قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 

ستائیسواں پارہ 

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ      31؀
قَالَ [ انھوں (ابراہیم ) نے کہا ] فَمَا خَطْبُكُمْ [ پھر تمہارا کیا مدعا ہے ] اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ [ اے بھیجے ہوئے لوگو]

قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْـرِمِيْنَ      32؀ۙ
قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ [ ان لوگوں نے کہا بیشک ہم بھیجے گئے ہیں ] اِلٰى قَوْمٍ مُّجْـرِمِيْنَ [ ایک مجرم قوم کی طرف ]

لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ طِيْنٍ     33؀ۙ
لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ [ تاکہ ہم چھوڑیں ان پر ] حِجَارَةً [ کچھ ایسے پتھر جو ] مِّنْ طِيْنٍ [ گارے سے ہوں ]

مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِيْنَ     34؀
مُّسَوَّمَةً [ نشان لگے ہوئے] عِنْدَ رَبِّكَ [ آپ کے رب کے پاس ] لِلْمُسْرِفِيْنَ [ حد سے بڑھنے والوں کے لیے]



نوٹ۔ 2: آیت ۔ 34 اور 35 کے درمیان یہ قصہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس یہ فرشتے کس طرح حضرت لوط علیہ السلام کے ہاں پہنچے اور وہان ان کے اور قوم لوط کے درمیان کیا کچھ پیش آیا ۔ یہ تفصیلات سورہ ہود، الحجر ، اور العنکبوت میں گزر چکی ہیں، یہاں صرف آخری وقت کا ذکر ہے جب اس قوم پر عذاب نازل ہونے والا تھا ۔ (تفہیم القرآن ) فرشتوں کی بات آیت ۔ 34 پر ختم ہوگئی ہے۔ اب آگے کی سرگزشت خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کہ ان کے بعد اس نے انکے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ (تدبر قرآن ) ۔ آیت ۔ 37۔ میں نشانی سے مراد بحیرہ مردار ہے جس کا جنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کررہا ہے ۔ (تفہیم القرآن )



نوٹ ۔1: آیت 34 میں ہے کہ ایک وقت تک مزے کرلو ۔ اس بارے میں دو رائے ہیں کہ اس سے کون سی مہلت مراد ہے ۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ سورہ ہود کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ جب ثمود کے لوگوں نے اونٹنی کو ہلاک کردیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو خبردار کردیا گیا کہ تین دن تک مزے کرلو ، اس کے بعد تم پر عذاب آئے گا ۔ دوسری رائے یہ ہیکہ یہ بات حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی دعوت کے آغاز میں اپنی قوم سے فرمائی تھی کہ تم اگر توبہ وایمان کی راہ اختیار نہ کرو گے تو ایک خاص وقت تک ہی عیش کرنے کہ مہلت نصیب ہوسکے گی ۔ اس کے بعد تم پر عذاب آجائے گا ۔ دوسری رائے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ کیونکہ آگے کی آیت میں ہے کہ انھون نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی ، یہ بات بتاتی ہے کہ جس مہلت کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے وہ سرتابی سے پہلے دی گئی تھی اور انہوں نے سرتابی اس تنیبہ کے بعد کی ۔ اس کے برعکس سورہ ہود والی آیت میں جس مہلت کا ذکر کیا گیا ہے وہ ان کی طرف سے آخری اور فیصلہ کن سرتابی کا ارتکاب ہوجانے کے بعد دی گئی تھی ۔ (تفہیم القرآن )

فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ  35؀ۚ
فَاَخْرَجْنَا [ پھر ہم نے نکالا ] مَنْ كَانَ فِيْهَا [ اس کو جو تھا اس (بستی ) میں ]مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں میں سے]

فَمَا وَجَدْنَا فِيْهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ   36؀ۚ
فَمَا وَجَدْنَا فِيْهَا [ توہم نے نہیں پایا اس میں ] غَيْرَ بَيْتٍ [ سوائے ایک گھر کے] مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ [ فرمانبرداری کرنے والوں میں سے]

وَتَرَكْنَا فِيْهَآ اٰيَةً لِّلَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ   37؀ۭ
وَتَرَكْنَا فِيْهَآ اٰيَةً [ اور ہم نے چھوڑی اس میں ایک نشانی ] لِّلَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ [ ان لوگوں کے لیے جو خوف کھاتے ہیں ] الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ [ دردناک عذاب سے ]

وَفِيْ مُوْسٰٓى اِذْ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ   38؀
وَفِيْ مُوْسٰٓى [ اور (ہم نے چھوڑی ایک نشانی ) موسیٰ میں ] اِذْ اَرْسَلْنٰهُ [ جب ہم نے بھیجا ان کو ] اِلٰى فِرْعَوْنَ [ فرعون کی طرف ] بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ [ ایک واضح دلیل کے ساتھ ]

فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ   39؀
فَتَوَلّٰى [ تو اس (فرعون ) نے منہ موڑا ] بِرُكْنِهٖ [ اپنے سہاروں (لشکر) کے ساتھ ] وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ [ اور اس نے کہا ( یہ ) جادوگر ہے یا مجنون ہے ]

فَاَخَذْنٰهُ وَجُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِي الْيَمِّ وَهُوَ مُلِيْمٌ   40؀ۭ
فَاَخَذْنٰهُ وَجُنُوْدَهٗ [ پھر ہم نے پکڑا اس کو اور اس کے لشکروں کو] فَنَبَذْنٰهُمْ [ تو ہم نے پھینک دیا ان سب کو ] فِي الْيَمِّ [ پانی میں ] وَهُوَ مُلِيْمٌ [ اس حال میں کہ وہ خود کو ملامت کرنے والا تھا ]

وَفِيْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ    41؀ۚ
وَفِيْ عَادٍ [ اور (ایک نشانی ) عاد میں] اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ [ جب ہم نے بھیجا ان پر ] الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ [ بےبرکت سخت ہوا (آندھی ) کو ]

مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ  42؀ۭ
مَا تَذَرُ [ وہ نہیں چھوڑتی ] مِنْ شَيْءٍ [ کسی بھی چیز کو ] اَتَتْ عَلَيْهِ [ وہ پہنچی جس پر ] اِلَّا [ سوائے اس کے کہ ] جَعَلَتْهُ [ وہ کردیتی اس کو ] كَالرَّمِيْمِ [ بوسیدہ چیز کی طرح ]

وَفِيْ ثَمُوْدَ اِذْ قِيْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِيْنٍ  43؀
وَفِيْ ثَمُوْدَ [اور (ایک نشانی ) ثمود میں ] اِذْ قِيْلَ لَهُمْ [ جب کہا گیا ان لوگوں سے ] تَمَتَّعُوْا [ تم لوگ فائدہ اٹھا لو ] حَتّٰى حِيْنٍ [ ایک وقت تک ]

فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ  44؀
فَعَتَوْا [ پھر انہوں نے سرتابی کی ] عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ [ اپنے رب کی حکم سے ] فَاَخَذَتْهُمُ [ پھر پکڑا ان کو ] الصّٰعِقَةُ [ آسمانی بجلی نے ] وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ [اس حال میں کہ وہ دیکھتے تھے ]

فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِيَامٍ وَّمَا كَانُوْا مُنْتَصِرِيْنَ  45؀ۙ
فَمَا اسْتَطَاعُوْا [ تو وہ لوگ قدرت نہیں رکھتے تھے ] مِنْ قِيَامٍ [ کسی طرح کھڑے ہونے کی ] وَّمَا كَانُوْا [ اور وہ لوگ نہیں تھے ] مُنْتَصِرِيْنَ [ بدلہ لینے والے ]

وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ   46؀ۧ
وَقَوْمَ نُوْحٍ [ اور (ہم نے ہلاک کیا ) نوح کی قوم کو ] مِّنْ قَبْلُ ۭ [ اس سے پہلے ] اِنَّهُمْ كَانُوْا [ یقینا وہ تھے] قَوْمًا فٰسِقِيْنَ [ایک نافرمانی کرنے والی قوم ]

وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ   47؀
وَالسَّمَاۗءَ [ اور (بغور دیکھ) آسمان کو ] بَنَيْنٰهَا [ ہم نے بنایا اس کو ] بِاَيْىدٍ [ قوت سے ] وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ [اور بیشک ہم یقینا کشادہ کرنے والے ہیں ]



ترکیب : (آیت ۔ 47) ۔ والسماء حالت نصب میں ہے ۔ اس کو مفعول مقدم ماننے کی گنجائش نہیں ہے ، کیونکہ فعل بنینا کے ساتھ ضمیر مفعولی ھا لگی ہوئی ہے ۔ اس لیے اس سے پہلے کسی فعل کو محذوف ماننا بہتر ہے۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ تنظر (بتکلف غور سے دیکھ ) کو محذوف مانا جائے ید (ہاتھ) کی جمع بھی اید آتی ہے۔ (دیکھیں آیت ۔ 2:66، مادہ ’’ ی دی ‘‘ ) جبکہ اید (مضبوطی ، قوت ) بھی حالت جر میں اید ہوجاتا ہے ۔ (دیکھیں آیت ۔ 2 : 87، مادہ ’’ ء دی ‘‘ ) اس فرق کو ظاہر کرنے ظاہر کرنے کے لیے یہاں اس کو دودندانوں سے لکھا جاتا ہے یعنی اید کے بجائے اید لکھتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ ید کی جمع نہیں ہے بلکہ اید حالت جز میں ہے (آیت ۔ 59) یہاں ذنوب نہیں بلکہ ذنوب آیا ہے جومبالغہ کے وزن فعول پر ہے ۔ (دیکھیں آیت 3:11، مادہ ’’ ذن ب ‘‘ ) فلایستعجلون میں نون کی کسرہ بتا رہی ہے کہ یہ نون وقایہ ہے اور لا یستعجلوا فعل نہی ہے۔



نوٹ۔ 1: آیت ۔ 47 ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کائنات کو ہم بس ایک بار بنا کر نہیں رہ گئے ہیں بلکہ ہم اس میں مسلسل توسیع کر رہے ہیں ۔ اور ہرآن میں ہماری تخلیق کے نئے نئے کرشمے رونما ہورہے ہیں ۔ ایسی زبر دست خلاق ہستی کو آخرتم اعادہ خلق سے عاجز کیوں سمجھے ہو ۔ (تفہیم القرآن ) آج کل کے سائنس دان (
expandind universe) کی بات کررہے ہیں اس آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ (حافظ احمد یار صاحب )

وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ   48؀
وَالْاَرْضَ [ اور (بغور دیکھ ) زمین کو ] فَرَشْنٰهَا [ ہم نے بچھایا اس کو ] فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ [ توہم کیا ہی اچھا بچھانے والے ہیں ]

وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ   49؀
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ [ اور ہر چیز میں سے] خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ [ ہم نے پیدا کیے جوڑے جوڑے ] لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ [شاید تم لوگ یاددہانی حاصل کرو ]



نوٹ۔ 2: آیت ۔49۔ آخرت کی بدیہی دلیل ہے ۔ تذکرون کے الفاظ سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز کا جوڑے جوڑے ہونا اس امر کی یاد دہانی کراتا ہے کہ جب اس دنیا کی ہر چیز جوڑا جوڑا ہے اور ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنی غایب کو پہنچتی ہے تو ضروری ہے کہ اس دنیا کا بھی جوڑا ہو ، تاکہ اس میں جو خلا نظر آتاہے وہ اس جوڑے کے ساتھ مل کر بھر جائے ، یہ جوڑا آخرت ہے ۔ آخرت کو مان لینے کے بعد یہ دنیا ایک بامقصد اور باحکمت چیز بن جاتی ہے اور آخرت کو نہ مانیئے تو ایک بالکل باطل اور عبث چیز ہوکر رہ جاتی ہے ۔ (تدبر قرآن )

فَفِرُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ ۭ اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ   50؀ۚ
فَفِرُّوْٓا [تو تم لوگ لپکو] اِلَى اللّٰهِ ۭ [ اللہ کی طرف ] اِنِّىْ لَكُمْ [ بیشک میں تمہارے لیے ] مِّنْهُ [ اس (کی طرف) سے ] نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ [ ایک واضح خبردار کرنے والا ہوں ]

وَلَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ۭ اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ   51؀ۚ
وَلَا تَجْعَلُوْا [ اور تم لوگ مت بناؤ ] مَعَ اللّٰهِ [ اللہ کے ساتھ ] اِلٰــهًا اٰخَرَ ۭ [ دوسرا الہ ] اِنِّىْ لَكُمْ [ بیشک میں تمہارے لیے] مِّنْهُ [ اس (کی طرف) سے ] نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ [ایک واضح خبردار کرنے والا ہوں ]

كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ   52؀ۚ
كَذٰلِكَ [اسی طرح ] مَآ اَتَى الَّذِيْنَ [ نہیں پہنچا ان کے پاس جو ] مِنْ قَبْلِهِمْ [ ان لوگوں سے پہلے تھے ] مِّنْ رَّسُوْلٍ [ کوئی بھی رسول ] اِلَّا قَالُوْا [مگر (یہ کہ) ان لوگوں نے کہا ] سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ [جادوگر ہے یا مجنون ہے ]

