : پھر اگر ] [ زَلَلْتُمْ : تم لوگوں نے لغزش کھائی ] [ مِّنْم بَعْدِ مَا : اس کے بعد کہ جو ] [ جَآئَ تْکُمُ : آئیں تمہارے پاس ] [ الْبَـیِّنٰتُ : واضح (نشانیاں) ] [ فَاعْلَمُوْآ : تو جان لو ] [ اَنَّ : کہ ] [ اللّٰہَ : اللہ ] [ عَزِیْزٌ : بالادست ہے ] [ حَکِیْمٌ: دانا ہے ]

 

 ترکیب : ’’ اِنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ زَلَلْتُمْ‘‘ سے ’’ اَلْبَیِّنٰتُ‘‘ تک شرط ہے اور ’’ فَاعْلَمُوْا‘‘ سے آخر تک جوابِ شرط ہے۔ ’’ جَائَ تْ‘‘ کا مفعول ’’ کُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ اَلْبَیِّنٰتُ‘‘ اس کا فاعل ہے اور یہ صفت ہے‘ اس کا موصوف ’’ الْاٰیٰتُ‘‘ محذوف ہے۔ ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ  ٢١٠؀ۧ
[ ہَلْ یَنْظُرُوْنَ : وہ لوگ کیا انتظار کرتے ہیں] [ اِلَّآ : سوائے اس کے ] [ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ : کہ آئے ان کے پاس ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ فِیْ ظُلَلٍ : سائبانوں میں ] [ مِّنَ الْغَمَامِ : بادلوں کے ] [ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ : اور فرشتے ] [ وَقُضِیَ: اور فیصلہ کیا جائے ] [ الْاَمْرُ : سارے مسئلے کا ] [ وَاِلَی اللّٰہِ: اور اللہ کی طرف ہی ] [ تُرْجَعُ : لوٹائے جائیں گے] [ الْاُمُوْرُ : تمام مسئلے]

 ترکیب : ’’ اَنْ یَّاْتِیَ‘‘ کا مفعول ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے‘ جبکہ ’’ اللّٰہُ‘‘ اور ’’ الْمَلٰئِکَۃُ‘‘ اس کے فاعل ہیں۔ ’’ اَلْغَمَامِ‘‘ اسم جنس ہے۔ اُردو میں یہ مفہوم بادلوں سے ادا ہو گا۔ ’’ قُضِیَ‘‘ کا نائب فاعل ’’ الْاَمْرُ‘‘ ہے اور اس پر لامِ جنس ہے۔’’ تُرْجَعُ‘‘ کا نائب فاعل ’’ الْاُمُوْرُ‘‘ ہے اور متعلق فعل ’’ اِلَی اللّٰہِ‘‘ کو تاکید کے لیے مقدم کیا گیا ہے۔

 نوٹ (1) : اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ تم میوزیم گئے تھے ‘ وہاں تم نے کیا دیکھا اور جواب میں وہ کہے کہ کیا دیکھا سوائے اس کے کہ …… اب نوٹ کریں کہ اس جواب میں حرفِ استفہام ’’ کیا‘‘ نفی کے معنی دے رہا ہے ‘ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ۔ اسی طرح اس آیت میں ’’ ھَلْ‘‘ بھی نفی کے مفہوم میں آیا ہے‘ یعنی وہ لوگ کوئی انتظار نہیں کرتے سوائے اس کے کہ۔

 نوٹ (2) : مادہ ’’ ن ظ ر‘‘ راہ دیکھنے یا انتظار کرنے کے معنی میں عام طور پر باب افتعال سے آتا ہے لیکن کبھی ثلاثی مجرد سے بھی اس مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ آیت اس کی ایک مثال ہے۔ سَلْ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ كَمْ اٰتَيْنٰھُمْ مِّنْ اٰيَةٍۢ بَيِّنَةٍ  ۭ وَمَنْ يُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ    ٢١١؁
[ سَلْ : آپؐ پوچھیں] [ بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ : بنی اسرائیل سے] [ کَمْ : کتنی ] [ اٰتَیْنٰـہُمْ : ہم نے دی ان کو ] [ مِّنْ اٰیَۃٍم بَـیِّنَۃٍ: واضح نشانی ] [ وَمَنْ یُّـبَدِّلْ: اور جو بدلتا ہے ] [ نِعْمَۃَ اللّٰہِ : اللہ کی نعمت کو ] [ مِنْم بَعْدِ مَا : اس کے بعد کہ جو ] [ جَآئَ تْہُ: وہ آئی اس کے پاس ] [ فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [ شَدِیْدُ الْعِقَابِ : پکڑنے میں سخت ہے]

 

 ترکیب : ’’ کَمْ‘‘ استفہامیہ ہے۔ ’’ اٰیَۃٍ بَیِّنَۃٍ‘‘ اس کی تمیز ہے لیکن ’’ مِنْ‘‘ کی وجہ سے مجرور ہے۔ ’’ اٰتَیْنَا‘‘ کی ضمیر مفعولی ’’ ھُمْ‘‘ ’’ بَنِیْ اِسْرَائِ یْلَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ یُبَدِّلْ‘‘ سے ’’ جَائَ تْہُ‘‘ تک شرط ہے ۔ اس کے آگے کا جملہ جوابِ شرط ہے۔ ’’ یُبَدِّلْ‘‘ کا فاعل اس کی ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے اور ’’ نِعْمَۃَ اللّٰہِ‘‘ اس کا مفعول ہے۔ ’’ جَائَ تْ‘‘ کا فاعل اس کی ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ نِعْمَۃَ اللّٰہِ‘‘ کے لیے ہے اور ’’ ہُ‘‘ کی ضمیرِ مفعولی ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے۔

 نوٹ (1) : قاعدہ یہ ہے کہ ’’ کَمْ‘‘ کے بعد والا اسم اگر منصوب ہو تو ایسا ’’ کَمْ‘‘ استفہامیہ ہوتا ہے اور اگر اسم مجرور ہو تو وہ ’’ کَمْ‘‘ خبریہ ہوتا ہے ۔ اب اس کا ایک استثناء سمجھ لیں۔ ’’ کَمْ‘‘ استفہامیہ اور اس کے اسم کے درمیان میں اگر کوئی دوسرا لفظ آ جائے‘ جیسا کہ اس آیت میں ’’ اٰتَیْنٰھُمْ‘‘ آیا ہے‘ تو اس کے اسم کو ’’ مِنْ‘‘ لگا کر مجرور کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں بھی وہ ’’ کَمْ‘‘ استفہامیہ ہی رہتا ہے ‘ خبریہ نہیں ہوتا۔

 نوٹ (2): یہاں ’’ نِعْمَۃَ اللّٰہِ‘‘ سے مراد ’’ اللہ کا دین ‘‘ ہے۔ اور اللہ کے دین کا حامل ہونے میں منصبِ امامت از خود شامل ہے۔ بنی اسرائیل نے اللہ کے دین میں تبدیلیاں کر کر کے اس کو اتنا مسخ کردیا کہ اس میں صحیح اور غلط کا فرق کرنا ممکن نہ رہا اور دنیا کے لیے اس سے راہنمائی حاصل کرنے کا امکان ختم ہو گیا۔ اس لیے ان کو منصبِ امامت سے معزول کیا گیا۔ زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۘ وَالَّذِيْنَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ  ۭ وَاللّٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ    ٢١٢؁
[ زُیِّنَ : سجایا گیا] [ لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے جنہوں نے] [ کَفَرُوْا : ناشکری کی ] [ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا: دنیوی زندگی کو] [ وَیَسْخَرُوْنَ : اور وہ لوگ مذاق کرتے ہیں] [ مِنَ الَّذِیْنَ : ان سے جو ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جنہوں نے ] [ اتَّقَوْا : تقویٰ کیا ] [ فَوْقَہُمْ : ان سے بالاتر ہوں گے] [ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ: قیامت کے دن ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ یَرْزُقُ : عطا کرتا ہے ] [ مَنْ : اس کو جس کو ] [ یَّشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] [ بِغَیْرِ حِسَابٍ: کسی شمار کے بغیر]

 

ز ی ن

 زَانَ (ض) زَیْنًا : کسی چیز کو خوبصورت بنانا‘ سجانا‘ آراستہ کرنا۔

 زِیْنَۃٌ (اسم ذات) : وہ چیز جس سے کسی چیز کو سجایا جائے‘ سجاوٹ‘ آرائش۔ {مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ} (الاعراف:32) ’’ کس نے حرام کیا اللہ کی اس سجاوٹ کو جو اس نے نکالی اپنے بندوں کے لیے؟‘‘

 زَیَّنَ (تفعیل) تَزْیِیْنًا : بتدریج سجانا‘ خوب سجانا۔ {وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا‘ یَعْمَلُوْنَ ۔ } (الانعام) ’’ اور خوب سجایا ان کے لیے شیطان نے اس کو جو وہ لوگ کیا کرتے تھے۔‘‘ {وَلٰــکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَـیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّـنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ} (الحُجُرات:7) ’’ اور لیکن اللہ نے محبوب بنایا تمہارے لیے ایمان کو اور اس نے خوب سجایا اس کو تمہارے دلوں میں۔‘‘

 تَزَیَّنَ (تفعّل) تَزَیُّنًا اور اِزَّیُّنًا : بتکلف آراستہ ہونا۔ {اِذَا اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَھَا وَازَّیَّنَتْ} (یونس:24) ’’ جب پکڑا زمین نے اپنا سنگھار اور وہ آراستہ ہوئی۔‘‘

 ترکیب : ’’ زُیِّنَ‘‘ کا نائب فاعل ’’ اَلْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا‘‘ ہے۔ ’’ اَلْحَیٰوۃُ‘‘ مؤنث غیر حقیقی ہے‘ اس لیے اس کے فعل کے لیے مذکر کا صیغہ بھی جائز ہے۔ ’’ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘‘ متعلق فعل ہے۔ ’’ وَیَسْخَرُوْنَ‘‘ کا ’’ وائو ‘‘ عاطفہ ہے۔ ’’ یَسْخَرُوْنَ‘‘ کی ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر فاعلی ’’ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا‘‘ کا ’’ وائو ‘‘ استینافیہ ہے اس لیے اس سے پہلے وقف لازم ہے۔ ’’ وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا‘‘ مبتدأ ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ظرف ’’ فَوْقَھُمْ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ’’ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ‘‘ دوسرا ظرف ہے اور متعلق خبر ہے۔’’ یَرْزُقُ‘‘ اور ’’ یَشَآئُ‘‘ دونوں کا مفعول ’’ مَنْ‘‘ ہے۔ ’’ یَشَائُ‘‘ کی ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیرِ فاعلی اللہ کے لیے ہے۔

 نوٹ (1) : قرآن مجید میں ایک سو سے زیادہ مقامات پر لفظ ’’ یَشَائُ‘‘ آیا ہے اور پچاس سے زیادہ مقامات پر اس سے پہلے ’’ مَنْ‘‘ یا ’’ لِمَنْ‘‘ آیا ہے۔ ہمارے کچھ عقل پرست لوگ (عقل پسندی قرآنی ہدایات کے مطابق ہے ‘ لیکن عقل پرستی غلط ہے) ایسے مقامات پر ’’ مَنْ‘‘ کو ’’ یَشَائُ‘‘ کا فاعل مان کر ترجمہ کرتے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ قرآن مجید کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں عقل پرستوں کی غلطی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔

 ’’ مَنْ‘‘ کو اگر ’’ یَشَائُ‘‘ کا فاعل مان کر ترجمہ کریں تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیتا ہے جو چاہتا ہے۔ اب اگر ایمان داری سے سوچا جائے تو ہر غیر متعصب ذہن کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کون ہے جو نہیں چاہتا کہ اس کو بےشمار ملے‘ اور اس دنیا میں کون ہے جس کو اس کی خواہش کے مطابق ملا ہے؟ عام آدمی کا تو ذکر ہی چھوڑ دیں‘ یہ خواہش تو اپنے وقت کے کسی فرعون کی بھی پوری نہیں ہوئی۔

 عقل پرستوں کی سوچ میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے چاہنے کو اپنے چاہنے پر قیاس کرتے ہیں‘ حالانکہ اِن میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ بلکہ صحیح تر بات یہ ہے کہ ان میں کسی قسم کا کوئی نسبت و تناسب نہیں ہے۔ ہمارا چاہنا ہمارے محدود علم‘ محدودسمجھ‘

بے لگام خواہشات‘ خاندان‘ برادری‘ ذات پات اور رنگ و نسل کے تعصبات کے تحت ہوتا ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کا چاہنا اس کی لامحدود صفات ‘ مثلاً علم‘ رأفت‘ رحمت اور حکمت وغیرہ کے مطابق ہوتا ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو سمجھ کر تسلیم کر لیتے ہیں‘ ان کو قرآن مجید کے مذکورہ مقامات کا وہ مفہوم سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی جو صحابۂ کرام (رض) امت کو سمجھا گئے ہیں۔ كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً    ۣ  فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ  ۠ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ  ۭ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢـا بَيْنَهُمْ ۚفَهَدَى اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ ۭ وَاللّٰهُ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ   ٢١٣؁
[ کَانَ النَّاسُ : لوگ تھے] [ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً : ایک امت ] [ فَـبَعَثَ : تو بھیجا ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ النَّبِیّٖنَ : انبیاء کو ] [ مُبَشِّرِیْنَ : بشارت دینے والے ہوتے ہوئے ] [ وَمُنْذِرِیْنَ: اور خبردار کرنے والے ہوتے ہوئے] [ وَاَنْزَلَ : اور اس نے اتاری ] [ مَعَہُمُ : ان کے ساتھ ] [ الْـکِتٰبَ : کتاب ] [ بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ ] [ لِیَحْکُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کرے ] [ بَیْنَ النَّاسِ : لوگوں کے ] [ مابین ] [ فِیْمَا : اس میں ] [ اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا] [ فِیْہِ : جس میں ] [ وَمَا اخْتَلَفَ : اور اختلاف نہیں کیا] [ فِیْہِ : اس میں ] [ اِلاَّ الَّذِیْنَ : مگر ان لوگوں نے جن کو] [ اُوْتُوْہُ : وہ دی گئی ] [ مِنْم بَعْدِ مَا : اس کے بعد کہ جو ] [ جَآئَ تْہُمُ : آئیں ان کے پاس ] [ الْبَـیِّنٰتُ : کھلی نشانیاں] [ بَغْیًا : سرکشی کرتے ہوئے ] [ بَیْنَہُمْ ج : آپس میں ] [ فَـہَدَی : پھر ہدایت دی ] [ اللّٰـہُ : اللہ نے ] [ الَّذِیْنَ : ان لوگوں کو جو ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ لِمَا : اس کی ] [ اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا ] [ فِیْہِ : جس میں ] [ مِنَ الْحَقِّ : حق میں سے ] [ بِاِذْنِہٖ : اپنے اِذن سے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ یَہْدِیْ : ہدایت ] [ دیتا ہے ] [ مَنْ : اس کو جس کو ] [ یَّشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] [ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ : ایک سیدھے راستے کی طرف ]

 

 ترکیب :’’ کَانَ‘‘ کا اسم ’’ النَّاسُ‘‘ ہے اور مرکبِ توصیفی ’’ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ فَـبَعَثَ‘‘ کا فاعل ’’ اللّٰہُ‘‘ ہے۔’’ النَّبِیّٖنَ‘‘ اس کا مفعول ہے ‘ جبکہ ’’ مُبَشِّرِیْنَ‘‘ اور ’’ مُنْذِرِیْنَ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔’’ اَنْزَلَ‘‘ میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر فاعلی ’’ اللّٰہُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ مَعَھُمْ‘‘ کی ضمیر ’’ النَّبِیّٖنَ‘‘ کے لیے ہے ‘ جبکہ ’’ اَنْزَلَ‘‘ کا مفعول ’’ الْکِتٰبَ‘‘ ہے۔ ’’ لِیَحْکُمَ‘‘ میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر فاعلی ’’ الْکِتٰبَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ فِیْہِ‘‘ کی ضمیر ’’ فِیْمَا‘‘ کی ضمیر عائد ہے۔ ’’ مَا‘ اخْتَلَفَ فِیْہِ‘‘ کی ضمیر ’’ الْکِتٰبَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اُوْتُوْا‘‘ کا نائب فاعل ’’ الَّذِیْنَ‘‘ ہے اور ’’ ہُ‘‘ کی ضمیر اس کا مفعول ثانی ہے جو کہ ’’ الْکِتٰبَ‘‘ کے لیے ہے۔’’ بَغْیًا‘‘ حال یا مفعول لہ ہے۔

 ’’ ھَدٰی ۔ یَھْدِیْ‘‘ کے دو مفعول آتے ہیں۔ مفعولِ اوّل یعنی جس کو ہدایت دی جائے ‘ یہ بنفسہٖ آتا ہے اور مفعولِ ثانی یعنی جس چیز کی ہدایت دی جائے ‘ یہ ’’ اِلٰی‘‘ یا ’’ لِ‘‘ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ یہاں ’’ فَھَدَی‘‘ کا فاعل ’’ اللّٰہُ‘‘ ہے‘ جبکہ ’’ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ اس کا مفعولِ اوّل ہے اور ’’ لِمَا‘‘ مفعولِ ثانی ہے۔ اسی طرح ’’ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ‘‘ کا مفعولِ اوّل ’’ مَنْ یَّشَائُ‘‘ ہے اور ’’ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘ مفعولِ ثانی ہے۔

 نوٹ (1) : اس آیت کے شروع میں آیا ہے کہ پہلے سب لوگ ایک دین پر کاربند تھے۔ اس کے بعد یہ بات محذوف ہے کہ پھر ان میں اختلاف پیدا ہوئے‘ تب اللہ نے انبیاء کو بھیجا۔ اس بات کی تصدیق آیت کے اگلے حصے ’’ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ‘‘ سے ہوتی ہے۔

 نوٹ (2) : اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اختلاف رائے فِی نفسہٖ کوئی بری چیز نہیں ہے ‘ البتہ اس میں اگر نیت بَغْیًام بَیْنَہُمْکی ہو تو یہ مذموم اختلاف ہے۔ لیکن حق کی تلاش میں اہل ایمان میں اگر اختلاف رائے ہو جائے تو یہ فطری اختلاف ہے‘ اور ایسے اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ  ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ   ٢١٤؁
[ اَمْ حَسِبْتُمْ : کیا تم لوگوں نے گمان کیا] [ اَنْ تَدْخُلُوا : کہ تم لوگ داخل ہو جائو گے] [ الْجَنَّۃَ : جنت میں ] [ وَ : حالانکہ ] [ لَمَّا یَاْتِکُمْ : ابھی تک نہیں پہنچے تم کو] [ مَّثَلُ الَّذِیْنَ : ان کی مانند جو ] [ خَلَوْا : گزرے ] [ مِنْ قَبْلِکُمْ : تم سے پہلے ] [ مَسَّتْہُمُ : پہنچیں ان کو ] [ الْبَاْسَآئُ : سختیاں ] [ وَالضَّرَّآئُ : اور تکالیف ] [ وَزُلْزِلُوْا : اور وہ لوگ ہلا ] [ مارے گئے] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ یَقُوْلَ : کہنے لگے ] [ الرَّسُوْلُ : (وقت کے) رسول ] [ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور وہ لوگ جو ایمان لائے] [ مَعَہٗ : ان کے ساتھ] [ مَتٰی : کب ] [ نَصْرُ اللّٰہِ : اللہ کی مدد ہے ] [ اَلَآ : سن لو ] [ اِنَّ : یقینا ] [ نَصْرَ اللّٰہِ : اللہ کی مدد ] [ قَرِیْبٌ : قریب ہے ]

 

ز ل ز ل

 زَلْزَلَ (رُباعی) زِلْزَالاً : کسی چیز کو بہت زیادہ ہلانا‘ ہلا مارنا۔ {اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا ۔ } (الزّلزال) ’’ جب ہلایا جائے گا زمین کو جیسا اس کو ہلانے کا حق ہے۔‘‘

 زَلْزَلَۃٌ (اسم ذات) : سخت جنبش‘ زلزلہ۔ {اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ ۔ } (الحج) ’’ یقینا قیامت کا زلزلہ ایک عظیم چیز ہے۔‘‘

 ترکیب : ’’ اَمْ‘‘ استفہامیہ ہے۔ ’’ حَسِبْتُمْ‘‘ کا فاعل اس کی ضمیر فاعلی ’’ اَنْتُمْ‘‘ ہے‘ اس کا مفعولِ اوّل محذوف ہے جو کہ ’’ سَھْلًا‘‘ ہو سکتا ہے‘ جبکہ ’’ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ‘‘ مفعولِ ثانی ہے۔ ’’ وَلَمَّا‘‘ کا ’’ وائو ‘‘ حالیہ ہے۔’’ لَمَّا‘‘ نے ’’ یَاْتِیْ‘‘ کو مجزوم کیا تو ’’ یا‘ ‘ گر گئی اس لیے ’’ یَاْتِ‘‘ آیا ہے۔’’ کُمْ‘‘ اس کا مفعول ہے اور ’’ مَثَلُ الَّذِیْنَ‘‘ اس کا فاعل ہے۔ ’’ مَسَّتْ‘‘ کا مفعول ’’ ھُمْ‘‘ ہے جو ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ کے لیے ہے‘ جبکہ ’’ اَلْبَاْسَآئُ‘‘ اور ’’ اَلضَّرَّآئُ‘‘ اس کے فاعل ہیں۔’’ زُلْزِلُوْا‘‘ کا نائب فاعل اس کی ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ مَعَہٗ‘‘ کی ضمیر ’’ اَلرَّسُوْلُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ مَتٰی‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ نَصْرُ اللّٰہِ‘‘ اس کی خبر ہے۔

 نوٹ (1) : آزمائش کی ضرورت اور حکمت پر سورۃ البقرۃکی آیت 155 کے نوٹ 2 میں بات ہو چکی ہے۔ يَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ    ٢١٥؁
[ یَسْئَلُوْنَکَ : وہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے کہ] [ مَاذَا : کتنا ] [ یُنْفِقُوْنَ : وہ لوگ خرچ کریں ] [ قُلْ : ( آپؐ ) کہہ دیجیے کہ ] [ مَآ : جو ] [ اَنْفَقْتُمْ : تم لوگ خرچ کرو گے] [ مِّنْ خَیْرٍ : جتنا بھی مال ] [ فَلِلْوَالِدَیْنِ : تو وہ ہے والدین کے لیے] [ وَالْاَقْرَبِیْنَ : اور قرابت داروں کے لیے] [ وَالْیَتٰمٰی: اور یتیموں کے لیے ] [ وَالْمَسٰکِیْنِ : اور مسکینوں کے لیے ] [ وَابْنِ السَّبِیْلِ: اور مسافروں کے لیے] [ وَمَا : اور جو ] [ تَفْعَلُوْا: تم لوگ کرو گے ] [ مِنْ خَیْرٍ : کسی قسم کی کوئی بھلائی ] [ فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [ بِہٖ : اس کو ] [ عَلِیْمٌ: ہر حال میں جاننے والا ہے]

 

 ترکیب : ’’ یَسْئَلُوْنَ‘‘ کا فاعل اس کی ضمیر ’’ ھُمْ‘‘ ہے جو صحابۂ کرام (رض)  کے لیے ہے۔ ’’ کَ‘‘ اس کی ضمیر مفعولی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے لیے ہے۔ ’’ مَاذَا‘‘ اسمِ استفہام ہے اور کیا کچھ اور کتنا کے معنی میں آتا ہے۔’’ مَا اَنْفَقْتُمْ‘‘ کا ’’ ما‘‘ شرطیہ ہے۔’’ اَنْفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَلِلْوَالِدَیْنِ‘‘ سے ’’ وَابْنِ السَّبِیْلِ‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔ ’’ مِنْ خَیْرٍ‘‘ کا ’’ مِنْ‘‘ بیانیہ بھی ہو سکتا ہے اور تبعیضیہ بھی اور ’’ اَنْفَقْتُمْ‘‘ کا مفعول ہونے کی وجہ سے ’’ خَیْرٍ‘‘ کا ترجمہ مال ہو گا۔ ’’ فَلِلْوَالِدَیْنِ‘‘ سے پہلے اس کا مبتدأ’’ ھُوَ‘‘ اور خبر دونوں محذوف ہیں۔ اس کے حرفِ جر ’’ لِ‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے ’’ وَالْاَقْرَبِیْنَ‘‘ سے ’’ وَابْنِ السَّبِیْلِ‘‘ تک الفاظ مجرور ہیں‘ اور یہ سب محذوف متعلق خبر ہیں۔ ’’ ابْنِ السَّبِیْلِ‘‘ واحد اور جمع دونوں کے لیے آتا ہے اور یہاں جمع کے معنی میں ہے۔

 ’’ مَا تَفْعَلُوْا‘‘ کا ’’ مَا‘‘ بھی شرطیہ ہے اس لیے ’’ تَفْعَلُوْنَ‘‘ کا نونِ اعرابی گرا ہوا ہے۔ ’’ تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ‘‘ جوابِ شرط ہے۔ ’’ مِنْ خَیْرٍ‘‘ کا ’’ مِنْ‘‘ تبعیضیہ بھی ہو سکتا ہے اور بیانیہ بھی اور ’’ تَفْعَلُوْا‘‘ کا مفعول ہونے کی وجہ سے ’’ خَیْرٍ‘‘ کا ترجمہ بھلائی ہو گا۔

 ’’ عَلِمَ‘ یَعْلَمُ‘‘ کا مفعول بنفسہٖ آتا ہے۔ یعنی ’’ عَلِمَ بِہٖ‘‘ نہیں کہتے بلکہ ’’ عَلِمَہٗ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن افعل تفضیل ’’ اَعْلَمُ‘‘ اور ’’ عَلِیْمٌ‘‘ کے ساتھ ’’ بِ‘‘ کا صلہ آتا ہے‘ جیسے اس آیت میں ’’ بِہٖ عَلِیْمٌ‘‘ آیا ہے۔

 نوٹ (1) : آگے آیت 219 میں یہی سوال پھر آ رہا ہے۔ البتہ وہاں پر جواب مختلف ہے۔ وہیں پر دونوں کی کچھ وضاحت کی جائے گی۔ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـيْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ   ٢١٦؀ۧ
[ کُتِبَ : فرض کیا گیا ] [ عَلَـیْکُمُ: تم لوگوں پر ] [ الْقِتَالُ : جنگ کرنا ] [ وَہُوَ : اور وہ ] [ کُرْہٌ : ناگوار ہے ] [ لَّــکُمْ : تمہارے لیے ] [ وَعَسٰٓی : اور ہو سکتا ہے ] [ اَنْ : کہ ] [ تَکْرَہُوْا : تم لوگ ناپسند کرو] [ شَیْئًا : کسی چیز کو ] [ وَّ : اس حال میں کہ ] [ ہُوَ: وہ] [ خَیْرٌ : بھلائی ہے ] [ لَّــکُمْ : تمہارے لیے ] [ وَعَسٰٓی : اور ہو سکتا ہے ] [ اَنْ : کہ ] [ تُحِبُّوْا : تم لوگ محبت کرو] [ شَیْئًا : کسی چیز سے ] [ وَّ : اس حال میں کہ ] [ ہُوَ : وہ ] [ شَرٌّ : برائی ہے ] [ لَّــکُمْ : تمہارے لیے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ یَعْلَمُ : جانتا ہے ] [ وَاَنْتُمْ : اور تم لوگ ] [ لاَ تَعْلَمُوْنَ: نہیں جانتے۔]

 

ک ر ھ

 کَرُھَ (ک) کَرَاھَۃً : بدنما ہونا‘ برا ہونا۔

 کَرِھَ (س) کَرْھًا اور کُرْھًا : کسی چیز کو برا سمجھنا‘ ناپسند کرنا۔ {وَیُحِقُّ اللّٰہُ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ ۔ } (یونس) ’’ اور حق کرتا ہے اللہ حق کو اپنے فرمانوں سے اور اگر (یعنی خواہ) ناپسند کریں مجرم لوگ۔‘‘

 کُرْھٌ : مصدر کے علاوہ صفت بھی ہے : ناپسندیدہ‘ آیت زیر مطالعہ۔

 کَارِہٌ (فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل) : ناپسند کرنے والا۔ {وَاَکْثَرُھُمْ لِلْحَقِّ کٰرِھُوْنَ ۔ } (المؤمنون) ’’ اور ان کے اکثر حق کو ناپسند کرنے والے ہیں۔‘‘

 مَکْرُوْہٌ (مَفْعُوْلٌ کے وزن پر صفت) : ناپسند کیا ہوا ‘ یعنی ناپسندیدہ۔ {کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا ۔ } (بنی اسرائیل ) ’’ یہ سب‘ اس کی برائی‘ تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔‘‘

 اَکْرَہَ (افعال) اِکْرَاھًا : ناپسندیدہ کام پر مجبور کرنا‘ زبردستی کرنا۔ {اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ۔ } (یونس) ’’ تو کیا آپؐ ‘ مجبور کریں گے لوگوں کو یہاں تک کہ وہ ہوجائیں مؤمن؟‘‘

 کَرَّہَ (تفعیل) تَکْرِیْھًا : کسی کے لیے کسی چیز کو ناپسندیدہ بنا دینا۔ {وَکَرَّہَ اِلَـیْـکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَط} (الحُجُرات:7) ’’ اور اس نے ناگوار کردیا تمہارے لیے کفر کو اور فسق کو اور نافرمانی کو۔‘‘

