قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 

اٹھائیسواں پارہ 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ        ۝

قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا وَتَشْـتَكِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ڰ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ     Ǻ۝
[قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ: سن لی ہے اللہ نے][ قَوْلَ الَّتِيْ: اس خاتون کی بات جو][ تُجَادِلُكَ: حجت کرتی ہے آپؐ سے][ فِيْ زَوْجِهَا: اپنے جوے (شوہر کے بارے میں)][وَتَشْـتَكِيْٓ: اور وہ شکوہ کرتی ہے][ اِلَى اللّٰهِ: اللہ سے][وَاللّٰهُ يَسْمَعُ: اور اللہ سن رہا ہے][ تَحَاوُرَكُمَا: تم دونوں کے باہمی گفتگو کرنے کو][ان اللّٰهَ: یقینا اللہ][ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ: ہمیشہ سننے والا دیکھنے والا ہے]

اَلَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕــهِمْ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ ۭاِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا اڿ وَلَدْنَهُمْ ۭ وَاِنَّهُمْ لَيَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ   Ą۝
[الَّذِينَ: وہ لوگ جو ][يُظٰهِرُوْنَ: ماں کہہ بیٹھتے ہیں][ مِنْكُمْ: تم میں سے][ مِّنْ نِّسَاۗىِٕــهِمْ: اپنی عورتوں (بیویوں) میں سے (کسی کو)][ مَا هُنَّ : نہیں ہیں وہ خواتین][اُمَّهٰتِهِمْ: ان کی مائیں][ان اُمَّهٰتُهُمْ: نہیں ہیں ان کی مائیں][اِلَّا اڿ : سوائے ان کے جنھوں نے][وَلَدْنَهُمْ: جنا ان کو][ وَانهُمْ لَيَقُوْلُوْنَ: اور بیشک وہ لوگ یقینا کہتے ہیں][ مُنْكَرًا: ایک برائی][ مِّنَ الْقَوْلِ: بات میں سے][وَزُوْرًا: اور ایک جھوٹ][وَان اللّٰهَ: بیشک اللہ][ لَعَفُوٌّ: یقینا ہے انتہا درگزر کرنے والا][ غَفُوْرٌ: بےانتہا بخشنے والا ہے]

وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّـتَـمَاۗسَّا   ۭ ذٰلِكُمْ تُوْعَظُوْنَ بِهٖ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ   Ǽ۝
[وَالَّذِينَ يُظٰهِرُوْنَ: اور جو لوگ ماں کہہ بیٹھتے ہیں][ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ: اپنی عورتوں میں سے][ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ: پھر وہ دوبارہ کرتے ہیں][ لِمَا: وہ جس کے لیے][ قَالُوْا: انھوں نے کہا تھا][ فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ: تو ایک گردن کا آزاد کرنا ہے][ مِّنْ قَبْلِ ان: اس سے پہلے کہ][يَّـتماۗسَّا: وہ دونوں ایک دوسرے کو چھویں][ذٰلِكُمْ: یہ (وہ ہے)][ تُوْعَظُوْنَ: تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے][ بِهٖ : جس کے ذریعے سے][وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ: اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو][خَبِيْرٌ: ہمیشہ باخبر ہے]

 

نوٹ۔1: عرب میں بسا اوقات شوہر اور بیوی میں لڑائی ہوتی تو غصے میں شوہر کہہ دیتا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے ماں کی پیٹھ۔ آج کل بھی بہت سے نادان لوگ بیوی سے لڑ کر اس کو ماں، بہن، بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ہیں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی گویا اب اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جو اس کے لیے حرام ہیں۔ اسی فعل کا نام ظہار ہے۔ اہل عرب کے ہاں یہ طلاق سے بھی زیادہ شدید قطع تعلق ہو سکتی تھی مگر ظہار کے بعد رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔ (تفہیم القرآن ج 5، ص 340) ۔ ان آیات میں ظہار کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے وہ عرب جاہلیت کے اس رواج کو منسوخ کرتا ہے جس کی رو سے ظہارکا فعل نکاح کے رشتے کو توڑ دیتا تھا اور عورت شوہر کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی تھی۔ اسی طرح یہ حکم ان تمام رواجوں کو بھی منسوخ کرتا ہے جو ظہارکو بےمعنی اور بےاثر سمجھتے ہوں اور آدمی کے لیے اس بات کو جائز رکھتے ہوں کہ وہ بیوی کو محرمات سے تشبیہ دے کر بھی اس کے ساتھ حسب سابق میاں بیوی کا تعلق جاری رکھے۔ ان دونوں انتہائوں کے درمیان اسلامی قانون نے جو مؤقف اختیار کیا ہے وہ تین بنیادوں پر قائم ہے۔ ایک یہ کہ ظہار سے نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ عورت بدستور شوہر کی بیوی رہتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ظہار سے عورت وقتی طور پر شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے اور یہ کہ صرف کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کرسکتا ہے۔ (تفہیم القرآن ج 5، ص 345)

فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّتَمَـاۗسَّا ۚ فَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِـتِّيْنَ مِسْكِيْنًا ۭ ذٰلِكَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ     Ć۝
[فَمَنْ: پھر وہ جو][ لَمْ يَجِدْ: نہ پائے (گردن آزاد کرنے کو)][فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ: تو لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنا ہے (اس کے لیے)][مِنْ قَبْلِ ان: اس سے پہلے کہ][يَّتماۗسَّا : وہ دونوں ایک دوسرے کو چھویں][ فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ: پھر وہ جو (اس کی) طاقت نہیں رکھتا][فَاِطْعَامُ سِـتِّيْنَ مِسْكِيْنًا: تو (اس کے لیے) ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے][ذٰلِكَ: یہ (اس لیے)][ لِتُؤْمِنُوْا: تاکہ تم لوگ ایمان رکھو][ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ: اللہ پر ار اس کے رسول پر][ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ: اور یہ اللہ کی (مقرر کردہ ) حدیں ہیں][وَلِلْكٰفِرِيْنَ: اور (ان کا) انکار کرنے والوں کے لیے][عَذَابٌ اَلِيْمٌ: ایک دردناک عذاب ہے]

 

نوٹ۔2: یہاں ایک نہایت عملی مثال سے یہ سبق بھی لوگوں کو دیا گیا ہے کہ اگر کسی کو زندگی میں کوئی مشکل پیش آئے تو اس کو نہایت خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے عرض کرے۔ امید ہے کہ اس کی مشکل حل ہونے کی کوئی راہ اللہ تعالیٰ کھول دے گا۔ ل رہے وہ لوگ جو کسی مشکل کو بہانہ بنا کر اسلام کے خلاف پراپیگنڈے کی مہم شروع کر دیتے ہیں وہ درحقیقت اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ یاد رکھیں کہ وہ نامراد ہوں گے (تدبر قرآن۔ ج 8، ص 243) ۔ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا یعنی یہ شکوہ و مجادلہ چونکہ خاص اللہ تعالیٰ ہی سے تھا اس وجہ سے وہ مہربانی سے اس کو سنتا رہا۔ چنانچہ اس نے اپنی بندی کی مشکل حل کرنے کی راہ کھول دی۔ اس سے یہ بات نکلی کہ جو لوگ اپنی کوئی مشکل اپنے رب سے عرض کرتے ہیں وہ اطمینان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو توبہ اور شفقت سے سنتا ہے۔ وہ سمیع و بصیر ہے۔ اور جب وہ سنتا ہے اور ہر چیز کی قدرت بھی رکھتا ہے تو بندہ اس سے مایوس و بدگمان کیوں ہو۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھیے کہ دنیوی اور مادی مشکلات کی طرح روحانی اور عقلی الجھنوں سے نکلنے کی بھی۔ سب سے کامیاب راہ یہی ہے کہ آدمی اس کو اپنے رب کے آگے پیش کرے بسا اوقات کوئی ایسی علمی و عقلی مشکل پیش آجاتی ہے جس کا حل سمجھ نہیں آتا اور اس سے دہن کے معاملہ میں شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں آدمی اگر اپنی مشکل اپنے رب کے آگے پیش کرے اور اس سے ہدایت کا طالب ہو تو ان شاء اللہ اس کو شرحِ صدر حاصل ہو جائے گا بشرطیکہ آدمی صبر کے ساتھ اپنے رب سے استعانت کرتا رہے۔ طالبین حق کا طریقہ ہمیشہ یہی رہا ہے۔ لیکن جو جلد باز ہوتے ہیں وہ یہ راہ اختیار کرنے کے بجائے یا تو اپنے اوبام اور شکوک کو ہی دین بنا لیتے ہیں یا ان کو دین پر نکتہ چینی کا ذریعہ بنا کر اس کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دیتے ہیں۔ (تدبر قرآن ج 8، ص 248۔249)

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَاۗدُّوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ كُبِتُوْا كَـمَا كُبِتَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ     Ĉ۝ۚ
[ان الَّذِينَ يُحَاۗدُّوْنَ: بیشک جو لوگ مخالفت کرتے ہیں][اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ: اللہ اور اس کے رسول کی][ كُبِتُوْا: وہ نامراد کیے گئے][ كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ: جیسے کہ نامراد کیے گئے وہ لوگ جو][ مِنْ قَبْلِهِمْ: ان سے پہلے تھے][ وَقَدْ انزَلْنَآ: حالانکہ ہم اتار چکے تھے][ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : واضح نشانیاں][ وَلِلْكٰفِرِيْنَ: اور انکار کرنے الوں کے لیے][عَذَابٌ مُّهِيْنٌ: ایک ذلیل کرنے والا عذاب ہے]

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا     ۭ اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَنَسُوْهُ     ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ     Č۝ۧ
[يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ: جس دن اٹھائے گا ان کو اللہ][جَمِيْعًا: سب کے سب کو][فَيُنَبِئُهُمْ: پھر وہ جتا دے گا ان کو][بِمَا عَمِلُوْا: وہ جو انھوں نے عمل کیے][اَحْصٰىهُ اللّٰهُ : شمار پورا کیا اس کا اللہ نے][وَنَسُوْهُ: اور یہ لوگ بھول گئے اس کو][وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِ شَيْءٍ: اور اللہ ہر چیز پر ][ شَهِيْدٌ: گواہ ہے]

 

نوٹ۔1: عرب میں بسا اوقات شوہر اور بیوی میں لڑائی ہوتی تو غصے میں شوہر کہہ دیتا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے ماں کی پیٹھ۔ آج کل بھی بہت سے نادان لوگ بیوی سے لڑ کر اس کو ماں، بہن، بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ہیں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی گویا اب اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جو اس کے لیے حرام ہیں۔ اسی فعل کا نام ظہار ہے۔ اہل عرب کے ہاں یہ طلاق سے بھی زیادہ شدید قطع تعلق ہو سکتی تھی مگر ظہار کے بعد رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔ (تفہیم القرآن ج 5، ص 340) ۔ ان آیات میں ظہار کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے وہ عرب جاہلیت کے اس رواج کو منسوخ کرتا ہے جس کی رو سے ظہارکا فعل نکاح کے رشتے کو توڑ دیتا تھا اور عورت شوہر کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی تھی۔ اسی طرح یہ حکم ان تمام رواجوں کو بھی منسوخ کرتا ہے جو ظہارکو بےمعنی اور بےاثر سمجھتے ہوں اور آدمی کے لیے اس بات کو جائز رکھتے ہوں کہ وہ بیوی کو محرمات سے تشبیہ دے کر بھی اس کے ساتھ حسب سابق میاں بیوی کا تعلق جاری رکھے۔ ان دونوں انتہائوں کے درمیان اسلامی قانون نے جو مؤقف اختیار کیا ہے وہ تین بنیادوں پر قائم ہے۔ ایک یہ کہ ظہار سے نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ عورت بدستور شوہر کی بیوی رہتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ظہار سے عورت وقتی طور پر شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے اور یہ کہ صرف کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کرسکتا ہے۔ (تفہیم القرآن ج 5، ص 345)

نوٹ۔2: یہاں ایک نہایت عملی مثال سے یہ سبق بھی لوگوں کو دیا گیا ہے کہ اگر کسی کو زندگی میں کوئی مشکل پیش آئے تو اس کو نہایت خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے عرض کرے۔ امید ہے کہ اس کی مشکل حل ہونے کی کوئی راہ اللہ تعالیٰ کھول دے گا۔ رہے وہ لوگ جو کسی مشکل کو بہانہ بنا کر اسلام کے خلاف پراپیگنڈے کی مہم شروع کر دیتے ہیں وہ درحقیقت اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ یاد رکھیں کہ وہ نامراد ہوں گے (تدبر قرآن۔ ج 8، ص 243) ۔ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا یعنی یہ شکوہ و مجادلہ چونکہ خاص اللہ تعالیٰ ہی سے تھا اس وجہ سے وہ مہربانی سے اس کو سنتا رہا۔ چنانچہ اس نے اپنی بندی کی مشکل حل کرنے کی راہ کھول دی۔ اس سے یہ بات نکلی کہ جو لوگ اپنی کوئی مشکل اپنے رب سے عرض کرتے ہیں وہ اطمینان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو توبہ اور شفقت سے سنتا ہے۔ وہ سمیع و بصیر ہے۔ اور جب وہ سنتا ہے اور ہر چیز کی قدرت بھی رکھتا ہے تو بندہ اس سے مایوس و بدگمان کیوں ہو۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھیے کہ دنیوی اور مادی مشکلات کی طرح روحانی اور عقلی الجھنوں سے نکلنے کی بھی۔ سب سے کامیاب راہ یہی ہے کہ آدمی اس کو اپنے رب کے آگے پیش کرے بسا اوقات کوئی ایسی علمی و عقلی مشکل پیش آجاتی ہے جس کا حل سمجھ نہیں آتا اور اس سے دہن کے معاملہ میں شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں آدمی اگر اپنی مشکل اپنے رب کے آگے پیش کرے اور اس سے ہدایت کا طالب ہو تو ان شاء اللہ اس کو شرحِ صدر حاصل ہو جائے گا بشرطیکہ آدمی صبر کے ساتھ اپنے رب سے استعانت کرتا رہے۔ طالبین حق کا طریقہ ہمیشہ یہی رہا ہے۔ لیکن جو جلد باز ہوتے ہیں وہ یہ راہ اختیار کرنے کے بجائے یا تو اپنے اوبام اور شکوک کو ہی دین بنا لیتے ہیں یا ان کو دین پر نکتہ چینی کا ذریعہ بنا کر اس کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دیتے ہیں۔ (تدبر قرآن ج 8، ص 248۔249)

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا  ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ       Ċ۝
[اَلَمْ تَرَ: کیا تو نے غور نہیں کیا][ ان اللّٰهَ يَعْلَمُ: کہ اللہ جانتا ہے][ مَا فِي السَّمٰوٰتِ: اس کو جو آسمانوں میں ہے][ وَمَا فِي الْاَرْضِ: اور اس کو (بھی) جو زمین میں ہے][ مَا يَكُوْنُ: نہیں ہوتی][ مِنْ نَّجوٰى ثَلٰثَةٍ: کسی تین کی کوئی بھی سرگوشی][اِلَّا هُوَ: مگر وہ (اللہ)][ رَابِعُهُمْ: ان کا چوتھا ہوتاہے][وَلَا خَمْسَةٍ: اور کسی پانچ کی (سرگوشی)][ اِلَّا هُوَ: مگر وہ (اللہ)][ سَادِسُهُمْ: ان کا چھٹا ہوتا ہے][ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ: اور نہ اس سے کم کی (سرگوشی)][ وَلَآ اَكْثَرَ: اور نہ زیادہ کی (سرگوشی)][ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ: مگر وہ ان کے ساتھ ہوتاہے][ اَيْنَ مَا: جہاں کہیں بھی][ كَانوْا: وہ لوگ ہوں][ ثُمَّ يُنَبِئُهُمْ: پھر وہ جتلا دے گا ان کو][ بِمَا عَمِلُوْا: وہ جو انھوں نے عمل کیا][ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: قیامت کے دن][ان اللّٰهَ بِكُلِ شَيْءٍ: بیشک اللہ ہر چیز کا][ عَلِيْمٌ: علم رکھنے والا ہے]

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَيَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ ۡ وَاِذَا جَاۗءُوْكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللّٰهُ ۙوَيَقُوْلُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ ۭ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ ۚ يَصْلَوْنَهَا ۚ فَبِئْسَ الْمَصِيْرُ      Ď۝
[اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِينَ: کیا تو نے غور نہیں کیا ان کی طرف جن کو][ نُهُوْا: منع کیا گیا][ عَنِ النَّجوٰى: سرگوشی کرنے سے][ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ: پھر وہ دوبارہ کرتے ہیں][لِمَا نُهُوْا عَنْهُ: وہی ان کو روکا گیا جس سے][ وَيَتَنٰجونَ: اور باہم سرگوشیاں کرتے ہیں][بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَان: گناہ اور زیادتی کے بارے میں][ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ: اور ان رسولؐ کی نافرمانی کے بارے میں][ وَاِذَا جَاۗءُوْكَ: اور جب یہ لوگ آتے ہیں آپؐ کے پاس][ حَيَّوْكَ: دعا دیتے (سلام کرتے) ہیں آپؐ کو][ بِمَا: اس (لفظ) سے][ لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللّٰهُ: دعا نہیں دی آپؐ کو جس سے اللہ نے][وَيَقُوْلُوْنَ فِيْٓ انفُسِهِمْ: اور کہتے ہیں اپنے جیوں میں][ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ: کیوں نہیں عذاب دیتا ہم کو اللہ][بِمَا نَقُوْلُ : بسبب اس کے جو ہم کہتے ہیں][ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ : کافی ہے ان کو جہنم][ يَصْلَوْنَهَا : وہ لوگ کریں گے اس میں][فَبِئْسَ الْمَصِيْرُ: تو کتنی بری ہے (وہ) لوٹنے کی جگہ]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَـنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ      ۝
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْٓا: اے لوگو جو ایمان لائے][ اِذَا تَنَاجَيْتم: جب کبھی تم لوگ آپس میں سرگوشی کرو][ فَلَا تَتَـنَاجوا: تو سرگوشی مت کرو][ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَان: گناہ اور زیادتی کے بارے میں][ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ: اور ان رسولؐ کی نافرمانی کے بارے میں][ وَتَنَاجوا: اور آپس میں سرگوشی کرو][ بِالْبِرِّ وَالتَّقْوٰى: نیکی اور تقوٰی کے بارے میں][ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيٓ: اور تقوٰی اختیار کرو اس اللہ کا][ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ: جس کی طرف تم لوگ اکٹھا کیے جائو گے]

