قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 

چھبیسواں پارہ 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ           ۝

حٰـمۗ     Ǻ۝ۚ


نوٹ ۔ 1: سورۃ الاحقاف کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ قرآن محمد
کا کلام نہیں ہوسکتا بلکہ یہ اللہ کا ہی کلام ہے ۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے اس پس منظر کو سمجھنا ہوگا جس میں سورہ نازل ہوئی ۔ یہ سورہ 10 نبوی کے آخر یا 11 نبوی کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی ۔ 10 نبوی حیات طیبہ میں انتہائی سختی کا سال تھا ۔ تین سال سے حضور اپنے خاندان اور اپنے اصحاب کے ساتھ شعیب ابی طالب میں محصور تھے ، یہ محاصرہ اس سال ٹوٹا ہی تھا کہ حضرت ابو طالب وفات پاگئے جو دس سال سے آپ کے لیے ڈھال بنے ہوئے تھے ۔ اس سانحے پر مشکل ایک مہینہ گزرا تھا کہ بی بی خدیجہ  (رض)  بھی انتقال فرما گئیں جن کی ذات آغازنبوت سے ہی آپ کے لیے وجہ سکون وتسلی بنی رہی تھی ، ان پے درپے صدموں کی وجہ سے حضور اس سال کو عام الحزن فرمایا کرتے تھے ۔ اس کے بعد کفار مکہ پہلے سے زیادہ آپ کو تنگ کرنے لگے اور آپ کا گھر سے نکلنا بھی مشکل ہوگیا ، آخرکار آپ اس ارادے سے طائف تشریف لے گئے کہ اگر ہولوگ اسلام نہ قبول کریں تو وہ آپ کو اپنے ہاں چین سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع دے دیں ، مگر انہوں نے آپ کی کوئی بات نہیں مانی اور آپ کو نوٹس دے دیا کہ وہ شہر سے نکل جائیں ۔ اور اپنے ہاں کے لفنگوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا ۔ وہ دور تک آپ پر آوازے کستے اور پتھر مارتے رہے ۔ یہاں تک کہ آپ زخموں سے چور ہوگئے ۔ اس حالت میں آپ طائف کے باہر ایک باغ کی دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے اور اپنے رب سے عرض کیا :

’’ خداوندا میں تیرے ہی حضور اپنی بےبسی اور بےچارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بےقدری کا شکوہ کرتاہوں ۔ اے ارحم الراحمین ، تو سارے ہی کمزوروں کا رب ہے اور میرا رب بھی توہی ہے ۔ مجھے کس کے حوالے کررہا ہے ۔ کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ پر سے درشتی سے پیش آئے ۔ یاکسی دشمن کے حوالے جو مجھ پر قابو پالے، اگر تم مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی مصیبت کی پرواہ نہیں مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہوجائے تو اس میں میرے لئے زیادہ کشادگی ہے، میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی جو اندھیرے میں اجالا اور دنیا اور آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے ۔ مجھے اس سے بچا لے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیرے عتاب کا مستحق ہوجائوں ۔ تیری مرضی پر راضی ہوں ، یہاں تک کہ تم مجھ سے راضی ہوجائے ۔ کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں ۔

اس کے بعد چند روز نخلہ کے مقام پر ٹھہر گئے ، پریشان تھے کہ اب کیسے مکہ واپس جاؤں ۔ طائف میں جو کچھ گزری ہے اس کی خبریں وہاں پہنچ چکی ہوں گی ، اس کے بعد تو کفار پہلے سے بھی زیادہ دلیر ہوجائیں گے ۔

یہ حالات تھے جن میں یہ سورہ نازل ہوئی ۔ جو شخص بھی ان حالات کو نظر میں رکھے گا اور اس سورہ کو بغور پڑھے گا اسے کوئی شبہہ نہیں رہے گا کہ یہ محمد
کا کلام نہیں ہے بلکہ اس کا نزول اللہ کی طرف سے ہی ہے کیونکہ اول سے آخر تک پوری سورہ میں کہیں ان انسانی جذبات وتاثرات کا ایک ادنی شائبہ تک نہیں پایا جاتا جو ان حالات میں گزرنے والے انسان کے اندر فطری طور پر پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر یہ محمد کا کلام ہوتا جنھیں پے در پے صدمات اور مصائب کے بےپناہ ہجوم اور طائف کے تازہ ترین چرکے نے خستہ حالی کی انتہا کو پہنچا دیا تھا تو اس سورہ میں کہیں تو ان کیفیات کا عکس نظر آتا جو اس وقت آپ کے دل پر گزر رہیں تھیں ، ہم نے حضور کی جو دعانقل کی ہے ، اسے دیکھیے ، وہ آپ کا اپنا کلام ہے ، اس کا لفظ لفظ ان کیفیات سے لبریز ہے مگر یہ سورہ جو اسی زمانے اور انہی حالات میں آپ ہی کی زبان مبارک سے ادا ہوئی ہے ، ان کے ہر اثر سے خالی ہے ۔ (تفہیم القرآن ج 4۔ ص۔596 تا 598 سے ماخوذ)

تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ     Ą۝
تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ [ اس کتاب کا اتارنا ] مِنَ اللّٰهِ [اللہ (کی طرف ) سے ہے ] الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ [ جو بالا دست ہے حکمت والا ہے ]

مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ     Ǽ۝
مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ [ ہم نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو ] وَمَا بَيْنَهُمَآ [ اور جو ان کے درمیان ہے] اِلَّا بِالْحَـقِّ [ مگر حق (مقصد) کے ساتھ ] وَاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ [ اور ایک مقررہ مدت کے ساتھ ] وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ اور وہ لوگ جنھوں نے انکار کیا ] عَمَّآ [ اس سے جس سے ] اُنْذِرُوْا [ ان کو خبردار کیا گیا ] مُعْرِضُوْنَ [ اعراض کرنے والے ہیں ]

قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَــهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِ ۭ اِيْتُوْنِيْ بِكِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ھٰذَآ اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ    Ć۝
قُلْ [ آپ کہیے ] اَرَءَيْتُمْ [ کیا تم لوگوں نے غور کیا ] مَّا [ان پر جن کو ] تَدْعُوْنَ [ تم لوگ پکارتے ہو ] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے سوا ] اَرُوْنِيْ [ تم لوگ دکھاؤ مجھ کو ] مَاذَا [ کیا کچھ ] خَلَقُوْا [ انہوں نے پیدا کیا ] مِنَ الْاَرْضِ [ زمین سے] اَمْ لَــهُمْ شِرْكٌ [ یا ان کے لیے کوئی شراکت ہے] فِي السَّمٰوٰتِ ۭ [ آسمانوں میں ] اِيْتُوْنِيْ [ تم لوگ لاؤ میرے پاس ] بِكِتٰبٍ [ کوئی کتاب ] مِّنْ قَبْلِ ھٰذَآ [ اس سے پہلے کی ] اَوْ اَثٰرَةٍ [ یا (لاؤ) کچھ بچے ہوئے حصہ ] مِّنْ عِلْمٍ [ کسی علم سے ] اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ [ اگر تم لوگ سچ کہنے والے ہو ]

 

نوٹ۔2: اثارۃ اس روایت کو کہتے ہیں جو باپ دادا سے منقول ہوتی چلی آرہی ہو ، اس کے ساتھ من علم کی قید اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ اس روایت کی بنیاد محض وہم وگمان پر نہیں بلکہ علم پر ہو ، یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ علم یا تو اس کی کتابوں کے ذریعے سے خلق کو منتقل ہوا ہے مثلا تورات ، وانجیل وغیرہ یا روایات و آثار کے ذریعے مثلا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی تعلیمات بعد والوں کو روایات ہی کے ذریعہ سے پہنچیں ، ان ذرئع سے جو علم منتقل ہوا اسمیں کہیں شرک کے حق میں کوئی شائبہ نہیں ہے ۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق جو روایات تورات ، وانجیل یا دوسرے صحیفوں میں نقل ہوئی ہیں ان میں بھی شرک کا کوئی جرثومہ نہیں ہے مشرکین عرب اپنے باپ دادا کے طریقہ پر ہونے کے مدعی ضرور تھے لیکن یہ ثابت کرنے سے قاصر رہے کہ ان کے باپ دادا کے طریقہ کی بنیاد کس شرعی یا عقلی دلیل پر تھی ۔ (تدبر قرآن)

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ      Ĉ۝
وَمَنْ اَضَلُّ [ اور کون زیادہ گمراہ ہے ] مِمَّنْ [ اس سے جو ] يَّدْعُوْا [ پکارتا ہے ] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے سوا ] مَنْ [ اس کو جو ] لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ [ جواب نہیں دیتا اس کو ] اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ [ قیامت کے دن تک ] وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ [ اور وہ ان کی دعا سے ] غٰفِلُوْنَ [ غافل ہیں ]

وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِيْنَ      Č۝
وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ [ اور جب اکٹھا کیا جائے گا لوگوں کو ] كَانُوْا [ تو وہ لوگ ہوں گے ] لَهُمْ اَعْدَاۗءً [ ان کے دشمن ] وَّكَانُوْا [ اور وہ ہوں گے ] بِعِبَادَتِهِمْ [ ان کی عبادت کا ] كٰفِرِيْنَ [ انکار کرنے والے ]

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَهُمْ ۙ ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ       Ċ۝ۭ
وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ [ اور جب کبھی پڑھ کرسنائی جاتی ہیں ان کو ] اٰيٰتُنَا [ ہماری آیتیں ] بَيِّنٰتٍ [ واضح ہوتے ہوئے] قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ تو کہتے ہیں وہ لوگ جنھوں نے انکار کیا ] لِلْحَقِّ [ اس حق (قرآن ) کے لئے ] لَمَّا جَاۗءَهُمْ ۙ [ جب وہ آیا ان کے پاس ] ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ [ یہ ایک کھلا جادو ہے ]

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۭ قُلْ اِنِ افْتَرَيْتُهٗ فَلَا تَمْلِكُوْنَ لِيْ مِنَ اللّٰهِ شَيْـــــًٔا ۭ هُوَ اَعْلَمُ بِمَا تُفِيْضُوْنَ فِيْهِ ۭ كَفٰى بِهٖ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۭ وَهُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ      Ď۝
اَمْ يَقُوْلُوْنَ [ یا (پھر) وہ کہتے ہیں ] افْتَرٰىهُ ۭ [ اس نے گھڑا اس کو ] قُلْ اِنِ افْتَرَيْتُهٗ [ آپ کہیے اگر میں گھڑا اس کو ] فَلَا تَمْلِكُوْنَ [ تو تم لوگ اختیار نہیں رکھتے ہو ] لِيْ [ میرے بارے میں ] مِنَ اللّٰهِ [ اللہ سے ] شَيْـــــًٔا ۭ [ کسی چیز کا ] هُوَ اَعْلَمُ [ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے ] بِمَا [ اس (بات ) کو ] تُفِيْضُوْنَ [ تم لوگ چرچا کرتے ہو ] فِيْهِ ۭ [ جس کا ] كَفٰى بِهٖ [ وہ کافی ہے ] شَهِيْدًۢا [ بطور گواہ کے ] بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۭ [ میرے درمیان اور تمہارے درمیان ] وَهُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ [ اور وہ ہی بےانتہابخشنے والا رحم کرنے والا ہے ]

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ ۭ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ       ۝
قُلْ مَا كُنْتُ [ آپ کہیے میں نہیں ہوں ] بِدْعًا [ کوئی نیا نویلا ] مِّنَ الرُّسُلِ [ رسولوں میں سے ] وَمَآ اَدْرِيْ [ اور میں نہیں جانتا ] مَا يُفْعَلُ [ کیا کیا جائے گا ] بِيْ [ میرے ساتھ ] وَلَا بِكُمْ ۭ [ اور نہ تمہارے ساتھ (کیے جانے کو ) ] اِنْ اَتَّبِــعُ [ میں پیروی نہیں کرتا ] اِلَّا مَا [ سوائے اس کے جو ] يُوْحٰٓى اِلَيَّ [ وحی کیا گیا میری طرف ] وَمَآ اَنَا [ اور میں نہیں ہوں ] اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ [ مگر ایک واضح خبردار کرنے والا ]



نوٹ۔1: آیت ۔9۔ کا مطلب یہ ہے کہ میں نہیں جانتا بجز اس کے جو مجھ پر وحی کی جائے ۔ امور غیبیہ کا علم مجھے صرف وحی کے ذریعہ ہو سکتا ہے ۔ جس معاملے کے متعلق وحی سے مجھے علم نہ ہو ، خواہ وہ میری ذات سے متعلق ہو یا امت کے مومن وکافر لوگوں سے اور خواہ وہ معاملہ دنیا کا ہو یا آخرت کا اس کی مجھے کچھ خبر نہیں ۔ امور غیبیہ کے متعلق میں جو کچھ کہتا ہوں وہ سب وحی الہی سے کہتا ہوں ۔ تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ میرا اعتقاد یہ ہے کہ رسول اللہ
اس دنیا سے اس وقت تک رخصت نہیں ہوئے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور دنیا و آخرت میں پیش آنے والے اہم معاملات سے آپ کو بذریعہ وحی باخبر نہیں کردیا گیا ۔ رہا اشخاص وافراد کے جزوی شخصی حالات ومعاملات کہ زید کل کیا کام کرے گا اور اس کے کام کا انجام کیا ہوگا ، عمر اور بکر اپنے اپنے گھروں میں کیا کررہے ہیں یا کریں گے ، ایسے وامور غیبیہ کا علم نہ کوئی کمال ہے نہ ان کے نہ ہونے سے کمال نبوت میں کوئی فرق آتا ہے ۔

جناب رسول اللہ
کے علم غیب کے متعلق تقاضائے ادب یہ ہے کہ یوں نہ کہا جائے کہ آپ غیب نہیں جانتے تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو امور غیب کا بہت بڑا علم دیا تھا جو انبیاء میں سے کسی دوسرے کو نہیں ملا، (معارف القرآن )

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَكَفَرْتُمْ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي مِثْلِهٖ فَاٰمَنَ وَاسْـتَكْبَرْتُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْــقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ      10۝ۧ
قُلْ اَرَءَيْتُمْ [ آپ کہیے کیا تم لوگوں نے غور کیا ] اِنْ كَانَ [ اگر یہ (قرآن ) ہوا ] مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ [ اللہ کے پاس سے ] وَكَفَرْتُمْ بِهٖ [ اور انکار کیا تم نے اس کا ] وَ [حالانکہ ] شَهِدَ [ گواہی دی ] شَاهِدٌ [ ایک گواہی دینے والے نے ] مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ بنی اسرائیل میں سے ] عَلٰي مِثْلِهٖ [ اس کے جیسی (کتاب ) پر ] فَاٰمَنَ [ پھر وہ ایمان لایا ] وَاسْـتَكْبَرْتُمْ ۭ [ اور تم نے (پھر بھی ) اکڑ دکھائی ] اِنَّ اللّٰهَ [ (تو) یقینا اللہ ] لَا يَهْدِي [ ہدایت نہیں دیتا ] الْــقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والی قوم کو ]



نوٹ۔2: مفسرین کے ایک بڑے گروہ نے آیت ۔ 10 میں گواہ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کولیا ہے جو مدینہ میں ایمان لائے تھے اس لیے ان مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت مدنی ہے۔ اس تفسیر کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کا یہ بیان ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ (بخاری ۔ مسلم ۔ نسائی ) مگر دوسری طرف کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت عبداللہ بن سلام (رض) کے بارے میں نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ پوری سورہ مکی ہے ۔ ابن جریر طبری کا کہنا ہے کہ اوپر سے سارا سلسلہ کلام مشرکین مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے چلا آرہا ہے اور آگے بھی سارا خطاب انہی سے ہے اس سیاق وسباق میں یکایک مدینہ میں نازل ہونے والی ایک آیت کا آجانا قابل تصور نہیں ہے ۔ جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو قبول کیا ہے وہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت کو رد نہیں کرتے بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ آیت چونکہ عبداللہ بن سلام (رض) کے ایمان لانے پر بھی چسپاں ہوتی ہے اس لئے حضرت سعد (رض) نے قدماء کی عادت کے مطابق یہ فرما دیا کہ یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب وہ ایمان لائے اس وقت انہی کے بارے میں نازل ہوئی ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے قبول ایمان پر یہ پوری طرح چسپاں ہوتی ہے ۔

اس کے بعد یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ اس گواہ سے مراد کون ہے ، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ لیکن بعد کا یہ فقرہ کہ وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے اس تفسیر کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا ۔ زیادہ صحیح بات وہی معلوم ہوتی ہے جو ابن کثیر نے بیان کی ہے کہ یہاں گواہ سے مراد کوئی خاص شخص نہیں بلکہ بنی اسرائیل کا ایک عام آدمی ہے ۔ آیت کا مدعا یہ ہے کہ قرآن جو تعلیم پیش کررہا ہے یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ۔ اس سے پہلے یہی تعلیمات اسی طرح وحی کے ذریعہ بنی اسرائیل کے سامنے کتب آسمانی کی شکل میں آچکی ہیں اور انا کا ایک عام آدمی ان کو مان چکا ہے ۔ اس لیے تم لوگ یہ دعوی نہیں کرسکتے کہ وحی اور تعلیمات ناقابل فہم چیزیں ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ تمہارا گھمنڈ  ایمان لانے میں مانع ہے ۔ (تفہیم القرآن )

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ ۭ وَاِذْ لَمْ يَهْتَدُوْا بِهٖ فَسَيَقُوْلُوْنَ ھٰذَآ اِفْكٌ قَدِيْمٌ        11 ؀
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے انکار کیا ] لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ ان کے لئے جو ایمان لائے ] لَوْ كَانَ خَيْرًا [ اگر یہ ہوتا تو بہتر ] مَّا سَبَقُوْنَآ [ تو یہ لوگ آگے نہ نکلتے ہم سے ] اِلَيْهِ ۭ [ اس کی طرف ] وَاِذْ لَمْ يَهْتَدُوْا بِهٖ [ اور جب انھوں نے ہدایت نہیں پائی اس کے ذریعہ ] فَسَيَقُوْلُوْنَ [ تو وہ لوگ کہیں گے ] ھٰذَآ اِفْكٌ قَدِيْمٌ [ یہ ایک بہت پرانا بہتان ہے ]

وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْمَةً ۭ وَھٰذَا كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا     ڰ وَبُشْرٰى لِلْمُحْسِـنِيْنَ      12۝ۚ
وَمِنْ قَبْلِهٖ [ اور اس (کتاب ) سے پہلے ] كِتٰبُ مُوْسٰٓى [ موسیٰ کی کتاب تھی] اِمَامًا وَّرَحْمَةً ۭ [ امام اور رحمت ہوتے ہوئے ] وَھٰذَا كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ [ اور یہ ایک (اس کی ) تصدیق کرنے والی کتاب ہے ] لِّسَانًا عَرَبِيًّا [ عربی زبان میں ہوتے ہوئے ] لِّيُنْذِرَ [ تاکہ یہ ( کتاب ) خبردار کرے ] الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ڰ [ ان کو جنھوں نے ظلم کیا ] وَبُشْرٰى [ اور بشارت ہوتے ہوئے ] لِلْمُحْسِـنِيْنَ [خوب کاروں کیلئے ]

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَـقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ      13؀ۚ
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا [ بیشک جن لوگوں نے کہا ] رَبُّنَا اللّٰهُ [ ہمارا رب اللہ ہے ] ثُمَّ اسْـتَـقَامُوْا [ پھر وہ قائم رہے ( اس پر) ] فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ [ تو کوئی خوف نہیں ہے ان پر ] وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ [ اور نہ ہو وہ لوگ غمگین ہوں گے ]

اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا   ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ      14؀
اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ [ یہ لوگ جنت والے ہیں ] خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۚ [ ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے اس میں ] جَزَاۗءًۢ [ بدلہ ہوتے ہوئے ] بِمَا [ اس کا جو ] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [ یہ لوگ کرتے تھے ]

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسٰـنًا   ۭ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا   ۭ وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا   ۭحَتّىٰٓ اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَـنَةً ۙ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ ڝ اِنِّىْ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاِنِّىْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ     15؀
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ [ اور ہم نے تاکید کی انسان کو ] بِوَالِدَيْهِ [ اپنے والدین سے ] اِحْسٰـنًا ۭ [ حسن سلوک کرنے کی ] حَمَلَتْهُ [ اس کا (حمل ) اٹھایا ] اُمُّهٗ [اس کی ماں نے ] كُرْهًا [تکلیف دہ ہوتے ہوئے ] وَّوَضَعَتْهُ [ اور اس نے جنا اس کو ] كُرْهًا ۭ [ تکلیف دہ ہوتے ہوئے] وَحَمْلُهٗ [اور اس کا (حمل) اٹھانا ] وَفِصٰلُهٗ [ اور اس کا (دودھ ) چھڑانا ] ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا ۭ[ تیس مہینے ہیں ] حَتّىٰٓ اِذَا بَلَغَ [ یہاں تک کہ وہ پہنچے ] اَشُدَّهٗ [اپنی پختگی کو ] وَبَلَـغَ [ اور وہ پہنچے ] اَرْبَعِيْنَ سَـنَةً ۙ [ چالیس سال کو ] قَالَ [ (تو) وہ کہے ] رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ [ اے میرے رب تو میرے دل میں ڈال دے] اَنْ اَشْكُرَ [ کہ میں شکر ادا کروں ] نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ [ تیری اس نعمت کا جو ] اَنْعَمْتَ عَلَيَّ [ تو نے انعام کی مجھ پر ] وَعَلٰي وَالِدَيَّ [اور میرے والدین پر ] وَاَنْ اَعْمَلَ [ اور یہ کہ میں عمل کروں ] صَالِحًا [ایسی نیکی کا ] تَرْضٰىهُ [ تو پسند کرے جس کو ] وَاَصْلِحْ [ اور تو اصلاح کردے ] لِيْ [ میرے لیے ] فِيْ ذُرِّيَّتِيْ ڝ [ میرے اولاد میں ] اِنِّىْ تُبْتُ [ بیشک میں نے رجوع کیا (توبہ کی) ] اِلَيْكَ [تیری طرف ] وَاِنِّىْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ [ اور بیشک میں فرمانبرداروں میں سے ہوں ]



نوٹ ۔1: آیت ۔15 میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت کی ہے یہ ہدایت اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کے اندر بھی ودیعت فرمائی ہے اور اسی کی تعلیم تمام انبیاء اور اس کے نیک بندوں نے بھی دی ہے یہ حقیقت تمام مذاہب وادیان میں ابتدا سے مسلم رہی ہے کہ خدا کے بعد انسان پر سب سے بڑا حق اس کے ماں باپ ہی کا ہے بلکہ یہ کہنا بھی بےجا نہیں ہیکہ جہاں تک شعور میں آنے کا تعلق ہے ، ماں باپ کا حق سب سے پہلے شعور میں آتا ہے ، پھر اسی حق کے شعور سے انسان خدا اور اس کے حقوق کے شعور تک ترقی کرتا ہے ۔ جب تک انسان بچہ رہتا ہے اس وقت تک وہ سب کچھ ماں باپ ہی کو سمجھتا ہے ۔ لیکن جب وہ سن رشد کو پہنچتا ہے تو اس پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اصلی منعم وہ پروردگار ہے جس نے ماں باپ کو بھی وجود بخشا ہے۔ اس طرح وہ ماں باپ کی انگلی پکڑ کر خدا تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے اندر ماں باپ کے حق کا شعور بیدار ہوتا ہے ۔ اور یہی دو حق انسان پر سب سے بڑے ہیں اور پھر انہی دو حق سے بہت سے حقوق کی شاخیں پھوٹتی ہیں ۔ (تدبر قرآن)

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـيِّاٰتِهِمْ فِيْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّةِ ۭ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ      16؀
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ [ یہ وہ لوگ ہیں ] نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ [ ہم قبول کرتے ہیں جن سے ] اَحْسَنَ مَا [ اس کے بہترین کو جو] عَمِلُوْا [ ان لوگوں نے عمل کیا ] وَنَتَجَاوَزُ [ اور ہم درگزر کرتے ہیں ] عَنْ سَـيِّاٰتِهِمْ [ ان کی برائیوں سے ] فِيْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّةِ ۭ [ (وہ لوگ ) جنت والوں میں ہیں ] وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِيْ [ اس سچائی کا وعدہ ہوتے ہوئے جو] كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ [ ان سے وعدہ کیا جاتا تھا ]

وَالَّذِيْ قَالَ لِوَالِدَيْهِ اُفٍّ لَّكُمَآ اَتَعِدٰنِنِيْٓ اَنْ اُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِيْ ۚ وَهُمَا يَسْتَغِيْثٰنِ اللّٰهَ وَيْلَكَ اٰمِنْ ڰ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ښ فَيَقُوْلُ مَا ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ        17؀
وَالَّذِيْ قَالَ [ اور وہ جس نے کہا ] لِوَالِدَيْهِ [ اپنے والدین سے ] اُفٍّ لَّكُمَآ [تم دونوں پر افسوس ہے ] اَتَعِدٰنِنِيْٓ [ کیا تم دونوں مجھے دھمکی دیتے ہو] اَنْ اُخْرَجَ [ کہ مجھ کو نکالا جائے گا ] وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ [ حالانکہ گزر چکی ہیں قومیں ] مِنْ قَبْلِيْ ۚ [ مجھ سے پہلے ] وَهُمَا يَسْتَغِيْثٰنِ اللّٰهَ [ اور وہ دونوں فریاد کرتے ہیں اللہ سے ] وَيْلَكَ [ (پھر بیٹے سے کہتے ہیں ) بربادی ہے تیرے لیے ] اٰمِنْ ڰ [ تو ایمان لا] اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ [ یقینا اللہ کا وعدہ ] حَقٌّ ښ [ سچ ہے ] فَيَقُوْلُ [ تو وہ کہتا ہے ] مَا ھٰذَآ اِلَّآ [ نہیں ہیں یہ مگر ] اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ [ پہلے لوگوں کے افسانے]

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِيْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِيْنَ      18؀
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ [ یہ وہ لوگ ہیں ] حَقَّ عَلَيْهِمُ [ ثابت ہوئی جن پر ] الْقَوْلُ [ وہ (عذاب کی ) بات ] فِيْٓ اُمَمٍ [ (وہ ) ایسی قوموں میں ہیں جو ] قَدْ خَلَتْ [ گزرچکی ہیں ] مِنْ قَبْلِهِمْ [ ان سے پہلے] مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۭ [ جنوں اور انسانوں میں سے] اِنَّهُمْ كَانُوْا [ بیشک وہ لوگ تھے ] خٰسِرِيْنَ [خسارہ پانے والے]

وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ۚ وَلِيُوَفِّيَهُمْ اَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ     19؀
وَلِكُلٍّ [ اور سب کے ] دَرَجٰتٌ [ کچھ درجے ہیں ] مِّمَّا عَمِلُوْا ۚ [اس میں سے جو ان لوگوں نے عمل کیا ] وَلِيُوَفِّيَهُمْ [ اور تاکہ وہ (اللہ ) پورا پورا دے ان کو ] اَعْمَالَهُمْ [ ان کے اعمال (کا بدلہ ) ] وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ [ اور ان لوگوں پر ظلم (حق تلفی ) نہیں کیا جائے گا ]



نوٹ ۔ 1: آیت 19 میں وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ کا مطلب یہ ہے کہ نہ اچھے لوگوں کی نیکیاں ضائع ہوں گی نہ برے لوگوں کو ان کی واقعی برائی سے بڑھ کر سزا دی جائے گی ۔ نیک آدمی اگر اپنے اجر سے محروم رہ جائے یا اپنے استحقاق سے کم اجر پائے تو یہ بھی ظلم ہے اور برا آدمی اپنے کئے سزا نہ پائے یا جتنا قصور اس نے کیا ہے اس سے زیادہ سزا پائے تو یہ بھی ظلم ہے۔ (تفہیم القرآن )

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَلَي النَّارِ ۭ اَذْهَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا ۚ فَالْيَوْمَ تُجْـزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْـتَكْبِرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ      20؀ۧ
وَيَوْمَ يُعْرَضُ [ اور جس دن پیش کیے جائیں گے ] الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ وہ لوگ جنھوں نے انکار کیا ] عَلَي النَّارِ ۭ [ آگ پر ] اَذْهَبْتُمْ [ (تو کہا جائے گا ) تم لوگ لے گئے] طَيِّبٰتِكُمْ [ اپنی پاکیزہ (چیزوں) کو ] فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا [ اپنی دنیوی زندگی میں ] وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا ۚ [ اور تم لوگوں نے فائدہ اٹھایا ان سے ] فَالْيَوْمَ تُجْـزَوْنَ [ پس آج تم لوگوں کو بدلہ دیا جائے گا ] عَذَابَ الْهُوْنِ [ ذلت کے عذاب کا ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ] كُنْتُمْ تَسْـتَكْبِرُوْنَ [ تم لوگ بڑے بنے پھرتے تھے ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] بِغَيْرِ الْحَقِّ [ حق کے بغیر ] وَبِمَا [ اور بسبب اس کے جو ] كُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ [ تم لوگ نافرمانی کرتے رہتے تھے]



نوٹ ۔ 2: آیت ۔20۔ میں ہے کہ کفار سے کہا جائے گا کہ تم نے کچھ اچھے کام اگر دنیا میں کیے تھے تو اس کا بدلہ بھی تمہیں دنیا میں دیا جاچکا ہے اب آخرت میں تمہارا کوئی حصہ باقی نہیں رہا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کے نیک اعمال جو ایمان نہ لانے کی وجہ سے اللہ کے نزدیک مقبول نہیں ، آخرت میں تو ان کی کوئی قیمت نہیں مگر دنیا میں اللہ تعالیٰ ان کا بدلہ اس کودیتے ہیں ۔ (معارف القرآن)

وَاذْكُرْ اَخَا عَادٍ ۭ اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَهٗ بِالْاَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖٓ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ      21؀
وَاذْكُرْ [ اور آپ یاد کریں ] اَخَا عَادٍ ۭ [ عاد کے بھائی (ہود) کو ] اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَهٗ [ جب انہوں نے خبردار کیا اپنی قوم کو ] بِالْاَحْقَافِ [ احقاف (کے علاقے ) میں ] وَقَدْ خَلَتِ [ حالانکہ گزر چکے تھے ] النُّذُرُ [خبردار کرنے ] مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ [ ان کے آگے (والے علاقے ) سے] وَمِنْ خَلْفِهٖٓ [ اور ان کے پیچھے (والے علاقے ) سے] اَلَّا تَعْبُدُوْٓا [ کہ تم بندگی مت کرو (کسی کی) ] اِلَّا اللّٰهَ ۭ [ سوائے اللہ کے] اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ [ بیشک میں ڈرتا ہوں تم لوگوں پر ] عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ [ ایک عظیم دن کے عذاب سے ]



ح ق ف : (ن) حقوفا ہرن کا ریت کے تودہ میں بیٹھنا ۔ حقف ، ج: احقاف ۔ ریت کالمبا اور بیچ دار تودہ ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 21۔

نوٹ۔1: چونکہ سرداران قریش اپنی بڑائی کا زعم رکھتے تھے اور اپنی ثروت پر پھولے نہ سماتے تھے ۔ اس لیے یہاں انکو قوم عاد کا قصہ سنایا جارہا ہے جس کے متعلق عرب میں مشہور تھا کہ قدیم زمانے میں وہ اس سرزمین کی سب سے زیادہ طاقتور قوم تھی۔ (تفہیم القرآن )

قَالُوْٓا اَجِئْتَـنَا لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا ۚ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ      22؀
قَالُوْٓا اَجِئْتَـنَا [ ان لوگوں نے کہا کیا تو آیا ہمارے پا س] لِتَاْفِكَنَا [ تاکہ تو پھیر دے ہم کو ] عَنْ اٰلِهَتِنَا ۚ [ ہمارے خداؤں سے ] فَاْتِنَا [ پس تو لے آ ] بِمَا [ اس چیز کو جس کا ] تَعِدُنَآ [ تو وعدہ کرتا ہے ہم سے ] اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ [ اگر تو سچ کہنے والوں میں سے ]

قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ڮ وَاُبَلِّغُكُمْ مَّآ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَلٰكِنِّىْٓ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْـهَلُوْنَ      23؀
قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ [ انہوں نے کہا (اس کا) پورا علم تو بس ] عِنْدَ اللّٰهِ ڮ [ اللہ کے پاس ہے ] وَاُبَلِّغُكُمْ [ اور میں پہنچاتا ہوں تم لوگوں کو ] مَّآ [ اس چیز کو ] اُرْسِلْتُ بِهٖ [ میں بھیجا گیا جس کے ساتھ ] وَلٰكِنِّىْٓ اَرٰىكُمْ [ اور لیکن میں دیکھتا ہوں تم لوگوں کو ]قَوْمًا [ایک ایسی قوم (کہ) ] تَجْـهَلُوْنَ [ تم لوگ نادانی کرتے ہو]

فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِيَــتِهِمْ ۙ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۭ بَلْ هُوَ مَا اسْـتَعْــجَلْتُمْ بِهٖ ۭرِيْحٌ فِيْهَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ      24؀ۙ
فَلَمَّا رَاَوْهُ [ پھر جب ان لوگوں نے دیکھا اس (عذاب ) کو ] عَارِضًا [ بادل ہوتے ہوئے]مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِيَــتِهِمْ ۙ [ ان کی وادیوں کے سامنے آنے والا ہوتے ہوئے ] قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ [ تو انھوں نے کہا یہ ایک بادل ہے ] مُّمْطِرُنَا ۭ [ (بارش ) برسانے والا ہے ہم پر ] بَلْ هُوَ [ بلکہ وہ ] مَا [ وہ ہے ] اسْـتَعْــجَلْتُمْ بِهٖ ۭ [ تم جلدی مچاتے تھے جس کی ] رِيْحٌ [ (یہ) ایک ایسی ہوا ہے ] فِيْهَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ [جس میں ایک دردناک عذاب ہے ]



نوٹ۔2: آیت ۔ 26۔ میں ایک اہم حقیقت بیان کی گئی ہے اللہ کی آیات ہی وہ چیز ہیں جو انسان کو حقیقت کا صیحح فہم وادراک بخشتی ہیں یہ فہم وادراک انسان کو حاصل ہو تو وہ آنکھوں سے ٹھیک دیکھتا ہے، کانوں سے ٹھیک سنتا ہے ، دل ودماغ سے ٹھیک سوچتا ہے اور صحیح فیصلے کرتا ہے ۔ لیکن جب وہ آیات الہی کو ماننے سے انکار کردیتا ہے تو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اسے نگاہ حق شناس نصیب نہیں ہوتی ، کان رکھتے ہوئے بھی وہ ہر کلمہ نصیحت کے لیے بہرا ہوتا ہے اور دل ودماغ کی جو نعمتیں خدا نے اسے دی ہیں ان سے الٹی سوچتا اور ایک سے ایک غلط نتیجہ اخذ کرتا چلا جاتا ہے ۔ (تفیہم القرآن )

تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا فَاَصْبَحُوْا لَا يُرٰٓى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ      25؀
تُدَمِّرُ [ وہ ہلاک کرتی ہے ] كُلَّ شَيْءٍۢ [ ہرچیز کو ] بِاَمْرِ رَبِّهَا [ اپنے رب کے حکم سے] فَاَصْبَحُوْا لَا يُرٰٓى [ پھر وہ ہوگئے (ایسے کہ کوئی ایک بھی ) نہیں دیکھا جاتا ] اِلَّا مَسٰكِنُهُمْ ۭ [ سوائے ان کے ٹھکانوں کے ] كَذٰلِكَ نَجْزِي [ اس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ] الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ [ جرم کرنے والی قوم کو ]

