قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
اکیسواں پارہ 

اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۭ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ  45؀
اُتْلُ [آپ علیہ السلام پڑھیے] مَآ [اس کو جو]اُوْحِيَ [وحی کیا گیا]اِلَيْكَ [آپ
کی طرف]مِنَ الْكِتٰبِ [کتاب میں سے]وَاَقِـمِ [اور آپ قائم رکھیے] الصَّلٰوةَ ۭ: نماز کو]اِنَّ الصَّلٰوةَ [یقینا نماز]تَنْهٰى [روکتی ہے]عَنِ الْفَحْشَاۗءِ [بے حیائی سے]وَالْمُنْكَرِ ۭ [اور برائی سے]وَلَذِكْرُ اللّٰهِ [اور یقینا اللہ کی یاد]اَكْبَرُ ۭ [سب سے بڑی (چیز) ہے] وَاللّٰهُ يَعْلَمُ [اور اللہ جانتا ہے] مَا [اس کو جو] تَصْنَعُوْنَ: تم کرتے ہو]



خ ط ط

(ن) خطا لکیر کھینچنا۔ کوئی عبارت لکھنا ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 48۔



نوٹ۔1: آیت۔45۔ میں ہے کہ نماز برائی سے روکتی ہے۔ آج کل مشاہدہ یہ ہے کہ ہم پانچ وقت کی نماز بھی پڑتے ہیں اور مختلف نوعیت کی برائیوں میں بھی ملوث ہیں، الا ما شاء اللہ ۔ سوال یہ ہے کہ ہم لوگوں کو نماز برائی سے کیوں نہیں روک رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں ہماری حیات اور ہماری کارکردگی کے لئے مختلف نظام ودیعت کئے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک نظام کا تعلق ہماری ذہنی ساخت اور اس کی کارکردگی کے ایک
Process سے ہے جس کو آج کی اصطلاح میں عمل خود تجویزی (Self suggestion) کہتے ہیں اور نماز ہمارے عمل پر اسی عمل کے ذریعہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ جو شخص عملِ خودتجویزی کے Process کو On کر کے نماز پڑھے گا اسے وہ برائی سے روکے گی اور جو اسے Off کر کے نماز پڑھے گا اسے نہیں روکے گی۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات نوٹ کرلیں یہ میں کوئی دور کی کوڑی نہیں لایا ہوں۔ بلکہ نماز کے برائی سے نہ روکنے کی وجہ خود اللہ تعالیٰ نے سورۂ مریم میں بیان کی ہے۔ میں نے اس آیت کی ایک عام فہم تشریح آپ کے سامنے رکھی ہے سورۂ مریم میں اللہ تعالیٰ انبیاء کرام اور اپنے پسندیدہ بندوں کا ذکر کرنے کے بعد آیت۔59۔ میں فرماتا ہے ’’ پھر جانشین ہوئے ان کے بعد کچھ ایسے جانشین جنھوں نے ضائع کیا نماز کو اور انھوں نے پیروی کی خواہشات کی تو عنقریب وہ لوگ ملیں گے گمراہی سے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ انھوں نے نماز ترک کر دی، بلکہ فرمایا کہ انھوں نے نماز ضائع کر دی۔ اب نماز ضائع کرنے کی جو عملی شکل ہماری سمجھ میں آتی ہے اس کا ایک پہلو ہم نے واضح کیا ہے۔

 عمل خود تجویزی کیا ہے؟ اس کی وضاحت جینے کا سلیقہ کورس میں کی گئی ہے۔ یہاں اس کا خلاصہ دینا بھی طوالت کا باعث ہو گا۔ فی الحال یہ سمجھ لیں کہ انسان کی خودتجویزی کی صلاحیت کا مؤثر ہونا سائنسی تحقیقات اور تجربات سے ثابت ہو چکا ہے۔ چنانچہ اس کے ذریعہ سے آج نہ صرف نفسیاتی بیماریوں کا بلکہ متعدد جسمانی بیماریوں کا کامیابی سے علاج ہو رہا ہے۔ مثلاً کسی شخص کو اگر بھوک نہ لگنے کی شکایت ہے اور وہ ماہرین کی ہدایت کے مطابق اپنے آپ سے کہتا ہے کہ ’’ مجھے بھوک لگی ہے، مجھے بھوک لگی ہے‘‘ تو اسے واقعی بھوک لگ جاتی ہے۔ اس قسم کے کامیاب نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ خودتجویزی کا عمل ایک مؤثر طاقت ہے۔ اور نفسیاتی بیماریوں میں کامیاب نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ خودتجویزی کے ذریعہ ہم اپنی سوچ کو، عادتوں کو اور عمل کو نہ صرف کنٹرول کرسکتے ہیں بلکہ تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔

 دوسری بات یہ سمجھ لیں کہ خودتجویزی کا مؤثر ہونا مشروط ہے۔ یعنی یہ عمل اگر ماہرین کی ہدایت کے مطابق کیا جائے گا تو مؤثر ہو گا ورنہ نہیں ہو گا۔ اس ضمن میں آج کے ماہرین جو ہدایات دیتے ہیں ان میں سے اکثر ہدایات نماز کے ضمن میں ہم کو چودہ سو سال پہلے دی جا چکی ہیں۔ مثلاً ماہرین کی پہلی ہدایت یہ ہے کہ تجویز کے الفاظ بلند آواز سے دہرائے جائیں اور خاموشی سے دہرانے کی صورت میں شرط یہ ہے کہ متعلقہ اعصاب لازماً حرکت میں ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ سِری رکعت میں بھی نماز پڑھتے ہوئے زبان کا متحرک ہونا ضروری ہے۔ نماز کے الفاظ اگر صرف ذہن میں دہرائے جائیں تو نماز نہیں ہوتی۔ دوسری ہدایت یہ ہے کہ یہ عمل ایسی جگہ کیا جائے جہاں خارجی اثرات کی مداخلت کم سے کم ہو۔ اب نماز کے لئے ہدایت یہ ہے کہ اولاً اسے مسجد میں ادا کرے ورنہ گھر میں گوشئہ تنہائی تلاش کیا جائے۔ تیسری ہدایت یہ ہے کہ عمل بالکل خالی الذہن ہو کر کیا جائے۔ نماز کے لئے رسول اللہ
نے بتایا ہے کہ احسن نماز یہ ہے کہ نمازی اس طرح نماز پڑھے جیسے وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو کم از کم یہ خیال رکھے کہ اللہ تو اسے دیکھ ہی رہا ہے۔ اب جو نمازی اس طرح نماز پڑھے گا اس کی توجہ اپنے جسم، اپنے خیالات اور اپنے ماحول سے ہٹ جائے گی اور وہ یکسوئی سے نماز پڑھے گا۔ چوتھی ہدایت یہ ہے کہ یہ عمل سونے سے قبل اور سو کر اٹھنے کے فوراً بعد کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت خالی الذہن ہونا نبستاً آسان ہوتا ہے۔ اور اگر ضرورت ہو تو دن کے اوقات میں بھی یہ عمل کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالہ سے پانچ وقت کی نماز کے اوقات کے تعین کا جائزہ لیتے اور غور کرتے ہیں کہ سورج کی شعاعوں کی موجودگی میں ظہر اور عصر کی نمازیں سری ہیں جب کہ ان کی عدم موجودگی میں مغرب، عشاء اور فجر کی نمازین جہری ہیں اور ان میں بھی فجر میں طویل تلاوت کی ہدایت ہے، تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ پر حکمت نظام وضع کرنا کسی انسان کے لئے تو ممکن نہیں ہے۔ پانچویں ہدایت یہ ہے کہ صرف الفاظ دہرانے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ الفاظ سے متعلق کیفیات کو بھی اپنے اوپرطاری کیا جائے۔ مثلاً جس شخص کو بھوک نہ لگنے کی شکایت ہے اور وہ ’’ مجھے بھوک لگی ہے‘‘ کہہ رہا ہے تو ساتھ ہی وہ اپنے پسندیدہ کھانوں کو یاد کر کے ان کی خوشبو اور ذائقہ کو ذہن میں تازہ کے یہاں تک کہ منہ میں پانی بھر آئے۔ یہ ناممکن نہیں بلکہ عین ممکن ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ناول یا افسانہ پڑھتے وقت ہم ہنسنے لگتے ہیں یا ہماری آنکھ سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ ہمیں ہدایت یہ ہے کہ جب نماز کے لئے بندہ کھڑا ہو تو شکر اور محبت کے جذبے کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو۔ عذاب کی آیات پڑھے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہونے چاہئیں۔ جنت کی نعمتوں کا ذکر آئے تو ان کو حاصل کرنے کے لئے دل میں ہوک اٹھنی چاہیے۔ اس کے لئے خشوع و خصوع کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

 مذکورہ بالا جائزے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نماز کے بےشمار فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ برائی سے روکتی ہے۔ اس مخصوص فائدے کا انحصار اس بات پر ہے کہ خوتجویزی کے عمل کو
On کر کے نماز پڑھی جائے۔ اس کے لئے عربی جاننا یقینا بہت مفید ہے لیکن لازمی نہیں ہے۔ عربی نہ جاننے والا بھی ہر پڑھا لکھا انسان اتنا تو یقیناکر سکتا ہے کہ وہ نماز کا اور نماز میں زیادہ پڑھی جانے والی سورتوں کا ترجمہ ذہن نشین کرلے اور نماز پڑھتے وقت مذکورہ عمل کو On رکھنے کی کوشش کرے۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ جن آیات کے معنی ہم کو معلوم ہیں ان کے الفاظ بھی ہم تیزی سے دہرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ کہیں گاڑی نہ چھوٹ جائے، اور ان الفاظ سے متعلق کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مثلاً اھدنا الصراط المستقیمکے معنی کس نمازی کو نہیں معلوم اور کتنے نمازی ہیں جو ان الفاظ کو دہراتے وقت اپنے اندر بھیک مانگنے کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اصل وجہ ہے کہ ہماری نمازیں ہمارے عمل کو پوری طرح متاثر نہیں کر پاتیں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ہم عربی نہ جاننے کے عذر لنگ کو چھوڑ کر خود تجویزی کے عمل کو On کر کے نماز پڑھنے کی کوشش کریں اور زیادہ سے زیادہ خشوع و خضوع پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ نیک نیتی کے ساتھ کوشش شروع کر دیں پھر صبرو استقامت کے ساتھ کوشش کرتے رہیں تو ان شاء اللہ ، اللہ تعالیٰ مدد کرے گا۔ اگر میری بات کا یقین نہیں ہے تو اسی سورۃ العنکبوت کی آخری آیت کو دیکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ اور جن لوگوں نے جدوجہد کی ہم میں (یعنی ہماری راہ میں) ان کی ہم لازماً راہنمائی کریں گے اپنی راہوں کی۔‘‘

نوٹ۔2: آیت۔ 45۔ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ذکر اللہ (ا اللہ کی یاد) سب سے بڑی چیز ہے۔ ذکر اللہ کا مفہوم آیت نمبر ۔2/152 کے نوٹ۔1۔ میں واضح کیا جا چکا ہے۔ اسے دوبارہ دیکھ لیں۔ وہی مفہوم سمجھانے کے لئے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے ایک مثال دی ہے۔ فرماتے ہیں کہ جب عورتیں پنگھٹ پر پانی بھرنے جاتی ہیں تو وہ پانی سے بھرا ہوا گھڑا سر پر رکھ کر میلوں سفر کرتی ہوئی واپس آتی ہیں۔ سر پر پانی کا بھرا ہوا گھڑا ہوتا ہے جسے وہ پکڑ کر نہیں بلکہ ہاتھ چھوڑ کر چلتی ہیں۔ اس دوران وہ چڑھائی چڑھتی اور اترائی اترتی ہیں۔ اس چڑھائی اور اترائی میں ان کے جسم اور گردن کا زاویہ ایسا بن جاتا ہے کہ گھڑا سر سے نیچے نہیں گرتا۔ وہ راستے میں لطیفے سناتی اور قہقہے لگاتی ہوئی آتی ہیں۔ راستے میں وہ ایک دوسرے سے اپنے خاوند کا رونا بھی روتی ہیں۔ سسکیاں بھی لیتی ہیں۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے ان کے دل میں یہ دھیان رہتا ہے کہ میرے سر پر ایک گھڑا ہے کہیں گر نہ جائے۔ اس طرح زندگی گزارتے ہوئے (دوکان پر، دفتر میں، گھر میں) دل میں یہ دھیان رہے کہ میرا کوئی مالک، کوئی پالنہار ہے، کہیں مجھ سے کوئی ایسی حرکت نہ ہو جائے جس سے اس کی نظر کرم میں فرق آجائے اور میں اس کی نظر سے گر جاؤں۔ یہی یاد ہے، یہی ذکر ہے۔ (منقول ازماہنامہ سوچنے کی باتیں۔ نومبر 2007 ء)



نوٹ۔3: یہ سورۂ مکی زندگی کے اس دور کی ہے جب کفار نے مسلمانوں پر عرصئہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ ان حالات میں اسی سورۂ میں آگے چل کر ہجرت کی تلقین آئی ہے۔ اس وقت حبشہ ہی ایک ایسی امن والی جگہ تھی۔ جہاں مسلمان ہجرت کر کے جا سکتے تھے اور وہاں پر اس زمانے میں عیسائیوں کا غلبہ تھا۔ اس لئے آیت۔ 46۔ میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی کہ اہل کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو ان سے دین کے معاملہ میں بحث و کلام کا کیا انداز اختیار کیا جائے۔ (تفہیم القرآن)۔ جبکہ آیت۔ 47۔ قرآن کی پیشنگوئیوں میں سے ایک پیشنگوئی ہے۔ کیونکہ عبدا اللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی مدینہ میں ایمان لائے اور اہل مکہ کی اکثریت فتح مکہ کے بعد ایمان لائی۔ (تفسیر نعیمی سے ماخوذ)

وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ ڰ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَاِلٰـهُنَا وَاِلٰــهُكُمْ وَاحِدٌ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ  46؀
وَلَا تُجَادِلُوْٓا [اور تم لوگ مناظرہ مت کرو]اَهْلَ الْكِتٰبِ [اہل کتاب سے]اِلَّا [مگر]بِالَّتِيْ [اس (طریقہ) سے جو کہ]ھِىَ [وہی]اَحْسَنُ ڰ [سب سے خوبصورت ہو]اِلَّا الَّذِيْنَ [سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے]ظَلَمُوْا [ظلم کیا]مِنْهُمْ [ان میں سے]وَقُوْلُوْٓا [اور تم لوگ (یوں) کہو]اٰمَنَّا [ہم ایمان لائے]بِالَّذِيْٓ [اس پر جو]اُنْزِلَ [اتارا گیا]اِلَيْنَا [ہماری طرف]وَاُنْزِلَ [اور نازل کیا گیا]اِلَيْكُمْ [تم لوگوں کی طرف]وَاِلٰـهُنَا [اور ہمارا الٰہ]وَاِلٰــهُكُمْ [اور تم لوگوں کا الٰہ]وَاحِدٌ [ایک (ہی) ہے]وَّنَحْنُ [اور ہم لوگ]لَهٗ [اس کی ہی]مُسْلِمُوْنَ [فرمانبرداری کرنے والے ہیں]۔

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ ۭ فَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۚ وَمِنْ هٰٓؤُلَاۗءِ مَنْ يُّؤْمِنُ بِهٖ ۭ وَمَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ  47؀
وَكَذٰلِكَ [اور اسی طرح]اَنْزَلْنَآ [ہم نے اتارا]اِلَيْكَ [آپ
کی طرف] الْكِتٰبَ ۭ [اس کتاب کو]فَالَّذِيْنَ [تو وہ لوگ]اٰتَيْنٰهُمُ [ہم نے دی جن کو] الْكِتٰبَ [کتاب ]يُؤْمِنُوْنَ [وہ لوگ ایمان لائیں گے]بِهٖ ۚ [اس (کتاب) پر]وَمِنْ هٰٓؤُلَاۗءِ مَنْ [اور ان (مکہ والوں) میں وہ بھی ہیں جو]يُّؤْمِنُ [ایمان لائیں گے] بِهٖ ۭ [اس پر] وَمَا يَجْحَدُ [اور انکار نہیں کرتے] بِاٰيٰتِنَآ [ہماری آیتوں کا] اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ [مگر کافر لوگ]۔

وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ  48؀
وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا [اور آپ
نہیں پڑھا کرتے تھے] مِنْ قَبْلِهٖ [اس سے پہلے]مِنْ كِتٰبٍ [کوئی سی بھی کتاب] وَّلَا تَخُــطُّهٗ [اور نہ ہی آپ لکھتے تھے اس کو] بِيَمِيْنِكَ [اپنے داہنے ہاتھ سے] اِذًا [تب تو]لَّارْتَابَ [ضرور شبہ میں پڑتے] الْمُبْطِلُوْنَ [ناحق کرنے والے]۔

بَلْ هُوَ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ۭ وَمَا يَجْـحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ  49؀
بَلْ هُوَ [بلکہ یہ]اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ [ایسی واضح آیات ہیں جو ]فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ [ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جن کو] اُوْتُوا [دیا گیا] الْعِلْمَ ۭ [علم ] وَمَا يَجْـحَدُ [اور انکار نہیں کرتے] بِاٰيٰتِنَآ [ہماری آیات کا] اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ [مگر ظلم کرنے والے لوگ]۔

وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ ۭ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ  50؀
وَقَالُوْا [اور انہوں نے کہا]لَوْلَآ اُنْزِلَ [کیوں نہیں اتاری گئیں] عَلَيْهِ [ان
پر] اٰيٰتٌ [کچھ نشانیاں (معجزات)] مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ [ان کے رب (کی طرف) سے] قُلْ [آپ کہیے] اِنَّمَا [کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] الْاٰيٰتُ [تمام نشانیاں (معجزات)] عِنْدَ اللّٰهِ ۭ [اللہ کے پاس ہیں] وَاِنَّمَآ اَنَا [اور میں تو بس] نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ [واضح طور پر خبردار کرنے والا ہوں]۔

اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّذِكْرٰي لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ  51؀ۧ
اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ [اور کیا کافی نہیں ہوا ان لوگوں کو] اَنَّآ [(یہ) کہ] اَنْزَلْنَا [ہم نے اتارا] عَلَيْكَ الْكِتٰبَ [آپ پر اس کتاب کو] يُتْلٰى [وہ پڑھی جاتی ہے]عَلَيْهِمْ ۭ [ان پر] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک اس میں] لَرَحْمَةً [یقینا رحمت ہے] وَّذِكْرٰي [اور نصیحت ہے] لِقَوْمٍ [ایسے لوگوں کے لئے جو] يُّؤْمِنُوْنَ [ایمان لوتے ہیں]۔

قُلْ كَفٰي بِاللّٰهِ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ شَهِيْدًا ۚ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا بِاللّٰهِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ  52؀
قُلْ [آپ
کہیے]كَفٰي [کافی ہوا] بِاللّٰهِ [اللہ] بَيْنِيْ [میرے درمیان] وَبَيْنَكُمْ [اور تم لوگوں کے درمیان] شَهِيْدًا ۚ [بطور گواہ کے]يَعْلَمُ [وہ جانتا ہے] مَا [اس کو جو] فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [آسمانوں اور زمین میں ہے] وَالَّذِيْنَ [اور جو لوگ] اٰمَنُوْا [ایمان لائے] بِالْبَاطِلِ [ناحق پر] وَكَفَرُوْا [اور جنہوں نے انکار کیا] بِاللّٰهِ ۙ [اللہ کا] اُولٰۗىِٕكَ [وہ لوگ] هُمُ الْخٰسِرُوْنَ [ہی خسارہ پانے والے ہیں]۔

وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ ۭ وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاۗءَهُمُ الْعَذَابُ ۭ وَلَيَاْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 53؀
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ [اور جلدی مانگتے ہیں آپ
سے] بِالْعَذَابِ ۭ [عذاب کو] وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى [اور اگر نہ ہوتا ایک معین وقت] لَّجَاۗءَهُمُ [تو ضرور آتا ان کے پاس] الْعَذَابُ ۭ [عذاب] وَلَيَاْتِيَنَّهُمْ [اور وہ لازما پہنچے گا ان کے پاس] بَغْتَةً [اچانک] وَّ [اس حال میں کہ] هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ [وہ لوگ شعور نہ رکھتے ہوں گے]۔

يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ ۭ وَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ  54؀ۙ
يَسْتَعْجِلُوْنَكَ [جلدی مانگتے ہیں آپ
سے] بِالْعَذَابِ ۭ [عذاب کو] وَاِنَّ جَهَنَّمَ [اور بیشک جہنم] لَمُحِيْطَةٌۢ [یقینا گھیرنے والی ہے] بِالْكٰفِرِيْنَ [کافروں کو]۔



نوٹ۔1: رسول اللہ
کی رسالت کا انکار کرنے والوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ آپ کو ایسے معجزے کیوں نہیں عطا ہوئے جیسے سابقہ انبیاء خاص طور سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا ہوئے تھے۔ اسکا ایک جواب یہ دیا کہ آپ ان لوگوں کو بتا دیں کہ معجزات کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے میں اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں رکھتا۔ میرا فرض یہ ہے کہ تم لوگوں کو آنے والے خطرات سے اچھی طرح آگاہ کر دوں۔ (تدبر قرآن)۔ دوسرا جواب یہ دیا کہ امی ہونے کے باوجود آپ پر قرآن جیسی کتاب کا نازل ہونا کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے کہ آپ کی رسالت پر یقین لانے کے لئے یہ کافی ہو۔ اس کے بعد بھی کسی اور معجزے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ دوسرے معجزے تو وقتی تھے مگر یہ معجزہ تو ہر وقت تمھارے سامنے ہے۔ تمھیں آئے دن پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔ تم جب چاہو اسے دیکھ سکتے ہو۔ (تفہیم القرآن)

يَوْمَ يَغْشٰـىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ وَيَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ  55؀
يَوْمَ [جس دن] يَغْشٰـىهُمُ [چھائے گا ان پر] الْعَذَابُ [عذاب] مِنْ فَوْقِهِمْ [ان کے اوپر سے] وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ [اور ان کے پیروں کے نیچے سے] وَيَقُوْلُ [اور (اللہ تعالیٰ) کہے گا] ذُوْقُوْا [تم لوگ چکھو] مَا [اس کو جو] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [تم لوگ کیا کرتے تھے]۔

يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَةٌ فَاِيَّايَ فَاعْبُدُوْنِ  56؀
يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ [اے میرے وہ بندو جو] اٰمَنُوْٓا [ایمان لائے]اِنَّ اَرْضِيْ [بیشک میری زمین] وَاسِعَةٌ [کشادہ ہے] فَاِيَّايَ [تو صرف میری ہی]فَاعْبُدُوْنِ [پس تم لوگ بندگی کرو میری]۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۣثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ  57؀
كُلُّ نَفْسٍ [ہر جان] ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۣ [موت کو چکھنے والی ہے] ثُمَّ اِلَيْنَا [پھر ہماری طرف ہی] تُرْجَعُوْنَ [تم لوگ لوٹائے جاؤ گے]۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا  ۭ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ  58؀ڰ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [اور جو لوگ ایمان لائے] وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ [اور انہوں نے عمل کئے نیکیوں کے] لَنُبَوِّئَنَّهُمْ [ان کو ہم لازما ٹھکانہ دیں گے] مِّنَ الْجَنَّةِ [جنت میں سے] غُرَفًا [بالا خانوں میں] تَجْرِيْ [بہتی ہوں گی] مِنْ تَحْتِهَا [جن کے نیچے سے] الْاَنْهٰرُ [نہریں] خٰلِدِيْنَ [ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے] فِيْهَا ۭ [ان میں] نِعْمَ [کتنی اچھی ہے] اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ [عمل کرنے والوں کے اجرت]۔

الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ  59؀
الَّذِيْنَ صَبَرُوْا [وہ لوگ جو ثابت قدم رہے] وَعَلٰي رَبِّهِمْ [اور اپنے رب پر ہی] يَتَوَكَّلُوْنَ [وہ لوگ بھروسہ کرتے ہیں]۔

وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا   ٤اَللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَاِيَّاكُمْ ڮ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ  60؀
وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّةٍ [اور چلنے والے جاندار میں سے کتنے ہی ہیں جو] لَّا تَحْمِلُ [اٹھا نہیں رکھتے] رِزْقَهَا [اپنا رزق] اَللّٰهُ [اللہ ہی] يَرْزُقُهَا [رزق دیتا ہے ان کو] وَاِيَّاكُمْ ڮ [اور تم کو بھی] وَهُوَ السَّمِيْعُ [اور وہ ہی سننے والا ہے] الْعَلِيْمُ [جاننے والا ہے]۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ   61؀
وَلَىِٕنْ [اور بیشک اگر] سَاَلْتَهُمْ [آپ
پوچھیں ان سے] مَّنْ خَلَقَ [کس نے پیدا کیا] السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ [آسمانوں اور زمین کو] وَسَخَّــرَ [اور مسخر کیا] الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ [سورج کو اور چاند کو] لَيَقُوْلُنَّ [تو وہ لوگ لازما کہیں گے] اللّٰهُ [اللہ نے] فَاَنّٰى [تو کہاں سے] يُؤْفَكُوْنَ: وہ سب پلٹائے جارہے ہیں]

اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ   62؀
اَللّٰهُ [اللہ ہی] يَبْسُطُ [کشادہ کرتا ہے] الرِّزْقَ [رزق کو] لِمَنْ [اس کے لئے جس کے لئے] يَّشَاۗءُ [وہ چاہتا ہے] مِنْ عِبَادِهٖ [اپنے بندوں میں سے] وَيَقْدِرُ [اور نپا تلا دیتا ہے] لَهٗ ۭ [اس کو (جسے چاہے)] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] بِكُلِّ شَيْءٍ [ہر چیز کو] عَلِيْمٌ [جاننے والا ہے]۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ  ۭ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ  63؀ۧ
وَلَىِٕنْ [اور بیشک اگر] سَاَلْتَهُمْ [آپ
پوچھیں ان سے] مَّنْ نَّزَّلَ [کس نے اتارا] مِنَ السَّمَاۗءِ [آسمان سے] مَاۗءً [کچھ پانی] فَاَحْيَا [پھر زندہ کیا] بِهِ [اس سے] الْاَرْضَ [زمین کو] مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا [اس کے مردہ ہونے کے بعد] لَيَقُوْلُنَّ [تو وہ لوگ لازما کہیں گے] اللّٰهُ ۭ [اللہ نے] قُلِ [آپ کہیے] الْحَمْدُ [تمام شکرو سپاس] لِلّٰهِ ۭ [اللہ کے لئے ہے] بَلْ [بلکہ (یعنی لیکن)]اَكْثَرُهُمْ [ان کے اکثر]لَا يَعْقِلُوْنَ [عقل سے کام نہیں لیتے]۔



نوٹ۔1: شروع سورت سے مسلمانوں کے ساتھ کفار کی عداوت اور ان کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹوں کا بیان ہے۔ زیر مطالعہ آیات میں مسلمانوں کے لئے ان کے شر سے بچنے اور حق و انصاف کو دنیا میں قائم کرنے کی ایک تدبیر کا بیان ہے جس کا اصطلاحی نام ہجرت ہے یعنی وہ وطن اور ملک چھوڑ دینا جس میں انسان خلاف حق بولنے اور کرنے پر مجبور کیا جائے۔ وطن سے ہجرت کر کے کسی دوسری جگہ جانے میں دو قسم کے خطرات انسان کو عادۃً پیش آیا کرتے ہیں جو اس کو ہجرت سے روکتے ہیں۔ پہلا خطرہ جان کا ہے کہ جہاں جا رہے ہیں وہاں یا راستہ میں کفار حملہ کر دیں جس میں جان کا خطرہ ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ہر جان موت کو چکھنے والی ہے۔ موت سے کسی کو کسی جگہ کسی حال میں مفر نہیں ہے۔ اس لئے ہجرت کرنے میں موت کا خوف حائل نہ ہونا چاہیے۔ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ دوسرے ملک میں جا کر رزق کا کیا سامان ہو گا۔ اس کے لئے فرمایا کہ زمین پر چلنے والے کتنے ہی جاندار ہیں جو اپنے رزق جمع کرنے اور رکھنے کا کوئی انتظام نہیں کرتے۔ اللہ کی کھلی زمین میں نکلتے ہیں اور سب کو پیٹ بھرائی رزق ملتا ہے۔ اور یہ ایک دن کا معاملہ نہیں ‘ جب تک وہ زندہ ہیں یہی سلسلہ جاری ہے۔ اس لئے یہ دوسرا خطرہ بھی ہجرت سے مانع نہیں ہونا چاہیے۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)

وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌ ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ  64؀
وَمَا [اور نہیں ہے] هٰذِهِ الْحَيٰوةُ [یہ دنیوی زندگی] اِلَّا لَهْوٌ [مگر ایک تماشا] وَّلَعِبٌ ۭ [اور کچھ کھیل کود]وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ [اور بیشک آخری گھر] لَھِىَ [یقینا وہی] الْحَـيَوَانُ ۘ [کل (یعنی حقیقی) زندگانی ہے] لَوْ [کاش] كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ [یہ لووگ جانتے ہوتے]

فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڬ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ يُشْرِكُوْنَ  65؀ۙ
فَاِذَا [پھر جب کبھی] رَكِبُوْا [وہ لوگ سوار ہوتے ہیں] فِي الْفُلْكِ [کشتی میں] دَعَوُا [تو پکارتے ہیں] اللّٰهَ [اللہ کو] مُخْلِصِيْنَ [خالص کرنے والے ہوتے ہوئے] لَهُ [اس کے لئے] الدِّيْنَ ڬ [دین (عقیدہ) کو] فَلَمَّا [پھر جب] نَجّٰىهُمْ [وہ نجات دیتا ہے ان کو] اِلَى الْبَرِّ [خشکی کی طرف] اِذَا هُمْ [تب ہی وہ لوگ] يُشْرِكُوْنَ: وہ سب شریک بناتے ہیں]

لِيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰهُمْ ڌ وَلِيَتَمَتَّعُوْا     ۪ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ  66؀
لِيَكْفُرُوْا [نتیجتاً وہ لوگ ناشکری کرتے ہیں] بِمَآ [اس کی جو] اٰتَيْنٰهُمْ ڌ [ہم نے دیا ان کو] وَلِيَتَمَتَّعُوْا ۪ [اور فائدہ اٹھاتے ہیں (اس سے)] فَسَوْفَ [تو عنقریب] يَعْلَمُوْنَ [وہ لوگ جان لیں گے]۔

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۭ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَكْفُرُوْنَ  67؀
اَوَلَمْ يَرَوْا [اور کیا ان لوگوں نے غور ہی نہیں کیا] اَنَّا جَعَلْنَا [کہ ہم نے بنایا] حَرَمًا اٰمِنًا [امن میں ہونے والی محترم جگہ] وَّ [اس حال میں کہ] يُتَخَطَّفُ اچک لیا جاتا ہے] النَّاسُ [انسانوں کو] مِنْ حَوْلِهِمْ ۭ [ان لوگوں کے اردگرد سے] اَفَبِالْبَاطِلِ [تو کیا ناحق پر] يُؤْمِنُوْنَ [یہ لوگ ایمان لاتے ہیں] وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ [اور اللہ کی نعمت کا] يَكْفُرُوْنَ [اور کون زیادہ ظالم ہے]

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَهٗ   ۭ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِيْنَ  68؀
وَمَنْ اَظْلَمُ [اور کون زیادہ ظالم ہے] مِمَّنِ [اس سے جس نے] افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ [گھڑ اللہ پر] كَذِبًا [کوئی جھوٹ] اَوْ كَذَّبَ [یا جس نے جھٹلایا] بِالْحَقِّ [حق کو] لَمَّا [جب] جَاۗءَهٗ ۭ [وہ آیا اس کے پاس] اَلَيْسَ [کیا نہیں ہے] فِيْ جَهَنَّمَ [جہنم میں] مَثْوًى [ٹھکانہ] لِّلْكٰفِرِيْنَ [کفر کرنے والوں کے لئے]۔

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا   ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ  69؀ۧ
وَالَّذِيْنَ [اور جن لوگوں نے] جَاهَدُوْا [جدوجہد کی] فِيْنَا [ہم میں (یعنی ہماری راہ میں)] لَـنَهْدِيَنَّهُمْ [ہم لازما رہنمائی کریں گے ان کی] سُـبُلَنَا ۭ [اپنی راہوں کی] وَاِنَّ اللّٰهَ [اور بیشک اللہ] لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ [خوب کارواں کے ساتھ ہے]۔



نوٹ۔1: لفظ حیوان قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ زیر مطالعہ آیت۔64۔ میں استعمال ہوا ہے۔ نوٹ کرلیں کہ اس کا مادہ ’’ ح ی ی ‘‘ ہی ہے اور یہ لفظ حیوۃکا ہم معنی ہے۔ یعنی اس کے بھی معنی ہیں ’’ زندگی۔ حیات‘‘ یہ دراصل فعلان کے وزن پر حییان ہے۔ دوسری ’’ ی‘‘ کو واؤ میں تبدیل کر کے حیوان استعمال ہوا ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

الۗمّۗ  Ǻ۝ۚ
الۗمّۗ

غُلِبَتِ الرُّوْمُ Ą۝ۙ
غُلِبَتِ [مغلوب کیا گیا] الرُّوْمُ [روم کو]

فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ  Ǽ۝ۙ
فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ [اس سرزمین کے قریب میں] وَهُمْ [اور وہ لوگ] مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ [اپنی مغلوبی کے بعد] سَيَغْلِبُوْنَ [غالب ہوں گے]۔

فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ڛ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ ۭ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ  Ć۝ۙ
فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ڛ [چند سالوں میں] لِلّٰهِ [اللہ ہی کے لئے ہیں] الْاَمْرُ [تمام معاملات] مِنْ قَبْلُ [پہلے (بھی)] وَمِنْۢ بَعْدُ ۭ [اور بعد میں (بھی)] وَيَوْمَىِٕذٍ [اور اس دن] يَّفْرَحُ [خوش ہوں گے] الْمُؤْمِنُوْنَ [ ایمان لانے والے]۔

بِنَصْرِ اللّٰهِ ۭ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ Ĉ ۝ۙ
بِنَصْرِ اللّٰهِ ۭ [اللہ کی مدد سے] يَنْصُرُ [وہ مدد کرتا ہے] مَنْ [اس کی جس کی] يَّشَاۗءُ ۭ [وہ چاہتا ہے] وَهُوَ الْعَزِيْزُ [اور وہ ہی بالادست ہے] الرَّحِيْمُ [ہمیشہ رحم کرنے ولا ہے]۔

وَعْدَ اللّٰهِ ۭ لَا يُخْلِفُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ  Č۝
وَعْدَ اللّٰهِ ۭ [(ہوچکا) اللہ کا وعدہ] لَا يُخْلِفُ اللّٰهُ [خلاف نہیں کرتا اللہ] وَعْدَهٗ [اپنے وعدے کے] وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ [اور لیکن لوگوں کی اکثریت] لَا يَعْلَمُوْنَ [جانتی نہیں ہے]

يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا   ښ وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ  Ċ۝
[يَعْلَمُوْنَ: وہ لوگ جانتے ہیں] [ظَاهِرًا: کچھ ظاہر کو]مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ښ [دنیوی زندگی میں سے] وَهُمْ [اور ہ لوگ (ہیں کہ)] عَنِ الْاٰخِرَةِ [آخرت سے] هُمْ [وہی] غٰفِلُوْنَ [غفلت برتنے والے ہیں]۔



نوٹ۔1: ان آیات میں جو پیشنگوئی کی گئی ہے وہ قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کی اور محمد
کی رسالت کی نمایاں ترین شہادتوں میں سے ایک ہے۔ اسے پوری طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان تاریخی واقعات پر ایک نگاہ ڈال لی جائے جو ان آیات سے تعلق رکھتے ہیں، نبی کی نبوت کے آغاز سے آٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ قیصر روم مارلیس کے خلاف بغاوت ہوئی اور ایک شخص فوکاس تخت پر قابض ہو گیا۔ اس نے قیصر، اس کی بیوی اور بیٹے بیٹیوں کو قتل کر کے قیصر اور اس کے بیٹوں کے سر قسطنطنیہ میں برسر عام لٹکوا دئیے۔ قیصر مارلیس ایران کے بادشاہ خسر و پرویز کا محسن تھا اسی کی مدد سے پرویز کو ایران کا تخت نصیب ہوا تھا۔ اس بنا پر اس نے اعلان کیا کہ میں غاصب فوکاس سے بدلہ لوں گا۔ 603 ء میں اس نے روم کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور چند سال کے اندر وہ فوکاس کی فوجوں کو شکستیں دیتا ہوا شام تک پہنچ گیا روم کے اعیان سلطنت، یہ دیکھ کر کہ فوکاس ملک کو نہیں بچا سکتا، افریقہ کے گورنر سے مدد کے طالب ہوئے۔ اس نے اپنے بیٹے ہرقل کو ایک طاقتور بحری بیڑے کے ساتھ قسطنطنیہ بھیج دیا۔ اس کے پہنچتے ہی فوکاس کو معزول کر کے ہرقل کو قیصر بنایا گیا اور فوکاس اور اس کے بیٹوں کا قتل کردیا گیا۔ یہ 610 ء کا واقعہ ہے اور یہ وہی سال ہے جب نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوت پر سرفراز ہوئے۔

 فوکاس کے معزول اور قتل ہونے کے بعد اصولاً خسرو پرویز کو نئے قیصر سے صلح کر لینی چاہیے تھی لیکن اس نے پھر سے جنگ جاری رکھی۔ اور اب اس نے اس جنگ کو مجوسیت اور مسیحیت کی مذہبی جنگ کا رنگ دے دیا۔ یہودیوں نے مجوسیوں کا ساتھ دیا اور خسرو پرویز کی فوج میں یہودیوں کی تعداد 26 ہزار تک پہنچ گئی۔ ہرقل اس ایرانی سیلاب کو نہ روک سکا۔ 613 ء میں دمش فتح ہوا۔ 614 ء میں بیت المقدس پر قبضہ کر کے مسیحیوں کے سب سے زیادہ مقدس کلیسا کو برباد کر دیا۔ اصلی صلیب، جس پر عیسائی عقیدے کے مطابق مسیح علیہ السلام نے جان دی تھی، مجوسی چھین کر مدائن لے گئے۔ اس فتح کا نشہ جس بری طرح خسروپرویز پر چڑھا تھا اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو اس نے بیت المقدس سے ہرقل لو لکھا تھا۔ اس میں و ہ کہتا ہے ـــــــــ’’ سب خداؤں سے بڑے خدا، تمام روئے زمین کے مالک خسرو کی طرف سے اس کے کمینے اور بےشعور بندے ہرقل کے نام۔ تو کہتا ہے تجھے اپنے رب پر بھروسہ ہے، کیوں نہ تیرے رب نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے بچا لیا۔‘‘ اس فتح کے بعد ایک سال کے اندر اندر ایرانی فوجیں اردن، فلسطین اور جزیرہ نمائے سینا کے پورے علاقے پر قابض ہو گئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مکہ میں مسلمانوں اور قریش کے درمیان کشمکش اپنے عروج پر تھی اور مسلمانوں کی مظلومیت یہاں تک پہنچ گئی کہ 615 ء میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو حبش کی عیسائی سلطنت میں ( جو روم کی حلیف تھی) پناہ لینی پڑی۔ مکہ کے مشرکین اس وقت مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ایران کے آتش پرست فتح پا رہے ہیں اور وحی و رسالت کے ماننے والے عیسائی شکست پر شکست کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ہم بت پرست بھی تمھیں اور تمھارے دین کو مٹا کر رکھ دیں گے۔

 ان حالات میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ ان میں ایک کے بجائے دو پیشنگوئیاں تھیں۔ ایک یہ کہ رومیوں کو غلبہ نصیب ہو گا۔ دوسری یہ کہ مسلمانوں کو بھی اسی زمانے میں فتح حاصل ہو گی۔ اس وقت ان میں سے کوئی ایک پیشنگوئی بھی پوری ہونے کا امکان کہیں بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایک طرف مٹھی بھر مسلمان تھے جو مکہ میں ستائے جا رہے تھے۔ دوسری طرف روم کی مغلوبیت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ 617 ء میں ایرانیوں نے عین قسطنطنیہ کے سامنے خلقد رون پر قبضہ کرلیا اور 619 ء تک پورا مصر ایران کے قبضہ میں چلا گیا۔ مختصر یہ کہ انگریز مورخ گبن کے بقول قرآن مجید کی اس پیشنگوئی کے بعد بھی سات آٹھ برس تک حالات ایسے تھے کہ کوئی شخص یہ تصور تک نہ کرسکتا تھا کہ رومی ایران پر غالب آجائیں گے۔ بلکہ غلبہ تو درکنار اس وقت تو کسی کو یہ امید بھی نہ تھی کہ اب یہ سلطنت زندہ رہ جائے گی۔

 622 ء میں ادھر نبی
ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور ادھر ہرقل خاموشی کے ساتھ قسطنطنیہ سے بحراسود کے راستے طرابزون کی طرف روانہ ہوا جہاں اس نے ایران پر پشت سے حملہ کرنے کی تیاری کی۔ اس کے لئے اس نے کلیسا سے پیسے مانگے، کلیسا کے اسقف اعظم نے مسیحیت کو مجوسیت سے بچانے کے لئے گرجاؤں کے نذرانوں کی جمع شدہ دولت سود پر قرض دی۔ 623 ء میں ہرقل نے اپنا حملہ آرمینیا سے شروع کیا اور دوسرے سال 624 میں اس نے آذر بیجان میں زرشت کے مقام پیدائش اور ایرانیوں سے سب سے بڑے آتش کدے کو تباہ کر دیا۔ یہی وہ سال تھا جس میں مسلمانوں کو بدر کے مقام پر پہلی مرتبہ مشرکین کے مقابلے میں فیصلہ کن فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح سورہ روم کی دونوں پیشنگوئیاں دس سال کی مدت ختم ہونے سے پہلے بیک وقت پوری ہو گئیں۔ (تفہیم القرآن ج 3۔ ص 724 تا 728 سے ماخوذ)

نوٹ۔2: آیت۔7۔ میں لفظ ظاھراً کو نکرہ لا کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ درحقیقت یہ لوگ حیاتِ ظاہرہ کو بھی پورا نہیں جانتے۔ اس کے صرف ایک رخ کو جانتے ہیں اور دوسرے رخ سے غافل ہیں، یہ لوگ یہ تو خوب جانتے ہیں کہ کھیتی باڑی، تجارت کسب مال وغیرہ کس طرح کریں، تعمیرات کیسی کریں۔ سامان عشرت کیا کیا مہیا کریں لیکن دوسرا پہلو اوجھل ہے جو اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ دنیا کا چند روزہ قیام دراصل ایک مسافرانہ قیام ہے۔ انسان اس زمین کا باشندہ (نیشنل) نہیں ہے بلکہ وہ ایک دوسرے ملک (آخرت) کا باشندہ ہے۔ یہاں کچھ مدت کے لئے ویزا پر آیا ہوا ہے۔ یہاں اس کا اصلی کام یہ ہے کہ وہ اپنے وطن (آخرت) کے لئے یہاں سے سامان راحت فراہم کر کے وہاں بھیجے۔ (معارف القرآن)

اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ  ۣ مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاۗئِ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ  Ď۝
اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا [اور کیا ان لوگوں نے سوچ و چار نہیں کیا] فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ۣ [اپنے جی (یعنی وجود) میں] مَا خَلَقَ اللّٰهُ [نہیں پیدا کیا اللہ نے] السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ [آسمانوں اور زمین کو] وَمَا [اور اس کو جو] بَيْنَهُمَآ [ان دونوں کے مابین ہے] اِلَّا بِالْحَقِّ [مگر حق کے ساتھ] وَاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ [اور ایک معین وقت کے ساتھ] وَاِنَّ [اور بیشک] كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ [لوگوں میں سے اکثر] بِلِقَاۗئِ رَبِّهِمْ [اپنے رب کی ملاقات کا] لَكٰفِرُوْنَ [یقینا انکار کرنے والے ہیں]۔

اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَرُوْهَآ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْهَا وَجَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ ۭ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ   ۝ۭ
اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا [اور کیا انھوں نے سیر نہیں کی] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] فَيَنْظُرُوْا [نتیجتاً (تاکہ) وہ دیکھتے] كَيْفَ كَانَ [کیسا تھا] عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ [ان لوگوں کا انجام جو] مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ [ان سے پہلے تھے] كَانُوْٓا [وہ لوگ تھے] اَشَدَّ مِنْهُمْ [ان سے زیادہ شدید] قُوَّةً [بلحاظ قوت کے]وَّاَثَارُوا ] اور انہوں نے جوتا] الْاَرْضَ [زمین کو] وَعَمَرُوْهَآ [اور آباد کیا اس کو] اَكْثَرَ مِمَّا [اس سے زیادہ جو] عَمَرُوْهَا [ان لوگوں نے آباد کیا اس کو] وَجَاۗءَتْهُمْ [اور پہنچے ان کے پاس] رُسُلُهُمْ [اس کے رسول] بِالْبَيِّنٰتِ ۭ [واضح (نشانیوں) کے ساتھ] فَمَا كَانَ اللّٰهُ [تو نہیں ہے اللہ] لِيَظْلِمَهُمْ [کہ وہ ظلم کرتا ہے ان پر] وَلٰكِنْ [اور لیکن] كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ [وہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کیا کرتے تھے]۔

ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِيْنَ اَسَاۗءُوا السُّوْۗآٰى اَنْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَكَانُوْا بِهَا يَسْتَهْزِءُوْنَ  10۝ۧ
ثُمَّ [پھر] كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِيْنَ [ان کا انجام تھا جنہوں نے] اَسَاۗءُوا [برا کیا] السُّوْۗآٰى [سب سے برا] اَنْ [(اس وجہ سے) کہ] كَذَّبُوْا [انہوں نے جھٹلایا] بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [اللہ کی نشانیوں کو] وَكَانُوْا بِهَا يَسْتَهْزِءُوْنَ [اور وہ لوگ ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے]۔



نوٹ۔1: گذشتہ آیات میں بتایا گیا تھا کہ لوگوں کی اکثریت آخرت سے غفلت برتنے والی ہے۔ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز آخرت پر دلالت کرنے والی ہے۔ ان پر صرف غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر انسان اپنے وجود پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ انسانی جسم کے تمام اعضاء ، جوارح اور جسم کے اندرونی نظام کے ہر ایک کل پرزے کا اپنا ایک
Function ہے، ہر ایک کے وجود کا کوئی مقصد ہے۔ اسی طرح یہ بھی صاف نظر آتا ہے کہ اس کائنات میں ہر چیز کا کوئی Function اور کوئی مقصد ہے، کسی بھی چیز کا وجود بےمقصد نہیں ہے۔ ہو پھر خود انسان کا وجود بےمقصد کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ انسان مر کر مٹی ہو جائے گا اور کوئی حساب و کتاب اور جزاء و سزا نہیں ہے تو انسان کا وجود بےمقصد ہو جاتا ہے جو کائنات کی ہر چیز کی گواہی کے خلاف ہے۔

 اسی طرح تھوڑا سا غور کرنے سے صاف نظر آتا ہے کہ اس دنیا میں روانہ کچھ نئے لوگ آتے ہیں اور کچھ پرانے لوگ چلے جاتے ہیں۔ یہاں کسی بھی انسان کو دوام حاصل نہیں ہے۔ اپنے اردگرد حیوانات اور بناتات میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ ہر چیز پیدا ہوتی ہے، بڑھتی ہے، پھولتی ہے پھلتی ہے، پھر ختم ہو جاتی ہے۔ کائنات میں کسی بھی چیز کو دوام نہیں ہے۔ ہر چیز کا وجود ایک معین وقت تک کے لئے ہے۔ یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ خود اس کائنات کا وجود بھی ایک معین وقت تک کے لئے ہے۔ اس کو بھی ایک دن ختم ہونا ہے اور حساب و کتاب اور جزاء و سزا یقینی ہے۔

نوٹ۔2: ہریوں اور خدا پرستوں کے درمیان یہ بحث بہت پرانی ہے جس میں فلسفی اور سائنسداں اس دنیا کو ازلی اور ابدی قرار دیتے تھے۔ ان کا انحصار اس تخیل پر تھا کہ مادہ فنا نہیں ہو سکتا، صرف صورت بدلی جا سکتی ہے۔ مگر ہر تغیر کے بعد مادہ، مادہ ہی رہتا ہے اور اس کی مقدار میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اس بنا پر یہ نتیجہ نکالا جاتا تھا کہ اس عالم مادی کی نہ کوئی ابتداء ہے نہ انتہا۔ لیکن اب جوہری توانائی کے انکشاف نے اس پورے عمل کی بساط الٹ کر رکھ دی ہے۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ قوت مادے میں تبدیل ہوتی ہے اور مادہ پھر قوت میں تبدیل ہوجاتا ہے حتیٰ کہ نہ صورت باقی رہتی ہے نہ ہیولیٰ۔ اب حرکیات حرارت کے دوسرے قانون (
Second law of Thermo-Dynamics) نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ عالم مادی نہ ازلی ہو سکتا ہے نہ ابدی۔ اس کو لازماً ایک وقت شروع اور ایک وقت ختم ہونا ہی چاہیے۔ اس لئے سائنس کی بنیاد پر اب قیامت کا انکار ممکن نہیں رہا ہے۔ اور ظاہر بات ہے کہ جب سائنس ہتھیار ڈال دے تو فلسفہ کن ٹانگوں پر کھڑا ہو کر قیامت کا انکار کرے گا۔ (تفہیم القرآن)