اِنَّمَا النَّجْوٰى مِنَ الشَّيْطٰنِ لِيَحْزُنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيْسَ بِضَاۗرِّهِمْ شَـيْـــــًٔا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ      10؀
[انمَا النَّجوٰى: کانا پھوسی تو بس][ مِنَ الشَّيْطٰنِ: شیطان (کی طرف) سے ہے][ لِيَحْزُنَ: تاکہ وہ غمگین کرے][ الَّذِينَ اٰمَنُوْا: ان لوگوں کو جو ایمان لائے][وَلَيْسَ بِضَاۗرِّهِمْ: اور وہ نقصان پہنچانے والا نہیں ہے][ شَـيْـــــًٔا: کچھ بھی][اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ: مگر اللہ کی اجازت سے][وَعَلَي اللّٰهِ: اور اللہ پر ہی][فَلْيَتَوَكَّلِ: چاہیے کہ بھروسہ کریں][الْمُؤْمِنُوْنَ: ایمان لانے والے]

 

نوٹ۔1 : آیات مذکورہ اگرچہ خاص واقعات کی بناء پر نازل ہوئی ہیں جن کا ذکر شان نزول میں کیا جاتا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ سبب نزول کچھ بھی ہو، ہدایات قرآنی عام ہوتی ہیں اور ان میں عقائد، عبادات، معاملات اور معاشرت کے متعلق احکام ہوتے ہیں۔ ان آیات میں بھی باہمی سرگوشی اور مشورے کے متعلق ہدایات ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا علم ساری کائنات پر حاوی ہے۔ تم کہیں بھی، کیسا ہی چھپ کر مشورہ کرو، اللہ تعالیٰ اپنے علم اور سمع و بصر کے اعتبار سے تمہارے پاس موجود ہوتا ہے اور تمہاری ہر بات کو دیکھتا، سنتا اور جانتا ہے۔ اگر اس میں کوئی گناہ کرو گے تو سزا سے نہیں بچو گے۔ رسول اللہ
نے فرمایا کہ جس جگہ تم تین آدمی جمع ہو تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر باہم سرگوشی اور خفیہ باتیں نہ کیا کرو جب تک دوسرے آدمی نہ آ جائیں، کیونکہ اس سے اس کی دل شکنی ہو گی۔ (معارف القرآن)

 اس سے معلوم ہوا کہ نجوٰی بجائے خود ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کے جائز یا ناجائز ہونے کا انحصار ان لوگوں کے کردار پر ہیجو ایسی بات کریں، ان حالات پر ہے جن میں ایسی بات کی جائے اور ان باتوں کی نوعیت پر ہے جو اس طریقے سے کی جائیں۔ دو آدمی اگر اس لیے باہم سرگوشی کرتے ہیں کہ کسی جھگڑے کا تصفیہ کرانا ہے یا کسی نیک کام میں حصہ لینا ہے تو یہ کوئی برائی نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔2: یہود اور منافقین کا یہ مشترک رویہ تھا کہ جب وہ نبی
کی خدمت میں حاضر ہوتے تو السَّامُ علیک کہتے۔ سام کے معنی موت کے ہیں، حضور جواب میں فرما دیتے وعلیکم (اور تم لوگوں پر بھی) ۔ وہ لوگ اس بات کو حضور کے رسول نہ ہونے کی دلیل سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر یہ رسول ہوتے تو جس وقت ہم انہیں اس طریقے سے سلام کرتے ہیں اسی وقت ہم پر عذاب آ جاتا ہے۔ اب چونکہ کوئی عذاب نہیں آتا، حالانکہ ہم شب و روز یہ حرکت کرتے رہتے ہیں، اس لیے یہ رسول نہیں ہیں۔ (تفہیم القرآن)

 یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ انسان کی غفلت اور سرکشی میں سب سے زیادہ اضافہ اس کے اسی مغالطہ سے ہوتا ہے جو یہاں مذکور ہوا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کی شرارتوں پر اس دنیا میں کوئی گرفت نہیں ہو رہی ہے تو وہ مطمئن ہو بیٹھتا ہے کہ اس پر کہیں بھی اور کبھی بھی گرفت نہیں ہو گی۔ یہ ملّا جو ڈراوے سناتے پھر رہے ہیں یہ محض ان کی دھونس ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ لیکن یہ محض انسان کی بےبصیرتی ہے۔ اگر اعمال کے نتائج فوراً سامنے آ جانے والے ہوتے تو کس کی مجال تھی کہ وہ بدی کی جرأت کرسکتا۔ پھر تو سب ہی صالح اور متقی بن کر رہتے۔ اس دنیا کا اصل بھید تو یہی ہے کہ یہ دارالجزاء نہیں بلکہ دارالامتحان ہے۔ دارالجزاء آگے ہے۔ (تدبر قرآن)

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْ ۚ وَاِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ      11؀
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْٓا: اے لوگو جو ایمان لائے][ اِذَا قِيْلَ لَكُمْ: جب کبھی کہا جائے تم لوگوں سے][ تَفَسَّحُوْا: تم لوگ کشادگی پیدا کرو][ فِي الْمَجٰلِسِ: مجلسوں میں][ فَافْسَحُوْا: تو تم لوگ کشادگی کرو][يَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْ : تو کشادگی کرے گا اللہ تمہارے لیے][وَاِذَا قِيْلَ انشُزُوْا: اور کبھی کہا جائے اٹھو][ فَانشُزُوْا: تو اٹھا جائو][ يَرْفَعِ اللّٰهُ: تو بلند کرے گا اللہ][ الَّذِينَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ : تو بلند کرے گا اللہ][ وَالَّذِينَ اُوْتُوا الْعِلْمَ: اور ان کو جنھیں دیا گیا علم][ دَرَجٰتٍ : درجات کو][ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ: اور اللہ اس سے جو تم لوگ کرتے ہو][خَبِيْرٌ: ہمیشہ باخبر ہے]

 

نوٹ۔1 : آیت۔11۔ کا حکم عام مجالس کا ہے جہاں مسلمانوں کا اجتماع ہو کہ جب مجلس میں کچھ لوگ بعد میں آئیں تو مسلمان ان کے لیے جگہ دینے کی کوشش کریں اور سمٹ کر بیٹھ جائیں۔ دوسرا حکم آدابِ مجالس کے متعلق یہ ہے کہ جب کسی سے کہا جائے کہ مجلس سے اٹھ جائو تو اسے اٹھ جانا چاہیے۔ اس کے لیے فعل مجہول قیل استعمال فرمایا ہے۔ اس کا ذکر نہیں ہے کہ یہ کہنے والا کون ہے۔ مگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنے والے شخص کو اپنے لیے جگہ کرنے کے واسطے کسی کو اس کی جگہ سے اٹھانا جائز نہیں۔ اس لیے ظاہر ہے کہ یہ کہنے والا میر مجلس ہو سکتا ہے یا مجلس کا انتظام کرنے والے افراد ہو سکتے ہیں۔ اس طرح آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اگر میر مجلس یا اس کی طرف سے مقرر کردہ منتظمین کسی کو اس کی جگہ سے اٹھ جانے کے لیے کہیں تو ادب مجلس یہ ہے کہ ان سے مزاحمت نہ کرے اور اپنی جگہ سے اٹھ جائے۔ (معارف القرآن)

 اس حکم کے ساتھ یہ وضاحت بھی کر دی گئی کہ یہ نہ سمجھو کہ رسول اللہ
کی مجلس میں، دوسروں کو جگہ دینے کی خاطر اگر تم حضور سے کچھ دور جا بیٹھے تو تمہارا درجہ گر گیا یا اگر مجلس سے تمہیں اٹھ جانے کے لیے کہا گیا تو تمہاری کچھ ذلت ہو گئی۔ بلندیٔ درجات کا اصل ذریعہ ایمان اور علم ہے نہ یہ کہ کس کو مجلس میں حضور کے قریب بیٹھنے کا موقعہ ملا اور کون زیادہ دیر تک آپ کے پاس بیٹھا۔ (تفہیم القرآن) یہی اصول عام مجالس کے لیے بھی ہے کہ کسی کا مرتبہ اس سے نہیں بڑھتا کہ وہ مجلس میں شریک اہم شخصیات کے کتنے قریب بیٹھا اور کتنی دیر ان سے باتیں کرتا رہا بلکہ اس کے مرتبہ کا انحصار اس پر ہے کہ اپنے کردار اور اپنی شخصیت کے ارتقاء کے لیے اس نے اس مجلس سے کیا حاصل کیا اور کیا سیکھا۔ (مرتب)

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةً ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاَطْهَرُ ۭ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ        12؀
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْٓا: اے لوگو جو ایمان لائے][ اِذَا نَاجَيْتم الرَّسُوْلَ: جب کبھی تم لوگ سرگوشی کر و ان رسولؐ کی][ فَقَدِّمُوْا: تو پیش کرو][ بَيْنَ يَدَيْ نَجوٰىكُمْ: اپنی سرگوشی کے سامنے (سے پہلے)][صَدَقَةً: کوئی صدقہ][ ذٰلِكَ خَيْرٌ لَكُمْ: یہ بہتر ہے تمھارے لیے][وَاَطْهَرُ: اور زیادہ پاکیزہ ہے][فَان لَمْ تَجِدُوْا: پھر اگر تم لوگ نہ پائو (کوئی صدقہ)][ فَان اللّٰهَ: تو بیشک اللہ][ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : بےانتہا بخشنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ ۭ فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا وَتَابَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭوَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ     13؀ۧ
[ءَاَشْفَقْتم: کیا تم لوگ ڈر گئے][ ان تُقَدِّمُوْا: (اس سے) کہ تم لوگ پیش کرو][بَيْنَ يَدَيْ نَجوٰىكُمْ: اپنی سرگوشی سے پہلے][صَدَقٰتٍ: کچھ صدقات][ فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا: پھر جب تم لوگ نہ کرو][ وَتَابَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ: اس حال میں کہ معاف کیا اللہ نے تمھیں][ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ: تو قائم کرو نماز کو][وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ: اور پہنچائو زکوٰۃ کو][ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ: اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی][وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ: اور اللہ باخبر ہے][ بِمَا تَعْمَلُوْنَ: اس سے جو تم لوگ کرتے ہو یا کرو گے]

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ۭ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَلَا مِنْهُمْ ۙ وَيَحْلِفُوْنَ عَلَي الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ     14؀ۚ
[اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِينَ: کیا تو نے غور کیا ان لوگوں کی طرف جنھوں نے][تَوَلَوْا قَوْمًا: دوستی کی ایک ایسی قوم سے][غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ : غضب کیا اللہ نے جس پر][مَا هُمْ مِّنْكُمْ: وہ لوگ نہیں ہیں تم میں سے][ وَلَا مِنْهُمْ : اور نہ ان (کافروں) میں سے][ وَيَحْلِفُوْنَ: اور وہ قسم کھاتے ہیں][ عَلَي الْكَذِبِ: جھوٹ بات پر][ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ : اس حال میں کہ وہ جانتے ہیں]

 

 

ترکیب: (آیت۔14) یہاں تَوَلَّوْا روگردانی کرنے کے معنی میں نہیں آیا ہے بلکہ دوست بنانے کے معنی میں ہے۔ استثناء کو چھوڑ کر عام قاعدہ یہ ہے کہ تولی کے ساتھ اگر کوئی مفعول مذکور نہ ہو یا عن کے صلہ کے ساتھ ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’’ منہ موڑنا۔ روگردانی کرنا‘‘ اس لیے تولی کے معنی ہیں اس نے منہ موڑا۔ اور تَوَلّٰی عَنْہُ کا مطلب ہے اس نے اس سے منہ موڑا۔ جبکہ دوستی کرنے کے معنی میں اس کا مفعول بنفسہہ آتا ہے۔ جیسے یہاں قَوْمًا بنفسہہ آیا ہے۔ اس لیے اس کے معنی میں دوستی کرنا۔ حَلَفَ کے معنی ہیں قسم کھانا۔ جس کی قسم کھائی جائے اس پر ب کا صلہ آتا ہے۔ حَلَفَ بِاللّٰہِ (اس نے اللہ کی قسم کھائی) ۔ جس کو یقین دلانے کے لیے قسم کھائی جائے اس پر ل کا صلہ آتا ہے۔ حَلَفَ لَہٗ (اس نے اس کے لیے قسم کھائی یعنی یقین دلانے کے لیے) جس بات پر قسم کھائی جائے اس پر علی کا صلہ آتا ہے۔

 

نوٹ۔1 : آیت۔14۔ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے عذاب شدید کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ کے دشمنوں کافروں سے دوستی رکھیں۔ قرآن کریم کی بہت سی دوسری آیات میں موالاتِ کفار کی شدید حرمت و ممانعت کے احکام آئے ہیں لیکن یہ سب احکام دلی اور قلبی دوستی کے متعلق ہیں۔ کفار کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی، خیر خواہی، ان پر احسان کرنا، خوش اخلاقی سے پیش آنا یا ان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی معاملات کرنا، یہ سب دوستی کے مفہوم میں داخل نہیں ہیں۔ یہ سب امور کفار کے ساتھ بھی جائز ہیں۔ رسول اللہ
اور صحابۂ کرام کا کھلا ہوا عمل اس پر شاہد ہے۔ اس مسئلہ میں موالات، مواسات اور معاملات (انسانی تعلقات کی مختلف سطحیں) کے فرق کی پوری تفصیل معارف القرآن، جلد دوم، صفحہ 45 تا 49 میں گزر چکی ہے۔ وہاں مطالعہ کرلیا جائے (معارف القرآن) ۔ مذکور تفصیل کا خلاصہ ان اسباق میں آیت نمبر۔3:28، نوٹ۔1۔ کے تحت دیا ہوا ہے۔ (مرتب)

اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا   ۭ اِنَّهُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ     15؀
[اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ: تیار کیا اللہ نے ان کے لیے][ عَذَابًا شَدِيْدًا: ایک سخت عذاب][انهُمْ: بیشک وہ لوگ!][ سَاۗءَ مَا: بُرا ہے وہ جو][ كَانوْا يَعْمَلُوْنَ: وہ لوگ کیا کرتے ہیں]

اِتَّخَذُوْٓا اَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ    16؀
[اِتَّخَذُوْٓا: انھوں نے بنایا][ اَيْمَانهُمْ جُنَّةً: اپنی قسموں کو ایک ڈھال][ فَصَدُّوْا: پھر وہ رک گئے][ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: اللہ کی راہ سے][فَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ: تو ان کے لیے ایک ذلیل کرنے ولا عذاب ہے]

لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَيْـــــًٔا ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۭ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ     17؀
[لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ: ہرگز کام نہ آئیں گے ان کے][ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ: ان کے اموال اور ان کی اولاد][ مِّنَ اللّٰهِ شَيْـــــًٔا: اللہ سے کچھ بھی][اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَارِ: وہ لوگ آگ والے ہیں][ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ : وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں]

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ     18؀
[يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ : جس دن اٹھائے گا ان کو اللہ][جَمِيْعًا: سب کے سب کو][فَيَحْلِفُوْنَ: پھر وہ لوگ قسم کھائیں گے][ لَهٗ : اس (اللہ) کے لیے][كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ: جیسے یہ قسم کھاتے ہیں تمھارے لیے][ وَيَحْسَبُوْنَ: اور گمان کرتے ہیں][ انهُمْ عَلٰي شَيْءٍ : کہ وہ لوگ کسی (بڑی) چیز پر ہیں][ اَلَآ: خبردار][ انهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ: یہ لوگ ہی جھوٹ کہنے والے ہیں]

اِسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطٰنُ فَاَنْسٰـىهُمْ ذِكْرَ اللّٰهِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطٰنِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ      19؀
[اِسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ: قابو پایا ان پر][ الشَّيْطٰنُ: شیطان نے][ فَانسٰـىهُمْ: تو اس نے بھلا دی ان لوگوں کو][ ذِكْرَ اللّٰهِ: اللہ کی یاد][ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ : وہ لوگ شیطان کا جتھا ہیں][اَلَآ ان حِزْبَ الشَّيْطٰنِ: سن لو! یقینا شیطان کا جتھا ][ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ : ہی خساری پانے والا ہے]

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَاۗدُّوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اُولٰۗىِٕكَ فِي الْاَذَلِّيْنَ     20؀
[ان الَّذِينَ يُحَاۗدُّوْنَ: بیشک جو لوگ مخالفت کرتے ہیں][ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ: اللہ اور اس کے رسول کی][ اُولٰۗىِٕكَ فِي الْاَذَلِيْنَ: وہ ذلیل ترین لوگوں میں ہیں]

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ     21؀
[كَتَبَ اللّٰهُ: لکھ دیا اللہ نے][ لَاَغْلِبَنَّ: (کہ) میں لازماً غالب ہوں گا][ انا وَرُسُلِيْ : میں بھی اور میرے رسول بھی][ ان اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ: یقینا اللہ قوی ہے بالا دست ہے]

 

نوٹ۔1 : آیت۔21۔ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس سنت کا اعلان فرمایا ہے جو اس نے ازل سے لکھ رکھی ہے کہ جو کشمکش اللہ و رسول اور حزب الشیطان کے درمیان برپا ہوگی اس میں غلبہ اللہ اور اس کے رسولوں کو حاصل ہو گا۔ جتنے بھی رسول (یہاں نبی اور رسول کے درمیان فرق ملحوظ رہے) دنیا میں آئے، وہ جس قوم کے اندر آئے، اس کے لیے خدا کی عدالت بن کر آئے۔ اس کے بعد اس قوم کا لازماً فیصلہ ہو گیا۔ اگر قوم نے بحیثیت مجموعی اپنے رسول کی تکذیب کر دی تو اس کے اندر سے رسول اور اس پر ایمان لانے والے افراد کو الگ کر کے باقی قوم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی عذاب کے ذریعہ سے فنا کر دیا۔ قرآن سے رسولوں کی جو تاریخ پیش کی ہے ان میں سے اکثر کو یہی صورت پیش آئی۔ صرف آنحضرت
کے معاملہ میں ایک دوسری صورت پیـش آئی کہ ہجرت کے بعد آپ کو جہاد کا حکم ہوا ار آپ کے اعداء نے آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تلوار سے شکست کھائی یہاں تک کہ ان کا قلع قمع ہو گیا (تدبر قرآن) ۔ بنی اسرائیل نے اپنے آخری رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی اور اپنے جانتے میں ان کو پھانسی دے دی۔ ان کا عذاب مؤخر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر امام مہدی کے لشکر سے یہ لوگ شکست کھائیں گے اور ان کا بھی قلع قمع ہو گا۔ (مرتب)