وَلَقَدْ مَكَّنّٰهُمْ فِيْمَآ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِيْهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَةً     ڮ فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ اِذْ كَانُوْا يَجْـحَدُوْنَ ۙبِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ      26؀ۧ
وَلَقَدْ مَكَّنّٰهُمْ [ اور بیشک ہم اختیار دے چکے ان کو ] فِيْمَآ [ اس میں ] اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِيْهِ [ ہم نے اختیار نہیں دیا تم کو جس میں ] وَجَعَلْنَا لَهُمْ [ اور ہم نے بنائے (دیئے ) انکے لیے] سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَةً ڮ [ سماعت اور بصارت اور دل ] فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ [ پھر کام نہ آئے ان کے ] سَمْعُهُمْ [ ان کی سماعت ] وَلَآ اَبْصَارُهُمْ [ اور نہ ان کی بصارتیں ] وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ [ اور نہ ان کے دل ] مِّنْ شَيْءٍ [ کسی بھی چیز میں ] اِذْ كَانُوْا يَجْـحَدُوْنَ ۙ[جب وہ جانتے بوجھتے انکار کرتے تھے ] بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [اللہ کی نشانیوں کا ] وَحَاقَ بِهِمْ [ اور گھیرے میں لے لیا ان کو ] مَّا [ اس چیز نے ] كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ [ وہ لوگ جس کا مذاق اڑاتے تھے ]

وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ      27؀
وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا [ اور بیشک ہم ہلاک کرچکے ] مَا حَوْلَكُمْ [ اس کو جو تمہارے اردگرد ہیں ] مِّنَ الْقُرٰى [بستیوں میں سے ] وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ [ اور ہم نے بار بار بیان کیا آیتوں کو ] لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ [ شاید وہ لوگ لوٹ آئیں ]

فَلَوْلَا نَــصَرَهُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةً ۭ بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْ ۚ وَذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ      28؀
فَلَوْلَا نَــصَرَهُمُ [ تو کیوں نہیں مدد کی ان کی ] الَّذِيْنَ [ان لوگوں نے جن کو ] اتَّخَذُوْا [ان لوگوں نے بنایا ] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ] قُرْبَانًا [ قربت حاصل کرنے کے لیے ] اٰلِهَةً ۭ [ معبود ] بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْ ۚ [ بلکہ وہ سب گم ہوگئے ان سے ] وَذٰلِكَ اِفْكُهُمْ [اور یہ ان کا جھوٹ تھا ] وَمَا [ اور وہ (بھی ) جو ] كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ [ یہ گھڑتے تھے ]

وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ      29؀
وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ [ اور جب ہم نے پھیرا آپ کی طرف ] نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ [ ایک ٹولی کو جنوں میں سے ] يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ [سنتے ہوئے قرآن کو ] فَلَمَّا حَضَرُوْهُ [ پھر جب وہ سامنے آئے اس (قرآن پڑھنے ) کے ] قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ [ تو انہوں نے کہا چپ چاپ سنو] فَلَمَّا قُضِيَ [ پھر جب وہ (قرآن پڑھنا ) پورا کیا گیا ] وَلَّوْا [ تو وہ سب واپس لوٹے ] اِلٰى قَوْمِهِمْ [ اپنی قوم کی طرف ] مُّنْذِرِيْنَ [خبردار کرنے والے ہوتے ہوئے ]



نوٹ ۔1: آیت ۔ 29۔ کی تفسیر میں جور وایات متعدد صحابہ کرام اور دوسرے بزرگوں سے منقول ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنوں کی پہلی حاضری کا یہ واقعہ ، جس کا اس آیت میں ذکر ہے بطن نخلہ میں پیش آیا تھا ۔ وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ قرآن تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرات سننے کے لیے ٹھہر گیا ۔ اس کے ساتھ تمام روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس موقعہ پر جن حضور
کے سامنے نہیں آئے تھے ، نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس کیا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے آپ کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد جنوں کے پے درپے وفود حضور کے پاس حاضر ہونے لگے اور آپ سے ان کی رودررو ملاقاتیں ہوتی رہیں ، اس بارے میں جو روایات کتب حدیث میں منقول ہیں ان کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں کم از کم چھ وفد آئے تھے ۔ (تفہیم القرآن )

قَالُوْا يٰقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِيْٓ اِلَى الْحَـقِّ وَاِلٰى طَرِيْقٍ مُّسْـتَقِيْمٍ      30؀
قَالُوْا يٰقَوْمَنَآ [انہوں نے کہا اے ہمارے قوم ] اِنَّا سَمِعْنَا [ بیشک ہم نے سنا ] كِتٰبًا [ ایک ایسی کتاب کو جو ] اُنْزِلَ [ نازل کی گئی ] مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى [ موسیٰ کے بعد ] مُصَدِّقًا [تصدیق کرنے والی ہوتے ہوئے ] لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ [ اس کی جو اس کے سامنے (پہلے ) ہے] يَهْدِيْٓ [ (وہ) رہنمائی کرتی ہے ] اِلَى الْحَـقِّ [ حق کی طرف ] وَاِلٰى طَرِيْقٍ مُّسْـتَقِيْمٍ [اور ایک سیدھے راستے کی طرف ]



نوٹ ۔2: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضور
جنات کے بھی اسی طرح رسول ہیں ۔ جس طرح ہمارے لیے ہیں ۔ اس کا جواب نفی میں دینا ممکن نہیں ہے کیونکہ آگے آیت ۔ 31 میں جنوں کا یہ قول موجود ہے کہ ’’ اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ کے داعی کی دعوت پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لاؤ۔ دوسری طرف رسولوں کے باب میں سنت الہی تو یہ رہی ہے کہ وہ اسی قوم کے اندر سے مبعوث ہوئے جس کی دعوت پر وہ مامور ہوئے ۔ اسی قوم کی زبان میں انھوں نے دعوت پیش کی اور قوم ہی کے اندر انہوں نے زندگی گزاری ۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے کہ جب جنوں اور انسانوں کی خلقت دو متضاد عناصر سے ہوئی ہے تو لازما دونوں کی سرشت اور مزاج ، دونوں کی معاشرتی اور تمدنی ضروریات اور دونوں کے احکام وشرائع میں بڑا فرق ہوگا ۔ اس لیے ان میں اگر مشترک ہوسکتے ہیں تو توحید ، معاد اور خیر وشر کے بنیادی کلمات ہی ہوسکتے ہیں ۔ باقی امور الگ الگ ہوں گے، اس وجہ سے قرآن ان کی رہنمائی ، عقائد اور اخلاقی کلیات کی حد تک کرسکتا ہے ۔ کیونکہ جہاں تک کلیات دین کا تعلق ہے وہ نہ صرف انسانوں اور جنوں کے درمیان بلکہ فرشتوں کے درمیان بھی مشترک ہیں ، جس طرح داود کے نغمات حمد میں پرندے اور پہاڑ ان کی ہمنوائی کرتے تھے ، اسی طرح جنوں کے صالحین کی اس پارٹی نے قرآن سنا تو عش عش کراٹھی اور انھوں نے اپنی قوم کو بھی توحید و آخرت پر ایمان لانے اور خدا کے عذاب سے ڈرتے رہنے کی دعوت دی ، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کی بنیادی دعوت انسانوں اور جنوں دونوں کے لیے یکساں ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ حضور جنوں کے لیے بھی اسی طرح رسول تھے جس طرح انسانوں کے لیے تھے ، جن لوگوں نے یہ بات کہی ہے ان کی بات اس سنت الہی کے خلاف ہے جو قرآن میں رسالت سے متعلق نہایت وضاحت سے بیان ہوئی ہے ۔ (تدبر قرآن ج 7،ص 380 تا 382 سے ماخوذ )

يٰقَوْمَنَآ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللّٰهِ وَاٰمِنُوْا بِهٖ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ      31؀
يٰقَوْمَنَآ اَجِيْبُوْا [ اے ہماری قوم تم لوگ کہا مانو] دَاعِيَ اللّٰهِ [ اللہ کی دعوت دینے والے کا ] وَاٰمِنُوْا بِهٖ [ اور تم لوگ ایمان لاؤ اس پر ] يَغْفِرْ لَكُمْ [ تو وہ (اللہ ) بخش دے گا تمہارے لیے ] مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ [ تمہارے گناہوں میں سے ] وَيُجِرْكُمْ [اور وہ امان دے گا تم کو ] مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ [ ایک درد ناک عذاب سے ]

وَمَنْ لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللّٰهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْاَرْضِ وَلَيْسَ لَهٗ مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءُ ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍ       32؀
وَمَنْ لَّا يُجِبْ [ اور جو کہا نہیں مانے گا ] دَاعِيَ اللّٰهِ [ اللہ کی دعوت دینے والے کا ] فَلَيْسَ [ تو وہ نہیں ہے ] بِمُعْجِزٍ [ عاجز کرنے والا ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] وَلَيْسَ لَهٗ [ اور نہیں ہیں اس کے لیے] مِنْ دُوْنِهٖٓ [ اس (اللہ ) کے سوا ] اَوْلِيَاۗءُ ۭ [ کچھ کار ساز لوگ ] اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ ] فِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍ [ کھلی گمراہی میں ہیں ]

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ      33؀
اَوَلَمْ يَرَوْا [ کیا ان لوگوں نے غور ہی نہیں کیا ] اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ [ کہ وہ اللہ جس نے ] خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ [ پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ] وَلَمْ يَعْيَ [ اور وہ نہیں تھکا ] بِخَلْقِهِنَّ [ان کو پیدا کرنے سے] بِقٰدِرٍ [ قادر (نہیں ) ہے] عَلٰٓي اَنْ [ اس پر کہ ] يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ [ وہ زندہ کرے مردوں کو ] بَلٰٓي اِنَّهٗ [ کیوں نہیں یقینا وہ ] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ [ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ]



ع ی ی : (س) ۔ عیاء کام کرنے سے عاجز ہونا ، تھک جانا ، زیر مطالعہ آیت ۔ 33۔



نوٹ۔1: اس سورہ کے شروع میں وہ پس منظر واضح کیا گیا ہے جس میں یہ سورہ نازل ہوئی تھی ، ان حالات وواقعات کو ذہن میں تازہ کریں اور پھر سوچیں کہ جب یہ سب کچھ رسول اللہ
پر گزر گیا تو اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت دے رہا ہے کہ صبر کریں جیسا کہ اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا اور آپ جلدی نہ کریں ۔ تب کچھ اندازہ ہوگا کہ کس درجہ کا صبر اور عزم اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے، خصوصا ان لوگوں سے جو کار انبیاء یعنی دعوت وتبلیغ کا کام سرانجام دے رہے ہیں ، پھر یہ اندازہ ہوجائے گا کہ کسی دینی جماعت کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ان کی جلد بازی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ شارٹ کٹ اختیار کرلیتے ہیں ۔ (حافظ احمد یار صاحب مرحوم کے کیسٹ سے ماخوذ)

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَلَي النَّارِ ۭاَلَيْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ ۭ قَالُوْا بَلٰي وَرَبِّنَا ۭ قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ      34؀
وَيَوْمَ يُعْرَضُ [ اور جس دن پیش کیے جائیں گے ] الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ وہ لوگ جنھوں نے انکار کیا ] عَلَي النَّارِ ۭ[ آگ پر ] اَلَيْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ ۭ [ (تو پوچھا جائے گا) کیا یہ برحق نہیں ہے ] قَالُوْا بَلٰي وَرَبِّنَا ۭ [ وہ کہیں گے کیوں نہیں ہمارے رب کی قسم ] قَالَ [ کہے گا (ان کا رب) ] فَذُوْقُوا الْعَذَابَ [ تو (اب) چکھو عذاب کو ] بِمَا [بسبب اس کے جو ] كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ [ تم لوگ انکار کرتے تھے ]

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ ۭ كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ ۙ لَمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارٍ ۭ بَلٰــغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ        35؀ۧ
فَاصْبِرْ [ پس آپ صبر کریں ] كَمَا صَبَرَ [ اس کے جیسا جو صبر کیا ] اُولُوا الْعَزْمِ [ عزم والوں نے ] مِنَ الرُّسُلِ [ رسولوں میں سے ] وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ ۭ [ اور آپ جلدی نہ کریں ان کیلئے ] كَاَنَّهُمْ [ جیسے کہ وہ لوگ (سمجھیں گے ) ] يَوْمَ يَرَوْنَ [ جس دن دیکھیں گے ] مَا يُوْعَدُوْنَ ۙ [ اس کو جوان سے وعدہ کیا جاتا ہے ] لَمْ يَلْبَثُوْٓا [ (کہ ) وہ نہیں ٹھہرے (دنیا میں ) ] اِلَّا سَاعَةً [ مگر ایک گھڑی بھر ] مِّنْ نَّهَارٍ ۭ [ ایک دن میں سے ] بَلٰــغٌ ۚ [(یہ ) پہنچا دینا ہے ] فَهَلْ يُهْلَكُ [ پھر کیا (کون ) ہلاک کیا جائے گا ] اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ [ سوائے نافرمانی کرنے والی قوم کے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ           ۝

اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ         Ǻ۝
اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ جن لوگوں نے انکار کیا ] وَصَدُّوْا [ اور وہ لوگ رکے رہے ] عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ سے ] اَضَلَّ [ تو وہ (اللہ) ضائع کرے گا ] اَعْمَالَهُمْ [ ان کے اعمال کو ]



ترکیب : جس طرح لفظ ’’ من ‘‘ اصلا موصولہ ہے لیکن کبھی یہ شرطیہ ہوتا ہے اسی طرح الذی اور الذین میں بھی کبھی شرط کا مفہوم ہوتا ہے جیسے آیات ایک اور دو میں ہے کہ جو لوگ یہ کام کریں گے (شرط) تو ان کے ساتھ اللہ کا یہ معاملہ ہوگا (جواب شرط) اس لیے ان میں ماضی کا ترجمہ حال یا مستقبل میں کرنے کی گنجائش ہے۔ آیت ۔ 3۔ میں آفاقی صداقت کا بیان ہے۔ اس لیے ماضی کا ترجمہ حال میں ہوگا ۔ (دیکھیں آیت 2:49، نوٹ ۔2)

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ وَّهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۙكَفَّرَ عَنْهُمْ سَـيِّاٰتِهِمْ وَاَصْلَحَ بَالَهُمْ      Ą۝
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ اور جو لوگ ایمان لائے] وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ [ اور انہوں نے عمل کیے نیکیوں کے ] وَاٰمَنُوْا بِمَا [ اور ایمان لائے اس پر جو ] نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ [نازل کیا گیا محمد پر ] وَّهُوَ الْحَقُّ [ جبکہ وہ ہی حق ہے] مِنْ رَّبِّهِمْ ۙ[ ان کے رب (کی جانب ) سے ] كَفَّرَ عَنْهُمْ [ تو وہ (اللہ ) دور کرے گا ان سے] سَـيِّاٰتِهِمْ [ ان کی برائیوں کو ] وَاَصْلَحَ [ اور وہ اصلاح کرے گا ] بَالَهُمْ [انکی حالت کی ]



نوٹ ۔1: آیت ۔2 میں صرف یہ نہیں فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے ان کے ساتھ اللہ کا یہ معاملہ ہوگا ، بلکہ اس کے ساتھ یہ تصریح بھی ہے کہ اس چیز پر ایمان لائے جو محمد
پر اتاری گئی ، پھر مزید تصریح یہ ہے کہ اب خدا کی طرف سے حق یہی ہے۔ اس تصریح کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ اس دور میں ایک گروہ ان لوگوں کا بھی پیدا ہوگیا تھا جو کفر اور اسلام دونوں کے درمیان سمجھوتے کی باتیں کرنے لگا تھا کہ مسلمانوں کو کچھ گنجائش دوسروں کے لئے بھی تسلیم کرنی چاہئے ۔ (یہ گروہ آج بھی موجود ہے۔ مرتب) ۔ اہل کتاب میں بھی ایک گروہ ان لوگوں کا تھا جو کہتا تھا کہ مومن تو ہم بھی ہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم محمد پر ایمان نہیں لائے ، اس قسم کے رجحانات کی بیخ کنی قرآن نے پچھلی سورتوں میں بھی کی ہے اور یہاں بھی مذکورہ بالاتصریح نے اسی رجحان پر ضرب لگائی ہے کہ اب ایمان وہدایت کا واحد راستہ وہی ہے جس کی دعوت محمد دے رہے ہیں ، اس سے ہٹ کر کوئی راہ نہیں ہے۔ (تدبر قرآن )

نوٹ ۔ 2: آیت ۔ 2 قرآن مجید کی پہلی آیت ہے جس میں قوانین جنگ کے متعلق ابتدائی ہدایات دی گئی ہیں ۔ اس سے جو احکام نکلتے ہیں اور اس کے مطابق محمد
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جس طرح عمل کیا ہے اور اس سے جو استنباطات کیے گئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے۔

(1) جنگ میں مسلمانوں کی فوج کا اصل ہدف دشمن کی جنگی طاقت کو توڑنا ، اس سے توجہ ہٹا کر دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہ لگ جانا چاہئے ۔ قیدی پکڑنے کی طرف توجہ اس وقت کرنی چاہیے جب دشمن کا اچھی طرح قلع قمع کردیا جائے اور میدان جنگ میں اس کے کچھ آدمی باقی رہ جائیں ۔

(2) جنگ میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے بارے میں فرمایا کہ تمہیں اختیار ہے، خواہ ان پر احسان کردیا ان سے فدیہ کا معاملہ کرلو۔ اس سے عام قانون یہ نکلتا ہے جنگی قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے ۔

(3) مگر چونکہ اس آیت میں قتل کی صاف ممانعت بھی نہیں کی گئی ہے اس لیے محمد
نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا منشایہ سمجھا اور اسی پر عمل بھی فرمایا کہ اگر کوئی خاص وجہ ایسی ہو جس کی بنا پر اسلامی حکومت بعض قیدیوں کو قتل کرنا ضروری سمجھے تو ایسا کیا جاسکتا ہے ۔ یہ عام قاعدہ نہٰں ہے بلکہ عام قاعدے میں ایک استثناء ہے جسے بضرورت ہی استعمال کیا جائے گا ۔ چنانچہ رسول اللہ نے جنگ بدر کے ستر قیدیوں میں سے صرف دو کو ، جنگ احد کے قیدیوں میں سے صرف ایک کو اور جنگ خیبر کے قیدیوں میں سے صرف ایک کو قتل کرایا ، فتح مکہ کے بعد آپ نے تمام اہل مکہ میں سے صرف چند خاص اشخاص کے متعلق حکم دیا تھا کہ ان میں سے جو بھی پکڑا جائے وہ قتل کردیا جائے ۔ ان مستثنیات کے علاوہ حضور کا عام طریقہ اسیران جنگ کو قتل کرنے کا کبھی نہیں رہا اور یہی عمل خلفاء راشدین کا بھی تھا ۔

(4) جنگی قیدیوں کے بارے میں احسان کرنے یا فدیہ کا معاملہ کرنے کا حکم ہے احسان میں چار چیزیں شامل ہیں ، ایک یہ کہ قید کی حالت میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ قتل یا دائمی قید کے بجائے انکو غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالے کردیا جائے ۔ تیسرے یہ کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی بنالیا جائے ۔ چوتھے یہ کہ ان کو بلامعاوضہ رہا کردیا جائے ۔ جبکہ فدیہ کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ مالی معاوضہ لے کر انھیں چھوڑا جائے ۔ دوسرے یہ کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خدمت لینے کے بعد چھوڑ دیا جائے ۔

تیسرے یہ کہ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کے قبضہ میں ہوں ، ان کا تبادلہ کرلیا جائے ، ان سب مختلف صورتوں پر رسول اللہ
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے مختلف اوقات میں حسب موقع عمل فرمایا ہے ۔

(5) رسول اللہ
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ ایک جنگی قیدی جب تک حکومت کی قید میں رہے اس کی غذا لباس اور علاج حکومت کے ذمہ ہے ۔ قیدیوں کو بھوکا ننگا رکھنے یا ان کو عذاب دینے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں ہے ۔ (6) قیدیوں کے معاملے میں اسلام نے یہ شکل رکھی ہی نہیں ہے کہ ان کو ہمیشہ قید رکھا جائے اور حکومت ان سے جبری محنت لیتی رہکے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو شخص قید میں آنے سے پہلے اسلام قبول کرچکا ہو اور پھر کسی طرح گرفتار ہوجائے ، وہ تو آزاد کردیا جائے گا مگر جو شخص قید ہونے کے بعد اسلام قبول کرے تو یہ اسلام اس کے لیے آزادی کا سبب نہیں بن سکتا ۔ یہ بات معقول ہے ۔ اگر ہمارا قانون یہ ہوتا کہ جو شخص بھی گرفتار ہونے کے بعد اسلام قبول کرے گا تو آخر وہ کون سا نادان قیدی ہوتا جو کلمہ پڑھ کر رہائی نہ حاصل کرلیتا ۔

(7) قیدیوں کے ساتھ احسان کی تیسری صورت یہ ہے کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی رعایا بنالیا جائے ۔ اس طریقے پر بنالعمومم ان حالات میں عمل کیا گیا ہے جب قید ہونے والے لوگ جس علاقے کے باشندے ہوں وہ اسلامی مملکت میں شامل ہوچکا ہو ، مثال کے طور پر رسول اللہ
نے اہل خیبر کے معاملہ میں یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا ۔ پھر حضرت عمر نے عراق اور دوسرے علاقوں کی فتح کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی پیروی کی ۔

(8) مالی معاوضہ لے کر قیدیوں کو چھوڑنے کی مثال صرف جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور فقہائے اسلام نے اس کو بالعموم ناپسند کیا ہے لیکن ایسا کرنا مطلقا ممنوع نہیں ہے۔

(9) قیدیوں کے تبادلے کی متعدد مثالیں ہم کو رسول اللہ
کے عہد میں ملتی ہیں ۔ فقہا تبادلہ اسیران کو جائز رکھتے ہیں ۔ البتہ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ جو قیدی مسلمان ہوجائے اسے تبادلہ میں کفار کے حوالہ نہ کیا جائے ۔

اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے اسیران جنگ کے معاملہ میں ایک ایسا وسیع ضابطہ بنایا ہے جس کے اندر ہر زمانے اور ہر طرح کے حالات میں اس مسئلے سے عہدہ برا ہونے کی گنجائش ہے۔ جو لوگ اس آیت کا بس یہ مطلب لیتے ہیں کہ جنگی قیدیوں کو یا بطور احسان چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کردیا جائے ، وہ نہیں جانتے کہ یہ معاملہ کتنے مختلف پہلو رکھتا ہے اور مختلف زمانوں میں وہ کتنے مسائل پیدا کرتا رہا ہے اور آئندہ کرسکتا ہے۔ (تفہیم القرآن ۔ ج 5،ص 12 تا 18 سے ماخوذ )

ذٰلِكَ بِاَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَاَنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَهُمْ      Ǽ۝
ذٰلِكَ بِاَنَّ [ یہ اس سبب سے کہ ] الَّذِيْنَ كَفَرُوا [ جن لوگوں نے انکار کیا ] اتَّبَعُوا [وہ لوگ پیروی کرتے ہیں ] الْبَاطِلَ [ باطل کی ] وَاَنَّ [ اور (یہ ) کہ ] الَّذِيْنَ اٰمَنُوا [ جو لوگ ایمان لائے ] اتَّبَعُوا [ وہ پیروی کرتے ہیں ] الْحَقَّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۭ [ حق کی اپنے رب (کی طرف) سے ] كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ [ اس طرح بیان کرتا ہے اللہ ] لِلنَّاسِ اَمْثَالَهُمْ [ لوگوں کے لیے انکی مثالیں ]

فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ڎ فَاِمَّا مَنًّـۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَاڃ ذٰ۩لِكَ ړ وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ۭ وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَهُمْ      Ć۝
فَاِذَا لَقِيْتُمُ [ پھر جب کبھی آمنے سامنے ہو تم لوگ ] الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ ان کے جنھوں نے کفر کیا ] فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ [ تو (مارو ) جیسا گردنیں مارنے کا حق ہے ] حَتّىٰٓ اِذَآ [ یہاں تک کہ جب ] اَثْخَنْتُمُوْهُمْ [ تم لوگ خوب خونریزی کرلو ان کی ] فَشُدُّوا [ تو تم لوگ مضبوط کرو] الْوَثَاقَ ڎ [ جکڑنے کو ] فَاِمَّا [ پھر یا تو ] مَنًّـۢا بَعْدُ [ (چھوڑو ) احسان کرتے ہوئے اس کے بعد ] وَاِمَّا فِدَاۗءً [ اور یا بدلہ میں کچھ لینے کے لیے ] حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ [ یہاں تک کہ رکھ دے جنگ ] اَوْزَارَهَاڃ [ اپنے بوجھ (ہتھیار ) ] ذٰ۩لِكَ ړ [یہ ہے ] وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ [ اور اگر چاہتا اللہ ] لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ [ تو وہ یقینا بدلہ لیتا ان سے ] وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ [ اور لیکن (بدلہ نہیں لیا) تاکہ وہ آزمائے ] بَعْضَكُمْ [تمہارے کسی کو ] بِبَعْـضٍ ۭ [ کسی سے ] وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا [ اور جو لوگ قتل کیے گئے] فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ میں ] فَلَنْ يُّضِلَّ [ تو وہ (اللہ ) ہرگز ضائع نہیں کرے گا ] اَعْمَالَهُمْ [ ان کے اعمال کو ]

سَيَهْدِيْهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ      Ĉ۝ۚ
سَيَهْدِيْهِمْ [ وہ رہنمائی کرے گا ان کی ] وَيُصْلِحُ [ اور وہ اصلاح کرے گا ] بَالَهُمْ [ ان کی حالت کو ]

وَيُدْخِلُهُمُ الْجَــنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ      Č۝
وَيُدْخِلُهُمُ [اور وہ داخل کرے گا ان کو ] الْجَــنَّةَ [ اس جنت میں ] عَرَّفَهَا [ اس نے خوشبو میں بسایا جس کو ] لَهُمْ [ ان کے لیے ]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ      Ċ۝
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا [ اے لوگو! جو ایمان لائے ] اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ [ اگر تم لوگ مدد کروگے اللہ کی ] يَنْصُرْكُمْ [ تو وہ مدد کرے گا تمہاری ] وَيُثَبِّتْ [ اور وہ جما دے گا ] اَقْدَامَكُمْ [ تمہارے قد موں کو ]



نوٹ ۔ 1: آیت ۔ 7 کی تفسیر میں حضرت شاہ صاحب (یعنی شاہ عبدالقادر ) لکھتے ہیں کہ اللہ چاہے تو خود ہی کافروں کو مسلمان کرڈالے ، پر یہ منظور نہیں ہے ۔ جانچنا منظور ہے۔ سو بندہ کی طرف سے کمر باندھنا اور اللہ کی طرف ہے کام بنانا ۔ (ترجمہ شیخ الہندسے منقول ) مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کی راہ میں پہلا قدم وہ اٹھائیں ۔ اگر انہوں نے یہ قدم اٹھا لیا تو اس کے بعد اس کی شانیں ظاہر ہوں گی ۔ ان کے لیے اس کی مدد نہیں نازل ہوتی جو گھروں میں بیٹھے اس کا انتظار کرتے ہیں بلکہ ان کے لیے نازل ہوتی ہے جو اپنے آپ کو میدان میں ڈال دیتے ہیں ۔ (تدبر قرآن ]

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ      Ď۝
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ اور جنھوں نے انکار کیا ] فَتَعْسًا [ تو (وہ لازم کرے گا ) ہلاک ہونے کو ] لَّهُمْ [ ان کے لیے ] وَاَضَلَّ [ اور وہ ضائع کرے گا ] اَعْمَالَهُمْ [ ان کے اعمال کو ]



ت ع س : (ف) تعسا ،ٹھوکر کھا کر گرنا پھر اٹھ نہ سکنا ، پستی میں گر کر ٹوٹ جانا ۔ پھر زیادہ تر ہلاک ہونیکے معنی میں آتا ہے ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 8 ۔

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَرِهُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ       ؀
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ [ یہ اس سبب سے کہ انہوں نے ] كَرِهُوْا مَآ [ ناپسند کیا اس کو جو] اَنْزَلَ اللّٰهُ [ نازل کیا اللہ نے ] فَاَحْبَطَ [ تو اس نے اکارت کردیئے ] اَعْمَالَهُمْ [ ان کے اعمال ]

اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ دَمَّرَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ۡ وَلِلْكٰفِرِيْنَ اَمْثَالُهَا      10 ؀
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا [ تو کیا یہ لوگ چلے پھرے نہیں ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] فَيَنْظُرُوْا [ نتیجۃ (تاکہ ) وہ دیکھتے ] كَيْفَ كَانَ [ کیسا تھا ] عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کا انجام جو ] مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ [ ان سے پہلے تھے ] دَمَّرَ اللّٰهُ [ ہلاکت ڈالی اللہ نے ] عَلَيْهِمْ ۡ [ ان پر ] وَلِلْكٰفِرِيْنَ [ اور انکار کرنے والوں کے لیے ] اَمْثَالُهَا [ اس (انجام ) کے جیسی (چیزیں ) ہیں ]

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ       11۝ۧ
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ [ یہ اس سبب سے کہ اللہ ] مَوْلَى [ بگڑی بنانے والا ہے] الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ ان کی جو ایمان لائے ] وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ [ اور یہ کہ کافر لوگ ] لَا مَوْلٰى [ کوئی بگڑی بنانے والا نہیں ہے ] لَهُمْ [ان کے لیے ]



نوٹ۔2: لفظ مولی بہت سے معانی کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ ایک معنی کارساز کیہیں جو یہاں مراد ہیں ۔ ایک معنی مالک کے ہیں ۔ قرآن میں دوسری جگہ (سورہ یونس ۔ 30) کفار کے بارے میں آیا ہے ’’ اور وہ لوٹائے جائیں گے اللہ کی طرف جو ان کا حقیقی آقا ہے ‘‘ ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کو کفار کے لیے بھی مولی قرار دیا ہے کیونکہ مولی کے معنی مالک کے (بھی ) ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مالکیت عام ہے۔ مومن کافر کوئی اس سے خارج نہیں ۔ (معارف القرآن )

اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَتَمَتَّعُوْنَ وَيَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ       12؀
اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ [ یقینا اللہ داخل کرے گا] الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ ان کو جو ایمان لائے ] وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ [ اور جنھوں نے عمل کیے نیکیوں کے ] جَنّٰتٍ [ ایسے باغات میں ] تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا [ بہتی ہیں جن کے نیچے سے ] الْاَنْهٰرُ ۭ [ نہریں ] وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ اور جنھوں نے کفر کیا ] يَتَمَتَّعُوْنَ [ وہ فائدہ اٹھاتے ہیں ] وَيَاْكُلُوْنَ [ اور کھاتے ہیں ] كَمَا تَاْكُلُ [ جیسے کھاتے ہیں ] الْاَنْعَامُ [چوپائے ] وَ [ اس حال میں کہ ] النَّارُ [ آگ ] مَثْوًى [ ٹھکانہ ہے ] لَّهُمْ [ان کے لیے ]



نوٹ۔ 3: جس طرح جانور کھاتا ہے اور کچھ نہیں سوچتا کہ یہ رزق کہاں سے آیا ہے ، کس کا پیدا کیا ہوا ہے اور اس رزق کے ساتھ میرے اوپر رازق کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی بس کھائے جارہے ہیں ۔ چرنے چگنے (روٹی ، کپڑا ، مکان ) سے آگے انھیں کسی چیز کی فکر نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ هِىَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنْ قَرْيَتِكَ الَّتِيْٓ اَخْرَجَتْكَ ۚ اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ       13؀
وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ [ اور کتنی ہی بستیاں ہیں ] هِىَ اَشَدُّ [ جو زیادہ شدید تھیں ] قُوَّةً [بلحاظ قوت کے ] مِّنْ قَرْيَتِكَ الَّتِيْٓ [ آپ کی اس بستی سے جس نے ] اَخْرَجَتْكَ ۚ [ نکالا آپ کو ] اَهْلَكْنٰهُمْ [ ہم نے ہلاک کیا ان (بستی والوں ) کو ] فَلَا نَاصِرَ [ تو کوئی بھی مدد کرنے والا نہ تھا ] [لَهُمْ: ان کے لیے ]

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ كَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ وَاتَّبَعُوْٓا اَهْوَاۗءَهُمْ       14؀
اَفَمَنْ كَانَ [ تو کیا وہ جو تھا ] عَلٰي بَيِّنَةٍ [ ایک واضح (ہدایت ) پر ] مِّنْ رَّبِّهٖ [ اپنے رب (کی طرف) سے ] كَمَنْ [ اس کے جیسا ہوگا ] زُيِّنَ لَهٗ [ سجایا گیا جس کے لیے ] سُوْۗءُ عَمَلِهٖ [ اس کے عمل کی برائی کو ] وَاتَّبَعُوْٓا [ اور انہوں نے پیروی کی ] اَهْوَاۗءَهُمْ [ اپنی خواہشات کی ]

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ ۭ فِيْهَآ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهٗ ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ڬ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ۭ وَلَهُمْ فِيْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ۭ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِيْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَهُمْ      15؀
مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ [ اس جنت کی مثال جس کا ] وُعِدَ [وعدہ کیا گیا ] الْمُتَّقُوْنَ ۭ [ متقی لوگوں سے ] فِيْهَآ اَنْهٰرٌ [اس میں کچھ نہریں ہیں ] مِّنْ مَّاۗءٍ [ ایسے پانی سے جو ] غَيْرِ اٰسِنٍ ۚ [ بدبودار ہونے والا نہیں ہے ] وَاَنْهٰرٌ [ اور کچھ نہریں ہیں ] مِّنْ لَّبَنٍ [ ایسے دودھ سے ] لَّمْ يَتَغَيَّرْ [بدلا ہی نہیں ] طَعْمُهٗ ۚ [ جس کا ذائقہ ] وَاَنْهٰرٌ [ اور کچھ نہریں ہیں ] مِّنْ خَمْرٍ [ ایسی شراب سے جو ] لَّذَّةٍ [ لذت ہے ] لِّلشّٰرِبِيْنَ ڬ [ پینے والوں کے لئے ] وَاَنْهٰرٌ [ اور کچھ نہریں ہیں ] مِّنْ عَسَلٍ [ ایسی شہد سے جو ] مُّصَفًّى ۭ [آمیزش سے پاک کی ہوئی ہے] وَلَهُمْ فِيْهَا [ اور ان کے لیے اس میں ہیں ] مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ [ تمام پھلوں میں سے ] وَمَغْفِرَةٌ [ اور مغفرت ہے ] مِّنْ رَّبِّهِمْ ۭ [ ان کے رب کی طرف سے ] كَمَنْ [ (کیا وہ ) اس کے جیسا ہوگا ] هُوَ [جو ] خَالِدٌ [ہمیشہ رہنے والا ہے ] فِي النَّارِ [آگ میں ] وَسُقُوْا [اور جن لوگوں کو پلایا جائے گا ] مَاۗءً حَمِيْمًا [کھولتا پانی ] فَقَطَّعَ [ تو وہ کاٹ دے گا ] اَمْعَاۗءَهُمْ [ ان کی انتڑیوں کو ]



