قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 

بائیسواں پارہ

  

وَمَنْ يَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّــؤْتِهَآ اَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ ۙ وَاَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيْمًا  31؀
وَمَنْ يَّقْنُتْ [اور جو کوئی فرمانبرداری کرے گی] مِنْكُنَّ [تم میں سے] لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ [اللہ کی اور اس کے رسول کی] وَتَعْمَلْ [اور عمل کرے گی] صَالِحًا [نیک] نُّــؤْتِهَآ [تو ہم دیں گے اس کو] اَجْرَهَا [اس کا اجر] مَرَّتَيْنِ ۙ [دوبار] وَاَعْتَدْنَا لَهَا [اور ہم نے تیار کیا اس کے لئے] رِزْقًا كَرِيْمًا [عزت والی روزی]۔



نوٹ۔3: آیت۔ 31۔ کے الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات تمام دنیا کی عورتوں سے افضل ہیں۔ مگر سورہ ال عمران کی آیت سے بی بی مریم کا سارے جہاں کی عورتوں سے افضل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ
نے فرمایا کہ کافی ہیں تم کو ساری عورتوں میں مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد (ام المؤمنین) اور فاطمہ بنت محمد اور آسیہ روجہ فرعون۔ اس حدیث میں بی بی مریم کے ساتھ اور تین عورتوں کو نساء العالمین سے افضل فرمایا ہے۔ اس لئے مذکورہ آیات میں ازواج مطہرات کی فضیلت ایک خاص حیثیت سے ہے یعنی ازواج النبی ہونے کی حیثیت سے، جس میں وہ دوسری عورتوں سے افضل ہیں۔ لیکن اس سے عام فضیلت مطلقہ ثابت نہیں ہوتی۔ (معارف القرآن)

يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا 32؀ۚ
يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ [اے نبی کی خواتین] لَسْتُنَّ [تم لوگ نہیں ہو] كَاَحَدٍ [کسی ایک کی مانند] مِّنَ النِّسَاۗءِ [عورتوں میں سے] اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ [اگر تم لوگ تقوی اختیار کرو] فَلَا تَخْـضَعْنَ [پس تم لوگ تواضع مت کرو] بِالْقَوْلِ [بات سے] فَيَطْمَعَ [نتیجتاً لالچ کرے] الَّذِيْ [وہ جس کے] فِيْ قَلْبِهٖ [دل میں] مَرَضٌ [کوئی روگ ہو] وَّقُلْنَ [اور تم لوگ کہو] قَوْلًا مَّعْرُوْفًا [معقول بات]۔

وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا 33؀ۚ
وَقَرْنَ [اور تم لوگ قرار پکڑو] فِيْ بُيُوْتِكُنَّ [اپنے گھروں میں] [وَلَا تَبَرَّجْنَ: اور خود کو نمایاں مت کرو] تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى [جیسے سابقہ جاہلیت کا نمایاں کرنا] وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ [اور قائم رکھو نماز کو] وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ [اور پہنچاؤ زکوۃ] وَاَطِعْنَ [اور اطاعت کرو] اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ [اللہ اور اس کے رسول کی] اِنَّمَا [کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] يُرِيْدُ اللّٰهُ [اللہ چاہتا ہے] لِيُذْهِبَ [کہ وہ لے جائے] عَنْكُمُ [تم لوگوں سے] الرِّجْسَ [گندے (رواج) کو] اَهْلَ الْبَيْتِ [اے اس گھر والو] وَيُطَهِّرَكُمْ [اور تاکہ وہ پاک کرے تم کو] تَطْهِيْرًا [جیسے پاک کرنا ہوتا ہے]۔



نوٹ۔1: حضرت ابن عباس  (رض)  سے روایت منقول ہے کہ انھوں نے آیت۔33 میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات کو قرار دیا اور استدلال میں اگلی آیت واذکرن ما یتلی فی بیوتکن پیش کی۔ لیکن حدیث کی متعدد روایات اس پر شاہد ہیں کہ اہل بیت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور علی  (رض)  اور حضرت حسن  (رض)  اور حسین  (رض)  بھی شامل ہیں۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ در حقیقت ان دونوں اقوال میں جو ائمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جن لوگوں نے کہا کہ یہ آیت ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہل بیت سے وہ مراد ہیں۔ یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہل بیت میں شامل ہوں۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ لفظ اہل بیت میں ازواج مطہرات بھی داخل ہیں کیونکہ اس آیت کا شان نزول وہی ہیں اور ارشاد نبوی کے مطابق حضرت فاطمہ و علی و حسن و حسین رضی اللہ عنہم بھی اہل بیت میں شامل ہیں۔ (معارف القرآن)

وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا 34؀ۧ
وَاذْكُرْنَ مَا [اور یاد رکھو اس کو جو] يُتْلٰى [تلاوت کیا جاتا ہے] فِيْ بُيُوْتِكُنَّ [تمہارے گھروں میں] مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ [اللہ کی آیات میں سے] وَالْحِكْمَةِ ۭ[اور حکمت میں سے] اِنَّ اللّٰهَ كَانَ [بیشک اللہ ہے] لَطِيْفًا [باریک بین] خَبِيْرًا [باخبر]۔



نوٹ۔2: آیت۔34۔ میں ایت اللہ سے مراد قرآن اور الحکمۃ سے مراد رسول اللہ
کی تعلیمات اور سنت رسول ہے۔ ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ جو شخص سے کوئی آیت قرآن یا حدیث سنے اس پر لازم ہے کہ وہ امت کو پہنچائے۔ یہاں تک کہ ازواج مطہرات پر بھی لازم کیا گیا کہ اللہ کی امنات امت کو پہنچائیں۔ (معارف القرآن)۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ نبی کا علم و عمل جتنا آپ کی ازواج مطہرات کے ذریعہ سے پھیلا ہے اس کی مقدار صحابہ کرام  (رض)  کے ذریعے پھیلے ہوئے علم سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اور اس آیت سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اس مشن پر آپ کی ازواج مطہرات کو اللہ تعالیٰ نے خود مامور فرمایا تھا۔ ہمارے نزدیک یہ مصلحت بھی من جملہ ان مصالح کے ہے جن کی بنا پر آپ کو تعد و ازواج کی خاص اجازت دی تھی۔ (تدبر القرآن]۔

نوٹ۔3: آیت۔34۔ میں حکمت کے لفظ کا اطلق کتاب اللہ کی تعلیمات پر بھی ہوسکتا ہے۔ مگر صرف ان ہی کے ساتھ اس کو خاص کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن کی آیات سنانے کے علاوہ جس حکمت کی تعلیم نبی
اپنی سیرت پاک سے اور اپنے ارشادات سے دیتے تھے وہ بھی لا محالہ اس میں شامل ہے۔ بعض لوگ محض اس بنیاد پر کہ آیت میں ما یتلی (جو تلاوت کی جاتی ہیں) ک لفظ استعمال ہوا ہے، یہ دعوی کرتے ہیں کہ آیات اللہ اور حکمت سے مراد صرف قرآن ہے کیونکہ تلاوت کا لفظ اصطلاحا قرآن کی تلاوت کے لئے مخصوص ہے۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ تلاوت کے لفظ کو اصطلاح کے طور پر قرآن کی تلاوت کے لئے مخصوص کر دینا بعد کے لوگوں کا کام ہے۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت۔ 102۔ میں یہی لفظ جادو کے ان منتروں کے لئے استعمال کیا گیا جو شیاطین حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے لوگوں کو سناتے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اس لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتا ہے، کتاب اللہ کی آیات سنانے کے لئے اصطلاحا مخصوص نہیں کرتا۔ (تفہیم القرآن)

اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا 35؀
اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ [بیشک تابعداری قبول کرنے والے اور تابعداری قبول کرنے والیاں] وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ [اور ایمان لانے والے اور ایمان لانے والیاں] وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ [اور تابعداری کرنے والے اور تابعداری کرنے والیاں] وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ [اور سچ کرنے والے اور سچ کرنے والیاں] وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ [اور ثابت قدم رہنے والے اور ثابت قدم رہنے والیاں] وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ [اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں] وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ [اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں] وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ [اور روزہ رکھنے والے اور روزہ رکھنے والیاں] وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ [اور حفاظت کرنے والے اپنی شرمگاہوں کی] وَالْحٰفِظٰتِ [اور حفاظت کرنے والیاں] وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا [اور یاد کرنے والے اللہ کو کثرت سے] وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ [اور یاد کرنے والیاں] اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ [اللہ نے تیار کیا ان کے لئے] مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا [ایک مغفرت اور ایک اجر عظیم]۔

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا 36؀ۭ
وَمَا كَانَ [اور نہیں ہے] لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ [کسی مومن مرد اور نہ ہی کسی مومن عورت کے لئے] اِذَا قَضَى [جب فیصلہ کر دے] اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ [اللہ اور اس کا رسول] اَمْرًا [کسی معاملہ کا] اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ [کہ ہوان کے لئے] الْخِـيَرَةُ [اختیار] مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ [ان کے کام میں] وَمَنْ يَّعْصِ [اور جو نافرمانی کرتا ہے] اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ [اللہ اور اس کے رسول کی] فَقَدْ ضَلَّ [تو وہ بھٹک گیا ہے] ضَلٰلًا مُّبِيْنًا [صریحا بھٹکنا]۔



نوٹ۔1: آیت۔36۔ اس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی
نے حضرت زید  (رض)  کے لئے بی بی زینب  (رض)  کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا تھا اور بی بی زینب  (رض)  ور ان کے بھائی نے اسے نامنظور کردیا تھا۔ ان لوگوں کو یہ بات ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی اور اپنی پھوپھی زاد بہن کے لئے آپ اپنے آزاد کردہ غلام دے رہے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اسے سنتے ہیں بی بی زینب  (رض)  اور ان کے خاندان والوں نے سر اطاعت خم کر دیاا۔ اس کے بعد نبی نے ان کا نکاح پڑھایا، یہ آیت اگرچہ ایک خاص موقعہ پر نازل ہوئی ہے مگر جو حکم اس میں بیان کیا گیا ہے وہ اسلامی آئین کا اصل الاصول ہے اور اس کا اطلاق پورے اسلامی نظام زندگی پر ہوتا ہے۔ اس کی رو سے کسی مسلمان فرد یا قوم یا ادارے یا عدالت یا پارلیمنٹ یا ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم ثابت ہو اس میں وہ اپنی آزادی رائے استعمال کرے۔ (تفہیم القرآن)

وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِيْٓ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَاَنْعَمْتَ عَلَيْهِ اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ ۚ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىهُ ۭ فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِيْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِيَاۗىِٕهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۭ وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا 37؀
وَاِذْ تَقُوْلُ [اور جب آپ
کہتے تھے] لِلَّذِيْٓ [اس (شخص) سے] اَنْعَمَ اللّٰهُ [انعام کیا اللہ نے] عَلَيْهِ [جس پر] وَاَنْعَمْتَ [اور آپ نے انعام کیا] عَلَيْهِ [جس پر] اَمْسِكْ [(کہ) تو تھامے رکھ] عَلَيْكَ [اپنے پاس] زَوْجَكَ [اپنی بیوی کو] وَاتَّقِ اللّٰهَ [اور تو تقوی کر اللہ کا] وَتُخْــفِيْ [اور آپ چھپاتے تھے] فِيْ نَفْسِكَ [اپنے جی میں] مَا [اس کو] اللّٰهُ مُبْدِيْهِ [اللہ ظاہر کرنے والا تھا جس کو] وَتَخْشَى النَّاسَ ۚ [اور آپ ڈرتے تھے لوگوں سے] وَاللّٰهُ اَحَقُّ [اور اللہ سب سے زیادہ حقدا ہے] اَنْ تَخْشٰـىهُ ۭ [کہ آپ ڈریں اس سے] فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ [تو پھر جب پوری کی زید  (رض)  نے] مِّنْهَا [اس (بیوی) سے] وَطَرًا [حاجت (یعنی طلاق دے دی)] زَوَّجْنٰكَهَا [تو ہم نے جوڑا بنایا (نکاح کیا) آپ کا ان  (رض)  سے] لِكَيْ لَا يَكُوْنَ [تاکہ نہ ہو] عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ [مومنوں پر] حَرَجٌ [کوئی حرج] فِيْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِيَاۗىِٕهِمْ [اپنے منہ بولوں کی بیویوں میں] اِذَا قَضَوْا [جب وہ پوری کریں] مِنْهُنَّ [ان سے] وَطَرًا ۭ[حاجت] وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ [اور تھا اللہ کا حکم] مَفْعُوْلًا [کیا جانے والا]۔

مَا كَانَ عَلَي النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ ۭ سُـنَّةَ اللّٰهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۭ وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَۨا 38 ؀ڽ
مَا كَانَ عَلَي النَّبِيِّ [نہیں ہے ان نبی
پر] مِنْ حَرَجٍ [کوئی بھی حرج] فِيْمَا [اس میں جو] فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ ۭ [فرض کیا اللہ نے ان کے لئے] سُـنَّةَ اللّٰهِ [(آپ پائیں گے) اللہ کی سنت کو] فِي الَّذِيْنَ [ان (انبیاء) میں جو] خَلَوْا [گزرے] مِنْ قَبْلُ ۭ [اس سے پہلے] وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ [اور ہے اللہ کا حکم] قَدَرًا [ایک اندازے سے]مَّقْدُوْرَۨا [اندازہ کیا ہوا]۔

الَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخْشَوْنَهٗ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ ۭوَكَفٰى بِاللّٰهِ حَسِيْبًا  39؀
الَّذِيْنَ [وہ لوگ جو] يُبَلِّغُوْنَ [تبلیغ کرتے ہیں] رِسٰلٰتِ اللّٰهِ [اللہ کے پیغامات کی] وَيَخْشَوْنَهٗ [اور وہ ڈرتے ہیں اس سے] وَلَا يَخْشَوْنَ [اور وہ لوگ نہیں ڈرتے] اَحَدًا [کسی ایک سے] اِلَّا اللّٰهَ ۭ[سوائے اللہ کے] وَكَفٰى بِاللّٰهِ [اور کافی ہے اللہ] حَسِيْبًا [بطور حساب کرنے والے کے]۔

مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا  40؀ۧ
مَا كَانَ [نہیں ہیں] مُحَـمَّـدٌ [محمد
] اَبَآ اَحَدٍ [کسی ایک کے والد] مِّنْ رِّجَالِكُمْ [تمہارے مردوں میں سے] وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ [اور لیکن اللہ کے رسول ہیں] وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ [اور نبیوں (کے سلسلہ) کو سیل بند کرنے والے ہیں] وَكَانَ اللّٰهُ [اور اللہ ہے] بِكُلِّ شَيْءٍ [ہر چیز کا] عَلِــيْمًا [جاننے والا]۔



نوٹ۔1: آیت۔40۔ میں ان لوگوں کے خیال کا رد ہے جو اپنی رسم جاہلیت کے مطابق بی بی زینب  (رض)  سے نبی
کے نکاح پر طعن کرتے تھے کہ بیٹے کی بیوی سے نکاح کر لیا۔ اس کے رد کے لئے یہ کہہ دینا کافی تھا۔ آپ زید  (رض)  کے باپ نہیں ہیں بلکہ ان کے باپ حارثہ ہیں۔ مگر اس میں تاکید کے لئے فرمایا کہ آپ تمہارے مردوں میں سے کسی کے بھی باپ نہیں ہیں۔ تو جس کی کوئی اولاد نرینہ نہ ہو اس کو یہ طعن دینا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا ہے۔ رسول اللہ کے چار بیٹے پیدا ہوئے۔ بی بی خدیجہ  (رض)  سے قاسم ، طیب اور طاہر جبکہ ماریہ قبطیہ  (رض)  سے ابراہیم پیدا ہوئے لیکن یہ سب بچپن میں ہی وفات پاگئے اور ان میں سے کوئی بھی رجال کی حد میں داخل نہیں ہوا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ نزول آیت کے وقت آپ کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ قاسم ، طیب اور طاہر کی وفات ہوگئی تھی اور ابراہیم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس وضاحت کے ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ گو آپ کسی مرد کے نسبی باپ نہیں ہیں لیکن ایک امت کے روحانی باپ ہیں کیونکہ آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں۔ (معارف القرآن)

 آج کل خاتم النبین کے معنی و مفہوم کے متعلق کافی غلط فہمیاں پیدا کر دی گئی ہیں اور اچھے خاصے مخلص مسلمانوں کے ذہنوں میں کسی اس کے بارے میں مختلف تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ایسے اصحاب کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اس آیت کی تشریح میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا لکھا ہوا ضمیمہ تفہیم القرآن سے پڑھ لیں۔ پھر بھی تسلی نہ ہو تو مفتی محمد شفیع کی کتاب ختم نبوت پڑھ لیں جس میں ایک سو آیات اور دو سو سے زائد احادیث ہیں۔ یوں ہی رجما بالغیب کرکے وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے ، صرف اپنی آخرت خراب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔ یہاں پر میں صرف دو باتیں ذہن نشین کروانا چاہتا ہوں۔

 اولا یہ کہ مختلف مسائل میں صحابہ کرام  (رض)  کے درمیان اختلاف رائے ہوتا تھا۔ اور خلیفہ وقت فیصلہ کرتا تھا کہ کسی رائے پر عمل کیا جائے۔ مثلا رسول اللہ
کے وصال کے بعد کچھ قبیلوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ اس وقت ایک رائے یہ تھی کہ زکوٰۃ کا انکار کرنے سے یہ لوگ کافر ہوگئے اس لئے ان سے جنگ کی جائے دوسری رائے یہ تھی کہ حالات کی سنگینی کے پیش مصلحت سے کام لیا جائے اور جنگ نہ کی جائے۔ حضرت ابوبکر  (رض)  نے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مسیلمہ کذاب کے مسئلہ میں بھی حضرت ابوبکر  (رض)  نے مشاورت طلب کی تھی۔ اس وقت بلا استثناء تمام صحابہ کرام  (رض)  کا متفقہ فیصلہ تھا کہ مسیلمہ کافر ہوگیا اس لئے اس سے جنگ کی جائے۔ اس سے یہ بات سوا نیزے پر دمکتے ہوئے سورج کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ خاتم النبین کے معنی اور مفہوم کے بارے میں کسی ایک بھی صحابی کے ذین میں کوئی ابہام نہیں تھا۔

 ثانیا یہ کہ دور صحابہ کے صدیوں بعد اور آج سے صدیوں پہلے امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے ، اسے ہم معارف القرآن سے نقل کر رہے ہیں اور وہ ذہن کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ اس آیت میں کسی تاویل یا تخصیص کی گنجائش نہیں ہے اور جو شخص تاویل کرکے اس میں کوئی تخصیص نکالے اس کا کلام ہذیان (یعنی کسی مخبوط الحواس کی بڑ بڑاہٹ) کی قسم سے ہے اور یہ تاویل اس کو کافر کہنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ وہ اس آیت کی تکذیب کر رہا ہے‘‘۔

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بےاثر

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا  41؀ۙ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا [اے لوگو جو ایمان لائے] اذْكُرُوا اللّٰهَ [تم لوگ یاد کرو اللہ کو] ذِكْرًا كَثِيْرًا [جیسے کثرت سے یاد کرنے کا حق ہے]۔



نوٹ۔1: آیت۔41۔42۔ میں مسلمانوں کو مخالفین کی محاذ آرائی کے مقابل میں ثابت قدم رہنے کی تدبیر بتائی ہے کہ ان کے غوغا سے بےپرواہ ہوکر تم زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کرو۔ یہ مر واضح رہے کہ شیطان اور اس کی ذریات کے مقابل میں مومن کی اصلی سپر اللہ تعالیٰ کی یاد ہی ہے۔ اس لئے ذکر تو سانس کی طرح ہر وقت مطلوب ہے۔ (تدبر القرآن)

 حضرت ابن عباس  (رض)  نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر ذکر اللہ کے سوا کوئی ایسا فرض عائد نہیں کیا جس کی کوئی حد مقرر نہ ہو۔ نماز پانچ وقت کی اور ہر نماز کی رکعات متعین ہیں۔ روزے ماہ رمضان کے مقرر ہیں۔ حج بھی خاص مقام پر اعمال مقررہ کرنے کا نام ہے۔ زکوٰۃ بھی سال میں ایک ہی مرتبہ فرض ہوتی ہے۔ مگر ذکر اللہ ایسی عبادت ہے کہ نہ اس کی کوئی حد یا تعداد متعین ہے، نہ کوئی خاص وقت یا زمانہ مقرر ہے، نہ اس کے لئے قیام یا نشست کی کوئی خاص ہئیت مقرر ہے، نہ اس کے لئے طاہر اور باوضو ہونا شرط ہے۔ ہر وقت اور ہر حال میں بکثرت ذکر اللہ کرنے کا حکم ہے۔ اس کے علاوہ دوسری عبادات میں بیماری اور مجبوری کے حالات میں عبادت میں کمی یا معافی کی رخصتیں بھی ہیں مگر ذکر اللہ کے لئے اللہ نے کوئی شرط نہیں رکھی اس لئے اس کو ترک کرنے کے لئے کوئی عذر نہیں سنا جائے گا۔ (معارف القرآن)

وَّسَبِّحُــوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا 42؀
وَّسَبِّحُــوْهُ [اور تسبیح کرو اس کی] بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا [صبح و شام]۔

هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْكُمْ وَمَلٰۗىِٕكَتُهٗ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا 43؀
هُوَ الَّذِيْ [وہ، وہ ہے جو] يُصَلِّيْ [شفقت کرتا ہے] عَلَيْكُمْ [تم لوگوں پر] وَمَلٰۗىِٕكَتُهٗ [اور اس کے فرشتے (دعا کرتے ہیں)] لِيُخْرِجَكُمْ [تاکہ وہ نکالے تم لوگوں کو] مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ [اندھیروں سے نور کی طرف] وَكَانَ [اور وہ ہے] بِالْمُؤْمِنِيْنَ [مومنوں پر] رَحِيْمًا [رحم کرنے والا]۔

تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌ ڻ وَاَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِيْمًا 44؀
تَحِيَّتُهُمْ [ان کی دعا] يَوْمَ يَلْقَوْنَهٗ [جس دن وہ ملیں گے اس سے] سَلٰمٌ ڻ [سلام ہوگی] وَاَعَدَّ لَهُمْ [اور اس نے تیار کیا ان کے لئے] اَجْرًا كَرِيْمًا [ایک باعزت اجر]۔

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا 45؀ۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ [اے نبی] اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ [بیشک ہم نے بھیجا آپ
کو] شَاهِدًا [گواہ ہوتے ہوئے] وَّمُبَشِّرًا [اور بشارت دینے والا ہوتے ہوئے] وَّنَذِيْرًا [اور خبردار کرنے والا ہوتے ہوئے]۔



نوٹ۔2: آیت۔45۔ میں ہے کہ رسول اللہ
کو گواہ بنا کر بھیجا گیا ہے۔ بعض لوگ اس کو یہ معنی پہناتے ہیں کہ آپ آخرت میں لوگوں کے اعمال پر گواہی دیں گے۔ اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ آپ تمام لوگوں کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔ ورنہ بےدیکھے شہادت کیسے دیں گے۔ لیکن قرآن کی رو سے یہ تاویل بالکل غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اعمال پر شہادت قائم کرنے کے لئے اللہ نے ایک دوسرا انتظام فرمایا ہے۔ اس کے فرشتے ہر شخص کا نامہ اعمال تیار کر رہے ہیں۔ (سورہ ق آیات۔ 17۔18۔ اور الکہف آیت۔149) اور وہ لوگوں کے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا۔ یٰسین۔65۔ حم السجدہ۔20۔ 21) رہے انبیاء علیہم السلام تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا تھا۔ (المائدہ۔ 109۔ 117۔ سورہ البقرہ۔143)۔ اس کے علاوہ النحل کی آیت۔89۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز، نبی کی شہادت اس شہادت سے مختلف نہ ہوگی جسے ادا کرنے کے لئے ہر امت پر گواہی دینے والے گواہوں کو بلایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے۔ اس کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور امام احمد نے بہت سے صحابہ  (رض)  سے نقل کیا ہے جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ آپ قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب (یعنی امتی) کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں مگر وہ آپ کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے۔ آپ ان کو دیکھ کر عرض کریں گے خدایا یہ تو میرے صحابی (امتی) ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انھوں نے کیا کرتوت کیے ہیں۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا  46؀
[وَّدَاعِيًا: اور بلانے والا ہوتے ہوئے] اِلَى اللّٰهِ [اللہ کی طرف] بِاِذْنِهٖ [اس کی اجازت سے] وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا [اور روشن چراغ ہوتے ہوئے]۔

