قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
 چوبیسواں پارہ 

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَي اللّٰهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَاۗءَهٗ ۭ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِيْنَ   32؀
فَمَنْ اَظْلَمُ [تو کون زیادہ ظالم ہے] مِمَّنْ [اس سے جس نے] كَذَبَ عَلَي اللّٰهِ [جھوٹ کہا اللہ پر] وَكَذَّبَ [اور اس نے جھٹلایا] بِالصِّدْقِ [سچائی کو] اِذْ جَاۗءَهٗ ۭ [جب وہ آئی اس کے پاس] اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ [کیا نہیں ہے جہنم میں] مَثْوًى [مستقل قیام گاہ] لِّلْكٰفِرِيْنَ [انکار کرنے والوں کے لئے]۔

وَالَّذِيْ جَاۗءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖٓ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُتَّـقُوْنَ   33؀
وَالَّذِيْ [اور وہ جو] جَاۗءَ بِالصِّدْقِ [آیا سچائی کے ساتھ] وَصَدَّقَ بِهٖٓ [اور اس نے تصدیق کی اس کی] اُولٰۗىِٕكَ [وہ لوگ] هُمُ الْمُتَّـقُوْنَ [ہی متقی ہیں]۔

لَهُمْ مَّا يَشَاۗءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ ذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْمُحْسِنِيْنَ  34؀ښ
لَهُمْ [ان کے لئے ہے] مَّا [وہ جو] يَشَاۗءُوْنَ [وہ لوگ چاہیں گے] عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ [اپنے رب کے پاس] ذٰلِكَ [یہ] جَزَاۗءُ الْمُحْسِنِيْنَ [خوب کاروں کی جزا ہے]



نوٹ۔1: آیت 34 میں فی الجنۃ نہیں بلکہعند ربھم کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ اپنے رب کے ہاں تو بندہ مرنے کے بعد ہی پہنچ جاتاہے۔ اس لئے آیت کا منشا یہ معلوم ہوتاہے کہ جنت میں پہنچ کر ہی نہیں بلکہ مرنے کے وقت سے دخول جنت تک کے زمانے میں بھی مومن صالح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہی رہے گا۔ وہ عذاب برزخ سے، روز قیامت کی سختیوں سے، حساب کی سخت گیری سے، میدان حشر کی رسوائی سے، اپنی کوتاہیوں اور قصوروں پر مواخذہ سے لازمابچنا چاہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی یہ ساری خواہشات پوری فرمائے گا۔ (تفہیم القرآن)

لِيُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِيْ عَمِلُوْا وَيَجْزِيَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   35؀
لِيُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنْهُمْ [تاکہ دور کر دے اللہ ان سے] اَسْوَاَ الَّذِيْ [اس کے برے سے برے کو جو] عَمِلُوْا [انھوں نے عمل کئے] وَيَجْزِيَهُمْ [اور وہ بدلے میں ان کو دے گا] اَجْرَهُمْ [ان کی اجرت] بِاَحْسَنِ الَّذِيْ [اس کے بہترین سے جو] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [وہ لوگ عمل کرتے تھے]۔

اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ   36؀ۚ
اَلَيْسَ اللّٰهُ [کیا اللہ] بِكَافٍ [کفایت کرنے والا نہیں ہے] عَبْدَهٗ ۭ [اپنے بندے کی] وَيُخَوِّفُوْنَكَ [اور یہ لوگ ڈراتے ہیں آپ
کو] بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ [ان سے جو اس (اللہ) کے علاوہ ہیں] وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ [اور جس کو بھٹکا دے اللہ] فَمَا لَهٗ [تو نہیں ہے اس کے لئے] مِنْ هَادٍ [کوئی بھی رہنمائی کرنے والا]۔

وَمَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّضِلٍّ ۭ اَلَيْسَ اللّٰهُ بِعَزِيْزٍ ذِي انْتِقَامٍ    37؀
وَمَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ [اور جس کو ہدایت دے اللہ] فَمَا لَهٗ [تو نہیں ہے اس کے لئے] مِنْ مُّضِلٍّ ۭ [کوئی بھی بھٹکانے والا] اَلَيْسَ اللّٰهُ [کیا اللہ] بِعَزِيْزٍ [بالادست] ذِي انْتِقَامٍ [بدلہ لینے والا نہیں ہے]۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْــتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ۭ قُلْ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَنِيَ اللّٰهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖٓ اَوْ اَرَادَنِيْ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكٰتُ رَحْمَتِهٖ ۭ قُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ ۭ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُوْنَ    38؀
وَلَىِٕنْ [اور بیشک اگر] سَاَلْــتَهُمْ [آپ
پوچھیں گے ان سے] مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ [کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو] لَيَقُوْلُنَّ [تو وہ لازما کہیں گے] اللّٰهُ ۭ [اللہ نے] قُلْ [آپ کہیے] اَفَرَءَيْتُمْ [تو کیا تم لوگوں نے غور کیا] مَّا [ان چیزوں پر جن کو] تَدْعُوْنَ [تم لوگ پکارتے ہو] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [اللہ کے علاوہ (کہ)] اِنْ اَرَادَنِيَ [اگر ارادہ کرے میرے لئے] اللّٰهُ [اللہ] بِضُرٍّ [کسی تکلیف کا] هَلْ هُنَّ [تو کیا وہ سب (چیزیں)] كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖٓ [اس کی (ڈالی ہوئی) تکلیف کو کھولنے والی ہیں] اَوْ اَرَادَنِيْ بِرَحْمَةٍ [یا وہ ارادہ کرے میرے لئے کسی رحمت کا] هَلْ هُنَّ [کیا وہ سب] مُمْسِكٰتُ رَحْمَتِهٖ ۭ [اس کی رحمت کو روکنے والی ہیں] قُلْ [آپ کہیے] حَسْبِيَ اللّٰهُ ۭ [کافی ہے مجھ کو اللہ] عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ [اس پر ہی بھروسہ کرتے ہیں] الْمُتَوَكِّلُوْنَ [بھروسہ کرنے والے]۔

قُلْ يٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰي مَكَانَتِكُمْ اِنِّىْ عَامِلٌ ۚ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ   39؀ۙ
قُلْ [آپ
کہیے] يٰقَوْمِ اعْمَلُوْا [اے میری قوم تم لوگ عمل کرو] عَلٰي مَكَانَتِكُمْ [اپنی جگہ پر] اِنِّىْ عَامِلٌ ۚ [بیشک میں عمل کرنے والا ہوں] فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ [تو عنقریب تم لوگ جان لو گے]۔

مَنْ يَّاْتِيْهِ عَذَابٌ يُّخْزِيْهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ    40؀
مَنْ [اس کو] يَّاْتِيْهِ [پہنچے گا جس کے پاس] عَذَابٌ [ایک ایسا عذاب جو] يُّخْزِيْهِ [رسوا کرے گا اس کو] وَيَحِلُّ عَلَيْهِ [اور اترے گا اس پر] عَذَابٌ مُّقِيْمٌ [ایک ٹھہرنے والا عذاب]۔

اِنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَـقِّ ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَلِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيْلٍ    41؀ۧ
اِنَّآ اَنْزَلْنَا [بیشک ہم نے اتارا] عَلَيْكَ الْكِتٰبَ [آپ
پر اس کتاب کو] لِلنَّاسِ بِالْحَـقِّ ۚ [لوگوں کے لئے حق کے ساتھ] فَمَنِ اهْتَدٰى [پس جس نے ہدایت پائی] فَلِنَفْسِهٖ ۚ [تو (اس نے ہدایت پائی) اپنے لئے] وَمَنْ ضَلَّ [اور جو بھٹکا] فَاِنَّمَا [تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] يَضِلُّ [وہ بھٹکتا ہے] عَلَيْهَا ۚ [اپنے آپ پر] وَمَآ اَنْتَ عَلَيْهِمْ [اور آپ ان پر] بِوَكِيْلٍ [کوئی نگران نہیں ہیں]۔



نوٹ۔1: رسول اللہ
نے فرمایا کہ جو شخص چاہتاہو کہ سب انسانوں سے زیادہ طاقتور ہوجائے، اسے چاہیے کہ اللہ پر توکل کرے۔ اور جو شخص چاہتاہو کہ سب سے بڑھ کر غنی ہوجائے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس پر زیادہ بھروسہ رکھے بہ نسبت اس چیز کے جو اس کے اپنے ہاتھ میں ہے اور جو شخص چاہتاہو کہ سب سے زیادہ عزت والا ہوجائے، اسے چاہیے کہ اللہ عز وجل سے ڈرے۔ (تفہیم القرآن)

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ    42؀
اَللّٰهُ يَتَوَفَّى [اللہ پورا پورا لے لیتا ہے] الْاَنْفُسَ [جانوں کو] حِيْنَ مَوْتِهَا [ان کی موت کے وقت] وَالَّتِيْ [اور اس کو (بھی) جو] لَمْ تَمُتْ [نہیں مری] فِيْ مَنَامِهَا ۚ [اس کے سونے کے وقت میں] فَيُمْسِكُ الَّتِيْ [پھر وہ تھام لیتا ہے اس کو] قَضٰى عَلَيْهَا [فیصلہ کردیا جس پر] الْمَوْتَ [موت کا] وَيُرْسِلُ [اور وہ بھیج دیتا ہے] الْاُخْرٰٓى [دوسری کو] اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ [ایک مقررہ مدت کی طرف] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ [بیشک اس میں یقینا نشانیاں ہیں] لِّــقَوْمٍ [ایسی قوم کے لئے جو] يَّتَفَكَّرُوْنَ [غور و فکر کرتے ہیں]۔



نوٹ۔1: قبض روح کے معنی اس کا تعلق بدن انسانی سے قطع کردینے کے ہیں۔ کبھی یہ ظاہراً وباطناً بالکل منقطع کردیا جاتاہے۔ اسی کا نام موت ہے اور کبھی صرف ظاہراً منقطع کیا جاتاہے اور باطناً باقی رہتاہے، جس کا اثر یہ ہوتاہے کہ حس اور حرکتِ ارادی، جو ظاہری علامت زندگی ہے، وہ منقطع کردی جاتی اور باطناً تعلق روح کا جسم کے ساتھ باقی رہتاہے جس سے وہ سانس لیتاہے اور زندہ رہتاہے۔

 موت اور نیند کا یہ فرق حضرت علی کے قول کے مطابق ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ سونے کے وقت انسان کی روح اس کے بدن سے نکل جاتی ہے مگر ایک شعاع روح کی بدن میں رہتی ہے جس سے وہ زندہ رہتاہے۔ اور فرمایا کہ نیند کی حالت میں جو روح انسان کے بدن سے نکلتی تو بیداری کے وقت آنکھ جھپکنے سے بھی کم وقت میں بدن میں واپس آجاتی ہے۔ (معارف القرآن)

 اس میں غور کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ مثلا یہ کہ جس طرح خلق اور تدبیر تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے، اسی طرح زندگی اور موت بھی تمام تر اسی کے اختیار میں ہے۔ اور یہ کہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا کوئی دور دراز والی بات نہیں ہ۔ ے اس دنیا میں ہر روز موت اور موت کے بعد اٹھنے کا ریہرسل ہر شخص کے ساتھ ہورہا ہے۔ بشرطیکہ آدمی اس کو دیکھنے کے لئے دیدئہ بینا رکھتا ہو۔ (تدبر قرآن)

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَاۗءَ ۭ قُلْ اَوَلَوْ كَانُوْا لَا يَمْلِكُوْنَ شَـيْـــــًٔا وَّلَا يَعْقِلُوْنَ    43؀
اَمِ اتَّخَذُوْا [یا ان لوگوں نے بنائے] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [اللہ کے علاوہ] شُفَعَاۗءَ ۭ [کچھ سفارش کرنے والے] قُلْ [آپ
کہیے] اَوَلَوْ كَانُوْا [کیا اگر وہ لوگ ہوں (کہ)] لَا يَمْلِكُوْنَ [اختیار نہ رکھتے ہوں] شَـيْـــــًٔا [کسی چیز کا] وَّلَا يَعْقِلُوْنَ [اور نہ عقل استعمال کرتے ہوں]۔

قُلْ لِّلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيْعًا ۭ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ  44؀
قُلْ لِّلّٰهِ [آپ
کہیے اللہ ہی کی ہے] الشَّفَاعَةُ [کل سفارش] جَمِيْعًا ۭ [ساری کی ساری] لَهٗ [اس کی ہے] مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [زمین اور آسمانوں کی بادشاہت] ثُمَّ اِلَيْهِ [پھر اس کی طرف ہی] تُرْجَعُوْنَ [تم لوگ لوٹائے جاؤ گے]۔

وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ    45؀
وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ [اور جب ذکر کیا جاتا ہے اللہ کا] وَحْدَهُ [اس کے واحد ہوتے ہوئے] اشْمَاَزَّتْ [تو سکڑ جاتے ہیں] قُلُوْبُ الَّذِيْنَ [ان کے دل جو] لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ ۚ [ایمان نہیں رکھتے آخرت پر] وَاِذَا ذُكِرَ [اور جب ذکر کیا جاتا ہے] الَّذِيْنَ [ان لوگوں کا جو] مِنْ دُوْنِهٖٓ [اس کے علاوہ ہیں] اِذَا هُمْ [جب ہی وہ لوگ] يَسْتَبْشِرُوْنَ [خوشیاں مناتے ہیں]۔



ش م ء ز

افعلالا اشمئزازا کراہیت سے چہرہ کا سکڑ جانا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 45۔



نوٹ۔2: آیت 45 میں جو بات کہی گئی ہے وہ قریب قریب ساری دنیا کے مشرکانہ ذوق رکھنے والے لوگوں میں مشترک ہے، حتی کہ مسلمانوں میں بھی جن بد قسمتوں کو یہ بیماری لگ گئی ہے وہ بھی اس عیب سے خالی نہیں ہیں۔ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ اکیلے اللہ کا ذکر کیجئے تو چہرے بگڑنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں ضرور یہ شخص بزرگوں اور اولیاء کو نہیں مانتا، تبھی تو اللہ ہی اللہ کی باتیں کئے جاتاہے۔ اور اگر دوسروں کا ذکر کیا جائے تو ان کے دلوں کی کلی کھل اٹھتی ہے۔ اس طرزِ عمل سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ ان کو اصل مین دلچسپی اور محبت کس سے ہے۔ (تفہیم القرآن)

قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيْ مَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ    46؀
قُلِ [آپ
کہیے] اللّٰهُمَّ [اے اللہ] فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [اے زمین اور آسمانوں کو وجود بخشنے والے] عٰلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ [اے شہادہ اور غیب کے جاننے والے] اَنْتَ تَحْكُمُ [تو ہی فیصلہ کرے گا] بَيْنَ عِبَادِكَ [اپنے بندوں کے درمیان] فِيْ مَا [اس میں] كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ [یہ لوگ اختلاف کرتے تھے جس میں]۔

وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا وَّمِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ مِنْ سُوْۗءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ يَكُوْنُوْا يَحْتَسِبُوْنَ    47؀
وَلَوْ اَنَّ [اور اگر (ہوتا) کہ] لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا [ان کے لئے جنہوں نے ظلم کیا] مَا فِي الْاَرْضِ [وہ جو زمین میں ہے] جَمِيْعًا [کل کا کل] وَّمِثْلَهٗ [اور اس کے جیسا] مَعَهٗ [اس کے ساتھ] لَافْتَدَوْا [تو وہ لوگ ضرور خود کو چھڑاتے] بِهٖ [اس کے بدلے] مِنْ سُوْۗءِ الْعَذَابِ [عذاب کی برائی سے] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ [قیامت کے دن] وَبَدَا لَهُمْ [اور ظاہر ہوا ان کے لئے] مِّنَ اللّٰهِ [اللہ (کی طرف) سے] مَا [وہ جو] لَمْ يَكُوْنُوْا يَحْتَسِبُوْنَ [وہ لوگ گمان (تک) نہیں کرتے تھے]۔

وَبَدَا لَهُمْ سَيِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ   48؀
وَبَدَا لَهُمْ [اور ظاہر ہوئیں ان کے لئے] سَيِّاٰتُ مَا [اس کی برائیاں جو] كَسَبُوْا [انھوں نے کمائی کی] وَحَاقَ بِهِمْ [اور گھیرے میں لے لیا ان کو] مَّا [اس نے] كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ [جو وہ لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے]۔

فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ۡ ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا ۙ قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ ۭ بَلْ هِىَ فِتْنَةٌ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ    49؀
فَاِذَا مَسَّ [پھر جب کبھی چھوتی ہے] الْاِنْسَانَ ضُرٌّ [انسان کو کوئی تکلیف] دَعَانَا ۡ [تو وہ پکارتا ہے ہم کو] ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ [پھر جب ہم عطا کرتے ہیں اس کو] نِعْمَةً مِّنَّا ۙ [کوئی نعمت اپنے پاس سے] قَالَ [تو وہ کہتا ہے] اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ [مجھے تو بس دی گئی یہ (نعمت)] عَلٰي عِلْمٍ ۭ [ایک علم (کی بنا) پر] بَلْ هِىَ فِتْنَةٌ [بلکہ (جبکہ) یہ ایک آزمائش ہے] وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ [اور لیکن ان کے اکثر] لَا يَعْلَمُوْنَ [جانتے نہیں ہیں]۔

قَدْ قَالَهَا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ    50؀
قَدْ قَالَهَا [کہہ چکے یہ (بات) ] الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ [وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے] فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ [پھر کام نہ آیا ان کے] مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ [وہ جو لوگ کمائی کرتے تھے]۔

فَاَصَابَهُمْ سَـيِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا ۭ وَالَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْ هٰٓؤُلَاۗءِ سَيُصِيْبُهُمْ سَـيِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا ۙ وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِيْنَ    51؀
فَاَصَابَهُمْ [تو آلگیں ان کو] سَـيِّاٰتُ مَا [اس کی برائیاں جو] كَسَبُوْا ۭ [انھوں نے کمائی کی] وَالَّذِيْنَ ظَلَمُوْا [اور جنہوں نے ظلم کیا] مِنْ هٰٓؤُلَاۗءِ [ان الوگوں میں سے] سَيُصِيْبُهُمْ [آلگیں گی ان کو (بھی)] سَـيِّاٰتُ مَا [اس کی برائیاں جو] كَسَبُوْا ۙ [انھوں نے کمائی کی] وَمَا هُمْ [یہ لوگ نہیں ہیں] بِمُعْجِزِيْنَ [عاجز کرنے والے (ہم کو)]۔

اَوَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِرُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ   52؀ۧ
اَوَلَمْ يَعْلَمُوْٓا [اور کیا انھوں نے جانا ہی نہیں] اَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ [کہ اللہ کشادہ کرتا ہے] الرِّزْقَ [رزق کو] لِمَنْ يَّشَاۗءُ [اس کے لئے جس کے لئے وہ چاہتا ہے] وَيَقْدِرُ ۭ [اور اندازے سے دیتا ہے] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ [بیشک اس میں یقینا نشانیاں ہیں] لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ [ایسے لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں]۔

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ    53؀
قُلْ [آپ
(میرا) پیغام دیں (کہ)] يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ [اے میرے وہ بندو جنہوں نے] اَسْرَفُوْا [زیادتی کی] عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ [اپنی جانوں پر] لَا تَقْنَطُوْا [تم لوگ مایوس مت ہو] مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ [اللہ کی رحمت سے] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ] يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ [بخش دیتا ہے گناہوں کو] جَمِيْعًا ۭ [سب کو] اِنَّهٗ [بیشک وہ] هُوَ الْغَفُوْرُ [ہی بےانتہا بخشنے والا] الرَّحِيْمُ [ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]۔



نوٹ۔1: آیت 53 میں خطاب تمام انسانون سے ہے۔ جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ عام انسانوں کو مخاطب کرکے یہ بات ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کے بغیر سارے گناہ معار کردیتاہے بلکہ بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی وضاحت فرمادی ہے کہ گناہوں کی معافی کی صور بندگی واطاعت کی طرف پلٹ آنا اور اللہ کے نازل کئے ہوئے پیغام کی پیروی کرنا ہے۔ (تفہیم القرآن (۔ خلاصہ آیت کے مجمون کا یہ ہوا کہ مرنے سے پہلے پہلے ہر بڑے سے بڑے گناہ ، یہان تک کہ کفر وشرک سے بھی اگر کوئی توبہ کرلے تو سچی توبہ سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (معارف القرآن)

وَاَنِيْبُوْٓا اِلٰى رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ    54؀
وَاَنِيْبُوْٓا [اور تم لوگ رخ کرو] اِلٰى رَبِّكُمْ [اپنے رب کی طرف] وَاَسْلِمُوْا لَهٗ [اور فرمانبرداری کرو اس کی] مِنْ قَبْلِ اَنْ [اس سے پہلے کہ] يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ [پہنچے تمہارے پاس عذاب] ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ [پھر تمہاری مدد نہ کی جائے]۔

وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ   55؀ۙ
وَاتَّبِعُوْٓا [اور تم لوگ پیروی کرو] اَحْسَنَ مَآ [اس کے بہترین کی جو] اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ [اتارا گیا تمہاری طرف] مِّنْ رَّبِّكُمْ [تمہارے رب کی طرف سے] مِّنْ قَبْلِ اَنْ [اس سے پہلے کہ] يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ [پہنچے تمہارے پاس عذاب] بَغْتَةً [اچانک] وَّ [اس حال میں کہ] اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ [تم لوگ شعور نہ رکھتے ہو]۔

اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰى عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ    56؀ۙ
اَنْ [(قبل اس کے) کہ] تَـقُوْلَ نَفْسٌ [کہے کوئی جان] يّٰحَسْرَتٰى [ہائے میری حسرت] عَلٰي مَا [اس پر جو] فَرَّطْتُّ [میں نے کوتاہی کی] فِيْ جَنْۢبِ اللّٰهِ [اللہ کی جناب میں] وَاِنْ [اور بیشک] كُنْتُ [میں] لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ [یقینا مسخری کرنے والوں میں سے تھا]۔

اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ   57؀ۙ
اَوْ [یا (اس سے پہلے کہ)] تَقُوْلَ [وہ (جان) کہے] لَوْ اَنَّ [اگر یہ کہ] اللّٰهَ هَدٰىنِيْ [اللہ ہدایت دیتا مجھ کو] لَكُنْتُ [تو میں ضرور ہوتا ] مِنَ الْمُتَّقِيْنَ [تقوی اختیار کرنے والوں میں سے]۔

اَوْ تَـقُوْلَ حِيْنَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِيْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ   58؀
اَوْ [یا (اس سے پہلے کہ)] تَـقُوْلَ [وہ (جان) کہے] حِيْنَ تَرَى الْعَذَابَ [جس وقت وہ دیکھے عذاب کو] لَوْ اَنَّ [کاش کہ] لِيْ كَرَّةً [میرے لئے ایک اور باری ہوتی] فَاَكُوْنَ [نتیجتاً میں ہو جاتا] مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ [نیکوکاروں میں سے]۔

بَلٰى قَدْ جَاۗءَتْكَ اٰيٰتِيْ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ   59؀
بَلٰى [کیوں نہیں] قَدْ جَاۗءَتْكَ [آچکیں تیرے پاس] اٰيٰتِيْ [میری نشانیاں] فَكَذَّبْتَ بِهَا [تو تو نے جھٹلایا ان کو] وَاسْتَكْبَرْتَ [اور تو نے گھمنڈ کیا] وَكُنْتَ [اور تو تھا ہی] مِنَ الْكٰفِرِيْنَ [ناشکری کرنے والوں میں سے]۔

وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ تَرَى الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلَي اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ ۭ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِيْنَ   60؀
وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ [اور قیامت کے دن] تَرَى الَّذِيْنَ [آپ
دیکھیں گے ان کو جنہوں نے] كَذَبُوْا عَلَي اللّٰهِ [جھوٹ کہا اللہ پر (کہ)] وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ ۭ [ان کے چہرے سیاہ پڑنے والے ہیں] اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ [کیا جہنم میں نہیں ہے] مَثْوًى [مستقل قیام گاہ] لِّلْمُتَكَبِّرِيْنَ [بڑا بننے والوں کے لئے]۔

وَيُنَجِّي اللّٰهُ الَّذِيْنَ اتَّــقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ ۡ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوْۗءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ   61؀
وَيُنَجِّي اللّٰهُ [اور نجات دے گا اللہ] الَّذِيْنَ [ان کو جنہوں نے] اتَّــقَوْا [تقوی اختیار کیا] بِمَفَازَتِهِمْ ۡ [ان کی نجات کی جگہ میں] لَا يَمَسُّهُمُ [(جہاں) نہیں چھوئے گی ان کو] السُّوْۗءُ [برائی] وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ [اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے]۔

اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۡ وَّهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ   62؀
اَللّٰهُ خَالِقُ [اللہ پیدا کرنے والا ہے] كُلِّ شَيْءٍ ۡ [ہر چیز کا] وَّهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [اور وہ ہر چیز پر] وَّكِيْلٌ [نگران ہے]۔

لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ    63؀ۧ
لَهٗ [اس کے لئے ہی ہیں] مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [زمین اور آسمانوں کی کنجیاں] وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا [اور جنہوں نے انکار کیا] بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [اللہ کی نشانیوں کا] اُولٰۗىِٕكَ [وہ لوگ] هُمُ الْخٰسِرُوْنَ [ہی خسارہ پانے والے ہیں]۔



نوٹ۔1: کنجیوں کا کسی کے ہاتھ میں ہونا اس کے مالک ومتصرف ہونے کی علامت ہے۔ اس لئے آیت 63 کی مراد یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں نعمتوں کے جو خزانے چھپے ہوئے ہیں ان سب کی کنجیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہی ان کا محافظ ہے اور وہی متصرف ہے کہ جب چاہے، جس کو چاہے، جتنا چاہے دے دے اور جس کو چاہے نہ دے۔ بعض احادیث میں تیسرے کلمہ کو مقالید السموت والارض فرمایا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص صبح وشام یہ کلمہ پڑھتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ محدثین نے ان احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ فضائل اعمال میں ان کا اعتبار کیا جاسکتاہے۔ (معارف القرآن)

قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ اَعْبُدُ اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ    64؀
قُلْ [آپ
کہیے] اَفَغَيْرَ اللّٰهِ [تو کیا اللہ کے علاوہ کی] تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ [تم لوگ ترغیب دیتے ہو مجھ کو] اَعْبُدُ [(کہ) میں بندگی کروں] اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ [اے جاہلو]۔



نوٹ۔1: جاہل اس کو کہتے ہیں جو علم وعقل کے بجائے جذبات اور خواہشات کی پیروی کرتاہے۔ فرمایا کہ ان جاہلوں سے پوچھو کہ تمام دلائل وشواہد تو اس بات کے حق میں ہیں کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے اور اسی کے قبضہ میں تمام آسمانون اور زمین کی کنجیاں ہیں، تو کیا پھر تم لوگ مجھ سے اس بات کی ضد کرتے رہو گے کہ مین اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کروں۔ (تدبر قرآن)

وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ   65؀
وَ[حالانکہ] لَقَدْ اُوْحِيَ [یقینا وحی کی جا چکی] اِلَيْكَ [آپ
کی طرف] وَاِلَى الَّذِيْنَ [اور ان کی طرف جو] مِنْ قَبْلِكَ ۚ [آپ سے پہلے تھے] لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ [(کہ ہر امتی کو بتا دو کہ) یقینا اگر تو نے شرک کیا] لَيَحْبَطَنَّ [تو یقینا اکارت جائے گا] عَمَلُكَ [تیرا عمل] وَلَتَكُوْنَنَّ [اور تو لازما ہو جائے گا] مِنَ الْخٰسِرِيْنَ [خسارہ پانے والوں میں سے]۔

بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ    66؀
بَلِ اللّٰهَ [بلکہ اللہ کی ہی] فَاعْبُدْ [پس تو بندگی کر] وَكُنْ [اور تو ہو جا] مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ [شکر کرنے والوں میں سے]۔

وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ    67؀
وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ [اور انھوں نے تعظیم نہیں کی اللہ کی] حَقَّ قَدْرِهٖ ڰ [جیسا اس کی تعظیم کا حق ہے] وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا [اور زمین کل کی کل] قَبْضَتُهٗ [اس کی ایک مٹھی میں ہوگی] يَوْمَ الْقِيٰمَةِ [قیامت کے دن] وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ [اور آسمان لپیٹے ہوئے ہوں گے] بِيَمِيْنِهٖ ۭ [اس کے داہنے ہاتھ میں] سُبْحٰنَهٗ [پاکیزگی اس کی ہے] وَتَعٰلٰى [اور وہ بلند ہوا] عَمَّا يُشْرِكُوْنَ [اس سے جو یہ لوگ شریک کرتے ہیں]۔

وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ   68؀
وَنُفِخَ [اور پھونکا جائے گا] فِي الصُّوْرِ [صور میں] فَصَعِقَ [تو مر جائیں گے] مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ [وہ جو آسمانوں میں ہیں] وَمَنْ فِي الْاَرْضِ [اور وہ زمین میں ہیں] اِلَّا مَنْ [سوائے اس کے جس کو] شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ [چاہے گا اللہ] ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ [پھر پھونکی جائے گی اس میں] اُخْرٰى [دوسری (پھونک)] فَاِذَا هُمْ [پھر جب ہی وہ لوگ] قِيَامٌ [کھڑے ہوں گے] يَّنْظُرُوْنَ [دیکھتے ہوئے]۔



نوٹ۔2: آیت 68 میں دو مرتبہ صور پھونکے جانے کا ذکر ہے۔ سورہ نمل آیت 87 میں ان دونوں سے پہلے ایک صور پھونکنے کا ذکر آیا ہے جسے سن کر زمین و آسمان کی ساری مخلوق دہشت زدہ ہوجائے گی، اسی بنا پر احادیث میں تین مرتبہ صور پھونکنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک نفخۃ الفزع یعنی گھبرادینے والا صور، دوسرے نفخۃ الصعق یعنی مارنے والا صور اور تیسرا نفخۃ القیام۔ (تفہیم القرآن)

وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بِالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ    69؀
وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ [اور جگمگا اٹھے گی زمین] بِنُوْرِ رَبِّهَا [اپنے رب کے نور سے] وَوُضِعَ الْكِتٰبُ [اور رکھا جائے گا لکھا ہوا (ریکارڈ] وَجِايْۗءَ [اور لائے جائیں گے] بِالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ [انبیاء کرام اور گواہ] وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ [اور فیصلہ کیا جائے گا ان لوگوں کے درمیان] بِالْحَــقِّ [حق کے ساتھ] وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ [اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا]۔

وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُوَ اَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُوْنَ   70؀ۧ
وَوُفِّيَتْ [اور پورا پورا دیا جائے گا] كُلُّ نَفْسٍ [ہر ایک جان کو] مَّا عَمِلَتْ [وہ جو اس نے عمل کیا] وَهُوَ اَعْلَمُ [اور وہ خوب جاننے والا ہے] بِمَا يَفْعَلُوْنَ [اس کو جو یہ لوگ کرتے ہیں]۔

وَسِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا ۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَتْلُوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ۭ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ   71؀
وَسِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا [اور ہانکے جائیں گے وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا] اِلٰى جَهَنَّمَ [جہنم کی طرف] زُمَرًا ۭ [گروہ در گروہ] حَتّىٰٓ اِذَا [یہاں تک کہ جب] جَاۗءُوْهَا [وہ لوگ آئیں گے اس کے پاس] فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا [تو کھولے جائیں گے اس کے دروازے] وَقَالَ لَهُمْ [اور کہیں گے ان سے] خَزَنَــتُهَآ [اس کے داروغے] اَلَمْ يَاْتِكُمْ [کیا نہیں پہنچے تمہارے پاس] رُسُلٌ مِّنْكُمْ [کچھ رسول تم میں سے] يَتْلُوْنَ عَلَيْكُمْ [پڑھ کر سناتے ہوئے تم کو] اٰيٰتِ رَبِّكُمْ [تمہارے رب کی آیات] وَيُنْذِرُوْنَكُمْ [اور خبردار کرتے ہوئے تم کو] لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ۭ [تمہارے اس دن کی ملاقات سے] قَالُوْا بَلٰى [وہ لوگ کہیں گے کیوں نہیں] وَلٰكِنْ حَقَّتْ [اور لیکن ثابت ہوا] كَلِمَةُ الْعَذَابِ [عذاب کا فرمان] عَلَي الْكٰفِرِيْنَ [انکار کرنے والوں پر]۔



ز م ر

(ن) زمرا بانسری بجانا۔ بات پھیلانا۔

 زمرۃ ج زمر۔ جماعت ۔ گروہ۔ زیر مطالعہ آیت۔ 71۔

قِيْلَ ادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۚ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ    72؀
قِيْلَ ادْخُلُوْٓا [کہا جائے گا تم لوگ داخل ہو] اَبْوَابَ جَهَنَّمَ [جہنم کے دروازوں میں (سے)] خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۚ [ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے اس میں] فَبِئْسَ [تو کتنی بری ہے] مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ [بڑا بننے والوں کی مستقل قیام گاہ]۔

وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـــتُهَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِيْنَ   73؀
وَسِيْقَ الَّذِيْنَ [اور لے جائے جائیں گے وہ لوگ جنہوں نے] اتَّقَوْا رَبَّهُمْ [تقوی اختیار کیا اپنے رب کا] اِلَى الْجَنَّةِ [جنت کی طرف] زُمَرًا ۭ [گروہ در گروہ] حَتّىٰٓ اِذَا [یہاں تک کہ جب] جَاۗءُوْهَا [وہ لوگ آئیں گے اس کے پاس] وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا [اور کھولے جائیں گے اس کے دروازے] وَقَالَ لَهُمْ [اور کہیں گے ان سے] خَزَنَـــتُهَا [اس کے داروغے] سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ [سلامتی ہے تم لوگوں پر] طِبْتُمْ [تم لوگ پاکیزہ ہوئے] فَادْخُلُوْهَا [پس داخل ہو اس میں] خٰلِدِيْنَ [ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے]۔

وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَيْثُ نَشَاۗءُ ۚفَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ    74؀
وَقَالُوا [اور وہ لوگ کہیں گے] الْحـَمْدُ [تمام شکر وسپاس] لِلّٰهِ الَّذِيْ [اس اللہ کے لئے ہے جس نے] صَدَقَنَا [سچ کیا ہم سے] وَعْدَهٗ [اپنے وعدہ کو] وَاَوْرَثَنَا [اور اس نے وارث بنایا ہم کو] الْاَرْضَ [اس سرزمین کا] نَـتَبَوَّاُ [ہم اقامت اختیار کرتے ہیں] مِنَ الْجَــنَّةِ [اس جنت میں سے] حَيْثُ نَشَاۗءُ ۚ[جہاں ہم چاہیں] فَنِعْمَ [تو کیا خوب ہے] اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ [عمل کرنے والوں کا اجر]۔

وَتَرَى الْمَلٰۗىِٕكَةَ حَاۗفِّيْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ۚ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيْلَ الْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ    75؀ۧ
وَتَرَى الْمَلٰۗىِٕكَةَ [اور آپ
دیکھیں گے فرشتوں کو] حَاۗفِّيْنَ [پرے باندھنے والے ہوتے ہوئے] مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ [عرش کے اردگرد سے] يُسَبِّحُوْنَ [تسبیح کرتے ہوئے] بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ۚ [اپنے رب کی حمد کے ساتھ] وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ [اور فیصلہ کیا جائے گا ان لوگوں کے درمیان] بِالْحَقِّ [حق کے ساتھ] وَقِيْلَ [اور کہا جائے گا] الْحَـمْدُ [تمام شکر و سپاس] لِلّٰهِ [اللہ کے لئے ہے] رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [جو تمام جہانوں کا رب ہے]۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ     ۝

حٰمۗ    Ǻ۝ۚ
حٰمۗ



نوٹ ۔ 1: یہاں سے (یعنی سورۃ المؤمن ) سے سورہ احقاف تک سات سورتیں حم سے شروع ہوتی ہیں ۔ ان کو حوامیم کہتے ہیں ۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ حوامیم دیباج القرآن ہیں ۔ دیباج ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں ۔ مراد اس سے زنیت ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک مغز اور خلاصہ ہوتا ہے قرآن کا خلاصہ حوامیم ہیں ۔

رسول اللہ
نے فرمایا کہ جو شروع دن میں آیۃ الکرسی اور سورہ مومن کی پہلی تین آیتیں پڑھ لے وہ اس دن ہر برائی اور تکلیف سے محفوظ رہے گا ۔ (معارف القرآن )

نوٹ۔ 2: کٹ حجتی کا مطلب یہ الٹے سیدھے اعتراضات جرنا ۔ سیاق وسباق سے الگ کرکے کوئی ایک لفظ یا فقرہ لے اڑنا اور اس سے طرح طرح کے نکتے پیدا کرکے شبہات والزامات کی عمارتیں کھڑی کرنا ۔ کلام کے اصل مدعا کو نظر انداز کرکے اس کو غلط معنی بہنانا تاکہ آدمی نہ خود بات کو سمجھے نہ دوسروں کو سمجھنے دے یہ طرز اختلاف صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا اختلاف بدنیتی پر مبنی ہوتا ہے ۔ (تفہیم القرآن )

تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ   Ą۝ۙ
تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ [ اس کتاب کا اتارا جانا ] مِنَ اللّٰهِ [ اللہ (کی طرف ) سے ہے ] الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ [ جو بالا دست ہے جو جاننے والا ہے ]

غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيْدِ الْعِقَابِ ۙ ذِي الطَّوْلِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭ اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ   Ǽ۝
غَافِرِ الذَّنْۢبِ [ جو گناہ کو بخشنے والا ہے ] وَقَابِلِ التَّوْبِ [ اور جو توبہ کو قبول کرنے والا ہے ] شَدِيْدِ الْعِقَابِ ۙ [ جو سزا دینے کا سخت ہے ] ذِي الطَّوْلِ ۭ [ جو جود و کرم والا ہے]لَآ اِلٰهَ [ کوئی الہ نہیں ہے ] اِلَّا هُوَ ۭ [ مگر وہ ]اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ [اس کی طرف ہی لوٹنا ہے ]

مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ  Ć؀
مَا يُجَادِلُ [ کٹ حجتی نہیں کرتے ] فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی آیات میں ] اِلَّا الَّذِيْنَ [ سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے ] كَفَرُوْا [ ناشکری کی ]فَلَا يَغْرُرْكَ [ پس چاہیے کہ دھوکہ نہ دے آپ کو ] تَــقَلُّبُهُمْ [ ان لوگوں کا گھومنا پھرنا ]فِي الْبِلَادِ [ شہروں میں ]

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّالْاَحْزَابُ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ۠ وَهَمَّتْ كُلُّ اُمَّةٍۢ بِرَسُوْلِهِمْ لِيَاْخُذُوْهُ وَجٰدَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ فَاَخَذْتُهُمْ ۣ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ   Ĉ۝
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ [ جھٹلایا ان سے پہلے ]قَوْمُ نُوْحٍ [ نوح کی قوم نے ] وَّالْاَحْزَابُ [ اور مضبوط جتھوں نے ] مِنْۢ بَعْدِهِمْ ۠ [ ان کے بعد سے] وَهَمَّتْ [ اور ارادہ کیا ] كُلُّ اُمَّةٍۢ [ ہر ایک امت نے ] بِرَسُوْلِهِمْ [ اپنے رسول کے بارے میں ] لِيَاْخُذُوْهُ [ کہ وہ پکڑیں اس (رسول ) کو ] وَجٰدَلُوْا [ اور کٹ حجتی کریں ] بِالْبَاطِلِ [ باطل کے ذریعہ ] لِيُدْحِضُوْا بِهِ [ تاکہ وہ رد کریں اس سے ] الْحَقَّ [ حق کو ] فَاَخَذْتُهُمْ ۣ [ تو میں نے پکڑا ان لوگوں کو ] فَكَيْفَ كَانَ [ تو کیسا تھا ] عِقَابِ [ میرا سزادینا ]

وَكَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ    Č۝ڤ
وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح ]حَقَّتْ [ ثابت ہوا ] كَلِمَتُ رَبِّكَ [آپ کے رب کا فرمان ] عَلَي الَّذِيْنَ [ ان لوگوں پر جنھوں نے ] كَفَرُوْٓا [ ناشکری کی ] اَنَّهُمْ [ کہ یہ لوگ ] اَصْحٰبُ النَّارِ [ آگ والے ہیں ]

اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ    Ċ۝
اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ [ وہ جو اٹھاتے ہیں ] الْعَرْشَ [ عرش کو ] وَمَنْ [ اور وہ (بھی ) جو ] حَوْلَهٗ [ اس (عرش ) کے اردگرد ہیں ] يُسَبِّحُوْنَ [ وہ سب تسبیح کرتے ہیں ] بِحَمْدِ رَبِّهِمْ [ اپنے رب کی حمد کے ساتھ ] وَيُؤْمِنُوْنَ [اور ایمان رکھتے ہیں ] بِهٖ [ اس (رب ) پر ] وَيَسْتَغْفِرُوْنَ [ اور مغفرت مانگتے ہیں ] لِلَّذِيْنَ [ ان کے لئے جو ] اٰمَنُوْا ۚ [ ایمان لائے ] رَبَّنَا [ (اور دعا کرتے ہیں کہ ) اے ہمارے رب ] وَسِعْتَ [ تو وسیع ہوا ] [كُلَّ شَيْءٍ: ہر چیز پر ] رَّحْمَةً [ بلحاظ رحمت کے ]وَّعِلْمًا [ اور بلحاظ علم کے ] فَاغْفِرْ [ پس تو بخش دے ] لِلَّذِيْنَ [ ان کو جنھوں نے ] تَابُوْا [ توبہ کی ] وَاتَّبَعُوْا [ اور پیروی کی ] سَبِيْلَكَ [ تیرے راستے کی ] وَقِهِمْ [ اور تو بچا ان کو ] عَذَابَ الْجَــحِيْمِ [دوزخ کے عذاب سے]