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ ۭ وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا   ۭ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ    ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ       22؀ۧ
[لَا تَجِدُ قَوْمًا: تو نہیں پائے گا کسی ایسی قوم کو جو][ يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ: ایمان لاتی ہو اللہ پر اور آخری دن پر][ يُوَاۗدُّوْنَ: خیر خواہی کرتے ہوئے][ مَنْ: اس کی جس نے][ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ: مخالفت کی اللہ اور اس کے رسول کی][وَلَوْ كَانوْٓا: اور اگرچہ وہ لوگ ہوں][ اٰبَاۗءَهُمْ: ان کے باپ دادا][ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ: یا ان کے بیٹے][ اَوْ اِخْوَانهُمْ: یا ان کے بھائی][ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ: یا ان کی برادری کے][ اُولٰۗىِٕكَ: وہ لوگ ہیں][ كَتَبَ: اس نے لکھ دیا][ فِيْ قُلُوْبِهِمُ : جن کے دلوں میں][الْاِيْمَان: ایمان][ وَاَيَّدَهُمْ: اور اس نے تائید کی ان کی][ بِرُوْحٍ: ایک ایسی روح (غیر مادی طاقت) سے جو][ مِّنْهُ : اس (کی طرف) سے تھی][وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ: اور وہ داخل کرے گا ان کو ایسے باغات میں][ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْانهٰرُ: بہتی ہوں گی جن کے دامن سے نہریں][ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا : ہمیشہ رہنے والے ہوئے ان میں][ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ: راضی ہوا اللہ ان سے][ وَرَضُوْا عَنْهُ : اور وہ لوگ راضی ہوئے اس سے][ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ : وہ لوگ اللہ کا لشکر ہیں][ اَلَآ ان حِزْبَ اللّٰهِ: سن لو! اللہ کا لشکر][هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ: ہی مراد پانے والا ہے]

 

نوٹ۔2 : آیت۔22 میں ایک اصولی بات فرمائی گئی ہے کہ دین حق پر ایمان اور اعدائے دین کی محبت دو بالکل متضاد چیزیں ہیں جن کا ایک جگہ اجتماع کسی طرح قابل تصور نہیں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس امر واقعی کو نمونے کے طور پر پیش فرما دیا کہ جو لوگ سچے مومن تھے انہوں نے فی الواقع سب کی آنکھوں کے سامنے ان تمام رشتوں کو کاٹ پھینکا جو اللہ کے دین کے ساتھ ان کے تعلق میں حائل تھے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو بدر اور احد کے معرکوں میں سارا عرب دیکھ چکا تھا۔ حضرت ابوعبیدہ (رض) نے اپنے والد کو، حضرت مصعب (رض) نے اپنے سگے بھائی کو، حضرت عمر (رض) نے اپنے ماموں کو، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت حمزہ (رض) اور حضرت عبیدہ بن الحارث نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو قتل کیا۔ جنگ بدر میں حضرت مصعب (رض) کے ایک دوسرے سگے بھائی ابوعزیز کو ایک انصاری پکڑ کر باندھ رہے تھے۔ حضرت مصعب (رض) نے دیکھا تو کہا ذرا مضبوط باندھنا اس کی ماں بہت مالدار ہے۔ اس کی رہائی کے لیے وہ ہت سا فدیہ دے گی۔ ابوعزیز نے کہا تم بھائی ہو کر یہ بات کہہ رہے ہو۔ حضرت مصعب (رض) نے جواب کہ اس وقت تم میرے بھائی نہیں ہو بلکہ یہ انصاری میرا بھائی ہے جو تمہیں گرفتار کر رہا ہے۔ اسی جنگ بدر میں خود نبی
کے داماد گرفتار ہو کر آئے اور ان کے ساتھ آپ کی دامادی کی بنا پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔ اس طرح عالم واقعہ میں دنیا کو یہ دکھایا جا چکا تھا کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے دین کے ساتھ ان کا تعلق کیسا ہوا کرتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ        ۝

سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ       Ǻ۝
[سَبَّحَ للّٰهِ: تسبیح کرتا ہے اللہ کی][ مَا فِي السَّمٰوٰتِ: وہ جو (کچھ) آسمانوں میں ہے][ وَمَا فِي الْاَرْضِ: اور وہ جو (کچھ) زمین میں ہے][وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ: اور وہ ہی بالادست ہی حکمت والا ہے]

هُوَ الَّذِيْٓ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ڼ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ يَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا   ۤ وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَهُمْ بِاَيْدِيْهِمْ وَاَيْدِي الْمُؤْمِنِيْنَ ۤ فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ     Ą۝
[هُوَ الَّذِيٓ اَخْرَجَ: وہ، وہ ہے جس نے نکالا][ الَّذِينَ كَفَرُوْا: ان کو جو مُکر گئے][ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: اہل کتاب میں سے][ مِنْ دِيَارِهِمْ: ان کے گھروں سے][لِاَوَّلِ الْحَشْرِ: حشر کی پہل کے یے][مَا ظَنَنْتم: تمھیں گمان نہیں تھا][ ان يَّخْرُجوا: کہ وہ لوگ نکلیں گے][ وَظَنُّوْٓا: اور انھیں گمان تھا][ انهُمْ: کہ وہ (وہ) ہیں] [مَانعَتُهُمْ: جن کا بچائو کرنے والے ہیں][ حُصُوْنُهُمْ: ان کے قلعے][ مِّنَ اللّٰهِ: اللہ سے][ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ: تو پہنچا ان کے پاس اللہ[ مِنْ حَيْثُ: وہاں سے جہاں سے][ لَمْ يَحْتَسِبُوْا: انھیں خیال تک نہ تھا][وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ: اور اس نے ڈالا ان کے دلوں میں][ الرُّعْبَ: رعب][ يُخْرِبُوْنَ: تو وہ لوگ اجاڑتے تھے][ بُيُوْتَهُمْ بِاَيْدِيْهِمْ: اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے][وَاَيْدِي الْمُؤْمِنِيْنَ: اور مومنوں کے ہاتھوں سے][ فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ: تو عبرت حاصل کرو اے بصیرت والو]

 

 نوٹ۔1 : حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ یہ سورہ غزوئہ بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ مفسرین کا بیان ہے کہ اس میں جن اہل کتاب کے نکالے جانے کا ذکر ہے ان سے مراد بنی نضیر ہی ہیں۔ اس لیے اس سورہ کے مضامین کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مدینہ کے یہودیوں کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے کیونکہ اس کے بغیر کوئی آدمی ٹھیک ٹھیک یہ نہیں جان سکتا کہ رسول اللہ
نے ان کے مختلف قبائل کے ساتھ جو معاملہ کیا اس کے اسباب کیا تھے۔

 عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے ایسی کوئی تحریر نہیں چھوڑی جس سے ان کے ماضی پر روشنی پڑ سکے۔ اور عرب کے باہر کے مؤرخین نے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ دنیا کے یہودی ان کو اپنوں میں شمار نہیں کرتے تھے کیونکہ انہوں نے عبرانی تہذیب، زبان حتیٰ کہ نام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کرلی تھی۔ اس لیے عرب کے یہودیوں کی تاریخ کا بیشتر انحصار ان زبانی روایات پر ہے جو اہل عرب میں مشہور تھیں لیکن تاریخ (یعنی فلسطین کی تاریخ) سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ 122 میں رومیوں نے فلسطین سے یہودیوں کو نکال باہر کیا، اس دور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔ بنی قریظہ، بنی نضیر اور بنی قینقاع اسی دور میں آ کر یثرب پر قابض ہوئے۔ یہ لوگ جب مدینہ میں آ کر آباد ہوئے اس وقت کچھ عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو تقریباً تین صدی بعد 450 میں یمن کے اس سیلاب عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورئہ سبا کے دوسرے رکوع میں ہوا ہے۔ اس سیلاب کی وجہ سے قوم سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل جانے پر مجبور ہوئے تھے اس لیے یہ دونوں عرب قبیلے چارو ناچار بنجر زمینوں پر بس گئے۔ پھر ان کا ایک سردار اپنے غسّانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اوس اور خزرج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ بنی نضیر اور بنی قریظہ شہر کے باہر جا کر بسنے پر مجبور ہوئے، جبکہ بنی قینقاع شہر کے اندر ہی مقیم رہے۔

 عرب میں آباد یہودیوں نے زبان، لباس تہذیب و تمدن، ہر لحاظ سے پوری طرح سے عربیت کا رنگ اختیار کرلیا تھا۔ ان میں اور عام عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا۔ لیکن ان ساری باتوں کے باوجود وہ عربوں میں جذب بالکل نہ ہوئے تھے اور انہوں نے پوری شدت کے ساتھ اپنی یہودی عصبیت برقرار رکھی تھی اور معاشی حیثیت سے بھی ان کی پوزیشن عرب قبائل بہ نسبت زیادہ مستحکم تھی جس کی ایک بڑی وجہ ان کا سودی کاروبار تھا۔ یہ حالات تھے جب مدینہ میں اسلام پہنچا۔ پھر رسول اللہ
مدینہ تشریف لائے۔ وہاں پہنچتے ہی آپ نے جو اولین کام کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اوس اور خزرج اور مہاجرین کو ملا کر ایک برادری بنائی اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی تھی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمن کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے۔ یہ ایک قطعی اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انہوں نے رسول اللہ ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مخالفانہ روش کا اظہار ـشروع کردیا اور ان کا عناد سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ مگر جب جنگ بدر میں مسلمانوں کو قریش پر فتح حاصل ہوئی تو انہوں نے معاہدے کی کھلی کھلی خلاف ورزی شروع کر دی۔ یہودیوں کا پہلا قبیلہ جس نے جنگ بدر کے بعد اپنا معاہدہ توڑ دیا وہ بنی قینقاع تھا۔ یہ لوگ شہر مدینہ میں ایک محلہ میں آباد تھے اور چونکہ یہ وسنہار، لوہار اور ظروف ساز تھے اس لیے ان کے بازار میں اہل مدینہ کو کثرت سے جانا آنا پڑتا تھا۔ آہن گر ہونے کی وجہ سے ان کا بچہ بچہ مسلح تھا اور ان کو اپنی شجاعت پر بڑا ناز تھا۔ ان کو اس بات کا بھی زعم تھا کہ قبیلۂ خزرج ان کا حلیف اور خزرج کا سردار عبد اللہ بن اُبی ان کا پشت پناہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے بازار میں آنے جانے والے مسلمانوں کو ستانا اور خاص طور سے ان کی عورتوں کو چھیڑنا شروع کر دیا۔ اس پر ایک دن جھگڑا ہو گیا جس میں ایک مسلمان اور ایک یہودی قتل ہو گیا۔ تو رسول اللہ ان کے محلہ میں تشریف لے گئے اور ان کو جمع کر کے ان کو راہ راست پر آنے کی تلقین کی مگر انہوں نے جواب دیا کہ قریش لڑنا نہیں جانتے تھے اس لیے تم نے انہیں مار لیا۔ ہم سے سابقہ پیش آئے گا تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔ یہصاف صاف اعلان جنگ تھا۔ ل چنانچہ رسول اللہ نے شوال 2 ھ کے آخر میں ان کے محلہ کا محاصرہ کر لیا۔ پندرہ روز بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور ان کے تمام قابل جنگ آدمی گرفتار کر لیے گئے۔ اس وقت عبد اللہ بن اُبی نے اسرار کر کے انہیں معافی دلوائی تو انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنا مال، اسلحہ اور آلاتِ صنعت چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں۔

 دوسری طرف بنی نضیر کے سردار کعب بن اشرف کو جب جنگ بدر میں قریش کی شکست کی خبر پہنچی تو وہ چیخ اٹھا کہ اب زمین کا پیٹ ہمارے لیے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے۔ پھر وہ مکہ گیا اور مقتولین بدر کے لیے مرثیے کہہ کر مکہ والوں کو انتقام پر اکسایا۔ پھر مدینہ واپس آ کر اس نے ایسی غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفاء کی بہو بیٹیوں کے ساتھ اظہار عشق کیا گیا تھا۔ تو رسول اللہ
نے ربیع الاوّل 3 ھ میں محمد بن مسلمہ (رض) کو بھیج کر اسے قتل کرا دیا۔ (ضمنی طور پر نوٹ کرلیں کہ یہ واقعہ بھی توہین رسالت کی سزا کے لیے ایک سند ہے۔ الترحیق المنحتوم میں ہے کہ ’’ اللہ کا یہ دشمن رسول اللہ اور مسلمانوں کی ہجو اور دشمنان اسلام کی مدح کرائی پر اتر آیا‘‘… ’’ یہی حالات تھے جن سے تنگ آ کر رسول اللہ نے فرمایا کون ہے جو کعب بن اشرف سے نمٹے کیوں کہ اس سے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔‘‘ (مرتب)

 ان دو سخت اقدامات سے کچھ مدت تک یہودیوں کو مزید شرارت کرنے کی ہمت نہیں ہوئی مگر شوال 3 ھ میں جنگ احد کے موقعہ پر یہودیوں نے معاہدے کی صریح خلاف ورزی اس طرح کی کہ مدینہ کی مدافعت میں مسلمانوں کے ساتھ شریک نہ ہوئے، حالانکہ وہ اس کے پابند تھے۔ پھر جب احد میں مسلمانوں کو نقصان پہنچا تو ان کی ہمت اور بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ بنی نضیر نے رسول اللہ
کو قتل کرنے کی باقاعدہ ایک سازش کی جو عین وقت پر ناکام بنا دی گئی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کسی رعایت کا سوال باقی نہ رہا اور ان کو الٹی میٹم دے دیا گیا کہ دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جائیں۔ دوسری طرف عبد اللہ بن ابی نے ان کو پیغام بھیجا کہ میں تمہاری مدد کروں گا۔ تم ہرگز اپنی جگہ نہ چھوڑو۔ اس بھروسے پر انہوں نے یہ جواب بھیجا کہ ہم یہاں سے نہیں نکلیں گے۔ اس پر ربیع الاول 4 ھ میں ان کا محاصرہ کرلیا گیا۔ چند روز کے بعد وہ اس شرط پر مدینہ چھوڑنے کے لیے راضی ہو گئے کہ اسلحہ کے علاوہ جو کچھ بھی وہ اپنے اونٹوں پر لاد کرلے جا سکیں گے چنانچہ وہ لوگ خیبر اور شام کی طرف نکل گئے۔ یہی واقعہ ہے جس سے اس سورہ میں بحث کی گئی ہے۔ (تفہیم القرآن ج 5، ص 370 تا 379 سے ماخوذ)

نوٹ۔2: لِاَوَّلِ الْحَشْرِ کا مطلب یہ ہے کہ ان کا یہ اخراج پہلے حشر کے طور پر ہوا۔ اس کے اندر یہ تنبیہ (یعنی پیشنگوئی) ہے کہ اس کے بعد بھی انہیں خیبر سے بھی نکلنا پڑا۔ اور سب سے بڑا حشر یعنی قیامت کا حشر آگے آنے والا ہے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔3: ان کا اپنے مکانات کو اپنے ہاتھوں خراب کرنا تو اس طرح ہوا کہ اپنے دروازہ، کھڑکیاں ساتھ لے جانے کے لیے اکھاڑے اور مسلمانوں کے ہاتھوں اس طرح ہوا کہ جب یہ قلعہ بند تھے تو قلعہ سے باہر مسلمانوں نے مکانوں اور درختوں کو ویران کیا۔ (معارف القرآن)

وَلَوْلَآ اَنْ كَتَبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاۗءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا   ۭ وَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ     Ǽ۝
[وَلَوْلَآ ان: اور اگر نہ ہوتا کہ][كَتَبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمُ: لکھ دیا تھا اللہ نے ان پر][الْجَلَاۗءَ: جلاوطن کیا جانا][ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا: تو وہ ضرور عذاب دیتا ان کو دنیا میں][وَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ: اور ان کے لیے آخرت میں][عَذَابُ النَارِ: آگ کا عذاب ہے]

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَاۗقُّوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۚ وَمَنْ يُّشَاۗقِّ اللّٰهَ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ     Ć۝
[ذٰلِكَ بِانهُمْ: یہ اس سبب سے کہ انھوں نے][ شَاۗقُّوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ : مخالفت کی اللہ اور اس کے رسول کی][ وَمَنْ يُّشَاۗقِّ اللّٰهَ: اور جو مخالفت کرے گا اللہ کی][ فَان اللّٰهَ: (تو وہ یاد رکھے کہ) پھر اللہ][شَدِيْدُ الْعِقَابِ: سزا دینے کا سخت ہے]

مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَاۗىِٕمَةً عَلٰٓي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ     Ĉ۝
[مَا قَطَعْتم: جو تم لوگوں نے کاٹا][ مِّنْ لِيْنَةٍ: کوئی بھی کھجور کا درخت][اَوْ تَرَكْتموْهَا: یا تم نے چھوڑا ان کو][قَاۗىِٕمَةً: کھڑا ہوا][عَلٰٓي اُصُوْلِهَا: اپنی جڑوں پر][فَبِاِذْنِ اللّٰهِ: تو (وہ) اللہ کی اجازت سے تھا][وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ: اور تاکہ وہ رسوا کرے نافرمانوں کو]

وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ    ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ     Č۝
[وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ: اور جو لوٹایا اللہ نے][عَلٰي رَسُوْلِهٖ: اپنے رسول پر][مِنْهُمْ: ان لوگوں سے ( لے کر)][ فَمَآ اَوْجَفْتم: تو نہیں دوڑایا تم لوگوں نے][ عَلَيْهِ: اس پر ][مِنْ خَيْلٍ: کوئی بھی گھوڑا [ وَّلَا رِكَابٍ: اور نہ ہی کوئی اونٹ][وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِــطُ: اور لیکن اللہ غلبہ دیتا ہے][رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ: اپنے رسولوں کو اس پر جس پر وہ چاہتا ہے][وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِ شَيْءٍ قَدِيْرٌ: اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے]

 

نوٹ۔1 : بنی نضیر کی متروکہ املاک کے متعلق ایک خیال یہ تھا کہ یہ دشمن سے حاصل شدہ مال ہے اس لیے اس کو بھی مال غنیمت کی طرح پانچواں حصہ نکال کے باقی سب فوجیوں میں تقسیم کردیا جائے۔ اس سے کچھ ہی پہلے جنگ بدر کے موقع پر ایسا ہی کیا گیا تھا۔ لیکن دونوں صورتوں میں نمایاں فرق ہونے کی وجہ سے قرآن نے اس رائے کو تسلیم نہیں کیا۔ بدر کے موقع پر مجاہدین کو باقاعدہ جنگ کرنی پڑی تھی جس میں ان کو اپنے اسلحہ اور اونٹ گھوڑے کام میں لانے پڑے تھے۔ جبکہ اس موقع پر اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ دشمن نے مرعوب ہو کر اپنا علاقہ خود خالی کر دیا۔ اس لیے اس کے متعلق حکم ہوا کہ اس کی حیثیت مال فَے کی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے دشمنوں سے اپنے رسول کو دلوایا ہے۔ چنانچہ یہ کل کا کل اللہ اور اس کے رسول کی ملکیت ہو گا یا بالفاظ دیگر اسلامی حکومت کی ملکیت ہو گا۔ فَمَا اَوْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَارِکَابٍ سے معلوم ہوتا ہے کہ فوجیوں کو مال غنیمت سے جو حصہ دیا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اپنے ذاتی اسلحہ، گھوڑے اور اونٹڑ جنگ میں استعمال کرنے پڑتے تھے۔ یہاں تک کہ اپنا زادِ راہ بھی ساتھ رکھنا ہوتا تھا۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے اس زمانے میں دشمن سے جو کچھ حاصل ہو گا، اس کی حیثیت فَے کی ہو گی، خواہ جنگ سے حاصل ہو یا صلح سے۔ (تدبر قرآن)

مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ ۭ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ    ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا  ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ    ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ     Ċ۝ۘ
[مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ : جو لوٹایا اللہ نے][عَلٰي رَسُوْلِهٖ: اپنے رسول پر][ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى: ان بستی والوں سے (لے کر)][ فَللّٰهِ: تو (وہ) اللہ کے لیے ہے][ وَ لِلرَّسُوْلِ: اور ان رسول کے لیے ہے][ وَ لِذِي الْقُرْبٰى: اور قرابت والوں کے لیے ہے][ وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے][ كَيْ لَا يَكُوْنَ: تاکہ وہ نہ ہو جائے][ دُوْلَةًۢ: ایک گردش میں رہنے والی چیز][ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ : تم میں سے غنی لوگوں کے مابین][وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ: اور وج دیں تم کو یہ رسول][فَخُذُوْهُ : تو تم لوگ پکڑ لو اس کو][ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ: اور اس سے وہ روکیں تم کو جس سے][فَانتَهُوْا : تو تم لوگ رک جائو][ وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور تقوٰی اختیار کرو اللہ کا][ان اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ: یقینا اللہ گرفت کرنے کا سخت ہے]

 

نوٹ۔2: مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا۔ یہ حکم اگرچہ مال فَے کی تقسیم کے سلسلہ میں آیا ہے، اور اس سلسلہ کے مناسب کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال فَے میں مستحقین کے طبقات بیان کر دیئے ہیں لیکن ان میں کس کو کتنا دیں، یہ رسول اللہ
کی صواب دید پر ہے۔ لیکن اس حکم الفاظ عام ہیں اور صرف اموال کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں، بلکہ احکام بھی اس میں داخل ہیں۔ اس لیے عام انداز میں اس حکم کا مفہوم یہ ہے کہ جو کوئی حکم یا مال یا کوئی اور چیز آپ کسی کو عطا فرما دیں وہ اس کو لے لے اور اس کے مطابق عمل کے لیے تیار ہو جائے۔ اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحابۂ کرام نے رسول اللہ کے ہر حکم کو مذکورہ بالا آیت کی بناء پر قرآن کا حکم قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے ایک شخص کو احرام کی حالت میں سلے ہوئے کپڑے پہنے دیکھا تو حکم دیا کہ یہ کپڑے اتار دو۔ اس نے کہا کہ آپ اس کے متعلق مجھے قرآن کی کوئی آیت بتا سکتے ہیں جس میں سلے ہوئے کپڑوں کی ممانعت ہو۔ ابن مسعود نے فرمایا ہاں وہ آیت میں بتاتا ہوں۔ پھر یہی آیت پڑھ کر سنا دی۔ امام شافعی نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا میں تمہارے ہر سوال کا جواب قرآن سے دے سکتا ہوں ایک شخص نے کہا کہ ایک محرم (احرام باندھے ہوئے شخص) نے زنبور (تتیتا) کو مار ڈالا، تو اس کا قرآن میں کیا حکم ہے۔ امام شافعی نے یہی آیت تلاوت کر کے حدیث سے اس کا حکم بیان کر دیا۔ (معارف القرآن)

لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ     Ď۝ۚ
[لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِينَ: (خصوصاً) ان ہجرت کرنے والے محتاجوں کے لیے ہے جو][اُخْرِجوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ: نکالے گئے اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے][ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانا: تلاش کرتے ہوئے فضل کو اللہ سے اور رضامندی کو][وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ: اور مدد کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی][اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ: وہ لوگ ہی سچ کہنے والے ہیں]

 

نوٹ۔3 : آیات نمبر آٹھ، نو اور دس میں فقراء مہاجرین و انصار اور ان کے بعد آنے والے امت کے افراد کا بیان ہے اور ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی آیت میں جو یتیموں، مسکین اور مسافرین کو ان کے فقر و احتیاج کی بنا پر مال فَے کے مستحقین میں شمار کیا گیا ہے، ان آیات میں اس کی مزید تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ اگرچہ اس مال میں تمام ہی فقراء و مساکین ہیں لیکن پھر ان میں یہ حضرات مقدم ہیں جن کی دینی خدمات اور ذاتی اوصاف نمایاں ہوں، ان آیات میں بھی اوّل دو درجے قائم کیے گئے۔ ایک مہاجرین جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کے لیے قربانیاں پیش کیں۔ دوسرے انصارِ مدینہ، جنہوں نے رسول اللہ
اور مہاجرین کی ایسی میزبانی کی جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ تیسرا درجہ ان مسلمانوں کو قرار دیا جو صحابہ کے بعد مشرف با سلام ہوئے جس میں قیامت تک آنے والے مسلمان سب شریک ہیں۔ (معارف القرآن)

وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ     ڵ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ     ۝ۚ
[وَالَّذِينَ: اور ان کے لیے ہے جنھوں نے][ تَبَوَّؤُ: اقامت اختیار کی][الدَّارَ وَالْاِيْمَان: اس گھر (شہر مدینہ) میں اور ایمان میں][مِنْ قَبْلِهِمْ: ان (مہاجرین) سے پہلے][يُحِبُّوْنَ: وہ لوگ محبت کرتے ہیں][ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ: اس سے جس نے ہجرت کی ان کی طرف][وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ: اور وہ لوگ نہیں پاتے اپنے سینوں میں][ حَاجَةً مِّمَآ: کوئی حاجت اس میں سے جو][ اُوْتُوا: ان (مہاجرین) کو دیا گیا][ وَيُؤْثِرُوْنَ: اور وہ لوگ ترجیح دیتے ہیں (ان کو)][ عَلٰٓي انفُسِهِمْ: اپنی جانوں پر][ وَلَوْ كَان بِهِمْ: اور اگرچہ ہو ان پر][ خَصَاصَةٌ: کوئی محتاجی][وَمَنْ يُّوْقَ: اور جس کو بچایا گیا][ شُحَّ نَفْسِهٖ: اس کے جی کے بخل سے][ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : تو وہ لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں]

وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ      10۝ۧ
[وَالَّذِينَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ: اور ان کے لیے ہے جو آئے ان کے بعد][ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا: کہتے ہوئے اے ہمارے رب تو بخش دے ہمارے لیے][ وَلِاِخْوَاننَا الَّذِينَ: اور ہمارے ان بھائیوں کے لیے (گناہ) جنھوں نے][ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَان: سبقت کی ہم پر ایمان میں][وَلَا تَجْعَلْ: تو مت بنا][ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا: ہمارے دلوں میں کوئی کدورت][ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا: ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے][ رَبَّنَآ انكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ : اے ہمارے رب بیشک تو ہی انتہائی نرمی کرنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

 

نوٹ۔4 : آیت نمبر۔10۔ تک جو احکام ارشاد ہوئے ہیں ان میں یہ فیصلہ کردیا گیا ہے کہ فَے میں اللہ اور رسول
اور اقربائے رسول اور یتامٰی اور مساکین اور ابن السبیل اور مہاجرین اور انصار اور قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں کے حقوق ہیں۔ قرآن پاک کا یہی اہم قانونی فیصلہ ہے جس کی روشنی میں حضرت عمر نے عراق، شام اور مصر کے مفتوحہ ممالک کی آراضی اور جائیدادوں کا نیا بندوبست کیا۔

 یہ ممالک جب فتح ہوئے تو بعض صحابۂ کرام نے، جن میں حضرت زبیر، حضرت بلال، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت سلمان فارسی جیسے بزرگ بھی شامل تھے، اصرار کیا کہ ان آراضی اور جائیدادوں کو ان افواج میں تقسیم کیا جائے جنہوں نے لڑ کر انہیں فتح کیا ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ اموالِ فَے کی تعریف میں نہیں آتے کیونکہ ان پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر انہیں جیتا ہے اس لیے مفتوحہ ممالک غنیمت کی تعریف میں آتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ
کے عہد مبارک میں جو علاقے لڑ کر فتح کیے گئے تھے ان میں سے کسی کی آراضی کو آپ نے غنیمت کی طرح تقسیم نہیں فرمایا تھا۔ آپ کے زمانے کی دو بہترین مثالیں فتح مکہ اور فتح خیبر ہیں ان میں سے مکہ کو تو آپ نے جوں کا توں اس کے باشندوں کے حوالہ فرما دیا جبکہ خیبر کے آپ نے 36 حصے کیے، ان میں سے 18 حصے اجتماعی ضروریات کے لیے وقف کر کے باقی حصے فوج میں تقسیم فرما دیئے۔ حضور کے عمل سے یہ ابت واضح ہو گئی تھی کہ مفتوحہ آراضی کا حکم، اگرچہ وہ لڑ کر ہی فتح ہوئی ہوں، غنیمت کا نہیں ہے۔ پس سنت سے جو بات ثابت تھی کہ لڑ کر فتح کیے جانے والے ممالک کے معاملہ میں امام وقت کو اختیار ہے کہ حالات کے مطابق مناسب فیصلہ کرے۔ مگر حضور کے زمانے میں فتوحات کی کثرت نہ ہوئی تھی۔ اس لیے حضرت عمر کے زمانے میں جب بڑے بڑے ممالک فتح ہوئے تو صحابہ کرام کو اس الجھن سے سابقہ پیش آیا کہ بزورِ شمشیر فتح ہونے والے علاقے غنیمت ہیں یا فَے۔ حضرت بلال کی رائے تھی کہ اس کو فوجیوں کے درمیان مال غنیمت کی طرح تقسیم ہونا چاہیے۔ حضرت زبیر کی رائے تھی کہ اس کو خیبر کی طرح تقسیم کیا جائے۔ دوسری طرف حضرت علی کی رائے تھے کہ ان زمینوں کو ان کے کاشتکاروں کے پاس رہنے دیا جائے تاکہ یہ مسلمانوں کے لیے ذریعہ آمدنی بنیں رہیں۔ حضرت معاذ بن جبل کی رائے تھی کہ تقسیم کرنے سے بڑی بڑی جائیدادیں ان چند لوگوں کے قبضے میں چلی جائیں گی جنہوں نے یہ علاقے فتح کیے ہیں، لیکن آنے والی نسلوں کے لیے کچھ نہ رہے گا، حضرت عمر نے غوروفکر کے بعد یہ رائے قائم کی کہ ان علاقوں کو تقسیم نہ ہونا چاہیے۔ لیکن لوگ مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ آپ ظلم کر رہے ہیں۔ آخرکار حضرت عمر نے مجلس شورٰی کا اجتماع منعقد کیا ہے اور اس کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔

 حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت عبد اللہ بن عمر، وغیرہ نے حضرت عمر کی رائے سے اتفاق کیا لیکن فیصلہ نہ ہو سکا اور یہ بحث تین دن تک چلتی رہی، آخر میں اس مسئلے کا فیصلہ کر دینے والی ہے۔ پھر انہوں نے سورئہ حشر کی آیات 5 تا 10 تلاوت کی اور ان سے یہ استدلال کیا کہ اللہ کی ان عطا کردہ املاک میں صرف اس زمانے کے لوگوں کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ بعد کے آنے والوں کو بھی اللہ نے ان کے ساتھ شریک کیا ہے۔ پھر یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ اس فَے کو جو سب کے لیے ہے، ہم ان فاتحین میں تقسیم کر دیں اور بعد والوں کے لئے کچھ نہ چھوڑیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کی لاَ یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ۔ اگر میں اسے فاتحین میں تقسیم کر دوں تو یہ تمہارے مالداروں ہی میں چکر لگاتا رہے گا اور دوسروں کے لیے کچھ نہ بچے تا۔ یہ دلیل تھی جس نے سب کو مطمئن کر دیا۔ اور اس بات پر اجماع ہو گیا کہ ان تمام مفتوحہ علاقوں کو عام مسلمین کے لیے فَے قرار دیا جائے، جو لوگ ان آراضی پر کام کر رہے ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں انہیں رہنے دیا جائے اور ان پر خراج اور جزیہ لگا دیا جائے (تفہیم القرآن۔ ج 5، ص 397 تا 400)

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نَافَقُوْا يَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَىِٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيْعُ فِيْكُمْ اَحَدًا اَبَدًا   ۙ وَّاِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ        11؀
[اَلَمْ تَرَ: کیا تو نے دیکھا نہیں][ اِلَى الَّذِينَ نَافَقُوْا: ان کی طرف جو دودُخے ہوئے][ يَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانهِمُ الَّذِينَ: وہ لوگ کہتے ہیں اپنے ان بھائیوں سے جو][ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: مُکر گئے ابن کتاب میں سے][ لَىِٕنْ اُخْرِجْتم: بیشک اگر تم لوگ نکالے گئے][ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ: تو لازماً ہم (بھی) نکلیں گے تمہارے ساتھ][وَلَا نُطِيْعُ فِيْكُمْ: اور ہم کہا نہ مانیں گے تمھارے بارے میں] [اَحَدًا: کسی ایک کا][اَبَدًا: کبھی بھی][وَّان قُوْتِلْتم: اور اگر قتال کیا گیا تم لوگوں سے] [ لَنَنْصُرَنَّكُمْ : تو ہم لازماً مدد کریں گے تمھاری][وَاللّٰهُ يَشْهَدُ: اور اللہ گواہی دیتا ہے][انهُمْ لَكٰذِبُوْنَ:’’ بیشک یہ لوگ یقینا جھوٹ کہنے والے ہیں‘‘]

لَىِٕنْ اُخْرِجُوْا لَا يَخْرُجُوْنَ مَعَهُمْ ۚ وَلَىِٕنْ قُوْتِلُوْا لَا يَنْصُرُوْنَهُمْ ۚ وَلَىِٕنْ نَّصَرُوْهُمْ لَيُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ     ۣ ثُمَّ لَا يُنْصَرُوْنَ      12؀
[لَىِٕنْ اُخْرِجوا: بیشک اگر وہ لوگ نکالے گئے][ لَا يَخْرُجونَ مَعَهُمْ : تو یہ لوگ نہیں نکلیں گے ان کے ساتھ][ وَلَىِٕنْ قُوْتِلُوْا: اور بیشک اگر ان سے قتال کیا گیا][لَا يَنْصُرُوْنَهُمْ : تو یہ لوگ مدد نہیں کریں گے ان کی][ وَلَىِٕنْ نَّصَرُوْهُمْ: اور بیشک اگر یہ مدد کریں گے ان کی][ لَيُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ: تو یہ لوگ لازماً پھیر دیں گے پیٹھوں کو][ثُمَّ لَا يُنْصَرُوْنَ : پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گی]

لَاَانْتُمْ اَشَدُّ رَهْبَةً فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنَ اللّٰهِ  ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ     13؀
[لَاَانتم اَشَدُّ رَهْبَةً: بیشک تم لوگ زیادہ شدید ہو بلحاظ دہشت کے][ فِيْ صُدُوْرِهِمْ: ان کے سینوں میں][ مِّنَ اللّٰهِ : بنسبت اللہ کے][ ذٰلِكَ بِانهُمْ: یہ اس سبب کے ہے کہ وہ لوگ][قَوْمٌ : ایک ایسی قوم ہیں جو][لَّا يَفْقَهُوْنَ: سوچ سمجھ نہیں رکھتے]

لَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ جَمِيْعًا اِلَّا فِيْ قُرًى مُّحَصَّنَةٍ اَوْ مِنْ وَّرَاۗءِ جُدُرٍ ۭ بَاْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيْدٌ     ۭ تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى ۭذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ      14؀ۚ
[لَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ جَمِيْعًا: وہ لوگ قتال نہیں کریں گے تم سے اکٹھے ہو کر][ اِلَّا فِيْ قُرًى مُّحَصَّنَةٍ: مگر کچھ مضبوط کی ہوئی (قلعہ بند) بستیوں میں][ اَوْ مِنْ وَّرَاۗءِ جُدُرٍ: یا دیواروں کے پیچھے سے][بَاْسُهُمْ بَيْنَهُمْ: ان کی لڑائی ان کے مابین][شَدِيْدٌ: شدید ہے][تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا: تو سمجھتا ہے ان کو اکٹھا][وَّقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى: حالانکہ ان کے دل پراگندہ ہیں][ذٰلِكَ بِانهُمْ قَوْمٌ : یہ اس سبب سے کہ وہ لوگ ایک ایسی قوم ہیں جو][لَّا يَعقلوْنَ: عقل استعمال نہیں کرتے]