ء س ن ـ: (س) ۔ اسنا پانی کا بدبودار ہونا ۔ اسن ، اسم الفاعل ہے ۔ بدبودار ہونے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 15

ع س ل : (ن،ض) عسلا ۔ کھانے میں شہد ملانا ۔ شہد کھلانا ۔ عسل ۔ اسم ذات ہے شہد ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 15

نوٹ ۔ : آیت ۔ 15۔ میں جنت میں چار چیزوں کی نہروں کا ذکر ہے اس میں سے دودھ کے لئے حدیث میں تشریح آئی ہے کہ ’’ وہ جانوروں کے تھنوں سے نکلا ہوا دودھ نہ ہوگا ۔‘‘ شراب کے لیے حدیث میں ہے کہ اس شراب کو’’ انسانوں نے اپنے قدموں سے روند کر نہ نچوڑا ہوگا ۔‘‘ یعنی وہ پھلوں کو سڑا کر اور قدموں سے روند کر کشید کی ہوئی نہ ہوگی ۔ اور شہد کے لیے ہے کہ ’’ وہ مکھیوں کے پیٹ سے نکلا ہوا شہد نہ ہوگا ۔ ‘‘ یعنی پانی کی طرح یہ چیزیں بھی چشموں سے نکل کر نہروں میں بہیں گی ۔ (تفہیم القرآن ) ۔

وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُ اِلَيْكَ ۚ حَتّىٰٓ اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا ۣاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَاتَّبَعُوْٓا اَهْوَاۗءَهُمْ       16؀
وَمِنْهُمْ مَّنْ [ اور ان میں وہ بھی ہیں جو ] يَّسْتَمِعُ [ کان دھرتی ہیں ] اِلَيْكَ ۚ [ آپ کی طرف ] حَتّىٰٓ اِذَا خَرَجُوْا [ یہاں تک کہ جب وہ نکلتے ہیں ] مِنْ عِنْدِكَ [ آپ کے پاس سے ] قَالُوْا [ تو کہتے ہیں ] لِلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ [ ان سے جن کو دیا گیا علم ] مَاذَا قَالَ [ انہوں نے کیا فرمایا ] اٰنِفًا ۣ[ ابھی ابھی ] اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ [ یہ وہ لوگ ہیں ] طَبَعَ اللّٰهُ [ چھاپ لگا دی اللہ نے ] عَلٰي قُلُوْبِهِمْ [ جن کے دلوں پر ] وَاتَّبَعُوْٓا [اور ان لوگوں نے پیروی کی ] اَهْوَاۗءَهُمْ [ اپنی خواہشات کی ]



نوٹ۔ 1: آیت ۔ 16 میں نبی کریم
کو منافقین سے خبردار کیا گیا ہے فرمایا ایک گروہ ایسا ہے جو تمہاری بات سننے کے لیے کان تو لگاتا ہے لیکن سنتا سمجھتا کچھ بھی نہیں ۔ جب یہ تمہارے پاس سے جاتے ہیں تو مجلس کے دوسرے اصحاب علم سے پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی انہوں نے کیا فرمایا ۔ اس سوال سے وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ لوگ محض سادہ لوحی کے سبب سے انکی ہربات پر سرتسلیم خم کردیتے ہو ، ہم تو ان کی باتیں بہت توجہ سے سنتے ہیں لیکن ان کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ واضح رہے کہ یہ طریقہ کسی کی عمدہ سے عمدہ بات کو مشتبہ بنا دینے کے لیے ایک نہایت کارگر طریقہ ہے (تدبر قرآن)



نوٹ۔ 2: علامات قیامت کی ابتداء خود خاتم النبیین
کی بعثت سے ہوجاتی ہے کیونکہ ختم نبوت بھی قرب قیامت کی علامت ہے اسی طرح شق قمر کے معجزے کو بھی قرآن میں اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ (54:1) کے ساتھ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ یہ بھی علامات قیامت میں سے ہے ۔ یہ تو علامات ابتدائیہ ہیں جوخود نزول قرآن کے وقت میں ظاہر ہو چکی تھیں ۔ دوسری علامات کا ذکر احادیث میں ہے۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔ 3: اسلام نے جو اخلاق انسان کو سکھائے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے رب کی بندگی میں کتنی ہی کوشش کرتا رہا ہو، اسے کبھی یہ زعم نہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا میں نے کردیا ہے ۔ بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ میرے مالک کا مجھ پر جو حق تھا وہ میں ادا نہیں کرسکا ۔ اور ہر وقت اپنے قصور کا اعتراف کرکے اپنی کمی کوتاہی کے لیے مغفرت مانگتارہے۔ یہی اصل روح ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی کہ ’’ اے نبی اپنے قصور کی معافی مانگو ۔‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ بنی
نے فی الواقع کوئی قصور کیا تھا بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمام بندگان خدا سے بڑھ کر جو بندہ اپنے رب کی بندگی بجا لانے والا تھا ، اس کا منصب بھی یہ نہ تھا کہ اپنے کارنامے پر فخر کا کوئی شائبہ تک اس کے دل میں راہ پائے۔ اسی کیفیت کا اثر تھا جس کے تحت نبی کریم بکثرت استغفار فرماتے رہتے تھے۔ (تفہیم القرآن )

وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّاٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ        17؀
وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا [ اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ] زَادَهُمْ [ اس (اللہ ) نے زیادہ کیا ان کو ] هُدًى [ بلحاظ ہدایت کے ] وَّاٰتٰىهُمْ [ اور اس نے دیا ان کو ] تَقْوٰىهُمْ [ان کا تقوی ]

فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِيَهُمْ بَغْتَةً ۚ فَقَدْ جَاۗءَ اَشْرَاطُهَا ۚ فَاَنّٰى لَهُمْ اِذَا جَاۗءَتْهُمْ ذِكْرٰىهُمْ       18؀
فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ [ تو یہ لوگ کیا انتظار کرتے ہیں ] اِلَّا السَّاعَةَ [ سوائے اس گھڑی (قیامت ) کے ] اَنْ تَاْتِيَهُمْ [ کہ ہو پہنچے ان کے پاس ] بَغْتَةً ۚ [ اچانک ] فَقَدْ جَاۗءَ [تو آچکی ہیں ] اَشْرَاطُهَا ۚ [ ان کی علامتیں ] فَاَنّٰى لَهُمْ [ تو کہاں سے ہوگی ان کیلئے ] اِذَا [ (اس وقت ) جبکہ ] جَاۗءَتْهُمْ [ وہ (گھڑی ) آئے گی ان کے پاس ] ذِكْرٰىهُمْ [ ان کی نصیحت ]



ش ر ط : (ن،ض) شرطا ۔ شرط لگانا ۔ (س) شرط کسی مشکل کام میں پڑنا ۔ کسی چیز پر پہچان کے لیے نشان لگانا ۔ شرط ۔ ہرچیز کی ابتدا ، علامت ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 18

فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوٰىكُمْ        19۝ۧ
فَاعْلَمْ [ تو آپ جان لیں ] اَنَّهٗ [ حقیقت یہ ہے کہ ] لَآ اِلٰهَ [ کوئی بھی الہ نہیں ہے] اِلَّا اللّٰهُ [ سوائے اللہ کے ] وَاسْتَغْفِرْ [ اور آپ مغفرت مانگیں ] لِذَنْۢبِكَ [ اپنے گناہ کے لئے ] وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ [ اور ایمان لانے والوں کے لیے] وَالْمُؤْمِنٰتِ ۭ [ اور ایمان لانے والیوں کے لیے] وَاللّٰهُ يَعْلَمُ [ اور اللہ جانتا ہے ] مُتَقَلَّبَكُمْ [ تم لوگوں کے گھومنے پھرنے کی جگہ کو ] وَمَثْوٰىكُمْ [ اور تمہارے ٹھکانے کو ]

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ ۚ فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّذُكِرَ فِيْهَا الْقِتَالُ ۙ رَاَيْتَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يَّنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۭ فَاَوْلٰى لَهُمْ       20۝ۚ
وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ اور کہتے ہیں وہ لوگ جو ایمان لائے ] لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ ۚ [ کیوں نہیں نازل کی گئی کوئی سورت ] فَاِذَآ اُنْزِلَتْ [ پھر جب اتاری گئی ] سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ [ ایک محکم کی ہوئی سورت ] وَّذُكِرَ فِيْهَا [ اور ذکر کیا گیا اس میں ] الْقِتَالُ ۙ [ جنگ کا ] رَاَيْتَ الَّذِيْنَ [ تو آپ نے دیکھا ان کو ] فِيْ قُلُوْبِهِمْ [ جن کے دلوں میں ] مَّرَضٌ [ ایک روگ ہے ] يَّنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ [ (کہ ) وہ دیکھتے ہیں آپ کی طرف ] نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ [ اس کی نظر جس پر ڈھائی گئی (غشی )] مِنَ الْمَوْتِ ۭ [ موت (کے خوف ) سے ] فَاَوْلٰى [ تو قریب ہے (تباہی ) ] لَهُمْ [ ان کے لیے ]



ترکیب : (آیت ۔ 20 ) اولی افعل تفضیل ہے جس کے معنی ہیں زیادہ نزدیک ۔ زیادہ قریب لیکن یہ دھمکی کا کلمہ بھی ہے۔ (دیکھیں آیت ۔ 2:64 ، مادہ ’’ ول ی ‘‘ ) یہاں یہ دھمکی کے معنی میں آیا ہے ۔

نوٹ ۔ 1: منافقوں میں ایک گروہ ان لوگوں کا بھی تھا جو قریش اور یہود کو یہ اطمنان دلاتے رہتے تھے کہ ہم اگر چہ مسلمانوں میں شامل ہیں لیکن بعض معاملات میں ہم آپ ہی لوگوں کاس اتھ دیتے رہیں گے ۔ یہ لوگ اپنی منافقانہ پالیسی پر پردہ ڈالنے میں اسوقت تک کامیاب رہے جب تک جنگ کامر حلہ نہیں آیا تھا لیکن جب یہ مرحلہ سر پرآگیا تو ان کے لیے چھپنے کا موقع باقی نہیں رہا ۔ چنانچہ اپنے نفاق پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے ان لوگوں نے یہ وسوسہ اندازی شروع کردی کہ ہم بھائیوں بھائیوں کے اندر خون ریزی پسند نہیں کرے ۔ بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اور قریش اور اس ملک کے دوسرے عناصر سب مل جل کر صلح اور محبت کے ساتھ رہیں ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو مصلح اور امن پسند کہتے تھے ۔ ان کی اسی ذہنیت کوسامنے رکھ کر آیت ۔ 22 میں فرمایا کہ یہ راہ جو تم نے اختیار کی ہے وہ امن اور صلح کی راہ نہیں ہے بلکہ یہ اسی فساد اور برادر کشی کی طرف تمہاری واپسی ہے جس میں تم پہلے مبتلاء رہے ہو ۔ امن اور اخوت کی راہ یہ ہے کہ سب ایک الہ کے بندے اور ایک آدم کی اولاد کی حیثیت سے زندگی بسر کریں اور اس نظام زندگی کو اپنائیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت آدم کی وحدت کے عقیدے پر قائم ہے ۔ یہ چیز اس جاہلی نظام زندگی کو پر قرار رکھنے سے حاصل نہیں ہوگی جس میں قبیلہ قبیلہ کا خدا بھی جدا ہے اور ہر ایک کا باوا آدم بھی الگ الگ ہے۔ (تدبر قرآن )

طَاعَةٌ وَّقَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ ۣ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ    ۣ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰهَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ      21۝ۚ
طَاعَةٌ [(اصل مطلوب ہے ) اطاعت کرنا ] وَّقَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ ۣ [ اور بھلی بات کہنا ] فَاِذَا [ پھر جب کبھی ] عَزَمَ الْاَمْرُ ۣ [ پختہ ارادہ کرلے وہ معاملہ (یعنی جنگ کا فیصلہ ہوجائے ) ] فَلَوْ صَدَقُوا [ تو اگر یہ لوگ سچ کردکھاتے ] اللّٰهَ [اللہ کو ] لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ [ تو یقینا بہتر ہوتا انکے لیے ]



(آیت ۔ 21 ) طَاعَةٌ وَّقَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ خبریں ہیں ان سے پہلے ان کا مبتدا محذوف ہے جو المطلوب ہوسکتا ہے ۔ عزم فعل متعدی ہے جس کے معنی ہیں پکا ارادہ کرنا ۔ یہاں الامر اس کے فاعل کے طور پر آیا ہے۔ اس لیے لفظی ترجمہ بنتا ہے ۔ اس معاملہ نے پکا ارادہ کیا ۔ لیکن مفہوم فعل لازم کے معنی میں لیا جاتا ہے یعنی وہ معاملہ پکا ہوا یا پختہ ہوا۔

فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ       22؀
فَهَلْ عَسَيْتُمْ [ پھر تم لوگوں سے کیا ہوسکتا ہے ] اِنْ تَوَلَّيْتُمْ [ اگر تم لوگ روگردانی کرو (جہادسے )] اَنْ [(سوائے اس کے ) کہ ] تُفْسِدُوْا [ تم لوگ حقوق وفرائض کا توازن بگاڑو ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] وَتُـقَطِّعُوْٓا [ اور ٹکڑے ٹکڑے کرڈالو] اَرْحَامَكُمْ [ اپنی رشتہ داریوں کو ]



نوٹ۔2: اسلام نے رشتہ داری کے حقوق پورے کرنے کی بڑی تاکید کی ہے ۔ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص صلہ رحمی کرے گا اللہ اس کو اپنے قریب کرے گا اور جو رشتہ قرابت قطع کرے گا اللہ اس کو قطع کردے گا ۔ اس حدیث میں حضرت ابوہریرہ  (رض)  نے اسی آیت کا حوالہ دیا کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو ۔ ایک حدیث میں رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ جو شخص چاہتا ہو کہ اس کی عمر زیادہ ہو اور رزق میں برکت ہواسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو صرف برابر کا بدلہ دے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب دوسری طرف سے قطع تعلق کا معاملہ کیا جائے تو یہ ملانے اور جوڑنے کا کام کرے ۔ (معارف القرآن )

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَاَعْمٰٓى اَبْصَارَهُمْ      23؀
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ [ یہ وہ لوگ ہیں ] لَعَنَهُمُ اللّٰهُ [ لعنت کی جن اللہ نے ] فَاَصَمَّهُمْ [ پھر اس نے بہرا کردیا ان کو ] وَاَعْمٰٓى اَبْصَارَهُمْ [اور اندھی کردیں ان کی بصارتیں]

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا      24؀
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ [ تو کیا یہ لوگ غور وفکر نہیں کرتے ] الْقُرْاٰنَ [ قرآن میں ] اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ [ یا کچھ دلوں پر ] اَقْفَالُهَا [ ان کے تالے ہیں ۔



نوٹ۔1: دلوں کو زندہ رکھنے والی چیز قرآن ہے بشرطیکہ اس کو سمجھ کر اس پر غور فکر کیا جائے ۔ لیکن ناقدرے لوگ اس پر غور نہیں کرتے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دلوں پر جو زنگ لگتے ہیں وہ اس طرح ان کے دلوں پر چڑھ جاتی ہیں جس طرح تالوں سے دروازے بند ہو جاتے ہیں ۔ اقفالھا سے مراد وہ چیزیں ہیں جو دلوں کوروگ یازنگ کی طرح لگتی ہیں ۔ دنیا کی محبت ، موت کا ڈر ، بخل ، کینہ ، حسد ، نفاق اور اس قبیل کی دوسری چیزیں اس کے نمایاں اجزاء ہیں اور قساوت یعنی دل کی سختی بھی اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوجاتی ہے۔ ان بیماریوں کا علاج قرآن کو سننا اور سمجھنا ہے لیکن ایسے لوگوں کو قرآن ہی سے وحشت ہوتی ہے۔ (تدبر قرآن)

اِنَّ الَّذِيْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطٰنُ سَوَّلَ لَهُمْ ۭ وَاَمْلٰى لَهُمْ       25؀
اِنَّ الَّذِيْنَ ارْتَدُّوْا [بیشک جو لوگ واپس لوٹے ] عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ [ اپنی پیٹھوں پر ]مِّنْۢ بَعْدِ مَا [ اس کے بعد کہ جب ] تَبَيَّنَ لَهُمُ [ واضح ہوئی ان کے لیے] الْهُدَى ۙ [ہدایت ] الشَّيْطٰنُ سَوَّلَ [ شیطان نے خوشنما بنایا ] لَهُمْ ۭ [ ان کے لیے (منافقت کو ) ] وَاَمْلٰى [ اور اس نے لمبی چوڑی امید دلائی ] لَهُمْ [ ان لوگوں کے لیے ]

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ سَنُطِيْعُكُمْ فِيْ بَعْضِ الْاَمْرِ ښ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِسْرَارَهُمْ       26؀
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ [ یہ اس سبب سے کہ انھوں (منافقوں ) نے ] قَالُوْا لِلَّذِيْنَ [ کہا ان لوگوں سے جنھوں نے ] كَرِهُوْا مَا [ ناپسند کیا اس کو جو] نَزَّلَ اللّٰهُ [ نازل کیا اللہ نے ] سَنُطِيْعُكُمْ [ (کہ ) ہم کہنا مانیں گے تم لوگوں کا ] فِيْ بَعْضِ الْاَمْرِ ښ [بعض معاملات میں ] وَاللّٰهُ يَعْلَمُ [ اور اللہ جانتا ہے ] اِسْرَارَهُمْ [ ان کے چھپانے کو ]

فَكَيْفَ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ      27؀
فَكَيْفَ [تو کیسا ہوگا ] اِذَا تَوَفَّتْهُمُ [ جب روح قبض کریں گے ان کی ] الْمَلٰۗىِٕكَةُ [ فرشتے ] يَضْرِبُوْنَ [ مارتے ہوئے ] وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ [ ان کے چہروں کو اور ان کی پیٹھوں کو ]



نوٹ۔ 2: آیت۔ 27۔ بھی ان آیات میں سے ہے جو عذاب برزخ یعنی عذاب قبر کی تصریح کرتی ہیں ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت ہی کفار ومنافقین پر عذاب شروع ہوجاتا ہے اور یہ عذاب اس سزا سے مختلف چیز ہے جو قیامت میں ان کے مقدمے کا فیصلہ ہونے کے بعد انکو دی جائے گی ، (تفیہم القرآن )

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَـــطَ اللّٰهَ وَكَرِهُوْا رِضْوَانَهٗ فَاَحْبَــطَ اَعْمَالَهُمْ      28؀ۧ
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ [ یہ اس سبب ہے کہ انہوں نے ] اتَّبَعُوْا مَآ [پیروی کی اس کی جس نے ] اَسْخَـــطَ اللّٰهَ [ ناراض کیا اللہ کو ] وَكَرِهُوْا [ اور انہوں نے ناپسند کیا ] رِضْوَانَهٗ [ اس کی رضامندی کو ] فَاَحْبَــطَ اَعْمَالَهُمْ [ تو اس نے اکارت کردئیے ان کے اعمال ]

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ اَضْغَانَهُمْ       29؀
اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ [ یا انہوں نے گمان کیا ] فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ [ جن کے دلوں میں ایک روگ ہے ] اَنْ لَّنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ [ کہ ہرگز نہیں نکالے گا اللہ ] اَضْغَانَهُمْ [ ان کے کینوں کو ]



ض غ ن : (س) ضغنا ۔ دل میں دشمنی چھپانا ۔ کینہ رکھنا ۔ ضغن ج: اضغان ۔ اسم ذات ہے۔ کینہ ۔ بغض ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 29 ۔

وَلَوْ نَشَاۗءُ لَاَرَيْنٰكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيْمٰهُمْ ۭ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اَعْمَالَكُمْ     30؀
وَلَوْ نَشَاۗءُ [ اور اگر ہم چاہتے ] لَاَرَيْنٰكَهُمْ [ تو آپ کو ہم ضرور دکھاتے وہ لوگ ] فَلَعَرَفْتَهُمْ [ تو آپ پہچان لیتے ان کو ] بِسِيْمٰهُمْ ۭ [ ان (کے چہروں ) کی علامات سے ] وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ [ اور آپ لازما پہنچان لیں گے ان کو ] فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ ۭ [ بات کرنے کے انداز سے ] وَاللّٰهُ يَعْلَمُ [ اور اللہ جانتا ہے] اَعْمَالَكُمْ [ تمہارے اعمال کو ]



ل ح ن : (ف) لحنا ۔ بات کو اس کے مستعمل اسلوب سے پھیر دینا ۔ کنایہ میں بات کرنا ۔ لحن کنایہ ۔ طرز گفتگو ۔ لہجہ ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 30 ۔



نوٹ ۔ 1: آیت ۔ 30۔ میں ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ہم منافقین آپ کو دکھادیں ۔ اس مضمون کو حرف لو سے بیان کیا ہے جس کا استعمال ایسی شرط کے لیے ہوتا ہے جس کا وقوع نہ ہوا ہو ۔ اس لئے اس آیت کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اگر ہم چاہتے تو ہرمنافق کو شخصی طور پر متعین کر کے آپ کو بتا دیتے ۔ مگر ہم نے حکمت اور مصلحت سے ان کو اس طرح رسوا کرنا پسند نہیں کیا تاکہ یہ ضابطہ قائم رہے کہ تمام امور کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے اور قلبی مضمرات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا جائے البتہ آپ کو ایسی بصیرت ہم نے دے دی ہے کہ آپ منافق کو اس کے کلام سے پہچان لیں ۔ اور بعض احادیث میں یہ بھی آیاہے کہ منافقین کی ایک جماعت کا آپ کو شخصی طور پر علم دے دیا گیا تھا ۔ جیسا کہ مسند احمد میں عقبہ بن عمر (رض) کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ
نے ایک خطبہ میں خاص خاص منافقین کے نام لے کر انکو مجلس سے اٹھا دیا ۔ اس میں ۔ 36۔ آدمیوں کے نام شمار کیے گئے ہیں ۔ (معارف القرآن )

پڑھے کم بولے زیادہ قسم کے کچھ دانشور مذکورہ احادیث کو زیر مطالعہ آیت ۔ 30 ۔ کے خلاف قرار دیتے اور وہ بھی لفظ کو اپنی دلیل کی بنیاد بناتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ اگر ہم چاہتے تو بتا دیتے لیکن بتایا نہیں تو پھر کوئی راوی اگر کہتا ہے کہ رسول اللہ
کو منافقوں کے نام معلوم تھے تو یہ بات قرآن کے خلاف ہے ۔ حالانکہ اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کچھ منافقوں کو تو آپ نے ان کی علامتوں سے پہچان لیا ہے اور باقیوں کو ان کے لحن القول سے لازما پہچان لیں گے ۔ اب اگر اپنے اس علم کی بنیاد پر رسول اللہ نے کچھ لوگوں کو ان کے نام لے کر منافق قرار دیا تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔ آخر اللہ کے رسول تھے کوئی دانشور تو نہیں تھے۔ یہ تو خیر جواب آں غزل ہے۔ اب صحیح بات سمجھ لیں ۔

ان دانشوروں کو یا تو سورہ محمد کے زمانہ نزول کا علم نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ دانستہ اس سے اغماض برت رہے ہیں تاکہ عام مسلمانوں کی لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر احادیث پر انکے ایمان کو متزلزل کرسکیں ۔ یہ سورت ہجرت مدینہ کے فورا بعد نازل ہوئی ہے ۔ (معارف القرآن ) یہ ہجرت کے بعد مدینہ میں اس وقت نازل ہوئی جب جنگ کا حکم تو دیا جاچکا تھا (البقرۃ ۔ 190) مگر ابھی جنگ عملا شروع ہوئی نہ تھی ۔ (تفہیم القرآن ) ۔ جنگ بدر رمضان 2 ھ کا واقعہ ہے ۔ اس طرح اس سورہ کا زمانہ نزول 1 ھ کے آخر یا 2 ھ کے شروع کا زمانہ بنتا ہے۔ جبکہ ۔36 ۔ آدمیوں کانام لے کر انکو مجلس سے اٹھ جانے کا حکم دینے کا واقعہ جنگ تبوک سے واپسی پر پیش آیا ۔ جنگ تبوک 9 ھ میں ہوئی تھی ۔ اب اگر 2 ھ میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے نام نہیں بتائے تھے اور سات سال کے بعد 9 ھ میں اس وقت کے منافقوں کے نام بتا دیئے تو اس میں قرآن کے خلاف کیا بات ہے ۔ آیت زیر مطالعہ میں اللہ تعالیٰ نے یہی تو فرمایا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو بتا دیتے لیکن ابھی بتایا نہیں ہے۔ قرآن میں یہ کہاں لکھا ہے کہ کبھی بھی نہیں بتائیں گے۔ ’’ آرزو کی ایک جماعت نے اہل کتاب میں سے کہ کاش وہ لوگ گمراہ کردیں تم لوگوں کو ۔ اور وہ گمراہ نہیں کرتے مگر اپنے آپ کو اس حال میں کہ وہ لوگ شعور نہیں رکھتے ۔ ‘‘ (ال عمران ۔ 69)

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ      31؀
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ [ اور ہم لازما آزمائیں گے تم لوگوں کو ] حَتّٰى نَعْلَمَ [ یہاں تک کہ ہم جان لیں (ظاہر کردیں ) ] الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ [ مجاہدوں کو تم میں سے ] وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ [ اور ثابت قدم رہنے والوں کو ] وَنَبْلُوَا۟ [ اور ہم جانچیں گے ] اَخْبَارَكُمْ [ تمھاری حالتوں کو ]

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَشَاۗقُّوا الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَـبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدٰى ۙ لَنْ يَّضُرُّوا اللّٰهَ شَـيْــــًٔا ۭ وَسَيُحْبِطُ اَعْمَالَهُمْ      32؀
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ] وَصَدُّوْا [اور وہ رکے رہے ] عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ سے ] وَشَاۗقُّوا [ اور انھوں نے مخالفت کی ] الرَّسُوْلَ [ ان رسول کی ] مِنْۢ بَعْدِ مَا [ اس کے بعد کہ جب ] تَـبَيَّنَ لَهُمُ [واضح ہوئی انکے لئے ] الْهُدٰى ۙ [ ہدایت ] لَنْ يَّضُرُّوا [وہ لوگ ہرگز نقصان نہیں پہنچائیں گے ] اللّٰهَ [ اللہ کو ] شَـيْــــًٔا ۭ [ کچھ بھی ] وَسَيُحْبِطُ [ اور وہ اکارت کرے گا ] اَعْمَالَهُمْ [ ان کے اعمال کو ]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ      33؀
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا [ اے لوگو! جو ایمان لائے ] اَطِيْعُوا اللّٰهَ [ تم لوگ اطاعت کرو اللہ کی ] وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ [اور اطاعت کرو ان رسول کی ] وَلَا تُبْطِلُوْٓا [ اور تم لوگ غارت مت کرو] اَعْمَالَكُمْ [اپنے اعمال کو ]

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ مَاتُوْا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ    34؀
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ] وَصَدُّوْا [اور وہ رکے رہے ] عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ سے] ثُمَّ مَاتُوْا [پھر وہ مرگئے ] وَهُمْ [ اس حال میں کہ وہ لوگ ] كُفَّارٌ [ انکار کرنے والے تھے ] فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ [ تو ہرگز مغفرت نہیں کرے گا اللہ ] لَهُمْ [ان لوگوں کی ]

فَلَا تَهِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَى السَّلْمِ ڰ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ڰ وَاللّٰهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَّتِرَكُمْ اَعْمَالَكُمْ      35؀
فَلَا تَهِنُوْا [ تو تم لوگ ہمت مت ہارو ] وَتَدْعُوْٓا [ اور نہ بلاؤ ] اِلَى السَّلْمِ ڰ [ صلح کی طرف ] وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ڰ [ اور تم لوگ غالب ہو ] وَاللّٰهُ مَعَكُمْ [ اور اللہ تمہارے ساتھ ہے ] وَلَنْ يَّتِرَكُمْ [ اور وہ ہرگز حق تلفی نہیں کرے گا تمہاری ] اَعْمَالَكُمْ [تمہارے اعمال میں ]



نوٹ ۔ ا: آیت ۔35 ۔ میں کفار کو صلح کی دعوت دینے کی ممانعت کی گئی ہے جبکہ سورہ انفال کی آیت ۔61۔ میں ہے کہ اگر کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی مائل ہوجائیے جس سے صلح کی اجازت معلوم ہوتی ہے ۔ اس لیے بغض حضرات نے فرمایا کہ اجازت والی آیت اس شرط کے ساتھ ہے کہ کفار کی طرف سے صلح جوئی کی اجازت معلوم ہوتی ہے ۔ اس لیے بعض حضرات نے فرمایا کہ اجازت والی آیت اس شرط کے ساتھ ہے کہ کفار کی طرف سے صلح جوئی کی ابتدا ہو اور اس آیت میں جس کو منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے صلح کی درخواست کی جائے ۔ اس لیے دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔ مگر صحیح یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے ابتداء صلح کر لینا بھی جائز ہے جبکہ اس میں مسلمانوں کی مصلحت دیکھی جائے ۔ اس آیت کے شروع میں فلا تھنوا کہہ کر اس طرف اشارہ کردیا کہ ممنوع وہ صلح ہے جس کا منشاء بزدلی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے فرار ہو۔ (معارف القرآن )

اِنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ ۭ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا يُؤْتِكُمْ اُجُوْرَكُمْ وَلَا يَسْـَٔــلْكُمْ اَمْوَالَكُمْ    36؀
اِنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا [ دینوی زندگی تو بس ] لَعِبٌ وَّلَهْوٌ ۭ [ کھیل اور تماشہ ہے] وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا [ اور اگر تم لوگ ایمان لاؤ اور تقوی اختیار کرو] يُؤْتِكُمْ [ تو وہ دے گا تم لوگوں کو ] اُجُوْرَكُمْ [ تمہاری اجرتیں ] وَلَا يَسْـَٔــلْكُمْ [ اور وہ نہیں مانگے گا تم سے ] اَمْوَالَكُمْ [ تمہارے مال ]



نوٹ۔ 2: آیت ۔ 36۔ میں وَلَا يَسْـَٔــلْكُمْ اَمْوَالَكُمْ کا ظاہری مفہوم  یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے مال طلب نہیں کرتا ۔ مگر پورے قرآن میں زکوۃ وصدقات کے احکام اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کے بیشمار مواقع آئے ہیں ۔ اور خود اس آیت کے بعد اگلی آیت میں انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید آرہی ہے۔ اس لیے بظاہر ان دونوں میں تعارض معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے بعض حضرات نے لایسئلکم کا یہ مفہوم قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے اموال اپنے نفع کے لیے نہیں مانگتا بلکہ تمہارے ہی فائدے کے لیے مانگتاہے ۔ اس کی نظیر الذاریات کی آیت ۔ 57 ہے۔ جس میں ہے کہ ہم اپنے لیے کوئی بھی رزق نہیں چاہتے ۔ اور بعض حضرات نے اس کا مفہوم یہ قرار دیا کہ لا یسئلکم سے مراد پورا مال طلب کرنا ہے۔ اس کا قرینہ اگلی آیت ہے جس میں فرمایا ان یسئلکم فیحفکم کیونکہ اخفاء کے معنی مبالغہ کرنے اور کسی کام میں آخر تک پہنچ جانے کے ہیں ۔ اس دوسری آیت کا مفہوم سب کے نزدیک یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے پورے اموال طلب کرتا تو تم بخل کرنے لگتے اور اس حکم کی تعمیل تمہیں ناگوار ہوتی یہاں تک کہ ادائیگی کے وقت تمہاری یہ ناگواری ظاہر ہوجاتی ۔ اس طرح دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہواکہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مالی فرائض تم پر عائد کیے ہیں وہ خود تمہارے ہی فائدے کے لیے ہیں اور پھر ان فرائض میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے تمہارے مال کا اتنا تھوڑا سا جزوفرض کیا ہے جو کسی طرح بار خاطر نہ ہونا چاہئے ۔ زکوۃ میں چالیسواں حصہ ، زمین کی پیداوار میں دسواں یا بیسوں حصہ ، سو بکریوں میں ایک بکری ، تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے پورے اموال تو طلب نہیں کیے بلکہ اس قدر قلیل طلب فرمایا ہے ۔ اس لیے تمہارا فرض ہے کہ اس کو خوشی سے ادا کیا کرو ۔ (معارف القرآن )

اِنْ يَّسْـَٔــلْكُمُوْهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوْا وَيُخْرِجْ اَضْغَانَكُمْ      37؀
اِنْ يَّسْـَٔــلْكُمُوْهَا [ اگر وہ مانگے تم سے اس (مال ) کو ] فَيُحْفِكُمْ [ پھر وہ اصرار کرے تم سے ] تَبْخَلُوْا [ تو تم لوگ کنجوسی کروگے ] وَيُخْرِجْ [ اور وہ نکالے گا ] اَضْغَانَكُمْ [تمہارے بغض کو ]

هٰٓاَنْتُمْ هٰٓؤُلَاۗءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ فَمِنْكُمْ مَّنْ يَّبْخَلُ ۚ وَمَنْ يَّبْخَلْ فَاِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖ ۭ وَاللّٰهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ ۚ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ      38؀ۧ
هٰٓاَنْتُمْ [ ہاں ہاں تم لوگ تو] هٰٓؤُلَاۗءِ [ وہ لوگ ہو ] تُدْعَوْنَ [ جن کو دعوت دی جاتی ہے ] لِتُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ [ کہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں ] فَمِنْكُمْ مَّنْ [ تو تم میں وہ بھی ہے جو ] يَّبْخَلُ ۚ [ کنجوسی کرتا ہے ] وَمَنْ يَّبْخَلْ [ اور جو کنجوسی کرتا ہے ] فَاِنَّمَا يَبْخَلُ [ تو وہ تو بس کنجوسی کرتا ہے ] عَنْ نَّفْسِهٖ ۭ [ اپنی جان سے ] وَاللّٰهُ الْغَنِيُّ [ اور اللہ ہی بےنیاز ہے ] وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ ۚ [ اور تم لوگ محتاج ہو ] وَاِنْ تَتَوَلَّوْا [ اور اگر تم لوگ منہ موڑو گے ] يَسْتَبْدِلْ [ تو وہ بدلے میں ہے] قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۙ [ کسی قوم کو تمہارے علاوہ ] ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا [ پھر وہ لوگ نہ ہوں گے ] اَمْثَالَكُمْ [تمہارے جیسے ]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ          ۝

اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا      Ǻ۝ۙ
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ [ بیشک ہم نے فیصلہ کیا آپ کے لیے ] فَتْحًا مُّبِيْنًا [ ایک کھلا فیصلہ ]



نوٹ۔ ا: اس سورۃ میں متعددواقعات کی طرف اشارے ہیں ۔ ان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سورۃ کے نزول کے وقت کے سیاسی حالات ذہن میں واضح ہوں ۔ اس لیے پہلے ان حالات کو سمجھ لیں ۔