نوٹ ۔ 1: حاملان عرش فرشتے اب چار ہیں اور قیامت کے روز آٹھ ہوجائیں گے اور عرش کے گرد کتنے فرشتے ہیں ان کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے ان کو کروبی کہا جاتا ہے ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں ۔ (معارف القرآن) یہ جو فرمایا گیا کہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے ان خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی جو انہی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ (تفہیم القرآن ) فرشتے دعا اور سفارش تو برابر کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی دعا اور سفارش ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنی بدعقیدگی اور بدعملی سے توبہ کرکے اللہ کے راستے کے پیرو بن جائیں ۔ نہ کہ ان لوگوں کے لئے جو اس کے رسول اللہ
اور اس کے دین کی مخالفت کریں ۔ (تدبر قرآن )

رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ    Ď۝ۙ
رَبَّنَا [ اے ہمارے رب ] وَاَدْخِلْهُمْ [ اور تو داخل کران کو ] جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ [ عدن کے ان باغات میں جن کا ] وَعَدْتَّهُمْ [ تو نے وعدہ کیا ان سے ] وَمَنْ [ اور اس کو ( بھی داخل کر ) جو ] صَلَحَ [ نیک ہوا ] مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ [ ان کے آباء اجداد میں سے ] وَاَزْوَاجِهِمْ [ اور ان کی بیویوں میں سے] وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ [ اور ان کی اولادوں میں سے ] اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ [ بیشک تو ہی بالادست ہے ] الْحَكِيْمُ [ حکمت والا ہے ]

وَقِهِمُ السَّيِّاٰتِ ۭ وَمَنْ تَقِ السَّيِّاٰتِ يَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهٗ ۭ وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ    ۝ۧ
وَقِهِمُ [ اور تو بچا ان کو ] السَّيِّاٰتِ ۭ [برائیوں سے ] وَمَنْ [ اور جس کو ] تَقِ [ تو بچائے گا ] السَّيِّاٰتِ [ برائیوں (کے انجام ) سے] يَوْمَىِٕذٍ [اس دن ] فَقَدْ رَحِمْتَهٗ ۭ [تو تو نے رحم کیا ہے اس پر ] وَذٰلِكَ [ اور یہ ] هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ [ہی شاندار کامیابی ہے ]

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللّٰهِ اَكْبَرُ مِنْ مَّقْتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ اِذْ تُدْعَوْنَ اِلَى الْاِيْمَانِ فَتَكْفُرُوْنَ    10؀
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ] يُنَادَوْنَ [ ان کو پکارا جائے گا (اور کہا جائے گا )] لَمَقْتُ اللّٰهِ [ یقینا اللہ کا بیزار ہونا ] اَكْبَرُ [ زیادہ بڑا ہے ] مِنْ مَّقْتِكُمْ [ تمہارے بیزار ہونے سے ] اَنْفُسَكُمْ [ اپنی جانوں سے ] اِذْ [ (یہ اس لئے کہ ) جب ] تُدْعَوْنَ [ تم لوگوں کو بلایا جاتا تھا ] اِلَى الْاِيْمَانِ [ ایمان لانے کی طرف ] فَتَكْفُرُوْنَ [توتم لوگ انکار کرتے تھے ]



نوٹ ۔1: دو بار موت سے ایک تو وہ حالت موت مراد ہے جو اس دنیا میں وجود پذیر ہونے سے پہلے انسان پر طاری ہوتی ہے اور دوسری وہ موت ہے جس سے ہر زندہ کو لازما دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ اسی طرح زندگی ایک تو وہ ہے جو اس دنیا میں حاصل ہوتی ہے اور دوسری وہ جو قیامت میں حاصل ہوگی ۔ ( تدبر قرآن )

قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ    11؀
قَالُوْا [ وہ لوگ کہیں گے ] رَبَّنَآ [ اے ہمارے رب ] اَمَتَّنَا [ تو نے موت دی ہم کو ] اثْنَتَيْنِ [ دو (موتیں ) ] وَاَحْيَيْتَنَا [ اور تو نے زندگی دی ہم کو ] اثْنَتَيْنِ [ دو (زندگیاں ) ] فَاعْتَرَفْنَا [ پس ہم نے اعتراف کیا] بِذُنُوْبِنَا [ اپنے گناہوں کا ] فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ [ تو کیا نکلنے کی طرف ] مِّنْ سَبِيْلٍ [ کوئی بھی راستہ ہے ]

ذٰلِكُمْ بِاَنَّهٗٓ اِذَا دُعِيَ اللّٰهُ وَحْدَهٗ كَفَرْتُمْ ۚ وَاِنْ يُّشْرَكْ بِهٖ تُؤْمِنُوْا ۭ فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيْرِ   12؀
ذٰلِكُمْ بِاَنَّهٗٓ [ یہ بسبب اس حقیقت کے کہ ] اِذَا [ جب کبھی ] دُعِيَ اللّٰهُ [ پکارا گیا اللہ کو ] وَحْدَهٗ [ بلحاظ اس کے واحد ہونے کے ] كَفَرْتُمْ ۚ [ تو تم لوگوں نے انکار کیا ] وَاِنْ يُّشْرَكْ بِهٖ [ اور اگر شرک کیا جاتا تھا اس کے ساتھ ] تُؤْمِنُوْا ۭ [ تو تم لوگ ایمان لاتے ] فَالْحُكْمُ [ تو (اب ) حکم دینا ] لِلّٰهِ [ اللہ ہی کے لئے ہے ] الْعَلِيِّ [ جو بلند ہے] الْكَبِيْرِ [ جو بڑا ہے]

هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ رِزْقًا ۭ وَمَا يَتَذَكَّرُ اِلَّا مَنْ يُّنِيْبُ    13؀
هُوَ [ وہ ] الَّذِيْ [ وہ ہے جو ] يُرِيْكُمْ [ دکھاتا ہے تم لوگوں کو ] اٰيٰتِهٖ [ اپنی نشانیاں ] وَيُنَزِّلُ لَكُمْ [ اور وہ بتدریج اتارتا رہتا ہے تمہارے لئے ] مِّنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے ] رِزْقًا ۭ [ کچھ رزق ] وَمَا يَتَذَكَّرُ [ اور نصیحت حاصل نہیں کرتا ] اِلَّا مَنْ [ مگر وہ جو ] يُّنِيْبُ [ متوجہ ہوتا ہے ]

فَادْعُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ   14؀
فَادْعُوا اللّٰهَ [ پس تم لوگ پکارو اللہ کو ] مُخْلِصِيْنَ [ ملاوٹ سے پاک کرنے والے ہوتے ہوئے] لَهُ الدِّيْنَ [ اس کے لئے نظام حیات کو ] وَلَوْ كَرِهَ [ اور اگرچہ کراہیت کریں ] الْكٰفِرُوْنَ [ کافر لوگ ]

رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ ۚ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ    15۝ۙ
رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ [ (وہ) درجات کا بلند کرنے والا ہے ] ذُو الْعَرْشِ ۚ [ جو عرش والا ہے ] يُلْقِي [ وہ ڈالتا ( یعنی اتارتا ) ہے ] الرُّوْحَ [ (دین وایمان کی ) روح کو] مِنْ اَمْرِهٖ [ اپنے حکم سے ] عَلٰي مَنْ [ اس پر جس پر ] يَّشَاۗءُ [ وہ چاہتا ہے] مِنْ عِبَادِهٖ [ اپنے بندوں میں سے] لِيُنْذِرَ [ تاکہ وہ خبردار کرے (لوگوں کو)] يَوْمَ التَّلَاقِ [ ملاقات کرنے کے دن سے ]



ترکیب: (آیت ۔ 15) فعیل کے وزن پر آنے والی اکثر صفات میں اسم الفاعل کا مفہوم ہوتا ہے جبکہ کچھ صفات میں اسم المفعول کا مفہوم ہوتا ہے جیسے رجیم وغیرہ ۔ کبھی یہ الفاظ اسم الفاعل یا اسم المفعول کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی مجرد صفت کے مفہوم میں ۔ عام طور پر عبارت کے سیاق وسباق سے اس کی تمیز کرلی جاتی ہے لیکن یہاں رفیع الدرجت کے دونوں طرح ترجمے ممکن ہیں اور کئے بھی گئے ہیں ۔ رفیع کو اگر اسم الفاعل مانیں تو ترجمہ ہوگا درجات کا بلند کرنے والا اور اگر رفیع مجرد صفت مانیں تو ترجمہ ہوگا درجات کا بلند یعنی بلند درجات والا ۔ دونوں ترجمے درست ہیں ۔ یہاں پر الروح حضرت جبرئیل امین کے لئے نہیں بلکہ وحی کے لئے آیا ہے ۔ (دیکھیں آیت ۔ 2:87، مادہ ، ’’ روح ‘‘ ) التلاق دراصل لقی سے باب تفاعل کا مصدر تلاق ہے۔ اس پر لام تعریف داخل ہوا تو قاف کی تنوین ختم ہوگئی ۔



نوٹ ۔ 1: آیت ۔15۔ میں الروح سے مراد وحی ہے ۔ وحی کو روح سے تعبیر کرنے کی وجہ واضح ہے کہ جس طرح روح سے جسم کو زندگی حاصل ہوتی ہے اسی طرح وحی سے انسان کی عقل اور اس کے دل کو زندگی ، حرارت اور روشنی حاصل ہوتی ہے ۔ حضرت مسیح نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا بلکہ اس کلمہ سے جیتا ہے جو خداوندکی طرف سے آتا ہے ۔ اس وحی کی کیفیت وماہیت ہرشخص نہیں سمجھ سکتا ۔ اس کو وہی سمجھتا ہے جو اس کو نازل کرتا ہے یا پھر وہ سمجھتا ہے جس کو اس کا تجربہ ہوتا ہے ۔ اس سلسلہ کلام میں یہ بات لانے سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ خدا کی بارگاہ تک کسی جن وبشر کی رسائی نہیں ہے کہ وہ اس کے غیب سے واقف ہوسکے ۔ اس کی مرضیات جاننے کا واحد ذریعہ صرف وہ وحی ہے جو وہ اپنے بندوں میں سے اس پر نازل فرماتا ہے جس کو وہ کار خاص (یعنی نبوت ورسالت ) کے لئے انتخاب فرماتا ہے ۔ اس لئے مشرکین نے اپنے زعم کے مطابق غیب کے جاننے کے جو ذرائع ایجاد کررکھے ہیں وہ بالکل لایعنی ہیں ۔ اللہ کی پسند وناپسند جاننے کا ذریعہ بس وہ وحی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر نازل فرماتا ہے۔ (تدبر قرآن )

يَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَ ڬ لَا يَخْـفٰى عَلَي اللّٰهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ ۭ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ    16؀
يَوْمَ هُمْ [ جس دن سب لوگ ] بٰرِزُوْنَ ڬ [ بےنقاب ہونے والے ہیں ] لَا يَخْـفٰى [ پوشیدہ نہیں ہوگی ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] مِنْهُمْ [ ان لوگوں میں سے ] شَيْءٌ ۭ [ کوئی چیز ] لِمَنِ [کس کے لئے ہے ] الْمُلْكُ [ بادشاہت ] الْيَوْمَ ۭ [ اس دن ] لِلّٰهِ [ اللہ کے لئے ہے ] الْوَاحِدِ [ جو واحد ہے ] الْقَهَّارِ [ جو زبردست ہے ]



 (آیت ۔ 16) لَا يَخْـفٰى کا فاعل شیء ہے ۔ سادہ جملہ اس طرح ہوتا ۔ لَا يَخْـفٰى شَيْءٌ ۭ مِنْهُمْ عَلَي اللّٰهِ ۔

اَلْيَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ ۭ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ   17؀
اَلْيَوْمَ تُجْزٰى [ اس دن بدلہ دیا جائے گا ] كُلُّ نَفْسٍۢ [ ہر جان کو ] بِمَا كَسَبَتْ ۭ [وہ جو اس نے کمائی کی ] لَا ظُلْمَ [ کسی طرح سے کوئی بھی ظلم نہیں ہوگا ] الْيَوْمَ ۭ [ اس دن ] اِنَّ اللّٰهَ [ یقینا اللہ ] سَرِيْعُ الْحِسَابِ [ حساب لینے کا تیز ہے ]

وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَـنَاجِرِ كٰظِمِيْنَ ڛ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ حَمِيْمٍ وَّلَا شَفِيْعٍ يُّــطَاعُ    18۝ۭ
وَاَنْذِرْهُمْ [ اور آپ خبردار کردیں ان لوگوں کو ] يَوْمَ الْاٰزِفَةِ [ قریب ہونے والی (قیامت ) کے دن سے ] اِذِ الْقُلُوْبُ [ جب دل ] لَدَى الْحَـنَاجِرِ [ گلوں کے قریب ہوں گے ] كٰظِمِيْنَ ڛ [ غم وغصہ پینے والے ہوتے ہوئے ] مَا لِلظّٰلِمِيْنَ [ نہیں ہوگا ظلم کرنے والوں کے لئے] مِنْ حَمِيْمٍ [ کوئی بھی ایسا گرم جوش دوست ]وَّلَا شَفِيْعٍ [ اور نہ کوئی بھی ایسا سفارش کرنے والا ] يُّــطَاعُ [ جس کی تابعداری کی جاتی ہو ]



ء ز ف : (س) ازفا ۔ قریب ہونا ۔ اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ [ قریب ہوئی قریب ہونے والی ]53:57 ۔ ازفۃ ۔ قریب ہونے والی ۔ مراد ہے قیامت ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 18۔

ل د ی : فعل استعمال نہیں ہوتا ۔ لدی ۔ لدن کی طرح یہ بھی ظرف ہے اور دونوں قریب المعنی ہیں ۔ اردو میں عام طور پر دونوں کا ترجمہ ’’ پاس ‘‘ کردیتے ہیں ۔ جیسے لدنا (ہمارے پاس ) ۔ لدینا (ہمارے پاس) لیکن لدن میں کسی چیز کا کسی کے قبضہ یا تصرف میں ہونے کا مفہوم ہوتا ہے ۔ جبکہ لدی میں کسی چیز کا کسی کے قریب یا نزدیک ہونا کا مفہوم ہوتا ہے ۔ آیت زیرمطالعہ ۔ 18۔



(آیت ۔ 18) القلوب مبتدا ہے اور لدی الحناجر اس کی خبر ہے جبکہ کاظمین حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے ۔ لیکن یہ قلوب کا حال نہیں ہے ورنہ کاظمۃ آتا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ اصھاب القلوب کا حال ہے ۔

يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ    19؀
يَعْلَمُ [ وہ جانتا ہے] خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ [ آنکھوں کی خیانت کرنے والی (چوری) کو ] وَمَا [ اور اس کو جو] تُخْفِي الصُّدُوْرُ [ چھپاتے ہیں سینے]

وَاللّٰهُ يَـقْضِيْ بِالْحَقِّ ۭ وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَـقْضُوْنَ بِشَيْءٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ    20؀ۧ
وَاللّٰهُ يَـقْضِيْ [ اور اللہ فیصلہ کرے گا ] بِالْحَقِّ ۭ [ حق کے ساتھ ] وَالَّذِيْنَ [ اور جن لوگوں کو ] يَدْعُوْنَ [ یہ لوگ پکارتے ہیں ] مِنْ دُوْنِهٖ [ اس کے علاوہ ] لَا يَـقْضُوْنَ [وہ لوگ فیصلہ نہیں کرتے ] بِشَيْءٍ ۭ [ کسی چیز کا ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] هُوَ السَّمِيْعُ [ ہی سننے والا ہے ] الْبَصِيْرُ [ دیکھنے والا ہے ]



 (آیت ۔ 20) ۔ یدعون کا فاعل اس میں شامل ہم کی ضمیر ہے اور الذین اس کا مفعول مقدم ہے۔

اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ كَانُوْا مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ كَانُوْا هُمْ اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّاٰثَارًا فِي الْاَرْضِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ ۭ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ    21؀
اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا [ اور کیا یہ لوگ چلے پھرے نہیں ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں] فَيَنْظُرُوْا [ نتیجتا وہ دیکھتے ] كَيْفَ كَانَ [ کیسا تھا ] [عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کا انجام جو ] كَانُوْا مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ [ تھے ان سے پہلے] كَانُوْا هُمْ [ وہ لوگ تھے ] اَشَدَّ مِنْهُمْ [ ان لوگوں سے زیادہ شدید ] قُوَّةً [ بلحاظ قوت کے ] وَّاٰثَارًا [ اور بلحاظ نشانات (چھوڑنے ) کے ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ [ پھر پکڑا ان کو اللہ نے ] بِذُنُوْبِهِمْ ۭ [ بسبب ان کے گناہوں کے ] وَمَا كَانَ لَهُمْ [ اور نہیں ہے ان کے لئے ] مِّنَ اللّٰهِ [ اللہ سے (ان کو ) ] مِنْ وَّاقٍ [ کوئی بھی بچانے والا ]



نوٹ ۔ 1: اثار فی الارض سے مراد تمدنی تعمیراتی ترقیوں کے آثار ہیں (جنھوں آثار قدیمہ کہا جاتا ہے ) دنیا میں انہی آثار کو ہمیشہ قوموں کی عظمت وشوکت کی دلیل سمجھا گیا ہے ۔ لیکن قرآن سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اگر قوم ایمان سے عاری ہو تو یہ آثار اس کے زوال کی نشانی ہیں اور بالآخر یہی ان کے قومی وجود کے لئے مقبروں کی صورت میں تبدیل ہوکر رہتے ہیں ۔ (تدبر قرآن )

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانَتْ تَّاْتِيْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَكَفَرُوْا فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ ۭ اِنَّهٗ قَوِيٌّ شَدِيْدُ الْعِقَابِ   22؀
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ [یہ اس لئے کہ ] كَانَتْ تَّاْتِيْهِمْ [ آتے تھے ان کے پاس ] رُسُلُهُمْ [ان کے رسول ] بِالْبَيِّنٰتِ [ واضح (نشانیوں ) کے ساتھ ] فَكَفَرُوْا [ تو انھوں نے انکار کیا ] فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ ۭ [ پھر پکڑا ان کو اللہ نے ] اِنَّهٗ قَوِيٌّ [ بیشک وہ قوی ہے ] شَدِيْدُ الْعِقَابِ [ سزا دینے کا سخت ہے ]

وَلَـقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ   23؀ۙ
وَلَـقَدْ اَرْسَلْنَا [ اور بیشک ہم بھیج چکے ] مُوْسٰى [ موسیٰ کو ] بِاٰيٰتِنَا [ اپنی نشانیوں کیساتھ ] وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ [ اور واضح دلیل کے ساتھ ]

اِلٰى فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ   24؀
اِلٰى فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَقَارُوْنَ [ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف ] فَقَالُوْا [ تو انھوں نے کہا ] [سٰحِرٌ كَذَّابٌ: جادوگر ہے پکا جھوٹا ہے]

فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوْٓا اَبْنَاۗءَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ وَاسْتَحْيُوْا نِسَاۗءَهُمْ ۭ وَمَا كَيْدُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ   25؀
[فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ: تو جب وہ (موسی) آئے ان کے پاس] [بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا : ہمارے پاس سے حق کے ساتھ] [قَالُوا : تو انہوں نے کہا] اقْتُلُوْٓا [ تم لوگ قتل کرو ] اَبْنَاۗءَ الَّذِيْنَ [ ان کے بیٹوں کو جو ] اٰمَنُوْا مَعَهٗ [ ایمان لائے ان کے ساتھ ] وَاسْتَحْيُوْا [ اور زندہ رکھو ] نِسَاۗءَهُمْ ۭ [ ان کی عورتوں کو ] وَمَا كَيْدُ الْكٰفِرِيْنَ [ اور نہیں ہے کافروں کی چالبازی ] اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ [ مگر بھٹکنے میں ]