اَتَوَاصَوْا بِهٖ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ   53؀ۚ
اَتَوَاصَوْا [ کیا وہ ایک دوسرے کو وصیت کرگئے ] بِهٖ ۚ [ اس کی ] بَلْ هُمْ [ بلکہ وہ لوگ ] قَوْمٌ طَاغُوْنَ [ ایک سرکشی کرنے والی قوم تھے ]

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ  54؀ڭ
فَتَوَلَّ [پھر آپ بےرخی برتیں ] عَنْهُمْ [ ان لوگوں سے ] فَمَآ اَنْتَ [ تو آپ نہیں ہوں گے ] بِمَلُوْمٍ [ ملامت کیے ہوئے]



نوٹ ۔ 3 آیت ۔ 54۔ میں دین کی تبلیغ کا ایک قاعدہ بیان کی گیا ہے ۔ اس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ ایک داعی جب کسی شخص کے سامنے معقول دلائل کے ساتھ اپنی دعوت صاف صاف پیش کردے اور اس کے شبہات ، اعتراضات اور دلائل کا جواب بھی دے دے تو حق واضح کرنے کا جو فرض اس کے ذمہ تھا اس سے وہ سبکدوش ہوجاتا ہے ۔ وہ شخص نہیں مانتا تو نہ مانے ۔ اب اس کی طرف التفات نہ کرنے پر داعی کو یہ الزام نہیں دیا جاسکتا کہ تم نے ایک شخص کو گمراہی میں مبتلا رہنے دیا ، کیونکہ اب اپنی گمراہی کا وہ شخص خود ذمہ دار ہے ۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک داعی جب سمجھانے کا حق ادا کرچکتاہے اور ان کے اندر جھگڑالو پن کے آثار دیکھ کر ان سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے تو وہ اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور اس پر الزام رکھتے ہیں کہ ہم آپ سے بات سمجھنے کے لیے بحث کرنا چاہتا ہیں اور آپ ہماری طرف التفات نہیں کرتے ۔ حالانکہ ان کا مقصد بات کو سمجھنا نہیں بلکہ داعی کو بحث میں الجھا کر اس کا وقت ضائع کرنا ہوتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں فرما دیا کہ ایسے لوگوں کی طرف التفات نہ کرو اور ان سے بےالتفاتی کرنے پر تمہیں کوئی ملامت نہیں کی جا سکتی ۔

مَآ اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ  57؀
مَآ اُرِيْدُ مِنْهُمْ [ میں نہیں چاہتا ان سے ] مِّنْ رِّزْقٍ [ کوئی بھی رزق ] وَّمَآ اُرِيْدُ [ اور میں نہیں چاہتا ] اَنْ يُّطْعِمُوْنِ [کہ وہ کھلائیں مجھ کو ]

اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ   58؀
اِنَّ اللّٰهَ [ یقینا اللہ ] هُوَ الرَّزَّاقُ [ ہی مسلسل رزق دینے والا ہے] ذُو الْقُوَّةِ [ قوت والا ہے] الْمَتِيْنُ [ مضبوط ہے ]

فَاِنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِهِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُوْنِ   59؀
فَاِنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا [ تو بیشک ان کے لیے جنھوں نے ظلم کیا ] ذَنُوْبًا [ ایک بھیانک انجام ہے] مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِهِمْ [ ان کے ساتھیوں کے بیانک انجام کی مانند ] فَلَا يَسْتَعْجِلُوْنِ [ پس چاہیے کہ یہ لوگ جلدی نہ مانگیں مجھ سے]

فَوَيْلٌ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ يَّوْمِهِمُ الَّذِيْ يُوْعَدُوْنَ   60؀ۧ
فَوَيْلٌ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ تو تباہی ہے ان کے لیے جنھوں نے انکار کیا ] مِنْ يَّوْمِهِمُ الَّذِيْ [ ان کے اس دن سے جس کا ] يُوْعَدُوْنَ [ ان کو وعدہ دیا جاتا ہے ]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَالطُّوْرِ   Ǻ۝ۙ
وَالطُّوْرِ [ قسم ہے طور کی ]



ترکیب: آیات ۔ 1 تا 6 تک جو قسمیں آئی ہیں ان کی ترجمہ کی دوصورتیں ہیں اول یہ کہ ان میں ہر واو کو قسمیہ مانیں ۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا قسم ہے طور کی ۔ قسم ہے ایک لکھی ہوئی کتاب کی۔ اسی طرح آخر تک ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صرف پہلے واو کو قسمیہ مانیں اور بعد میں آنے والے تمام واو کو عاطفہ مانیں ۔ ان اسماء کو حالت جر میں ہونے کی وجہ سے پہلے واو القسمیہ پر عطف مانے جائیں ۔ ایسی صورت میں ترجمہ ہوگا قسم ہے طور کی اور قسم ہے ایک کھلی کتاب کی ۔ اسی طرح آخر تک دونوں ترجمے درست مانے جائیں گے ۔ کتب مسطور نکرہ مخصوصہ ہے اور فی رق منشور اس کی خصوصیت ہے۔

وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ   Ą۝ۙ
وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ [ اور ایک ایسی لکھی ہوئی کتاب کی قسم ہے جو ]

فِيْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ Ǽ۝ۙ
فِيْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ [ ایک پھیلائی ہوئی پتلی چیز میں ہے]



رق ق : (ض) رقۃ ۔ پتلا ہونا، نرم ہونا ۔ رق پتلی چیز ، پتلا کاغذ ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 3۔

وَّالْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِ Ć۝ۙ
وَّالْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِ [ اور قسم ہے اس آباد کئے ہوئے گھر کی ]

وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ   Ĉ۝ۙ
وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ [ اور قسم ہے اس بلند کی ہوئی چھت کی ]

وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ   Č۝ۙ
وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ [ اور قسم ہے اس جوش دیئے ہوئے سمندر کی ]

اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ   Ċ۝ۙ
اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ [ بیشک آپ کے رب کا عذاب ] لَوَاقِعٌ [ یقینا وقوع پذیر ہونے والا ہے ]

مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ   Ď۝ۙ
مَّا لَهٗ [ نہیں ہے اس کے لیے] مِنْ دَافِعٍ [ کوئی بھی دفع کرنے والا ]

يَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ مَوْرًا   ۝ۙ
يَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ [ جس دن لہریں لے گا آسمان ] مَوْرًا [ جیسے لہریں لیتے ہیں ]



م و ر : (ن) مورا کسی چیز کا تیزی سے ہلنا ۔ کپکپانا۔ ڈھاٹھیں مارنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 9۔