رسول اللہ
نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا فرمایا ہے۔ نبی کا خواب وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور آگے چل کر آیت ۔ 27 ۔ میں اللہ تعالیٰ نے خود توثیق کردی ہے کہ یہ خواب ہم نے دیکھایا تھا ۔ اس لیے یہ ایک الہی اشارہ تھا جس کی پیروی کرنا ضروری تھا ۔ جبکہ بظاہر اسباب اس ہدایت پر عمل کرنا ممکن نظر نہیں آتا تھا ۔ قریش نے چھ سال سے مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا ۔ اب یہ توقع کیسے کی جا سکتی تھی ۔ کہ وہ آپ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ، کو مکہ میں داخل ہونے دیں گے ۔ عمرے کے احرام باندھ کرجنگی سازوسامان کیساتھ نکلنا خود لڑائی کو دعوت دینا تھا ۔ اور غیر مسلح جانے کا مطلب اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنا تھا ۔ ان حالات میں کوئی شخص یہ نہ سمجھ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس اشارے پر کیسے عمل کیا جائے ۔ مگر رسول اللہ نے اپنا خواب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو سنا کر سفر کی تیاری شروع کردی اور آس پاس کے قبائل میں اعلان کرا دیا کہ جو ہمارے ساتھ چلنا چاہے وہ آجائے ۔ جن لوگوں کی نگاہ ظاہری اسباب پر تھی انہوں نے سمجھا کہ یہ لوگ موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ ان میں سے کوئی آپ کے ساتھ چلنے پر آمادہ نہ ہوا ۔ البتہ چودہ سو صحابہ کرام آپ کیساتھ اس نہایت خطرناک سفر پر جانے کے لیے تیار ہوگئے ۔

ذی القعدہ 6 ھ کے آغاز میں یہ قافلہ مدینہ سے روانہ ہوا قربانی کے لیے ستر اونٹ ساتھ لیے جن کی گردنوں میں ھدی کی علامت کے طور پر قلادے پڑے ہوئے تھے ۔ صرف ایک ایک تلوار رکھ رلی جس کی تمام زائریں حرم کو عرب کے معروف قاعدے کے مطابق اجازت تھی ۔ قریش کے لوگوں کو آپ کے اس اقدام نے سخت پریشانی میں ڈال دیا ، ذی القعدہ کا مہینہ ان مہینوں میں سے تھا جو حج وزیارت کے لیے محترم سمجھے جاتے تھے ، قریش کے لوگ اس الجھن میں پڑ گئے کہ اگر ہم اس قافلے پر حملہ کرکے اسے مکہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں تو یہ ایسی غلطی ہوگئی جس سے سارا عرب ہم سے منحرف ہو جائے گا کہ ہم جس سے بھی ناراض ہوں گے اسے بیت اللہ کی زیارت سے اسی طرح روک دیں گے ۔ لیکن اگر ہم اس قافلہ کو اپنے شہر میں داخل ہونے دیتے ہیں تو ہماری ہوا اکھڑ جائے گی ، آخرکار بڑی شش وپنج کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ کسی قیمت پر بھی اس قافلے کو اس شہر میں داخل ہونے نہیں دیں گے ۔ رسول اللہ
کو اطلاع ملی کہ قریش نے آپ کا راستہ روکنے کے لیے خالد بن ولید کو دو سو سواروں کا دستہ دے کر آگے بھیج دیا ہے۔ قریش کی چال یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح چھیڑ چھاڑ کرکے صحابہ کو اشتعال دلایا جائے۔ پھر اگر لڑائی ہوجائے تو مشہور کردیں کہ یہ لوگ دراصل لڑنے کے لیے آئے تھے اور احرام دھوکہ دینے کے لیے باندھ رکھا تھا ۔ رسول اللہ نے یہ اطلاع پاتے ہی راستہ بدل دیا اور ایک نہایت دشوار گزار راستہ سے حدبیہ کے مقام پر پہنچ گئے جو عین حرم کی سرحد پر واقع ہے ۔ قریش نے یکے بعد دیگرے تین سرداروں کو بھیجا کہ وہ رسول اللہ کو واپس جانے پر آمادہ کریں تینوں نے دیکھ لیا کہ یہ لوگ لڑنے کے لیے نہیں بلکہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے آئے ہیں تو ان تینوں نے قریش کے سرداروں کو مشورہ دیا کہ وہ ان زائرین حرم کا راستہ نہ روکیں ۔

پھر رسول اللہ
نے اپنی طرف سے حضرت عثمان  (رض)  کو ایلچی بنا کر مکہ بھیجا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں بلکہ زیارت کے طواف اور قربانی کرکے واپس چلے جائیں گے ، مگر وہ لوگ نہ مانے اور حضرت عثمان کو مکہ ہی میں روک لیا ، اس دوران یہ خبر اڑ گئی کہ حضرت عثمان قتل کردئیے گئے ہیں ۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا کہ مسلمان جنگ کے لیے تیار ہوجائیں چنانچہ رسول اللہ نے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے اس بات پر بیعت لی کہ اب یہاں سے ہم مرتے دم تک پیچھے نہ ہٹیں گے ۔ یہی وہ بیعت ہے جو بیعت رضوان کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی، حضرت عثمان خود بھی واپس آگئے اور قریش کی طرف سے ایک وفد صلح کی بات چیت کرنے کے لیے آیا ۔ طویل گفت وشنید کے بعد جن شرائط پر صلح نامہ لکھا گیا وہ یہ تھیں ۔ (1) دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی ۔ (2) اس دوران جو شخص بھاگ رسول اللہ کے پاس جائے گا اسے وہ واپس کردیں گے اور آپ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا اسے وہ واپس نہ کریں گے ۔ (3) قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا بھی حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہوگا ۔ (4) محمد اللہ اس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرے کے لیے آکر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں ۔ جس وقت اس معاہدے کی شرائط طے ہورہی تھیں ، مسلمانوں کا پورا لشکر سخت مضطرب تھا ، اس معاہدہ میں سب سے زیادہ دو باتیں لوگوں کو بری طرح کھل رہی تھیں ۔ ایک شرط نمبر 2 ۔ تھی اس کے لیے آپ نے فرمایا کہ جو ہمارے پاس سے بھاگ کر ان کے پاس چلا جائے وہ ہمارے کس کام کا ہے ۔ اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے ، اور جسے ہم واپس کریں گے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی کوئی دوسری صورت پیدا فرما دے گا ۔ دوسری چیز جو لوگوں کے دلوں میں کھٹک رہی تھی وہ چوتھی شرط تھی ، دلوں میں خلش تھی کہ ہم طواف کرنے لیے آئے تھے لیکن اب طواف کے بغیر واپس جانے کی شرط مان رہے ہیں ۔ گویا ہم ناکام واپس جارہے ہیں ۔ آپ نے لوگوں کو سمجھایا کہ خواب میں اسی سال طواف کرنے کی صراحت تو نہ تھی ۔ ان شاء اللہ اگلے سال طواف ہوگا ۔

اس کے بعد جب یہ قافلہ صلح حدیبیہ کو اپنی شکست اور ذلت سمجھتا ہوا مدینہ کی طرف واپس جارہا تھا تو راستہ میں یہ سورۃ نازل ہوئی جس نے مسلمانوں کو بتایا کہ یہ صلح جس کو وہ شکست سمجھ رہے ہیں دراصل فتح عظیم ہے۔ آپ نے سب کو جمع کرکے یہ سورۃ تلاوت فرمائی ، اگرچہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سن کر ہی مطمئن ہوگئے تھے، مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ اس صلح کے فوائد ایک ایک کرکے کھلتے چلے گئے وہ فوائد یہ تھے، (1) اب تک عربوں کی نگاہ میں مسلمانوں کی حیثیت قبائل عرب کے خلاف خروج کرنے والے ایک گروہ کی تھی اور وہ ان کو برادری سے باہر سمجھتے تھے، قریش نے یہ معاہدہ کرکے اسلامی ریاست کے وجود کو باقاعدہ تسلیم کرلیا اور قبائل عرب کے لیے یہ دروازہ بھی کھول دیا کہ ان دونوں سیاسی طاقتوں میں سے جس کیساتھ چاہیں حلیفانہ معاہدہ کرلیں ۔ مسلمانوں کے لیے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کرکے قریش نے گویا یہ بھی مان لیا کہ اسلام کوئی بےدینی نہیں ہے اور دوسرے عربوں کی طرح اس کے پیرو بھی حج وعمرہ کے مناسک ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔ اس سے اہل عرب کے دلوں میں وہ نفرت کم ہوگئی جو قریش کے پروپیگنڈا سے اسلام کے خلاف پیدا ہوئی تھی، (3) دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہوجانے سے مسلمانوں کو امن میسر آگیا اور انہوں نے عرب میں چاروں طرف پھیل کر تیزی سے اسلام کی اشاعت کی ، صلح حدیبیہ سے پہلے ۔19۔ سال میں اتنے آدمی مسلمان نہ ہوئے تھے جتنے اس کے بعد دوسال کے اندر ہوگئے ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور
کے ساتھ صرف چودہ سو آدمی تھے اور دو سال بعد جب حضور نے مکہ پر چڑھائی کی تو دس ہزار کا لشکر آپ کے ساتھ تھا ۔ (4) جنگ بندی کے بعد رسول اللہ کو یہ موقع مل گیا کہ اپنے مقبوضات میں اسلامی قوانین کے اجراء سے مسلم معاشرے کو ایک مکمل تہذیب وتمدن بنادیں (5) قریش سے صلح کے بعد جنوب کی طرف سے اطمینان نصیب ہوجانے کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں نے شمال عرب اور وسط عرب کی تمام مخالف طاقتوں کو بآسانی مسخر کرلیا صلح حدیبیہ کے تین ماہ بعد یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ خیبر فتح ہوگیا ۔ اور اس کے بعد تبوک تک کی متعدد یہودی بستیاں اسلام کے زیر نگین آتی چلی گئیں پھر وسط عرب کے وہ تمام قبلیے بھی ، جو قریش اور یہود کے ساتھ گٹھ جوڑ ررکھتے تھے ، ایک ایک کرکے تابع فرمان ہوگئے ۔ اس طرح حدیبیہ کی صلح نے دو ہی سال کے اندر عرب میں قوت کا توازن اتنا بدل دیا کہ اسلام کا غلبہ یقینی ہوگیا اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر اس سورۃ کو پڑھا جائے تو اسے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ (تفیہم القرآن ۔ ج 5 ۔ ص 34 تا 41 سے ماخوذ)

نوٹ ۔ 2 صلح حدیبیہ کے سفر میں شامل چودہ سو صحابہ کرام وہ لوگ تھے جن کو سمجھانے والے سمجھاتے رہے کہ موت کے منہ میں مت جاؤ پھر بھی یہ لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر موت کے منہ میں جانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کے جوش وجذبہ کا کیا عالم تھا، پھر ان کا یہ جوش وجذبہ اپنی آخری انتہا کو پہنچ گیا ۔ جب انہوں نے رسول اللہ
کے ہاتھ پر بیعت کی کہ مرتے دم تک پیچھے نہیں ہٹیں گے ، اس کے فورا بعد صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوتا ہے ۔ اس ذہنی اور جذباتی کیفیت میں ان ہتک آمیز شرائط کو تسلیم کرنا اور عمرہ کیے بغیر مدینہ کی طرف واپسی کا سفر اختیار کرنا ایک معجزہ نظر آتا ہے اور بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ کی خصوصی توفیق کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 4۔ میں اسی کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ نے مومنوں کے دلوں میں سکینہ نازل کی ۔ (حافظ احمد یار صاحب کی کیسٹ سے ماخوذ )

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں

فیضان محبت عام تو ہے عرفان محبت عام نہیں ۔

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا       Ą۝ۙ
لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ [ تاکہ معاف کرے آپ کے لیے اللہ ] مَا تَقَدَّمَ [ اس کو جو آگے ہوئی ] مِنْ ذَنْۢبِكَ [ آپ کی کمی بیشی میں سے ] وَمَا تَاَخَّرَ [اور اس کو جو پیچھے رہی ] وَيُتِمَّ [ اور تاکہ وہ تمام کرے ] نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ [ اپنی نعمت کو آپ پر ] وَيَهْدِيَكَ [ اور تاکہ وہ رہنمائی کرے آپ کی ] صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا [ ایک سیدھے راستے کی طرف ]

وَّيَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَــصْرًا عَزِيْزًا      Ǽ۝
وَّيَنْصُرَكَ اللّٰهُ [ اور تاکہ مدد کرے آپ کی اللہ ] نَــصْرًا عَزِيْزًا [ ایک زبر دست مدد ]



نوٹ ۔ 3 زیر مطالعہ آیت ۔ 6۔ میں اللہ کے بارے میں برا گمان کرنے والوں کا ذکر ہے ۔ اس میں منافقین کے ان گمانوں کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر آگے آیت ۔ 12 ۔ میں کیا گیا ہے کہ یہ لوگ اب واپس نہیں لوٹیں گے ۔ یہاں پر منافقین اور منافقات کے ساتھ مشرکین اور مشرکات کا جوڑاس گہری قلبی وذہنی مماثلت کی بنا پر ہے جو دونوں کے درمیان پائی جاتی ہے ، جس طرح ایک مشرک اپنے رب کی بندگی کا مدعی ہوتے ہوئے دوسرے معبودوں کی پرستش کرتا ہے اسی طرح ایک منافق بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا مدعی ہوتے ہوئے اسلام کے مخالفین سے بھی گٹھ جوڑ رکھتا ہے اور اس کا رویہ وہ ہوتا ہے جس کی نشاندہی سورہ محمد کی آیت ۔ 26۔ میں کیا گیا ہے ۔ کہ جن لوگوں نے اس کو پسند کیا جو اللہ نے نازل کیا ، ان لوگوں نے کہا کہ بعض معاملات میں ہم تمہارا کہا مانیں گے، اس اشتراک کی بنا پر قرآن نے نفاق کو شرک قرار دیا ہے۔ (تدبر قرآن)

هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْٓا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِهِمْ ۭ وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا     Ć۝ۙ
هُوَ الَّذِيْٓ [وہ، وہ ہے جس نے ] اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ [ اتارا سکون کی کیفیت کو ] فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ [ مومنوں کے دلوں میں ] لِيَزْدَادُوْٓا [ تاکہ وہ لوگ زیادہ ہوں ] اِيْمَانًا [ بلحاظ ایمان کے ] مَّعَ اِيْمَانِهِمْ ۭ [ اپنے ایمان کے ساتھ ] وَلِلّٰهِ [ اور اللہ ہی کے ہیں ] جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [ زمین اور آسمانوں کے سارے لشکر ] وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا [اور اللہ علم والا ہے حکمت والا ہے ]

لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا       Ĉ۝ۙ
لِّيُدْخِلَ [ تاکہ وہ داخل کرے ] الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ [ مومن مردوں اور مومن خواتین کو ] جَنّٰتٍ [ایسے باغات میں ] تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ [ بہتی ہیں جن کے نیچے سے نہریں ] خٰلِدِيْنَ فِيْهَا [ ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے ان میں ] وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ [ اور تاکہ وہ دور کردے ان سے ] سَيِّاٰتِهِمْ ۭ [ ان کی برائیوں کو ] وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ [ اور یہ ہے اللہ کے نزدیک ] فَوْزًا عَظِيْمًا [ ایک عظیم کامیابی ]

وَّيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ الظَّاۗنِّيْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۭ عَلَيْهِمْ دَاۗىِٕرَةُ السَّوْءِ ۚ وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا      Č۝
وَّيُعَذِّبَ [ اور تاکہ وہ عذاب دے ] الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ [ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو ] وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ [ اور شرک کرنے والے مردوں کو اور شرک کرنے والی عورتوں کو ] الظَّاۗنِّيْنَ بِاللّٰهِ [ گمان رکھنے والے اللہ کے بارے میں ] ظَنَّ السَّوْءِ ۭ [برائی کا گمان ] عَلَيْهِمْ دَاۗىِٕرَةُ السَّوْءِ ۚ [ ان پر برائی کی گردش (آفت ) ہے ] وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ [ اور غضب کیا اللہ نے ان پر ] وَلَعَنَهُمْ [ اور اس نے لعنت کی ان کو ] وَاَعَدَّ لَهُمْ [ اور اس نے تیار کیا ان کے لیے ] جَهَنَّمَ ۭ [ جہنم کو ] وَسَاۗءَتْ [ اور وہ بری ہے] مَصِيْرًا [بلحاظ لوٹنے کی جگہ کے ]

وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا      Ċ۝
وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [ اور اللہ کے ہیں آسمانوں اور زمین کے سارے لشکر ] وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا [ اور اللہ بالا دست ہے حکمت والا ہے ]

اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا      Ď۝ۙ
اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ [بیشک ہم نے بھیجا آپ کو ] شَاهِدًا [ گواہ ہوتے ہوئے] وَّمُبَشِّرًا [ اور بشارت دینے والا ] وَّنَذِيْرًا [ اور خبردار کرنے والا ہوتے ہوئے ]

لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ ۭ وَتُسَـبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا      ۝
لِّتُؤْمِنُوْا [ تاکہ تم لوگ ایمان لاؤ] بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ [ اللہ پر اور اس کے رسول پر ]وَتُعَزِّرُوْهُ [ اور تاکہ تم لوگ تقویت دو ان کو ] وَتُوَقِّرُوْهُ ۭ [ اور تعظیم کرو ان کی ] وَتُسَـبِّحُوْهُ [ اور تاکہ تم لوگ تسبیح کرو اس (اللہ ) کی ] بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا [ صبح وشام]

اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنْكُثُ عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَيْهُ اللّٰهَ فَسَيُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا      10۝ۧ
اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ [ بیشک جو لوگ بیعت کرتے ہیں آپ سے ] اِنَّمَا [ (تو ) کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ [ وہ لوگ بیعت کرتے ہیں اللہ سے] يَدُ اللّٰهِ [ اللہ کا ہاتھ ] فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ۚ [ ان کے ہاتھوں کے اوپر (ہوتا ) ہے ] فَمَنْ نَّكَثَ [ پھر جس نے عہد شکنی کی ] فَاِنَّمَا يَنْكُثُ [ تو وہ تو بس عہد شکنی کرتا ہے ] عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ [ اپنے آپ کے خلاف ] وَمَنْ اَوْفٰى [ اور جس نے پورا کیا ] بِمَا عٰهَدَ عَلَيْهُ [ اس کو اس نے معاہدہ کیا جس پر ] اللّٰهَ [ اللہ سے ] فَسَيُؤْتِيْهِ [ تو وہ (اللہ ) دے گا اس کو ] ااَجْرًا عَظِيْمًا [ ایک اجر عظیم ]



ترکیب : (آیت ۔ 10) یہاں علیہ اللہ آیا ہے جبکہ عربی قاعدے کے مطابق اسے علیہ اللہ ہونا چاہیے تھا ، یہ قرآن مجید کی خصوصیت ہے کہ اس مقام پر اس کو علیہ کے بجائے علیہ پڑھا اور لکھا جاتا ہے ۔ متعدد مقامات پر اس نوعیت کی خصوصیات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے بزرگوں کو قرآن مجید جیسا ملا تھا ۔ انہوں نے اسے بالکل اسی طرح ہم تک پہنچایا ہے ۔ اور قرآن مجید میں زبر زیر پیش تک کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،



نوٹ۔ 1 آیت ۔10۔ کو عام طور پر بیعت رضوان سے متعلق سمجھا گیا ہے ۔ حالانکہ اس کو بیعت رضوان سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ بیعت رضوان کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ یہاں سمع وطاعت کی اس عام بیعت کا ذکر ہے ہر ایمان لانے والا رسول اللہ
کے ہاتھ پر کرتا تھا ۔ یہاں اس کی عظمت اور اس کی ذمہ داریاں منافقین کو غیرت دلانے کے لیے بیان کی گئی ہیں کہ وہ رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت تو کربیٹھے لیکن جب اس کے مطالبات پورے کرنے کا وقت آیا تو منہ چھپاتے پھرتے ہیں ۔ ان پر یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت درحقیقت اللہ تعالیٰ سے معاہدہ ہے۔ اگر کوئی اس کی ذمہ داریوں سے گریز کرتا ہے تو وہ اللہ سے کیے ہوئے معاہدے کو توڑتا ہے جس کا انجام دنیا اور آخرت میں رسوائی ہے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔ 2: اسی آیت ۔10 میں علیہ اللہ کی ضمیر پر جو ضمہ (پیش) ہے اس کی بنا پر بعض مستشرقین نے قرآن کی نحو (گرامر ) پر اعتراض کیا ہے ان بیچاروں کو پتہ نہیں ہے کہ گرامر کی کتابیں قرآن کے اسلوب واعراب کو پرکھنے کے لیے کسوٹی نہیں ہیں بلکہ قرآن گرامر کی کتابوں کو جانچنے کی لیے کسوٹی ہے کیونکہ قرآن قریش کی ٹکسالی زبان کا سب سے اعلی نمونہ ہے اور ہر پہلو سے محفوظ ہے ۔ اس وجہ سے اس کی اگر کوئی گرامر کے خلاف نظر آئے گی تو اسے قرآن کے نقص پر نہیں بلکہ گرامر مرتب کرنے والوں کے نقص پر محمول کریں گے۔ فصیح عربی میں آہنگ وصوت کے تقاضوں کے تحت بھی الفاظ، حروف اور ضمیروں پر ایسے ایسے تصرفات ہوئے ہیں کے اگر کسی شخص کا علم صرف گرامر کی کتابوں ہی تک محدود ہو تو وہ ان کا احاطہ نہیں کرسکتا ۔ قرآن میں متعدد مثالیں ایسی موجود ہیں کہ ضمیر لفظ کے اندر بالکل مدغم ہوکے رہ گئی ہے ۔ اس کی وجہ آہنگ وصوت کے تقاضے کے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔ مثلا الاعراف کی آیت ۔111 ۔ اَرْجِهْ وَاَخَاهُ اسی طرح سورہ نور کی آیت ۔ 52 ۔ يَخْشَ اللّٰهَ وَيَتَّقْهِ قرآن کی آخری سورتوں میں بہت سی مثالیں ملیں گے کی صرف آہنگ وصوت کے تقاضے سے حروف ، الفاظ اور ضمیروں کی ہیت میں ایسی تبدیلیاں ہوگئی ہیں جن کی گرامر والے کوئی توجیہ نہیں کرپاتے۔ (تدبر قرآن ) اس نوٹ کو سمجھانے یا یوں کہہ لیں کہ ہضم کرانے کی غرض سے ہم آسان عربی گرامر کے پہلے باب ’’ تمہید ‘‘ سے ایک اقتباس نقل کررہے ہیں ۔

زبان پہلے وجود میں آجاتی ہے پھر بعد میں ضرورت پڑنے پر اس کے قواعد (گرامر) مرتب کیے جاتے ہیں ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پہلے قواعد مرتب کرکے کوئی زبان وجود میں لائی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں ، لیکن قواعد معدودے چند کے ہی مرب کئے گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی زبان کے قواعد اس زبان کے تمام الفاظ پر حاوی نہیں ہوتے بلکہ کچھ نہ کچھ الفاظ ضرور مستثنی ہوتے ہیں ۔ یہ مسئلہ ہرزبان کے ساتھ ہے۔ اس حوالہ سے اس تاریخی حقیقت کو ذہن نشین کرلیں کہ جب غیر عرب لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے تو قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لیے نیز اس وقت کی سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے ، ان لوگوں کو ضرورت پیش آئی کہ درسی طریقے سے یعنی قواعد (گرامر) کی مدد سے وہ عربی سیکھیں ۔ چنانچہ اس وقت عربی گرامر مرتب کی گئی ہے ۔ اس سے پہلے اور خاص طور سے نزول قرآن کے وقت عربی گرامر کا کوئی وجود نہیں تھا ، البتہ قریش کی ٹکسالی زبان سے قریش کا بچہ بچہ واقف تھا ، اگر قرآن میں کوئی بات اس زبان کے اسلوب اور اس کے صوت و آہنگ کے خلاف ہوتی تو وہ لوگ لازما اس کو اچھالتے لیکن اس پہلو سے وہ قرآن کے کسی ایک مقام پر بھی انگلی نہ رکھ سکے، اب مغربی یونیورسٹیوں سے
Ph.D کرنے والے ماہرین لسانیات میں سے کوئی اگر قرآن کے کسی مقام کو عربی گرامر کے خلاف قرار دے کر اسے قرآن کا نقص قرار دیتا ہے تو اس کی یہ بات یا تو بدنیتی پر مبنی ہے یا جہالت پر ۔ اس لیے مولانا اصلاحی نے کہا ہے کہ گرامر کی کتابیں قرآن کو پرکھنے کی کسوٹی نہیں ہیں بلکہ قرآن گرامر کی کتابوں کو چانچنے کے لیے کسوٹی ہے۔

سَيَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَهْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِهِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ ۭ قُلْ فَمَنْ يَّمْلِكُ لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَـيْـــــًٔا اِنْ اَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا   ۭ بَلْ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا       11؀
سَيَقُوْلُ لَكَ [ کہیں گے آپ سے] الْمُخَلَّفُوْنَ [ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ ] مِنَ الْاَعْرَابِ [ بدو لوگوں میں سے] شَغَلَتْنَآ [ مصروف کیا ہم نے ] اَمْوَالُنَا وَاَهْلُوْنَا [ ہمارے اموال اور ہمارے گھر والوں نے ] فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ [ تو آپ مغفرت مانگیں (اللہ سے ) ہمارے لیے] يَقُوْلُوْنَ [ یہ لوگ کہیں گے ] بِاَلْسِنَتِهِمْ [ اپنی زبانوں سے ] مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ ۭ [ وہ جو ان کے دلوں میں نہیں ہے] قُلْ [آپ کہیے ] فَمَنْ يَّمْلِكُ لَكُمْ [ تو کون اختیار رکھتا ہے تمہارے لیے] مِّنَ اللّٰهِ [ اللہ سے (بچانے کا ) ] شَـيْـــــًٔا [ ذرا سا بھی ] اِنْ اَرَادَ بِكُمْ [ اگر وہ ارادہ کرے تمہارے بارے میں ] ضَرًّا [ کسی نقصان کا ] اَوْ اَرَادَ بِكُمْ [ یا وہ ارادہ کرے تمہارے لیے] نَفْعًا ۭ [ کسی نفع کا ] بَلْ كَانَ اللّٰهُ [ بلکہ اللہ ] بِمَا تَعْمَلُوْنَ [ اس سے جو تم لوگ کرتے ہو] خَبِيْرًا [ باخبر ہے ]



(آیت ۔ 11) اھل کی جمع سالم اھلون ، اھلین ، اھلین آتی ہے، یہاں فاعل ہونے کی وجہ سے یہ اھلون ہے ، مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا ہوا ہے اور نا کی ضمیر اس کا مضاف الیہ ہے۔

بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰٓى اَهْلِيْهِمْ اَبَدًا وَّزُيِّنَ ذٰلِكَ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ ښ وَكُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا        12 ؀
بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ [ بلکہ تم لوگوں نے گمان کیا کہ ] لَّنْ يَّنْقَلِبَ [ ہرگز نہیں پلٹیں گے ] الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ [ یہ رسول اور مومن لوگ ] اِلٰٓى اَهْلِيْهِمْ [ اپنے گھر والوں کی طرف ] اَبَدًا [ کبھی بھی ] وَّزُيِّنَ [ اور سجا دیا گیا ] ذٰلِكَ [ اس (خیال ) کو ] فِيْ قُلُوْبِكُمْ [ تمہارے دلوں میں ] وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ ښ [ اور تم لوگوں نے گمان کیا برائی کا گمان ] وَكُنْتُمْ [ اور تم لوگ تھے ہی ] قَوْمًۢا بُوْرًا [ایک تباہ ہونے والی قوم ]

وَمَنْ لَّمْ يُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ فَاِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَعِيْرًا       13 ؀
وَمَنْ لَّمْ يُؤْمِنْۢ [اور جو ایمان لایا ہی نہیں ] بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ [ اللہ پر اور اس کے رسول پر ] فَاِنَّآ اَعْتَدْنَا [ تو بیشک ہم نے تیار کیا ] لِلْكٰفِرِيْنَ سَعِيْرًا [ کافروں کے لیے ایک بھڑکتی آگ ]

وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا       14؀
وَلِلّٰهِ [ اور اللہ ہی کی ہے ] مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [ زمین اور آسمانوں کی حکومت ] يَغْفِرُ [ وہ بخش دیتا ہے ] لِمَنْ يَّشَاۗءُ [ اس کو جس کو وہ چاہتا ہے ] وَيُعَذِّبُ [ اور وہ عذاب دیتا ہے ] مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ [ اس کو جس کو وہ چاہتا ہے ] وَكَانَ اللّٰهُ [ اور اللہ ہے ] غَفُوْرًا [ بےانتہا بخشنے والا ] رَّحِيْمًا [ہمیشہ رحم کرنے والا ]

سَيَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْــطَلَقْتُمْ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْهَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ ۚ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِ ۭ قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا كَذٰلِكُمْ قَالَ اللّٰهُ مِنْ قَبْلُ ۚ فَسَيَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا   ۭ بَلْ كَانُوْا لَا يَفْقَهُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا        15؀
سَيَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ [ کہیں گے پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ ] اِذَا انْــطَلَقْتُمْ [ جب تم لوگ روانہ ہوگے ] اِلٰى مَغَانِمَ [ غنیمت والے مالوں کی طرف ] لِتَاْخُذُوْهَا [ تاکہ تم لوگ حاصل کرو ان کو ] ذَرُوْنَا [ تم لوگ چھوڑو ہم کو ] نَتَّبِعْكُمْ ۚ [ تو تم تمہارے پیچھے (ساتھ ) چلیں گے ] يُرِيْدُوْنَ [ وہ لوگ چاہیں گے ] اَنْ يُّبَدِّلُوْا [ کہ وہ بدل دیں ] كَلٰمَ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے فرمان کو ] قُلْ [آپ کہہ دیجئے] لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا [ تم لوگ ہمارے پیچھے ہرگز نہیں چلو گے ] كَذٰلِكُمْ [ اس طرح ] قَالَ اللّٰهُ [ کہا اللہ نے ] مِنْ قَبْلُ ۚ [ پہلے سے ] فَسَيَقُوْلُوْنَ [ تو وہ کہیں گے] بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا ۭ [ بلکہ تم لوگ حسد کرتے ہو ہم سے ] بَلْ كَانُوْا [ بلکہ وہ (ایسے ) ہیں ] لَا يَفْقَهُوْنَ [ جو سمجھتے نہیں ہیں ] اِلَّا قَلِيْلًا [مگر تھوڑا سا ]

قُلْ لِّـلْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَـتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ۚ فَاِنْ تُطِيْعُوْا يُؤْتِكُمُ اللّٰهُ اَجْرًا حَسَـنًا ۚ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا       16؀
قُلْ [ آپ کہہ دیجئے ] لِّـلْمُخَلَّفِيْنَ [ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگوں سے ] مِنَ الْاَعْرَابِ [ بدو لوگوں میں سے ] سَـتُدْعَوْنَ [ تم لوگ بلائے جاؤگے ] اِلٰى قَوْمٍ [ ایک ایسی قوم کی طرف جو ] اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ [ سخت لڑائی والی ہے ] تُقَاتِلُوْنَهُمْ [ تم لوگ قتال کرو گے ان سے ] اَوْ يُسْلِمُوْنَ ۚ [ یا وہ تابعدار ہوں گے ] فَاِنْ تُطِيْعُوْا [ پھر اگر تم لوگ فرمانبرداری کروگے ] يُؤْتِكُمُ اللّٰهُ [ تو دے گا تمہیں اللہ ] اَجْرًا حَسَـنًا ۚ [ ایک خوبصورت اجر ] وَاِنْ تَتَوَلَّوْا [ اور اگر تم لوگ روگردانی کروگے ] كَمَا [ اس کے مانند جو ] تَوَلَّيْتُمْ [ تم نے روگردانی کی ] مِّنْ قَبْلُ [ اس سے پہلے ] يُعَذِّبْكُمْ [ تو وہ عذاب دے گا تم کو ] عَذَابًا اَلِـــيْمًا [ایک درد ناک عذاب ]



نوٹ۔ 1: ان آیات میں اس واقعہ کا ذکر ہے جو حدیبیہ سے واپسی کے بعد پیش آیا تھا رسول اللہ
نے غزوہ خیبر کا ارادہ فرمایا تو صرف ان لوگوں کو ساتھ لیا جو سفرحدیبیہ اور بیعت رضوان میں شریک تھے ۔ اس وقت دیہات کے وہ لوگ جو سفر حدیبیہ میں پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے بھی جہاد خیبر میں ساتھ چلنے کا ارادہ کیا ۔ ان کے جواب میں قرآن نے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے کلام یعنی حکم کو بدلنا چاہتے ہیں ۔ اور اس حکم سے مراد غزوہ خیبر اور اس کے مغانم کا صرف اہل حدیبیہ کے ساتھ مخصوص ہوناہے، مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں تو کہیں اس تخصیص کا ذکر نہیں ہے ۔ پھر اس وعدہ کو کلام اللہ اور قال اللہ کہنا کیسے درست ہوا ، یہ وعدہ وحی غیر متلو کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ سے فرمایا تھا ، اسی کو اس جگہ کلام اللہ اور قال اللہ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے اس سے معلوم ہوا کہ احکام قرآن کے علاوہ جو احکام احادیث میں مذکور ہیں وہ بھی اس آیت کی تصریح کے مطابق کلام اللہ اور قول اللہ میں داخل ہیں ۔ رہا یہ معاملہ کہ اس سورہ میں تفحا قریبا کے الفاظ موجود ہیں اور باتفاق مفسرین یہاں فتح قریب سے فتح خیبر مراد ہے ، تو اس طرح قرآن میں فتح خیبر کا اور اس کے غنائم کا اہل حدیبیہ کو ملنے کا وعدہ آگیا ، وہی کلام اللہ اور قال اللہ کی مراد ہوسکتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں غنیمت کا وعدہ تو ہے مگر اس کا کہیں ذکر نہیں کہ یہ غنیمت اہل حدیبیہ کے ساتھ مخصوص ہوگی اور دوسرے اس میں شریک نہ ہوسکیں گے یہ تخصیص تو بلاشبہ حدیث سے ہی معلوم ہوئی ہے اور وہی کلام اللہ اور قال اللہ کا مصداق ہے۔ بعض حضرات نے سورہ توبہ کی آیت ۔ 83 کو اس کا مصداق قرار دیا ہے ۔ وہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ یہ آیت غزوہ تبوک کے متعلق ہے جو غزوہ خیبر کے بعد 9 ھ میں ہوا ہے (معارف القرآن )

نوٹ ۔2: سفر حدیبیہ سے کچھ ہی پہلے غزوہ احزاب (جنگ خندق ) ہوچکا تھا ۔ یہ غزوہ خیبر کے یہودیوں کی تحریک پر ہوا تھا ۔ انہوں نے قریش اور عرب کے تقریبا تمام بڑے بڑے قبیلوں کو اکٹھا کرکے ان کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیا تھا ، اس لشکر کی تعداد تقریبا دس بارہ ہزار تھی اور عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے اتنا بڑا لشکر کبھی نہیں بنا تھا ، یہودیوں کے اس تاریخی کارنامے پر ان کو سزا دینا ضروری تھا ۔ صلح حدیبیہ کی بعد صورت حال یہ بن گئی تھی کہ اب اگر مسلمان یہودیوں کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کرتے ہیں تو قریش اور اس کے حلیف قبیلے یہودیوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتے تھے، لیکن اگر قریش اور یہودیوں کے درمیان حلیفانہ معاہدہ ہوجاتا تو پھر مسلمان دس سال تک یہودیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرسکتے تھے اس لیے حدیبیہ سے واپسی کے فورا بعد رسول اللہ
نے غزوہ خیبر کا فیصلہ کرلیا (حافظ احمد یار صاحب کے کیسٹ سے ماخوذ)

لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا اَلِـــيْمًا         17۝ۧ
لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى [ نہیں ہے اندھے پر ] حَرَجٌ [ کوئی گناہ ] وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ [ اور نہ لنگڑے پر ] حَرَجٌ [ کوئی گناہ ہے ] وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ ۭ [ اور نہ مریض پر کوئی گناہ ہے ] وَمَنْ يُّطِعِ [ اور جو اطاعت کرے گا ] اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ [ اللہ اور اس کے رسول کی ] يُدْخِلْهُ [ تو وہ داخل کرے گا اس کو ] جَنّٰتٍ [ ایسے باغات میں ] تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا [ بہتی ہیں جن کے نیچے سے ] الْاَنْهٰرُ ۚ [ نہریں ] وَمَنْ يَّتَوَلَّ [اور جو روگردانی کرے گا ] يُعَذِّبْهُ [ تو وہ عذاب دے گا اس کو ] عَذَابًا اَلِـــيْمًا [ ایک دردناک عذاب ]

لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا        18؀ۙ
لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ [ بیشک راضی ہوگیا اللہ ] عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ [ ان مومنوں سے ] اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ [ جب وہ بیعت کرتے تھے آپ سے] تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ اس درخت کے نیچے ] فَعَلِمَ [ تو اس نے جانا ] مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ [ اس کو جو ان کے دلوں میں تھا ] فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ [ تو اس نے اتاری سکون کیفیت ان پر ] وَاَثَابَهُمْ [ اور اس نے بدلے میں دیا ان کو ] فَتْحًا قَرِيْبًا [ ایک قریبی فتح ]

وَّمَغَانِمَ كَثِيْرَةً يَّاْخُذُوْنَهَا  ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا          19؀
وَّمَغَانِمَ كَثِيْرَةً [ اور بہت سی غنیمتیں کا] [يَّاْخُذُوْنَهَا ۭ : تم لوگ حاصل کرو گے جن کو] [وَكَانَ اللّٰهُ: اور اللہ ہے] [عَزِيْزًا حَكِيْمًا: بالادست حکمت والا]

وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِيْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَكَفَّ اَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ ۚ وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً لِّــلْمُؤْمِنِيْنَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا         20؀ۙ
[وَعَدَكُمُ اللّٰهُ: وعدہ کیا تم لوگوں سے اللہ نے] [مَغَانِمَ كَثِيْرَةً: بہت سی غنیمتوں کا] تَاْخُذُوْنَهَا [ تم لوگ حاصل کرو گے جن کو ] فَعَجَّلَ لَكُمْ [ پھر اس نے جلدی کردیا تمہارے لئے] هٰذِهٖ [ اس (غنیمت ) کو ] وَكَفَّ [ اور اس نے باندھ دیا ] اَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ ۚ [ لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے ] وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً [ اور تاکہ یہ (غنیمت ) ہوجائے ایک نشانی ] لِّــلْمُؤْمِنِيْنَ [ ان (سفر حدیبیہ والے ) مومنون کے لئے ] وَيَهْدِيَكُمْ [ اور تاکہ وہ رہنمائی کرے تمہاری ] صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا [ ایک سیدھے راستے کی ]



نوٹ۔1: آیت ۔18۔ میں اللہ تعالیٰ نے اس بیعت کے شرکاء سے اپنی رضا کا اعلان فرما دیا ہے ۔ اسی لیے اس کو بیعت رضوان کہتے ہیں، اس بیعت کے شرکاء کی مثال شرکاء غزوہ بدر کی سی ہے ۔ جیسا ان کے متعلق قرآن وحدیث میں رضائے الہی اور جنت کی بشارتیں ہیں اسی طرح بیعت رضوان کے لیے بھی یہ بشارت آئی ہے۔ شجرہ جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے ۔ ایک ببول کا درخت تھا ۔ مشہور یہ ہے کہ رسول اللہ
کی وفات کے بعد کچھ لوگ وہاں چل کرجاتے اور اس درخت کے نیچے نمازیں پڑھتے تھے۔ صحیحین میں ہے کہ حضرت طارق بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حج کے لیے گیا ، راستے میں میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جو ایک مقام پر جمع تھے اور نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون سی مسجد ہے ۔ انہوں نے کہا یہ وہ درخت ہے جس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی ، اس کے بعد میں حضرت سعید بن مسیب کے پاس حاضر ہوا اور ان کو اس واقعہ کی خبر دی ، انہوں نے فرمایا کہ میرے والد ان لوگوں میں تھے جو اس بیعت میں شریک تھے ۔ انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ جب ہم اگلے سال مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تو ہم نے وہ درخت تلاش کیا لیکن ہمیں بھول ہوگئی اور اس کا پتہ نہیں لگا ۔ پھر حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا کہ صحابہ جو خود اس بیعت میں شریک تھے ، ان کو تو پتہ نہیں لگا اور تمہیں وہ معلوم ہوگیا ۔ عجیب بات ہے ، کیا تم ان سے زیادہ واقف ہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعد میں لوگوں نے محض اپنے تخمینہ اور اندازہ سے کسی درخت کو متعین کرلیا اور اس کے نیچے حاضر ہونا اور نمازیں پڑھنا شروع کردیا ۔ حضرت عمر (رض) کو معلوم تھا کہ یہ وہ درخت نہیں ہے ۔ پھر خطرہ ابتلائے شرک کا لاحق ہوگیا ۔ اس لیے اس درخت کو کٹوا دیا ہو تو کیا بعید ہے۔

مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس آیت میں فتحا قریبا سے مراد فتح خیبر ہے ، خیبر درحقیقت ایک صوبہ کانام ہے جس میں بہت سی بستیاں اور قلعے اور باغات شامل ہیں ابن اسحاق کی روایت کے مطابق رسول اللہ
ذی الحج 6 ھ میں حدیبیہ سے واپس مدینہ تشریف لائے ، محرم 7 ھ میں آپ غزوہ خیبر کے لئے تشریف لے گئے ۔ اور ماہ صفر 7 ھ میں خیبر فتح ہوا ۔ (معارف القرآن )

نوٹ ۔ 2: آیت ۔ 20۔ میں کف ایدی الناس عنکم کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہاں الناس سے مراد قریش ہیں ۔ معاہدہ حدیبیہ میں دونوں فریق یعنی مسلمان اور قریش یہ پابندی قبول کرچکے تھے کہ دس سال تک ایک دوسرے کے خلاف کوئی جنگی اقدام نہیں کریں گے ۔ اس سے مسلمانوں کو یہ فائدہ پہنچا کہ انھیں خیبر کے یہودیوں کے خلاف اقدام کرنے کا اچھا موقع مل گیا اور یہ خیال کرکے کہ اب انکو قریش کی پشت پناہی نہیں حاصل ہوسکے گی ، یہودی بڑی جلدی حوصلہ ہار بیٹھے اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ معاہدہ حدیبیہ مسلمانوں کی شکست نہیں بلکہ ایک فتح عظیم اور آئندہ کی فتوحات کا دیباچہ ہے۔

وَّاُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَا ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا         21؀
وَّاُخْرٰى [ اور کچھ دوسری (غنیمتیں بھی ) ] لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهَا [ تم لوگوں نے قابوا نہیں پایا جن پر (ابھی ) ] قَدْ اَحَاطَ [ احاطہ کرلیا ہے ] اللّٰهُ بِهَا ۭ [ اللہ نے ان کا ] وَكَانَ اللّٰهُ [ اور اللہ ہے ] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز پر ] قَدِيْرًا [قدرت رکھنے والا ]

وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا         22؀
وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ [ اور اگر وہ لوگ جنگ کرتے تم سے جنھوں نے ] كَفَرُوْا [ کفر کیا ] لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ [ تو وہ ضرور پھیر لیتے پیٹھوں کو ] ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ [ پھر وہ لوگ نہ پاتے ] وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا [ کوئی کارساز اور نہ کوئی مدد گار ]

سُـنَّةَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ښ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا       23؀
سُـنَّةَ اللّٰهِ الَّتِيْ [ اللہ کی وہ سنت ہوتے ہوئے جو ] قَدْ خَلَتْ [ گزر چکی ہے ] مِنْ قَبْلُ ښ [ اس سے پہلے ] وَلَنْ تَجِدَ [ اور آپ ہرگز نہیں پائیں گے ] لِسُـنَّةِ اللّٰهِ [ اللہ کی سنت کے لئے ] تَبْدِيْلًا [کوئی تبدیلی کرنا ]

وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا       24؀
وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ [ اور وہ، وہ ہے جس نے روک دیا ] اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ [ ان کے ہاتھوں کو تم سے ] وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ [اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے] بِبَطْنِ مَكَّةَ [ مکہ کے نشیب میں ] مِنْۢ بَعْدِ اَنْ [ اس کے بعد کہ ] اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ [ اس نے غالب کیا تم کو ان پر ] وَكَانَ اللّٰهُ [ اور اللہ ہے] بِمَا تَعْمَلُوْنَ [ اس کو جو تم لوگ کرتے ہو ] بَصِيْرًا [ دیکھنے والا ]

هُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ ۭ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَاۗءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ اَنْ تَـــطَــــُٔوْهُمْ فَتُصِيْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ لِيُدْخِلَ اللّٰهُ فِيْ رَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا      25؀
هُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا ] وَصَدُّوْكُمْ [ اور روکا تمہیں ] عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ [ مسجد حرام سے ] وَالْهَدْيَ [ اور قربانی کے جانور کو ] مَعْكُوْفًا [ روکا ہوا ہوتے ہوئے ] اَنْ يَّبْلُغَ [ کہ وہ پہنچے ] مَحِلَّهٗ ۭ [ اپنی منزل کو ] وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ [ اگر نہ ہوتے کچھ مومن مرد ] وَنِسَاۗءٌ مُّؤْمِنٰتٌ [ اور مسلمان خواتین ] لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ [ تم لوگوں نے نہیں جانا تھا جن کو ] اَنْ تَـــطَــــُٔوْهُمْ [ کہ (کہیں ) تم روند ڈالوں ان کو ] فَتُصِيْبَكُمْ مِّنْهُمْ [ نتیجۃ آلگے تم کو ان سے ] مَّعَرَّةٌۢ [ کوئی برائی ] بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ [ بغیر جانے بوجھے ] لِيُدْخِلَ اللّٰهُ [(جنگ نہ ہونے دی ) تاکہ داخل کرے اللہ ] فِيْ رَحْمَتِهٖ [ اپنی رحمت میں ] مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ [ اس کو جس کو وہ چاہے ] لَوْ تَزَيَّلُوْا [ اگر وہ لوگ الگ الگ ہوتے ] لَعَذَّبْنَا [ تو ہم ضرور عذاب دیتے ] الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ [ ان کو جنھوں نے کفر کیا ان میں سے ] عَذَابًا اَلِـــيْمًا [ ایک درد ناک عذاب ]



نوٹ ۔1: بطن مکہ سے اشارہ حدیبیہ کی طرف ہے ۔ یہ بالکل مکہ کے دامن میں ہے اس وجہ سے اس کو بطن مکہ سے تعبیر فرمایا اور اس موقع پر جنگ کی نوبت جو نہیں آئی یہ تدبیر الہی کا کرشمہ ہے ۔ حکمت الہی کا تقاضہ یہی ہوا کہ ابھی جنگ نہ ہو اس لیے اس نے دونوں فریقوں کے ہاتھ ایک دوسرے سے روک دیے (تدبر قرآن ) اس حکمت کا بیان آیت ۔ 25۔ میں آیا ہے اور اس کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ مکہ میں اس وقت مسلمان مرد و زن ایسے موجود تھے جنھوں نے یا تو اپنا ایمان چپھا رکھا رتھا یا جن کا ایمان معلوم تھا مگر وہ اپنی بےبسی کی وجہ سے ہجرت نہ کرسکے تھے ۔ اس حالت میں اگر جنگ ہوتی تو کفار کے ساتھ یہ مسلمان بھی انجانے میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جاتے ۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ قریش کو ایک خونریز جنگ میں شکست دلوا کر مکہ فتح کرانا نہ چاہتا تھا بلکہ اس کے پیش نظر یہ تھا کہ ان کو اس طرح بےبس کردیا جائے کہ ہو کسی مزاحمت کے بغیر مغلوب ہوجائیں اور پھر پورا قبیلہ اسلام قبول کرکے اللہ کی رحمت میں داخل ہو جائے جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر ہوا ۔ (تفیہم القرآن )

اِذْ جَعَلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَكَانُوْٓا اَحَقَّ بِهَا وَاَهْلَهَا ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا       26۝ۧ
اِذْ جَعَلَ [ جب بنایا ] الَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا ] فِيْ قُلُوْبِهِمُ [ اپنے دلوں میں ] الْحَمِيَّةَ [ رعونت ] حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ [ غلط عقائد کی رعونت ] فَاَنْزَلَ اللّٰهُ [ تو اتارا اللہ نے ] سَكِيْنَتَهٗ [ اپنی سکینت ] عَلٰي رَسُوْلِهٖ [ اپنے رسول پر ] وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ [ اور مومنوں پر ] وَاَلْزَمَهُمْ [ اور اس نے چپکا دیا ان کو ] كَلِمَةَ التَّقْوٰى [ تقوی کی بات پر ] وَكَانُوْٓا اَحَقَّ بِهَا [ اور وہ لوگ زیادہ حق دار تھے اس کے ] وَاَهْلَهَا ۭ [ اور اس کی اہلیت والے تھے ] وَكَانَ اللّٰهُ [ اور اللہ ہے ] بِكُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز کا ] عَلِــيْمًا [علم رکھنے والا ]

لَـقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ ۙ لَا تَخَافُوْنَ ۭ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًا      27؀
لَـقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ [ بیشک سچ دکھایا اللہ نے ] رَسُوْلَهُ [ اپنے رسول کو ] الرُّءْيَا [ وہ خواب ] بِالْحَقِّ ۚ [ حق کے ساتھ ] لَتَدْخُلُنَّ [ تم لوگ لازما داخل ہوگے] الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ [ مسجد حرام میں ] اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ [ اگر چاہا اللہ نے ] اٰمِنِيْنَ ۙ [ امن میں ہونے والے ] مُحَلِّقِيْنَ [ مونڈنے والے ہوتے ہوئے] رُءُوْسَكُمْ [ اپنے سروں کو ] وَمُقَصِّرِيْنَ ۙ [ اور تراشنے والے ہوتے ہوئے ] لَا تَخَافُوْنَ ۭ [ تم لوگ خوف نہیں کروگے ] فَعَلِمَ [ پھر اس نے جانا ] مَا لَمْ تَعْلَمُوْا [ اس کو جو تم لوگ نہیں جانتے تھے ] فَجَــعَلَ [ تو اس نے مقرر کیا ] مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ [ اس کے علاوہ ] فَتْحًا قَرِيْبًا [ ایک قریبی فتح ]



نوٹ۔1: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہ عزم عمرہ رسول اللہ
کے خواب کی بناء پر ہوا تھا جو ایک طرح کی وحی تھی ، جب صلح حدیبیہ مکمل ہوگئی اور یہ بات طے ہوگئی کہ عمرہ ادا کیے بغیر واپس مدینہ جانا ہے تو بعض صحابہ کے دلوں میں یہ خیال آسکتا تھا کہ آپ کا خواب سچا نہیں ہوا دوسری طرف کفار ومنافقین تو مسلمانوں کو ضرور طعنہ دیتے کہ تمہارے رسول کا خواب سچا نہیں ہوا ۔ اس کے لیے آیت ۔ 27۔ نازل ہوئی (معارف القرآن سے ماخوذ) یہاں مسلمانوں سے وعدہ کرتے ہوئے کہ تم لوگ لازما مسجد حرام میں داخل ہوگے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے ساتھ خود ان شاء اللہ کے الفاظ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔ اس کا تعلق دراصل اس پس منظر سے ہے جس میں یہ وعدہ فرمایا گیا ہے ، کفار مکہ کو یہ زعم تھا کہ جس کو ہم عمرہ کرنے دینا چاہیں گے وہ عمرہ کرسکے گا ، اور جب ہم اسے کرنے دیں گے اسی وقت وہ کرسکے گا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کی مشیت پر نہیں بلکہ ہماری مشیت پر موقوف ہے ۔ اس سال عمرے کا نہ ہوسکنا اس لیے نہیں ہوا کہ کفار مکہ نے یہ چاہا تھا کہ وہ نہ ہو ۔ بلکہ یہ اس لیے ہوا کہ ہم نے اس کو نہ ہونے دینا چاہا تھا ۔ اور آئندہ اگر ہم چاہیں گے تو یہ عمرہ ہو گا خواہ کفار چاہیں یانہ چاہیں ۔ اس کے ساتھ ان الفاظ میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ مسلمان بھی یہ عمرہ اپنے زور سے نہیں کریں گے بلکہ ہماری مشیت سے کریں گے ۔ (تفہیم القرآن )

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا       28؀ۭ
هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ [ وہ، وہ ہے جس نے بھیجا ] رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى [ اپنے رسول کو اس ہدایت (قرآن ) کے ساتھ ] وَدِيْنِ الْحَقِّ [ اور الحق (اللہ تعالیٰ ) کے ضابطہ حیات کے ساتھ ] لِيُظْهِرَهٗ [ تاکہ وہ (رسول) غالب کردیں اس (دین ) کو ] عَلَي الدِّيْنِ [ نظام حیات پر ] كُلِّهٖ ۭ [ اس کے کل پر ] وَكَفٰى بِاللّٰهِ [ اور کافی ہے اللہ ] شَهِيْدًا [ بطور معائنہ کرنے والے کے ]

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ۡ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ ٻوَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۭ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا      29؀ۧ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ [ محمد اللہ کے رسول ہیں ] وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ [ اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں ] اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ [ سخت ہیں کافروں پر ] رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ [ رحیم ہیں آپس میں ] تَرٰىهُمْ [ تو دیکھے گا ان کو ] رُكَّعًا سُجَّدًا [ رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے ہوتے ہوئے ] يَّبْتَغُوْنَ [ تلاش کرتے ہوئے ] فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ [ فضل کو اللہ سے ] وَرِضْوَانًا ۡ [ اور ( اس کی ) خوشنودی کو ] سِيْمَاهُمْ [ ان کی علامت (پہچان ) فِيْ وُجُوْهِهِمْ [ ان کے چہروں میں ہے ] مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ [ سجدوں کے اثر سے ] ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ [یہ ان کی مثال ہے ] فِي التَّوْرٰىةِ ٻ[ تورات میں ] وَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ [ اور (یہی ) ان کی مثال ہے انجیل میں ] كَزَرْعٍ [ (وہ لوگ ) ایک ایسی کھیتی کی مانند ہیں جس نے ] اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ [ نکالا اپنا خوشہ ] فَاٰزَرَهٗ [ پھر اس نے مضبوط کیا اس کو ] فَاسْتَغْلَــظَ [ تو وہ موٹا ہوا ]فَاسْتَوٰى [ پھر جم گیا ] عَلٰي سُوْقِهٖ [ اپنی پنڈلی پر ] يُعْجِبُ [ وہ (کھیتی ) دلکش لگتی ہے ] الزُّرَّاعَ [ کسانوں کو ] لِيَغِيْظَ [ تاکہ وہ (اللہ ) خون کھولائے ] بِهِمُ [ ان لوگوں (والذین معہ ) سے] الْكُفَّارَ ۭ [ کافروں کا ] وَعَدَ اللّٰهُ [ وعدہ کیا اللہ نے] الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ ان لوگوں سے جو ایمان لائے ] وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ [ اور جنھوں نے عمل کیے نیکیوں کے] مِنْهُمْ [ ان میں سے] مَّغْفِرَةً [ مغفرت کا ] وَّاَجْرًا عَظِيْمًا [ اور اجر عظیم کا ]



ترکیب : (آیت ۔ 29) اس آیت میں تین احتمال ہیں ایک یہ کہ فی التورۃ پر وقف کیا جائے ۔ اس طرح مطلب ہوگا کہ اس سے پہلے کی مثالیں تورات میں بیان ہوئی ہیں ۔ اس سے آگے مثلہم فی الانجیل پر وقف نہ کریں بلکہ ملا کر پڑھیں تو معنی یہ ہوں گے کہ انجیل میں صحابہ کی مثال ایک کھیتی (کزرع ) کی مانند ہے ۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ فی التورۃ پر وقف نہ ہو بلکہ فی الانجیل پر وقف کیا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ سابقہ نشانیاں تورات اور انجیل دونوں میں ہیں اور آگے کزرع کی مثال کو ایک الگ مثال قرار دیا جائے ۔ تیسرا احتمال یہ ہے کہ دونوں میں سے کسی جگہ وقف نہ کیا جائے بلکہ ملا کر پڑھا جائے اور لفظ ذلک اگلی مثال کی طرف اشارہ ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ تورات وانجیل دونوں میں صحابہ کی مثال زرع یعنی کھیتی کی دی گئی ہے۔ اگر اس زمانے میں تورات وانجیل اپنی اصلی حالت میں ہوتیں تو ان کو دیکھ کر مراد قرآنی متعین ہوجاتی لیکن ان میں تحریفات کا سلسلہ بےحد وبے شمار رہا ہے اس لیے کوئی یقینی فیصلہ نہیں ہوسکتا مگر اکثر مفسرین نے پہلے احتمال کو ترجیح دی ہے ۔ (معارف القرآن ۔ ج 8 ، ص 93 سے ماخوذ ) ترجمہ میں ہم دوسرے احتمال کوترجیح دیں گے ۔ فازرہ میں ازر کا مادہ ’’ ء ز ر ‘‘ ہے اور یہ باب مفاعلہ کا ماضی ہے باب افعال کا نہیں ہے ۔ جن مادوں کے فاکلمہ پر ہمزہ ہوتا ہے ، باب مفاعلہ اور باب افعال میں ان کا ماضی ہم شکل ہوجاتا ہے اور ان میں تمیز کرنے کے لیے کوئی پہچان یا قرینہ نہیں ہے اس کے لیے ڈکشنر یہی دیکھنی ہوتی ہے ۔



نوٹ ۔ 2: آیت ۔ 29۔ میں والذین معہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے فضائل کا بیان ہے ۔ اگرچہ اس سے پہلے مخاطب ہو صحابہ ہیں جو حدیبیہ اور بیعت رضوان میں شریک تھے لیکن یہاں الفاظ کے عموم کی وجہ سے سبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین شامل ہیں کیونکہ آپ کی صحبت ومعیت سب کو حاصل ہے ۔ اس مقام پر حق تعالیٰ نے صحابہ کرام کے اوصاف وفضائل اور خاص علامات کا ذکر تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے ۔ اس میں یہ حکمت بھی ہو تو بعید نہیں کہ رسول اللہ
کے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونے والا نہیں تھا اس لیے قرآن نے ان کے کچھ فضائل اور علامات کا بیان فرما کر مسلمانوں کو ان کے اتباع کی ترغیب وتاکید فرما دی ہے۔

اس مقام پر صحابہ کرام کا پہلا وصف یہ بتایا گیا کہ وہ کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں مہربان ہیں، قرآن نے اس وصف کو مقدم بیان فرمایا کیونکہ درحقیقت اس کا حاصل یہ ہے کہ ان کی دوستی اور دشمنی اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے ہوتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ایمان کامل کا اعلی مقام ہے ۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی محبت اور بغض دونوں کو اللہ کی مرضی کے تابع کردے تو اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا ۔ اسی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ صحابہ کرام کے کفار کے مقابلے پر سخت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کبھی کسی کافر پر رحم نہیں کرتے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس موقع پر اللہ اور رسول کا حکم کفار پر سختی کرنے کا ہوتا ہے وہاں رشتے ناتے یا دوستی وغیرہ کوئی بھی چیز ان کو اس کام سے نہیں روکتی ۔ جہاں تک کافروں کے ساتھ رحم وکرم کے معاملہ کا تعلق ہے ، تو خود قرآن نے اس کا فیصلہ کردیا ہے کہ جو کفار مسلمانوں کے درپے آزار اور مقابلہ پر نہیں ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرنے سے اللہ منع نہیں کرتا ۔ (الممتحنۃ ۔8) ۔ چنانچہ رسول اللہ
اور صحابہ کرام کے بےشمار واقعات ہیں جن میں کفار کے ساتھ احسان وکرم کے معاملات کیے گئے ہیں اور ان کے معاملہ میں عدل وانصاف کو برقرار رکھنا تو اسلام کا عام حکم ہے۔ عین میدان کار زار میں بھی عدل وانصاف کے خلاف کوئی کاروائی جائز نہیں ہے ۔

صحابہ کرام کا دوسرا وصف یہ بیان کیا گیا کہ ان کا عام حال یہ ہے کہ وہ رکوع وسجدہ اور نماز میں مشغول رہتے ہیں ۔ پہلا وصف کمال ایمان کی علامت تھی جبکہ دوسرا وصف کمال عمل کا بیان ہے کیونکہ اعمال میں سب سے افضل نماز ہے ۔ اور نماز ان کا ایسا وظیفہ زندگی (یعنی لائف اسٹائل ) بن گیا ہے کہ نماز اور سجدہ کے مخصوص آثار ان کے چہروں سے نمایاں ہوتے ہیں ۔ ان آثار سے مراد وہ انوار ہیں جو عبدیت اور خشوع وخضوع سے ہر متقی عبادت گزار کے چہرہ پر مشاہدہ کیے جاتے ہیں ۔ خصوصا نماز تہجد کا یہ اثر بہت زیادہ واضح ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ جو شخص رات میں نماز کی کثرت کرتا ہے ، تو دن میں اس کا چہرہ حسین پر نور نظر آتا ہے۔

صحابہ کرام کا تیسرا وصف ایک تمثیل کے پیرائے میں بیان ہوا ہے کہ وہ ایسے ہیں جیسے کوئی کاشتکار زمین میں بیچ اگائے ، تو اول وہ ایک ضیعف سی سوئی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ، پھر اس میں شاخیں نکلتی ہیں ، پھر وہ اور قوی ہوتا ہے، پھر اس کا مضبوط تنا بن جاتا ہے اسی طرح ایک وقت ایسا تھا کہ رسول اللہ
کے سوا صرف تین مسلمان تھے ۔ مردوں میں صدیق اکبر ، عورتوں میں بی بی خدیجہ اور بچوں میں حضرت علی ، پھر رفتہ رفتہ ان کی قوت بڑھتی رہی ، یہاں تک کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ کے ساتھ حج میں شریک ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب بتائی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ان صفات کے ساتھ مزین فرمایا تاکہ ان کو دیکھ کر کافروں کو غیظ ہو اور وہ حسد کی آگ میں جلیں ۔ اور ان سے مغفرت اور اجر عظیم کے وعدے کا اعلان فرما دیا ۔ اسی لیے امت کا اس پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب کے سب عادل وثقہ ہیں ۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں اس کی تصریحات ہیں ، جن میں سے چند آیات تو اسی سورہ میں آچکی ہیں ، ان کے علاوہ اور بہت سی آیات میں یہ مضمون مذکور ہے۔ اس کے علاوہ احادیث بھی ہیں ۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ میرے صحابہ کو برا مت کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو وہ ان کے خرچ کیے ہوئے کے ایک مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ نصف مد کے برابر ، مد عرب کا ایک پیمانہ ہے جو تقریبا ہمارے آدھے سیر کے برابر ہوتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ اللہ سے ڈرو ۔ اللہ سے ڈرومیرے صحابہ کے معاملہ میں ۔ میرے بعد ان کو طعن وتشنیع کا نشانہ مت بنائوکیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی ۔ اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا ۔ اور جس نے ان کو ایذا پہنچائی ، اس نے مجھے پہنچائی ، اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ کو ایذاء پہنچائی اور جو اللہ کو ایذاء پہنچانے کا قصد کرے تو قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑلے گا ۔ آیات واحادیث اس کے متعلق بہت ہیں جن کو احقر نے اپنی کتاب مقام صحابہ میں جمع کردیا ہے اور یہ کتاب شائع ہوچکی ہے۔ (معارف القرآن ۔ ج 8 ص 91 تا 97 سے ماخوذ ) مورخہ 3 : صفر 1430 ھ بمطابق 30 جنوری 2009 ء

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ           ۝

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ        Ǻ۝
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ [اے لوگو! جو ] اٰمَنُوْا [ایمان لائے ] لَا تُـقَدِّمُوْا [ تم لوگ آگے مت کرو (اپنی رائے کو ) ] بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ [ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے ] وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ [ اور اللہ ( کے غضب ) سے ڈرو] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ ] سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ [ سننے والا جاننے والا ہے ]



ترکیب: (آیت ۔ 1) ۔ بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ میں یدی دراصل بین کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے حالت جر میں تثنیہ کا صیغہ یدین تھا ۔ یہ آگے لفظ اللہ کا مضاف بن رہا ہے اس لیے نون اعرابی گرا تو یدی باقی بچا ۔ آگے ملانے کے لیے ی کو کسرہ دی گئی ہے ۔ اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ تثنیہ کے صیغے کی یائے ساکن کو آگے ملانے کی کے لیے کسرہ دیتے ہیں جبکہ یائے متکلم (جو ساکن ہی ہوتی ہے ) کو آگے ملانے کے لیے فتح دیتے ہیں ۔ (دیکھیں آیت ۔ 2:40، ترکیب) یہی وجہ ہے کہ فی کتابی الذی کا مطلب ہے میری اس کتاب میں جو ، جبکہ فی کتابی الذی کا مطلب ہے ان دونوں کتابوں میں جو ۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ      Ą۝
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ [اے لوگو! جو ] اٰمَنُوْا [ایمان لائے ] لَا تَرْفَعُوْٓا [ تم لوگ بلند مت کرو] اَصْوَاتَكُمْ [ اپنی آوازوں کو ] فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ [ ان نبی کی آواز کے اوپر ] وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ [ اور اونچا مت بولو ان کے لیے بات میں ] كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ [ جیسے تمہارے کسی کا اونچا بولنا ] لِبَعْضٍ [ کسی کے لیے ] اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ [ کہیں اکارت جائیں تمہارے اعمال ] وَ [اس حال میں کہ ] اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ [ تم لوگ شعور نہ رکھتے ہو]



نوٹ۔1: آیت ۔ 2:26، نوٹ ۔ 2 میں ہم نے تفسیر حقانی سے فاسق کے تین درجے نقل کیے ہیں اس میں پہلا درجہ یہ ہے کہ آدمی نافرمانی کو برا سمجھتا ہے لیکن بشری تقاضے کے تحت کبھی نافرمانی کا ارتکاب ہوجاتا ہے ۔ اس لحاظ سے ہم نے فاسق کا ترجمہ احتیاط نہ کرنے والے اور فسوق کا ترجمہ غیر محتاط رویوں سے کیا ہے ۔

نوٹ ۔2: اس سے پہلی دوسورتوں میں جہاد کے احکام تھے جس سے اصلاح عالم و آفاق مقصود ہے ۔ اس سورت میں اصلاح نفس کے احکام مذکور ہیں ، خصوصا وہ احکام جو آداب معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (معارف القرآن ۔ خلاصہ تفسیر سے ماخوذ) یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ قرآن میں احکام وہدایات کا نزول حالات کے تقاضوں کے تحت ہوا ہے تاکہ لوگوں پر ان کی صحیح قدر وقیمت واضح ہوسکے ۔ چنانچہ یہ سورۃ بھی ایسے حالات میں نازل ہوئی ہے جب نئے نئے اسلام میں داخل ہونے والوں کی طرف سے بعض باتیں ایسی سامنے آئی جن سے ظاہر ہوا کہ یہ لوگ نہ تو رسول کے مقام ومرتبہ سے واقف ہیں اور نہ اسلامی معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ اس سورۃ میں ضروری ہدایات دے دی گئیں جو ضروری تھیں ، ان ہدایات کا تعلق تمام تر نبی
اور مسلمانوں کے باہمی حقوق سے ہے۔ کفار کا معاملہ اس میں زیر بحث نہیں آیا ۔ (تدبر قرآن )

نوٹ۔3: ان آیات میں خطاب اگرچہ عام ہے لیکن جن لوگوں کا رویہ اس سورہ میں زیر بحث آیا ہے وہ اطراف مدینہ کے بدوی قبائل ہیں جو اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت سے متاثر ہوکر مسلمانوں میں شامل ہوگئے تھے لیکن یہ لوگ اسلام کو سمجھ کر نہیں بلکہ اس سے مرعوب ہوکر اس میں داخل ہوئے اور مرکز سے بےتعلق رہنے کی وجہ سے ان کی تربیت بھی نہیں ہوئی تھی ، اس لیے ان کے اندر ایک غلط قسم کا پندار تھا کہ انھوں نے کسی جنگ کے بغیر نبی
کی اطاعت کرلی جو آپ پر ان کا ایک احسان ہے ۔ اس پندار کا اثر یہ تھا کہ ان کا سردار جب مدینہ آتے تو رسول سے اس انداز سے بات کرتے گویا وہ اسلام کے بڑے مربی ومحسن ہیں ۔ بغیر اس کے کہ کسی معاملہ میں آپ ان کی رائے دریافت کریں آگے بڑھ بڑھ کرخود ہی مشورے دینے کی کوشش کرتے ۔ ان میں ہر ایک آپ کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتا اور اس غرض کے لیے وہ اپنے حریفوں سے متعلق بعض اوقات ایسی خبریں بھی آپ کو پہنچاتے جو غلط فہمی پیدا کرنے والی ہوتیں ، یہ حالات تھے جن میں یہ سورہ نازل ہوئی ۔

واضح رہے کہ یہاں رسول
کو رائے دینے کی ممانعت نہیں ہے ۔ آپ صحابہ سے ان کی رائے معلوم بھی فرماتے اور صحابہ اپنے رائے پیش بھی کرتے تھے۔ یہاں ممانعت اس بات کی ہے کہ کوئی شخص اللہ کے رسول کو مجرد ایک لیڈر سمجھ کر اور اپنے آپ کو ان سے زیادہ مدبر خیال کرکے رسول کو اپنی رائے سے متاثر کرنے اور اپنی رائے کو رسول کی بات پر مقدم کرنے کی کوشش نہ کرے ۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو وہ رسول کے مقام ومرتبہ سے بےخبر ہے۔ اللہ کا رسول اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کی ہدایت کے تحت کرتا ہے ۔ اگر کوئی ان کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنے کی جسارت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی رائے کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر مقدم کرنا چاہتا ہے ۔ ہمارے زمانے میں یہ تنبیہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اسلام کی خدمت کے دعوے کے ساتھ اسکی اقدار کو مسخ اور اس کے قوانین میں تحریف کررہے ہیں ۔ ان کا گمان یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جس شکل میں اسلام دیا ہے اس شکل میں وہ اس دور میں نہیں چل سکتا ۔ ضروری ہے کہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اس کی اصلاح کی جائے ایک شخص بہت سے کام اپنی دانست میں دین کے کام سمجھ کر دین ہی کی خدمت کے لیے کرتا ہے لیکن اس کے اندر یہ پندار سمایا ہوا ہو کہ وہ اللہ کے دین پر کوئی احسان کر رہا ہے اور اس زعم میں وہ اللہ کے رسول کے مقام ومرتبہ کا احترام نہ کرے تو اس کے سارے اعمال اکارت ہوکے رہ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے ۔ اس کے ہاں شرف قبولیت صرف انہی لوگوں کے اعمال کو حاصل ہوگا جو اس کے دین کی خدمت صرف اس کی رضا کے لیے اور ٹھیک ٹھیک اس کی مقرر کردہ شرائط کے مطابق انجام دیں گے ، اس کے ساتھ ہی دل سے اس حقیقت کا اعترف کرتے رہیں گے کہ یہ خدمت انجام دے کر انھوں نے اللہ و رسول پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ اللہ کا احسان خود ان کے اوپر ہوا ہے کہ اس نے ان کو اپنے دین کی خدمت کی توفیق عطا کی ، (تدبر قرآن)