كَمَثَلِ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِيْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ       15؀ۚ
[كَمَثَلِ الَّذِينَ: (ان کی مثال) ان لوگوں کی مثال کی مانند ہے جو][ مِنْ قَبْلِهِمْ: ان سے پہلے تھے][ قَرِيْبًا: قریبی زمانے میں][ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ : انھوں نے چکھی اپنے کام کی سزا][وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ : اور ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے]

كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ  اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ       16؀
[كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ: (اور منافقوں کی مثال) شیطان کی مثال کی مانند ہے][ اِذْ قَالَ لِلْانسَان : جب اس نے کہا انسان سے][اكْفُرْ: تو کفر کر][ فَلَمَا كَفَرَ: پھر جب اس نے کفر کیا][ قَالَ انى بَرِيْۗءٌ مِّنْكَ: تو اس نے کہا میں بریٔ الذمہ ہوں تجھ سے][انىٓ اَخَافُ اللّٰهَ : بیشک میں ڈرتا ہوں اللہ سے][رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ: جو تمام جہانوں کا رب ہے]

فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَآ اَنَّهُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيْهَا   ۭ وَذٰلِكَ جَزٰۗؤُا الظّٰلِمِيْنَ     17؀ۧ
[فَكَان عَاقِبَتَهُمَآ: پس ہے انجام دونوں کا] [انهُمَا: کہ وہ دونوں][ فِي النَارِ: آگ میں ہے][ خَالِدَيْنِ فِيْهَا: ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہیں اس میں][وَذٰلِكَ جَزٰۗؤُا الظّٰلِمِيْنَ: اور یہ ظلم کرنے والوں کی جزاء ہے]

 

نوٹ۔1 : اس پورے رکوع کے انداز بیان سے یہ بات متعرشم ہوتی ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوا تھا جب رسول اللہ
نے بنی نضیر کو مدینہ سے نکل جانے کے لیے دس دن کا نوٹس دیا تھا۔ اور ان محاصرہ شروع ہونے میں کئی دن باقی تھے۔ بنی نضیر کو جب یہ نوٹس ملا تو عبد اللہ بن اُبی نے ان کو یہ کہلا بھیجا کہ ہم دو ہزار آدمیوں کے ساتھ تمہاری مدد کو آئیں گے۔ اس لیے مسلمانوں کے آگے ہتھیار مت ڈالو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ پس ترتیب نزول کے اعتبار سے یہ رکوع پہلے نازل ہوا تھا اور پہلا رکوع اس کے بعد نازل ہوا جب بنی نضیر مدینہ سے نکالے جا چکے تھے۔ لیکن قرآن مجید کی ترتیب میں بحکم الٰہی پہلے رکوع کو مقدم اور دوسرے کو مؤخر اس لیے کیا کہ اہم تر مضمون پہلے رکوع میں بیان ہوا ہے۔ (تفہیم القرآن)

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ   ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ    18؀
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا: اے لوگو جو ایمان لائے][ اتَّقُوا اللّٰهَ: تم لوگ تقوٰی اختیار کرو اللہ کا][وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ: اور چاہیے کہ دیکھے ہر ایک جان (شخص)][ مَا قَدَّمَتْ: اس نے کہا آگے بھیجا][لِغَدٍ : کل کے لیے][ وَاتَّقُوا اللّٰهَ: اور تم لوگ ڈرو اللہ (کی باز پرس سے)][ان اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ: بیشک اللہ باخبر ہے][بِمَا تَعْمَلُوْنَ: اس سے جو تم لوگ کرتے ہو]

 

نوٹ۔1 : آیت۔18۔ میں قیامت کا لفظ غد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں آنے والا کل۔ اس میں اشارہ ہے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا نہایت قلیل و مختصر ہے کیونکہ آخرت دائمی ہے جس کی کوئی انتہا اور انقطاع نہیں ہے۔ نیز یہ کہ قیامت دور نہیں بلکہ قریب ہے کیونکہ جب ایک انسان مر جاتا ہے تو اس کی قیامت قائم ہو جاتی ہے اور آخرت کے مقابلہ میں دنیا ایک دن کی مانند ہے۔ حدیث میں ہے کہ اَلدُّنْیَا یَوْمٌ وَلَنَا فِیْہِ صَوْمٌ یعنی ساری دنیا ایک دن ہے اور ہمارے لیے اس (دن) میں روزہ ہے۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)

نوٹ۔2 : اس آیت میں ایک حکیمانہ نکتہ یہ بھی ہے کہ اس میں ہر شخص کو آپ ہی اپنا محتسب بنایا گیا ہے۔ جب تک کسی شخص میں خود اپنے برے بھلے کی تمیز پیدا نہ ہو جائے، اس کو یہ احساس سرے سے ہوتا ہی نہیں کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ اس کے مستقبل کو سنوارنے والا ہے یا بگاڑنے والا۔ اور جب اس کے اندر یہ حس بیدار ہو جائے تو اسے خود ہی اپنا حساب لگا کر یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنا وقت، اپنا سرمایہ، اپنی محنت، اپنی قابلیتیں اور اپنی کوششیں جس راہ میں خرچ کر رہا ہے وہ اسے جنت کی طرف لے جا رہی ہیں یا جہنم کی طرف۔ یہ دیکھنا اس کے اپنے ہی مفاد کا تقاضہ ہے، نہ دیکھے گا تو آپ اپنا ہی مستقبل خراب کرے گا۔ (تفہیم القرآن)

 یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرلیں کہ خود احتسابی نہ کرنا دراصل ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ جب کوئی شخص خود احتسابی سے کنی کترانا شروع کرتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ آخرت اس کے ذہن سے اوجھل ہو جاتی ہے یا اسے بہت دور نظر آتی ہے۔ اس طرح وہ آخرت سے بےپرواہ ہو جاتا ہے۔ جب انسان آخرت سے بےپرواہ ہو جاتا تو پھر وہ اللہ کو بھولنا شروع کرتا ہے۔ زندگی کی گہما گہمی میں اسے اپنا تجربہ، اپنی مہارت، اپنی محنت نظر آتی ہے۔ اسے قدرت کی مداخلت، اپنی غلطی، چانس، بیڈلک، گڈلک، غرضیکہ اسے سب کچھ نظر آتا ہے، اگر نظر نہیں آتا تو فاعل حقیقی یعنی اللہ نظر نہیں آتا۔ اس طرح انسان اللہ کو بھول جاتا ہے۔ اور خدا فراموشی کا لازمی نتیجہ خود فراموشی۔ پھر وہ بھول جاتا ہے کہ اس دنیا میں اس کی کیا حیثیت ہے اور وہ یہاں کیا کرنے کے لیے آیا ہے۔ پھر انسان اپنی غلط حیثیت متعین کر کے خود کو ایک شتر بےمہار سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس طرح اس کی سوچ اس کا نظریہ، اس کی سعی، اس کا عمل، غرضیکہ اس کی پوری زندگی ایک غلط رخ پر پڑ جاتی ہے۔ پھر جب اسے پیویلین میں واپس بلایا جاتا ہے تو وہ سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ کیا کرنے آئے تھے اور کیا کر چلے۔

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰـىهُمْ اَنْفُسَهُمْ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ      19؀
[وَلَا تَكُوْنُوْا: اور تم لوگ مت ہونا][ كَالَّذِينَ: ان لوگوں کے جیسے جنھوں نے][ نَسُوا اللّٰهَ : بھلا دیا اللہ کو][فَانسٰـىهُمْ: تو اس (اللہ) نے بھلوا دیا ان کو][ انفُسَهُمْ : ان کا اپنا آپ][اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ: وہ لوگ ہی نافرمانی کرنے والے ہیں]

لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ   ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ      20؀
[لَا يَسْتَوِيْٓ: برابر نہیں ہوں گے][اَصْحٰبُ النَارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ: آگ والے اور جنت والے][اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ: جنت والے ہی مراد پانے والے ہیں]

لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ  ۭ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ     21؀
[لَوْ انزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ: اگر ہم نازل کرتے اس قرآن کو][ عَلٰي جبلٍ: کسی پہاڑ پر][ لَّرَاَيْتَهٗ : تو تو ضرور دیکھتا اس کو][خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا: جھکنے والا پاش پاش ہونے والا ہوتے ہوئے][مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ : اللہ کے دبدبہ سے][ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ: اور یہ مثالیں!][ نَضْرِبُهَا لِلنَاسِ: ہم بیان کرتے ہیں ان کو لوگوں کے لیے][لَعَلَهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ: شاید وہ غور و فکر کریں]

هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ   ۚ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ       22؀
[هُوَ اللّٰهُ الَّذِي: وہ اللہ وہ ہے (کہ)][ لَآ اِلٰهَ: کوئی اِلٰہ نہیں][ اِلَّا هُوَ: مگر وہ][ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ : جو غیب اور شہادہ کا جاننے والا ہے][هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ: وہی انتہائی رحم کرنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۭ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ      23؀
[هُوَ اللّٰهُ الَّذِي: وہ اللہ وہ ہے (کہ)][ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ : کوئی اِلٰہ نہیں مگر وہ][ اَلْمَلِكُ: جو بادشاہ ہے][الْقُدُّوْسُ: بالکل پاک ہے (اندازوں کی غلطی سے)][السَّلٰمُ : سراپا سلامتی ہے][الْمُؤْمِنُ: امن دینے والا ہے][الْمُهَيْمِنُ: حفاظت کرنے والا ہے][ الْعَزِيْزُ: بالا دست ہے][ الْجبارُ: زبردست ہے][الْمُتَكَبِرُ: بڑائی والا ہے][سُبْحٰنَ اللّٰهِ: پاکیزگی اللہ کی ہے][عَمَا يُشْرِكُوْنَ: اس سے جو یہ لوگ شریک کرتے ہیں]

هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۭ يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ      24؀ۧ
[هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ: وہی اللہ پیدا کرنے والا ہے][ الْبَارِئُ: وجود بخشنے والا ہے][الْمُصَوِّرُ: صور شگری کرنے والا ہے][لَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى : اس کے ہی ہیں تمام حسین نام][ يُسَبِحُ لَهٗ : تسبیح کرتی ہے اس کی][مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ: (ہر) وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے][وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : اور وہی بالادست ہے حکمت والا ہے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ        ۝

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ ۚ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ ۭ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِيْ     ڰ تُسِرُّوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ    ڰ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَيْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ    ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ      Ǻ۝
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا: اے لوگو جو ایمان لائے تم لوگ مت بنائو][ عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ: میرے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو][ اَوْلِيَاۗءَ: (اپنے) کارساز][ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ : تم لوگ ڈالتے ہو ان کی طرف (پیغام)][بِالْمَوَدَّةِ: خیر خواہی کے ساتھ][ وَقَدْ كَفَرُوْا: حالانکہ وہ انکار کر چکے][ بِمَا جَاۗءَكُمْ: اس کا جو آیا تمھارے پاس][ مِّنَ الْحَقِّ : الحق میں سے][ يُخْرِجونَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ: وہ لوگ نکالتے ہیں ان رسولؐ کو اور ہم کو بھی][ان تُؤْمِنُوْا: (اس لیے) کہ تم لوگ ایمان لائے][بِاللّٰهِ رَبِكُمْ: اللہ پر جو تمھارا رب ہے][ ان كُنْتم: اگر تم لوگ ہو (کہ)][ خَرَجْتم جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ : تم نکلتے ہو جہاد کرنے کے لیے میری راہ میں][وَابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِيْ: اور میری رضا کی تلاش کے لیے][تُسِرُّوْنَ اِلَيْهِمْ: تو (بھی) راز کی بات بتاتے ہو ان کو][ بِالْمَوَدَّةِ: خیر خواہی کے ساتھ][وَانا اَعْلَمُ: حالانکہ میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں][بِمَآ اَخْفَيْتم: اس کو جو تم لوگ چھپاتے ہو][وَمَآ اَعْلَنْتم: اور اس کو جو تم لوگ اعلانیہ کرتے ہو][وَمَنْ يَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ: اور جو کرتا ہے اس کام کو تم میں سے [فَقَدْ ضَلَّ: تو وہ بھٹک چکا ہے][سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ: راستے کے درمیان سے]

اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَاۗءً وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ وَاَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوْۗءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ    Ą۝ۭ
[ان يَّثْقَفُوْكُمْ: اگر وہ لوگ قابو پا لیں تم پر][ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَاۗءً: تو وہ ہو جائیں گے تمھارے دشمن][ وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ: اور بڑھائیں گے تمھاری طرف][اَيْدِيَهُمْ وَاَلْسِنَتَهُمْ: اپنے ہاتھوں کو اور اپنی زبانوں کو][ بِالسُّوْۗءِ: برائی سے][ وَوَدُّوْا: اور چاہیں گے (کہ)][ لَوْ تَكْفُرُوْنَ: کاش تم لوگ کفر کرو]

لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ ڔ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ  ڔ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ     Ǽ۝
[لَنْ تَنْفَعَكُمْ: ہرگز نفع نہیں دیں گی تم کو][ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ: تمھاری رشتہ داریاں اور نہ تمھاری اولادیں][يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن][يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ: وہ فیصلہ کرے گا تمھارے مابین][وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ: اور اللہ اس کو جو تم لوگ کرتے ہو دیکھنے والا ہے]

 

نوٹ۔1 : جس واقعہ کے حوالہ سے ان آیات میں اہل ایمان کو ہدایات دی گئی ہیں وہ یہ ہے کہ جب قریش نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تو رسول اللہ
نے مکہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اسی زمانے میں مکہ سے ایک عورت آئی جو پہلے بنی عبد المطلب کی لونڈی تھی پھر آزاد ہو کر گانے بجانے کا کام کرتی تھی۔ اس نے آ کر حضور سے اپنی تنگ دستی کی شکایت کی اور مالی مدد مانگی۔ آپ نے بنی عبد المطلب سے اپیل کر کے اس کی حاجت پوری کر دی۔ جب وہ مکہ جانے لگی تو حضرت حاطب اسے بعض سردارانِ مکہ کے نام ایک خط دیا کہ اسے ان لوگوں تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کو اس پر مطلع فرما دیا۔ آپ نے حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد کو حکم دیا کہ جائو، روضۂ خاخ کے مقام پر تم کو ایک عورت ملے گی جس کے پاس مشرکین کے نام حاطب کا ایک خط ہے۔ اس سے وہ خط حاصل کرو۔ یہ حضرات جب وہاں پہنچے تو وہ عورت وہاں موجود تھی۔ انہوں نے اس سے خط مانگا تو اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ انہوں نے کہاخط ہمارے حوالے کر دو ورنہ ہم برہنہ کر کے تیری تلاشی لیں گے۔ تو اس نے اپنی چوٹی سے وہ خط نکال کر انہیں دے دیا۔ وہ لوگ وہ خط حضور کی خدمت میں لے ائے۔ اسے کھول کر پڑھا گیا تو اس میں حملے کی اطلاع تھی۔ حضور نے حضرت حاطب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں کافر و مرتد نہیں ہو گیا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ میرے اقرباء مکہ میں مقیم ہیں۔ میں قریش کے قبیلے کا آدمی نہیں ہوں۔ بلکہ بعض قریشیوں کی سرپرستی میں وہاں آباد ہوا تھا۔ جن دوسرے مہاجرین کے اہل و عیال مکہ میں ہیں ان کو تو ان کا قبیلہ بچا لے گا لیکن میرا کوئی قبیلہ وہاں نہیں ہے۔ میں نے یہ خط اس خیال سے بھیجا تھا کہ قریش والوں پر میرا ایک احسان رہے اور وہ میرے بال بچوں کو نہ چھیڑیں۔ رسول اللہ نے حاطب کی یہ بات سن کر حاضرین سے فرمایا کہ حاطب نے تم سے سچی بات کہی ہے۔ حضرت عمر نے ان کو قتل کرنے کی اجازت مانگی تو حضور نے فرمایا کہ انہوں نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رو دیے اور کہا کہ اللہ اور اس کے رسول سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔

 اگرچہ ان آیات کے نزول کا موقع حضرت حاطب کا واقعہ ہی تھا لیکن ان میں اللہ تعالیٰ نے انہی کے مقدمہ پر کلام فرمانے کے بجائے تماما ہلِ ایمان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہدایات دی ہیں۔ ان ہدایات اور حضرت حاطب کے واقعات کی روشنی میں کچھ اہم نتائج برآمد ہوتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

1۔ قطع نظر اس سے کہ کرنے والے نے کس نیت سے کیا، لیکن یہ فعل بجائے خود ایک جاسوسی کا فعل تھا۔ اور جاسوسی بھی بڑے نازک موقع پر سخت خطرناک نوعیت کی تھی۔ پھر معاملہ شبہ کا بھی نہ تھا بلکہ ملزم کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط پکڑا گیا تھا جس کے بعد کسی ثبوت کی حاجت نہ تھی۔ حالات بھی زمانہ جنگ کے تھے مگر اس کے باوجود نبی
نے حضرت حاطب کو صفائی کا موقع دیئے بغیر نظر بند نہیں کر دیا۔ اور صفائی کا موقع بھی ان کو بند کمرے میں نہیں بلکہ کھلی عدالت میں برسرِعام دیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ایسے قوانین اور قواعد و ضوابط کی کوئی گنجائش نہیں ہے جن کی رو سے حکام کو یہ حق پہنچتا ہو کہ کسی شخص کو محض اپنے علم یا شبہ کی بنا پر قید کر دیں۔ اور بند کمرے میں خفیہ طریقے سے مقدمہ چلانے کا طریقہ بھی اسلام میں نہیں ہے۔

