قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
بیسواں پارہ 
 

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّا اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ ۚ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَهَّرُوْنَ    56؀
فَمَا كَانَ [ تو نہیں تھا] جَوَابَ قَوْمِهٖٓ [ ان کی قوم کا جواب] اِلَّا اَنْ [ سوائے اس کے کہ]قَالُوْٓا [ ان لوگوں نے کہا] اَخْرِجُوْٓا [ تم لوگ نکالو] اٰلَ لُوْطٍ [ لوط علیہ السلام کے لوگوں کو]مِّنْ قَرْيَتِكُمْ ۚ [ اپنی بستی سے] اِنَّهُمْ [ بیشک یہ لوگ] اُنَاسٌ [ ایک ایسا گروہ ہیں جو] يَّتَطَهَّرُوْنَ [ پاک رہنا چاہتے ہیں

فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ اِلَّا امْرَاَتَهٗ  ۡ قَدَّرْنٰهَا مِنَ الْغٰبِرِيْنَ     57؁
فَاَنْجَيْنٰهُ [ تو ہم نے نجات دی ان کو] وَاَهْلَهٗٓ [ اور ان کے لوگوں کو] اِلَّا [ سوائے ] امْرَاَتَهٗ ۡ [ ان ؑ کی عورت کے] قَدَّرْنٰهَا [ ہم نے طے کیا اس عورت کو] مِنَ الْغٰبِرِيْنَ [ پیچھے رہ جانے والوں میں سے]

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَّطَرًا  ۚ فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ   58؀ۧ
وَاَمْطَرْنَا [ اور ہم نے برسایا] عَلَيْهِمْ [ ان لوگوں پر] مَّطَرًا ۚ [ ایک برسنے والی چیز] فَسَاۗءَ [ تو بری تھی] مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ [ خبردار کئے ہوؤں کی برسنے والی چیز]

قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلٰمٌ عَلٰي عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى ۭ اٰۗللّٰهُ خَيْرٌ اَمَّا يُشْرِكُوْنَ    59؀ۭ
قُلِ [ آپ
کہیے] الْحَمْدُ [ تمام شکر و سپاس]لِلّٰهِ [ اللہ کے لئے ہے] وَسَلٰمٌ [ اور سلامتی ہے] عَلٰي عِبَادِهِ الَّذِيْنَ [ اس کے ان بندوں پر جن کو] اصْطَفٰى ۭ [ اس نے چن لیا] اٰۗللّٰهُ [ کیا اللہ] خَيْرٌ [ بہتر ہے] اَمَّا [ یا وہ (بہتر ہیں) جن کو] يُشْرِكُوْنَ [ یہ لوگ شریک کرتے ہیں]

اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً  ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَاۗىِٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ  ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَهَا  ۭ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ  ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ   60۝ۭ
اَمَّنْ [ یا وہ (بہتر ہے) جس نے] خَلَقَ [ پیدا کیا] السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں کو] وَالْاَرْضَ [ اور زمین کو] وَاَنْزَلَ [ اور جس نے اتارا] لَكُمْ [ تمہارے لئے]مِّنَ السَّمَاۗءِ[ آسمان سے] مَاۗءً ۚ [ کچھ پانی] فَاَنْۢبَتْنَا [ پھر ہم نے اگائے] بِهٖ [ اس (پانی) سے] حَدَاۗىِٕقَ [ باغات]ذَاتَ بَهْجَةٍ ۚ [ شادابی والے] مَا كَانَ [ نہیں ہے (ممکن)] لَكُمْ [ تمہارے لئے] اَنْ [ کہ] تُنْۢبِتُوْا [ تم لوگ اگاؤ] شَجَـرَهَا ۭ [ ان (باغات) کے درخت] ءَ [ کیا] اِلٰهٌ [ کوئی الٰہ ہے] مَّعَ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے ساتھ] بَلْ هُمْ [ بلکہ یہ لوگ] قَوْمٌ [ ایک ایسی قوم ہیں جو] يَّعْدِلُوْنَ [ برابر کرتے ہیں (دوسروں کو)]



ح د ق

(ض) حدقا کسی کو چاروں طرف سے گھیر لینا۔

 حدیقۃ ج حدائق۔ چار دیواری والا باغ۔ زیر مطالعہ آیت۔60

اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّجَعَلَ خِلٰلَهَآ اَنْهٰرًا وَّجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا  ۭءَ اِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ  ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ    61۝ۭ
اَمَّنْ [ یا وہ (بہتر ہے) جس نے] جَعَلَ [ بنایا] الْاَرْضَ [ زمین کو] قَرَارًا [ ٹھہرائی ہوئی] وَّجَعَلَ [ اور اس نے بنائیں] خِلٰلَهَآ [ اس کی دراڑوں سے] اَنْهٰرًا [ نہریں] وَّجَعَلَ [ اور اس نے بنائے] لَهَا [ اس (زمین ) کے لئے]رَوَاسِيَ [ کچھ پہاڑ] وَجَعَلَ [ اور اس نے بنایا] بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ [ دو سمندروں کے درمیان] حَاجِزًا ۭ [ ایک رکاوٹ] ءَ [ کیا] اِلٰهٌ [ کو یہ الٰہ ہے] مَّعَ اللّٰهِ ۭ[ اللہ کے ساتھ] بَلْ [ بلکہ] اَكْثَرُهُمْ [ ان کے اکثر] لَا يَعْلَمُوْنَ [ علم نہیں رکھتے



ح ج ز

(ن۔ ض) حجزا منع کرنا۔ روک دینا۔

 حاجز اسم الفاعل کے وزن پر صفت۔ روکنے والا۔ رکاوٹ۔ آڑ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 61

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ ۭءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ   62۝ۭ
اَمَّنْ [ یا وہ (بہتر ہے) جو] يُّجِيْبُ [ (دعا) قبول کرتا ہے] الْمُضْطَرَّ [ مجبور کئے ہوئے کی] اِذَا [ جب بھی] دَعَاهُ [ وہ پکارے اس کو] وَيَكْشِفُ [ اور وہ دور کرتا ہے] السُّوْۗءَ [ برائی کو] وَيَجْعَلُكُمْ [ اور بناتا ہے تم لوگوں کو] خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ ۭ [ زمین کا (یعنی میں) خلیفہ] ءَ [ کیا] اِلٰهٌ [ کوئی الٰہ ہے] مَّعَ اللّٰهِ ۭ[ اللہ کے ساتھ]قَلِيْلًا مَّا [ بہت ہی تھوڑی] تَذَكَّرُوْنَ [ تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو]



نوٹ۔1: مضطر وہ شخص ہے جو سب دنیا کے سہاروں سے مایوس ہوکر خالص اللہ تعالیٰ ہی کو فریاد رس سمجھ کر اس کی طرف متوجہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مضطر کی دعا قبول کرنے کا ذمہ لے لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سہاروں سے منقطع ہوکر، صرف اللہ تعالیٰ ہی کو کارساز سمجھ کردیا کرنا سرمائی اخلاص ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اخلاص کا بڑا درجہ ہے۔ وہ جس کسی بندے میں پایا جائے، وہ مومن ہو یا کافر، متقی ہو یا فاسق وفاجر، اس کے اخلاص کی برکت سے رحمت حق اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں کافروں کا حال ذکر فرمایا کہ یہ لوگ جب دریا میں ہوتے ہیں اور کشتی موجوں کی لپیٹ میں آجاتی ہے اس وقت یہ لوگ (سارے دیوی و یوتا بھول کر) پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرکے خشکی پر لے آتا ہے تو یہ پھر شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ ایک مظلوم کی دعا ، دوسرے مسافر کی دعا، تیسرے باپ کی جو اپنی اولاد کے لئے بدعا کرے۔ ان تینوں دعاؤں میں بھی وہی صورت ہے جو دعائے مضطر میں ہے کہ دنیا کے سہاروں اور مددگاروں سے مایوس ہوکر خالص اللہ کو پکارتے ہیں۔ اگر کسی مضطر یا مظلوم یا مسافر وغیرہ کو کبھی یہ محسوس ہو کہ اس کی دعا مقبول نہیں ہوئی تو بدگمان اور مایوس نہ ہو۔ بعض اوقات دعا قبول تو ہو جاتی ہے مگر کسی مصلحت ربانی سے اس کا ظہور دیر میں ہوتا ہے۔ یا پھر وہ اپنے نفس کو ٹٹولے کہ اس کے اخلاص اور توجہ الی اللہ میں کمی کوتاہی رہی ہے۔ (معارف القرآن)

 اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی کسی تکلیف یا پریشانی پر
Magnifying Glass لگا کر خود کو مضطر سمجھ بیٹھتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہوتا ہے کہ وہ مضطر نہیں ہے۔ (مرتب)

 کسی حقیقی مضطر کی فریاد رسی اگر بروقت نہیں ہوتی تو کسی دوسرے زیادہ موزوں تر وقت کے لئے اٹھا رکھی جاتی ہے۔ اور اگر اس شکل میں نہیں ہوتی جس شکل میں وہ چاہتا ہے تو اس سے مختلف اور بہتر شکل میں پوری ہوتی ہے۔ اور اگر اس دنیا میں نہیں ہوتی تو وہ آخرت میں اس کے لئے موجب اجر ہوگی۔ (تدبر القرآن)

اَمَّنْ يَّهْدِيْكُمْ فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُّرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ  ۭ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ  ۭ تَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ   63؀ۭ
اَمَّنْ [ یا وہ (بہتر ہے) جو] يَّهْدِيْكُمْ [ راہ سجھاتا ہے تم کو] فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ سمندر اور خشکی کے اندھیروں میں] وَمَنْ يُّرْسِلُ [ اور جو بھیجتا ہے] الرِّيٰحَ [ ہواؤں کو] بُشْرًۢا [ خوشخبریاں ہوتے ہوئے] بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ۭ [ اپنی رحمت سے پہلے]ءَ[ کیا] اِلٰهٌ [ کوئی الٰہ ہے] مَّعَ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے ساتھ] تَعٰلَى اللّٰهُ [ بلند ہوا اللہ] عَمَّا [ اس سے جو] يُشْرِكُوْنَ [ یہ لوگ شرک کرتے ہیں]

اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ  ۭ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ  ۭ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ   64؀
اَمَّنْ [ یا وہ (بہتر ہے) جو] يَّبْدَؤُا [ ابتدا کرتا ہے] الْخَلْقَ [ پیدا کرنے کی ثُمَّ [ پھر] يُعِيْدُهٗ [ وہ دوبارہ (پیدا) کرے گا اس کو] وَمَنْ [ اور جو] يَّرْزُقُكُمْ [ رزق دیتا ہے تم کو] مِّنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے]وَالْاَرْضِ ۭ [ اور زمین سے] ءَاِلٰهٌ [ کیا کوئی الٰہ ہے] مَّعَ اللّٰهِ ۭ[ اللہ کے ساتھ] قُلْ [ آپ
کہیے] هَاتُوْا [ تم لوگ دو] بُرْهَانَكُمْ [ اپنی روشن دلیل] اِنْ كُنْتُمْ [ اگر تم لوگ ہو] صٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والے]

قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ  ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ   65؀
قُلْ]آپ
کہیے] لَّا يَعْلَمُ [ نہیں جانتا] مَنْ [ جو (بھی)]فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [ زمین اور آسمانوں میں ہے] الْغَيْبَ [ غیب کو]اِلَّا اللّٰهُ ۭ [ سوائے اللہ کے] وَمَا يَشْعُرُوْنَ [ اور وہ لوگ شعور نہیں رکھتے]اَيَّانَ [ کب] يُبْعَثُوْنَ [ وہ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے



نوٹ۔1: آیت۔65۔ کا مطلب یہ ہے کہ سوائے خدا کے کوئی انسان ، جن یا فرشتہ غیب داں نہیں ہے۔ بی بی عائشہ  (رض)  کا فرمان ہے کہ جو کہے کہ رسول اللہ
کل کی بات جانتے تھے اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین اور آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں ہے۔ (ابن کثیر)

 اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اور جس قدر چاہے اپنی معلومات کا کوئی گوشہ کھول دے۔ لیکن علم غیب بحیثیت مجموعی کسی کو نصیب نہیں اور عالم الغیب ہونے کی صفت صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے۔ (تفہیم القرآن)

بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ   ۣ بَلْ هُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْهَا ڹ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ   66۝ۧ
بَلِ [ بلکہ] ادّٰرَكَ [ (اگلوں سے) جاملا] عِلْمُهُمْ [ ان کا علم] فِي الْاٰخِرَةِ ۣ [ (انکار) آخرت کے بارے میں] بَلْ هُمْ [ بلکہ وہ لوگ] فِيْ شَكٍّ [ شک میں ہیں] مِّنْهَا ڹ [ اس کے بارے میں] بَلْ هُمْ [ بلکہ وہ لوگ] مِّنْهَا [ اس سے] عَمُوْنَ [ اندھے ہیں]

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّاٰبَاۗؤُنَآ اَىِٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ   67؀
وَقَالَ [ اور کہا] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں نے جنہوں نے] كَفَرُوْٓا [ انکار کیا]ءَاِذَا [ کیا جب] كُنَّا [ ہم ہو جائیں گے ] تُرٰبًا [ مٹی] وَّاٰبَاۗؤُنَآ [ اور ہمارے باپ دادا بھی] اَىِٕنَّا [ تو کیا ہم] لَمُخْرَجُوْنَ [ ضرور نکالے جانے والے ہیں]

لَقَدْ وُعِدْنَا هٰذَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا مِنْ قَبْلُ ۙ اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ    68؀
لَقَدْ وُعِدْنَا [ بیشک وعدہ کیا جا چکا ہے ہم سے] هٰذَا [ اس کا] نَحْنُ [ ہم سے بھی] وَاٰبَاۗؤُنَا [ اور ہمارے باپ دادا سے بھی] مِنْ قَبْلُ ۙ [ اس سے پہلے] اِنْ هٰذَآ[ نہیں ہے یہ]اِلَّآ [ مگر] اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ [ پہلے لوگوں کے افسانے]

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ    69؀
قُلْ [ آپ
کہیے] سِيْرُوْا [ تم لوگ گھومو پھرو] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں] فَانْظُرُوْا [ پھر دیکھو] كَيْفَ كَانَ [ کیسا تھا] عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ [ مجرموں کا انجام

وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ   70؀
وَلَا تَحْزَنْ [ اور آپ
افسوس مت کریں] عَلَيْهِمْ [ ان لوگوں پر] وَلَا تَكُنْ [ اور آپ مت ہوں] فِيْ ضَيْقٍ [ کسی گھٹن میں] مِّمَّا [ اس سے جو] يَمْكُرُوْنَ [ یہ لوگ مکر کرتے ہیں]

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ   71؀
وَيَقُوْلُوْنَ [ اور وہ لوگ کہتے ہیں] مَتٰى [ کب] هٰذَا الْوَعْدُ [ یہ وعدہ (پورا) ہوگا] اِنْ كُنْتُمْ [ اگر تم لوگ] صٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والے ہو]



نوٹ۔1: رسولوں نے اپنی قوموں کو دو عذابوں سے ڈرایا ہے ۔ ایک عذاب دنیا سے جو رسول کی تکذیب کی صورت میں لازما ظاہر ہوتا ہے ۔ دوسرے عذاب آخرت سے ۔ اس کا جواب ان کی قوموں نے ہمیشہ یہی دیا کہ یہ عذاب کب آئے گا ۔ اگر سچے ہو تو یا تو قیامت لائو، اگر قیامت نہیں تو وہ عذاب ہی لا کر دکھائو جو تمہاری تکذیب کی صورت میں ہم پر آنے والا ہے ۔ فرمایا ان سے کہہ دو کہ عجب نہیں کہ جس چیز کے لئے تم جلدی مچاتے ہو اس کا کوئی حصہ تمہارے پیچھے ہی لگا ہوا ہو ۔ تستعجلون سے قیامت مراد ہے جس کے لئے وہ جلدی مچاتے تھے ۔ بعض سے مراد وہ عذاب ہے جو رسول کی تکذیب کا لازمی نتیجہ ہے ۔ یہاں اس بات کو عسیٰ کے لفظ سے کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بہرحال عذاب کے ظہور کا انحصار قوم کے رویے پر تھا کہ وہ ایمان لا کر اس سے محفوظ بھی رہ سکتی تھی ۔ چناچہ ہوا بھی یہی کہ آنحضرت
عذاب کی قوم کی اکثریت ایمان لائی اس وجہ سے اس پر ایسا عذاب نہیں آیا جیسا پچھلی قوموں پر آیا تھا ۔ (تدبر قرآن )

قُلْ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ تَسْتَعْجِلُوْنَ   72؀
قُلْ [ آپ
کہیے] عَسٰٓى [ ہوسکتا ہے] اَنْ يَّكُوْنَ [ کہ ہو]رَدِفَ لَكُمْ [ تمہارے پیچھے ہی] بَعْضُ الَّذِيْ [ اس کا بعض جس کی] تَسْتَعْجِلُوْنَ [ تم لوگ جلدی مچاتے ہو]

وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُوْنَ   73؀
وَاِنَّ رَبَّكَ [ اور بیشک آپ
کا رب] لَذُوْ فَضْلٍ [ یقینا فضل والا ہے] عَلَي النَّاسِ [ لوگوں پر] وَلٰكِنَّ [ اور لیکن] اَكْثَرَهُمْ [ ان کے اکثر] لَا يَشْكُرُوْنَ [ شکر نہیں کرتے]

وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَمَا يُعْلِنُوْنَ   74؀
وَاِنَّ رَبَّكَ [ اور بیشک آپ
کا رب] لَيَعْلَمُ [ یقینا جانتا ہے] مَا [ اس کو جو] تُكِنُّ [ چھپاتے ہیں] صُدُوْرُهُمْ [ ان کے سینے] وَمَا [ اور اس کو جو] يُعْلِنُوْنَ [ یہ لوگ اعلان کرتے ہیں]

وَمَا مِنْ غَاۗىِٕبَةٍ فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ   75؀
وَمَا [ اور نہیں ہے] مِنْ غَاۗىِٕبَةٍ [ کوئی بھی غائب ہونے والی] فِي السَّمَاۗءِ [ آسمان میں] وَالْاَرْضِ [ اور زمین میں] اِلَّا [ سوائے اس کے کہ]فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ [ (وہ) ایک واضح کتاب میں ہے]

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَقُصُّ عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَكْثَرَ الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ    76؀
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ [ بیشک یہ قرآن] يَقُصُّ [ بیان کرتا ہے]عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ بنی اسرائیل پر] اَكْثَرَ الَّذِيْ [ اس کے اکثر کو] هُمْ [ وہ لوگ] فِيْهِ [ جس میں] يَخْتَلِفُوْنَ [ اختلاف کرتے ہیں

وَاِنَّهٗ لَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ   77؀
وَاِنَّهٗ [ اور بیشک یہ] لَهُدًى [ یقینا ہدایت ہے] وَّرَحْمَةٌ [ اور رحمت ہے] لِّلْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں کے لئے]

اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَهُمْ بِحُكْمِهٖ  ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ    78؀ڌ
اِنَّ رَبَّكَ [ بیشک آپ
کا رب] يَقْضِيْ [ فیصلہ کرے گا] بَيْنَهُمْ [ ان کے درمیان] بِحُكْمِهٖ ۚ [ اپنے حکم سے] وَهُوَ الْعَزِيْزُ [ اور وہ ہی بالادست ہے] الْعَلِيْمُ [ جاننے والا ہے]

فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ  ۭ اِنَّكَ عَلَي الْحَقِّ الْمُبِيْنِ    79؀
فَتَوَكَّلْ [ پس آپ
بھروسہ کریں] عَلَي اللّٰهِ ۭ [ اللہ پر] اِنَّكَ [ بیشک آپ ]عَلَي الْحَقِّ الْمُبِيْنِ [ واضح حق پر ہیں]

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَاتُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ   80؀
اِنَّكَ [ بیشک آپ] لَا تُسْمِعُ [ نہیں سناتے] الْمَوْتٰى [ مردوں کو]وَلَاتُسْمِعُ [ اور آپ
نہیں سناتے] الصُّمَّ [ بہروں کو] الدُّعَاۗءَ [ (اپنی) پکار] اِذَا [ جب] وَلَّوْا [ وہ چل دیتے ہیں]مُدْبِرِيْنَ [ پیٹھ دینے والے ہوتے ہوئے]

وَمَآ اَنْتَ بِهٰدِي الْعُمْىِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ  ۭ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ   81؀
وَمَآ اَنْتَ [ اور آپ
نہیں ہیں] بِهٰدِي الْعُمْىِ [ اندھوں کو ہدایت دینے والے] عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ ۭ [ ان کی گمراہی سے]اِنْ تُسْمِعُ [ آپ نہیں سناتے] اِلَّا [ مگر] مَنْ [ اس کو جو]يُّؤْمِنُ [ ایمان لاتا ہے] بِاٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں پر]فَهُمْ [ تو وہ لوگ ہی]مُّسْلِمُوْنَ [ فرمابرداری کرنے والے ہیں

وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَاۗبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ   82؀ۧ
وَاِذَا [ اور جب] وَقَعَ [ واقع ہوگی] الْقَوْلُ [ وہ بات] عَلَيْهِمْ [ ان پر] اَخْرَجْنَا [ تو ہم نکالیں گے]لَهُمْ [ ان کے لئے] دَاۗبَّةً [ ایک چلنے والا (جانور)] مِّنَ الْاَرْضِ [ زمین سے ] تُكَلِّمُهُمْ ۙ [ وہ بات کرے گا ان سے] اَنَّ [ (اس لئے) کہ] النَّاسَ [ لوگ] كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ [ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں کرتے تھے]



نوٹ۔1: آیت ۔82۔ میں القول کا مطلب وہ وعدہ جو قیامت کے بارے میں کیا گیا ہے اور اس کے لوگوں پر آپڑنے یعنی واقع ہونے کا مطلب ہے کہ قیامت بالکل قریب آجائے گی ۔ اس وقت ایک جانور زمین سے نکلے گا ۔ ابن عمر  (رض)  کا قول ہے کہ یہ اس وقت ہو گا جب زمین میں کوئی نیکی کا حکم کرنے والا اور بدی سے روکنے والا باقی نہیں رہے گا ۔ ابو سعد خد ری  (رض)  فرماتے ہیں کہ یہی بات انہوں نے خود رسول اللہ
سے سنی تھی ۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ایک ہی جانور ہو گا یا ایک خاص قسم کی جنس حیوان ہوگی جس کے بہت سے افراد زمین پر پھیل جائیں گے ۔ دابۃ من الا رض کے الفاظ میں دونوں معانی کا احتمال ہے ۔ یہ فقرہ کہ ’’ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے‘‘۔ یا تو اس جانور کے اپنے کلام کی نقل ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کلام کی حکایت ہے۔ اس جانور کی شکل و صورت ، نکلنے کی جگہ اور ایسی ہی دوسری تفصیلات کو جاننے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ کیو نکہ جس مقصد کے لئے قرآن میں یہ ذکر کیا گیا ہے ، اس سے ان تفصیلات کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ رہا کسی جانور کا انسانی زبان میں ذکر کرنا تو یہ اللہ کی قدرت ہے ۔ وہ جس کو چاہے گو یائی کی صلاحیت بخش سکتا ہے ۔ قیامت سے پہلے تو وہ ایک ہی جانور کو گویائی بخشے گا مگر جب قیامت قائم ہو جائے گی تو اللہ کی عدالت میں انسان کی آنکھ ، کان ، اور اس کے جسم کی کھال تک بول اٹھے گی ۔ یہ قرآن میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے ۔ (تفہیم القرآن )

وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ يُّكَذِّبُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ    83؀
وَيَوْمَ [ اور جس دن] نَحْشُرُ [ ہم اکٹھا کریں گے] مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ [ ہر ایک امت میں سے] فَوْجًا [ ایک گروہ] مِّمَّنْ [ ان میں سے جو] يُّكَذِّبُ [ جھٹلاتے تھے] بِاٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں کو]فَهُمْ [ پھر ان کی] يُوْزَعُوْنَ [ صفت بندی کی جائے گی]



ف و ج

(ن) فوجا خوشبو کا پھیلنا ۔

 فوج ج افواج۔ افراد کی جماعت۔ گروہ ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 83 يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا (جس دن پھونکا جائے گا صور میں تو تم لوگ آؤ گے گروہوں میں ) 78/18۔

حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْ قَالَ اَكَذَّبْتُمْ بِاٰيٰتِيْ وَلَمْ تُحِيْطُوْا بِهَا عِلْمًا اَمَّاذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ    84؀
حَتّىٰٓ [ یہاں تک کہ] اِذَا [ جب]جَاۗءُوْ [ وہ آئیں گے] قَالَ [ تو (اللہ) کہے گا] اَكَذَّبْتُمْ [ کیا تم لوگوں نے جھٹلایا] بِاٰيٰتِيْ[ میری نشانیوں کو] وَ [ حالانکہ]لَمْ تُحِيْطُوْا [ تم نے احاطہ ہی نہیں کیا]بِهَا [ ان کا] عِلْمًا [ بلحاظ علم کے] اَمَّاذَا [ یا (اگر یہ نہیں تو) وہ کیا ہے جو] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ کیا کرتے تھے]

وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَهُمْ لَا يَنْطِقُوْنَ   85؀
وَوَقَعَ [ اور واقع (ثابت) ہوئی] الْقَوْلُ [ وہ بات] عَلَيْهِمْ [ ان پر]بِمَا [ بسبب اس کے جو] ظَلَمُوْا [ انھوں نے ظلم کیا] فَهُمْ [ پھر وہ] لَا يَنْطِقُوْنَ [ (کچھ) نہیں بولیں گے

اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا  ۭاِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ    86؀
اَلَمْ يَرَوْا [ کیا انھوں نے حور ہی نہیں کیا کہ] اَنَّا جَعَلْنَا [ ہم نے بنائی] الَّيْلَ [ رات] لِيَسْكُنُوْا [ تاکہ وہ سکون حاصل کریں] فِيْهِ [ اس میں] وَالنَّهَارَ [ اور دن کو (بنایا)] مُبْصِرًا ۭ [ بینا کرنے والا ہوتے ہوئے]اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [ بیشک اس میں] لَاٰيٰتٍ [ یقینا نشانیاں ہیں] لِّـقَوْمٍ [ ایسی قوم کے لئے جو] يُّؤْمِنُوْنَ [ ایمان لاتے ہیں]

وَ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ  ۭ وَكُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِيْنَ    87؀
وَ يَوْمَ [ اور جس دن] يُنْفَخُ [ پھونکا جائے گا] فِي الصُّوْرِ [ صور میں][ فَفَزِعَ [ تو دہشت زدہ ہو جائیں گے] مَنْ [ وہ جو] فِي السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں میں ہیں] وَمَنْ فِي الْاَرْضِ [ اور وہ جو زمین میں ہیں]اِلَّا مَنْ [ سوائے اس کے جس کو] شَاۗءَ [ چاہا] اللّٰهُ ۭ [ اللہ نے] وَكُلٌّ [ اور سب] اَتَوْهُ [ آئیں گے اس کے پاس] دٰخِرِيْنَ [ حقیر ہوتے ہوئے]

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُــرُّ مَرَّ السَّحَابِ  ۭ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ  ۭ اِنَّهٗ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ    88؀
وَتَرَى [ اور تو دیکھتا ہے] الْجِبَالَ [ پہاڑوں کو] تَحْسَبُهَا [ تو گمان کرتا ہے ان کو] جَامِدَةً [ جمے ہوئے]وَّ [ حالانکہ] هِىَ [ وہ] تَمُــرُّ [ چلیں گے]مَرَّ السَّحَابِ ۭ [ بادل کا چلنا] صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْٓ [ (تو دیکھتا ہے) اس اللہ کی کاریگری کو جس نے] اَتْقَنَ [ مہارت سے بنایا] كُلَّ شَيْءٍ ۭ [ ہر ایک چیز کو]اِنَّهٗ [ بیشک وہ] خَبِيْرٌۢ [ باخبر ہے] بِمَا [ اس سے جو] تَفْعَلُوْنَ [ تم لوگ کرتے ہو]



ج م د

 جمودا کسی چیز کا جم جانا۔

 جامد فاعل کے وزن پر صفت ہے۔ جما ہوا۔ زیر مطالعہ آیت۔88

ت ق ن

(
x) x ثلاثی مجرد سے فعل نہیں آتا۔

(افعال) اتقانا کام کو مضبوطی سے کرنا۔ مہارت سے کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت۔88

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا  ۚ وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ    89؀
مَنْ [ جو] جَاۗءَ [ آیا] بِالْحَسَنَةِ [ بھلائی کے ساتھ]فَلَهٗ [ تو اس کے لئے ہے]خَيْرٌ مِّنْهَا ۚ [ اس سے بہتر] وَهُمْ [ اور وہ لوگ] مِّنْ فَزَعٍ[ دہشت سے] يَّوْمَىِٕذٍ [ اس دن] اٰمِنُوْنَ [ امن میں ہونے والے ہیں]



نوٹ۔ ا: آیت۔89۔ میں ہے کہ قیامت کے دن جو بھلائی لے کر آئے گا اس کے لئے اس سے بہتر ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھلائی کا صلہ بھلائی سے بہتر ہو گا ۔ یہ بہتری دو طرح سے ہوگی ۔ ایک یہ کہ اس کی نیکی تو وقتی تھی اور کے اثرات بھی دنیا میں ایک محدود زمانے کے لئے تھے مگر اس کا اجر دائمی اور ابدی ہو گا ۔ دوسرے یہ کہ جتنی نیکی اس نے کی ہوگی اس سے زیادہ انعام اسے دیا جائے گا ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس امر کی تصریح کی گئی ہے کہ آخرت میں بدی کا بدلہ اتنا ہی دیا جائے گا جتنی کسی نے بدی کی ہوگی اور نیکی کا اجر اللہ تعالیٰ آدمی کے عمل سے بہت زیادہ عطا فرمائے گا ۔ (تفہیم القرآن )

وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ ۭ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ    90؀
وَمَنْ [ اور جو] جَاۗءَ [ آیا] بِالسَّيِّئَةِ [ برائی کے ساتھ] فَكُبَّتْ [ تو اوندھے کئے جائیں گے] وُجُوْهُهُمْ [ ان کے چہرے] فِي النَّارِ ۭ[ آگ میں] هَلْ تُجْزَوْنَ [ تم لوگوں کو کیا بدلہ دیا جاتا ہے]اِلَّا مَا [ سوائے اس کے جو] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ کیا کرتے تھے]





ک ب ب

(ن) کبا پچھاڑنا۔ اوندھا کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 90

(افعال) اکبابا ثلاثی مجرد کا ہم معنی ہے۔

مکب اسم الفاعل ہے۔ اوندھا کرنے والا۔ اَفَمَنْ يَّمْشِيْ مُكِبًّا عَلٰي وَجْهِهٖٓ اَهْدٰٓى (تو کیا وہ جو چلتا ہے اوندھا کرنے والا ہوتے ہوئے اپنے چہرے پر زیادہ ہدایت پر ہے) 67/22۔

اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِيْ حَرَّمَهَا وَلَهٗ كُلُّ شَيْءٍ  ۡ وَّاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ    91۝ۙ
اِنَّمَآ [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ]اُمِرْتُ [ مجھے حکم دیا گیا] اَنْ اَعْبُدَ[ کہ میں بندگی کروں] رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِيْ [ اس شہر کے اس رب کی جس نے] حَرَّمَهَا [ محترم کیا اس (شہر) کو] وَلَهٗ [ اور اس کیلئے ہی ہے]كُلُّ شَيْءٍ ۡ [ سب چیز] وَّاُمِرْتُ [ اور مجھے حکم دیا گیا] اَنْ اَكُوْنَ [ کہ میں ہو جاؤں] مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ [ فرمانبردارں میں سے]

وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ  ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ  ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ    92؀
وَاَنْ [ اور (حکم دیا گیا) کہ] اَتْلُوَا [ میں تلاوت کروں] الْقُرْاٰنَ ۚ [ قرآن میں] فَمَنِ [ پھر جس نے] اهْتَدٰى [ ہدایت پائی] فَاِنَّمَا [ تو کچھ سوائے اس کے کہ] يَهْتَدِيْ [ وہ ہدایت پاتا ہے] لِنَفْسِهٖ ۚ [ اپنے (ہی) نفس کے لئے] وَمَنْ ضَلَّ [ اور جو بھٹکا] فَقُلْ [ تو آپ
کہہ دیجئے] اِنَّمَآ [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] اَنَا [ میں] مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ [ خبردار کرنے والوں میں سے ہوں]

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَا  ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ   93؀ۧ
وَقُلِ [ اور آپ
کہیے] الْحَمْدُ [ تمام شکروسپاس] لِلّٰهِ [ اللہ کے لئے ہے] سَيُرِيْكُمْ [ وہ دکھائے گا تم کو] اٰيٰتِهٖ [ اپنی نشانیاں] فَتَعْرِفُوْنَهَا ۭ [ تم لوگ پہچانو گے ان کو] وَمَا رَبُّكَ [ اور نہی ہے آپ کا رب] بِغَافِلٍ [ غافل] عَمَّا [ اس سے جو]تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ کرتے ہو]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

طٰسۗمّۗ   Ǻ۝
طٰسۗمّۗ

تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ   Ą۝
تِلْكَ [ یہ]اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ [ واضح کتاب کی آیات ہیں

نَتْلُوْا عَلَيْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ   Ǽ۝
نَتْلُوْا عَلَيْكَ [ ہم سناتے ہیں آپ
کو] مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَفِرْعَوْنَ [ فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کی خبر میں سے] بِالْحَقِّ [ حق کے ساتھ] لِقَوْمٍ [ ایسی قوم کے لئے جو] يُّؤْمِنُوْنَ [ ایمان لاتے ہیں]

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَةً مِّنْهُمْ يُذَ بِّحُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ  ۭ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ   Ć۝
اِنَّ فِرْعَوْنَ [ بیشک فرعون نے] عَلَا [ سرکشی کی] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں] وَجَعَلَ [ اور اس نے بنایا] اَهْلَهَا [ اس کے لوگوں کو]شِيَعًا [ فرقہ (میں) يَّسْتَضْعِفُ [ وہ کمزور سمجھتا تھا] طَاۗىِٕفَةً [ ایک گروہ کو] مِّنْهُمْ [ ان میں سے] يُذَ بِّحُ [ اس حال میں کہ وہ ذبح کرتا تھا] اَبْنَاۗءَهُمْ [ ان کے بیٹوں کو] وَيَسْتَحْيٖ [ اور زندہ رکھتا تھا] نِسَاۗءَهُمْ ۭ [ ان کی عورتوں کو] اِنَّهٗ كَانَ[ بیشک وہ تھا] مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ [ نظم بگاڑنے والوں میں سے]



نوٹ۔ ا: بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے اور بیٹیوں کو زندہ رکھنے کے متعلق بائبل میں جو تشرح ملتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا دور گزرجانے کے بعد مصر میں ایک قوم پر ستانہ انقلاب آیا تھا اور قبطیوں کے ہاتھ میں جب دوبارہ اقتدار آیا تو نئی قوم پرست حکومت نے بنی اسرائیل کا زور توڑنے کی پوری کو شش کی ۔ ان کو ان کی زرخیز زمینوں ، مکانات اور جائیدادوں سے محروم کیا۔ پھر انہیں حکومت کے تمام مناصب سے بےدخل کیا ۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ بنی اسرائیل کی تعداد گھٹائی جائے ۔ اس کے لئے ان کے لڑکوں کو قتل کر کے صرف لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ ان کی عورتیں قبطیوں کے تصرف میں آتی جائیں اور ان اسرائیل کے بجائے قبطی نسل پیدا ہو ۔ یہ تفسیر ہے قرآن کے اس بیان کی کہ مصر کی آبادی کے ایک گروہ کو وہ کمزور کرتا تھا ۔

 مگر بائبل اور قرآن دونوں اس ذکر سے خالی ہیں کہ فرعون سے کسی نجومی نے یہ کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعونی اقتدار کا تختہ الٹ جائے گا ۔ یا فرعون نے کوئی خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر میں یہ بات کہی گئی تھی اور اسی خطرے کوروکنے کے لئے فرعون نے بناسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا ۔ یہ افسانہ تلمود اور دوسری اسرائیلی روایات سے ہمارے مفسرین نے نقل کیا ہے ۔ (تفہیم القرآن )

وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ  Ĉ۝ۙ
وَ [ حالانکہ] نُرِيْدُ [ ہم ارادہ رکھتے تھے] اَنْ [ کہ] نَّمُنَّ [ ہم احسان کریں] عَلَي الَّذِيْنَ [ ان لوگوں پر جن کو] اسْتُضْعِفُوْا [ کمزور سمجھا گیا]فِي الْاَرْضِ[ زمین میں] وَنَجْعَلَهُمْ [ اور ہم بنائیں ان کو] اَىِٕمَّةً [ پیشوا ] وَّنَجْعَلَهُمُ [ اور ہم بنائیں ان کو ائمۃ ][ الْوٰرِثِيْنَ [ وارث]

وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ   Č۝
وَنُمَكِّنَ [ اور ہم اختیار دیں] لَهُمْ [ ان (کمزور) لوگوں کو] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ]وَنُرِيَ [ اور ہم دکھائیں] فِرْعَوْنَ [ فرعون کو] وَهَامٰنَ [ اور ہامان کو] وَجُنُوْدَهُمَا [ اور ان دونوں کے لشکروں کو] مِنْهُمْ [ ان (کمزوروں ) سے] مَّا [ وہ جس سے] كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ [ وہ ڈرتے تھے]



نوٹ۔2: یہاں پہلی مرتبہ فرعون کے ساتھ ہامان کا ذکر آیا ہے اور اس طرح آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت فرعون کے وزیر کی تھی ۔ آگے بھی اس کا ذکر فرعون کے وزیر اعظم کی حیثیت سے آرہا ہے ۔ تورات میں اس کا نام نہیں آیا ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کتنی باتیں ہیں جن میں قرآن نے تورات کے بیانات کی تصحیح کی ہے یا ان پر اضافہ کیا ہے ۔ یہ بھی حضرت مو سیٰ علیہ السلام اور فرعون کی سر گذشت میں ایک قیمتی اضافہ ہے ۔ (تدبر قرآن )

 بعض مستشر قین نے اس بات پر بڑی لے دے کی ہے کہ ہامان تو ایران کے ایک بادشاہ کے دربار کا ایک امیر تھا اور اس بادشاہ کا زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سینکڑوں برس بعد 486 اور 465 قبل مسیح میں گزرا ہے ، مگر قرآن نے اسے مصر لے جا کر فرعون کا وزیر بنا دیا۔ یہ لوگ خود غور کریں کہ آخر ان کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ایرانی بادشاہ کے درباری ہامان سے پہلے دنیا میں کوئی شخص اس نام کا نہیں گزرا ہے ۔ جس فرعون کا ذکر یہاں ہو رہا ہے اگر اس کے تمام وزراء کی کوئی مکمل فہرست مستند ذریعہ سے کسی مستشرق صاحب کو مل گئی ہے جس میں ہا مان کا نام نہیں ہے ، تو وہ اسے چھپا کر کیوں بیٹھے ہیں ؟ انھیں اسے شائع کر دینا چاہے کیو نکہ قرآن کی تکذیب کے لئے اس سے زیادہ مؤثر ہتھیار انہیں کوئی اور نہیں ملے گا ۔ (تفہیم القرآن )

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْهِ  ۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَاَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْـزَنِيْ  ۚ اِنَّا رَاۗدُّوْهُ اِلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ    Ċ۝
وَاَوْحَيْنَآ [ اور ہم نے وحی کی]اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى [ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف] اَنْ اَرْضِعِيْهِ ۚ [ کہ آپ دودھ پلائیں ان علیہ السلام کو] فَاِذَا [ پھر جب] خِفْتِ [ آپ خوف کریں]عَلَيْهِ [ ان علیہ السلام کے بارے میں]فَاَلْقِيْهِ [ تو آپ ڈال دیں ان علیہ السلام کو] فِي الْيَمِّ [ پانی میں] وَلَا تَخَافِيْ [ اور آپ مت ڈریں] وَلَا تَحْـزَنِيْ ۚ [ اور غمگین مت ہوں] اِنَّا [ بیشک ہم] رَاۗدُّوْهُ [ لوٹانے والے ہیں ان علیہ السلام کو] اِلَيْكِ [ آپ کی طرف] وَجَاعِلُوْهُ [ اور بنانے والے ہیں ان علیہ السلام کو] مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ [ بھیجے ہوؤں (رسولوں) میں سے]

فَالْتَقَطَهٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا  ۭ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـــــِٕيْنَ   Ď۝
فَالْتَقَطَهٗٓ [ پھر اٹھا لیا] اٰلُ فِرْعَوْنَ [ فرعون والوں نے] لِيَكُوْنَ [ تاکہ وہ ہو جائیں] لَهُمْ [ ان کیلئے] عَدُوًّا [ دشمن] وَّحَزَنًا ۭ[ اور غم] اِنَّ [ بیشک] فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ [ فرعون اور ہامان]وَجُنُوْدَهُمَا [ اور ان دونوں کے لشکر] كَانُوْا [ وہ سب تھے] خٰطِـــــِٕيْنَ [ چوک جانے والے

وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّةُ عَيْنٍ لِّيْ وَلَكَ  ۭ لَا تَقْتُلُوْهُ ڰ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ   ۝
وَقَالَتِ [ اور کہا] امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ [ فرعون کی دعوت نے] قُرَّةُ عَيْنٍ [ آنکھ کی ٹھنڈک ہے] لِّيْ [ میرے لئے] وَلَكَ ۭ [ اور تیرے لئے] لَا تَقْتُلُوْهُ ڰ [ تم لوگ قتل مت کرو اس کو] عَسٰٓى اَنْ [ ہوسکتا ہے] يَّنْفَعَنَآ [ یہ نفع دے ہم کو] اَوْ [ یا] نَتَّخِذَهٗ [ ہم بنالیں اس کو] وَلَدًا [ بیٹا] وَّهُمْ [ اور وہ لوگ]لَا يَشْعُرُوْنَ [ شعور نہیں رکھتے تھے]

وَاَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا  ۭاِنْ كَادَتْ لَتُبْدِيْ بِهٖ لَوْلَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰي قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ   10۝
وَاَصْبَحَ [ اور ہوگیا] فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى [ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا دل] فٰرِغًا ۭ [ بےچین ہونے والا] اِنْ [ بیشک] كَادَتْ [ قریب تھا کہ] لَتُبْدِيْ [ وہ یقینا ظاہر کر دیں] بِهٖ [ اس کو] لَوْلَآ اَنْ [ اگر نہ ہوتا کہ] رَّبَطْنَا [ ہم نے مضبوط کیا] عَلٰي قَلْبِهَا [ ان کے دل کو] لِتَكُوْنَ [ تاکہ وہ ہو جائیں]مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ بات ماننے والوں میں سے]

وَقَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّيْهِ ۡ فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ   11۝ۙ
وَقَالَتْ [ اور (والدہ نے) کہا] لِاُخْتِهٖ [ ان علیہ السلام کی بہن سے] قُصِّيْهِ ۡ [ تو پیچھا کر اس علیہ السلام کا] فَبَصُرَتْ [ تو اس نے دیکھا (دیکھتی رہی)]بِهٖ [ اس علیہ السلام کو] عَنْ جُنُبٍ [ دور سے]وَّ [ اس حال میں کہ] هُمْ [ وہ لوگ] لَا يَشْعُرُوْنَ [ شعور نہیں رکھتے تھے

وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰٓي اَهْلِ بَيْتٍ يَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَهُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ    12؀
وَحَرَّمْنَا [ اور ہم نے حرام کیں] عَلَيْهِ [ ان علیہ السلام پر] الْمَرَاضِعَ [ دودھ پلانے والیاں]مِنْ قَبْلُ [ پہلے سے] فَقَالَتْ [ تو (بہن نے) کہا] هَلْ اَدُلُّكُمْ [ کیا میں رہنمائی کروں تم لوگوں کی] عَلٰٓي اَهْلِ بَيْتٍ [ ایک ایسے گھر والوں کی جو] يَّكْفُلُوْنَهٗ [ پال پوس دیں گے اس کو]لَكُمْ [ تمہارے لئے] وَهُمْ [ اور وہ] لَهٗ [ اس کی] نٰصِحُوْنَ [ خیر خواہی کرنے والے ہوں]

فَرَدَدْنٰهُ اِلٰٓى اُمِّهٖ كَيْ تَــقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ    13۝ۧ
فَرَدَدْنٰهُ [ تو ہم نے واپس کیا ان علیہ السلام کو] اِلٰٓى اُمِّهٖ [ ان کی والدہ کی طرف] كَيْ [ تاکہ] تَــقَرَّ [ ٹھنڈی ہو] عَيْنُهَا [ ان کی آنکھ] وَلَا تَحْزَنَ [ اور وہ غمگین نہ ہوں] وَلِتَعْلَمَ [ اور تاکہ وہ جان لیں] اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ [ کہ اللہ کا وعدہ] حَقٌّ [ حق ہے] وَّلٰكِنَّ [ اور لیکن ] اَكْثَرَهُمْ[ ان کے اکثر] لَا يَعْلَمُوْنَ[ جانتے نہیں ہیں



]نوٹ۔ ا: وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ یہ اصل نکتہ کی بات ارشاد ہوئی ہے کہ اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے اور اس کی تد بیر کبھی نا کام نہیں ہوتی ۔ اکثر لوگ خدا کے وعدوں کو محض ہوائی باتیں خیال کرتے ہیں اور ان پر اعتماد کر کے کوئی بازی کھیلنے میں ان کو خسارہ اور خطرہ نظر آتا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہو تے دیکھ لیں تب مانیں گے حالانکہ اصل امتحان تو یہی ہے کہ لوگ اپنے رب کے ان وعدوں کے لئے جئیں اور مریں جن کی حقیقت ابھی سامنے آنی ہے ۔ (تدبر قرآن )

وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسْتَوٰٓى اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا  ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ    14؀
وَلَمَّا [ اور جب] بَلَغَ [ وہ (موسیٰ علیہ السلام ) پہنچے] اَشُدَّهٗ [ اپنی پختگی کو] وَاسْتَوٰٓى [ اور (عمر میں) برابر ہوئے] اٰتَيْنٰهُ [ تو ہم نے دی ان علیہ السلام کو] حُكْمًا وَّعِلْمًا ۭ [ حکمت اور علم] وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح] نَجْزِي [ ہم بدلہ دیتے ہیں] الْمُحْسِنِيْنَ [ خوب کاروں کو



نوٹ۔ ا: اشدکا مطلب قوت کی انتہا پر پہنچنا ہے ۔ انسان بچپن کے ضعف سے تدریجاً قوت کی طرف بڑھتا ہے ۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کے وجود میں جتنی قوت آسکتی تھی ، وہ پوری ہو جائے اس وقت کو اشد کہا جاتا ہے ۔ اور یہ زمین کے مختلف خطوں اور قوموں کے مزاج کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے ۔ کسی کا اشد کا زمانہ جلد آجاتا ہے کسی کا دیر میں ، حضرت ابن عباس  (رض)  اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ یہ۔33۔ سال کی عمر میں ہوتا ہے ، اس کو سن وقوف یا سن کمال کہتے ہیں جس میں بدن کا نشونما ایک حد پر پہنچ کر رک جاتاہے ۔ اس کے بعد چالیس سال کی عمر تک وقوف کا زمانہ ہے ۔ اسی کو استوی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چالیس سال کے بعد انحطاطا اور کمزوری شروع ہو جاتی ہے ۔ (معارف القرآن )

وَدَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلٰي حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيْهَا رَجُلَيْنِ يَـقْتَتِلٰنِ ڭ هٰذَا مِنْ شِيْعَتِهٖ وَهٰذَا مِنْ عَدُوِّه  ٖ ۚ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهٖ عَلَي الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّهٖ  ۙ فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَيْهِ ڭ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ  ۭ اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِيْنٌ    15؀
وَدَخَلَ [ اور وہ داخل ہوئے] الْمَدِيْنَةَ [ شہر میں]عَلٰي حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا [ اس (شہر) کے لوگوں کی غفلت کے وقت پر] فَوَجَدَ [ تو انھوں نے پایا] فِيْهَا [ اس میں] رَجُلَيْنِ [ دو مردوں کو] يَـقْتَتِلٰنِ ڭ [ باہم لڑتے ہوئے] هٰذَا [ یہ] مِنْ شِيْعَتِهٖ [ ان علیہ السلام کے فرقے سے تھا]وَهٰذَا [ اور یہ (دوسرا) مِنْ عَدُوِّه ٖ ۚ [ ان کے دشمن میں سے تھا] فَاسْتَغَاثَهُ [ تو مدد کے لئے پکار ان علیہ السلام کو] الَّذِيْ [ اس نے جو] مِنْ شِيْعَتِهٖ [ ان کے فرقے سے تھا]عَلَي الَّذِيْ [ اس کے خلاف جو] مِنْ عَدُوِّهٖ ۙ [ ان کے دشمن میں سے تھا] فَوَكَزَهٗ [ تو مکا مارا اس کو] مُوْسٰى [ موسیٰ علیہ السلام نے] فَقَضٰى [ تو انھوں علیہ السلام نے کام تمام کیا]عَلَيْهِ ڭ [ اسکا] قَالَ [ انھوں علیہ السلام نے کہا] هٰذَا [ یہ] مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ ۭ [ شیطان کے کام میں سے ہے] اِنَّهٗ [ بیشک وہ] عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِيْنٌ [ واضح گمراہ کرنے والا دشمن ہے]



و ک ز

(ض) وکزا دھکا دینا۔ مکا مارنا ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 15

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ فَغَفَرَ لَهٗ  ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ    16؀
قَالَ [ انھوں علیہ السام نے کہا] رَبِّ [ اے میرے رب] اِنِّىْ ظَلَمْتُ [ بیشک میں نے ظلم کیا] نَفْسِيْ [ اپنے آپ پر] فَاغْفِرْ لِيْ [ پس تو بخش دے مجھ کو] فَغَفَرَ لَهٗ ۭ [ تو اس نے بخش دیا ان علیہ السلام کو] اِنَّهٗ [ بیشک وہ] هُوَ الْغَفُوْرُ [ ہی بےانتہا بخشنے والا ہے] الرَّحِيْمُ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]



نوٹ۔2: حکم اور علم کے مختلف مدراج ہیں ۔ اس کا اعلیٰ درجہ وہ ہے جو انبیاء کو حاصل ہوتا ہے ۔ چنانچہ قرآن میں بالکل یہی الفاظ انبیاء کے علم کے لئے استعمال ہوئے ہیں ۔ لیکن یہاں ظاہر ہے کہ وہ علم و حکمت مراد نہیں ہے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کو نبوت اس کے بہت بعد میں ملی ہے (تدبر قرآن ) ۔ یہاں حکم سے مراد حکمت و دانائی ہے اور علم سے مراد دینی اور دنیوی دونوں علوم ہیں ۔ کیونکہ والدین کے ساتھ ربط و ضبط قائم رہنے کی وجہ سے ان کو اپنے باپ دادا کی تعلیمات سے بھی واقفیت حا صل ہو گئی ، اور فرعون کے ہاں شہزادے کی حیثیت سے پرورش پانے کے باعث ان کو وہ تمام دنیوی علوم بھی حاصل ہوئے جو اس زمانے میں مصر میں رائج تھے ۔ بائبل کی کتاب الاعمال میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کام اور کلام میں قوت والے تھے ۔ تلمود کا بیان ہے کہ وہ اکثر اس علا قے میں جاتے تھے جہاں اسرائیلیوں کی بستیاں تھیں اور ان تمام سختیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے جو قبطی حکومت کے کارندے ان کی قوم پر کرتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کی ہی کوشش سے فرعون نے اسرائیلیوں کے لئے ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی مقرر کی ۔ انھوں نے فرعون سے کہا کہ مسلسل کام کرنے کی وجہ سے یہ لوگ کمزور ہو جائیں گے اور حکومت کے کام کا نقصان ہو گا ۔ (تفہیم القرآن )

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ   17؀
قَالَ [ انھوں علیہ السلام نے کہا] رَبِّ [ اے میرے رب] بِمَآ [ اس سبب سے جو] اَنْعَمْتَ [ تو نے انعام کیا] عَلَيَّ [ مجھ پر] فَلَنْ اَكُوْنَ [ تو میں ہرگز نہیں ہوں گا] ظَهِيْرًا [ مددگار] لِّلْمُجْرِمِيْنَ [ مجرموں کے لئے]

فَاَصْبَحَ فِي الْمَدِيْنَةِ خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِي اسْتَـنْصَرَهٗ بِالْاَمْسِ يَسْتَــصْرِخُهٗ  ۭ قَالَ لَهٗ مُوْسٰٓى اِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُّبِيْنٌ    18؀
فَاَصْبَحَ [ پھر وہ علیہ السلام صبح کو ہوئے (یعنی گئے)] فِي الْمَدِيْنَةِ [ اس شہر میں] خَاۗىِٕفًا [ ڈرنے والے ہوتے ہوئے] يَّتَرَقَّبُ [ چوکنا ہوتے ہوئے]فَاِذَا [ پھر جب ہی] الَّذِي [ جس نے] اسْتَـنْصَرَهٗ [ مدد مانگی تھی ان سے][ بِالْاَمْسِ [ گزشتہ کل] يَسْتَــصْرِخُهٗ ۭ [ وہ فریاد کرتا ہے ان علیہ السلام سے] قَالَ [ کہا] لَهٗ [ اس سے] مُوْسٰٓى [ موسیٰ علیہ السلام نے] اِنَّكَ [ بیشک تو] لَغَوِيٌّ مُّبِيْنٌ [ یقینا ایک کھلا گمراہ ہے

فَلَمَّآ اَنْ اَرَادَ اَنْ يَّبْطِشَ بِالَّذِيْ هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا  ۙ قَالَ يٰمُوْسٰٓى اَتُرِيْدُ اَنْ تَــقْتُلَنِيْ كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًۢا بِالْاَمْسِ ڰ اِنْ تُرِيْدُ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًا فِي الْاَرْضِ وَمَا تُرِيْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِيْنَ    19؀
فَلَمَّآ اَنْ [ پھر جیسے ہی] اَرَادَ [ انھوں علیہ السلام نے ارادا کیا] اَنْ [ کہ] يَّبْطِشَ [ وہ پکڑیں] بِالَّذِيْ [ اس کو جو کہ] هُوَ [ وہ ہی] عَدُوٌّ [ دشمن ہے]لَّهُمَا ۙ [ ان دونوں کا] قَالَ [ اس نے کہا] يٰمُوْسٰٓى [ اے موسیٰ علیہ السلام] اَتُرِيْدُ [ کیا تو ارادہ کرتا ہے] اَنْ تَــقْتُلَنِيْ [ کہ تو قتل کرے مجھ کو] كَمَا [ جیسے کہ]قَتَلْتَ [ تو نے قتل کیا] نَفْسًۢا [ ایک جان کو] بِالْاَمْسِ ڰ [ گزشتہ کل]اِنْ تُرِيْدُ [ تو ارادہ نہیں کرتا] اِلَّآ اَنْ [ مگر یہ کہ]تَكُوْنَ [ تو ہو جائے]جَبَّارًا [ جبر کرنے والا] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں]وَمَا تُرِيْدُ [ اور تو ارادہ نہیں کرتا ] اَنْ تَكُوْنَ [ کہ تو ہو جائے] مِنَ الْمُصْلِحِيْنَ [ اصلاح کرنے والوں میں سے]



]نوٹ۔ ا: آیت۔19۔ میں فلما کے ساتھ جو ان ہے ، اس سے پہلے کوئی فعل محذوف ہے ۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلے زبانی افہام و تفہیم سے فریقین کو ہموار کرنے کی کوشش کی لیکن جب اس سے کام نہ چلا تو آپ علیہ السلام نے قبطی کو پکڑ کر الگ کرنا چاہا ۔ اس قبطی کو یہاں موسیٰ علیہ السلام اور اسرائیلی ، دونوں کا دشمن کہا ہے ۔ اسرائیلی کا تو وہ بالفعل دشمن تھا ہی ۔ اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس کی دشمنی اس پہلو سے بھی تھی کہ وہ اپنی اصلاحی سرگرمیوں کے سبب سے تمام قبطیوں کی نظر میں کھٹکنے لگے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پکڑنا تو چاہا تھا قطبی کو لیکن انھوں نے پہلے اسرائیلی کو جھڑکا تھا ، اس وجہ اس گمان کیا کہ آج ان کا گھونسا اس پر پڑنے والا ہے ۔ اس گھبراہٹ میں وہ چلا یا کہ کل تم نے ایک شخص کو قتل کیا تھا اسی طرح کیا آج مجھے بھی قتل کرنا چاہتے ہو اس طرح اس نے اپنی حماقت سے کل کے قتل کا راز کھول دیا ۔ ایک اسرائیلی کی زبان سے راز افشا ہونے کے بعد فرعونی سردار موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ وہاں سے ایک شخص بھاگا ہوا آیا اور موسیٰ علیہ السلام کو مشورہ دیا کہ آپ یہاں سے فوراً نکل جائیں ۔ اس شخص کے متعلق یہاں کوئی تفصیل مذکور نہیں ہے ۔ لیکن سورہ مومن میں اٰل فرعون میں سے ایک مومن شخص کا تفصیل سے ذکر آیا ہے ۔ ان کا تعلق شاہی خاندان سے تھا اور ابتداء سے ہی موسیٰ علیہ السلام کے خیر خواہ تھے ۔ اور بعد کے دور میں انھوں نے حکومت کے سامنے موسیٰ علیہ السلام کی حمایت کی تھی ۔ اس وجہ سے ظن غالب یہ ہے کہ یہ اشارہ ان ہی کی طرف ہے ۔ (تدبر قرآن )

وَجَاۗءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰى ۡ قَالَ يٰمُوْسٰٓى اِنَّ الْمَلَاَ يَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِيَقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ اِنِّىْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِيْنَ   20؀
وَجَاۗءَ [ اور آیا] رَجُلٌ [ ایک شخص]مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ [ شہر کے زیادہ دور سے] يَسْعٰى ۡ [ دوڑتا ہوا] قَالَ [ اس نے کہا] يٰمُوْسٰٓى [ اے موسیٰ علیہ السلام]اِنَّ الْمَلَاَ [ بیشک سردار لوگ] يَاْتَمِرُوْنَ [ مشورہ کرتے ہیں] بِكَ [ آپ علیہ السلام کے بارے میں] لِيَقْتُلُوْكَ [ کہ وہ قتل کریں آپ علیہ السلام کو]فَاخْرُجْ [ پس آپ علیہ السلام نکل جائیں] اِنِّىْ [ بیشک میں] لَكَ [ آپ علیہ السلام کے لئے] مِنَ النّٰصِحِيْنَ [ خیر خواہی کرنے والوں میں سے ہوں]

فَخَـــرَجَ مِنْهَا خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ ۡ قَالَ رَبِّ نَجِّــنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ   21۝ۧ
فَخَـــرَجَ [ تو رہ نکلے] مِنْهَا [ اس سے]خَاۗىِٕفًا [ ڈرنے والا ہوتے ہوئے] يَّتَرَقَّبُ ۡ [ چوکنا ہوتے ہوئے] قَالَ [ انھوں علیہ السلام نے کہا] رَبِّ [ اے میرے رب] نَجِّــنِيْ [ تو نجات دے مجھ کو] مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والی قوم سے

وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاۗءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّيْٓ اَنْ يَّهْدِيَنِيْ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ  22؀
[ وَلَمَّا: اور جب] تَوَجَّهَ تِلْقَاۗءَ مَدْيَنَ: آپ نے مدین کا رخ کیا] [ قَالَ: آپ نے کہا] [ عَسٰى: امید ہے ] [ رَبِّيْٓ: میرا رب ] [ اَنْ يَّهْدِيَنِيْ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ: مجھے سیدھے راستے پر ڈال دے گا]

وَلَمَّا وَرَدَ مَاۗءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ ۋ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَيْنِ تَذُوْدٰنِ  ۚ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا  ۭ قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَاۗءُ   ۫ وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ   23؀
وَلَمَّا [ اور جب] وَرَدَ [ وہ پہنچے] مَاۗءَ مَدْيَنَ [ مدین کے پانی پر] وَجَدَ [ تو انہوں علیہ السلام نے پایا]عَلَيْهِ [ اس پر] اُمَّةً [ ایک جماعت کو] مِّنَ النَّاسِ [ لوگوں میں سے] يَسْقُوْنَ ۋ [ جو پانی پلاتی ہے] وَوَجَدَ [ اور انہوں علیہ السلام نے پایا] مِنْ دُوْنِهِمُ [ ان لوگوں کے علاوہ] امْرَاَتَيْنِ [ دو عورتوں کو] تَذُوْدٰنِ ۚ [ روکتے ہوئے (اپنے مویشی کو)] قَالَ [ تو انہوں نے کہا] مَا خَطْبُكُمَا ۭ [ تم دونوں کا کیا حال (یعنی مسئلہ) ہے] قَالَتَا [ ان دونوں نے کہا] لَا نَسْقِيْ [ ہم پانی نہیں پلاتے] حَتّٰى [ یہاں تک کہ] يُصْدِرَ [ واپس لے جائیں] الرِّعَاۗءُ ۫ [ چرواہے] وَاَبُوْنَا [ اور ہمارے والد] شَيْخٌ كَبِيْرٌ [ بڑے بوڑھے ہیں]

ذود

(ن) ذودا دفع کرنا۔ روکنا۔ زیر مطالعہ آیت۔23۔

نوٹ۔ ا: اس زمانہ میں مدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا اور لوگ مصری اثر و اقتدار سے بالکل آزاد تھے ۔ اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کا رخ کیا تھا کیو نکہ قریب ترین آزاد علاقہ وہی تھا ۔ لیکن وہاں جانے کے لئے ان کو گزرنا بہر حال مصر کے مقبوضہ علاقوں ہی سے تھا اور مصر کی پولیس اور فوجی چوکیوں سے بچ کر نکلنا تھا ۔ اسی لئے انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایسے راستے میں ڈال دے جس سے میں صحیح و سلامت مدین پہنچ جائوں ۔ (تفہیم القرآن )

فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّيٰٓ اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ   24؀
فَسَقٰى [ تو انہوں علیہ السلام نے پانی پلایا] لَهُمَا [ ان دونوں کے لئے]ثُمَّ تَوَلّيٰٓ [ پھر وہ پھر گئے]اِلَى الظِّلِّ [ سائے کی طرف] فَقَالَ [ تو انھوں نے کہا] رَبِّ [ اے میرے رب] اِنِّىْ [ بیشک میں] لِمَآ [ اس کے لئے جو] اَنْزَلْتَ [ تو اترے] اِلَيَّ [ میری طرف]مِنْ خَيْرٍ [ کوئی بھی بھلائی]فَقِيْرٌ [ محتاج ہوں]

فَجَاۗءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَي اسْـتِحْيَاۗءٍ  ۡ قَالَتْ اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا  ۭ  فَلَمَّا جَاۗءَهٗ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ  ۙ قَالَ لَا تَخَفْ ڣ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ    25؀
فَجَاۗءَتْهُ [ پھر آئی ان کے پاس] اِحْدٰىهُمَا [ ان دونوں کی ایک] تَمْشِيْ [ چلتی ہوئی] عَلَي اسْـتِحْيَاۗءٍ ۡ [ شرم سے] قَالَتْ [ اس نے کہا] اِنَّ اَبِيْ [ بیشک میرے والد] يَدْعُوْكَ [ بلاتے ہیں آپ علیہ السلام کو] لِيَجْزِيَكَ [ تاکہ وہ بدلے میں دیں آپ علیہ السلام کو] اَجْرَ مَا [ اس کی اجرت جو] سَقَيْتَ [ آپ نے پانی پلایا] لَنَا ۭ [ ہمارے لئے] فَلَمَّا [ پھر جب] جَاۗءَهٗ [ وہ (موسیٰ علیہ السلام) آئے اس کے (والد) پاس]وَقَصَّ عَلَيْهِ [ اور انہوں علیہ السلام نے بیان کیا اس سے] الْقَصَصَ ۙ [ سارا قصہ] قَالَ [ تو اس نے کہا] لَا تَخَفْ ڣ [ آپ علیہ السلام خوف مت کریں] نَجَوْتَ [ آپ نے نجات پائی] مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ [ اس ظالم قوم سے]



نوٹ۔ ا: بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ بزرگ (لڑکیوں کے والد ) حضرت شعیب علیہ السلام تھے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب حضرت سلیم بن سعد غزی  (رض)  اپنی قوم کی طرف سے ایلچی بن کر رسول کریم
کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا شعیب علیہ السلام کے قومی آدمی کو اور موسیٰ علیہ السلام کی سسرال والے کو مرحبا ہو کہ تمھیں ہدایت کی گئی ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ بزرگ حضرت شعیب علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ قوم شعیب علیہ السلام کے ایک مومن مرد تھے ۔ بعض کا قول ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کا زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے بہت پہلے کا ہے ۔ یہ بات بھی خیال میں رہے کہ اگر یہ بزرگ حضرت شعیب علیہ السلام ہی ہوتے تو قرآن میں اس موقعہ پر ان کا نام صاف لے دیا جاتا ۔ (ابن کثیررحمتہ اللہ علیہ )

 اوپر جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیوں کے والد شعیب علیہ السلام کی قوم کے ایک فرد تھے ، خواہ رشتہ دار یا غیر رشتہ دار ، لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ شعیب علیہ السلام ہی تھے

قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا يٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ  ۡ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ   26؀
قَالَتْ [ کہا] اِحْدٰىهُمَا [ ان دونوں کی ایک نے] يٰٓاَبَتِ [ اے میرے والد] اسْتَاْجِرْهُ ۡ [ آپ مزدوری پر رکھیں ان کو] اِنَّ [ بیشک] خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ [ جس کو آپ مزدوری پر رکھیں اس کا بہتر وہ ہے جو] الْقَوِيُّ [ قوی ہے] الْاَمِيْنُ [ امین ہے]

قَالَ اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَـتَيَّ هٰتَيْنِ عَلٰٓي اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰـنِيَ حِجَجٍ  ۚ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ  ۚ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَيْكَ  ۭ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ   27؀
قَالَ [ اس نے (والد) کہا]اِنِّىْٓ [ بیشک میں] اُرِيْدُ [ ارادہ کرتا ہوں] اَنْ اُنْكِحَكَ [ کہ میں آپ علیہ السلام کے نکاح میں دوں] اِحْدَى ابْنَـتَيَّ هٰتَيْنِ [ اپنی ان دو بیٹیوں کی ایک کو] عَلٰٓي اَنْ [ اس پر کہ] تَاْجُرَنِيْ [ آپ علیہ السلام مزدوری کریں میری] ثَمٰـنِيَ حِجَجٍ ۚ [ آٹھ سال] فَاِنْ [ پھر اگر] اَتْمَمْتَ [ آپ علیہ السلام پورا کریں]عَشْرًا [ دس (سال) فَمِنْ عِنْدِكَ ۚ [ تو وہ آپ علیہ السلام کی طرف سے ہے] وَمَآ اُرِيْدُ [ اور میں نہیں چاہتا] اَنْ اَشُقَّ [ کہ میں سختی کروں] عَلَيْكَ ۭ [ آپ علیہ السلام پر]سَتَجِدُنِيْٓ [ آپ علیہ السلام پائیں گے مجھ کو]اِنْ شَاۗءَ [ اگر چاہا] اللّٰهُ [ اللہ نے]مِنَ الصّٰلِحِيْنَ [ نیک لوگوں میں سے]



نوٹ۔2: آیت ۔27۔28۔ میں لڑکی کے والد اور موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کو نکاح کا ایجاب و قبول سمجھ لیا گیا ہے اور یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا باپ کی خدمت بیٹی کے نکاح کا مہر قرار پا سکتی ہے ۔ حالانکہ آیات کی عبارت سے یہ بات ظاہر ہے کہ یہ عقد نکاح نہ تھا بلکہ ابتدائی بات چیت تھی جو نکاح سے پہلے تجویز نکاح کے سلسلے میں عام طور پر ہوا کرتی ہے ۔ آخر یہ نکاح کا ایجاب و قبول کیسے ہو سکتا ہے جبکہ یہ تعین بھی اس میں نہ کیا گیا تھا کہ دونوں میں سے کون سی لڑکی نکاح میں دی جا رہی ہے ۔ یہ ایک تجویز تھی جو موسیٰ علیہ السلام نے قبول کر لی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک معاہدے کی صورت تھی جو نکاح سے پہلے فریقین میں طے ہوئی تھی ۔ اس کے بعد اصل نکاح قاعدے کے مطابق ہوا ہو گا اور اس میں مہر بھی باندھا گیا ہو گا ۔ (تفہیم القرآن )