ش ر ر

 شَرَّ (ن۔ ض) شَرًّا : فسادی ہونا‘ نقصان دہ ہونا‘ برا ہونا۔

 شَرٌّج اَشْرَارٌ (اسمِ ذات بھی ہے) : فساد‘ برائی۔ آیت زیر مطالعہ ۔ {مَالَـنَا لَا نَرٰی رِجَالًا کُنَّا نَعُدُّھُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ ۔ } (صٓ) ’’ ہمیں کیا ہوا کہ ہم نہیں دیکھتے ان لوگوں کو جنہیں ہم شمار کیا کرتے تھے بروں میں سے ۔‘‘

 شَرَرٌ (اسم جنس) واحد شَرَرَۃٌ اور شَرَارَۃٌ : آگ کی اڑنے والی چنگاریاں۔ {اِنَّھَا تَرْمِیْ بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ ۔ } (المُرسلٰت) ’’ بیشک وہ پھینکتی ہے چنگاریاں جیسے محل۔‘‘

 ترکیب : ’’ کُتِبَ‘‘ کا نائب فاعل ’’ الْقِتَالُ‘‘ ہے۔ ’’ ھُوَ‘‘ مبتدأ ہے اور یہ ’’ اَلْقِتَالُ‘‘ کے لیے ہے‘ جبکہ ’’ کُرْہٌ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ عَسٰی‘‘ فعل مقاربہ ہے‘ اس کا اسم محذوف ہے اور جملہ فعلیہ ’’ اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ تَکْرَھُوْا‘‘ کا مفعول ’’ شَیْئًا‘‘ ہے۔ ’’ وَھُوَ خَیْـرٌ‘‘ کا ’’ وائو‘‘ حالیہ ہے اور ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر’’ شَیْئًا‘‘ کے لیے ہے۔

 نوٹ (1) : عربی کے افعالِ مقاربہ میں سے دو افعال قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں۔ پہلا فعل مقاربہ ’’ کَادَ‘ یَکَادُ ‘‘ سورۃ البقرۃ کی آیت 20 کے نوٹ 1 میں زیر بحث آ چکا ہے۔ دوسرا فعل مقاربہ ’’ عَسٰی‘‘ (اُمید ہے ‘ ہو سکتا ہے) اس آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔ اب آپ ان کے قواعد سمجھ لیں ‘ کیونکہ یہ ’’ آسان عربی گرامر‘‘ میں نہیں پڑھائے گئے۔

 1) افعالِ ناقصہ کی طرح افعالِ مقاربہ بھی کسی جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں‘ جن کا مبتدأ ان کا اسم کہلاتا ہے اور حالت رفعی میں رہتا ہے‘ جبکہ ان کی خبر حالت نصبی میں ہوتی ہے۔

 2) افعالِ ناقصہ اور افعالِ مقاربہ میں فرق یہ ہے کہ افعالِ مقاربہ کی خبر کی جگہ ہمیشہ کوئی فعل مضارع آتا ہے جو اپنی ضمیر فاعلی کے ساتھ مل کر جملہ فعلیہ بن کر فعل مقاربہ کی خبر بنتا ہے اور محلاً حالت نصبی میں سمجھا جاتا ہے۔ جیسے {عَسٰی رَبُّـکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ} (الاعراف:129) ۔ اس میں ’’ عَسٰی‘‘ کا اسم ’’ رَبُّـکُمْ‘‘ ہے اس لیے اس کے مضاف پر رفع آئی ہے۔ ’’ اَنْ یُّھْلِکَ‘‘ فعل مضارع اور ’’ عَدُوَّکُمْ‘‘ اس کا مفعول ہے‘ یہ جملہ فعلیہ ’’ عسٰی‘‘ کی خبر ہے اور محلاً حالت نصبی میں ہے۔

 3) افعالِ مقاربہ کے بعد جو فعل مضارع آتا ہے اس پر ’’ اَنْ‘‘ لگانا جائز ہے‘ البتہ ضروری نہیں ہے۔ لیکن ’’ عَسٰی‘‘ کے بعد اس کو لگانا بہتر ہے‘ جبکہ ’’ کَادَ‘‘ کے بعد نہ لگانا بہترہے۔

 4) ’’ عَسٰی‘‘ کے اسم کو محذوف بھی کیا جا سکتا ہے‘ جیسا کہ آیت زیر مطالعہ میں ہے‘ اور اس کے اسم کو فعل مضارع کے بعد بھی لا سکتے ہیں ‘ جیسے {عَسٰی اَنْ یَّــبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ۔ } (بنی اسرائیل) ۔ اس میں ’’ اَنْ یَّـبْعَثَ‘‘ فعل مضارع اور ’’ کَ‘‘ اس کی ضمیر مفعولی ہے‘ جبکہ ’’ عَسٰی‘‘ کا اسم ’’ رَبُّکَ‘‘ ہے جو فعل کے بعد آیا ہے۔ لیکن یہ صورتیں ’’ کَادَ‘‘ کے ساتھ جائز نہیں ہیں۔

 5) ’’ کَادَ‘‘ (ماضی) اور ’’ یَکَادُ‘‘ (مضارع) دونوں کے صیغے استعمال ہوتے ہیں‘ لیکن ’’ عَسٰی‘‘ کے صرف ماضی کے صیغے مستعمل ہیں۔

 6) ’’ شَرَعَ‘ طَفِقَ‘ جَعَلَ‘ قَامَ اور ’’ اَخَذَ‘‘ افعالِ مقاربہ نہیں ہیں ‘ لیکن کبھی کبھی یہ افعالِ مقاربہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔ اس وقت ان کے فعل مضارع کے ساتھ ’’ اَنْ‘‘ نہیں آتا اور ایسی صورت میں ان سب کے معنی ہوتے ہیں’’ مذکورہ کام شروع کرنا یاکرنے لگنا‘‘۔ جیسے ’’ اَخَذَ الطِّفْلُ یَمْشِیْ‘‘۔ یہاں اگر ’’ اَخَذَ‘‘ کو فعل اصلی مانیں تو اس جملے کا مطلب ہو گا ’’ بچے نے پکڑا وہ چلتا ہے‘‘۔ یہ بات مبہم ہے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ یہاں’’ اَخَذَ‘‘ فعل مقاربہ کی طرح آیا ہے اور اس جملے کا مطلب ہے ’’ بچے نے چلنا شروع کیا یا چلنے لگا‘‘۔

 نوٹ (2) : ہم میں سے ہر شخص کو blessing in disguise (برائی کے بھیس میں بھلائی) کا تجربہ ہے ‘ لیکن یہ تجربہ کبھی کبھارہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کبھی کسی برائی میں پوشیدہ بھلائی ذرا جلدی سامنے آ جاتی ہے تو ہمارا ذہن ان کے مابین ربط کو پہچاننے میں کامیاب ہو جاتا ہے ‘ اور ہم کہتے ہیں کہ یہ وہ بھلائی ہے جو فلاں برائی کے بھیس میں میرے پاس آئی تھی۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پوشیدہ بھلائی کا ظہور اتنے وقفہ کے بعدہوتا ہے کہ ہم اس کے ربط کو پہچان نہیں پاتے۔ جو لوگ اس پہلو سے اپنے حالات پر غور و فکر کرتے رہتے ہیں وہ اس نوعیت کے روابط کو دوسروں سے زیادہ پہچان لیتے ہیں اور اس حقیقت پر ان کا ایمان اتنا پختہ ہوتا ہے جتنا کہ ہونا چاہیے۔

 اس آیت کی راہنمائی میں صحیح طرزِ فکر یہ ہے کہ جب ہماری کسی کوشش اور جدوجہد کا نتیجہ ہماری توقع کے مطابق نہ نکلے تو ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ یہ مِن جانب اللہ ہے‘ کیونکہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی پتہ بھی جنبش نہیں کرسکتا۔ پھر ہمیں خود کو یاد دلانا چاہیے کہ اللہ ہمارا رب ہے اور وہ ہم سے بڑھ کر ہمارا خیر خواہ ہے‘ اس کے ہاتھ میں خیر ہے اور وہ اِس پر قادر ہے کہ وہ رات میں سے دن کو نکال لائے‘ اس لیے یقینا اس میں ہمارے لیے کوئی خیر ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے‘ لیکن وہ اس وقت یقینا ظاہر ہوگی جب اس کا ظاہر ہونا ہمارے حق میں مفید ہو گا۔

 سوچ کا یہ انداز ایسے حقائق پر مبنی ہے جو پوری طرح ہمارے ذہن کی گرفت میں نہیں آتے ‘ لیکن ایک انسان سچے یقین کے ساتھ اگر سوچ کا یہ انداز اختیار کرلے تو اس کی نفسیاتی صحت کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایک ٹانک ہے جو اسے بےشمار نفسیاتی بیماریوں (psychological disorders) سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ اس کی نقد بھلائی ہے۔ اور پوشیدہ بھلائی کا ظہور تو اپنے وقت پر ہو گا ہی‘ خواہ ہم اس کے ربط کو پہچانیں یا نہ پہچانیں۔ يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ ۭ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ ۭ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۤ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا  ۭ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ  ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ   ٢١٧؁
[ یَسْئَلُوْنَکَ : وہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے] [ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ: محترم مہینوں کے بارے میں ] [ قِتَالٍ فِیْہِ: (یعنی) ان میں جنگ کرنے کے بارے میں ] [ قُلْ : آپؐ ‘ کہہ دیجیے] [ قِتَالٌ : جنگ کرنا ] [ فِیْہِ : ان میں ] [ کَبِیْرٌ: بڑا (گناہ) ہے ] [ وَصَدٌّ : اور روکنا ] [ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کے راستے سے ] [ وَکُفْرٌ: اور انکار کرنا ] [ بِہٖ : اس کا ] [ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : اور مسجد حرام (سے روکنا) ] [ وَاِخْرَاجُ اَہْلِہٖ : اور اس کے لوگوں کو نکالنا] [ مِنْہُ : اس سے ] [ اَکْبَرُ : زیادہ بڑا (گناہ) ہے] [ عِنْدَ اللّٰہِ : اللہ کے نزدیک ] [ وَالْفِتْنَۃُ : اور ہر تشدد] [ اَکْبَرُ : زیادہ بڑا (گناہ) ہے] [ مِنَ الْقَتْلِ : قتل سے ] [ وَلاَ یَزَالُوْنَ : اور ہمیشہ ] [ یُقَاتِلُوْنَــکُمْ : وہ لوگ جنگ کریں گے تم لوگوں سے ] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ یَرُدُّوْکُمْ : وہ پھیر دیں تم کو ] [ عَنْ دِیْنِکُمْ : تمہارے دین سے ] [ اِنِ اسْتَطَاعُوْا: اگر ان کے بس میں ہو] [ وَمَنْ : اور جو ] [ یَّرْتَدِدْ : واپس پھرا ] [ مِنْکُمْ : تم میں سے ] [ عَنْ دِیْـنـِہٖ : اپنے دین سے ] [ فَـیَمُتْ : پھر وہ مرا ] [ وَہُوَ : اس حال میں کہ وہ ] [ کَافِرٌ : کافر ہے ] [ فَاُولٰٓئِکَ : تو یہ وہ لوگ ہیں ] [ حَبِطَتْ : اکارت ہوئے ] [ اَعْمَالُہُمْ : جن کے اعمال ] [ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ : دنیا اور آخرت میں] [ وَاُولٰٓئِکَ : اور وہ لوگ ] [ اَصْحٰبُ النَّارِ: آگ والے ہیں ] [ ہُمْ : وہ لوگ ] [ فِیْہَا : اس میں ] [ خٰلِدُوْنَ: ہمیشہ رہنے والے ہیں]

 

ص د د

 صَدَّ (ن ۔ ض) صَدًّا اور صُدُوْدًا : (1) کسی چیز سے رُک جانا (لازم) ۔ (2) کسی کو کسی چیز سے روک دینا (متعدی) ۔ {فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِہٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْہُ ط} (النسائ:55) ’’ تو ان میں وہ بھی ہیں جو ایمان لائے اس پر اور ان میں وہ بھی ہیں جو رُک گئے اس سے۔‘‘{اَنَحْنُ صَدَدْنٰـکُمْ عَنِ الْھُدٰی…} (سبا:32) ’’ کیا ہم نے روکا تم کو ہدایت سے…؟‘‘

 صَدِیْدٌ (فَعِیْلٌ کا وزن) : خون ملا ہوا مواد ‘ پیپ (کیونکہ یہ کھال اور گوشت کے درمیان رُکاوٹ ہوتی ہے) {وَیُسْقٰی مِنْ مَّـائٍ صَدِیْدٍ ۔ } (ابرٰھیم) ’’ اور وہ پلایا جائے گا پیپ والے پانی میں سے۔‘‘

ز ی ل

 زَالَ (ف) زَیْلًا : کسی چیز کا اپنی جگہ سے ہٹنا‘ زائل ہونا۔

 مَا زَال اور لَا یَزَالُ افعال ناقصہ میں سے ہیں۔

 زَیَّلَ (تفعیل) تَزْیِیْلًا : الگ الگ کرنا‘ جدا جدا کرنا۔ {ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا مَکَانَـکُمْ اَنْتُمْ وَشُرَکَآؤُکُمْج فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ} (یونس:28) ’’ پھر ہم کہیں گے ان سے جنہوں نے شرک کیا کہ رہو اپنی جگہ‘ تم بھی اور تمہارے شرکاء بھی‘ پس ہم الگ الگ کریں گے ان کو ایک دوسرے سے ۔‘‘

 تَزَیَّلَ (تفعّل) تَزَیُّلًا : الگ الگ ہونا۔ {لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ۔ } (الفتح) ’’ اگر وہ لوگ الگ الگ ہوتے تو ہم ضرور عذاب دیتے ان کو دردناک عذاب جنہوں نے کفر کیا ان میں سے۔‘‘

ح ب ط

 حَبِطَ (س) حَبْطاً : کسی چیز کا اکارت ہونا‘ بےکار ہونا۔ {وَمَنْ یَّــکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ز} (المائدۃ:5) ’’ اور جو انکار کرتا ہے ایمان کا تو اکارت گیا اس کا عمل۔‘‘

 اَحْبَطَ (افعال) اِحْبَاطًا : کسی چیز کو اکارت کر دینا۔ {ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَرِھُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَھُمْ ۔ } (محمد) ’’ یہ اس لیے کہ انہوں نے ناپسند کیا اس کو جو اللہ نے اتارا تو اس نے اکارت کردیا ان کے اعمال کو۔‘‘

 ترکیب : ’’ اَلشَّھْرِ‘‘ پر لامِ جنس ہے اور ’’ اَلْحَرَامِ‘‘ اس کی صفت ہونے کی وجہ سے معرّف باللّام ہے۔ اس مرکبِ توصیفی کا بدل ہونے کی وجہ سے ’’ قِتَالٍ‘‘ مجرور ہے۔ ’’ فِیْہِ‘‘ میں ’’ ہٗ ‘‘ کی ضمیر ’’ اَلشَّھْرِ الْحَرَامِ‘‘ کے لیے ہے اور لفظی رعایت کے تحت ضمیر واحد آئی ہے ‘ لیکن لامِ جنس کی وجہ سے دونوں جگہ ترجمہ جمع میں ہو گا۔’’ قُلْ‘‘ کے بعد قاعدئہ کلیہ کا بیان ہے اس لیے ’’ قِتَالٌ‘‘ مبتدأ نکرہ آیا ہے اور ’’ کَبِیْرٌ‘‘ اس کی خبر ہے ‘ اور یہ بذات خود صفت ہے جبکہ اس کا موصوف ’’ اِثْمٌ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ وَصَدٌّ‘‘ سے ’’ اَھْلِہٖ مِنْہُ‘‘ تک پورا فقرہ مبتدأ ہے۔ اس میں ’’ بِہٖ‘‘ کی ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ’’ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ سَبِیْلٌ‘‘ مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اس لیے مذکر ضمیر بھی جائز ہے۔ ’’ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ کی جر بتا رہی ہے کہ یہ ’’ صَدٌّ عَنْ‘‘ پر عطف ہے۔ ’’ اَھْلِہٖ‘‘ اور ’’ مِنْہُ‘‘ کی ضمیریں ’’ اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ کے لیے ہیں۔ ’’ اَکْبَرُ‘‘ اس پورے فقرے کی خبر ہے اور اس کی تمیز ’’ اِثْمًا‘‘ محذوف ہے۔ ’’ وَالْفِتْنَۃُ‘‘ پر لامِ جنس ہے۔

 ’’ لاَ یَزَالُوْنَ‘‘ سے ’’ عَنْ دِیْنِکُمْ‘‘ تک جوابِ شرط ہے اور ’’ اِنِ اسْتَطَاعُوْا‘‘ اس کی شرط ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ یَرْتَدِدْ‘‘ سے ’’ کَافِرٌ‘‘ تک شرط ہے جبکہ ’’ فَاُولٰٓئِکَ‘‘ سے ’’ وَالْاٰخِرَۃِ‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔ شرط ہونے کی وجہ سے ’’ یَرْتَدِدْ‘‘ اور ’’ یَمُتْ‘‘ مجزوم ہیں۔ ’’ اَعْمَالٌ‘‘ غیر عاقل کی جمع مکسر ہے اس لیے فعل ’’ حَبِطَتْ‘‘ واحد مؤنث آیا ہے۔’’ اَلدُّنْیَا‘‘ اور’’ اَلْاٰخِرَۃِ‘‘ دونوں صفت ہیں اور ان دونوں کا موصوف ’’ اَلْحَیٰوۃِ‘‘ محذوف ہے۔

 نوٹ (1) : البقرۃ کی آیت 191 کے نوٹ (3) میں بیان کیا گیا تھا کہ وہاں پر لفظ’’ اَلْفِتْنَۃُ‘‘ تشدّد کے معنی میں آیا ہے۔ اب نوٹ کرلیں کہ آیت زیر مطالعہ اس بات کی سند ہے‘ کیونکہ یہاں جبر و تشدد کی مثالیں دینے کے بعد وہی بات کہی گئی ہے کہ تشدد خواہ کسی بھی شکل میں ہو ‘ وہ بہرحال قتل سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔

 نوٹ (2) : اِرْتِدَادٌ کا اصل مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوا اور پھر اسلام چھوڑ کر اپنے پہلے مذہب میں واپس چلا گیا۔ ابتدائِ اسلام میں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوتا تھا اور ’’ مُرتد‘‘ ایسے شخص کو کہتے تھے جو اسلام چھوڑ کر اپنے پرانے مذہب میں واپس چلا جاتا۔ لیکن اصطلاحاً اب یہ ایسے لوگوں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا ہے جو اسلام میں تھے اور پھر انہوں نے کوئی دوسرا مذہب قبول کر لیا۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ    ٢١٨؁
[ اِنَّ : بیشک ] [ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے] [ وَالَّذِیْنَ : اور جن لوگوں نے ] [ ہَاجَرُوْا : ہجرت کی ] [ وَجٰہَدُوْا : اور جہاد کیا ] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [ اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ ] [ یَرْجُوْنَ : اُمید رکھتے ہیں] [ رَحْمَتَ اللّٰہِ : اللہ کی ] [ رحمت کی ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ غَفُوْرٌ : بےانتہا بخشنے والا ہے ] [ رَّحِیْمٌ : ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

 

ھ ج ر

 ھَجَرَ (ن) ھَجْرًا : (1) قطع تعلق کرنا‘ چھوڑنا۔ (2) نیند یا بیماری میں بڑبڑانا‘ بلاسوچے سمجھے بکواس کرنا۔ {بِہٖ سٰمِرًا تَھْجُرُوْنَ ۔ } (المؤمنون) ’’ رات کی مجلس میں تم لوگ بکواس کرتے ہو۔‘‘

 اُھْجُرْ (فعل امر) : تو قطع تعلق کر‘ تو چھوڑ۔ {وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ ۔ } (المدّثّر) ’’ اور گندگی کو آپؐ چھوڑیں۔‘‘

 مَھْجُوْرٌ (اسم المفعول) : قطع تعلق کیا ہوا‘ چھوڑا ہوا۔ {یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا ۔ } (الفرقان) ’’ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے بنایا اس قرآن کو قطع تعلق کیا ہوا۔‘‘

 ھَاجَرَ (مفاعلہ) ھِجْرَۃً : (اس کا مصدر ’’ ھِجَارًا ‘‘ نہیں آتا۔ ’’ مُھَاجَرَۃً‘‘ جائز ہے ‘ لیکن زیادہ تر خلافِ معمول ’’ ھِجْرَۃً‘‘ استعمال ہوتا ہے) ۔ ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اپنانا‘ ہجرت کرنا۔ {یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَـیْھِمْ} (الحشر:9) ’’ وہ لوگ محبت کرتے ہیں اس سے جس نے ہجرت کی ان کی طرف۔‘‘

 مُھَاجِرٌ (اسم الفاعل) : ہجرت کرنے والا۔ {اِنِّیْ مُھَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْط} (العنکبوت:26) ’’ بیشک میں ہجرت کرنے والا ہوں اپنے رب کی طرف۔‘‘

رج و

 رَجَا (ن) رَجْوًا : کسی سے امید باندھنا‘ امید کرنا۔ {وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرْجُوْنَط} (النسائ:104) ’’ اور تم لوگ امید رکھتے ہو اللہ سے اس کی جس کی وہ لوگ امید نہیں رکھتے۔‘‘

 اُرْجُ (فعل امر) : تو امید رکھ۔ {یٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ} (العنکبوت:36) ’’ اے میری قوم! تم لوگ بندگی کرو اللہ کی اور امید رکھو آخرت کی۔‘‘

 مَرْجُوٌّ (اسم المفعول) : امید کیا ہوا (جس سے اُمیدیں وابستہ ہوں) ۔ {قَالُوْا یٰـصٰلِحُ قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَـبْلَ ھٰذَا} (ھود:62) ’’ انہوں نے کہا اے صالح (d)! تو رہا ہے ہم میں امید کیا ہوا اِس سے پہلے۔‘‘

 رَجَائٌ ج اَرْجَائٌ : کسی چیز کا کنارہ۔ {وَالْمَلَکُ عَلٰی اَرْجَائِ ھَاط} (الحاقّۃ:17) ’’ اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے۔‘‘

 اَرْجٰی (افعال) اِرْجَائً : کسی کو امید دلانا‘ ٹال دینا‘ مؤخر کرنا۔ {تُرْجِیْ مَنْ تَشَآئُ مِنْھُنَّ} (الاحزاب:51) ’’ آپؐ پیچھے کریں اس کو جس کو آپؐ چاہیں ان میں سے۔‘‘

 اَرْجِ (فعل امر) : تو ٹال‘ مؤخر کر۔ {قَالُوْا اَرْجِہْ وَاَخَاہُ وَاَرْسِلْ فِی الْمَدَائِنِ حٰشِرِیْنَ ۔ } (الاعراف) ’’ انہوں نے کہا تو ٹال دے اس کو اور اس کے بھائی کو اور تو بھیج شہروں میں جمع کرنے والوں کو۔‘‘

 ترکیب : ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ سے ’’ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ تک ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم ہے جبکہ ’’ اُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ‘‘ اس کی خبر ہے۔ جمع مؤنث سالم کے علاوہ جس لفظ کے لام کلمہ پر ’’ تا‘‘ آتی ہے اسے تائے مبسوط سے لکھتے ہیں۔ جیسے ’’ وَقْتٌ‘‘ کو ’’ وَقْۃٌ‘‘ لکھنا غلط ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر تائے مربوط استعمال ہوتی ہے۔ ’’ رَحْمَۃٌ‘‘ بھی تائے مربوط سے ہی لکھا جاتا ہے جبکہ ’’ رَحْمَتٌ‘‘ قرآن مجید کا مخصوص املاء ہے۔ يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلِ الْعَفْوَ  ۭ كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ    ٢١٩؀ۙ
[ یَسْئَلُوْنَکَ : وہ لوگ پوچھتے ہیں ] [ آپؐ سے] [ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ: جوئے اور شراب کے بارے میں ] [ قُلْ : آپؐ ‘ کہہ دیجیے ] [ فِیْہِمَآ : ان دونوں میں ] [ اِثْمٌ کَبِیْرٌ : ایک بڑاگناہ ہے ] [ وَّمَنَافِـعُ : اور کچھ فائدہ اٹھانے کی چیزیں ہیں] [ لِلنَّاسِ: لوگوں کے لیے] [ وَاِثْمُہُمَآ : اور ان دونوں کا گناہ] [ اَکْبَرُ : زیادہ بڑا ہے] [ مِنْ نَّفْعِہِمَا: ان دونوں کے فائدے سے] [ وَیَسْئَلُوْنَکَ : اور وہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے ] [ مَاذَا : کیا کچھ ] [ یُنْفِقُوْنَ: وہ لوگ خرچ کریں ] [ قُلِ : آپؐ ‘ کہہ دیجیے] [ الْعَفْوَ: (خرچ کرو) اضافی کو] [ کَذٰلِکَ : اس طرح ] [ وَیُـبَــیِّنُ : واضح کرتا ہے ] [ اللّٰہُ : اللہ

لَــکُمُ : تمہارے لیے ] [ الْاٰیٰتِ : نشانیوں (یعنی ہدایات) کو] [ لَـعَلَّـکُمْ : شاید کہ تم لوگ ] [ تَـتَــفَـکَّرُوْنَ : سوچ بچار کرو]

 

خ م ر

 خَمَرَ (ن) خَمْرًا : کسی چیز کو ڈھانپنا‘ چھپانا۔

 خَمْرٌ (اسم ذات بھی ہے) : شراب (کیونکہ یہ عقل کو ڈھانپ دیتی ہے) ۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 خِمَارٌ ج خُمُرٌ (اسم ذات) : دوپٹہ‘ اوڑھنی۔ {وَلْـیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنّ َص} (النور:31) ’’ اور خواتین کو چاہیے کہ وہ لپیٹیں اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر۔‘‘

ف ک ر

 فَـکَرَ (ض) فِـکْرًا : معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے چھان بین کرنا‘ سوچ بچار کرنا۔

 فَـکَّرَ (تفعیل) تَفْکِیْرًا : تسلسل سے سوچ وچار کرتے رہنا‘ کثرت سے سوچ بچار کرنا۔ {اِنَّہٗ فَـکَّرَ وَقَدَّرَ ۔ } (المدَّثِّر) ’’ بیشک اس نے بہت سوچ بچار کیا اور طے کیا۔‘‘

 تَفَکَّرَ (تفعّل) تَفَکُّرًا : بتکلف سوچ بچار کرنا۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ اِثْمٌ کَبِیْرٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے۔ اس کی خبر ’’ وَاجِبٌ‘‘ محذوف ہے اور قائم مقام خبر ’’ فِیْھِمَا‘‘ مقدم ہے اور اس کی ضمیر ’’ اَلْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ مَنَافِـعُ‘‘ بھی مبتدأ نکرہ ہے۔ اس کی خبر ’’ مَوْجُوْدَۃٌ‘‘ محذوف ہے اور ’’ لِلنَّاسِ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔’’ اَلْعَفْوَ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ اس سے پہلے ’’ اَنْفَقُوْا‘‘ محذوف ہے۔

 نوٹ (1) : زیر مطالعہ سورت کی آیت 184 کے نوٹ (1) میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اسلام کے کچھ احکام بتدریج نافذ کیے گئے تھے۔ چنانچہ آیت زیرِ مطالعہ میں بھی شراب اور جوئے کے متعلق پہلا عبوری حکم آیا ہے اور اس میں اس اصول کی طرف راہنمائی کی گئی ہے کہ اگر کسی چیز کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں تو اس کو چھوڑ دینے میں ہمارا اپنابھلا ہے۔

 شراب کے متعلق دوسرا عبوری حکم سورۃ النساء کی آیت 43 میں آیا جب نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کردیا گیا۔ اس کے بعد سورۃ المائدۃ کی آیت 90 میں شراب ‘ جوا اور کچھ مزید چیزوں کو حتمی طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔

 نوٹ (2) : آیت 215 اور آیت زیر مطالعہ میں انفاق کے متعلق سوال اور اس کے جواب کی وضاحت ’’ معارف القرآن‘‘ میں تفصیل سے کی گئی ہے‘ جس کا خلاصہ یہ ہے :

(1) پہلے سوال میں پوچھا گیا تھا کہ کتنا خرچ کریں اور کہاں خرچ کریں؟ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ ہمارے انفاق کے مستحق کون لوگ ہیں ۔ اور کتنا خرچ کریں؟ کے ضمن میں اصول بتا دیا کہ مالی انفاق ہو یا کوئی اور بھلائی ہو‘ جو بھی نیکی ہم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے‘ یعنی اس کا ثواب ہم کو مل جائے گا۔ دوسرے سوال میں صرف یہ پوچھا گیا تھا کہ کتنا خرچ کریں؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا کہ جو ضرورت سے زائد ہو وہ خرچ کرو۔

(2) ان دونوں سوالات کا تعلق نفلی انفاق سے ہے۔ کیونکہ فرض انفاق یعنی زکوٰۃ کے نصاب‘ اس کی مقدار اور اس کے مستحقین کے متعلق صحابۂ کرام (رض) کو ابہام نہیں تھا۔ (چونکہ نفلی عبادات میں مقدار کا تعین نہیں ہوتا اس لیے ان سوالات کے جواب میں بھی مقدار کا تعین نہیں کیا گیا۔ مرتب)

(3) نفلی انفاق کے مستحقین میں سرفہرست والدین اور رشتہ دار ہیں۔ اگر ثواب کی نیت سے ان کو تحفہ دیا جائے یا کھلایا جائے تو یہ انفاق فی سبیل اللہ میں شامل ہے۔