2۔ حضرت حاطب کے مقدمہ میں حضرت عمر نے جس رائے کا اظہار کیا وہ ان کے فعل کی ظاہری صورت کے لحاظ سے تھا جس کی بنا پر انہوں نے حضرت حاطب کو منافق اور واجب القتل قرار دیا۔ لیکن رسول اللہ
نے ان کی رائے کو رد فرما دیا اور اسلامی شریعت کا نکتۂ نظریہ بنایا کہ محض فعل کی ظاہری شکل پر ہی فیصلہ نہیں کر دینا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس شخص سے یہ صادر ہوا ہے اس کی پچھلی زندگی اور مجموعی سیرت کیا شہادت دیتی ہے۔ ایک مخلص مسلمان کی غلطی اور منافق کی غداری میں بڑا فرق ہے۔ محض نوعیت فعل کی بنا پر دونوں کی ایک ہی سزا نہیں ہو سکتی۔ یہ تھا اس مقدمہ میں رسول اللہ کا فیصلہ اور اللہ تعالیٰ نے ان ایات میں اس کی تائید فرمائی۔

3۔ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کسی مسلمان کا کفار کے لیے جاسوسی کر بیٹھنا بجائے خود اس بات کا فیصلہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ مرتد ہو گیا ہے یا ایمان سے خارج ہے یا منافق ہے۔ ایسا فیصلہ کرنے کے لیے اگر کچھ دوسرے قرائن و شواہد موجود ہوں تو بات الگ ہے ورنہ اپنی جگہ یہ فعل صرف ایک جرم ہے کفر نہیں ہے۔

4۔ جاسوس کی سزا کے مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی اور بعض دوسرے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان جاسوس کو تعزیر (کوئی سزا) دی جائے گی مگر اس کا قتل جائز نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اسے جسمانی عقوبت اور طویل قید کی سزا دی جائے گی، امام مالک کہتے ہیں اسے قتل کیا جائے گا۔

5۔ حدیث مذکور سے اس امر کا جواز بھی نکلتا ہے کہ تفتیش جرم کے لیے اگر ضرورت پڑے تو ملزم مرد ہی نہیں، عورت کے کپڑے بھی اتارے جا سکتے ہیں۔ اگر یہ فعل جائز نہ ہوتا تو تین جلیل القدر صحابی اس کی دھمکی نہیں دے سکتے تھے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 4، ص 422 تا 428 سے ماخوذ)

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۡ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗٓ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ   ۭ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَاِلَيْكَ اَنَبْنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ      Ć۝
[قَدْ كَانتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ: ہو چکا ہے تمھارے لیے ایک بھلائی والا نمونہ][ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِينَ مَعَهٗ : ابراہیم ؑ میں اور ان لوگوں میں جو ان کے ساتھ تھے][ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ: جب ان لوگوں نے کہا اپنی قوم سے][ انا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ: بیشک ہم بیزار ہیں تم لوگوں سے][ وَمِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اور اس سے جس کی تم بندگی کرتے ہو اللہ کے علاوہ][ كَفَرْنَا بِكُمْ: ہم نے انکار کیا تمھارا][ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ: اور ظاہر ہوئی ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان] [ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ: دشمنی اور بغض][اَبَدًا: ہمیشہ کے لیے][ حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ: یہاں تک کہ تم لوگ ایمان لائو اللہ پر][ وَحْدَهٗٓ: بلحاظ اس کے تنہا ہونے کے][ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ: مگر ابراہیم کا کہنا اپنے والد سے (اسوہ نہیں)][ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ: (کہ) میں لازماً مغفرت مانگوں گا آپ کے لیے][ وَمَآ اَمْلِكُ لَكَ: حالانکہ میں اختیار نہیں رکھتا آپ کے لیے][ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ: اللہ سے کچھ بھی][ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا: اے ہمارے رب تجھ پر ہی ہم نے بھروسہ کیا][ وَاِلَيْكَ انبْنَا: اور تیری طرف ہی ہم نے رخ کیا][ وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ: اور تیری طرف ہی لوٹنا ہے]

 

نوٹ۔1 : کفار سے ترک موالات کی تاکید کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ ان کا تو سارا خاندان مشرکین کا تھا۔ انہوں نے سب سے بیزاری کا ہی نہیں بلکہ عداوت کا اعلان کردیا اور بتلا دیا کہ جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لائو گے اور شرک سے باز نہ آئو گے ہمارے تمہارے درمیان بغض و عداوت کی دیوار حائل رہے گی۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔2 : الا قول ابراہیم کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ بات تو قابل تقلید ہے کہ انہوں نے اپنی مشرک قوم سے صاف صاف بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کر دیا۔ مگر ان کی یہ بات قابل تقلید نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ کیا اور عملاً اس کے حق میں دعا کی بھی۔ (یاد رہے کہ یہ دعاء آپ علیہ السلام نے فرزند ہونے کی حیثیت اپنے والد کی ہمدردی کے لیے کی اور اللہ تعالیٰ نے ایسی دعا کرنے سے روکا بھی نہیں تھا۔ اب چونکہ معاملہ واضح ہو چکا ہے۔ (مرتب) اس لیے کہ کافروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا اتنا تعلق بھی اہل ایمان کو نہ رکھنا چاہیے۔ پس کوئی مسلمان اس دلیل سے اپنے کافر عزیزوں کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ یہ کام حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا۔ اس کام کی پوری تفصیل قرآن مجید میں اس طرح ہے۔ ان کے باپ نے جب ان کو گھر سے نکال دیا تو چلتے وقت انہوں نے کہا تھا کہ میں اپنے رب سے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا (مریم۔147) ۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے دو مرتبہ اس کے حق میں دعا کی۔ ایک دعا کا ذکر سورہ ابراہیم آیت۔41 میں ہے اور دوسری دعا سورہ شعراء کی آیت ۔86 میں ہے۔ لیکن بعد میں جب انہیں احساس ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن تھا تو انہوں نے اس سے بیزاری کا اعلان کر دیا۔ (التوبہ۔114) (تفہیم القرآن)

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا  ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ      Ĉ۝
[رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً: اے ہمارے رب تو مت بنا ہم کو ایک آزمائش][ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا: ان کے لیے جنھوں نے کفر کیا][ وَاغْفِرْ لَنَا: اور تو بخش دے ہمارے لیے (ہمارے گناہ)][ رَبَّنَا : اے ہمارے رب][ انكَ انتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ: بیشک تو ہی بالا دست ہے حکمت والا ہے]

 

نوٹ۔3: آیت۔5۔ میں فتنۃ کا لفظ ہدف فتنہ کے معنی میں آیا ہے۔ اس سے مراد کفار کی وہ اذیتیں ہیں جو مسلمانوں کو وہ پہنچا سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تیری توحید کی غیرت میں ان مشرکوں سے اعلان عداوت کردیا اب ان کی طرف سے جو کچھ پیش آئے ہم اس کے لیے سینہ سپر ہیں لیکن ہمارا بھروسہ تیری مدد پر ہے۔ ان کو اتنی ڈھیل نہ دینا کہ وہ ہم کو اپنے مظالم کا تختۂ مشق بنا لیں۔ (تدبر قرآن)

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْهِمْ اُسْوَةٌ حَسَـنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ  ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ      Č۝ۧ
[لَقَدْ كَان لَكُمْ فِيْهِمْ: یقینا ہو چکا ہے تمھارے لیے ان لوگوں میں][ اُسْوَةٌ حَسَـنَةٌ: ایک بھلائی والا نمونہ][ لِمَنْ كَان: اس کے لیے جو ہے (کہ)][ يَرْجوا اللّٰهَ: وہ امید رکھتا ہے اللہ (سے ملنے) کی][ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ: اور اس آخری دن (کے قائم ہونے) کی][ وَمَنْ يَّتَوَلَّ : اور جو روگردانی کرے گا][فَان اللّٰهَ : تو یقینا اللہ ہے][هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ: (کہ) وہی بےنیاز ہے ہمیشہ حمد کیا ہوا ہے]

عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ عَادَيْتُمْ مِّنْهُمْ مَّوَدَّةً   ۭ وَاللّٰهُ قَدِيْرٌ   ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ       Ċ۝
[عَسَى اللّٰهُ ان يَجْعَلَ: قریب ہے کہ اللہ پیدا کر دے][ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ: تمھارے درمیان اور ان کے درمیان جس سے][ عَادَيْتم: تمھارا جھگڑا ہے][ مِّنْهُمْ: ان میں سے (کچھ سے)][ مَّوَدَّةً: دوستی][ وَاللّٰهُ قَدِيْرٌ: اور اللہ قدرت والا ہے][ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : اور اللہ بےانتہا بخشنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ     Ď۝
[لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ: نہیں روکتا تم کو اللہ][ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ: ان سے جنھوں نے جنگ نہیں کی تم سے][ فِي الدِّيْنِ: دین (کے بارے) میں][ وَلَمْ يُخْرِجوكُمْ: اور انھوں نے نہیں نکالا تم کو][ مِّنْ دِيَارِكُمْ: تمھارے گھروں سے][ ان : (اس سے) کہ][ تَبَرُّوْهُمْ : تم لوگ حسن سلوک کرو ان سے][وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ : اور انصاف کا رویہ اختیار کرو ان کی طرف][ان اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ: بیشک اللہ پسند کرتا ہے انصاف کرنے والوں کو]

اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰهَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ     ۝
[انمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ: اللہ تو بس روکتا ہے تم کو][ عَنِ الَّذِينَ قٰتَلُوْكُمْ: ان سے جنھوں نے جنگ کی تم سے][ فِي الدِّيْنِ: دین (کے بارے) میں][ وَاَخْرَجوكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ: اور تم کو نکالا تمھارے گھروں سے][ وَظٰهَرُوْا: اور باہم مدد کی][ عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ: تم کو نکالنے پر][ ان : (اس سے) کہ][ تَوَلَوْهُمْ : تم لوگ دوستی کرو ان سے][ وَمَنْ يَّتَوَلَهُمْ: اور جو دوستی کرے گا ان سے][ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ: تو وہ لوگ ہی ظلم کرنے والے ہیں]

 

نوٹ۔1 : انسانوں کے انسانوں کے ساتھ تعلقات کی چار سطحیں (
levels) ہیں غیر مسلموں میں سے کس قسم کے غیر مسلم سے کس سطح کے تعلقات جائز ہیں اور کس سطح کے تعلقات سے روکا گیا ہے، اس کی وضاحت آیت نمبر 3:28 کے نوٹ۔1 میں کی جا چکی ہے، اسے دوبارہ دیکھ لیں۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ  ۭ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِـاِيْمَانِهِنَّ ۚ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّارِ ۭ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّ  ۭ وَاٰتُوْهُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا   ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ  ۭ وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا   ۭ ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللّٰهِ   ۭ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ       10؀
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ: اے لوگو جو ایمان لائے جب کبھی آئیں تمھارے پاس][الْمُؤْمِنٰتُ: ایمان لانے والیاں][ مُهٰجِرٰتٍ: ہجرت کرنے والیاں ہو کر][ فَامْتَحِنُوْهُنَّ : تو تم لوگ جانچ لیا کرو ان کو][ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِـاِيْمَان هِنَّ : اللہ خوب جاننے والا ہے ان کے ایمان کو][ فَان عَلِمْتموْهُنَّ: پھر اگر تم لوگ جانو ان کو][ مُؤْمِنٰتٍ: ایمان لانے والیاں][ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ: تو واپس مت کرو ان کو][ اِلَى الْكُفَّارِ: کافروں کی طرف][لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ: یہ خواتین حلال نہیں ہیں ان کے لیے][ وَلَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّ : اور نہ وہ لوگ حلال ہوں گے ان کے لیے][ وَاٰتُوْهُمْ: اور تم لوگ دے دو ان (کافروں) کو][ مَآ انفَقُوْا: وہ جو انھوں نے خرچکیا][وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ: اور کوئی حرج نہیں ہے تم پر][ان تَنْكِحُوْهُنَّ: کہ تم لوگ نکاح کرو ان سے][اِذَآ اٰتَيْتموْهُنَّ: جب کہ تم ادا کرو ان کو][ اُجورَهُنَّ: ان کی اجرت (مہر)][ وَلَا تمسِكُوْا: اور تم لوگ مت روکے رکھو][ بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ: کافر عورتوں کے نکاح کو [ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ انفَقْتم: اور تم لوگ مانگ لو وہ جو تم نے خرچ کیا][ وَلْيَسْـَٔــلُوْا مَآ انفَقُوْا: اور چاہیے کہ وہ (کافر) مانگ لیں وہ جو انھوں نے خرچ کیا][ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللّٰهِ: یہ اللہ کا حکم ہے][يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ : اور فیصلہ کرتا ہے تمھارے مابین][ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے]

 

نوٹ۔1 : صلح حدیبیہ کے بعدپہلے تو مسلمان مرد مکہ سے بھاگ کر مدینہ آتے رہے اور انہیں معاہدہ کی شرائط کے مطابق واپس کیا جاتا رہا۔ پھر مسلمان عورتوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا سب سے پہلے اُمّ کلثوم ہجرت کر کے مدینہ پہنچیں۔ کفار نے معاہدہ کا حوالہ دے کر ان کی بھی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ معاہدے کا اطلاق کیا عورتوں پر بھی ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں بتایا کہ اگر یہ اطمینان کرلیا جائے کہ وہ واقعی ایمان ہی کی خاطر ہجرت کر کے آئیں ہیں تو انہیں واپس نہ کیا جائے عام طور پر مفسرین نے یہی سمجھا ہے کہ معاہدہ عام تھا جس میں عورت مرد سب داخل تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومن عورتوں کی حد تک معاہدہ توڑنے کا فیصلہ فرما دیا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ معاہدہ کی یہ شرط مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ قریش کی طرف سے تھی اور ان کے نمائندے سہیل بن عمرو جو الفاظ لکھوائے تھے وہ یہ تھے۔ ’’ اور یہ کہ تمہارے پاس ہم میں سے کوئی مرد (رَجُلٌ) آئے، اگرچہ وہ تہارے دین ہی پر ہو، تم اسے ہماری طرف واپس کرو گے۔ معاہدے کے یہ الفاظ بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد والمصالمہ میں نقل ہوئے ہیں۔ اسی بنا پر اُمّ کلثوم کی واپسی کا مطالبہ لے کر ان کے بھائی رسول اللہ
کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان واپس کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمایا تھا کہ ’’ شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں۔‘‘ اس وقت تک خود قریش کے لوگ بھی اس غلط فہمی میں تھے کہ معاہدے کا اطلاق مرد اور عورت دونوں پر ہوتاہے مگر جب حضور نے ان کو معاہدے کے الفاظ کی طرف توجہ دلائی تو وہ دم بخود رہ گئے اور انہیں اس فیصلے کو ماننا پڑا۔ (تفہیم القرآن۔ ج 5، ص 434 تا 436 سے ماخوذ) اس طرح اس آیت میں رسول اللہ کے فیصلے کی توثیق کی گئی ہے لیکن یہ توثیق مشروط ہے۔ صرف ایسی خواتین کو واپس نہ کرنے کا فیصلہ ہے جو حقیقتاً اپنے ایمان کی خاطر ہجرت کر کے آئیں۔ پھر اس فیصلہ پر عمدرآمد کے لیے ہدایات ہیں۔ (مرتب)

نوٹ۔2 : حکم یہ ہوا کہ زوجین میں اگر ایک مسلمان اور دوسرا مشرک ہو تو تعلق نکاح قائم نہیں رہتا، پس اگر کسی کافر کی عورت مسلمان ہو کر ’’ دارالسلام‘‘ میں آ جائے تو جو مسلمان اس سے نکاح کرے اس کے ذمہ ہے کہ اس کافر نے جتنا مہر اس عورت پر خرچ کیا تھا، وہ اسے واپس کرے اور اب عورت کا جو مہر قرار پائے وہ جدا اپنے ذمہ رکھے، تب نکاح میں لا سکتا ہے دوسری طرف یہ حکم ہوا کہ جس مسلمان کی عورت کافر رہ گئی ہے وہ اس کو چھوڑ دے۔ پھر جو کافر اس سے نکاح کرے، وہ مسلمان کا خرچ کیا ہوا مہر واپس کرے۔ جب یہ حکم اترا تو مسلمان دینے اور لینے، دونوں کے لیے تیار ہوئے لیکن کافروں نے دینا قبول نہ کیا۔ تب اگلی آیت نازل ہوئی کہ جس مسلمان کی عورت گئی اور کافر اس کا کیا ہوا خرچ واپس نہیں کرتے تو جب کسی کافر کی عوت مسلمانوں کے ہاں آئے تو اس کا جو خرچ دینا تھا وہ کافر کو نہ دیں بلکہ اس مسلمان کو دیں جس کا حق مارا گیا ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند)

وَاِنْ فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ اِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَاٰتُوا الَّذِيْنَ ذَهَبَتْ اَزْوَاجُهُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْا  ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْٓ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ       11؀
[وَان فَاتَكُمْ: اور اگر ہاتھ سے نکل جائے][ شَيْءٌ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ: کوئی بھی تمھاری بیویوں میں سے][ اِلَى الْكُفَّارِ: کافروں کی طرف][ فَعَاقَبْتم: پھر تم لوگ بدلے (کا موقع پائو کافروں سے)][ فَاٰتُوا الَّذِينَ: تو تم لوگ دو ان کو][ ذَهَبَتْ اَزْوَاجُهُمْ: گئیں جن کی بیویاں [ مِّثْلَ مَآ انفَقُوْا: اس کے جیسا جو انھوں نے خرچ کیا][وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيٓ: اور تقوٰی اختیار کرو اس اللہ کا][ انتم بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ: تم لوگ جس پر ایمان رکھنے والے ہو]

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَـيْـــــًٔــا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَهٗ بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ   ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     12؀
[يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ: اے نبی جب کبھی آئیں آپ کے پاس مومن عورتیں][ يُبَايِعْنَكَ: (کہ) وہ بیعت کرتی ہیں آپ سے][ عَلٰٓي ان : اس بات پر کہ][ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَـيْـــــًٔــا: وہ شریک نہیں کریں گی اللہ کے ساتھ کسی چیز کو][وَّلَا يَسْرِقْنَ: اور وہ چوری نہیں کریں گی][وَلَا يَزْنِيْنَ: اور وہ زنا نہیں کریں گی][ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ: اور قتل نہیں کریں گی اپنی اولاد کو][ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُهْتَان: اور وہ نہیں لائیں گی کوئی ایسا بہتان][يَّفْتَرِيْنَهٗ: انھوں نے گھڑا ہو جس کو][ بَيْنَ اَيْدِيْ هِنَّ وَاَرْجُلِ هِنَّ: اپنے ہاتھوں اور پیروں کے سامنے][ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ: اور نافرمانی نہیں کریں گی کسی نیک بات (شریعت) میں][فَبَايِعْهُنَّ: تو آپ بیعت لیں ان سے][وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ : اور آپ مغفرت مانگیں ان کے لیے اللہ سے][ ان اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: بیشک اللہ بےانتہا بخشنے والا ہمیسہ رحم کرنے والا ہے]