وَّتَسِيْرُ الْجِبَالُ سَيْرًا   10۝ۭ
وَّتَسِيْرُ [ اور چلیں گے ] الْجِبَالُ [ پہاڑ ] سَيْرًا [ جیسے چلتے ہیں ]

فَوَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ   11۝ۙ
فَوَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ [ پس بربادی ہے اس دن ] لِّلْمُكَذِّبِيْنَ [ جھٹلانے والوں کے لیے]

الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ خَوْضٍ يَّلْعَبُوْنَ   12۝ۘ
الَّذِيْنَ هُمْ [ یہ وہ لوگ ہیں جو ] فِيْ خَوْضٍ [ بےپر کی اڑانے میں ] يَّلْعَبُوْنَ [ کھیلتے ہیں ]

يَوْمَ يُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا   13؀ۭ
يَوْمَ يُدَعُّوْنَ [ جس دن وہ لوگ دھکیلے جائیں گے ] اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ [ جہنم کی آگ کی طرف ] دَعًّا [جیسے دھکیلے جاتے ہیں ]



دع ع : دعا ۔ سختی سے ہٹانا ۔ دھکا دینا زیر مطالعہ آیت ۔ 13۔

هٰذِهِ النَّارُ الَّتِيْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ   14؀
هٰذِهِ النَّارُ [ یہ ہے وہ آگ ] الَّتِيْ [ و ہ ] كُنْتُمْ بِهَا [ تم لوگ جس کو ] تُكَذِّبُوْنَ [جھٹلایا کرتے تھے]



 (آیت ۔ 14) النار پر لام تعریف ہے اور یہ ھذہ کی خبر معرفہ ہے جبکہ التی سے تکذبون تک پورا جملہ النار کی صفت ہے ۔

اَفَسِحْرٌ ھٰذَآ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ   15؀ۚ
اَفَسِحْرٌ ھٰذَآ [ تو کیا جادو ہے یہ ] اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ [ یا تم لوگ بصیرت سے کام نہیں لیتے]

اِصْلَوْهَا فَاصْبِرُوْٓا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا ۚ سَوَاۗءٌ عَلَيْكُمْ ۭ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ   16؀
اِصْلَوْهَا [ تم لوگ جا پڑو اس میں ] فَاصْبِرُوْٓا [ پھر (چاہئے ) صبر کرو] اَوْ لَا تَصْبِرُوْا ۚ [ یا صبر مت کرو] سَوَاۗءٌ عَلَيْكُمْ ۭ [ برابر ہے تم لوگوں پر ] اِنَّمَا تُجْزَوْنَ [ تم لوگوں کو تو بس بدلہ دیا جاتا ہے ] مَا [ وہ (ہی ) جو ] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [تم لوگ عمل کیا کرتے تھے]



نوٹ ۔1: سورہ ذاریات میں آخرت کے امکان اس کے وجود اور وقوع کے دلائل دیے جاچکے تھے ۔ اس لیے یہاں ان کا اعادہ نہیں کیا گیا ۔ البتہ آخرت کی شہادت دینے والے چند حقائق و آثار کی قسم کھا کر پورے زور کے ساتھ فرمایا کہ وہ یقینا واقع ہوکر رہے گی ۔ طور وہ جگہ ہے جہاں ایک دبی اور پسی ہوئی قوم کو اٹھانے اور ایک غالب وقاہر قوم کو گرانیکا فیصلہ کیا گیا ۔ اور یہ فیصلہ قانون طبیعی (
Laws Physical) کی بیناد پر نہیں بلکہ قانون اخلاقی Moral Law اور قانون مکافات عمل (Law of Ratribtion) کی بنیاد پر تھا اس لیے آخرت کے حق میں تاریخی استدلال کے طور پر بطور ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا (تفہیم القرآن)

نوٹ ۔2 ایک پھیلائی ہوئی پتلی چیز میں لکھی ہوئی کتاب سے شاید لوح محفوظ مراد ہویا لوگوں کا اعمالنامہ یا قرآن یا تورات یا عام کتب سماویہ مراد ہوں یہ سب احتمالات ہیں ۔ (شیخ الہند)

اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّنَعِيْمٍ   17؀ۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ [ بیشک تقوی اختیار کرنے والے ] فِيْ جَنّٰتٍ [ باغوں میں ] وَّنَعِيْمٍ [ اور ہمیشہ خوشحالی میں ہوں گے ]

فٰكِهِيْنَ بِمَآ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ ۚ وَوَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ   18؀
فٰكِهِيْنَ [ خوش ہونے والے ] بِمَآ [ اس پر جو ] اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ ۚ [ دیا ان کو ان کے رب نے ] وَوَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ [ اور بچایا ان کو ان کے رب نے ] عَذَابَ الْجَحِيْمِ [آگ کے عذاب سے ]

كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِيْۗــــًٔـــۢا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ     19؀ۙ
كُلُوْا وَاشْرَبُوْا [(کہا جائے گا ) تم لوگ کھاؤ اور پیو] هَنِيْۗــــًٔـــۢا [ خوشگوار ہوتے ہوئے ] بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [ بسبب اس کے جو تم لوگ عمل کیا کرتے تھے]

مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي سُرُرٍ مَّصْفُوْفَةٍ ۚ وَزَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِيْنٍ    20؀
مُتَّكِــــِٕيْنَ [ ٹیک لگانے والے ہوتے ہوئے] عَلٰي سُرُرٍ مَّصْفُوْفَةٍ ۚ [ قطار لگائے ہوئے تختوں پر ] وَزَوَّجْنٰهُمْ [ اور ہم جوڑے بنادیں گے ان کے] بِحُوْرٍ عِيْنٍ [ خوبصورت بڑی آنکھوں والیوں سے ]

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ    21؀
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا [ اور جو لوگ ایمان لائے ] وَاتَّبَعَتْهُمْ [ اور پیروی کی جن کی ] ذُرِّيَّــتُهُمْ [ان کی اولاد نے ] بِاِيْمَانٍ [ایمان کے ساتھ ] اَلْحَـقْنَا بِهِمْ [ ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ] ذُرِّيَّتَهُمْ [ ان کی اولاد کو ] وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ [ اور حق تلفی نہیں کریں گے ان کو ] مِّنْ عَمَلِهِمْ [ ان کے عمل میں سے ] مِّنْ شَيْءٍ ۭ [ ذرا سا بھی ] كُلُّ امْرِی [ ہر شخص ] بِمَا كَسَبَ [ بسبب اس کے جو اس نے کمائی کی ] رَهِيْنٌ [ گروی رکھا ہوا ہے ]