قَالَ ذٰلِكَ بَيْنِيْ وَبَيْنَكَ  ۭ اَيَّمَا الْاَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ  ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ    28؀ۧ
قَالَ [ (موسیٰ علیہ السلام نے ) کہا] ذٰلِكَ [ یہ] بَيْنِيْ[ میرے درمیان] وَبَيْنَكَ ۭ [ اور تیرے درمیان (طے) ہے] اَيَّمَا الْاَجَلَيْنِ [ دونوں مدتوں کی کوئی سی جو] قَضَيْتُ [ میں نے پوری کی] فَلَا عُدْوَانَ [ تو کسی قسم کی کوئی بھی زیادتی نہیں ہے] عَلَيَّ ۭ [ مجھ پر] وَاللّٰهُ [ اور اللہ] عَلٰي مَا [ اس پر جو] نَقُوْلُ [ ہم کہتے ہیں] وَكِيْلٌ [ نگران ہے]

فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَسَارَ بِاَهْلِهٖٓ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا  ۚ قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْٓا اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّيْٓ اٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ   29؀
فَلَمَّا [ پھر جب]قَضٰى مُوْسَى [ پورا کیا موسیٰ علیہ السلام نے] الْاَجَلَ [ اس مدت کو] وَسَارَ [ اور وہ چلے] بِاَهْلِهٖٓ [ اپنے گھر والوں کے ساتھ]اٰنَسَ [ تو انہوں علیہ السلام نے دیکھا] مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ [ کوہ طور کی طرف] نَارًا ۚ [ ایک آگ] قَالَ [ انھوں علیہ السلام نے کہا] لِاَهْلِهِ [ اپنے گھر والوں سے] امْكُثُوْٓا [ تم لوگ ٹھہرو] اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ [ بیشک میں نے دیکھی]نَارًا ] ایک آگ] لَّعَلِّيْٓ اٰتِيْكُمْ [ شاید میں لاؤں تمہارے پاس]مِّنْهَا [ اس سے]بِخَبَرٍ [ کوئی خبر] اَوْ جَذْوَةٍ [ یا ایک انگارہ] مِّنَ النَّارِ[ آگ میں سے]لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ [ شاید تم لوگ آگ تاپو



ج ذ و

(ن) جذوا سیدھا کھڑا رہنا۔ اپنی حالت پر قائم رہنا۔

 جذوۃ دیکتا ہوا انگارہ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 29۔

ش ط ء

فَلَمَّآ اَتٰىهَا نُوْدِيَ مِنْ شَا۸ الْوَادِ الْاَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ يّٰمُـوْسٰٓي اِنِّىْٓ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ    30؀ۙ
فَلَمَّآ [ پھر جب] اَتٰىهَا [ وہ پہنچے اس کے پاس] نُوْدِيَ [ تو ندا دی گئی] مِنْ شَا ٨ الْوَادِ الْاَيْمَنِ [ وادی کے داہنے کنارے سے] فِي الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ [ برکت دئیے ہوئے اس قطعہ زمین میں] مِنَ الشَّجَرَةِ [ اس درخت سے] ااَنْ يّٰمُـوْسٰٓي [ کہ اے موسیٰ علیہ السلام] اِنِّىْٓ [ بیشک میں]اَنَا اللّٰهُ [ ہی اللہ ہوں] رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کا رب ہوں]





 (ف) شطأ کنارے یا ساحل پر چلنا۔ کھیتی میں بالی آنا۔ خوشہ نکلنا۔

 شطأ اسم ذات ہے۔ کنارہ ، بالی۔ خوشہ۔ کزرع اخرج شطاہ (کسی کھیتی کی مانند جس نے نکالا اپنا خوشہ)۔ 48/29۔

 شاطی سمندر کا ساحل ۔ دریا کا کنارہ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 30۔

ب ق ع

 بقعا پرندے یا کسی چیز کا مختلف رنگ والا ہونا۔

 بقعۃ قطعہ زمین۔ زیر مطالعہ آیت۔30

وَاَنْ اَلْقِ عَصَاكَ  ۭ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَاۗنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْ  ۭ يٰمُوْسٰٓي اَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ  ۣ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِيْنَ    31؀
وَاَنْ [ اور یہ کہ] اَلْقِ [ آپ علیہ السلام ڈال دیں] عَصَاكَ ۭ [ اپنی لاٹھی کو] فَلَمَّا [ پھر جب]رَاٰهَا [ انھوں علیہ السلام نے دیکھا اس کو] تَهْتَزُّ [ ہلتے ہوئے] كَاَنَّهَا [ جیسے کہ وہ] جَاۗنٌّ [ کوئی سانپ ہے] وَّلّٰى [ تو وہ پلٹے] مُدْبِرًا [ پیٹھ پھیرنے والا ہوتے ہوئے] وَّلَمْ يُعَقِّبْ ۭ [ اور پیچھے ہوئے ہی نہیں] يٰمُوْسٰٓي [ اے موسیٰ علیہ السلام] اَقْبِلْ [ آپ علیہ السلام سامنے آئیں] وَلَا تَخَفْ ۣ [ اور مت ڈریں] اِنَّكَ [ بیشک آپ علیہ السلام]مِنَ الْاٰمِنِيْنَ [ امن میں ہونے والوں میں سے ہیں]

اُسْلُكْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْــرُجْ بَيْضَاۗءَ مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ ۡ وَّاضْمُمْ اِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ  ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ    32؀
اُسْلُكْ [ آپ علیہ السلام ڈال دیں] يَدَكَ [ اپنا ہاتھ] فِيْ جَيْبِكَ [ اپنے گریبان میں] تَخْــرُجْ [ تو وہ نکلے گا] بَيْضَاۗءَ [ سفید ہوتے ہوئے] مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ ۡ [ کسی برائی (بیماری) کے بغیر]وَّاضْمُمْ [ اور آپ علیہ السلام ملائیں] اِلَيْكَ [ اپنی طرف] جَنَاحَكَ [ اپنے پہلو کو]مِنَ الرَّهْبِ [ خوف سے (یعنی خوف کی صورت میں)] فَذٰنِكَ [ تویہ] بُرْهَانٰنِ [ دو روشن دلیلیں ہیں] مِنْ رَّبِّكَ [آپ علیہ السلام کے رب (کی جانب) سے] اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ ۭ [فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف] اِنَّهُمْ كَانُوْا [بیشک وہ سب ہیں] قَوْمًا فٰسِقِيْنَ [ایک نافرمانی کرنے والی قوم]



نوٹ۔ ا: آیت ۔32۔ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے یہ ہدایت ہے کہ جب کبھی کوئی خطرناک موقع ایسا آئے جس سے تمہارے دل میں خوف پیدا ہو تو اپنا بازو بھینچ لیا کرو اس سے تمھارا دل قوی ہو جائے گا اور رعب و دہشت کی کوئی کیفیت تمھارے اندر باقی نہ رہے گا ۔ موسیٰ علیہ السلام کو یہ تد بیر اس لئے بتائی گئی کہ وہ ایک ظالم حکومت کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی لائو لشکر اور دنیوی سازوسامان کے بغیر بھیجے جا رہے تھے ۔ بار بار ایسے مواقع پیش آنے والے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب کوئی ایسی صورت پیش آئے تم بس یہ عمل کرلیا کرو ۔ فرعون اپنی پوری سلطنت کا زور لگا کر بھی تمہارے دل کی طاقت کو متزلزل نہ کرسکے گا ۔ (تفہیم القرآن )

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ   33؀
قَالَ [(موسیٰ علیہ السلام نے) کہا] رَبِّ [اے میرے رب] اِنِّىْ قَتَلْتُ [بیشک میں نے قتل کیا] مِنْهُمْ [ان میں سے] نَفْسًا [ایک جان (شخص) کو] فَاَخَافُ [تو میں ڈرتا ہوں] اَنْ يَّقْتُلُوْنِ [کہ وہ قتل کریں گے مجھ کو]

وَاَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْٓ  ۡ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ   34؀
وَاَخِيْ هٰرُوْنُ [اور میرا بھائی ہارون] هُوَ اَفْصَحُ [وہ زیادہ فصیح ہے] مِنِّيْ [مجھ سے] لِسَانًا [بلحاظ زناب کے] فَاَرْسِلْهُ [پس تو بھیج اس کو] مَعِيَ [میرے ساتھ] رِدْاً [بطور مدد کے] يُّصَدِّقُنِيْٓ ۡ [وہ تصدیق کرے گا میری] اِنِّىْٓ اَخَافُ [بیشک میں ڈرتا ہوں] اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ [کہ وہ جھٹلائیں گے مجھ کو]



ف ص ح

(ک) فصاحۃ مراد کو ظاہر کرنا۔ خوش بیان ہونا۔ فصیح ہونا۔

 افصح افعل تفصیل ہے۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 34۔

ر د ء

(ف) ردأ کسی کی مدد کرنا۔

 ردء اسم ذات۔ مدد۔ زیر مطالعہ آیت۔ 34۔



نوٹ۔2: ہارون علیہ السلام کے بارے میں موسیٰ علیہ السلام کی درخواست اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی اور ان کو یہ اطمینان بھی دلادیا کہ فرعونی تم پر دست درازی نہ کرسکیں گے ۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کے فرعون اور اس کے اعیان تمام سطوت و طاقت کے باوجود ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرسکے ۔ اس کا بڑا سبب جو تورات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ فرعون اور اس کے اعیان حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جھوٹا آدمی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کو یقین تھا کہ وہ سچے ہیں ۔ لیکن ان کی دعوت چونکہ ان کے مفاد کے خلاف تھی اس لئے اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ تا ہم وہ جانتے تھے کہ اگر ہم نے ان کو کوئی گزند پہنچایا تو ہماری خیر نہیں ہے ۔ اس وجہ سے انھوں نے ان کو قتل کرنے کی جرأت نہیں کی ۔ مصر پر جب کوئی آفت آتی تو وہ موسیٰ علیہ السلام سے ہی درخواست کرتے کہ وہ اپنے رب سے دعا کریں کہ یہ آفت ٹل جائے ۔ (تفہیم القرآن )

قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا ڔبِاٰيٰتِنَآ ڔ اَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ    35؀
قَالَ [(اللہ نے) کہا] سَنَشُدُّ [میں مضبوط کروں گا] عَضُدَكَ [آپ علیہ السلام کے دست و باز کو] بِاَخِيْكَ [آپ علیہ السلام کے بھائی سے] وَنَجْعَلُ [اور ہم بنائیں گے] لَكُمَا [آپ دونوں کے لئے] سُلْطٰنًا [ایک قوت] فَلَا يَصِلُوْنَ [تو وہ لوگ نہیں پہنچ سکیں گے] اِلَيْكُمَا ڔ[آپ علیہ السلام دونوں تک] بِاٰيٰتِنَآ ڔ [ہماری نشانیوں کے سبب سے] اَنْتُمَا [آپ علیہ السلام دونوں] وَمَنِ [اور وہ جنہوں نے] اتَّبَعَكُمَا [پیروی کی آپ علیہ السلام دونوں کی] الْغٰلِبُوْنَ [غالب ہونے والے ہیں]

فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّمَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِيْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ    36؀
فَلَمَّا [پھر جب] جَاۗءَهُمْ [آئے ان کے پاس ] مُّوْسٰي [موسیٰ علیہ السلام] بِاٰيٰتِنَا [ہماری نشانیوں کے ساتھ] بَيِّنٰتٍ [واضح ہوتے ہوئے] قَالُوْا [تو ان لوگوں نے کہا] مَا هٰذَآ [نہیں ہے یہ] اِلَّا سِحْرٌ [مگر ایک جادو] مُّفْتَرًى [گھڑا ہوا] وَّمَا سَمِعْنَا [اور ہم نے نہیں سنا] بِهٰذَا [اس کو] فِيْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ [اپنے اگلے آباؤ اجداد (کے قصوں) میں]

وَقَالَ مُوْسٰي رَبِّيْٓ اَعْلَمُ بِمَنْ جَاۗءَ بِالْهُدٰى مِنْ عِنْدِهٖ وَمَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ   37؀
وَقَالَ [اور کہا] مُوْسٰي [موسیٰ علیہ السلام نے] رَبِّيْٓ [میرا رب] اَعْلَمُ [سب سے زیادہ جاننے والا ہے] [بِمَنْ : اس کو جو] جَاۗءَ بِالْهُدٰى [ہدایت لایا] مِنْ عِنْدِهٖ [اس کے پاس سے] وَمَنْ [اور اس کو (بھی)] تَكُوْنُ [ہوگا] لَهٗ [جس کے لئے] عَاقِبَةُ الدَّارِ ۭ [اس (آخری) گھر کا انجام] اِنَّهٗ [حقیقت یہ ہے کہ] لَا يُفْلِحُ [فلاح نہیں پاتے] الظّٰلِمُوْنَ [ظلم کرنے والے لوگ]

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ  ۚ فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ فَاجْعَلْ لِّيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَطَّلِــعُ اِلٰٓى اِلٰهِ مُوْسٰي ۙ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ    38؀
وَقَالَ [اور کہا] فِرْعَوْنُ [فرعون نے] يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ [اے سردارو ] مَا عَلِمْتُ [میں نے نہیں جانا] لَكُمْ [تمہارے لئے] مِّنْ اِلٰهٍ [کوئی بھی الٰہ] غَيْرِيْ ۚ [میرے علاوہ] فَاَوْقِدْ [پس تو آگ بھڑکا] لِيْ [میرے لئے] يٰهَامٰنُ [اے ہامان] عَلَي الطِّيْنِ [گارے پر] فَاجْعَلْ لِّيْ [پھر تو بنا میرے لئے] صَرْحًا [ایک بلند عمارت] لَّعَلِّيْٓ [شاید کہ میں] اَطَّلِــعُ [جھانکوں] اِلٰٓى اِلٰهِ مُوْسٰي ۙ [موسیٰ علیہ السلام کے الٰہ کی طرف] وَاِنِّىْ [اور بیشک میں] لَاَظُنُّهٗ [یقینا گمان کرتا ہوں اس کو] مِنَ الْكٰذِبِيْنَ [جھوٹ کہنے والوں میں سے]



نوٹ۔1: فرعون نے بہت اونچا محل تیار کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے وزیر ہامان کو اس کی تیاری کے لئے پہلے یہ حکم دیا کہ مٹی کی اینٹوں کو پکا کر پختہ کیا جائے کیونکہ کچی اینٹوں پر کوئی انچی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی ۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ فرعون کے اس واقعہ سے پہلے پختہ اینٹوں کی تعمیر کا رواج نہیں تھا ۔ سب سے پہلے فرعون نے یہ ایجاد کرائی ۔ (معارف القرآن

وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ لَا يُنْصَرُوْنَ   41؀
وَجَعَلْنٰهُمْ [اور ہم نے بنایا ان کو] اَىِٕمَّةً [ایسے پیشوا] يَّدْعُوْنَ [جو بلاتے ہیں] اِلَى النَّارِ ۚ [آگ کی طرف] وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ [اور قیامت کے دن] لَا يُنْصَرُوْنَ [ان کی مدد نہیں کی جائے گی]

وَاَتْبَعْنٰهُمْ فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً  ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ هُمْ مِّنَ الْمَقْبُوْحِيْنَ   42؀ۧ
وَاَتْبَعْنٰهُمْ [اور ہم نے ان کے پیچھے لگا دیا] فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا [اس دنیا میں] [لَعْنَةً ۚ : ایک لعنت] [وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ : اور قیامت کے دن] هُمْ [وہ لوگ] مِّنَ الْمَقْبُوْحِيْنَ [خیر سے دور کئے ہوؤں میں سے ہیں]



ق ب ح

(ک) قباحۃ بدنما ہونا۔ بدصورت ہونا۔ اس باب سے کوئی لفظ قرآن میں استعمال نہیں ہوا۔

(ف) قبحا کسی خیر اور بھلائی سے دور کرنا۔

 مقبوح اسم المفعول ہے۔ خیر سے دور کیا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 42۔

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ   43؀
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا [اور بیشک ہم دے چکے ہیں] مُوْسَى [موسیٰ علیہ السلام کو] الْكِتٰبَ [کتاب (یعنی تورات] مِنْۢ بَعْدِ مَآ [اس کے بعد کہ جو] اَهْلَكْنَا [ہم نے ہلاک کیا] الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى [پہلی قوموں کو] بَصَاۗىِٕرَ [سمجھ میں آنے والی دلیلیں ہوتے ہوئے] لِلنَّاسِ [لوگوں کے لئے] وَهُدًى [اور ہدایت ہوتے ہوئے] وَّرَحْمَةً [اور رحمت ہوتے ہوئے] لَّعَلَّهُمْ [شاید وہ لوگ] يَتَذَكَّرُوْنَ [یاد دہانی حاصل کریں۔



ترکیب: (آیت۔43) ۔ بصائر۔ ھدی۔ رحمۃ۔ یہ سب حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں لیکن یہ القرون الاولی کی ہلاکت کا حال نہیں ہیں بلکہ الکتب یعنی تورات کا حال ہیں۔ (آیت۔44) ۔ بجانب میں ب دراصل ما نافیہ کی خبر پر آنے والا حرف جار ہے۔ اس لئے اس کے کوئی معنی نہیں لئے جائیں گے۔ (آیت۔46)۔ رحمۃ کو قرآن کا حال ماننا بہتر ہے۔ یہاں قرآن لفظا مذکور نہیں ہے لیکن آیت ۔43۔ سے یہاں تک استدلال یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رسول اللہ
موجود نہیں تھے اور نہ مکہ میں کوئی جید عالم موجود تھا۔ پھر قرآن موسیٰ علیہ السلام کے ٹھیک ٹھیک حالات کیسے بیان کر رہا ہے۔ اس طرح یہاں قرآن کا ذکر معنی موجود ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ رحمۃ کو کسی فعل محذوف کا مفعول لہ ماننے کے بجائے قرآن کا حال مانا جائے۔

نوٹ۔ ا: آیت ۔43۔ میں ایک لطیف بات یہ ہے کہ فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد والی امتیں اس طرح آسمانی عذاب سے ہلاک نہیں ہوئیں ۔ چنانچہ تورات کے نازل ہونے کے بعد کسی قوم کو آسمان یا زمین کے عام عذاب سے ہلاک نہیں کیا گیا سوائے اس بستی کے چند مجرموں کے جنھوں نے ہفتے کے دن شکار کھیلا تھا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے انھیں بندر بنا دیا تھا ۔ یہ واقعہ بیشک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کا ہے جیسے کے حضرت ابو سعید خدری  (رض)  نے فرمایا اور اپنے قول کی شہادت میں یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ رسول
نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد کسی قوم کو آسمانی یا زمینی عذاب سے ہلاک نہیں کیا۔ ایسے عذاب جتنے آئے ان علیہ السلام سے پہلے ہی پہلے آئے ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ (ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ )

وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ اِذْ قَضَيْنَآ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِيْنَ   44؀ۙ
[وَمَا كُنْتَ [اور آپ
نہیں تھے] بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ [مغربی (حصے) کی جانب] اِذْ قَضَيْنَآ [جب ہم نے فیصلہ کیا] اِلٰى مُوْسَى [موسیٰ علیہ السلام کی طرف] الْاَمْرَ [اس حکم کا] وَمَا كُنْتَ [اور آپ نہیں تھے] مِنَ الشّٰهِدِيْنَ [موقعہ پر موجود ہونے والوں میں سے]



نوٹ۔2: آیات 44 تا 46۔ میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی
کی نبوت کی دلیل دیتا ہے کہ ایک وہ شخص جس نے ایک حرف بھی نہ پڑھا ہو ، جو اگلی کتابوں سے نہ آشنا ہو ، جس کی قوم علمی مشاغل سے اور گذشتہ تاریخ سے بالکل بےخبر ہو ، وہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بالکل ٹھیک گذشتہ واقعات کو اس طرح بیان کرے جیسے کہ اس کے اپنے چشم دید ہوں ، کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعہ سے انھیں وہ تمام باتیں بتاتا ہے ۔ (ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ )

 یہ امر ملحوظ رہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی سر گذشت جس تفصیل اور صحت کے ساتھ قرآن میں بیان ہوئی ہے اس تفصیل و صحت کے ساتھ تورات میں بیان نہیں ہوئی ۔ اگر آپ سر گذشت کے اتنے ہی حصہ کو لے کر ، جتنی اس سورہ بیان ہوئی ہے ، تورات کے بیان سے اس کا موازنہ کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ قرآن کے بیان کے مقابلہ میں تورات کا بیان بےربط ہے اور ان تمام ضروری اجزاء سے خالی ہے جو اس سر گزشت کی اصل روح ہیں ۔ اگر طوالت کا اند یشہ نہ ہوتا تو میں قرآن اور تورات دونوں کے بیانات کا مقابلہ کر کے دکھاتا کہ تورات میں سرگزشت کے اصل اجزاء یا تو غائب ہیں یا مسخ شدہ ہیں ۔ بر عکس اس کے قرآن نے واقعہ کے تمام فطری اجزاء ایسے منطقی ربط و تسلسل کے ساتھ پیش کیے ہیں کہ ان کی موعظت وحکمت دل میں اترتی چلی جاتی ہے ۔ (تدبر قرآن )

وَلٰكِنَّآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِيْٓ اَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا  ۙ وَلٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ    45؀
وَلٰكِنَّآ اَنْشَاْنَا [اور لیکن ہم نے اٹھائیں] قُرُوْنًا [کچھ قومیں] فَتَطَاوَلَ [پھر لمبائی ظاہر کی] عَلَيْهِمُ [ان پر] الْعُمُرُ ۚ [عمر نے] وَمَا كُنْتَ [اور آپ
نہیں تھے] ثَاوِيًا [قیام کرنے والے] فِيْٓ اَهْلِ مَدْيَنَ [مدین والوں میں] تَتْلُوْا [تلاوت کرتے ہوئے] عَلَيْهِمْ [ان پر] اٰيٰتِنَا ۙ [ہماری آیتوں کو] وَلٰكِنَّا كُنَّا [اور لیکن ہم ہی ہیں] مُرْسِلِيْنَ [بھیجنے والے]

وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَيْنَا وَلٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ     46؀
وَمَا كُنْتَ [اور آپ
نہیں تھے] بِجَانِبِ الطُّوْرِ [طور کی جانب] اِذْ نَادَيْنَا [جب ہم نے ندا دی] وَلٰكِنْ [اور لیکن] رَّحْمَةً [یہ کتاب ہے) رحمت ہوتے ہوئے] مِّنْ رَّبِّكَ [آپ کے رب (کی طرف) سے] لِتُنْذِرَ [تاکہ آپ خبردار کریں] قَوْمًا [ایک ایسی قوم کو] مَّآ اَتٰىهُمْ [نہیں آیا جن کے پاس] مِّنْ نَّذِيْرٍ [کوئی خبردار کرنے والا] مِّنْ قَبْلِكَ [آپ سے پہلے] لَعَلَّهُمْ [شاید یہ لوگ] يَتَذَكَّرُوْنَ [یاد دہانی حاصل کریں]

وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ    47؀
وَلَوْلَآ اَنْ [اور اگر نہ ہوتا کہ (ہم نذیر نہ بھیجتے) پھر] تُصِيْبَهُمْ [آن لگتی ان کو] مُّصِيْبَةٌۢ [کوئی آلگنے والی (آفت)] بِمَا [بسبب اس کے جو] قَدَّمَتْ [آگے بھیجا] اَيْدِيْهِمْ [ان کے ہاتھوں نے] فَيَقُوْلُوْا [تو وہ لوگ کہتے] رَبَّنَا [اے ہمارے رب] لَوْلَآ [کیوں نہیں] اَرْسَلْتَ [تو نے بھیجا] اِلَيْنَا [ہماری طرف] رَسُوْلًا [کوئی رسول] فَنَتَّبِعَ [نتیجۃً ہم پیروی کرتے] اٰيٰتِكَ [تیری آیتوں کی] وَنَكُوْنَ [اور ہم ہو جاتے] مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ایمان لانے والوں میں سے]