(4) اپنے زیر کفالت اہل و عیال کو تنگی میں ڈال کر انفاق کرنا ثواب نہیں ہے۔

(5) جو کچھ ضرورت سے زائد ہو وہ سارے کا سارا اللہ کی راہ میں خرچ کردینا ضروری یا واجب نہیں ہے۔ صحابۂ کرام (رض) کے عمل سے یہ بات ثابت ہے۔

 نوٹ (3) : اس مطالعہ کا نچوڑ اپنی سمجھ میں تو بس اتنا سا آیا ہے کہ جب ایک مرتبہ ہم کو بتادیا گیا کہ ہم جو بھی نیکی کریں گے اس کا ثواب ہمیں ملے گا‘ تو اب ہر شخص کو خود فیصلہ کرناچاہیے کہ اسے کتنے ثواب کی ضرورت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ سے پوچھنے والی کون سی بات ہے؟ اور جس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا وہ سوال علماء کرام سے پوچھنے کا کیا تُک ہے؟ فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ   ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي ۭ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ  ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ    ٢٢٠؁
[ فِی الدُّنْیَا : دنیا میں ] [ وَالْاٰخِرَۃِ : اور آخرت میں ] [ وَیَسْئَلُوْنَکَ : اور وہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے ] [ عَنِ الْیَتٰمٰی : یتیموں کے بارے میں ] [ قُلْ : آپؐ ‘ کہہ دیجیے] [ اِصْلاَحٌ : سنوارنا ] [ لَّــہُمْ : ان کے لیے ] [ خَیْرٌ : ایک بھلائی ہے ] [ وَاِنْ : اور اگر ] [ تُخَالِطُوْہُمْ : تم لوگ رَل مِل کر رہو ان کے ساتھ ] [ فَاِخْوَانُـکُمْ : تو وہ تمہارے بھائی ہیں ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ یَعْلَمُ : جانتا ہے ] [ الْمُفْسِدَ : فسادی لوگوں کو ] [ مِنَ الْمُصْلِحِ : سنوارنے والوں میں سے] [ وَلَوْ : اور اگر ] [ شَائَ : چاہتا ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ لَاَعْنَتَکُمْ : تو وہ مشکل میں ڈالتا تم لوگوں کو] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ عَزِیْزٌ : بالادست ہے ] [ حَکِیْمٌ : حکمت والا ہے ]

 

خ ل ط

 خَلَطَ (ض) خَلْطاً : مختلف چیزوں کے اجزاء کو باہم ملا دینا۔ {خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًاط} (التوبۃ:102) ’’ ان لوگوں نے ملایا نیک عمل کو اور دوسرے برے کو (یعنی برے عمل کو) ۔‘‘

 خَلِیْطٌ ج خُلَطَائُ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : حصہ دار‘ شریک۔ {وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَائِ لَـیَبْغِیْ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ} (صٓ:24) ’’ اور بیشک شرکاء میں سے اکثر زیادتی کرتے ہیں ایک دوسرے پر۔‘‘

 خَالَطَ (مفاعلہ) مُخَالَطَۃً اور خِلَاطًا : کسی کے ساتھ میل جول رکھنا‘ رَل مِل کر رہنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِخْتَلَطَ (افتعال) اِخْتِلَاطًا : مختلف چیزوں کا ایک دوسرے سے مل جانا‘ گتھ جانا۔ {فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَـبَاتُ الْاَرْضِ } (یونس:24) ’’ تو گتھ گیا اس سے زمین کا سبزہ۔‘‘

 ع ن ت

 عَنِتَ (س) عَنَتًا : مشکل میں پڑنا۔ {وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ ج} (آل عمران:118) ’’ وہ لوگ آرزو کرتے ہیں اس کی جس سے تم لوگ مشکل میں پڑو۔‘‘

 اَعْنَتَ (افعال) اِعْنَاتًا : کسی کو مشکل میں ڈالنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ خَیْرٌ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ اِنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ تُخَالِطُوْھُمْ‘‘ شرط ہے۔ ’’ فَاِخْوَانُـکُمْ‘‘ جوابِ شرط ہے اور یہ خبر ہے۔ اس کا مبتدأ ’’ ھُمْ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ اَلْمُفْسِدَ‘‘ اور ’’ اَلْمُصْلِحِ‘‘ پر لامِ جنس ہے۔ ’’ لَــوْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ شَآئَ اللّٰہُ‘‘ شرط اور ’’ لَاَعْنَتَـکُمْ‘‘ جوابِ شرط ہے۔

 نوٹ (1) : زیر مطالعہ سورۃ کی آیت 184 کے نوٹ (1) میں بتایا گیا تھا کہ اسلام کے کچھ احکام بتدریج نافذ کیے گئے تھے۔ اب نوٹ کرلیں کہ کچھ احکام میں صورت حال اس کے برعکس بھی تھی۔ یعنی پہلے سخت حکم آیا اور پھر بعد میں اس میں نرمی کی گئی۔ آیت زیر مطالعہ اس قسم کے احکام کی ایک مثال ہے۔

 پہلے سورۃ الانعام کی آیت 152 میں حکم آیا تھا کہ یتیم کے مال کے قریب بھی مت جائو سوائے اس طریقے کے جو بہترین ہو۔ پھر سورئہ بنی اسرائیل کی آیت 34 میں بالکل انہی الفاظ میں اس حکم کا اعادہ کیا گیا۔ چنانچہ صحابہ کرام (رض) نے اپنے زیر کفالت یتیموں کا حساب بالکل الگ کر دیا‘ یہاں تک کہ ان کے کھانے بھی الگ پکتے تھے اور اس میں سے یتیم کے علاوہ کوئی دوسرا فرد کچھ نہیں کھاتا تھا۔ اس کی وجہ سے کچھ قباحتیں بھی پیدا ہوئیں اور مغائرت اور دوری کا احساس بھی پیدا ہوا۔ صحابہ کرام (رض) نے جب یہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس حکم میں نرمی کی گئی۔ وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ  ۭوَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا ۭ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ښ وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ ۚ وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَــتَذَكَّرُوْنَ    ٢٢١؀ۧ
[ وَلاَ تَنْکِحُوا : اور تم لوگ نکاح مت کرو] [ الْمُشْرِکٰتِ : مشرک خواتین سے ] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ یُؤْمِنَّ : وہ ایمان لے آئیں] [ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ : اور یقینا کوئی مومن کنیز] [ خَیْرٌ : بہتر ہے ] [ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ : کسی مشرک خاتون سے] [ وَّلَوْ : اور خواہ ] [ اَعْجَبَتْکُمْ : وہ دلکش لگے تم لوگوں کو] [ وَلاَ تُـنْـکِحُوا : اور تم لوگ نکاح میں مت دو] [ الْمُشْرِکِیْنَ : مشرکوں کے ] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ یُؤْمِنُوْا : وہ لوگ ایمان لے آئیں] [ وَلَــعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ: اور یقینا ایک مومن غلام] [ خَیْرٌ : بہتر ہے ] [ مِّنْ مُّشْرِکٍ : کسی مشرک سے ] [ وَّلَــوْ: اور خواہ ] [ اَعْجَبَکُمْ : وہ بھلا لگے تم کو ] [ اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ ] [ یَدْعُوْنَ : بلاتے ہیں ] [ اِلَی النَّارِ : آگ کی طرف ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ یَدْعُوْآ : بلاتا ہے ] [ اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ : جنت اور مغفرت کی طرف] [ بِاِذْنِہٖ : اپنی اجازت سے ] [ وَیُـبَــیِّنُ : اور وہ واضح کرتا ہے] [ اٰیٰتِہٖ : اپنی نشانیوں کو ] [ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے ] [ لَعَلَّہُمْ : شاید کہ وہ لوگ ] [ یَتَذَکَّرُوْنَ : یاد دہانی حاصل کریں]

 

ن ک ح

 نَـکَحَ (ض) نَـکْحًا : شادی کرنا‘ کسی سے نکاح کرنا۔ {فَــلَا تَحِلُّ لَــہٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ط} (البقرۃ:230) ’’ تو وہ خاتون حلال نہیں ہے اس کے لیے اس کے بعد یہاں تک کہ وہ خاتون نکاح کرے کسی شوہر سے اس کے علاوہ۔‘‘

 اِنْکِحْ (فعل امر) : تو نکاح کر۔ {فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ} (النسائ:25) ’’ پس تم لوگ نکاح کرو ان خواتین سے ان کے گھر والوں کی اجازت سے۔‘‘

 نِکَاحٌ (اسم فعل) : شادی‘ نکاح۔ {اِلاَّ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِط} (البقرۃ:237) ’’ سوائے اس کے کہ وہ خواتین معاف کر دیں یا وہ بڑھا دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔‘‘

 اَنْـکَحَ (افعال) اِنْکَاحًا : کسی کو کسی کے نکاح میں دینا۔ {اِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ اِحْدَی ابْنَتَیَّ ھٰتَیْنِ} (القصص:27) ’’ بیشک میں ارادہ رکھتا ہوں کہ میں نکاح میں دوں تیرے اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کو۔‘‘

 اَنْـکِحْ (فعل امر) : تو نکاح میں دے۔ {وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ} (النور:32) ’’ اور تم لوگ نکاح میں دو اپنوں میں سے بیوائوں کو۔‘‘

 اِسْتَنْکَحَ (استفعال) اِسْتِنْکَاحًا : کسی سے نکاح کرنا یا نکاح چاہنا۔ {اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَھَاق} (الاحزاب:50) ’’ اگر ارادہ کریں نبی (ﷺ) کہ وہ نکاح کریں اس سے۔‘‘

ء م و

 أَمَا (ن) اُمُوَّۃً : کسی عورت کا لونڈی بننا‘ کنیز بننا۔

 اَمَۃٌ ج اِمَائٌ (اسم ذات) : لونڈی‘ کنیز۔ آیت زیر مطالعہ۔ {وَاَنْـکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَائِکُمْط} (النور:32) ’’ اور تم لوگ نکاح میں دو اپنوں میں سے بیوائوں کو اور اپنے نیک غلاموں کو اور کنیزوں کو۔‘‘

 ترکیب : ’’ لاَ تَنْکِحُوْا‘‘ باب ضرب سے فعل نہی ہے۔ اس کا فاعل اس میں ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے۔ ’’ الْمُشْرِکٰتِ‘‘ اس کا مفعول ہے۔’’ یُؤْمِنَّ‘‘ جمع مؤنث غائب کا صیغہ ہے اس لیے اس پر ’’ حَتّٰی‘‘ کا اثر ظاہر نہیں ہوا۔ ’’ اَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ‘‘ مبتدأ نکرہ ہے اور اس پر لام تاکید ہے‘ جبکہ ’’ خَیْرٌ‘‘ اس کی خبر ہے۔ یہاں مبتدأ مونث ہے جبکہ اس کی خبر مذکر آئی ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ’’ خَیْرٌ‘‘ اسم التفضیل کے طور پر آیا ہے اور ’’ مِنْ‘‘ کے ساتھ استعمال ہونے کی صورت میں اسم التفضیل ہر حالت میں واحد اور مذکر ہی رہتا ہے خواہ اس کا موصوف یعنی مبتدأ تثنیہ یا جمع یا مؤنث ہی کیوں نہ ہو۔ ’’ لاَ تُنْکِحُوْا‘‘ باب افعال سے فعل نہی ہے۔ اس کے دو مفعول آتے ہیں۔ مفعول اوّل جس کے نکاح میں دیا اور مفعول ثانی جس کو نکاح میں دیا۔ ’’ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘ مفعول اوّل ہے جبکہ مفعول ثانی محذوف ہے۔ ’’ یُؤْمِنُوْا‘‘ جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور ’’ حَتّٰی‘‘ کی وجہ سے منصوب ہے‘ اس لیے اس کا نون اعرابی گرا ہوا ہے۔ ’’ یَدْعُوْا‘‘ دراصل مضارع کا واحد مذکر غائب کا صیغہ ’’ یَدْعُوْ‘‘ ہے۔ اس کے آگے ’’ الف‘‘ کا اضافہ قرآن مجید کا مخصوص املاء ہے۔ ’’ یُـبَـیِّنُ‘‘ کا فاعل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے۔

 نوٹ (1) : زیر مطالعہ سورۃ کی آیت 219 میں شراب اور جوئے سے اجتناب اور زکوٰۃ سے زیادہ خرچ کرنے کی ہدایت دراصل اصلاحِ معاشرہ کا سنگِ بنیاد ہے۔ پھر آیت 220 میں یتیموں کے حقوق کا ذکر اسی تصویر کا دوسرا رُخ ہے۔ اور اب آیت زیر مطالعہ سے شادی بیاہ کے معاملات کا ذکر شروع ہو رہا ہے جو آیت 242 تک جاری رہے گا۔ یہ بھی اصلاحِ معاشرہ کے اسی سنگِ بنیاد کا تیسرا زاویہ (dimension) ہے۔

 جب کوئی معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ ہوتا ہے تو اس میں برائیوں سے بچنا اور نیکیوں پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے‘ جس کے نتیجے میں مغفرت اور جنت کا حصول بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اور جب کوئی معاشرہ فتنوں اور فساد کا شکار ہو جاتا ہے تو صورت حال برعکس ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں دوزخ میں داخلہ آسان ہو جاتا ہے۔ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ ۭ قُلْ ھُوَ اَذًى ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْضِ ۙ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَـطْهُرْنَ ۚ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ   ٢٢٢؁
[ وَیَسْئَلُوْنَکَ : اور وہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے] [ عَنِ الْمَحِیْضِ : خون جاری ہونے کے وقت کے متعلق] [ قُلْ : آپؐ ‘ کہہ دیجیے] [ ہُوَ : وہ ] [ اَذًی: ایک تکلیف ہے ] [ فَاعْتَزِلُوا : پس تم لوگ کنارہ کش رہو] [ النِّسَآئَ : عورتوں سے ] [ فِی الْْمَحِیْضِ: خون جاری ہونے کے وقت میں ] [ وَلاَ تَقْرَبُوْہُنَّ : اور تم لوگ قریب مت ہو ان کے ] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ یَطْہُرْنَ : وہ پاک ہوں ] [ فَاِذَا : پھر جب ] [ تَطَہَّرْنَ : وہ خود کو پاک کرلیں ] [ فَاْتُوْہُنَّ : تو تم لوگ آئو ان کے پاس] [ مِنْ حَیْثُ : جہاں سے ] [ اَمَرَکُمُ : حکم دیا تم کو ] [ اللّٰہُ : اللہ نے] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ یُحِبُّ : پسند کرتا ہے ] [ التَّوَّابِیْنَ : بار بار توبہ کرنے والوں کو] [ وَیُحِبُّ : اور وہ پسند کرتا ہے ] [ الْمُتَطَہِّرِیْنَ : خود کو پاک رکھنے والوں کو]

 

ح ی ض

 حَاضَ (ض) حَیْضًا : مخصوص ایام میں خواتین کا خون جاری ہونا‘ ماہواری ہونا۔ {وَالّٰئِیْ لَمْ یَحِضْنَ ط} (الطلاق:4) ’’ اور وہ (عورتیں) جنہیں خون جاری نہیں ہوا۔‘‘

 مَحِیْضٌ (مَفْعِلٌ کے وزن پر اسم الظرف) : خون جاری ہونے کا وقت یا جگہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

ع ز ل

 عَزَلَ (ض) عَزْلاً : کسی کو جدا کر دینا‘ الگ کر دینا۔ {وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ} (الاحزاب:51) ’’ اور جس کو آپؐ چاہیں ان میں سے جن کو آپؐ نے الگ کیا۔‘‘

 مَعْزُوْلٌ (اسم المفعول) : جدا کیا ہوا‘ الگ کیا ہوا۔ {اِنَّـھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ ۔ } (الشُّعرائ) ’’ یقینا وہ لوگ سننے سے الگ کیے ہوئے ہیں۔‘‘

 مَعْزِلٌ (اسم الظرف) : الگ کرنے کی جگہ‘ کسی چیز کا کنارہ۔ {وَکَانَ فِیْ مَعْزِلٍ} (ھود:42) ’’ اور وہ تھا ایک کنارے پر۔‘‘

 اِعْتَزَلَ (افتعال) اِعْتِزَالاً : کسی سے الگ ہونا (جس سے الگ ہوں وہ کسی صلہ کے بغیر یعنی بنفسہ آتا ہے) ۔ {فَلَمَّا اعْتَزَلَھُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ} (مریم:49) ’’ پھر وہ کنارہ کش ہوئے ان لوگوں سے اور ان سے جن کی وہ بندگی کرتے تھے اللہ کے علاوہ۔‘‘

 ترکیب : ’’ ھُوَ‘‘ مبتدأ اور ’’ اَذًی‘‘ اس کی خبر ہے۔’’ یَطْھُرْنَ‘‘ ثلاثی مجرد سے فعل مضارع ہے اور جمع مؤنث غائب کا صیغہ ہے جبکہ ’’ تَطَھَّرْنَ‘‘ باب تفعل سے فعل ماضی میں جمع مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ ’’ فَاِذَا‘‘ حرفِ شرط ہے‘ ’’ تَطَھَّرْنَ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَاْتُوْا‘‘ سے لفظ ’’ اللّٰہُ‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔ نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ ۠ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ ۡ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ   ۭوَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ   ٢٢٣؁
[ نِسَآؤُکُمْ : تمہاری عورتیں ] [ حَرْثٌ : بیج ڈالنے کی ایک جگہ ہیں] [ لَّــکُمْ : تمہارے لیے ] [ فَاْتُوْا : پس تم لوگ آئو] [ حَرْثَــکُمْ : اپنی بیج ڈالنے کی جگہ میں] [ اَنّٰی : جیسے ] [ شِئْتُمْ : تم چاہو ] [ وَقَدِّمُوْا : اور آگے بھیجو] [ لِاَنْفُسِکُمْ : اپنے آپ کے لیے ] [ وَاتَّقُوا : اور تم لوگ تقویٰ اختیار کر و] [ اللّٰہَ : اللہ کا ] [ وَاعْلَمُوْآ : اور جان لو ] [ اَنَّــکُمْ : کہ تم لوگ ] [ مُّلٰـقُوْہُ : اس سے ملاقات کرنے والے ہو] [ وَبَشِّرِ : اور آپؐ بشارت دیجیے] [ الْمُؤْمِنِیْنَ: ایمان لانے والوں کو]

 

 ترکیب : ’’ نِسَائُ کُمْ‘‘ مبتدأ ہے ’’ حَرْثٌ‘‘ اس کی خبر ہے اور ’’ لَـــکُمْ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ مُلٰقُوْا‘‘ اسم الفاعل’’ مُلَاقٍ‘‘ کی جمع ’’ مُلٰقُوْنَ‘‘ تھا۔ مضاف ہونے کی وجہ سے نونِ اعرابی گر گیا اور ضمیر’’ ہُ‘‘ اس کا مضاف الیہ ہے‘ جو کہ اللہ کے لیے ہے۔

 نوٹ (1) : ’’ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ‘‘۔ یہ قرآن مجید کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں ایک عام قاری بھی بڑی آسانی سے محسوس کر لیتا ہے کہ کسی فلسفیانہ اور گہری بات کو اتنے مختصر اور عام فہم انداز میں سمجھانے کا اتنا سادہ اور دلنشیں انداز کسی انسانی کلام میں تو کہیں نہیں ملتا۔ اور اس کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے کہ واقعی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا ہی کلام ہے۔

 ایک کسان جب بیج ڈالتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ کچھ عرصے کے بعد وہ اس بیج کا پھل حاصل کرے گا جو اس کے کام آئے گا۔ گویا وہ بیج کو اپنے لیے آگے بھیجتا ہے۔ اسی طرح شوہر اور بیوی کے تعلقات کا مقصد یہ ہے کہ ان کے یہاں اولاد ہوجو اس دنیا میں اپنے ماں باپ کا دست و بازو بنے۔ اگر تربیت اور اللہ کی مدد سے وہ اولادصالح بھی ہو تو پھر وہ اپنے ماں باپ کے لیے آخرت کی کمائی کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔ اس بات کو اتنے دلنشیں اور شائستہ پیرائے میں سمجھا دینا‘ یہ قرآن مجید کا ہی اعجاز ہے۔ وَلَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَيْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَـتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَيْنَ النَّاسِ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ    ٢٢٤؁
[ وَلاَ تَجْعَلُوا : اور تم لوگ مت بنائو] [ اللّٰہَ : اللہ کو ] [ عُرْضَۃً : نشانہ ] [ لِّاَیْمَانِکُمْ : اپنی قسموں کے لیے ] [ اَنْ : کہ ] [ تَــبَـرُّوْا : تم لوگ حسن سلوک (نہ) کرو] [ وَتَـتَّــقُوْا : اور تقویٰ (نہ) کرو] [ وَتُصْلِحُوْا : اور اصلاح (نہ) کرو] [ بَیْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ سَمِیْعٌ : سننے والا ہے ] [ عَلِیْمٌ: جاننے والا ہے ]

 

ی م ن

 یَمِنَ (س) یَمْنًا : دا ‘ ہنی طرف ہونا۔

 یَمِیْنٌ ج أَیْمَانٌ (فَعِیْلٌ کا وزن) : کثیر المعانی ہے ۔ (1) دا ‘ ہنی سمت یا رخ۔ {اِنَّــکُمْ کُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْیَمِیْنِ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ بیشک تم لوگ آیا کرتے تھے ہمارے پاس دا ہنی طرف سے۔‘‘{ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَعَنْ اَیْمَانِھِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِھِمْط} (الاعراف:17) ’’ پھر میں لازماً پہنچوں گا ان کو ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دا‘ ہنی جانب سے اور ان کی بائیں جانب سے۔‘‘ (2) داہنا ہاتھ۔ {وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یٰمُوْسٰی ۔ } (طٰـہٰ) ’’ اور یہ کیا ہے آپؑ کے داہنے ہاتھ میں اے موسٰی ؑ۔‘‘ {اَوْ مَا مَلَـکَتْ اَیْمَانُھُمْ} (المؤمنون:6) ’’ یا جس کے مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ۔‘‘ (3) قسم (عرب لوگ داہنا ہاتھ اٹھا کر یا داہنے ہاتھ میں ہاتھ دے کر قسم کھاتے تھے) ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 مَیْمَنَۃٌ (مَفْعَلَۃٌ کے وزن پر اسم الظرف) : دا‘ ہنی طرف کی جگہ۔ {اُولٰٓـئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ ۔ } (البلد) ’’ وہ لوگ دا ‘ ہنی جگہ والے ہیں۔‘‘

 ترکیب : ’’ لَا تَجْعَلُوْا‘‘ فعل نہی ہے۔ اس کا فاعل اس میں ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے۔ لفظ ’’ اَللّٰہُ‘‘ اس کا مفعولِ اوّل اور ’’ عُرْضَۃً‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ تَـبَرُّوْا‘‘ ‘ ’’ تَـتَّـقُوْا‘‘ اور’’ تُصْلِحُوْا‘‘ یہ تینوں افعال ’’ اَنْ‘‘ کی وجہ سے منصوب ہیں۔

 نوٹ (1) : پہلے اردو کے دو جملوں پر غور کر لیں۔ (1) حامد سے بات مت کرو یہاں تک کہ وہ معافی مانگے۔ (2) حامد سے بات مت کرو جب تک کہ وہ معافی نہ مانگے۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ دونوں جملوں میں بات ایک ہی کہی گئی ہے‘ صرف انداز مختلف ہے۔ پہلے جملے میں لفظ ’’ مانگے‘‘ کے ساتھ ’’ نہ‘‘ لگانے کی ضرورت نہیں پڑی‘ جبکہ دوسرے جملے میں ’’ نہ‘‘ لگا کر مفہوم ادا ہوا ہے۔ اب نوٹ کرلیں کہ پہلے جملے کے انداز کا عربی میں رواج زیادہ ہے اس لیے آیت زیر مطالعہ میں فعل نہی کے بعد ’’ اَنْ‘‘ کے ساتھ ’’ لَا‘‘ لگانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ جبکہ اُردو میں دوسرے جملے کے انداز کا رواج زیادہ ہے‘ اس لیے ترجمہ میں ’’ نہ‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے تاکہ صحیح مفہوم واضح ہو جائے۔

 نوٹ (2) : اس آیت میں کوئی نیک کام نہ کرنے کی قسم اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اور انداز یہ اختیار کیا گیا ہے کہ اگر ایسی بری قسم کبھی اٹھا ہی بیٹھو تو اس میں کم از کم اللہ کو تو بیچ میں نہ لائو۔ یہ دراصل ممانعت کا ایک ہلکا پھلکا سا‘ مشفقانہ انداز ہے۔ اور ایک طرح سے یہ قسموں کے متعلق ان احکامات کا مقدمہ ہے جو آگے چل کر سورۃ المائدۃ اور سورۃ التحریم میں آنے والے ہیں۔ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ   ٢٢٥؁
[ لاَ یُؤَاخِذُ: جواب طلبی نہیں کرے گا] [ کُمُ : تم لوگوں سے ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ بِاللَّغْوِ : بےسوچی سمجھی بات پر ] [ فِیْ اَیْمَانِکُمْ : تمہاری قسموں میں ] [ وَلٰــکِنْ : اور لیکن (البتہ) ] [ یُّؤَاخِذُکُمْ : وہ جواب طلبی کرے گا تم سے] [ بِمَا : اس پر جو ] [ کَسَبَتْ : کمایا (قصد کیا) ] [ قُلُـوْبُکُمْ : تمہارے دلوں نے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ غَفُوْرٌ : بےانتہا بخشنے والا ہے

حَلِیْمٌ: ہمیشہ تحمل کرنے والا ہے ]

 

ل غ و

 لَغَا (ف) لَغْـوًا : بغیر سوچے سمجھے کوئی بات کہنا۔

 لَغْوٌ (اسم ذات) : (1) بےمعنی یا بیکار بات (2) بےفائدہ چیز یا کام۔ {وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ} (القصص:55) ’’ اور جب بھی وہ لوگ سنتے ہیں بیکار بات کو تو اعراض کرتے ہیں اس سے۔‘‘{وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۔ } (المؤمنون) ’’ وہ لوگ بےفائدہ چیز سے اعراض کرنے والے ہیں۔‘‘

 اِلْغَ(فعل امر) : تو بےمعنی بات کر۔{لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ} (حٰمٓ السجدۃ:26) ’’(منکرین حق کہتے ہیں) تم لوگ مت سنو اس قرآن کو اور بےمعنی بات کرو اس میں۔‘‘

 لَاغٍ (فَاعِلٌ کے وزن پر صفت) : بےسود‘ بے {لَا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً ۔ } (الغاشیۃ) ’’ وہ نہیں سنیں گے اس میں کوئی بےسود بات۔‘‘

ح ل م

 حَلَمَ (ن) حُلْمًا : خواب دیکھنا۔

 حَلُمَ (ک) حِلْمًا : غصہ میں خود پر قابو رکھنا‘ تحمل کرنا‘ بردبار ہونا۔

 حُلْمٌ ج اَحْلَامٌ : خواب۔ {وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِیْنَ ۔ } (یوسف) ’’ اور ہم خوابوں کی تعبیر جاننے والے نہیں ہیں۔‘‘

 حِلْمٌ ج اَحْلَامٌ : تحمل‘ بردباری‘ عقل‘ شعور (کیونکہ بردباری عقل و شعور سے آتی ہے اور یہ لازم و ملزوم ہیں) ۔ {اَمْ تَاْمُرُھُمْ اَحْلَامُھُمْ بِھٰذَا} (الطور:32) ’’ کیا مشورہ دیتے ہیں ان کو ان کے شعور اس کا؟‘‘

 حُلُـمٌ : عقل و شعور کی پختگی‘ بلوغت۔ {وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْکُمُ الْحُلُمَ} (النور:59) ’’ اور جب پہنچیں بچے تم میں سے بلوغت کو۔‘‘

 حَلِیْمٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : تحمل والا‘ بردبار۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ یُؤَاخِذُ‘‘ باب مفاعلہ کا فعل مضارع ہے ’’ کُمْ‘‘ ضمیر مفعولی ہے اور لفظ ’’ اَللّٰہُ‘‘ اس کا فاعل ہے۔ فاعل ’’ قُلُوْبُـکُمْ‘‘ غیر عاقل کی جمع مکسر ہے اس لیے فعل ’’ کَسَبَتْ‘‘ واحد مؤنث آیا ہے۔ لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ ۚ فَاِنْ فَاۗءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ    ٢٢٦؁
[ لِلَّذِیْنَ: ان لوگوں کے لیے جو ] [ یُؤْلُوْنَ: قسم کھاتے ہیں (قطع تعلق کی) ] [ مِنْ نِّسَآئِہِمْ : اپنی عورتوں سے ] [ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ: چار مہینے کا انتظار کرنا ہے ] [ فَاِنْ : پھر اگر ] [ فَــآ ئُ وْ : وہ لوٹ آئیں ] [ فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [ غَفُوْرٌ : بےانتہا بخشنے والا ہے ] [ رَّحِیْمٌ : ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ]

 

ء ل و

 أَلاَ (ن) اَلْــوًا : کسی کام میں کوتاہی کرنا۔ {لَا یَاْلُوْنَـکُمْ خَبَالًاط} (آل عمران:118) ’’ وہ لوگ کوتاہی نہیں کریں گے تم لوگوں کو برباد کرنے میں۔‘‘

 آلٰی (افعال) اِیْلَائً : کوتاہی کرنے کا عہد کرنا‘ کوئی کام نہ کرنے کی قسم کھانا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِئْتَلٰی (افتعال) اِیْتِلَائً : قسم کھانا۔