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْيَدْعُ رَبَّهٗ ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْهِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَ    26؀
وَقَالَ فِرْعَوْنُ [ اور کہا فرعون نے ] ذَرُوْنِيْٓ [ تم لوگ چھوڑو مجھ کو ] اَقْتُلْ مُوْسٰى [ تو میں قتل کروں موسیٰ کو] وَلْيَدْعُ [ اور چاہیے کہ وہ پکارلے ] رَبَّهٗ ۚ [ اپنے رب کو ] اِنِّىْٓ اَخَافُ [ بیشک میں ڈرتا ہوں ] اَنْ يُّبَدِّلَ [ کہ وہ تبدیل کردے]دِيْنَكُمْ [ تمہارے نظام حیات کو ] اَوْ اَنْ يُّظْهِرَ [ یایہ کہ وہ ظاہر کرے ] فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَ [ زمین میں نظم کی خرابی کو ]

وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنِّىْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ    27؀ۧ
وَقَالَ مُوْسٰٓى [ اور کہا موسیٰ نے ] اِنِّىْ عُذْتُ [ کہ میں نے پناہ لی ] بِرَبِّيْ [ اپنے رب کی ] وَرَبِّكُمْ [ اور تمہارے رب کی ] مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ [ ہر ایسے تکبر کرنے والے سے جو ] لَّا يُؤْمِنُ [ایمان نہیں رکھتا ] بِيَوْمِ الْحِسَابِ [ حساب کے دن پر ]

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ڰ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ اِيْمَانَهٗٓ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَقَدْ جَاۗءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ۭ وَاِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ ۚ وَاِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ    28؀
وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ڰ [ اور کہا ایک مومن مرد نے جو ] مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ [ آل فرعون میں سے تھا ]يَكْتُمُ [ وہ چھپاتا تھا ] اِيْمَانَهٗٓ [ اپنے ایمان کو ] اَتَقْتُلُوْنَ [کیا تم لوگ قتل کروگے ] رَجُلًا [ ایک شخص کو ] اَنْ يَّقُوْلَ [کہ وہ کہتا ہے ] رَبِّيَ [ میرا رب ] اللّٰهُ [ اللہ ہے ] وَ [حالانکہ ] قَدْ جَاۗءَكُمْ [ وہ آیا ہے تمہارے پاس ] بِالْبَيِّنٰتِ [ روشن (نشانیوں) کے ساتھ ] مِنْ رَّبِّكُمْ ۭ [ تمہارے رب (کی طرف ) سے ] وَاِنْ يَّكُ [ اور اگر وہ ہوگا ] كَاذِبًا [ جھوٹا] فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ ۚ [تو اس پر ہی ہے اس کا جھوٹ] وَاِنْ يَّكُ [ اور اگر وہ ہوگا ] صَادِقًا [ سچا ] يُّصِبْكُمْ [ تو آلگے گا تم کو ] بَعْضُ الَّذِيْ [ اس کا کچھ جو ] يَعِدُكُمْ ۭ [ وہ وعدہ کرتا ہے تم سے ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] لَا يَهْدِيْ [ رہنمائی نہیں کرتا ] مَنْ هُوَ [ اس کی جو ہے ] مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ حد سے بڑھنے والا پکا جھوٹا ]



نوٹ۔ 1: یہاں سے (آیت ۔ 28 تا 46) ایک بندہ مومن کی بات شروع رہی ہے جو تھے تو شاہی خاندان سے لیکن حق پسند اور خدا ترس آدمی تھے ۔ مدین سے واپسی کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب نبوت کا اعلان کیا تو یہ ان کی دعوت پر ایمان لائے لیکن اپنے ایمان کو انھوں نے ایک عرصہ تک پوشیدہ رکھا ۔ انھوں نے غالبا یہ محسوس کیا کہ اس دور میں ایمان کو پوشیدہ رکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی دعوت کی جو خدمت وہ کرسکتے ہیں وہ خدمت اعلانیہ نہیں کرسکتے ۔ (تدبر قرآن) یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ گفتگو کے آغاز میں انھوں نے کھل کر یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پرایمان لے آئے ہیں بلکہ ابتداء وہ اسی طرح کلام کرتے رہے کہ وہ بھی فرعون ہی کے گروہ کے ایک آدمی ہیں اور محض اپنی قوم کی بھلائی کے لئے بات کررہے ہیں مگر جب فرعون اور اس کے درباری کسی طرح راہ راست پر آتے نظر نہ آئے تو آخر میں انھوں نے اپنے ایمان کا راز فاش کردیا جیسا کہ پانچویں رکوع میں ان کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے ۔ (تفہیم القرآن )

يٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظٰهِرِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ فَمَنْ يَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ اِنْ جَاۗءَنَا ۭ قَالَ فِرْعَوْنُ مَآ اُرِيْكُمْ اِلَّا مَآ اَرٰى وَمَآ اَهْدِيْكُمْ اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَادِ    29؀
يٰقَوْمِ [اے میری قوم] لَكُمُ [ تمہاری ہی ہے ] الْمُلْكُ [ بادشاہت ] الْيَوْمَ [ آج کے دن ] ظٰهِرِيْنَ [ غالب ہونے والے ہوتے ہوئے ] فِي الْاَرْضِ ۡ [ زمین میں ] فَمَنْ يَّنْصُرُنَا [ تو کون مدد کرے گا ہماری ] مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ [ اللہ کی سختی سے ] اِنْ جَاۗءَنَا ۭ [ اگر وہ آئی ہمارے پاس ] قَالَ فِرْعَوْنُ [ فرعون نے کہا ] مَآ اُرِيْكُمْ [ میں نہیں سمجھا تاتم لوگوں کو ] اِلَّا مَآ [ سوائے اس کے جو ] اَرٰى [ میں سمجھتا ہوں ] وَمَآ اَهْدِيْكُمْ [ اور میں رہنمائی نہیں کرتا تمہاری ] اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَادِ [ مگر بھلائی کے راستے کی ]

وَقَالَ الَّذِيْٓ اٰمَنَ يٰقَوْمِ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ مِّثْلَ يَوْمِ الْاَحْزَابِ    30؀ۙ
وَقَالَ الَّذِيْٓ اٰمَنَ [ اور کہا اس نے جو ایمان لایا ] يٰقَوْمِ [اے میری قوم ] اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ [ کہ میں ڈرتا ہوں تم پر ] مِّثْلَ يَوْمِ الْاَحْزَابِ [ مضبوط جتھوں کے دن کی مانند سے ]

مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ وَالَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ۭ وَمَا اللّٰهُ يُرِيْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ   31؀
مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ [ نوح کی قوم کی حالت کی مانند ] وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ [ اور عاد اور ثمود ] وَالَّذِيْنَ [ اور ان کی (حالت کی مانند) جو ] مِنْۢ بَعْدِهِمْ ۭ [ ان کے بعد ہوئے ] وَمَا اللّٰهُ يُرِيْدُ [ اور اللہ ارادہ نہیں کرتا ] ظُلْمًا [ کسی ظلم کا ] لِّلْعِبَادِ [بندوں کے لئے ]

وَيٰقَوْمِ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ   32؀ۙ
وَيٰقَوْمِ [اور اے میری قوم ] اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ [ بیشک میں ڈرتا ہوں تم پر ] يَوْمَ التَّنَادِ [ چیخ پکار کے دن سے]

يَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِيْنَ ۚ مَا لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ ۚ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ   33؀
يَوْمَ تُوَلُّوْنَ [ جس دن تم لوگ بھاگ کھڑے ہوگے ] مُدْبِرِيْنَ ۚ [ پیٹھ دینے والے ہوتے ہوئے ] مَا لَكُمْ [ تمہارے لئے نہیں ہوگا ] مِّنَ اللّٰهِ [ اللہ سے ] مِنْ عَاصِمٍ ۚ [ کوئی بھی بچانے والا ] وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ [ اور جس کو بھٹکا دیتا ہے اللہ ] فَمَا لَهٗ [ تو نہیں ہوتا اس کے لئے ] مِنْ هَادٍ [ کوئی بھی ہدایت دینے والا ]

وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّمَّا جَاۗءَكُمْ بِهٖ ۭ حَتّىٰٓ اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا ۭ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُۨ   34؀ښ
وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ يُوْسُفُ [ اور بیشک آچکے ہیں تمہارے پاس یوسف ] مِنْ قَبْلُ [ اس سے پہلے ] بِالْبَيِّنٰتِ [ کھلی (نشانیوں ) کے ساتھ ] فَمَا زِلْتُمْ [ پھر تم لوگ ہمیشہ رہے ] فِيْ شَكٍّ [ ایک شک میں ] مِّمَّا [اس سے جو ] جَاۗءَكُمْ بِهٖ ۭ [ وہ لائے تمہارے پاس ] حَتّىٰٓ اِذَا هَلَكَ [ یہاں تک کہ جب وہ ہلاک ہوئے ] قُلْتُمْ [ تو تم لوگوں نے کہا ] [لَنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ: ہر گز نہیں بھیجے گا اللہ ] مِنْۢ بَعْدِهٖ [ ان کے بعد ] رَسُوْلًا ۭ [ کوئی رسول ] كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ [ اس طرح بھٹکاتا ہے اللہ ] مَنْ هُوَ [ اس کو جو ہے ] مُسْرِفٌ مُّرْتَابُۨ [ حد سے بڑھنے والا شبہ میں پڑنے والا ]

الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ ۭ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ    35؀
الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ [ جو لوگ کٹ حجتی کرتے ہیں ] فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی آیتوں میں ] بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ [ کسی ایسی دلیل کے بغیر ] اَتٰىهُمْ ۭ [ جو پہنچی ان کو ] كَبُرَ [ (یہ بات) بڑی ہے ] مَقْتًا [ بلحاظ بیزاری کے ] عِنْدَ اللّٰهِ [ اللہ کے نزدیک ]وَعِنْدَ الَّذِيْنَ [اور ان کے نزدیک جو ] اٰمَنُوْا ۭ [ایمان لائے ] كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ [ اس طرح ٹھپہ لگا دیتا ہے اللہ ] عَلٰي كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ کسی بھی شبہ کرنے والے تکبر کرنے والے کے دل کے کل پر ]

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰهَامٰنُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ   36؀ۙ
وَقَالَ فِرْعَوْنُ [ اور فرعون نے کہا ] يٰهَامٰنُ [اے ہامان ] ابْنِ لِيْ [ تو تعمیر کرمیرے لئے ] صَرْحًا [ ایک بلند عمارت] لَّعَلِّيْٓ اَبْلُغُ [ شاید میں پہنچوں ] الْاَسْبَابَ [ اس سیڑھی تک ]

اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰٓى اِلٰهِ مُوْسٰى وَاِنِّىْ لَاَظُنُّهٗ كَاذِبًا ۭ وَكَذٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيْلِ ۭ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِيْ تَبَابٍ   37؀ۧ
اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ [ جو آسمانوں کی سیڑھی ہے ] فَاَطَّلِعَ [ نتیجتا میں جھانکوں ] اِلٰٓى اِلٰهِ مُوْسٰى [ موسیٰ کے الہ کی طرف ] وَاِنِّىْ لَاَظُنُّهٗ [ اور وہ بیشک میں یقینا خیال کرتا ہوں اس کو ] كَاذِبًا ۭ [ جھوٹا ] وَكَذٰلِكَ زُيِّنَ [ اور اس طرح خوشنما کیا گیا ]لِفِرْعَوْنَ [ فرعون کے لئے ] سُوْۗءُ عَمَلِهٖ [ اس کے عمل کی برائی کو ] وَصُدَّ [ اور وہ روک دیا گیا ] عَنِ السَّبِيْلِ ۭ [راستے سے] وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ [ اور نہیں تھی فرعون کی چالبازی ] اِلَّا فِيْ تَبَابٍ [ مگر ہلاکت میں]

وَقَالَ الَّذِيْٓ اٰمَنَ يٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَهْدِكُمْ سَبِيْلَ الرَّشَادِ    38؀ۚ
وَقَالَ الَّذِيْٓ اٰمَنَ [ اور کہا اس نے جو ایمان لایا ] يٰقَوْمِ [اے میری قوم ] اتَّبِعُوْنِ [ تم لوگ پیروی کرو میری ] اَهْدِكُمْ [ تو میں رہنمائی کروں گا تمہاری ] سَبِيْلَ الرَّشَادِ [ بھلائی کے راستے کی ]

يٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ ۡ وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ هِىَ دَارُ الْقَرَارِ   39؀
يٰقَوْمِ [اے میری قوم] اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ ۡ [ یہ دنیوی زندگی ایک سامان ہے (برتنے کا ) ] وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ [ اور یقینا آخرت ] هِىَ دَارُ الْقَرَارِ [ ہی ٹھہرنے کا گھر ہے ]

مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ   40؀
مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً [ جس نے عمل کیا برائی کا ] فَلَا يُجْزٰٓى [ تو اس کو بدلہ نہیں دیا جائے گا ] اِلَّا مِثْلَهَا ۚ [ مگر اس کے جیسا ] [وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا : اور جس نے عمل کیا نیکی کا] مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى [ مرد یا عورت میں سے] وَهُوَ [ اس حال میں کہ وہ ] مُؤْمِنٌ [ مومن ہو] فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ [ تو یہ لوگ داخل ہوں گے ] الْجَنَّةَ [ جنت میں ] يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا [ ان کو رزق دیا جائے گا اس میں ] بِغَيْرِ حِسَابٍ [ کسی حساب کے بغیر ]

وَيٰقَوْمِ مَالِيْٓ اَدْعُوْكُمْ اِلَى النَّجٰوةِ وَتَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَى النَّارِ   41؀ۭ
وَيٰقَوْمِ مَالِيْٓ [ اور میری قوم مجھے کیا ] اَدْعُوْكُمْ [میں تو بلاتا ہوں تم کو ] اِلَى النَّجٰوةِ [ نجات کی طرف ] وَتَدْعُوْنَنِيْٓ [ اس حال میں کہ تم لوگ بلاتے ہو مجھ کو ] اِلَى النَّارِ [ آگ کی طرف]

تَدْعُوْنَنِيْ لِاَكْفُرَ بِاللّٰهِ وَاُشْرِكَ بِهٖ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ ۡ وَّاَنَا اَدْعُوْكُمْ اِلَى الْعَزِيْزِ الْغَفَّارِ   42؀
تَدْعُوْنَنِيْ [تم لوگ بلاتے ہو مجھ کو ] لِاَكْفُرَ [ کہ میں ناشکری کروں ] بِاللّٰهِ [ اللہ کی ] وَاُشْرِكَ بِهٖ [ اور شریک کروں اس کے ساتھ ] مَا [ اس کو ] لَيْسَ لِيْ [ نہیں ہے میرے لئے ] بِهٖ [ جس کے بارے میں ] عِلْمٌ ۡ [ کوئی علم ] وَّاَنَا اَدْعُوْكُمْ [ حالانکہ میں بلاتا ہوں تم کو ] اِلَى الْعَزِيْزِ الْغَفَّارِ [ بالا دست بہت بخشنے والے کی طرف ]

لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَيْهِ لَيْسَ لَهٗ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْاٰخِرَةِ وَاَنَّ مَرَدَّنَآ اِلَى اللّٰهِ وَاَنَّ الْمُسْرِفِيْنَ هُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ   43؀
لَا جَرَمَ [ کوئی شک نہیں ] اَنَّمَا [ کہ وہ ] تَدْعُوْنَنِيْٓ [ تم لوگ بلاتے ہومجھ کو ]اِلَيْهِ [ جس کی طرف ] لَيْسَ لَهٗ [ نہیں ہے اس کے لئے ] دَعْوَةٌ [ کوئی دعوت ]فِي الدُّنْيَا [ دنیا میں ] وَلَا فِي الْاٰخِرَةِ [ اور نہ آخرت میں ] وَاَنَّ مَرَدَّنَآ [ اور یہ کہ ہماری لوٹانے کی جگہ ] اِلَى اللّٰهِ [ اللہ کی طرف ہے ] [وَاَنَّ الْمُسْرِفِيْنَ: اور یہ کہ حد سے بڑھنے والے] [هُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ [ ہی آگ والے ہیں ]

فَسَتَذْكُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَكُمْ ۭ وَاُفَوِّضُ اَمْرِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ    44؀
فَسَتَذْكُرُوْنَ [ تو تم لوگ یاد کروگے ] مَآ اَقُوْلُ [ اس کو جو میں کہتا ہوں ] لَكُمْ ۭ [ تم سے ] وَاُفَوِّضُ [اور میں سپرد کرتا ہوں ] اَمْرِيْٓ [ اپنا معاملہ ] اِلَى اللّٰهِ ۭ [ اللہ کی طرف ] اِنَّ اللّٰهَ بَصِيْرٌۢ [ بیشک اللہ دیکھنے والا ہے ] بِالْعِبَادِ [بندوں کو ]



ف و ض : ثلاثی مجرد سے فعل نہیں استعمال ہوتا ۔ (تفعیل ) تفویضا ۔ کوئی معاملہ کسی کے سپرد کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 44۔

فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْۗءُ الْعَذَابِ   45؀ۚ
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ [ تو بچایا اس کو اللہ نے ] سَيِّاٰتِ مَا [ اس کی برائیوں سے جو ] مَكَرُوْا [ انہوں نے خفیہ تدبیر کی ] وَحَاقَ [ اور گھیرے میں لیا ] بِاٰلِ فِرْعَوْنَ [ فرعون کے پیروکاروں کو ] سُوْۗءُ الْعَذَابِ [ عذاب کی برائی نے]

اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّا ۚ وَيَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ    46؀
اَلنَّارُ [ جو آگ ہے ] يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا [ وہ لوگ پیش کیے جاتے ہیں اس پر ] غُدُوًّا وَّعَشِـيًّا ۚ [ صبح وشام ] وَيَوْمَ [ اور جس دن ] تَـقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ [ قائم ہوگی وہ گھڑی (قیامت ) ] اَدْخِلُوْٓا [(کہاجائے گا) داخل کرو] اٰلَ فِرْعَوْنَ [ فرعونیوں کو ] اَشَدَّ الْعَذَابِ [عذاب کے زیادہ شدید میں ]



نوٹ ۔ 1: آیت ۔46 اس عذاب برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذاب قبر کے عنوان سے آیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں یہاں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرما رہا ہے ۔ ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت آنے سے پہلے ال فرعون کو دیا جارہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انھیں صبح وشام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہول کھاتے رہتے ہیں ۔ پھر جب قیامت آجائے گی تو انھیں اسی دوزخ میں جھونک دیا جائے گا اور یہ معاملہ صرف فرعونیوں کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔ تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے کر قیامت تک وہ انجام بد نظر آتارہتا ہے جو ان کا انتظار کررہا ہے اور تمام نیک لوگوں کو وہ نیک انجام دکھایا جاتا ہے جو اللہ نے ان کیلئے مہیا کر رکھا ہے ۔ رسول اللہ
نے فرمایا تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح وشام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے، خواہ وہ جنتی ہو یا دوزخی ۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اٹھا کر اپنے حضور بلائے گا ۔ (تفہیم القرآن )

وَاِذْ يَتَـحَاۗجُّوْنَ فِي النَّارِ فَيَقُوْلُ الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِيْبًا مِّنَ النَّارِ    47؀
وَاِذْ يَتَـحَاۗجُّوْنَ [ اور جب وہ لوگ آپس میں تکرار کریں گے] فِي النَّارِ [ آگ میں ] فَيَقُوْلُ الضُّعَفٰۗؤُا [ تو کہیں گے کمزور لوگ ] لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا [ ان لوگوں سے جو بڑے بنے ] اِنَّا كُنَّا [ کہ ہم (تو) تھے ] لَكُمْ تَبَعًا [ تمہارے تابع ] فَهَلْ اَنْتُمْ [ تو کیا تم لوگ ] مُّغْنُوْنَ عَنَّا [ بےنیاز کرنے والے ہو ہم کو ] نَصِيْبًا [ کسی حصے سے ] مِّنَ النَّارِ [ آگ میں سے]

قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُلٌّ فِيْهَآ ۙ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ   48؀
قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا [ کہیں گے وہ لوگ جو بڑے بنے ] اِنَّا كُلٌّ فِيْهَآ ۙ [ کہ ہم سب کے سب اس میں ہیں ] اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَكَمَ [ بیشک اللہ فیصلہ کرچکا ہے ]بَيْنَ الْعِبَادِ [بندوں کے درمیان ]

وَقَالَ الَّذِيْنَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ    49؀
وَقَالَ الَّذِيْنَ فِي النَّارِ [ اور کہیں گے وہ لوگ جو آگ میں ہوں گے ] لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ [ جہنم کے داروغوں سے ] ادْعُوْا رَبَّكُمْ [ تم لوگ پکارو اپنے رب کو ] يُخَفِّفْ عَنَّا [ وہ ہلکا کردے ہم سے ] يَوْمًا [ کسی دن ] مِّنَ الْعَذَابِ [ اس عذاب میں سے ]