فَلَمَّا جَاۗءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْلَآ اُوْتِيَ مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي  ۭ اَوَلَمْ يَكْفُرُوْا بِمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي مِنْ قَبْلُ ۚ قَالُوْا سِحْرٰنِ تَظٰهَرَ  ڠ وَقَالُوْٓا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوْنَ   48؀
فَلَمَّا [تو جب] جَاۗءَهُمُ [آیا ان کے پاس] الْحَقُّ [حق (قرآن)] مِنْ عِنْدِنَا [ہمارے پاس سے] قَالُوْا [تو انھوں نے کہا] لَوْلَآ [کیوں نہیں] اُوْتِيَ [ان (رسول) کو دیا گیا] مِثْلَ مَآ [اس کے جیسا جو] اُوْتِيَ [دیا گیا] مُوْسٰي ۭ [موسیٰ علیہ السلام کو] اَوَ [اور کیا] لَمْ يَكْفُرُوْا [انہوں نے انکار نہیں کیا] بِمَآ [اس کا جو] اُوْتِيَ [دیا گیا] مُوْسٰي [موسیٰ علیہ السلام کو] مِنْ قَبْلُ ۚ [اس سے پہلے] قَالُوْا [انہوں نے کہا] سِحْرٰنِ [(یہ کتابیں) دو جادو ہیں] تَظٰهَرَ ڠ [دونوں باہم مددگار ہوئیں] وَقَالُوْٓا [اور انہوں نے کہا] اِنَّا [کہ ہم] بِكُلٍّ [سب کا] كٰفِرُوْنَ [انکار کرنے والے ہیں]



نوٹ۔1: اَوَلَمْ يَكْفُرُوْا بِمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي مِنْ قَبْلُ کا مطلب یہ ہے کہ ان معجزوں کے باوجود موسیٰ علیہ السلام پر ہی تم (یعنی قریش مکہ ) کب ایمان لائے تھے کہ اب محمد
سے ان کا مطالبہ کر رہے ہو ۔ تم خود یہ کہتے ہو کہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزے دیئے گے تھے ، مگر پھر بھی ان کو نبی مان کر ان کی پیروی تم نے کبھی قبول نہیں کی ۔ سورہ سبا کی آیت ۔31۔ میں بھی کفار مکہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ’’ نہ ہم اس قرآن کو مانیں گے نہ ان کتابوں کو جو اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں ۔ (تفہیم القرآن )

نوٹ۔2: سحرن تظاہرا میں سحران خبر ہے۔ اس سے پہلے اس کا مبتدا محذوف ہے۔ کچھ مفسرین نے اس سے پہلے ھذان الرجلان (یہ دو مرد یعنی موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام) کو محذوف مانا ہے اور سحران (دو جادو) کو ساحران (دو جادوگر) کے معنی میں لیا ہے۔ اس طرح یہ فرعونیوں کا قول قرار پاتا ہے۔ جبکہ کچھ مفسرین نے سحران سے پہلے ھذان الکتابان (یہ دو کتابیں یعنی تورات اور قرآن) کو محذوف مانا ہے۔ ایسی صورت میں سحران (دو جادو) کے معنی میں تاویل کی ضرورت نہیں رہتی اور یہ قریش مکہ کا قول قرار پاتا ہے۔ ہم نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے کیونکہ اگلی آیت میں فاتوا بکتب سے اس رائے کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔

قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَآ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ  49؀
قُلْ [آپ
کہیے] فَاْتُوْا [تو تم لوگ لاؤ] بِكِتٰبٍ [کوئی ایسی کتاب] مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ [اللہ کے پاس سے] هُوَ [جو] اَهْدٰى [زیادہ ہدایت والی ہے] مِنْهُمَآ [ان دونوں (کتابوں) سے] اَتَّبِعْهُ [تو میں پیروی کروں گا اس کی] اِنْ كُنْتُمْ [اگر تم لوگ] صٰدِقِيْنَ [سچ کہنے والے ہو]

فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَهْوَاۗءَهُمْ  ۭ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ   50؀ۧ
فَاِنْ [پھر اگر] لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا [وہ لوگ جواب نہ دیں] لَكَ [آپ
کو] فَاعْلَمْ [تو آپ جان لیں] اَنَّمَا [کہ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] يَتَّبِعُوْنَ [وہ لوگ پیروی کرتے ہیں] اَهْوَاۗءَهُمْ ۭ [اپنی خواہشات کی] وَمَنْ [اور کون] اَضَلُّ [زیادہ گمراہ ہونے والا ہے] مِمَّنِ [اس سے جس نے] اتَّبَعَ [پیروی کی] هَوٰىهُ [اپنی خواہش کی] بِغَيْرِ هُدًى [کسی ہدایت کے بغیر] مِّنَ اللّٰهِ ۭ [اللہ (کی طرف) سے] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] لَا يَهْدِي [ہدایت نہیں دیتا] الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ [ظلم کرنے والی قوم کو]

وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَـهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ   51؀ۭ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا [اور بیشک ہم بتدریج پہنچاتے رہے ہیں] لَـهُمُ [ان لوگوں کے لئے] الْقَوْلَ [اس بات (وحی الٰہی) کو] لَعَلَّهُمْ [شاید وہ] يَتَذَكَّرُوْنَ [نصیحت پکڑیں]

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَ   52؀
اَلَّذِيْنَ [وہ لوگ] اٰتَيْنٰهُمُ [ہم نے دی جن کو] الْكِتٰبَ [کتاب] مِنْ قَبْلِهٖ [اس (قرآن) سے پہلے] هُمْ [وہ] بِهٖ [اس پر] يُؤْمِنُوْنَ [ایمان لاتے ہیں]



نوٹ۔1: آیت۔ 52۔ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام اہل کتاب (یہودی اور عیسائی) اس پر ایمان لاتے ہیں۔ بلکہ یہ اشارہ دراصل اس واقعہ کی طرف ہے جو اس سورہ کے نزول کے زمانے میں پیش آیا تھا اور اس سے اہل مکہ کو شرم دلانی مقصود ہے کہ تم اپنے گھر آئی ہوئی نعمت کو ٹھکرا رہے ہو حالانکہ دور دور کے لوگ اس کی خبر سن کر آرہے ہیں اور اس کی قدر پہچان کر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حجرت حبشہ کے بعد جب وہاں پر نبی
کی دعوت کی خبر پھیلی تو وہاں سے تقریبا بیس عیسائیوں کا ایک وفد تحقیق حال کے لئے مکہ آیا اور خانہ کعبہ میں نبی سے ملاقات کی۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی یہ ماجرا دیکھ کر گردوپیش کھڑے ہوگئے۔ وفد کے لوگوں نے حضور سے کچھ سوالات کیے جن کا آپ نے جواب دیا۔ پھر آپ نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی آیات اس کے سامنے پڑھیں قرآن سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انہوں نے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اور ایمان لے آئے۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو ابوجہل اور اس کے چند ساتھیوں نے انہیں سخت ملامت کی اور برا بھلا کہا۔ وفد نے انہیں جو جواب دیا وہ آیت۔55۔ میں درج ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ   53؀
وَاِذَا [اور جب] يُتْلٰى [اس (قرآن) کو پڑھا جاتا ہے] عَلَيْهِمْ [ان پر] قَالُوْٓا [تو وہ کہتے ہیں] اٰمَنَّا [ہم ایمان لائے] بِهٖٓ [اس پر] اِنَّهُ الْحَقُّ [یقینا یہی حق ہے] مِنْ رَّبِّنَآ [ہمارے رب (کی طرف) سے] اِنَّا كُنَّا [بیشک ہم تھے] مِنْ قَبْلِهٖ [اس (قرآن) سے پہلے (ہی)] مُسْلِمِيْنَ [فرمانبرداری کرنے والے]



نوٹ۔2: آیت۔53۔ میں وفد کے لوگوں کا قول ہے کہ ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم انبیاء اور کتب آسمانی کے ماننے والے تھے اس لئے اسلام کے سوا ہمارا کوئی اور دین نہ تھا۔ اور اب جو نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب لے کر آئے ہیں انھیں بھی ہم نے مان لیا لہٰذا درحقیقت ہمارے دین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے بلکہ جیسے ہم پہلے مسلمان تھے ویسے ہی اب بھی مسلمان ہیں۔ یہ قول اس بات کی صراحت کر دیتا ہے کہ اسلام صرف اس دین کا نام نہیں ہے جسے محمد
لے کر آئے ہیں اور مسلم کی اصلاح کا اطلاق محض آپ کی امت تک محدود نہیں ہے ۔ بلکہ ہمیشہ سے تمام انبیاء کا دین یہی اسلام تھا اور ہر زمانہ میں ان سب کے پیرو مسلمان ہی تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن صرف اسی ایک مقام پر نہیں بلکہ بیسیوں مقامات پر اس اصولی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اصل دین صرف اسلام (اللہ کی فرمانبرداری) ہے اور خدا کی مخلوق کے لئے اس کے سوا کئی دوسرا دین ہو نہیں سکتا۔ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ خود بھی مسلم رہے اور وہ سب متبعین جنہوں نے نبوت کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمان خداوندی کے آگے سر تسلیم خإ کیا ہر زمانے میں مسلم ہی تھے ۔ (تفہیم القرآن)

 تفہیم القرآن میں اس مسئلہ پر خاصی تفصیل سے بحث کی گئی ہے اور سند کے طور پر متعدد آیات نقل کی گئی ہیں۔ اسے یا تو تفہیم میں دیکھ لیں یا مندرجہ ذیل آیات کا ترجمہ قرآن مجید میں دیکھ لیں۔ البقرہ۔128۔131 تا 133۔ آل عمران۔19۔67۔85، المائدہ۔44۔111، یونس ۔72۔84۔90 ، یوسف۔101، النمل۔44 ، الذاریات۔36۔

اُولٰۗىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ   54؀
اُولٰۗىِٕكَ [یہ لوگ ہیں] يُؤْتَوْنَ [جن کو دیا جائے گا] اَجْرَهُمْ [ان کا اجر] مَّرَّتَيْنِ [دو مرتبہ] بِمَا [بسبب اس کے جو] صَبَرُوْا [وہ ثابت قدم رہے] وَيَدْرَءُوْنَ [اور وہ لوگ ہٹاتے ہیں] بِالْحَسَنَةِ [بھلائی سے] السَّيِّئَةَ [برائی کو] وَمِمَّا [اور اس سے جو] رَزَقْنٰهُمْ [ہم نے دیا ان کو] يُنْفِقُوْنَ [وہ لوگ خرچ کرتے ہیں]

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ  ۡ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۡ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ   55؀
وَاِذَا سَمِعُوا [اور جب وہ سنتے ہیں] اللَّغْوَ [بے سود بات] اَعْرَضُوْا [تو وہ اعراض کرتے ہیں] عَنْهُ [اس سے] وَقَالُوْا [اور کہتے ہیں] لَنَآ [ہمارے لئے ہیں] اَعْمَالُنَا [ہمارے اعمال] وَلَكُمْ [اور تمہارے لئے ہیں] اَعْمَالُكُمْ ۡ [تمہارے اعمال] سَلٰمٌ [سلامتی ہو] عَلَيْكُمْ ۡ [تم لوگوں پر] لَا نَبْتَغِي [نہیں چاہتے] الْجٰهِلِيْنَ [جاہلوں کو]

اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ   56؀
اِنَّكَ [بیشک آپ
] لَا تَهْدِيْ [ہدایت نہیں دیتے] مَنْ [اسے جس کو] اَحْبَبْتَ [آپ چاہیں] وَلٰكِنَّ اللّٰهَ [اور لیکن اللہ] يَهْدِيْ [ہدایت دیتا ہے] مَنْ [اسے جس کو] يَّشَاۗءُ ۚ[وہ چاہتا ہے] وَهُوَ [اور وہ] اَعْلَمُ [سب سے زیادہ جاننے والا ہے] بِالْمُهْتَدِيْنَ [ہدایت پانے والوں کو]

وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا  ۭ اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْــبٰٓى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ    57؀
وَقَالُوْٓا [اور انہوں نے کہا] اِنْ نَّتَّبِعِ [اگر ہم پیروی کریں گے] الْهُدٰى [اس ہدایت کی] مَعَكَ [آپ
کے ساتھ] نُتَخَطَّفْ [تو ہم کو گھسیٹ کرلے جایا جائے گا] مِنْ اَرْضِنَا ۭ [ہماری سرزمین سے] اَوَلَمْ نُمَكِّنْ [اور کیا ہم نے نہیں جمایا] لَّهُمْ [ان کو] حَرَمًا اٰمِنًا [امن میں ہونے والے ایسے حرم میں] يُّجْــبٰٓى [اکٹھا کئے جاتے ہیں] اِلَيْهِ [جس کی طرف] ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ [ہر چیز کے پھل] رِّزْقًا [رزق ہوتے ہوئے] مِّنْ لَّدُنَّا [ہماری طرف سے] وَلٰكِنَّ [اور لیکن] اَكْثَرَهُمْ [ان کے اکثر ] لَا يَعْلَمُوْنَ [جانتے نہیں ہیں]



ترکیب: (آیت۔57)۔ الھدی پر لام تعریف ہے۔ نتخطف جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔

وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍۢ بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَا  ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِيْلًا  ۭ وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ    58؀
وَكَمْ اَهْلَكْنَا [اور ہم نے ہلاک کیں کتنی ہی] مِنْ قَرْيَةٍۢ [ایسی بستیوں میں سے] بَطِرَتْ [جنہوں نے ناقدری کی] مَعِيْشَتَهَا ۚ [اپنی معیشت کی] فَتِلْكَ [تو یہ] مَسٰكِنُهُمْ [ان کے مکانات ہیں] لَمْ تُسْكَنْ [ان کو آباد نہیں کیا گیا] مِّنْۢ بَعْدِهِمْ [ان کے بعد] اِلَّا قَلِيْلًا ۭ [مگر تھوڑے سے] وَكُنَّا نَحْنُ [اور ہم ہی ہیں] الْوٰرِثِيْنَ [وارث بننے والے]



(آیت۔58)۔ بطر کے ایک معنی ہیں نعمت پا کر بہک جانا۔ اترانا۔ اسی معنی میں یہ لازم ہے جس کا مفعول نہیں آتا۔ آگے معیشتھا میں معیشۃ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہاں بطرت اس معنی میں نہیں آیا ہے۔ جن مترجمین نے اسے اترانے ہی کے معنی میں لیا ہے انھوں نے معیشۃ سے پہلے حرف جار علی یا فی کو محذوف مانا ہے اور ترجمہ کیا ہے جو بستیاں اترائیں اپنی معیشت پر یا میں۔ لیکن اس پر نصب کی موجودگی میں اس سے پہلے کسی حرف جر کو محذوف ماننے کی گنجائش نہیں بنتی۔ ایسے تراجم کو اردو محاورے میں مفہوم سمجھانے کی غرض سے اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن گرامر کے لحاظ سے اس کو درست ماننا مشکل ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ یہ اصل میں بطرت معیشتھا ہے۔ فعل کی نسبت اس سے قطع کرکے بطور تمیز اسے منصوب کردیا گیا ہے۔ لیکن ہمارے جیسے قرآن کے مبتدی طلباء کے لئے امام صاحب کی بات کو سمجھنا مشکل ہے۔ بطر کے دوسرے معنی ہیں نعمت کی ناشکری کرنا۔ اس معنی میں یہ متعدی ہے اور اب معیشۃ کی نصب کی کوئی تاویل کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ استاد محترم حافظ احمد یار صاحب مرحوم اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اسی بنیاد پر کہا ہے کہ یہاں بطرت کا استعمال کفرت کے معنی میں ہوا ہے اور ہم نے بھی اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى يَبْعَثَ فِيْٓ اُمِّهَا رَسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا  ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِــكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ     59؀
وَمَا كَانَ [اور نہیں ہے] رَبُّكَ [آپ
کا رب] مُهْلِكَ الْقُرٰى [بستیوں کو ہلاک کرنے والا] حَتّٰى [یہاں تک کہ] يَبْعَثَ [وہ بھیج دے] فِيْٓ اُمِّهَا [ان (بستیوں) کے مرکز میں] رَسُوْلًا [ایک ایسا رسول] يَّتْلُوْا عَلَيْهِمْ [جو پڑھ کر سنائے ان کو] اٰيٰتِنَا ۚ [ہماری آیتیں] وَمَا كُنَّا [اور ہم نہیں ہیں] مُهْلِــكِي الْقُرٰٓى [بستیوں کو ہلاک کرنے والے] اِلَّا [مگر] وَ [اس حال میں کہ] اَهْلُهَا [ان کے لوگ] ظٰلِمُوْنَ [ظلم کرنے والے ہوں



 (آیت۔59)۔ مہلک القری میں کان کی خبر ہونے کی وجہ سے مہلک حالت نصب میں ہے اور واحد آیا ہے۔ جبکہ آگے کنا (جمع) کی خبر حالت نصب میں مہلکین تھی۔ مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا تو مہلکی القری استعمال ہوا ہے۔

وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَزِيْنَتُهَا  ۚ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ    60۝ۧ
وَمَآ [اور جو] اُوْتِيْتُمْ [تم لوگوں کو دی جاتی ہے] مِّنْ شَيْءٍ [کوئی بھی چیز] فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [تو (وہ) دنیوی زندگی کا سامان ہے] وَزِيْنَتُهَا ۚ [اور اس کی زینت ہے] وَمَا [اور جو] عِنْدَ اللّٰهِ [اللہ کے پاس ہے] خَيْرٌ [(تو وہ) سب سے بہتر ہے] وَّاَبْقٰى ۭ [اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے] اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ [تو کیا تم لوگ عقل نہیں کرتے]



نوٹ۔1: قریش کو پورے ملک پر جو اقتدار حاصل تھا، وہ سمجھتے تھے کہ یہ ان کے دین شرک کی برکت سے ہوا ہے۔ مزید برآں انہوں نے پورے ملک پر اپنی مذہبی و سیاسی دھاک قائم رکھنے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی تھی کہ تمام قبائل عرب کے اصنام خانہ کعبہ میں جمع کر دئیے تھے۔ اس طرح وہ سب کے امام و پیشوا بن گئے تھے۔ رسول اللہ
نے جب دعوت توحید بلند کی تو اس کے خلاف انھوں نے یہ اعتراض کیا کہ اگر ہم اپنے دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک خدا کے بن کر رہ جائیں تو تمام عرب ہمارا دشمن بن کر اٹھ کھڑا ہوگا اور اس ملک سے ہماری جڑ اکھڑ جائے گی۔ یہ بالکل وہی اعتراض ہے جو آج ہمارے لیڈر حضرات اسلامی نظام کے خلاف اٹھاتے ہیں کہ اگر ہم اسلامی نظام کو اختیار کرلیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی معیشت و معاشرت کا تیاپانچہ کرکے دکھ دیں۔ یہی اعتراض فرعون اور اس کے اعیان نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے خلاف بھی اٹھایا تھا کہ یہ شخص ہماری اعلیٰ تہذیب کو مٹانے کے درپے ہے۔ (20/63) خدائی نظام کی مخالفت میں شیاطین کا سب سے زیادہ کارگر حربہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔ (تدبر قرآن)

اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَـنًا فَهُوَ لَاقِيْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ   61؀
اَفَمَنْ [ تو کیا وہ] وَّعَدْنٰهُ [ہم نے وعدہ کیا جس سے] وَعْدًا حَسَـنًا [ایک اچھا وعدہ] فَهُوَ لَاقِيْهِ [ملاقات کرنے والا ہے اس (وعدے) سے] كَمَنْ [اس کے جیسا ہوگا] مَّتَّعْنٰهُ [ہم نے برتنے کے لئے دیا جس کو] مَتَاعَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [دنیوی زندگی کا سامان] ثُمَّ هُوَ [پھر وہ] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ [قیامت کے دن] مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ [پیش کئے ہوؤں میں سے ہوگا]۔



نوٹ۔1: ایک شخص کے لئے دائمی عیش کا وعدہ ہے جو یقینا پورا ہو کر رہے گا اور دوسرے کے لئے چند روز ہ عیش کے بعد گرفتاری کا وارنٹ اور دائمی جیل خانہ ہے ۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ۔ ایک شخص خواب میں دیکھے کہ میرے سر پر تاج شاہی رکھا ہے ، خدام پرے باندھے کھڑے ہیں اور الوان نعمت دسترخوان پر چنے ہوئے ہیں جن سے لذت اندوز ہو رہا ہوں۔ آنکھ کھلی تو دیکھا انسپکٹر پولیس گرفتاری کا وارنٹ اور ہتھکڑی بیڑی لئے کھڑا ہے۔ پس وہ پکڑ کرلے گیا اور پیش ہوکر جس دوام کی سزا لی گئی۔ بتلاؤ اسے وہ خواب کی بادشاہت اور پلاؤ قورمے کی لذت یاد آئے گی۔ (ترجمہ شیخ الہند)

وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ    62؀
وَيَوْمَ [اور جس دن] يُنَادِيْهِمْ [وہ پکارے گا ان کو] فَيَقُوْلُ [پھر وہ کہے گا] اَيْنَ [کہاں ہیں] شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ [میرے وہ شریک جن پر] كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ [تم لوگ زعم کیا کرتے تھے]۔

قَالَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَغْوَيْنَا  ۚ اَغْوَيْنٰهُمْ كَمَا غَوَيْنَا  ۚ تَبَرَّاْنَآ اِلَيْكَ  ۡ مَا كَانُوْٓا اِيَّانَا يَعْبُدُوْنَ    63؀
قَالَ الَّذِيْنَ [وہ لوگ کہیں گے] حَقَّ [ثابت ہوئی] عَلَيْهِمُ [جن پر] الْقَوْلُ [وہ بات (الزام)] رَبَّنَا [اے ہمارے رب] هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ [یہ ہیں وہ لوگ جن کو] اَغْوَيْنَا ۚ [ہم نے گمراہ کیا] اَغْوَيْنٰهُمْ [ہم نے گمراہ کیا ان کو] كَمَا [اس طرح جیسے] غَوَيْنَا ۚ [ہم گمراہ ہوئے] تَبَرَّاْنَآ [ہم نے اظہار بیزاری کیا (ان سے)] اِلَيْكَ ۡ [تیری طرف] مَا كَانُوْٓا اِيَّانَا يَعْبُدُوْنَ [وہ لوگ صرف ہماری ہی بندگی نہیں کرتے تھے]۔



نوٹ۔2: آیت۔63۔ میں یہ لطیف نکتہ قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سوال تو کرے گا شریک ٹھہرانے والوں سے مگر ان کے بولنے سے پہلے ہی جواب دینے لگیں گے وہ جن کو شریک ٹھہرایا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عام مشرکین سے یہ سوال کیا جائے گا تو ان کے لیڈر محسوس کریں گے کہ اب ہماری شامت آگئی یہ ہماری پیروی کرنے والے ضرور کہیں گے کہ ہماری گمراہی کے ذمہ دار یہ لوگ ہیں۔ اس لئے ان کے بولنے سے پہلے وہ خود اپنی صفائی پیش کریں گے کہ ہم نے زبردستی ان کو گمراہ نہیں کیا بلکہ جس طرح ہم خود اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے تھے اسی طرح انھوں نے اپنی مرضی سے گمراہی کو قبول کیا تھا۔ (تفہیم القرآن)

وَقِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ  ۚ لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ   64؀
وَقِيْلَ [اور کہا جائے گا] ادْعُوْا [تم لوگ پکارو] شُرَكَاۗءَكُمْ [اپنے شریکوں کو] فَدَعَوْهُمْ [پھر وہ پکاریں گے ان کو] فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا [تو وہ جواب نہیں دیں گے] لَهُمْ [ان کو] وَرَاَوُا [اور وہ دیکھیں گے] الْعَذَابَ ۚ [عذاب کو] لَوْ اَنَّهُمْ [کاش کہ وہ لوگ] كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ [ہدایت پاتے ہوتے]۔

وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِيْنَ   65؀
وَيَوْمَ [اور جس دن] يُنَادِيْهِمْ [وہ پکارے گا ان کو] فَيَقُوْلُ [پھر وہ کہے گا] مَاذَآ اَجَبْتُمُ [تم لوگوں نے کیا جواب دیا] الْمُرْسَلِيْنَ [بھیجے ہوؤں (رسولوں) کو]۔

فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمُ الْاَنْۢبَاۗءُ يَوْمَىِٕذٍ فَهُمْ لَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ   66؀
فَعَمِيَتْ [تو اندھی ہو جائیں گی] عَلَيْهِمُ [ان پر] الْاَنْۢبَاۗءُ [خبریں] يَوْمَىِٕذٍ [اس دن] فَهُمْ [تو وہ لوگ] لَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ [ایک دوسرے سے (بھی) نہیں پوچھیں گے]۔

فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِيْنَ    67؀
فَاَمَّا [تو وہ جو ہے] مَنْ [جس نے] تَابَ [توبہ کی] وَاٰمَنَ [اور ایمان لایا] وَعَمِلَ [اور اس نے عمل کیے] صَالِحًا [نیک] فَعَسٰٓي اَنْ [تو امید ہے کہ] يَّكُوْنَ [وہ ہوگا] مِنَ الْمُفْلِحِيْنَ [مراد پانے والوں میں سے]۔

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ  ۭ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ  ۭ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ   68؀
وَرَبُّكَ [اور آپ
کا رب] يَخْلُقُ [پیدا کرتا ہے] مَا [اس کو جس کو] يَشَاۗءُ [وہ چاہتا ہے] وَيَخْتَارُ ۭ [اور وہ چن لینا ہے (جس کو چاہتا ہے)] مَا كَانَ [نہیں ہے] لَهُمُ [ان لوگوں کے لئے] الْخِيَرَةُ ۭ [پسند کرنے کا اختیار] سُبْحٰنَ اللّٰهِ [پاکیزگی اللہ کی ہے] وَتَعٰلٰى [اور وہ بلند ہوا] عَمَّا [اس سے جو] يُشْرِكُوْنَ [یہ لوگ شرک کرتے ہیں]۔

وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَمَا يُعْلِنُوْنَ   69؀
وَرَبُّكَ [اور آپ
کا رب] يَعْلَمُ [جانتا ہے] مَا [اس کی جو] تُكِنُّ [چھپاتے ہیں] صُدُوْرُهُمْ [ان کے سینے] وَمَا [اور اس کا جو] يُعْلِنُوْنَ [وہ لوگ اعلان کرتے ہیں]۔

وَهُوَ اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۭ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَالْاٰخِرَةِ  ۡ وَلَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ    70؀
وَهُوَ [اور وہی] اللّٰهُ [اللہ نے] لَآ اِلٰهَ [کوئی بھی الٰہ نہیں ہے] اِلَّا هُوَ ۭ [مگر وہ ہی] لَهُ [اس کے لئے ہیں] الْحَمْدُ [تمام شکرو سپاس] فِي الْاُوْلٰى [پہلی (زندگی) میں] وَالْاٰخِرَةِ ۡ [اور آخری (زندگی) میں] وَلَهُ [اور اس کے لئے ہی] الْحُكْمُ [تمام حکم ہے] وَاِلَيْهِ [اور اس کی طرف ہی] تُرْجَعُوْنَ [تم لوگ لوٹائے جاؤ گے]۔

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَاۗءٍ  ۭ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ   71؀
قُلْ [آپ
کہیے] اَرَءَيْتُمْ [کیا تم لوگوں نے غور کیا] اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ [اگر بنا دے اللہ] عَلَيْكُمُ [تم لوگوں پر] الَّيْلَ [رات کو] سَرْمَدًا [ہمیشہ کے لئے] اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ [قیامت کے دن تک] مَنْ اِلٰهٌ [کون الٰہ ہے] غَيْرُ اللّٰهِ [اللہ کے علاوہ] يَاْتِيْكُمْ [جو لائے گا تمہارے لئے] بِضِيَاۗءٍ ۭ [ روشنیاں] اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ [تو کیا تم لوگ سنتے نہیں ہو]



نوٹ۔1: آیت ۔71۔ میں رات کی ہمیشگی کا ذکر ہے اور اندھیرے میں انسان کو دکھائی نہیں دیتا ۔ اس لئے اس کی رعایت سے آیت کے آخر میں افلا تسمعون فرمایا کہ اگر تمہیں سجھائی نہیں دیتا تو کیا سنائی بھی نہیں دیتا۔ جبکہ اگلی آیت میں دن کا ذکر ہے جس میں انسان سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ اس لئے اس کے آخر میں افلا تبصرون فرمایا۔ (ترجمہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ سے ماخوذ)

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْهِ  ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ    72؀
قُلْ [آپ
کہیے] اَرَءَيْتُمْ [کیا تم لوگوں نے غور کیا] اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ [اگر بنا دے اللہ] عَلَيْكُمُ [تم لوگوں پر] النَّهَارَ [دن کو] سَرْمَدًا [ہمیشہ کے لئے] اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ [قیامت کے دن تک] مَنْ اِلٰهٌ [کون الٰہ ہے] غَيْرُ اللّٰهِ [اللہ کے علاوہ] يَاْتِيْكُمْ [جو لائے گا تمہارے لئے] بِلَيْلٍ [رات] تَسْكُنُوْنَ [تم لوگ آرام کرتے ہو] فِيْهِ ۭ [جس میں] اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ [تو کیا تم لوگ دیکھتے نہیں ہو]۔

وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ   73؀
وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ [اور (یہ) اس کی رحمت میں سے ہے (کہ)] جَعَلَ [اس نے بنایا] لَكُمُ [تمہارے لئے] الَّيْلَ [رات] وَالنَّهَارَ [اور دن] لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ [تاکہ تم لوگ آرام کرو اس میں] وَلِتَبْتَغُوْا [اور تاکہ تم لوگ تلاش کرو] مِنْ فَضْلِهٖ [اس کے فضل میں سے] وَلَعَلَّكُمْ [اور شاید تم لوگ] تَشْكُرُوْنَ [شکر کرو]۔

وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ   74؀
وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ [اور جس دن وہ پکارے گا ان کو] فَيَقُوْلُ [پھر وہ کہے گا] اَيْنَ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ [کہاں ہیں میرے وہ شریک جن پر] كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ [تم لوگ زعم کیا کرتے تھے]۔

وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا فَقُلْنَا هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوْٓا اَنَّ الْحَقَّ لِلّٰهِ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ   75؀ۧ
وَنَزَعْنَا [اور ہم نکالیں گے] مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ [ہر امت میں سے] شَهِيْدًا [ایک گواہ] فَقُلْنَا [تو ہم کہیں گے] هَاتُوْا [تم لوگ وہ] بُرْهَانَكُمْ [اپنی روشن دلیل] فَعَلِمُوْٓا [تب وہ لوگ جان لیں گے] اَنَّ الْحَقَّ [کہ کل حق] لِلّٰهِ [اللہ کے لئے ہے] وَضَلَّ [اور گم ہو جائے گا] عَنْهُمْ [ان سے] مَّا [وہ جو] كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ [وہ گھڑا کرتے تھے]۔

اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰي فَبَغٰى عَلَيْهِمْ  ۠ وَاٰتَيْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْۗاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِي الْقُوَّةِ  ۤ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ    76؀
اِنَّ قَارُوْنَ [بیشک قارون] كَانَ [تھا] مِنْ قَوْمِ مُوْسٰي [موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے] فَبَغٰى عَلَيْهِمْ ۠ [تو اس نے بغاوت کی ان کے خلاف] وَ [حالانکہ] اٰتَيْنٰهُ [ہم نے دیا تھا اس کو] مِنَ الْكُنُوْزِ [خزانوں میں سے] مَآ [وہ ] اِنَّ [کہ] مَفَاتِحَهٗ [جس کی کنجیاں] لَتَنُوْۗاُ [یقینا مشکل سے اٹھتی تھیں] بِالْعُصْبَةِ اُولِي الْقُوَّةِ ۤ [قوت والی جماعت سے] اِذْ قَالَ لَهٗ [جب کہا اس سے] قَوْمُهٗ [اس کی قوم نے] لَا تَفْرَحْ [تو مت اترا] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] لَا يُحِبُّ [پسند نہیں کرتا] الْفَرِحِيْنَ [اترانے والوں کو]۔



ن و ء

(ن) نوءا مشقت و تکلیف سے اٹھنا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 76۔



نوٹ۔1: بائبل کی کتاب خروج (باب ۔6۔ آیت۔ 18۔21) میں جو نسب نامہ درج ہے اس کی رو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قارون کے والد باہم سگے بھائی تھے۔ بنی اسارئیل میں سے ہونے کے باوجود قارون ، فرعون کے ساتھ جا ملا تھا اور اس کا مقرب بن کر اس حد کو پہنچ گیا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے مقابلہ میں فرعون کے بعد مخالفت کے جو دو بڑے سرغنے تھے۔ ان میں سے ایک فرعون کا وزیر ہامان تھا اور دوسرا یہی قارون تھا۔ (تفہیم القرآن)

وَابْتَغِ فِيْمَآ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ   77؀
وَابْتَغِ [اور تو تلاش کر] فِيْمَآ [اس میں سے جو] اٰتٰىكَ [دیا تجھ کو] اللّٰهُ [اللہ نے] الدَّارَ الْاٰخِرَةَ [آخری گھر کو] وَلَا تَنْسَ [اور تو مت بھول] نَصِيْبَكَ [اپنا حصہ] مِنَ الدُّنْيَا [دنیا میں سے] وَاَحْسِنْ [اور تو بھلائی کر] كَمَآ [جیسے کہ] اَحْسَنَ [بھلائی کی] اللّٰهُ [اللہ نے] اِلَيْكَ [تیری طرف] وَلَا تَبْغِ [اور تو خواہش مت کر] الْفَسَادَ [نظم بگاڑنے کی] فِي الْاَرْضِ ۭ [زمین میں] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] لَا يُحِبُّ [پسند نہیں کرتا] الْمُفْسِدِيْنَ [نظم بگاڑنے والوں کو]۔



نوٹ۔2: آیت۔77۔ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مال و دولت تجھے عطا فرمایا ہے اس کے ذریعہ آخرت کا سامان فراہم کر اور دنیا میں جو تیرا حصہ ہے اس کو نہ بھول۔ دنیا کے حصے کے متعلق دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ مال و دولت سے آخرت کمانے کے ساتھ اپنی ضروریات زندگی پر بھی خرچ کر، اللہ کی نعمتوں سے مستفید ہوا اور اپنے نفس کا حق ادا کرنے میں بخل سے کام مت لے۔

 دوسری رائے کو سمجھنے کے لئے پہلے تاکید کرنے کا ایک اسلوب سمجھ لیں۔ کبھی ہم ایک بات کہتے ہیں پھر تاکید کے لئے اس پر ایک اور جملہ کا اضافہ کرتے ہیں۔ جیسے دفتر میں ہم کسی سے کہیں کہ گھر جاتے ہوئے یہ چیزیں ساتھ لیتے جانا۔ ان کو یہیں مت چھوڑ جانا۔ اس میں ’’ مت چھوڑ جانا‘‘۔ والا جملہ پہلے جملے کی تاکید کے لئے ہے۔ اسی طرح اس آیت میں اصل بات یہ ہے کہ مال و دولت سے آخرت کما۔ اس کی تاکید کے لئے فرمایا کہ دنیا میں سے اپنا حصہ لینا مت بھول۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کے پاس کم یا زیادہ جو کچھ بھی ہے وہ سارا کا سارا اس کا اپنا نہیں ہے۔ وہ اس سب کا امین تو ہے لیکن اس میں سے اس کا اپنا حصہ صرف وہ ہے جو اس کے ساتھ جائے گا اور آخرت میں اس کو ملے گا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس جو ہے وہ یا تو فانی ہے یا وارثوں کا حصہ ہے۔ جو اس نے کھا پی لیا۔ اوڑھ پہن لیا وہ ختم ہوگیا۔ وہ فانی تھا۔ جو اس نے جمع کیا وہ اس کے بعد ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ دو وارثوں کا حصہ ہے۔ اس کا اپنا حصہ صرف وہ ہے جو اس کے ساتھ جائے گا۔ رسول اللہ
نے اس سمندر کو کوزے میں بند کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ  ۭ اَوَلَمْ يَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّاَكْثَرُ جَمْعًا  ۭ وَلَا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ    78؀
قَالَ [(قارون نے) کہا] اِنَّمَآ [کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] اُوْتِيْتُهٗ [مجھ کو دیا گیا یہ (خزانہ)] عَلٰي عِلْمٍ [ایک ایسے علم کی بنا پر جو] عِنْدِيْ ۭ [میرے پاس ہے] اَوَلَمْ يَعْلَمْ [اور کیا اس نے جانا ہی نہیں] اَنَّ اللّٰهَ [کہ اللہ] قَدْ اَهْلَكَ [ہلاک کر چکا ہے] مِنْ قَبْلِهٖ [اس سے پہلے] مِنَ الْقُرُوْنِ [قوموں میں سے] مَنْ هُوَ [اسکو کہ وہ] اَشَدُّ [زیادہ شدید تھا] مِنْهُ [اس سے] قُوَّةً [بلحاظ قوت کے] وَّاَكْثَرُ [اور زیادہ کثرت والا تھا] جَمْعًا ۭ [بلحاظ جمع کرنے کے] وَلَا يُسْـَٔــلُ [اور پوچھا نہیں جاتا] عَنْ ذُنُوْبِهِمُ [ان کے گناہوں کے بارے میں] الْمُجْرِمُوْنَ [مجرموں سے]

فَخَـــرَجَ عَلٰي قَوْمِهٖ فِيْ زِيْنَتِهٖ  ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا يٰلَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ قَارُوْنُ ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ   79؀
فَخَـــرَجَ [تو وہ نکلا] عَلٰي قَوْمِهٖ [اپنی قوم پر] فِيْ زِيْنَتِهٖ ۭ [اپنی زینت میں] قَالَ الَّذِيْنَ [تو ان لوگوں نے کہا جو] يُرِيْدُوْنَ [خواہش رکھتے تھے] الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا [دنیوی زندگی کی] يٰلَيْتَ [اے کاش] لَنَا [ہمارے لئے ہوتا] مِثْلَ مَآ [اس کے جیسا جو] اُوْتِيَ [دیا گیا] قَارُوْنُ ۙ [قارون کو] اِنَّهٗ [بیشک وہ] لَذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ [یقینا بڑے نصیب والا ہے]۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَيْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ۚ وَلَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ    80؀
وَقَالَ الَّذِيْنَ [اور ان لوگوں نے کہا جن کو] اُوْتُوا [دیا گیا تھا] الْعِلْمَ [علم] وَيْلَكُمْ [تمہارا ستیاناس] ثَوَابُ اللّٰهِ [اللہ کا (دیا ہوا) ثواب] خَيْرٌ [بہتر ہے] لِّمَنْ [اس کے لئے جو] اٰمَنَ [ایمان لایا] وَعَمِلَ [اور جس نے عمل کیا] صَالِحًا ۚ [نیک] وَلَا يُلَقّٰىهَآ [اور نہیں دی جاتی یہ (توفیق)] اِلَّا [مگر] الصّٰبِرُوْنَ [ثابت قدم رہنے والوں کو]۔

فَخَسَفْنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الْاَرْضَ  ۣ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ يَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۤ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِيْنَ   81؀
فَخَسَفْنَا [تو دھنسا دیا ہم نے] بِهٖ [اس کو] وَبِدَارِهِ [اور اس کے گھر کو] الْاَرْضَ ۣ [زمین میں] فَمَا كَانَ لَهٗ [تو نہیں تھی اس کے لئے] مِنْ فِئَةٍ [کوئی بھی ایسی جماعت جو] يَّنْصُرُوْنَهٗ [مدد کرتی اس کی] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۤ [اللہ کے سوا] وَمَا كَانَ [اور وہ نہیں تھا] مِنَ الْمُنْتَصِرِيْنَ [بدلہ لینے والوں میں سے]۔



نوٹ۔1: قارون کی یہ حکایت محض ماضی کی ایک حکایت کی حیثیت سے نہیں بیان ہوئی ہے بلکہ اس کے پردے میں ابولہب اور اس کے ساتھیوں کا کردار اور انجام پیش کیا گیا ہے۔ جس قسم کا فتنہ رسول اللہ
کی قوم میں ابولہب تھا۔ متعدد پہلوؤں سے دونوں میں مماثلت تھی۔ جس طرح قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خاندان ، بنی لادی، کا سب سے بڑا دولت مند تھا اسی طرح ابولہب رسول اللہ کے خاندان ، بنی ہاشم میں سب سے بڑا دولت مند تھا۔ ابو لہب آپ کا چچا تھا اور قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سگا چچا زاد بھائی تھا۔ دونوں نہایت بخیل اور متکبر تھے۔ اپنے اپنے رسولوں کے ساتھ دونوں کے عناد کی نوعیت بھی یاک تھی۔ قارون یہ چاہتا تھا کہ خاندان کی پیشوائی اسے حاصل رہے تاکہ اس کی سرمایہ داری پر کوئی آنچ نہ آئے۔ ابو لہب بھی یہی چاہتا تھا کہ خانہ کعبہ کی کلید برداری اور افادہ کی دولت پر اس کا قبضہ رہے۔ انجام کے اوتبار سے بھی دونوں میں بڑی مماثلت ہے۔ دونوں خدا کے قہر و غضب کے ہدف ہوئے ۔ (تدبر قرآن )

وَاَصْبَحَ الَّذِيْنَ تَمَـــنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ يَقُوْلُوْنَ وَيْكَاَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ ۚ لَوْلَآ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا  ۭوَيْكَاَنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ    82؀ۧ
وَاَصْبَحَ [اور ہوگئے] الَّذِيْنَ [وہ لوگ جنہوں نے] تَمَـــنَّوْا [تمنا کی تھی] مَكَانَهٗ [اس کی جگہ کی] بِالْاَمْسِ [کل تک] يَقُوْلُوْنَ [(یہ) کہتے ہوئے] وَيْكَاَنَّ [ارے! گویا کہ] اللّٰهَ [اللہ ہی] يَبْسُطُ [کشادہ کرتا ہے] الرِّزْقَ [رزق کو] لِمَنْ [جس کے لئے] يَّشَاۗءُ [اور چاہتا ہے] مِنْ عِبَادِهٖ [اپنے بندوں میں سے] وَيَقْدِرُ ۚ [اور وہ اندازے سے دیتا ہے (جیسے چاہتا ہے)] لَوْلَآ اَنْ [اگر نہ ہوتا کہ] مَّنَّ [احسان کیا] اللّٰهُ [اللہ نے] عَلَيْنَا [ہم پر] لَخَسَفَ [تو وہ ضرور دھنسا دیتا] بِنَا ۭ[ہم کو (بھی)] وَيْكَاَنَّهٗ [ارے! حقیقت یہ ہے کہ] لَا يُفْلِحُ [فلاح نہیں پاتے] الْكٰفِرُوْنَ [ناشکری کرنے والے]۔

تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا  ۭ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ    83؀
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ [یہ آخری گھر!] نَجْعَلُهَا [ہم بناتے ہیں اس کو] لِلَّذِيْنَ [ان لوگوں کے لئے جو] لَا يُرِيْدُوْنَ [نہیں چاہتے] عُلُوًّا [برائی] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] وَلَا فَسَادًا ۭ [اور نہ نظم بگاڑنا] وَالْعَاقِبَةُ [اور (اچھا) انجام] لِلْمُتَّقِيْنَ [تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے ہے]۔

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَـسَـنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا  ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى الَّذِيْنَ عَمِلُوا السَّيِّاٰتِ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   84؀
مَنْ جَاۗءَ [جو آیا] بِالْحَـسَـنَةِ [نیکی کے ساتھ] فَلَهٗ [تو اس کے لئے] خَيْرٌ مِّنْهَا ۚ [اس سے زیادہ بھلائی ہے] وَمَنْ جَاۗءَ [اور جو آیا] بِالسَّيِّئَةِ [برائی کے ساتھ] فَلَا يُجْزَى [تو بدلہ نہیں دیا جاتا] الَّذِيْنَ [ان کے جنہوں نے] عَمِلُوا [عمل کئے] السَّيِّاٰتِ [برائیوں کے] اِلَّا مَا [سوائے اس کے جو] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [وہ لوگ عمل کیا کرتے تھے]۔

اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ  ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاۗءَ بِالْهُدٰى وَمَنْ هُوَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ    85؀
اِنَّ الَّذِيْ [بیشک وہ جس نے] فَرَضَ عَلَيْكَ [فرض کیا آپ
پر] الْقُرْاٰنَ [اس قرآن کو] لَرَاۗدُّكَ [ضرور لوٹانے والا ہے آپ کو] اِلٰى مَعَادٍ ۭ [واپس ہونے کی جگہ کی طرف] قُلْ [آپ کہیے] رَّبِّيْٓ [میرا رب] اَعْلَمُ [خوب جاننے والا ہے] مَنْ [اس کو جو] جَاۗءَ [آیا] بِالْهُدٰى [ہدایت کے ساتھ] وَمَنْ [اور اس کو جو] هُوَ [(کہ) وہی] فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ [کھلی گمراہی میں ہے]۔



نوٹ۔1: آیت۔85۔ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ
کو ایک معاد کی طرف پھیرنے والا ہے معاد کے لغوی معنی ہیں وہ مقام جس کی طرف آخر کار آدمی کو پلٹنا ہو۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد جنت لی ہے۔ لیکن اسے جنت کے ساتھ مخصوص کر دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ اسے ویسا ہی عام رکھا جائے جیسا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے، تاکہ یہ وعدہ دنیا اور آخرت دونوں سے متعلق ہو جائے۔ سیاق عبارت کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ اسے آخرت میں ہی نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی نبی کو آخرکار بڑی شان و عظمت عطا کرنے کا وعدہ سمجھا جائے۔ اور فی الواقع اللہ تعالیٰ نے چند ہی سال بعد حضور کو اس دنیا میں پورے ملک عرب میں ایسا مکمل اقتدار عطا کر کے دکھا دیا کہ آپ کی مزاحمت کرنے والی کوئی طاقت وہاں نہ ٹھہر سکی اور آپ کے دین کے سوا کسی دین کے لئے وہاں گنجائش نہ رہی۔ عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظیر اس کی موجود نہ تھی۔ بعض مفسرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے راستہ میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ آپ کو پھر مکہ واپس پہنچائے گا۔ (تفہیم القرآن)

وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ يُّلْقٰٓى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِيْرًا لِّـلْكٰفِرِيْنَ    86؀ۡ
وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا [اور آپ
امید نہیں کرتے تھے] اَنْ يُّلْقٰٓى [کہ ڈالی جائے گی] اِلَيْكَ [آپ کی طرف] الْكِتٰبُ [وہ کتاب] اِلَّا رَحْمَةً [مگر رحمت ہوتے ہوئے] مِّنْ رَّبِّكَ [آپ کے رب (کی طرف) سے] فَلَا تَكُوْنَنَّ [تو آپ ہرگز مت ہوں] ظَهِيْرًا [مدگار] لِّـلْكٰفِرِيْنَ [کفر کرنے والوں کے لئے] ۔

وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَيْكَ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ   87؀ۚ
وَلَا يَصُدُّنَّكَ [وہ لوگ ہرگز نہ روکیں آپ
کو] عَنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ [اللہ کی آیات سے] بَعْدَ اِذْ [اس کے بعد کہ جب] اُنْزِلَتْ [وہ اتاری گئیں] اِلَيْكَ [آپ کی طرف] وَادْعُ [اور آپ دعوت دیں] اِلٰى رَبِّكَ [اپنے رب کی طرف] وَلَا تَكُوْنَنَّ [اور آپ ہرگز مت ہوں] مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ [شرک کرنے والوں میں سے]۔

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ  ۘ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۣ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ  ۭ لَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ   88؀ۧ
وَلَا تَدْعُ [اور آپ
مت پکاریں] مَعَ اللّٰهِ [اللہ کے ساتھ] اِلٰــهًا اٰخَرَ ۘ [کسی دوسرے الہ کو] لَآ اِلٰهَ [کوئی الہ نہیں ہے] اِلَّا هُوَ ۣ [مگر وہ ہی] كُلُّ شَيْءٍ [ہر چیز] هَالِكٌ [ہلاک ہونے والی] اِلَّا وَجْهَهٗ ۭ [سوائے اس کے چہرے (یعنی ذات) کے] لَهُ [اس کے لئے ہی ہے] الْحُكْمُ [حکم دینا] وَاِلَيْهِ [اور اس کی طرف ہی] تُرْجَعُوْنَ [تم لوگ لوٹائے جاؤ گے]۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

الۗمّۗ   Ǻ۝ۚ
الۗمّۗ



نوٹ۔1: مکہ میں جو شخص بھی اسلام قبول کرتا تھا اس پر مظالم کا ایک طوفان ٹوٹ پڑتا تھا۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں خوئی تزلزل پیدا نہ کیا تھا۔ لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لئے ہیں کوئی شخص صرف زبانی دعوائے ایمان کرکے ان کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ بلکہ ہر مدعی کو لازما آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے دعوے کی صلاحیت کا ثبوت دے اور یہ بات کھل جائے (یعنی ریکارڈ پر آجائے۔ مرتب) کہ ایمان کا جو دعوی تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا۔ تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوا ہے۔ (تفہیم القرآن)

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ   Ą۝
اَحَسِبَ [کیا گمان کیا] النَّاسُ [لوگوں نے] اَنْ يُّتْرَكُوْٓا [کہ وہ چھوڑ دئیے جائیں گے] اَنْ [(اس لئے) کہ] يَّقُوْلُوْٓا [وہ کہتے ہیں] اٰمَنَّا [ہم ایمان لائے] وَهُمْ [اور وہ لوگ] لَا يُفْتَنُوْنَ [آزمائے نہ جائیں گے]۔

وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ   Ǽ۝
وَلَقَدْ فَتَنَّا [اور بیشک ہم آزما چکے ہیں] الَّذِيْنَ [ان کو جو] مِنْ قَبْلِهِمْ [ان سے پہلے تھے] فَلَيَعْلَمَنَّ [تو لازما جان لے گا] اللّٰهُ [اللہ] الَّذِيْنَ [ان کو جنہوں نے] صَدَقُوْا [سچ کہا] وَلَيَعْلَمَنَّ [اور وہ لازما جان لے گا] الْكٰذِبِيْنَ [جھوٹ کہنے والوں کو]۔



نوٹ۔2: آیت۔3۔ میں ہے کہ اللہ لازما جان لے گا۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کو تو سچے کی سچائی اور جھوٹے کا جھوٹ خود ہی معلوم ہے۔ آزمائش کرکے اسے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک شخص کے اندر کسی چیز کی صرف صلاحیت اور استعداد ہی ہوتی ہے۔ عملا اس کا ظہور نہیں ہوجاتا، اس وقت تک از روئے عدل و انصاف نہ تو وہ کسی جزاء کا مستحق ہوتا ہے نہ کسی سزا کا۔ اللہ کے ہاں انصاف اس علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا کہ فلاں شخص چوری کا رجحان رکھتا ہے اور چوری کرے گا یا کرنے والا ہے۔ بلکہ اس علم کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس کی بنیاد پر دئیے جاتے ہیں کہ اس نے عمل سے اللہ کی راہ میں جان لڑا کر دکھا دی۔ (تفہیم القرآن)

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ اَنْ يَّسْبِقُوْنَا  ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ   Ć۝
اَمْ حَسِبَ [یا گمان کیا] الَّذِيْنَ [ان لوگوں نے جو] يَعْمَلُوْنَ [عمل کرتے ہیں] السَّـيِّاٰتِ [برائیوں کے] اَنْ يَّسْبِقُوْنَا ۭ [کہ وہ بھاگ نکلیں گے ہم سے] سَاۗءَ [برا ہے] مَا [وہ جو] يَحْكُمُوْنَ [وہ لوگ فیصلہ کرتے ہیں]۔

مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍ  ۭ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ   Ĉ۝
مَنْ كَانَ [جو ہے (کہ)] يَرْجُوْا [امید رکھتا ہے] لِقَاۗءَ اللّٰهِ [اللہ سے ملاقات کی] فَاِنَّ [تو بیشک] اَجَلَ اللّٰهِ [اللہ کا (مقرر کردہ) خاتمے کا وقت] لَاٰتٍ ۭ [یقینا آنے والا ہے] وَهُوَ [اور وہ ہی] السَّمِيْعُ [سننے والا ہے] الْعَلِيْمُ [جاننے والا ہے]۔

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا  ۭ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا  ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ   Ď۝
وَوَصَّيْنَا [اور ہم نے تاکید کی] الْاِنْسَانَ [انسان کو] بِوَالِدَيْهِ [اس کے والدین کے بارے میں] حُسْـنًا ۭ [بھلائی کی] وَاِنْ [اور اگر] جَاهَدٰكَ [د دونوں کشمکش کریں تجھ سے] لِتُشْرِكَ [کہ تو شریک کرے] بِيْ [میرے ساتھ] مَا [اس کو] لَيْسَ [نہیں ہے] لَكَ [تیرے لئے] بِهٖ [جس کے بارے میں] عِلْمٌ [کوئی علم] فَلَا تُطِعْهُمَا ۭ [تو کہنا مت مان ان دونوں کا] اِلَيَّ [میری طرف ہی] مَرْجِعُكُمْ [تم لوگوں کو لوٹنا ہے] فَاُنَبِّئُكُمْ [پھر میں جتا دوں گا تم لوگوں کو] بِمَا [وہ جو] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [تم لوگ کیا کرتے تھے]۔



نوٹ۔1: ماں باپ کے حقوق چونکہ ہر دین میں مسلم عہے ہیں اس وجہ سے اس حق سے والدین نے بسا اوقات غلط فائدہ بھی اٹھایا ہے کہ اپنے حق کے نام پر انھوں نے اپنی اولاد کو خدا کے حقوق سے روکنے کی کوشش کی ہے۔ یہی صورتحال ان نوجوانوں کو بھی پیش آئی جو نبی
پر ایمان لائے اور اسلام لانے کے جرم میں وہ بھی اپنے والدین اور سرپرستوں کے ظلم و ستم کے ہدف بنے۔ اس صورتحال کا تقاضہ یہ ہوا کہ اس باب میں جونوانوں کو واضح ہدایت دے دی جائے کہ والدین اگر ان کے دین کے معاملہ میں مداخلت کریں تو ان کی اطاعت نہ کی جائے۔ جب والدین کو یہ حق حاصل نہیں تو پھر دوسروں کے لئے اس حق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ اسلام میں قانون ہے کہ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔ یعنی خالق کے حکم کے خلاف کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ (تدبر القرآن)

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَــنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصّٰلِحِيْنَ   ۝
وَالَّذِيْنَ [اور جو لوگ] اٰمَنُوْا [ایمان لائے] وَعَمِلُوا [اور انہوں نے عمل کئے] الصّٰلِحٰتِ [نیکیوں کے] لَــنُدْخِلَنَّهُمْ [تو ہم لازماداخل کریں گے ان کو] فِي الصّٰلِحِيْنَ [نیک لوگوں میں]۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَآ اُوْذِيَ فِي اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِ  ۭ وَلَىِٕنْ جَاۗءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ  ۭ اَوَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ   10۝
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ [اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو ] يَّقُوْلُ [کہتے ہیں] اٰمَنَّا [ہم ایمان لائے] بِاللّٰهِ [اللہ پر] فَاِذَآ [پھر جب] اُوْذِيَ [ان کو اذیت دی جاتی ہے] فِي اللّٰهِ [اللہ (کی راہ) میں] جَعَلَ [تو بناتے ہیں] فِتْنَةَ النَّاسِ [لوگوں کی آزمائش کو] كَعَذَابِ اللّٰهِ ۭ [اللہ کے عذاب کی مانند] وَلَىِٕنْ [اور بیشک اگر] جَاۗءَ [آئے گی] نَصْرٌ [کوئی نصرت] مِّنْ رَّبِّكَ [آپ
(کی طرف) سے] لَيَقُوْلُنَّ [تو یہ لوگ لازما کہیں گے] اِنَّا كُنَّا [بیشک ہم تھے] مَعَكُمْ ۭ [تمہارے ساتھ] اَوَلَيْسَ اللّٰهُ [اور کیا اللہ نہیں ہے] بِاَعْلَمَ [خوب جاننے والا] بِمَا [اس کو جو] فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ [تمام جہان والوں کے سینوں میں ہے]۔

وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ   11۝
وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ [اور اللہ لازما جان لے گا] الَّذِيْنَ [ان کو جو] اٰمَنُوْا [ایمان لائے] وَلَيَعْلَمَنَّ [اور وہ لازما جان لے گا] الْمُنٰفِقِيْنَ [منافقوں کو]۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِيْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰيٰكُمْ ۭ وَمَا هُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰهُمْ مِّنْ شَيْءٍ  ۭ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ   12؀
وَقَالَ الَّذِيْنَ [اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے] كَفَرُوْا [انکار کیا] لِلَّذِيْنَ [ان لوگوں سے جو] اٰمَنُوا [ایمان لائے] اتَّبِعُوْا [تم لوگ پیروی کرو] سَبِيْلَنَا [ہمارے راستے کی] وَلْنَحْمِلْ [اور ضروری ہوگا کہ ہم اٹھالیں] خَطٰيٰكُمْ ۭ [تمہاری غلطیوں کو] وَ [حالانکہ] مَا هُمْ [وہ نہیں ہیں] بِحٰمِلِيْنَ [اٹھانے والے] مِنْ خَطٰيٰهُمْ [ان کی غلطیوں میں سے] مِّنْ شَيْءٍ ۭ [کچھ بھی] اِنَّهُمْ [بیشک یہ لوگ] لَكٰذِبُوْنَ [یقینا جھوٹے ہیں]۔



نوٹ۔2: کفار مکہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم لوگ بلاوجہ عذاب آخرت کے خوف سے ہمارے طریقہ پر نہیں چلتے، لو ہم ذمہ داری لیتے ہیں۔ اگر تمہاری ہی بات سچی ہوئی تو تمہارے گناہوں کا بوجھ ہم اٹھالیں گے تم پر آنچ بھی نہ آئے گی۔ آیت۔12۔ 13۔ میں حق تعالیٰ نے اس کا حوالہ دے کر ایک تو یہ فرمایا کہ ایسا کہنے والے بالکل جھوٹے ہیں۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ ان لوگوں کا یہ کہنا تو جھوٹ ہے کہ وہ تمہارے گناہوں کا بوجھ اٹھا کر تمہیں سبکدوش کردیں گے۔ البتہ یہ ضرور ہوگا کہ تم کو بہکانا خود ایک بڑا گناہ ہے۔ اس لئے ان پر اپنے اعمال کا بھی وبال ہوگا اور جن کو بہکایا تھا ان کا بھی۔ رسول اللہ
نے فرمایا کہ جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو دعوت دے تو جتنے لوگ اس کی دعوت کی وجہ سے ہدایت پر عمل کریں گے ان سب کے عمل کا ثواب اس داعی کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جو شخص کسی گمراہی اور گناہ کی طرف راعی کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جو شخص کسی گمراہی اور گناہ کی طرف دعوت دے تو جتنے لوگ اس کے کہنے سے اس گمراہی میں مبتلا ہوں گے ان سب کا گناہ اس شخص پر بھی پڑے گا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے وبال عذاب میں کوئی کمی ہو۔ (معارف القرآن)

وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ   13۝ۧ
وَلَيَحْمِلُنَّ [اور یہ لوگ لازما اٹھائیں گے] اَثْــقَالَهُمْ [اپنے بوجھ] وَاَثْــقَالًا [اور کچھ (دوسرے) بوجھ] مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ [اپنے بوجھوں کے ساتھ] وَلَيُسْـَٔــلُنَّ [اور ان سے لازما پوچھا جائے گا] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ [قیامت کے دن] عَمَّا [اس کے بارے میں جو] كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ [یہ لوگ کھڑا کرتے تھے]

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا  ۭ فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ   14؀
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا [اور یقینا ہم بھیج چکے] نُوْحًا [نوح علیہ السلام کو] اِلٰى قَوْمِهٖ [ان کی قوم کی طرف] فَلَبِثَ [تو وہ رہے] فِيْهِمْ [ان میں] اَلْفَ سَنَةٍ [ایک ہزار سال] اِلَّا [سوائے] خَمْسِيْنَ عَامًا ۭ [پچاس سالوں کے] فَاَخَذَهُمُ [پھر پکڑا ان کو] الطُّوْفَانُ [طوفان نے] وَ [اس حال میں کہ] هُمْ [وہ لوگ] ظٰلِمُوْنَ [ظلم کرنے والے تھے]۔



نوٹ۔1: یہاں سے انبیاء اور ان کی قوموں کے قصے جس مناسبت سے بیان کئے جا رہے ہیں ان کو سمجھنے کے لئے سورہ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا چاہئے۔ وہاں ایک طرف اہل ایمان سے فرمایا کیا کہ ہم نے ان سب اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ دوسری طرف ظالم کافروں سے فرمایا کہ تم اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم ہم سے بازی لے جاؤ گے اور ہماری گرفت سے بچ نکلو گے۔ انہی دو باتوں کو ذہن نشین کرانے کے لئے یہ تاریخی واقعات بیان کئے جا رہے ہیں۔ (تفہیم القرآن)



نوٹ۔2: تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں عمروں کا اوسط آج کی نسبت بہت زیادہ تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے والد کی عمر۔ 773۔ برس کی ہوئی۔ ان کے دادا کی عمر ۔ 969 برس ، ان کے دوسرے اجداد میں سے کسی کی عمر۔ 962۔ برس اور کسی کی 895۔ برس مذکور ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر اس دور کی اوسط عمر کے بالکل مطابق ہے۔ (تدبر قرآن)

فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَةِ وَجَعَلْنٰهَآ اٰيَةً لِّــلْعٰلَمِيْنَ    15؀
فَاَنْجَيْنٰهُ [پھر ہم نے نجات دی ان علیہ السلام کو] وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَةِ [اور کشتی والوں کو] وَجَعَلْنٰهَآ [اور ہم نے بنایا اس (کشتی) کو] اٰيَةً [ایک نشانی] لِّــلْعٰلَمِيْنَ [تمام جہان والوں کے لئے]۔

وَاِبْرٰهِيْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّــقُوْهُ  ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ    16؀
وَاِبْرٰهِيْمَ [اور (یقینا ہم بھیج چکے) ابراہیم علیہ السلام کو] اِذْ قَالَ [جب انہوں نے کہا] لِقَوْمِهِ [اپنی قوم سے] اعْبُدُوا [تم لوگ بندگی کرو] اللّٰهَ [اللہ کی] وَاتَّــقُوْهُ ۭ [اور تقوی اختیار کرو اس کا] ذٰلِكُمْ خَيْرٌ [یہ بہتر ہے] لَّكُمْ [تمہارے لئے] اِنْ كُنْتُمْ [اگر تم لوگ] تَعْلَمُوْنَ [جانتے ہو]۔

اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًا  ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْهُ وَاشْكُرُوْا لَهٗ  ۭ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ   17؀
اِنَّمَا [کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] تَعْبُدُوْنَ [تم لوگ بندگی کرتے ہو] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [اللہ کے علاوہ] اَوْثَانًا [بتوں کی] وَّتَخْلُقُوْنَ [اور تم تخلیق کرتے ہو] اِفْكًا ۭ [جھوٹ کو] اِنَّ الَّذِيْنَ [بیشک وہ لوگ جن کی] تَعْبُدُوْنَ [تم لوگ بندگی کرتے ہو] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [اللہ کے علاوہ] لَا يَمْلِكُوْنَ [اختیار نہیں رکھتے] لَكُمْ [تمہارے لئے] رِزْقًا [کسی رزق کا] فَابْتَغُوْا [پس تم لوگ تلاش کرو] عِنْدَ اللّٰهِ [اللہ کے پاس] الرِّزْقَ [رزق کو] وَاعْبُدُوْهُ [اور بندگی کرو اس کی] وَاشْكُرُوْا لَهٗ ۭ [اور شکر ادا کرو اس کا] اِلَيْهِ [اس کی طرف ہی] تُرْجَعُوْنَ [تم لوگ لوٹائے جاؤ گے]۔

وَاِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ  ۭ وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰــغُ الْمُبِيْنُ   18؀
وَاِنْ تُكَذِّبُوْا [اور اگر تم لوگ جھٹلاتے ہو] فَقَدْ كَذَّبَ [تو جھٹلا چکی ہیں] اُمَمٌ [کچھ امتیں] مِّنْ قَبْلِكُمْ ۭ [تم لوگوں سے پہلے] وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ [اور نہیں ہے رسول پر] اِلَّا [مگر] الْبَلٰــغُ الْمُبِيْنُ [واضح طور پر پہنچا دینا]۔

اَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ     19؀
اَوَلَمْ يَرَوْا [اور کیا انھوں نے غور نہیں کیا] كَيْفَ يُبْدِئُ [کیسے ابتداء کرتا ہے] اللّٰهُ [اللہ] الْخَــلْقَ [تخلیق کی] ثُمَّ [پھر] يُعِيْدُهٗ ۭ [وہ دہرائے گا اس کو] اِنَّ ذٰلِكَ [بیشک یہ] عَلَي اللّٰهِ [اللہ پر] يَسِيْرٌ [آسان ہے]۔

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْاكَيْفَ بَدَاَ الْخَــلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ يُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ    20۝ۚ
قُلْ [آپ
کہیے] سِيْرُوْا [تم لوگ گھومو پھرو] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] فَانْظُرُوْا [تو دیکھو] كَيْفَ بَدَاَ [کیسے اس نے ابتداء کی] الْخَــلْقَ [تخلیق کی] ثُمَّ اللّٰهُ [پھر اللہ] يُنْشِئُ [اٹھائے گا] النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ ۭ [آخری اٹھان] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ہر چیز پر] قَدِيْرٌ [قادر ہے]۔

يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَرْحَمُ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۚ وَاِلَيْهِ تُقْلَبُوْنَ    21؀
يُعَذِّبُ [وہ عذاب دیتا ہے] مَنْ [اس کو جیسے] يَّشَاۗءُ [وہ چاہتا ہے] وَيَرْحَمُ [اور وہ رحم کرتا ہے] مَنْ [اس پر جس پر] يَّشَاۗءُ ۚ [وہ چاہتا ہے] وَاِلَيْهِ [اور اس کی طرف ہی] تُقْلَبُوْنَ: [تم لوگ پلٹائے جاؤ گے]

وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ  ۡ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ    22۝ۧ
وَمَآ اَنْتُمْ [اور تم لوگ نہیں ہو] بِمُعْجِزِيْنَ [عاجز کرنے والے] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] وَلَا فِي السَّمَاۗءِ ۡ [اور نہ ہی آسمان میں] وَمَا لَكُمْ [اور تمہارے لئے نہیں ہے] مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ [اللہ کے سوا] مِنْ وَّلِيٍّ [کوئی بھی کارساز] وَّلَا نَصِيْرٍ [اور نہ کوئی مددگار]۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَلِقَاۗىِٕهٖٓ اُولٰۗىِٕكَ يَىِٕسُوْا مِنْ رَّحْمَتِيْ وَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ    23؀
وَالَّذِيْنَ [اور جن لوگوں نے] كَفَرُوْا [انکار کیا] بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [اللہ کی آیات کا] وَلِقَاۗىِٕهٖٓ [اور اس کی ملاقات کا] اُولٰۗىِٕكَ [وہ لوگ ہیں] يَىِٕسُوْا [جو مایوس ہوئے] مِنْ رَّحْمَتِيْ [میری رحمت سے] وَاُولٰۗىِٕكَ [اور وہ لوگ ہیں] لَهُمْ [جن کے لئے] عَذَابٌ اَلِيْمٌ [ایک دردناک عذاب ہے۔



نوٹ۔1: زیرمطالعہ آیت۔19۔ سے آیت 23 تک ایک جملہ معتر ضہ ہے جو حضرت ابراہیم کے قصے کاسلسلہ منقطع کرکے اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو خطاب کرکے فرمایا ہے۔ (تفہیم القرآن)۔ اور اس دنیا کے مظاہر پر غور کرنے کی دعوت دی ہے کہ توحید ، قیامت اور جزاء و سزا کے لئے باہر سے دلیل ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس دنیا کے شب و روز کے مشاہدات میں ان میں سے ہر چیز کی شہادت موجود ہے۔ فرمایا کہ اس زمین میں چلو پھر و اور غور کی نگاہ سے دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح خلق کا آغاز فرماتا ہے اور پھر اس کو فنا کرکے اس کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرتا ہے۔ ایک قوم کو وجد بخشتا ہے اور پھر اس کو مٹا کر اس کی جگہ دوسری قوم کو لاتا ہے۔ رات کے بعد دن نمودار کرتا ہے۔ خزاں کے بعد بہار آتی ہے۔ یہ سارے مشاہدات وہ اسی لئے کرارہا ہے کہ انسان مرنے کے بعد کی زندگی کو بعید از امکان تصور نہ کرے۔ یہ باتیں غائب کے اسلوب میں بیان کرنے کے بعد آیت۔22۔ میں قریش کو خطاب کرکے فرمایا کہ جب وہ تم کو پکڑنا چاہئے گا تو تم اس کی پکڑ سے نہ زمین میں بچ سکو گے نہ آسمان میں۔ نہ یہاں تمہارا کوئی کار ساز ہوگا نہ آخرت میں کوئی حامی ہوگا۔ (تدبر قرآن)