ء ل ت : (ض) التا ۔ کسی کے حق میں کمی کرنا ۔ گھٹانا (متعدی ) کسی چیز کا کم ہوجانا ۔ گھٹنا ۔ (لازم) ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 21۔



نوٹ ۔1: انسان کا کوئی لطف وسرور بھی بیوی بچوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔ اس لیے فرمایا کہ زوجنہم بحور عین یعنی اللہ تعالیٰ جنت میں یہ نعمت بھی اہل ایمان کے لیے مہیا فرمائے گا ۔ اس کے لیے الفاظ وہ استعمال فرمائے ہیں جن سے ہم اس کافی الجملہ تصور کرسکیں اس کی اصل حقیقت تو اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ۔ یہ آخرت میں ہی واضح ہوگی ۔ (تدبر قرآن )

نوٹ : آیت ۔21 کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے رسول اللہ
نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مؤمنین کی اولاد کو بھی ان کے بزرگ آباء کے درجے میں پہنچا دیں گے ۔ اگرچہ وہ عمل کے اعتبار سے اس درجہ کے مستحق نہ ہوں ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب کوئی شخص عرض کرے گا اے میرے پروردگار میں نے جو کچھ عمل کیا وہ اپنے لیے اور ان سب کے لیے کیا تھا ۔ تو حق تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوگا کہ انکو بھی اسی درجہ جنت میں ان کے ساتھ رکھا جائے ۔ ابن کثیر نے روایات مذکورہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ ان روایات سے یہ تو ثابت ہوا کہ آباء صالحین کی برکت سے ان کی اولاد کو فائدہ پہنچے گا ۔ اس کا دوسرا رخ کہ اولاد صالحین کی وجہ سے والدین کو نفع پہنچے یہ بھی حدیث سے ثابت ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کا درجہ جنت میں ان کے عمل کی مناسبت سے بہت اونچا کردیں گے ۔ تو وہ پوچھے گا کہ میرے پروردگار مجھے یہ رتبہ کہاں سے مل گیا تو جواب یہ دیا جائے گا کہ تمہاری اولاد نے تمہارے لیے استغفار اور دعا کی اس کا یہ اثر ہے۔ (معارف القرآن)

وَاَمْدَدْنٰهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَّلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُوْنَ   22؀
وَاَمْدَدْنٰهُمْ [اور ہم دراز کریں گے دنیا ان کو ] بِفَاكِهَةٍ وَّلَحْمٍ [ پھلوں اور گوشت سے] مِّمَّا [ اس میں سے جو ] يَشْتَهُوْنَ [ ان کا جی چاہے گا ]

يَتَنَازَعُوْنَ فِيْهَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِيْهَا وَلَا تَاْثِيْمٌ   23؀
يَتَنَازَعُوْنَ فِيْهَا [ چھینا جھپٹی کریں گے اس میں ] كَاْسًا [ ایک ایسے جام کی ] لَّا لَغْوٌ فِيْهَا [ کوئی بیکار بات نہ ہوگی جس میں ] وَلَا تَاْثِيْمٌ [ اور نہ کوئی الزام تراشی ]

وَيَطُوْفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ   24؀
وَيَطُوْفُ عَلَيْهِمْ [ اور گھومیں پھریں گے ان کے گرد ] غِلْمَانٌ لَّهُمْ [ ان کی خدمت گزار] كَاَنَّهُمْ [ جیسے کہ وہ ] لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ [ چھپائے ہوئے موتی ہوں ]



ترکیب : (آیت ۔ 24) ’’ ط وف ‘‘ ۔ کی لغت آیت نمبر ۔2: 125۔ میں گزر چکی ہے ۔ اس میں یہ اضافہ کرلیں کہ اس کے مفعول پر جب ب ؛کا صلہ آئے تو مطلب ہوتا ہے کسی جگہ یا مکان کے چاروں طرف چکر لگا نا یعنی طواف کرنا ۔ اور جب علی کا صلہ آئے تو مطلب ہوتا ہے کسی کے پاس یا کسی جگہ آنا جانا کرنا ۔ چکر لگانا ۔

وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ   25؀
وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ اور سامنے ہوگا ان کا کوئی ] عَلٰي بَعْضٍ [ کسی کے ] يَّتَسَاۗءَلُوْنَ [باہم پوچھتے ہوئے ]

قَالُوْٓا اِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِيْٓ اَهْلِنَا مُشْفِقِيْنَ   26؀
قَالُوْٓا اِنَّا كُنَّا [ وہ کہیں گے بیشک ہم تھے ] قَبْلُ [اس سے پہلے ] فِيْٓ اَهْلِنَا [ اپنے گھر والوں میں ] مُشْفِقِيْنَ [ ڈرنے والے]

فَذَكِّرْ فَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّلَا مَجْنُوْنٍ   29؀ۭ
فَذَكِّرْ [ تو آپ یاد دہانی کراتے رہیں ] فَمَآ اَنْتَ [ پھر آپ نہیں ہیں ] بِنِعْمَتِ رَبِّكَ [ اپنے رب کی نعمت (فضل ) کے سبب سے ] بِكَاهِنٍ [ کوئی کاہن ] وَّلَا مَجْنُوْنٍ [اور نہ کوئی مجنون ]



ک ھ ن : (ف) کھانۃ ،غیب کی خبریں بتانا ۔ (ظن وگمان سے) کاھن غیب کی خبریں بتانے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 29۔

اَمْ يَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ  30؀
اَمْ يَقُوْلُوْنَ [ یا یہ لوگ کہتے ہیں ] شَاعِرٌ [ (کہ یہ) ایک شاعر ہے] نَّتَرَبَّصُ بِهٖ [ ہم انتظار کرتے ہیں جس کے بارے میں ] رَيْبَ الْمَنُوْنِ [ گردش زمانہ کا ]

قُلْ تَرَبَّصُوْا فَاِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُتَرَبِّصِيْنَ   31؀ۭ
قُلْ [آپ کہیے ] تَرَبَّصُوْا [ تم لوگ انتظار کرو] فَاِنِّىْ مَعَكُمْ [تو میں (بھی ) تمہارے ساتھ ] مِّنَ الْمُتَرَبِّصِيْنَ [ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں ]

اَمْ تَاْمُرُهُمْ اَحْلَامُهُمْ بِھٰذَآ اَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ   32؀ۚ
اَمْ تَاْمُرُهُمْ [ یا حکم دیتی ہیں ان کو ] اَحْلَامُهُمْ [ ان کی عقلیں ] بِھٰذَآ [اس (حرکت ) کا ] اَمْ هُمْ [ یا یہ لوگ ] قَوْمٌ طَاغُوْنَ [ ایک سرکشی کرنے والی قوم ہیں ]