اَللّٰهُ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ  . 11؀
اَللّٰهُ يَبْدَؤُا [اللہ ہی پہل کرتا ہے] الْخَــلْقَ [پیدا کرنے کی] ثُمَّ يُعِيْدُهٗ [پھر وہ واپس لائے گا اس کو]ثُمَّ اِلَيْهِ [پھر اس کی طرف ہی]تُرْجَعُوْنَ : [تم لوگ لوٹائے جاؤ گے]



نوٹ۔1: آیت۔11۔ میں فرمایا کہ اللہ ہی خلق کا آغاز فرماتا ہے اور وہی اس کا اعادہ کرے گا۔ ان دو لفظوں میں دعویٰ اور دلیل دونوں جمع ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ اللہ اس خلق کا اعادہ فرمائے گا۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اسی نے اس کا آغاز کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس نے اس کا آغاز کیا اور اس کام میں اس کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی اس کو اس کے اعادے میں بھی کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ بلکہ اعادہ ابتدا سے زیادہ آسان ہے۔ (تدبر قرآن)

وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ   12؀
وَيَوْمَ [اور جس دن] تَقُوْمُ [قائم ہوگی] السَّاعَةُ [وہ گھڑی (قیامت)] يُبْلِسُ [تو شاید مایوس ہوں گے] الْمُجْرِمُوْنَ [مجرم لوگ]۔

وَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ مِّنْ شُرَكَاۗىِٕهِمْ شُفَعٰۗـــؤُا وَكَانُوْا بِشُرَكَاۗىِٕهِمْ كٰفِرِيْنَ  13؀
وَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ [اور ان کے لئے نہیں ہوگا] مِّنْ شُرَكَاۗىِٕهِمْ [ان کے شریکوں میں سے] شُفَعٰۗـــؤُا [کوئی شفاعت کرنے والا] وَكَانُوْا [اور وہ لوگ ہو جائیں گے] بِشُرَكَاۗىِٕهِمْ [اپنے شریکوں کا] كٰفِرِيْنَ [انکار کرنے والے]۔

وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَفَرَّقُوْنَ  14؀
وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ [اور جس دن برپا ہوگی قیامت] يَوْمَىِٕذٍ [اس دن] يَّتَفَرَّقُوْنَ [لوگ الگ الگ ہو جائیں گے]۔



نوٹ۔2: آیت۔14۔ میں فرمایا کہ قیامت کے دن لوگ الگ الگ فرقوں میں بٹ جائیں گے۔ یعنی دنیا کی تمام جتھ بندیاں جو آج قوم ، نسل، وطن، قبیلہ وغیرہ کی بنیاد پر بنی ہوئی ہیں، اس روز ٹوٹ جائیں گی اور خالص عقیدے اور کردار کی بنیاد پر نئے سرے سے ایک دوسری گروبندی ہو گی۔ ایک طرف نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی قوموں میں سے مومن و صالح انسان الگ چھانٹ لئے جائیں گے اور ان سب کا ایک گروہ ہو گا۔ دوسری طرف ایک ایک قسم کے گمراہانہ نظریات و عقائد رکھنے والے ، اور ایک ایک قسم کے جرائم پیشہ لوگ چھانٹ چھانٹ کر الگ نکال لئے جائیں گے اور ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے۔ (تفہیم القرآن)

فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَهُمْ فِيْ رَوْضَةٍ يُّحْبَرُوْنَ  15؀
فَاَمَّا الَّذِيْنَ [تو وہ جو ہیں جو] اٰمَنُوْا [ایمان لائے] وَعَمِلُوا [اور انہوں نے عمل کئے] الصّٰلِحٰتِ [نیکیوں کے] فَهُمْ [تو ان لوگوں کی] فِيْ رَوْضَةٍ [ایک باغ میں]يُّحْبَرُوْنَ [آؤ بھگت کی جائے گی]۔



ر و ض

(ن) روضا کسی جگہ کا سرسبز و شاداب ہونا۔ باغ و بہار ہونا۔

 روضۃ باغ ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 15۔

وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَاۗئِ الْاٰخِرَةِ فَاُولٰۗىِٕكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ   16؀
وَاَمَّا الَّذِيْنَ [اور وہ جو ہیں جنہوں نے] كَفَرُوْا [انکار کیا] وَكَذَّبُوْا [اور جھٹلایا] بِاٰيٰتِنَا [ہماری نشانیوں کو] وَلِقَاۗئِ الْاٰخِرَةِ [اور آخرت کی ملاقات کو] فَاُولٰۗىِٕكَ [تو وہ لوگ] فِي الْعَذَابِ [عذاب میں] مُحْضَرُوْنَ [حاضر کئے ہوئے ہوں گے]۔

فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ  17؀
فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ [تو (بیان کرو) اللہ کی پاکیزگی] حِيْنَ [جب] تُمْسُوْنَ [تم لوگ شام کرتے ہو] وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ [اور جب صبح کرتے ہو]۔



م س و

(ن) مسوا وعدہ کرکے دیر لگانا۔

(افعال) امساء شام میں داخل ہونا۔ یعنی شام کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 17۔

وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ  18؀
وَلَهُ [اور اس کے لئے ہی ہے] الْحَمْــدُ [تمام شکر و سپاس ] فِي السَّمٰوٰتِ [آسمانوں میں] وَالْاَرْضِ [اور زمین میں] وَعَشِـيًّا [اور سہ پہر کے وقت] وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ [اور جب دوپہر کرتے ہو]۔

يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَيُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ  19۝ۧ
يُخْرِجُ [وہ نکالتا ہے] الْـحَيَّ [زندہ کو] مِنَ الْمَيِّتِ [مردہ میں سے] وَيُخْرِجُ [اور وہ نکالتا ہے] الْمَيِّتَ [مردہ کو] مِنَ الْـحَيِّ [زندہ میں سے] وَيُـحْيِ [اور وہ زندہ کرتا ہے] الْاَرْضَ [زمین کو] بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ [اس کی موت کے بعد] وَكَذٰلِكَ [اور اس طرح]تُخْرَجُوْنَ [تم لوگ نکالے جاؤ گے]۔



البقرہ کی آیت۔ 28۔ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم لوگ اللہ کا کیسے انکار کرتے جب حال یہ ہے کہ تم لوگ مردہ حالت میں تھے تو اس نے تم کو زندہ کیا۔ اس آیت کی وضاحت کو ہم یہاں دوبارہ نقل کر رہے ہیں۔ ــ’’ سمندر سے پانی کا بھاپ بن کر اٹھنا، بادل بننا ، پانی برسنا، پودے اگنا، پودوں کا زمین اور فضا سے غذا حاصل کرنا، پھل کا پکنا، غرض یہ کہ اس طرح کے نہ معلوم کتنے عناصر قدرت کام کرتے ہیں تب کہیں مختلف مقامات پر ایک انسان کے بکھرے ہوئے ذرات (اجزاء) کھینچ کر ایک گندے پانی کی بوند میں جمع ہوتے ہیں جس سے وہ جنم لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس نظام پر ہم جتنا غور کریں گے اتنا ہی فاحیاکمکی گہرائی اور گیرائی عیاں ہو گی۔ ‘‘ غرضیکہ ہم کسی بھی پہلو سے غور کریں، بہرحال ماننا پڑتا ہے کہ انسانی جسم خاکی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس کے جسم کی تمام تر ضروریات ، روٹی ، کپڑا، مکان ، ادویات وغیرہ سب چیزیں زمین سے ہی حاصل کی جاتی ہیں۔

نوٹ۔2: محبت سے مراد یہاں (آیت۔21۔ میں) جنسی محبت ہے جو مرد اور عورت کے اندر جذب و کشش کی ابتدائی محرک بنتی ہے اور پھر انھیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے۔ اور رحمت سے مراد وہ روحانی تعلق ہے جو ازدواجی زندگی میں بتدریج ابھرنا ہے، جس کی بدولت وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ، ہمدرد اور غم گسار بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جن جنسی محبت پیچھے جا پڑتی ہے اور بڑھاپے میں یہ جیون ساتھی جوانی سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کے حق میں رحیم و شفیق ثابت ہوتے ہیں۔

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَآ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ  20؀
وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ [اور اس کی نشانیوں میں سے ہے] اَنْ خَلَقَكُمْ [کہ اس نے پیدا کیا تم کو] مِّنْ تُرَابٍ [کسی مٹی سے] ثُمَّ اِذَآ [پھر جب ہی] اَنْتُمْ [تم لوگ] بَشَرٌ [بشر (ہو جاتے) ہو] تَنْتَشِرُوْنَ [جو پھیل جاتے ہو]۔

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ   21؀
وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ [اور اس نے بنایا تمہارے مابین] اَنْ خَلَقَ لَكُمْ [کہ اس نے پیدا کئے تمہارے لئے] مِّنْ اَنْفُسِكُمْ [تمہاری جانوں سے] اَزْوَاجًا [جوڑے] لِّتَسْكُنُوْٓا [تاکہ تم لوگ سکون پکڑو] اِلَيْهَا [ان کی طرف] وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ [اور اس نے بنایا تمہارے مابین] مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ۭ [محبت اور رحمت ] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک اس میں] لَاٰيٰتٍ [یقینا نشانیاں ہیں] لِّــقَوْمٍ [ایسے لوگوں کے لئے جو] يَّتَفَكَّرُوْنَ [غور و فکر کرتے ہیں]

وَمِنْ اٰيٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ  22؀
وَمِنْ اٰيٰتِهٖ [اور اس کی نشانیوں میں سے ہے] خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا] وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ ۭ [اور تمہارے رنگوں اور تمہاری بولیوں کا اختلاف] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک اس میں] لَاٰيٰتٍ [یقینا نشانیاں ہیں]لِّــلْعٰلِمِيْنَ [علم والوں کے لئے]۔



نوٹ۔1: انسان جیسے اشرف المخلوقات کو مٹی سے پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کھلا ثبوت ہے۔ کیونکہ اس دنیا کے عناصر ترکیبیہ میں سب سے زیادہ ادنیٰ درجہ کا عنصر مٹی ہے جس میں حس و حرکت اور شعور ادراک کا کوئی شمہ نظر نہیں آتا۔ مشہور چار عناصر آگ ، پانی ، ہوا اور مٹی میں سے مٹی کے سوا اور سب عناصر میں کچھ نہ کچھ حرکت تو ہے، جبکہ مٹی اس سے بھی محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسانی کے لئے اس کو منتخب فرمایا۔ (اور مٹی کے پتلے میں شعور، احساس، تخیل ، عقل اور اس طرح کی متعدد صلاحتیں پیدا کر دیں۔ مرتب)۔ انسان کی تخلیق کا مادہ مٹی ہونا حضرت آدم علیہ السلام کے اعتبار سے ظاہر ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انسان جو تو الدو تناسل کے سلسلے سے نطفہ کے ذریعہ پیدا ہوئے ہیں ان میں بھی نطفہ جن اجزاء سے مرکب ہوتا ہے اس میں مٹی کا جزو غالب ہو۔ (معارف القرآن)



 آیت ۔ 22۔ میں اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ تمھارے منہ اور زبان کی ساخت میں کوئی فرق نہیں ہے مگر زمین کے مختلف خطوں میں تمھاری زبانیں مختلف ہیں۔ پھر ایک ہی زبان کے بولنے والے علاقوں میں شہر شہر اور بستی بستی کی بولیاں مختلف ہیں اور مزید یہ کہ ہر شخص کا لہجہ اور طرز ِ گفتگو دوسرے سے مختلف ہے۔ اسی طرح تمھارا مادۂ تخلیق اور بناوٹ کا فارمولا ایک ہی ہے مگر تمھارے رنگ اس قدر مختلف ہیں کہ قوم اور قوم تو درکنار ، ایک ماں باپ کے دو بیٹوں کا رنگ بھی بالکل یکساں نہیں ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کائنات کا خالق اپنی خلق کی ایک ایک چیز پر انفرادی توجہ صرف کر رہا ہے۔ اور تخلیق کائنات کے بعد وہ اس سے لا تعلق نہیں ہو گیا ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَمِنْ اٰيٰتِهٖ مَنَامُكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاۗؤُكُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ  23؀
وَمِنْ اٰيٰتِهٖ [اور اس کی نشانیوں میں سے ہے] مَنَامُكُمْ [تم لوگوں کی نیند] بِالَّيْلِ [رات میں] وَالنَّهَارِ [اور دن میں] وَابْتِغَاۗؤُكُمْ [اور تمہارا تلاش کرنا] مِّنْ فَضْلِهٖ ۭ [اس کے فضل میں سے] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک اس میں] لَاٰيٰتٍ [یقینا نشانیاں ہیں] لِّــقَوْمٍ [ایسے لوگوں کے لئے جو] يَّسْمَعُوْنَ [سنتے ہیں]۔



نوٹ۔1: انسان مسلسل محنت نہیں کرسکتا بلکہ ہر چند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کے لئے آرام درکار ہوتا ہے۔ اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر نیند کا ایک زبردست داعیہ رکھ دیا جو اس کے ادارے کے بغیر ، حتیٰ کہ اس کی مزاحمت کے باوجود، خودبخود اسے آ دبوچتا ہے اور آرام لینے پر اسے مجبور کر دیتا ہے۔ اور ضرورت پوری ہو جانے پر خودبخود اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا ہے۔ یہ قطعاً ایک پیدائشی چیز ہے جو آدمی کی فطرت اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق یہ تدبیر وضع کی ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔2: گذشتہ آیات میں تفکر اور علم کا ذکر ہوا تھا۔ یہاں سمع کا ذکر ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا درجہ پہلی دونوں چیزوں سے کم تر ہے لیکن حصول علم کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے۔ اگر ایک شخص میں اتنی معقولیت موجود ہو کہ وہ معقول لوگوں کی باتیں سنے تو اس راہ سے بھی اس کو ہدایت حاصل ہو سکتی ہے اگرچہ وہ کائنات کے نظام اور اس کے اسرار میں زیادہ تفکر کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ (تدبر قرآن)

وَمِنْ اٰيٰتِهٖ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَـعًا وَّيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَيُحْيٖ بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭاِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ  24؀
وَمِنْ اٰيٰتِهٖ [اور اس کی نشانیوں میں سے ہے] يُرِيْكُمُ [(کہ) وہ دکھاتا ہے تم لوگوں کو] الْبَرْقَ [بجلی] خَوْفًا [خوف کے لئے] وَّطَمَـعًا [اور آرزو کے لئے] وَّيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ [اور وہ اتارتا ہے آسمان سے] مَاۗءً [کچھ پانی] فَيُحْيٖ بِهِ [پھر وہ زندہ کرتا ہے اس سے] الْاَرْضَ [زمین کو] بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ [اس کے مردہ ہونے کے بعد] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک نشانیاں ہیں] لَاٰيٰتٍ [یقینا نشانیاں ہیں] لِّقَوْمٍ [ایسے لوگوں کے لئے جو] يَّعْقِلُوْنَ [عقل (استعمال ) کرتے ہیں]۔

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ  ۭ ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً  ڰ مِّنَ الْاَرْضِ ڰ اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ  25؀
وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ [اور اس کی نشانیوں میں سے ہے] اَنْ تَــقُوْمَ [کہ قائم ہیں] السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ [آسمان اور زمین ] بِاَمْرِهٖ ۭ [اس کے حکم سے] ثُمَّ اِذَا [پھر جب] دَعَاكُمْ [وہ پکارے گا تم لوگوں کو] دَعْوَةً ڰ [ایک (ہی) پکار] مِّنَ الْاَرْضِ ڰ (تو) زمین میں سے] اِذَآ اَنْتُمْ [جب ہی تم لوگ] تَخْرُجُوْنَ [نکل پڑو گے]۔

وَلَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ  26؀
وَلَهٗ مَنْ [اور اسی کا ہے وہ جو] فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [آسمانوں اور زمین میں ہے] كُلٌّ لَّهٗ [سارے اسی کی] قٰنِتُوْنَ [فرمانبرداری کرنے والے ہیں]۔

وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ  ۭ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ  27؀ۧ
وَهُوَ [اور وہ] الَّذِيْ [وہی ہے جو] يَبْدَؤُا [پہل کرتا ہے] الْخَــلْقَ [پیدا کرنے کی] ثُمَّ يُعِيْدُهٗ [پھر وہ واپس لائے گا اس کو] وَهُوَ اَهْوَنُ [اور یہ زیادہ آسان ہے] عَلَيْهِ ۭ [اس پر] وَلَهُ [اور اس کے لئے ہی ہے] الْمَثَلُ الْاَعْلٰى [اعلی ترین مثال (یعنی صفت)] فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ [آسمانوں اور زمین میں] وَهُوَ الْعَزِيْزُ [اور وہ ہی بالادست ہے] الْحَكِيْمُ [حکمت والا ہے]۔

ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ۭ هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۗءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْهِ سَوَاۗءٌ تَخَافُوْنَهُمْ كَخِيْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ  28؀
ضَرَبَ لَكُمْ [اس نے بیان کی تمہارے لئے] مَّثَلًا [ایک مثال] مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ۭ [تہارے جییؤں میں سے] هَلْ لَّكُمْ [کیا تمہارے لئے] مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ [اس میں سے جن کے مالک ہوئے تمہارے داہنے ہاتھ] مِّنْ شُرَكَاۗءَ [کوئی بھی شریک ہے] فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ [اس میں جو ہم نے روزی دی تم کو] فَاَنْتُمْ فِيْهِ [نتیجتاً تم لوگ اس میں] سَوَاۗءٌ [برابر ہو جاؤ] تَخَافُوْنَهُمْ [جیسے تمہارا ڈرنا] كَخِيْفَتِكُمْ [جیسے تمہارا ڈرنا] اَنْفُسَكُمْ ۭ [اپنے نفوس (یعنی اپنوں) سے] كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ [اس طرح ہم کھول کھول کر بیان کرتے ہیں] الْاٰيٰتِ [آیات کو] لِقَوْمٍ [ایسے لوگوں کے لئے جو] يَّعْقِلُوْنَ [عقل (استعمال) کرتے ہیں]۔

بَلِ اتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَهْوَاۗءَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ فَمَنْ يَّهْدِيْ مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ ۭ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ  29؀
بَلِ اتَّبَعَ الَّذِيْنَ [بلکہ پیروی کی ان لوگوں نے جنہوں نے] ظَلَمُوْٓا [ظلم کیا] اَهْوَاۗءَهُمْ [اپنی خواہشات کی] بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ [کسی علم کے بغیر] فَمَنْ يَّهْدِيْ [تو کون ہدایت دے گا] مَنْ [اسے جس کو] اَضَلَّ اللّٰهُ ۭ [گمراہ کیا اللہ نے] وَمَا لَهُمْ [اور نہیں ہے ان کے لئے] مِّنْ نّٰصِرِيْنَ [کوئی مدد کرنے والوں میں سے]۔

فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا   ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا   ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ  ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ  30؀ڎ
فَاَقِمْ [تو آپ
قائم رکھیں] وَجْهَكَ [اپنے چہرے کو] لِلدِّيْنِ [اس دین کے لئے] حَنِيْفًا ۭ [یکسو ہوتے ہوئے] فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ [(قائم رکھو) اللہ کی بخشی ہوئی اس ساخت اور ذہنی استعداد کو] فَطَرَ النَّاسَ [اس نے وجود بخشا لوگوں کو] عَلَيْهَا ۭ [جس پر] لَا تَبْدِيْلَ [کوئی بھی تبدیلی (جائز) نہیں ہے] لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ [اللہ کی تخلیق کے لئے] ذٰلِكَ [یہ] الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ [سیدھا دین ہے] وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ [اور لیکن لوگوں کے اکثر]لَا يَعْلَمُوْنَ [جانتے نہیں ہیں]۔

مُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ وَاتَّقُوْهُ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ  31؀ۙ
مُنِيْبِيْنَ [رخ کرنے والے ہوتے ہوئے] اِلَيْهِ [اس کی طرف] وَاتَّقُوْهُ [اور تقوی اختیار کرو اس کا] وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ [اور قائم رکھو نماز کو] وَلَا تَكُوْنُوْا [اور تم لوگ مت ہونا] مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ [شرک کرنے والوں میں سے]۔

مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا  ۭكُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ  32؀
مِنَ الَّذِيْنَ [ان لوگوں میں سے جنہوں نے] فَرَّقُوْا [الگ الگ کیا] دِيْنَهُمْ [اپنے دین (کی راہوں ) کو] وَكَانُوْا [اور ہوگئے] شِيَعًا ۭ [فرقے فرقے] كُلُّ حِزْبٍۢ [ہر گروہ] بِمَا [اس کے ساتھ ]لَدَيْهِمْ [ان کے پاس ہے]فَرِحُوْنَ [خوش ہے]۔



نوٹ۔1: مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کو شریک خدا جانتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے کہ یہ سب خدا کے غلام ہیں۔ چنانچہ وہ حج و عمرے کے موقع پر لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھے لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک یعنی ہم تیرے دربار میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ وہ خود اور جس چیز کا وہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں ہے۔ پس یہاں انھیں ایک ایسی مثال سے سمجھایا جا رہا ہے جو خود یہ اپنے نفس میں پائیں اور اچھی طرح غور و خوص کرسکیں۔ تو فرماتا ہے کہ کیا تم میں سے کوئی بھی اس پر راضی ہوگا کہ اس کے مال میں اس کے غلام شریک ہوں اور اسے یہ ڈر رہتا ہو کہ کہیں وہ تقسیم کر کے میری جائداد بانٹ نہ لے جائیں۔ پس جس طرح تم یہ بات اپنے لیئے پسند نہیں کرتے ، خدا تعالیٰ کے لئے بھی نہ چاہو۔ جس طرح غلام آقا کی ہمسری نہیں کرسکتا اسی طرح خدا کا کوئی بندہ خدا کا شریک نہیں ہو سکتا۔ (ابن کثیررحمۃا اللہ )

نوٹ۔2: فطرت اللہ کی وضاحت آیت ۔ 6/14 کے نوٹ۔2۔ میں کی جا چکی ہے۔ یہاں پر اتنا اور سمجھ لیں کہ فطرت اللہ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ کسی فعل محذوف کا مفعول ہے، جو کہ اقیموا ہوسکتا ہے۔

وَاِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُّنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ ثُمَّ اِذَآ اَذَاقَهُمْ مِّنْهُ رَحْمَةً اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُوْنَ 33؀ۙ
وَاِذَا مَسَّ [اور جب چھوتا ہے] النَّاسَ [لوگوں کو] ضُرٌّ [کوئی نقصان] دَعَوْا رَبَّهُمْ [تو وہ لوگ پکارتے ہیں رب کو]مُّنِيْبِيْنَ [رخ کرنے والے ہوتے ہوئے] اِلَيْهِ [اس کی طرف] ثُمَّ اِذَآ [پھر جب] اَذَاقَهُمْ [وہ چکھاتا ہے ان کو] مِّنْهُ [اپنے (پاس) سے] رَحْمَةً [کوئی رحمت] اِذَا فَرِيْقٌ [جب ہی ایک فریق] مِّنْهُمْ [ان میں سے ] بِرَبِّهِمْ [اپنے رب کا] يُشْرِكُوْنَ [شریک بناتے ہیں]۔

لِيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰهُمْ ۭ فَتَمَتَّعُوْا     ۪ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ 34؀
لِيَكْفُرُوْا [نتیجتاً وہ ناشکری کرتے ہیں] بِمَآ [اس کی جو] [اٰتَيْنٰهُمْ ۭ : جو ہم نے ان کو بخشی] [فَتَمَتَّعُوْا ۪ [تو تم لوگ فائدہ اٹھالو] فَسَوْفَ [پھر عنقریب] تَعْلَمُوْنَ [جان لو گے]۔

اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ يُشْرِكُوْنَ 35؀
اَمْ اَنْزَلْنَا [یا ہم نے اتارا] عَلَيْهِمْ [ان لوگوں پر] سُلْطٰنًا [کوئی دلیل] فَهُوَ [پھر وہ] يَتَكَلَّمُ [بولتی ہے] بِمَا [اس کے بارے میں] كَانُوْا بِهٖ يُشْرِكُوْنَ [یہ لوگ جس کو شریک کیا کرتے ہیں]۔

وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوْا بِهَا ۭ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ اِذَا هُمْ يَقْنَطُوْنَ  36؀
وَاِذَآ اَذَقْنَا [اور جب کبھی ہم چکھاتے ہیں] النَّاسَ [لوگوں کو] رَحْمَةً [کوئی رحمت] فَرِحُوْا [تو وہ لوگ خوش ہوتے ہیں] بِهَا ۭ [اس سے] وَاِنْ تُصِبْهُمْ [اور اگر آلگتی ہے ان کو] سَيِّئَةٌۢ [کوئی برائی] بِمَا [بسبب اس کے جو] قَدَّمَتْ [آگے بھیجا] اَيْدِيْهِمْ [ان کے ہاتھوں نے] اِذَا [جب ہی] هُمْ يَقْنَطُوْنَ [وہ لوگ مایوس ہوتے ہیں]۔

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِر ُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ  37؀
اَوَلَمْ يَرَوْا [اور کیا انھوں نے غور ہی نہیں کیا] اَنَّ اللّٰهَ [کہ اللہ] يَبْسُطُ [کشادہ کرتا ہے] الرِّزْقَ [رزق کو] لِمَنْ [اس کے لئے جس کے لئے] يَّشَاۗءُ [وہ چاہتا ہے] [وَيَقْدِر ُ ۭ : اور نپا تلا دیتا ہے (جس کے لئے چاہتا ہے] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک اس میں] لَاٰيٰتٍ [یقینا نشانیاں ہیں] لِّـقَوْمٍ [ایسے لوگوں کے لئے جو] يُّؤْمِنُوْنَ [ایمان لاتے ہیں]۔

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ ۡ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ 38؀
فَاٰتِ [پس تو دے] ذَا الْقُرْبٰى [قرابت والے کو] حَقَّهٗ [اس کا حق] وَالْمِسْكِيْنَ [اور مسکین کو] وَابْنَ السَّبِيْلِ ۭ [اور راستے کے بیٹے (مسافر) کو] ذٰلِكَ خَيْرٌ [یہ بہتر ہے] لِّــلَّذِيْنَ [ان کے لئے جو] يُرِيْدُوْنَ [چاہتے ہیں] وَجْهَ اللّٰهِ ۡ [اللہ کے چہرے (توجہ) کو] وَاُولٰۗىِٕكَ [اور وہ لوگ] هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ [ہی مراد پانے والے ہیں]۔

وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ  ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ  39؀
وَمَآ اٰتَيْتُمْ [اور جو تم لوگ دیتے ہو] مِّنْ رِّبًا [سود میں سے] لِّيَرْبُوَا۟ [تاکہ وہ بڑھے] فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ [لوگوں کے مالوں میں] فَلَا يَرْبُوْا [تو وہ نہیں بڑھتا] عِنْدَ اللّٰهِ ۚ [اللہ کے پاس] وَمَآ اٰتَيْتُمْ [اور جو لوگ دیتے ہو] مِّنْ زَكٰوةٍ [زکوٰۃ میں سے] تُرِيْدُوْنَ [چاہتے ہوئے] وَجْهَ اللّٰهِ [اللہ کے چہرے (توجہ) کو] فَاُولٰۗىِٕكَ [تو وہ لوگ] هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ [ہی بڑھانے والے ہیں]۔



نوٹ۔1: زیر مطالعہ آیت۔39۔ قرآن مجید میں پہلی آیت ہے جو سود کی مذمت میں نازل ہوئی۔ پھر مدینہ میں سود کی حرمت کا حکم نازل کیا گیا۔ اس آیت کی تفسیر میں دو اقوال ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہاں ربوا سے مراد وہ سود نہیں ہے جو شرعاً حرام کیا گیا ہے۔ بلکہ وہ عطیہ یا تحفہ ہے جو اس نیت سے دیا جائے کہ لینے والا بعد میں اس سے زیادہ واپس کرے گا یا کوئی مفید خدمات انجام دے گا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہی ربوا ہے جسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ہمارے خیال میں دوسری تفسیر صحیح ہے۔ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو بعد میں حرام کرنا ہوتا ہے، اس کے لئے وہ پہلے سے ذہنوں کو تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ شراب کے معاملے میں بھی پہلے صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ وہ پاکیزہ رزق نہیں ہے۔ (النحل ۔ 67) پھر فرمایا کہ اس کا گناہ اس کے فائدے سے زیادہ ہے (البقرہ۔ 219)۔ پھر حکم دیا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ (النسائ۔43) پھر اس کی قطعی حرمت کا فیصلہ کردیا گیا۔ اسی طرح یہاں سود کے متعلق صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ اس سے دولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوٰۃ سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد سود در سود کو منع کیا گیا (اٰل عمران۔130)۔ اور پھر بجائے خود سود کی ہی حرمت کا فیصلہ کردیا گیا (البقرہ۔275)۔ (تفہیم القرآن)



نوٹ۔2: اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہے جو رشتہ داروں میں چلتی ہے۔ عام طور پر رشتہ دار جو کچھ دوسرے کو دیتے ہیں تو اس پر نظر رکھتے ہیں وہ بھی ہمارے وقت پر کچھ دے گا بلکہ کچھ زیادہ دے گا۔ خصوصاً نکاح ، شادی وغیرہ کی تقریبات میں جو کچھ دیا جاتا ہے اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے جسے عرف میں نوتہ کہتے ہیں۔ اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ اہل قرابت کا جو حق ادا کرنے کا حکم پہلی آیت میں دیا گیا ہے ان کو یہ حق اس طرح دیا جائے کہ نہ احسان جتائے اور نہ بدلے پر نظر رکھے۔ جس نے بدلے کی نیت سے دیا کہ اس کا مال کچھ زیادتی لے کر واپس آئے گا تو اللہ کے نزدیک اس کا کوئی درجہ اور ثواب نہیں ہے۔ اور قرآن نے اس زیادتی کو لفظ ربوا سے تعبیر کر کے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ سود کی ایک صورت ہے۔ (معارف القرآن)

 راقم الحروف کی رائے میں یہ آیت ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ کیونکہ اس سے ایک طرف ایک بری رسم کی اصلاح بھی ہوتی ہے اور دوسری طرف سود کی حرمت کے لئے ذہن بھی تیار ہوتا ہے۔ اس لئے اس آیت کے دونوں مفہوم کو درست تسلیم کرنا چاہیے۔

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ۭ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ  40؀ۧ
اَللّٰهُ الَّذِيْ [اللہ وہ ہے جس نے] خَلَقَكُمْ [پیدا کیا تم کو] ثُمَّ رَزَقَكُمْ [پھر اس نے رزق دیا تم کو] ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ [پھر وہ موت دے گا تم کو] ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ۭ [پھر وہ زندہ کرے گا تم کو] هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ [کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی] مَّنْ [وہ ہے جو] يَّفْعَلُ [کرتا ہے] مِنْ ذٰلِكُمْ [اس میں سے] مِّنْ شَيْءٍ ۭ [کوئی بھی چیز (یعنی کام)] سُبْحٰنَهٗ [پاکیزگی اس کی ہے] وَتَعٰلٰى [اور وہ بلند ہوا] عَمَّا [اس سے جو] يُشْرِكُوْنَ [یہ لوگ شریک کرتے ہیں]۔

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ  41؀
ظَهَرَ الْفَسَادُ [ظاہر ہوا فساد] فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [خشکی اور سمندر میں] بِمَا كَسَبَتْ [بسبب اس کے جو کمایا] اَيْدِي النَّاسِ [لوگوں کے ہاتھوں نے]لِيُذِيْقَهُمْ [تاکہ وہ (اللہ) چکھائے ان کو] بَعْضَ الَّذِيْ [اس کا کچھ جو] عَمِلُوْا [انھوں نے عمل کئے]لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ [شاید وہ لوگ لوٹ آئیں]۔



نوٹ۔1: آیت ۔ 41۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو مصائب و آفات تم پر آتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمھارے گناہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ دنیا میں نہ ان گناہوں کا پورا بدلہ دیا جاتا ہے اور نہ ہر گنا ہ پر آفت آتی ہے بلکہ بہت سے گناہوں کو تو معاف کردیا جاتا ہے۔ اور جو معاف نہیں ہوتے ان کا بھی پورا بدلہ دنیا میں نہیں دیا جاتا ، بلکہ تھوڑا سا مزہ چکھا یا جاتا ہے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا لیذیقھم بعض الذی عملوا۔ اس کے علاوہ قرآن کریم نے جن آفات ومصائب کو گناہوں کا سبب قرار دیا ہے اس سے مراد وہ آفات و مصائب ہیں جو پوری دنیا پر یا پورے شہر پر عام ہو جائیں اور عام انسان یا جانور ان کے اثر سے نہ بچ سکیں۔ ایسی آفات و مصائب کا سبب عموماً لوگوں میں گناہوں کی کثرت ، خصوصاً اعلانیہ گناہ کرنا ہی ہوتا ہے۔ جبکہ انفرادی تکلیف و مصیبت میں یہ ضابطہ نہیں ہے بلکہ وہ کھبی کسی انسان کی آزمائش کرنے کے لئے بھی بھیجی جاتی ہیں۔ اور جب وہ اس آزمائش میں پورا اترتا ہے تو اس کے درجات آخرت میں بڑھ جاتے ہیں۔ یہ مصیبت درحقیقت اس کے لئے رحمت و نعمت ہوتی ہے۔ اس لئے انفرادی طور پر کسی کو مبتلائے مصیبت دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بہت گناہگار ہے۔ اسی طرح کسی کو عیش و آرام میں دیکھ کر یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ بڑا نیک صالح بزرگ ہے۔ البتہ عام مصائب و آفات جیسے قحط، طوفان، وبائی امراض، اشیاء ضرورت کی گرانی، چیزوں کی برکت کا مٹ جانا وغیرہ، اس کا اکثر اور بڑا سبب لوگوں کا اعلانیہ گناہ اور سرکشی ہوتی ہے ۔

 انفرادی مصائب و آفات نعمت و رحمت ہیں یا گناہوں کی کچھ سزا ہے، ان دونوں میں فرق کیسے پہچانا جائے۔ اس کی پہچان شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ نے یہ لکھی ہے کہ جو لوگ رفع و رجات یا کفارۂ سیئات مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے قلوب کو مطمئن کر دیتے ہیں اور وہ ان مصائب پر ایسے ہی راضی ہوتے ہیں جیسے بیمار کڑوی دوا یا آپریشن پر راضی ہوتا ہے۔ اور جو بطور سزا مبتلا کیے جاتے ہیں ان کی پریشانی اور جزع و فزع کی حد نہیں رہتی۔ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ نے ایک پہچان یہ بتائی ہے کہ جس مصیبت کے ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور توبہ و استغفار کی رغبت زیادہ ہو جائے وہ علامت اس کی ہے کہ یہ قہر نہیں بلکہ عنایت ہے اور جس کو یہ صورت نہ بننے بلکہ جزع و فزع بڑھ جائے وہ علامت قہر الٰہی کی ہے۔ (معارف قرآن۔ ج 6۔ ص 752 تا 757 سے ماخوذ)

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلُ ۭ كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّشْرِكِيْنَ  42؀
قُلْ [آپ
کہیے] سِيْرُوْا [تم لوگ گھومو پھرو] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] فَانْظُرُوْا [پھر دیکھو] كَيْفَ كَانَ [کیسا تھا] عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ [ان کا انجام جو] مِنْ قَبْلُ ۭ [پہلے تھے] كَانَ اَكْثَرُهُمْ [ان کے اکثر تھے] مُّشْرِكِيْنَ [شرک کرنے والے]۔

فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ الْقَيِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ يَوْمَىِٕذٍ يَّصَّدَّعُوْنَ  43؀
فَاَقِمْ [پس آپ
قائم رکھیں] وَجْهَكَ [اپنے چہرے کو] لِلدِّيْنِ الْقَيِّمِ [اس سیدھے دین کے لئے] مِنْ قَبْلِ اَنْ [اس سے پہلے کہ] يَّاْتِيَ [آئے] يَوْمٌ [ایک ایسا دن] لَّا مَرَدَّ [کوئی بھی لوٹانے کی جگہ (یعنی امکان) نہیں ہے] لَهٗ [جس کے لئے] مِنَ اللّٰهِ [اللہ (کی طرف) سے] يَوْمَىِٕذٍ [اس دن] يَّصَّدَّعُوْنَ [لوگ الگ الگ ہوں گے]۔

مَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُه  ٗ ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُوْنَ 44؀ۙ
مَنْ كَفَرَ [جس نے کفر کیا] فَعَلَيْهِ [تو اس پر ہے] كُفْرُه ٗ ۚ [اس کا کفر] وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا [اور جس نے عمل کیا نیکی کا] فَلِاَنْفُسِهِمْ [تو اپنی جانوں کے لئے]يَمْهَدُوْنَ [وہ لوگ آرام دہ بناتے ہیں]۔

لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ  45؀
لِيَجْزِيَ [تاکہ وہ (اللہ) بدلہ دے] الَّذِيْنَ [ان کو جو] اٰمَنُوْا [ایمان لائے] وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ [اور عمل کئے نیکیوں کے] مِنْ فَضْلِهٖ ۭ [اپنے فضل سے] اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ [بیشک وہ پسند نہیں کرتا ] الْكٰفِرِيْنَ [کفر کرنے والوں کو]۔

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ  46؀
وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ [اور اس کی نشانیوں میں سے ہے] اَنْ يُّرْسِلَ [کہ وہ بھیجتا ہے] الرِّيَاحَ [ہواؤں کو] مُبَشِّرٰتٍ [خوشخبری دینے والی ہوتے ہوئے] وَّلِيُذِيْقَكُمْ [اور تاکہ وہ چکھائے تم کو] مِّنْ رَّحْمَتِهٖ [اپنی رحمت میں سے] وَلِتَجْرِيَ [اور تاکہ رواں ہوں] الْفُلْكُ [کشتیاں] بِاَمْرِهٖ [اس کے حکم سے] وَلِتَبْتَغُوْا [اور تاکہ تم لوگ تلاش کرو] مِنْ فَضْلِهٖ [اس کے فضل میں سے (روزی)] وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ [اور شاید تم لوگ شکر ادا کرو]۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ فَجَــاۗءُوْهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا  ۭ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ  47؀
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا [اور یقینا ہم نے بھیجا ہے] مِنْ قَبْلِكَ [آپ
سے پہلے] رُسُلًا [رسولوں کو] اِلٰى قَوْمِهِمْ [ان کی قوم کی طرف] فَجَــاۗءُوْهُمْ [پھر وہ لوگ آئے ان کے پاس] بِالْبَيِّنٰتِ [واضح (نشانیوں) کے ساتھ] فَانْتَـقَمْنَا [پھر ہم نے انتقام لیا] مِنَ الَّذِيْنَ [ان لوگوں سے جنہوں نے] اَجْرَمُوْا ۭ [جرم کیا] وَكَانَ حَقًّا [اور واجب ہے] عَلَيْنَا [ہم پر] نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ [مومنوں کی نصرت کرنا]۔

اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهٗ فِي السَّمَاۗءِ كَيْفَ يَشَاۗءُ وَيَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ ۚ فَاِذَآ اَصَابَ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ 48؀ۚ
اَللّٰهُ الَّذِيْ [اللہ وہ ہے جو] يُرْسِلُ [بھیجتا ہے] الرِّيٰحَ [ہواؤں کو] فَتُثِيْرُ [تو وہ اوپر اٹھاتی ہیں] سَحَابًا [بادل کو] فَيَبْسُطُهٗ [پھر وہ (اللہ) پھیلاتا ہے اس کو] فِي السَّمَاۗءِ [آسمان میں] كَيْفَ يَشَاۗءُ [جیسے وہ چاہتا ہے] وَيَجْعَلُهٗ [اور وہ بناتا ہے اس کو] كِسَفًا [ٹکڑے ٹکڑے] [فَتَرَى : پھر تو دیکھتا ہے] الْوَدْقَ [بارش (کے قطرے) کو] يَخْرُجُ [وہ نکلتا ہے] مِنْ خِلٰلِهٖ ۚ [اس کی دراڑوں سے] فَاِذَآ [پھر جب] اَصَابَ بِهٖ [وہ پہنچتا ہے اسے] مَنْ [اس کے پاس جس کو] يَّشَاۗءُ [وہ چاہتا ہے] مِنْ عِبَادِهٖٓ [اپنے بندوں میں سے] اِذَا هُمْ [جب ہی وہ لوگ] يَسْتَبْشِرُوْنَ [خوشی مناتے ہیں]۔



ص ف ر

(س) صفرا زرد ہونا۔ پیلا ہونا۔

 اصفر مؤنث صفراء ج۔ صفر۔ افعل الوان و عیوب کے وزن پر صفت ہے۔ زرد رنگ والا یعنی رزد۔ پیلا۔ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاۗءُ (بیشک وہ ایک پیلی گائے ہے)۔ 2/69۔كَاَنَّهٗ جِمٰلَتٌ صُفْرٌ(گویا کہ وہ پہلے اونٹ ہیں) ۔ 77/33

(افعال) اصفرارا زرد ہو جانا۔ پیلا پڑ جانا۔

 مصفر اسم الفاعل۔ زرد ہونے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔51



نوٹ۔1: لفظ ریح واحد ہے اور ریاح اس کی جمع ہے۔ قرآن مجید میں ان دونوں الفاظ کے استعمال کے متعلق حافظ احمد یار صاحب مرحوم نے کہا ہے کہ انھوں نے کہیں پڑھا تھا کہ ریح کا لفظ عام طور پر ناموافق اور نقصان دہ ہوا کے لئے آیا ہے جبکہ ریاح کا لفظ عموماً موافق اور فائدہ مند ہوا کے لئے آیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ قاعدہ کس حد تک درست ہے۔ حافظ صاحب کا کیسٹ سننے کے بعد میں نے معجم سے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ یہ قاعدہ بڑی حد تک درست ہے۔ ریاح کا لفظ قرآن مجید میں دس مرتبہ آیا ہے۔ اس میں سے نو مرتبہ یہ واضح طور پر مفید ہواؤں کے لئے آیا ہے۔ صرف الکہف کی آیت ۔45۔ کو ہم مستثنیٰ کرسکتے ہیں لیکن یہاں بھی یہ لفظ نقصان دہ ہواؤں کے لئے نہیں بلکہ مجرد ہوا کے مفہوم میں آیا ہے۔ جبکہ ریح کا لفظ قرآن مجید میں =18= مرتبہ آیا ہے جس میں سے =13= مرتبہ واضح طور پر نقصان دہ ہواؤں کے لئے ہے۔ چار مرتبہ یہ لفظ مجرد ہواؤں کے مفہوم میں آیا ہے اور صرف ایک مرتبہ سورہ یونس کی آیت ۔ 22۔ میں بریح طیبۃ آیا ہے۔ اور وہ بھی کشتیوں کے چلنے کے ضمن میں آیا ہے۔ معلوم ہے کہ کشتی کے لئے ایک ہی رخ کی ہوا چاہیے لہٰذا ریح کے ساتھ طیبۃ کی صفت شامل کر دی گئی۔

وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمُبْلِسِيْنَ  49؀
وَاِنْ كَانُوْا [اور بیشک وہ تھے] مِنْ قَبْلِ اَنْ [اس سے پہلے کہ] يُّنَزَّلَ عَلَيْهِمْ [وہ (بارش) اتاری جاتی ان پر] مِّنْ قَبْلِهٖ [اس سے پہلے] لَمُبْلِسِيْنَ [یقینا انتہائی مایوس ہونے والے]۔

فَانْظُرْ اِلٰٓى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰهِ كَيْفَ يُـحْىِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ اِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتٰى ۚ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ  50؀
فَانْظُرْ [پس تو دیکھ] اِلٰٓى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰهِ [اللہ کی رحمت کے نشانات کی طرف] كَيْفَ يُـحْىِ [کیسے وہ زندہ کرتا ہے] الْاَرْضَ [زمین کو] بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ [اس کے مردہ ہونے کے بعد] اِنَّ ذٰلِكَ [بے شک وہ] لَمُحْيِ [یقینا زندہ کرنے والا ہے] الْمَوْتٰى ۚ [مردوں کو] وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [اور وہ ہر چیز پر] قَدِيْرٌ [قدرت رکھنے والا ہے]۔

وَلَىِٕنْ اَرْسَلْنَا رِيْحًا فَرَاَوْهُ مُصْفَرًّا لَّظَلُّوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ يَكْفُرُوْنَ  51؀
وَلَىِٕنْ اَرْسَلْنَا [اور بیشک اگر ہم بھیج دیں] رِيْحًا [ایک ہوا] فَرَاَوْهُ [پھر وہ دیکھیں اس (سرسبز زمین کو) [ مُصْفَرًّا : پیلا پڑتے ہوئے] لَّظَلُّوْا [تو یقینا وہ لوگ رہ جائیں گے] مِنْۢ بَعْدِهٖ [اس کے بعد] يَكْفُرُوْنَ [ناشکری کرتے ہوئے]۔

فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ  52؀
فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ [پس بیشک آپ
نہیں سناتے] الْمَوْتٰى [مردوں کو] وَلَا تُسْمِعُ [اور آپ نہیں سناتے] الصُّمَّ [بہروں کو] الدُّعَاۗءَ [پکار] اِذَا وَلَّوْا [جب وہ (منہ) پھیرتے ہیں] مُدْبِرِيْنَ [پیٹھ دینے والے ہوتے ہوئے]۔

وَمَآ اَنْتَ بِهٰدِي الْعُمْىِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ ۭ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ 53؀ۧ
وَمَآ اَنْتَ [اور آپ
نہیں ہیں] بِهٰدِي الْعُمْىِ [اندھوں کو راہ سجھانے والے] عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ ۭ [ان کی گمراہی سے] اِنْ تُسْمِعُ [آپ نہیں سناتے] اِلَّا مَنْ [مگر اس کو جو] يُّؤْمِنُ [ایمان لاتا ہے] بِاٰيٰتِنَا [ہماری آیت پر] فَهُمْ [تو وہی] مُّسْلِمُوْنَ [فرمانبرداری کرنے والے ہیں]۔

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ 54؀
اَللّٰهُ الَّذِيْ [اللہ وہ ہے جس نے] خَلَقَكُمْ [پیدا کیا تم تو] مِّنْ ﮨـعْفٍ [کمزوری سے (کمزور)] ثُمَّ جَعَلَ [پھر اس نے بنایا] مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ [کمزوری کے بعد] قُوَّةً [قوت (طاقتور)] ثُمَّ جَعَلَ [پھر اس نے بنایا] مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ [قوت کے بعد] ﮨـعْفًا [کمزوری] وَّشَيْبَةً ۭ [اور بڑھاپا] يَخْلُقُ [وہ پیدا کرتا ہے] مَا [وہ جو] يَشَاۗءُ ۚ [وہ چاہتا ہے] وَهُوَ الْعَلِيْمُ [اور وہ ہی جاننے والا ہے] الْقَدِيْرُ [قدرت والا ہے]۔

وَيَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ يُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ڏ مَا لَبِثُوْا غَيْرَ سَاعَةٍ ۭ كَذٰلِكَ كَانُوْا يُؤْفَكُوْنَ  55؀
وَيَوْمَ [اور جس دن] تَــقُوْمُ السَّاعَةُ [قائم ہوگی وہ گھڑی (قیامت)] يُـقْسِمُ [قسمیں کھائیں گے] الْمُجْرِمُوْنَ ڏ [مجرم لوگ] مَا لَبِثُوْا [(کہ) وہ نہیں ٹھہرے] غَيْرَ سَاعَةٍ ۭ [سوائے ایک گھڑی کے] كَذٰلِكَ [اس طرح] كَانُوْا يُؤْفَكُوْنَ [وہ الٹے پھیرے جاتے تھے]۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِيْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ اِلٰى يَوْمِ الْبَعْثِ ۡ فَھٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ  56؀
وَقَالَ الَّذِيْنَ [اور وہ لوگ کہیں گے جن کو] اُوْتُوا [دیا گیا تھا] الْعِلْمَ وَالْاِيْمَانَ [علم اور ایمان] لَقَدْ لَبِثْتُمْ [یقینا تم لوگ ٹھہر چکے ہو] فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ [اللہ کی کتاب (ریکارڈ) میں] اِلٰى يَوْمِ الْبَعْثِ ۡ [اٹھائے جانے کے دن تک] فَھٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ [تو یہ اٹھائے جانے کا دن ہے] وَلٰكِنَّكُمْ [اور لیکن تم لوگ]كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ [نہیں جانتے تھے]۔

فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ  57؀
فَيَوْمَىِٕذٍ [تو اس دن] لَّا يَنْفَعُ [نفع نہیں دے گی] الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا [ان کی جنہوں نے ظلم کیا] مَعْذِرَتُهُمْ [ان کی معذرت] وَلَا هُمْ [اور نہ وہ لوگ]يُسْتَعْتَبُوْنَ [منائے جائیں گے]۔

وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِيْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ ۭ وَلَىِٕنْ جِئْتَهُمْ بِاٰيَةٍ لَّيَقُوْلَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُبْطِلُوْنَ  58؀
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا [اور بیشک ہم نے بیان کیا ہے] لِلنَّاسِ [لوگوں کے لئے] فِيْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ [اس قرآن میں] مِنْ كُلِّ مَثَلٍ ۭ [ہر ایک (طرح کی) مثال] وَلَىِٕنْ جِئْتَهُمْ [اور بیشک اگر آپ
لائیں گے ان کے پاس] بِاٰيَةٍ [کوئی نشانی] لَّيَقُوْلَنَّ [تو لازما کہیں گے] الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا [وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا] اِنْ اَنْتُمْ [نہیں ہو تم لوگ] اِلَّا مُبْطِلُوْنَ [مگر ناحق کرنے والے]۔

كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ  59؀
كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ [اس طرح چھاپ لگا دیتا ہے اللہ] عَلٰي قُلُوْبِ الَّذِيْنَ [ان لوگوں کے دلوں پر جو]لَا يَعْلَمُوْنَ [علم نہیں رکھتے]۔

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُوْنَ  60؀ۧ
فَاصْبِرْ [پس آپ
ثابت قدم رہیں] اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ [یقینا اللہ کا وعدہ برحق ہے] وَّلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ [اور ہرگز ہلکا سمجھیں آپ کو] الَّذِيْنَ [وہ لوگ جو] لَا يُوْقِنُوْنَ [یقین نہیں رکھتے]۔



نوٹ۔1: کسی کو اپنی قوت و صلاحیت اور اپنے اسباب و وسائل پر ناز نہیں ہونا چاہیے۔ جو کچھ بھی انسان کو ملتا ہے سب خدا کا ہی دیا ہوا ملتا ہے پھر اسی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ تم اپنے وجود پر ہی غور کرو۔ اللہ تعالیٰ کمزور ناتواں حالت میں تم کو وجود بخشتا ہے۔ اس کے بعد پھر جوانی کی توانائیاں اور صلاحتیں عطا فرماتا ہے۔ اس کے بعد پھر بڑھاپے کی صورت میں نا توانی کا دور عود کر آتا ہے۔ کسی کے امکان میں نہیں ہے کہ اپنی جوانی اور طاقت کو برقرار رکھ سکے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: آخری آیت کا مطلب یہ ہے کہ نہ کسی قیمت پر تمھیں خریدا جا سکے ، نہ کسی فریب سے تمھیں پھسلایا جا سکے، نہ کوئی خطرہ یا نقصان تمھیں اپنی راہ سے ہٹا سکے اور نہ دین کے معاملہ میں کسی لین دین کا سودا تم سے چکایا جا سکے۔ یہ سارا مضمون اللہ تعالیٰ کے کلام بلاغت نظام نے اس ذرا سے فقرے میں سمیٹ دیا کہ ’’ یہ بے یقین لوگ تم کو ہلکا نہ پائیں۔‘‘ (تفہیم القرآن)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

الۗمّۗ  Ǻ۝ۚ
الۗمّۗ

تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ Ą۝ۙ
تِلْكَ [یہ] اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ [حکمت والی کتاب کی آیات ہیں]۔

هُدًى وَّرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِيْنَ  Ǽ۝ۙ
هُدًى وَّرَحْمَةً [ہدایت اور رحمت ہوتے ہوئے] لِّلْمُحْسِنِيْنَ [بلا کم و کاست نیکی کرنے والوں کے لئے]۔

الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ Ć ۝ۭ
الَّذِيْنَ [وہ لوگ جو] يُقِيْمُوْنَ [قائم رکھتے ہیں] الصَّلٰوةَ [نماز کو] وَيُؤْتُوْنَ [اور پہنچاتے ہیں] الزَّكٰوةَ [زکوۃ کو] وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ [اور وہ لوگ ہی آخرت پر] هُمْ يُوْقِنُوْنَ [یقین رکھتے ہیں]۔



نوٹ۔1: آیت ۔ 4۔ میں زکوٰۃ کا حکم ہے حالانکہ یہ آیت مکی ہے۔ اس سے اور سورہ مزمل سے بھی معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کا حکم مکہ میں ہجرت سے پہلے آچکا تھا۔ البتہ ہجرت کے دوسرے سال میں نصابوں کا تقرر اور مقدار واجب کی تفصیلات اور حکومت کی طرف سے اس کی وصولیاں اور خرچ کرنے کا انتظام ہے۔ (معارف القرآن)

اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ  Ĉ۝
اُولٰۗىِٕكَ [وہ لوگ] عَلٰي هُدًى [ہدایت پر ہیں] مِّنْ رَّبِّهِمْ [اپنے رب (کی طرف) سے] وَاُولٰۗىِٕكَ [اور وہ لوگ] هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ [ہی مراد پانے والے ہیں]۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ ڰ وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًا  ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ  Č۝
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ [اور لوگوں میں سے وہ بھی ہیں جو] يَّشْتَرِيْ [خریدتے ہیں] لَهْوَ الْحَدِيْثِ [بات کے کھیل (فضولیات) کو] لِيُضِلَّ [تاکہ وہ گمراہ کریں] عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [اللہ کی راہ سے] بِغَيْرِ عِلْمٍ ڰ [کسی علم کے بغیر] وَّيَتَّخِذَهَا [اور تاکہ وہ بنائیں اس (راہ) کو] هُزُوًا ۭ [مذاق کا نشانہ ] اُولٰۗىِٕكَ [وہ لوگ ہیں] لَهُمْ [جن کے لئے] عَذَابٌ مُّهِيْنٌ [رسوا کرنے والا عذاب ہے]۔



نوٹ۔2: آیت ۔ 6۔ میں من یشتری لھوالحدیثآیا ہے۔ اشتراء کے لغوی معنی خریدنے کے ہیں اور بعض اوقات ایک کام کے بدلے دوسرے کام کو اختیار کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جسیے الذین استروا الضللۃ بالھدٰی۔ اور لھو الحدیث میں لفظ حدیث تو باتوں اور قصے کہانیوں کے لئے آیا ہے۔ اور لھوکے لفظی معنی غفلت میں پڑنے کے ہیں ۔ جو چیزیں انسان کو ضروری کاموں سے غفلت میں ڈال دیں وہ لھو کہلاتی ہیں۔ جمہور صحابہ و تابعین اور عامہ مفسرین کے نزدیک لھو الحدیث عام ہے تمام ان چیزوں کے لئے جو انسان کو اللہ کی عبادت اور یاد سے غفلت میں ڈالے۔ مذموم اور ممنوع وہ لھو اور کھیل ہے جس میں کوئی دینی و دنیوی فائدہ نہ ہو۔ جو کھیل بدن کی ورزش ، صحت اور تندرستی باقی رکھنے کے لئے کیا جائے یا کم از کم طبیعت کی تھکان دور کرنے کے لئے ہوں، ہو ایسے کھیل شرعاً مباح ہیں اور دینی ضرورت کی نیت سے ہوں تو ثواب بھی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان میں غلونہ کیا جائے اور ان ہی کو مشغلہ نہ بنایا جائے کہ ضروری کاموں میں ان سے حرج پڑنے لگے۔ (معارف القرآن۔ ج 7۔ ص 19 تا 23 سے ماخوذ)

خٰلِدِيْنَ فِيْهَا  ۭ وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا  ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ  ۝
خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ [ہمیشہ رہنے والے اس میں] وَعْدَ اللّٰهِ [(یقینا ) اللہ کا وعدہ] حَقًّا ۭ [(ہوچکا) برحق] وَهُوَ الْعَزِيْزُ [اور وہ ہی بالادست ہے] الْحَكِيْمُ [حکمت والا ہے]۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۭ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ   10؀
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ [اس نے پیدا کیا آسمانوں کو] بِغَيْرِ عَمَدٍ [ایسے ستونوں کے بغیر] تَرَوْنَهَا [تم لوگ دیکھو جن کو] وَاَلْقٰى [اور اس نے ڈالے] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] رَوَاسِيَ [کچھ پہاڑ] اَنْ [کہ کہیں] تَمِيْدَ بِكُمْ [وہ لرزے تمہارے ساتھ] وَبَثَّ [اور اس نے پھیلائے] فِيْهَا [اس میں] مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۭ [ہر چلنے والے جاندار میں سے] وَاَنْزَلْنَا [اور ہم نے اتارا] مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً [آسمان سے کچھ پانی] فَاَنْۢبَتْنَا [پھر ہم نے اگایا] فِيْهَا [اس (زمین) میں]مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ [ہر ایک نفیس و پاکیزہ جوڑے میں سے]۔

ھٰذَا خَلْقُ اللّٰهِ فَاَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ  11۝ۧ
ھٰذَا [یہ] خَلْقُ اللّٰهِ [اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے] فَاَرُوْنِيْ [تو تم لوگ دکھاؤ مجھ کو] مَاذَا [کیا] خَلَقَ [پیدا کیا] الَّذِيْنَ [ان لوگوں نے جو] مِنْ دُوْنِهٖ ۭ [اس کے سوا ہیں] بَلِ الظّٰلِمُوْنَ [بلکہ ظلم کرنے والے] فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ [کھلی گمراہی میں ہیں]۔

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ ۭ وَمَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ   12 ؀
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا [اور بیشک ہم دے چلے] لُقْمٰنَ [لقمان کو] الْحِكْمَةَ [دانائی ] اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ ۭ [کہ تو کر شکر اللہ کا] وَمَنْ يَّشْكُرْ [اور جو شکر کرتا ہے] فَاِنَّمَا [تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] يَشْكُرُ [وہ شکر کرتا ہے] لِنَفْسِهٖ ۚ [اپنی ہی جان (کے بھلے) کے لئے] وَمَنْ كَفَرَ [اور جو ناشکری کرتا ہے] فَاِنَّ اللّٰهَ [تو بیشک اللہ] غَنِيٌّ [بے نیاز ہے]حَمِيْدٌ [حمد کیا ہوا ہے]۔



نوٹ۔1: حضرت لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے ان کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا۔ ہجرت سے تین سال پہلے مدینہ کا پہلا شخص جو رسول اللہ
سے متاثر ہوا ہو سویدہ بن صامت تھا۔ وہ حج کے لئے گیا تو اس نے رسول اللہ کی تقریر سنی۔ اس نے آپ سے کہا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی موجود ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے۔ اس نے کہا مجلۂ لقمان۔ پھر آپ کی فرمائش پر اس نے اس کا کچھ حصہ آپ کو سنایا۔ آپ نے فرمایا یہ بہت اچھا کلام ہے مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بہتر ہے۔ پھر آپ نے اسے قرآن سنایا۔ اس نے اعتراف کیا کہ بلاشبہ مجلۂ لقمان سے بہتر ہے۔ پھر جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ عرصہ بعد جنگ بعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا (تفہیم القرآن)

وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَهُوَ يَعِظُهٗ يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ  13 ؀
وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ [اور جب کہا لقمان نے] لِابْنِهٖ [اپنے بیٹے سے] وَهُوَ [اس حال میں کہ وہ] يَعِظُهٗ [نصیحت کر رہا تھا اس کو] يٰبُنَيَّ [اسے میرے بچے] لَا تُشْرِكْ [تو شریک مت کرنا] بِاللّٰهِ ڼ [اللہ کے ساتھ (کسی کو)] اِنَّ الشِّرْكَ [بیشک شرک] لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ [یقینا ایک عظیم ظلم ہے]۔



نوٹ۔2: حضرت لقمان کی نصیحتوں کے درمیان میں یعنی آیت۔15۔ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم بیان فرمایا کہ اگرچہ ہم نے اولاد کو ماں باپ کی اطاعت اور خدمت کی بڑی تاکید کی ہے لیکن شرک ایک ایسا ظلم عظیم ہے کہ وہ ماں باپ کے مجبور کرنے سے بھی جائز نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو اس کے والدین اللہ تعالیٰ کے سا تھ کسی کو شریک قرار دینے پر مجبور کریں تو اس معاملہ میں والدین کا کہنا ماننا بھی جائز نہیں ہے۔ مگر دنیا کے کاموں میں مثلاً ان کی جسمانی خدمت میں یامالی اخراجات میں کمی نہ ہونے دو اور نہ بےادبی کرو۔ مطلب یہ ہے کہ شرک کے معاملہ میں ان کا کہنا ماننے سے جوان کی دل آزاری ہوگی وہ تو مجبوری کے لئے برداشت کرو مگر ضرورت کو ضرورت کی حد میں رکھو اور دوسرے معاملات میں ان کی دل آزاری سے پرہیز کرو۔ (معارف القرآن)

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ  ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ   14؀
وَوَصَّيْنَا [اور ہم نے تاکید کی] الْاِنْسَانَ [انسان کو] بِوَالِدَيْهِ ۚ [اس کے والدین کے بارے میں] حَمَلَتْهُ [اٹھایا اس کو] اُمُّهٗ [اس کی ماں نے] وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ [تکلیف پر تکلیف جھیلتے ہوئے] وَّفِصٰلُهٗ [اور اس کا دودھ چھڑانا ] فِيْ عَامَيْنِ [دو سالوں میں] اَنِ اشْكُرْ لِيْ [کہ تو کر شکر میرا] وَلِوَالِدَيْكَ ۭ [اور اپنے والدین کا] اِلَيَّ الْمَصِيْرُ [میری طرف ہی لوٹنا ہے]۔

وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙفَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا ۡ وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ   15؀
وَاِنْ جَاهَدٰكَ [اور اگر وہ دونوں کشمکش کریں تجھ سے] عَلٰٓي اَنْ [اس (بات) پر کہ] تُشْرِكَ بِيْ [تو شریک کرے میرے ساتھ] مَا [اس کو] لَيْسَ لَكَ [نہیں ہے تیرے لئے] بِهٖ [جس کے بارے میں] عِلْمٌ ۙ[کوئی علم] فَلَا تُطِعْهُمَا [تو تو اطاعت مت کر ان دونوں کی] وَصَاحِبْهُمَا [اور اس دونوں کے ساتھ رہ] فِي الدُّنْيَا [دنیا میں] مَعْرُوْفًا ۡ [بھلے طریقے سے] وَّاتَّبِعْ [اور تو پیروی کر] سَبِيْلَ مَنْ [اس کے راستے کی جس نے] اَنَابَ [رخ کیا]۔ اِلَيَّ ۚ [میری طرف] ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ [پھر میری طرف ہی تم لوگوں کا لوٹنا ہے] فَاُنَبِّئُكُمْ [تو میں جتلا دوں گا تم لوگوں کو] بِمَا [وہ جو] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [تم لوگ کیا کرتے تھے]۔

يٰبُنَيَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ   16؀
يٰبُنَيَّ [اے میرے بچے] اِنَّهَآ [حقیقت یہ ہے کہ ] اِنْ تَكُ [اگر وہ (برائی) ہوگی] مِثْقَالَ حَبَّةٍ [ایک دانے کے ہم وزن] مِّنْ خَرْدَلٍ [رائی میں سے] فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَةٍ [پھر وہ ہو کسی چٹان میں] اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ [یا آسمانوں میں] اَوْ فِي الْاَرْضِ [یا زمین میں] يَاْتِ بِهَا [لے آئے گا اس کو] اللّٰهُ ۭ [اللہ] اِنَّ اللّٰهَ [یقینا اللہ] لَطِيْفٌ [باریک بین ہے] خَبِيْرٌ [با خبر ہے]۔

وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ  19؀ۧ
وَاقْصِدْ [اور تو میانہ روی اختیار کر] فِيْ مَشْيِكَ [اپنی چال میں] وَاغْضُضْ [اور تو پست رکھ] مِنْ صَوْتِكَ ۭ [اپنی آواز میں سے] اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ [بیشک آوازوں کی بدترین ] لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ [یقینا گدھوں کی آواز ہے]



نوٹ۔1: آیت۔19۔ میں ہے کہ چال میں میانہ روی اختیار کرو۔ سباق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں چلنے کی تیز یا سست رفتار پر بحث نہیں ہے۔ آدمی کو جلدی کا کوئی کام ہو تو تیز کیوں نہ چلے۔ اور اگر وہ محض تفریحاً چل رہا ہے تو آہستہ چلنے میں کیا قباحت ہے۔ دراصل جو چیز یہاں مقصود ہے وہ نفس کی اس کیفیت کی اصلاح ہے جس کے اثر سے چال میں اکڑ یا مسکینی کا ظہور ہوتا ہے دولت، اقتدار، حسن، علم، طاقت وغیرہ انسان کے اندر تکبر پیدا کرتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اس کی چال کا ایک مخصوص ٹائپ پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس چال میں مسکینی کا ظہور بھی کسی مذموم نفسی کیفیت کے اثر سے ہوتا ہے۔ کبھی انسان کے نفس کا مخفی تکبر ایک نمائشی تواضع اور دکھاوے کی درویشی کا روپ دھارتا ہے اور یہ چیز اس کی چال میں نمایاں نظر آتی ہے۔ اور کبھی انسان حالات سے شکست کھا کر اور اپنی نگاہ میں آپ حقیر ہوکر مریل چلنے لگتا ہے، لقمان کی نصیحت کامنشایہ ہے کہ اپنے نفس کی ان کیفیات کو دور کرو اور ایک معقول انسان کی سی چال چلو۔ (تفہیم القرآن)

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً ۭ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ  20؀
اَلَمْ تَرَوْا [کیا تم لوگوں نے غور نہیں کیا] اَنَّ اللّٰهَ [کہ اللہ نے] سَخَّرَ لَكُمْ [مسخر کیا تمہارے لئے] مَّا فِي السَّمٰوٰتِ [اس کو جو آسمانوں میں ہے] وَمَا فِي الْاَرْضِ [اور اس کو جو زمین میں ہے] وَاَسْبَغَ [اور اس نے تمام کیں] عَلَيْكُمْ [تم لوگوں پر] نِعَمَهٗ [اپنی نعمتیں] ظَاهِرَةً [ظاہری ہوتے ہوئے] وَّبَاطِنَةً ۭ [اور باطنی ہوتے ہوئے] وَمِنَ النَّاسِ مَنْ [اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو] يُّجَادِلُ [مناظرہ کرتے ہیں] فِي اللّٰهِ [اللہ (کے بارے) میں] بِغَيْرِ عِلْمٍ [کی علم کے بغیر] وَّلَا هُدًى [اور نہ کسی ہدایت سے] وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ [اور نہ کسی روشن کتاب سے]۔



س ب غ

(ن) سبوغا کسی چیز کا فراخ اور وسیع ہونا۔ دراز ہونا۔

 سابغ اسم الفاعل اور دراز ہونا۔ پھر مجازا پوری اور مکمل زرہ کے لئے آتا ہے۔ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ . اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ (اور ہم نے نرم کیا اس کے لئے لوہے کو کہ تو عمل کر یعنی بنا کشادہ زر ہیں)۔34:10،11

(افعال) اسباغا کسی چیز کو وسیع کرنا۔ مکمل کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 20۔



نوٹ۔1: کسی چیز کو کسی کے لئے مسخر کرنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ چیز اس کے تابع کر دی جائے اور اسے اختیار دے دیا جائے کہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ دوسرے یہ کہ اس چیز کہ ایسے ضابطہ کا پابند کردیا جائے جس کی بدولت وہ اس شخص کے لئے نافع ہو جائے اور اس کے مفاد کی خدمت کرتی رہے۔ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ایک ہی معنی میں مسخر نہیں کیا بلکہ بعض چیزیں پہلے معنی میں مسخر ہیں اور بعض دوسرے معنی میں مثلاً ہو ا، پانی ، آگ ، مٹی ، نباتات ، معدنیات، مویشی وغیرہ بےشمار چیزیں پہلے معنی میں ہمارے لئے مسخر ہیں اور چاند ، سورج وغیرہ دوسرے معنی میں۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔2: ا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ظاہری و مادی بھی ہیں اور عقلی و روحانی بھی۔ شکل و صورت، ہاتھ پاؤں، غذا لباس اور اس قبیل کی دوسری تمام چیزیں بھی اس کی بخشی ہوئی ہیں اور سمع و بصر، عقل و ادراک اور ہدایت کی نعمتیں بھی اسی کی عطا کردہ ہیں۔ ان میں سے کسی چیز کے متعلق کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ خدا کے سوا کسی اور سے اس کو ملی ہیں یا کوئی دوسرا ان کے ملنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ تو جب تمام نعمتوں کو بخشنے والا اللہ ہی ہے تو بندے کی تمام شکر گزاری کا حق دار بھی وہی ہوا۔ کوئی دوسرا اس کے اس حق میں کس طرح ساجھی بن سکتا ہے۔ (تدبر قرآن)

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا ۭ اَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطٰنُ يَدْعُوْهُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِ  21؀
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ [اور جب کہا جاتا ہے ان لوگوں سے] اتَّبِعُوْا [تم لوگ پیروی کرو] مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ [اس کی جو نازل کیا اللہ نے] قَالُوْا [تو وہ لوگ کہتے ہیں] بَلْ نَتَّبِعُ [بلکہ ہم پیروی کرتے ہیں] مَا [اس کی] وَجَدْنَا [ہم نے پایا] عَلَيْهِ [جس پر] اٰبَاۗءَنَا ۭ [اپنے باپ دادا کو] اَوَلَوْ [اور کیا اگر] كَانَ [ہو] الشَّيْطٰنُ [شیطان (کہ)] يَدْعُوْهُمْ [وہ بلاتا ہو ان کو] اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِ [شعلوں والی آگ کے عذاب کی طرف]۔

وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْهَهٗٓ اِلَى اللّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۭ وَاِلَى اللّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ  22؀
وَمَنْ يُّسْلِمْ [اور جو تابعدار کرتا ہے] وَجْهَهٗٓ [اپنے چہرے (شخصیت) کو] اِلَى اللّٰهِ [اللہ کی طرف] وَهُوَ [اس حال میں کہ وہ] مُحْسِنٌ [حسن دینے والا ہے (نیکی کو)] فَقَدِ اسْتَمْسَكَ [تو وہ چمٹ گیا ہے] بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۭ [انتہائی مضبوط کنڈے سے] وَاِلَى اللّٰهِ [اور اللہ ہی کی طرف] عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ [تمام معاملات کا انجام ہے]۔

وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهٗ ۭ اِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ 23؀
وَمَنْ كَفَرَ [اور جس نے انکار کیا] فَلَا يَحْزُنْكَ [تو غمگین مت کرے آپ
کو] كُفْرُهٗ ۭ [اس کا انکار کرنا] اِلَيْنَا [ہماری طرف ہی] مَرْجِعُهُمْ ان سب کا لوٹنا ہے] فَنُنَبِّئُهُمْ [تو ہم جتا دیں گے ان کو] بِمَا عَمِلُوْا ۭ [وہ جو انہوں نے عمل کئے] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] عَلِيْمٌۢ [جاننے والا ہے]بِذَاتِ الصُّدُوْرِ [سینوں والی (باتوں) کو]۔

نُمَـتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ  24؀
نُمَـتِّعُهُمْ [ہم برتنے کا سامان دیں گے] قَلِيْلًا [ان کو تھوڑا سا] ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ [پھر ہم مجبور کریں گے ان کو] اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ [ایک گاڑھے عذاب کی طرف]۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ۭ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ  25؀
وَلَىِٕنْ [اور بیشک اگر] سَاَلْتَهُمْ [آپ
پوچھیں ان سے] مَّنْ [کس نے] خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ [پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو] لَيَقُوْلُنَّ [تو یہ لوگ لازما کہیں گے] اللّٰهُ ۭ [اللہ نے] قُلِ [آپ کہیے] الْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ [تمام شکر و سپاس اللہ کے لئے ہے] بَلْ اَكْثَرُهُمْ [بلکہ (لیکن) ان کی اکثریت] لَا يَعْلَمُوْنَ [جانتی نہیں ہے]۔

لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ  26؀
لِلّٰهِ [اللہ ہی کا ہے] مَا [ وہ جو] فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [آسمانوں اور زمین میں ہے] اِنَّ اللّٰهَ [یقینا اللہ] هُوَ الْغَنِيُّ [ہی بےنیاز ہے] الْحَمِيْدُ [حمد کیا ہوا ہے]۔

وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ   27؀
وَلَوْ اَنَّ [اور اگر یہ (ہوتا) کہ] مَا [جو] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] مِنْ شَجَـرَةٍ [(از قسم) درخت میں سے ہے وہ] اَقْلَامٌ [قلم ہوتے] وَّالْبَحْرُ [اور سمندر (روشنائی ہوتا)] يَمُدُّهٗ [بڑھاتے اس کو] مِنْۢ بَعْدِهٖ [اس کے بعد] سَبْعَةُ اَبْحُرٍ [سات سمندر] مَّا نَفِدَتْ [تو ختم نہیں ہوں گے] كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ [اللہ کے فرمان] اِنَّ اللّٰهَ [یقینا اللہ]عَزِيْزٌ [بالادست ہے] حَكِيْمٌ [حکمت والا ہے]۔



ترکیب: (آیت۔ 27) لو شرطیہ ہے۔ ما فی الارض سے سبعۃ ابحر تک شرط ہے اور ما نفدت کلمت اللہ جواب شرط ہے۔ شرط میں ما فی الارض من شجرۃ صلہ موصول مل کر مبتدا ہے اور اقلام اس کی خبر ہے۔ البحرمبتدا ثانی ہے اور اس کی خبر مدادمحذوف ہے۔ یمد کا فاعل سبعۃ ابحرہے اور ہ کی ضمیر مفعولی البحرکے لئے ہے۔ جواب شرط ہونے کی وجہ سے فعل ماضی نفدت کا ترجمہ مستقبل میں ہو گا۔

مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ  28؀
مَا [نہیں ہے] خَلْقُكُمْ [تم لوگوں کا پید کرنا] وَلَا بَعْثُكُمْ [اور نہ ہی تمہارا اٹھانا] اِلَّا [مگر] كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ [ایک جان (کو پیدا کرنے اور اٹھانے) کی مانند] اِنَّ اللّٰهَ [یقینا اللہ] سَمِيْعٌۢ [سننے والا] بَصِيْرٌ [سیکھنے والا ہے]۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُوْ لِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْ لِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۡ كُلٌّ يَّجْرِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّاَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ   29؀
اَلَمْ تَرَ [کیا تو نے غور نہیں کیا] اَنَّ اللّٰهَ [کہ اللہ] يُوْ لِجُ [گھساتا ہے] الَّيْلَ فِي النَّهَارِ [رات کو دن میں] وَيُوْ لِجُ [اور وہ گھساتا ہے] النَّهَارَ فِي الَّيْلِ [دن کو رات میں] وَسَخَّــرَ [اور اس نے مسخر کیا] الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۡ [سورج کو اور چاند کو] كُلٌّ [سب کے سب] يَّجْرِيْٓ [رواں رواں ہیں] اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى [ایک معین (خاتمے کے) وقت کی طرف] وَّاَنَّ اللّٰهَ [اور یہ کہ اللہ] بِمَا [اس سے جو] تَعْمَلُوْنَ [تم کرتے ہو] خَبِيْرٌ [باخبر ہے]۔



نوٹ۔1: الی اجل مسمی کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کی جو مدتِ عمر مقرر کر دی گئی ہے اس وقت تک وہ چل رہی ہے۔ سورج ہو یا چاند یا کائنات کا کوئی اور سیارہ، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ازلی ہے نہ ابدی۔ ہر ایک کا ایک وقت آغاز ہے جس سے پہلے وہ موجود نہ تھی اور ایک وقت اختتام ہے جس کے بعد وہ موجود نہ رہے گی۔ (تفہیم القرآن)

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ  30؀ۧ
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ [یہ اس سبب سے کہ اللہ] هُوَ الْحَقُّ [ہی حق ہے] وَاَنَّ [اور یہ کہ] مَا [جس کو] يَدْعُوْنَ [یہ لوگ پکارتے ہیں] مِنْ دُوْنِهِ [اس کے علاوہ] الْبَاطِلُ ۙ [وہ ہی باطل ہے] وَاَنَّ اللّٰهَ [اور یہ کہ اللہ] هُوَ الْعَلِيُّ [ہی بلند ہے] الْكَبِيْرُ [بڑا ہے]۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ لِيُرِيَكُمْ مِّنْ اٰيٰتِهِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ  31؀
اَلَمْ تَرَ [کیا تو نے غور نہیں کیا] اَنَّ الْفُلْكَ [کہ کشتی] [تَجْرِيْ: چلتی ہیں] [فِي الْبَحْرِ : سمندر میں] بِنِعْمَتِ اللّٰهِ [اللہ کی نعمت (یعنی فضل) سے] لِيُرِيَكُمْ [تاکہ وہ کھائے تم لوگوں کو] مِّنْ اٰيٰتِهِ ۭ [اپنی نشانیوں میں سے (کچھ)] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک اس میں] لَاٰيٰتٍ [یقینا نشانیاں ہیں] لِّكُلِّ صَبَّارٍ [ہر ایک کثرت سے تحمل کرنے والے کے لئے] شَكُوْرٍ [بہت شکر کرنے والے کے لئے]۔

وَاِذَا غَشِيَهُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڬ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ  ۭ وَمَا يَجْــحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُوْرٍ 32؀
وَاِذَا غَشِيَهُمْ [اور جب چھا جاتی ہے ان پر] مَّوْجٌ [کوئی موج] كَالظُّلَلِ [بادلوں کی مانند] دَعَوُا اللّٰهَ [تو وہ لوگ پکارتے ہیں اللہ کو] مُخْلِصِيْنَ [خالص کرنے والے ہوتے ہوئے] لَهُ الدِّيْنَ ڬ [اس کے لئے دین کو] فَلَمَّا [پھر جب] نَجّٰىهُمْ [وہ نجات دیتا ہے ان کو] اِلَى الْبَرِّ [خشکی کی طرف] فَمِنْهُمْ [تو ان میں] مُّقْتَصِدٌ ۭ [میانہ رو (بھی) ہیں] وَمَا يَجْــحَدُ [اور انکار نہیں کرتا] بِاٰيٰتِنَآ [ہماری نشانیوں کا] اِلَّا كُلُّ [مگر ہر ایک] خَتَّارٍ [کثرت سے غداری کرنے والا] [كَفُوْرٍ: بہت ناشکری کرنے والا]



خ ت ر

(ض) خترا بری طرح بےوفائی کرنا۔ غداری کرنا۔

 ختار فعال کے وزن پر مبالغہ ہے۔ عہد شکنی کثرت سے کرنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔32۔

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ ۡ وَلَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَـيْـــــًٔا   ۭ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا     ۪ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ 33؀
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ [اے لوگو!] اتَّقُوْا [تم لوگ تقوی اختیار کرو] رَبَّكُمْ [اپنے رب کا] وَاخْشَوْا [اور ڈرو] يَوْمًا [ایک ایسے دن سے جب] لَّا يَجْزِيْ [بدلے میں نہیں دے گا] وَالِدٌ [کوئی والد] عَنْ وَّلَدِهٖ ۡ [اپنی اولاد کی طرف سے (کچھ بھی)] وَلَا مَوْلُوْدٌ [اور نہ کوئی اولاد (ہوگی)] هُوَ [(کہ) وہ] جَازٍ [بدلے میں دینے والی ہو] عَنْ وَّالِدِهٖ [اپنے والد کی طرف سے] شَـيْـــــًٔا ۭ [کچھ بھی] اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ [یقینا اللہ کا وعدہ] حَقٌّ [برحق ہے] فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ [تو ہرگز دھوکا نہ دے تم لوگوں کو] الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۪ [دنیوی زندگی] وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ [اور ہرگز دھوکہ نہ دے تم کو] بِاللّٰهِ [اللہ کے بارے میں] الْغَرُوْرُ [وہ انتہائی دھوکے باز]۔

اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ  ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا  ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 34؀ۧ
اِنَّ اللّٰهَ [یقینااللہ] عِنْدَهٗ [اس کے پاس ہی] عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ [اس گھڑی (قیامت) کا علم ہے] وَيُنَزِّلُ [اور وہ اتارتا ہے] الْغَيْثَ ۚ [بارش کو] وَيَعْلَمُ [اور وہ جانتا ہے] مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ [اس کو جو رحموں میں ہے] وَمَا تَدْرِيْ [اور نہیں جانتی] نَفْسٌ [کوئی جان] مَّاذَا [کیا]تَكْسِبُ [وہ کمائے گی] غَدًا ۭ [کل] وَمَا تَدْرِيْ [اور نہیں جانتی] نَفْسٌۢ [کوئی جان] بِاَيِّ اَرْضٍ [کون سی زمین میں] تَمُوْتُ ۭ [وہ مرے گی] اِنَّ اللّٰهَ [یقینا اللہ] عَلِيْمٌ [جاننے والا ہے] خَبِيْرٌ [باخبر ہے]۔



نوٹ۔1: آیت ۔ 34۔ میں پہلی تین چیزوں میں اگرچہ تصریح نہیں کی گئی کہ ان کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے مگر ایسے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جس سے ان چیزوں کے علم کا انحصار علم الٰہی میں معلوم ہوتا ہے۔ جبکہ باقی دو چیزوں میں اس کی تصریح موجود ہے کہ ان کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ (معارف القرآن۔ ج 7،ص 52) علم غیب درحقیقت اس علم کو کہا جاتا ہے جو سبب طبعی کے واسطہ سے نہ ہو بلکہ بلاواسطہ خودبخود ہو۔ جو چیزیں انبیاء علیہم السلام کو بذریعہ وحی اور اولیاء کرام کو بذریعہ الہام اور نجومیوں وغیرہ کو اپنے حسابات و اسباب طبیعیہ کے ذریعہ حاصل ہو جائیں تو وہ علم غیب نہیں بلکہ انباء الغیب (غیب کی خبریں) ہیں جو کسی جزوی و شخصی معاملہ میں کسی مخلوق کو حاصل ہو جاتی ہیں۔ ان کا حاصل ہو جانا آیت مذکورہ کے منافی نہیں۔ کیونکہ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ ان پانچ چیزوں کا کلی علم جو تمام مخلوقات اور تمام حالات پر حاوی ہو، وہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا۔ کوئی جزوی علم کسی ذریعہ سے حاصل ہو جانا اس کے منافی نہیں۔ اس کے علاوہ علم سے مراد علم قطعی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ۔ الہام کے ذریعہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ قطعی نہیں ہوتا۔ اس میں مغالطوں کے بہت احتمالات رہتے ہیں۔ (معارف القرآن۔ ج 7، ص 54)

نوٹ۔2: مذکورہ بالا نوٹ میں سبب طبعی ، کلی علم، جزوی علم اور علم قطعی کا ذکر آیا ہے۔ ان کی وضاحت کے لئے ہم ایک سوال کے جواب کا ایک حصہ نقل کر رہے ہیں ۔ یہ سوال و جواب فاؤنڈیشن کے سہ ماہی میگزین میں شائع ہو چکا ہے۔

 ا اللہ تعالیٰ اپنے کسی علم کو جب کوئی شکل عطا فرما دیتا ہے ، اور انسان اس کا علم حاصل کرتا ہے تو اسے علم غیب نہیں کہتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کو شکل دیتا ہی اس لئے ہے کہ اس کا علم حاصل کیا جائے۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر اللہ اور بندے کے علم کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

 حمل قرار پانے کے بعد چھ ہفتوں تک انسان کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ حمل ہے کہ نہیں ہے۔ لیکن اللہ جانتا ہے۔ چھ ہفتوں کے بعد جب اس کا حجم کچھ بڑھ جاتا ہے تو
Pregnancy Test کے ذریعہ انسان معلوم کرسکتا ہے کہ حمل ہے کہ نہیں ، لیکن ابھی وہ یہ نہیں جانتا کہ مذکر ہے یا مؤنث ، لیکن اللہ جانتا ہے۔ پھر تین مہینوں میں جب بچے کے جنسی اعضاء شکل اختیار کر لیتے ہیں تو انسان الڑا ساؤنڈ کے ذریعے جان سکتا ہے کہ بچہ مذکر ہے یا مؤنث، لیکن ابھی وہ یہ نہیں جانتا کہ بچے کا رنگ کیا ہے۔ البتہ اللہ جانتا ہے ۔ پھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو انسان جان سکتا ہے کہ اس کا رنگ کیا ہوگا لیکن ابھی وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کا قدو کاٹھ کیا ہوگا۔ اسی طرح بچے کی طبیعت و مزاج ، سیرت و کردار، والدین خاندان اور قوم کے لئے نیک و سعد ہونا یا نہ ہونا، وغیرہ وغیرہ بےشمار چیزیں ہیں جو اللہ کے علم میں ہوتی ہیں اور رفتہ رفتہ مختلف شکلوں میں انسان کے علم میں آتی ہیں۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

الۗمّۗ  Ǻ۝ۚ
الۗمّۗ

تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ  Ą۝ۭ
تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ [اس کتاب کا اتارنا ہے] لَا رَيْبَ [کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے] فِيْهِ [جس میں] مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ [تمام جہانوں کے رب (کی طرف) سے]

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ  Ǽ۝
اَمْ [یا] يَقُوْلُوْنَ [وہ لوگ کہتے ہیں] افْتَرٰىهُ ۚ [انھوں
نے گھڑا ہے اس کو] بَلْ هُوَ الْحَـقُّ [بلکہ وہ ہی حق ہے] مِنْ رَّبِّكَ [آپ کا رب (کی طرف) سے] لِتُنْذِرَ [تاکہ آپ خبردار کریں] قَوْمًا [ایک ایسی قوم کو] مَّآ اَتٰىهُمْ [نہیں پہنچا جن کے پاس] مِّنْ نَّذِيْرٍ [کوئی بھی خبردار کرنے والا] مِّنْ قَبْلِكَ [آپ سے پہلے] لَعَلَّهُمْ [شاید وہ لوگ] يَهْتَدُوْنَ [ہدایت پائیں]۔



آیت۔3۔ میں لفظ نذیراپنے عام لغوی معنی میں ہے، یعنی اللہ کی طرف دعوت دینے والا (آخرت کے انجام سے خبردار کرکے)، وہ خواہ رسول اور پیغمبر ہو یا ان کا کوئی نائب، خلیفہ، یاعالم دین۔ جیساکہ ابوحیان نے فرمایا کہ توحید اور ایمان کی دعوت کسی زمانے، کسی جگہ اور کسی قوم میں کبھی منقطع نہیں ہوئی۔ جب کہیں نبوت پر زما نہ دراز گزر جانے کے بعد اس نبوت کا علم رکھنے والے علماء بہت کم رہ گئے تو کوئی دوسرا نبی و رسول مبعوث ہوگیا۔ روح المعانی میں مو سیٰ بن عقبہ کی مغازی سے یہ روایت نقل کی ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل، جو نبی
سے ملے تھے لیکن آپ کی نبوت سے پانچ سال پہلے ان کا انتقال ہوگیا تھا، ان کا حال یہ تھا کہ قریش کو بت پرستی سے روکتے تھے۔ بتوں کے نام پر قربانی دینے کو بہت برا کہتے تھے اور اس کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔ ان کے بیٹے حضرت سعید  (رض)  بن زید عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ انہوں نے بنی سے پوچھا کہ میرے والد کا جو حال تھا وہ آپ کو معلوم ہے، تو کیا میں ان کے لئے دعائے مغفرت کرسکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا یاں ان کے لئے دعائے مغفرت جائز ہے۔ (معارف القرآن)

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِـتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ ۭ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا شَفِيْعٍ ۭ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ  Ć۝
اَللّٰهُ الَّذِيْ [اللہ وہ ہے جس نے] خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ [پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو] وَمَا بَيْنَهُمَا [اور اس کو جو ان دونوں کے درمیان ہے] فِيْ سِـتَّةِ اَيَّامٍ [چھ دنوں میں] ثُمَّ اسْتَوٰي [پھر وہ متمکن ہوا] عَلَي الْعَرْشِ ۭ [عرش پر] مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ [تم لوگوں کے لئے نہیں ہے اس کے سوا ] مِنْ وَّلِيٍّ [کوئی بھی کارساز] وَّلَا شَفِيْعٍ ۭ [اور نہ کوئی سفارش کرنے والا] [اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ: تو کیا تم لوگ نصیحت نہیں پکڑو گے]

يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗٓ اَلْفَ سَـنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ  Ĉ۝
[يُدَبِّرُ الْاَمْرَ : وہ تدبیر کرتا ہے تمام معاملات کی] مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ [آسمانوں سے زمین کی طرف] ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ [پھر وہ (معاملہ) عروج کرتا ہے اس کی طرف] فِيْ يَوْمٍ [ایک ایسے دن میں] كَانَ [ہے] مِقْدَارُهٗٓ [جس کے اندازے کا پیمانہ] اَلْفَ سَـنَةٍ [ایک ہزار سال] مِّمَّا تَعُدُّوْنَ [جس سے تم لوگ گنتی کرتے ہو]

ذٰلِكَ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ  Č۝ۙ
ذٰلِكَ [یہ ہے] عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ [ظاہر اور پوشیدہ کا جاننے والا] الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ [جو بالادست ہے رحم کرنے والا ہے]۔

الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ  Ċ۝ۚ
الَّذِيْٓ [وہ جس نے] اَحْسَنَ [حسن دیا] كُلَّ شَيْءٍ [ہر اس چیز کو] خَلَقَهٗ [اس نے پیدا کیا جس کو] وَبَدَاَ [اور اس نے ابتدا کی] خَلْقَ الْاِنْسَانِ [انسان کی تخلیق کی] مِنْ طِيْنٍ [ایک گارے سے]۔

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ  Ď۝ۚ
ثُمَّ جَعَلَ [پھر اس نے بنایا] نَسْلَهٗ [اس کی نسل کو] مِنْ سُلٰلَةٍ [ایک جوہر سے] مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ [حقیر پانی میں سے]۔



م ھـ ن

(ک) مھانۃ حقیر و ذلیل ہونا۔ بےوقعت ہونا۔

 مھین فعیل کے وزن پر صفت ہے۔ حقیر۔ بےوقعت۔ زیر مطالعہ آیت۔8۔

ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ   ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ   ؀
ثُمَّ سَوّٰىهُ [پھر اس نے نوک پلک درست کی اس کی] وَنَفَخَ فِيْهِ [اور پھونکا اس میں] مِنْ رُّوْحِهٖ [اپنی روح میں سے] وَجَعَلَ لَكُمُ [اور بنایا تمہارے لئے] السَّمْعَ [سننے (کی صلاحیت) کو] وَالْاَبْصَارَ [اور آنکھیں] وَالْاَفْـــِٕدَةَ ۭ [اور دل] قَلِيْلًا [بہت ہی تھوڑا] مَّا تَشْكُرُوْنَ [تم لوگ شکر کرتے ہو]۔

وَقَالُوْٓا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِي الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ ڛ بَلْ هُمْ بِلِقَاۗئِ رَبِّهِمْ كٰفِرُوْنَ 10 ؀
وَقَالُوْٓا [اور ان لوگوں نے کہا] ءَاِذَا [کیا جب] ضَلَلْنَا [ہم گم (رل مل) جائیں گے] فِي الْاَرْضِ [زمین (مٹی) میں] ءَاِنَّا [تو کیا ہم] لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ ڛ [ضرور نئے (سرے سے) پیدا کئے جائیں گے] بَلْ هُمْ [بلکہ وہ لوگ] بِلِقَاۗئِ رَبِّهِمْ [اپنے رب سے ملاقات کا] كٰفِرُوْنَ [انکار کرنے والے ہیں]۔

قُلْ يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ  11۝ۧ
قُلْ [آپ
کہہ دیجئے] يَتَوَفّٰىكُمْ [موت دے گا تم لوگوں کو] مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِيْ [موت کا وہ فرشتہ جس کو] وُكِّلَ [نگہبان مقرر کیا گیا] بِكُمْ [تم پر] ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ [پھر تمہارے رب کی طرف] تُرْجَعُوْنَ [تم لوگ لوٹائے جاؤ گے]۔



نوٹ۔1: عرب میں دین حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانہ قبل تاریخ میں گزرے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسمعیل علیہ السلام آئے جن کا زمانہ حضور
سے ڈھائی ہزارر سال قبل گزرا ہے۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سرزمین میں نبی سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے۔ اور ان کی آمد پر بھی تقریبا دو ہزار برس گزر چکے تھے۔ یہ اتنی طویل مدد ہے کہ اس لحاظ سے آیت۔3۔ میں یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا۔ یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ جب نبی سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے باز پرس کس بنیاد پر ہوگی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اس جاہلیت کے زمانے میں لوگں کے پاس نہ رہا ہو مگر یہ بات اس زمانے میں بھی لوگوں سے پاشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بت پرستی نہیں سکھائی۔ یہ حقیقت ان روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سرزمین کے انبیاء سے پہنچی تھی اور قریب کی سرزمین میں آئے ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ اس حقیقت کو جانتے تھے۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ اہل عرب کا اصل دین ، دین ابراہیمی تھا اور بت پرستی بعد میں شروع ہوئی۔ شرک اور بت پرستی کا رواج عام ہو جانے کے باوجود عرب کے مختلف حضور میں جگہ جگہ ایسے لوگ موجود تھے جو شرک کا انکار کرتے تھے، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بتوں پر قربانیوں کی اعلانیہ مذمت کرتے تھے ۔ نبی سے بالکل قریب زمانے میں بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حنفاء کے نام سے ید کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ توحید کو اصل دین کہتے کو اصل دین کہتے تھے۔ (تفہیم القرآن)

وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ  12 ؀
وَلَوْ [اور کاش] تَرٰٓي [تو تصور کرے] اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ [جب مجرم لوگ] نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ [اپنے سروں کو اوندھا کرنے والے ہیں] عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ [اپنے رب کے پاس] رَبَّنَآ [(اور کہنے والے ہیں) اے ہمارے رب] اَبْصَرْنَا [ہم بینا ہوگئے] وَسَمِعْنَا [اور ہم نے سن لیا] فَارْجِعْنَا [پس تو لوٹا دے ہم کو] نَعْمَلْ [تو ہم عمل کریں گے] صَالِحًا [نیکی کے] اِنَّا مُوْقِنُوْنَ [بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں]۔



نوٹ۔1: آیت۔12۔ میں مجرموں کی اس درخواست پر کہ ہم کو واپس بھیج دے اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اگر ہم چاہتے تو ہرنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کے ہدایت دینا ہوتا تو دنیاکی امتحان گاہ میں تم کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے۔ لیکن ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اور حواس سے مخفی رکھ کر تمھارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم حقیقت کو براہ راست دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خوداپنے نفس میں اس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اس کو پہچانتے ہو یا نہیں۔ ہم اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے اس حقیقت شناسی میں تمھاری جو مدد کرتے ہیں اس سے فائدہ اٹھا تے ہو یا نہیں۔ اور حقیقت جان لیتے کے بعد اپنے نفس پر اتنا قابو پا تے ہو یا نہیں کہ خواہشات اور اغراض کی بندگی سے آزاد ہو کر اس حقیقت کو مان جا ئو اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کر لو۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو۔ اب دو بارہ اسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا ۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جاۓ کہ تمھیں وہ سب کچھ یاد ہو جوتم نے یہاں دیکھ اور سن لیا ہے تو سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہوگا۔ اور اگر پہلے کی طرح تمھیں خالی الذہن کرکے اور حقیقت کو اوجھل رکھ کر تمھیں پھر دنیا میں پیداکر دیاجائے تو نتیجہ پہلے امتحان سے کچھ مختلف نہ ہوگا۔ (تفہیم القرآن)

وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ  13؀
وَلَوْ [اور اگر] شِئْنَا [ہم چاہتے] لَاٰتَيْنَا [تو ہم ضرور دیتے] كُلَّ نَفْسٍ [ہر نفس کو] هُدٰىهَا [اس کی ہدایت] وَلٰكِنْ حَقَّ [اور لیکن مقصد کے مطابق ہوئی] الْقَوْلُ [وہ بات] مِنِّيْ [میری طرف سے] لَاَمْلَئَنَّ [(کہ) میں لازما بھر دوں گا] جَهَنَّمَ [جہنم کو] مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [جنوں اور انسانوں سے] اَجْمَعِيْنَ [سب سے]