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّا اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ    24؀
فَمَا كَانَ [تو نہیں تھا] جَوَابَ قَوْمِهٖٓ [ان علیہ السلام کی قوم کا جواب] اِلَّا اَنْ [سوائے اس کے کہ] قَالُوا [ان لوگوں نے کہا] اقْتُلُوْهُ [تم لوگ قتل کرو اس کو] اَوْ حَرِّقُوْهُ [یا جلا کر بھسم کردو اس کو] فَاَنْجٰىهُ [تو نجات دی ان علیہ السلام کو] اللّٰهُ [اللہ نے] مِنَ النَّارِ ۭ [آگ سے] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک اس میں] لَاٰيٰتٍ [یقینا نشانیاں ہیں] لِّقَوْمٍ [ایسی قوم کے لئے جو] يُّؤْمِنُوْنَ [ایمان لاتے ہیں]۔

وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا  ۙ مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا  ۚ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا  ۡ وَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ   25؀ڎ
وَقَالَ [اور (ابراہیم علیہ السلام نے) کہا] اِنَّمَا [کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] اتَّخَذْتُمْ [تم لوگوں نے بنائے] مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ [اللہ کے سوا] اَوْثَانًا ۙ [کچھ بت] مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ [تمہارے مابین کی دوستی (کا ذریعہ) ہوتے ہے] فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ [دنیوی زندگی میں] ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ [پھر قیامت کے دن] يَكْفُرُ [انکار کرے گا] بَعْضُكُمْ [تم میں کا کوئی] بِبَعْضٍ [کسی کا] وَّيَلْعَنُ [اور لعنت کرے گا] بَعْضُكُمْ [تم میں کا کوئی] بَعْضًا ۡ [کسی کو] وَّمَاْوٰىكُمُ [اور تم لوگوں کا ٹھکانہ] النَّارُ [آگ ہے] وَمَا لَكُمْ [اور تمہارے لئے نہیں ہے] مِّنْ نّٰصِرِيْنَ [کوئی بھی مددگار]۔

فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ  ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ  ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ    26؀
فَاٰمَنَ [تو بات مان لی] لَهٗ [ان علیہ السلام کی] لُوْطٌ ۘ [لوط علیہ السلام نے] وَقَالَ [اور (ابراہیم علیہ السلام نے) کہا] اِنِّىْ مُهَاجِرٌ [کہ میں ہجرت کرنے والا ہوں] اِلٰى رَبِّيْ ۭ [اپنے رب کی طرف] اِنَّهٗ [یقینا وہ] هُوَ الْعَزِيْزُ [ہی بالادست ہے] الْحَكِيْمُ [حکمت والا ہے]



نوٹ۔1: فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ۔ یہاں تصدیق و تائید کے مفہوم میں ہے۔ لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ وہ خود منصب رسالت پر فائز تھے اور اپنی قوم کی دعوت پر مامور تھے۔ یہاں ان کی تصدیق و تائید کا حوالہ اس لئے دیا ہے کہ یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی پر بھی ایک وقت ایسا گزرا ہے کہ ان کی دعوت میں ان کی ہمنوائی کرنے والا حضرت لوط کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تھا لیکن بالآخر وہ وقت بھی آیا کہ ان کی دعوت کی صدائے بازگشت دنیا کے کونے کونے سے اٹھی۔ (تدبر قرآن)

وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا  ۚ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ    27؀
وَوَهَبْنَا لَهٗٓ [اور ہم نے عطا کیا ان علیہ السلام کو] اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ [اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام] وَجَعَلْنَا [اور ہم نے بنائی (رکھ دی)] فِيْ ذُرِّيَّتِهِ [ان علیہ السلام کی اولاد میں] النُّبُوَّةَ [نبوت] وَالْكِتٰبَ [اور کتاب] وَاٰتَيْنٰهُ [اور ہم نے دیا ان علیہ السلام کو] اَجْرَهٗ [ان علیہ السلام کا اجر] فِي الدُّنْيَا ۚ [دنیا میں] وَاِنَّهٗ [اور بیشک وہ] فِي الْاٰخِرَةِ [آخرت میں] لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ [یقینا صالحین میں سے ہیں]۔



نوٹ۔2: حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے اور حضرت یعقوب علیہ السلام پوتے تھے۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹوں کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا کہ ان کی اولاد کی مدین والی شاخ میں صرف شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے اور اسمعیل علیہ السلام کی شاخ میں محمد
تک ڈھائی ہزار سال کی مدت میں کوئی نبی نہیں آیا۔ جبکہ نبوت اور کتاب کی نعمت حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک مسلسل اس شاخ کو عطا ہوتی رہی جو حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام سے چلی تھی۔ البتہ ان کا ذکر کرنے کے بعد جب یہ فرمایا کہ نبوت اور کتاب ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں رکھ دی تو اس میں وہ تمام انبیاء آگئے جو نسل ابراہیمی کی سب شاخوں میں مبعوث ہوئے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔3: آیت۔27۔ میں در پردہ نبی
اور مسلمانوں کے لئے بشارت ہے۔ یہ سورہ مکی زندگی کے اس دور میں نازل ہوئی ہے جب مسلمانوں پر کفار نے عرصئہ حیات بالکل تنگ کردیا تھا اور مسلمانوں کے لئے ہجرت کے سوا کوئی اور راہ باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ان حالات میں ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کو نمایاں کر کے ان کو تسلی تھی کہ اگر یہ مرحلہ پیش آتا ہے اور اپنے رب کی خاطر تم اپنی قوم کو چھوڑو گے تو اللہ تعالیٰ تمھارے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں اچھے ساتھی پیدا کرے گا۔ (تدبر قرآن)

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ  ۡ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ   28؀
وَلُوْطًا [اور (یقینا ہم بھیج چکے) لوط علیہ السلام کو] اِذْ قَالَ [جن انہوں نے کہا] لِقَوْمِهٖٓ [اپنی قوم سے] اِنَّكُمْ [بیشک تم لوگ] لَتَاْتُوْنَ [یقینا کرتے ہو] الْفَاحِشَةَ ۡ [وہ بےحیائی] مَا سَبَقَكُمْ [تم سے پہلے نہیں کیا] بِهَا [جس کو] مِنْ اَحَدٍ [کسی ایک نے بھی] مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ [تمام جہاں والوں میں سے]۔

اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ ڏوَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ  ۭ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ    29؀
اَىِٕنَّكُمْ [کیا بیشک تم لوگ] لَتَاْتُوْنَ [واقعی آتے ہو] الرِّجَالَ [مردوں کے پاس] وَتَقْطَعُوْنَ [اور کاٹتے ہو] السَّبِيْلَ ڏ[راستہ کو] وَتَاْتُوْنَ [اور تم لوگ کرتے ہو] فِيْ نَادِيْكُمُ [اپنی مجلس میں] الْمُنْكَرَ ۭ [برائی] فَمَا كَانَ [تو نہیں تھا] جَوَابَ قَوْمِهٖٓ [ان کی قوم کا جواب] اِلَّآ اَنْ [سوائے اس کے کہ] قَالُوا [انہوں نے کہا] ائْتِنَا [تو لے آ ہم پر] بِعَذَابِ اللّٰهِ [اللہ کے عذاب] اِنْ كُنْتَ [اگر تو ہے] مِنَ الصّٰدِقِيْنَ [سچ کہنے والوں میں سے]۔

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ عَلَي الْقَوْمِ الْمُفْسِدِيْنَ   30؀ۧ
قَالَ [(لوط علیہ السلام نے) کہا] رَبِّ [اے میرے رب] انْصُرْنِيْ [تو مدد کر میری] عَلَي الْقَوْمِ الْمُفْسِدِيْنَ [نظم بگاڑنے والی قوم کے خلاف]۔

وَلَمَّا جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰى ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مُهْلِكُوْٓا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ  ۚ اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ    31؀ښ
وَلَمَّا جَاۗءَتْ [اور جب آئے] رُسُلُنَآ [ہمارے رسول (فرشتے)] اِبْرٰهِيْمَ [ابراہیم علیہ السلام کے پاس] بِالْبُشْرٰى ۙ [خوشخبری کے ساتھ] قَالُوْٓا [تو انہوں نے کہا] اِنَّا [کہ ہم] مُهْلِكُوْٓا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ ۚ [اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں] اِنَّ اَهْلَهَا [بیشک اس کے لوگ] كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ [ظلم کرنے والے ہیں]۔



نوٹ۔1: بشری سے مراد وہ بشارت ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دی، جس کا ذکر آیت میں گزر چکا ہے۔ جو فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے لئے بیٹے اور پوتے کی بشارت لے کر آئے وہی فرشتے قوم لوط علیہ السلام کے لئے عذاب کا تازیانہ لے کر آئے۔ اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس رحمت و نقمت دونوں ہیں۔ جس طرح ایک ہی بارش کو وہ کسی کے لئے عذاب اور کسی کے لئے رحمت بنا دیتا ہے۔ اس سے مشرک قوموں کے اس اوہمہ کی تردید ہو رہی ہے جس میں وہ کائنات کے اندراضداد کے وجود کے سبب سے مبتلا ہوئیں اور انھوں نے خیر و شر کے الگ الگ دیوتا مان کر ان کی الگ الگ عبادت شروع کر دی۔ (تدبر قرآن)

 شاید ہلاکت کی خبر کے ساتھ بیٹے کی بشارت دینے کا مطلب یہ ہو کہ ایک قوم سے اگر خدا کی زمین خالی کی جانے والی ہے تو دوسری طرف حق تعالیٰ ایک عظیم الشان قوم ’’ بنی اسرائیل‘‘ کی بنیاد ڈالنے والا ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ)

قَالَ اِنَّ فِيْهَا لُوْطًا  ۭ قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِيْهَا  ۅلَنُنَجِّيَنَّهٗ وَاَهْلَهٗٓ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ڭ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ    32؀
قَالَ [(ابراہیم علیہ السلام نے) کہا] اِنَّ فِيْهَا [یقینا اس میں (تو)] لُوْطًا ۭ [لوط علیہ السلام ہیں] قَالُوْا [(فرشتوں نے) کہا] نَحْنُ اَعْلَمُ [ہم زیادہ جاننے والے ہیں] بِمَنْ [اس کو جو] فِيْهَا ۅ[اس میں ہے] لَنُنَجِّيَنَّهٗ [ہم لازما نجات دیں گے ان علیہ السلام کو] وَاَهْلَهٗٓ [اور ان علیہ السلام کے گھر والوں کو] اِلَّا امْرَاَتَهٗ ڭ [سوائے ان علیہ السلام کی عورت کے] كَانَتْ [وہ ہے] مِنَ الْغٰبِرِيْنَ [پیچھے رہ جانے والوں میں سے]۔

وَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْۗءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالُوْا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ  ۣاِنَّا مُنَجُّوْكَ وَاَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ   33؀
وَلَمَّآ اَنْ [اور جیسے ہی] جَاۗءَتْ [پہنچے] رُسُلُنَا [ہمارے رسول (فرشتے)] لُوْطًا [لوط علیہ السلام کے پاس] سِيْۗءَ [تو ان کو برا لگایا گیا] بِهِمْ [ان (کے آنے) سے] وَضَاقَ [اور وہ تنگ ہوئے] بِهِمْ [ان (کے آنے) سے] ذَرْعًا [بلحاظ کمزوری کے] وَّقَالُوْا [اور (فرشتوں نے) کہا] لَا تَخَفْ [آپ علیہ السلام مت ڈریں] وَلَا تَحْزَنْ ۣ[اور غمگین مت ہوں] اِنَّا [بیشک ہم] مُنَجُّوْكَ [نجات دینے والے ہیں آپ علیہ السلام کو] وَاَهْلَكَ [اور (نجات دیں گے) آپ علیہ السلام کے گھر والوں کو] اِلَّا امْرَاَتَكَ [ سوائے آپ علیہ السلام کی عورت کے] كَانَتْ [وہ ہے] مِنَ الْغٰبِرِيْنَ [پیچھے رہ جانے والوں میں سے]۔

اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰٓي اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ    34؀
اِنَّا [بیشک ہم] مُنْزِلُوْنَ [نازل کرنے والے ہیں] عَلٰٓي اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ [اس بستی کے لوگوں پر] رِجْزًا [ایک عذاب] مِّنَ السَّمَاۗءِ [آسمان سے] بِمَا [بسبب اس کے جو] كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ [یہ لوگ نافرمانی کرتے تھے]۔

وَلَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَآ اٰيَةًۢ بَيِّنَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ    35؀
وَلَقَدْ تَّرَكْنَا [اور بیشک ہم نے چھوڑا ہے] مِنْهَآ [اس (بستی) میں] اٰيَةًۢ بَيِّنَةً [ایک کھلی نشانی] لِّقَوْمٍ [ایسی قوم کے لئے جو] يَّعْقِلُوْنَ [عقل (استعمال) کرتی ہے]۔



نوٹ۔1: کھلی نشانی سے مراد بحیرۂ مردار ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اس قوم پر جو عذاب آیا تھا اس کی ایک نشانی آج بھی شاہراہ عام پر موجود ہے جسے تم شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں میں جاتے ہوئے شب و روز دیکھتے ہو ۔ موجودہ زمانے میں یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ بحیرۂ مردار کا جنوبی حصہ ایک ہولناک زلزلہ کی وجہ سے زمین میں دھنس جانے کی وجہ سے وجود میں آیا ہے اور اسی دھنسے ہوئے حصے میں قوم لوط کا مرکزی شہر سدوم واقع تھا۔ اس حصے میں پانی کے نیچے کچھ ڈوبی ہوئی بستیوں کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ (تفہیم القرآن)

وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا  ۙ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ    36؀
وَاِلٰى مَدْيَنَ [اور مدین کی طرف] اَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۙ [(ہم بھیج چکے) ان کے بھائی شعیب علیہ السلام کو] فَقَالَ [تو انہوں علیہ السلام نے کہا] يٰقَوْمِ [اے میری قوم] اعْبُدُوا [تم لوگ بندگی کرو] اللّٰهَ [اللہ کی] وَارْجُوا [اور تم لوگ امید رکھو] الْيَوْمَ الْاٰخِرَ [آخری دن (قیامت) کی] وَلَا تَعْثَوْا [اور تم لوگ انتشار مت پھیلاؤ] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] مُفْسِدِيْنَ [نظم بگاڑنے والے ہوتے ہوئے]۔



نوٹ۔1: ان کے مکانوں سے تمھارے لئے واضح ہو چکا ہے۔ یہ قریش کو توجہ دلائی گئی ہے کہ قوم لوط کی طرح ان بستیوں کے آثار بھی تم سے مخفی نہیں ہیں۔ تم اپنے تجارتی سفروں میں ان کے کھنڈروں پر سے گزرتے ہو اور اندازہ کرسکتے ہو کہ ماضی میں وہ کس شان و شوکت کے مالک تھے، لیکن اب ان کے کھنڈروں کے سوا ان کی کہانی سنانے والا کوئی نہیں ہے۔ (تدبر قرآن)۔ عرب کے جن علاقوں میں عاد و ثمود آباد تھے ان سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا۔ جنوبی عرب کا علاقہ جو اب احقاف، یمن اور حضر موت کے نام سے معروف ہے یہ عاد کا مسکن تھا۔ حجاز کے شمالی حصہ میں رابع سے عقبہ تک اور مدینہ ہ خیبر سے تیما اور تبوک تک کا سارا علاقہ آج بھی ثمود کے آثار سے بھرا ہوا ہے۔ (تفہیم القرآن)

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ    37؀
فَكَذَّبُوْهُ [پھر ان لوگوں نے جھٹلایا ان علیہ السلام کو] فَاَخَذَتْهُمُ [تو پکڑا ان لوگوں کو] الرَّجْفَةُ [زلزلے نے] فَاَصْبَحُوْا [نتیجتاً وہ ہوگئے] فِيْ دَارِهِمْ [اپنے (اپنے) گھر میں] جٰثِمِيْنَ [اوندھے منہ گرے ہوئے]۔

وَعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَقَدْ تَّبَيَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ ۣ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ    38؀ۙ
وَعَادًا [اور (ہم نے ہلاک کیا) عاد کو] وَّثَمُــوْدَا۟ [اور ثمود کو] وَقَدْ تَّبَيَّنَ [اور واضح ہو چکا] لَكُمْ [تمہارے لئے] مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ ۣ [ان کے مکانوں سے] وَزَيَّنَ [اور سجایا] لَهُمُ [ان کے لئے] الشَّيْطٰنُ [شیطان نے] اَعْمَالَهُمْ [ان کے اعمال کو] فَصَدَّهُمْ [پھر اس نے روک دیا ان کو] عَنِ السَّبِيْلِ [اس (صحیح) راستہ سے] وَكَانُوْا [حالانکہ وہ لوگ تھے] مُسْتَبْصِرِيْنَ [غور و فکر کرنے والے]۔



نوٹ۔2: وکانوا مستبصرین کا مطلب یہ ہے کہ یوں تو وہ بڑے زیرک و ہوشیار ، تعمیرہ تمدن اور حکومت و سیاست میں بڑے ماہر تھے، لیکن ان کی یہ ہوشیاری ان کو شیطان کے پھندوں سے نہ بچا سکی۔ اس نے ان کے دنیوی انہماک کو اس طرح ان کی نگاہوں میں کھبا دیا کہ ان کی آنکھیں خدا اور آخرت کی طرف سے بند ہو گئیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اصل شاہراہ سے منحرف ہو گئے اور ہلاکت کے کھڈ میں جا گرے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مجرد سائنس اور تمدن میں کسی قوم کا عروج اس بات کی شہادت نہیں ہے کہ وہ زندگی کی صحیح شاہراہ پر گامزن ہے، جیسا کہ عام طور پر بےبصیرت لوگ سمجھتے ہیں بلکہ یہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی ایک آنکھ کھلی ہوئی ہے جو اس دنیا کو دیکھتی ہے۔ لیکن دوسری آنکھ جو اس دنیا کی پس پردہ حقیقتوں کو دیکھتی ہے اگر ہو کھلی ہوئی نہ ہو تو تمام علم و سائنس کے باوجود شیطان اس کو ہلاکت کے ایسے کھڈ میں گراتا ہے جس سے اس کو نکلنا نصیب نہیں ہوتا۔ (تدبر قرآن)

وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ  ۣ وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ مُّوْسٰي بِالْبَيِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ وَمَا كَانُوْا سٰبِقِيْنَ    39؀ښ
وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ ۣ [اور (ہم نے ہلاک کیا) قارون کو اور فرعون اور ہامان کو] وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ [اور بیشک آچکے تھے ان کے پاس] مُّوْسٰي [موسیٰ علیہ السلام] بِالْبَيِّنٰتِ [واضح (نشانیوں) کے ساتھ] فَاسْتَكْبَرُوْا [پھر وہ بڑے بنے] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] وَمَا كَانُوْا [اور وہ نہیں تھے] سٰبِقِيْنَ [ بھاگ نکلنے والے]۔

فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا ۚوَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ    40؀
فَكُلًّا [پھر سب کو] اَخَذْنَا [ہم نے پکڑا] بِذَنْۢبِهٖ ۚ [اس کے گناہ کے سبب سے] فَمِنْهُمْ مَّنْ [تو ان میں وہ بھی ہے] اَرْسَلْنَا [ہم نے بھیجا] عَلَيْهِ [جس پر] حَاصِبًا ۚ[کنکریاں مارنے والی تند ہوا کو] وَمِنْهُمْ مَّنْ [اور ان میں وہ بھی ہے] اَخَذَتْهُ [جس کو پکڑا] الصَّيْحَةُ ۚ [چنگھاڑنے] وَمِنْهُمْ مَّنْ [اور ان میں وہ بھی ہے] خَسَفْنَا [ہم نے دھنسا دیا] بِهِ [جس کے ساتھ] الْاَرْضَ ۚ [زمین کو] وَمِنْهُمْ مَّنْ [اور ان میں وہ بھی ہے جس کو] اَغْرَقْنَا ۚ [ہم نے غرق کیا] وَمَا كَانَ اللّٰهُ [اور اللہ نہیں ہے] لِيَظْلِمَهُمْ [کہ وہ ظلم کرے ان پر] وَلٰكِنْ [اور لیکن] كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ [وہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کیا کرتے تھے]۔



نوٹ۔1: اوپر بیان کردہ تاریخی حقائق سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ مشرکین نے خدا کے سوا جو سہارے ڈھونڈے تھے وہ سب جھوٹے ثابت ہوئے۔ اور جس طرح یہ اس دنیا میں جھوٹے ثابت ہوئے اسی طرح آخرت میں بھی جھوٹے ثابت ہوں گے۔ اور جو لوگ اپنے فرضی دیوتاؤں کی سفارش پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں ان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ جس سہارے کو انھوں نے قلعہ کی دیوار سمجھا اس کی حقیقت مکڑی کے جالے سے زیادہ نہیں تھی۔ (تدبر قرآن)

مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ ښ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا  ۭ وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ  ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ    41؀
مَثَلُ الَّذِيْنَ [ان لوگوں کی مثال جنہوں نے] اتَّخَذُوْا [بنائے] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [اللہ کے علاوہ] اَوْلِيَاۗءَ [کچھ کار ساز] كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ ښ [مکڑی کی مثال کی مانند ہے] اِتَّخَذَتْ [اس (مکڑی) نے بتایا] بَيْتًا ۭ [ایک گھر] وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ [اور بیشک گھروں کا سب سے کمزور] لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ ۘ [یقینا مکڑی کا گھر ہے] لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ [کاش وہ لوگ جانتے ہوتے]

اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ   42؀
اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] يَعْلَمُ [جانتا ہے] مَا [اس کو جس کو] يَدْعُوْنَ [یہ لوگ پکارتے ہیں] مِنْ دُوْنِهٖ [اس کے علاوہ] مِنْ شَيْءٍ ۭ [کسی چیز میں سے] وَهُوَ الْعَزِيْزُ [اور وہ ہی بالادست ہے] الْحَكِيْمُ [حکمت والا ہے]۔

وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ  ۚ وَمَا يَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ  43؀
وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ [اور یہ مثالیں] نَضْرِبُهَا [ہم بیان کرتے ہیں ان کو] لِلنَّاسِ ۚ [لوگوں کے لئے] وَمَا يَعْقِلُهَآ [اور نہیں سمجھتے ان کو] اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ [مگر علم والے لوگ]۔

خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَـقِّ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّــلْمُؤْمِنِيْنَ   44؀ۧ
خَلَقَ اللّٰهُ [پیدا کیا اللہ نے] السَّمٰوٰتِ [آسمانوں کو] وَالْاَرْضَ [اور زمین کو] بِالْحَـقِّ ۭ [حق کے ساتھ] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک اس میں] لَاٰيَةً [یقینا ایک نشانی ہے] لِّــلْمُؤْمِنِيْنَ [ایمان لانے والوں کے لئے]۔