 لَا یَأْتَلِ (فعل نہی) : تو قسم مت کھا۔ {وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْآ اُولِی الْقُرْبٰی} (النور:22) ’’ اور قسم نہ کھائیں فضل والے تم میں سے اور وسعت والے کہ وہ (نہ) دیں گے قرابت والوں کو۔‘‘

ر ب ص

 رَبَصَ (ن) رَبْصًا : کسی موقع کی تاک میں رہنا۔

 تَرَبَّصَ (تفعل) تَرَبُّصًا : انتظار کرنا۔ {وَیَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَآئِرَط} (التوبۃ:98) ’’ اور وہ انتظار کرتا ہے تمہارے لیے گردشِ زمانہ کا۔‘‘

 تَرَبَّصْ (فعل امر) : تو انتظار کر۔ {فَـتَرَبَّصُوْا بِہٖ حَتّٰی حِیْنٍ ۔ } (المؤمنون) ’’ پس تم لوگ انتظار کرو اس کے لیے کچھ عرصہ تک۔‘‘

 مُتَرَبِّصٌ (اسم الفاعل) : انتظار کرنے والا۔ {فَتَرَبَّصُوْآ اِنَّا مَعَکُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ ۔ } (التوبۃ) ’’ تو تم لوگ انتظار کرو بیشک ہم تمہارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں۔‘‘

ف ی ء

 فَائَ (ض) فَـیْئًا : واپس ہونا‘ لوٹنا۔ {حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ج} (الحُجُرات:9) ’’ یہاں تک کہ وہ لوٹے اللہ کے حکم کی طرف۔‘‘

 اَفَائَ (افعال) اِفَائَ ۃً : واپس کرنا‘ لوٹانا ۔ (زیادہ تر ایسے مال غنیمت کے لیے آتا ہے جو بلامشقت حاصل ہو) ۔ {وَمَآ اَفَـــآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ} (الحشر:6) ’’ اور جو لوٹایا اللہ نے اپنے رسولؐ پر ان سے (یعنی ان سے لے کر) ۔‘‘

 تَفَیَّــأَ (تفعل) تَــفَــیُّؤًا : رُخ تبدیل کرنا‘ پلٹا کھانا۔ {اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْئٍ یَّـتَـفَـیَّؤُا ظِلٰلُہٗ} (النحل:48) ’’ تو کیا انہوں نے دیکھا نہیں اس کی طرف جو پیدا کیا اللہ نے کسی چیز سے کہ الٹتے ہیں ان کے سائے۔‘‘

 ترکیب : ’’ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْھُرٍ‘‘ مبتدأ مؤخر ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے جو ’’ ثَابِتٌ‘‘ ہو سکتی ہے‘ جبکہ ’’ لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِھِمْ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ فَاِنْ‘‘ شرطیہ ہے‘ ’’ فَـــآئُ وْ‘‘ شرط ہے اور آگے جوابِ شرط ہے۔ وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ    ٢٢٧؁
[ وَاِنْ : اور اگر ] [ عَزَمُوا : وہ لوگ پختہ ارادہ کریں] [ الطَّلاَقَ : طلاق کا ] [ فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [ سَمِیْعٌ : سننے والا ہے ] [ عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ]

 

ع ز م

 عَزَمَ (ض) عَزْمًا : پختہ ارادہ کرنا۔ {فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِط} (آل عمران:159) ’’ پھر جب آپؐ پختہ ارادہ کرلیں تو بھروسہ کریں اللہ پر۔‘‘

 عَزْمٌ (اسم ذات) : پختہ ارادہ‘ ثابت قدمی۔ {فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ۔ } (آل عمران) ’’ تو یقینا یہ ثابت قدمی کے کاموں میں سے ہے۔‘‘

ط ل ق

 طَلَقَ (ض) طَلْقًا : کسی کا بندھن کھولنا۔

 طَلَاقٌ (اسم فعل) : نکاح کا بندھن کھولنا‘ طلاق دینا‘ آیت زیر مطالعہ۔

 طَلَّقَ (تفعیل) تَطْلِیْقًا : کسی کو آزاد کر کے جدا کرنا‘ طلاق دینا۔{فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْم بَعْدُ…} (البقرۃ:230) ’’ پھر اگر وہ طلاق دے اس کو تو وہ حلال نہیں ہوتی اس کے لیے اس کے بعد…‘‘

 طَلِّقْ (فعل امر) : تو طلاق دے۔{اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ} (الطلاق:1) ’’ جب تم لوگ طلاق دو عورتوں کو تو طلاق دو ان کی عدت کے لیے۔‘‘

 مُطَلَّقَۃٌ (اسم المفعول) : طلاق دی ہوئی۔ {وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِط} (البقرۃ:241) ’’ اور طلاق دی ہوئی عورتوں کے لیے کچھ سامان ہے دستور کے مطابق۔‘‘

 اِنْطَلَقَ (انفعال) اِنْطِلَاقًا : کسی بندھن سے آزاد ہونا‘ چل پڑنا۔ {فَانْطَلَقُوْا وَھُمْ یَتَخَافَتُوْنَ ۔ } (القلم) ’’ پھر وہ چلے اور ایک دوسرے سے چپکے چپکے کہتے تھے۔‘‘ {وَلَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ} (الشعرائ:13) ’’ اور نہیں چلتی میری زبان۔‘‘

 اِنْطَلِقْ (فعل امر) : تو چل۔ {اِنْطَلِقُوْآ اِلٰی مَا کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ ۔ } (المرسلٰت) ’’ تم لوگ چلو اس کی طرف جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘

 نوٹ (1) : اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے قطعِ تعلق کا عہد کر لیتا ہے لیکن اسے طلاق بھی نہیں دیتا‘ تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ چار مہینے کے اندر فیصلہ کرے۔ یا تو تعلقات بحال کرے یا پھر طلاق دے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی اللہ کے حکم پر عمل نہیں کرتا اور اپنی روش پر قائم رہتا ہے تو پھر کیا ہو گا! اس ضمن میں آراء مختلف ہیں۔ مفتی محمد شفیع (رح)  کی رائے ہے کہ ایسی صورت میں چار ماہ بعد طلاق خود بخود ہو جائے گی‘ البتہ دونوں اگر رضامندی سے دوبارہ نکاح کرلیں تو درست ہے۔ (معارف القرآن) وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْۗءٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ يَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِيْٓ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِيْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا ۭ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۠ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ   ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ   ٢٢٨؁ۧ
[ وَالْمُطَلَّقٰتُ : اور طلاق شدہ خواتین ] [ یَتَرَبَّصْنَ : انتظار کریں گی] [ بِاَنْفُسِہِنَّ : اپنے نفس کے ساتھ ] [ ثَلٰثَۃَ قُرُوْئٍ: تین مدتیں (یعنی حیض) ] [ وَلاَ یَحِلُّ : اور حلال نہیں ہوتا ] [ لَہُنَّ : ان کے لیے ] [ اَنْ یَّــکْتُمْنَ : کہ وہ چھپائیں ] [ مَا : اس کو جس کو ] [ خَلَقَ : پیدا کیا ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ فِیْ اَرْحَامِہِنَّ : ان کے رحموں میں ] [ اِنْ کُنّ : اگر وہ ہیں ] [ یُؤْمِنَّ : (کہ) ایمان رکھتی ہیں] [ بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ: اور آخری دن (یعنی آخرت) پر] [ وَبُعُوْلَتُہُنَّ : اور ان کے شوہر ] [ اَحَقُّ : زیادہ حق دار ہیں ] [ بِرَدِّہِنَّ : ان کو لوٹانے کے ] [ فِیْ ذٰلِکَ : اس میں ] [ اِنْ اَرَادُوْآ : اگر وہ لوگ ارادہ کریں] [ اِصْلاَحًا : اصلاح کرنے کا ] [ وَلَہُنَّ : اور ان کے لیے ہے ] [ مِثْلُ الَّذِیْ : اس کے جیسا جو ] [ عَلَیْہِنَّ : ان پر ہے ] [ بِالْمَعْرُوْفِ : بھلائی سے ] [ وَلِلرِّجَالِ : اور مردوں کے لیے ہے] [ عَلَیْہِنَّ : ان پر ] [ دَرَجَۃٌ : ایک درجہ ] [ وَاللّٰہُ اور اللہ ] [ عَزِیْزٌ: بالادست ہے ] [ حَکِیْمٌ : حکمت والا ہے]

 

ب ع ل

 بَعَلَ (ن) بَعَالَۃً : شوہر ہونا‘ شوہر بننا۔

 بَعْلٌ ج بُعُوْلَۃٌ (اسم ذات) : شوہر‘ خاوند۔ {وَھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًاط} (ھود:72) ’’ اور یہ میرے شوہر بوڑھے ہیں۔‘‘ جمع کے لیے آیت زیر مطالعہ دیکھیں۔

 بَعْلٌ : شام کے ایک قدیم شہر بَعْلَـبَکَّ کے ایک بت کا نام۔ {اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ کیا تم لوگ پکارتے ہو بعل کو اور چھوڑتے ہو بہترین خالق کو؟‘‘

د رج

 دَرَجَ (ن) دُرُوْجًا : سیڑھیاں چڑھنا‘ آہستہ آہستہ چلنا۔

 دَرَجَۃٌ : سیڑھی کا ایک زینہ‘ بلندی‘ رتبہ۔ {مِنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍط} (البقرۃ:253) ’’ ان میں وہ بھی ہے جس سے کلام کیا اللہ نے اور بلند کیا ان کے بعض کو درجوں کے لحاظ سے۔‘‘

 اِسْتَدْرَجَ (استفعال) اِسْتِدْرَاجًا : آہستہ آہستہ لے جانا۔ {سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ } (القلم) ’’ ہم عنقریب آہستہ آہستہ لے جائیں گے ان کو جہاں سے وہ نہیں جانتے۔‘‘

 ترکیب : ’’ اَلْمُطَلَّقٰتُ‘‘ مبتدأ ہے۔ ’’ یَتَرَبَّصْنَ‘‘ سے ’’ قُرُوْئٍ‘‘ تک پورا جملہ اس کی خبرہے۔ ’’ ثَلٰـثَۃَ قُرُوْئٍ‘‘ ظرف ہے اس لیے ’’ ثَلٰــثَۃَ‘‘ منصوب ہے۔ ’’ اَنْ یَّـکْتُمْنَ‘‘ سے ’’ فِیْ اَرْحَامِھِنَّ‘‘ تک پورا جملہ ’’ لَا یَحِلُّ‘‘ کا فاعل ہے اور یہ جوابِ شرط ہے اگلے شرطیہ جملے کی۔ ’’ یَکْتُمْنَ‘‘ اور ’’ خَلَقَ‘‘ دونوں کا مفعول ’’ مَا‘‘ ہے۔ ’’ بُعُوْلَتُھُنَّ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ اَحَقُّ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ ذٰلِکَ‘‘ کا اشارہ ’’ ثَلٰـثَۃَ قُرُوْئٍ‘‘ کی طرف ہے۔ ’’ دَرَجَۃٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ لِلرِّجَالِ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے جبکہ ’’ عَلَیْھِنَّ‘‘ متعلق خبر ہے۔

 نوٹ (1) : شوہر اور بیوی کے تعلقات پر بات ہو رہی ہے۔ اس پس منظر میں {وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ}کے دو مفہوم ہیں اور یہاں دونوں ہی مراد ہیں۔ اوّلاً یہ کہ جس طرح شوہر کے ساتھ بھلا سلوک کرنا بیوی پر فرض ہے‘ اسی طرح اس کا یہ حق بھی ہے کہ شوہر اس کے ساتھ بھلا سلوک کرے۔ ثانیاً یہ کہ جس طرح بیوی کے کچھ فرائض ہیں‘ اسی طرح اس کے کچھ حقوق بھی ہیں۔ شوہر و بیوی کے حقوق و فرائض کا تعین وقت کے تہذیبی اور تمدنی دستور اور رواج کے مطابق ہو گا‘ بشرطیکہ کوئی دستور اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہو‘ کیونکہ جب کوئی دستور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوتا ہے تو وہ نیکی اور بھلائی کے درجے سے گر جاتا ہے اور وہی دراصل فساد کا سبب بنتا ہے۔

 نوٹ (2) : {وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ} کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق و فرائض تو ہیں لیکن اس کی وجہ سے کوئی اس خبط میں مبتلا نہ ہو کہ دونوں بالکل مساوی ہیں۔ کیونکہ دونوں کے حقوق و فرائض ہونے کے باوجود شوہر کو بیوی پر ایک درجہ برتری حاصل ہے اور یہ برتری اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ اس کے اتنے واضح فرمان کے باوجود عورت اور مرد کی مساوات کا نعرہ جہالت ہے۔

 عورت کرکٹ کھیل لے‘ باکسنگ کر لے‘ ہوائی جہاز اڑا لے‘ خلائی سفر سے ہو آئے‘ جو مرضی ہو کرلے لیکن جب کبھی اسے کوئی کانٹا چبھے گا تو اس نے اُوئی اللہ کرنا ہی کرنا ہے۔ یہ بات میں نے مذاق میں نہیں کی بلکہ مجبوراً کی ہے کہ شاید اس طرح ہی ان لوگوں کی آنکھ کھل جائے جنہوں نے ایسے حقائق سے آنکھ بند کی ہوئی ہے جو اندھے کو بھی نظر آتے ہیں۔ عورت اور مرد کے جسم کی ظاہری ساخت کا فرق بہت نمایاں ہے لیکن ان کے اندرونی نظام میں بھی فرق ہے۔ جسمانی اعضاء اور غدود (glands) کی کارکردگی‘ (functions) مختلف ہیں‘ ان کے اثرات بھی مختلف ہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ عورت اور مرد کی نفسیات بھی مختلف ہے۔ مساوات کا نعرہ لگانے والوں کو چاہیے کہ پہلے وہ ان فرقوں کو دور کریں ‘ پھر مساوات کا نعرہ لگائیں۔

 نوٹ (3) : آیت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے دو صفات’ عزیز اور حکیم‘ ہم کو یاد دلائی گئی ہیں۔ اللہ کے عزیز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اختیار مطلق ہے جس پر کسی قسم کی کوئی تحدید (limitation) نہیں ہے۔ وہ جو چاہے فیصلہ کرسکتا ہے اور جو چاہے حکم دے سکتا ہے۔ حکیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اور ہر حال میں حکمت والا ہے۔ اس لیے اس کا ہر فیصلہ اور ہر حکم اس کی حکمت سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ جو بھی مسلمان مرد یا عورت اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اللہ کے ہر حکم کو اس یقین کے ساتھ قبول کرتا ہے کہ اسی میں ہم لوگوں کے لیے بھلائی ہے۔ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّايُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا  ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ   ٢٢٩؁
[ اَلطَّلاَقُ : طلاق ] [ مَرَّتٰنِ : دو مرتبہ ہے ] [ فَاِمْسَاکٌ : پھر روکنا ہے ] [ بِمَعْرُوْفٍ : بھلائی سے ] [ اَوْ : یا ] [ تَسْرِیْحٌ : آزاد کرنا ہے ] [ بِاِحْسَانٍ : خوبصورت انداز سے] [ وَلاَ یَحِلُّ : اور حلال نہیں ہے ] [ لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [ اَنْ : کہ ] [ تَاْخُذُوْا : تم لوگ لو ] [ مِمَّــآ : اس میں سے جو ] [ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ : تم لوگوں نے دیا ان کو ] [ شَیْئًا: کوئی چیز ] [ اِلَّآ اَنْ : سوائے اس کے کہ ] [ یَّخَافَـآ : وہ دونوں خوف کریں] [ اَلاَّ یُـقِیْمَا : کہ وہ قائم نہیں رکھیں گے ] [ حُدُوْدَ اللّٰہِ : اللہ کی حدود کو ] [ فَاِنْ : پس اگر ] [ خِفْتُمْ : تم لوگ خوف کرو ] [ اَلاَّ یُقِیْمَا: کہ وہ دونوں قائم نہیں رکھیں گے] [ حُدُوْدَ اللّٰہِ : اللہ کی حدوں کو ] [ فَلاَ جُنَاحَ: تو کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے] [ عَلَیْہِمَا : ان دونوں پر ] [ فِیْمَا : اس میں ] [ افْتَدَتْ : وہ خاتون خود کو چھڑائے] [ بِہٖ : جس سے ] [ تِلْکَ : یہ ] [ حُدُوْدُ اللّٰہِ : اللہ کی حدود ہیں ] [ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا: پس تم لوگ تجاوز مت کرو ان سے ] [ وَمَنْ : اور جو ] [ یَّـتَـعَدَّ : جانتے بوجھتے تجاوز کرتا ہے] [ حُدُوْدَ اللّٰہِ : اللہ کی حدوں سے ] [ فَاُولٰٓئِکَ : تو وہ لوگ ] [ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ : ہی ظلم کرنے والے ہیں]

 

م ر ر

 مَرَّ (س) مَرَارَۃً : تلخ ہونا‘ کڑوا ہونا۔

 اَمَرُّ (افعل التفضیل) : زیادہ کڑوا‘ انتہائی کڑوا۔ {وَالسَّاعَۃُ اَدْھٰی وَاَمَرُّ ۔ } (القمر) ’’ اور قیامت بڑی مصیبت اور انتہائی کڑوی ہے۔‘‘

 مَرَّ (ن) مَرًّا : (1) رسّی کو بٹنا‘ دیرپا بنانا‘ ہمیشگی دینا۔ (2) کسی کے پاس سے گزرنا (بٹی ہوئی رسّی کی ایک لڑی دوسری کے پاس سے گزرتی ہے) ۔ {وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ ۔ } (یوسف) ’’ اور نشانیوں میں سے کتنی ہی ہیں زمین اور آسمانوں میں کہ وہ لوگ گزرتے ہیں ان کے پاس سے اس حال میں کہ وہ لوگ ان سے اعراض کرنے والے ہوتے ہیں۔‘‘

 مَرَّۃٌ : بار‘ دفعہ‘ مرتبہ (یعنی بٹی ہوئی رسّی کی لڑیوں میں سے کوئی لڑی) ۔ {اِنَّـکُمْ رَضِیْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ } (التوبۃ:83)’’ بے شک تم لوگ راضی ہوئے بیٹھنے پر پہلی بار۔‘‘ {اِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْط} (التوبۃ:80) ’’ اگر آپؐ استغفار کریں ان کے لیے ستر دفعہ تو بھی ہرگز معاف نہیں کرے گا اللہ ان کو۔‘‘{ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَھُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ} (الانفال:56) ’’ پھر وہ لوگ توڑتے ہیں اپنا عہد ہر مرتبہ۔‘‘

 اِسْتَمَرَّ (استفعال) اِسْتِمْرَارًا : ہمیشگی چاہنا ‘ یعنی ہمیشہ ہونا‘ دائمی ہونا۔

 مُسْتَمِرٌّ(اسم الفاعل) : ہمیشہ ہونے والا‘ دائمی۔{اِنَّا اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ ۔ } (القمر) ’’ بے شک ہم نے بھیجا ان پر ایک تیز آندھی کو ایک دائمی نحوست کے دن۔‘‘

م س ک

 مَسَکَ (ض) مَسْکًا : کسی سے متعلق ہونا‘ کسی سے چمٹنا۔

 مَسُکَ (ک) مَسَاکَۃً : مشک کی خوشبو لگانا۔

 مِسْکٌ (اسم ذات) : مشک۔ {خِتٰمُہٗ مِسْکٌط} (المطفّفین:26) ’’ اس کی مہر

مشک ہے۔‘‘

 اَمْسَکَ (افعال) اِمْسَاکًا : کسی چیز کو تھامنا‘ روکنا۔ {اِنَّ اللّٰہَ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ} (فاطر:41) ’’ یقینا اللہ تھامے ہوئے ہے آسمانوں اور زمین کو۔‘‘{وَلَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْاج} (البقرۃ:231) ’’ اور تم لوگ مت روکو ان کو تکلیف دیتے ہوئے کہ تم لوگ زیادتی کرو۔‘‘

 اَمْسِکْ (فعل امر) : تو تھام‘ تو روک۔ {فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ} (الطلاق:2) ’’ پھر جب وہ پہنچیں اپنی مدت کو تو تم لوگ روکو ان کو بھلائی کے ساتھ یاجدا کرو ان کو بھلائی سے۔‘‘

 مُمْسِکٌ (اسم الفاعل) : تھامنے والا‘ روکنے والا۔ {مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَھَاج} (فاطر:2) ’’ جو کھولتا ہے اللہ لوگوں کے لیے اپنی کسی رحمت میں سے تو کوئی روکنے والا نہیں ہے اس کو۔‘‘

 مَسَّکَ (تفعیل) تَمْسِیْکًا : کثرت سے تھامنا‘ یعنی مضبوطی سے تھامنا‘ مضبوطی سے پکڑنا۔ {وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَط} (الاعراف:170) ’’ اور جو لوگ مضبوطی سے تھامتے ہیں کتاب کو اور قائم رکھتے ہیں نماز کو۔‘‘

 اِسْتَمْسَکَ (استفعال) اِسْتِمْسَاکًا : کسی سے چمٹنا چاہنا‘ چمٹ جانا۔ {فَمَنْ یَّـکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق} (البقرۃ:256) ’’ تو جو انکار کرتا ہے طاغوت کا اور ایمان لاتا ہے اللہ پر تو وہ چمٹ گیا ہے انتہائی مضبوط رسّی سے۔‘‘

 اِسْتَمْسِکْ (فعل امر) : تو چمٹ جا۔ {فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْ اُوْحِیَ اِلَیْکَج} (الزّخرف:43) ’’ پس آپؐ چمٹ جائیں اس سے جو وحی کیا گیا آپؐ ‘ کی طرف۔‘‘

 مُسْتَمْسِکٌ (اسم الفاعل) : چمٹ جانے والا۔ {اَمْ اٰتَیْنٰھُمْ کِتٰـبًا مِّنْ قَبْلِہٖ فَھُمْ بِہٖ مُسْتَمْسِکُوْنَ ۔ } (الزّخرف) ’’ یا ہم نے دی ان کو کوئی کتاب اس سے پہلے تو وہ لوگ اس سے چمٹ جانے والے ہیں۔‘‘

س رح

 سَرَحَ (ف) سَرْحًا : سرح کا درخت (ایک قسم کا بغیر کانٹے والا درخت) چرنے کے لیے اُونٹ کو کھلا چھوڑنا‘ مویشی کو چرنے کے لیے چھوڑنا۔ {حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَ ۔ } (النحل) ’’ جب تم لوگ واپس لاتے ہو اور جب چرنے کے لیے چھوڑتے ہو۔‘‘

 سَرَاحٌ (اسم فعل) : چھوڑنا‘ آزاد کرنا۔ {وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا ۔ } (الاحزاب) ’’ اور میں آزاد کروں تم سب کو ‘ خوبصورت آزاد کرنا۔‘‘

 سَرَّحَ (تفعیل) تَسْرِیْحًا : بالکل چھوڑنا‘ آزاد کرنا‘ بیوی کو طلاق دینا۔ مذکورہ بالا آیت (الاحزاب:28) دیکھیں۔

 سَرِّحْ (فعل امر) : تو بالکل آزاد کر‘ طلاق دے۔ {اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍص} (البقرۃ:231) ’’ یا تم لوگ بالکل آزاد کرو ان کو بھلائی سے۔‘‘

 ترکیب : ’’ اَلطَّلَاقُ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ مَرَّتَانِ‘‘ خبر ہے ۔ ’’ اِمْسَاکٌ‘‘ اور ’’ تَسْرِیْحٌ‘‘ مبتدأ نکرہ ہیں‘ ان کی خبریں محذوف ہیں جو کہ ’’ جَائِزٌ‘‘ ہو سکتی ہیں‘ جبکہ ’’ بِمَعْرُوْفٍ‘‘ اور ’’ بِاِحْسَانٍ‘‘ قائم مقام خبر ہیں۔ ’’ مِمَّا‘‘ دراصل ’’ مِنْ مَا‘‘ ہے۔ ’’ تَاْخُذُوْا‘‘ اور ’’ اٰتَیْتُمُوْا‘‘ دونوں کا مفعول ’’ مَا‘‘ ہے ‘ جبکہ ’’ مَا‘‘ کی تمیز ہونے کی وجہ سے ’’ شَیْئًا‘‘ منصوب ہے۔ ’’ اَنْ‘‘ کی وجہ سے ’’ یَخَافَانِ‘‘ کا نون اعرابی گرا ہوا ہے۔’’ اَلاَّ‘‘ دراصل ’’ اَنْ لَا‘‘ ہے۔ اس کے ’’ اَنْ‘‘ کی وجہ سے ’’ یُقِیْمَانِ‘‘ کا نونِ اعرابی گرا ہوا ہے۔ ’’ لَا تَعْتَدُوْا‘‘ بابِ افتعال سے فعل نہی ہے اور جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے‘ جبکہ ’’ یَتَعَدَّ‘‘ باب تفعّل سے فعل مضارع میں واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور یہ ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے۔

 نوٹ (1) : اسلام سے پہلے کچھ لوگ اپنی بیوی کو طلاق دیتے تھے اور عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لیتے تھے۔ اس کے بعد پھر طلاق دیتے رہتے اور رجوع کرتے رہتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ نہ تو اس عورت کا گھر آباد ہوتا تھا اور نہ ہی وہ کسی اور جگہ نکاح کرنے کے لیے آزاد ہوتی تھی۔

 اِس آیت میں شوہر کے اس اختیار کو برقرار رکھا گیا ہے‘ لیکن اسے محدود کردیا گیا ہے۔ اپنی عائلی زندگی میں ایک شوہر اپنا یہ اختیار دو مرتبہ استعمال کرسکتا ہے۔ اس کے بعد اگر وہ تیسری مرتبہ طلاق دیتا ہے تو اس کا رجوع کرنے کا اختیار ختم ہو چکا ہے۔ اب عدت پوری ہونے کے بعد طلاق ہی ہو گی۔

 نوٹ (2) : ’’ ایک عورت آپؐ ‘ کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ میں اپنے خاوند سے ناخوش ہوں‘ اس کے یہاں رہنا نہیں چاہتی۔ آپؐ نے تحقیق کی تو عورت نے کہا کہ وہ میرے حقوق میں کوتاہی نہیں کرتا اور نہ اس کے اخلاق و تدین پر مجھ کو اعتراض ہے‘ لیکن مجھ کو اس سے منافرتِ طبعی ہے۔ آپؐ نے عورت سے مہر واپس کرایا اور شوہر سے طلاق دلوا دی۔ اس پر یہ آیت اُتری‘‘۔ (ترجمۂ شیخ الہند (رح) )

 مذکورہ شان نزول کا تعلق آیت کے اگلے حصے سے ہے۔ شوہر کے طلاق دینے کے اختیار کو محدود کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اگر اس کے نتیجے میں طلاق ہو تو شوہر کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی چیزوں میں سے کچھ بھی واپس لے ‘ اِلّا یہ کہ اگر دونوں کو خوف ہو کہ وہ ایک دوسرے سے بھلا سلوک نہ کرسکیں گے۔ اس کا ایک مطلب یہ نکالنے کی گنجائش تھی کہ اگر شوہراس خوف کا اظہار کرے اور کہے کہ اس لیے میں فلاں فلاں چیزیں واپس لے کر طلاق دیتاہوں۔ اس گنجائش کو ختم کرنے کے لیے آگے وضاحت کر دی گئی کہ مذکورہ استثنائی صورت کا تعلق بیوی کے خلع مانگنے سے ہے کہ اگر اس خوف کی بنیاد پر وہ کوئی چیز واپس کر کے خود کو آزاد کرانا چاہے توایسی صورت میں واپس لینے پر شوہر پر اور واپس کرنے پر بیوی پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

 نوٹ (3) : طلاق اور خلع میں ایک فرق ہے۔ شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے‘ لیکن بیوی اپنے شوہر کو خلع نہیں دے سکتی بلکہ مانگ سکتی ہے۔ خلع کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار شوہر کو نہیں دیا گیا‘ بلکہ فَاِنْ خِفْتُمْ کی شرط لگا کر بتا دیا گیا کہ خلع کے متعلق فیصلہ خاندان‘ برادری یا معاشرے کا کوئی اجتماعی ادارہ کرے گا ‘ مثلاً پنچایت‘ قاضی یا عدالت وغیرہ۔ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ   ٢٣٠؁
[ فَاِنْ : پس اگر ] [ طَلَّقَہَا : وہ طلاق دیتا ہے اس کو ] [ فَلاَ تَحِلُّ : تو وہ حلال نہیں ہوگی ] [ لَہٗ : اس کے لیے ] [ مِنْم بَعْدُ : اس کے بعد ] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ تَنْکِحَ : وہ عورت نکاح کرے ] [ زَوْجًا: کسی (ہونے والے) شوہر سے ] [ غَیْرَہٗ : اس کے علاوہ ] [ فَاِنْ : پھر اگر ] [ طَلَّـقَہَا : وہ طلاق دے اس کو ] [ فَلاَ جُنَاحَ: تو کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے ] [ عَلَیْہِمَا : ان دونوں پر ] [ اَنْ : کہ ] [ یَّـتَرَاجَعَا : وہ دونوں باہم رجوع کریں] [ اِنْ : اگر ] [ ظَنَّــا: ان دونوں کو خیال ہو ] [ اَنْ یُّقِیْمَا: کہ وہ قائم رکھیں گے ] [ حُدُوْدَ اللّٰہِ : اللہ کی حدوں کو ] [ وَتِلْکَ : اور یہ ] [ حُدُوْدُ اللّٰہِ : اللہ کی حدود ہیں ] [ یُـبَـیِّنُہَا : وہ واضح کرتا ہے ان کو ] [ لِقَوْمٍ : ایسے لوگوں کے لیے ] [ یَّعْلَمُوْنَ: جو علم رکھتے ہیں]