قَالُوْٓا اَوَ لَمْ تَكُ تَاْتِيْكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ ۭ قَالُوْا بَلٰى ۭ قَالُوْا فَادْعُوْا ۚ وَمَا دُعٰۗـؤُا الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ   50؀ۧ
قَالُوْٓا [ وہ کہیں گے ] اَوَ لَمْ تَكُ تَاْتِيْكُمْ [ کیا نہیں آیا کرتے تھے تمہارے پاس ]رُسُلُكُمْ [ تمہارے رسول ] بِالْبَيِّنٰتِ ۭ [ واضح (نشانیوں) کے ساتھ ] قَالُوْا بَلٰى ۭ [ وہ کہیں گے کیوں نہیں ] قَالُوْا فَادْعُوْا ۚ [ (داروغے ) کہیں گے پھر تم لوگ پکارو] وَمَا دُعٰۗـؤُا الْكٰفِرِيْنَ [ اور نہیں ہوتی کافروں کی پکار ] اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ [ مگر بھٹکنے میں ]

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ   51؀ۙ
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا [ بیشک ہم یقینا مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی ] وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ اور ان کی جو ایمان لائے ] فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [ اس دنیوی زندگی میں ] وَيَوْمَ يَقُوْمُ [ اور جس دن کھڑے ہوں گے] الْاَشْهَادُ [ گواہی دینے والے ]



نوٹ ۔ 1: آیت ۔51۔ میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے رسولوں اور مؤمنین کی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی مدد کرے گا ۔ ظاہر ہے کہ یہ مدد مخالفین اور دشمنوں سے مقابلہ کے لئے ہے۔ اکثر انبیاء علیہم السلام کے متعلق تو اس کا وقوع ظاہر ہے ۔ مگر بعض انبیاء علیہم السلام جیسے یحیٰ اور زکریا اور شعیب وغیرہ کو قوم نے شہید کردیا ۔ بعض کو وطن چھوڑکر دوسری جگہ ہجرت کرنا پڑی ۔ ان کے متعلق شبہ ہوسکتا ہے ۔ ابن کثیر نے اس کا جواب دیا ہے کہ اس آیت میں نصرت سے مراد انتصار یعنی دشمنوں سے انتقام لینا ہے ، خواہ ان کی موجودگی میں ان ہی کے ہاتھوں سے ہو یا ان کی وفات کے بعد ۔ یہ معنی تمام انبیاء ومومنین پر بلا کسی استثناء کے صادق ہیں ۔ جن لوگوں نے اپنے انبیاء کو قتل کیا ، وہ لوگ کیسے کیسے عذابوں میں گرفتار کرکے رسوا کئے گئے ۔ اس سے تاریخ لبریز ہے ۔ (معارف القرآن )

اس نصرت کے معنی لازما یہی نہیں ہیں کہ ہر زمانے میں اللہ کے ہر نبی اور اس کے پیروں کوسیاسی غلبہ ہی حاصل ہو ۔ اس غلبہ کی بہت سی صورتیں ہیں جن میں سے ایک سیاسی غلبہ بھی ہے۔ جہاں اس نوعیت کا غلبہ اللہ کے نبیوں کو حاصل نہیں ہوا ، وہاں بھی ان کا اخلاقی تفوق ثابت ہوکر رہا ہے جن قوموں نے ان کی دی ہوئی ہدایت کے خلاف راستہ اختیار کیا وہ آخرکار برباد ہوکر رہیں ۔ جہالت اور گمراہی کے جو فلسفے بھی لوگوں نے گھڑے اور زندگی میں جو بھی غلط اطوار زبردستی رائج کئے گئے وہ سب کچھ مدت تک زور دکھانے کے بعد آخر کار اپنی موت آپ مر گئے۔ مگر جن حقائق کو ہزارہا برس سے اللہ کے نبی صداقت کی حیثیت سے پیش کرتے رہے ہیں وہ آج بھی اٹل ہیں ۔ (تفہیم القرآن ج 4، ص 313)

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظّٰلِمِيْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ   52؀
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ [ جس دن نفع نہیں دے گا ] الظّٰلِمِيْنَ [ ظالموں کو ] مَعْذِرَتُهُمْ [ ان کا معذرت پیش کرنا ] وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ [ اور ان کے لئے لعنت ہے ] وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ [اور ان کے لئے اس ( آخری ) گھر کی برائی ہے ]

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْهُدٰى وَاَوْرَثْنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْكِتٰبَ   53؀ۙ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى [ اور بیشک ہم دے چکے موسیٰ کو ] الْهُدٰى [ وہ ہدایت نامہ ] وَاَوْرَثْنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ اور ہم نے وارث بنایا بنی اسرائیل کو ] الْكِتٰبَ [ اس کتاب کا ]

هُدًى وَّذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ    54؀
هُدًى وَّذِكْرٰى [ہدایت اور نصیحت ہوتے ہوئے] لِاُولِي الْاَلْبَابِ [ خالص عقل والوں کے لئے ]

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاسْتَـغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ    55؀
فَاصْبِرْ [ پس آپ ثابت قدم رہیں ] اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ [ بیشک اللہ کا وعدہ پکا ہے ] وَّاسْتَـغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ [ اور آپ مغفرت چاہیں اپنی (کمال صبر میں) کمی بیشی کی ] وَسَبِّحْ [ اور آپ تسبیح کریں ] بِحَمْدِ رَبِّكَ [ اپنے رب کی حمد کے ساتھ ] بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ [ شام کو اور صبح کو ]



نوٹ ۔2: آیت ۔55 میں جس سیاق وسباق میں لذنبک کا لفظ آیا ہے ۔ اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ذنب سے مراد صبر میں کمی کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خاص طور پر اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر ، نبی کریم اللہ
میں پیدا ہورہی تھی ۔ آپ چاہتے تھے کہ کوئی معجزہ ایسا دیکھا دیا جائے جس سے کفار قائل ہوجائیں اور مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہوجائے یہ خواہش بجائے خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ واستغفار کی حاجت ہوتی ۔ لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اس کے لحاظ سے صبر میں یہ تھوڑی سی کمی بھی اللہ تعالیٰ کو آپ کے مرتبہ سے فروتر نظر آئی ۔ اس لئے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی طرح اپنے مؤقف پر ڈٹے رہو ۔ (تفہیم القرآن )

یہاں ایک تدبیر بھی ارشاد ہوئی ہے اس صبر واستقامت کے حصول کی جو اس وعدے کے ظہور کے لئے لازمی شرط ہے جس کا ذکر آیت ۔ 51۔ میں آیا ہے تدبیر یہ ہے کہ اپنے رب سے استغفار اور اس کی حمد وتسبیح کرتے رہو ۔ یہ بات اس کے محل میں واضح ہوچکی ہے کہ حصول استقامت کے لئے کامیابی کا وسیلہ استغفار اور نماز ہے ۔ اور یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ اس طرح کے خطابات میں نبی کریم
شخصا مخاطب نہیں ہوتے بلکہ امت کے وکیل کی حیثیت سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ جو لوگ خطاب کی اس نوعیت اور اس کی بلاغت سے اچھی طرح آشنا نہیں ہوتے ان کو رسول اللہ کی طرف ذنب کے لفظ کی نسبت سے وحشت ہوتی ہے۔ (تدبیر قرآن )

اِنَّ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ ۙ اِنْ فِيْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِيْهِ ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ   56؀
اِنَّ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ [ بیشک جو لوگ کٹ حجتی کرتے ہیں ] فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی نشانیوں میں ] بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ [ کسی ایسی دلیل کے بغیر جو ] اَتٰىهُمْ ۙ [ پہنچی ان کے پاس ] اِنْ فِيْ صُدُوْرِهِمْ [ نہیں ہے ان کے سینوں میں ] اِلَّا كِبْرٌ [ مگر ایک بڑائی ] مَّا هُمْ بِبَالِغِيْهِ ۚ [ نہیں ہیں وہ اس کو پہنچنے والے ] فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۭ [ تو آپ پناہ مانگیں اللہ کی ] اِنَّهٗ [بیشک وہ ] هُوَ السَّمِيْعُ [ہی سننے والا ہے ] الْبَصِيْرُ [دیکھنے والا ہے ]

لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ   57؀
لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [ یقینا زمین اور آسمانوں کا پیدا کرنا ] اَكْبَرُ [ زیادہ بڑا ہے] مِنْ خَلْقِ النَّاسِ [ لوگوں کو پیدا کرنے سے ] وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ [ اور لیکن لوگوں کے اکثر ] لَا يَعْلَمُوْنَ [ جانتے نہیں ہیں ]



نوٹ ۔1: آیت ۔57۔ میں امکان آخرت کی دلیل ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر انسان عقل سے کام لے تو اس کے لئے یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں ہے جس خدا نے یہ عظیم الشان کائنات بنائی ہے اس لئے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کوئی دشوار کام نہیں ہے ۔ اس سے آگے آیت ۔ 58۔ میں وجوب آخرت کی دلیل ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آخرت ہونی چاہئے ۔ اس کا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا عقل اور انصاف کے خلاف ہے۔ کوئی معقول آدمی اس بات کو کیسے مان سکتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں اندھوں کی طرح جیتے ہیں اور اپنے برے اخلاق واعمال سے زمین کو فساد سے بھر دیتے ہیں وہ کوئی برا انجام نہ دیکھیں اور جو لوگ دنیا میں آنکھیں کھول کر چلتے ہیں اور ایمان لاکر نیک عمل کرتے ہیں وہ کوئی اچھا نتیجہ دیکھنے سے محروم رہ جائیں ۔ یہ بات اگر صریحا عقل اور انصاف کے خلاف ہے تو پھر انکار آخرت کا عقیدہ بھی عقل اور انصاف کے خلاف ہی ہونا چاہئے ۔

وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ڏ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الْمُسِيْۗءُ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ    58؀
وَمَا يَسْتَوِي [ اور برابر نہیں ہوتا ] الْاَعْمٰى [ اندھا ] وَالْبَصِيْرُ ڏ [اور بصارت والا ] وَالَّذِيْنَ [ اور (نہ ) وہ لوگ جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ] وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ [ اور انہوں نے عمل کئے نیکیوں کے ] وَلَا الْمُسِيْۗءُ ۭ [ اور نہ ہی برا کرنے والا ] قَلِيْلًا مَّا [ بہت ہی تھوڑی سی ] تَتَذَكَّرُوْنَ [ تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو]

اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيْهَا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ   59؀
اِنَّ السَّاعَةَ [ بیشک وہ گھڑی (قیامت ) ] لَاٰتِيَةٌ [ یقینا آنے والی ہے ] لَّا رَيْبَ فِيْهَا [ کوئی بھی شک نہیں ہے اس میں ] وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ [ اور لیکن لوگوں کی اکثریت ] لَا يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان نہیں لاتی ]



پھر آگے آیت ۔ 59۔ میں وقوع آخرت کا قطعی حکم لگا دیا گیا ۔ کیونکہ عقلی استدلال سے جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ بس اسی قدر کہ آخرت ہوسکتی ہے اور اس کوہونا چاہئے ۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہنا کہ آخرت یقینا ہوگی اور ہوکررہے گی ، یہ صرف اس ہستی کے کہنے کی بات ہے جسے معلوم ہے کہ آخرت ہوگی اور وہ ہستی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ کہ قیاس واستدلال کے بجائے خالص علم پر کسی نظام حیات (یعنی دین ) کی بنیاد اگر قائم ہوسکتی ہے تو وہ صرف وحی الہی کے ذریعہ ہی سے ہوسکتی ہے۔ (تفہیم القرآن )

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ    60؀ۧ
وَقَالَ رَبُّكُمُ [ اور کہا تم لوگوں کے رب نے ] ادْعُوْنِيْٓ [ تم لوگ پکارو مجھ کو ] اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ [ میں جواب دوں گا تم لوگوں کو ] اِنَّ الَّذِيْنَ [ یقینا جو لوگ ]يَسْتَكْبِرُوْنَ [ بڑے بنتے ہیں ] عَنْ عِبَادَتِيْ [ میری عبادت سے ] سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ [ وہ لوگ داخل ہوں گے جہنم میں ] دٰخِرِيْنَ [ حقیر ہونے والے ہوتے ہوئے ]



نوٹ ۔ 2: آیت ۔60۔ کی روح کو سمجھنے کے لئے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آدمی دعا صرف اس ہستی سے مانگتا ہے جس کو وہ سمیع وبصیر اور فوق الفطری اقتدار (
Supernatural powers) کا مالک سمجھتا ہے ۔ دعا مانگنے کا محرک دراصل آدمی کا یہ اندرونی احسان ہوتا ہے کہ عالم اسباب کے تحت فطری ذرائع اور وسائل اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں اس لئے کسی فوق الفطری اقتدار کی مالک ہستی سے رجوع کرنا ناگزیزہے۔ اس ہستی کو آدمی بن دیکھے ، ہر وقت ، ہر جگہ اور ہر حال میں پکارتا ہے، بآواز بلندبھی ، چپکے چپکے بھی اور دل ہی دل میں بھی ، یہ اس عقیدے کی بنا پر ہوتا ہے کہ وہ ہستی اس کو ہرجگہ ہر حال میں دیکھ رہی ہے۔ اس کے دل کی بات بھی سن رہی ہے اور اس کو ایسی قدرت حاصل ہے کہ اسے پکارنے والا جہاں بھی ہو وہ اس کی مدد کو پہنچ سکتی ہے ۔ دعا کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کو مدد کے لئے پکارتا ہے وہ درحقیقت قطعی اور خالص شرک کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ وہ اس ہستی کے اندر ان صفات کا اعتقاد رکھتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کی ہی صفات ہیں ۔

دوسری بات یہ ذہن نشین کریں کہ پہلے فقرے میں جس چیز کو دعا کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اسی کو دوسرے فقرے میں عبادت کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دعا عین عبادت ہے۔ پھر دعا نہ مانگنے والوں کے لئے فرمایا کہ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا سے منہ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے رسول اللہ
نے فرمایا جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے ۔

اس مقام پر پہنچ کر وہ مسئلہ بھی حل ہوجاتاہے جو بہت سے ذہنوں میں اکثر الجھن پیدا کرتا ہے ۔ کچھ لوگ دعا کے معاملے میں اس طرح سوچتے ہیں کہ جب تقدیر کی برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ اپنی حکمت ومصلحت سے جو فیصلہ کرچکا وہی ہونا ہے تو پھر ہمارے دعا مانگنے کا حاصل کیا ہے ۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوئے اگر آدمی دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی ۔ قرآن مجید کی یہ آیت اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کرتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں فرما رہا ہے ۔ کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ باندھ دیے ہوں ۔ بندے تو بلاشبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے مگر اللہ تعالیٰ خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں سن کر وہ اپنا فیصلہ بدل دے ، دوسری بات یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو ، بہرحال ایک بہت بڑے فائدے سے وہ کسی صورت میں بھی خالی نہیں ہوتی کیونکہ دعا بجائے خود عبادت ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا ، قطع نظر اس سے کہ وہ چیز اس کو عطا کی جائے یا نہ کی جائے جس کے لئے اس نے دعا کی تھی ۔

نبی کریم
کے ارشادات میں ہمیں ان مضامین کی وضاحت مل جاتی ہے ۔ (یہاں ہم صرف چند احادیث نقل کررہے ہیں ۔ مرتب) نبی کریم نے فرمایا قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر دعا یعنی اللہ کے فیصلے کو بدل دینے کی طاقت کسی میں نہیں ہے ۔ مگر اللہ خود اپنا فیصلہ بدل سکتا ہے جب بندہ اس سے دعا مانگے ۔

2۔ ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے ، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو ، تو اللہ تعالیٰ اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے ۔ یا تو اس کی وہ دعا قبول کرلی جاتی ہے یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لئے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے یا اسی درجہ کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے۔

3۔ دعا بہرحال نافع ہے ان بلاؤں کے معاملہ میں جو نازل ہوچکی ہیں اور ان کے معاملہ میں بھی جو نازل نہیں ہوئیں ۔ پس اے بندگان خد تم ضرور دعا مانگا کرو۔

4۔ تم میں سے ہر شخص کو اپنی ہر حاجت خدا سے مانگنی چاہیے حتی کہ اس کی جوتی کا تسمہ بھی اگر ٹوٹ جائے تو خدا سے دعا کرے ۔ اس لئے کہ کسی بھی معاملہ میں ہماری کوئی تدبیر خدا کی توفیق وتائید کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ اس لئے تدبیر کے ساتھ دعا بھی ضروری ہے۔ (تفہیم القرآن ۔ ج 4 ص 418 تا 422 سے ماخوذ)

اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ    61؀
اَللّٰهُ الَّذِيْ [ اللہ وہ ہے جس نے ] جَعَلَ لَكُمُ [ بنایا تمہارے لئے ] الَّيْلَ [ رات کو ] لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ [ تاکہ تم لوگ سکون حاصل کرو اس میں ] وَالنَّهَارَ [ اور (بنایا ) دن کو ] مُبْصِرًا ۭ [ بیان کرنے والا ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] لَذُوْ فَضْلٍ [ یقینا (بڑے ) فضل والاہے ] عَلَي النَّاسِ [ لوگوں پر ] وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ [ اور لیکن لوگوں کی اکثریت ] لَا يَشْكُرُوْنَ [شکر نہیں کرتی ]

ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۘ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۵ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ   62؀
ذٰلِكُمُ اللّٰهُ [ یہ اللہ ] رَبُّكُمْ [ تم لوگوں کا پرورش کرنے والا ہے ] خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۘ [ جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے] لَآ اِلٰهَ [ کوئی الہ نہیں ہے ] اِلَّا هُوَ ٥ [ مگر وہ ] فَاَنّٰى [ تو کہاں سے ] تُؤْفَكُوْنَ [ تم لوگ پھیر دیئے جاتے ہو ]

كَذٰلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِيْنَ كَانُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ   63؀
كَذٰلِكَ يُؤْفَكُ [ اس طرح پھیر دیا جاتا ہے ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جو ] كَانُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ [ اللہ کی نشانیوں کا جانتے بوجھتے انکار کیا کرتے تھے ]

اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ ښ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ   64؀
اَللّٰهُ الَّذِيْ [ اللہ وہ ہے جس نے ] جَعَلَ لَكُمُ [ بنایا تمہارے لئے ] الْاَرْضَ قَرَارًا [ زمین کو قرار ] وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً [ اور آسمان کو بلندی ] وَّصَوَّرَكُمْ [ اور اس نے شکل دی تم لوگوں کو ] فَاَحْسَنَ [ پھر اس نے حسن دیا ] صُوَرَكُمْ [ تمہاری صورتوں کو ] وَرَزَقَكُمْ [ اور اس نے روزی دی تمھیں ] مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ۭ [ پاکیزہ (چیزوں ) میں سے ] ذٰلِكُمُ اللّٰهُ [ یہ اللہ ] رَبُّكُمْ ښ [ تمہارا پروردگار ہے ] فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ [ تو بابرکت ہوا اللہ ] [رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ : جو تمام جہانوں کا رب ہے ]

هُوَ الْـحَيُّ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ۭاَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   65؀
هُوَ الْـحَيُّ [وہ ہی (حقیقتا ) زندہ ہے ] لَآ اِلٰهَ [ کوئی الہ نہیں ہے ] اِلَّا هُوَ [ مگر وہ ] فَادْعُوْهُ [ تو تم لوگ پکارو اس کو ] مُخْلِصِيْنَ [ خالص کرنے والے ہوتے ہوئے ] لَهُ الدِّيْنَ ۭ[ اس کے لئے دین کو ] اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ [ تمام شکر وسپاس اللہ کے لئے ہے ] رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ جو تمام جہانوں کا رب ہے ]

قُلْ اِنِّىْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَمَّا جَاۗءَنِيَ الْبَيِّنٰتُ مِنْ رَّبِّيْ ۡ وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   66؀
قُلْ [ آپ کہہ دیجئے ] اِنِّىْ نُهِيْتُ [ کہ مجھ کو منع کیا گیا] اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ [ کہ میں بندگی کروں ان کی جن کو ] تَدْعُوْنَ [ تم لوگ پکارتے ہو ] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ] لَمَّا [ جب (کہ ) ] جَاۗءَنِيَ [ آئیں میرے پاس] الْبَيِّنٰتُ [واضح (نشانیاں) ] مِنْ رَّبِّيْ ۡ [ میرے رب سے ] وَاُمِرْتُ [ اور مجھ کو حکم دیا گیا ] اَنْ اُسْلِمَ [ کہ میں تابعداری کروں ] لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کے رب کی ]