اَمْ يَقُوْلُوْنَ تَـقَوَّلَهٗ ۚ بَلْ لَّا يُؤْمِنُوْنَ   33؀ۚ
اَمْ يَقُوْلُوْنَ [ یا یہ لوگ کہتے ہیں ] تَـقَوَّلَهٗ ۚ [ اس نے گھڑ لیا اس کو ] بَلْ [ بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ ) ] لَّا يُؤْمِنُوْنَ [ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ]

فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِهٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ  34؀ۭ
فَلْيَاْتُوْا [ پس چاہیے کہ یہ لوگ لائیں ] بِحَدِيْثٍ [ کوئی بات ] مِّثْلِهٖٓ [ اس (قرآن ) کے جیسی ] اِنْ كَانُوْا [ اگر یہ لوگ ہیں ] صٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والے ]



نوٹ۔ 1: سب سے پہلے زیر مطالعہ آیت ۔34۔ میں نہ صرف قریش کو بلکہ تمام دنیا کے مفکرین کو یہ چیلنج دیا گیا کہ اگر تم قرآن کو انسانی کلام سمجھتے ہو تو اس پائے کا کوئی کلام لا کر دکھاؤ جسے کسی انسان نے تصنیف کیا ہو ۔ اس کے بعد تین مرتبہ مکہ میں اور آخری بار مدینہ میں اسے دہرایا گیا ۔ سورہ یونس ۔ 38، ھود ۔ 13 بنی اسرائیل ۔ 88، البقرہ ۔ 23۔ اس وقت سے آج تک کسی کی یہ جرءت نہیں ہوئی کہ قرآن کے مقابلے میں کسی انسانی تصنیف کو لے آئے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید عربی ادب کامکمل ترین اور بلند ترین نمونہ ہے ۔ پوری کتاب میں ایک لفظ اور ایک جملہ بھی معیار سے گرا ہوا نہیں ہے ۔ ایک ہی مضمون بار بار بیان ہوا ہے اور ہر مرتبہ پیرائیہ بیان نیا ہے جس سے تکرار کی بدنمائی کہیں پیدا نہیں ہوتی ۔ کلام اتنا مؤثر ہے کہ کوئی زبان داں اسے سن کر متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا حتی کہ منکر اور مخالف کی روح بھی وجد کرنے لگتی ہے ۔ چودہ سو برس گزرنے کے بعد بھی آج تک یہ کتاب اپنی زبان کے ادب کا سب سے اعلی نمونہ ہے ۔ عربی زبان کی کوئی کتاب اپنی ادبی قدروقیمت میں اس کے قریب بھی نہیں پہنچتی ۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ کتاب عربی زبان کو اس طرح پکڑ کر بیٹھ گئی ہے کہ چودہ صدیاں گزر جانے پربھی اس زبان کا معیار فصاحت وہی ہے جو اس کتاب نے قائم کردیا تھا ۔ حالانکہ اتنی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اتنی طویل مدت تک املاء انشاء محاورے ، قواعد ، زبان اور استعمال الفاظ میں ایک ہی شان پر باقی رہ گئی ہو ، یہ صرف قرآن کی طاقت ہے جس نے عربی زبان کو اپنی جگہ سے ہلنے نہ دیا ۔ اس کا ایک لفظ بھی متروک نہیں ہوا ۔ اس کا ہر محاورہ آج تک عربی ادب میں مستعمل ہے۔ اس کا ادب آج بھی عربی کا معیاری ادب ہے اور تحریر وتقریر میں آج بھی فصیح زبان وہی مانی جاتی ہے ۔ جوچودہ سو برس پہلے قرآن میں استعمال ہوئی تھی ۔ کی دنیا کی کسی زبان میں کوئی انسانی تصنیف اس شان کی ہے۔ (تفہیم القرآن )

اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ   35؀ۭ
اَمْ خُلِقُوْا [ یا یہ لوگ پیدا کیے گئے ] مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ [کسی چیز (نطفہ ) کے بغیر ] اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ [ یا یہ لوگ ہی پیدا کرنے والے ہیں ]

اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ   36؀ۭ
اَمْ خَلَقُوا [ یا انہوں نے پیدا کیا ] السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ[ آسمانوں اور زمین کو ] بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ [ بلکہ یہ یقین نہیں کرتے ]

اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ   37؀ۭ
اَمْ عِنْدَهُمْ [ یا ان کے پاس ] خَزَاۗىِٕنُ رَبِّكَ [ آپ کے رب کے خزانے ہیں ] اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ [ یا یہ لوگ (خزانوں کے ) داروغہ ہیں ]

اَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَّسْتَمِعُوْنَ فِيْهِ ۚ فَلْيَاْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ   38؀ۭ
اَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ [ یا انکے لیے کوئی ایسی سیڑھی ہے ] يَّسْتَمِعُوْنَ فِيْهِ ۚ [ یہ لوگ کان لگاتے ہیں جس میں ] فَلْيَاْتِ [ تو چاہیے کہ لائے ] مُسْتَمِعُهُمْ [ ان کا کان لگانے والا ] بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ [ کوئی واضح دلیل ]

اَمْ لَهُ الْبَنٰتُ وَلَكُمُ الْبَنُوْنَ   39؀ۭ
اَمْ لَهُ الْبَنٰتُ [ یا اس کے لیے بیٹیاں ہیں ] وَلَكُمُ الْبَنُوْنَ [ اور تم لوگوں کے لیے بیٹے ہیں ]

اَمْ تَسْـَٔــلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ   40؀ۭ
اَمْ تَسْـَٔــلُهُمْ [ یا آپ مانگتے ہیں ان سے ] اَجْرًا [ کوئی اجرت ] فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ [ تو یہ لوگ کسی تاوان سے ] مُّثْقَلُوْنَ [ لادے ہوئے ہیں ]

اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُوْنَ   41؀ۭ
اَمْ عِنْدَهُمُ [ یا ان کے پاس ] الْغَيْبُ [غیب ہے ] فَهُمْ يَكْتُبُوْنَ [ تو یہ لوگ لکھتے ہیں (اس کو ) ]

اَمْ يُرِيْدُوْنَ كَيْدًا ۭ فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا هُمُ الْمَكِيْدُوْنَ   42؀ۭ
اَمْ يُرِيْدُوْنَ [ یا یہ لوگ ارادہ کرتے ہیں ] كَيْدًا ۭ [کسی چالبازی کا ] فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا [ تو جن لوگوں نے انکار کیا ] هُمُ الْمَكِيْدُوْنَ [ وہی چالبازی کا نشانہ ہیں ]