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِيْرًا 47؀
وَبَشِّرِ [اور آپ
بشارت دیں] الْمُؤْمِنِيْنَ [مومنوں کو] بِاَنَّ لَهُمْ [کہ ان کے لئے] مِّنَ اللّٰهِ [اللہ (کی طرف) سے] فَضْلًا كَبِيْرًا [بڑا فضل ہے]۔

وَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَدَعْ اَذٰىهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا 48؀
وَلَا تُطِعِ [اور آپ
کہنا مت مانیں] الْكٰفِرِيْنَ [کافروں کا] وَالْمُنٰفِقِيْنَ [اور منافقوں کا] وَدَعْ [اور آپ چھوڑ دیں] اَذٰىهُمْ [ان کے ستانے کو] وَتَوَكَّلْ [اور آپ بھروسہ کریں] عَلَي اللّٰهِ ۭ [اللہ پر] وَكَفٰى بِاللّٰهِ [اور اللہ کافی ہے] وَكِيْلًا [بطور کار ساز کے]۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا  49؀
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا [اے لوگو! جو ایمان لائے] اِذَا نَكَحْتُمُ [جب تم لوگ نکاح کرتے ہو] الْمُؤْمِنٰتِ [مومن عورتوں سے] ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ [پھر تم لوگ طلاق دیتے ہو ان کو] مِنْ قَبْلِ اَنْ [اس سے پہلے کہ] تَمَسُّوْهُنَّ [تم لوگ چھوؤ ان کو] فَمَا لَكُمْ [تو نہیں ہے تمہارے لئے] عَلَيْهِنَّ [ان عورتوں پر] مِنْ عِدَّةٍ [کوئی بھی گنتی کرنا] تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ [تم لوگ اہتمام سے گنتے ہو جس کو (یعنی عدت)] فَمَتِّعُوْهُنَّ [تو سامان (تحفہ) دو ان کو] وَسَرِّحُوْهُنَّ [اور آزاد کرو ان کو] سَرَاحًا جَمِيْلًا [خوبصورتی سے آزاد کرنا]۔



نوٹ۔1: نکاح کے بعد اور رخصتی سے پہلے طلاق دینے کا سوال خاص طور پر اس زمانے میں اس لئے پیدا ہوا ہوگا جب سورئہ نساء میں چار سے زیادہ شادیوں پر پابندی لگادی گئی۔ اس حکم کی تعمیل میں طلاق کے واقعات بکثرت پیش آئے ہوں گے۔ اور طلاق دینے والوں نے زیادہ بہتر یہی سمجھا ہوگا کہ اپنی ان منکوحات کو طلاق دیں جن کی رخصتی ابھی نہیں ہوئی ہے۔ آیت 49 نے ان کے لئے مبنی بر عدل سہولت مہیا کردی کہ ایسی عورتوں کے معاملہ میں عدت کے لحاظ کی ضرورت نہیں ہے۔ (تدبر قرآن)

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِيْٓ اٰتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِيْ هَاجَرْنَ مَعَكَ  ۡ وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِيْٓ اَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا  50؀
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ [اے نبی
] اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ [بیشک ہم نے حلال کیں آپ کے لئے] اَزْوَاجَكَ الّٰتِيْٓ [آپ کی ان بیویوں کو جن کو] اٰتَيْتَ [آپ نے دیا] اُجُوْرَهُنَّ [ان کا اجر (مہر)] وَمَا [اور ان کو جن کا] مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ [مالک ہوا آپ کا داہنا ہاتھ (کنیز)] مِمَّآ [ان میں سے جن کو] اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ [لوٹایا اللہ نے آپ پر (مال غنیمت میں)] وَبَنٰتِ عَمِّكَ [اور آپ کے چچا کی بیٹیاں] وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ [اور آپ کے پھوپھیوں کی بیٹیاں] وَبَنٰتِ خَالِكَ [اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں] وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ [اور آپ کے خالاؤں کی بیٹیاں] الّٰتِيْ [جنہوں نے] هَاجَرْنَ مَعَكَ ۡ [ہجرت کی آپ کے ساتھ] وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً [اور ایسی مومن عورت کو (حلال کیا) جو] اِنْ وَّهَبَتْ [اگر معاوضہ کے بغیر بخش دے] نَفْسَهَا [اپنی جان کو] لِلنَّبِيِّ [ان نبی کے لئے] اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ [اگر ارادہ کریں یہ نبی ] اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ [کہ وہ نکاح کریں اس سے] خَالِصَةً لَّكَ [خالص ہوتے ہوئے آپ کے لئے] مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ [تمام مومنوں کے علاوہ] قَدْ عَلِمْنَا [ہم جانتے ہیں] مَا فَرَضْنَا [اس کو جو ہم نے فرض کیا] عَلَيْهِمْ [ان لوگوں (مومنوں) پر] فِيْٓ اَزْوَاجِهِمْ [ان کی بیویوں (کے بارے) میں] وَمَا [اور ان (کے بارے) میں جن کے] مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ [مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ] لِكَيْلَا يَكُوْنَ [تاکہ نہ ہو] عَلَيْكَ حَرَجٌ ۭ [آپ پر کوئی الزام ] وَكَانَ اللّٰهُ [اور اللہ ہے] غَفُوْرًا [بے انتہا بخشنے والا] رَّحِيْمًا [ہمیشہ رحم کرنے والا]۔



نوٹ۔2: سورئہ کی مذکورہ آیت کے نزول کے بعدنجن مسلمانوں کے نکاح میں چار سے زیادہ بیویوں تھیں انہوں نے زائد بیویوں کو طلاق دے ی۔ لیکن نبی
سے کسی بیوی کو طلاق دینا ثابت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت آپ کے نکاح میں چار ہی بیویاں تھیں۔ بعد میں جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے بی بی زینب سے نکاح کیا تو مخالفین نے اعتراض کیا کہ آپ نے اپنے لئے الگ دوسروں کے لئے الگ شریعت بنا رکھی ہے۔ آیات 50 تا 52 میں اللہ تعالیٰ نے اس خاص اجازت کی وضاحت فرمائی جو ازواج کے معاملہ میں آپ کو اللہ نے دی تھی۔ اس خاص اجازت کے نمایاں پہلو یہ ہیں: (1) وہ ازواج جن کے مہر آپ ادا کرچکے وہ جائز کی گئیں۔ (2) غنیمت میں جو کنیزیزں حاصل ہوں اگر آپ ان میں سے کسی کو آزاد کرکے ان سے نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ (3) آپ کے قریبی رشتہ کی جن خواتین نے دین کی خاطر ہجرت کی ہے، ان میں سے کسی سے بھی آپ نکاح کرسکتے ہیں۔ (4) اگر کوئی مومنہ خود کو ہبہ کردے اور آپ اس سے نکاح کرنا چاہیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔ (5) یہ خصوصی اجازت تمام تر مصلحتِ دین کی خاطر ہیں، اس لئے حقوق زوجیت کے معاملہ میں آپ پر سے وہ پابندیاں اٹھالی گئیں جو دوسروں پر تھیں۔ (6) اس دائرے کے باہر آپ کوئی نکاح نہیں کرسکتے۔ (7) ان ازواج سے دوسری ازواج بدل نہیں سکتے۔ (تدب قرآن ج 6۔ ص 248 أ 249)

 یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ مذکورہ بالا وضاحت سے مقصود کفار و منافقین کو مطمئن کرنا نہیں تھا بلکہ ان مسلمانوں کو مطمئن کرنا تھا جن کے دلوں میں مخالفین اسلام وسوسے ڈالنے کی کوشش کررہے تھے۔ انہین چونکہ یقیقن تھا کہ قرآن اللہ کا کلام سے اس لئے ایک آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ چار بیویوں کے عام قانون سے نبی
کو ہم نے مستثنی کیا ہے۔ انا احللنا لک کا دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لئے چار کی قید لگانے والے بھی ہم ہی ہیں اور اپنے نبی کو اس قید سے مستثنیٰ کرنے والے بھی ہم خود ہیں۔ اگر وہ قید لگانے کے ہم مجاز تھے تو آخر اس استثنا کے مجاز ہم کیوں نہیں ہیں۔ (تفہیم القرآن)

 بی بی زینب بنت جحش سے نکاح کے وقت آپ
کی جو چار بیویاں تھیں وہ یہ ہیں: بی بی سودہ جن سے 3 قبل ہجرت میں نکاح ہوا۔ بی بی عائشہ جن سے نکاح 3 قبل ہجرت میں ہوا اور رخصتی 1 ھ میں ہوئی۔ بی بی حفصہ سے نکاح 3 ھ میں ہوا۔ بی بی ام ریحانہ غزوئہ بنی مصطلق سے بی بی جویریہ اور غزوئہ خیبر سے بی بی صفیہ آپ کی ملکیت میں آئیں۔ ان تینوں کو آزاد کرکے آپ نے ان سے نکاح کیا۔ حکمران مصر کی طرف سے تحفہ میں آئی ہوئی بی بی ماریہ قبطیہ کو آزاد کرکے نکاح کرنا ثابت نہیں ہے۔ دین کی خاطر ہجرت کرنے والی کزن بہنوں میں سے بی بی اُم حبیبہ سے آپ نے 7 ھ میں نکاح فرمایا۔ خود کو ہبہ کرنے والی خواتین میں سے آپ نے بی بی میمونہ سے 7 ھ میں نکاح لیکن ان کی خواہش اور مطالبہ کے بغیر آپ نے ان کو مہر عطا فرمایا۔ (تفہیم القرآن اور تدبر قرآن سے ماخوذ)

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّآ اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىهُ ۙ وَلٰكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْـتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ ۭ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيٖ مِنْكُمْ ۡ وَاللّٰهُ لَا يَسْتَحْيٖ مِنَ الْحَقِّ ۭ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ ۭ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ وَمَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُــؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَلَآ اَنْ تَنْكِحُوْٓا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖٓ اَبَدًا ۭ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمًا 53؀
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [اے لو گو ! جو ایمان لائے ] لَا تَدْخُلُوْا [تم لوگ داخل مت ہو ] بُيُوْتَ النَّبِيِّ [ان نبی
کے گھروں میں] اِلَّآ اَنْ يُّؤْذَنَ [سوائے اس کے کہ اجازت دی جائے] لَكُمْ [تمھیں] اِلٰى طَعَامٍ [کھانے کی طرف] غَيْرَ نٰظِرِيْنَ [بغیر دیکھنے والے ہوتے ہوئے] اِنٰىهُ ۙ [اس کے تیارہونے کو ] وَلٰكِنْ اِذَا [اور لیکن جب] دُعِيْتُمْ [بلا یا جائے تم لوگوں کو] فَادْخُلُوْا [تو داخل ہو] فَاِذَا طَعِمْتُمْ [پھر جب کھالو تم لوگ] فَانْتَشِرُوْا [تو بکھر جائو] وَلَا مُسْـتَاْنِسِيْنَ [اور نہ سننے کی خواہش کرنے والے] لِحَدِيْثٍ ۭ [کسی بات کے لئے] اِنَّ [بیشک] ذٰلِكُمْ [یہ (رویہ)] كَانَ يُؤْذِي [تکلیف دیتا ہے] النَّبِيَّ [ان نبی کو ] فَيَسْتَحْيٖ [تو وہ حیاکر تے ہیں ] مِنْكُمْ ۡ [تم لوگوں سے] وَاللّٰهُ لَا يَسْتَحْيٖ [اور اللہ حیا نہیں کرتا] مِنَ الْحَقِّ ۭ [حق (کہنے) سے] وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ [اور جب کبھی تم لوگ ما نگو ان (ازواج رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے ] مَتَاعًا [کوئی سامان ] فَسْـَٔــلُوْهُنَّ [تو لو مانگو ان سے ] مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ ۭ [پر دہ کے پیچھے سے] ذٰلِكُمْ [یہ]اَطْهَرُ [زیادہ پا کیزہ ہے] لِقُلُوْبِكُمْ [تمھارے دلوں کے لئے ]وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ [اور ان کے دلوں کے لئے] وَمَا كَانَ لَكُمْ [اور (جائز) نہیں ہے تمھارے لئے] اَنْ تُــؤْذُوْا [کہ تم لوگ تکلیف دو] رَسُوْلَ اللّٰهِ [اللہ کے رسول کو] وَلَآ اَنْ تَنْكِحُوْٓا [اور نہ (جائز ہے) کہ تم لوگ نکاح کرو] اَزْوَاجَهٗ [ان کی بیویوں سے] مِنْۢ بَعْدِهٖٓ [ان کے بعد] اَبَدًا ۭ [کبھی بھی] اِنَّ [بیشک ] ذٰلِكُمْ [یہ (بات)] كَانَ [ہے] عِنْدَ اللّٰهِ [اللہ کے یہاں] عَظِيْمًا [بہت بری]



نوٹ۔1: نبی
کسی تقریب پر صحابہ کرام کو اپنے ہاں کھانے پر بلاتے رہتے۔ ایسے مواقع پر آپ ایسے لوگوں کو بھی تالیفِ قلب کی کاطر بلاتے جو مبتلائے نفاق تھے اور نہ بھی بلاتے تو بھی ان میں سے بعض بن بلائے مہمان بک خود ہی پہنچ جاتے۔ آپ مروت کے سبب سے نظر انداز فرماتے۔ تو اللہ تعالین اس باب میں واضح ہدایات دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مرحلہ پر بھی منافقین کا پردہ نہیں اٹھانا چاہا، اس لئے عام صیغے میں بات کی ہے۔ ہدایات یہ ہیں: (1) گھروں میں اجازت کے بغیر داخل مت ہو۔ 2 دعوت میں بن بلائے مت جاؤ۔ 3۔ وقت سے پہلے مت جاؤ۔ 4۔ جب کھا چکو تو وہاں سے منتشر ہوجاؤ(تدبر قرآن سے ماخوذ)

 یہ ہدایات اس عام حکم کی تمہید ہیں جو تقریبا ایک سال بعد سورئہ نور کی آیات 27 تا 29 میں دیا گیا۔ قدیم زمانے میں اہل عرب بےتکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے تھے۔ یہ جاہلانہ طریقہ بہت سی خروبیوں کا موجب تھا۔ اس لئے پہلے نبی
کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص آپ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو پھر سورئہ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں رائج کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ (تفہیم القرآن)



نوٹ۔2: آیت 53 میں تھا کہ مومنوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ کے رسول
کو دکھ دیں۔ اب آیت 57 میں بتایا کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ لعنت کرتاہے۔ رسول اللہ کو دکھ دینے سے کیا مراد ہے؟ اس پر اگر سوچا جائے تو ہر سنت کی خلاف ورزی بھی ایذاء رسول بنتی ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی فارسی میں سیرت پر ایک کتاب ’ مدارج النبوۃ‘ ہے، اس میں ایک باب میں انہوں حضور کی محبت سے بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ محبت ایک مخفی حقیقت ہے، وہ دیکھی نہیں جاسکتی، البتہ اس کا اظہار اعمال سے ہوتاہے۔ اگر یہ دیکھنا ہو کہ کس کے دل میں محبت رسول کتنی ہے تو اس کے اعمال دیکھو۔ پھر اس ضمن میں انہوں نے بیس نکات بیان کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو کسی مسلمان کو دکھ دیتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے دل میں رسول کی کوئی محبت نہیں ہے، کیونکہ اس کے دل میں رسول کا لحاظ ہوتا یا حیا ہوتی تو وہ امت کے کسی آدمی کو دکھ نہ دیتا۔ (حافظ احمد یار صاحب کے کیسٹ سے ماخوذ)

اِنْ تُبْدُوْا شَـيْـــــًٔا اَوْ تُخْفُوْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 54؀
اِنْ تُبْدُوْا [اگر تم لوگ ظاہر کرو] شَـيْـــــًٔا [کوئی چیز] اَوْ تُخْفُوْهُ [یا خفیہ رکھو اس کو] فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ [تو بیشک اللہ ہے] بِكُلِّ شَيْءٍ [ہر چیز کا] عَلِــيْمًا [علم رکھنے والا]

لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِيْٓ اٰبَاۗىِٕـهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ وَلَآ اِخْوَانِهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗءِ اِخْوَانِهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَلَا نِسَاۗىِٕـهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ ۚ وَاتَّـقِيْنَ اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدًا 55؀
لَا جُنَاحَ [کوئی گناہ نہیں ہے] عَلَيْهِنَّ [ان خواتین پر] فِيْٓ اٰبَاۗىِٕـهِنَّ [اپنے باپوں (کے سامنے ہونے) میں] وَلَآ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ [ اور نہ اپنے بیٹوں میں] وَلَآ اِخْوَانِهِنَّ [اور نہ اپنے بھائیوں میں] وَلَآ اَبْنَاۗءِ اِخْوَانِهِنَّ [اور نہ اپنے بھائیوں کے بیٹوں میں] وَلَآ اَبْنَاۗءِ اَخَوٰتِهِنَّ [اور نہ اپنی بہنوں کے بیٹوں میں] وَلَا نِسَاۗىِٕـهِنَّ [اور نہ خواتین میں] وَلَا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ ۚ [اور نہ ان میں جن کے مالک ہوئے ان کے داہنے ہا تھ] وَاتَّـقِيْنَ اللّٰهَ ۭ [اور تم خواتین اللہ کا تقوٰی اختیار کرو] اِنَّ اللّٰهَ كَانَ [یقینا اللہ ہے] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ہر چیز پر] شَهِيْدًا [ ہمیشہ موجود رہنے والا]۔



نوٹ۔1: ازواج مطہرات کے گھروں دوسرے کے داخل ہونے پر جو پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس سے جو لوگ مستثنیٰ تھے آیت 55 میں ان کا ذکر ہے، پھر سورئہ کی آیت 31 میں اسے مسلمانوں کے لئے عام کیا گیا۔

اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ ۭ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا  56؀
اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ [بیشک اللہ اور اس کے فر شتے دا ود بھجتے ہیں] عَلَي النَّبِيِّ ۭ [ان نبی
پر] يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [اے لوگو! جو ایمان لائے] صَلُّوْا [تم لوگ درود بھیجو] عَلَيْهِ [ان پر] وَسَلِّمُوْا [ اور سلامتی کی دعاکرو]تَسْلِــيْمًا [جیساسلامتی کی دعا کرنے کا حق ہے]۔



آیت 56 سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو لوگ نبی
پر درود وسلام بھیجتے ہیں وہ آپ پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ اللہ اور اس کے فرشتوں کی ہمنوائی کرکے وہ خود اپنے آپ کو سزاوار رحمت بناتے ہیں۔ جہاں تک نبی کا تعلق ہے، جب آپ کو اللہ کی رحمت اور فرشتوں کی دعائیں حاصل ہیں تو وہ دوسروں کی دعاؤں کے محتاج نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نبی پر درودوسلام بھیجنا مرضِ نفاق کا علاج ہے۔ یہاں جس محل میں درود وسلام کی ہدایت فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ منافقوں کی طرح نبی کو ایذا پہنچانے کے بجائے اہل ایمان کو نبی پر درود وسلام بھیجنا چاہیے۔ اس سے یہ بات واضح طور پر نکلتی ہے کہ جو لوگ درود کا اہتمام رکھتے ہیں ان کے اندر نفاق راہ نہیں پاسکتا۔ (تدبر قرآن)

اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا 57؀
اِنَّ الَّذِيْنَ [بیشک جو لوگ] يُؤْذُوْنَ [تکلیف دیتے ہیں] اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ [اللہ کو اور اس کے رسول کو] لَعَنَهُمُ اللّٰهُ [ لعنت کی ان پر اللہ نے] فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ [ دنیا اور آخرت میں] وَاَعَدَّ لَهُمْ [اور اس نے تیار کیا ان کے لئے] عَذَابًا مُّهِيْنًا [ایک ذلیل کرنے والا عذاب]۔

وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا 58؀ۧ
وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ [اور جو لوگ تکلیف دیتے ہیں] الْمُؤْمِنِيْنَ [مومن مردوں کو] وَالْمُؤْمِنٰتِ [اور مومن عورتوں کو] بِغَيْرِ مَا [اس کے بغیر جو] اكْتَسَبُوْا [انہوں نے کمایا] فَقَدِ احْتَمَلُوْا [تو انہوں نے بوجھ اٹھایا ہے] بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا [بہتان اور کھلے گناہ کا]۔

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا  59؀
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ [اے نبی آپ
کہہ دیجئے] لِّاَزْوَاجِكَ [اپنی بیویوں سے] وَبَنٰتِكَ [اور اپنی بیٹیوں سے] وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ [اور مومنوں کی عورتوں سے] يُدْنِيْنَ [تو وہ قریب کرلیں گی] عَلَيْهِنَّ [اپنے اوپر] مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ [اپنی اڑھنیوں میں سے] ذٰلِكَ [یہ] اَدْنٰٓى [زیادہ بہتر ہے] اَنْ يُّعْرَفْنَ [کہ وہ پہنچانی جائیں] فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ [نتیجتاً وہ ستائی نہ جائیں گے] وَكَانَ اللّٰهُ [اور ہے اللہ] غَفُوْرًا [بے انتہا بخشنے والا] رَّحِيْمًا [ہمیشہ رحم کرنے والا]۔



نوٹ۔1: پردے کا حکم دینے کے ساتھ اس کی علت بھی بیان کردی گئی ہے ان یعرفن فلا یؤذین۔ اس ٹکڑے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو شریر لوگوں کی شرارت سے مسلمان خواتین کو محفوظ رکھنے کے لئے اختیار کی گئی تھی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔۔ اول تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہوجائیں گے۔ (تدبر قرآن)

 جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اب وہ حالات نہیں رہے، ان کی بات اس حد تک تو درست ہے کہ حالات واقعی بہت زیادہ تبدیل ہوچکے ہیں، لیکن وہ لوگ اس سے جو تاثر دیتے ہیں کہ وہ حالات نہیں رہے تو شرارت بھی نہیں رہی، یہ تاثر نہ صرف غلط ہے بلکہ در حقیقت فریب دہی کی ایک داشورانہ کوشش ہے۔ کسی پر اگر دانشوری کا بھوت نہیں سوار ہے تو وہ تعصب کی عینک اتار کر دیکھ لے کہ جب دنیا کے مہذب ممالک میں پردے کا رواج تھا، اس وقت ان ممالک میں جنسی جرائم کا کیا ریکارڈ تھا اور اب جبکہ دنیا کے انتہائی مہذب ممالک نے پردے کا رواج ختم کرکے سر پر رومال لینے کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا ہے تو ان ممالک میں جنسی جرائم کا کیا ریکارڈ ہے۔ اس طرح اس کی سمجھ میں آجائے گا کہ حالات کی تبدیلی نے کیا رخ اختیار کیا ہے اور وہ شرارت اب کتنی گھناؤنی ہوگئی ہے۔

لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِي الْمَدِيْنَةِ لَــنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْهَآ اِلَّا قَلِيْلًا 60؀ٻ
لَىِٕنْ [بیشک اگر] لَّمْ يَنْتَهِ [باز نہ آئے] الْمُنٰفِقُوْنَ [منافق لوگ] وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ [اور وہ لوگ جن کے دلوں میں] مَّرَضٌ [کوئی روگ ہے] وَّالْمُرْجِفُوْنَ [اور افواہ پھیلانے والے] فِي الْمَدِيْنَةِ [مدینہ میں] لَــنُغْرِيَنَّكَ [تو ہم لازما حاوی کر دیں گے آپ
کو] بِهِمْ [ان پر] ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ [پھر یہ لوگ پڑوسی نہیں رہیں گے آپ کے] فِيْهَآ [اس (مدینہ) میں] اِلَّا قَلِيْلًا [مگر تھوڑا سا (عرصہ)]۔

مَّلْعُوْنِيْنَ ڔ اَيْنَـمَا ثُــقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَــقْتِيْلًا  61؀
مَّلْعُوْنِيْنَ ڔ [لعنت کئے ہوئے] اَيْنَـمَا [جہاں کہیں] ثُــقِفُوْٓا [پائے جائیں] اُخِذُوْا [تو پکڑے جائیں] وَقُتِّلُوْا [اور قتل کئے جائیں] تَــقْتِيْلًا [جیسا قتل کئے جانے کا حق ہے]۔

سُـنَّةَ اللّٰهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا 62؀
سُـنَّةَ اللّٰهِ [(آپ
پائیں گے) اللہ کی سنت] فِي الَّذِيْنَ [ان لوگوں میں جو] خَلَوْا [گزرے] مِنْ قَبْلُ ۚ [اس سے پہلے] وَلَنْ تَجِدَ [اور آپ ہرگز نہیں پائیں گے] لِسُنَّةِ اللّٰهِ [اللہ کی سنت میں] تَبْدِيْلًا [کوئی تبدیلی]

يَسْـَٔـــلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ ۭ وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِيْبًا 63؀
يَسْـَٔـــلُكَ [پوچھتے ہیں آپ
سے] النَّاسُ [لوگ]عَنِ السَّاعَةِ ۭ [اس گھڑی (قیامت) کے بارے میں] قُلْ [آپ کہیے] اِنَّمَا [کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] عِلْمُهَا [اس کا علم] عِنْدَ اللّٰهِ ۭ [اللہ کے پاس ہے] وَمَا يُدْرِيْكَ [اور آپ کیا جانیں]لَعَلَّ [شاید] السَّاعَةَ [وہ گھڑی] تَكُوْنُ [ہو] قَرِيْبًا [نزدیک ]۔



نوٹ۔1: حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ فعل ادرٰ یُدری سے جن چیزون کے لیے فعل ماضی ادرٰ آیا ہے، رسول اللہ
ان چیزوں کے متعلق جانتے تھے۔ اور جن چیزوں کے لئے فعل مضارع یُدری آیا ہے آپ ان کے متعلق نہیں جانتے تھے۔ حضرت ابن عباس کے قول کی توجیہ یہ ہے کہ ماادراک میں ادرٰ کو اگر فعل ماضی مانا جائے تو ترجمہ ہوگا آپ کیا جانیں یعنی آپ کو نہیں معلوم لیکن اس کو فعل تعجب مانا جائے تو ترجمہ ہوگا آپ کتنا جاننے والے ہیں یعنی آپ خوب جانتے ہیں۔ لیکن فعل مجارع یُدری کو فعل تعجب نہیں مانا جاسکتا۔ اس لئے اس کا ایک ہی ترجمہ ممکن ہے کہ آپ کیا جانئیں یعنی آجپ نہیں جانتے (حافظ احمد یار مرحوم)

 حافظ صاحب کا کیسٹ سن کر میں پھر معجم سے چیک کیا تو معلوم ہو اکہ ماادرٰک قرآن مجید میں 13 جگہ آیا ہے اور جن چیزوں کے لئے آیا ہے وہ یہ ہیں: اَلْحَاۗقَّةُ (69-3)۔ سَقَرَ (76-27) يَوْمُ الْفَصْلِ (77-14) يَوْمُ الدِّيْنِ (دو مرتبہ۔82۔ 17/18) سِجِّيْنٌ (83-8) عِلِّيُّوْنَ (83-19) الطَّارِقُ (86-2) الْعَقَبَةُ (90-12) لَيْلَةُ الْقَدْرِ (97-2) اَلْقَارِعَةُ (101-3) هَاوِيَةٌ (101۔ 9/10) الْحُطَمَةُ (104-5)۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا نہ صرف رسول اللہ
کو علم دیا گیا بلکہ ان میں سے اکثر کا آپ کو شب معراج میں مشاہدہ بھی کرایا گیا۔ فعل مضارع یُدریْ قرآن مجید میں تین جگہ آیا ہے۔ زیر مطالعہ آیت 63۔ کے علاوہ 42:17۔ اور 80:3 میں۔ـ

اِنَّ اللّٰهَ لَعَنَ الْكٰفِرِيْنَ وَاَعَدَّ لَهُمْ سَعِيْرًا 64؀ۙ
اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ نے] لَعَنَ الْكٰفِرِيْنَ [لعنت کی کافروں پر] وَاَعَدَّ لَهُمْ [اور اس نے تیار کی ان کے لئے] [سَعِيْرًا: شعلوں والی آگ]

خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۚ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا  65؀ۚ
خٰلِدِيْنَ [ہمیشہ رہنے والے] فِيْهَآ [اس میں] اَبَدًا ۚ [دائمی طور پر] لَا يَجِدُوْنَ [وہ لوگ نہیں پائیں گے] وَلِيًّا [کوئی کارساز]وَّلَا نَصِيْرًا [اور نہ کوئی مددگار]۔

يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا  66؀
يَوْمَ تُقَلَّبُ [جس دن الٹے پلٹے جائیں گے] وُجُوْهُهُمْ [ان کے چہرے] فِي النَّارِ [آگ میں] يَقُوْلُوْنَ [(تب) وہ لوگ کہیں گے] يٰلَيْتَنَآ [اے کاش] اَطَعْنَا اللّٰهَ [ہم اطاعت کرتے اللہ کی] وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا [اور اطاعت کرتے ان رسول
کی]۔

وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا 67؀
وَقَالُوْا [اور کہیں گے] رَبَّنَآ [اے ہمارے رب] اِنَّآ اَطَعْنَا [بیشک ہم نے اطاعت کی] سَادَتَنَا [اپنے سرداروں کی] وَكُبَرَاۗءَنَا [اور اپنے بڑوں کی] فَاَضَلُّوْنَا [تو ان لوگوں نے بہکا دیا ہم کو] السَّبِيْلَا [راستے سے]۔



نوٹ۔2: آیت 67 میں سادتنا اور کبراء نا کے دو لفظ آئے ہیں سادۃ سے مراد تو ظاہر ہے کہ لیڈر اور سردار ہین اور کبراء سے مراد ان کے خاندانی اور مذہبی پیشوا ہیں۔ ان میں سے کسی کی بھی آنکھ بند کرکے اطاعت کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے ہر آدمی کو حق وباطل مین امتیاز کے لئے عقل عطا فرمائی ہے۔ اس وجہ سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس کسوٹی سے کام لے، جو اس سے کام لے گا، اگر وہ کہیں ٹھوکر بھی کھاجائے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کو سہارا دے اور معاف فرمائے لیکن جو آنکھیں بند کرکے اپنی باگ دوسرے کے ہاتھ میں پکڑا دے گا اس کا حشر وہی ہوگا جو یہاں بیان ہوا ہے۔ (تدبر قرآن)

رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا 68؀ۧ
رَبَّنَآ [اے ہمارے رب] اٰتِهِمْ [تو دے ان کو] ضِعْفَيْنِ [دوگنا] مِنَ الْعَذَابِ [عذاب میں سے] وَالْعَنْهُمْ [اور تو لعنت بھیج ان پر] لَعْنًا كَبِيْرًا [جیسے بڑی لعنت بھیجنے کا حق ہے]۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا  ۭ وَكَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِيْهًا  69؀ۭ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [اے لوگو! جو ایمان لائے] لَا تَكُوْنُوْا [تم لوگ مت ہو جانا] كَالَّذِيْنَ [ان کی مانند جنہوں نے] اٰذَوْا [ستایا] مُوْسٰى [موسیٰ علیہ السلام کو] فَبَرَّاَهُ [تو بری قرار دیا ان علیہ السلام کو] اللّٰهُ [اللہ نے] مِمَّا [اس سے جو] قَالُوْا ۭ [انہوں نے کہا] وَكَانَ عِنْدَ اللّٰهِ [اور وہ تھے اللہ کے نزدیک] وَجِيْهًا [بلند تربہ]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا 70؀ۙ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا [اے لوگو! جو ایمان لائے] اتَّقُوا اللّٰهَ [تم لوگ تقوی اختیار کرو اللہ کا] وَقُوْلُوْا [اور کہو] قَوْلًا سَدِيْدًا [ٹھیک بات]۔



نوٹ۔1: شاہ عبد القادر نے آیات 70۔71 کا جو ترجمہ کیا ہے اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ سیدھی بات کا عادی ہونے پر اصلاح اعمال کا جو وعدہ ہے وہ صرف دینی اعمال ہی نہیں ہیں بلکہ دنیا کے سب کام بھی اس میں داخل ہیں۔ جو شخص قول سدید کا عادی ہوجائے یعنی جھوٹ نہ بولے، سوچ سمجھ کر بات کرے، کسی کو فریب نہ دے، دل خراش بات نہ کرے، اس کے اعمال آخرت بھی درست ہوجائے گے اور دنیا کے کام بھی بن جائیں گے۔ شاہ عبد القادر کا ترجمہ یہ ہے’’ کہو بات سیدھی کہ سنواردے تم کو تمھارے کام۔‘‘ (منقول از معارف القرآن)

يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا  71؀
يُّصْلِحْ [تو وہ اصلاح کرے گا] لَكُمْ [تمہارے لئے] اَعْمَالَكُمْ [تمھارے اعمال کی ] وَيَغْفِرْ لَكُمْ [اور وہ بخش دے گا تمھارے لئے] ذُنُوْبَكُمْ ۭ [تمھارے گناہوں کو ] وَمَنْ يُّطِعِ [اور جو اطاعت کرتا ہے ] اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ [اللہ کی اور اس کے رسول کی] فَقَدْ فَازَ [تو وہ کا میاب ہو گیا ہے] فَوْزًا عَظِيْمًا [جیسے عظیم کامیابی کا حق ہے]۔

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ قُلِ اللّٰهُ ۙ وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ  24؀
قُلْ [آپ
کہیے] مَنْ يَّرْزُقُكُمْ [کون رزق دیتا ہے تم لوگوں کو] مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [آسمانوں اور زمین سے] قُلِ [آپ کہہ دیجئے] اللّٰهُ ۙ [(وہ) اللہ ہی ہے] وَاِنَّآ [اور بیشک ہم لوگ] اَوْ اِيَّاكُمْ [یا تم لوگ] لَعَلٰى هُدًى [ضرور ہدایت پر ہیں] اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ [یا کسی کھلی گمراہی میں ہیں]۔

قُلْ لَّا تُسْـَٔــلُوْنَ عَمَّآ اَجْرَمْنَا وَلَا نُسْـَٔــلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ  25؀
قُلْ [آپ
کہیے] لَّا تُسْـَٔــلُوْنَ [تم لوگوں سے نہیں پوچھا جائے گا] عَمَّآ [اس کے بارے میں جو] اَجْرَمْنَا [ہم نے جرم کیا] وَلَا نُسْـَٔــلُ [اور ہم سے نہیں پوچھا جائے گا] عَمَّا [اس کے بارے میں جو] تَعْمَلُوْنَ [تم لوگ کرتے ہو]۔

قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بِالْحَقِّ ۭ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ  26؀
[قُلْ : آپ کہیے][يَجْمَعُ : جمع کرے گا][بَيْـنَنَا: ہمارے مابین (سب کو)] [ رَبُّنَا: ہمارا رب][ ثُمَّ يَفْتَـحُ : پھر وہ فیصلہ کرے گا][بَيْـنَنَا: ہمارے درمیان][ بِالْحَقِّ ۭ: حق کے ساتھ][ وَهُوَ الْفَتَّاحُ: اور وہی سارے فیصلے کرنے والا ][ الْعَلِـيْمُ : سب کچھ جاننے والا ہے]

قُلْ اَرُوْنِيَ الَّذِيْنَ اَلْحَــقْتُمْ بِهٖ شُرَكَاۗءَ كَلَّا ۭ بَلْ هُوَ اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ  27؀
[قُلْ: آپ کہیے][ اَرُوْنِيَ: تم لوگ دکھاؤ مجھے][ الَّذِيْنَ: وہ لوگ جن کو ][ اَلْحَــقْتُمْ: تم لوگوں نے جوڑ دیا][ بِهٖ: اس کے ساتھ][ شُرَكَاۗءَ: بطور شریک][ كَلَّا ۭ : ہرگز نہیں][بَلْ هُوَ اللّٰهُ : بلکہ وہ اللہ ہی ہے][الْعَزِيْزُ: بالا دست ہے][ الْحَكِيْمُ: حکمت والا ہے۔

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ ۘاِذْ جَاۗءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ  13۝ۚ
وَاضْرِبْ لَهُمْ [اور آپ
بیان کریں ان کے لئے ] مَّثَلًا [ایک مثال] اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ ۘ[جو اس بستی والوں کی ہے] اِذْ جَاۗءَهَا [جب آئے اس (بستی) میں] الْمُرْسَلُوْنَ [بھیجے ہوئے (رسول)]



نوٹ۔1: قدیم مفسرین بالعموم اس طرف گئے ہیں کہ آیت 13 میں القریہ سے مراد شام کا شہر انطاکیہ ہے اور جن رسولوں کا ذکر ہے انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تبلیغ کے لئے بھیجا تھا۔ لیکن یہ سارا قصہ عیسائیوں کی غیر مستند روایات سے اخذ کیا گیا ہے اور تاریخی حیثیت سے بالکل بےبنیاد ہے۔ (تفہیم القرآن)

 سہل اور بےغبار بات وہی ہے جسے مولانا تھانوی نے بیان القرآن میں اختیار فرمایا ہے کہ ان آیات کا مضمون سمجھنے کے لئے اس بستی کا تعین ضروری نہیں ہے۔ اور قرآن کریم نے اس کو مبہم رکھا ہے تو ضرورت ہی کیا ہے کہ اس کے تعین پر اتنا زور خرچ کیا جائے۔ سلف صالحین کا ارشاد ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تم بھی اسے مبہم ہی رہنے دو۔ (معارف القرآن)

اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمُ اثْــنَيْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوْٓا اِنَّآ اِلَيْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ   14؀
اِذْ اَرْسَلْنَآ [جب ہم نے بھیجا] اِلَيْهِمُ [ان کی طرف] اثْــنَيْنِ [دو (رسولوں) کو] فَكَذَّبُوْهُمَا [توانھوں نے جھٹلایا دونوں کو] فَعَزَّزْنَا [تو ہم نے (ان کو) یقویت دی] بِثَالِثٍ [ایک تیسرے (رسول) سے ] فَقَالُـوْٓا [تو انھوں نے کہا] اِنَّآ اِلَيْكُمْ [کہ ہم تمھاری طرف] مُّرْسَلُوْنَ [بھیجے ہوئے ہیں]

وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا يَرْكَبُوْنَ  42؀
وَخَلَقْنَا لَهُمْ [اور ہم نے پیدا کیا ان کے لئے] مِّنْ مِّثْلِهٖ [اس (کشتی) جیسی] مَا [وہ (سواریاں) جس پر] يَرْكَبُوْنَ [یہ لوگ سواری کرتے ہیں]



 آیت 42 سے یہ اشارہ نکلتاہے کہ تاریخ میں پہلی کشتی جو بنی وہ حضرت نوح علیہ السلام والی کشتی تھی۔ اس سے پہلے انسان کو دریاؤں سمندروں کو عبور کرنے کا طریقہ معلوم نہ تھا۔ اس طریقے کی تعلیم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو دی پھر آئندہ ان کی نسل نے بحری سفر کے لئے کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ (تفہیم القرآن) ایک رائے یہ کہ من مثلہ کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی سواری اور باربرداری کے لئے صرف کشتی ہی نہیں بلکہ اور بھی سواری بنائی ہے۔ اس سے اہل عرب نے اپنی عادت کے مطابق اونٹ کی سواری مراد لی ہے، مگر یہ ظاہر ہے کہ قرآن اس جگہ کسی خاص سواری کا نام نہیں لیا ہے بلکہ مبہم چھوڑا ہے تاکہ قیامت تک ایجاد ہونے والی سب سواریاں اس میں شامل ہوجائیں۔ (معارف القرآن)

وَاِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيْخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُوْنَ 43؀ۙ
وَاِنْ نَّشَاْ [اور اگر ہم چاہیں] نُغْرِقْهُمْ [تو ہم غرق کر دیں ان کو] فَلَا صَرِيْخَ لَهُمْ [پھر کوئی بھی فریاد رس نہ ہوگا ان کے لئے] وَلَا هُمْ يُنْقَذُوْنَ [اور نہ وہ بچائے جائیں گے]۔

طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ  65؀ۙ
طَلْعُهَا [اس کا خوشہ] كَاَنَّهٗ [جیسے کہ وہ ہے] رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ [شیطانوں کے سر]۔



نوٹ۔1: کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ شیطان کا سرکس نے دیکھا ہے جو زقوم کے شگوفوں کو اس سے تشبیہ دی گئی۔ در اصل یہ تخیلی نوعیت کی تشبیہ ہے اور عام طور پر ہر زبان کے ادب میں اس سے کام لیا جاتاہے۔ مثلا ایک عورت کی انتہائی خوبصورتی کا تصور دلانے کے لئے کہتے ہیں کہ وہ تو پری ہے اور انتہائی بد صورتی بیان کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ وہ تو چڑیل ہے یا بھتنی ہے۔ کسی کی نورانی شکل کی تعریف میں کہا جاتاہے کہ وہ فرشتہ صورت ہے۔ (تفہیم القرآن)

رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ کی تشبیہ نہایت بلیغ ہے۔ بعض مرتبہ تشبیہہ کسی خیالی چیز کی دی جاتی ہے لیکن وہ مرئی وشاہد چیزوں سے زیادہ ذہنوں کے قریب ہوتی ہے۔ مثلا آپ کسی پراگندہ حال اور پراگندہ بال شخص کو کہیں کیا بھوت کی سی صورت بنا رکھی ہے۔ بھوت اگرچہ ایک خیالی چیز ہے لیکن اس کا ایک تصور ہر شخص کے ذہن میں موجود ہے۔ اس وجہ سے یہ تشبیہہ اس شخص کو جس خوبی کے ساتھ مصور کرے گی کوئی دوسری تشبیہہ مشکل ہی سے کرسکے گی۔ اسی طرح یہاں زقوم کے پتوں کو شیاطین کے سروں سے تشبیہہ دی ہے ہر چند یہ ایک خیالی تشبیہہ ہے لیکن ذہنوں میں شیاطین کا ایک خوفناک تصور موجود ہے۔ اس وجہ سے اس کو سن کر دل پر ایک کپکپی طاری ہوتی ہے۔ (تدبر قرآن)

فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِـــــُٔوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ  66؀ۭ
فَاِنَّهُمْ [تو وہ لوگ] لَاٰكِلُوْنَ [یقینا کھانے والے ہیں] مِنْهَا [اس میں سے] فَمَالِـــــُٔوْنَ [پھر بھرنے والے ہیں] مِنْهَا [اس سے] الْبُطُوْنَ [پیٹوں کو]۔

كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ  ١١٠؁
كَذٰلِكَ نَجْزِي [اسی طرح ہم جزا دیتے ہیں] الْمُحْسِنِيْنَ [خوب کاروں کو]۔

اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ   ١١١؁
اِنَّهٗ [بیشک وہ ہیں] مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ [ہمارے ایمان لانے والے بندوں میں سے]۔

وَّاَبْصِرْ فَسَوْفَ يُبْصِرُوْنَ  ١٧٩؁
وَّاَبْصِرْ [اور آپ
دیکھتے رہیں] فَسَوْفَ يُبْصِرُوْنَ [تو عنقریب وہ دیکھ لیں گے]۔

سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ  ١٨٠؀ۚ
سُبْحٰنَ رَبِّكَ [آپ
کے رب کی پاکیزگی ہے] رَبِّ الْعِزَّةِ [جو ساری عزت کا مالک ہے] عَمَّا [اس سے جو] يَصِفُوْنَ [یہ لوگ بتاتے ہیں]۔

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا 72؀ۙ
اِنَّا عَرَضْنَا [بیشک ہم نے پیش کیا] الْاَمَانَةَ [اس امانت کو] عَلَي السَّمٰوٰتِ [آسمانوں پر] وَالْاَرْضِ [اور زمین پر] وَالْجِبَالِ [اور پہاڑوں پر] فَاَبَيْنَ [تو سب نے انکار کیا] اَنْ يَّحْمِلْنَهَا [کہ وہ اٹھائیں اس کو] وَاَشْفَقْنَ [اور وہ سب ڈرگئے] مِنْهَا [اس سے] وَحَمَلَهَا [اور اٹھایا اس کو] الْاِنْسَانُ ۭ [انسان نے] اِنَّهٗ كَانَ [بیشک وہ ہے] ظَلُوْمًا [بہت ظلم کرنے والا]جَهُوْلًا [بڑا نادان]۔



نوٹ۔2: آیت 72 میں امانت سے مراد خلافت ہے جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین میں عطاکی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاعت ومعصیت کی جو آزادی بخشی ہے، اور اس آزادی کو استمال کرنے کے لئے اسے اپنی بےشمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات عطا کئے ہیں، ان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرزِ عمل پر اجر کا اور غلط طرز عمل پر سزا کا مستحق بنیے۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اسے خلافت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہاں اسی کے لئے امانت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ امانت کتنی اہم اور بار ِ گراں ہے اس کا تصور دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ آسمان اور زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت کے باوجود اس کے اٹھانے کی ہمت نہ رکھتے تھے، مگر انسان نے اپنی ذراسی جان پر یہ بوجھ اٹھا لیا ہے۔ (تفہم القرآن)

لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ وَيَتُوْبَ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 73؀ۧ
لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ [تاکہ عذاب دے اللہ] [الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ : منافق مردوں اور منافق عورتوں کو] وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ [اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو] وَيَتُوْبَ اللّٰهُ عَلَي [اور تاکہ توبہ قبول کرے اللہ] الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ۭ [مومن مردوں اور مومن عورتوں کی] وَكَانَ اللّٰهُ [اور ہے اللہ] غَفُوْرًا رَّحِيْمًا [بے انتہا بخشنے والا رحم والا]۔



3/ ربیع الاول 1429 ھ بمطابق 12/مارچ 2008 ء

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْاٰخِرَةِ ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ  Ǻ۝
اَلْحَمْدُ [تمام شکرو سپاس] لِلّٰهِ الَّذِيْ [اس اللہ کے لئے ہے] لَهٗ [جس کے لئے ہی ہے] مَا فِي السَّمٰوٰتِ [وہ جو آسمانوں میں ہے] وَمَا فِي الْاَرْضِ [اور جو زمین میں ہے] وَلَهُ الْحَمْدُ [اور اس کے لئے ہی تمام شکر و سپاس ہے] فِي الْاٰخِرَةِ ۭ [آخرت میں (بھی)] وَهُوَ [اور وہ ہی] الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ [حکمت والا ہے باخبر ہے]۔

يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ وَهُوَ الرَّحِيْمُ الْغَفُوْرُ Ą۝
يَعْلَمُ [وہ جانتا ہے] مَا يَـلِجُ [اس کو جو گھستا ہے] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] وَمَا يَخْرُجُ [اور اس کو جو نکلتا ہے] مِنْهَا [اس میں سے] وَمَا يَنْزِلُ [اور اس کو جو اترتا ہے] مِنَ السَّمَاۗءِ [آسمان سے] وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ [اور اس کو جو چڑھتا ہے اس میں] وَهُوَ الرَّحِيْمُ [اور وہ ہی رحم کرنے والا ہے] الْغَفُوْرُ [بے انتہا بخشنے والا ہے]