 

نوٹ۔1 : آیت۔12۔ میں نبی
کی اطاعت پر بھی اطاعت فی المعروف کی قید لگائی گئی ہے حالانکہ حضور کے بارے میں کسی ادنیٰ شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی کہ آپ کبھی منکر کا بھی حکم دے سکتے ہیں۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا میں کسی مخلوق کی اطاعت قانونِ خداوندی کے باہر نہیں ہو گی۔ اس قاعدے کو رسول اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’ لَا طَاعَۃَ فِیْ مَعْصِبَۃِ اللّٰہ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ۔‘‘ اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت صرف معروف میں ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت کرے، اللہ تعالیٰ اس پر اسی مخلوق کو مسلط کر دیتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَىِٕسُوْا مِنَ الْاٰخِرَةِ كَمَا يَىِٕسَ الْكُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ       13؀ۧ
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَوْا قَوْمًا: اے لوگو جو ایمان لائے تم لوگ دوستی مت کرو کسی ایسی قوم سے][غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ: غضب کیا اللہ نے جن پر][ قَدْ يَىِٕسُوْا مِنَ الْاٰخِرَةِ: وہ لوگ مایوس ہو گئے ہیں آخرت سے][ كَمَا يَىِٕسَ الْكُفَّارُ: جیسے کہ مایوس ہوئے کافر لوگ][مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ: قبروں والوں سے]

 

نوٹ۔2 : آیت۔13۔ کے آخری حصے کے دو معنی کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ آخرت کی بھلائی اور اس کے خواب سے اسی طرح مایوس ہیں جیسے موت کے بعد کی زندگی سے انکار کرنے والے اس بات سے مایوس ہیں کہ ان کے جو رشتہ دار قبروں میں جا چکے ہیں وہ کبھی پھر زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ یہ معنی صحابہ کرام میں سے حضرت عبد اللہ بن عباس نے بیان کیے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ آخرت کی رحمت و مغفرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر ہر خیر سے مایوس ہیں، کیونکہ انہیں مبتلائے عذاب ہونے کا یقین ہو چکا ہے۔ صحابہ کرام میں سے یہ معنی حضرت عبد اللہ بن مسعود نے بیان کیے ہیں۔ (تفہیم القرآن)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ        ۝

سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ       Ǻ۝
[سَبَّحَ للّٰهِ مَا: تسبیح کرتی ہے اللہ کی (ہر) وہ چیز جو][ فِي السَّمٰوٰتِ: آسمانوں میں ہے][ وَمَافِي الْاَرْضِ : اور (ہر) وہ چیز جو زمین میں ہے][ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ: اور وہی بالادست ہے حکمت والا ہے]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ     Ą۝
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم لوگ کیوں کہتے ہو][ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ: وہ جو تم کرتے نہیں]

كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ     Ǽ۝
[كَبُرَ: وہ (بات) بڑی ہوئی][ مَقْتًا : بلحاظ بےزاری کے][عِنْدَ اللّٰهِ: اللہ کے نزدیک][ ان تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ: کہ تم لوگ وہ کہو جو کرتے نہیں ہو]

 

ترکیب: (آیت۔3) کَبُرَ کا فاعل اس میں شامل ھُوَ کی ضمیر ہے جو گذشتہ آیت کے فقرے لَمَ تَقُوْلُوْنَ مَالاَ تَفْعَلُوْنَ کے لیے ہے۔ اس کو اسی آیت کے فقرے اَنْ تَقُوْلَوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ کی ضمیر ماننے سے مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن یہ اس لیے درست نہیں ہے کہ ضمیر کا مرجع عموماً ضمیر سے پہلے ہوتا ہے۔ مَقْتًا مفعول نہیں ہے بلکہ تمیز ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ     Ć۝
[ان اللّٰهَ يُحِبُّ: بیشک اللہ پسند کرتا ہے][ الَّذِينَ يُقَاتِلُوْنَ: ان لوگوں کو جو قتال کرتے ہیں][ فِيْ سَبِيْلِهٖ: اس کی راہ میں][ صَفًّا: صف باندھتے ہوئے][ كَانهُمْ: جیسے کہ وہ لوگ][ بُنْيَان مَّرْصُوْصٌ: ایک مضبوط کی ہوئی عمارت ہیں]

 

 ر ص ص

[رصًّا: (ن) ایک کو دوسرے سے جوڑنا۔ چمٹانا۔][مَرْصُوْصٌ: اسم المفعول ہے جوڑا ہوا۔ چھٹایا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت۔4۔]

 

(آیت۔4) صَفًّا حال ہے۔

 

نوٹ۔1 : صحابہ کرام کی ایک جماعت نے آپس میں مذاکرہ کیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے تو ہم اس پر عمل کریں۔ ان میں سے بعض نے کچھ ایسے الفاظ بھی کہے کہ اگر ہمیں معلوم ہو جائے تو ہم اپنی جان و مال سب اسی کے لیے قربان کر دیں گے۔ انہوں نے چاہا کہ کوئی جا کر رسول اللہ
سے یہ سوال کرے مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی۔ یہ لوگ اسی حالت پر تھے کہ رسول اللہ نے ان سب کو نام بنام اپنے پاس بلایا جب یہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے پوری سورہ صف پڑھ کر سنائی جو اسی وقت آپ پر نازل ہوئی تھی۔ اس سورہ نے یہ بھی بتا دیا کہ احب الاعمال جہاد فی سبیل اللہ ہے اور ساتھ ہی تنبیہہ کی گئی کہ کسی مومن کے لیے ایسے دعوے کرنا درست نہیں۔ اسے کیا معلوم کہ وقت پر وہ اپنے ارادے کو پورا کرسکے گا یا نہیں۔

 اس سے معلوم ہوا کہ ایسے کام کا دعوٰی کرنا جس کے کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو، یہ تو گناہ کبیرہ اور اللہ کی سخت ناراضی کا سبب ہے۔ اور جہاں کرنے کا ارادہ ہو وہاں بھی اپنی قوت و قدرت پر بھروسہ کر کے دعوٰی کرنا ممنوع و مکروہ ہے۔ رہا معاملہ دعوت و تبلیغ کا کہ جو کام آدمی خود نہیں کرتا اس کی نصیحت دوسروں کو کرے، وہ اس آیت کے مفہوم میں تو شامل نہیں۔ اس کے احکام دوسری آیات اور احادیث میں مذکور ہیں۔ جن میں وعظ و نصیحت کرنے والوں کو اس بات پر شرمندہ کیا گیا ہے کہ لگوں کو کسی نیک کام کی دعوت دو اور خود اس پر عمل نہ کرو۔ مقصد یہ ہے کہ جس کام کی طرف لوگوں کو بلاتے ہو خود بھی اس پر عمل کرو۔ لیکن یہ نہیں فرمایا کہ جب خود نہیں کرتے تو دوسروں کو کہنا بھی چھوڑ دو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس نیک کام کو خود کرنے کی ہمت و توفیق نہیں ہے، اس کی طرف دوسروں کو بلائے اور نصیحت کرنے کا سلسلہ نہ چھوڑے۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔2 : اس ارشاد کا ایک مدعا یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہیے۔ جو کچھ کہے اسے کر کے دکھائے اور کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ، یہ انسان کی ان بدترین صفات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں۔ نبی
نے تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں اس صفت کا پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو،روزے رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کا دعوٰی کرتا ہو۔ یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو اسی کی خلاف ورزی کرے اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ ایک اور حدیث میں آپ کا ارشاد ہے کہ چار صفتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منفق ہے اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ دے ۔ یہ کہ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور جب بولے تو جھوٹ بولے، اور جب عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑا کرے تو پھٹ پڑے یعنی اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالے۔

 فقہائے اسلام کا اس بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ کوئی شخص اگر اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد کرے، مثلاً کسی چیز کی نذر مانے، یا بندوں سے کوئی معاہدہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے تو اسے وفا کرنا لازم ہے الایہ کہ وہ کام بجائے خود گناہ ہو جس کا اس نے عہد یا وعدہ کیا ہو۔ گناہ ہونے کی صورت میں وہ کام تو نہیں کرنا چاہیے لیکن اس کی پابندی سے آزاد ہونے کے لیے کفارہ ادا کرنا چاہیے جو سورئہ مائدہ آیت۔89۔ میں بیان کیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ ۭ فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ    Ĉ۝
[وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ: جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے][ يٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ: اے میری قوم تم لوگ کیوں اذیت دیتے ہو مجھ کو][ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ: حالانکہ تم لوگ جان چکے ہو][ انى رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ: کہ میں اللہ کا رسول ہوں تمھاری طرف][ فَلَمَا زَاغُوْٓا: پھر جب وہ لوگ بہکے][ اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ: تو ٹیڑھا کیا اللہ نے ان کے دلوں کو][ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي: اور اللہ ہدایت نہیں دیتا][ الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ: نافرمانی کرنے والی قوم کو]

 

نوٹ۔1 : آیت۔5۔ میں بتایا گیا ہے کہ یہی روش یہود کی رہی ہے۔ وہ جہاد کے لیے جوش و جذبہ کا اظہار تو کرتے تھے لیکن جب امتحان کا وقت آتا تو پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ تورات کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہو گا کہ ایک موقعہ بھی ایسا نہیں گزرا ہے جب انہوں نے خوش دلی کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت کی ہو۔ تو اللہ نے اپنی سنت کے مطابق ان کو سزا یہ دی کہ بار بار کی تنبیہہ اور تذکیر کے بعد بھی جب انہوں نے اپنا رخ سیدھا نہیں کیا تو اللہ نے ان کے دل کو اسی رخ پر کج کردیا جس کو انہوں نے اپنے لیے پسند کیا۔ انسانی طبیعت کا یہ خاصہ ہے کہ انسان اسے جس رخ پر لگائے وہ اسی رخ پر لگ جاتی ہے۔ اگر آپ اس کو عقل و فطرت کے خلاف کسی غلط رخ پر موڑیں گے تو ابتدائً وہ اس پر مڑنے سے انکار کرے گی لیکن جب آپ اسے موڑنے پر بضد رہیں گے تو بالآخر وہ اسی سانچہ پر ڈھل جائے گی۔

 ہدایت و ضلالت کے معاملہ میں انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس کی طبیعت کے اسی اصول کے مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ کسی کو ہدایت پر مجبور کرتا ہے نہ ضلالت پر۔ اس نے انسان کو نیکی اور بدی کا شعور دے کر اسے آزادی بخشی ہے کہ وہ نیکی کی راہ اختیار کرے یا بدی کی۔ اگر وہ نیکی کی راہ اختیار کرتا ہے تو وہ اس کو اس کی توفیق دیتا ہے اور اگر وہ بدی کی راہ پر جانا چاہتا ہے تو وہ اس کو اس کی ڈھیل دیتا ہے جب تک چاہتاہے۔ (تدبر قرآن)

وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ ۭ فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْــرٌ مُّبِيْنٌ     Č۝
[وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ: اور جب کہا عیسیٰ ابن مریم نے][ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ: اے بنی اسرائیل][ انى رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ : کہ میں اللہ کا رسول ہوں تمھاری طرف][مُّصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ: تصدیق کرنے والا ہوتے ہوئے اس کی جو میرے سامنے ہے][ مِنَ التَّوْرٰىةِ : تورات میں سے][وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ: اور بشارت دینے والا ہوتے ہوئے ایک ایسے رسول کی جو][ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي: آئے گا میرے بعد][ اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ : جس کا نام احمد ہو گا][ فَلَمَا جَاۗءَهُمْ: پھر جب وہ آئے اس کے پاس][ بِالْبَيِّنٰتِ: واضح (نشانیوں) کے ساتھ][ قَالُوْا هٰذَا سِحْــرٌ مُّبِيْنٌ: تو انھوں نے کہا یہ کھلا جادو ہے]

 

نوٹ۔2 : آیات۔5۔6۔ میں اس فرق کو ملحوظ رکھیے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انداز خطاب میں نمایاں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو یٰقَوْمِ سے مخاطب کیا۔ جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو یٰبَنِیْ اِسْرَائِ یْلَ سے مخاطب کیا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا قومی تعلق نہ بنی اسرائیل سے تھا نہ کسی اور قوم سے بلکہ آپ عیسیٰ بن مریم تھے۔ قرآن نے اس باریک پہلو کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔3 : جہاں تک ’’ اس رسول‘‘ کی پیشینگوئی کا تعلق ہے، وہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ’’ اس رسول‘‘ کی خوش خبری دی۔ بعض دوسرے انبیاء سے بھی تورات کے مختلف صحیفوں میں پیشینگوئیاں موجود ہیں۔ اہل کتاب ان کا مصداق محمد
کو مانیں یا نہ مانیں لیکن ایک غیر جانبدار ذہن یہ ماننے پر مجبور ہے کہ محمد کے سوا وہ کسی اور پر منطبق نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے جہاں تک آپ کی بشارت کا تعلق ہے اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام منفرد نہیں ہیں۔ لیکن ان کو بشارت تین پہلوئوں سے دوسری سابقہ بشارتوں سے بالکل مختلف ہے۔ ایک یہ کہ آپ علیہ السلام نے اس بشارت کو ایک ضمنی کام نہیں بلکہ اپنی بعثت کا خاص مقصد اور مشن بتایا۔ دوسرا یہ کہ آپ علیہ السلام نے اس کے ظہور کا زمانہ بھی متعین کر دیا۔ اس سے پہلے جتنی پیشین گوئیاں رسول اللہ یا دوسرے انبیاء کے بارے میں وارد ہوئیں ان میں سے کسی میں بھی اس تصریح کے ساتھ زمانے کا تعین نہیں ہے۔ لیکن اس پیشینگوئی میں یہ تصریح ہے کہ وہ رسول میرے بعد آئے گا۔ تیسرا یہ کہ آپ علیہ السلام نے یہ بشارت رسول اللہ کے نام کی تصریح کے ساتھ دی ہے۔ (تدبیر قرآن)

 یہ سب کو معلوم ہے اور خود یہود و نصارٰی کو بھی اس کا اقرار کرنا پڑا ہے کہ تورات اور انجیل میں تحریف ہوئی ہے۔ موجودہ تحریف شدہ انجیل کی بنا پر آج کل کے عیسائی قرآن کی اس خبر کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس کے مفصل جواب کے لیے مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی کتاب اظہار الحق کا مطالعہ کیا جائے جو مذہب عیسائیت کی حقیقت اور انجیل میں تحریفات اور باوجود تحریفات کے اس میں رسول اللہ
کی بشارتیں موجود ہونے کے متعلق بےنظیر کتاب ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی تھی۔ پھر ترکی، انگریزی وغیرہ میں اس کے ترجمے ہوئے۔ حال ہی میں اس کا اردو ترجمہ دارالعلوم کراچی کے مدرس مولانا اکبر علی صاحب نے کیا ہے جو تین جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ اس کی تیسری جلد میں صفحہ 192 سے صفحہ 362 تک انہی بشارتوں کی تفصیل موجودہ انجیلوں کے حوالے سے اور شبہات کے جوابات مذکور ہیں۔ (معارف القرآن) اس موضوع پر ایک جامع اور مدلل بحث تفہیم القرآن کی جلد پانچ کے صفحات 461 تا 475 پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ (مرتب)

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعٰٓى اِلَى الْاِسْلَامِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ     Ċ۝ۚ
[وَمَنْ اَظْلَمُ: اور کون زیادہ ظالم ہے][ مِمَّنِ افْتَرٰى: اس سے جس نے گھڑا][ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ: اللہ پر جھوٹ][ وَهُوَ يُدْعٰٓى اِلَى الْاِسْلَامِ : اس حال میں کہ اس کو بلایا جاتا ہے اسلام کی طرف][وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي: اور اللہ ہدایت نہیں دیتا][الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ: ظلم کرنے والے لوگوں کو]

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ ۭ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ    Ď۝
[يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا: وہ لوگ ارادہ رکھتے ہیں کہ وہ بجھا دیں][ نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ: اللہ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے][وَاللّٰهُ مُتم نُوْرِهٖ: حالانکہ اللہ مکمل کرنے والا ہے اپنے نور کو][وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ: اور اگرچہ کراہیت کریں کفر کرنے والے]

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ     ۝ۧ
[هُوَ الَّذِيٓ: وہ، وہ ہے جس نے][ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ: بھیجا اپنے رسول کو][ بِالْهُدٰى: اس ہدایت (قرآن) کے ساتھ][ وَدِيْنِ الْحَقِّ: اور الحق (اللہ) کے ضابطۂ حیات کے ساتھ][لِيُظْهِرَهٗ: تاکہ وہ (رسول) غالب کر دیں اس (دین) کو][عَلَي الدِّيْنِ: ضابطہ حیات پر][كُلِهٖ : اس کے کل پر][وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ: اور اگرچہ کراہیت کریں شرک کرنے والے]

 

نوٹ۔4 : یہ بات نگاہ میں رہے کہ آیات۔8۔9۔ 3 ھ میں جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھیں۔ اس وقت اسلام صرف شہر مدینہ تک محدود تھا، مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی اور پرا عرب اس دین کو مٹانے پر تلا ہوا تھا۔ جنگ احد میں مسلمانوں کو جو زک پہنچی تھی اس کی وجہ سے ان کی ہوا اکھڑ گئی تھی اور گردوپیش کے قبائل ان پر شیر ہو گئے تھے۔ ان حالات میں فرمایا گیا کہ اللہ کا یہ نور کسی کے بجھائے بجھ نہ سکے گا بلکہ پوری طرح روشن ہو کر دنیا بھر میں پھیل کے رہے گا۔ یہ ایک صریح پیشینگوئی ہے جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ (تفہیم القرآن)