اَمْ لَهُمْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ ۭ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ   43؀
اَمْ لَهُمْ اِلٰهٌ [ یا ان کے لیے کوئی الہ ہے ] غَيْرُ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے علاوہ ] سُبْحٰنَ اللّٰهِ [اللہ کی پاکیزگی ہے] عَمَّا يُشْرِكُوْنَ [ اس سے جو یہ لوگ شریک کرتے ہیں ]

وَاِنْ يَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِـطًا يَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ 44؀
وَاِنْ يَّرَوْا [ اور اگر وہ لوگ دیکھیں گے] كِسْفًا [ کسی ٹکڑے کو ] مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِـطًا [ آسمان سے گرنے والا ہوتے ہوئے] يَّقُوْلُوْا [تو کہیں گے] سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ [ (یہ ) تہہ بہ تہہ کیا ہوا بادل ہے ]

فَذَرْهُمْ حَتّٰى يُلٰقُوْا يَوْمَهُمُ الَّذِيْ فِيْهِ يُصْعَقُوْنَ   45؀ۙ
فَذَرْهُمْ [ تو آپ چھوڑیں ان کو ] حَتّٰى يُلٰقُوْا [ یہاں تک کہ وہ لوگ ملاقات کریں ] يَوْمَهُمُ الَّذِيْ [ اپنے اس دن سے ] فِيْهِ يُصْعَقُوْنَ [ جس میں ان پر بجلی گرائی جائے گی ]

يَوْمَ لَا يُغْنِيْ عَنْهُمْ كَيْدُهُمْ شَيْــــًٔا وَّلَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ   46؀ۭ
يَوْمَ لَا يُغْنِيْ عَنْهُمْ [ جس دن کام نہ آئے گی ان کے] كَيْدُهُمْ [ ان کی چالبازی ] شَيْــــًٔا [ ذرا سا بھی ] وَّلَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ [ اور نہ ان کی مدد کی جائے گی ]

وَاِنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ   47؀
وَاِنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا [ اور بیشک ان کے لیے جنھوں نے ظلم کیا ] عَذَابًا [ ایک عذاب ہے] دُوْنَ ذٰلِكَ [ اس کے علاوہ ] وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ [ اور ان کے اکثر ] لَا يَعْلَمُوْنَ [ جانتے نہیں ہیں ]



نوٹ۔1: آیت ۔47۔ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں وقتا فوقتا شخصی اور قومی مصیبتیں نازل کرکے ہم انھیں یاد دلاتے رہیں گے کہ اوپر کوئی بالاتر طاقت ان کی قسمتوں کے فیصلے کررہی ہے اور کوئی ان کے فیصلوں کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ لیکن جو لوگ جہالت میں مبتلا ہیں انہوں نے نہ پہلے کبھی ان واقعات سے سبق لیا ہے اور نہ آئندہ کبھی لیں گے ۔ وہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث کی ہر وہ تاویل کرتے ہیں جو حقیقت کو سمجھنے سے ان کو دور لے جائے اور کسی ایسی تاویل کو ان کا ذہن قبول نہیں کرتا جو ان کی دہریت یا شرک کی غلطی ان پر واضح کردے یہی بات رسول اللہ
نے ارشاد فرمائی کہ منافق جب بیمار پڑتا ہے اور پھر اچھا ہوتا ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جسے اس کے مالک نے باندھا تو اسے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں باندھا ہے اور جب کھول دیا تو وہ کچھ نہ سمجھا کہ کیوں کھول دیا ہے (تفہیم القرآن )

وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَـقُوْمُ 48؀ۙ
وَاصْبِرْ [ اور آپ ثابت قدم رہیں ] لِحُكْمِ رَبِّكَ [ اپنے رب کے حکم کے لیے ] فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا [ تو بیشک آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ] وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ [ اور آپ تسبیح کریں اپنے رب کی حمد کے ساتھ ] حِيْنَ تَـقُوْمُ [ جس وقت آپ کھڑے ہوتے ہیں ]

وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ 49؀ۧ
وَمِنَ الَّيْلِ [ اور رات میں سے ] فَسَبِّحْهُ [ پھر آپ تسبیح کریں اس کی ] وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ [اور ستاروں کے پیٹھ پھیرنے (ڈوبنے ) کے وقت]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰى    Ǻ۝ۙ
وَالنَّجْمِ [قسم ہے ستارے کی ] اِذَا هَوٰى [ جب وہ اترتا (ڈوبتا ) ہے ]



ترکیب : آیت ۔1۔ میں ھوی اور آیت ۔ 3 میں الھوی میں جو فرق ہے اس کو سمجھ لیں ۔ مادہ ’’ ھ و ی ‘‘ کی لغت آیت نمبر ۔2:87۔ میں دی ہوئی ہے ۔ اس حوالے سے نوٹ کریں کہ یہ مادہ جب باب ضرب سے آتا ہے تو فعل ماضی کا پہلی صیغہ ھوی بنتا ہے جو قاعدے کے مطابق تبدیل ہوکر ھوی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں وہ اترا۔ آیت زیر مطالعہ میں اذا کے ساتھ آیا ہے اس لیے معنی ہیں جب وہ اترتا ہے ۔ یہی مادہ جب باب سمع سے آتا ہے تو اس کے فعل ماضی کا پہلا صیغہ ھوی بنتا ہے اور یہ تبدیلی کے بغیر استعمال ہوتا ہے اس کا مصدر ھوی ہے جو قاعدے کے مطابق تبدیل ہوکر حالت رفع اور جر میں ھوی اور نصب میں ھوی استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے معنی ہیں پسند کرنا ۔ جی چاہنا ۔ اس مصدر پر جب لام تعریف داخل ہوتا ہے تو یہ ھوی سے الھوی ہوجاتا ہے ۔ اب اس پر مختلف قاعدے کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ تبدیل ہوکر الھوی استعمال ہوتا ہے ۔ ھوی اور الھوی میں تمیز لام تعریف کی وجہ سے آسانی سے ہوجاتی ہے کیونکہ لام تعریف فعل پر داخل نہیں ہوتا ۔



نوٹ۔1: سورۃ النجم پہلی سورت ہے جو رسول اللہ
نے مکہ میں مجمع عام میں تلاوت فرمائی اور یہ سب سے پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی اور رسول اللہ نے سجدہ تلاوت کیا ۔ وہاں پر موجود مسلمانوں بھی آپ کی اتباع میں سجدہ کیا اور جتنے کفار ومشرکین موجود تھے وہ سب بھی سجدہ میں گرگئے سوائے ایک شخص کے۔ (معارف القرآن )