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَةُ  ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْ ۙ عٰلِمِ الْغَيْبِ ۚ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْـقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ  Ǽ۝ڎڎ
وَقَالَ الَّذِيْنَ [اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے] كَفَرُوْا [انکار کیا] لَا تَاْتِيْنَا [نہیں آئے گی ہمارے پاس] السَّاعَةُ ۭ [وہ گھڑی (قیامت)] قُلْ بَلٰى [آپ
کہیے کیوں نہیں] وَرَبِّيْ [میرے اس رب کی قسم] لَتَاْتِيَنَّكُمْ ۙ [وہ لازما آگی تم لوگوں کے پاس] عٰلِمِ الْغَيْبِ ۚ [جوعالم الغیب ہے] لَا يَعْزُبُ [پوشیدہ نہیں ہو تی] عَنْهُ [اس سے] مِثْـقَالُ ذَرَّةٍ [کسی ذرہ کے ہم وزن (چیز)] فِي السَّمٰوٰتِ [آسمانوں میں] وَلَا فِي الْاَرْضِ [اور نہ زمین میں] وَلَآ اَصْغَرُ [اور نہ زیادہ چھوٹی (چیز)] مِنْ ذٰلِكَ [اس سے] وَلَآ اَكْبَرُ [اور نہ زیادہ بڑی] اِلَّا [مگر (یہ کہ)] فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ [(وہ سب) ایک واضح کتاب میں ہیں]۔

لِّيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ  Ć۝
لِّيَجْزِيَ [تاکہ وہ بدلہ دے] الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ان لوگوں کو جو ایمان لائے] وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۭ [اور عمل کئے نیکیوں کے] اُولٰۗىِٕكَ [یہ لوگ ہیں] لَهُمْ [جن کے لئے ہے] مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ [مغفرت اور با عزت روزی]۔

وَالَّذِيْنَ سَعَوْ فِيْٓ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيْنَ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِّنْ رِّجْزٍ اَلِــيْمٌ  Ĉ۝
وَالَّذِيْنَ سَعَوْ [اور جن لوگوں نے بھاگ دوڑ کی] فِيْٓ اٰيٰتِنَا [ہماری آیات (احکام) میں] مُعٰجِزِيْنَ [(ان کو) عاجز کرنے والے ہوتے ہوئے] اُولٰۗىِٕكَ [یہ لوگ ہیں] لَهُمْ [جن کے لئے ہے] عَذَابٌ مِّنْ رِّجْزٍ اَلِــيْمٌ [گندگی میں سے ایک دردناک عذاب]



نوٹ۔1: آیت 5 سے معلوم ہوتاہے کہ جو شخص کافر تو ہو مگر دین حق کے مقابلے میں عناد ومخالفت کی روش بھی اختیار نہ کرے، وہ عذاب سے تو نہ بچے گا مگر بد ترین عذاب اس کے لئے نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَيَرَى الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ ۙ وَيَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ  Č۝
وَيَرَى [اور دیکھتے ہیں] الَّذِيْنَ [وہ لوگ جن کو] اُوْتُوا [دیا گیا] الْعِلْمَ [علم ] الَّذِيْٓ [اس کا جو] اُنْزِلَ اِلَيْكَ [اتارا گیا آپ
کی طرف] مِنْ رَّبِّكَ [آپ کے رب (کی طرف) سے] هُوَ الْحَقَّ ۙ [(وہ پاتے ہیں اس کو ہی) کل حق] وَيَهْدِيْٓ [اور وہ رہنمائی کرتا ہے] اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ [حمد کئے ہوئے بالادست کے راستے کی طرف]۔



ترکیب: آیت 6۔ یری کا فاعل الذین اوتوا العلم ہے جبکہ الذی انزل الیک اس کا مفعول اول ہے اور ھو الحق اس کا مفعول ثانی ہے۔ اگر یہ خبر ہوتا تو الحق آتا۔ اس کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ یری کا مفعول ہے۔ اس پر لام جنس ہے اور ھو ضمیر فاصل ہے۔



نوٹ۔1: آیت 6 میں الذین اوتوالعلم میں اہل کتاب بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے نبیوں اور صحیفوں کے علم کو محفوظ رکھا اور وہ اہل عرب بھی شامل ہیں جو بت پرستی عام ہوجانے کے باوجود اس سے کنارہ کش رہے اور دین ابراہیمی پر قائم رہے، جن کو حنفاء کہا جاتاتھا۔ (تدبر قرآن)

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ يُّنَبِّئُكُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۙ اِنَّكُمْ لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ  Ċ۝ۚ
وَقَالَ الَّذِيْنَ [اور کہا ان لوگں نے جنہوں نے] كَفَرُوْا [انکار کیا] هَلْ نَدُلُّكُمْ [کیا ہم رہنمائی کریں تو لوگوں کی] عَلٰي رَجُلٍ [ایک ایسے شخص پر جو] يُّنَبِّئُكُمْ [خبر دیتا ہے تم لوگوں کو] اِذَا مُزِّقْتُمْ [(کہ) جب بکھیر دئیے جاؤ گے تم لوگ] كُلَّ مُمَزَّقٍ ۙ [بالکل ریزہ ریزہ کئے ہوئے] اِنَّكُمْ [تو بیشک تم لوگ] لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ [ضرور ایک نئی مخلوق میں (زندہ) ہوگے]۔



م ز ق (ن۔ ض) مزقا کسی چیز کو پھاڑ دینا۔

(تفعیل) تمزیقا ریزہ ریزہ کرکے بکھیر دینا۔ پراگندہ کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔7۔

 ممزق اسم المفعول ہے۔ بکھیرا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت۔7۔



آیت 7۔ کل کی نصب کی وجہ سے کل ممزق کو مزقتم کا مفعول مطلق مانا جاسکتاہے۔ ایسی صورت میں ممزق مصدر ہوگا اور ترجمہ اس لحاظ سے ہوگا ۔ قاعدہ یہ ہے کہ ابواب مزید فیہ کے اسم المفعول ظرف کے طور پر بھی آتے ہیں اور مصدر میمی کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کل کی نصب حال ہونے کی وجہ سے بھی مانی جاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں ممزق اسم المفعول ہی رہے گا اور ترجمہ اس لحاظ سے ہوگا۔ ہم دوسری صورت کو ترجیح دیں گے۔

اَفْتَرٰى عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَمْ بِهٖ جِنَّةٌ ۭ بَلِ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الْبَعِيْدِ  Ď۝
اَفْتَرٰى [کیا اس نے گھڑا] عَلَي اللّٰهِ [اللہ پر] كَذِبًا [کوئی جھوٹ] اَمْ بِهٖ [یا اس کے ساتھ] جِنَّةٌ ۭ [کوئی جنون ہے] بَلِ الَّذِيْنَ [بلکہ وہ لوگ جو] لَا يُؤْمِنُوْنَ [ایمان نہیں لاتے] بِالْاٰخِرَةِ [آخرت پر] فِي الْعَذَابِ [عذاب میں] وَالضَّلٰلِ الْبَعِيْدِ [اور دور والی گمراہی میں ہیں]۔



آیت 8۔ افتری میں ہمزہ استفہام کا ہے اور ہمزہ الوصل لکھنے میں بھی گر گیا ہے، یعنی یہ در اصل ا افتری ہے۔

اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭاِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْبٍ  ۝ۧ
اَفَلَمْ يَرَوْا [تو کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا] اِلٰى مَا [اس کی طرف جو] بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ [ان کے سامنے ہے] وَمَا خَلْفَهُمْ [اور جو ان کے پیچھے ہے] مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭ [آسمان اور زمین سے] اِنْ نَّشَاْ [اگر ہم چاہتے] نَخْسِفْ بِهِمُ [تو ہم دھنسا دیتے ان کو] الْاَرْضَ [زمین میں] اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ [یا ہم گرا دیتے ان پر] كِسَفًا [کوئی ٹکڑا] مِّنَ السَّمَاۗءِ ۭ [آسمان سے]اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک اس میں] لَاٰيَةً [یقینا ایک نشانی ہے] لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْبٍ [ہر رجوع کرنے والے بندے کے لئے]۔

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭيٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ  10۝ۙ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا [اور بیشک ہم دے چکے] دَاوٗدَ [داؤد علیہ سلام کو] مِنَّا [اپنے پاس سے] فَضْلًا ۭ [ایک فضیلت] يٰجِبَالُ [اے پہاڑو] اَوِّبِيْ [ہمنوائی کرو] مَعَهٗ [ان علیہ السلام کے ساتھ] وَالطَّيْرَ ۚ [اور (ہم نے یہی حکم دیا) پرندوں کو] وَاَلَنَّا [اور ہم نے نرم کیا] لَهُ [ان علیہ السلام کے لئے] الْحَدِيْدَ [لوہے کو]۔



ترکیب: آیت 10 ۔ الطیر اگر الطیر ہوتا تو اس کو یجبال پر عطف مانا جاسکتا تھا لیکن اس پر نصب ہونے کی وجہ سے اس سے پہلے کوئی فعل محذوف مانن ہوگا جو کہ کذالک امرنا یا حکمنا ہوسکتاہے۔ الطیرَ پر لام جنس ہے اس لئے اس کا ترجمہ جمع میں ہوگا۔ النا دراصل الیننا (مادہ ل ی ن۔ باب افعال) تھا۔ قاعدے کے مطابق یا گر گئی اور نون کا ادغام ہوگیا تو النا استعمال ہوا۔



نوٹ۔1: حضرت داؤد کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح لوہے کے استعمال کا فن تعلیم فرمایا جس سے انہوں اپنی برری قوت میں اضافہ کیا۔ اسی طرح حضرت سلیمان کو ہوا کے کنٹرول کرنے کا فن عطا فرمایا جس سے انہوں اپنے بحری بیڑے کو اس قدر ترقی دی کہ ان کے بحری جہاز مہینوں کا سفر بےروک ٹوک جاری تکھتے۔ (تدبر قرآن)۔ بائبل اور جدید تاریخ تحقیقات سے اس پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمٰن نے اپنے دور حکومت میں بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک طرف عصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے ممالک کی طرف جاتے تھے اور دوسری طرف بحرم روم کی بندرگاہوں سے ان کا بیڑہ (جسے بائبل میں ترسیسی بیڑہ کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کتاتھا۔ (تفہیم القرآن ج 3 ص 176)

اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِي السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ  11؀
اَنِ اعْمَلْ [کہ آپ علیہ السلام عمل کریں (یعنی بتائیں)] سٰبِغٰتٍ [زر ہیں] وَّقَدِّرْ [اور آپ علیہ السلام اندازے مقرر کریں] فِي السَّرْدِ [کڑیاں بنانے میں] وَاعْمَلُوْا [اور تم سب عمل کرو] صَالِحًا ۭ [نیک] اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ [بیشک میں اس کو جو تم لوگ کرتے ہو] بَصِيْرٌ [دیکھنے والا ہوں]۔



س ر د (ن۔ ض) سردا کسی سخت چیز کو سینا۔ چمڑا سینا۔ لوہے کی کڑیاں جوڑنا ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 11۔

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَّ رَوَاحُهَا شَهْرٌ ۚ وَاَسَلْنَا لَهٗ عَيْنَ الْقِطْرِ ۭ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۭ وَمَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيْرِ  12؀
وَلِسُلَيْمٰنَ [اور (ہم نے مسخر کیا) سلیمان علیہ السلام کے لئے] الرِّيْحَ [ہوا کو] غُدُوُّهَا [اس کا صبح کو چلنا] شَهْرٌ [ایک مہینہ تھا] وَّ رَوَاحُهَا [اور اس کا شام کو واپس ہونا] شَهْرٌ ۚ [ایک مہینہ تھا] وَاَسَلْنَا [اور ہم نے پگھلایا] لَهٗ [ان علیہ السلام کے لئے] عَيْنَ الْقِطْرِ ۭ [تانبے کے چشمے کو] وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ [اور جنوں میں سے وہ بھی تھے جو] يَّعْمَلُ [عمل کرتے تھے] بَيْنَ يَدَيْهِ [ان کے سامنے] بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۭ [ان علیہ السلام کے رب کی اجازت سے] وَمَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ [اور جو پھرتا ان میں سے] عَنْ اَمْرِنَا [ہمارے حکم سے] نُذِقْهُ [تو ہم چکھا دیتے اس کو] مِنْ عَذَابِ السَّعِيْرِ [بھڑکتی آگ کے عذاب میں سے]۔



آیت 12۔ الریحَ کی نصب بتارہی ہے کہ اس سے پہلے فعل سخرنا محذوف ہے۔

يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَاۗءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَــوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ ۭ اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا ۭ وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ 13؀
يَعْمَلُوْنَ [وہ سب عمل کرتے تھے] لَهٗ [ان علیہ السلام کے لئے] مَا يَشَاۗءُ [جو وہ چاہتے] مِنْ مَّحَارِيْبَ [جیسے محرابیں] وَتَمَاثِيْلَ [اور مجسمے] وَجِفَانٍ [اور طشت] كَالْجَــوَابِ [تالاب کی مانند] وَقُدُوْرٍ [اور دیگیں] رّٰسِيٰتٍ ۭ [جمی ہوئی (اپنی جگہ پر)] اِعْمَلُوْٓا [عمل کرو] اٰلَ دَاوٗدَ [اے داود علیہ السلام کے پیروکار] شُكْرًا ۭ [شکر گزاری کا] وَقَلِيْلٌ [اور تھوڑے ہیں] مِّنْ عِبَادِيَ [میرے بندوں میں سے] الشَّكُوْرُ [شکر کرنے والے]۔



ج ف ن (ن) جفنا بڑے بڑے پیالوں میں کھلانا۔

 جفنۃ ج جفان۔ بڑا پیالہ۔ لگن۔ طشت۔ (زیر مطالعہ آیت۔13)



آیت 13۔ مادہ ج و ب سے لفظ جواب بنتا ہے جو اردو میں عام مستعمل ہے اور قرآن مجید میں بھی چار جگہ وماکان جواب قومہٖ کے الفاظ کے ساتھ آیا ہے۔ لیکن اس آیت میں کالجواب وہ لفظ جواب نہیں ہے بلکہ جوابٍ ہے۔ مادہ ج ب ی سے اسم الفاعل جابیۃ آتاہے۔ اس کی جمع اصلا تو جوابی ہے جوا قاعدہ کے مطابق تبدیل ہوکر حالت رفع اور حالت جر دونوں میں جوابٍ آتی ہے۔ جواب اور جوابٍ میں تمیر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسی آیت میں کالجوابِ کو جوابٌ مان کر ترجمہ کریں تو معنی نہیں بنیں گے جوابٍ مان کرترجمہ کریں تو مفہوم واحض ہوجائے گا۔ یہ بھی نوٹ کرلیں کہ جوابٍ قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ اسی آیت میں آیا ہے۔



نوٹ۔2: آیت 13 میں لفظ تماثیل استعمال ہوا ہے، جو تمثال کی جمع ہے۔ تمثال عربی مین ہر اس چیز کو کہتے جو کسی قدرتی شئے کے مشابہ بنائی جائے قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی انسان یا حیوان، کوئی درخت ہویا پھول یا دریا یا کوئی دوسری بےجان چیز ۔ اس لئے قرآن مجید کے اس بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت سلیمٰن کے لئے جو تماثیل بنائی جاتی تھیں وہ ضرور انسانوں اور حیوانون کی تصاویر یا ان کے مجسمے ہی ہوں، ہوسکتاہے کہ وہ پھول پتیاں، قدرتی مناظر اور مختلف قسم کے نقش ونگار ہوں جن سے حضرت سلیمٰن نے اپنی عمارتوں کو آراستہ کرایا ہو۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت سلیمٰن نے انبیاء اور ملائکہ کی تصویریں بنوائی تھیں۔ یہ باتیں ان مفسرین نے بنی اسرائیل کی روایات سے اخذ کیں اور پھر ان کی توجیہ یہ کی کہ پچھلی شریعتوں مین اس قسم کی تصوریریں بنانا ممنوع نہ تھا۔ حالانکہ حضرت سلیمٰن جس شریعت موسوی کے پیرو تھے اس مین بھی انسانی اور حیوانی تصاویر اور مجسمے اسی طرح حرام تھے جس طرح شریعتِ محمدیہ میں حرام ہیں۔ در اصل بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو حضرت سلیمٰن سے جو عداوت تھی اس کی بناء پر انہوں نے ان پر شرک، بت پرستی، جادو گری اور دیگر الزامات لگائے۔ اس لئے ان کی روایات پر اعتماد کرکے ایک جلیل القدر پیغمبر کے بارے میں کوئی ایسی بات قبول نہیں کی جاسکتی جو خدا کی بھیجی ہوئی شریعت کے خلاف پڑتی ہو۔ (تفہیم القرآن)

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰي مَوْتِهٖٓ اِلَّا دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِي الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ  14؀ۭ
فَلَمَّا [پھر جب] قَضَيْنَا [ہم نے فیصلہ کیا] عَلَيْهِ الْمَوْتَ [ان علیہ السلام پر موت کا] مَا دَلَّهُمْ [تو رہنمائی نہیں کی ان کی] عَلٰي مَوْتِهٖٓ [ان کی موت پر] اِلَّا دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ [مگر زمین کے کیڑے نے] تَاْكُلُ [وہ کھاتا تھا] مِنْسَاَتَهٗ ۚ [ان علیہ السلام کی لاٹھی کو] فَلَمَّا خَرَّ [پھر جب وہ گر پڑے] تَبَيَّنَتِ [تو معلوم کیا] الْجِنُّ [جنوں نے] اَنْ لَّوْ [کہ اگر] كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ [وہ جانتے ہوتے] الْغَيْبَ [غیب کو] مَا لَبِثُوْا [تو وہ نہ ٹھہرتے] فِي الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ [ذلیل کرنے والے اس عذاب میں]۔

لَقَدْ كَانَ لِسَـبَاٍ فِيْ مَسْكَنِهِمْ اٰيَةٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّ شِمَالٍ ڛ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوْا لَهٗ ۭ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ  15؀
لَقَدْ كَانَ [بیشک ہو چکی] لِسَـبَاٍ [(قوم) سبا کے لئے] فِيْ مَسْكَنِهِمْ [ان کے رہنے کی جگہ (یعنی بستی) میں] اٰيَةٌ ۚ [ایک نشانی] جَنَّتٰنِ [دو باغات تھے]عَنْ يَّمِيْنٍ وَّ شِمَالٍ ڛ [داہنے اور بائیں سے] كُلُوْا [تم لوگ کھاؤ] مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ [اپنے رب کے رزق میں سے] وَاشْكُرُوْا لَهٗ ۭ [اور شکر کرواس کا] بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [(تمھارا شہر) ایک پاکیزہ شہر ہے] وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ [اور (تمھارا رب) بےانتہا بخشنے والا رب ہے]۔

فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَىْ اُكُلٍ خَمْطٍ وَّاَثْلٍ وَّشَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ  16؀
فَاَعْرَضُوْا [پھر ان لوگوں نے اعراض کیا] فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ [تو ہم نے بھیجا ان پر] سَيْلَ الْعَرِمِ [شدت کا سیلاب] وَبَدَّلْنٰهُمْ [ہم نے بدلے میں دیا ان کو] بِجَنَّتَيْهِمْ [ان کے دو باغات کے بدلے ] جَنَّتَيْنِ [دو ایسے باغات جو] ذَوَاتَىْ اُكُلٍ خَمْطٍ [کڑوے پھل والے تھے] وَّاَثْلٍ [اور جھاؤ کے درخت والے] وَّشَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ [اور تھوڑی سی چیزوالے بیری میں سے]۔



ع ر م (س۔ ک) عرامۃ شوخ ہونا۔ شدید ہونا۔

 عرم صفت ہے۔ شوخ۔ شدید۔ زیر مطالعہ آیت۔ 16۔

خ م ط (س) خمطا کسی چیز کی بو یعنی مہلک میں تغیر آجانا۔

 خمط کھٹی یا کڑوی چیز۔ زیر مطالعہ آیت۔ 16۔

ء ث ل (ک) اثالۃ زمین میں یا شرافت میں جڑ پکڑنا۔

 اثل ایک خاردار درخت جس کا پھل کھانے کے قابل نہیں ہوتا۔ اسے بکریاں کھاتی ہیں۔ اردو میں اسے جھاؤ کا درخت کہتے ہیں۔ زیر مطالعہ آیت۔ 16۔

س ذ ر (ن۔ ض) سدرا بالوں کو لٹکانا۔

 سدر بیری کا درخت۔ زیر مطالعہ آیت۔ 16۔

 السدرۃ بیری کا مخصوص درخت۔ عرش الٰہی کے داہنی جانب بیری کا درخت جو ملائکہ کی پہنچ کی آخری حد ہے۔ اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى (جو چھایا اس بیری کے درخت پر وہ جو چھایا) 53/16۔

ذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوْا ۭ وَهَلْ نُجٰزِيْٓ اِلَّا الْكَفُوْرَ  17؀
ذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ [یہ ہم نے بدلہ دیا ان کو] بِمَا كَفَرُوْا ۭ [اس کے سبب سے جو انھوں نے نا شکری کی] وَهَلْ نُجٰزِيْٓ [ اور ہم سزا نہیں دیتے] اِلَّا الْكَفُوْرَ [مگر بہت ہی نا شکرے کو]۔

وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَّقَدَّرْنَا فِيْهَا السَّيْرَ سِيْرُوْا فِيْهَا لَيَالِيَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيْنَ  18؀
وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ [اور ہم نے بنائیں ان کے درمیان] وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ [اور ان بستیوں کے درمیان] بٰرَكْنَا فِيْهَا [ہم نے برکت دی جن میں] قُرًى ظَاهِرَةً [کچھ نظر آنے والی بستیاں] وَّقَدَّرْنَا فِيْهَا [اور ہم نے مقررکیں ان میں (منزلیں)] السَّيْرَ [سفر کرنے کے لئے] سِيْرُوْا فِيْهَا [تم لوگ کرو ان میں] لَيَالِيَ [راتوں کے وقت] وَاَيَّامًا [اور دنوں کے وقت] اٰمِنِيْنَ [امن میں ہونے والے ہوتے ہوئے]۔



نوٹ۔1: برکت والی بستیوں سے مراد شام اور فلسطین کا علاقہ ہے جن کے ساتھ اہل سبا کے تجارتی تعلقات تھے، نمایاں بستیوں سے مراد وہ بستیاں ہیں جو تجارتی شاہراہ پر آباد تھیں اور ان کے کے لئے منزلوں کا کام دیتی تھیں۔ یہاں یہ حقیقت ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام آسائشوں کے اہتمام کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ اس حقیقت کا بیان کہ اس دنیا میں انسان کو جو کچھ بھی حاصل ہوتاہے وہ اللہ کے فضل ہی سے ملتاہے۔ لیکن انسان اپنی ناشکری کے باعث اسے اپنی سعی اور تدبیر کا کرشمہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس زمانے کی عام گمراہی کا اصل سبب بھی یہی ہے اور سائنس کی ایجادات نے اس میں اضافہ کردیا ہے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب زوال نعمت کا دور شروع ہوا تو سبا کے مختلف قبیلے اپنا وطن چھوڑ کر عرب کے مختلف علاقوں میں چلے گئے۔ غسانیوں نے اردن اور شام کا رخ کیا۔ اوس اور خزرج یثرت (مدینہ) میں جا بسے۔ اسی طرح باقی قبائل بھی عرب کے مختلف علاقوں میں نکل گئے۔ حتی کہ سبانام کی کوئی قوم ہی دنیا میں باقی نہ رہی۔ صرف اس کا ذکر افسانوں میں رہ گیا۔ (تفہیم القرآن)

فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنٰهُمْ اَحَادِيْثَ وَمَزَّقْنٰهُمْ كُلَّ مُمَــزَّقٍ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ  19؀
فَقَالُوْا رَبَّنَا [پھر ان لوگوں نے کہا اے ہمارے رب] بٰعِدْ [تو دور کردے (فاصلے)] بَيْنَ اَسْفَارِنَا [ہمارے سفروں کے درمیان] وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ [اور انھوں نے ظلم کیا اپنی جانوں پر] فَجَعَلْنٰهُمْ [تو ہم نے بنا دیا ان کو] اَحَادِيْثَ [افسانے] وَمَزَّقْنٰهُمْ [اور ہم نے بکھیر دیا ان کو] كُلَّ مُمَــزَّقٍ ۭ [بالکل ریزہ ریزہ کئے ہوئے] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [بیشک اس میں] لَاٰيٰتٍ [یقینا نشانیاں ہیں] لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ [ہر ثابت قدم رہنے والے شکر کرنے والے کے لئے]۔

وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ  20؀
وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ [اور بیشک سچ کر دکھایا ان پر] اِبْلِيْسُ [ابلیس نے] ظَنَّهٗ [اپنے گمان کو] فَاتَّبَعُوْهُ [تو انھوں نے پیروی کی اس کی] اِلَّا فَرِيْقًا [سوائے ایک ایسے فریق کے جو] مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ایمان لانے والوں سے تھا]۔



نوٹ۔3: آیت۔ 20 میں اشارہ ابلیس کے اس گمان کی طرف ہے جس کا اظہار اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کے وقت کیا تھا۔ اس وقت اس نے یہ کہا تھا کہ میں اولاد آدم پر اس طرح گھیرے ڈالوں گا کہ ان کی اکثریت تیری جگہ میری پیروی کرے گی اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہیں پائے گا (الاعراف۔17) یہان اس کا حوالہ دینے سے مقصود اس کے انجام کی طرف اشارہ کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو جواب دیا تھا کہ جو تیری پیروی کریں گے میں ان سب کو جہنم میں بھر دوں گا۔ آگے آیت۔ 21 میں بتادیا کہ شیطان کو لوگوں پر یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ جس کو چاہے گمراہ کردے۔ اس کو صرف اس بات کی مہلت ملی ہے کہ وہ لوگوں کو بدی کے راستہ کی دعوت دے سکتاہے اور یہ مہلت اس کو اس لئے دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا امتحان کرنا چاہتاہے کہ کون آخر پر ایسا مضبوط ایمان رکھتا ہے کہ شیطان کے بہکائے میں نہیں آتا اور کون شک میں مبتلا ہوکر اس کے بہکاوے میں آجاتا ہے۔ (تدبر قرآن)

وَمَا كَانَ لَهٗ عَلَيْهِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُّؤْمِنُ بِالْاٰخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِيْ شَكٍّ ۭ وَرَبُّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ  21۝ۧ
وَمَا كَانَ لَهٗ [اور نہیں تھا اس کے لئے] عَلَيْهِمْ [ان پر] مِّنْ سُلْطٰنٍ [کوئی بھی اختیار] اِلَّا لِنَعْلَمَ [سوائے اس کے کہ ہم جان لیں] مَنْ [اس کو جو] يُّؤْمِنُ [ایمان لاتا ہے] بِالْاٰخِرَةِ [آخرت پر] مِمَّنْ هُوَ [ان میں سے جو کہ وہی] مِنْهَا [اس (آخرت) سے] فِيْ شَكٍّ ۭ [شک میں ہے] وَرَبُّكَ [اور آپ
کا رب] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ہر چیز پر] حَفِيْظٌ [نگران ہے]۔

قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ  22؀
قُلِ [آپ
کہیے] ادْعُوا [تم لوگ پکارو] الَّذِيْنَ [ان لوگوں کو جن پر] زَعَمْتُمْ [تم لوگوں نے زعم کیا] مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۚ [اللہ کے علاوہ] لَا يَمْلِكُوْنَ [وہ لوگ مالک نہیں ہیں] مِثْقَالَ ذَرَّةٍ [کسی ذرہ کے ہم وزن (چیز) کے] فِي السَّمٰوٰتِ [آسمانوں میں] وَلَا فِي الْاَرْضِ [اور نہ ہی زمین میں] وَمَا لَهُمْ [اور نہیں ہے ان لوگوں کے لئے] فِيْهِمَا [ان دونوں (جگہوں) میں] مِنْ شِرْكٍ [کوئی بھی شراکت] وَّمَا لَهٗ [اور نہیں ہے اس (اللہ تعالیٰ) کے لئے] مِنْهُمْ [ان لوگوں میں سے] مِّنْ ظَهِيْرٍ [کوئی بھی مدد کرنے (ہاتھ بٹانے) والا]

وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ ۭ حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّكُمْ ۭ قَالُوا الْحَقَّ ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ  23؀
وَلَا تَنْفَعُ [اور نفع نہیں دیتی] الشَّفَاعَةُ [شفاعت] عِنْدَهٗٓ [اس کے پاس] اِلَّا لِمَنْ [سوائے اس کے لئے] اَذِنَ [اس نے اجازت دی] لَهٗ ۭ [جس کے لئے]حَتّىٰٓ اِذَا [یہاں تک کہ جب] فُزِّعَ [دہشت دور کر دی جائے گی] عَنْ قُلُوْبِهِمْ [ان کے دلوں سے] قَالُوْا [تو کہیں گے] مَاذَا ۙ قَالَ [کیا کہا] رَبُّكُمْ ۭ [تمہارے رب نے] قَالُوا [وہ لوگ کہیں گے] الْحَقَّ ۚ [(اس نے کہا) حق ہی] وَهُوَ الْعَلِيُّ [اور وہ ہی بلند ہے] الْكَبِيْرُ [بڑا ہے]۔



نوٹ۔1: آیت 23 میں حکم ربانی کے نزول کے وقت جو فرشتوں کا مدہوش ہوجانا پھر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کرنے کا ذکر ہے، اس کا بیان بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اس طرح آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان سے کوئی حکم نافذ فرماتے ہیں تو فرشتے خشوع وخضوع سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں (اور مدہوش جیسے ہوجاتے ہیں) جب ان کے دلوں سے ہیبت وجلال کا اثر دور ہوجاتاہے تو کہتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا۔ دوسرے کہتے ہیں فلاں حکم حق ارشاد فرمایا۔ (معارف القرآن)

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ  28؀
[وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ: اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو ][ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ: مگر سارے کے سارے لوگوں کے لئے ][ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا: خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا ہوتے ہوئے][ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ : اور لیکن لوگوں کی اکثریت][لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتی نہیں]



نوٹ۔2: زیر مطالعہ آیت 28 سے واضح ہوجاتاہے کہ نبی
صرف اپنے ملک یا اپنے زمانے کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک پوری نوع بشر کے لئے مبعوث فرمائے گئے ہیں۔ یہی بات قرآن مجید مین متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ مثلا الانعام 197۔ الاعراف 158۔ الانبیائ۔107۔ الفرقان۔1۔ وغیرہ ۔ یہی مضمون نبی نے خوب بھی بہت سی احادیث میں مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے۔ مثلا ارشاد ہے کہ میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ ایک دوسرے حدیث میں ہے کہ میں عمومیت کے ساتھ تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں، حالاکہ مجھ سے جو بھی نبی گزرا ہے وہ اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا۔ (تفہیم القرآن)

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ  29؀
[وَيَقُوْلُوْنَ: اور وہ لوگ کہتے ہیں][ مَتٰى: کب ہے][ ھٰذَا الْوَعْدُ: وہ وعدہ][ اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم لوگ ہو][صٰدِقِيْنَ: سچ کہنے والے]

قُلْ لَّكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْهُ سَاعَةً وَّلَا تَسْتَــقْدِمُوْنَ  30؀ۧ
قُلْ [آپ
کہیے] لَّكُمْ [تم لو گوں کے لئے] مِّيْعَادُ يَوْمٍ [ایک ایسے دن کا وعدہ ہے] لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ [تم لوگ پیچھے نہیں رہو گے] عَنْهُ [جس سے] سَاعَةً [ایک گھڑی (لمحہ بھر ) بھی] وَّلَا تَسْتَــقْدِمُوْنَ [اور آگے ہوگے]۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ ۭ وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ښ يَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ ۚ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ  31؀
وَقَالَ الَّذِيْنَ [اور کہا ان لوگں نے جنہوں نے] كَفَرُوْا [انکار کیا] لَنْ نُّؤْمِنَ [ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے] بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ [اس قرآن پر] وَلَا بِالَّذِيْ [اور نہ اس پر جو] بَيْنَ يَدَيْهِ ۭ [اس کے آگے (پہلے) ہے] وَلَوْ تَرٰٓى [اور اگر آپ
دیکھتے] اِذِ الظّٰلِمُوْنَ [جب یہ ظلم کرنے والے] مَوْقُوْفُوْنَ [ٹھہرائے ہوئے ہوں گے] عِنْدَ رَبِّهِمْ ښ [اپنے رب کے پاس] يَرْجِــعُ [لوٹائیں گے] بَعْضُهُمْ [ان کے کوئی] اِلٰى بَعْضِۨ [کسی کی طرف] الْقَوْلَ ۚ [بات کو] يَقُوْلُ الَّذِيْنَ [کہیں گے وہ لوگ جن کو] اسْتُضْعِفُوْا [کمزور سمجھا گیا] لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا [ان سے جو بڑے بنے] لَوْلَآ اَنْتُمْ [اگر نہ ہوتے تم لوگ] لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ [تو ہم ضرور ہوتے ایمان لانے والے]۔

قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَاۗءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِيْنَ  32؀
قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا [کہیں گے وہ جو بڑے بنے] لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا [ان سے جن کو کمزور سمجھا گیا] اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ [کیا ہم نے روکا تھا تم کو] عَنِ الْهُدٰى [ہدایت سے] بَعْدَ اِذْ جَاۗءَكُمْ [اس کے بعد کہ جب وہ پہنچی تمہارے پاس] بَلْ كُنْتُمْ [بلکہ تم لوگ تھے] مُّجْرِمِيْنَ [جرم کرنے والے]۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَــنَآ اَنْ نَّكْفُرَ بِاللّٰهِ وَنَجْعَلَ لَهٗٓ اَنْدَادًا ۭ وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ۭ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِيْٓ اَعْنَاقِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 33؀
وَقَالَ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا [اور کہیں گے وہ جن کو کمزور سمجھا گیا] لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا [ان سے جو بڑے بنے] بَلْ [(نہیں) بلکہ] مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ [دن اور رات کی (تمہاری) چالبازی] اِذْ تَاْمُرُوْنَــنَآ [جب تم لوگ حکم دیتے تھے ہم کو] اَنْ نَّكْفُرَ بِاللّٰهِ [کہ ہم انکار کریں اللہ (کے حکم) کا] وَنَجْعَلَ لَهٗٓ [اور ہم بنائیں اس کے] اَنْدَادًا ۭ [کچھ ہم پلہ] وَاَسَرُّوا [اور وہ چھپائیں گے] النَّدَامَةَ [ندامت کو] لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ۭ [جب وہ دیکھیں گے عذاب کو] وَجَعَلْنَا [اور ہم بنائیں (ڈالیں) گے] الْاَغْلٰلَ [کچھ طوق] فِيْٓ اَعْنَاقِ الَّذِيْنَ [ان کی گردنوں میں جنہوں نے] كَفَرُوْا ۭ [کفر کیا] هَلْ يُجْزَوْنَ [ان کو کیا بدلہ دیا جائے گا] اِلَّا مَا [سوائے اس کے جو] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [وہ لوگ عمل کرتے تھے]۔



نوٹ۔1: آیت۔ 33۔ میں اسروا الندامۃ آیا ہے۔ اس سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ سوال وجواب کے بعد جب وہ دیکھیں گے کے سامنے عذاب کھڑا ہے تو سخت پشیمان ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا یہ عذر نہیں سنا جائے گا کہ وہ اپنے لیڈروں کی سازشوں کے سبب سے ہدایت کی پیروی سے محروم رہے، بلکہ ان کو عذاب سے دو چارہونا پڑے گا۔ اس وقت ان کے سامنے یہ بات کھل کرآجائے گی کہ انھوں نے اپنے ضمیر کے خلاف اپنے لیڈروں کی پیروی کی۔ جو آدمی اپنے ضمیر کے خلاف کسی باطل کی پیروی کرنا ہے۔ جب اس کا نتیجہ سامنے آتاہے تو اس کو صرف نتیجہ کی تلخی ہی سے سابقہ نہیں پڑتا بلکہ اپنے ضمیر کی لعنت سے بھی اسے دوچار ہونا پڑتاہے اور اس کی مصیبت دو چند ہوجاتی ہے۔ (تدبر قرآن)

وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَآ ۙ اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ  34؀
وَمَآ اَرْسَلْنَا [اور ہم نے نہیں بھیجا] فِيْ قَرْيَةٍ [کسی بستی میں] مِّنْ نَّذِيْرٍ [کوئی بھی خبردار کرنے والا] اِلَّا قَالَ [سوائے اس کے کہ کہا] مُتْرَفُوْهَآ ۙ [اس کے خوشحال لوگوں نے] اِنَّا بِمَآ [بیشک ہم اس سے] اُرْسِلْتُمْ [تم بھیجے گئے] بِهٖ [جس کے ساتھ] كٰفِرُوْنَ [انکار کرنے والے ہیں]۔

وَقَالُوْا نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا ۙ وَّمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ  35؀
وَقَالُوْا [اور انھوں نے کہا] نَحْنُ اَكْثَرُ [ہم زیادہ ہیں] [اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا ۙ : بلحاظ مال اور اولاد کے] [وَّمَا نَحْنُ : اور ہم نہیں ہیں] [بِمُعَذَّبِيْنَ: عذاب دئیے جانے والے]۔

قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ  36؀ۧ
قُلْ [آپ
کہیے] اِنَّ رَبِّيْ [بیشک میرا رب] يَبْسُطُ الرِّزْقَ [کشادہ کرتا ہے رزق کو] لِمَنْ [اس کے لئے جس کے لئے] يَّشَاۗءُ [وہ چاہتا ہے] وَيَــقْدِرُ [اور اندازے سے دیتا ہے] وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ [اور لیکن لوگوں کی اکثریت] لَا يَعْلَمُوْنَ [جانتی نہیں ہے]۔

وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓي اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ۡ فَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِي الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ 37؀
وَمَآ اَمْوَالُكُمْ [اور نہیں ہیں تمہارے مال] وَلَآ اَوْلَادُكُمْ [اور نہ تمہاری اولاد] بِالَّتِيْ [وہ جو] تُقَرِّبُكُمْ [نزدیک کر دیں تم کو] عِنْدَنَا [ہمارے پاس] زُلْفٰٓي [بلحاظ زیادہ قریب ہونے کے] اِلَّا مَنْ [مگر وہ جو] اٰمَنَ [ایمان لایا] وَعَمِلَ صَالِحًا ۡ [اور عمل کیا نیک] فَاُولٰۗىِٕكَ [تو وہ لوگ ہیں] لَهُمْ [جن کے لئے ہے] جَزَاۗءُ الضِّعْفِ [دوگنے کا (دوہرا) بدلہ] بِمَا [بسبب اس کے جو] عَمِلُوْا [انھوں نے عمل کیا] وَهُمْ فِي الْغُرُفٰتِ [اور وہ لوگ بالا خانوں میں] اٰمِنُوْنَ [امن میں ہونے والے ہیں]۔

وَالَّذِيْنَ يَسْعَوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيْنَ اُولٰۗىِٕكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ 38؀
وَالَّذِيْنَ يَسْعَوْنَ [اور جو لوگ بھاگ دوڑ کرتے ہیں] فِيْٓ اٰيٰتِنَا [ہماری نشانیوں میں] مُعٰجِزِيْنَ [عاجز کرنے والے ہوتے ہوئے] اُولٰۗىِٕكَ فِي الْعَذَابِ [وہ لوگ عذاب میں] مُحْضَرُوْنَ [حاضر کئے ہوئے ہوں گے]۔

قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗ ۭ وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ  39؀
قُلْ اِنَّ رَبِّيْ [آپ
کہیے بیشک میرا رب] يَبْسُطُ الرِّزْقَ [کشادہ کرتا ہے رزق کو] لِمَنْ يَّشَاۗءُ [جس کے لئے وہ چاہتا ہے] مِنْ عِبَادِهٖ [اپنے بندوں میں سے] وَيَقْدِرُ لَهٗ ۭ [اور اندازے سے دیتا ہے جس کے لئے (چاہے)] وَمَآ اَنْفَقْتُمْ [اور جو تم لوگ خرچ کرتے ہو] مِّنْ شَيْءٍ [کوئی بھی چیز] فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ [تو وہ اس کا عوض دیتا ہے] وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ [اور وہ رزق دینے والوں کا بہترین ہے]۔



نوٹ۔1: آیت۔ 39۔ کا مطلب یہ ہے کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اپنے خزانہ غیب سے تمہیں اس کا بدل دیتاہے کبھی دنیا ، کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں جگہ۔ رسول اللہ
نے فرمایا کہ ہر روز جب لوگ صبح میں داخل ہوتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں اور دعاکرتے ہیں کہ یا اللہ خرچ کرنے والے اس کا بدل عطافرما اور بخل کرنے والے کا مال ضائع کردے۔ (معارف القرآن)

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ يَقُوْلُ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اَهٰٓؤُلَاۗءِ اِيَّاكُمْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ  40؀
وَيَوْمَ [اور جس دن] يَحْشُرُهُمْ [وہ اکٹھا کرے گا ان کو] جَمِيْعًا [سب کے سب کو] ثُمَّ يَقُوْلُ [پھر وہ کہے گا] لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ [فرشتوں سے] اَهٰٓؤُلَاۗءِ [کیا یہ لوگ] اِيَّاكُمْ [تم لوگوں کی ہی] كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ [بندگی کیا کرتے تھے]۔

قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ ۚ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ  41؀
قَالُوْا [وہ سب کہیں گے] سُبْحٰنَكَ [پاکیزگی تیری ہے] اَنْتَ [توہی] وَلِيُّنَا [ہمار کار ساز ہے] مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ [ان کے بجائے] بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ [بلکہ یہ لوگ بندگی کرتے تھے] الْجِنَّ ۚ [جنوں کی] اَكْثَرُهُمْ [ان کے اکثر] بِهِمْ [ان (جنوں) پر ہی] مُّؤْمِنُوْنَ [ایمان رکھنے والے تھے]۔



نوٹ۔1: آیت۔41۔ میں جن سے مراد شیاطین جن ہیں اور فرشتوں کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو یہ ہمارے نام لے کر اور اپنے تخیلات کے مطابق ہماری صورتیں بناکر گویا ہماری عبادت کرتے تھے، لیکن در اصل یہ ہماری نہیں بلکہ شیاطین کی بندگی کررہے تھے، کیونکہ شیاطین ہی نے ان کو یہ راستہ دکھایا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا حاجت روا سمجھو اور ان کے آگے نذرونیاز پیش کرو۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ عبادت صرف پرستش اور پوجا پاٹ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ کسی کے حکم پر چلنا اور اس کی بےچوں وچرا طاعت کرنا بھی عبادت ہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ آیت صریح طور پر ان لوگوں کے خیال کی غلطی واضح کردیتی ہے جو جن کو پہاڑی علاقوں کے باشندوں یا دہقانوں کے معنی میں لیتے ہیں۔ کیا کوئی صاحب عقل اس آیت کو پڑھ کر یہ تصور کرسکتاہے کہ لوگ صحرائی، پہاڑی یا دیہاتی آدمیوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان ہی پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ (تفہیم القرآن)

فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَّلَا ضَرًّا ۭ وَنَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّتِيْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ  42؀
فَالْيَوْمَ [پس آج کے دن] لَا يَمْلِكُ [اختیار نہیں رکھتا] بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ [تمہارا کوئی کسی کے لئے] نَّفْعًا وَّلَا ضَرًّا ۭ[کسی نفع کا اور نہ کسی تکلیف کا] وَنَقُوْلُ [اور ہم کہیں گے] لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا [ان لوگوں سے جنھوں نے ظلم کیا] ذُوْقُوْا [تم لوگ چکھو] عَذَابَ النَّارِ الَّتِيْ [اس آگ کے عذاب کو]كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ [تم لوگ جس کو جھٹلایا کرتے تھے]۔

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّا رَجُلٌ يُّرِيْدُ اَنْ يَّصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُكُمْ ۚ وَقَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكٌ مُّفْتَرًى ۭ وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَهُمْ ۙ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ  43؀
وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ [اور جب پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان کو] اٰيٰتُنَا [ہماری آیات] بَيِّنٰتٍ [واضح ہوتے ہوئے] قَالُوْا [تو وہ لوگ کہتے ہیں] مَا ھٰذَآ [نہیں ہے یہ] اِلَّا رَجُلٌ [مگر ایک ایسا مرد] يُّرِيْدُ [جو ارادہ رکھتا ہے] اَنْ يَّصُدَّكُمْ [کہ وہ روک دے تو لوگوں کو] عَمَّا [ان سے جن کی] كَانَ يَعْبُدُ [بندگی کرتے تھے] اٰبَاۗؤُكُمْ ۚ [تمہارے باب دادا] وَقَالُوْا [اور وہ کہتے ہیں] مَا ھٰذَآ [نہیں ہے یہ (قرآن)] اِلَّآ اِفْكٌ مُّفْتَرًى ۭ [مگر ایک گھڑا ہوا جھوٹ] وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [اور وہ لوگ کہتے ہیں جنہوں نے انکار کیا] لِلْحَقِّ [حق کا] لَمَّا جَاۗءَهُمْ ۙ [جب وہ آیا ان کے پاس] اِنْ ھٰذَآ [نہیں ہے یہ] اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ [مگر ایک کھلا جادو]۔

وَمَآ اٰتَيْنٰهُمْ مِّنْ كُتُبٍ يَّدْرُسُوْنَهَا وَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمْ قَبْلَكَ مِنْ نَّذِيْرٍ 44؀ۭ
وَمَآ اٰتَيْنٰهُمْ [اور ہم نے نہیں دیں ان لوگوں کو] مِّنْ كُتُبٍ [کوئی بھی ایسی کتابیں] يَّدْرُسُوْنَهَا [یہ لوگ سبق لیتے جن سے] وَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمْ [اور ہم نے نہیں بھیجا ان کی طرف] قَبْلَكَ [آپ
سے پہلے] مِنْ نَّذِيْرٍ [ کوئی بھی خبردار کرنے والا]۔

وَكَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۙ وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَيْنٰهُمْ فَكَذَّبُوْا رُسُلِيْ  ۣ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ 45؀ۧ
وَكَذَّبَ الَّذِيْنَ [اور جھٹلایا انھوں نے جو] مِنْ قَبْلِهِمْ ۙ [ان سے پہلے تھے] وَمَا بَلَغُوْا [اور یہ لوگ نہیں پہنچے] مِعْشَارَ مَآ [اس (مال و دولت) کے دسویں حصے کو جو] اٰتَيْنٰهُمْ [ہم نے دیا ان (پہلوں) کو] فَكَذَّبُوْا [تو انھوں نے جھٹلایا] رُسُلِيْ ۣ [میرے رسولوں کو] فَكَيْفَ كَانَ [تو کیسی تھی] نَكِيْرِ [میری ناواقفیت]

قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۚ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰى وَفُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا   ۣ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ  46؀
قُلْ [آپ
کہیے] اِنَّمَآ [کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] اَعِظُكُمْ [میں نصیحت کرتا ہوں تم لوگوں کو] بِوَاحِدَةٍ ۚ [ایک (بات) کی] اَنْ تَقُوْمُوْا [کہ تم لوگ کھڑے ہو] لِلّٰهِ [اللہ کے واسطے] مَثْنٰى [دو دو] وَفُرَادٰى [اور ایک ایک ] ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا ۣ [پھر غور و فکر کرو] مَا بِصَاحِبِكُمْ [کیا تمہارے ساتھی کو] مِّنْ جِنَّةٍ ۭ [کسی بھی قسم کا کوئی جنون ہے] اِنْ هُوَ [نہیں ہے وہ] اِلَّا نَذِيْرٌ [مگر ایک خبردار کرنے والا] لَّكُمْ [تم کو] بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ [ایک سخت عذاب سے پہلے]۔



نوٹ۔1: آیت ۔46۔ میں تحقیق حق کا ایک راستہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے لئے کھڑے ہوجاؤ دو۔ دو اور ایک ایک۔ یہاں کھڑے ہونے سے مراد حِسی کھڑا ہونا نہیں بلکہ اس سے مراد کام کا پورا اہتمام کرنا ہے۔ قیام کے ساتھ لفظ للہ بڑھا کر یہ بتلانا مقصود ہے کہ خالص اللہ کی رضا کے لئے خالی الذہن ہوکر حق کی تلاش میں لگو اور دو ۔ دو یا ایک ایک میں کوئی خاص عدد مقصود نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ غور کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک تنہائی میں خود غور کرنا ۔ دوسرا اپنے احباب وکابر سے باہم بحث وتمحیص کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچنا۔ ان دونوں طریقوں کو یا ان میں سے جو پسند ہو اس کو اختیار کرو۔ لفظ صاحبکم میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ تمہارے شہے رہنے والے اور دن رات کے تمہارے ساتھی ہیں جن کی کوئی حالت وکیفیت تم سے پوشیدہ نہیں ہے اور اس سے پہلے تم نے بھی کبھی ان پر جنون کاشبہ نہیں کیا۔ (معارف القرآن)

مورخہ 5/ربیع الثانی 1429 ھ بمطابق 12 اپریل 2008 ء

قُلْ مَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ۭ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ ۚ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ  47؀
قُلْ [آپ
کہیے] مَا سَاَلْتُكُمْ [جو میں نے مانگا تم سے] مِّنْ اَجْرٍ [کوئی بھی اجر] فَهُوَ لَكُمْ ۭ [تو وہ تمہارے لئے ہے] اِنْ اَجْرِيَ [نہیں ہے میرا اجر] اِلَّا عَلَي اللّٰهِ ۚ [مگر اللہ پر] وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [اور وہ ہر چیز پر] شَهِيْدٌ [موجود رہنے والا ہے]۔

قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَقْذِفُ بِالْحَـقِّ ۚ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ 48؀
قُلْ [آپ
کہیے] اِنَّ رَبِّيْ [بیشک میرا رب] يَقْذِفُ [ڈالتا (القا کرتا) ہے] بِالْحَـقِّ ۚ [حق کو] عَلَّامُ الْغُيُوْبِ [(وہ) غیبوں کا خوب جاننے والا ہے]۔

قُلْ جَاۗءَ الْحَـقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ  49؀
قُلْ جَاۗءَ الْحَـقُّ [آپ
کہیے آگیا حق] وَمَا يُبْدِئُ [اور ابتدا نہیں کرتے (تخلیق کی)] الْبَاطِلُ [سارے باطل (غیر اللہ)] وَمَا يُعِيْدُ [اور نہ وہ دوبارہ لاتے ہیں (مخلوق کو)]۔

قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَآ اَضِلُّ عَلٰي نَفْسِيْ ۚ وَاِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوْحِيْٓ اِلَيَّ رَبِّيْ ۭ اِنَّهٗ سَمِيْعٌ قَرِيْبٌ  50؀
قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ [آپ
کہیے اگر میں بھٹک گیا] فَاِنَّمَآ [تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] اَضِلُّ [میں بھٹکتا ہوں] عَلٰي نَفْسِيْ ۚ [اپنے نفس پر (یعنی نفس کے سبب سے)] وَاِنِ اهْتَدَيْتُ [اور اگر میں نے ہدایت پائی] فَبِمَا [تو بسبب اس کے جو] يُوْحِيْٓ اِلَيَّ [وحی کرتا ہے میری طرف] رَبِّيْ ۭ [میرا رب] اِنَّهٗ [بیشک وہ] سَمِيْعٌ [سننے والا ہے] قَرِيْبٌ [قریب ہے]۔

وَلَوْ تَرٰٓى اِذْ فَزِعُوْا فَلَا فَوْتَ وَاُخِذُوْا مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ  51؀ۙ
وَلَوْ تَرٰٓى [اور اگر آپ
دیکھتے] اِذْ فَزِعُوْا [جب وہ لوگ دہشت زدہ ہوں گے] فَلَا فَوْتَ [تو کوئی بھی بھاگ نکلنا نہیں ہوگا] وَاُخِذُوْا [اور وہ پکڑے جائیں گے] مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ [قریبی جگہ سے]۔

وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖ ۚ وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ  52؀ښ
وَّقَالُوْٓا [اور وہ کہیں گے] اٰمَنَّا بِهٖ ۚ [ہم ایمان لائے اس پر] وَاَنّٰى لَهُمُ [حالانکہ اب کہاں ہوگا ان کے لئے] التَّنَاوُشُ [حاصل کر لینا (مقبول ایمان کو] مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ [(اتنی) دور والی جگہ سے]۔



ن و ش (ن) نوشا کسی چیز کو پکڑنا۔ طلب کرنا۔

(تفاعل) تناوشا کسی چیز کو پکڑ لینا۔ حاصل کر لینا۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 52۔

وَّقَدْ كَفَرُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ ۚ وَيَقْذِفُوْنَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ  53؀
وَّقَدْ كَفَرُوْا بِهٖ [اس حال میں کہ وہ انکار کر چکے ہیں اس کا] مِنْ قَبْلُ ۚ [اسے سے پہلے] وَيَقْذِفُوْنَ [اور وہ پھینکیں گے] بِالْغَيْبِ [غیب یں (اندھیرے ہیں)] مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ [دور والی جگہ سے]۔

وَحِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُوْنَ كَمَا فُعِلَ بِاَشْيَاعِهِمْ مِّنْ قَبْلُ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا فِيْ شَكٍّ مُّرِيْبٍ  54؀ۧ
وَحِيْلَ [اور حائل کی جائے گی (رکاوٹ)] بَيْنَهُمْ [ان کے درمیان] وَبَيْنَ مَا [اور س کے درمیان جو] يَشْتَهُوْنَ [وہ لوگ چاہتے ہوں گے] كَمَا فُعِلَ [اس کے مانند جو کیا گیا] بِاَشْيَاعِهِمْ [ان کی (ہم عقیدہ) جماعتوں کے ساتھ] مِّنْ قَبْلُ ۭ [اس سے پہلے] اِنَّهُمْ كَانُوْا [بیشک وہ لوگ تھے] فِيْ شَكٍّ مُّرِيْبٍ [ایک الجھا دینے والے شک میں]۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۭ يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ  Ǻ۝
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ [تمام شکر وسپاس اللہ کے لئے ہے] فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [جو زمین اور آسمانوں کو وجود میں لانے والا ہے] جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ [جو فرشتوں کو بنانے والا ہے] رُسُلًا [پیغامبر] اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ [جو پروں والے ہیں] مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۭ [دو دو اور تین تین اور چار چار] يَزِيْدُ [وہ زیادہ کرتا ہے] فِي الْخَلْقِ [پیدا کرنے میں] مَا يَشَاۗءُ ۭ [جو وہ چاہتا ہے] اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [بیشک اللہ ہر چیز پر] قَدِيْرٌ [قدرت رکھنے والا ہے]۔



نوٹ۔1: ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ فرشتوں کے بازؤوں اور پروں کی کیفیت کیا ہے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لئے دوسرے الفاظ کے بجائے وہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو انسانی زبان میں پرندوں کے بازؤوں کے لئے آتا ہے تو یہ تصور کیا جاسکتاہے کہ ہماری زبان کا یہی لفظ اصل کیفیت سے قیرب تر ہے۔ دودو اور تین تین اور چار چار بازؤوں کے ذکر سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ مختلف فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف درجہ کی طاقتیں عطاء فرمائی ہیں اور جس سے جیسی خدمت لینی مطلوب ہوتی ہے اس کو ویسی ہی سرعت رفتار اور قوت کار سے آراستہ فرمایا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن)

مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۚ وَمَا يُمْسِكْ ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ  Ą۝
مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ [جو کھول دے اللہ] لِلنَّاسِ [لوگوں کے لئے] مِنْ رَّحْمَةٍ [کسی رحمت میں سے] فَلَا مُمْسِكَ [تو کوئی بھی روکنے والا نہیں ہے] لَهَا ۚ [اس کو] وَمَا يُمْسِكْ ۙ [اور جو وہ روک لے] فَلَا مُرْسِلَ [تو کوئی بھی بھیجنے والا نہیں ہے] لَهٗ [اس کو] مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ [اس (روک) کے بعد] وَهُوَ الْعَزِيْزُ [اور وہی بالادست ہے] الْحَكِيْمُ [حکمت والا ہے]۔

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۭ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ڮ فَاَنّٰى تُـؤْفَكُوْنَ  Ǽ۝
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ [اے لوگو!] اذْكُرُوْا [تم لوگ یاد کرو] نِعْمَتَ اللّٰهِ [اللہ کی نعمت کو] عَلَيْكُمْ ۭ [اپنے اوپر] هَلْ مِنْ خَالِقٍ [کیا کوئی بھی ایسا خالق ہے] غَيْرُ اللّٰهِ [اللہ کے علاوہ] يَرْزُقُكُمْ [جو رزق دیتا ہے تم لوگوں کو] مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭ [آسمان اور زمین سے] لَآ اِلٰهَ [کوئی بھی الٰہ نہیں ہے] اِلَّا هُوَ ڮ [مگر وہ] فَاَنّٰى [تو کہاں سے] تُـؤْفَكُوْنَ [تم لوگ پھیرے جاتے ہو]۔

وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ ۭ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ Ć۝
وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ [اور اگر یہ لوگ جھٹلاتے ہیں آپ
کو] فَقَدْ كُذِّبَتْ [تو جھٹلائے جا چکے ہیں] رُسُلٌ [رسول لوگ] مِّنْ قَبْلِكَ ۭ [آپ سے پہلے] وَ اِلَى اللّٰهِ [اور اللہ ہی کی طرف] تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ [لوٹائے جائیں گے تمام معاملات]۔

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۪ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ Ĉ۝
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ [اے لوگو!] اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ [یقینا اللہ کا وعدہ] حَقٌّ [برحق ہے] فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ [تو ہرگز دھوکا نہ دے تم لوگوں کو] الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۪ [دنیوی زندگی] وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ [اور ہر گز دھوکہ نہ دے تم لوگوں کو] بِاللّٰهِ [اللہ کے بارے میں] الْغَرُوْرُ [وہ انتہائی دھوکے باز]۔

اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا ۭ اِنَّمَا يَدْعُوْ احِزْبَهٗ لِيَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ Č ؀ۭ
اِنَّ الشَّيْطٰنَ [بیشک شیطان] لَكُمْ عَدُوٌّ [تمہارے لئے دشمن ہے] فَاتَّخِذُوْهُ [پس تم لوگ بناؤ (سمجھو) اس کو] عَدُوًّا ۭ [دشمن (ہی)] اِنَّمَا يَدْعُوْا [وہ تو بس دعوت دیتا ہے] حِزْبَهٗ [اپنے گروہ کو] لِيَكُوْنُوْا [تاکہ وہ سب ہو جائیں] مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ [آگ والوں میں سے]۔

اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ڛ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ  Ċ۝ۧ
اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا [جن لوگوں نے انکار کیا] لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ڛ [ان کے لئے ایک سخت عذاب ہے] وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [اور جو لوگ ایمان لائے] وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ [اور انہوں نے عمل کئے نیکیوں کے] لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ [ان کے لئے مغفرت ہے] وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ [اور بڑا اجر ہے]۔

اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَـنًا ۭ فَاِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ڮ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرٰتٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِـيْمٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ  Ď۝
اَفَمَنْ [تو کیا وہ] زُيِّنَ لَهٗ [سجایا گیا جس کے لئے] سُوْۗءُ عَمَلِهٖ [اس کے عمل کی برائی کو] فَرَاٰهُ [تو اس نے دیکھا اس کو] حَسَـنًا ۭ [اچھا (بھلا)] فَاِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ [تو بیشک اللہ گمراہ کرتا ہے] مَنْ يَّشَاۗءُ [اس کو جس کو وہ چاہتا ہے] وَيَهْدِيْ [اور وہ ہدایت دیتا ہے] مَنْ يَّشَاۗءُ ڮ [اس کو جس کو وہ چاہتا ہے] فَلَا تَذْهَبْ [پس چاہئے کہ نہ جائے] نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ [آپ
کی جان ان پر] حَسَرٰتٍ ۭ [حسرتیں کرتے ہوئے] اِنَّ اللّٰهَ عَلِـيْمٌۢ [بیشک اللہ جاننے والا ہے] بِمَا يَصْنَعُوْنَ [اس کو جو یہ لوگ کاریگری کرتے ہیں]۔



نوٹ۔1: میں اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَـنًا ۭ کے بعد جواب بربنائے قرینہ محذوف ہے۔ اگر اس حذف کو کھول دیجئے تو پوری بات یوں ہوگی۔ کیا وہ جس کی نگاہوں مین اس کی بد عملی کھبادی گئی ہے اور اپنی بدی کو نیکی سمجھنے لگاہے، تم اس کو ہدایت دینے والے بن سکتے ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگون کا ہدایت پانا سنت الٰہی کے خلاف ہے تو ایسے لوگوں کی فکر میں اپنے کو گھلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوانے کرنا چاہئے۔ (تدبر قرآن)

وَاللّٰهُ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ فَتُـثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحْيَيْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ  ۝
وَاللّٰهُ الَّذِيْٓ [اور اللہ وہ ہے جو] اَرْسَلَ الرِّيٰحَ [بھیجتا ہے ہواؤں کو] فَتُـثِيْرُ سَحَابًا [تو وہ اٹھاتی ہیں بادل کو] فَسُقْنٰهُ [پھر ہم ہانک دیتے ہیں اس کو] اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ [کسی مردہ شہر کی طرف] فَاَحْيَيْنَا بِهِ [پھر ہم زندہ کرتے ہیں اس سے] الْاَرْضَ [زمین کو] بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ [اس کے مردہ ہو جانے کے بعد] كَذٰلِكَ [اس طرح] النُّشُوْرُ [دوبارہ زندہ ہونا ہے]۔



نوٹ۔1: آیت 9 میں آفاقی صداقت کا بیان سے اس لئے اس میں افعال ماضی کا ترجمہ حال میں کیا گیا ہے۔ (دیکھیں آیات 2:49، نوٹ 2)۔ آیت 10 میں مَنْ شرطیہ ہے اس لئے کان یرید (ماضی اسمراری) کا ترجمہ بھی حال میں ہوا ہے۔

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا ۭاِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ ۭ وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُوْنَ السَّـيِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۭ وَمَكْرُ اُولٰۗىِٕكَ هُوَ يَبُوْرُ 10۝
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ [جو ارادہ کرتا رہتا ہے] الْعِزَّةَ [عزت (حاصل کرنے) کا] فَلِلّٰهِ [تو اللہ ہی کے لئے ہے] الْعِزَّةُ جَمِيْعًا ۭ [عزت ساری کی ساری] اِلَيْهِ يَصْعَدُ [اس کی طرف ہی چڑھتا ہے] الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [پاکیزہ کلام] وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ [اور نیک عمل] يَرْفَعُهٗ ۭ [بلند کرتا ہے اس کو] وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُوْنَ [اور جو لوگ خفیہ تدبیر کرتے ہیں] السَّـيِّاٰتِ [برائیوں کی] لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۭ [ان کے لئے ایک سخت عذاب ہے] وَمَكْرُ اُولٰۗىِٕكَ [اور ان لوگوں کی چالبازی] هُوَ يَبُوْرُ [وہ ہی تباہ و برباد ہوگی]۔



نوٹ۔2: جو لوگ عزت حاصل کرنا چاہتے ہین وہ یاد رکھیں کہ عزت تمام تر اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور اسی کے تعلق سے عزت حاصل ہوتی ہے۔ اسے حاصل کرنے کا طریقہ یہ بتایا کہ بندوں کی طرف سے اللہ کی طرف عروج کرنے والی چیز کلمہ طیب، یعنی کلمہ ایمان ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں جو خدا سے قربت کا ذریعہ بن سکے۔ اس کلمہ ایمان کو جو چیز رفعت بخشتی ہے وہ عمل صالح ہے۔ عمل صالح کے بغیر کلمہء ایمان مرجھا کے رہ جاتاہے۔ حضرت ابن عباس نے الکلم الطیب سے کلمہء ایمان ہی مراد لیا ہے اور یہاں اس کے پہلو پہلو عمل صالح کا ذکر خود اس بات کی شہادت ہے کہ اس سے کلمہء ایمان ہی مراد ہے۔ فلسفہء دین میں یہی کلمہ تمام علم وحکمت کی جڑ ہے۔ اور یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ ایمان اور عمل صالح دونوں لازم وملزوم ہیں۔ جس طرح ایمان کے بغیر عمل کی کوئی بنیاد نہیں اسی طرح عمل کے بغیر ایمان ایک بےجان شئے ہے۔ (تدبر قرآن)

وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا ۭ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْـثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ ۭ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖٓ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ   11؀
وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ [اور اللہ نے پیدا کیا تم کو] مِّنْ تُرَابٍ [ایک مٹی سے] ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ [پھر ایک نطفہ سے] ثُمَّ جَعَلَكُمْ [پھر اس نے بنایا تم کو] اَزْوَاجًا ۭ [جوڑے جوڑے] وَمَا تَحْمِلُ [اور نہیں اٹھاتی (حمل)] مِنْ اُنْـثٰى [کوئی بھی مؤنث] وَلَا تَضَعُ [اور نہ وہ جنتی ہے] [اِلَّا بِعِلْمِهٖ ۭ : مگر اس کے علم سے] وَمَا يُعَمَّرُ [اور عمر نہیں دی جاتی] مِنْ مُّعَمَّرٍ [کسی بھی عمر دئیے ہوئے کو] وَّلَا يُنْقَصُ [اور نہ کمی کی جاتی ہے] مِنْ عُمُرِهٖٓ [اس کی عمر میں سے] اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ ۭ [سوائے اس کے کہ ایک کتاب میں (وہ لکھا) ہے] اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ [بیشک یہ اللہ پر] يَسِيْرٌ [آسان ہے]۔



نوٹ۔3: آیت 11 کا جو حصہ وما یعمر سے فی کتب تک ہے، اس کا مفہوم جمہور مفسرین کے نزیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو طویل عمر عطا فرماتے ہیں وہ پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح جس کی عمر کم رکھی جاتی ہے وہ بھی لوح محفوظ مین درج ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ کلام فرد واحد کے بجائے نوع انسانی کے متعلق ہے کہ اس کے کسی فرد کو طویل عمر دی جاتی ہے اور کسی کو اس سے کم۔

 امام نسائی نے اس آیت کی تفسیر میں حدیث نقل کی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت اور عمر میں زیادتی ہو اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے، بظاہر اس سے معلوم ہوتاہے کہ صلہ رحمی سے عمر بڑھ جاتی ہے، مگر اس کا مطلب ایک دوسری حدیث نے خود واضح کردیا ہے کہ حضرت ابو درداء رضی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم نے اس (مضمون) کا ذکر رسول اللہ
کے سامنے کیا تو آپ نے فرمایا کہ (عمر تو اللہ کے نزدیک ایک ہی مقرر ہے) جب مقررہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو کسی شخص کو ذرا بھی مہلت نہیں دی جاتی، بلکہ عمر کے زیادہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اولاد صالح عطا فرما دیتا ہے۔ وہ اس کے لئے دعاکرتی رہتی ہے۔ یہ شخص نہیں ہوتا اور ان لوگوں کی دعائیں اس کو قبر میں ملتی رہتی ہیں۔ یعنی مرنے کے بعد بھی ان کو وہ فائدہ پہنچتا رہتاہے جو خود زندہ رہنے سے حاصل ہوتاہے۔ اس طرح گویا اس کی عمر بڑھ گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جن احادیث میں بعض اعمال کے متعلق یہ آیا ہے کہ ان سے عمر بڑھ جاتی ہے اس سے مراد عمر کی برکت کا بڑھنا ہے۔ (معارف القرآن)

وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرٰنِ ڰ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَاۗىِٕــغٌ شَرَابُهٗ وَھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۭ وَمِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحـْـمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ   12؀
وَمَا يَسْتَوِي [اور برابر نہیں ہوتے] الْبَحْرٰنِ ڰ [دونوں سمندر] ھٰذَا [یہ] عَذْبٌ [میٹھا ہے] فُرَاتٌ [نہایت شیریں ہے] سَاۗىِٕــغٌ [خوشگوار ہے] شَرَابُهٗ [اس کا پینا] وَھٰذَا [اور یہ] مِلْحٌ [کھاری ہے] اُجَاجٌ ۭ [نہایت کڑوا ہے] وَمِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ [اور ہر ایک میں سے تم لوگ کھاتے ہو] لَحـْـمًا طَرِيًّا [کچھ تازہ گوشت] وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ [اور نکالتے ہو] حِلْيَةً [ایک ایسا زیور] تَلْبَسُوْنَهَا ۚ [تم لوگ پہنتے ہو جس کو] وَتَرَى الْفُلْكَ [اور تو دیکھتا ہے کشتیوں کو] فِيْهِ [اس میں] مَوَاخِرَ [پانی چیر نے والیاں ہوتے ہوئے] لِتَبْتَغُوْا [تاکہ تم لوگ تلاش کرو] مِنْ فَضْلِهٖ [اس کے فضل میں سے (روزی)] وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ [اور شاید کہ تم لوگ شکر کرو]

يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ڮ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ 13۝ۭ
[يُوْلِجُ الَّيْلَ: وہ گھساتا ہے رات کو] فِي النَّهَارِ [دن میں] وَيُوْلِجُ النَّهَارَ [اور وہ گھساتا ہے دن کو] فِي الَّيْلِ ۙ [رات میں] وَسَخَّرَ [اور اس نے مسخر کیا] الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ڮ [سورج کو اور چاند کو] كُلٌّ يَّجْرِيْ [ہر ایک رواں دواں ہے] لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ [خاتمے کے ایک مقررہ وقت کے لئے] ذٰلِكُمُ اللّٰهُ [یہ اللہ] رَبُّكُمْ [تم لوگوں کا رب ہے] لَهُ [اس کے لئے ہی ہے] الْمُلْكُ ۭ [کل بادشاہت] وَالَّذِيْنَ [اور وہ لوگ جن کو] تَدْعُوْنَ [تم لوگ پکارتے ہو] مِنْ دُوْنِهٖ [اس کے علاوہ] مَا يَمْلِكُوْنَ [وہ اختیار نہیں رکھتے] مِنْ قِطْمِيْرٍ [کھجور کی گٹھلی پر جھلی جتنا بھی]۔

اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ۭ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ 14۝ۧ
اِنْ تَدْعُوْهُمْ [اگر تم لوگ پکارو گے ان کو] لَا يَسْمَعُوْا [تو وہ نہیں سنیں گے] دُعَاۗءَكُمْ ۚ [تمہاری پکار کو] وَلَوْ سَمِعُوْا [اور اگر سنیں گے] مَا اسْتَجَابُوْا [تو جواب نہیں دیں گے] لَكُمْ ۭ [تمہارے لئے] وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ [اور قیامت کے دن] يَكْفُرُوْنَ [وہ لوگ انکار کریں گے] بِشِرْكِكُمْ ۭ [تمہارے شرک کا] وَلَا يُنَبِّئُكَ [اور خبر نہیں دے گا آپ
کو (کوئی)] مِثْلُ خَبِيْرٍ [خبر رکھنے والے کی طرح]۔