نوٹ۔4: آیت ۔7 سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام میں کوئی فاسق بھی ہوسکتا ہے اور یہ اس متفق علیہ ضابطہ کے خلاف ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب ثقہ ہیں اور ان کی خبر وشہادت پر کوئی گرفت نہیں کی جا سکتی ۔ علامہ آلوسی نے روح المعانی میں فرمایا کہ اس معاملہ میں حق بات وہ ہے جس کی طرف جمہور علماء گئے ہیں کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ان سے گناہ کبیرہ بھی سرزد ہو سکتا ہے جو فسق ہے اور اس گناہ کے وقت ان سے وہی معاملہ کیا جائے گا جس کے وہ مستحق ہیں یعنی شرعی سزا دی جائے گی ، اہل سنت والجماعت کا عقیدہ نصوص قرآن وسنت کی بنا پر یہ ہے کہ صحابی سے گناہ تو ہو سکتا ہے مگر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کرکے پاک نہ ہوگیا ہو ، قرآن نے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے ۔ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ (التوبہ ۔ 100) اور رضائے الہی گناہوں کی معافی کے بغیر نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کا اعلان صرف انہی کے لیے فرمایا ہے جن کے متعلق وہ جانتا ہے کہ ان کی وفات موجبات رضا پر ہوگی ۔ (معارف القرآن )

اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ        Ǽ۝
اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ [ بیشک جو لوگ نیچی رکھتے ہیں ] اَصْوَاتَهُمْ [ اپنی آوازوں کو ] عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ [ اللہ کے رسول کے پاس ] اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ [ یہ وہ لوگ ہیں ] امْتَحَنَ اللّٰهُ [ امتحان لے لیا اللہ نے ] قُلُوْبَهُمْ [ جن کے دلوں کا ] لِلتَّقْوٰى ۭ [تقوی کے لیے ] لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ [ ان کے لیے مغفرت ہے ] وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ [ اور اجر عظیم ہے ]



م ح ن : (ف) محنا ۔ آزمانا۔ (افتعال ) امتحانا ۔ اہتمام سے آزمانا ۔ امتحان لینا ،ٹیسٹ کرنا ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 3۔

امتحن ۔ فعل امر ہے ۔ تو امتحان لے ۔ تو جانچ لے ۔ آیت ۔ اِذَا جَاۗءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ [ جب آئیں تمہارے پاس مومن خواتین ہجرت کرنے والی ہوتے ہوئے تو تم لوگ جانچ لوان کو ]60:10۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ      Ć۝
اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ [ بیشک جو لوگ پکارتے ہیں آپ کو ] مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ [ کمروں کے پیچھے سے ] اَكْثَرُهُمْ [ان کے اکثر] لَا يَعْقِلُوْنَ [ عقل نہیں کرتے ]

قَالَ لَا تَخْتَصِمُوْا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ اِلَيْكُمْ بِالْوَعِيْدِ      28؀
قَالَ [ وہ (اللہ ) کہے گا ] لَا تَخْتَصِمُوْا [ تم لوگ جھگڑا مت کرو ] لَدَيَّ [ میرے پاس ] وَ [ درآں حالیکہ ] قَدْ قَدَّمْتُ اِلَيْكُمْ [ میں آگے بھیج چکا تم لوگوں کی طرف ] بِالْوَعِيْدِ [ وعدہ (عذاب ) کو ]



آیت ۔ 28۔ میں قَدْ قَدَّمْتُ اِلَيْكُمْ بِالْوَعِيْدِ کا مطلب یہ ہے کہ میں نے متنبہ کردیا تھا کہ جو بہکائے گا وہ بھی سزا پائے گا اور جو بہکے گا اسے بھی خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ میری اس تنبیہ کے باوجود جب تم دونوں اپنے اپنے حصے کا جرم کرنے سے باز نہ آئے تو اب جھگڑا کرنے سے کیا حاصل ہے۔ بہکنے والے کو بہکنے کی اور بہکانے والے کو بہکانے کی سزا تو اب لازما ملنی ہی ہے (تفہیم القرآن )

مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ       29؀ۧ
مَا يُبَدَّلُ [ تبدیل نہیں کیا جاتا ] الْقَوْلُ [ بات کو ] لَدَيَّ [میرے پاس] وَمَآ اَنَا [ اور میں نہیں ہوں ] بِظَلَّامٍ [ ذرا بھی ظلم کرنے والا ] لِّلْعَبِيْدِ [ بندوں پر ]

وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ       20؀ۙ
وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ [ اور زمین میں نشانیاں ہیں ] لِّلْمُوْقِنِيْنَ [ یقین کرنے والوں کے لیے]

وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ     21؀
وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ [ اور تمہاری جانوں میں بھی ] اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ [ تو کیا تم لوگوں کو سجھائی نہیں دیتا ]

وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ   55؀
وَّذَكِّرْ [اور آپ نصیحت کرتے رہیں ] فَاِنَّ الذِّكْرٰى [ تو بیشک نصیحت ] تَنْفَعُ [نفع دیتی ہے ] الْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں کو ]



آگے آیت ۔ 55 میں تبلیغ دین کا دوسرا قاعدہ بیان کیا گیا ہے ، دعوت حق کا اصل مقصد ان سعید روحوں تک ایمان کی نعمت پہنچانا ہے جو اس نعمت کی قدر شناس ہوں اور اسے خود حاصل کرنا چاہیں ۔ مگر داعی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ معاشرے کے ہزاروں لاکھوں افراد میں وہ سعید روحیں کہاں ہیں ۔ اس لیے اس کا کام یہ ہے کہ اپنی دعوت کا سلسلہ جاری رکھے تاکہ جہاں جہاں ایمان قبول کرنے والے افراد موجود ہوں وہاں اس کی آواز پہنچ جائے انہی کی تلاش اس کا اصل کام ہے اس تلاش میں معاشرے کا فضول عنصر بھی اس کو ملے گا ، اس کی طرف بس اسی وقت تک داعی کو توجہ کرنی چاہیے جب تک اسے یہ نہ معلوم ہوجائے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے ۔ یعنی ان کے اندر حق کی تلاش کا جذبہ مفقود ہے، پھر داعی کو اپنا وقت اس جنس کے لوگوں پر ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ اس کی تذکیر سے نفع اٹھانے والے لوگ نہیں ہیں ، ایسے لوگوں پر وقت صرف کرنے سے نقصان ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اس سے نفع اٹھانے والے ہیں ۔ (تفہیم القرآن )

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ  56؀
وَمَا خَلَقْتُ [ اور میں نے نہیں پیدا کیا ] الْجِنَّ وَالْاِنْسَ [ جنوں کو اور انسانوں کو ] اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ [ سوائے اس کے کہ وہ بندگی کریں میری ]



نوٹ۔ 4: آیت ۔56۔ کی مراد یہ ہے کہ ہم نے ان کی تخلیق اس انداز پر کی ہے کہ ان میں عبادت کرنے کی استعداد اور صلاحیت ہو ۔ چنانچہ ہرجن وانس کی فطرت میں یہ استعداد قدرتی طور پر موجود ہے ۔ پھر کوئی اس استعداد کو صحیح مصرف میں خرچ کرکے کامیاب ہوتا ہے اور کوئی اس استعداد کو اپنی خواہشات میں ضائع کردیتا ہے ۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ
نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بنادیتے ہیں یا مجوسی ۔ (معارف القرآن )

اس آیت میں عبادت کا لفظ محض نماز روزے اور اس نوعیت کی دوسری عبادات کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کا مطلب یہ لے لیے کہ جن اور انسان صرف نماز پڑھنے ، روزے رکھنے اور تسبیح وتہلیل کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ اگرچہ یہ مفہوم بھی اس میں شامل ہے مگر یہ اس کا پورا مفہوم نہیں ہے۔ اس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ جن اور انسان اللہ کے سوا کسی اور کی پرستش اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں ۔ ان کا کام کسی اور کے بنائے ہوئے دین (نظام حیات ) کی پیروی کرنا ، کسی اور کو اپنی قسمتوں کو بگاڑنے اور بنانے والا سمجھنا اور کسی دوسری ہستی کے آگے دعا کے لیے یہ ہاتھ پھیلانا نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن )

ایک اطاعت وہ بھی ہے جو بدرجہ مجبوری اور بےدلی سے کی جاتی ہے ۔ یہ غلامی ہے، بندگی نہیں ہے ، جب کسی ہستی کے احسانات اور اس کی جودوسخا کے احساس سے انسان کے اندر سے ایک جذبہ شکر پھوٹ بہتا ہے ، پھر انسان اس جذبہ میں ڈوب کر اور ہر طرف سے ٹوٹ کر اس ہستی سے محبت کرتا ہے اور اسی جذبے سے پوری دلی آمادگی کے ساتھ دل وجان سے اس کی اطاعت کرتا ہے تو یہ بندگی ہے، یہ عبادت ہے ، عبادت کی یہ استعداد انسان کی فطرت میں
lnbuilt ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فطری بیٹری کو چارج کیا جائے اور پھر چارج رکھا جائے ۔ جس طرح سیل فون کو ہم وفقہ وقفہ سے چارجر پرلگاتے رہتے ہیں ۔ نماز ، روزہ ، تسبیح وتہلیل وغیرہ اس بیٹری کے چار جر ہیں ۔

فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَوَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ 27؀
فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا [ تو احسان کیا اللہ نے ہم پر ] وَوَقٰىنَا [ اور اس نے بچایا ہم کو ] عَذَابَ السَّمُوْمِ [ جھلس دینے والی لو کے عذاب سے]

اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْهُ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيْمُ   28؀ۧ
اِنَّا [ بیشک ہم ] كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْهُ ۭ [ اس سے پہلے ہم پکارا کرتے تھے اس کو ] اِنَّهٗ [ یقینا وہ ( ہے کہ ) ] هُوَ الْبَرُّ [ وہی احسان کرنے والا ہے ] الرَّحِيْمُ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ]



 (آیت ۔28) ’’ ب ر ر ‘ ‘ کی لغت آیت نمبر ۔2:44۔ میں گزر چکی ہے ۔ وہاں بتایا ہے کہ بر اسم الفاعل ہے اب نوٹ کرلیں کہ یہ دراصل بارر ہے عربی کے کچھ الفاظ میں فاعل کے وزن کا الف گرا دیتے ہیں ۔ اس میں بھی بار کا الف گرا ہوا ہے اس لیے یہ برر ہوا ۔ پھر ادغام کرکے بر ہوگیا ۔ جیسے رب مصدر بھی ہے اور اسم الفاعل بھی ۔ جس میں یہ اصلا راب ب ہے ۔ اس کا الف گرا تو یہ رب استعمال ہوتا ہے ۔

اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ   57؀ۚ
اَزِفَتِ [ قریب ہوئی ] الْاٰزِفَةُ [ قریب ہونے والی (قیامت ) ]

فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيْكٍ مُّقْتَدِرٍ 55۝ۧ
فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ [ سچائی کی بیٹھنے کی جگہ میں] عِنْدَ مَلِيْكٍ [ ایک ایسے دائمی بادشاہ کے پاس جو ] مُّقْتَدِرٍ [ پوری قدرت رکھنے والا ہے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ   19۝ۙ
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ [ اس نے رواں کیے دو سمندر ] يَلْتَقِيٰنِ [ وہ دونوں ملتے ہیں ]

بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ   20۝ۚ
بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ [ ان دونوں کے درمیان ایک پردہ (ہوتا ) ہے ] لَّا يَبْغِيٰنِ [(تو) وہ دونوں چڑھائی نہیں کرتے (ایک دوسرے پر )

وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ       Ĉ۝
وَلَوْ اَنَّهُمْ [ اور اگر یہ کہ وہ لوگ ] صَبَرُوْا حَتّٰى [ صبر کرتے یہاں تک کہ ] تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ [ آپ نکلتے ان کی طرف ] لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۭ [ تو یقینا بہتر ہوتا ان کے لیے ] وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ [ اور اللہ بےانتہا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ         Č۝
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ [اے لوگو! جو ] اٰمَنُوْٓا [ایمان لائے ] اِنْ جَاۗءَكُمْ [ اگر آئے تمہارے پاس ] فَاسِقٌۢ [ کوئی احتیاط نہ کرنے والا ] بِنَبَاٍ [کسی خبر کے ساتھ] فَتَبَيَّنُوْٓا [ تو تحقیق کرلو ] اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا [ کہیں تم لوگ جالگو کسی قوم کو ] بِجَــهَالَةٍ [ غلط خیالات کے سبب سے ] فَتُصْبِحُوْا [ نتیجۃ تم لوگ ہوجاؤ] عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ [ اس پر جو تم لوگوں نے کیا ] نٰدِمِيْنَ [پشیمان ہونے والے ]

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِيْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۭ لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ ۭاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ        Ċ۝ۙ
وَاعْلَمُوْٓا [ تم لوگ جان لو] اَنَّ فِيْكُمْ [ کہ تم لوگوں (کے درمیان ) میں ] رَسُوْلَ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے رسول ہیں ] لَوْ يُطِيْعُكُمْ [ اگر وہ کہا مانیں تمہارا ] فِيْ كَثِيْرٍ [اکثر میں ] مِّنَ الْاَمْرِ [ معاملات میں سے] لَعَنِتُّمْ [ تو ضرور تم لوگ مشکل میں پڑوگے] وَلٰكِنَّ اللّٰهَ [ اور لیکن اللہ نے ] حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ [ پیارا بنایا تمہارے لیے ایمان کو ] وَزَيَّنَهٗ [ اور اس نے سجادیا اس کو ] فِيْ قُلُوْبِكُمْ [تمہارے دلوں میں ] وَكَرَّهَ اِلَيْكُمُ [ اور اس نے ناگوار کردیا تمہارے لیے ] الْكُفْرَ [کفر کو ] وَالْفُسُوْقَ [ اور غیر محتاط رویوں کو ] وَالْعِصْيَانَ ۭ[ اور نافرمانی کو ] اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ [ یہ لوگ ہی نیک راہ پر چلنے والے ہیں ]

فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَنِعْمَةً ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ      Ď۝
فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ [ فضل ہوتے ہوئے اللہ (کی طرف) سے ] وَنِعْمَةً ۭ [اور نعمت ہوتے ہوئے ] وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ [ اور اللہ جاننے والا حکمت والا ]

وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ      ۝
وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ [ اور اگر کوئی دو جماعت ] مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ مومنوں میں سے ] اقْتَتَلُوْا [ آپس میں لڑ پڑیں ] فَاَصْلِحُوْا [ تو تم لوگ صلح کراؤ] بَيْنَهُمَا ۚ [ ان دونوں کے درمیان ] فَاِنْۢ بَغَتْ [ پھر اگر سرکشی کرے ] اِحْدٰىهُمَا [ ان دونوں کی کوئی ایک ] عَلَي الْاُخْرٰى [ دوسری پر ] فَقَاتِلُوا [تو تم جنگ کرو] الَّتِيْ [ اس سے جس نے ] تَبْغِيْ [ سرکشی کی ] حَتّٰى تَفِيْۗءَ [ یہاں تک کہ وہ پلٹ آئے ] اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ [ اللہ کے حکم کی طرف ] فَاِنْ فَاۗءَتْ [ پھر اگر وہ پلٹ آئے] فَاَصْلِحُوْا [تو (پھر ) صلح کراؤ] بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ [ ان دونوں کے درمیان برابری سے ] وَاَقْسِطُوْا ۭ [ اور حق کی مطابق کرو] اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ [ بیشک اللہ پسند کرتا ہے ] الْمُقْسِطِيْنَ [ حق کے مطابق کرنے والوں کو ]

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ       10۝ۧ
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ سارے ایمان لانے والے ] اِخْوَةٌ [بھائی ہیں ] فَاَصْلِحُوْا [ توصلح کراؤ]بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ۚ [ اپنے دونوں بھائی کے درمیان ] وَاتَّقُوا اللّٰهَ [ اور تقوی اختیار کرو اللہ کا ] لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ [ شاید تم لوگوں پر رحم کیا جائے]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ        11؀
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ [اے لوگو! جو ] اٰمَنُوْا [ایمان لائے ] لَا يَسْخَرْ [ مذاق نہ کرے ] قَوْمٌ [ کوئی گروہ ] مِّنْ قَوْمٍ [ کسی (دوسرے ) گروہ سے] عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا [ ہوسکتا ہے کہ وہ ہوں ] خَيْرًا [ بہتر] مِّنْهُمْ [ ان سے ] وَلَا نِسَاۗءٌ [ اور نہ ہی (مذاق کریں ) عورتیں ] مِّنْ نِّسَاۗءٍ [ (دوسری ) عورتوں سے ] عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ [ ہوسکتا ہے کہ وہ ہوں ] خَيْرًا [ بہتر] مِّنْهُنَّ ۚ [ ان سے] وَلَا تَلْمِزُوْٓا [اور تم لوگ نکتہ مت کرو ] اَنْفُسَكُمْ [ اپنوں کی ] وَلَا تَنَابَزُوْا [ اور شرمندہ مت کرو (اپنوں کو ) ] بِالْاَلْقَابِ ۭ [ دوسرے ناموں (لقب ) سے] بِئْسَ الِاسْمُ [ کتنا برا ہے نام ] الْفُسُوْقُ [ فسوق کا ] بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ [ ایمان کے بعد] وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ [اور جس نے توبہ کی ہی نہیں ] فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ [ تو وہ لوگ ہی ظلم کرنے والے ہیں ]



ن ب ز : (ض) نبزا کسی کو شرمندہ کرنا ۔ برا لقب دینا ۔ (تفاعل) تنابزا ایک دوسرے کو شرمندہ کرنا ۔ لقب دینا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 11۔

ل ق ب : ( س) لقبا ۔ اصلی نام کے علاوہ دوسرا نام رکھنا ۔ لقب رکھنا ۔ لقب ۔ ج: القاب ۔ اسم ذات بھی ہے ۔ اصلی نام کے علاوہ دوسرا نام ۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا  ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ         12؀
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ [اے لوگو! جو ] اٰمَنُوا [ایمان لائے ] اجْتَنِبُوْا [تم لوگ بچو] كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ [ بہت زیادہ گمان کرنے سے] اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ [ بیشک گمان کے بعض ] اِثْمٌ [ گناہ ہیں ] وَّلَا تَجَسَّسُوْا [ اور تجسس مت کرو] وَلَا يَغْتَبْ [ اور غیبت نہ کرے] بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۭ [ تم میں کا کوئی کسی کی ] اَيُحِبُّ [ کیا پسند کرتا ہے] اَحَدُكُمْ [ تمہارا کوئی ایک ] اَنْ يَّاْكُلَ [ کہ وہ کھائے] لَحْمَ اَخِيْهِ [ اپنے بھائی کا گوشت ] مَيْتًا [ اس حال میں کہ (وہ بھائی ) مردہ ہو] فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ [ تو تم نے کراہیت کی اس سے ] وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ [ اور تقوی اختیار کرو اللہ کا ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] تَوَّابٌ [ بار بار توبہ قبول کرنے والا ] رَّحِيْمٌ [ رحم کرنے والا ہے ]



ج س س : (ن) جسا ۔ نبض کو چھو کرصحت کی کیفیت معلوم کرنا ۔ کسی چیز کو ٹٹول کے اس کی کیفیت معلوم کرنا ۔ (تفعل ) تجسسا بتکلف کسی اندرونی حالات معلوم کرنے کی ٹوہ میں لگنا ۔ تجسس کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 12۔



نوٹ۔1: مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں اور جس پر زیادتی کی جارہی ہو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں یا الٹا زیادتی کرنے والے کا ساتھ دیں ۔ بلکہ ان کا فرض یہ ہے کہ اگر لڑنے والے فریقین میں صلح کرانے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوجائیں تو پھر یہ دیکھیں کہ حق پر کون ہے۔ جو حق پر ہو اس کا ساتھ دیں اور زیادتی کرنے والے سے لڑیں ۔ اس لڑائی کا چونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس لیے یہ جہاد کے حکم میں ہے اس کا شمار اس فتنے میں نہیں ہے جس کے متعلق نبی کریم
نے فرمایا ہیکہ اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہے اور بیٹھ جانے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے ۔ کیونکہ اس فتنے سے مراد مسلمانوں کی وہ باہمی لڑائی ہے جس میں فریقین طلب دنیا کے لیے لڑ رہے ہوں اور دونوں میں سے کوئی بھی حق پر نہ ہو۔ یہ لڑائی جو زیادتی کرنے والے مقابلے میں برسرحق گروہ کی حمایت کے لیے لڑی جائے وہ فتنہ میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے تمام فقہاء کا اس کے وجوب پر اتفاق ہے۔ (تفہیم القرآن )

تفی ء الی امر اللہ، سے مراد اس فیصلے کے آگے جھکنا ہے جو مصالحت کرانے والوں نے فریقین کے سامنے رکھا ہے ۔ اگر کوئی فریق اس مصالحت سے گریز اختیار کررہا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے جھکنے سے گریز اختیار کررہا ہے اس لیے کہ اس صورتحال سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی بات کا حکم دیا ہے ۔ اور جب اللہ نے اس کا حکم دیا ہے تو اس کی حیثیت امر اللہ کی ہے ۔ اب اس زمانے میں یہ پیچیدہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ بہت سی چھوٹی بڑی مسلمان حکومتیں الگ الگ قائم ہو گئی ہیں ۔ ان کے درمیان اگر جنگ چھڑ جائے تو دوسری مسلمان حکومتوں کے لیے اس سے بالکل الگ تھلگ رہنا تو جائز نہیں ہے مصالحت کی کوشش ہر ایک کو کرنی ہوگی ۔ البتہ مداخلت کا معاملہ صورت حال پر منحصر ہے جس کا تعلق وقت کے سیاسی تقاضوں سے ہے اگر مداخلت سے مزید بین الملی یا بین الاقوامی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو عملی مداخلت سے تو گزیز اختیار کیا جائے گا لیکن مصالحت کی جدوجہد سے گریز کسی صورت میں جائز نہیں ہے ۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: شیطان نے بنی آدم کو گمراہ کرنے کے لیے جو فتنے ایجاد کیے ہیں ان میں ایک بہت بڑا فتنہ خاندان ، برادری اور کنبہ قبیلہ کے شرف وامتیاز کا فتنہ ہے اور بہت کم ایسے خوش نصیب نکلتے ہیں جو خود کو اس فتنہ سے محفوظ رکھ سکیں ۔ جو لوگ اس فتنہ میں مبتلا ہوتے ہیں وہ دوسروں کو اپنے مقابلہ میں حقیر خیال کرتے ہیں جس کا اظہار ان کے قول ، فعل اور رویہ سے ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ یہ چیزیں پختہ ہوکر ان کے ہاں روایت کی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں بلکہ جہاں بس چلتا ہے وہاں وہ ان کو مذہب کادرجہ بھی دے دیتے ہیں ، چنانچہ ہندوؤں میں برہمنوں نے، یہود میں بنی لاوی نے اور عربوں میں قریش نے اسی تقدس کا ایک ایسا مقام اپنے لیے پیدا کرلیا جس کو چیلنچ کرنا دوسروں کے لیے ممکن نہیں رہ گیا یہی حال ہر قوم کا ہوا ہے اور مساوات انسانی کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود آج بھی یہی حال ہے ۔ یہاں تک کہ مسلمان جو اس فتنہ کی بیخ کنی کے لیے برپا کیے گئے تھے وہ بھی آج نہ جانے کتنی برادریوں ، قبیلوں اور قوموں میں تقسیم ہیں اور ہر ایک ہمچومن دیگرے نیست کے نشہ سے سرشار ہے ، جس کا اظہار ہر قوم وقبیلہ کے عوام وخواص کے بیانات اور نعروں سے ہوتا ہے جس سے فطری طور پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت وکدورت پیدا ہوتی ہے جو عداوت اور بغض کی شکل اختیار کرکے بالآ خون خرابے تک پہنچ جاتی ہے ، یہاں قرآن نے مسلمانوں کو اسی آفت سے محفوظ رہنے کی ہدایت کی ہے کہ ہم کو اللہ نے تاریکی سے نکال کر ایمان کی روشنی بخشی ہے ۔ تمہارا معاشرہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ کی اساس پر قائم ہے ۔ تم آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحماء بینہم بنائے گئے ہو تو اپنے دوسرے بھائیوں کو اپنے طنز اور حقارت آمیز الفاظ کا ہدف بنا کر اس معاشرہ کا حلیہ مسخ مت کرو۔ (تدبر قرآن)

نوٹ ۔3: غیبت کی تعریف یہ ہے کہ آدمی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جو اگر اسے معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے ، یہ تعریف خود رسول اللہ
سے منقول ہے۔ آپ کی دوسری نظیروں سے استفادہ کرکے فقہاء نے غیبت کی مندرجہ ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں ۔

(1) ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو رفع کرنے کے لیے کچھ کرسکتا ہے ۔ (2) اصلاح کی نیت سے کسی کی برائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ امید ہوکہ وہ اصلاح کرنے کے لیے کچھ کرسکیں گے ۔ (3) فتوی مانگنے کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورت واقعہ بیان کرنا جس میں کسی کے کسی غلط فعل کا ذکر آجائے ۔ (4) کسی کو کسی کے شر سے خبردار کرنا تاکہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکے۔ مثلا کوئی شخص کہیں شادی کا رشتہ کرنا چاہتا ہو یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب وصواب اسے بتادیں تاکہ ناواقفیت میں وہ دھوکا نہ کھائے ۔ (5) جو لوگ کسی برے لقب سے اس قدر مشہور ہوچکے ہوں کہ وہ اس لقب کے علاوہ کسی اور لقب سے پہچانے نہ جا سکیں ، ان کے لیے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف (پہچان کرانا) نہ کہ بغرض تنقیص ۔

مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ پیٹھ پیچھے کسی کی بدگوئی کرنا مطلقا حرام ہے۔ یہ بدگوئی اگر سچی ہو تو غیبت ہے، جھوٹی ہو تو بہتان ہے اور دو آدمیوں کو لڑانے کے لیے ہو تو چغلی ہے۔ شریعت ان تینوں چیزوں کو حرام کرتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی شخص پر جھوٹی تہمت لگائی جارہی ہو تو وہ اس کو خاموشی سے نہ سنے بلکہ اس کی تردید کرے اور اگر کسی جائز شرعی ضرورت کے بغیر کسی کی سچی برائی بیان کی جارہی ہے تو اس گناہ کا ارتکاب کرنے والے کو اللہ سے ڈرانے اور اس سے باز رہنے کی تلقین کرے ۔ نبی کریم
کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی تذلیل کی جارہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جارہا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں وہ اللہ کی مدد کا خواہاں ہو، اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی عزت پر حملہ کیا جارہا ہو اور اس کی تذلیل وتوہین کی جارہی ہو تو اللہ عزوجل اس کی مدد ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی مدد کرے ۔

رہا غیبت کرنے والا ، تو جس وقت بھی اسے احساس ہوجائے کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کررہا ہے یا کرچکا ہے، تو اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ سے توبہ کرے اور اس حرام فعل سے رک جائے ۔ اس کے بعد دوسرا فرض اس پر یہ ہے کہ حتی الامکان اس کی تلافی کرے ۔ اگر اس نے کسی مرے ہوئے آدمی کی غیبت کی ہو تو اس کے حق میں کثرت سے دعائے مغرفت کرے ۔ اگر کسی زندہ آدمی کی غیبت کی ہو اور وہ خلاف واقعہ بھی ہو تو ان لوگوں کے سامنے اس کی تردید کرے جن کے سامنے وہ یہ بہتان تراشی کرچکا ہے اور اگر سچی غیبت کی ہو تو آئندہ پھر کبھی اس کی برائی نہ کرے اور اس شخص سے معافی مانگے جس کی اس نے برائی کی تھی ، علماء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ معافی صرف اس صورت میں مانگنی چاہئے جبکہ اس شخص کو اس کا علم ہو چکا ہو ۔ ورنہ صرف توبہ پر اکتفا کرنا چاہئے ۔ (تفہیم القرآن ۔ ج 5 ۔ ص 90 تا 94 سے ماخوذ)

حضرت میمون نے فرمایا کہ میں نے ایک روز خواب میں دیکھا کہ ایک زنگی کر مردہ جسم ہے اور کوئی کہنے والا مجھے مخاطب کرکے یہ کہہ رہا ہے کہ اس کو کھاؤ میں نے کہا کہ اللہ کے بندے میں اس کو کیوں کھاؤں ۔ تو اس نے کہا اس لیے کہ تو نے فلاں شخص کے زنگی غلام کی غیبت کی ہے ۔ میں نے کہا کہ خدا کی قسم میں نے تو اس کے متعلق کوئی اچھی یا بری بات کی ہی نہیں۔ تو اس نے کہا کہ ہاں ، لیکن تو نے اس کی غیبت سنی تو ہے ۔ اس خواب کے بعد حضرت میمون کا حال یہ ہوگیا کہ نہ خود کبھی کسی کی غیبت کرتے اور نہ کسی کو اپنی مجلس میں کسی کی غیبت کرنے دیتے ۔ (معارف القرآن )

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا  ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ         13؀
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ [ اے لوگو] اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ [ بیشک ہم نے پیدا کیا تم لوگوں کو ] مِّنْ ذَكَرٍ [ ایک مرد سے ] وَّاُنْثٰى [اور ایک عورت سے] وَجَعَلْنٰكُمْ [ اور ہم نے بنایا تم لوگوں کو ] شُعُوْبًا [ قومیں ] وَّقَبَاۗىِٕلَ [ اور قبیلے] لِتَعَارَفُوْا ۭ [ تاکہ تم لوگ ایک دوسرے کو پہچانو] اِنَّ اَكْرَمَكُمْ [ بیشک تم لوگو کا زیادہ باعزت ] عِنْدَ اللّٰهِ [ اللہ کے نزدیک ] اَتْقٰىكُمْ ۭ [ تم لوگوں کا زیادہ پرہیزگار ہے] اِنَّ اللّٰهَ [ یقینا اللہ ] عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ [ جاننے والا ہے باخبر ہے ]



ترکیب: (آیت ۔ 13) لتعارفوا میں تعارفوا باب تفاعل سے ماضی کا صیغہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ماضی پر لام کی نہیں آتا ۔ اس لیے یہ اصلا مضارع میں تتعارفون ہے جس کی ایک تا گرا دینا جائز ہے۔ جس کی وجہ سے یہ تعارفون ہوا ۔ پھر لام کی داخل ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گر گیا تو تعارفوا ہوگیا ۔



نوٹ ۔ 1: پچھلی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کرکے وہ ہدایات دی گئی تھیں جو مسلم معاشرے کو خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں ۔ اب آیت ۔ 13۔ میں پوری نوع انسانی کو خطاب کرکے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کا موجب بنی ہے یعنی رنگ ، نسل ، زبان ، وطن اور قومیت کا تعصب ۔ قدیم زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کرکے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے ۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھینچے گئے ہیں ۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی کہ اپنوں کے ساتھ زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو بلکہ اس تمیز نے نفرت وعداوت ، تحقیر وتذلیل اور ظلم وستم کی بدترین شکلیں اختیار کی ہیں ۔ افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے گئے ان کو آج بیسویں صدی میں بھی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ یورپ کے لوگوں نے امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین لوگوں کی جس طرح نسل کشی کی اور ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں کے ساتھ جو برتاؤ کیا اس کی تہہ میں یہی تصور کارفرما ہے کہ اپنے وطن اور اپنی قوم سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان ومال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انھیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لوٹیں ، غلام بنائیں اور ضرورت پڑے تو صفحہ ہستی سے مٹا دیں ۔ مغربی اقوام کی قوم پرستی اور نسلی برتری کے تصور نے پچھلی جنگ عظیم میں جو کرشمے دکھائے ہیں انھیں نگاہ میں رکھا جائے تو بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم اور تباہ کن گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں ۔

ایک یہ کہ ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے ۔ اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ درحقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جوایک ماں اور ایک باپ سے شروع ہوئی تھی۔ اس سلسلہ تخلیق میں کسی جگہ بھی اس تفرقے اور اونچ نیچ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جس کے زعم باطل میں تم مبتلا ہو ۔ دوسرے یہ کہ اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قبیلوں اور قوموں میں تقسیم ہوجانا ایک فطری امر تھا نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ بےشمار خاندان بنیں اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آئیں اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ ، خدوخال ، زبانیں اور طرز بود وباش بھی لامحالہ مختلف ہو جانے تھے ۔ مگر اس فطری فرق واختلاف کا تقاضہ یہ ہرگزنہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ نیچ اور برتر وکمتر کے امتیاز قائم کیے جائیں ۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی ہے ۔ اسی طریقے سے وہ زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مددگار بن سکتے ہیں ۔ یہ محض شیطانی جہالت ہے جس نے اس باہمی تعارف وتعاون کے ذریعے کو باہمی تفاخر اور تنافر کا ذریعہ بنا دیا اور پھر نوبت ظلم وعدوان تک پہنچا دی ۔ تیسرے یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی کوئی بنیاد اگر ہے اور ہوسکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے، ایک شخص برائیوں سے بچنے والا اور نیکی وپاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہے ، وہ اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے خواہ وہ کسی نسل ، کسی قوم یا کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو ۔ اور جس کا حال اس کے برعکس ہو وہ بہر حال ایک کمتر درجے کا انسان ہے چاہے وہ کالا ہو یا گورا مشرق میں پیدا ہو اہو یا مغرب میں ۔

یہی حقائق جو قرآں کی ایک مختصر سی آیت میں بیان کیے گئے ہیں ۔ رسول اللہ
نے ان کو اپنے مختلف ارشادات میں زیادہ کھول کربیان فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ لوگوں تمام انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوئے ہیں ۔ ایک نیک اور پرہیزگار جو اللہ کی نگا ہ میں عزت والا ہے ۔ دوسرا فاجر اور شقی ، جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ایک تقریر میں آپ نے فرمایا کہ لوگو خبردار رہو تم سب کا خدا ایک ہے ۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقوی کے اعتبار سے ۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گا رہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ کا ارشاد ہے کہ لوگ اپنے آباؤ واجداد پر فخر کرنا چھوڑ دیں ورنہ وہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ حقیر ہوں گے ۔

یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں رہی ہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملا قائم کرکے دکھا دی ۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی شکل دی گئی اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام میں نہیں پائی جاتی ، نہ کبھی پائی گئی ہے ، صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بےشمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنادیا ہے۔ (تفہیم القرآن ۔ ج 5۔ ص 95 تا 99 سے ماخوذ )

قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا  ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰكِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ وَاِنْ تُطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَا يَـلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَـيْـــــًٔا ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ         14؀
قَالَتِ الْاَعْرَابُ [ کہا بدو لوگوں نے ] اٰمَنَّا ۭ [ ہم ایمان لائے ] قُلْ [ آپ کہہ دیجئے] لَّمْ تُؤْمِنُوْا [ تم لوگ ایمان نہیں لائے] وَلٰكِنْ قُوْلُوْٓا [ اور لیکن (بلکہ ) تم لوگ (یوں ) کہو] اَسْلَمْنَا [ ہم فرمانبردار ہوئے ] وَلَمَّا يَدْخُلِ [ اور ابھی تک داخل نہیں ہوا] الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ [ ایمان تمہارے دلوں میں ] وَاِنْ تُطِيْعُوا [ اور اگر تم لوگ اطاعت کروگے ] اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ [ اللہ اور اس کے رسول کی ] لَا يَـلِتْكُمْ [ تو وہ کم نہیں کرے گا تمہارے لیے ] مِّنْ اَعْمَالِكُمْ [ تمہارے اعمال میں سے] شَـيْـــــًٔا ۭ [ کچھ بھی ] اِنَّ اللّٰهَ [بیشک اللہ ] غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ [ بےانتہا بخشنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ]