 

 ترکیب : ’’ طَلَّقَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو شوہر کے لیے ہے اور ضمیر مفعولی ’’ ھَا‘‘ بیوی کے لیے ہے۔ ’’ تَحِلُّ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو طلاق شدہ بیوی کے لیے ہے اور ’’ لَـہٗ‘‘ میں ’’ ہُ‘‘ کی ضمیر شوہر کے لیے ہے۔ ’’ تَنْکِحَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو طلاق شدہ بیوی کے لیے ہے اور ’’ زَوْجًا‘‘ اس کا مفعول ہے۔ ’’ زَوْجًا‘‘ کا بدل ہونے کی وجہ سے ’’ غَیْرَ‘‘ منصوب ہے اور ’’ ہُ‘‘ کی ضمیر طلاق دینے والے شوہر کے لیے ہے۔ اس کے بعد ’’ طَلَّقَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ زَوْجًا‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ عَلَیْھِمَا‘‘ میں ’’ ھُمَا‘‘ کی ضمیر بیوی اور اس کے پہلے شوہر کے لیے ہے۔ ’’ یُـبَـیِّنُ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے اور اس کی ضمیرمفعولی ’’ ھَا‘‘ حُدُوْد کے لیے ہے۔ ’’ لِقَوْمٍ‘‘ نکرہ موصوف ہے۔

 نوٹ (1) : سورۃ البقرۃ کی آیت 221 میں مشرکوں سے نکاح کی ممانعت آئی تھی۔ وہاں مَردوں کو منع کرنے کے لیے لفظ ’’ نَـکَحَ‘‘ ثلاثی مجرد سے آیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ مشرکات سے نکاح مت کرو۔ لیکن خواتین کی ممانعت کے لیے وہ لفظ بابِ افعال سے آیا‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ مشرکوں کے نکاح میں مت دو۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواتین کے نکاح کے لیے ان کے ولی کی اجازت ضروری ہے۔ اس کی مزید وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس کسی عورت نے نکاح کیا‘ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر ‘ تو اس کا نکاح باطل ہے ‘ تو اس کا نکاح باطل ہے‘ تو اس کا نکاح باطل ہے‘‘۔ (ابودائود شریف‘ کتاب النکاح)

 آیت زیر مطالعہ میں طلاق شدہ خواتین کے نکاح کی بات ہو رہی ہے۔ یہاں پر لفظ ’’ نَـکَحَ‘‘ ثلاثی مجرد سے آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت نکاح کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر شادی شدہ خواتین کے نکاح کے لیے ان کے ولی کی اجازت ضروری ہے‘ لیکن مطلقہ خواتین کے لیے یہ ضروری نہیں ہے۔ بیوہ خواتین کا بھی یہی حکم ہے۔ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِكُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ   ۭ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اللّٰهِ ھُزُوًا ۡ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهٖ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ    ٢٣١؁ۧ
[ وَاِذَا : اور جب بھی ] [ طَلَّقْتُمُ : تم لوگ طلاق دو] [ النِّسَآئَ : عورتوں کو ] [ فَـبَلَغْنَ : پھر وہ پہنچیں] [ اَجَلَہُنَّ : اپنی مدت (کے قرب) کو ] [ فَاَمْسِکُوْہُنَّ : تو تم لوگ روکو ان کو ] [ بِمَعْرُوْفٍ : بھلائی سے ] [ اَوْ : یا] [ سَرِّحُوْہُنَّ : آزاد کرو ان کو ] [ بِمَعْرُوْفٍ : بھلائی سے ] [ وَلاَ تُمْسِکُوْہُنَّ : اور تم لوگ مت روکو ان کو ] [ ضِرَارًا : تکلیف دیتے ہوئے ] [ لِّـتَعْتَدُوْا : تاکہ تم زیادتی کرو] [ وَمَنْ : اور جو ] [ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ : یہ کرتا ہے ] [ فَقَدْ ظَلَمَ: تو اس نے ظلم کیا ہے ] [ نَفْسَہٗ : اپنے آپ پر ] [ وَلاَ تَتَّخِذُوْْآ : اور تم لوگ مت بنائو] [ اٰیٰتِ اللّٰہِ : اللہ کی آیات کو ] [ ہُزُوًا : مذاق (کا ذریعہ) ] [ وَاذْکُرُوْا : اور یاد کرو ] [ نِعْمَتَ اللّٰہِ : اللہ کی نعمت کو ] [ عَلَیْکُمْ: (جو اس نے اتاری ) تم لوگوں پر] [ وَمَآ : اور (یاد کرو) اس کو جو] [ اَنْزَلَ : اس نے اتارا] [ عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ : کتاب اور حکمت میں سے] [ یَعِظُکُمْ: وہ نصیحت کرتا ہے تم لوگوں کو] [ بِہٖ : جس سے ] [ وَاتَّقُوا : اور تم لوگ تقویٰ اختیار کرو] [ اللّٰہَ : اللہ کا ] [ وَاعْلَمُوْآ : اور جان لو ] [ اَنَّ اللّٰہَ : کہ اللہ ] [ بِکُلِّ شَیْئٍ : ہر چیز کو ] [ عَلِیْمٌ : ہر حال میں جاننے والا ہے ]

 

 ترکیب : ’’ اِذَا‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ طَلَّقْتُمْ‘‘ سے ’’ اَجَلَھُنَّ‘‘ تک شرط ہے اور ’’ فَاَمْسِکُوْا‘‘ سے ’’ لِتَعْتَدُوْا‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔ اسی طرح ’’ مَنْ‘‘ بھی شرطیہ ہے اور آگے اس کی شرط اور جوابِ شرط ہے۔ ’’ لَا تَتَّخِذُوْا‘‘ کا مفعولِ اوّل ’’ اٰیٰتِ اللّٰہِ‘‘ ہے اور ’’ ھُزُوًا‘‘ مفعولِ ثانی ہے۔ ’’ اَنْزَلَ‘‘ اور’’ یَعِظُکُمْ‘‘ کے فاعل ان میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیریں ہیں جو اللہ کے لیے ہیں۔ ’’ نِعْمَتَ اللّٰہِ‘‘ کے بعد ’’ مَا اَنْزَلَ‘‘ محذوف ہو گا ‘ مطلب ہو گا کہ اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اتاری ۔ اور ’’ وَمَا‘‘ میں ’’ مَا‘‘ سے پہلے ’’ وَاذْکُرُوْا‘‘ محذوف ہے۔ مفہوم یہ ہو گا کہ یاد کرو اس کو جو اس نے اتاراتم پر۔ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْهَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ   ٢٣٢؁
[ وَاِذَا: اور جب بھی ] [ طَلَّقْتُمُ : تم لوگ طلاق دو ] [ النِّسَآئَ : عورتوں کو ] [ فَـبَلَغْنَ : پھر وہ پہنچیں] [ اَجَلَہُنَّ : اپنی مدت (کے اختتام) کو ] [ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ : تو تم لوگ مت روکو ان کو ] [ اَنْ یَّنْکِحْنَ : کہ وہ نکاح کریں ] [ اَزْوَاجَہُنَّ : اپنے (سابقہ یا آئندہ) شوہروں سے ] [ اِذَا تَرَاضَوْا : جب وہ راضی ہوں ] [ بَیْنَہُمْ : آپس میں ] [ بِالْمَعْرُوْفِ : بھلائی سے ] [ ذٰلِکَ : یہ ہے ] [ یُوْعَظُ : نصیحت کی جاتی ہے ] [ بِہٖ : جس کی ] [ مَنْ : اس کو جو ] [ کَانَ مِنْکُمْ : تم میں سے ہو ] [ یُؤْمِنُ : (کہ) ایمان رکھتا ہو ] [ بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخرت پر ] [ ذٰلِکُمْ : یہ ] [ اَزْکٰی : زیادہ پاک ہے پھلنے پھولنے کی رکاوٹوں سے) ] [ لَــکُمْ : تمہارے لیے ] [ وَاَطْہَرُ : اور زیادہ پاک ہے (نجاستوں سے) ] [ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ : اور اللہ جانتا ہے ] [ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ : اور تم لوگ نہیں جانتے ]

 

ع ض ل

 عَضَلَ (ن) عَضْلاً : روکنا‘ منع کرنا۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 نوٹ (1) : آیات 231 اور 232 ‘ دونوں میں الفاظ آئے ہیں: ’’ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ‘‘۔ دونوں کا ترجمہ ایک ہی ہے لیکن مفہوم میں فرق ہے۔ یہ فرق آگے جوابِ شرط سے واضح ہوتا ہے۔ آیت 231 میں مفہوم یہ ہے کہ جب وہ اپنی مدت ختم ہونے کے قریب پہنچیں تو تم کو اختیار ہے چاہے رجوع کرلو یا طلاق دے دو۔ آیت 232 میں مفہوم یہ ہے کہ جب وہ اپنی مدت پوری کرلیں تو رجوع کرنے کا اختیار ختم ہو گیا اور وہ دوسری جگہ نکاح کرنے کے لیے آزاد ہو گئیں۔ اس لیے اب ان کے نکاح میں ان کے لیے مشکلات پیدا مت کرو۔

 نوٹ (2) : آیت 229 میں الفاظ آئے ہیں : ’’ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ‘‘ (طلاق دو مرتبہ ہے) ۔ اس کے بعد آیت 230 میں بات کا آغاز ’’ فَاِنْ‘‘ (پھر اگر) کے الفاظ سے ہوا ہے۔ اس سے اگلی دو آیتوں میں بات کا آغاز’’ وَاِذَا‘‘ (اور جب بھی: جب کبھی) کے الفاظ سے ہوا ہے۔ اس فرق سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ آیت 230 میں تیسری طلاق کی بات ہوئی ہے اور اس کے متعلق حکم دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ ’’ مَرَّتٰنِ‘‘ کے لفظ کو پکڑ کر کہتے ہیں کہ قرآن میں تیسری طلاق کا تو ذکر ہی نہیں ہے۔ یہ دراصل ان کی‘ subjective thinking کا کرشمہ ہے جسے قرآن مجید ’’ تِلْکَ اَمَانِیُّھُمْ‘‘ کہتا ہے۔

 نوٹ (3) : ان آیات یعنی آیات 229 تا 232 کے مطالعہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کے لیے ایک ضابطہ اور طریقۂ کار کا تعین کیا ہے۔ اسے حدود اللہ قرار دے کر تاکید کی گئی ہے کہ اس سے تجاوز مت کرو اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بنائو۔ اتنے واضح احکام اور ہدایات کے بعد بھی اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاق دیتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا مجرم اور گنہگار ہے۔ اور ساتھ ہی اس کی بیوی اس سے تین طلاقوں کے ساتھ آزاد ہو گئی۔ اب رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہی۔’’ رسول کریم ﷺ کو ایک آدمی کے متعلق خبر دی گئی جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں۔ آپؐ غصے کے عالم میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جاتا ہے‘ حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟‘‘ (معارف القرآن) ۔ حضرت عمر (رض) سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا آپ (رض)  اس کو درّے لگاتے تھے۔ (تفہیم القرآن)

 مذکورہ ثبوت کے علی الرغم ہم لوگ ایسے شخص کو برا بھلا نہیں کہتے‘ بلکہ الٹا اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو سزا مقرر کی ہے اس سے اس کو بچانے کے لیے چور دروازے تلاش کرتے ہیں ۔ یہ ایک معمّہ ہے جو میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

 نوٹ (4) : اصول یہ ہے کہ اگر کسی نکاح میں وقت کا ذکر ہو تو وہ نکاح فاسد ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں پندرہ دن کے لیے نکاح کرتا ہوں تو اس کا نکاح فاسد ہے۔ دوسراکہتا ہے کہ میں ایک ہزار سال کے لیے نکاح کرتا ہوں ‘ تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ پوری زندگی کے لیے نکاح کر رہا ہے‘ لیکن چونکہ اس میں بھی وقت کا ذکر ہے اس لیے یہ نکاح بھی فاسد ہے۔

 اسی اصول کے تحت اگر کسی کے لیے اس کی مطلقہ بیوی کو حلال کرانے کے لیے اس کا دوسرا نکاح کرایا جائے جس میں یہ طے ہو کہ وہ اسے طلاق دے گا‘ تو یہ نکاح‘ نکاح نہیں بلکہ محض ایک بدکاری ہوگی اور اس طرح وہ عورت اپنے سابق شوہر کے لیے حلال نہیں ہو گی۔ متعدد صحابہ کرام (رض) کی متفقہ روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اس طریقہ سے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ (تفہیم القرآن)

 ہم میں سے اکثر لوگ مذکورہ اصول کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور متعلقہ احادیث کو بھی مانتے ہیں‘ اس کے باوجود ہم ایسے حلالے کا فتویٰ بھی دیتے ہیں اور اعانت بھی کرتے ہیں جس کے کرنے اور کرانے والے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔ یہ دوسرا معمہ ہے جو میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

 آیت 230 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس نے اپنی حدود کو ان لوگوں کے لیے واضح کیا ہے جو علم رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ یہ ساری خرابی عوام الناس کی جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ تیسرا معمہ ہے۔ وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ   ۭ وَعَلَي الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ  ۭ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ  ۤ وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا  ۭ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ  ٢٣٣؁
[ وَالْوَالِدٰتُ : اور بچہ جننے والیاں] [ یُرْضِعْنَ : دودھ پلائیں گی ] [ اَوْلاَدَہُنَّ : اپنے بچوں کو ] [ حَوْلَـیْنِ کَامِلَیْنِ : کامل دو سال ] [ لِمَنْ : اس کے لیے جو ] [ اَرَادَ : چاہتا ہے ] [ اَنْ یُّـتِمَّ : کہ وہ پورا کرے ] [ الرَّضَاعَۃَ : بچے کے دودھ پینے کو] [ وَعَلَی : اور اس پر ہے ] [ الْمَوْلُوْدِ : بچہ جنا گیا] [ لَـہٗ : جس کے لیے ] [ رِزْقُہُنَّ : ان کی خوراک ] [ وَکِسْوَتُہُنَّ : اور ان کا لباس ] [ بِالْمَعْرُوفِ: بھلائی سے ] [ لَا تُکَلَّفُ : پابند نہیں کیا جاتا] [ نَفْسٌ : کسی جان کو ] [ اِلاَّ : مگر ] [ وُسْعَہَا : اس کی وسعت کو ] [ وَلاَ تُضَآرَّ : اور دکھ نہ دے ] [ وَالِدَۃٌ : کوئی والدہ (کسی کو) ] [ بِوَلَدِہَا : اپنے بچے کے ذریعے ] [ وَلاَ : اور نہ ہی (دکھ دے) ] [ مَوْلُــوْدٌ لَّـہٗ : کوئی والد (کسی کو) ] [ بِوَلَدِہٖ : اپنے بچے کے ذریعے] [ وَعَلَی الْوَارِثِ : اور وارث پر (واجب) ہے ] [ مِثْلُ ذٰلِکَ : اس کی مانند ] [ فَاِنْ اَرَادَا : پھر اگر دونوں چاہیں ] [ فِصَالاً : بچے کا دودھ چھڑانا] [ عَنْ تَرَاضٍ : باہمی رضامندی سے] [ مِّنْہُمَا : ان دونوں میں ] [ وَتَشَاوُرٍ : اور باہمی مشورے سے ] [ فَلاَ جُنَاحَ: تو کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے] [ عَلَیْہِمَا : ان دونوں پر ] [ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ : اور اگر تم لوگ چاہو ] [ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ : کہ کسی (اور) سے دودھ پلوائو] [ اَوْلاَدَکُمْ : اپنے بچوں کو ] [ فَلاَ جُنَاحَ : تو کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے] [ عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [ اِذَا : جب (بشرطیکہ) ] [ سَلَّمْتُمْ : تم لوگ حوالے کر دو] [ مَّــآ : اس کو جو ] [ اٰتَیْتُمْ : تم نے دینا ہے ] [ بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق ] [ وَاتَّقُوا اللّٰہَ : اور تم لوگ تقویٰ اختیار کرو اللہ کا] [ وَاعْلَمُوْآ : اور جان لو ] [ اَنَّ اللّٰہَ : کہ اللہ ] [ بِمَا : اس کو جو ] [ تَعْمَلُوْنَ : تم لوگ کرتے ہو] [ بَصِیْرٌ : دیکھنے والا ہے ]

 

ر ض ع

 رَضَعَ (ف) رَضَاعَۃً : بچے کا دودھ پینا۔

 مَرْضَعٌ ج مَرَاضِعُ : دودھ پینے کی جگہ۔ {وَحَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ} (القصص:12) ’’ اور ہم نے حرام کیا انؑ پر دودھ پینے کی جگہوں کو اس سے پہلے۔‘‘

 اَرْضَعَ (افعال) اِرْضَاعًا : بچے کو دودھ پلانا۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 اَرْضِعِیْ (فعل امر) : تو دودھ پلا۔ {وَاَوْحَیْنَا اِلٰی اُمِّ مُوْسٰی اَنْ اَرْضِعِیْہِج} (القصص:7) ’’ اور ہم نے وحی کی موسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ کی طرف کہ آپ دودھ پلائیں ان کو۔‘‘

 مُرْضِعَۃٌ (اسم الفاعل) : دودھ پلانے والی۔ {یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّا اَرْضَعَتْ} (الحج:2) ’’ جس دن تم لوگ دیکھو گے اس کو کہ بھول جائے گی ہر دودھ پلانے والی اس کو جسے اس نے دودھ پلایا ۔‘‘

 اِسْتَرْضَعَ (استفعال) اِسْتِرْضَاعًا : بچے کو کسی سے دودھ پلوانا۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

ک س و

 کَسَا (ن) کَسْوًا : کسی کو کچھ پہنانا‘ لباس پہنانا۔ {فَـکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق} (المؤمنون:14) ’’ پھر ہم نے پہنایا ہڈیوں کو گوشت۔‘‘

 اُکْسُ (فعل امر) : تو پہنا۔{وَارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ} (النّساء : 5) ’’ اور تم لوگ کھلائو ان کو اس میں سے اور پہنائو ان کو۔‘‘

 کِسْوَۃٌ (اسم ذات) : پہنانے کی چیز‘ لباس۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

ک ل ف

 کَلِفَ (س) کَلَفًا : (1) چہرے پر سرخی اور مٹیالا پن چھانا‘ جھائیاں ہونا۔ (2) مشقت پر آمادہ ہونا۔

 کَلَّفَ (تفعیل) تَکْلِیْفًا : کسی کو مشقت میں ڈالنا‘ کسی کام کا پابند کرنا‘ تکلیف دینا‘ آیت زیرِ مطالعہ۔

 تَکَلَّفَ (تفعّل) تَکَلُّفًا : خود کو مشقت میں ڈالنا‘ بےدلی سے کام کرنا‘ بناوٹ کرنا‘ دکھاوا کرنا۔

 مُتَکَلِّفٌ (اسم الفاعل) : بناوٹ کرنے والا‘ دکھاوا کرنے والا۔ {وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ ۔ } (صٓ) ’’ اور میں دکھاوا کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘

و ر ث

 وَرِثَ (ح) وَرْثًا : کسی چیز کا مالک بننا‘ میت کے ترکے کا مالک بننا‘ وارث بننا۔ {لَا یَحِلُّ لَـکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَائَ کَرْھًاط} (النّسائ:19) ’’ حلال نہیں ہوتا تم لوگوں کے لیے کہ تم لوگ مالک بنو عورتوں کے زبردستی۔‘‘{وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ} (النمل:16) ’’ اور وارث ہوئے سلیمانؑ دائودؑ کے۔‘‘

 وَارِثٌ ج وَارِثُوْنَ اور وَرَثَۃٌ (اسم الفاعل) : مالک بننے والا‘ وارث بننے والا۔ {وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ ۔ } (القصص) ’’ اور یہ کہ ہم بنائیں ان کو پیشوا اور ہم بنائیں ان کو مالک ہونے والے۔‘‘{وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ ۔ } (الشُّعرائ) ’’ اور تو بنا مجھ کو ہمیشہ سرسبز رہنے والے باغ کے مالک بننے والوں میں سے۔‘‘

 مِیْرَاثٌ (مِفْعَالٌ کے وزن پر اسم الآلہ) : وارث بننے کا ذریعہ‘ یعنی ترکہ۔ {وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط} (آل عمران:180) ’’ اور اللہ کے لیے ہی ہے زمین اور آسمانوں کا ترکہ۔‘‘

 تُرَاثٌ (اسم ذات) : میت کا چھوڑا ہوا مال۔ {وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا ۔ } (الفجر) ’’ اور تم لوگ کھاتے ہو میت کا مال‘ سمیٹ کر کھانا۔‘‘

 اَوْرَثَ (افعال) اِیْرَاثًا : کسی کو مالک بنانا‘ وارث بنانا۔ {تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِیًّا ۔ } (مریم) ’’ یہ باغ وہ ہے جس کا ہم مالک بنائیں گے اپنے بندوں میں سے اس کو جو صاحب ِ تقویٰ تھا۔‘‘

ف ص ل

 فَصَلَ (ض) فَصْلًا : دو چیزوں کے درمیان دوری کرنا‘ حق اور باطل کے درمیان فرق کرنا‘ فیصلہ کرنا۔ {اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط} (الحج) ’’ بے شک اللہ فیصلہ کرے گا ان کے مابین قیامت کے دن۔‘‘

 فَصَلَ (ن) فَصُوْلاً : شہر سے نکلنا‘ روانہ ہونا۔ {فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ} (البقرۃ:249) ’’ پھر جب روانہ ہوا طالوت لشکروں کے ساتھ۔‘‘

 فَاصِلٌ (اسم الفاعل) : فیصلہ کرنے والا ۔ {وَھُوَ خَیْرُ الْفٰـصِلِیْنَ ۔ } (الانعام) ’’ اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘

 فَصِیْلَۃٌ (فصیل کا مؤنث) : گھر کی چہار دیواری۔ یہ لفظ پھر گھر میں رہنے والوں کے لیے استعمال ہوتاہے‘ یعنی کنبہ‘ گھرانہ۔ {وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤْوِیْہِ ۔ } (المعارج) ’’ اور اپنے گھرانے کو جو اس کو ٹھکانہ دیتا تھا‘‘۔

 فَصْلٌ (اسم ذات) : فیصلہ۔ {ھٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ یہ فیصلے کا دن ہے جس کو تم لوگ جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘

 فَصَّلَ (تفعیل) تَفْصِیْلاً : کسی چیز کے اجزاء کو الگ الگ کرنا‘ کھول کھول کر بیان کرنا‘ تفصیل سے بتانا۔ {وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلَـعَلَّھُمْ یَـرْجِعُوْنَ ۔ } (الاعراف) ’’ اور اس طرح ہم کھول کھول کر بتاتے ہیں آیتوں کو اور یہ اس لیے شاید کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘

 مُفَصَّلٌ (اسم المفعول) : تفصیل سے بتایا ہوا‘ الگ الگ کیا ہوا۔ {ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتٰبَ مُفَصَّلًاط} (الانعام:114) ’’ وہ ہے جس نے اتارا تم لوگوں کی طرف کتاب کو‘ الگ الگ کی ہوئی حالت میں۔‘‘

 فَاصَلَ (مفاعلہ) فِصَالاً : کسی کو شراکت سے الگ کرنا‘ بچے کا دودھ چھڑانا‘ آیت زیر مطالعہ۔

ش و ر

 شَارَ (ن) شَوْرًا : (1) چھتے سے شہد نکالنا‘ کسی چیزکا جوہر نکالنا۔ (2) گھوڑے کی صلاحیت معلوم کرنے کے لیے اس پر سواری کرنا‘ کسی کا تعارف حاصل کرنا۔

 اَشَارَ (افعال) اِشَارَۃً : کسی کا تعارف کرانا‘ اشارہ کرنا۔ {فَاَشَارَتْ اِلَیْہِط} (مریم:29) ’’ تو اس نے اشارہ کیا اس کی طرف۔‘‘

 شَاوَرَ (مفاعلہ) مُشَاوَرَۃً : کسی کے دماغ سے اس کی رائے نکالنا‘ رائے لینا‘ مشورہ لینا‘ رائے معلوم کرنا۔

 شَاوِرْ (فعل امر) : تو رائے لے۔ {وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِج} (آل عمران:159) ’’ اور آپؐ رائے لیں ان سے فیصلے میں۔‘‘

 تَشَاوَرَ (تفاعل) تَشَاوُرًا : ایک دوسرے سے رائے لینا‘ باہم مشورہ کرنا۔ آیت زیرِمطالعہ۔

 شُوْرٰی (اسم فعل) : باہم مشورہ کرنا۔ {وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْص} (الشّورٰی:38) ’’ اور ان لوگوں کا کام آپس میں مشورہ کرنا ہے۔‘‘

 ترکیب : ’’ یُرْضِعْنَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُنَّ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَلْوَالِدٰتُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اَوْلاَدَھُنَّ‘‘ اس کا مفعول ہے اور ’’ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ‘‘ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ‘‘ مبتدأ مؤخر ہیں۔ ان میں ’’ ھُنَّ‘‘ کی ضمیر ’’ اَلْوَالِدٰتُ‘‘ کے لیے ہے۔ ان کی خبر محذوف ہے جو ’’ وَاجِبٌ‘‘ ہو سکتی ہے۔ ’’ عَلَی الْمَوْلُوْدِ لَـہٗ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے اور ’’ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ تُکَلَّفُ‘‘ باب تفعیل کا مضارع مجہول ہے اور یہ واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ ’’ نَفْسٌ‘‘ اس کا نائب فاعل ہے‘ جبکہ اس کا مفعول محذوف ہے جو ’’ شَیْئًا‘‘ ہو سکتا ہے ۔

 ’’ لَا تُضَارَّ‘‘ باب مفاعلہ کا مضارع مجزوم ہے ‘ لیکن یہ مضارع معروف اور مجہول دونوں کا فعل نہی بنتا ہے‘ اس لیے دونوں ترجموں کی گنجائش ہے اور یہاں دونوں ہی مراد ہیں۔ ’’ وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّــہٗ‘‘ میں ’’ وَلَا‘‘ کے بعد ’’ یُضَارَّ‘‘ محذوف ہے اور اس کے بھی دونوں ترجمے مراد ہیں۔ زیادہ تر تراجم میں مجہول کا ترجمہ کیا گیا ہے اس لیے دوسرا پہلو واضح کرنے کے لیے ہم معروف کا ترجمہ دیں گے۔’’ اٰتَـیْتُمْ‘‘ کا ایک مفعول’’ مَا‘‘ ہے اور دوسرا مفعول’’ ھُنَّ‘‘ محذوف ہے ۔ ’’ اِذَا‘‘ شرطیہ کی وجہ سے ’’ اٰتَیْتُمْ‘‘ کا ترجمہ حال میں ہو گا۔ وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا ۚ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ  ٢٣٤؁
[ وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جن کو ] [ یُـتَوَفَّوْنَ : موت دی جاتی ہے ] [ مِنْکُمْ : تم میں سے ] [ وَیَذَرُوْنَ : اور وہ لوگ چھوڑتے ہیں ] [ اَزْوَاجًا : بیویوں کو ] [ یَّـتَرَبَّصْنَ : وہ انتظار کریں گی] [ بِاَنْفُسِہِنَّ : اپنے نفس کے ساتھ ] [ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ : چار مہینے ] [ وَّعَشْرًا : اور دس (راتیں) ] [ فَاِذَا : پھر جب ] [ بَلَغْنَ : وہ پہنچیں ] [ اَجَلَہُنَّ : اپنی مدت کو ] [ فَلاَ جُنَاحَ : تو کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے] [ عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [ فِیْمَا : اس میں جو ] [ فَعَلْنَ : وہ کریں] [ فِیْ اَنْفُسِہِنَّ : اپنے لیے ] [ بِالْمَعْرُوْفِ : بھلائی سے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ بِمَا : اس سے جو ] [ تَعْمَلُوْنَ : تم لوگ کرتے ہو] [ خَبِیْرٌ: آگاہ ہے ]

 

و ذ ر

 وَذَرَ (ف) وَذْرًا : کسی چیز کو چھوڑنا‘ ترک کرنا۔ {اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ کیا تم لوگ پکارتے ہو بعل کو اور چھوڑتے ہو بہترین پیدا کرنے والے کو؟‘‘

 ذَرْ (فعل امر) : تو چھوڑ۔ {وَقَالُوْا ذَرْنَا نَـکُنْ مَّعَ الْقٰعِدِیْنَ ۔ } (التوبۃ) ’’ اور انہوں نے کہا تو چھوڑ ہم کو تو ہم ہو جائیں بیٹھنے والوں کے ساتھ۔‘‘

خ ب ر

 خَبَرَ (ف) خَبْرًا : کسی چیز کے متعلق معلومات حاصل کرنا‘ آگاہ ہونا۔

 خَبَرٌ ج اَخْبَارٌ (اسم ذات) : آگاہی‘ خبر‘ معلومات۔ {اِنِّیْ اٰنَسْتُ نَارًا ط سَاٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِخَبَرٍ} (النمل:7) ’’ بے شک میں دیکھتا ہوں آگ کو ۔ عنقریب میں لائوں گا تم لوگوں کے پاس اس سے کوئی خبر ۔‘‘{قَدْ نَـبَّـاَنَا اللّٰہُ مِنْ اَخْبَارِکُمْط} (التوبۃ:94) ’’ ہم کو بتا دیا ہے اللہ نے تمہاری خبروں میں سے۔‘‘

 خَبِیْرٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : ہمیشہ اور ہر حال میں آگاہ‘ باخبر‘ آیت زیر مطالعہ۔

 خُبْــرٌ (اسم ذات) : تجربہ‘ علم۔ {وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْرًا ۔ } (الکہف) ’’ اور آپؑ کیسے ثابت قدم رہیں گے اس پر‘ آپؑ نے احاطہ نہیں کیا جس کا‘ بطور علم کے۔‘‘

 ترکیب :’’ یُتَوَفَّوْنَ‘‘ باب تفعّل سے مضارع مجہول ہے۔ اس کا نائب فاعل اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ الَّذِیْنَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ یَذَرُوْنَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور یہ بھی ’’ الَّذِیْنَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اَزْوَاجًا‘‘ اس کا مفعول ہے۔ ’’ یَتَرَبَّصْنَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُنَّ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَزْوَاجًا‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اَرْبَعَۃَ‘‘ مضاف ہے اور ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ عَشْرًا‘‘ کے بعد ’’ لَـیَالٍ‘‘ (راتیں) محذوف ہے۔ یہ دراصل ’’ عَشْرَ لَیَالٍ‘‘ تھا۔ ’’ لَـیَالٍ‘‘ محذوف ہوا تو ’’ عَشْرَ‘‘ مضاف نہیں رہا اس لیے ’’ عَشْرًا‘‘ آیا ہے۔ اگر یہاں دن مراد ہوتے تو یہ ’’ عَشْرَۃَ اَیَّامٍ‘‘ بنتا اور پھر ’’ اَیَّامٍ‘‘ محذوف کرنے سے ’’ عَشْرَۃً‘‘ آتا۔ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِـيْمَا عَرَّضْتُمْ بِهٖ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاۗءِ اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ سَتَذْكُرُوْنَهُنَّ وَلٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا اِلَّآ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ڛ وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتّٰي يَبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَهٗ  ۭوَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِىْٓ اَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوْهُ  ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ   ٢٣٥؁ۧ
[ وَلاَ جُنَاحَ: اور کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے] [ عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [ فِیْمَا : اس میں ] [ عَرَّضْتُمْ : تم لوگ اشارۃً پیش کرو] [ بِہٖ : جس کو ] [ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَآئِ : ان خواتین کے رشتہ کے پیغام میں سے ] [ اَوْ اَکْنَنْتُمْ : یا تم لوگ ] [ چھپائو ] [ فِیْ اَنْفُسِکُمْ : اپنے جی میں ] [ عَلِمَ اللّٰہُ : اللہ نے جانا ] [ اَنَّــکُمْ : کہ تم لوگ ] [ سَتَذْکُرُوْنَہُنَّ : تذکرہ کرو گے ان کا] [ وَلٰکِنْ : اور لیکن ] [ لاَّ تُوَاعِدُوْہُنَّ : تم لوگ معاہدہ مت کرو ان سے ] [ سِرًّا : چوری چھپے ] [ اِلَّآ اَنْ : سوائے اس کے کہ ] [ تَقُوْلُوْا : تم لوگ کہو ] [ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا : دستور کے مطابق کوئی بات] [ وَلاَ تَعْزِمُوْا : اور پختہ ارادہ مت کرو] [ عُقْدَۃَ النِّکَاحِ : نکاح کی گرہ کا ] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ یَبْلُغَ : پہنچے ] [ الْکِتٰبُ : قانون ] [ اَجَلَہٗ : اپنی مدت کو ] [ وَاعْلَمُوْآ : اور تم لوگ جان لو ] [ اَنَّ اللّٰہَ : کہ اللہ ] [ یَعْلَمُ : جانتا ہے ] [ مَا : اس کو جو] [ فِیْ اَنْفُسِکُمْ: تمہارے نفسوں میں ہے] [ فَاحْذَرُوْہُ : پس تم لوگ بچو اس سے ] [ وَاعْلَمُوْآ : اور جان لو ] [ اَنَّ اللّٰہَ : کہ اللہ] [ غَفُوْرٌ : بےانتہا بخشنے والا ہے] [ حَلِیْمٌ : ہر حال میں بُردبار ہے]

 

خ ط ب

 خَطَبَ (ن) خَطْبًا : (1) کسی کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرنا‘ وعظ کرنا‘ تقریر کرنا۔ (2) منگنی کا پیغام دینا‘ منگنی کرنا۔

 خَطْبٌ : صورت حال‘ حال‘ مدّعا‘ مطلب۔ {فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّـھَا الْمُرْسَلُوْنَ ۔ } (الحجر) ’’ تم لوگوں کا کیا مدعا ہے اے بھیجے ہوئے لوگو! ( یعنی فرشتو)‘‘

 خِطْبَۃٌ : رشتہ کا پیغام۔ آیت زیر مطالعہ۔

 خَاطَبَ (مفاعلہ) مُخَاطَبَۃً اور خِطَابًا : کسی کو اپنی طرف متوجہ کر کے گفتگو کرنا‘ خطاب کرنا۔{وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاج} (ھود:37) ’’ اور تم گفتگو مت کرنا مجھ سے ان کے بارے میں جنہوں نے ظلم کیا۔‘‘

 خِطَابٌ (اسم ذات بھی ہے) : گفتگو‘ خطاب۔ {وَعَزَّنِیْ فِی الْخِطَابِ ۔ } (صٓ) ’’ اور وہ حاوی ہوا مجھ پر گفتگو میں۔‘‘

ک ن ن

 کَنَّ (ن) کَنًّا : کسی چیز کو کسی چیز میں چھپانا‘ ڈھانکنا‘ محفوظ کرنا۔

 مَکْنُوْنٌ (اسم المفعول) : چھپایا ہوا‘ محفوظ کیا ہوا۔ {کَاَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ جیسے کہ وہ ہوں محفوظ کیے ہوئے انڈے۔‘‘

 کِنَانٌ ج اَکِنَّــۃٌ : وہ چیز جس میں چھپایا جائے‘ غلاف‘ پردہ۔ {وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّۃٍ} (حٰمٓ السجدۃ:5) ’’ اور انہوں نے کہا ہمارے دل غلافوں میں ہیں۔‘‘

 کِنٌّ ج اَکْنَانٌ : جس میں انسان خود کو چھپائے‘ کمرے کے اندر کوٹھڑی‘ غار۔ {وَجَعَلَ لَـکُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَکْنَانًا}(النحل:81) ’’ اور اس نے بنائی تمہارے لیے پہاڑوں میں غار۔‘‘

 اَکَنَّ (افعال) اِکْنَانًا : کسی بات کو دل میں چھپانا۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

ع ق د

 عَقَدَ (ض) عَقْدًا : (1) کسی چیز کو باندھنا‘ گرہ لگانا۔ (2) کسی چیز کو پکا کرنا‘ مضبوط کرنا ‘ جیسے وعدہ یا سودا وغیرہ (متعدی) ۔ (3) مضبوط ہونا (لازم) ۔ {وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَـاٰ تُوْھُمْ نَصِیْبَھُمْط} (النّسائ:33) ’’ اور وہ لوگ جن سے پکی ہوئیں تمہاری قسمیں تو ان کو دو ان کا حصہ۔‘‘

 عُقْدَۃٌ ج عُقَدٌ (اسم ذات) : گرہ۔ آیت زیر مطالعہ ۔{وَمِنْ شَرِّ النّٰفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ ۔ } (الفلق) ’’ اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔‘‘

 عِقْــدٌ ج عُقُوْدٌ (اسم ذات) : عہد‘ پیمان۔ {یٰٓــاَیـُّــھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِط} (المائدۃ:1) ’’ اے لوگو جوایمان لائے ہو ! تم لوگ پورا کرو عہدوں کو۔‘‘

 عَقَّدَ (تفعیل) تَعْقِیْدًا : بار بار پکا کرنا‘ خوب مضبوط کرنا۔ {یُؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَج} (المائدۃ:89) ’’ وہ پکڑے گا تم کو اس پر جو تم نے پکا کیا قسموں کو۔‘‘

 ترکیب : ’’ عَرَّضْتُمْ بِہٖ‘‘ میں ’’ ہُ‘‘ کی ضمیر ’’ فِیْمَا‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَائِ‘‘ میں ’’ مِنْ‘‘ بیانیہ ہے جو ’’ فِیْمَا‘‘ کی وضاحت کرر ہا ہے۔ ’’ خِطْبَۃِ‘‘ مضاف ہے اور اس کا مضاف الیہ ’’ اَلنِّسَائِ‘‘ ہے۔ اس پر لام تعریف لگا ہوا ہے جو گزشتہ آیت کے لفظ ’’ اَزْوَاجًا‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ لَا تُوَاعِدُوْا‘‘ کا مفعول ’’ ھُنَّ‘‘ کی ضمیر ہے ‘ جبکہ ’’ سِرًّا‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ لَاجُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَالَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِيْضَةً  ښ وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۚ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ  ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ ۚ حَقًّا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ   ٢٣٦؁
[ لاَ جُنَاحَ : کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے ] [ عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ : اگر تم لوگ طلاق دو عورتوں کو ] [ مَا : جبکہ ] [ لَمْ تَمَسُّوْہُنَّ : تم نے چھوا نہیں ان کو ] [ اَوْ : یا ] [ تَفْرِضُوْا : (جبکہ نہیں) تم نے فرض کیا ] [ لَہُنَّ : ان کے لیے ] [ فَرِیْضَۃً : کوئی واجب (مہر) ] [ وَّمَتِّعُوْہُنَّ: اور تم لوگ سامان دو ان کو] [ عَلَی الْمُوْسِعِ : (سامان دینا واجب ہے) فراغ دست پر ] [ قَدَرُہٗ : اس کے اندازے سے ] [ وَعَلَی الْمُقْتِرِ : اور تنگ دست پر ] [ قَدَرُہٗ : اس کے اندازے سے ] [ مَتَاعًا : سامان ہوتے ہوئے ] [ بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق ] [ حَقًّا : حق ہوتے ہوئے ] [ عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ : بلاکم و کاست کام کرنے والوں پر ]

 

ق ت ر

 قَـتَرَ (ن) قَتْرًا : خرچ میں تنگی کرنا۔ {وَالَّذِیْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا} (الفرقان:67) ’’ اور وہ لوگ جو جب بھی خرچ کرتے ہیں تو بےجا خرچ نہیں کرتے اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں۔‘‘

 قَـتُوْرٌ (فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ) : خرچ میں بہت زیادہ تنگی کرنے والا‘ کنجوس‘ بخیل۔{وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَـتُوْرًا ۔ } (بنی اسرائیل ) ’’ اور انسان کنجوس ہے۔‘‘

 قَتِرَ (س) قَتَرًا : کسی چیز کی بو پھیلنا‘ آگ کا دھواں دینا۔

 قَتَرٌ (اسم ذات) : دھواں‘ سیاہی۔ {وَلَا یَرْھَقُ وُجُوْھَھُمْ قَتَـرٌ وَّلَا ذِلَّــۃٌط} (یونس:26) ’’ اور نہیں چھائے گی ان کے چہروں پر کوئی سیاہی اور نہ ہی کوئی ذلت۔‘‘

 اَقْتَرَ (افعال) اِقْتَارًا : مال کا کم ہو جانا۔

 مُقْتِرٌ (اسم الفاعل) : مال میں کم ہونے والا‘ تنگ دست۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ مَا لَمْ‘‘ کا’’ مَا‘‘ ظرفیہ ہے۔ ’’ اَوْ تَفْرِضُوْا‘‘ میں ’’ اَوْ‘‘ کے بعد ’’ مَا لَمْ‘‘ محذوف ہے اس لیے فعل ’’ تَفْرِضُوْا‘‘ مجزوم آیا ہے۔ ’’ عَلَی الْمُوْسِعِ‘‘ سے پہلے اس کا مبتدأ’’ تَمْتِیْعٌ‘‘ اور خبر ’’ وَاجِبٌ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ مَتَاعًا‘‘ اور ’’ حَقًّا‘‘ خبر محذوف ’’ وَاجِبٌ‘‘ کا حال ہے۔ وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِيْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ يَّعْفُوْنَ اَوْ يَعْفُوَا الَّذِيْ بِيَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِ  ۭ وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۭ وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ  ٢٣٧؁
[ وَاِنْ : اور اگر ] [ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ : تم لوگ طلاق دو ان کو] [ مِنْ قَبْلِ: اس سے پہلے ] [ اَنْ : کہ ] [ تَمَسُّوْہُنَّ : تم نے چھوا ان کو ] [ وَ : اس حال میں کہ ] [ قَدْ فَرَضْتُمْ : تم فرض کر چکے ہو ] [ لَہُنَّ : ان کے لیے ] [ فَرِیْضَۃً : کوئی واجب (مہر) ] [ فَنِصْفُ مَا : تو اس کا آدھا ہے جو] [ فَرَضْتُمْ : تم نے فرض کیا (واجب ہے تم پر) ] [ اِلَّآ اَنْ : سوائے اس کے کہ ] [ یَّعْفُوْنَ : وہ خواتین معاف کر دیں] [ اَوْ : یا (یہ کہ) ] [ یَعْفُوَا: زیادہ دے ] [ الَّذِیْ بِیَدِہٖ : وہ جس کے ہاتھ میں

عُقْدَۃُ النِّکَاحِ : نکاح کی گرہ ہے ] [ وَاَنْ : اور یہ کہ ] [ تَعْفُوْآ : تم لوگ زیادہ دو] [ اَقْرَبُ : (تو یہ) زیادہ قریب ہے

لِلتَّقْوٰی : تقویٰ سے ] [ وَلاَ تَنْسَوُا : اور تم لوگ مت بھولو] [ الْفَضْلَ : حق سے زیادہ چیز کو ] [ بَیْنَـکُمْ: آپس میں ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ بِمَا : اس کو جو ] [ تَعْمَلُوْنَ : تم لوگ کرتے ہو ] [ بَصِیْرٌ: ہر حال میں دیکھنے والا ہے ]

 

 ترکیب : ’’ وَقَدْ فَرَضْتُمْ‘‘ کا ’’ واؤ‘‘ حالیہ ہے۔ ’’ فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ‘‘ میں ’’ نِصْفُ‘‘ مضاف ہے‘ ’’ مَا‘‘ اس کا مضاف الیہ ہے اور یہ پورا فقرہ مبتدأ ہے۔ اس کی خبر ’’ وَاجِبٌ‘‘ اور متعلق خبر ’’ عَلَیْکُمْ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ یَعْفُوْنَ‘‘ جمع مذکر غائب اور جمع مؤنث غائب کے صیغوں میں ہم شکل ہوجاتا ہے۔ یہاں چونکہ ’’ اِلاَّ اَنْ یَّعْفُوْنَ‘‘ میں ’’ اَنْ‘‘ کی وجہ سے نونِ اعرابی نہیں گرا‘ اس سے معلوم ہو گیا کہ یہ جمع مؤنث غائب ہے۔ ’’ اَوْ یَعْفُوَا‘‘ دراصل واحد مذکر غائب کا صیغہ ’’ یَعْفُوْ‘‘ ہے جو ’’ اِلاَّ اَنْ‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے منصوب ہو کر ’’ یَعْفُوَا‘‘ ہوا ہے اور اس کے آگے ’’ الف ‘‘ لکھنا قرآن کا مخصوص املاء ہے۔ اس کی وجہ سے اس کو تثنیہ کا صیغہ ماننا ممکن نہیں ہے‘ کیونکہ آگے ’’ اَلَّذِیْ‘‘ واحد آیا ہے ۔ جبکہ ’’ وَاَنْ تَعْفُوْا‘‘ جمع مذکر مخاطب ہے ‘ کیونکہ ’’ اَنْ‘‘ کی وجہ سے نونِ عرابی گرا ہوا ہے۔

 نوٹ (1) : ’’ تَمَسُّوْھُنَّ‘‘ سے پہلے طلاق دینے کا پاکستانی اصطلاح میں مطلب ہے رخصتی سے پہلے طلاق دینا۔ اس میں دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ نکاح کے وقت مہر طے نہیں ہوا تھا اور رخصتی سے پہلے طلاق ہو گئی۔ اس کے لیے ہدایت گزشتہ آیت میں ہے۔ دوسرے یہ کہ نکاح کے وقت مہر طے ہوا تھا پھر رخصتی سے پہلے طلاق ہوئی۔ اس کے لیے ہدایت آیت زیر مطالعہ میں ہے۔ حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ۤ وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ  ٢٣٨؁
[ حٰفِظُوْا : تم لوگ ہمیشگی اختیار کرو] [ عَلَی الصَّلَوٰتِ : نمازوں پر ] [ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی : اور (بالخصوص نگرانی کرو) درمیانی نماز کی ] [ وَقُوْمُوْا : اور کھڑے ہو ] [ لِلّٰہِ : اللہ کے لیے ] [ قٰنِتِیْنَ : فرماں بردار ہوتے ہوئے ]

 

ح ف ظ

 حَفِظَ (س) حِفْظًا : کسی چیز کو ضائع ہونے یا رائیگاں جانے سے بچانا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) حفاظت کرنا۔ (2) نگرانی کرنا۔ (3) یاد کرنا۔{یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِط} (الرعد:11) ’’ وہ لوگ نگہبانی کرتے ہیں اس کی اللہ کے حکم سے۔‘‘

 اِحْفَظْ(فعل امر) : تو حفاظت کر‘ نگہبانی کر۔ {وَاحْفَظُوْا اَیْمَانَـکُمْط} (المائدۃ:89) ’’ اور تم لوگ حفاظت کرو اپنی قسموں کی۔‘‘

 حَفِیْظٌ (فَعِیْلٌ کا وزن) : ہمیشہ اور ہر حال میں (1) حفاظت یا نگرانی کرنے والا (2) محفوظ کرنے والا۔ {وَمَا اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ ۔ } (الانعام) ’’ اور میں نہیں ہوں تم لوگوں کی نگہبانی کرنے والا۔‘‘{وَعِنْدَنَا کِتٰبٌ حَفِیْظٌ ۔ } (قٓ) ’’ اور ہمارے پاس ایک محفوظ کرنے والی کتاب ہے۔‘‘

 حَافِظٌ (فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل) : حفاظت کرنے والا‘ نگرانی کرنے والا۔ {وَاِنَّا لَـہٗ لَحٰفِظُوْنَ } (الحجر) ’’ اور بےشک ہم اس کی لازماً حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

 مَحْفُوْظٌ (مفعولٌکے وزن پر اسم المفعول) : حفاظت کیا ہوا۔ {وَجَعَلْنَا السَّمَآئَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًاج} (الانبیائ:32) ’’ اور ہم نے بنایا آسمان کو ایک حفاظت کی ہوئی چھت۔‘‘

 حَفَظَۃٌ (صفت) : نگہبان‘ نگران۔ {وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃًط} (الانعام:61) ’’ اور وہ بھیجتا ہے تم لوگوں پر نگہبان۔‘‘

 حَافَظَ (مفاعلہ) مُحَافَظَۃً : کسی چیز کی مسلسل نگہبانی کرنا‘ یعنی کسی کام پر ہمیشگی اختیار کرنا۔{وَھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ ۔ } (الانعام) ’’ اور وہ لوگ اپنی نماز پر ہمیشگی اختیار کرتے ہیں۔‘‘

 حَافِظْ (اسم الفاعل) : تو مسلسل نگرانی کر‘ توہمیشگی اختیار کر۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 اِسْتَحْفَظَ (استفعال) اِسْتِحْفَاظًا : کسی چیز کی حفاظت چاہنا۔ {بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ}(المائدۃ:44) ’’ اس وجہ سے کہ وہ حفاظت چاہے گئے اللہ کی کتاب میں سے۔‘‘

 ترکیب : ’’ حَافِظُوْا عَلٰی‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے ’’ الصَّلٰوۃِ‘‘ مجرور ہوا ہے۔ ’’ الْوُسْطٰی‘‘ اس کی صفت ہے ‘ لیکن مبنی ہونے کی وجہ سے اس میں تبدیلی نہیں ہوئی۔ ’’ قٰنِتِیْنَ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا ۚ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ   ٢٣٩؁
[ فَاِنْ خِفْتُمْ : پھر اگر تمہیں خوف ہو (کسی چیز کا)] [ فَرِجَالاً : تو (نماز پڑھو) پیدل چلتے ہوئے ] [ اَوْ رُکْبَانًا : یا سواری کرتے ہوئے ] [ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ : پھر جب تم لوگ امن میں ہو] [ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ : تو یاد کرو اللہ کو ] [ کَمَا : اس طرح جیسے ] [ عَلَّمَکُمْ : اس نے سکھایا تم لوگوں کو] [ مَّا : جس کو ] [ لَمْ تَـکُوْنُوْا : تم لوگ تھے ہی نہیں] [ تَعْلَمُوْنَ : کہ جانتے ]

 

ر ج ل

 رَجَلَ (ن) رَجْلًا : ٹانگ پر مارنا۔

 رَجِلَ (س) رَجَلًا : پیدل چلنا۔

 رِجْلٌ ج اَرْجُلٌ (اسم ذات) : ٹانگ‘ پیر ۔ {اُرْکُضْ بِرِجْلِکَج} (صٓ:42) ’’ آپؑ ٹھوکر ماریں اپنے پیر سے۔‘‘{اَلَھُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِھَاز} (الاعراف:195) ’’ کیا ان کی ٹانگیں ہیں‘ وہ لوگ چلتے ہیں جن سے؟‘‘

 رَجُلٌ ج رِجَالٌ (اسم ذات) : مرد‘ آدمی۔ {اَلَـیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ ۔ } (ھود) ’’ کیا تم لوگوں میں کوئی نیک چلن مرد نہیں ہے؟‘‘ {وَنَادٰی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا} (الاعراف:48) ’’ اور پکارا اعراف کے لوگوں نے کچھ مَردوں کو۔‘‘

 رَاجِلٌ (ج) رِجَالٌ اور رَجِلٌ (اسم الفاعل) : پیدل چلنے والا‘ پیادہ۔ ’’ رَاجِلٌ‘‘ قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔ رِجَالٌ آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔ {وَاَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ} (بنی اسرائیل :64) ’’ اور تو لے آ ان پر اپنے سواروں کو اور اپنے پیادوں کو۔‘‘

ر ک ب

 رَکِبَ (س) رُکُوْبًا و مَرْکَبًا : کسی چیز پر چڑھنا‘ سوار ہونا۔ {فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ} (العنکبوت:65) ’’ پھر جب وہ لوگ سوار ہوتے ہیں کشتی پر تو وہ پکارتے ہیں اللہ کو۔‘‘

 اِرْکَبْ (فعل امر) : تو چڑھ‘ تو سوار ہو۔ {یٰـبُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا} (ھود:42) ’’ اے میرے بچے! تُو سوار ہو ہمارے ساتھ۔‘‘

 رَاکِبٌ جمع رَکْبٌ‘ رَکُوْبٌ‘ رُکْبَانٌ (فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل) : سوار ہونے والا‘ سوار۔ رَاکِبٌ قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔ {وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْط} (الانفال:42) ’’ اور سواروں کا دستہ تم سے زیادہ اُترائی میں تھا۔‘‘{فَمِنْھَا رَکُوْبُھُمْ وَمِنْھَا یَاْکُلُونَ ۔ } (یٰسٓ:72) ’’ تو اس میں سے ان کے سوار ہیں اور اس میں سے وہ لوگ کھاتے ہیں۔‘‘ رُکْبَانٌآیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔

 رِکَابٌ : سوار کے پیر رکھنے کی جگہ‘ رِکاب‘ سواری کا اونٹ۔ {فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ} (الحشر:6) ’’ تو تم نے نہیں دوڑایا اس پر کوئی گھوڑا اور نہ ہی کوئی اونٹ۔‘‘

 رَکَّبَ (تفعیل) تَرْکِیْبًا : ایک پر دوسری چیز رکھنا‘ ترتیب سے رکھنا‘ کسی کو ترتیب دینا۔{فِیْ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ ۔ } (الانفطار) ’’ جیسی صورت میں اس نے چاہا ترتیب دیا تجھ کو۔‘‘

 تَرَاکَبَ (تفاعل) تَرَاکُبًا : باہم ایک دوسرے پر چڑھنا‘ ایک دوسرے میں گتھ جانا۔

 مُتَرَاکِبٌ (اسم الفاعل) : ایک دوسرے میں گتھنے والا۔ {نُخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًاج} (الانعام:99) ’’ ہم نکالتے ہیں اس سے کچھ دانے باہم گتھے ہوئے۔‘‘

 ترکیب : ’’ خِفْتُمْ‘‘ کا مفعول محذوف ہے۔ ’’ رِجَالًا‘‘ اور ’’ رُکْبَانًا‘‘ دونوں حال ہیں اس لیے منصوب ہیں۔ ان کا فعل ’’ فَصَلُّوْا‘‘ محذوف ہے۔ ’’ عَلَّمَکُمْ‘‘ میں ’’ عَلَّمَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اللّٰہ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ مَا لَمْ‘‘ میں ’’ مَا‘‘ مفعول مقدم ہے ’’ تَعْلَمُوْنَ‘‘ کا۔

 نوٹ (1) : گزشتہ آیت میں نماز میں ہمیشگی اختیار کرنے کے حکم کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ہر نماز کو اس کے مقررہ وقت پر ادا کرنا ‘ اور دوسرے یہ کہ ہر نماز کو حضورِ قلبی کے ساتھ ادا کرنا۔ ہمیں حکم ہے کہ ان دونوں پہلوئوں سے ہم ہمیشہ ہر نماز کی حفاظت کریں۔ اگر کبھی حالات ایسے ہوں کہ کسی بھی وجہ سے مذکورہ حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں حضور قلبی کے پہلو کو چھوڑ دو ‘ لیکن مقررہ وقت کے پہلو کو قائم رکھو ‘ اور جیسے بھی بن پڑے نماز پڑھ لو۔

 نوٹ (2) : کلمہ طیبہ دین اسلام کا پہلا رکن ہے۔ اس کا اقرار کرنے کے بعد انسان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم پر عمل کرنا فرض ہو جاتا ہے۔ لیکن ان میں سے چار فرائض نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کی اہمیت زیادہ ہے اور ان کو ارکانِ دین کا درجہ حاصل ہے۔ اب نوٹ کریں کہ ان میں بھی روزہ‘ زکوٰۃ اور حج ایسے ارکان ہیں جن میں کچھ استثناء بھی ہیں ‘ لیکن نماز وہ واحد رکن ہے جس کا کوئی استثناء نہیں ہے۔

 آیت زیر مطالعہ میں ’’ فَاِنْ خِفْتُمْ‘‘ کے مفعول کو محذوف کر کے اسے عمومیت دی گئی اور حکم دیا گیا کہ خواہ کیسے بھی حالات ہوں ‘ نماز بہرحال پڑھنی ہے ‘ بیٹھ کر‘ لیٹ کر‘ چلتے ہوئے‘ سواری کرتے ہوئے‘ جیسے بھی بن پڑے نماز پڑھو۔ خوف کی انتہائی حالت جنگ ہے‘ اس میں بھی استثناء نہیں ہے۔ حالت جنگ میں نماز پڑھنے کا طریقہ سورۃ النساء کی آیت 102 میں بتایا گیا ہے۔

 نوٹ (3) : جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود‘ اس کی صفات و کمالات اور آخرت کے تصورتک انسان کی عقل از خود رسائی حاصل کرسکتی ہے‘ لیکن تفصیلات کے لیے انسان کی عقل اس کی راہنمائی نہیں کرسکتی‘ اس کے لیے وہ علمِ وحی کا محتاج ہے۔ آیت زیر مطالعہ اس کی ایک مثال ہے۔

 نوٹ (4) : شادی‘ بیاہ اور طلاق وغیرہ کے مسائل کے درمیان میں نماز کا ذکر کرنے کا مقصد ہمیں یہ یاد دلانا ہے کہ نماز کے بےشمار فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی مشق انسان میں خدا ترسی کا جذبہ اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے کا حوصلہ پید اکرتی ہے۔ وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا ښ وَّصِيَّةً لِّاَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ ۚ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْ مَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ   ٢٤٠؁
[ وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جن کو ] [ یُـتَوَفَّوْنَ : موت دی جاتی ہے ] [ مِنْکُمْ : تم میں سے ] [ وَیَذَرُوْنَ : اور وہ لوگ چھوڑتے ہیں] [ اَزْوَاجًا : بیویوں کو ] [ وَّصِیَّۃً: (اور کر جاتے ہیں) کوئی وصیت] [ لِّاَزْوَاجِہِمْ : اپنی بیویوں کے لیے ] [ مَّتَاعًا : (یعنی) کچھ برتنے کا سامان] [ اِلَی الْحَوْلِ : ایک سال تک ] [ غَیْرَ اِخْرَاجٍ : نکالنے کے بغیر (گھر سے) ] [ فَاِنْ : پھر اگر ] [ خَرَجْنَ : وہ نکلتی ہیں ] [ فَلاَ جُنَاحَ : تو کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے] [ عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [ فِیْ مَا : اس میں جو ] [ فَعَلْنَ : وہ کرتی ہیں ] [ فِیْ اَنْفُسِہِنَّ : اپنے بارے میں ] [ مِنْ مَّعْرُوْفٍ : بھلائی میں سے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ عَزِیْزٌ : بالادست ہے ] [ حَکِیْمٌ : حکمت والا ہے ]