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا  ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ   16؀
تَـتَجَافٰى [الگ ہوتے ہیں] جُنُوْبُهُمْ [ان کے پہلو] عَنِ الْمَضَاجِعِ [لیٹنے کی جگہوں سے] يَدْعُوْنَ [وہ لوگ پکارتے ہیں] رَبَّهُمْ [اپنے رب کو] خَوْفًا [ڈرتے ہوئے] وَّطَمَعًا ۡ [اور آرزو کرتے ہوئے] وَّمِـمَّا [اور اس سے جو] رَزَقْنٰهُمْ [ہم نے دیا ان کو] يُنْفِقُوْنَ [خرچ کرتے ہیں]۔



ج ف و

(ن) جفوا اعراض کرنا۔

(تفاعل) تجافی کسی جگہ سے الگ ہونا۔ زیر مطالعہ آیت۔16۔

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   17؀
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ [تو نہیں جانتی کوئی جان] مَّآ اُخْفِيَ [اس کو جو پوشیدہ کیا گیا] لَهُمْ [ان لوگوں کے لئے] مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ [آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے] جَزَاۗءًۢ بِمَا [بدلہ ہوتے ہوئے اس کا جو] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [یہ لوگ عمل کیا کرتے تھے]۔



نوٹ۔2: آیت۔17۔ کی وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی کان نے سنا اور نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصور کرسکاہے۔ (تفہیم القرآن)

اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ڼ لَا يَسْـتَوٗنَ  18۝۬
اَفَمَنْ كَانَ [تو کیا وہ جو تھا] مُؤْمِنًا [ایمان لانے والا] كَمَنْ كَانَ [اس کے مانند ہے جو تھا] فَاسِقًا ڼ [نافرمانی کرنے والا] لَا يَسْـتَوٗنَ [یہ لوگ برابر نہیں ہوں گے]۔

اَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰي ۡ نُزُلًۢا بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   19؀
اَمَّا الَّذِيْنَ [وہ جو لوگ ہیں جو] اٰمَنُوْا [ایمان لائے] وَعَمِلُوا [اور عمل کئے] الصّٰلِحٰتِ [نیکیوں کے] فَلَهُمْ [تو ان کے لئے] جَنّٰتُ الْمَاْوٰي ۡ [بسنے کے باغات ہیں] نُزُلًۢا [مہمان نوازی ہوتے ہوئے] بِمَا [بسبب اس کے جو] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [یہ لوگ عمل کیا کرتے تھے]۔

وَاَمَّا الَّذِيْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ ۭ كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْـرُجُوْا مِنْهَآ اُعِيْدُوْا فِيْهَا وَقِيْلَ لَهُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ  20؀
وَاَمَّا الَّذِيْنَ [اور وہ جو لوگ ہیں جنہوں نے] فَسَقُوْا [نافرمانی کی] فَمَاْوٰىهُمُ [تو ان کا ٹھکانا] النَّارُ ۭ [آگ ہے] كُلَّمَآ [جب کبھی] اَرَادُوْٓا [وہ ارادہ کریں گے] اَنْ يَّخْـرُجُوْا [کہ وہ نکلیں] مِنْهَآ [اس سے] اُعِيْدُوْا [وہ لوٹا دئیے جائیں گے] فِيْهَا [اس میں] وَقِيْلَ [اور کہا جائے گا] لَهُمْ [ان سے] ذُوْقُوْا [تم لوگ چکھو] عَذَابَ النَّارِ الَّذِيْ [اس آگ کا عذاب] كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ [تم لوگ جس کو جھٹلاتے تھے]۔

وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ   21؀
وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ [اور ہم لازما چکھائیں گے ان لوگوں کو] مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى [نزدیک والے عذاب میں سے] دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ [بڑے عذاب کے علاوہ] لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ [شاید وہ لوگ لوٹ آئیں]۔



نوٹ۔3: آیت۔21۔ میں عذاب ادنیٰ سے مراد دنیا کے مصائب، آفات اور امراض وغیرہ ہیں اور عذاب اکبر سے مراد آخرت کا عذاب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو ان کے گناہوں پر متنبہ کرنے کے لئے دنی میں ان پر مصائب مسلط کر دیتا ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں سے باز آجائیں اور آخرت کے عذاب اکبر سے نجات پائیں۔ اس طرح گنہگاروں کے لئے دنیا کے مصائب اور تکالیف ایک قسم کی رحمت ہی ہیں کہ غفلت سے باز آکر عذاب آخرت سے بچ جائیں ۔ البتہ جو لوگ آفات اکبر۔ انبیاء اور اولیاء اللہ پر جو مصائب آتے ہیں ان کا معاملہ الگ ہے، وہ ان کے امتحان اور رفع درجات کے لئے ہوتے ہیں۔ (معارف القرآن)

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَا ۭ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ  22؀ۧ
وَمَنْ اَظْلَمُ [اور کون زیادہ ظالم ہے] مِمَّنْ [اس سے جس کو] ذُكِّرَ [یاد دہانی کرائی گئی] بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ [اس کے رب کی آیات کے ذریعہ سے] ثُمَّ اَعْرَضَ [پھر اس نے اعراض کیا] عَنْهَا ۭ [اس سے] اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ [بیشک ہم ان مجرموں سے] مُنْتَقِمُوْنَ [انتقام لینے والے ہیں]۔

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَلَا تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْ لِّــقَاۗىِٕهٖ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ 23؀ۚ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى [اور بیشک ہم دے چکے ہیں موسیٰ علیہ السلام کو] الْكِتٰبَ [وہ کتاب (تورات)] فَلَا تَكُنْ [تو آپ
مت ہوں] فِيْ مِرْيَةٍ [کسی شبہ میں] مِّنْ لِّــقَاۗىِٕهٖ [اس (کتاب یعنی قرآن) کے ملنے سے] وَجَعَلْنٰهُ [اور ہم نے بنایا اس (تورات) کو] هُدًى [ہدایت] لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [بنی اسرائیل کے لئے]۔



ترکیب: (آیت۔23) من لقائہ میں ئہ کی ضمیر کو موسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی مانا جاسکتا ہے اور الکتب کے لئے بھی۔ دونوں طرح ترجمے کئے گئے ہیں اور دونوں درست ہیں۔ ہم ضمیر کا مرجع کتاب کو ماننے کو ترجیح دیں گے۔



نوٹ۔1: آیت۔23۔ میں بظاہرخطاب نبی
سے ہے لیکن اصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو آپ کی رسالت میں اور آپ پر کتاب الٰہی کے نازل ہونے میں شک کر رہے تھے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک بندے پر خدا کی طرف سے کتاب نازل ہونا کوئی نرالا واقہ تو نہیں ہے۔ اس سے پہلے متعدد انبیاء پر کتابیں نازل ہو چکی ہیں، جن میں مشہور ترین کتاب وہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ اسی نوعیت کی ایک چیز آج تمہیں دی گئی ہے ، تو اس میں انوکھی بات کیا ہے جس پر خواہ مخواہ شک کیا جائے ۔ (تفہیم القرآن)

وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا    ڜ وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يُوْقِنُوْنَ  24؀
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ [اور ہم نے بنائے ان میں سے] اَىِٕمَّةً [کچھ ایسے پیشوا ] يَّهْدُوْنَ [جو رہنمائی کرتے تھے] بِاَمْرِنَا [ہمارے حکم کے مطابق] لَمَّا [جب] صَبَرُوْا ڜ [ان لوگوں نے صبر کیا] وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يُوْقِنُوْنَ [اور وہ لوگ ہماری آیات پر یقین کیا کرتے تھے]۔

اِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ  25؀
[اِنَّ رَبَّكَ: بیشک آپ
کا رب] هُوَ يَفْصِلُ [وہ ہی فیصلہ کرے گا] بَيْنَهُمْ [ان کے مابین] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ [قیامت کے دن] فِيْمَا [اس میں] كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ [یہ لوگ جس میں اختلاف کرتے تھے]۔

اَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ يَمْشُوْنَ فِيْ مَسٰكِنِهِمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ ۭ اَفَلَا يَسْمَعُوْنَ  26؀
اَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ [اور کیا رہنمائی کی ہی نہیں ان کے لئے] كَمْ اَهْلَكْنَا [(اس بات نے کہ) ہم نے کتنی ہی ہلاک کیں] مِنْ قَبْلِهِمْ [ان سے پہلے] مِّنَ الْقُرُوْنِ [قوموں میں سے] يَمْشُوْنَ [یہ لوگ چلتے ہیں] فِيْ مَسٰكِنِهِمْ ۭ [ان کے گھروں میں] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ ۭ [بیشک اس میں یقینا نشانیاں ہیں] اَفَلَا يَسْمَعُوْنَ [تو کیا یہ لوگ سنتے نہیں ہیں]۔



(آیت۔26)۔كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یہ پورا فقرہ لم یھد کا فاعل ہے۔

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَاۗءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْهُ اَنْعَامُهُمْ وَاَنْفُسُهُمْ ۭ اَفَلَا يُبْصِرُوْنَ  27؀
اَوَلَمْ يَرَوْا [اور کیا انھوں نے غور ہی نہیں کیا] اَنَّا نَسُوْقُ [کہ ہم ہانکتے (رواں کرتے) ہیں] الْمَاۗءَ [پانی کو] اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ [بنجر زمین کی طرف] فَنُخْرِجُ بِهٖ [پھر ہم نکالتے ہیں اس سے] زَرْعًا [ایک ایسی کھیتی]تَاْكُلُ مِنْهُ [کھاتے ہیں جس سے] اَنْعَامُهُمْ [ان کے مویشی] وَاَنْفُسُهُمْ ۭ [اور ان کی جانیں (خود بھی)]۔ ااَفَلَا يُبْصِرُوْنَ [تو کیا ان کو سجھائی نہیں دیتا]۔



نوٹ۔2: خشک زمین کو سیراب کرنے اور اس میں نباتات اگانے کا ذکر قرآن کریم میں جابجا اس طرح آیا ہے کہ زمین پر بارش برستی ہے اس سے زمین تر و تازہ ہو کر اگانے کے قابل ہو جاتی ہے۔ مگر آیت۔ 27 میں بارش کے بجائے پانی کو زمین پر چلا کر خشک زمین کی طرف لے جانے اور اس سے نباتات اگانے کا ذکر فرمایا ہے۔ یعنی بارش کسی دوسری زمین پر نازل کی جاتی ہے۔ پھر وہاں سے ندی نالوں کے ذریعہ زمین پر چلا کر پانی کو خشک زمین کی طرف لے جایا جاتا ہے جہاں بارش نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہے۔ (معارف القرآن)

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ  28؀
وَيَقُوْلُوْنَ [اور وہ لوگ کہتے ہیں] مَتٰى [کب ہے (ہوگا)] ھٰذَا الْفَتْحُ [یہ فیصلہ] اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ [اگر تم لوگ سچ کہنے والے ہو]۔

قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِيْمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُوْنَ  29؀
قُلْ [آپ
کہیے] يَوْمَ الْفَتْحِ [فیصلے کے دن] لَا يَنْفَعُ [نفع نہیں دے گا] الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا [ان کو جنہوں نے کفر کیا] اِيْمَانُهُمْ [ان کا ایمان] وَلَا هُمْ يُنْظَرُوْنَ: [اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی]۔

فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانْتَظِرْ اِنَّهُمْ مُّنْتَظِرُوْنَ  30؀ۧ
فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ [پس آپ
اعراض کریں ان سے] وَانْتَظِرْ [اور آپ انتظار کریں] اِنَّهُمْ [بیشک یہ لوگ (بھی)]مُّنْتَظِرُوْنَ [انتظار کرنے والے ہیں]۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا   Ǻ۝ۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ [اے نبی
] اتَّقِ [آپ تقویٰ کریں] اللّٰهَ [اللہ کا] وَلَا تُطِـعِ [اور آپ کہنا مت مانیں] الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ [کافروں کا اور منافقوں کا] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] كَانَ [ہے] عَلِيْمًا حَكِيْمًا [جاننے والا حکمت والا]۔

وَّاتَّبِعْ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا  Ą۝ۙ
وَّاتَّبِعْ [اور آپ
پیروی کریں] مَا [اس کی جو] يُوْحٰٓى [وحی کیا جاتا ہے] اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭ [آپ کی طرف آپ کے رب (کی طرف) سے] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] كَانَ [ہے] بِمَا تَعْمَلُوْنَ [اس کی جو تم لوگ کرتے ہو] خَبِيْرًا [خبر رکھنے والا]۔

وَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ  ۭ وَكَفٰي بِاللّٰهِ وَكِيْلًا  Ǽ۝
وَّتَوَكَّلْ [اور آپ
بھروسہ رکھیں] عَلَي اللّٰهِ ۭ [اللہ پر] وَكَفٰي بِاللّٰهِ [اور کافی ہے اللہ] وَكِيْلًا [بطور کارساز کے]۔

مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِهٖ ۚ وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ اڿ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ ۭذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيْلَ  Ć۝
مَا جَعَلَ اللّٰهُ [نہیں بنایا اللہ نے] لِرَجُلٍ [کسی مرد کے لئے] مِّنْ قَلْبَيْنِ [کوئی بھی دو دل] فِيْ جَوْفِهٖ ۚ [اس کے اندرونی حصے (سینے) میں] وَمَا جَعَلَ [اور اس نے نہیں بنایا] اَزْوَاجَكُمُ اڿ [تمہاری ان بیویوں کو] تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ [تم لوگ ظہار کرتے ہو جن سے] اُمَّهٰتِكُمْ ۚ [تمہاری مائیں] وَمَا جَعَلَ [اور اس نے نہیں بنایا] اَدْعِيَاۗءَكُمْ [تمہاری منہ بولے بیٹوں کو] اَبْنَاۗءَكُمْ ۭ[تمہارے بیٹے] ذٰلِكُمْ [یہ] قَوْلُكُمْ [تم لوگوں کا کہنا ہے] بِاَفْوَاهِكُمْ ۭ [اپنے مونہوں سے] وَاللّٰهُ يَـقُوْلُ [اور اللہ کہتا ہے] الْحَـقَّ [حق (بات)] وَهُوَ يَهْدِي [اور وہ راہنمائی کرتا ہے] السَّبِيْلَ [راستے کی]۔



ج و ف

(س) جوفا اندر سے کھوکھلا ہونا۔

 جوف مکان کا اندرونی حصہ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 4۔

اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ ۭ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ ۙ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا  Ĉ۝
اُدْعُوْهُمْ [تم لوگ پکارو ان (لے پالکوں) کو] لِاٰبَاۗىِٕهِمْ [ان کے باپوں (کے نام) سے] هُوَ اَقْسَطُ [یہ زیادہ انصاف ہے] عِنْدَ اللّٰهِ ۚ [اللہ کے نزدیک] فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا [پھر اگر تم لوگ نہ جانو] اٰبَاۗءَهُمْ [ان کے باپوں کو] فَاِخْوَانُكُمْ [تو (وہ) تمہارے بھائی ہیں] فِي الدِّيْنِ [اس دین میں] وَمَوَالِيْكُمْ ۭ [اور تمہارے ساتھی ہیں] وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ [اور تم لوگوں پر نہیں ہے]جُنَاحٌ [کوئی گناہ] فِيْمَآ [اس میں] اَخْطَاْتُمْ [تم لوگ چوک گئے] بِهٖ ۙ [جس میں] وَلٰكِنْ [اور لیکن] مَّا [اس میں (گناہ ہے) جس کا] تَعَمَّدَتْ [پختہ ارادہ کیا] قُلُوْبُكُمْ ۭ [تمہارے دلوں نے] وَكَانَ اللّٰهُ [اور اللہ ہے]غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا [بخشنے والا رحم کرنے والا]۔



نوٹ۔1: یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زید  (رض)  بی بی زینب  (رض)  کو طلاق دے چکے تھے۔ اس وقت نبی
خود بھی یہ محسوس فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کی رسوم پر ضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقعہ ہے، اب آپ کو خود آگے بڑھ کر اپنے منہ بولے بیٹے (زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی مطلقہ سے نکاح کر لینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پر ٹوٹ جائے۔ لیکن آپ اس لئے جھجک رہے تھے کہ کفار اور منافقین کو آپ کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لئے ایک زبردست ہتھیار مل جائے گا۔ یہ خوف اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا بلکہ اس بنا پر تھا کہ اس سے اسلام کو زک پہنچے گی۔ اس لئے حضور یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلیت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطر ایسا قدم اٹھانا خلاف مصلحت ہے۔ چنانچہ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے ہی فقرے میں اللہ تعالیٰ نے حضور کے ان اندیشوں کو رفع فرما دیا۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ دین کی مصلحت کو ہم زیادہ جانتے ہیں۔ لہٰذا تم وہ طرز عمل اختیار نہ کرو جو کفار و منافقین کی مرضی کے مطابق ہو، بلکہ وہ کام کرو جو ہماری مرضی کے مطابق ہو۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔2: ایک آدمی بیک وقت مومن اور منافق، سچا اور جھوٹا، بدکار اور نیکوکار نہیں ہوسکتا۔ اس کے سینے میں دو دل نہیں ہیں کہ ایک دل میں اخلاص ہو اور دوسرے میں خدا سے بےخوفی۔ ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہو سکتی ہے۔ یا تو وہ مومن ہوگا یا منافق۔ یا تو وہ وہ کافر ہوگا یا مسلم ۔ (تفہیم القرآن)

اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا   ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا  Č۝
اَلنَّبِيُّ [یہ نبی
] اَوْلٰى [زیادہ قریب ہیں] بِالْمُؤْمِنِيْنَ [مومنوں کے] مِنْ اَنْفُسِهِمْ [ان کی جانوں سے (بھی زیادہ)] وَاَزْوَاجُهٗٓ [اور ان (نبی) کی بیویاں] اُمَّهٰتُهُمْ ۭ [ان (مومنوں) کی مائیں ہیں] [وَاُولُوا الْاَرْحَامِ: اور رحمی رشتوں والے] بَعْضُهُمْ [ان کے بعض] اَوْلٰى [زیادہ قریب ہیں] بِبَعْضٍ [بعض کے] فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ [اللہ کی کتاب میں] مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [مومنوں میں سے] وَالْمُهٰجِرِيْنَ [اور مہاجروں میں سے] اِلَّآ اَنْ [سوائے اس کے کہ] تَفْعَلُوْٓا [تم لوگ کرو] اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ [اپنے رفیقوں کی طرف] مَّعْرُوْفًا ۭ [کوئی بھلائی] كَانَ ذٰلِكَ [ہے یہ] فِي الْكِتٰبِ [کتاب میں] مَسْطُوْرًا [لکھا ہوا]۔



نوٹ۔1: اگر دیکھاجائے تو مومن کا ایمان ایک شعاع ہے اس نوراعظیم کی جو آفتاب نبوت سے پھیلتا ہے۔ بنا بریں ایک مومن اگر اپنی حقیقت سمجھنے کے لئے غوروفکر شروع کرے تو اپنی ایمانی ہستی سے پہلے اس کو نبی
کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی۔ اس اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ نبی کا وجود مسعود خود ہماری ہستی سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے۔ اور اگر اس روحانی تعلق کی بناء پر کہہ دیا جائے کہ مومنین کے حق میں نبی بمنزلہ باپ کے ، بلکہ مراتب کے لحاظ سے اس سے بھی بڑھ کر ہے تو بالکل بجا ہوگا۔ باپ بیٹے کے تعلق پر غور کرو تو اس کا حاصل یہ ہی نکلے گا کہ بیٹے کا جسمانی وجود باپ کے جسم سے نکلا ہے اور باپ کی ترتیب و شفقت اوروں سے بڑھ کر ہے۔ جبکہ امتی کا ایمانی و روحانی وجود نبی کی روحانیت کبری کا ایک پر تو ہوتا ہے۔ اور جو شفقت و تربیت نبی کی طرف سے ظہور پذیر ہوتی ہے، ماں باپ تو کیا تمام مخلوق میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا۔ باپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی لیکن نبی کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملتی ہے۔ نبی کریم ہماری وہ ہمدردی اور خیر خواہانہ شفقت و تربیت فرماتے ہیں جو خود ہمارا نفس بھی اپنی نہیں کرسکتا۔ اسی لئے نبی کو ہماری جان و مال میں تصرف کرنے کا وہ حق پہنچتا ہے جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں۔ ان ہی حقائق پر نظر کرتے ہوئے احادیث میں فرمایا تم میں کوئی آدمی مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک باپ، بیٹے اور سب آدمیوں بلکہ اس کی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔ (ترجمہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ)

وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا  Ċ۝ۙ
وَاِذْ اَخَذْنَا [اور جب ہم نے لیا] مِنَ النَّـبِيّٖنَ [نبیوں سے] مِيْثَاقَهُمْ [ان کا عہد] وَمِنْكَ [اور آپ
سے] وَمِنْ نُّوْحٍ [اور نوح علیہ السلام سے] وَّاِبْرٰهِيْمَ [اور ابراہیم علیہ السلام سے] وَمُوْسٰى [اور موسیٰ علیہ السلام سے] وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ [اور مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام سے] وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ [اور ہم نے لیا ان سے] مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا [ایک پختہ عہد]۔

لِّيَسْـَٔـلَ الصّٰدِقِيْنَ عَنْ صِدْقِهِمْ ۚ وَاَعَدَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا اَلِـــيْمًا  Ď۝ۧ
لِّيَسْـَٔـلَ [تاکہ وہ (اللہ) پوچھے] الصّٰدِقِيْنَ [سچوں سے] عَنْ صِدْقِهِمْ ۚ [ان کی سچائی کے بارے میں] وَاَعَدَّ [ اور اس نے تیار کیا] لِلْكٰفِرِيْنَ [کافروں کے لئے] عَذَابًا اَلِـــيْمًا [ایک دردناک عذاب]۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَاۗءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا   ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا  ۝ۚ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا [اے لوگو جو ایمان لائے] اذْكُرُوْا [تم لوگ یاد کرو] نِعْمَةَ اللّٰهِ [اللہ کی نعمت کو] عَلَيْكُمْ [تم لوگوں پر] اِذْ جَاۗءَتْكُمْ [جب آئے تمہارے پاس] جُنُوْدٌ [کچھ لشکر] فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ [تو ہم نے بھیجا ان پر] رِيْحًا وَّجُنُوْدًا [ایک ہوا اور کچھ لشکر] لَّمْ تَرَوْهَا ۭ [تم لوگ نہیں دیکھتے تھے جن کو] وَكَانَ اللّٰهُ [اور اللہ ہے] بِمَا تَعْمَلُوْنَ [اس کو جو تم لوگ کرتے ہو] [بَصِيْرًا: دیکھنے والا]

اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا  10؀
اِذْ جَاۗءُوْكُمْ [جب وہ (لشکر) آئے تمہارے پاس] مِّنْ فَوْقِكُمْ [تمہارے اوپر سے] وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ [اور تم سے نیچے سے] وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ [اور جب کج ہوئیں (پتھرا گئیں) آنکھیں] وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ [اور پہنچے دل] الْحَـنَاجِرَ [گلوں تک] وَ [اس حال میں کہ] تَظُنُّوْنَ [تم لوگ گمان کرتے تھے] بِاللّٰهِ [اللہ کے بارے میں] الظُّنُوْنَا [بہت سے گمان]۔



ح ن ج ر

(رباعی) حنجرۃ گلا کاٹتے ہوئے سانس کی نالی تک کاٹ دینا۔ ذبح کرنا۔

 حنجرۃ اسم ذات بھی ہے۔ نرخرہ (سانس کی نالی 9۔ گلا۔ زیر مطالعہ آیت۔10

هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا   11؀
هُنَالِكَ [وہیں] ابْتُلِيَ [آزمائے گئے] الْمُؤْمِنُوْنَ [ایمان لانے والے] وَزُلْزِلُوْا [اور ہلا مارے گئے] زِلْزَالًا شَدِيْدًا [شدت سے ہلا مارنا]۔

وَاِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا   12؀
وَاِذْ يَقُوْلُ [اور جب کہتے تھے] الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ [منافق اور وہ لوگ] فِيْ قُلُوْبِهِمْ [جن کے دلوں میں] مَّرَضٌ [مرض تھا] مَّا وَعَدَنَا [نہیں وعدہ کیا ہم سے] اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ [اللہ نے اور اس کے رسول نے] [ اِلَّا غُرُوْرًا : مگر دھوکوں کا]