نوٹ۔2: آیت ۔ 1۔2۔ کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو رسول اللہ
کسی غلط فہمی کی بناء پر راستہ سے بھٹکے اور نہ جان بوجھ کر بےراہ ہوئے جس طرح ستارے طلوع سے غروب تک ایک مقرر رفتار سے متعین راستہ پر چلے جاتے ہیں اسی طرح آفتاب نبوت بھی اللہ کے مقرر کیے ہوئے راستہ پر چلتاجارہا ہے ۔ انبیاء علیہم السلام آسمان نبوت کے ستارے ہیں جن کی روشنی سے دنیا کی رہنمائی ہوئی ہے اور جس طرح ستاروں کے ڈوبنے کے بعد آفتاب طلوع ہوتا ہے ایسے ہی تمام انبیاء کی تشریف آوری کے بعد آفتاب محمدی طلوع ہوا ۔ پس اگر قدرت نے ان ظاہری ستاروں کا نظام اس قدر محکم بنایا ہے کہ اس میں کسی طرح کے تنزلزل اور اختلال کی گنجائش نہیں تو ظاہر ہے کہ ان باطنی ستاروں اور روحانی آفتاب وماہتاب کا نظام کس قدر مضبوط ومحکم ہوگا جس سے ایک عالم کی ہدایت وسعادت وابستہ ہے (ترجمہ شیخ الہند )

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى  Ą۝ۚ
مَا ضَلَّ [ نہیں بھٹکے ] صَاحِبُكُمْ [ تمہارے ساتھی ] وَمَا غَوٰى [ اور نہ وہ بےراہ ہوئے]

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى   Ǽ۝ۭ
وَمَا يَنْطِقُ [اور وہ نہیں بولتے ] عَنِ الْهَوٰى [ جی چاہنے سے]



نوٹ ۔3: آیت ۔3۔ کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ
اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کی طرف منسوب کریں ، اس کا قطعا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ آپ جو کچھ فرماتے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں ۔ اس کا نام قرآن ہے۔ دوسری وہ کہ صرف معنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں اور رسول اللہ اس معنی کو اپنے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں ۔ اس کا نام حدیث اور سنت ہے۔ پھر حدیث میں جو مضمون اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے کبھی وہ کسی معاملہ کا واضح فیصلہ اور حکم ہوتا ہے ۔ جبکہ کبھی کوئی قاعدہ وکلیہ بتایا جاتا ہے جس سے احکام رسول اللہ اپنے اجتہاد سے نکالتے اور بیان کرتے ہیں جس میں غلطی کا امکان ہوتا ہے مگر رسول اللہ اور تمام انبیاء کی یہ خصوصیت ہے کہ اگر ان سے کوئی اجتہادی غلطی ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی اس کی اصلاح کردی جاتی ہے اور وہ اپنے غلط اجتہاد پر قائم نہیں رہ سکتے ۔ احادیث میں متعدد واقعات ایسے مذکور ہیں کہ آپ نے کوئی حکم دیا پھر بذریعہ وحی اس کی اصلاح کردی جاتی ہے اور وہ اپنے غلط اجتہاد پر قائم نہیں رہ سکتے۔ احادیث میں متعدد واقعات ایسے مذکور ہیں کہ آپ نے کوئی حکم دیا پھر بذریعہ وحی اس کو بدلا گیا چونکہ ایسے اجتہادی فیصلوں کا استخراج جس قاعدہ کلیہ سے کیا گیا تھا وہ اللہ کی طرف سے آئے تھے ، اس لیے ایسے احکام کو بھی وحی من اللہ کہا گیا ہے۔ (معارف القرآن )

اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى  Ć۝ۙ
اِنْ هُوَ [ نہیں ہے یہ (قرآن ) ] اِلَّا وَحْيٌ [ مگر ایک ایسی وحی جو ] يُّوْحٰى [ وحی کی جاتی ہے]

عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى   Ĉ۝ۙ
عَلَّمَهٗ [ تعلیم دی ان کو ] شَدِيْدُ الْقُوٰى [ قوتوں کے شدید ]

ذُوْ مِرَّةٍ ۭ فَاسْتَوٰى   Č۝ۙ
ذُوْ مِرَّةٍ ۭ [دائمی حالت والے نے] فَاسْتَوٰى [ پھر وہ (جبرئیل ) جم گئے]

وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى   Ċ۝ۭ
وَهُوَ [ اس حال میں کہ وہ ] بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى [ بلند ترین کنارے پر تھے]

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى   Ď۝ۙ
ثُمَّ دَنَا [ پھر وہ نزدیک ہوئے] فَتَدَلّٰى [ تو وہ جھکے ]

فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى   ۝ۚ
فَكَانَ [تو وہ تھے ] قَابَ قَوْسَيْنِ [ دو کمانوں کے فاصلے پر ] اَوْ اَدْنٰى [ یا (اس سے ) زیادہ نزدیک ]



ق و ب : (ن) قوبا ۔ زمین کو گول دائرے میں کھودنا ۔ قاب ۔ کمان کے ایک کونے سے درمیان میں پکڑے ۔۔ کا فاصلہ زیرمطالعہ آیت ۔9۔

ق و س : (س) قوسا کمر کا جھک جانا ۔ قوس ۔ کمان ۔ ہروہ چیز جو کمان کی شکل پر ہے جیسے محراب ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 9۔

فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى   10 ۝ۭ
فَاَوْحٰٓى [ تو اس ( اللہ ) نے وحی بھیجی (جبریل کے ذریعے )] اِلٰى عَبْدِهٖ [ اپنے بندے کی طرف ] مَآ [ وہ جو ] اَوْحٰى [ اس نے وحی کی ]

مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى   11 ؀
مَا كَذَبَ [ جھوٹ نہ جانا] الْفُؤَادُ [ دل نے ] مَا [ اس کو جو ] رَاٰى [ انھوں (رسول ) نے دیکھا ]

اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰي مَا يَرٰى   12؀
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ [ تو کیا تم لوگ جھگڑتے ہو ان سے ] عَلٰي مَا [ اس پر جو ] يَرٰى [ وہ دیکھتے ہیں ]

وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى   13۝ۙ
وَ [ اس حال میں کہ ] لَقَدْ رَاٰهُ [ یقینا وہ دیکھ چکے ہیں ان (جبرئیل کو] نَزْلَةً [ اترتے ہوئے ] اُخْرٰى [ ایک اور بار]

عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى 14؀
عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى [ رکنے کی جگہ کی بیری کے پاس ]

عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى   15؀ۭ
عِنْدَهَا [ جس کے پاس ] جَنَّةُ الْمَاْوٰى [ ٹھکانے کی جگہ کا باغ ہے ]