نوٹ۔1: آیت 14 کا مطلب یہ ہے کہ یہ بت یا بعض انبیاء یا فرشتے جن کو تم مصیبت کے وقت پکاروگے تو اولا یہ تمہاری بات سن ہی نہ سکیں گے، کیونکہ بتوں میں تو سننے کی صلاحیت ہے ہی نہیں، انبیاء اور فرشتوں میں اگرچہ صلاحیت ہے مگر نہ وہ ہر جگہ موجود ہین اور نہ ہر ایک کے کلام کو سنتے ہیں۔ آگے فرمایا کہ بالفرض وہ سن بھی لیں تو پھر بھی وہ تمھاری درخواست پوری نہ کریں گے کیونکہ ان کو خود قدرت نہیں اور اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتے۔ (معارف القرآن)

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ  15؀
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ [اے لوگو! تم لوگ ہی] الْفُقَرَاۗءُ [محتاج ہو] اِلَى اللّٰهِ ۚ [اللہ کے] وَاللّٰهُ [اور اللہ] هُوَ الْغَنِيُّ [وہی بےنیاز ہے] الْحَمِيْدُ [حمد کیا ہوا ہے]

اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ  16؀ۚ
اِنْ يَّشَاْ [اگر وہ چاہے]يُذْهِبْكُمْ [تو لے جائے تم لوگوں کو] وَيَاْتِ [اور وہ لے آئے] بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ [ایک نئی مخلوق کو]۔

وَمَا ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ بِعَزِيْزٍ  17؀
وَمَا ذٰلِكَ [اور نہیں ہے یہ] عَلَي اللّٰهِ [اللہ پر] بِعَزِيْزٍ [کچھ بھاری]

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۭ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى ۭ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۭ وَمَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ  18؀
وَلَا تَزِرُ [اور نہیں اٹھائے گی] وَازِرَةٌ [کوئی اٹھانے والی (جان)] وِّزْرَ اُخْرٰى ۭ [کسی دوسری (جان) کا بوجھ] وَاِنْ تَدْعُ [اور اگر پکارے گی] مُثْقَلَةٌ [کوئی بوجھل کی ہوئی (جان)] اِلٰى حِمْلِهَا [اپنے بوجھ کی طرف] لَا يُحْمَلْ [تو نہیں اٹھایا جائے گا] مِنْهُ [اس (بوجھ) میں سے] شَيْءٌ [کچھ بھی] وَّلَوْ كَانَ [اور اگرچہ وہ ہو] ذَا قُرْبٰى ۭ [قرابت والا] اِنَّمَا تُنْذِرُ [آپ
تو بس خبردار کرتے ہیں] الَّذِيْنَ [ان لوگوں کو جو] يَخْشَوْنَ [ڈرتے ہیں] رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ [اپنے رب سے بن دیکھے] وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۭ [اور قائم کرتے ہیں نماز کو] وَمَنْ تَزَكّٰى [اور جو اپنا تزکیہ کرتا ہے] فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى [تو وہ تو بس اپنا تزکیہ کرتا ہے] لِنَفْسِهٖ ۭ [اپنی جان (کے بھلے) کے لئے] وَاِلَى اللّٰهِ [اور اللہ کی طرف ہی] الْمَصِيْرُ : لوٹنا ہے]



نوٹ۔1: وَمَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖ میں اشارہ اقامتِ صلوٰۃ کے فائدے کی طرف ہے کہ کوئی مثقلۃ یعنی گناہوں سے بوجھل کی ہوئی جان اگر اپنے گناہوں کے بوجھ سے سبکدوش ہونا چاہتی ہے اور اپنا تزکیہ کرکے پاکیزہ ہونا چاہتی ہے تو وہ نماز کا اہتمام کرے۔ یہ چیز اس کو گناہوں سے پاک کرے گی۔ اور جس نے پاکیزگی حاصل کی وہ اپنا ہی بھلا کرے گا۔ اس لئے کہ اللہ کسی کی عبادت واطاعت کا محتاج نہیں ہے بلکہ بندے خود ہی اس کے محتاج ہیں (تدبر قرآن)

وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ  19؀ۙ
[وَمَا يَسْتَوِي: اور برابر نہیں ہوتے] [ الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ: اندھا اور بصارت والا]

وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ 20 ؀ۙ
[ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ : اور نہ اندھیرے اور نہ نور]

وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ  21؀ۚ
[ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ : اور نہ سایہ اور نہ تیز دھوپ]

وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ 22؀
وَمَا يَسْتَوِي [اور برابر نہیں ہوتے] الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ [زندہ لوگ اور نہ مردے] اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ [بیشک اللہ سناتا ہے] مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ [اس کو جس کو وہ چاہتا ہے] وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ [اور آپ
سنانے والے نہیں ہیں] مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ [ان کو جو قبروں میں ہیں]۔

اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِيْرٌ 23؀
اِنْ اَنْتَ [آپ
نہیں ہیں] اِلَّا نَذِيْرٌ [مگر ایک خبردار کرنے والے]۔



نوٹ۔2: یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے کہ دنیا مین کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبی مبعوث نہ فرمائے ہوں، مگر اس سلسلہ میں دو باتیں سمجھ لینی چاہئیں تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ اول یہ کہ ایک نبی کی تبلیغ جہاں جہاں تک پہنچ سکتی ہو وہاں کے لئے وہی نبی کافی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر ہر بستی اور ہر ہر قوم میں الگ الگ انبیاء بھیجے جائیں۔ دوم یہ کہ ایک نبی کی دعوت وہدایت کے آثار اور اس کی رہنمائی کے نقوشِ قدم جب تک محفوظ رہیں اس وقت تک کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)

اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا ۭ وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ 24 ؀
اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ [بیشک ہم نے بھیجا آپ
کو حق کے ساتھ] بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا ۭ[بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا] وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ [اور نہیں ہے کوئی بھی امت] اِلَّا خَلَا فِيْهَا [مگر (یہ کہ) گزرا اس میں] نَذِيْرٌ [کوئی خبردار کرنے والا]۔

وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتٰبِ الْمُنِيْرِ 25؀
وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ [اور اگر یہ لوگ جھٹلاتے ہیں آپ
کو] فَقَدْ كَذَّبَ [تو جھٹلا چکے ہیں] الَّذِيْنَ [وہ لوگ جو] مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ [ان سے پہلے تھے] جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ [آئے ان کے پاس ان کے رسول] بِالْبَيِّنٰتِ [واضح (نشانیوں) کے ساتھ] وَبِالزُّبُرِ [اور صحیفوں کے ساتھ] وَبِالْكِتٰبِ الْمُنِيْرِ [اور روشن کتاب کے ساتھ]۔

ثُمَّ اَخَذْتُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ 26؀ۧ
ثُمَّ اَخَذْتُ الَّذِيْنَ [پھر میں نے پکڑا ان کو جنہوں نے] كَفَرُوْا [انکار کیا] فَكَيْفَ كَانَ [تو کیسا تھا] نَكِيْرِ [میرا عدم عرفان]

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَا ۭوَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ  27؀
اَلَمْ تَرَ [کیا تم نے غور ہی نہیں کیا] اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ [کہ اللہ نے اتارا] مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ [آسمان سے کچھ پانی] فَاَخْرَجْنَا بِهٖ [تو ہم نے نکالے اس سے] ثَمَرٰتٍ [کچھ پھل] مُّخْتَلِفًا [مختلف ہوتے ہوئے] اَلْوَانُهَا ۭ[ان کے رنگ] وَمِنَ الْجِبَالِ [اور پہاڑوں میں سے] جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ [سرخ و سفید راستے ہیں] مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا [مختلف ہیں ان کے رنگ] وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ [اور کچھ بھجنگ کالے ہیں]

وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ 28؀
وَمِنَ النَّاسِ [اور لوگوں میں سے] وَالدَّوَاۗبِّ [اور جانداروں میں سے] وَالْاَنْعَامِ [اور مویشیوں میں سے] مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ [مختلف ہیں ان کے رنگ] كَذٰلِكَ ۭ [اسی طرح ہے] اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ [کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ڈرتے ہیں اللہ سے] مِنْ عِبَادِهِ [اس کے بندوں میں سے] الْعُلَمٰۗؤُا ۭ[علم والے] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] عَزِيْزٌ [بالادست ہے] غَفُوْرٌ [بے انتہا بخشنے والا ہے]۔



نوٹ۔1: آیت 28 میں علماء سے مراد کسی دینی ادارے یا یونیورسٹی کے سند یافتہ عالم دین نہیں ہیں۔ یہاں پر یہ لفظ ہر اس شخص کے لئے آیا ہے جو محض ظاہر پرست نہیں ہوتا بلکہ ظاہر سے باطن اور مجاز سے حقیقت تک پہنچنے کی انسانی صلاحیت کو اتعمال کرتاہے۔ اور اس دنیا کے نظام پر غور وفکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلیتاہے۔ اس نے گویا علم کی جڑ پکڑلی۔ یہ علم انسان میں اللہ کی خشیت پیدا کرتاہے۔ یہی معرفت اور خشیت انسان کے تمام علوم وافکار مین حقیقی زندگی پیدا کرتی ہے، جن سے علوم وفنون دنیا کے لئے موجب خیرو برکت بنتے ہیں۔ اگر یہ چیز نہ ہو تو انسان کی ساری ذہانت شیطان کی مقصد براری میں صرف ہوتی ہے۔ (تدبر قرآن سے ماخوذ)

اِنَّ الَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً يَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَـبُوْرَ  29؀ۙ
اِنَّ الَّذِيْنَ [بیشک جو لوگ] يَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ [تلاوٹ کرتے ہیں اللہ کی کتاب کی] وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ [اور قائم کرتے ہیں نماز] وَاَنْفَقُوْا [اور خرچ کرتے ہیں] مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ [اس میں سے جو ہم نے عطا کیا ان کو] سِرًّا وَّعَلَانِيَةً [چھپاتے ہوئے اور علانیہ] يَّرْجُوْنَ [وہ لوگ امید کرتے ہیں] تِجَارَةً [ایک ایسی تجارت کو جو] لَّنْ تَـبُوْرَ [ہرگز برباد نہیں ہوگی]۔

لِيُوَفِّيَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَيَزِيْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ ۭ اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ 30؀
لِيُوَفِّيَهُمْ [نتیجتاً وہ پورا پورا دے گا ان کو] اُجُوْرَهُمْ [ان کے اجر] وَيَزِيْدَهُمْ [اور زیادہ دوں گا ان کو] مِّنْ فَضْلِهٖ ۭ [اپنے فضل سے] اِنَّهٗ غَفُوْرٌ [یقینا وہ بےانتہاء بخشنے والا ہے] شَكُوْرٌ [انتہائی قدردان ہے]۔

وَالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ هُوَ الْحَــقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِعِبَادِهٖ لَخَبِيْرٌۢ بَصِيْرٌ   31؀
وَالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ [اور وہ جو ہم نے وحی کیا آپ
کی طرف] مِنَ الْكِتٰبِ [کتاب میں سے] [هُوَ الْحَــقُّ : وہ حق ہے] مُصَدِّقًا [تصدیق کرنے والی ہوتے ہوئے] لِّمَا [اس کی جو] بَيْنَ يَدَيْهِ ۭ [اس سے پہلے ہے] اِنَّ اللّٰهَ بِعِبَادِهٖ [بیشک اللہ اپنے بندوں سے] لَخَبِيْرٌۢ [یقینا باخبر ہے] بَصِيْرٌ [دیکھنے والا ہے]۔

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَــيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْــفَضْلُ الْكَبِيْرُ  32؀ۭ
ثُمَّ اَوْرَثْنَا [پھر ہم نے وارث بنایا] الْكِتٰبَ [کتاب کا] الَّذِيْنَ [ان لوگوں کو جنہیں] اصْطَفَيْنَا [ہم نے چن کیا] مِنْ عِبَادِنَا ۚ [اپنے بندوں میں سے] فَمِنْهُمْ [تو ان میں سے] ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ [کوئی ظلم کرنے والا ہے اپنی جان پر] وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ [اور ان میں سے کوئی میانہ رو ہے] وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ [اور ان میں سے کوئی سبقت کرنے والا ہے] بِالْخَــيْرٰتِ [بھلائی پر] بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ [اللہ کی اجازت سے] ذٰلِكَ هُوَ الْــفَضْلُ الْكَبِيْرُ [یہ ہی بڑا فضل ہے]۔



نوٹ۔1: کتاب کا وارث بنائے جانے والوں سے مراد مسلمان ہیں۔ اگرچہ یہ کتاب پیش تو کی گئی ہے سارنے انسانوں کے سامنے مگر جنھوں نے آگے بڑھ کر اسے قبول کرلیا وہی اس شرف کے لئے منتخب کرلیے گے کہ قرآن کے وارث بنیں۔ یہ مسلمان سب ایک ہی طرح کے نہیں ہیں بلکہ تین طبقوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ اولا اپنے نفس پر ظلم کرنے والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآکو اللہ کی کتاب اور محمد
کو اللہ کا رسول تو مانتے ہیں مگر کتاب اور سنت رسول کی پیروی کا حق ادا نہیں کرت۔ مومن ہیں مگر گناہ گار اور مجرم ہیں مگر باغی نہیں ہیں۔ اسی لئے ان کا ظالم لنفسہٖ ہونے کے باوجود وارثین کتاب میں داخل اور خدا کے چنے ہوئے بندوں میں شامل کیا گیا ہے۔ ثانیا میانہ رہ لوگ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وراثت کا حق کم وبیش ادا تو کرتے ہیں مگر پوری طرح نہیں کرتے۔ ان کی زندگی اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ثالثا نیکیوں میں سبقت کرنے والے۔ یہ لوگ اس وراثت کا حق ادا کرتے ہیں۔ یہ لوگ اتباع کتاب وسنت میں اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں اور بھلائی کے ہر کام میں پیش پیش ہوتے ہیں۔

 مفسرین کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ امت کے یہ تینوں گروہ بالآخر جنت میں داخل ہوں گے خواہ محاسبہ کے بغیر یا محاسبہ کے بعد یا کوئی سزاپانے کے بعد۔ اس کی تائید نبی
کی ایک حدیث سے ہوتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے گئے وہ جنت کسی حساب کے بغیر داخل ہوں گے اور جو میانہ رہ ہیں ان کا محاسبہ ہوگا مگر ہلکا محاسبہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا وہ محشر کے پورے عرصہ میں روکے رکھے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت میں لے لے اور یہی لوگ ہیں جو کہین گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کردیا۔ اس حدیث میں رسول اللہ نے اس آیت کی تفسیر خود بیان فرمادی ہے۔ محشر کے پورے عرصہ میں روکے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے بلکہ ان کو ’’ تابرخاستِ عدالت‘‘ کی سزا دی جائے گی اور روز محشر کی پوری طویل مدت ان پر اپنی ساری سختیوں کے ساتھ گزر جائے گی۔۔ تفہیم القرآن)

 اس سلسلہ میں میرا ذہن جس بات کی طرف منتقل ہوتاہے وہ جمہور مفسرین کی رائے سے مختلف ہے۔ لیکن مری رائے ایک ایسے فرد واحد کی رائے ہے جس کی مفسرین کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لئے پہلے ان کی رائے نقل کردی ہے تاکہ امانت ادا ہوجائے، ویسے میری رائے یہ بنتی ہے کہ اس امت میں سے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن وحدیث کا علم ھاصل کرنے کی توفیق عطا کردی ان کو گویا اس نے کتاب کا وارث بنانے کے لئے چن لیا۔ پھر اس علم کے عالم لوگ تین طبقات میں تقسیم ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی زندگی میں اعمال صالحہ اور اتباع سنت کی تو کمی نہیں ہوتی لیکن ان لوگوں کو علم ہیضہ ہوجاتاہے اور وہ مناظرہ، بحث ومباحثہ وغیرہ میں اُلجھ کر اپنے علم کو اپنی اَنا کی تسکین کا ذریعہ بنالیتے ہیں اور ان کا علم نافع نہیں رہتا۔ یہ لوگ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے طبقہ میں آتے ہیں۔ ان کے اعمال صالحہ اور اتباع سنت ان کو دوزخ میں جانے سے روک دیں گے اور علم کو نفع بخش نہ بنانے کی غلطی کی سزا کے طور پر تابرخاست عدالت ان کو عرصہء محشر میں روک لیا جائے گا۔ کچھ لوگ اپنے نفس کو قابو میں رکھتے اور اپنے علم کو مونچھ کا بال نہیں بناتے لیکن کبھی ان کا نفس ان پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اپنے علم کو لوگوں کے لئے نفع بخش بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں ٹھوکریں بھی کھاتے ہیں، سنبھلتے بھی ہیں۔ یہ مقتصد لوگ ہیں، جن کا محاسبہ ہوگا مگر ہلکا سا۔ اور الحمد للہ اس امت میں ایسے علماء کرام پہلے بھی بہت تھے اور آج بھی ہیں۔ جن کو زندگی میں اعمال صالحہ اور اتباع سنت کا بھی اہتمام ہوتاہے اور وہ پورے خلوص سے اپنے علم کو لوگوں کے لئے نفع بخش بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کام کے لئے اپنی زندگی وقت کردیتے ہیں۔ یہ لوگ سابق بالخیرات ہیں اور جنت مین کسی حساب کے بغیر داخل ہوں گے۔

جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَهَا يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُــؤْلُــؤًا ۚ وَلِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ 33؀
جَنّٰتُ عَدْنٍ [(ان کے لئے) عدن کے باغات ہیں] يَّدْخُلُوْنَهَا [وہ لوگ داخل ہوں گے ان میں] [يُحَلَّوْنَ فِيْهَا : ان کو آراستہ کیا جائے گا] [مِنْ اَسَاوِرَ [کچھ ایسے کنگنوں سے جو] مِنْ ذَهَبٍ [سونے کے ہوں گے] وَّلُــؤْلُــؤًا ۚ [اور موتی سے] وَلِبَاسُهُمْ فِيْهَا [اور ان کا لباس ان میں] حَرِيْرٌ [باریک ریشم ہے]۔

وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۭ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۨ 34؀ۙ
وَقَالُوا [اور کہیں گے] الْحـَمْدُ [تمام شکرو سپاس] لِلّٰهِ الَّذِيْٓ [اس اللہ کے لئے ہے جو ] اَذْهَبَ عَنَّا [لے گیا ہم سے] الْحَزَنَ ۭ [سارے غم] اِنَّ رَبَّنَا [بیشک ہمارا رب] لَغَفُوْرٌ [یقینا بےانتہا بخشنے والا ہے] شَكُوْرُۨ [انتہائی قدر دان ہے]۔

الَّذِيْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ لَا يَمَسُّنَا فِيْهَا نَصَبٌ وَّلَا يَمَسُّنَا فِيْهَا لُغُوْبٌ 35؀
الَّذِيْٓ اَحَلَّنَا [جس نے اتارا ہم کو] دَارَ الْمُقَامَةِ [ٹھہرائے جانے کے گھر میں] مِنْ فَضْلِهٖ ۚ [اپنے فضل سے] لَا يَمَسُّنَا فِيْهَا [نہیں چھوئے گی ہم کو اس میں] نَصَبٌ [کوئی مشقت] وَّلَا يَمَسُّنَا فِيْهَا [اور نہیں چھوئے گی ہم کو اس میں] لُغُوْبٌ (35) [کوئی تھکان]۔



ل غ ب

(ف۔ ک) لغوبا بہت تھکنا۔

 لغوب اسم ذات بھی ہے۔ تھکاوٹ۔ درماندگی۔ زیر مطالعہ آیت۔ 35۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ ۚ لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36؀ۚ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا [اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا] لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ ۚ [ان کے لئے جہنم کی آگ ہے] لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ [کام تمام نہیں کیا جائے گا ان کا] فَيَمُوْتُوْا [کہ وہ مر ہی جائیں] وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ [اور تخفیف نہیں کی جائے گی ان سے] مِّنْ عَذَابِهَا ۭ [اس (آگ) کے عذاب میں سے] كَذٰلِكَ نَجْزِيْ [اس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں] كُلَّ كَفُوْرٍ [ہر ایک ناشکرے کو]۔

وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ ۭ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاۗءَكُمُ النَّذِيْرُ ۭ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ 37؀ۧ
وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا ۚ [اور وہ لوگ چلائیں گے اس میں ] رَبَّنَآ [اے ہمارے رب] اَخْرِجْنَا [تو نکال ہم کو] نَعْمَلْ صَالِحًا [تو ہم عمل کریں گے نیک] غَيْرَ الَّذِيْ [اس کے علاوہ وہ جو] كُنَّا نَعْمَلُ ۭ [ہم عمل کیا کرتے تھے] اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [اور کیا ہم نے عمر نہیں دی تم لوگوں کو] مَّا [اتنا عرصہ] يَتَذَكَّرُ فِيْهِ [یاد دہانی حاصل کرتا جس میں] مَنْ [وہ جو] تَذَكَّرَ [یاد دہانی حاصل کرنا چاہے] وَجَاۗءَكُمُ [اور آیا تمہارے پاس] النَّذِيْرُ ۭ [خبردار کرنے والا] فَذُوْقُوْا [تو (اب) چکھو] فَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ [پس نہیں ہے ظالموں کے لئے] مِنْ نَّصِيْرٍ [کوئی بھی مددگار]



نوٹ۔1: آیت 37 میں جس مہلت ِ عمر کی بات ہے اس سے مراد عمر بلوغ اور اس سے آگے کی عمر ہے۔ جس شخص کو عمر بلوغ ملی اس کو قدرت نے اتنا سامان دے دیا کہ حق وباطل میں تمیز کرسکے۔ جس نے نہیں کیا وہ عذاب کا مستحق ہے۔ جس کو جتنی زیادہ عمر ملی اس پر اللہ تعالیٰ کی اتنی زیادہ حجت پوری ہوئی اور وہ اتنا ہی زیادہ مستحق عذاب ہوا۔ آگے فرمایا وجاء کم النذیر۔ اس میں اشارہ ہے کہ اپنے خالق ومالک کو پہچاننے اور ماننے کے لئے خود انسانی عقل کافی تھی مگر اللہ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اس عقل کی امداد کے لئے نذیر بھی بھیجے۔ معروف معنی کے اعتبار سے اس سے مراد انبیاء علیہم السلام اور ان کے نائب علماء ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کو بالغ ہونے کے بعد سے جتنے حالات پیش آتے ہیں، اس کے اپنے وجود اور گردو پیش میں جو تغیرات اور انقلاب آتے ہیں وہ سب ہی اللہ تعالیٰ کی طرف نذیر اور انسان کو متنبہ کرنے والے ہیں۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)

اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَيْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اِنَّهٗ عَلِـيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ 38؀
اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] عٰلِمُ غَيْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [زمین اور آسمانوں کے غیب کا جاننے والا ہے] اِنَّهٗ عَلِـيْمٌۢ [بیشک وہ جاننے والا ہے] بِذَاتِ الصُّدُوْرِ [سینوں والی (بات) کو]۔

هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ ۭ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهٗ ۭ وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ اِلَّا مَقْتًا ۚ وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُهُمْ اِلَّا خَسَارًا  39؀
هُوَ الَّذِيْ [وہ، وہ ہے جس نے] جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ [بنایا تم کو خلیفہ] فِي الْاَرْضِ ۭ [زمین میں] فَمَنْ كَفَرَ [تو جس نے کفر کیا] فَعَلَيْهِ كُفْرُهٗ ۭ [تو اس پر ہے اس کا کفر] وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ [اور زیادہ نہیں کرتا کافروں کو] كُفْرُهُمْ [ان کا کفر] عِنْدَ رَبِّهِمْ [ان کے رب کے پاس] اِلَّا مَقْتًا ۚ [سوائے بیزاری کے] وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ [اور زیادہ نہیں کرتا کافروں کو] كُفْرُهُمْ [ان کا کفر] اِلَّا خَسَارًا [سوائے خسارے کے]