 

 ترکیب : ’’ وَصِیَّـۃً‘‘ مفعول مطلق ہے اور اس کا فعل ’’ یُوْصُوْنَ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ مَتَاعًا‘‘ کی نصب ’’ وَصِیَّۃً‘‘ کا بدل ہونے کی وجہ سے ہے۔ جبکہ ’’ غَیْرَ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭحَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ   ٢٤١؁
[ وَلِلْمُطَلَّقٰتِ : اور طلاق دی ہوئی خواتین کے لیے ] [ مَتَاعٌ : کچھ برتنے کا سامان (دینا) ہے] [ بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق] [ حَقًّا : حق ہوتے ہوئے ] [ عَلَی الْمُتَّقِیْنَ : تقویٰ کرنے والوں پر]

 

 ترکیب : ’’ مُطَلَّقٰتِ‘‘ اسم المفعول ہے اور یہ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ مَتَاعٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور اس کی خبر محذوف ہے۔ ’’ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘ متعلق خبر ہے۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ   ٢٤٢؀ۧ
[ کَذٰلِکَ : اس طرح ] [ یُـبَـیِّنُ : واضح کرتا ہے ] [ اللّٰـہُ : اللہ ] [ لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [ اٰیٰتِہٖ : اپنی نشانیوں (یعنی ہدایات) کو] [ لَـعَلَّـکُمْ : شاید کہ تم لوگ] [ تَعْقِلُوْنَ : عقل (استعمال) کرو] اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ۠ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا     ۣ ثُمَّ اَحْيَاھُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ  ٢٤٣؁
[ اَلَمْ تَرَ : کیا تو نے غور ہی نہیں کیا] [ اِلَی الَّذِیْنَ : ان لوگوں (کی حالت) کی طرف جو ] [ خَرَجُوْا : نکلے ] [ مِنْ دِیَارِہِمْ : اپنے گھروں سے ] [ وَ: اس حال میں کہ ] [ ہُمْ اُلُوْفٌ : وہ ہزاروں تھے ] [ حَذَرَ الْمَوْتِ: موت کا ڈر کرتے ہوئے] [ فَقَالَ : تو کہا ] [ لَہُمُ : ان سے ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ مُوْتُوْا: تم لوگ مر جائو (تو وہ مرگئے) ] [ ثُمَّ اَحْیَاہُمْ : پھر اس نے زندہ کیا ان کو] [ اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ ] [ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا ہے ] [ عَلَی النَّاسِ : لوگوں پر ] [ وَلٰـکِنَّ : اور لیکن ] [ اَکْثَرَ النَّاسِ : لوگوں کی اکثریت ] [ لاَ یَشْکُرُوْنَ : شکر نہیں کرتی ہے]

 

ء ل ف

 اَلِفَ (س) اَلْـفًا : مانوس ہونا‘ محبت کرنا۔

 اَلَفَ (ض) اَلْــفًا : جمع ہونا‘ ہم آہنگ ہونا۔

 اٰلَفَ (افعال) اِیْلَافًا: کسی کو کسی سے مانوس کرنا۔ {اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآئِ وَالصَّیْفِ ۔ } (قریش) ’’ ان کو مانوس کرنا سردی اور گرمی کے سفر سے۔‘‘

 اَلَّفَ (تفعیل) تَاْلِیْفًا : مانوس کرنا‘ محبت پیدا کرنا‘ جمع کرنا۔ {وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ ط} (الانفال:63) ’’ اور اس نے محبت پیدا کی ان کے دلوں کے مابین۔‘‘{اَنَّ اللّٰہَ یُزْجِیْ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہٗ} (النور:43) ’’ کہ اللہ ہنکاتا ہے بادل کو پھر وہ اکٹھا کرتا ہے اس کو آپس میں۔‘‘

 مُؤَلَّفٌ (اسم المفعول) : جمع کیا ہوا‘ جوڑا ہوا۔ {وَالْمُؤَلَّـفَۃِ قُلُوْبُھُمْ} (التوبۃ:60) ’’ اور جوڑے ہوئے ہونے کے لیے ان کے دل۔‘‘

 اَلْفٌ ج اٰلَافٌ : ایک ہزار۔ {وَاِنْ یَّـکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِط} (الانفال:66) ’’ اور اگر ہوں تم میں سے ایک ہزار تو وہ غالب ہوں گے دو ہزار پر اللہ کے اذن سے۔‘‘{اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبُّـکُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰـفٍ مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ} (آل عمران:124) ’’ کہ مدد کرے تمہاری تمہارا رب تین ہزار فرشتوں سے۔‘‘

 اُلُوْفٌ (فُعُوْلٌ کے وزن پر جمع) : ہزاروں۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ اَلَمْ تَرَ‘‘ کا فاعل ’’ تَرَ‘‘ میں شامل ’’ اَنْتَ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ اَلَّـذِیْنَ خَرَجُوْا‘‘ اس کا مفعول ہے‘ جبکہ ’’ مِنْ دِیَارِھِمْ‘‘ متعلق فعل ہے۔ ’’ وَھُمْ اُلُوْفٌ‘‘ کا وائو حالیہ ہے‘ ’’ ھُمْ‘‘ مبتدأ اور ’’ اُلُـوْفٌ‘‘ خبر ہے۔ ’’ لَمْ‘‘ کی وجہ سے اس جملہ اسمیہ کا ترجمہ حال کے بجائے ماضی میں ہو گا۔ ’’ حَذَرَ الْمَوْتِ‘‘ بھی متعلق فعل ہے اور ’’ اَلَّـذِیْنَ خَرَجُوْا‘‘ کا حال ہونے کی وجہ سے اس کا مضاف منصوب ہے۔

 ’’ ثُمَّ‘‘ ترتیب کے لیے آتا ہے اس لیے اس سے پہلے ’’ فَمَاتُوْا‘‘ محذوف ہے جو کہ فعل امر ’’ مُوْتُوْا‘‘ کا جواب امرہے۔’’ اَحْیَا‘‘ کا فاعل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَللّٰہُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مفعولی ہے جو ’’ اَلَّـذِیْنَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ لٰـکِنَّ‘‘ کا اسم ’’ اَکْثَرَ النَّاسِ‘‘ ہے اس لیے اس کا مضاف منصوب ہے‘ جبکہ جملہ فعلیہ ’’ لاَ یَشْکُرُوْنَ‘‘ خبر ہے۔

 نوٹ (1) : ’’ رَ ئٰ ی۔ یَرٰی‘‘ کا مفعول بنفسہٖ آتا ہے ۔ اور جب ’’ اِلٰی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آئے تو اس میں اس کے مفعول کی حالت پر غور کرنے اور اسے سمجھنے کا مفہوم ہوتا ہے۔ ترجمہ میں اسے ظاہر کیا گیا ہے۔

 نوٹ (2) : یہ بنی اسرائیل کی ایک بستی کا واقعہ ہے جہاں کوئی وبا پھوٹ پڑی تھی۔ اس سے بچنے کے لیے یہ لوگ بستی کو چھوڑ کر جنگل میں چلے گئے جہاں انہیں موت آئی۔ پھر ایک نبی کی دعا سے دوبارہ زندہ ہوئے۔ وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ   ٢٤٤؁


 [ وَقَاتِلُوْا : اور تم لوگ قتال کرو] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [ وَاعْلَمُوْآ : اور جان لو ] [ اَنَّ : کہ ] [ اللّٰہَ : اللہ ] [ سَمِیْعٌ : سننے والا ہے ] [ عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ]

 نوٹ (1) : مادہ ’’ ق ت ل‘‘ سے فَاعِلٌکے وزن پر اسم الفاعل ’’ قَاتِلٌ‘‘ بنتا ہے۔ اس کی جمع ’’ قَاتِلُوْنَ‘‘ سے جب نونِ اعرابی گرتا ہے تو ’’ قَاتِلُوْ‘‘ استعمال ہوتا ہے ‘ یعنی واو الجمع کے الف کے بغیر۔ اور باب مفاعلہ سے اس کا فعلِ امر ’’ قَاتِلْ‘‘ بنتا ہے جس کی جمع ’’ قَاتِلُوْا‘‘ ہے۔ اس طرح دونوں میں فرق صرف واو الجمع کے الف کا ہے۔ اسی لیے ’’ قَاتِلُو الْمُشْرِکِیْنَ‘‘ کا ترجمہ ہو گا’’ مشرکوں کو قتل کرنے والے‘‘ ۔ جبکہ ’’ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ‘‘ کا ترجمہ ہو گا ’’ تم لوگ جنگ کرو مشرکوں سے‘‘۔

 نوٹ (2) : اس آیت میں گزشتہ آیت سے ربط یہ ہے کہ جب موت سے بچنا انسان کے بس میں نہیں ہے‘ تو پھر موت کے ڈر سے اللہ کی راہ میں جنگ کرنے سے جی چرانا حماقت بھی ہے اور محرومی بھی۔ مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً  ۭوَاللّٰهُ يَـقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ ۠وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ  ٢٤٥؁
[ مَنْ ذَا الَّذِیْ : کون ہے وہ جو ] [ یُقْرِضُ : قرضہ دے ] [ اللّٰہَ : اللہ کو ] [ قَرْضًا حَسَنًا : ایک خوبصورت قرض] [ فَیُضٰعِفَہٗ : اس سبب سے وہ ضرب دے کر بڑھائے اس کو ] [ لَہٗ : اس کے لیے ] [ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً : کئی گنا ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ یَقْبِضُ : سکیڑتا ہے] [ وَیَبْصُطُ : اور کشادہ کرتا ہے (رزق کو) ] [ وَاِلَـیْہِ : اور اس کی طرف ہی ] [ تُرْجَعُوْنَ: تم لوگ لوٹائے جائو گے]

 

ق ر ض

 قَرَضَ (ض) قَرْضًا : (1) کسی سے بچتے ہوئے گزر جانا‘ کترا جانا۔ (2) کسی کو بدلہ دینا۔ {وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ} (الکہف:17) ’’ اور جب وہ غروب ہوتا ہے تو وہ کترا جاتا ہے ان سے بائیں طرف۔‘‘

 قَرْضٌ (اسم ذات) : اُدھار ‘ قرض۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَقْرَضَ (افعال) اِقْرَاضًا : کسی کو ادھار دینا۔ قرض دینا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَقْرِضْ (فعل امر) : تو قرض دے۔ {وَاَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًاط} (المزمل:20) ’’ اور تم لوگ قرض دو اللہ کو‘ خوبصورت قرضہ۔‘‘

ض ع ف

 ضَعَفَ (ف) ضَعْفًا : کسی چیز کو زیادہ کرنا۔

 ضَعُفَ (ک) ضَعَافَۃً : کمزور ہونا۔ {وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَـکَانُوْاط}(آل عمران:146) ’’ اور وہ لوگ نہ کمزور ہوئے اور نہ دبے۔‘‘

 اَضْعَفُ (افعل التفضیل) : زیادہ کمزور۔ {مَنْ ھُوَ شَرٌّ مَّـکَانًا وَّاَضْعَفُ جُنْدًا ۔ } (مریم) ’’ کون زیادہ برا ہے بلحاظ مقام کے اور زیادہ کمزور ہے بلحاظ فوج کے۔‘‘

 ضَعِیْفٌ ج ضِعَافٌ اور ضُعَفَائُ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : کمزور۔ {وَخُلِقَ الاْنِسْاَنُ ضَعِیْفًا ۔ } (النسائ) ’’ اور پیدا کیا گیا انسان کو کمزور۔‘‘ {لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا} (النسائ:9) ’’ اگر وہ لوگ چھوڑیں اپنے پیچھے کچھ کمزور اولادیں۔‘‘{فَقَالَ الضُّعَفٰؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا} (ابراھیم:21) ’’ تو کہیں گے کمزور لوگ ان سے جنہوں نے بڑائی چاہی۔‘‘

 ضَعْفٌ اور ضُعْفٌ (اسم ذات) : کمزوری۔{وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًاط} (الانفال:66) ’’ اور اس نے جانا کہ تم لوگوں میں کچھ کمزوری ہے۔‘‘{اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ} (الروم:54) ’’ اللہ ہے جس نے پیدا کیا تم لوگوں کو کمزوری سے۔‘‘

 ضِعْفٌ ج اَضْعَافٌ : دوگنا (واحد لفظ ضِعْفٌ بھی دوگنے کے لیے آتا ہے اور اس کا تثنیہ ضِعْفَیْنِ بھی آتا ہے) {رَبَّنَا ھٰٓـؤُلَآئِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِط} (الاعراف:38) ’’ اے ہمارے ربّ! ان لوگوں نے بہکایا ہم کو پس تو دے ان کو دوگنا عذاب آگ میں سے۔‘‘{رَبَّـنَا اٰتِھِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ} (الاحزاب:68) ’’ اے ہمارے ربّ! تو دے ان کو دوگنا عذاب میں سے۔‘‘ جمع آیت زیر مطالعہ میں آیاہے۔

 اَضْعَفَ (افعال) اِضْعَافًا : زیادہ کرنا‘ بڑھانا۔

 مُضْعِفٌ (اسم الفاعل) : زیادہ کرنے والا۔ {فَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ ۔ } (الروم) ’’ تو وہ لوگ ہی بڑھانے والے ہیں۔‘‘

 ضَاعَفَ (مفاعلہ) مُضَاعَفَۃً : گنوں میں بڑھانا‘ multiply کرنا‘ ضرب دے کر بڑھانا۔ {وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُط} (البقرۃ:261) ’’ اور اللہ ضرب دے کر بڑھاتا ہے اس کے لیے جس کے لیے وہ چاہتا ہے۔‘‘

 اِسْتَضْعَفَ (استفعال) اِسْتِضْعَافًا : کسی کو کمزور سمجھنا۔ {اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ} (الاعراف:150) ’’ بے شک قوم نے کمزور سمجھا مجھ کو۔‘‘

 مُسْتَضْعَفٌ (اسم المفعول) : صفت کے طور پر آتا ہے‘ کمزور سمجھا ہوا یعنی کمزور۔ {قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِط} (النسائ:97) ’’ ان لوگوں نے کہا ہم لوگ تھے کمزور زمین میں۔‘‘

ق ب ض

 قَـبَضَ (ض) قَـبْضًا : کسی چیز کو پنجے سے پکڑنا۔ (1) پکڑنا‘ قبضے میں لینا۔ (2) سمیٹنا‘ سکیڑنا۔{فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ} (طٰہٰ:96) ’’ تو میں نے پکڑا ایک مٹھی بھر فرشتے کے نشان سے۔‘‘{ثُمَّ قَبَضْنٰہُ اِلَـیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا ۔ } (الفرقان) ’’ پھر ہم نے سمیٹا اس کو اپنی طرف‘ آسان سمیٹنا۔‘‘

 قَبْضَۃٌ (اسم ذات) : مُٹھی۔ {وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ} (الزمر:67) ’’ اور زمین کُل کی کُل اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن۔‘‘

 مَقْبُوْضَۃٌ (اسم المفعول) : قبضہ میں لیا ہوا‘ پکڑا ہوا۔ {وَلَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌط} (البقرۃ:283) ’’ اور تم لوگ نہ پائو کوئی لکھنے والا تو رہن ہے قبضہ میں لیا ہوا۔‘‘

ب س ط

 بَسَطَ (ن) بَسْطًا : کسی چیز کو پھیلانا‘ کشادہ کرنا۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 بَاسِطٌ (اسم الفاعل) : پھیلانے والا۔ {مَا اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَـیْکَ لِاَقْتُلَکَج} (المائدۃ:28) ’’ میں پھیلانے والا نہیں ہوں اپنا ہاتھ تیری طرف کہ میں قتل کروں تجھ کو۔‘‘

 مَبْسُوْطٌ (اسم المفعول) : پھیلایا ہوا۔ {بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِلا} (المائدۃ:64) ’’ بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھولے ہوئے ہیں۔‘‘

 بَسْطَۃٌ (اسم ذات) : پھیلائو‘ کشادگی۔ {وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِط} (البقرۃ:247) ’’ اور اس نے زیادہ کیا اس کو بلحاظ کشادگی‘ علم میں اور جسم میں۔‘‘

 بِسَاطٌ (اسم ذات) : پھیلائی ہوئی چیز‘ بچھونا‘ فرش۔ {وَاللّٰہُ جَعَلَ لَـکُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا ۔ } (نوح) ’’ اور اللہ نے بنایا تم لوگوں کے لیے زمین کو ایک بچھونا۔‘‘

 ترکیب : ’’ مَنْ‘‘ استفہامیہ ہے اور مبتدأ ہے۔’’ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ‘‘ صلہ موصول مل کر اس کی خبر ہے۔ ’’ یُقْرِضُ‘‘ کا مفعول’’ اللّٰہَ‘‘ ہے‘ جبکہ ’’ قَرْضًا حَسَنًا‘‘ مفعول مطلق ہے۔ ’’ فَیُضٰعِفَہٗ‘‘ کا ’’ فَا‘‘ سببیہ ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ یہ مضارع کو نصب دیتا ہے۔ اسی لیے ’’ یُضٰعِفَ‘‘ منصوب آیا ہے۔ اس میں ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ’’ قَرْضًا حَسَنًا‘‘ کے لیے ہے‘ جبکہ ’’ لَـہٗ‘‘ کی ضمیر’’ مَن ذَا الَّذِیْ‘‘ کے لیے ہے ’’ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً‘‘ تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ یَبْصُطُ‘‘ کے بعد ’’ الرِّزْقَ‘‘ محذوف ہے۔ ثلاثی مجرد کے مضارع مجہول کا وزن ’’ یُفْعَلُ‘‘ ہے ‘ اور باب افعال کے مضارع مجہول کا بھی یہی وزن ہے۔ یہاں ’’ تُرْجَعُوْنَ‘‘ ثلاثی کا مضارع مجہول ہے ‘ کیونکہ مادہ ’’ ر ج ع‘‘ باب افعال سے نہیں آتا۔

 نوٹ (1): جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوالدحداح (رض) نے کہا کہ میں کھجور کے دو باغوں کا مالک

 ہوں۔ اس کے علاوہ میری ملک میں کچھ نہیں ہے۔ میں اپنے یہ دونوں باغ اللہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا کہ ایک اللہ کے راستے میں وقف کر دو اور دوسرا اپنے اہل و عیال کی معاشی ضرورت کے لیے باقی رکھو۔ تو ابوالدحداح (رض) نے کہا کہ ان دونوں میں سے اچھا باغ جس میں چھ سو درخت ہیں‘ اس کو میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں۔ (معارف القرآن) اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى ۘ اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭقَالَ ھَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا  ۭ قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَاۗىِٕنَا  ۭ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ  ٢٤٦؁
[ اَلَمْ تَرَ : کیا تو نے غور ہی نہیں کیا ] [ اِلَی الْمَلَاِ : سرداروں (کی حالت) کی طرف ] [ مِنْم بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ: بنی اسرائیل میں سے] [ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی : موسٰی ؑ کے بعد] [ اِذْ قَالُوْا : جب ان لوگوں نے کہا ] [ لِنَبِیٍّ لَّہُمُ : اپنے ایک نبی سے ] [ ابْعَثْ : تو بھیج (یعنی مقرر کر) ] [ لَنَا : ہمارے لیے ] [ مَلِکًا : ایک بادشاہ] [ نُّـقَاتِلْ : تو ہم قتال کریں ] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [ قَالَ : انہوں ؑنے کہا ] [ ہَلْ عَسَیْتُمْ : کیا ہو سکتا ہے تم لوگوں سے] [ اِنْ : اگر ] [ کُتِبَ : فرض کیا جائے ] [ عَلَیْکُمُ : تم پر ] [ الْقِتَالُ : قتال کو ] [ اَلاَّ تُقَاتِلُوْا : کہ تم لوگ قتال نہ کرو] [ قَالُوْا : انہوں نے کہا ] [ وَمَا لَـنَـآ : اور ہمیں کیا ہے ] [ اَلاَّ نُقَاتِلَ : کہ ہم قتال نہ کریں ] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [ وَ : (جب) حال یہ ہے کہ ] [ قَدْ اُخْرِجْنَا : ہم نکالے گئے ہیں ] [ مِنْ دِیَارِنَا : اپنے گھروں سے ] [ وَاََبْنَــآئِنَا: اور اپنے بیٹوں سے ] [ فَلَمَّا : پھر جب ] [ کُتِبَ : فرض کیا گیا ] [ عَلَیْہِمُ : ان پر ] [ الْقِتَالُ : قتال کو ] [ تَوَلَّــوْا : تو انہوں نے منہ موڑا] [ اِلاَّ : مگر ] [ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ: ان میں سے تھوڑوں نے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے] [بِالظّٰلِمِیْنَ : ظلم کرنے والوں کو]

 

م ل ء

 مَلَأَ (ف) مِلَائَ ۃً : کسی چیز کو کسی چیز سے بھر دینا۔ {لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔ } (الاعراف) ’’ میں لازماً بھر دوں گا جہنم کو تم سب کے سب سے۔‘‘

 مَلُؤَ (ک) مَلَائً : بھرا ہوا ہونا‘ دولت مند ہونا‘ رئیس یا سردار ہونا۔

 مَالِــؤٌ (اسم الفاعل) : بھرنے والا۔ {فَاِنَّھُمْ لَاٰکِلُوْنَ مِنْھَا فَمَالِئُوْنَ مِنْھَا الْبُطُوْنَ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ پس وہ لوگ کھانے والے ہیں اس سے تو وہ بھرنے والے ہیں اس سے پیٹوں کو۔‘‘

 مِلْــؤٌ : اتنی مقدار جس سے کوئی چیز بھر جائے۔ بھر۔ (جیسے گلاس بھر پانی۔ مَن بھر آٹا وغیرہ) {فَلَنْ یُّـقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْئُ الْاَرْضِ ذَھَبًا} (آل عمران:91) ’’ تو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ان کے کسی ایک سے زمین بھر سونا۔‘‘

 مَلَــؤٌ (اسم جمع) : کسی قوم کے رئیسوں اور سرداروں کی جماعت۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِمْتَـلَأَ (افتعال) اِمْتِلَائً : کسی چیز کا کسی چیز سے بھر جانا۔{یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَھَنَّمَ ھَلِ امْتَلَاْتِ} (قٓ:30) ’’ جس دن ہم کہیں گے جہنم سے کیا تو بھر گئی؟‘‘

 ترکیب :’’ اِذْ قَالُوْا‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَلْمَلَاِ‘‘ کے لیے ہے۔ فعل امر’’ اُبْعَثْ‘‘ کا جواب امر ہونے کی وجہ سے ’’ نُقَاتِلْ‘‘ مجزوم ہوا ہے۔ ’’ عَسَیْتُمْ‘‘ میں ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر فعل مقاربہ ’’ عَسٰی‘‘ کا اسم ہے اور ’’ اَلاَّ تُقَاتِلُوْا‘‘ اس کی خبر ہے‘ جبکہ درمیان میں جملہ شرطیہ ہے۔ ’’ اَلاَّ‘‘ دراصل ’’ اَنْ لاَ‘‘ ہے۔ اس میں ’’ اَنْ‘‘ کی وجہ سے ’’ تُقَاتِلُوْا‘‘ منصوب ہوا ہے۔ جملہ شرطیہ میں ’’ کُتِبَ‘‘ ماضی مجہول ہے اس لیے اس پر ’’ اِنْ‘‘ کا عمل ظاہر نہیں ہوا اور ’’ اَلْقِتَالُ‘‘ اس کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ ’’ مَا‘‘ استفہامیہ ہے اور مبتدأ ہے۔ ’’ لَـنَا‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ ’’ وَقَدْ اُخْرِجْنَا‘‘ کا وائو حالیہ ہے۔ ’’ اَبْنَائِنَا‘‘ کے مضاف کی جر بتا رہی ہے کہ یہ ’’ دِیَارِنَا‘‘ پر عطف ہے۔ ’’ لَـمَّا‘‘ حرفِ شرط ہے۔ ’’ کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ‘‘ شرط ہے اور ’’ تَوَلَّوْا‘‘ جوابِ شرط ہے۔ ’’ اِلاَّ‘‘ کی وجہ سے ’’ قَلِیْلًا‘‘ منصوب ہوا ہے۔ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا  ۭ قَالُوْٓا اَنّٰى يَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۭ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهٗ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۭ وَاللّٰهُ يُؤْتِيْ مُلْكَهٗ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ   ٢٤٧؁
[وَقَالَ : اور کہا ] [لَہُمْ : ان سے ] [نَبِیُّہُمْ : ان کے نبی نے ] [اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ نے ] [قَدْ بَعَثَ : مقرر کیا ہے ] [لَــکُمْ : تمہارے لیے ] [طَالُوْتَ : طالوت کو ] [مَلِکًا : بادشاہ ] [قَالُوْا : انہوں نے کہا ] [اَنّٰی : کہاں سے ] [یَکُوْنُ : ہوگی ] [لَہُ : اس کے لیے ] [الْمُلْکُ : بادشاہت ] [عَلَیْنَا : ہم پر ] [وَ : حالانکہ ] [نَحْنُ : ہم ] [اَحَقُّ : زیادہ حق دار ہیں ] [بِالْمُلْکِ : بادشاہت کے ] [مِنْہُ : اس سے ] [وَلَمْ یُؤْتَ : اور اس کو دی ہی نہیں گئی] [سَعَۃً : کوئی وسعت ] [مِّنَ الْمَالِ : مال میں سے ] [قَالَ : (نبی نے) کہا ] [اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ نے ] [اصْطَفٰٹہُ : ترجیح دی اس کو ] [عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [وَزَادَہٗ : اور اس نے زیادہ کیا اس کو] [بَسْطَۃً : بلحاظ کشادگی‘] [فِی الْْعِلْمِ : علم میں ] [وَالْجِسْمِ : اور جسم میں ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [یُؤْتِیْ : دیتا ہے ] [مُلْکَہٗ : اپنا ملک ] [مَنْ : اس کو جس کو ] [یَّشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [وَاسِعٌ : وسعت دینے والا ہے ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ]

 

 ترکیب : ’’ بَعَثَ‘‘ کا مفعول اوّل ’’ طَالُوْتَ‘‘ ہے اور ’’ مَلِکًا‘‘ مفعول ثانی ہے۔’’ یَکُوْنُ‘‘ کا اسم’’ الْمُلْکُ‘‘ ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ لَـہٗ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔’’ یُـؤْتَ‘‘ کا نائب فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ طَالُوْتَ‘‘ کے لیے ہے‘ جبکہ ’’ سَعَۃً‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ زَادَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اللّٰہَ‘‘ کے لیے ہے‘ اس کا مفعول ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ طَالُوْتَ‘‘ کے لیے ہے‘ جبکہ ’’ بَسْطَۃً‘‘ تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔

 نوٹ : حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی بعثت سے تقریباً گیارہ سو سال پہلے کا یہ واقعہ ہے جس کا تذکرہ آیت 246 سے شروع ہوا ہے۔ اس طرح یہ قصہ آج سے تقریباً سوا تین ہزار سال پہلے کا ہے۔ آیت زیر مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس وقت بھی لوگ انسانوں کو ان کے مال و دولت سے ناپتے تھے۔ حالانکہ کسی انسان کی شخصیت اور کردار کی اساس مال و دولت نہیں‘ بلکہ اس کی جسمانی اور ذہنی صحت ہے۔ اس آیت میں ذہنی صحت کو علم کی کشادگی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ علم کے بغیر دولت مل جانا ایسا ہی ہے جیسے کسی بندر کے ہاتھ چھچھوندر لگ جائے۔ ہمارا موجودہ معاشرہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ اِنَّ اٰيَةَ مُلْكِهٖٓ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ التَّابُوْتُ فِيْهِ سَكِيْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَاٰلُ ھٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ  ٢٤٨؁ۧ
[وَقَالَ : اور کہا ] [لَہُمْ : ان سے ] [نَبِیُّہُمْ : ان کے نبی نے ] [اِنَّ : بےشک ] [اٰیَۃَ مُلْکِہٖ : اس کی بادشاہت کی نشانی ہے] [اَنْ : کہ ] [یَّاْتِیَکُمُ : آئے گا تمہارے پاس ] [التَّابُوْتُ : تابوت ] [فِیْہِ : اس میں ] [سَکِیْنَۃٌ : اطمینان ہے ] [مِّنْ رَّبِّکُمْ : تمہارے رب (کی جانب) سے] [وَبَـقِیَّۃٌ : اور باقی ماندہ ہے ] [مِّمَّا : اس میں سے جو ] [تَرَکَ : چھوڑا ] [اٰلُ مُوْسٰی : موسٰی ؑ کے پیروکاروں نے] [وَاٰلُ ہٰرُوْنَ : اور ہارونؑ کے پیروکاروں نے ] [تَحْمِلُہُ : اٹھائے ہوئے ہوں گے اس کو ] [الْمَلٰٓئِکَۃُ : فرشتے ] [اِنَّ : بےشک ] [فِیْ ذٰلِکَ : اس میں ] [لَاٰیَۃً : ایک نشانی ہے ] [لَّــکُمْ : تم لوگوں کے لیے

اِنْ : اگر ] [کُنْتُمْ : تم لو گ] [مُّؤْمِنِیْنَ : ایمان لانے والے ہو]

 

ت ب ت

 (x) : اس مادہ سے کسی باب میں کوئی فعل استعمال نہیں ہوتا۔

 تَابُوْتٌ (اسم ذات) : صندوق۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