ل ی ت : (ض) لیتا ۔ کسی سے کسی چیز کو پھیر دینا ۔ روک لینا ، حق سے کم دینا ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 14۔ لیت ۔ یہ حرف تمنی ہے۔ گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لیے آتا ہے ۔ يٰلَيْتَــنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا [ اے کاش میں ہوتا ایک مٹی ] ۔ 78:40۔



 (آیت ۔ 14) لما یہاں پر جازم مضارع کے طور پرآیا ہے اس لیے یہ لما یدخل ہے جسے آگے ملانے کے لیے لام کو کسرہ دی گئی ہے ۔ یہ لم یدخل سے مختلف ہے ۔ لم یدخل کا مطلب ہے داخل ہوا ہی نہیں ۔ جبکہ لما یدخل کے معنی ہیں ابھی تک داخل نہیں ہوا ۔ لایلتکم بھی دراصل مضارع لا یلیتکم ہے ۔ جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا تو یا گر گئی اور لایلت استعمال ہوا ۔



نوٹ ۔ 2 : آیت ۔ 14 ۔ میں اسلام کے لغوی معنی مراد ہیں، اصلاحی معنی مراد نہیں ہیں ۔ اصطلاحی ایمان اور اصطلاحی اسلام اگر چہ معنی ومفہوم کے اعتبار سے الگ الگ ہیں ، کہ ایمان اصطلاح شرع میں تصدیق قلبی کا نام ہے اور اسلام نام ہے اعمال ظاہر ہ میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا لیکن شریعت میں تصدیق قلبی اس وقت تک قابل اعتبار نہیں جب تک اس کا اثر اعمال وافعال تک نہ پہنچ جائے ۔ اسی طرح اسلام اگرچہ اعمال ظاہرہ کا نام ہے لیکن شریعت میں اس وقت معتبر نہیں جب تک کہ دل میں تصدیق نہ آجائے ورنہ وہ نفاق ہے ۔ اس لحاظ سے اسلام اور ایمان مبدا (ابتدا ہونے کی جگہ ) اور منتہی (انتہا تک پہنچنے کی جگہ ) کے اعتبار سے تو الگ الگ ہیں کہ ایمان باطن اور قلب سے شروع ہو کر ظاہرا اعمال تک پہنچتا ہے اور اسلام افعال ظاہرہ سے شروع ہو کر باطن کی تصدیق تک پہنچتا ہے مگر مصداق کے اعتبار سے یہ دونوں لازم وملزوم ہیں کہ ایمان اسلام کے بغیر اور اسلام ایمان کے بغیر معتبر نہیں ۔ شریعت میں یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص مسلم تو ہو مومن نہ ہو یا مومن ہو مسلم نہ ہو ۔ مگر یہ کلام اصطلاحی ایمان واسلام میں ہے۔ لغوی معنی کے اعتبار سے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مسلم ہو مومن نہ ہو جیسا کہ تمام منافقین کا یہی حال تھا ۔ (معارف القرآن )

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ         15؀
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ [ کچھ نہیں سوائے اس کے وہ ایمان لانے والے جو ] اٰمَنُوْا [ایمان لائے ] بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ [ اللہ اور اس کے رسول پر ] ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا [ پھر وہ شبہہ میں پڑے ہی نہیں ] وَجٰهَدُوْا [اور انہوں نے جدوجہد کی ] بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ [ اپنے مالوں اور اپنی جانوں (وقت اور صلاحیت ) سے ] فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کی راہ میں] اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ [یہ لوگ ہی سچ کہنے والے ہیں ]



نوٹ۔ 3: آیت ۔ 15 پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہاں وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ مومنین کے عدم تذبذب کی شہادت کے طور پر آیا ہے ایک شخص اگر ایک نصب العین کے لیے جان ومال کی قربانی سے دریغ نہیں کرتا تو یہ ایک ناقابل انکار شہادت اس بات کی ہے کہ اس کو اپنے نـصب العین کی صداقت پر پورا یقین ہے ۔ اور اگر وہ اس کی خاطر نہ مال قربان کرنے پر تیار ہے نہ اپنی جان کو کسی خطرے میں ڈالنے کا حوصلہ رکھتا ہے ، تو وہ اپنے نصب العین کے عشق میں کتنی ہی لاف زنی کرے لیکن اس کا عمل گواہی دے رہا ہے کہ وہ اس کے باب میں ابھی مبتلائے شک میں ہے ۔ (تدبر قرآن )

قُلْ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ بِدِيْنِكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ        16؀
قُلْ [ آپ کہیے ] اَتُعَلِّمُوْنَ [ کیا تم لوگ علم دیتے ہو ] اللّٰهَ [ اللہ کو ] بِدِيْنِكُمْ ۭ [ اپنے دین کے بارے میں ] وَاللّٰهُ يَعْلَمُ [ حالانکہ اللہ جانتا ہے ] مَا فِي السَّمٰوٰتِ [ اس کو جو آسمانوں میں ہے] وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ [ اور اس کو زمین میں ہے ] وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ [ اور اللہ ہر چیز کو ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے]

يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ        17؀
يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ [ یہ لوگ احسان رکھتے ہیں آپ پر ] اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ [کہ وہ لوگ فرمانبردار ہوئے ] قُلْ لَّا تَمُنُّوْا [آپ کہیے تم لوگ احسان مت رکھو ] عَلَيَّ [مجھ پر ] اِسْلَامَكُمْ ۚ [ اپنے فرمانبردار ہونے کا ] بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ [ بلکہ اللہ احسان رکھتا ہے] عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ [ تم پر کہ اس نے ہدایت دی تم کو ] لِلْاِيْمَانِ [ ایمان لانے کی ] اِنْ كُنْتُمْ [ اگر تم لوگ ہو ] صٰدِقِيْنَ [سچ کہنے والے ]

اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ        18؀ۧ
اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ [ یقینا اللہ جانتا ہے ] غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [ آسمانوں اور زمین کے غیب کو ] وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ [ اور اللہ دیکھنے والا ہے ] بِمَا تَعْمَلُوْنَ [اس کو جوتم لوگ کرتے ہو ]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ           ۝

قۗ    ڗوَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ         Ǻ۝ۚ
قۗ ڗوَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ [ اس عظیم الشان قرآن کی قسم ہے (تم لوگ لازما اٹھائے جاؤگے ) ]



م ج د: (ک) مجادۃ ۔ بزرگی اور عظمت والا ہونا ۔ بڑی شان والا ہونا ۔ مجید ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے۔ بزرگ ، شان والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 1



ترکیب: (آیات ۔ 1 تا 3) قسم کے جواب میں عموما ایک جواب قسم آتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں خدا کی قسم یہ بات یوں ہے یا یہ بات یوں نہیں ہے ۔ یہاں وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ قسم ہے اور اس کا جواب قسم محذوف ہے۔ آگے کی آیات کے پیش نظر حافظ احمد یار صاحب مرحوم نے یہاں لتبعثن (تم لوگ لازما دوبارہ اٹھائے جاؤگے ) کو محذوف مانا ہے۔ ھٰذَا شَيْءٌ عَجِيْبٌ میں ھذا کا اشارہ اسی محذوف جواب قسم کی طرف ہے ۔ ءَاِذَا شرطیہ ہے ۔ مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا شرط ہے۔ اس کا جواب شرط محذوف ہے جو لنبعثن ہے ۔ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِيْدٌ میں ذلک کا اشارہ اسی محذوف جواب شرط کی طرف ہے ۔

بَلْ عَجِبُوْٓا اَنْ جَاۗءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا شَيْءٌ عَجِيْبٌ         Ą۝ۚ
بَلْ عَجِبُوْٓا [بلکہ ان لوگوں نے حیرت کی ] اَنْ جَاۗءَهُمْ [ کہ آیا ان کے پاس] مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ [ ایک خبردار کرنے والا ان میں سے ] فَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ [ پھر کہا انکار کرنے والوں نے ] ھٰذَا [ یہ (اٹھایا جانا ) ] شَيْءٌ عَجِيْبٌ [ عجیب ہی چیز ہے ]

ءَاِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِيْدٌ     Ǽ۝
ءَاِذَا مِتْنَا [ کیا جب ہم مردہ ہوجائیں گے] وَكُنَّا تُرَابًا ۚ [ اور ہم ہوجائیں گے مٹی (تب اٹھائے جائیں گے ) ] ذٰلِكَ [ یہ (اٹھایا جانا) ] رَجْعٌۢ بَعِيْدٌ [ بہت دور والا لوٹنا ہے ]

قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْهُمْ ۚ وَعِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِيْظٌ     Ć۝
قَدْ عَلِمْنَا [ ہم جان چکے ہیں ] مَا تَنْقُصُ [ اس کو جو گھٹاتی ہے ] الْاَرْضُ مِنْهُمْ ۚ [ زمین ان (کی لاش ) میں سے ] وَعِنْدَنَا [ اور ہمارے پاس ] كِتٰبٌ حَفِيْظٌ [ محفوظ کرنے والی کتاب ہے]



وَعِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِيْظٌ کا مطلب یہ ہے کہ ذاتی علم کے سوا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کے لیے ایک دفتر بھی قائم کر رکھا ہے جس میں یہ بھی درج ہے کہ کون شخص زمین کی کس پہنائی میں دفن ہے اور اس کے جسم کے اجزاء کہاں کہاں ہیں اور ہر شخص کے تمام اقوال وافعال بھی اس میں درض ہیں، یہ ریکارڈ محفوظ رکھنے کامعاملہ جاہلیت کے عربوں کے لیے تو اچنبھے کا ہوسکتا تھا لیکن اس زمانے میں سائنس نے جو انکشافات کیے ہیں ان کو جاننے کے بعد ، اگر کوئی شخص قرآن کے اس دعوے میں شک کرے تو ایسے ہٹ دھرموں کو کوئی بڑی سے بڑی دلیل بھی قائل نہیں کرسکتی ۔ یہ لوگ اس وقت مانیں گے جب ان کے ہاتھوں میں ان کے اعمال نامے پکڑا دیئے جائیں گے ۔ (تدبر قرآن )

بَلْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَهُمْ فَهُمْ فِيْٓ اَمْرٍ مَّرِيْجٍ    Ĉ۝
بَلْ كَذَّبُوْا [ بلکہ انہوں نے جھٹلایا ] بِالْحَقِّ [ حق کو ] لَمَّا جَاۗءَهُمْ [ جب وہ آیا ان کے پاس ] فَهُمْ [ نتیجۃ وہ لوگ ] فِيْٓ اَمْرٍ مَّرِيْجٍ [ ایک الجھے ہوئے معاملہ میں ہیں ]

اَفَلَمْ يَنْظُرُوْٓا اِلَى السَّمَاۗءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنٰهَا وَزَيَّنّٰهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ       Č۝
اَفَلَمْ يَنْظُرُوْٓا [ تو کیا انہوں نے دیکھا ہی نہیں ] اِلَى السَّمَاۗءِ فَوْقَهُمْ [ آسمان کی طرف اپنے اوپر ] كَيْفَ بَنَيْنٰهَا [ کیسا ہم نے بنایا اس کو ] وَزَيَّنّٰهَا [ اور سجایا اس کو ] وَمَا لَهَا [ اور نہیں ہیں اس میں ] مِنْ فُرُوْجٍ [ کوئی بھی دراڑیں ]

وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍۢ بَهِيْجٍ        Ċ۝ۙ
وَالْاَرْضَ [ اور (کیا دیکھتے نہیں ) زمین کو ] مَدَدْنٰهَا [ کیسا ) ہم نے پھیلایا اس کو ] وَاَلْقَيْنَا [ اور ہم نے ڈالے ] فِيْهَا رَوَاسِيَ [ اس میں کچھ پہاڑ ] وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا [ اور ہم نے اگائے اس میں ] مِنْ كُلِّ زَوْجٍۢ بَهِيْجٍ [ ہرشاداب جوڑے میں سے ]



 (آیات ۔ 7 تا 11) وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا میں مددنا کی ضمیر مفعولی ھا آگئی ہے اس لیے الارض کو اس کا مفعول مقدم ماننے کی گنجائش ختم ہوگئی ۔ اب اس کو کسی فعل محذوف کا مفعول مانا جائے گا جو لم یروا ہوسکتا ہے ۔ اس طرح پورا جملہ یوں ہے۔ اولم یروا الارض کیف مددنھا ۔ ذکری یہاں محلا حالت نصب میں ہے۔ تبصرۃ اور ذکری دونوں کو حال بھی مانا جا سکتا ہے اور انبتنا کا مفعول لہ بھی جنت ۔ حب اور النخل یہ سب فانبتنا کے مفعول ہیں جبکہ رزقا حال ہے۔ احیینا بہ میں ہ کی ضمیر ماء مبرکا کے لیے ہے۔

تَبْصِرَةً وَّذِكْرٰى لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْبٍ       Ď۝
تَبْصِرَةً [ سمجھا نے (دکھا کر سمجھانے ) کے لیے ] وَّذِكْرٰى [اور یاد دہانی کے لیے] لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْبٍ [ ہر متوجہ رہنے والے بندے کے لیے]

وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِيْدِ       ۝ۙ
وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ [ اور ہم نے اتارا آسمان سے] مَاۗءً مُّبٰرَكًا [ کچھ برکت دیا ہوا پانی ] فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ [ پھر ہم نے اگائے ان سے] جَنّٰتٍ [ کچھ باغات ] وَّحَبَّ الْحَصِيْدِ [ اور کاٹے ہوئے (اناج ) کے دانے ]

وَالنَّخْلَ بٰسِقٰتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيْدٌ      10۝ۙ
وَالنَّخْلَ [ اور کھجوریں ] بٰسِقٰتٍ [ لمے تنے والیاں ] لَّهَا طَلْعٌ [ ان کے لیے کونپل ہے ] نَّضِيْدٌ [ تہہ بہ تہہ ]



ب س ق : (ن) بسوقا ۔ درخت کا لمبے تنے کا ہونا ۔ باسق ۔ فاعل کے وزن پر صفت ہے۔ لمبے تنے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 10۔

رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ ۙ وَاَحْيَيْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا ۭ كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ       11؀
رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ ۙ [ رزق ہوتے ہوئے بندوں کے لیے ] وَاَحْيَيْنَا بِهٖ [ اور ہم نے زندہ کیا اس (پانی ) سے ] بَلْدَةً مَّيْتًا ۭ [ ایک مردہ بستی کو ] كَذٰلِكَ [اسی طرح ] الْخُرُوْجُ [ (قبروں سے ) نکلنا ہے ]



نوٹ ۔ 1: کسی معتبر روایات سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ سورہ کس زمانے میں نازل ہوئی تھی ، مگر مضامین پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکہ معظمہ کا دوسرا دور ہے ۔ جو نبوت کے تیسرے سال سے شروع ہوکر پانچویں سال تک رہا جب کفار کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کرچکی تھی مگر ابھی ظلم وستم کا آغاز نہیں ہوا تھا ۔ پوری سورہ کا موضوع آخرت ہے۔ رسول اللہ
نے جب اپنی دعوت کا اغاز کیا تو لوگوں کو سب سے زیادہ تعجب اس بات پر ہوا کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا ۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ تو بالکل انہونی بات ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہمارا ذرہ ذرہ زمین میں منتشر ہوچکا ہو تو ان پراگندہ اجزاء کو ہزار ہا برس کے بعد پھر سے اکٹھا کرکے ہمارا یہی جسم از سر نوبنا دیا جائے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تقرار نازل ہوئی ۔ (تفہیم القرآن )

مردوں کے زندہ ہونے کا انکار کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مرنے کے بعد انسانی جسم کے اجزاء مٹنی ہوجاتے ہیں پھر پانی اور ہوا اس کے ذرات کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں ۔ قیامت میں دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ساری دنیا میں بکھرے ہوئے اجزاء کو معلوم رکھنا کہ یہ جز فلاں کا ہے یہ فلاں کا ہے اور پھر ہر ایک کے اجزاء کو الگ الگ جمع کردیناکس کے بس کی بات ہے ۔ قرآن مجید نے اس کا جواب دیا کہ اللہ جانتا ہے کہ مردے کے کس کس حصے کو زمین نے کھالیا ہے ۔ پھر وہ مٹی دنیا جہاں کے جس جس گوشے میں پہنچتی ہے وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے ۔ وہ جب چاہے گا سب کس یک جگہ جمع کردے گا ۔ ذرا غور کرو کہ اس وقت ہر انسان کا جسم جن اجزاء سے مرکب چلتا پھرتا نظر آتا ہے ، اس میں بھی تو ساری دنیا کے مختلف گوشوں کے اجزاء جمع ہیں ۔ کوئی غذا کی صورت میں کوئی دوا کی صورت میں سارے عالم کے مختلف شہروں اور جنگلوں کے اجزاء ہی تو ہیں جن سے یہ موجودہ جسم مرکب ہوا ہے ۔ اس کے لیے کیا دشوار ہے کہ ان اجزاء کو دنیا میں پھر منتشر کرنے کے بعد ایک جگہ پھر جمع کردے ۔ ماتنقص الارض کی یہ تفسیر حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد (رض) سے منقول ہے۔ (معارف القرآن )

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ        12۝ۙ
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ [ جھٹلایا لوگوں سے پہلے] قَوْمُ نُوْحٍ [ نوح کی قوم نے ] وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ [ اور کنویں والوں نے ] وَثَمُوْدُ [اور ثمود نے ]



نوٹ ۔1: پورے قرآن مجید میں اصحاب الرس کا ذکر صرف دو جگہ آیا ہے ۔ ایک اس سے پہلے سورہ فرقان کی آیت ۔ 38 میں اور دوسرے اب زیر مطالعہ آیت ۔12 میں ۔ مگر دونوں جگہ انبیاء کو جھٹلانے والی قوموں کے سلسلے میں صرف ان کا نام ہی لیا گیا ہے ان کے متعلق کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی اور نہ کوئی قابل اعتماد تفصیل کسی روایت میں ملتی ہے ۔ قرآن مجید میں جس طرح ان کی طرف محض ایک اشارہ کرکے چھوڑ دیا گیا ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں اہل عرب بالعموم اس قوم اور اس کے قصے (کرتوتوں ) سے واقف تھے لیکن بعد میں ان کے متعلق روایات تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکیں ۔ (تفہیم القرآن )

وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ وَاِخْوَانُ لُوْطٍ        13؀ۙ
وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ [ اور عاد نے اور فرعون نے ] وَاِخْوَانُ لُوْطٍ [ اور لوط کے بھائیوں (قوم ) نے ]



نوٹ ۔12 تا 14 میں آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے ، ان آیات میں عرب اور اس کے گردوپیش کی قوموں کے انجام کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ آخرت کا جو عقیدہ تمام انبیاء پیش کرتے رہے ہیں وہی حقیقت کے عین مطابق ہے کیونکہ اس کا انکار جس قوم نے بھی کیا وہ اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود شدید اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہوکر رہی اور آخر کار خدا کے عذاب نے اس کے وجود سے دنیا کو پاک کیا ۔ کسی کام سے اگر پے در پے غلط نتائج برآمد ہوتے چلے جائیں تو یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ وہ کام حقیقت سے متصادم ہورہا ہے۔ آیت ۔ 15 میں آخرت کے حق میں علقی استدلال ہے جو شخص خدا کا منکر نہ ہو اور حماقت کی اس حد تک نہ پہنچ گیا ہو کہ اس عظیم کائنات اور اس کے اندر انسان کی پیدائش کو محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے لگے ، اس کے لیے یہ مانے بغیر چارہ نہیں ہے کہ خدا ہی نے اس پوری کائنات کو اور ہمیں پیدا کیا ہے ، اس کے بعد اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ قیامت برپا کرنے کے بعد وہی خدا ایک دوسرا نظام عالم نہ بنا سکے گا اور موت کے بعد ہمیں پیدا نہ کرسکے گا ، تو یہ محض ایک خلاف عقل بات کہتا ہے ۔ اس بات کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے کہ اپنی ہی بنائی ہوئی چیز کو توڑ کر دوبارہ بنا دینے سے وہ عاجز ہوجائے گا۔ (تفہیم القرآن )

نوٹ۔ 2،قیامت کے باب میں نادانوں کو جہاں یہ شبہہ لاحق ہوتا ہے کہ انسان مر کر زمین میں رل مل جانے کے بعد اس کے تمام اجزاء جسم کو فراہم کرنا اور اس کو از نو زندہ کرکے کھڑا کردینا کس کے بس میں ہے، وہیں بہتوں کو یہ شبہ بھی لاحق ہوتا ہے کہ ایک ایک شخص کے خلوت وجلوت کے تمام اقوال وافعال کا ریکارڈ کون رکھ سکتا ہے ۔ یہ دونوں شبہات کو بالکل توام (جڑواں) ہیں اس وجہ سے اوپر آیت ۔4، میں ان دونوں کا جواب اجمالی طور پر دیا ہے پھر تفصیل کے ساتھ پہلے شبہ کی تردید فرمائی ہے ۔ اور اب آیات ۔16،18۔ میں دوسرے شبہ کا جواب دیا ہے ۔ فرمایا کہ انسان کو ہم نے پیدا کیا ہے اور اس کے اقوال وافعال تو درکنار ، اس کے دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو بھی ہم جانتے ہیں پھر فرمایا کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اگر وہ ہم کو دیکھ نہیں رہا ہے تو ہم اس سے دور ہیں ۔ ہم ہر شخص کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں، یعنی ہمارا علم اور ہماری قدرت پر شخص کا ہر پہلو سے احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کا ظاہر وباطن ہر لمحہ ہماری نگاہوں میں ہے ۔ پھر اپنے ذاتی علم کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اقوال وافعال کو ریکارڈ کرنے کے لیے یہ اہتمام کیا ہے کہ ہرشخص پر دو ۔ دو فرشتے مامور کررکھے ہیں (تدبر قرآن)

اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آخرت کی عدالت میں کسی شخص کو محض اپنے ذاتی علم کی بنا پر سزا نہ دے گا بلکہ عدل کی تمام شرائط پوری کرکے اس کو سزا دے گا ۔ اس لیے دنیا میں ہر شخص کے اقوال وافعال کامکمل ریکارڈ تیار کرایا جارہا ہے ۔ (تفہیم القرآن )

وَّ اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۭ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيْدِ        14؀
وَّ اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ [ اور گھنے درخت والوں نے ] وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۭ [ اور تبع کی قوم نے ] كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ [ سب نے جھٹلایا رسولوں کو ] فَحَقَّ [ تو سچ ہوئی ] وَعِيْدِ [میری دھمکی ]

اَفَعَيِيْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ۭ بَلْ هُمْ فِيْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ      15؀ۧ
اَفَعَيِيْنَا [ تو کیا ہم تھک گئے ] بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ۭ [ پہلی بار پیدا کرنے سے ] بَلْ هُمْ فِيْ لَبْسٍ [ بلکہ یہ لوگ ایک شبہ میں ہیں ] مِّنْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ [ نئے (دوبارہ ) پیدا کرنے سے ]

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ ښ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ         16؀
وَلَقَدْ خَلَقْنَا [ اور یقینا ہم نے (ہی ) پیدا کیا ہے] الْاِنْسَانَ [ انسان کو ] وَنَعْلَمُ [ اور ہم جانتے ہیں ] مَا [ اس (تک ) کو جو ] تُوَسْوِسُ [ وسوسہ ڈالتا ہے] بِهٖ [ اس (کے ذھن ) میں ] نَفْسُهٗ ښ [ اس کا نفس ] وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ [ اور ہم زیادہ قریب ہیں اس کے ] مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ [ بہ نسبت (اس کی ) شہ رگ کے ]

اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ        17؀
اِذْ يَتَلَقَّى [ جب لے لیتے ہیں ] الْمُتَلَقِّيٰنِ [ دو لینے والے] عَنِ الْيَمِيْنِ [ دائیں طرف سے ] وَعَنِ الشِّمَالِ [ اور بائیں طرف سے] قَعِيْدٌ [ (وہ دونوں) ہمیشہ نگران ہیں ]



ترکیب (آیت ۔17) یتلقی مادہ ’’ ل ق ی ‘‘ سے باب تفعل کا مضارع ہے اور اس سے پہلے اذ آیا ہے اس لیے قاعدے کے لحاظ سے اس کا ترجمہ ماضی میں ہونا چاہیے تھا (دیکھیں آیت 2:11، نوٹ ۔1) لیکن یہاں پر آفاقی صداقت کا بیان ہورہا ہے ۔ اس لیے اس کا ترجمہ حال میں کیا جائے گا ۔ قعید کی رفع بتارہی ہے کہ یہ حال نہیں ہوسکتا بلکہ یہ خبر ہے۔ اس کا مبتدا ھما محذوف ہے۔ ھما کی ضمیر المتلقین کے لیے ہے اور چونکہ قعید مذکر مؤنث ، واحد جمع ، سب کے لیے قعید ہی آتا ہے (دیکھیں آیت ۔ 2:127)، کی لغت میں مادہ ’’ ق ع د ‘‘ اس لیے قعیدان لانے کی ضرورت نہیں ۔

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ      18؀
مَا يَلْفِظُ [ وہ (انسان ) منہ سے نہیں نکالتا ] مِنْ قَوْلٍ [ کوئی بھی بات ] اِلَّا لَـدَيْهِ [ مگر (یہ کہ ) اس کے پاس ] رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ [ ایک چوکس نگران ہوتا ہے ]



ل ف ظ : (ض) لفظ منہ سے پھینکنا ، منہ سے بامعنی آواز نکالنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 18۔

وَجَاۗءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ       19؀
وَجَاۗءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [اور آئی موت کی مدہوشی ] بِالْحَقِّ ۭ [ حق کے ساتھ ] ذٰلِكَ مَا [ یہ وہ ہے ] كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ [ تو جس سے کنی کتراتا تھا ]



ح ی د : (ض) حیدا کسی چیز سے ہٹنا ۔ پہلو تہی کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 19۔

وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ ۭ ذٰلِكَ يَوْمُ الْوَعِيْدِ      20؀
وَنُفِخَ [ اور پھونکا جائے گا ] فِي الصُّوْرِ ۭ [ صور میں ] ذٰلِكَ [ (پھر کہا جائے گا ) یہ ہے ] يَوْمُ الْوَعِيْدِ [ وعدہ (عذاب ) کا دن ]

وَجَاۗءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَاۗىِٕقٌ وَّشَهِيْدٌ       21؀
وَجَاۗءَتْ كُلُّ نَفْسٍ [ اور آئے گی ہر جان ] مَّعَهَا [ اس کے ساتھ ] سَاۗىِٕقٌ [ ایک ہانکنے والا ] وَّشَهِيْدٌ [ اور ایک گواہ ہوگا ]

لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ       22؀
لَقَدْ كُنْتَ [ یقینا تو رہ چکا ہے ] فِيْ غَفْلَةٍ [ غفلت میں ] مِّنْ ھٰذَا [ اس (دن) سے ] فَكَشَفْنَا [ تو ہم نے کھول دیا ] عَنْكَ غِطَاۗءَكَ [تجھ سے تیرا پردہ ] فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ [ نتیجۃ تیری بصارت آج کے دن ] حَدِيْدٌ [ تیز (
Sharp) ہے ]



نوٹ ۔ 1: آیت ۔ 22۔ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی مثال خواب کی سی ہے اور آخرت کی مثال بیداری کی سی ہے ۔ جیسے خواب میں آدمی کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور وہ حقائق کو نہیں دیکھ پاتا ، اسی طرح انسان ان حقائق کو جن کا تعلق عالم آخرت سے ہے ان کو وہ اس دنیا میں آنکھوں سے نہیں دیکھتا ۔ مگر یہ ظاہری آنکھیں بند ہوتے ہی وہ خواب کا عالم ختم ہوجاتا ہے اور بیداری کا عالم شروع ہوتا ہے جس میں وہ سارے حقائق سامنے آجاتے ہیں جن کا علم انسان کو علم وحی کے ذریعہ دیا گیا ہے ۔ اسی لیے بعض علماء نے فرمایا کہ دنیا کی زندگی میں سب انسان سورہے ہیں ، جب مریں گے اس وقت جاگیں گے (معارف القرآن) علم وحی کی بنیاد پر آخرت کے ان دیکھے حقائق کا یقین کرنا علم الیقین کا مرحلہ ہے اور یہی باعث نجات ہے مرنے کے بعد عین الیقین کے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے لیکن یہ مفید نہیں ہے ۔ اسی لیے عالم نزع طاری ہوجانے کے بعد کی دعا قبول نہیں ہوتی ، پھر جب انسانوں کو جنت یا دوزخ میں بھیج دیا جائے گا تو حق الیقین کے مرحلے کا آغاز ہوگا جو دائمی ہے جبکہ علم الیقین اور عین الیقین کے مرحلے عبوری (
Transitionary) ہیں ۔

و َقَالَ قَرِيْنُهٗ ھٰذَا مَا لَدَيَّ عَتِيْدٌ      23؀ۭ
و َقَالَ قَرِيْنُهٗ [ اور کہے گا اس کا ہمنشین (فرشتہ )] ھٰذَا مَا [ یہ وہ ہے جو ] لَدَيَّ [ میرے پاس تھا ] عَتِيْدٌ [ تیار (حاضر) ہے ]

اَلْقِيَا فِيْ جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيْدٍ       24؀ۙ
اَلْقِيَا [ تم دونوں ڈال دو ] فِيْ جَهَنَّمَ [ جہنم میں ] كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيْدٍ [ ہر ناشکرے مخالف کو ]



ترکیب: (آیت ۔ 24) یہاں القیا تثنیہ کا صیغہ کیوں آیا ہے ۔ گرامر والوں (نحویوں) کا کہنا ہے کہ یہ عربوں کے رواج کے مطابق ہے۔ اونٹ کے بڑے ریوڑ کوچرانے کے لیے عموما تین آدمی جاتے تھے، ان میں سے کسی کو جب اپنے کسی ساتھی کو بلانا ہوتا تھا توعموما وہ تثینہ کے صیغے میں پکارتا تھا کہ دونوں میں سے کوئی بھی سن لے ۔ اس طرح ان کی یہ عادت ہوگئی کہ کسی ایک کو مخاطب کرنے کے لیے وہ تثنیہ کا صیغہ استعمال کرلیتے تھے ، ایک کو دو کے صیغے میں پکارنا عربوں کا محاورہ ہے (حافظ احمد یار صاحب کے کیسٹ سے ماموخوذ ہے ) اس لحاظ سے یہاں تثنیہ القیا واحد کے مفہوم ہے یعنی تو ڈال دے ۔

عام طور پر مفسریں نے اس کا مخاطب انہی دو فرشتوں کو قرار دیا ہے جن کا ذکر آیت ۔ 21۔ میں سائق اور شھید کے الفاظ سے گزر چکا ہے ۔ ان دونوں کو یہ حکم دینے سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہی اس کو جنہم میں ڈالیں بھی ، یہ محض حکم کا بیان ہے ۔ اس کی تعمیل میں وہ مجرم کو جہنم میں جھونکنے والے فرشتوں کے حوالے کردیں گے، البتہ اس سے متعلق زمخشری نے عربی کے ایک مشہور ادیب کا قول نقل کیا ہے کہ فصیح عربی بولنے والے تثنیہ کا صیغہ بعض اوقات تکرار فعل کے مفہوم کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں ۔ اس طرح القیا کا مفہوم اس آیت میں ان کے نزدیک ’’ ڈال دو ۔ ڈال دو‘‘ ہوگا ۔ اس سے مقصود اظہار غضب اور تاکید حکم ہے۔ (تدبر قرآن) اردو میں تکرار فعل کا رواج زیادہ ہے ۔ جیسے ہم لوگ کہتے ہیں اٹھو اٹھو ۔ چلو چلو ۔ کھاؤ کھاؤ وغیرہ ترجمہ میں ہم جمہور مفسرین کی رائے کو اختیار کریں گے دوسری آراء اس لیے لکھ دیں ہیں کہ کسی طالب علم کی نظر سے اگر کوئی مختلف ترجمہ گزرے تو اس کا ذہن پریشان نہ ہو ۔ عربی اسالیب کے مطابق تینوں طرح کے ترجمے درست مانے جائیں گے ۔ قال قرینہ یہاں دو مرتبہ آیا ہے ۔ پہلے آیت ۔ 23۔ میں اس کے بعد آیت ۔ 27۔ میں ۔ اکثر مفسرین نے پہلے قرین سے مراد یہ لیا ہے کہ یہ کہنے والا ان دو میں سے کوئی ایک فرشتہ ہوگا جو دنیا میں اس کے اعمال ریکارڈ کرتے تھے ۔ جبکہ دوسرے قرین سے مراد وہ شیطان ہے جو دنیا میں اس کے پیچھے لگا ہوا تھا ۔ ان آیات میں چونکہ قیامت کے واقعات کا ذکر ہے اس لیے ماضی کے صیغوں کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا ۔ (دیکھیں ۔ 2 : 27، نوٹ ۔ 3)



نوٹ۔ 2: آیات 24 تا 26 ۔ میں اللہ تعالیٰ نے وہ صفات گن گن کربتادی ہیں جو انسان کو جہنم کا مستحق بنانے والی ہیں ۔ (1) انکار حق اور خدا کی ناشکری (کفار ) ۔ (2) حق اور اہل حق سے عناد (عنید) ۔ (3) بھلائی کے راستے میں سد راہ بننا اور اپنے مال سے خدا اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرنا (مناع للخیر ) ۔ (4) اپنے معاملات میں حدود سے تجاوز کرنا اور لوگوں پر ظلم وزیادتی کرنا ۔ (معتد) (5) دین کی صداقتوں پر شک کرنا اور دوسروں کے دلوں میں شکوک ڈالنا (مریب ) ۔ (6) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو خدائی میں شریک ٹھہرانا ۔ (تفہیم القرآن )

مَّنَّاعٍ لِّــلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُّرِيْبِۨ      25؀ۙ
مَّنَّاعٍ لِّــلْخَيْرِ [ (ہر ایک ) بھلائی سے منع کرنے والے کو ] مُعْتَدٍ [ (ہر) حد سے بڑھنے والے کو ] مُّرِيْبِۨ [ (ہر ) شبہہ ڈالنے والے کو ]

الَّذِيْ جَعَلَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـــهًا اٰخَرَ فَاَلْقِيٰهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيْدِ        26؀
الَّذِيْ جَعَلَ [ جس نے بنایا ] مَعَ اللّٰهِ [اللہ کے ساتھ ] اِلٰـــهًا اٰخَرَ [ کوئی دوسرا الہ ] فَاَلْقِيٰهُ [ تو تم دونوں ڈال دو اس کو ] فِي الْعَذَابِ الشَّدِيْدِ [ شدید عذاب میں ]

قَالَ قَرِيْنُهٗ رَبَّنَا مَآ اَطْغَيْتُهٗ وَلٰكِنْ كَانَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ       27؀
قَالَ قَرِيْنُهٗ [ کہے گا اس کا ہم نشین (شیطان ) ] رَبَّنَا [ اے ہمارے رب ] مَآ اَطْغَيْتُهٗ [ سرکشی پر میں نے نہیں اکسایا اس کو ] وَلٰكِنْ كَانَ [ اور لیکن وہ تھا ] فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ [ ایک دوری والی گمراہی میں]

يَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ      30؀
يَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ [ جس دن ہم کہیں جہنم سے ] هَلِ امْتَلَاْتِ [ کیا تو بھر گئی ] وَتَقُوْلُ [ اور وہ کہے گی ] هَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ [کیا کچھ مزید ہے]

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَ غَيْرَ بَعِيْدٍ     31؀
وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ [ اور نزدیک کی جائے گی جنت ] لِلْمُتَّقِيْنَ [متقی لوگوں کے لیے] غَيْرَ بَعِيْدٍ [ دور ہوئے بغیر ]



آیات ۔ 31 تا 33 ، میں اللہ تعالیٰ نے وہ صفات بتادی ہیں جن کی بنا پر کوئی شخص جنت کا مستحق ہوتا ہے اور وہ یہ ہیں ۔ (1) تقوی (2) رجوع اللہ ۔ (3) اللہ سے اپنے تعلق کی حفاظت (4) اللہ کی دیکھے بغیر اور اس کی رحیمی پر یقین رکھنے کے باوجود اس سے ڈرنا ۔ اور (5) قلب منیب لیے ہوئے اللہ کے ہاں پہنچنا ۔

ھٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِيْظٍ       32؀ۚ
ھٰذَا مَا [ یہ وہ ہے جو ] تُوْعَدُوْنَ [تم لوگوں سے وعدہ کیا جاتا تھا ] لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِيْظٍ [ (یہ ) ہر بار بار رجوع کرنے والے ہمیشہ حفاظت کرنے والے کے لیے ہے ]



نوٹ ۔1: اواب کے معنی رجوع ہونے والے کے ہیں مراد وہ شخص ہے جو معاصی (گناہوں) سے اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو حضرت عبید بن عمیر (رض) نے فرمایا کہ اواب وہ شخص ہے جو اپنی ہر مجلس اور ہر نشست میں اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے ، رسول اللہ
نے فرمایا جو شخص اپنی مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھے تو اللہ اس کے وہ سب گناہ معاف فرما دیں گے جو اس مجلس میں سرزد ہوئے ۔ دعا یہ ہے ۔ سبحانک اللہم وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک اور حفیظ کے معنی حضرت ابن عباس (رض) سے ھو الحافظ لامر اللہ کے منقول ہیں یعنی جو شخص اللہ کے احکام کو یاد رکھے ۔ (معارف القرآن ) منیب کے معنی ایک طرف رخ کرنے اور بار بار اسی طرف پلٹنے کے ہیں ۔ جیسے قطب نما کی سوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف قلب منیب سے مراد وہ دل ہے جو رنج وراحت اور امید وبیم ، ہر حال میں اپنے رب ہی کی طرف متوجہ رہا ۔ کسی حال میں بھی اپنے رب سے منہ موڑ کر کسی اور سے اس نے لو نہیں لگائی (تدبر قرآن) ۔



نوٹ۔2: آیت ۔ 32۔ میں قریش کو وراننگ ہے کہ وہ اس گھمنڈ میں نہ رہیں کہ ان کی بڑی قوت وشوکت حاصل ہے اور وہ اپنی جگہ سے ہلائے نہیں جا سکتے ۔ ان سے پہلے کتنی ہی قومیں گزری ہیں جو قوت وعظمت میں ان سے بڑھ چڑھ کرتھیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا ۔ ان میں سے اگر کچھ ہلاک ہونے سے بچ بھی رہے تو وہ مختلف ملکوں میں کسی جائے پناہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔ جب کسی قوم پر تباہی آتی ہے تو اس کا حال یہی ہوتا ہے ،قوم کے کار فرما عناصر ، جو سارے فساد کے ذمہ دار ہوتے ہیں ، وہ تو تباہ ہوجاتے ہیں ، عوام میں سے جو بچ رہتے ہیں وہ قومی جمعیت کے پارہ پارہ ہوجانے کے بعد پراگندہ ہوکر اس طرف کارخ کرلیتا ہے ۔ جہاں اس کو پناہ ملنے کی توقع ہوتی ہے۔ قرآن میں جن قوموں کے حالات بیان ہوئے ہیں ان میں سے بعض تو پوری کی پوری تباہ ہوگئیں ۔ جیسے قوم نوح ، عاد اور ثمود وغیرہ ، جبکہ بعض قوموں کا حال یہ ہوا کہ ان کے کار فرما عناصر تو تباہ ہوگئے اور ان کے عوام ادھر ادھر پراگندہ ہوگئے ۔

فرعون اور اس کی قوم کی تباہی کی صورت یہی تھی ، اس سے ملتے جلتے حالات ملک سبا میں پیش آئے ۔ بےشمار افراد تو سیلاب کی نذر ہو گئے جو بچ رہے وہ مجبور ہوئے کہ پناہ کی تلاش میں دوسرے علاقوں کا رخ کریں ۔ یہود پر جو تباہیاں آئیں ان کی نوعیت بھی یہی تھی ، جو قتل سے بچے وہ دنیا کے کونے کونے میں آوارہ ہوکر پھرے ، خود ہماری تاریخ میں بھی اس کی نہایت عبرت انگیز مثالیں موجود ہیں ۔ بغداد پر ، قربطہ پر ، دلی پر جوتباہیاں آئیں ان کے احوال تاریخ میں مذکور ہیں ، ان کو پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت میں صرف قریش ہی کو تنبیہ نہیں ہے بلکہ خود ہمارے لیے بھی اس میں بڑا درس ہے ۔ (تدبر قرآن)

مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاۗءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبِۨ       33؀ۙ
مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ [ جو ڈرا رحمن سے ] بِالْغَيْبِ [ بن دیکھے ] وَجَاۗءَ [اور وہ آیا ] بِقَلْبٍ مُّنِيْبِۨ [ ایک متوجہ ہونے والے دل کے ساتھ ]

ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ ۭ ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُوْدِ     34؀
ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ ۭ [ تم لوگ ہوجاؤ اس میں سلامتی کے ساتھ ] ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُوْدِ [ یہ ہمیشہ ایک حالت میں رہنے کا دن ہے ]

لَهُمْ مَّا يَشَاۗءُوْنَ فِيْهَا وَلَدَيْنَا مَزِيْدٌ       35؀
لَهُمْ مَّا [ ان کے لیے ہوگا وہ جو ] يَشَاۗءُوْنَ [ وہ لوگ چاہیں گے ] فِيْهَا [ اس (جنت ) میں ] وَلَدَيْنَا مَزِيْدٌ [ اور ہمارے پاس مزید ہے ]

وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوْا فِي الْبِلَادِ ۭ هَلْ مِنْ مَّحِيْصٍ      36؀
وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ [ اور کتنی ہی ہم نے ہلاک کیں ان سے پہلے ] مِّنْ قَرْنٍ [ قومیں ] هُمْ [ وہ لوگ ] اَشَدُّ مِنْهُمْ [ ان سے زیادہ سخت تھے ] بَطْشًا [ بلحاظ گرفت کرنے کے ] فَنَقَّبُوْا [ تو انہوں نے بھاگ دوڑ کی ] فِي الْبِلَادِ ۭ [ شہروں میں ] هَلْ [ (کہ ) کیا ] مِنْ مَّحِيْصٍ [ کوئی بھی بچنے کی جگہ ہے ]

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيْدٌ       37؀
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ [ بیشک اس میں ] لَذِكْرٰى [ یقینا بڑی نصیحت ہے ] لِمَنْ [ اس کے لیے] كَانَ لَهٗ [ جس کے لیے ہو ] قَلْبٌ [ ایک دل (تفقہہ والا )] اَوْ اَلْقَى [ یا وہ ڈالے (دھرے ) ] السَّمْعَ [ کان (بات پر ) ] وَهُوَ [ اس حال میں کہ وہ ] شَهِيْدٌ [ معائنہ کرنے والا ہو]

وَلَــقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ڰ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ      38؀
وَلَــقَدْ خَلَقْنَا [ اور یقینا ہم نے پیدا کیا ہے ] السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ [ آسمانوں کو اور زمین کو ] وَمَا بَيْنَهُمَا [ اور اس کی جو ان دونوں کے درمیان ہے ] فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ڰ [ چھ دنوں میں ] وَّمَا مَسَّنَا [ اور ہم کو نہیں چھوا ] مِنْ لُّغُوْبٍ [ذرا سی بھی تھکان نے ]



نوٹ ۔1: آیت ۔ 38۔ میں یہود ونصاری پر ایک لطیف طنز ہے جن کی بائبل میں یہ افسانہ گھڑا گیا ہے کہ خدانے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو بنایا اور ساتویں دن آرام کیا ۔ اگرچہ اب مسیحی پادری اس بات سے شرمانے لگے ہیں اور انھوں نے کتاب مقدس کے اردو ترجمہ میں ’’ آرام کیا ‘‘ کو ’’ فارغ ہوا‘‘ سے بدل دیا ہے مگر کنگ جیمس کی مستند انگریزی بائبل میں

 
SEVENTH DAY AND HERESTED ON THE

کے الفاظ صاف موجو دہیں اور یہی الفاظ اس ترجمے میں بھی پائے جاتے ہیں جو 1954 ء میں یہودیوں نے فلڈلیفا سے شائع کیا، عربی ترجمہ میں بھی فاستراح (پھر اس نے استراحت کی ) کے الفاظ ہیں ۔ (تفہیم القرآن)

فَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ      39؀ۚ
فَاصْبِرْ عَلٰي مَا [ تو آپ صبر کریں اس پر جو ] يَقُوْلُوْنَ [ یہ لوگ کہتے ہیں ] وَسَبِّــحْ [ اور آپ تسبیح کریں ] بِحَمْدِ رَبِّكَ [ اپنے رب کی حمد کے ساتھ ] قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ [ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے] وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ [ اور (اس کے ) غروب کے پہلے ]



نوٹ۔2: آیات 39۔40۔ میں وہ ذریعہ بتایا گیا ہے جس سے آدمی کو یہ طاقت حاصل ہوتی ہے کہ دعوت حق کی راہ میں اسے خواہ کیسے ہی دل شکن اور روح فرسا حالات سے سابقہ پیش آئے ، اس کی کوشش کا کوئی نتیجہ نکلتا بھی نظر نہ آئے ، پھر بھی وہ پورے عزم کے ساتھ زندگی بھر کلمہ حق بلند کرنے اور دنیا کو خیر کی طرف بلانے کی جدوجہد جاری رکھے ۔ رب کی حمد اور اس کی تسبیح سے مراد یہاں نماز ہے جس مقام پر بھی قرآن میں حمد وتسبیح کو خاص اوقات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے، طلوع آفتاب سے پہلے فجر کی نماز ہے ، غروب آفتاب سے پہلے دو نمازیں ظہر اور عصر ہیں ، ’’ رات میں سے ‘‘ یعنی رات کے کچھ اوقات میں مغرب اور عشاء ہیں اور تہجد بھی رات کی تسبیح میں شامل ہے ، رہی وہ تسبیح جو مسجدوں سے فارغ ہونے کے بعد کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، تو اس سے مراد ذکربعد الصلوۃ بھی ہو سکتا ہے اور فرض کے بعد نوافل ادا کرنا بھی ۔

جو اصحاب قرآن مجید کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیں وہ مشکوۃ شریف میں باب الذکر بعدالصلوۃ میں سے کوئی ذکر یاد کرلیں اور پھر اس کا التزام کریں ، رسول اللہ
کے بتائے ہوئے ذکر سے بہتر اور کون سا ذکر ہوسکتا ہے ۔ مگر یہ خیال رکھیں کہ ذکر سے مقصود چند مخصوص الفاظ کو زبان سے گزار دینا نہیں ہے بلکہ اصل مقصود ان معانی کو ذہن میں تازہ اور مستحکم کرنا ہے جو ان الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں ، اس لیے جو بھی ذکر کیا جائے اس کے معنی اچھی طرح یاد کرلینے چاہئیں اور پھر معنی کے استحضار کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے۔ (تفیہم القرآن)

نوٹ۔ 3: کوئی شخص جب کوئی بات کرتا ہے یا کسی مجلس میں کچھ لوگ آپس میں جو بات کرتے ہیں تو جو شخص وہاں موجود نہیں ہوتا ، اسے جب اس کی اطلاع دی جاتی ہے تو اسے بات کاخلاصہ بتادیا جاتا ہے ۔ اس بنیاد پر وہ کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ فلاں نے کیا کہا ہے یا فلاں مجلس میں کیا بات ہوئی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں بات کے ایک ایک لفظ کے ساتھ آواز کا زیروبم ، چہرے کا اتار چڑھاؤ ، اعضاء وجوارح کی جنبشیں (
Body Language) دل میں چھپے ہوئے جذبات ، نیب وغیرہ یہ سب چیزیں اس کے علم میں ہوتی ہیں، اس لیے آیت ۔ 45 میں فرمایا نحن اعلم (ہم سب سے زیادہ جاننے والے ہیں )

مورخہ 5۔ ربیع الاول 1430 ء بمطابق 3۔ مارچ 2009 ء

وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ       40؀
وَمِنَ الَّيْلِ [ اور رات میں سے ] فَسَبِّحْهُ [ پھر آپ تسبیح کریں اس کی ] وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ [اور سجدوں کے پیچھے (بعد بھی ) ]



ترکیب: (آیت ۔ 40) ادبار یہاں ظرف زمان کے طور پر آیا ہے ، اس لیے حالت نصب میں ہیں ۔ سجد ۔ یسجد کا مصدر بھی سجود آتا ہے جبکہ سجدہ کی جمع بھی سجود آتی ہے ۔ اس لیے دونوں طرح کے ترجمے درست مانے جائیں گے ۔

وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ      41؀ۙ
وَاسْتَمِعْ [ اور دھیان سے سنو] يَوْمَ [ (اس دن کی بات ) جس دن ] يُنَادِ الْمُنَادِ پکارے گا پکارنے والا ] مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ [ایک قریب والی جگہ سے ]



 (آیت ۔ 41) یناد دراصل باب مفاعلہ کا مضارع ینادی ہے۔ یہاں اس کی یا گری ہوئی ہے۔ اس کا اسم الفاعل مناد یہاں اس کے فاعل کے طور پر آیا ہے۔ اس پر لام تعریف داخل ہوا تو تنوین ختم ہوگئی ۔

يَّوْمَ يَسْمَعُوْنَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوْجِ    42؀
يَّوْمَ يَسْمَعُوْنَ [جس دن وہ لوگ سنیں گے ] الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۭ [ چنگھاڑ کو حق کے ساتھ ] ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوْجِ [ یہ نکلنے کا دن ہوگا ]

اِنَّا نَحْنُ نُـحْيٖ وَنُمِيْتُ وَاِلَيْنَا الْمَصِيْرُ      43؀ۙ
اِنَّا نَحْنُ نُـحْيٖ [ بیشک ہم ہی زندگی دیتے ہیں ] وَنُمِيْتُ [ اور ہم (ہی ) موت دیتے ہیں ] وَاِلَيْنَا الْمَصِيْرُ [ اور ہماری طرف ہی لوٹنا ہے ]

يَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۭ ذٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيْرٌ      44؀
يَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ [ جس دن پھٹ پڑے گی زمین ] عَنْهُمْ [ لوگوں (کے اوپر ) سے ] سِرَاعًا ۭ [ (تو لوگ نکلیں گے ) باہم سبقت کرتے ہوئے ] ذٰلِكَ حَشْرٌ [ یہ ایک ایسا اکٹھا کرنا ہے جو ] عَلَيْنَا يَسِيْرٌ [ہم پر آسان ہے ]



 (آیت ۔ 44) تشقق دراصل باب تفعل کے مضارع میں واحد مؤنث غائب کا صیغہ تتشقق ہے جس کی ایک تا گری ہوئی ہے اور الارض اس کا فاعل ہے ۔

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ۣ فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ      45؀ۧ
نَحْنُ اَعْلَمُ [ ہم سب سے زیادہ جاننے والے ہیں ] بِمَا [ اس (بکواس ) کو جو ] يَقُوْلُوْنَ [ یہ لوگ (قیامت کے بارے میں) کہتے ہیں ] وَمَآ اَنْتَ [ اور آپ نہیں ہیں (بات منوانے کے لیے ) ] عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ۣ [ ان پر جبر کرنے والے ] فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ [ تو آپ یاد دہانی کراتے رہیں قرآن کے ذریعہ ] مَنْ يَّخَافُ [ اس کو جو ڈرتا ہے ] وَعِيْدِ [ میری دھمکی سے ]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ          ۝

وَالذّٰرِيٰتِ ذَرْوًا      Ǻ۝ۙ
وَالذّٰرِيٰتِ [ قسم ہے دھواں اڑانے والیوں (ہواؤں ) کی ] ذَرْوًا [ جیسا اڑانے کا حق ہے ]



ترکیب : (آیات ۔ 1 تا 4) ۔ الحملت ۔ الجریت اور المقسمت ۔ یہ سب واو قسمیہ پر عطف ہونے کی وجہ سے حالت جر میں ہیں ۔ الجریت اسم الفاعل جار کی مونث جاریۃ کی جمع ہے ۔ جس کے لغوی معنی ہیں جاری ہونے والیاں ، پھر یہ کشتی کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں پر اس کا ترجمہ اگر ’’ کشتیاں ‘‘ کیا جائے تو یسرا بےمعنی ہوجائے گا ، اس لیے یہاں اس کا لغوی ترجمہ کرنا بہتر ہے۔

فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا      Ą۝ۙ
فَالْحٰمِلٰتِ [ پھر اٹھانے والیوں کی ] وِقْرًا [ بوجھ (بادل ) کو ]

فَالْجٰرِيٰتِ يُسْرًا     Ǽ۝ۙ
فَالْجٰرِيٰتِ [ پھر چلنے والیوں کی ] يُسْرًا [نرمی ہوتے ہوئے]

فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا      Ć۝ۙ
فَالْمُقَسِّمٰتِ [ پھر تقسیم کرنے والیوں کی ] اَمْرًا [ ایک حکم کو ]

اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ       Ĉ۝ۙ
اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] تُوْعَدُوْنَ [ تم لوگوں سے وعدہ کیا جاتا ہے ] لَصَادِقٌ [ (وہ) یقینا سچ ہونے والا ہے ]

وَّاِنَّ الدِّيْنَ لَوَاقِــعٌ      Č۝ۭ
وَّاِنَّ الدِّيْنَ [ اور بیشک بدلہ ] لَوَاقِــعٌ [یقینا واقع ہونے والا ہے ]

وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْحُبُكِ        Ċ۝ۙ
وَالسَّمَاۗءِ [قسم ہے آسمان کی ] ذَاتِ الْحُبُكِ [ جو راستوں والا ہے ]



ح ب ک: (ن) حبکا ۔ مضبوط کرنا ، جولائے کا کپڑے کو عمدہ بننا ۔ حبیک فعیل کے وزن پر صفت ہے ۔ اسم المفعول کے معنی میں ۔ مضبوط کیا ہوا ۔ بنا ہوا۔ حبیکۃ ۔ ج: حبک ۔ حبیک کا مؤنث ہے۔ ریت کے ٹیلے کاراستہ ۔ ستاروں کے درمیان کاراستہ ۔ زیرمطالعہ آیت ۔7۔

اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ       Ď۝ۙ
اِنَّكُمْ [ یقیناتم لوگ ] لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ [ لازما ایک اختلاف کرنے والی بات میں ہو ]

يُّؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ اُفِكَ      ۝ۭ
يُّؤْفَكُ [ پھیرا جاتا ہے ] عَنْهُ [ اس (دین ) سے] مَنْ [ اس کو جو ] اُفِكَ [ ضعیف العقل ہوا]



 (آیت ۔ 9) عنہ میں ہ کی ضمیر قول مختلف کے لیے نہیں ہے ۔ اگر اس کے لیے ہوتی تو یؤفک بہ آتا ۔ ضمیر کے ساتھ عن کا صلہ بتا رہا ہے کہ ضمیر اس کے لیے ہے جس کے بارے میں قول یعنی رائے مختلف ہے ، اور وہ الدین ہے۔

قُتِلَ الْخَــرّٰصُوْنَ       10۝ۙ
قُتِلَ الْخَــرّٰصُوْنَ [ مارے جائیں جھوٹ اڑانے والے]



 (آیت ۔ 10) قتل یہاں خبر یہ نہیں بلکہ دعائیہ ہے ۔ یہ ہم بتا چکے ہیں کہ دعا کی بعض صورتوں میں عربی میں فعل امر کے بجائے ماضی یا مضارع استعمال ہوتا ہے ۔ (دیکھیں آیت ۔ 2:72، نوٹ ۔2) ۔

الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ غَمْرَةٍ سَاهُوْنَ      11۝ۙ
الَّذِيْنَ هُمْ [ وہ لوگ کہ وہی ] فِيْ غَمْرَةٍ [ مدہوشی میں ] سَاهُوْنَ [ غافل ہونے والے ہیں ]



س ھ و : (ن) سھوا ۔ دل کا دوسری طرف پھر جانا ۔ غافل ہونا ، بھولنا ، چوک جانا ۔ ساھ ۔ فاعل کے وزن پر صفت ہے ۔ بھولنے والا ۔ غافل ۔ زیر مطالعہ آیت 11۔

يَسْـَٔـلُوْنَ اَيَّانَ يَوْمُ الدِّيْنِ       12۝ۭ
يَسْـَٔـلُوْنَ اَيَّانَ [ پوچھتے ہیں کب ہے] يَوْمُ الدِّيْنِ [ بدلے کا دن ]

يَوْمَ هُمْ عَلَي النَّارِ يُفْتَنُوْنَ      13؀
يَوْمَ هُمْ عَلَي النَّارِ [ جس دن وہ لوگ آگ پر] يُفْتَنُوْنَ [ عذاب دیئے جائیں گے]

ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ ۭ ھٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ       14؀
ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ ۭ [ تم لوگ چکھو اپنے عذاب کو ] ھٰذَا الَّذِيْ [ یہ وہ ہے] كُنْتُمْ بِهٖ [ تم لوگ جس کی ] تَسْتَعْجِلُوْنَ [ جلدی مچاتے تھے]



نوٹ۔1: پچھلی سورہ (ق) میں ان لوگوں کو جواب دیا گیا ہے جو قرآن کے اس دعوے کو بعید از امکان قرار دیتے تھے کہ لوگ مرنے کے بعد از سر نو زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے ۔ اس سورہ میں ایک قدم اور آگے بڑھ کر قرآن کے عذاب کے وعدے (دھمکی ) کو بھی ثابت کیا گیا ہے اور جزاء وسزا (بدلہ ) کو بھی ۔ استدلال کی بنیاد آفاق وانفس کے دلائل پر ہے۔ (تدبر قرآن )

یہاں جن مظاہر کائنات کی قسم کھائی ہے وہ یہ ہے کہ غبار اڑانے والی یعنی تیز وتند وہوائیں جب چلتی ہیں تو بادلوں کو لے کر چلتی ہیں۔ پھر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جہاں جتنا حکم ہوتا ہے، پانی تقسیم کرتی ہیں ۔ قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ عذاب کا وعدہ اور جزاء وسزا یقینی ہے ۔ اس قسم کا مطلب یہ ہے کہ جس نظم اور باقاعدگی کے ساتھ بارش کا یہ نظام تمہاری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے وہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ دنیا کوئی بےمقصد اور بےمعنی گھروندا نہیں ہے بلکہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے جس میں ہرکام کسی مقصد اور کسی مصلحت کے لیے ہورہا ہے ۔ اس نظام میں یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ انسان جیسی باشعور اور تمیز وتصرف کے اختیار والی مخلوق کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے اور اس سے کبھی کوئی باز پرس نہ ہو۔

جزاء وسزا کے تصور میں جس طرح بعث بعد الموت کا تصور از خود شامل ہے ، اسی طرح جزاء وسزا کی دلیل کے طور پر جس نظام کائنات کو بطور گواہ پیش کیا گیا ہے اسی طرح بعث بعد الموت کی دلیل بھی اس نظام میں از خود شامل ہے ۔

سورج کی شعاعیں روئے زمین کے ان تمام ذخائر آب پر اثر انداز ہوتی ہیں جن تک ان کی حرارت پہنچتی ہے ۔ اس عمل سے پانی کے بےحدوحساب قطرے اڑ جاتے ہیں اور اپنے مخزن میں باقی نہیں رہتے ۔ مگر وہ فنا نہیں ہوجاتے بلکہ بھاپ بن کر ایک ایک قطرہ ہوا میں محفوظ رہتا ہے ۔ پھر جب خدا کا حکم ہوتا ہے تو یہی ہوا ان قطروں کی بھاپ کو سمیٹ لاتی ہے، اس کو کثیف بادلوں کی شکل میں جمع کرتی ہے ، ان بادلوں کو لے کر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل جاتی ہے اور خداکی طرف سے جو وقت مقرر ہے ٹھیک اسی وقت ایک ایک قطرے کو اسی شکل میں جس میں وہ پہلے تھا زمین پر واپس پہنچا دیتی ہے۔ یہ منظر جو آئے دن انسان کی آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ مرے ہوئے انسان کے اجزاء جسم اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر جمع ہوسکتے ہیں اور انسان کو اسی شکل میں پھر اٹھا کر کھڑا کیا جا سکتاہے جس میں وہ پہلے تھا ۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ)

نوٹ۔2: یہ ہم پڑھ چکے ہیں کہ مفعول کے ساتھ ما کا استعمال اسے غیر معین کرتا ہے ، جیسے مثلا ما کا مطلب ہے کوئی سی بھی مثال ۔ (دیکھیں آیت ۔2: 26، نوٹ ۔1) اسی طرح تمیز کے ساتھ بھی ما کا استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے قلیلا ما کا مطلب ہے بہت ہی تھوڑا ۔ گذشتہ متعدد آیات میں ہم نے اسی لحاظ سے ترجمہ کیا ہے، جیسے الاعراف کی آیات ۔ 3 اور ۔10۔ وغیرہ ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 17 میں گنجائش ہے کہ قلیلا من الیل ما میں ما کو قلیلا سے متعلق مانا جائے ۔ ایسی صورت میں آیت کا مطلب ہوجاتا ہے کہ رات میں بہت ہی تھوڑا سا سوتے تھے لیکن یہ مفہوم سورۃ المزمل سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ وہاں ہدایت ہے کہ رات میں قیام کرو سوائے تھوڑی سی (قلیلا) رات کے۔ اس کے آگے قلیلا کی وضاحت ہے کہ آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ ۔ اردو محاورہ میں اس کو یوں سمجھیں کہ لگ بھگ آدھی رات قیام کے لیے اور لگ بھگ آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ ۔ اردو محاروہ میں اس کو یوں سمجھیں کہ لگ بھگ آدھی رات قیام کے لیے اور لگ بھگ آدھی رات سونے کے لیے پسندیدہ ہے یہ مفہوم قلیلا ما سے نہیں بلکہ قلیلا سے ادا ہوتا ہے ۔ اس لیے اس آیت میں ہم نے ما کو زائدہ ماننے کو ترجیح دی ہے ۔

اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ      15؀ۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ [ یقینا پرہیزگار لوگ ] فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ [ باغوں اور چشموں میں ہوں گے ]

اٰخِذِيْنَ مَآ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِيْنَ         16؀ۭ
اٰخِذِيْنَ [ لینے والے ہوتے ہوئے] مَآ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ ۭ [ اس کو جو دے گا ان کو ان کا رب ] اِنَّهُمْ كَانُوْا [ بیشک یہ لوگ تھے ] قَبْلَ ذٰلِكَ [ اس سے پہلے ] مُحْسِنِيْنَ [ حسن دینے والے (نیکی کو ) ]

كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ     17؀
كَانُوْا [یہ لوگ ] قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا [ رات میں سے تھوڑا سا ] يَهْجَعُوْنَ [ سویا کرتے تھے ]



ھ ج ع : (ف) ھجوعا ۔ رات کو سونا۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 17۔



 (آیت ۔ 17) اس آیت کی مختلف ترکیبیں کی گئی ہیں ۔ سادہ اور عام فہم ترکیب یہ ہے کہ کانوا یھجعون کو ماضی استمراری مانا جائے ۔ ایسی صورت میں مازائدہ ہوگا اور اس کے کوئی معنی نہیں ہوں گے ۔

وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ      18؀
وَبِالْاَسْحَارِ [ اور صبح کے تڑکوں میں ] هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ [ وہ لوگ مغفرت مانگتے تھے]



نوٹ۔3: آیت نمبر۔18۔ میں ان کی شب بیداری اور عبادت کی غایت بیان ہوئی ہے کہ ان کا آخری کام یہ ہوتا ہے کہ سحر کیوقت اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ اس بات کی توقع نہیں رکھتے کہ اس شب بیداری کے صلہ میں ان کو حضور وشہود کا کوئی بڑامقام حاصل ہوگا ۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں عبادت اور ریاضت کا مقصود دوسرے مذاہب سے بالکل مختلف ہے۔ دوسرے مذاہب میں عبادت وریاضت کا اصل مقصود کشف ، مشاہدہ ، تجلی ذات ، ذات خداوندی میں انضمام اور اس قبیل کی دوسری چیزیں ہیں، جوگی، سنیاسی اور راہب جو ریاضتیں کرتے ہیں ان سے ان کے پیش نظر یہی چیزیں ہوتی ہیں ۔ لیکن اسلام میں ریاضت وعبادت کا اصل مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی کی طلب ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز اگر عبادت کے مقصد کی حیثیت حاصل کرلے تو اسلام میں اس عبادت کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ (تدبر قرآن )

وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ       19؀
وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ [ اور ان کے مالوں میں ] حَقٌّ [ حق ہوتا تھا ] لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ [مانگنے والوں کے لیے اور محروم لوگوں کے لیے ]

وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ      22؀
وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ [ اور آسمانوں میں تمہارا رزق ] وَمَا [ اور وہ (بھی) ہے جس کا ] تُوْعَدُوْنَ [ تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ]

فَوَرَبِّ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ      23؀ۧ
فَوَرَبِّ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ [ تو زمین و آسمان کے رب کی قسم ہے ] اِنَّهٗ لَحَقٌّ [ کہ یہ (دین ) لازما حق ہے ] مِّثْلَ مَآ اَنَّكُمْ [ اس کے مانند جیسے کہ تم لوگ ] تَنْطِقُوْنَ [ بولتے ہو ]

هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ الْمُكْرَمِيْنَ      24؀ۘ
هَلْ اَتٰىكَ [ کیا پہنچی آپ کے پاس ] حَدِيْثُ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ الْمُكْرَمِيْنَ [ ابراہیم کے عزت دیئے ہوئے مہمانوں کی بات ]



ترکیب: ’’ ض ی ف ‘ ‘ کی لغت میں ہم بتا چکے ہیں کہ ضیف کا لفظ مذکر ، مؤنث ، واحد جمع سب کے لیے آتا ہے اور اس کی جمع ضیوف بھی آتی ہے ۔ یہاں ضیف جمع کے مفہوم میں آیا ہے، اسی لیے اس کی صفت المکرمین جمع میں آئی ہے آگے افعال دخلوا اور قالوا جمع کے صیغے میں آئے ہیں ۔ قالوا کے آگے سلما کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ قالوا کا مفعول ہے یعنی بات (
Tenselndirect) میں جب کہ آگے ، قال کے بعد سلم حالت رفع میں ہے ۔ یہ بات (Direct Tense) میں ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔ 2:58، ترکیب )

اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ      25؀ۚ
اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْهِ [ جب وہ داخل ہوئے ان پر ] فَقَالُوْا سَلٰمًا ۭ [ تو انہوں نے کہا سلامتی ہو] قَالَ سَلٰمٌ ۚ [ انھوں (ابراہیم ) نے کہا سلامتی ہے] قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ [(تم ) اجنبی لوگ ہو]

فَرَاغَ اِلٰٓى اَهْلِهٖ فَجَاۗءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنٍ      26؀ۙ
فَرَاغَ اِلٰٓى اَهْلِهٖ [ پھر وہ آئے اپنے گھر والوں کی طرف ] فَجَاۗءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنٍ [ تو وہ لائے ایک فربہ بچھڑا (تلا ہوا )

فَقَرَّبَهٗٓ اِلَيْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ     27؀ۡ
فَقَرَّبَهٗٓ [ پھر انہوں نے قریب کیا اس کو ] اِلَيْهِمْ [ ان لوگوں کی طرف ] قَالَ [ انہوں نے کہا ] اَلَا تَاْكُلُوْنَ [ کیا تم لوگ کھاتے نہیں ہو ]

فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَـفْ ۭ وَبَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ      28؀
فَاَوْجَسَ [تو انہوں نے محسوس کیا ] مِنْهُمْ [ ان لوگوں سے ] خِيْفَةً ۭ [ ایک خوف ] قَالُوْا لَا تَخَـفْ ۭ [ ان لوگوں نے کہا آپ مت ڈریں ] وَبَشَّرُوْهُ [ اور ان لوگوں نے بشارت دی ان کو ] بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ [ ایک علم والے لڑکے کی ]

فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِيْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ       29؀
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ [ تو سامنے آئیں ان کی بیوی ] فِيْ صَرَّةٍ [ اونچی آواز میں (بولتی ہوئی ) ] فَصَكَّتْ وَجْهَهَا [ پھر انہوں نے پیٹا اپنے چہرے کو ] وَقَالَتْ [اور کہا ] عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ [ (کیا جنے گی ) بڑھیا بانجھ ]



ص ک ک: (ن) صکا ۔ اپنا سر پیٹنا ۔ کسی کو تھپڑ مارنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔29۔

قَالُوْا كَذٰلِكِ ۙ قَالَ رَبُّكِ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ      30؀
قَالُوْا كَذٰلِكِ ۙ [ ان لوگوں نے کہا اسی طرح ] قَالَ رَبُّكِ ۭ [ کہا آپ کے رب نے ] اِنَّهٗ هُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ [ بیشک وہ ہی حکمت والا علم والا ہے ]



نوٹ۔1: اس سورہ میں اب تک جو دعوے مذکور ہیں، اب (آیات 24 تا 46) ان کے حق میں تاریخی شہادت پیش کی جارہی ہے۔

قرآن کا یہ عام اصول ہے کہ وہ عقلی وانفسی دلائل کے پہلو بہ پہلو تاریخی شواہد بھی پیش کرتا ہے تاکہ مخاطب کے سامنے بات اچھی طرح مبرہن بھی ہوجائے اور اگر دلوں کے اندر اثر پذیری کی کچھ رمق ہو تو ان سے لوگ عبرت بھی حاصل کریں ۔ ان شہادتوں میں تین پہلو ملحوظ ہیں ایک یہ کہ جن قوموں کی ہلاکت بیان ہوئی ہے ان کی تباہی میں بادل اور ہوا کے تصرفات کو خاص دخل رہا ہے ۔ اس پہلو سے یہ واقعات گویا ان قسموں کی تصدیق ہیں جو اس سورہ کے شروع میں کھائی گئی ہیں، دوسرا یہ کہ ان میں جزا اور سزا دونوں پہلو نمایاں ہوئے ہیں ، جو فرشتے حضرت لوط علیہ السلام قوم کے لیے عذاب لے کر آئے تھے وہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اولاد کی بشارت لے کر آئے تھے، تیسرا یہ کہ اللہ کی گرفت بالکل بےپناہ ہے، کوئی قوم کتنی ہی زور آور ہو لیکن اللہ تعالیٰ جب اس کو فنا کرنا چاہتا ہے تو چشم زدن میں فنا کردیتا ہے ۔ (تدبر قرآن)