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّــطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُيُوْخًا ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ   67؀
هُوَ الَّذِيْ [ وہ، وہ ہے جس نے ] خَلَقَكُمْ [ پیدا کیا تم لوگوں کو ] مِّنْ تُرَابٍ [ ایک مٹی سے ] ثُمَّ مِنْ نُّــطْفَةٍ [ پھر ایک بوند سے ] ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ [ پھر ایک لوتھڑے سے ] ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ [ پھر وہ نکالتا ہے تم کو ] طِفْلًا [ ایک بچے ( کی صورت دیتے ہوئے ) ] ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا [ تاکہ پھر تم لوگ پہنچو ] اَشُدَّكُمْ [ اپنی پختگی کو ] ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا [ تاکہ پھر تم لوگ ہوجاؤ] شُيُوْخًا ۚ [ بوڑھے ] وَمِنْكُمْ مَّنْ [ اور تم میں وہ بھی ہے جس کو ] يُّتَوَفّٰى [ وفات دی جاتی ہے ] مِنْ قَبْلُ [ اس سے پہلے] وَلِتَبْلُغُوْٓا [ اور تاکہ تم لوگ پہنچو] اَجَلًا مُّسَمًّى [ ایک معین مدت کو ] وَّلَعَلَّكُمْ [ اور شاید کہ تم لوگ ] تَعْقِلُوْنَ [ عقل استعمال کرو]

هُوَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۚ فَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَـقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ   68؀ۧ
هُوَ الَّذِيْ [وہ، وہ ہے جو ] يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۚ [ زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے] فَاِذَا قَضٰٓى [ تو جب بھی وہ فیصلہ کرتا ہے ] اَمْرًا [ کسی کام کا ] فَاِنَّمَا [ تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] يَـقُوْلُ لَهٗ [ وہ کہتا ہے اس سے ] كُنْ [ تو ہو جا ]فَيَكُوْنُ [ تو وہ ہوجاتا ہے ]



نوٹ ۔1: ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر ہے جن کے لئے کٹر سے کٹر مشرک بھی تسلیم کرتا ہے کہ یہ کام صرف اللہ ہی کرسکتا ہے ۔ ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہیں ہے کہ ان کے دیوی دیوتا یا بزرگ واولیاء میں سے کوئی یہ کام کرسکتا ہے ۔ اس حقیقت کا منطقی تقاضہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کیا جائے صرف اسی کو پکارا جائے اور صرف اسی سے مانگا جائے۔ اس حقیقت کو مانتے ہوئے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو وہی پکارے گا جس کی عقل الٹی پھیر دی گئی ہو ۔ (حافظ احمد یار صاحب کے کیسٹ سے ماخوذ)

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ ۭاَنّٰى يُصْرَفُوْنَ   69؀ۇ
اَلَمْ تَرَ [ کیا آپ نے غور نہیں کیا ] اِلَى الَّذِيْنَ [ان کی طرف جو ] يُجَادِلُوْنَ [ مناظرہ کرتے ہیں] فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کی آیات میں ] اَنّٰى [ (کہ) کہاں سے ] يُصْرَفُوْنَ [ وہ لوگ ہٹائے جاتے ہیں ]

الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِالْكِتٰبِ وَبِمَآ اَرْسَلْنَا بِهٖ رُسُلَنَا ڕ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ   70؀ۙ
الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا [ جنھوں نے جھٹلایا ] بِالْكِتٰبِ [ اس کتاب کو ] وَبِمَآ [ اور اس کو ] اَرْسَلْنَا بِهٖ [ ہم نے بھیجا جس کے ساتھ ] رُسُلَنَا ڕ [ اپنے رسولوں کو ] فَسَوْفَ [ تو عنقریب ] يَعْلَمُوْنَ [ وہ لوگ جان لیں گے ]

اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلٰسِلُ ۭ يُسْحَبُوْنَ   71؀ۙ
اِذِ الْاَغْلٰلُ [ جب طوق ] فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ [ ان کی گردنوں میں ہوں گے ] وَالسَّلٰسِلُ ۭ [ اور زنجیریں ] يُسْحَبُوْنَ [ وہ لوگ گھسیٹے جائیں گے ]



س ل س ل : (رباعی ) سلسلۃ ۔ ایک چیز کو دوسری چیز سے جوڑنا ۔ سلسلۃ ۔ ج: سلاسل ، زنجیر ۔ آیت ۔ ثُمَّ فِيْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا [ ایک ایسی زنجیر میں جس کی لمبائی ستر بازو ہیں ] 69:32، اور۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 71۔

فِي الْحَمِيْمِ ڏ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَ   72؀ۚ
فِي الْحَمِيْمِ ڏ [ گرم (پانی) میں] ثُمَّ فِي النَّارِ [ پھر آگ میں ] يُسْجَرُوْنَ [ جھونکے جائیں گے ]



س ج ر: (ن) سجرا ۔ تنور میں ایندھن ڈال کے اسے گرم کرنا ۔ (1) ڈالنا ۔ جھونکنا ۔ (2) بھڑکانا ۔ جوش دینا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 72۔ مسجور ۔ اسم المفعول ہے۔ جوش دیا ہوا ۔ آیت ۔ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ [ قسم ہے جوش دیئے ہوئے سمندر کی ] 52:6۔ (تفعیل ) تسجیرا [خوب بھڑکانا ۔ خوب جوش دینا ۔ آیت ۔ وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ [اور جب سمندروں کو خوب جوش دیا جائے گا ] 81:6۔

ثُمَّ قِيْلَ لَهُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ   73؀ۙ
ثُمَّ قِيْلَ لَهُمْ [ پھر کہا جائے گا ان سے ] اَيْنَ [ کہاں ہے ] مَا [ وہ جس کو ] كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ [ تم لوگ شریک کیا کرتے تھے ]

مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَـيْـــــًٔا ۭ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ الْكٰفِرِيْنَ    74؀
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے سوا] قَالُوْا [ وہ لوگ کہیں گے ] ضَلُّوْا [ وہ سب بھٹک گئے (گم ہوگئے ) ] عَنَّا [ہم سے ] بَلْ لَّمْ نَكُنْ [ بلکہ ہم تھے ہی نہیں ] نَّدْعُوْا [ (کہ ) ہم پکارتے تھے ] مِنْ قَبْلُ [ اس سے پہلے ] شَـيْـــــًٔا ۭ [ کسی چیز کو ] كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ [ اسی طرح بھٹکا دیتا ہے اللہ ] الْكٰفِرِيْنَ [ کافروں کو ]

ذٰلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُوْنَ    75؀ۚ
ذٰلِكُمْ [ یہ ] بِمَا [ اس سبب سے ہے جو ] كُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ [ تم لوگ شاداں پھیرا کرتے تھے ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] بِغَيْرِ الْحَقِّ [ حق کے بغیر ] وَبِمَا [ اور اس سبب سے ہے جو ] كُنْتُمْ تَمْرَحُوْنَ [ تم لوگ اٹھلایا کرتے تھے ]



نوٹ ۔ 1: آیت ۔75۔ میں تفرحون کے معنی ہیں خوش ہونا۔ مسرور ہونا ۔ جبکہ تمرحون کے معنی ہیں اترانا ۔ فخر وغرور میں مبتلا ہونا، مرح تو مطلقا حرام ہے اور فرح میں یہ تفصیل ہے کہ مال ودولت کے نشہ میں خدا کو بھول کر گناہوں پر خوش ہونا، یہ تو ناجائز ہے۔ اور فرح کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ دنیا کی نعمتوں اور راحتوں کو اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھ کر خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا ۔ یہ جائز بلکہ مستحب ہے ۔ اس آیت میں مرح کے ساتھ کوئی قید نہیں لگائی گئی کیونکہ یہ مطلقا سبب عذاب ہے ۔ جبکہ فرح کے ساتھ بغیر الحق کی قید لگا کر بتا دیا کہ ناحق اور ناجائز لذتوں پر خوش ہونا حرام ہے اور حق وجائز نعمتوں پر بطور شکر کے خوش ہونا عبادت اور ثواب ہے۔ (معارف القرآن)

اُدْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۚ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ   76؀
اُدْخُلُوْٓا [ تم سب داخل ہو ] اَبْوَابَ جَهَنَّمَ [ جہنم کے دروازوں میں ] خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۚ [ ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے اس میں ] فَبِئْسَ [ تو کیا ہی بری ہے ] مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ [بڑا بننے والوں کی قیام گاہ ]

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۚ فَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَـوَفَّيَنَّكَ فَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ   77؀
فَاصْبِرْ [ تو آپ ڈٹے رہیں ] اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ [ یقینا اللہ کا وعدہ ] حَقٌّ ۚ [ بڑا پکا ہے ] فَاِمَّا [ پھر اگر] نُرِيَنَّكَ [ ہم دکھا ہی دیں آپ کو ] بَعْضَ الَّذِيْ [ اس کا کچھ جس سے ] نَعِدُهُمْ [ ہم ڈراتے ہیں ان کو ] اَوْ نَتَـوَفَّيَنَّكَ [ یا ہم وفات ہی دیں آپ کو ] فَاِلَيْنَا [ تو ہماری طرف ہی ] يُرْجَعُوْنَ [ یہ سب لوٹائے جائیں گے ]



نوٹ ۔2: آیت 77۔ میں رسول اللہ
کو تسلی دی ہے کہ ان کی حرکتوں پر صبر کرو ۔ جس عذاب کی ان کو دھمکی دی جا رہی ہے ۔ اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ لازما ظہور میں آکر رہے گا ، یا تو تمہاری زندگی میں ہی اس کا کچھ حصہ ظہور میں آئے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو بالاخر انھیں ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے تو ہم آخرت میں ان کو اس کا مزا چکھائیں گے ۔ (تدبر قرآن )

اس آیت معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس کے منتظر تھے کہ کافروں کو عذاب ملے ، کافروں کے عذاب کا انتظار شان رحمۃ للعالمین کے منافی ہے ۔ لیکن جب مجرموں کو سزا دینے سے مقصد مظلوموں کو تسلی دینا ہو تو مجرموں کو سزا دینا شفقت ورحمت کے منافی نہیں ہے۔ (معارف القرآن )

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۭ وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَمْرُ اللّٰهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ   78؀ۧ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا [ اور بیشک ہم بھیج چکے ] رُسُلًا [ کچھ رسول ] مِّنْ قَبْلِكَ [ آپ سے پہلے ] مِنْهُمْ مَّنْ [ ان میں وہ بھی ہیں جن کو ] قَصَصْنَا عَلَيْكَ [ ہم نے بیان کیا آپ پر ] وَمِنْهُمْ مَّنْ [ اور ان میں وہ بھی ہیں جن کو ] لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۭ [ ہم نے نہیں بیان کیا آپ پر ] وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ [ اور نہیں تھا کسی رسول کے لئے ] اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ [ کہ وہ لائے کوئی نشانی (معجزہ ) ] اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ [ مگر اللہ کی اجازت سے ] فَاِذَا جَاۗءَ اَمْرُ اللّٰهِ [ پھر جب آئے گا اللہ کا حکم ] قُضِيَ بِالْحَقِّ [ تو فیصلہ کیا جائے گا حق کے ساتھ ] وَخَسِرَ [ اور گھاٹے میں رہیں گے ] هُنَالِكَ [ وہاں ] الْمُبْطِلُوْنَ [باطل کرنے والے ]

اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ   79؀ۡ
اَللّٰهُ الَّذِيْ [ اللہ وہ ہے جس نے ] جَعَلَ لَكُمُ [ بنائے تمہارے لئے ] الْاَنْعَامَ [ چوپائے ] لِتَرْكَبُوْا [ تاکہ تم لوگ سواری کرو ] مِنْهَا [ ان میں سے (بعض پر) ] وَمِنْهَا [ اور ان (ہی) میں سے ] تَاْكُلُوْنَ [تم لوگ کھاتے ہو]

وَلَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوْا عَلَيْهَا حَاجَةً فِيْ صُدُوْرِكُمْ وَعَلَيْهَا وَعَلَي الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ   80؀ۭ
وَلَكُمْ فِيْهَا [ اور تمہارے لئے ان میں ] مَنَافِعُ [کچھ فائدے ہیں ] وَلِتَبْلُغُوْا [ اور تاکہ تم لوگ پہنچو ] عَلَيْهَا [ ان پر (سوار ہوکر ) ] حَاجَةً [ کسی ایسی ضرورت کو جو ] [فِيْ صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینوں میں ہے] وَعَلَيْهَا وَعَلَي الْفُلْكِ [ اور ان پر اور کشتیوں پر ] تُحْمَلُوْنَ [ تم لوگ سوار کیے جاتے ہو]

وَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ ڰ فَاَيَّ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُنْكِرُوْنَ   81؀
وَيُرِيْكُمْ [ اور وہ دکھاتا ہے تم لوگوں کو ] اٰيٰتِهٖ ڰ [ اپنی نشانیاں ] فَاَيَّ اٰيٰتِ اللّٰهِ [ تو اللہ کی کون کون سی نشانیوں کا ] تُنْكِرُوْنَ [ تم لوگ انکار کروگے ]

اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭكَانُوْٓا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَاَشَدَّ قُوَّةً وَّاٰثَارًا فِي الْاَرْضِ فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ  82؀
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا [ تو کیا یہ لوگ چلے پھرے نہیں ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] فَيَنْظُرُوْا [نتیجتا وہ دیکھتے ] كَيْفَ كَانَ [ کیسا تھا ] عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کا انجام جو ] مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ[ ان سے پہلے تھے ] كَانُوْٓا [ وہ لوگ تھے ] اَكْثَرَ [تعداد میں زیادہ ] مِنْهُمْ [ ان لوگوں سے ] وَاَشَدَّ [ اور زیادہ سخت ] قُوَّةً [ بلحاظ قوت کے ] وَّاٰثَارًا [ اور بلحاظ نشانات (چھوڑنے کے ) ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ [ تو کام نہ آئی ان کے ] مَّا [ وہ جو ] كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ [ وہ لوگ کمائی کرتے تھے ]

فَلَمَّا جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ   83؀
فَلَمَّا [ پھر جب ] جَاۗءَتْهُمْ [ آئے ان کے پاس ] رُسُلُهُمْ [ ان کے رسول ] بِالْبَيِّنٰتِ [ واضح (نشانیوں ) کے ساتھ ] فَرِحُوْا [ تو وہ لوگ شاداں رہے ] بِمَا [ اس کے ساتھ جو ] عِنْدَهُمْ [ ان کے پاس تھا ] مِّنَ الْعِلْمِ [ علم میں سے] وَحَاقَ [ اور گھیر لیا ] بِهِمْ [ ان کو ] مَّا [ اس نے ] كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ [ یہ لوگ مذاق اڑاتے تھے جس کا ]



نوٹ ۔1: آیت ۔ 83۔ میں کافروں کا اپنے علم پر خوش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے فلسفے اور سائنس ، اپنے قانون ، اپنے دنیوی علوم اور اپنے پیشواؤں کے گھڑے ہوئے مذہبی افسانوں (
Mythology) وغیرہ کو ہی انھوں نے اصل علم سمجھا اور انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے علم کو ہیچ سمجھ کر اس کی طرف کوئی التفات نہ کیا ۔ (تفہیم القرآن )

ان کے علم سے مراد دنیا کی تجارت صنعت وغیرہ کا علم ہے جس میں یہ لوگ فی الواقع ماہر تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس علم کا ذکر سورہ روم کی آیت ۔ 7۔ میں اس طرح کیا ہے کہ یہ لوگ دنیا کی ظاہری زندگی اور اس سے منافع حاصل کرنے کو تو کچھ جانتے سمجھتے ہیں ، مگر آخرت جہاں ہمیشہ رہنا ہے اور جہاں کی راحت وکلفت دائمی ہے ، اس سے بالکل جاہل وغافل ہیں ، اس آیت میں بھی علم ظاہر دنیا کا مراد لیا جائے گا تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ لوگ چونکہ قیامت اور آخرت کے منکر ہیں اس لئے اپنے اسی ظاہری ہنر پر خوش اور مگن ہوکر انبیاء کے علوم کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔ ( معارف القرآن )

فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ    84؀
فَلَمَّا رَاَوْا [ پھر جب انہوں نے دیکھا ] بَاْسَنَا [ ہماری سختی کو ] قَالُوْٓا [ تو انہوں نے کہا] اٰمَنَّا بِاللّٰهِ [ ہم ایمان لائے اللہ پر ] وَحْدَهٗ [ اس کے واحد ہوتے ہوئے ] وَكَفَرْنَا بِمَا [ اور ہم نے انکار کیا اس کا ] كُنَّا بِهٖ [ ہم تھے جسے] مُشْرِكِيْنَ [ شریک کرنے والے ]

فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا ۭ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ فِيْ عِبَادِهٖ ۚ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ   85؀ۧ
فَلَمْ يَكُ [ پھر ہوا ہی نہیں (کہ ) ] يَنْفَعُهُمْ [ فائدہ دے ان کو ] اِيْمَانُهُمْ [ ان کا ایمان ] لَمَّا رَاَوْا [ جب انہوں نے دیکھا ] بَاْسَـنَا ۭ [ ہماری سختی کو ] سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِيْ [ (آپ پائیں گے ) اللہ کی اس سنت کو جو ] قَدْ خَلَتْ [ گزری ہے ] فِيْ عِبَادِهٖ ۚ [ اس کے بندوں میں ] وَخَسِرَ [اور گھاٹے میں رہے ] هُنَالِكَ [ وہاں ] الْكٰفِرُوْنَ [ کافر لوگ ]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ     ۝

حٰـمۗ    Ǻ۝ۚ
حٰـمۗ

تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ    Ą۝ۚ
تَنْزِيْلٌ [ (یہ تدریجا ) اتارنا ہے ] مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ [ رحمان رحیم (کی طرف) سے ]

كِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّــقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ    Ǽ۝ۙ
كِتٰبٌ [ (یہ ) ایک ایسی کتاب ہے ] فُصِّلَتْ [ کھول کھول کر بتائی گئیں ] اٰيٰتُهٗ [ جس کی آیتیں ] قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا [ عربی قرآن ہوتے ہوئے ] لِّــقَوْمٍ [ایسے لوگوں کے لئے جو ] يَّعْلَمُوْنَ [علم رکھتے ہیں ]

بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا ۚ فَاَعْرَضَ اَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ    Ć؀
بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا ۚ [ بشارت دینے والی اور خبردار کرنے والی ہوتے ہوئے ] فَاَعْرَضَ [ پھر اعراض کیا ] اَكْثَرُهُمْ [ ان کے اکثر نے ] فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ [ نتیجتا وہ لوگ سنتے ہیں]

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ وَفِيْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ   Ĉ۝
وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا [ اور انہوں نے کہا ہمارے دل ] فِيْٓ اَكِنَّةٍ [ غلافوں میں ہیں ] مِّمَّا [ اس سے ] تَدْعُوْنَآ [ آپ بلاتے ہیں ہم کو ] اِلَيْهِ [ جس کی طرف ] وَفِيْٓ اٰذَانِنَا [ اور ہمارے کانوں میں ] وَقْرٌ [ کچھ گرانی ہے ] وَّمِنْۢ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ [ اور ہمارے درمیان اور آپ کے درمیان ] حِجَابٌ [ ایک حجاب ہے ] فَاعْمَلْ [ تو آپ عمل کریں ] اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ [ بیشک ہم بھی عمل کرنے والے ہیں ]



نوٹ ۔1: کفار نے جو اپنے دلوں پر پردے ، کانوں میں بوجھ وغیرہ کا اقرار کیا ، اس سے ظاہر ہے یہ تو مراد نہ تھا کہ ان میں عقل نہیں یا بہرے ہیں ، بلکہ یہ ایک قسم کا استہزاء وتمسخر تھا ۔ مگر استہزاء کا جو جواب رسول اللہ
کو تلقین کیا گیا وہ یہ تھا کہ ان کے مقابلہ میں کوئی تشدد کی بات نہ کریں بلکہ اپنی تواضع کا اظہار کریں کہ میں خدا نہیں کہ ہر کام کا مالک ومختار ہوں بلکہ تم ہی جیسا ایک انسان ہوں ، فرق صرف اس کا ہے کہ مجھے میرے رب نے وحی بھیج کر ہدایت کی اور میں بھی تمہیں یہی وصیت کرتا ہوں کہ اپنا رخ عبادت واطاعت میں صرف ایک اللہ کی طرف کرلو اور پچھلے گناہوں سے توبہ کرلو ۔ (معارف القرآن )

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوْٓا اِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ ۭ وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ   Č۝ۙ
قُلْ اِنَّمَآ [ آپ کہئے کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] اَنَا بَشَرٌ [ میں ایک بشر ہوں ] مِّثْلُكُمْ [ تم لوگوں کے جیسا ] يُوْحٰٓى اِلَيَّ [ (ہاں) وحی کی جاتی ہے میری طرف ] اَنَّمَآ اِلٰــهُكُمْ [ کہ تم لوگوں کا الہ تو بس ] اِلٰهٌ وَّاحِدٌ [ ایک ہی الہ ہے ]فَاسْتَقِيْمُوْٓا [ تو تم لوگ سیدھے رہو] اِلَيْهِ [ اس کی طرف] وَاسْتَغْفِرُوْهُ ۭ [ اور مغفرت طلب کرو اس سے ] وَوَيْلٌ [اور تباہی ہے ] لِّـلْمُشْرِكِيْنَ [ شرک کرنے والوں کے لئے ]

الَّذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ   Ċ۝ۙ
الَّذِيْنَ [ (یہ ) وہ لوگ ہیں جو ] لَا يُؤْتُوْنَ [ نہیں پہچاتے] الزَّكٰوةَ [ زکوۃ ] وَهُمْ [ اور یہ لوگ ] بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ [ آخرت کا ہی انکار کرنے والے ہیں ]

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ    Ď۝ۧ
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ بیشک جو لوگ ایمان لائے] وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ [ اور انہوں نے عمل کئے نیکیوں کے ] لَهُمْ اَجْرٌ [ ان کے لئے اجر ہے ] غَيْرُ مَمْنُوْنٍ [ نہ منقطع ہونے والا ]

قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗٓ اَنْدَادًا ۭذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ    ۝ۚ
قُلْ اَىِٕنَّكُمْ [ آپ کہئے کیا واقعی تم لوگ ] لَتَكْفُرُوْنَ [ قطعی ناشکری کرتے ہو ]بِالَّذِيْ [ اس (ہستی ) کی جس نے ] خَلَقَ الْاَرْضَ [ پیدا کیا زمین کو ] فِيْ يَوْمَيْنِ [ دو دنوں میں ] وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗٓ [ اور بناتے ہو اس کے لئے ] اَنْدَادًا ۭ[ کچھ ہم پلہ ] ذٰلِكَ [ وہ ] رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کا رب ہے ]

وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ۭ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ     10۝
وَجَعَلَ فِيْهَا [ اور اس نے بنائے اس میں ] رَوَاسِيَ [ کچھ پہاڑ ] مِنْ فَوْقِهَا [اس کے اوپر سے] وَبٰرَكَ فِيْهَا [ اور اس نے برکت دی اس میں ] وَقَدَّرَ فِيْهَآ [ اور اس نے مقدر کیں اس میں ] اَقْوَاتَهَا [ اس کی روزیاں ] فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ۭ [ چار دنوں میں ] سَوَاۗءً [ برابر (ضرورت کے مطابق) ہوتے ہوئے ] لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ [ مانگنے والوں کے لئے ]



نوٹ ۔ 1: آیت ۔ 10 ۔ میں فرمایا کہ زمین میں برکتیں رکھیں ۔ یہ اسی برکت کا کرشمہ ہے کہ یہ ہرقسم کی نباتات اگاتی ہے جن کے پھل اور پھول انسان اور دوسری مخلوقات کے کام آتے ہیں ] ۔ یہ اسی کا فیض ہے کہ ایک دانہ انسان بوتا ہے اور زمین سینکڑوں دانوں کی شکل میں اس کا حاصل اس کو واپس کرتی ہے ۔ ایک گٹھلی یا ایک قلم آدمی زمین میں لگاتا ہے اور ایک مدت دراز تک اس کا پھل وہ اور اس کی اولادیں کھاتی رہتیں ہیں ۔ یہ اسی برکت کا ثمرہ ہے کہ انسان اپنی سائنس کے ذریعے سے اس کے جتنے پرت الٹتا جاتا ہے اتنے ہی اس کے اندر سے خزانے پر خزانے نکلتے آرہے ہیں ۔ (تدبر قرآن )

نوٹ ۔2: اسی آیت ۔ 10۔ میں آگے فرمایا ’’ یہ سب کام چار دن میں ہوگئے ‘‘ اس مقام کی تفسیر میں مفسرین کو یہ زحمت پیش آئی ہے ۔ کہ اگر زمین کی تخلیق کے دو دن اور اس میں پہاڑ جمانے ، برکتیں رکھنے اور سامان خوراک پیدا کرنے کے چار دن تسلیم کئے جائیں تو آگے آسمانوں کی پیدائش دو دنوں میں ہونے کا ذکر آیا ہے ۔ اسے ملا کر آٹھ دن بن جاتے ہیں ۔ حالانکہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر زمین و آسمان کی تخلیق چھ دنوں میں ہونے کا ذکر آیا ہے ۔ اسی بنا پر قریب قریب تمام مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ چار دن زمین کی تخلیق کے دو دن سمیت ہیں یعنی دو دن تخلیق زمین کے اور دو دن زمین کے اندر باقی چیزوں کی پیدائش کے ہیں ۔ اس طرح جملہ چار دنوں میں زمین اپنے سروسامان سمیت مکمل ہوگئی ۔ لیکن یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ کے خلاف ہے ۔ زمین کی تخلیق کے دو دن دراصل ان دودنوں سے الگ ہیں جن میں بحیثیت مجموعی پوری کائنات بنی ہے ۔ آگے کی آیات میں زمین اور آسمان ، دونوں کی تخلیق کا یکجا ذکر کیا گیا ہے اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دو دنوں میں سات آسمان بنادیئے ۔ ان سات آسمانوں سے پوری کائنات مراد ہے جن کا ایک جز ہماری یہ زمین بھی ہے۔ پھر جب کائنات کے دوسرے بےشمار ستاروں اور سیاروں کی طرح یہ زمین بھی ان دودنوں میں مجرد ایک کرے کی شکل اختیار کرچکی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ذی حیات مخلوقات کے لئے تیار کرنا شروع کیا اور چار دنوں میں وہ سروسامان پیدا کردیا جس کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسرے ستاروں اور سیاروں میں ان چار دنوں کے اندر کیا کچھ ترقیاتی کام کئے گئے ، ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کیونکہ نزول قرآن کے دور کا انسان تو درکنار ، اس زمانے کا آدمی بھی ان معلومات کو ہضم کرنے کی استعداد نہیں رکھتا تھا ۔ (تفہیم القرآن )

نوٹ ۔2: بیان القرآن میں مولانا اشرف علی تھانوی نے فرمایا کہ یوں تو زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر ، مختصر ومفصل ، قرآن کریم میں سینکڑوں جگہ آیا ہے مگر ان میں ترتیب کا بیان کہ پہلے کیا بنا پیچھے کیا بنا ، یہ غالبا صرف تین آیتوں میں آیا ہے ۔ ایک حم سجدہ کی یہ آیات ، دوسری سورہ بقرہ کی آیت ۔ 29۔ اور تیسری نازعات کی آیات ۔ 27 تا 33۔ سورہ بقرہ اور حم سجدہ کی آیات سے زمین کی تخلیق کا آسمان سے مقدم ہونا معلوم ہوتا ہے ۔ اور سورہ نازعات کی آیات سے زمین کی تخلیق آسمان کے بعد معلوم ہوتی ہے ۔ مولانا تھانوی نے فرمایا سب آیات پر غور کرنے سے میرے خیال میں تو یہ آتا ہے کہ یوں کہاجاوے کہ اول زمین کا مادہ بنا اور ہنوز اس کی موجودہ ہیئت نہ بنی تھی کہ اسی حالت میں آسمان کا مادہ بنا جو دھویں کی شکل میں تھا اس کے بعد زمین ہئیت موجودہ پر پھیلا دی گئی ۔ پھر اس پر پہاڑ اور درخت وغیرہ پیدا کئے گئے پھر آسمان کے سیال مادہ دخانیہ کے سات آسمان بنا دیئے ۔ امید ہے سب آیتیں اس تقدیر پر منطبق ہواجاویں گی ، (بیان القرآن سورہ بقرہ ، رکوع ۔ 3 ۔ منقول از معارف قرآن)

ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًااَوْ كَرْهًا ۭ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ      11؀
ثُمَّ اسْتَوٰٓى [ پھر وہ متوجہ ہوا ] اِلَى السَّمَاۗءِ [ آسمان کی طرف ] وَهِىَ [ اس حال میں کہ وہ ] دُخَانٌ [ دھواں تھا ] فَقَالَ لَهَا [ تو اس نے کہا اس (آسمان ) سے] وَلِلْاَرْضِ [ اور زمین سے ] ائْتِيَا [ تم دونوں آؤ] طَوْعًا [ فرمانبردار ہوتے ہوئے ] اَوْ كَرْهًا ۭ [ یا ناپسند کرتے ہوئے ] قَالَتَآ [ ان دونوں نے کہا ] اَتَيْنَا [ ہم دونوں آگئے ] طَاۗىِٕعِيْنَ [ فرمانبردار ہونے والے ہوتے ہوئے ]



د خ ن : (س) دخنا ۔ آگ کا دھواں اٹھانا ۔ دخان ، اسم ذات ہے ۔ دھواں ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 11۔

فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَهَا ۭ وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ ڰ وَحِفْظًا ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ    12؀
فَقَضٰهُنَّ [ تو اس نے بنایا ان کو ] سَبْعَ سَمٰوَاتٍ [ سات آسمان ] فِيْ يَوْمَيْنِ [ دو دنوں میں ] وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ [ اور اس نے وحی کیا ہر آسمان میں ] اَمْرَهَا ۭ [ اس کا حکم ] وَزَيَّنَّا [ اور ہم نے زینت دی ] السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا [ دنیوی آسمان کو ] بِمَصَابِيْحَ ڰ [ چراغوں سے ] وَحِفْظًا ۭ [ اور محفوظ کیا ہوا ] ذٰلِكَ [ یہ ] تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ [ علیم بالادست (ہستی ) کا طے شدہ امر ہے ]

فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ    13۝ۭ
فَاِنْ اَعْرَضُوْا [پھر اگر وہ لوگ اعراض کریں ] فَقُلْ [ تو آپ کہہ دیں ] اَنْذَرْتُكُمْ [ میں نے خبردار کردیا تمہیں ] صٰعِقَةً [ ایک کڑک (عذاب ) سے ] مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ [ثمود اور عاد کے عذاب جیسے سے ]

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْٓ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيْقَهُمْ عَذَابَ الْخِــزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَهُمْ لَا يُنْصَرُوْنَ    16؀
فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ [ تو ہم نے بھیجا ان پر ] رِيْحًا صَرْصَرًا [ ایک تندوتیز ہوا کو ] فِيْٓ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ [ منحوس دنوں میں ] لِّنُذِيْقَهُمْ [ تاکہ ہم چکھائیں ان کو ] عَذَابَ الْخِــزْيِ [ رسوائی کا عذاب ] فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ [ دنیوی زندگی میں ] وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ [ اور یقینا آخرت کا عذاب ] اَخْزٰى [ سب سے زیادہ رسواکن ہے ] وَهُمْ لَا يُنْصَرُوْنَ [ اور ان کی مدد نہیں کی جائے گی ]



ن ح س : (ف) نحسا : (1) افق آسمان کا سرخ ہوکر دھوئیں کی طرح ہوجانا ۔ (اے نحوست کی علامت سمجھا جاتا تھا ) (2) نامبارک ہونا ۔ منحوس ہونا۔ نحس ۔ اسم ذات ہے ۔ منحوسیت ، نحوست ۔ آیت ۔ اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْ يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ (بیشک ہم نے بیجھا ان پر ایک تیز ہوا ایک دائمی نحوست کے دن میں ) 54:19۔ نحاس ۔ اسم ذات ہے ۔ چنگاری ۔ دھواں ۔ آیت ۔ يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ ڏ وَّنُحَاسٌ [ چھوڑے جائیں گے تم دونوں پر شعلے آگ میں سے اور دھوئیں والے ] 55:35۔ نحس ۔ صفت ہے ۔ نامبارک ۔ منحوس ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 16۔

وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ    17۝ۚ
وَاَمَّا ثَمُوْدُ [ اور وہ جو ثمود تھے ] فَهَدَيْنٰهُمْ [ تو ہم نے راہ سجھائی ان کو ] فَاسْتَــحَبُّوا [ پھر انہوں نے پسند کیا ] الْعَمٰى [ اندھا ہونے کو ] عَلَي الْهُدٰى [ ہدایت پر] فَاَخَذَتْهُمْ [ تو پکڑا ان کو ] صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ [ ذلت والے عذاب کی کڑک نے ] بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ [ بسبب اس کے جو وہ لوگ کمائی کرتے تھے ]

وَنَجَّيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ   18؀ۧ
وَنَجَّيْنَا [ اور ہم نے رہائی دی ] الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ ان لوگوں کو جوایمان لائے ] وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ [اور وہ جو تقوی اختیار کرتے تھے ]

وَيَوْمَ يُحْشَرُ اَعْدَاۗءُ اللّٰهِ اِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ    19؀
وَيَوْمَ يُحْشَرُ [اور جس دن اکٹھا کئے جائیں گے ] اَعْدَاۗءُ اللّٰهِ [اللہ کے دشمن ]اِلَى النَّارِ [ آگ کے طر ف] فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ [ پھر ان کی صف بندی کی جائے گی ]

حَتّىٰٓ اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   20؀
حَتّىٰٓ اِذَا مَا [ یہاں تک کہ جب ] جَاۗءُوْهَا [ وہ سب آئیں گے اس (آگ ) کے پاس ] شَهِدَ عَلَيْهِمْ [ تو گواہی دیں گے ان کے خلاف ] سَمْعُهُمْ [ ان کی سماعت ] وَاَبْصَارُهُمْ [ اور ان کی بصارتیں ] وَجُلُوْدُهُمْ [ اور ان کی کھالیں ] بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [بسبب اس کے جو وہ کرتے تھے ]



نوٹ ۔ 1: آیت ۔ 20۔ منجملہ ان بہت سی آیات کے ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم آخرت محض ایک روحانی عالم نہیں ہوگا بلکہ انسان وہاں دوبارہ اسی طرح جسم وروح کے ساتھ زندہ کئے جائیں گے جس طرح وہ اب اس دنیا میں ہیں ۔ ان کو جسم بھی وہی دیا جائے گا جس میں اب وہ رہتے ہیں ۔ اور وہ انہی جسموں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے جن کے اندر رہ کر وہ دنیا میں کام کرچکے تھے ۔ ظاہر ہے کہ انسان کے اعضاء وہاں اسی صورت میں گواہی دے سکتے ہیں جبکہ وہ وہی اعضاء ہوں جن سے اس نے اپنی پہلی زندگی میں جرم کا ارتکاب کیا تھا ۔ (تفہیم القرآن )

وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْٓ اَنْــطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّهُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ   21؀
وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ [ اور وہ سب کہیں گے اپنی کھالوں سے ] لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا ۭ [ کیوں گواہی دی تم نے ہمارے خلاف ] قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا [ وہ کہیں گی ہمیں گویائی دی ] اللّٰهُ الَّذِيْٓ [ اس اللہ نے جس نے ] اَنْــطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ گویائی دی ہر چیز کو ] وَّهُوَ [ اور وہ ہی ہے ] خَلَقَكُمْ [ جس نے پیدا کیا تم کو ] اَوَّلَ مَرَّةٍ [ پہلی مرتبہ ] وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ [ اور اس کی طرف ہی تم لوگ لوٹائے جاؤ گے ]

وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ   22؀
وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ [ اور تم لوگ پردہ نہیں کرتے تھے ] اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ [ کہ گواہی دیں گی تمہارے خلاف ] سَمْعُكُمْ [ تمہاری سماعت ] وَلَآ اَبْصَارُكُمْ [ اور نہ ہی تمہاری بصارتیں ] وَلَا جُلُوْدُكُمْ [ اور نہ ہی تمہاری کھالیں ] وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ [ اور لیکن تم نے گمان کیا ] اَنَّ اللّٰهَ [ کہ اللہ ] لَا يَعْلَمُ [ نہیں جانتا ] كَثِيْرًا مِّمَّا [ اس میں سے اکثر کو جو ] تَعْمَلُوْنَ [تم لوگ کرتے ہو]

وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ   23؀
وَذٰلِكُمْ [اور یہ ] ظَنُّكُمُ الَّذِيْ [ تمہارا وہ گمان ہے جو ] ظَنَنْتُمْ [ تم لوگوں نے گمان کیا ] بِرَبِّكُمْ [ اپنے رب کے بارے میں ] اَرْدٰىكُمْ [ اس (گمان) نے ہلاک کیا تم کو ] فَاَصْبَحْتُمْ [ تو تم لوگ ہوگئے ] مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ [ خسارہ پانے والوں میں سے ]

فَاِنْ يَّصْبِرُوْا فَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ۭ وَاِنْ يَّسْـتَعْتِبُوْا فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَـبِيْنَ   24؀
فَاِنْ يَّصْبِرُوْا [ پس اگر وہ لوگ صبر کریں (یا نہ کریں ) ] فَالنَّارُ [پھر آگ ] مَثْوًى لَّهُمْ ۭ [ ٹھکانہ ہے ان کے لئے ] وَاِنْ يَّسْـتَعْتِبُوْا [ اور اگر وہ لوگ رضا مندی چاہیں گے ] فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَـبِيْنَ [ تو وہ نہیں ہوں گے راضی کئے ہوؤں میں سے ]

وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاۗءَ فَزَيَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِيْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۚ اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِيْنَ    25؀ۧ
وَقَيَّضْنَا لَهُمْ [ اور ہم نے تعینات کئے ان کے لئے ] قُرَنَاۗءَ [ کچھ ساتھی ] فَزَيَّنُوْا لَهُمْ [ تو انہوں نے زینت دی ان کے لئے ] مَّا [ اس کو جو ] بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ [ ان کے آگے ہے ] وَمَا خَلْفَهُمْ [ اور اس کو جو ان کے پیچھے ہے ] وَحَقَّ عَلَيْهِمُ [ اور ثابت ہوئی ان پر ] الْقَوْلُ [وہ بات (جو ) ] فِيْٓ اُمَمٍ [ ایسی امتوں میں ہوئی جو ] قَدْ خَلَتْ [ گزر چکی ہیں ] مِنْ قَبْلِهِمْ [ ان سے پہلے ] مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۚ [ جنوں اور انسانوں میں سے ] اِنَّهُمْ كَانُوْا [ بیشک وہ لوگ تھے] خٰسِرِيْنَ [ خسارہ پانے والے ]



ق ی ض (ض) قیضا ۔ ایک چیز کو دوسری کے بدلے میں لینا ۔ (تفعیل ) تقییضا غالب ومستولی کرنا ۔ مسلط کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 25۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ    26؀
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا ] لَا تَسْمَعُوْا [ تم لوگ مت سنو] لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ [ اس قرآن کو ] وَالْـغَوْا فِيْهِ [ اور غل غپاڑہ کرو اس میں ] لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ [ شاید تم لوگ غالب ہو جاؤ ]

فَلَنُذِيْقَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَذَابًا شَدِيْدًا ۙ وَّلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَسْوَاَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   27؀
فَلَنُذِيْقَنَّ [ تو ہم لازما چکھائیں گے ] الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ ان کو جنھوں نے کفر کیا ]عَذَابًا شَدِيْدًا ۙ [ایک شدید عذاب ] وَّلَنَجْزِيَنَّهُمْ [ اور ہم لازما بدلہ دیں گے ان کو ] اَسْوَاَ الَّذِيْ [ اس کا بدترین جو ] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [ وہ عمل کرتے تھے]



نوٹ ۔1: اس دنیا میں انسان اپنے اعمال کے اثرات ونتائج کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتا ۔ انسان کا ہر عمل ، خواہ وہ نیک ہو یا بد، اپنے اندر متعدی اثرات رکھتا ہے ، اپنی اس صفت کے سبب سے بعض حالات میں انسان کی ایک چھوٹی سی نیکی بڑھتے بڑھتے احد پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح ایک رائی کے دانے جیسی برائی آہستہ آہستہ ایک خوفناک جنگل بن جاتی ہے ۔ ا سی حقیقت کی طرف آیت ۔ 27۔ میں ارشاد فرمایا کہ ابھی ان نادانوں کو اندازہ نہیں ہے کہ قرآن سے لوگوں کوروک کر اور اس میں گھپلا پیدا کرکے یہ اپنے لئے کیسی بس بھری فصل تیار کررہے ہیں ۔ جب اس کا پورا حاصل ان کے سامنے آئے گا تب وہ اس کا بدترین پہلو (اسوا) دیکھیں گے اور اس وقت انھیں اندازہ ہوگا کہ اپنی تباہی کا کیا سامان کرکے وہ آئے ہیں ۔ (تدبر قرآن) ۔