نوٹ۔1: آیت۔12 میں منافقوں کا قول گزر چکا ہے کہ دشمنوں کے ہجوم کو دیکھ کر انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول
کی طرف سے جو وعدے ہم سے کئے گئے وہ سب فریب ثابت ہوئے۔ اب آیت۔22 میں ان کے مقابل میں سچے مسلمانوں کا تاثر بیان ہوا ہے کہ انہوں نے دشمنوں کے نرغہ کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو وہی امتحان ہمیں پیش آیا ہے جس کی اللہ اور اس کے رسول نے پہلے سے ہمیں خبر دی تھی۔ یہ اشارہ قرآن کی متعدد آیات کی طرف ہے جن میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ البقرہ کی آیات۔24 میں ہے کہ تم لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی ایسے حالات پیش نہیں آئے جو ان کو پیش آئے جو تم سے پہلے تھے۔ یا سورۃ عنکبوت کی آیت۔2 میں ہے کہ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ یہ کہنے پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا۔ وغیرہ (تدبر القرآن)

وَاِذْ قَالَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ يٰٓاَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا ۚ وَيَسْتَاْذِنُ فَرِيْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَةٌ ړ وَمَا هِىَ بِعَوْرَةٍ ڔ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا  13؀
وَاِذْ قَالَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ [اور جب کہا ایک گروہ نے] مِّنْهُمْ [ان میں سے] يٰٓاَهْلَ يَثْرِبَ [اے یثرب کے لوگو] لَا مُقَامَ [کوئی ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے] لَكُمْ [تمہارے لئے] فَارْجِعُوْا ۚ [تو تم لوگ واپس چلو] وَيَسْتَاْذِنُ [اور اجازت مانگی] فَرِيْقٌ مِّنْهُمُ [ایک فریق نے ان میں سے] النَّبِيَّ [ان نبی
سے] يَقُوْلُوْنَ [کہتے ہوئے] اِنَّ [کہ] بُيُوْتَنَا عَوْرَةٌ ړ [ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں] وَمَا هِىَ [حالانکہ وہ] بِعَوْرَةٍ ڔ [غیر محفوظ نہیں تھے] اِنْ يُّرِيْدُوْنَ [وہ لوگ ارادہ نہیں رکھتے] اِلَّا فِرَارًا [مگر فراز ہونے کا]۔



نوٹ۔1: اس میں اور اس سے اگلے رکوع میں غزوہ احزاب ، جو جنگ خندق کے نام سے مشہور ہے، اور غزوہ بنو قریظہ پر تبصرہ ہے۔ ان کے حالات بہت معروف ہیں اس لئے ان کو دہرایا نہیں جائے گا۔

غزوہ احزاب میں کافروں کی شکست کے دنیاوی اسباب بھی متعدد تھے۔ ان میں سے دو زیادہ اہم ہیں۔ کافروں کے لشکر میں یہودیوں اور مشرکین مکہ کے علاوہ دوسرے قبائل دراصل کرائے کے فوجی تھے جن کو مختلف نوعیت کے لالچ دے کر اور وعدے کرکے اس جنگ میں شریک پر آمادہ کیا گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ عرب لوگ جنگجو تو تھے لیکن ان کی جنگ یہ ہوتی تھی کہ حملہ کیا، ماردھاڑ کی ، لوٹ مار کی اور واپس چلے گئے۔ طویل جنگ کا ان کو کوئی تجربہ نہیں تھا اور نہ وہ اس کے لئے تیار ہوکر آئے تھے۔ ایک ماہ کے محاصرے کے دوران مدینہ والوں کو ضروریات کی سپلائی معطل ہوگئی تھی لیکن خود کافروں کی خوراک کی سپلائی کا کوئی انتظار نہیں تھا۔ (حافظ احمد یاد صاحب کی کیسٹ سے ماخوذ)۔

وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُىِٕلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوْا بِهَآ اِلَّا يَسِيْرًا  14؀
وَلَوْ دُخِلَتْ [اور اگر (کچھ لشکر) گھس آتے] عَلَيْهِمْ [ان لوگوں پر] مِّنْ اَقْطَارِهَا [اس (یثرب) کے کناروں سے] ثُمَّ سُىِٕلُوا [پھر ان سے مانگا جاتا] الْفِتْنَةَ [فتنہ (یعنی ارتداد)] لَاٰتَوْهَا [تو یہ لوگ ضرور دے بیٹھتے وہ (مرتد ہو جاتے)] وَمَا تَلَبَّثُوْا بِهَآ [اور دیر نہ کرتے اس میں (مرتد ہونے میں)] اِلَّا يَسِيْرًا [مگر تھوڑی سی]۔



ترکیب: (آیت۔14)۔ دخل۔ یدخل فعل لازم ہے جس کا مجہول نہیں آتا۔ لیکن یہاں دخلت فعل مجہول استعمال ہوا ہے۔ یہ عربی کا مخصوص استعمال ہے کہ اس کا مجہول دخل۔ یدخل اور باب سمع سے دخل۔ یدخل دونوں فعل معروف کے معانی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس کے معنی ہوتے ہیں کسی جگہ کسی خرابی کا دخل ہونا۔ (المنجد)۔ دخلت واحد مؤنث کا صیغہ ہے۔ اس کا فاعل اس میں شامل ہی کی ضمیر ہے جو جنود کے لئے ہے۔ اقطارھا میں ھا کی ضمیر یثرب کے لئے بھی ہوسکتی ہے اور بیوت کے لئے بھی۔ ہم اس کو یثرب کے لئے ماننے کو ترجیح دیں گے۔

وَلَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ ۭ وَكَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَسْـُٔــوْلًا  15؀
وَلَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا [اور یقینا یہ لوگ معاہدہ کر چکے تھے] اللّٰهَ [اللہ سے] مِنْ قَبْلُ [پہلے سے] [لَا يُوَلُّوْنَ : (کہ) وہ لوگ نہیں پھیریں گے] الْاَدْبَارَ ۭ [پیٹھوں کو] وَكَانَ [اور ہے] عَهْدُ اللّٰهِ [اللہ کا عہد] مَسْـُٔــوْلًا [پوچھا جانے والا]۔

قُلْ لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ وَاِذًا لَّا تُمَـتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا  16؀
قُلْ [آپ
کہہ دیجئے] لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ [ہرگز نفع نہیں دے گا تم لوگوں کو] الْفِرَارُ [بھاگنا] اِنْ فَرَرْتُمْ [اگر تم لوگ بھاگتے ہو] مِّنَ الْمَوْتِ [موت سے] اَوِ الْقَتْلِ [یا قتل ہونے سے] وَاِذًا [اور تب تو] لَّا تُمَـتَّعُوْنَ [تم کو فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا] [اِلَّا قَلِيْلًا : مگر تھوڑا سا (چند دن)]

قُلْ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَعْصِمُكُمْ مِّنَ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوْۗءًا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً ۭ وَلَايَجِدُوْنَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا  17؀
قُلْ [آپ
کہیے] مَنْ ذَا الَّذِيْ [کون ہے وہ جو] يَعْصِمُكُمْ [بچائے گا تم کو] مِّنَ اللّٰهِ [اللہ سے] اِنْ اَرَادَ [اگر وہ ارادہ کرے] بِكُمْ [تمہارے بارے میں] سُوْۗءًا [کسی برائی کا] اَوْ اَرَادَ بِكُمْ [یا وہ ارادہ کرے تمہارے بارے میں] رَحْمَةً ۭ [کسی رحمت کا] وَلَايَجِدُوْنَ [اور وہ نہیں پائیں گے] لَهُمْ [اپنے لئے] مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ [اللہ کے علاوہ ] وَلِيًّا [کوئی ولی] وَّلَا نَصِيْرًا [اور نہ کوئی مدد کرنے والا]۔



نوٹ۔1: آیت۔17۔ میں عربی کے معروف قاعدے کے مطابق اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً سے پہلے جملہ کا ایک حصہ محذوف ہے۔ پوری بات یوں ہے۔ او یمسک رحمتہ ان ارادبکم رحمۃ۔ (یا اس کی رحمت کو روک سکے اگر وہ تم پر رحمت کرنا چاہے)۔ عربی میں حذف کے اس اسلوب کی مثالیں بہت ہیں لیکن اردو میں یہ اسلوب موجود نہیں ہے۔ (تدبر قرآن)

قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِيْنَ مِنْكُمْ وَالْقَاۗىِٕلِيْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَيْنَا ۚ وَلَا يَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِيْلًا 18۝ۙ
قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ [جانتارہا ہے اللہ] الْمُعَوِّقِيْنَ [روکنے والوں کو]مِنْكُمْ [تم میں سے] وَالْقَاۗىِٕلِيْنَ [اور کہنے والوں کو] لِاِخْوَانِهِمْ [اپنے بھائیوں سے] هَلُمَّ [چلے آئو] اِلَيْنَا ۚ [ہماری طرف] وَلَا يَاْتُوْنَ [ اور وہ لوگ نہیں آئے] الْبَاْسَ [جنگ کے پاس] اِلَّا قَلِيْلًا [مگرتھو ڑاسا (کبھی کبھی)۔



ع و ق

(ن) عوقا روکنا۔ باز رکھنا۔ منع کرنا۔

(تفعیل) تعویقا کثرت سے روکنا۔ بار بار منع کرنا۔

 معوق اسم الفاعل ہے۔ روکنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔18

اَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ښ فَاِذَا جَاۗءَ الْخَوْفُ رَاَيْتَهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ تَدُوْرُ اَعْيُنُهُمْ كَالَّذِيْ يُغْشٰى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۚ فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِـنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَي الْخَــيْرِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَمْ يُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا   19؀
اَشِحَّةً [کنجوسی کرنے والے ہوتے ہوئے] عَلَيْكُمْ ښ [تم لوگوں پر] فَاِذَا جَاۗءَ الْخَوْفُ [پھر جب آتا ہے خوف (کا وقت)] رَاَيْتَهُمْ [آپ
دیکھتے ہیں ان کو] [يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ : [(کہ) وہ لوگ دیکھتے ہیں آپ کی طرف] [تَدُوْرُ [گھومتی ہیں] اَعْيُنُهُمْ [ان کی آنکھیں] كَالَّذِيْ [اس کی مانند] يُغْشٰى عَلَيْهِ [ڈھانپ دیا جاتا ہے جس پر] مِنَ الْمَوْتِ ۚ [موت میں سے] فَاِذَا ذَهَبَ [پھر جب چلا جاتا ہے] الْخَوْفُ [خوف (کا وقت)] سَلَقُوْكُمْ [تو یہ لوگ چرب زبانی کرتے ہیں تم لوگوں سے] بِاَلْسِـنَةٍ حِدَادٍ [تیز تیز زبانوں کے ساتھ] اَشِحَّةً [رال ٹپکانے والے ہوتے ہوئے] عَلَي الْخَــيْرِ ۭ [بھلائی (مال غنیمت) پر] اُولٰۗىِٕكَ [یہ لوگ ہیں] لَمْ يُؤْمِنُوْا [جو ایمان لائے ہی نہیں] فَاَحْبَطَ اللّٰهُ [تو اکارت کیا اللہ نے] اَعْمَالَهُمْ ۭ [ان کے اعمال کو] وَكَانَ ذٰلِكَ [اور یہ ہے] عَلَي اللّٰهِ [اللہ پر] يَسِيْرًا [ آسان]۔



س ل ق

(ن) سلقا (1) زبان درازی کرنا۔ طعنہ دین۔ (2) چرب زبانی کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔19



نوٹ۔1: آیت۔19۔ میں اولئک لم یؤمنوا سے یسیرا تک کا جو حصہ ہے یہ کچھ لوگوں کی بعض شدید قسم کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہے۔ بہت سے لوگ ارادے اور نیت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ان لوگوں کے خیال میں کسی کا کوئی عمل اگر اچھا ہے ہے تو وہ لازما آخرت میں بھی اس کا ثواب پائے گا۔ حالانکہ یہ بات حقیقت کے بالکل خلاف ہے ۔ اللہ کے ہاں کسی کے بڑے سے بڑے عمل کی بھی کوئی وقعت نہیں ہے اگر وہ اس کی رضا کے لئے نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ ہر اس عمل کو قبول فرمائے گا جو اس احکام کے مطابق اور خالص اس کی رضا جوئی کے لئے کیا جائے۔ اگر کوئی عمل اس کی رضا جوئی کے سوا کسی اور کی رضا یا کسی اور غرض کے لئے کیا جائے تو ایسے عمل کع اللہ تعالیٰ عمل کرنے والے کے منہ پر پھینک مارے گا کہ اس کا صلہ وہ ان سے لے جن کی خوشنودی کے لئے اس نے کیا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ مغالطہ بھی ہوجاتا ہے کہ خدا بڑا مہربان و کریم ہے۔ اس وجہ سے جو کچھ بھی اور جس طرح بھی کوئی نیکی کا کام کر دے گا وہ اس کو قبول فرمائے گا۔ اس میں ذرا شبہ نہیں کہ خدا بڑا ہی مہربان و کریم ہے لیکن ساتھ ہی وہ نہایت غیور و غنی بھی ہے۔ اس وجہ سے ایسے لوگوں کے اعمال کو پامال کر دینا اس پر ذرا بھی گراں نہیں ہوگا جن کا قبول کرنا اس کی غیرت کے منافی ہو۔ (تدبر القرآن)

يَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوْا ۚ وَاِنْ يَّاْتِ الْاَحْزَابُ يَوَدُّوْا لَوْ اَنَّهُمْ بَادُوْنَ فِي الْاَعْرَابِ يَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْۢبَاۗىِٕكُمْ ۭ وَلَوْ كَانُوْا فِيْكُمْ مَّا قٰتَلُوْٓا اِلَّا قَلِيْلًا 20۝ۧ
يَحْسَبُوْنَ [وہ لوگ سمجھتے ہیں] الْاَحْزَابَ [لشکروں کو] لَمْ يَذْهَبُوْا ۚ [(کہ) وہ گئے ہی نہیں] وَاِنْ يَّاْتِ [اور اگر آجاتے] الْاَحْزَابُ [لشکر] يَوَدُّوْا [تو وہ لوگ آرزو کرتے] لَوْ اَنَّهُمْ [(کہ) کاش وہ لوگ] بَادُوْنَ [صحرا نشین ہوتے] فِي الْاَعْرَابِ [دیہاتوں میں] يَسْاَلُوْنَ [پوچھتے ہوتے] عَنْ اَنْۢبَاۗىِٕكُمْ ۭ [تمہاری خبروں کے بارے میں] وَلَوْ كَانُوْا [اور اگر وہ ہوتے] فِيْكُمْ [تم لوگوں میں] مَّا قٰتَلُوْٓا [تو وہ لوگ جنگ نہ کرتے] اِلَّا قَلِيْلًا [مگر تھوڑا سا]۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا  21۝ۭ
لَقَدْ كَانَ [یقینا ہو چکا] لَكُمْ [تمہارے لئے] فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ [اللہ کے رسول میں] اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [ایک بھلائی والا نمونہ] لِّمَنْ [اس کے لئے جو] كَانَ يَرْجُوا [امید کرتا رہے] اللّٰهَ [اللہ (کی رحمت) کی] وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ [اور آخری دن (کے اجر) کی] وَذَكَرَ اللّٰهَ [اور یاد کرے اللہ کو] كَثِيْرًا [کثرت سے]۔

وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ۙ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ۡ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا  22؀ۭ
وَلَمَّا [اور جب] رَاَ [دیکھا] الْمُؤْمِنُوْنَ [مومنوں نے] الْاَحْزَابَ ۙ [لشکروں کو] قَالُوْا [تو انہوں نے کہا] ھٰذَا مَا [یہ وہ ہے جو] وَعَدَنَا [وعدہ کیا ہم سے] اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ [اللہ نے اور اس کے رسول
نے] وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ۡ [اور سچ کہا اللہ نے اور اس کے رسول نے] وَمَا زَادَهُمْ [اور اس نے زیادہ نہیں کیا ان کو] اِلَّآ اِيْمَانًا [مگر بلحاظ ایمان لانے کے] وَّتَسْلِيْمًا [اور بلحاظ فرمانبرداری کرنے کے]۔

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ڮ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا 23؀ۙ
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [مومنوں میں سے] رِجَالٌ [کچھ ایسے مرد ہیں] صَدَقُوْا [جنہوں نے سچ کر دیا] مَا [اس کو] عَاهَدُوا اللّٰهَ [انہوں نے معاہدہ کیا اللہ سے] عَلَيْهِ ۚ [جس پر] فَمِنْهُمْ مَّنْ [تو ان میں بھی ہیں جنہوں نے] قَضٰى [پورا کیا] نَحْبَهٗ [اپنی منت کو] وَمِنْهُمْ مَّنْ [اور ان میں وہ بھی ہیں جو] يَّنْتَظِرُ ڮ [انتظار کرتے ہیں] وَمَا بَدَّلُوْا [اور انھوں نے تبدیلی نہیں کی] تَبْدِيْلًا [کچھ بھی تبدیلی]۔



ن ح ب

(ض۔ ن) نحبا شرط لگانا۔ نذر ماننا۔

 نحب نذر۔ منت۔ زیر مطالعہ آیت۔ 23۔

لِّيَجْزِيَ اللّٰهُ الصّٰدِقِيْنَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ اِنْ شَاۗءَ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا  24؀ۚ
لِّيَجْزِيَ اللّٰهُ [نتیجتاً بدلہ دے گا اللہ] الصّٰدِقِيْنَ [سچ کر دکھانے والوں کو] بِصِدْقِهِمْ [ان کی سچائی کے سبب سے] وَيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ [اور عذاب دے گا منافقوں کو] اِنْ شَاۗءَ [اگر اس نے چاہا] اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۭ [یا توبہ قبول کرے گا ان کی] اِنَّ اللّٰهَ كَانَ [یقینا اللہ ہے] غَفُوْرًا [بے انتہا بخشنے والا] رَّحِيْمًا [ہرحال میں رحم کرنے والا]۔

وَرَدَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًا   ۭ وَكَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا  25؀ۚ
وَرَدَّ اللّٰهُ [واپس کردیا اللہ نے] الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا] بِغَيْظِهِمْ [ان کے غیظ و غضب کے ساتھ] لَمْ يَنَالُوْا [انہوں نے حاصل نہیں کی] خَيْرًا ۭ [کوئی بھلائی] وَكَفَى اللّٰهُ [اور کافی رہا اللہ] الْمُؤْمِنِيْنَ [مومنوں کو] الْقِتَالَ ۭ [جنگ میں] وَكَانَ اللّٰهُ [اور اللہ ہے] قَوِيًّا [قوت والا] [عَزِيْزًا :[بالادست]۔

وَاَنْزَلَ الَّذِيْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَيَاصِيْهِمْ وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِيْقًا  26؀ۚ
وَاَنْزَلَ [اور اس نے اتارا] الَّذِيْنَ [ان لوگوں کو جنہوں نے] ظَاهَرُوْهُمْ [مدد کی ان (کافروں) کی] مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ [اہل کتاب میں سے] مِنْ صَيَاصِيْهِمْ [ان کے قلعوں سے] وَقَذَفَ [اور اس نے پھینک مارا] فِيْ قُلُوْبِهِمُ [ان کے دلوں میں] الرُّعْبَ [عرب کو] فَرِيْقًا [ایک فریق کو]تَقْتُلُوْنَ [تم لوگ قتل کرتے تھے] وَتَاْسِرُوْنَ [اور قیدی بناتے تھے] فَرِيْقًا [کسی فریق کو]۔



ص ی ص

 ثلاثی مجرد سے فعل استعمال نہیں ہوتا۔

صیصۃ ج صیاص۔ حفاظت کا ذریعہ۔ قلعہ۔ زیر مطالعہ آیت۔26



نوٹ۔1: آیت۔26۔ میں الذین ظاھروھم میں اشارہ ہے بنو قریظہ کی طرف جنہوں نے آنے والے لشکروں کی مددد کی تھی۔ لشکروں کی واپسی کے بعد بنو قریظہ کا محاصرہ کیا گیا جو تقریبا 25 دن جاری رہا۔ پھر یہودیوں نے حضرت سعد بن معاذ  (رض)  کو حکم مان لیا کہ وہ جو فیصلہ کریں گے ان کو قبول ہوگا۔ حضرت سعد  (رض)  نے فیصلہ دیا کہ ان کے تمام قابل جنگ افراد قتل کر دئیے جائیں اور باقی لوگوں کو غلام اور لونڈی بنا لیا جائے۔ آیت۔ 27۔ میں لم تطئوھا میں مستقبل کی فتوحات کی بشارت ہے خصوصا خیبر کی فتح

وَاَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ وَاَرْضًا لَّمْ تَـــطَـــــُٔـوْهَا   ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا 27؀ۧ
وَاَوْرَثَكُمْ [اور اس نے وارث بنایا تم کو] اَرْضَهُمْ [ان کی زمین کا] وَدِيَارَهُمْ [اور ان کے گھروں کا] وَاَمْوَالَهُمْ [اور ان کے مالوں کا] وَاَرْضًا [اور ایک ایسی زمین کا جس کو] لَّمْ تَـــطَـــــُٔـوْهَا ۭ [تم نے قدموں سے نہیں روندا] وَكَانَ اللّٰهُ [اور اللہ ہے] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ہر چیز پر] قَدِيْرًا [قدرت رکھنے والا]۔

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 28؀
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ [اے نبی
] قُلْ [آپ کہہ دیجئے] لِّاَزْوَاجِكَ [اپنی ازواج سے] [اِنْ كُنْتُنَّ : اگر تم لوگ ہو (کہ)] تُرِدْنَ [تم لوگ چاہتی ہو] الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا [دنیوی زندگی کو] وَزِيْنَتَهَا [اور اس کی زینت کو] فَتَعَالَيْنَ [تو تم سب آؤ] اُمَتِّعْكُنَّ [میں کچھ سامان دیتا ہوں تم سب کو] وَاُسَرِّحْكُنَّ [اور میں آزاد کرتا ہوں تم کو] سَرَاحًا جَمِيْلًا [خوبصورتی سے آزاد کرنا]۔



نوٹ۔1: غزوہ احزاب کے بعد بنو نضیر، پھر بنو قریظہ کی فتوحات اور اموال غنیمت کی تقسیم نے مسلمانوں میں ایک گونہ خوشحالی پیدا کر دی تھی۔ اس وقت ازواج مطہرات کو یہ خٰال ہوا کہ ان اموال غنیمت میں سے رسول اللہ
نے بھی اپنا حصہ رکھا ہوگا۔ اس لئے انہوں نے خرچہ میں اضافہ کا مطالبہ کی۔

آیت۔ 28۔ 29۔ نے ازواج مطہرات کو اختیاردے دیا کہ وہ چاہیں تو رسول اللہ
کی موجودہ حالت یعنی معاشی تنگی کے ساتھ آپ کی زوجیت میں رہیں یا طلاق حاصل کرکے آزاد ہو جائیں۔ قرآن کا یہ حکم سب ازواج کو سنایا گیا اور سب نے اللہ کو اور اس کے رسول کو اور آخرت کو اختیار کیا۔ (معارف القرآن)

وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا  29 ؀
وَاِنْ كُنْتُنَّ [اور اگر تم لوگ ہو (کہ)] تُرِدْنَ [تم لوگ چاہتی ہے] اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ [اللہ کو اور اس کے رسول
کو] وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ [اور آخری گھر کو] فَاِنَّ اللّٰهَ [تو بیشک اللہ نے] اَعَدَّ [تیار کیا] لِلْمُحْسِنٰتِ [نیکی کرنے والیوں کے لئے] مِنْكُنَّ [تم میں سے] اَجْرًا عَظِيْمًا [ایک اجر عظیم]۔

يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا  30؀
يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ [اے نبی
کی خواتین] مَنْ [جو کوئی] يَّاْتِ [کرے گی] مِنْكُنَّ [تم میں سے] بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ [کوئی کھلی بےحیائی] يُّضٰعَفْ [تو بڑھایا جائے گا] لَهَا [اس کے لئے] الْعَذَابُ [عذاب کو] ضِعْفَيْنِ ۭ [دوگنا] وَكَانَ ذٰلِكَ [اور یہ ہے] عَلَي اللّٰهِ [اللہ پر] يَسِيْرًا [آسان]۔



نوٹ۔2: آیات۔ 30۔ 31 میں ازواج مطہرات کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ اگر وہ کوئی غلط کام کریں گی تو ان کو دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ اسی طرح اگر وہ کوئی نیک عمل کریں گی تو ان کو ثواب بھی دوہرا دیا جائے گا ایک حیثیت سے یہ ان کے اس عمل کی جزاء ہے جو انھوں نے رسول اللہ
کی زوجیت پر دنیا کی فراخی کو قربان کر دیا۔