قُلْ اَرَءَيْتُمْ شُرَكَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ اَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِ ۚ اَمْ اٰتَيْنٰهُمْ كِتٰبًا فَهُمْ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْهُ ۚ بَلْ اِنْ يَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا  40؀
قُلْ اَرَءَيْتُمْ [آپ
کہیے کیا تم لوگوں نے غور کیا] شُرَكَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ [اپنے ان شریکوں پر جن کو] تَدْعُوْنَ [تم لوگ پکارتے ہو] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ [اللہ کے علاوہ] اَرُوْنِيْ [تم لوگ دکھاؤ مجھ کو] مَاذَا خَلَقُوْا [کیا انھوں نے تخلیق کیا] مِنَ الْاَرْضِ [زمین میں سے] اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ [یا ان کے لئے کوئی شراکت ہے] فِي السَّمٰوٰتِ ۚ [آسمانوں میں] اَمْ اٰتَيْنٰهُمْ كِتٰبًا [یا ہم نے دی ان کو کوئی کتاب] فَهُمْ عَلٰي بَيِّنَةٍ [تو وہ کسی دلیل پر ہیں] مِّنْهُ ۚ [اس (کتاب) میں سے] بَلْ اِنْ يَّعِدُ [بلکہ وعدہ نہیں کرتے] الظّٰلِمُوْنَ [ظالم لوگ] بَعْضُهُمْ بَعْضًا [ان کا کوئی کسی سے] اِلَّا غُرُوْرًا [سوائے فریبوں کے]۔

اِنَّ اللّٰهَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا ڬ وَلَىِٕنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَكَـهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖ ۭاِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا  41؀
اِنَّ اللّٰهَ يُمْسِكُ [بیشک اللہ تھامتا ہے] السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ [آسمانوں کو اور زمین کو] اَنْ تَزُوْلَا ڬ [کہ (کہیں) وہ دونوں کھسک جائیں] وَلَىِٕنْ [اور یقینا اگر] زَالَتَآ [وہ دونوں کھسک گئے] اِنْ اَمْسَكَـهُمَا [تو نہیں تھام سکے گا دونوں کو] مِنْ اَحَدٍ [کوئی ایک بھی] مِّنْۢ بَعْدِهٖ ۭ [اس (اللہ) کے بعد] اِنَّهٗ كَانَ [یقینا وہ ہے] حَلِــيْمًا غَفُوْرًا [بردبار بےانتہاء بخشنے والا ہے]۔

وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَهُمْ نَذِيْرٌ لَّيَكُوْنُنَّ اَهْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ ۚ فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ نَذِيْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرَۨا 42؀ۙ
وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ [اور انھوں نے قسم کھائی اللہ کی] جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ [اپنی قسموں کا زور لگاتے ہوئے] لَىِٕنْ جَاۗءَهُمْ [یقینا اگر آیا ان کے پاس] نَذِيْرٌ [کوئی خبردار کرنے والا] لَّيَكُوْنُنَّ [تو وہ لوگ لازما ہوں گے] اَهْدٰى [زیادہ ہدایت والے] مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ ۚ [امتوں کی کسی ایک سے (بھی)] فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ [پھر جب آیا ان کے پاس] نَذِيْرٌ [ایک خبردار کرنے والا] مَّا زَادَهُمْ [تو زیادہ نہیں کیا ان کو] اِلَّا نُفُوْرَۨا [مگر بیزاریوں میں]۔

اسْـتِكْبَارًا فِي الْاَرْضِ وَمَكْرَ السَّــﮧ ۭ وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ ۭۭ فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِيْنَ ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا ڬ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِيْلًا 43؀
اسْـتِكْبَارًا [بڑا بننے کے لئے] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] وَمَكْرَ السَّــﮧ ۭ [اور برائی کی تدبیر کے لئے] وَلَا يَحِيْقُ [اور گھیرے میں نہیں لیتی] الْمَكْرُ السَّيِّئُ [بری تدبیر (کسی کو)] اِلَّا بِاَهْلِهٖ ۭ [سوائے اپنے لوگوں کے] فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ [تو یہ لوگ (اب) کیا انتظار کرتے ہیں] اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِيْنَ ۚ [سوائے اگلوں کے دستور کے] فَلَنْ تَجِدَ [تو آپ
ہرگز نہیں پائیں گے] لِسُنَّتِ اللّٰهِ [اللہ کی سنت میں] تَبْدِيْلًا ڬ [کچھ تبدیل کرنا] وَلَنْ تَجِدَ [اور آپ ہرگز نہیں پائیں گے] لِسُنَّتِ اللّٰهِ [اللہ کی سنت میں] تَحْوِيْلًا [کوئی تغیر لانا]۔



نوٹ۔1: وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ بری تدبیر کا وبال اور کسی پر نہیں پڑتا بلکہ خود ایسی تدبیر کرنے والے ہی پر پڑتاہے۔ یعنی جو شخص دوسروں کا برا چاہتاہے وہ خود برائی کا شکار ہوجاتاہے۔ (معارف القرآن)۔ دوسروں کو زک پہنچانے کی کوشش کرنے والا کبھی کامیاب ہوجاتا ہے اور کبھی ناکام رہتاہے۔ دونوں صورتوں وہ مجرم ہے۔ آخرت میں اس کا یہ جرم حقوق العباد کے زمرے میں آئے گا اور اس کے وبال سے وہ نہیں بچ سکے گا، الا یہ کہ مرنے سے پہلے اس نے اپنے قصور معاف کرالئے ہوں۔ اسی طرح سے دنیا میں بھی دونوں صورتوں میں بری تدبیر کرنے کے برے اثرات تدبیر کرنے والے کی شخصیت پر بھی اور اس کی زندگی کے حالات اور معاملات پر بھی لازما مرتب ہوتے ہیں۔ البتہ ان کا نتیجہ ظاہر ہونے میں کچھ وقفہ حائل ہوتاہے۔ اس کی وجہ سے انسانی ذہن عموما سبب اور اس کی نتیجہ کے درمیان ربط قائم کرنے میں ناکام رہتاہے۔ ورنہ یہ قاعدہ کلیہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ بری تدبیر ایسی تدبیر کرنے والے کو ہی گھیرے میں لیتی ہے۔ کسی کا محدود مدت پر محیط کوئی جزوی مشاہدہ اس قاعدہ کلیہ کی تردید یا اس میں استثناء کی دلیل نہیں بن سکتا۔

اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعْجِزَهٗ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ ۭ اِنَّهٗ كَانَ عَلِــيْمًا قَدِيْرًا 44؀
اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا [اور کیا انھوں نے سیر نہیں کی] فِي الْاَرْضِ [زمین میں] فَيَنْظُرُوْا [نتیجتاً وہ دیکھتے] كَيْفَ كَانَ [کیسا تھا] عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ [ان لوگوں کا انجام جو] مِنْ قَبْلِهِمْ [ان سے پہلے تھے] وَكَانُوْٓا [حالانکہ وہ لوگ تھے] اَشَدَّ مِنْهُمْ [ان سے زیادہ شدید] قُوَّةً ۭ [بلحاظ قوت کے] وَمَا كَانَ اللّٰهُ [اور نہیں ہے اللہ] لِيُعْجِزَهٗ [کہ عاجز کرسکے اس کو] مِنْ شَيْءٍ [کوئی بھی چیز] فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ ۭ [آسمانوں میں اور نہ ہی زمین میں] اِنَّهٗ كَانَ [بیشک وہ ہے] عَلِــيْمًا قَدِيْرًا [جاننے والا قدرت والا]۔

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيْرًا 45؀ۧ
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ [اور اگر مؤاخذہ کرتا اللہ] النَّاسَ [لوگوں کا] بِمَا كَسَبُوْا [بسبب اس کے جو انھوں نے کمایا] مَا تَرَكَ [تو وہ نہ چھوڑتا] عَلٰي ظَهْرِهَا [اس کی پیٹھ پر] مِنْ دَاۗبَّةٍ [کوئی بھی جاندار] وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ [اور لیکن وہ مؤخر کرتا ہے ان کو] اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ [ایک مقررہ خاتمے کے وقت تک] فَاِذَا جَاۗءَ [پھر جب آتا ہے] اَجَلُهُمْ [ان کے خاتمے کا وقت] فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ [تو بیشک اللہ ہے] بِعِبَادِهٖ [اپنے بندوں کو] بَصِيْرًا [دیکھنے سمجھنے والا ہے]۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    ۝

يٰسۗ  Ǻ۝ۚ
يٰسۗ



نوٹ۔1: رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ سورہ یٰسن قرآن کا دل ہے۔ امام غزالی نے فرمایا کہ سورہ یٰسن کو قرآن کا دل فرمانے کی یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ اس سورہ میں قیامت اور حشر ونشر کے مضامین خاص تفصیل اور بلاغت کے ساتھ آئے ہیں اور اصول ایمان میں سے عقیدئہ آخرت وہ چیز ہے جس پر انسان کے اعمال کی صحت موقوف ہے۔ خوف آخرت ہی انسان کو عمل صالح کے لئے مستعد کرتاہے اور وہی اس کو ناجائز خواہشات اور حرام سے روکتاہے۔ جس طرح بدن کی صحت قلب کی صحت پر موقوف ہے اسی طرح ایمان کی صحت آخرت پر موقوف ہے۔ (معارف القرآن)

وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ Ą۝ۙ
وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ [اس حکمت والے قرآن کی قسم ہے ]۔

اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ  Ǽ۝ۙ
اِنَّكَ [بیشک آپ
] لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ [یقینا بھیجے ہو ئوں میں سے ہیں]

عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ  Ć۝ۭ
عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ [ایک سیدھ راستے پر]۔

تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمĈ ۝ۙ
تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْم [اس رحیم بلا دست کا نازل کرنا ہوتے ہوئے]

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ  Č۝
لِتُنْذِرَ قَوْمًا [تا کہ آپ
خبردار کریں ایک ایسی قوم کو] مَّآ اُنْذِرَ [خبردار نہیں کیا گیا] اٰبَاۗؤُهُمْ [جن کے آباواجداد کو] فَهُمْ غٰفِلُوْنَ [تو وہ لوگ غافل ہیں ]

لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓي اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ  Ċ۝
لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ [بیشک ثا بت ہو چکی وہ بات] عَلٰٓي اَكْثَرِهِمْ [ان کے اکثرپر] فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ [ تو وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے] ۔

اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ  Ď۝
اِنَّا جَعَلْنَا [بیشک ہم نے بنائے] فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ [ان کی گر دنوں میں] اَغْلٰلًا [کچھ طوق] فَهِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ [پھر وہ (طوق) ٹھوڑ یوں تک ہیں] فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ [تو وہ لوگ گردن جکڑ ادئے ہوئے ہیں]۔



ق م ح

(ن) قموحا اونٹ کا سیراب ہوکر پینے سے رک جانا اور حوض سے سر اونچا کرنا۔

(افعال) اقماحا اونٹ کا سر اونچا کرکے پیچھے سے باندھ دینا۔ گردن اکڑا دینا۔

 مقمح اسم المفعول ہے۔ سر باندھا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 8۔

وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَيْنٰهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ   ۝
وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ [اور ہم نے بنائی ان کے سامنے سے] سَدًّا [ایک آڑ] وَّمِنْ خَلْفِهِمْ [اور ان کے پیچھے سے] سَدًّا [ایک آڑ] فَاَغْشَيْنٰهُمْ [پھر ہم نے ڈھانپ دیا ان کو ] فَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ [تو وہ لوگ بصیرت نہیں رکھتے]

وَسَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ   10؀
وَسَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ [اور برابر ہے ان پر] ءَ [خوا] اَنْذَرْتَهُمْ [آپ
خبر دارنہ کریں ان کو] اَمْ [یا] لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ آپ خبردارنہ کریں ان کو ] لَا يُؤْمِنُوْنَ [وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے]۔

اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّـبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ ۚ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّاَجْرٍ كَرِيْمٍ   11؀
اِنَّمَا تُنْذِرُ [آپ
تو خبر دار کرتے ہیں] مَنِ [اس کو جس نے ] اتَّـبَعَ [پیروی کی] الذِّكْرَ [اس یاد دہانی (قرآن) کی] وَخَشِيَ الرَّحْمٰنَ [اور جو ڈرا رحمان سے] بِالْغَيْبِ ۚ [بن دیکھے] فَبَشِّرْهُ [تو آپ بشا رت دیں اس کو] بِمَغْفِرَةٍ [مغفرت کی] وَّاَجْرٍ كَرِيْمٍ [اور باعزت اجر کی ]

اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ڳ وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ  12۝ۧ
اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ [بیشک ہم ہی زندہ کرتے ہیں] الْمَوْتٰى [مردوں کو] وَنَكْتُبُ [اور ہم لکھتے ہیں] مَا قَدَّمُوْا [جو انھوں نے آگے بھیجا] وَاٰثَارَهُمْ ڳ [اور ان کے نقوش قدم کو] وَكُلَّ شَيْءٍ [اور ہر چیز!] اَحْصَيْنٰهُ [ہم نے مکمل شمار کیا اس کو] فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ [ایک واضح ریکارڈ میں]۔



نوٹ۔2: آیت۔ 12۔ سے معلوم ہوا کہ انسان کا نامہء اعمال تین قسم کے اندراجات پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی اچھا یا برا عمل کرتاہے وہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں لکھ لیا جاتاہے۔ دوسرے اپنے گردو پیش کی اشیاء اور خود اپنے جسم کے اعضاء پر جو نقوش انسان مرتسم کرتاہے وہ سب کے سب ثبت ہوجاتے ہیں اور یہ سارے نقوش ایک وقت اس طرح ابھر آئیں گے کہ اس کی اپنی آواز سنی جائے گی، اس کے اپنے خیالات، نیتوں اور ارادوں کی پوری داستان اس لوح ذہن پر لکھی نظر آئے گی اور اس کی تمام حرکات وسکنات کی تصویریں سامنے آجائیں گی۔ تیسرے اپنے مرنے کے بعد اپنی آئندہ نسل پر، اپنے معاشرے پر اور پوری انسانیت پر اپنے اچھے اور برے اعمال کے جو اثرات وہ چھوڑ گیا ہے، وہ جس وقت تک اور جہاں جہاں تک کارفرما رہیں گے وہ سب اس کے حساب میں لکھے جاتے رہیں گے۔ (تفہیم القرآن)

 اس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ
نے فرمایا جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا بھی ثواب ملے گا اور جتنے آدمی اس طریقہ پر عمل کریں گے اس کا بھی ثواب اس کو ملے گا بغیر اس کے کہ ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی ہو۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا بھی گناہ ہوگا اور جتنے آدمی اس برے طریقے پر عمل کرتے رہیں گے ان کا گناہ بھی اس کو ہوتارہے گا، بغیر اس کے کہ عمل کرنے والے کے گناہوں میں کوئی کمی ہو۔ (معارف القرآن)

قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۙ وَمَآ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَيْءٍ ۙ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ   15؀
قَالُوْا [ان لو گوں نے کہا] مَآ اَنْتُمْ [تم لوگ نہیں ہو] اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۙ [مگر بشر ہمارے جیسے] وَمَآ اَنْزَلَ [اور نہیں اتاری] الرَّحْمٰنُ [رحمان نے] مِنْ شَيْءٍ ۙ [کوئی بھی چیز] اِنْ اَنْتُمْ [تم لوگ نہیں ہو] اِلَّا تَكْذِبُوْنَ [سوائے اس کے کہ تم لوگ جھوٹ کہتے ہو]

قَالُوْا رَبُّنَا يَعْلَمُ اِنَّآ اِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُوْنَ   16؀
قَالُوْا [انھوں نے کہا] رَبُّنَا يَعْلَمُ [ہمارا رب جانتا ہے] اِنَّآ اِلَيْكُمْ [کہ ہم تمہاری طرف] لَمُرْسَلُوْنَ [یقینا بھیجے ہوئے ہیں]

وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ  17؀
وَمَا عَلَيْنَآ [اور ہم پر (کوئی ذمہ داری) نہیں ہے] اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ [سوائے واضح طور پر پہنچا دینے کے]۔

قَالُوْٓا اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّـنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــيْمٌ   18؀
قَالُوْٓا [ان لوگوں نے کہا] اِنَّا تَــطَيَّرْنَا [کہ ہم منحوس سمجھتے ہیں] بِكُمْ ۚ [تم لوگوں کو] لَىِٕنْ [بیشک اگر] لَّمْ تَنْتَهُوْا [تم باز نہ آئے] لَنَرْجُمَنَّكُمْ [تو ہم لازما سنگسار کریں گے گے تم سب کو] وَلَيَمَسَّـنَّكُمْ [اور لازما چھوئے گا تم کو] مِّنَّا [ہم سے] عَذَابٌ اَلِــيْمٌ [ایک دردناک عذاب]۔

قَالُوْا طَاۗىِٕرُكُمْ مَّعَكُمْ ۭ اَىِٕنْ ذُكِّرْتُمْ ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ   19؀
قَالُوْا [انھوں نے کہا] طَاۗىِٕرُكُمْ [تمہاری نحوست] مَّعَكُمْ ۭ [تمہارے ساتھ ہے] اَىِٕنْ ذُكِّرْتُمْ ۭ [کیا اگر یاد دہانی کرائی جائے تم کو (تب بھی)] بَلْ اَنْتُمْ [بلکہ تم لوگ] قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ [حد سے تجاوز کرنے والی قوم ہو]۔

وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ يَّسْعٰى قَالَ يٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِيْنَ  20؀ۙ
وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ [اور آیا شیر کے زیادہ دور سے] رَجُلٌ يَّسْعٰى [ایک شخص دوڑتا ہوا] قَالَ يٰقَوْمِ [اس نے کہا اے میری قوم] اتَّبِعُوا [تم لوگ پیروی کرو] الْمُرْسَلِيْنَ [بھیجے ہوؤں کی]۔

اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا يَسْـَٔــلُكُمْ اَجْرًا وَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ   21؀
اتَّبِعُوْا مَنْ [پیروی کرو ان کی جو]لَّا يَسْـَٔــلُكُمْ [نہیں مانگتے تم سے] اَجْرًا [کوئی اجرت] وَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ [اور وہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں]

وَمَالِيَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ   22؀
وَمَالِيَ [اور مجھے کیا ہے کہ] لَآ اَعْبُدُ [میں بندگی نہ کروں] الَّذِيْ [اس کی جس نے] فَطَرَنِيْ [وجود بخشا مجھ کو] وَاِلَيْهِ [اور اس کی طرف ہی] تُرْجَعُوْنَ [تم سب لوٹائے جاؤ گے]۔



ترکیب: (آیت۔22) مالی در اصل مالیْ ہے۔ اس کو اگر مالیْ ہی پڑھیں تو اس پر وقف آجاتاہے اور یہ اگلی عبارت لااعبد سے منفصل ہوجاتاہے۔ ایسی صورت میں معنی ہوجاتے ہیں ’’ مجھے کیا ہے! میں عبادت نہیں کرتا یا نہیں کروں گا۔‘‘ لیکن اس کو اگر لا اعبد سے متصل مانیں تو پھر اسے وقف کے بغیر پڑھنا ہوگا اور ایسی صور میں معنی ہوں گے ’’ مجھے کیا ہے کہ میں عبادت نہ کروں۔‘‘ یہ ظاہر کرنے کے لئے یہاں اس کو وقف کے بغیر پڑھنا ہے اسے مالیَ پڑھتے ہیں۔ آیت 23 فعل مضارع یرید حرف شرط انْ کی وجہ سے مجزوم ہوکر یردْ آیا ہے۔ اس کے آگے نون وقایہ ہے یعنی نِ در اصل ضمیر مفعولی نِیْ ہے جس کی ی گری ہوئی ہے۔ جبکہ لاتغنِ میں نون وقایہ نہیں ہے بلکہ یہ مادے کی نون ہے۔ یہ در اصل فعل مضارع لاتغنی ہے۔ جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے تو ی گر گئی ہے۔ لیکن لا ینقدون میں بھی نون وقایہ ہے ۔ یہ در اصل لا ینقدون ہے۔ جواب شرط ہونے کی وجہ سے مضارع کا نون اعرابی گرا ہوا ہے اور ضمیر مفعولی کی ی گری ہوئی ہے۔

ءَاَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِــهَةً اِنْ يُّرِدْنِ الرَّحْمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَـنِّىْ شَفَاعَتُهُمْ شَـيْـــًٔا وَّلَا يُنْقِذُوْنِ  23؀ۚ
ءَاَتَّخِذُ [کیا میں بناؤں] مِنْ دُوْنِهٖٓ [اس کے سوا] اٰلِــهَةً [کچھ ایسے الٰہ] اِنْ يُّرِدْنِ [(کہ) اگر ارادہ کرے میرے بارے میں] الرَّحْمٰنُ [رحمان] بِضُرٍّ [کسی تکلیف کا] لَّا تُغْنِ عَـنِّىْ [تو کام نہ آئے گی میرے] شَفَاعَتُهُمْ [ان کی شفاعت] شَـيْـــًٔا [کچھ بھی] وَّلَا يُنْقِذُوْنِ [اور نہ بچائیں گے مجھ کو]۔

اِنِّىْٓ اِذًا لَّفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ  24 ؀
اِنِّىْٓ اِذًا [بیشک میں تب تو] لَّفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ [یقینا کھلی گمراہی میں ہوں]۔

اِنِّىْٓ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُوْنِ  25؀ۭ
اِنِّىْٓ اٰمَنْتُ [بیشک میں ایمان لایا] بِرَبِّكُمْ [تم لوگوں کے رب پر] فَاسْمَعُوْنِ [تو تم سب سن لو مجھ سے]۔

قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۭ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ  26؀ۙ
قِيْلَ [اس سے کہا گیا] ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۭ [تو داخل ہو جنت میں] قَالَ يٰلَيْتَ [اس نے کہا اسے کاش] قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ [میری قوم جانتی ہوتی]۔



نوٹ۔1: آیات 26۔27 سے معلوم ہوتاہے کہ اس شخص کو قتل کردیا گیا اور شہادت نصیب ہوتے ہی اسے جنت کی بشارت دے دی گئی۔ جن لوگوں نے اسے قتل کیا تھا ان کے خلاف کوئی جذبہء انتقام اس کے دل میں نہ تھا۔ اسکے بجائے وہ اب بھی ان کی خیر خواہی کررہا تھا ۔ مرنے کے بعد اس کے دل میں اگر کوئی تمنا پیدا ہوئی تو وہ بس یہ تھی کہ کاش مری قوم میرے اس نیک انجام سے باخبر ہوجائے اور راہ راست اختیار کرلے۔ وہ شریف انسان اپنے قاتلوں کے لئے بھی جہنم نہ چاہتا تھا بلکہ یہ چاہتا تھا کہ وہ ایمان لارک جنت کے مستحق بنیں۔ اسی کی تعریف کرتے ہوئے حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’ اس شخص نے جیتے جی بھی اپنے قوم کی خیر خواہی کی اور مر کر بھی۔‘‘ (تفہیم القرآن)

بِمَا غَفَرَ لِيْ رَبِّيْ وَجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُكْرَمِيْنَ  27؀
بِمَا [اس کو جس سبب سے] غَفَرَ لِيْ رَبِّيْ [بخشا مجھ کو میرے رب نے] وَجَعَلَنِيْ [اور اس نے بنایا مجھ کو] مِنَ الْمُكْرَمِيْنَ [عزت دئیے ہوؤں میں سے]۔