ذٰلِكَ جَزَاۗءُ اَعْدَاۗءِ اللّٰهِ النَّارُ ۚ لَهُمْ فِيْهَا دَارُ الْخُلْدِ ۭ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ   28؀
ذٰلِكَ [ یہ ] جَزَاۗءُ اَعْدَاۗءِ اللّٰهِ [ اللہ کے دشمنوں کا بدلہ ہے ] النَّارُ ۚ [ جو آگ ] لَهُمْ فِيْهَا [ ان کے لئے ہے اس میں ] دَارُ الْخُلْدِ ۭ [ ہمیشگی کا گھر ] جَزَاۗءًۢ [بدلہ ہوتے ہوئے ] بِمَا [بسبب اس کے جو ] كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ [ ہماری نشانیوں کا جانتے بوجھتے انکار کرتے تھے ]

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَيْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِيَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِيْنَ     29؀
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا ] رَبَّنَآ [اے ہمارے رب ] اَرِنَا [ تو دکھا ہمیں ] الَّذَيْنِ [ ان دونوں کو جنھوں نے ] اَضَلّٰنَا [ گمراہ کیا ہم کو ] مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ [ جنوں اور انسانوں میں سے ] نَجْعَلْهُمَا [ ہم ڈالیں گے ان دونوں کو ] تَحْتَ اَقْدَامِنَا [ اپنے پیروں تلے ] لِيَكُوْنَا [ تاکہ وہ ہوجائیں ] مِنَ الْاَسْفَلِيْنَ [ پست ترین لوگوں میں سے]

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ    30؀
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا [ بیشک جنھوں نے کہا ] رَبُّنَا [ ہمارا رب ] اللّٰهُ [اللہ ہے ] ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا [ پھر قائم رہے (اس پر ) ] تَـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ [ تو اترتے ہیں ان پر ] الْمَلٰۗىِٕكَةُ [ فرشتے ] اَلَّا تَخَافُوْا [ کہ تم لوگ خوف مت کرو] وَلَا تَحْزَنُوْا [ اور غمگین مت ہو ] وَاَبْشِرُوْا [ اور بشارت حاصل کرو] بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ [ اس جنت کی جس کا ] كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ [ تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ]



نوٹ ۔1: محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے سلسلہ دروس قرآن ’’ منتخب نصاب ‘‘ میں ان آیات کا درس بھی شامل ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ان آیات میں مقام ولایت کا بیان ہے ۔ ان کی اس بات سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے مذکورہ آیات کے اس پہلو کی وضاحت ، اس کے صغری کبری کے ساتھ جینے کا سلیقہ کورس کے آخری سبق ’’ مقام ولایت ‘‘ میں کی گئی ہے ۔ طلباء اس سبق کودوبارہ دیکھ لیں ۔

نوٹ ۔2: استقامت کا یہ مفہوم کہ ایمان وتوحید پر قائم رہے ۔ اس کو چھوڑے نہیں ۔ یہ تفسیر حضرت صدیق اکبر (رض) سے منقول ہے۔ حضرت عثمان غنی (رض) نے استقامت کی تفسیر اخلاص عمل سے فرمائی ہے ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ استقامت یہ ہے کہ تم اللہ کے تمام احکام ، اوامر اور نواہی پر سیدھے جمے رہو ، اس سے ادھر ادھر راہ فرار لومڑیوں کی طرح نہ نکالو ۔ حضرت علی (رض) نے اس کی تعریف ادائے فرائض سے فرمائی ہے۔ اس لئے علماء نے فرمایا کہ استقامت تو ایک لفظ مختصر ہے مگر تمام شرائع اسلامیہ کو جامع ہے (معارف القرآن )

نوٹ ۔ 3: بعض مفسرین نے فرشتوں کے نزول کو موت کے وقت ، یا قبر یا میدان حشر کے لئے مخصوص سمجھا ہے ۔ (تفہیم القرآن ) ۔ حضرت ثابت بنانی نے فرمایا کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ مومن جس وقت اپنی قبر سے اٹھے گا تو دو فرشتے ، جو دنیا میں اسی کے ساتھ رہا کرتے تھے ، وہ ملیں گے اور اس کو کہیں گے کہ تم خوف وغم نہ کروبلکہ جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ ان کا کلام سن کر مومن کو اطمینان ہوجائے گا ۔ (معارف القرآن ) آیت زیر مطالعہ میں الحیوۃ الدنیا کے الفاظ سے اس حدیث کی تائید ہوتی ہے ۔ (مرتب ) ابوحیان نے بحرمحیط میں فرمایا کہ میں تو کہتا ہوں کے مومنین پر فرشتوں کا نزول ہرروز ہوتا ہے جس کے آثار وبرکات ان کے اعمال میں پائے جاتے ہیں ۔ البتہ مشاہدہ اور ان کے کلام کا سننا ، یہ انھیں مواقع پر ہوگا ۔ (یعنی موت کے وقت قبر اور میدان حشر میں ) (معارف القرآن)

نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ    31؀ۭ
نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ [ ہم ہیں تمہارے کارساز] فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ [ دنیوی زندگی میں اور آخرت میں (بھی) ] وَلَكُمْ فِيْهَا [ اور تمہارے لئے ہے اس (جنت ) میں ] مَا [ وہ جو ] تَشْتَهِيْٓ [ خواہش کریں گے ] اَنْفُسُكُمْ [ تمہارے جی ] وَلَكُمْ فِيْهَا [ اور تمہارے لئے ہے اس میں ] مَا تَدَّعُوْنَ [ وہ جوتم لوگ مانگو گے ]

نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ    32؀ۧ
نُزُلًا [ ابتدائی مہمان نوازی ہوتے ہوئے ] مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ [ بخشنے والے رحم کرنے والے (کی طرف ) سے ]

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ   33؀
وَمَنْ اَحْسَنُ [ اور کون زیادہ اچھا ہے ] قَوْلًا [ بلحاظ بات کرنے کے ] مِّمَّنْ [ اس سے جس نے ] دَعَآ اِلَى اللّٰهِ [ دعوت دی اللہ کی طرف ] وَعَمِلَ صَالِحًـا [ اور عمل کیا نیکی کا ] وَّقَالَ اِنَّنِيْ [ اور کہا کہ میں ] مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ [ فرمانبرداروں میں سے ہوں ]



نوٹ ۔4: آیت ۔33۔ میں مومنین کاملین کا دوسرا حصہ احوال ہے کہ وہ خود اپنے ایمان وعمل پر قناعت نہیں کرتے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیتے ہیں ۔ (معارف القرآن ) لیکن کسی خاص مسلک یا فرقہ کی دعوت اس مسلک یا فرقہ کی دعوت ہوگی ، وہ دعوت الی اللہ نہیں ہے ۔ (ڈاکٹر اسرار احمد) پھر اگلی آیت میں دعوت الی اللہ کی خدمت انجام دینے والوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ لوگوں کی برائی کو بھلے طریقے سے دفع کریں ، وہ یہ کہ برائی کا بدلہ نہ لینا اور معاف کردینا تو عمل حسن ہے اور احسن یہ ہے کہ جس نے تمہارے ساتھ برا سلوک کیا تم اس کو معاف بھی کردو اور اس کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرو۔ (معارف القرآن ) ۔ یہ نسخہ ہے تو بڑا کارگر مگر اسے استعمال کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے ۔ اس کے لئے بڑا عزم ، بڑا حوصلہ اور بڑی قوت برداشت درکار ہے ۔ وقتی طور پر ایک آدمی کسی بدی کے مقابلے میں نیکی برت سکتا ہے ۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ۔ لیکن بدی کا مقابلہ نیکی اور وہ بھی اعلی درجے کی نیکی سے کرتے چلے جانا اور کبھی ایک مرتبہ بھی ضبط کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دینا ، کسی معمولی آدمی کے بس کا کام نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ     34؀
وَلَا تَسْتَوِي [ اور برابر نہیں ہوتی ] الْحَسَنَةُ [ بھلائی ] وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ [ اور نہ ہی برائی ] اِدْفَعْ [ تو دفع کر (برائی کو)] بِالَّتِيْ هِىَ [ اس سے جو کہ وہی ] اَحْسَنُ [ سب سے اچھی ہو] فَاِذَا [ نتیجتا تب ہی ] الَّذِيْ [وہ (کہ ) ] بَيْنَكَ [ تیرے درمیان ] وَبَيْنَهٗ [ اور جس کے درمیان ] عَدَاوَةٌ [ عداوت ہے ] كَاَنَّهٗ [ (ایسا ہوگا ) جیسے کہ وہ ] وَلِيٌّ حَمِيْمٌ [ گرم جوش دوست ہے ]

وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا ۚ وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ     35؀
وَمَا يُلَقّٰىهَآ [ اور نہیں دی جاتی یہ (صفت ) ] اِلَّا الَّذِيْنَ [مگر ان لوگوں کو جو ]صَبَرُوْا ۚ [ ثابت قدم رہے ] وَمَا يُلَقّٰىهَآ [ اور نہیں دی جاتی یہ (صفت) ] اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ [ مگر نصیبے والوں کو ]

وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۭاِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ    36؀
وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ [ اور اگر اکسائے ہی تجھ کو ] مِنَ الشَّيْطٰنِ [ شیطان (کی طرف ) سے] نَزْغٌ [ کوئی اکساہٹ ] فَاسْتَعِذْ [ تو پناہ میں آؤ ] بِاللّٰهِ ۭ[ اللہ کی ] اِنَّهٗ [ یقینا وہ ] هُوَ السَّمِيْعُ [ ہی سننے والا ہے ] الْعَلِيْمُ [ جاننے والا ہے ]

وَمِنْ اٰيٰتِهِ الَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۭ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ    37؀
وَمِنْ اٰيٰتِهِ [ اور اس کی نشانیوں ہی میں سے ہیں ] الَّيْلُ وَالنَّهَارُ [ رات اور دن ] وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۭ [ اور سورج اور چاند ] لَا تَسْجُدُوْا [تم لوگ سجدہ مت کرو] لِلشَّمْسِ [ سورج کو ] وَلَا لِلْقَمَرِ [ اور نہ ہی چاند کو ] وَاسْجُدُوْا [ اور تم لوگ سجدہ کرو] لِلّٰهِ الَّذِيْ [ اس اللہ کو جس نے ] خَلَقَهُنَّ [ پیدا کیا ان کو ] اِنْ كُنْتُمْ [ اگر تم لوگ ] اِيَّاهُ [ اس کی ہی ] [تَعْبُدُوْنَ: بندگی کرتے ہو]



نوٹ ۔1: سورہ کے شروع میں آیات 9 تا 12 میں آسمان و زمین کی پیدائش سے توحید ومعاد پر جو استدلال کیا ہے۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 37 ۔ اسی سے متعلق ہے۔ درمیان میں جو مطالب تنبیہ وتذکر یا تسکین وتسلی کی نوعیت کے آگئے ہیں وہ اسی مدعا کے تحت ہیں، اس لئے ان کے سبب سے کوئی بعد پیدا نہیں ہوا ہے چنانچہ اسی پر عطف کرتے ہوئے فرمایا جو خدا آسمان و زمین کا خالق ہے ، اسی خدا کی نشانیوں میں سے یہ رات اور دن ، سورج اور چاند بھی ہیں ۔ (تدبر قرآن ) ۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لئے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نکل آنا صاف طور پر یہ دلالت کررہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدایا خدا کا مظہر نہیں ہیں بلکہ دونوں ہی مجبور ولاچار بندے ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوئے گردش کررہے ہیں ۔ (تفہیم القرآن )

فَاِنِ اسْـتَكْبَرُوْا فَالَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُوْنَ لَهٗ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْـَٔــمُوْنَ    38؀۞
فَاِنِ اسْـتَكْبَرُوْا [ پھر اگر وہ لوگ بڑائی دکھائیں ] فَالَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ [ تو جو لوگ آپ کے رب کے پاس ہیں ] يُسَبِّحُوْنَ لَهٗ [ وہ تسبیح کرتے ہیں اس کی ] بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ [ رات اور دن ] وَهُمْ لَا يَسْـَٔــمُوْنَ (السجدہ 11) [ اس حال میں کہ وہ اکتاتے نہیں ہیں ]

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۭ اِنَّ الَّذِيْٓ اَحْيَاهَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى ۭ اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ    39؀
وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ [ اور اس کی نشانیوں ہی میں سے ہے ] اَنَّكَ تَرَى [ کہ آپ دیکھتے ہیں ] الْاَرْضَ [ زمین کو ] خَاشِعَةً [ فروتنی کرنے والی حالت میں (بنجر) ] فَاِذَآ اَنْزَلْنَا [ پھر جب ہم اتارتے ہیں ] عَلَيْهَا الْمَاۗءَ [ اس پر پانی ] اهْتَزَّتْ [ تو وہ لہلہاتی ہے ] وَرَبَتْ ۭ [ اور ابھرتی ہے] اِنَّ الَّذِيْٓ [ بیشک وہ جس نے ] اَحْيَاهَا [ زندہ کیا اس (زمین) کو ] لَمُحْىِ [ یقینا زندہ کرنے والا ہے ] الْمَوْتٰى ۭ [ مردوں کو ] اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ بیشک وہ ہر چیز پر ] قَدِيْرٌ [ ہر حال میں قدرت رکھنے والا ہے ]

اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۭ اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِي النَّارِ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِيْٓ اٰمِنًا يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ ۙ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ    40؀
اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ [ بیشک جو لوگ کجروی اختیار کرتے ہیں ] فِيْٓ اٰيٰتِنَا [ ہماری آیتوں میں ] لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۭ [ وہ پوشیدہ نہیں ہوتے ہم سے ] اَفَمَنْ [تو کیا وہ جو ] يُّلْقٰى [ ڈالا گیا ] فِي النَّارِ [ آگ میں ] خَيْرٌ [بہتر ہے ] اَمْ مَّنْ [ یا وہ جو ] يَّاْتِيْٓ [ آئے گا] اٰمِنًا [ امن میں ہونے والا ہوتے ہوئے ] يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ [ قیامت کے دن ] اِعْمَلُوْا [ تم لوگ عمل کرو ] مَا شِئْتُمْ ۙ [ جو تم چاہو] اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ [ بیشک وہ اس کو جو تم لوگ کرتے ہو] بَصِيْرٌ [ دیکھنے والا ہے ]

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاۗءَهُمْ ۚ وَاِنَّهٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌ    41؀ۙ
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ بیشک جنھوں نے انکار کیا ] بِالذِّكْرِ [ اس نصیحت (قرآن) کا ] لَمَّا جَاۗءَهُمْ ۚ [ جب وہ آئی ان کے پا س] وَاِنَّهٗ [ حالانکہ بیشک وہ ] لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌ [ یقینا ایک ایسی بالادست کتاب ہے ]

لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ ۭتَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ    42 ؀
لَّا يَاْتِيْهِ [ نہیں پہنچے گا جس کے پاس ] الْبَاطِلُ [ باطل ] مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ [ اس کے سامنے سے] وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ ۭ[ اور نہ ہی اس کے پیچھے سے] تَنْزِيْلٌ [ (یہ ) اتاری ہوئی ہے ] مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ [ ایک حکمت والے حمد کئے ہوئے (کی طرف) سے ]

مَا يُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِيْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ ۭ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ وَّذُوْ عِقَابٍ اَلِيْمٍ    43؀
مَا يُقَالُ لَكَ [ نہیں کہا جاتا آپ سے ] اِلَّا مَا [ سوائے اس کے جو ] قَدْ قِيْلَ [ کہا گیا ہے ] لِلرُّسُلِ [رسولوں سے ] مِنْ قَبْلِكَ ۭ [ آپ سے پہلے ] اِنَّ رَبَّكَ [بیشک آپ کا رب ] لَذُوْ مَغْفِرَةٍ [یقینا مغفرت کرنے والا ہے ] وَّذُوْ عِقَابٍ اَلِيْمٍ [ اور دردناک سزا دینے والا ہے ]

وَلَوْ جَعَلْنٰهُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِيًّا لَّـقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ ڼءَاَعْجَمِيٌّ وَّعَرَبِيٌّ ۭ قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ   44؀ۧ
وَلَوْ جَعَلْنٰهُ [ اور اگر ہم کردیتے اس کو ] قُرْاٰنًا اَعْجَمِيًّا [ غیر عربی (زبان والا ) قرآن ) لَّـقَالُوْا [ تو یہ ضرور کہتے ] لَوْلَا فُصِّلَتْ [ کیوں نہیں کھول کھول کربیان کی گئیں ] اٰيٰتُهٗ ڼ[ اس کی آیات ] ءَاَعْجَمِيٌّ [ کیا (کتاب ) غیرعربی ہو ] وَّعَرَبِيٌّ ۭ [ اور (مخاطب) عربی ہوں ] قُلْ [آپ کہہ دیجئے ] هُوَ [ یہ ] لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ ان کے لئے جو ایمان لائے ] هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ [ ہدایت ہے اور شفا ہے ] وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ [ اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ] فِيْٓ اٰذَانِهِمْ [ ان کے کانوں میں ] وَقْرٌ [ ایک گرانی ہے ] وَّهُوَ [ اور یہ ] عَلَيْهِمْ عَمًى ۭ [ ان پر ایک اندھا پن ہے ] اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ [ ان لوگوں کو پکارا جائے گا] مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ [ ایک دور کی جگہ سے ]



نوٹ ۔1: قرآن میں تحریف کی دوہی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ اول یہ کہ کوئی اہل باطل کھلے طور پر قرآن میں کوئی کمی وبیشی کرنا چاہئے اس کو من بین یدیہ سے تعبیر فرمایا ۔ دوسرے یہ کہ کوئی شخص بظاہر دعوی ایمان کا کرے مگر چھپ کر تاویلات باطلہ کے ذریعہ قرآن کے معنی میں تحریف کرے ۔ اس کو من خلفہ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ۔ الفاظ میں تحریف کی راہ نہ ہونا تو ہر شخص سمجھتا ہے۔ چودہ سو سال سے یہ لاکھوں انسانوں کے سینے میں محفوظ ہے۔ ایک زیر وزبر کی غلطی کسی سے ہو جائے تو لاکھوں مسلمان اس کی غلطی پکڑنے والے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ من خلفہ کے الفاظ سے اس طرف اشارہ کردیا کہ قرآن کی حفاظت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے ۔ انا لہ لحفظون وہ صرف الفاظ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کے معانی کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ ہی کفیل ہے ۔ اس نے اپنے رسول اللہ
اور ان کے صحابہ کرام کے ذریعے معانی قرآن اور احکام قرآن کو بھی ایسا محفوظ کردیا کہ کوئی بےدین اس میں تاویلات باطلہ کے ذریعہ تحریف کا ارادہ کرے تو ہر جگہ ہر زمانے میں ہزاروں علماء اس کی تردید کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ (معارف القرآن)

نوٹ ۔ 2: ینادون من مکان بعید ۔ یہ ایک تمثیل ہے ۔ جو آدمی کلام کو سمجھتا ہو ، اس کو عرب لوگ کہتے ہیں تم قریب سے سن رہے ہو۔ اور جو کلام کو نہ سمجھے اس کو کہتے ہیں تمہیں دور سے آواز دی جارہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ قرآنی ہدایات کو سمجھنے کا ارادہ نہیں رکھتے ان کو ہدایت کی تعلیم دینا ایسا ہے جیسے کسی کو بہت دور سے پکارا جائے۔ (معارف القرآن ) یعنی اس کے کان تک آواز تو پہنچے لیکن اس کی سمجھ میں نہ آئے کہ کیا کہا جارہا ہے ۔ (تفہیم القرآن )

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِيْهِ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّهُمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ    45؀
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى [ اور بیشک ہم دے چکے موسیٰ کو ] الْكِتٰبَ [ وہ کتاب (تورات) ] فَاخْتُلِفَ فِيْهِ ۭ [ پھر اختلاف کیا گیا اس میں ] وَلَوْلَا [ اور اگر نہ ہوتا ] كَلِمَةٌ [ ایک ایسا فرمان جو ] سَبَقَتْ [ طے ہوا ] مِنْ رَّبِّكَ [ آپ کے رب ( کی طرف ) سے ] لَقُضِيَ [ تو ضرور فیصلہ کردیا جاتا ] بَيْنَهُمْ ۭ [ ان کے درمیان ] وَاِنَّهُمْ [ اور بیشک وہ لوگ ] لَفِيْ شَكٍّ [ یقینا ایک ایسے شک میں ہیں ] مِّنْهُ [ اس سے ] مُرِيْبٍ [ جو الجھن میں ڈالنے والا ہے ]

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْهَا  ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ    46؀
مَنْ عَمِلَ [ جس نے عمل کیا ] صَالِحًــا [نیکی کا ] فَلِنَفْسِهٖ [ تو (وہ) اس کے اپنے آپ کے لئے ] وَمَنْ اَسَاۗءَ [ اور جس نے برائی کی ] فَعَلَيْهَا ۭ [ تو (وہ) اس (کی جان) پر ہے ] وَمَا رَبُّكَ [ اور نہیں ہے آپ کا رب ] بِظَلَّامٍ [ کبھی بھی ظلم کرنے والا ] لِّـلْعَبِيْدِ [ بندوں پر]