ب ق ی

 بَقِیَ (س) بَـقَائً : (1) ہمیشہ رہنا‘ (2) باقی رہنا‘ باقی بچنا‘ دیرپا ہونا۔ {وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ} (الرحمٰن:27) ’’ اور ہمیشہ رہے گا تیرے رب کا چہرہ یعنی اس کی ذات۔‘‘ {وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا} (البقرۃ:278) ’’ اور تم لوگ چھوڑ دو اس کو جو باقی بچا سود میں سے۔‘‘

 بَاقٍ (اسم الفاعل) : باقی رہنے والا۔ {مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍط} (النحل:96) ’’ جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘

 اَبْقٰی (افعل التفضیل) : زیادہ باقی رہنے والا‘ زیادہ دیرپا۔ {وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَاَبْقٰی} (طٰہ:127) ’’ اور یقینا آخرت کا عذاب زیادہ شدید ہے اور زیادہ دیرپا ہے۔‘‘

 بَقِیَّـۃٌ (اسم نسبت) : باقی رہنے والی چیز‘ باقی ماندہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَبْقٰی (افعال) اِبْقَائً : باقی رہنے دینا‘ باقی چھوڑنا۔ {وَاَنـَّـہٗ اَھْلَکَ عَادَا نِ الْاُوْلٰی ۔ وَثَمُوْدَا فَمَا اَبْقٰی ۔ } (النجم) ’’ اور یہ کہ اس نے ہلاک کیا پہلی قوم عاد کو‘ اور ثمود کو تو باقی نہیں چھوڑا۔‘‘

ح م ل

 حَمَلَ (ض) حَمْلاً : (1) کسی چیز کو اپنے اوپر لادنا یعنی بوجھ اٹھانا۔ {اِنِّیْ اٰرٰٹنِیْ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا} (یوسف:36) ’’ بے شک میں خواب دیکھتا ہوں کہ مَیں اٹھاتا ہوں اپنے سر کے اوپر کچھ روٹی۔‘‘ (2) کسی چیز کو دوسرے پر لادنا یعنی بوجھ ڈالنا۔ {رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا} (البقرۃ:286) ’’ اے ہمارے رب! اور تو بوجھ نہ ڈال ہم پر۔‘‘ (3) کسی کو کسی چیز پر لادنا یعنی سوار کرنا یا سواری دینا۔ {وَّلَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَا اَتَوْکَ لِتَحْمِلَھُمْ قُلْتَ لاَ اَجِدُ مَا اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ ص} (التوبۃ:92) ’’ اور نہ ہی ان لوگوں پر (گناہ) ہے کہ جب وہ آئے آپؐ کے پاس تاکہ آپؐ ان کو سواری دیں تو آپؐ نے کہا کہ میں نہیں پاتا اس کو‘ مَیں سوار کروں تم کو جس پر۔‘‘

 اِحْمِلْ (فعل امر) : تو بوجھ اٹھا‘ تو بوجھ ڈال۔ {قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ} (ھود:40) ’’ ہم نے کہا آپؑ سوار کریں اس میں ہر چیز کے زوجین میں سے دو کو۔

 حَامِلٌ (اسم الفاعل) : بوجھ اٹھانے والا۔ {وَمَا ھُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰھُمْ مِّنْ شَیْئٍط} (العنکبوت:12) ’’ حالانکہ وہ لوگ اٹھانے والے نہیں ہیں ان کی خطائوں میں سے کچھ بھی۔‘‘

 حَمَّالٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ) : بار بار بوجھ اٹھانے والا‘ بوجھ ڈھونے والا۔ {وَامْرَاَتُہٗ ط حَمَّالَـۃَ الْحَطَبِ ۔ } (اللھب) ’’ اور اس کی عورت ‘ ایندھن ڈھونے والی۔‘‘

 حَمُوْلٌ (فَـعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ) : بہت زیادہ بوجھ اٹھانے والا۔{وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَۃً وَّفَرْشًاط} (الانعام:142) ’’ اور مویشیوں میں کوئی بکثرت بوجھ اٹھانے والا اور کوئی بچھا ہوا۔‘‘

 حَمْلٌ ج اَحْمَالٌ (اسم ذات) : کسی مادہ کے پیٹ کا حمل۔ {وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ ط} (الطلاق:4) ’’ اور حملوں والیاں‘ ان کی مدت ہے کہ وہ رکھ دیں اپنا حمل (یعنی بچہ پیدا ہو جائے۔)‘‘

 حِمْلٌ (اسم ذات) : بوجھ۔ {وَلِمَنْ جَآئَ بِہٖ حِمْلُ بَعِیْرٍ} (یوسف:72) ’’ اور جو لائے گا اس کو‘ اس کے لیے ایک اونٹ کا بوجھ ہے۔‘‘

 حَمَّلَ (تفعیل) تَحْمِیْلًا : (1) کسی سے بوجھ اٹھوانا۔ (2) کسی کے لیے کوئی چیز لازم کرنا۔ {رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖج} (البقرۃ:286) ’’ اے ہمارے ربّ! اور تو ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا‘ طاقت نہیں ہے ہم میں جس کی۔‘‘{فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْط} (النور:54) ’’ پس کچھ نہیں سوائے اس کے کہ اس پر ہے وہ جو لازم کیا گیا (اس پر) اور تم لوگوں پر ہے وہ جو تم پر لازم کیا گیا۔‘‘

 اِحْتَمَلَ (افتعال) اِحْتِمَالاً : اہتمام سے لادنا۔ {وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا ۔ } (الاحزاب) ’’ اور جو لوگ اذیت دیتے ہیں مؤمنوں کو اور مؤمنات کو بغیر اس کے جو انہوں نے کمایا‘ تو انہوں نے اپنے اوپر لادا ہے ایک بہتان اور ایک کھلا گناہ۔‘‘

 نوٹ : ’’ سَکِیْنَۃٌ‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں چھ مقامات پر آیا ہے۔ وہ مقامات یہ ہیں: آیت زیر مطالعہ‘ التوبۃ:26۔40 اور الفتح:4۔18۔26۔ ان مقامات کے مطالعہ سے مجموعی تأثر یہ ملتا ہے کہ یہ ایک خاص قلبی کیفیت ہے اور اللہ تعالیٰ کا خصوصی عطیہ ہے۔ کیونکہ ہر مقام پر اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے۔ فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِيْكُمْ بِنَهَرٍ ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّىْ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّىْٓ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِيَدِهٖ ۚ فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ ۭ فَلَمَّا جَاوَزَهٗ ھُوَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ۙ قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوااللّٰهِ ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ   ٢٤٩؁
[ فَلَمَّا : پھر جب ] [فَصَلَ : دور ہوا (یعنی روانہ ہوا) ] [طَالُوْتُ : طالوت ] [بِالْجُنُوْدِ : لشکروں کے ساتھ] [قَالَ : تو اس نے کہا ] [اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ ] [مُبْتَلِیْکُمْ : تم لوگوں کو آزمانے والا ہے] [بِنَہَرٍ : ایک نہر سے ] [فَمَنْ : پس جس نے ] [شَرِبَ : پیا ] [مِنْہُ : اس سے ] [فَلَیْسَ : تو وہ نہیں ہے ] [مِنِّیْ : مجھ سے ] [وَمَنْ : اور جس نے ] [لَّمْ یَطْعَمْہُ : چکھا ہی نہیں اس کو ] [فَاِنَّہٗ : تو بےشک وہ ہے ] [مِنِّیْ : مجھ سے ] [اِلاَّ : مگر یہ کہ ] [مَنِ : جس نے ] [اغْتَرَفَ : احتیاط سے بھرا ] [غُرْفَۃً : (صرف) ایک چلّو] [بِیَدِہٖ : اپنے ہاتھ سے ] [فَشَرِبُوْا : پھر ان لوگوں نے پیا] [مِنْہُ : اس سے ] [اِلاَّ : مگر ] [قَلِیْلاً : تھوڑوں نے ] [مِّنْہُمْ : ان میں سے ] [فَلَمَّا : پھر جب ] [جَاوَزَہٗ : اس نے پار کیا اس کو] [ہُوَ : اس نے ] [وَالَّذِیْنَ : اور ان لوگوں نے جو ] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [مَعَہٗ : اس کے ساتھ ] [قَالُوْا : تو ان لوگوں نے کہا ] [لاَ طَاقَۃَ : کوئی ] [طاقت نہیں ہے ] [لَنَا : ہم میں (قتال کے لیے) ] [الْیَوْمَ : آج ] [بِجَالُوْتَ : جالوت سے ] [وَجُنُوْدِہٖ : اور اس کے لشکروں سے ] [قَالَ : کہا ] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں نے جو ] [یَظُنُّوْنَ : خیال کرتے تھے ] [اَنَّہُمْ : کہ وہ لوگ ] [مُّلٰقُوا اللّٰہِ : اللہ سے ملاقات کرنے والے ہیں] [کَمْ مِّنْ : (کہ) کتنی ہی ] [فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ : چھوٹی جماعتیں] [غَلَـبَتْ : غالب ہوئیں] [فِئَۃً کَثِیْرَۃً : بڑی جماعتوں پر ] [بِاِذْنِ اللّٰہِ : اللہ کی اجازت سے ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ] [مَعَ الصّٰبِرِیْنَ: ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے ]

 

ج ن د

 ثلاثی مجرد سے فعل استعمال نہیں ہوتا۔

 جُنْـدٌ ج جُنُوْدٌ (اسم جمع) : فوج‘ لشکر۔ {اِنَّھُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ ۔ } (الدُّخان) ’’ بے شک وہ لوگ غرق کیا جانے والا ایک لشکر ہیں۔‘‘

غ ر ف

 غَرَفَ (ض) غَرْفًا : کسی چیز میں کوئی رقیق مادہ اٹھانا یا بلند کرنا‘ جیسے چمچے وغیرہ میں شوربہ لینا یا چلو میں پانی اٹھانا‘ یعنی لینا‘ بھرنا۔

 غُرَفٌ اور غُرُوْفٌ : بلند مقام‘ بلند رتبہ۔ {لٰـکِنِ الَّذِیْنَ اتَّـقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ غُرَفٌ} (الزمر:20) ’’ لیکن جن لوگوں نے تقویٰ کیا اپنے رب کا‘ ان کے لیے ایک بلند مقام ہے۔‘‘ {وَھُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ ۔ } (سبا) ’’ اور وہ لوگ بلند مقامات میں امن میں ہونے والے ہیں۔‘‘

 غُرْفَۃٌ : (1) کسی عمارت میں اوپر کا کمرہ‘ بالاخانہ ۔ {اُولٰٓـئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ} (الفرقان:75) ’’ ان لوگوں کو جزا میں دیا جائے گا بالاخانہ۔‘‘ (2) چلو‘ چلو بھر پانی۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِغْتَرَفَ (افتعال) اِغْتِرَافًا : اہتمام سے لینا‘ بھرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

ج و ز

 جَازَ (ن) جَوْزًا : کسی چیز کے وسط میں ہونا۔

 جَاوَزَ (مفاعلہ) مُجَاوَزَۃً : وسط سے آگے بڑھنا‘ گزرنا‘ دریا کے وسط سے گزرنا یعنی دریا پار کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 تَجَاوَزَ (تفاعل) تَجَاوُزًا : کسی چیز سے آگے بڑھنا‘ نظر انداز کرنا۔ {وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّاٰتِھِمْ} (الاحقاف:16) ’’ اور ہم نظر انداز کریں گے ان کی برائیوں کو۔‘‘

غ ل ب

 غَلَبَ (ض) غَلْبًا : کسی پر بالادستی حاصل کرنا‘ غالب آنا۔ {رَبَّـنَا غَلَـبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا} (المؤمنون:106) ’’ اے ہمارے ربّ! غلبہ پایا ہم پر ہماری بدبختی نے۔‘‘

 غُلِبَ (ماضی مجہول) : غلبہ پایا ہواہونا‘ مغلوب ہونا۔ {غُلِبَتِ الرُّوْمُ ۔ } (الروم) ’’ مغلوب ہوئے رومی۔‘‘

 غَلَبٌ (اسم ذات) : مغلوبی۔ {وَھُمْ مِّنْم بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ ۔ } (الروم) ’’ اور وہ لوگ اپنی مغلوبی کے بعد غالب آئیں گے۔‘‘

 غَالِبٌ (اسم الفاعل) : غالب آنے والا‘ غلبہ پانے والا۔ {فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّـکُمْ غٰلِبُوْنَج} (المائدۃ: ) ’’ پس جب تم لوگ داخل ہو گے اس میں تو یقینا تم لوگ غلبہ پانے والے ہو۔‘‘

 مَغْلُوْبٌ (اسم المفعول) : جس پر غلبہ پایا گیا۔ {فَدَعَا رَبَّـہٗ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ۔ } (القمر) ’’ تو انہوں نے پکارا اپنے رب کو کہ مَیں مغلوب ہوں پس تو بدلہ لے۔‘‘

 غَلِبَ (س) غَلَبًا : موٹی گردن والا ہونا۔

 اَغْلَبُ ج غُلْبٌ (افعل الوان وعیوب) : گنجان آبادی‘ موٹے تنے والا درخت۔ {وَحَدَائِقَ غُلْبًا ۔ } (عبس) ’’ اور باغات موٹے تنے والے درختوں کے۔‘‘

ک ث ر

 کَثُرَ (ک) کَثْرَۃً : تعداد میں زیادہ ہونا۔ {مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ ط} (النسائ:7) ’’ اس میں سے جو کم ہو اس میں یا زیادہ ہو۔‘‘

 کَثْرَۃٌ (اسم ذات) : زیادتی‘ کثرت۔ {لَا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ج} (المائدۃ:100) ’’ برابر نہیں ہوتے خبیث اور پاکیزہ چاہے بھلی لگے تجھ کو خبیث کی کثرت۔‘‘

 اَکْثَرُ (افعل التفضیل) : زیادہ تر‘ اکثریت۔{وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ } (الاعراف) ’’ اور لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی۔‘‘

 کَثِیْرٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : زیادہ‘ بہت۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 کُثْرٌ : کسی چیز کی بہتات۔ یہ لفظ قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔

 کَوْثَرٌ : یہ کُثْرٌ کا مبالغہ ہے (تدبر قرآن) ۔ انتہائی بہتات‘ بےانتہا۔{اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ ۔ } (الکوثر) ’’ بے شک ہم نے عطا کیا آپؐ ‘ کو بےانتہا۔‘‘

 اَکْثَرَ (افعال) اِکْثَارًا : زیادہ کرنا۔ {فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ} (الفجر:12) ’’ پھر انہوں نے زیادہ کیا اس میں فساد کو۔‘‘

 کَثَّرَ (تفعیل) تَکْثِیْرًا : بتدریج زیادہ کرنا۔ {وَاذْکُرُوْا اِذْ کُنْتُمْ قَلِیْلًا فَـکَثَّرَکُمْص} (الاعراف:86) ’’ اور یاد کرو جب تم لوگ تھوڑے تھے تو اس نے زیادہ کیا تم لوگوں کو۔‘‘

 تَـکَاثَرَ (تفاعل) تَکَاثُرًا : ایک دوسرے سے زیادہ ہونے کی کوشش کرنا‘ کثرت میں مقابلہ کرنا۔ {وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُـرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِط} (الحدید:20) ’’ اور ایک دوسرے پر فخر کرنا تمہارے مابین اور ایک دوسرے سے زیادہ ہونے کی کوشش کرنا مال میں اور اولاد میں۔‘‘

 اِسْتَکْثَرَ (استفعال) اِسْتِکْثَارًا : کسی چیز کی کثرت چاہنا‘ جمع کرنا۔ {وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِج} (الاعراف:188) ’’ اور اگر میں جانتا ہوتا غیب کو تو میں لازماً جمع کرتا بھلائی میں سے۔‘‘

ف ء ی

 فَائَ (ف) فَاْیًا : کسی چیز کو پھاڑ دینا۔

 فِئَۃٌ : پھٹا ہوا ٹکڑا‘ جماعت‘ گروہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ مُبْتَلِیْکُمْ‘‘ ’’ اِنَّ‘‘ کی خبر ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ شَرِبَ مِنْہُ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَلَیْسَ مِنِّیْ‘‘ جوابِ شرط ہے۔’’ لَـیْسَ‘‘ کا اسم اس کی ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ مِنِّیْ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ ’’ اِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ‘‘ کا استثناء ’’ لَمْ یَطْعَمْہُ‘‘ سے ہے۔ ’’ لَا طَاقَۃَ لَنَا‘‘ کے بعد ’’ لِلْقِتَالِ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ مُلٰـقُوْا‘‘ دراصل اسم الفاعل ’’ مُلٰقُوْنَ‘‘ ہے۔ مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا ہے اور اس کے آگے الف کا اضافہ قرآن مجید کا مخصوص املاء ہے۔ ’’ کَمْ‘‘ خبریہ ہے اس لیے ’’ فِئَۃٌ‘‘ کا ترجمہ جمع میں ہو گا۔

 نوٹ (1) : نہر سے پانی پینے پر پابندی لگا کر اسے آزمائش بنانے کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس طرح کچے اور پکے ایمان والوں کی چھانٹی مقصود تھی۔ کیونکہ حضرت طالوت کی فوج میں ہر طرح کے ایمان والے لوگ شامل تھے۔

 یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ کچے ایمان والوں کے لیے آزمائش اور سختی میں ثابت قدم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ خاص طور سے میدان جنگ میں ایسے لوگ جلدی ہمت ہار دیتے ہیں اور راہ فرار اختیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے فوج کا نظم بگڑ جاتا ہے اور ثابت قدم رہنے والوں کے لیے بھی جنگ جاری رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے کچے ایمان والوں کو پکے ایمان والوں سے الگ کردیا گیا تاکہ میدان جنگ میں صرف وہ لوگ اتریں جو صبر و استقامت کے ساتھ جنگ کریں۔

 آج کے دور میں اس آیت میں ہمارے لیے راہنمائی یہ ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں اور خاص طور سے میدان جنگ میں کامیابی کا انحصار افراد کی تعداد سے زیادہ ان کے level of commitment پر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اسی چیز کی قدر ہے۔ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَکا یہی مطلب ہے۔ وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ  ٢٥٠؀ۭ
[وَلَمَّا : اور جب ] [بَرَزُوْا : وہ لوگ سامنے آئے ] [لِجَالُوْتَ : جالوت کے ] [وَجُنُوْدِہٖ : اور اس کے لشکروں کے] [قَالُوْا : تو ان لوگوں نے کہا ] [رَبَّـنَـآ : اے ہمارے ربّ! ] [اَفْرِغْ : تو انڈیل دے ] [عَلَیْنَا : ہم پر ] [صَبْرًا : ثابت قدمی کو ] [وَّثَـبِّتْ : اور تو جما دے ] [اَقْدَامَنَا : ہمارے قدموں کو] [وَانْصُرْنَا: اور تو ہماری مدد کر ] [عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ: کافر قوم (کے مقابلہ) پر ]

 

ب ر ز

 بَرَزَ (ن) بُرُوْزًا : صاف اور کھلی فضا میں نمودار ہونا۔ (1) کہیں سے نکلنا۔ (2) کسی کے سامنے آنا‘ ظاہر ہونا۔{فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِکَ} (النسائ:81) ’’ پھر جب وہ لوگ نکلتے ہیں آپؐ کے پاس سے۔‘‘

 بَارِزٌ (اسم الفاعل) : نکلنے والا‘ ظاہر ہونے والا۔ {یَوْمَ ھُمْ بٰرِزُوْنَ} (المؤمن:16) ’’ جس دن وہ لوگ ظاہر ہونے والے ہیں۔‘‘

 بَارِزَۃٌ : صاف اور کھلی ہونے والی۔ {وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃًلا} (الکہف:47) ’’ اور تو دیکھے گا زمین کو صاف اور کھلی ہونے والی حالت میں۔‘‘

 بَرَّزَ (تفعیل) تَبْرِیْزًا : نکالنا‘ سامنے لانا‘ ظاہر کرنا۔ {وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَ ۔ } (الشُّعرائ) ’’ اور سامنے لائی جائے گی دوزخ گمراہوں کے لیے۔‘‘

ف ر غ

 فَرَغَ (ن) فَرَاغًا : کسی کام کو ختم کر کے خالی ہونا ‘ فارغ ہونا۔ {فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ۔ } (الانشراح) ’’ پھر جب آپؐ فارغ ہوں تو آپؐ محنت کریں۔‘‘

 فَرُغَ (ک) فَرَاغَۃً : بےچین ہونا‘ گھبرانا۔

 فَارِغٌ (اسم الفاعل) : فارغ ہونے والا‘ بےچین ہونے والا۔ {وَاَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰی فٰرِغًاط} (القصص:10) ’’ اور ہو گیا موسٰی ؑ کی والدہ کا دل بےچین ہونے والا۔‘‘

 اَفْـرَغَ (افعال) اِفْرَاغًا : کسی برتن کا پانی گرا کر برتن کو خالی کرنا‘ اُنڈیلنا۔ {اٰتُوْنِیْ اُفْرِغْ عَلَیْہِ قِطْرًا ۔ } (الکہف) ’’ تم لوگ لائو میرے پاس تو مَیں اُنڈیلوں اس پر تانبا۔‘‘

 اَفْرِغْ (فعل امر) : تو اُنڈیل ۔ آیت زیر مطالعہ۔

ث ب ت

 ثَـبَتَ (ن) ثُبُوْتًا : ایک حالت پر جمے رہنا‘ قائم رہنا۔

 اُثْبُتْ (فعل امر) : تو جما رہ‘ قائم رہ۔ {اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا} (الانفال:45) ’’ جب بھی تم لوگ سامنے آئو (مقابلہ کے لیے) کسی جماعت کے تو تم لوگ جمے رہو۔‘‘

 ثَابِتٌ (اسم الفاعل) : جما رہنے والا‘ قائم رہنے والا۔ {اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَائِ ۔ } (ابراھیم) ’’ اس کی جڑ جمی رہنے والی ہے اور اس کی شاخ آسمان میں ہے۔‘‘

 اَثْبَتَ (افعال) اِثْبَاتًا : (1) قائم رہنے دینا۔ (2) ہلنے نہ دینا‘ یعنی قید کرنا۔ {یَمْحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآئُ وَیُثْبِتُج} (الرعد:39) ’’ اللہ مٹاتا ہے جو وہ چاہتا ہے اور باقی رہنے دیتا ہے۔‘‘ {وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَط} (الانفال:30) ’’ اور جب سازش کرتے تھے آپؐ کے لیے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہ وہ قید کریں آپؐ ‘ کو ‘ یا قتل کریں آپؐ ‘ کو ‘ یا نکالیں آپؐ ‘ کو۔‘‘

 ثَـبَّتَ (تفعیل) تَثْبِیْتًا : جمے رہنے یا قائم رہنے کی صلاحیت دینا‘ جما دینا‘ قائم کرنا۔ {لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ} (الفرقان:32) ’’ تاکہ ہم جما دیں اس سے آپؐ کے دل کو۔‘‘

 ثَــبِّتْ (فعل امر) : تو جما دے۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ لَمَّا‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ‘‘ شرط ہے اور ’’ قَالُوْا‘‘ سے آیت کے آخر تک جوابِ شرط ہے ۔ ’’ بَرَزُوْا‘‘ اور ’’ قَالُوْا‘‘ دونوں کے فاعل ان کی ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیریں ہیں جو گزشتہ آیت میں مذکور ’’ اَلَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ‘‘ کے لیے ہیں۔ فَهَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ  ڐ وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَاٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهٗ مِمَّا يَشَاۗءُ   ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ   ٢٥١؁
[فَـہَزَمُوْہُمْ : تو ان لوگوں نے شکست دی ان لوگوں کو ] [بِاِذْنِ اللّٰہِ : اللہ کے اذن سے ] [وَقَتَلَ : اور قتل کیا ] [دَاوٗدُ : دائود نے] [جَالُوْتَ : جالوت کو ] [وَاٰتٰٹہُ : اور دیا اس کو ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [الْمُلْکَ : ملک ] [وَالْحِکْمَۃَ : اور دانائی ] [وَعَلَّمَہٗ : اور اس نے سکھایا اس کو ] [مِمَّا : اس میں سے جس میں سے ] [یَشَآئُ : اس نے چاہا ] [وَلَوْلاَ : اور اگر نہ ہوتا] [دَفْعُ اللّٰہِ : اللہ کا دفع کرنا ] [النَّاسَ : لوگوں کو ] [بَعْضَہُمْ : ان کے بعض کو ] [بِبَعْضٍ : بعض سے ] [لَّـفَسَدَتِ الْاَرْضُ : تو بگڑ جاتی زمین (نظم کے توازن میں) ] [وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ : اور لیکن اللہ ] [ذُوْ فَضْلٍ : فضل (کرنے) والا ہے] [عَلَی الْعٰلَمِیْنَ : تمام جہانوں پر ]

 

ھـ ز م

 ھَزَمَ (ض) ھَزْمًا : کسی خشک چیز کو دبا کر توڑ دینا‘ شکستہ کرنا‘ شکست دینا‘ آیت زیر مطالعہ۔

 مَھْزُوْمٌ (اسم المفعول) : شکست دیا ہوا۔ {جُنْدٌ مَّا ھُنَالِکَ مَھْزُوْمٌ} (صٓ:11) ’’ ایک لشکر ہے جو وہاں شکست دیا جانے والا ہے۔‘‘

د ف ع

 دَفَعَ (ف) دَفْعًا : (1) کسی چیز کو ہٹانا‘ دور کرنا۔ (2) کسی کو کسی چیز سے ہٹانا‘ بچانا‘ دفاع کرنا۔ (3) کسی چیز کو کسی کی طرف ہٹانا‘ دینا‘ حوالے کرنا۔ {فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَـیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْھِدُوْا عَلَیْھِمْ ط} (النسائ:6) ’’ پھر جب تم لوگ ہٹائو ان کی طرف (یعنی حوالے کرو ان کے) ان کے اموال تو گواہ بنائو ان پر۔‘‘

 اِدْفَعْ (فعل امر) : مذکورہ تینوں معانی میں آتا ہے: (1) {وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ} (حٰم السجدۃ:34) ’’ اور برابر نہیں ہوتیں بھلائیاں اور نہ ہی برائیاں۔ تو دور کر (برائیوں کو) اس سے جو سب سے اچھی ہے۔‘‘ (2) {وَقِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوِادْفَعُوْاط} (آل عمران:167) ’’ اور کہا گیا ان سے کہ تم لوگ آئو قتال کرو اللہ کی راہ میں یا دفاع کرو۔‘‘ (3) {فَادْفَعُوْا اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْج} (النسائ:6) ’’ تو تم لوگ حوالے کرو ان کے ان کے اموال۔‘‘

 دَافِـعٌ (اسم الفاعل) : ہٹانے والا‘ بچانے والا۔ {اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ ۔ مَّالَہٗ مِنْ دَافِـعٍ ۔ } (الطور) ’’ یقینا تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے اس سے۔ کوئی بچانے والا نہیں ہے۔‘‘

 دَافَعَ (مفاعلہ) مُدَافَعَۃً اور دِفَاعًا : دفاع کرنا‘ بچانا‘ ہٹانا۔ {اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط} (الحج:38) ’’ بے شک اللہ ہٹاتا ہے ان سے جو لوگ ایمان لائے۔‘‘

 ترکیب :’’ فَھَزَمُوْا‘‘ کا فاعل اس کی ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو آیت 249 میں مذکور ’’ اَلَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ‘‘ کے لیے ہے۔ اس کے آگے ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مفعولی ہے جو گزشتہ آیت میں ’’ لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ وَاٰتٰٹہُ اللّٰہُ‘‘ میں ’’ اٰتٰی‘‘ کا فاعل ’’ اَللّٰہُ‘‘ ہے‘ اس میں ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ’’ دَاوٗدَ‘‘ کے لیے ہے اور یہ اس کا مفعول اوّل ہے‘ جبکہ’’ اَلْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ مفعول ثانی ہیں۔ ’’ لَوْ لَا‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ دَفْعُ اللّٰہِ‘‘ سے ’’ بِبَعْضٍ‘‘ تک شرط ہے اور ’’ لَفَسَدَتِ الْاَرْضُ‘‘ جواب شرط ہے۔ ’’ دَفْعٌ‘‘ مصدر نے فعل کا کام کیا ہے اور ’’ اَلنَّاسَ‘‘ اس کا مفعول ہے‘ جبکہ ’’ اَلنَّاسَ‘‘ کا بدل ہونے کی وجہ سے ’’ بَعْضَھُمْ‘‘ منصوب ہوا ہے۔ ’’ اَلْعٰلَمِیْنَ‘‘ پر لامِ جنس ہے۔ تِلْكَ اٰيٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْھَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۭ وَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ   ٢٥٢؀
[تِلْکَ : یہ ] [اٰیٰتُ اللّٰہِ : اللہ کی آیات ہیں ] [نَتْلُوْہَا : ہم پڑھ کر سناتے ہیں انہیں] [عَلَیْکَ : آپؐ ‘ کو ] [بِالْحَقِّ : حق سے ] [وَاِنَّکَ : اور بےشک آپؐ] [لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ : بھیجے ہوئوں میں سے ہیں]

 

 ترکیب : ’’ تِلْکَ‘‘ مبتدأ ہے اور مرکب اضافی ’’ اٰیٰتُ اللّٰہِ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ نَتْلُوْھَا‘‘ میں ’’ ھَا‘‘ کی ضمیر مفعولی ’’ اٰیٰت‘‘ کے لیے ہے۔