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ     10؀
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ: اے لوگو جو ایمان لائے کیا میں رہنمائی کروں تمھاری][عَلٰي تِجَارَةٍ: ایک ایسی تجارت پر جو][تُنْجِيْكُمْ: بچائے گی تم لوگوں کو][مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ: ایک دردناک عذاب سے]

تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ    11۝ۙ
[تُؤْمِنُوْنَ: تم لوگ ایمان لائو گے][ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ: اللہ پر اور اس کے رسول پر][ وَتُجَاهِدُوْنَ: اور جہاد کرو گے][فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: اللہ کی راہ میں][ بِاَمْوَالِكُمْ وَانفُسِكُمْ : اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے][ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ: یہ بہتر ہو گا تمھارے لیے][ان كُنْتم تَعْلَمُوْنَ:]

يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ      12۝ۙ
[يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ : تب وہ بخش دے گا تمھارے لیے تمھارے گناہوں ][وَيُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ: اور داخل کرے گا تم کو ایسے باغات میں][ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْانهٰرُ: بہتی ہوں گی جن کے دامن میں نہریں][ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً: اور ایسے پاکیزہ مکانوں میں جو][ فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ: عدن کے باغات میں ہوں گے][ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : یہ ہی شاندار کامیابی ہے]

وَّاُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ    13؀
[وَّاُخْرٰى: اور (تمھارے لیے) ایک دوسری (نعمت بھی) ہے][ تُحِبُّوْنَهَا: تم لوگ پسند کرتے ہو جس کو][ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ: (وہ) نصرت ہے اللہ (کی طرف) سے][ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ : اور قریبی فتح ہے][ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ: اور آپؐ بشارت دے دیں مومنوں کو]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَــوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَكَفَرَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ ۚ فَاَيَّدْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلٰي عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِيْنَ      14؀ۧ
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْٓا: اے لوگو جو ایمان لائے تم لوگ ہو جائو][ انصَارَ اللّٰهِ : اللہ کی مدد کرنے والے][كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ: جیسے کہ کہا عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں کو][مَنْ انصَارِيْٓ: کون ہیں میری مدد کرنے والے][ اِلَى اللّٰهِ: اللہ کی طرف][ قَالَ الْحَــوَارِيُّوْنَ: کہا حواریوں نے][ نَحْنُ انصَارُ اللّٰهِ: ہم ہیں اللہ کی مدد کرنے والے][فَاٰمَنَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ: تو ایمان لایا ایک گروہ بنی اسرائیل میں سے][وَكَفَرَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ : اور انکار کیا ایک گروہ نے][ فَاَيَّدْنَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا: تو ہم نے تائید کی ان کی جو ایمان لائے][ عَلٰي عَدُوِّهِمْ: ان کے دشمنوں کے خلاف][ فَاَصْبَحُوْا: تو وہ لوگ ہو گئے ][ ظٰهِرِيْنَ : غالب آنے والے]

 

نوٹ۔1 : بعض لوگوں کے ذہن میں یہ الجھن پائی جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قادرِمطلق ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں تو کوئی بندہ آخر اللہ کا مددگار کیسے ہو سکتا ہے۔ دراصل لوگوں کو اللہ کا مددگار اس لیے نہیں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ معاذ اللہ کسی کام کے لیے اپنی کسی مخلوق کی مدد کا محتاج ہے بلکہ یہ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایمان یا کفر اور اطاعت یا نافرمانی کی آزادی بخشی ہے۔ اس میں وہ لوگوں کو اپنی قوتِ قاہرہ سے کام لے کر زبردستی کسی کو مومن اور مطیع نہی بناتا بلکہ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ان کو راہ راست دکھانے کے لیے تذکیر و تعلیم کا طریقہ اختیار فرماتا ہے۔ اس تذکیر تعلیم کو جو شخص اپنی آزاد مرضی سے قبول کرلے وہ مومن ہے، جو اس پر عمل کرے وہ مسلم اور عابد ہے، جو خداترسی کا رویہ اختیار کرے وہ متقی ہے، جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے لگے وہ محسن ہے اور اس سے مزید ایک قدم آگے بڑھ کے جو اسی تذکیر و تعلیم کے ذریعہ سے بندگان خدا کی اصلاح کے لیے اور کفر و نافرمانی کی جگہ اللہ کی اطاعت کا نظام قائم کرنے کے لیے کام کرنے لگے اسے اللہ تعالیٰ اپنا مددگار قرار دیتا ہے۔ اس طرح یہ مددگاری اس معنی میں ہے کہ یہ لوگ اسی کام میں حصہ لیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ اپنی قوت قاہرہ کے ذریعہ سے کرنے کے بجائے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے کرتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ        ۝

يُسَـبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِـيْمِ      Ǻ۝
[يُسَـبِحُ للّٰهِ: تسبیح کرتی ہے اللہ کی] [مَا فِي السَّمٰوٰتِ: (ہر) وہ چیز جو آسمانوں میں ہے] [وَمَا فِي الْاَرْضِ: اور (ہر) وہ چیز جو زمین میں ہے] [الْمَلِكِ: جو بادشاہ ہے] [الْقُدُّوْسِ: پاک ہے] [الْعَزِيْزِ: بالادست ہے] [الْحَكِـيْمِ: حکمت والا ہے]

 

ترکیب: (آیت۔1) اَلْمَلِکِ سے اَلْحَکِیْمِ تک سارے اسماء لِلّٰہِ کی صفت ہونے کی وجہ سے حالت جر میں ہیں۔

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ     Ą۝ۙ
[هُوَ الَّذِي بَعَثَ: وہ، وہ ہے جس نے بھیجا] [فِي الْاُمِّيّٖنَ: اَن پڑھ لوگوں میں] [رَسُوْلًا مِّنْهُمْ: ایک ایسا رسول ان میں سے جو] [يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ: پڑھ کر سناتا ہے ان کو اس کی آیتیں] [وَيُزَكِّيْهِمْ: اور تزکیہ کرتا ہے ان کا] [وَيُعَلِمُهُمُ: اور تعلیم دیتا ہے ان کو] [الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ: اِس کتاب (قرآن) کی اور دانائی کی] [وَان كَانوْا مِنْ قَبْلُ: اور بیشک وہ لوگ تھے اس سے پہلے] [لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ: یقینا ایک کھلی گمراہی میں]

 

نوٹ۔1: آیت۔2۔ میں لفظ اُمِّیّٖنَ بنی اسمٰعیل کے لیے ایک امتیازی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یہ اصطلاح اگرچہ یہود کی وضع کردہ تھی جس میں ان کے اندر کے مذہبی پندار کی جھلک بھی تھی اور اہل عرب کے لیے ان کا جذبۂ تحقیر بھی نمایاں تھا۔ لیکن بنی اسمٰعیل چونکہ کتاب و شریعت سے ناآشنا تھے اس لیے بغیر کسی احساس کمتری کے انھوں نے اس لقب کو اپنے لیے خود بھی اختیار کرلیا پھر جب قرآن نے ان کے لیے اور ان کی طرف مبعوث ہونے والے رسول کے لیے اس لفظ کو ایک امتیازی صفت کے طور پر ذکر کیا تو اس کا رتبہ انتہائی بلند ہو گیا اور جن کو اَن پڑھ اور گنوار کہہ کر حقیر ٹھہرایا گیا تھا وہ تمام عالم کی تعلیم و تہذیب پر مامور ہوئے اور جن کو اپنے حامل کتاب و شریعت ہونے پر ناز تھا وہ کَمَئَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا کے مصداق قرار پائے (تدبر قرآن) ۔

 لفظ اُمّی کی یہ وضاحت میں نے جب ایک بہت پڑھے لکھے دانشور کے سامنے کی تو وہ چہک کر بولے کہ آج ہمبھی تو اسی گدھے کی مانند ہیں۔ ہم حامل قرآن ہیں لیکن ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ اس میں کیا ہے۔ میں نے کہا آپ کی بات جزوی طور پر تو درست ہے لیکن کلیتاً درست نہیں ہے۔ پوچھا وہ کیسے۔ میں نے کہا کہ اس گدھے کی مثال ہمارے دانشوروں پر تو صادق آتی ہے لیکن ہمارے علماء کرام پر صادق نہیں آتی۔ پھر ان کے مہذب ہونے کی قلعی کھل گئی۔ (مرتب)

وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ    Ǽ۝
[وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ: اور کچھ ایسے دوسرے لوگوں میں ان میں سے جو] [لَمَا يَلْحَقُوْا بِهِمْ: ابھی تک نہیں ملے ان سے] [وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ: اور وہی بالادست ہے حکمت والا ہے]

 

(آیت۔3) وَاٰخَرِیْنَ گذشتہ آیت میں فِی الْااُمِّیّٖنَ کے فِیْ پر عطف ہونے کی وجہ سے حالت جرّ میں ہے۔

 

نوٹ۔2: آیت۔3۔ میں آخَرِیْنَ کے عطف میں دو قول ہیں۔ بعض نے اس کو اُمِّیّٖنَ پر عطف قرار دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بھیجا اللہ نے اپنا رسول امین میں اور ان لوگوں میں جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ یہاں ان میں بھیجنے سے مراد ان کے لیے بھیجنا ہے کیونکہ لفظ فی عربی میں اس معنی کے لیے آتا ہے اور بعض نے آخرین کا عطف یُعَلِّمُھُمْ کی ضمیر منصوب پر مانا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہو گا کہ رسول اللہ
تعلیم دیتے ہیں۔ امین کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورہ جمعہ آپ پر نازل ہوئی اور آپ نے ہمیں سنائی۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ کون لوگ ہیں جن کا ذکر آخرین کے لفظ سے کیا گیا ہے۔ آپ نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسی پر رکھ دیا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا کی بلندی پر بھی ہو گا تو ان کی قوم کے کچھ لوگ وہاں سے بھی لے آئیں گے۔ (معارف القرآن)

 اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ محمد
کی رسالت صرف عرب قوم تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کی ان دوسروں قوموں اور نسلوں کے لیے بھی ہے جو ابھی آ کر اہل ایمان میں شامل نہیں ہوئی ہیں مگر آگے قیامت تک آنے والی ہیں۔ اس میں لفظ مِنْھُمْ (ان میں سے) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دوسرے لوگ امتیوں میں سے، یعنی دنیا کی غیر اسرائیلی قوموں میں سے ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ وہ محمد کو ماننے والے ہوں گے جو بعد میں آ کر شامل ہوں گے۔ اس طرح یہ آیت منجملہ ان آیات کے ہے جن میں تصریح کی گئی ہے کہ رسول اللہ کی بعثت تمام نوع انسانی کی طرف ہے اور ابد تک کے لیے ہے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات جہاں اس مضمون کی صراحت کی گئی ہے یہ ہیں۔ الانعام۔19۔ الاعراف۔158۔ الانبیائ۔107۔ الفرقان۔1۔ سبا۔28۔ (تفہیم القرآن)

ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ   ۭ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ    Ć۝
[ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ: یہ اللہ کا فضل ہے] [يُؤْتِيْهِ: وہ دیتا ہے وہ (فضل)] [مَنْ يَّشَاۗءُ: اس کو جسے وہ چاہتا ہے] [وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ: اور اللہ بڑے فضل والا ہے]

مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا   ۭ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ   ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ     Ĉ۝
[مَثَلُ الَّذِينَ: ان لوگوں کی مثال جن سے] [حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ: اٹھوائی گئی تورات] [ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا: پھر انھوں نے نہیں اٹھایا اس کو] [كَمَثَلِ الْحِمَارِ: اس گدھے کی مثال کی مانند ہے] [يَحْمِلُ اَسْفَارًا: جو اپنے اوپر لادتا ہے کچھ کتابیں] [بِئْسَ: کتنی بری ہے] [مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ: اس قوم کی مثال جنھوں نے] [كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ: جھٹلایا اللہ کی نشانیوں کو] [وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي: اور اللہ ہدایت نہیں دیتا] [الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ: ظلم کرنے والے لوگوں کو]

قُلْ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ هَادُوْٓا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّكُمْ اَوْلِيَاۗءُ لِلّٰهِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ     Č۝
[قُلْ يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ: آپ کہہ دیجئے اے وہ لوگو جو] [هَادُوْٓا: یہودی ہوئے] [ان زَعَمْتم: اگر تم کو زعم ہے] [انكُمْ اَوْلِيَاۗءُ للّٰهِ: کہ تم لوگ دوست ہو اللہ کے] [مِنْ دُوْنِ النَاسِ: (دوسرے) لوگوں کے بجائے] [فَتمنَّوُا الْمَوْتَ: تو تم لوگ تمنا کرو موت کی] [ان كُنْتم صٰدِقِيْنَ: اگر تم لوگ سچ کہنے والے ہو]

 

(آیت۔6) باب تفعل اور باب تفاعل میں فعل ماضی میں جمع مذکر غائب کا صیغہ اور فعل امر میں جمع مذکر مخاطب کا صیغہ، دونوں ہم شکل ہو جاتے ہیں۔ یہاں فَتَمَنَّوْا باب تفعل سے ہے اور بظاہر اس میں بھی دونوں امکان ہیں لیکن آیت کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ یہ فعل ماضی نہیں ہے بلکہ فعل امر ہے۔

وَلَا يَتَمَنَّوْنَهٗٓ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ     Ċ۝
[وَلَا يَتمنَّوْنَهٗٓ: اور یہ تمنا نہیں کریں گے اس کی] [اَبَدًۢا: کبھی بھی] [بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ: بسبب اس کے جو آگے بھیجا ان کے ہاتھوں نے] [وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ: اور اللہ جاننے والا ہے ظالموں کو]

قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيْكُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ    Ď۝ۧ
[قُلْ ان الْمَوْتَ الَّذِي: آپؐ کہیے بیشک وہ موت] [تَفِرُّوْنَ مِنْهُ: تم لوگ بھاگتے ہو جس سے] [فَانهٗ مُلٰقِيْكُمْ: تو یقینا وہ ملاقات کرنے والی ہے تم سے] [ثُمَّ تُرَدُّوْنَ: پھر تم لوگ لوٹائے جائو گے] [اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ: شہادہ اور غیب کے جاننے والے کی طرف] [فَيُنَبِئُكُمْ: پھر وہ جتلا دے گا تم کو] [بِمَا كُنْتم تَعْمَلُوْنَ: وہ، جو تم لوگ کیا کرتے تھے]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ      ۝
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْٓا: اے لوگو جو ایمان لائے] [اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ: جب پکارا جائے نماز کے لیے] [مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ: جمعہ کے دن میں سے] [فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ: تو تم لوگ لپکو اللہ کی یاد کی طرف] [وَ: اور] [ذَرُوا: تم لوگ چھوڑ دو] [الْبَيْعَ: سوداگری کو] [ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ: یہ بہتر ہے تمھارے لیے] [ان كُنْتم تَعْلَمُوْنَ: اگر تم لوگ جانتے ہو]

 

نوٹ۔1: جمعہ کے دن کو یوم جمعہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے اجتماع کا دن ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں اس دن کو یوم عروبہ کہا جاتا تھا۔ سب سے پہلے عرب میں کعب بن لوئی نے اس کا نام جمعہ رکھا۔ قریش اس دن جمع ہوتے اور کعب بن لوئی خطبہ دیتے تھے۔ یہ واقعہ رسول اللہ
کی بعثت سے پانچ سو ساٹھ سال پہلے کا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے زمانۂ جاہلیت میں بھی بت پرستی سے بچایا اور توحید کی توفیق عطا فرمائی۔ انھوں نے نبی کریم کی بعثت کی خوشخبری بھی لوگوں کو سنائی تھی۔ (معارف القرآن)

 اسلام سے پہلے ہفتہ کا ایک دن عبادت کے لیے مخصوص کرنے اور اس کو شعار ملت قرار دینے کا طریقہ اہل کتبا میں موجود تھا۔ یہودیوں نے اس غرض کے لیے سبت (ہفتہ) کا دن مقرر کیا تھا کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دی تھی۔ عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے ممتیز کرنے کے لیے اپنا شعارِ ملت اتوار کا دن قرار دیا۔ اگرچہ اس کا کوئی حکم نہ حضرت عیسیٰ اسی روز قبر سے نکل کر آسامان کی طرف گئے تھے۔ اس بنا پر بعد کے عیسائیوں نے اسے اپنی عبادت کا دن قرار دے لیا اور پھر 321 ء میں رومی سلطنت نے ایک حکم کے ذریعے سے اس کو عام تعطیل کا دن مقرر کر دیا۔ اسلام نے ان دونوں ملتوں سے اپنی ملت کو ممیّز کرنے کے لیے یہ دونوں دن چھوڑ کر جمعہ کو اجتماعی عبادت کے لیے اختیار کیا۔

 جمعہ کی فرضیت کا حکم نبی
پر ہجرت سے کچھ پہلے مکہ میں نازل ہو چکا تھا لیکن اس وقت آپ اس پر عمل نہیں کرسکتے تھے کیونکہ مکہ میں کوئی اجتماعی عبادت ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے آپ نے ان لوگوں کو جو پہلے ہجرت کر کے مدینہ پہنچ چکے تھے، یہ حکم لکھ بھیجا وہاں جمعہ قائم کریں۔ چنانچہ ابتدائی مہاجرین کے سردار حضرت مُصعب بن عمیر نے 12۔ آدمیوں کے ساتھ مدینہ میں پہلا جمعہ پڑھا۔ اس سے بھی پہلے مدینہ کے انصار نے بطور خود آپ میں یہ طے کیا تھا کہ ہفتہ میں ایک دن مل کر اجتماعی عبادت کریں گے۔ اس غرض کے لیے انھوں نی یہودیوں کے سبت اور عیسائیوں کے اتوار کو چھوڑ کر جمعہ کا دن انتخاب کیا اور پہلا جمعہ حضرت اسعد بن ذرارہ نے بنی بیاضہ کے علاقے میں پڑھا جس میں چالیس آدمی شریک ہوئے۔ رسول اللہ نے ہجرت کے بعد جو اوّلین کام کیے ان میں جمعہ کی اقامت بھی تھی۔

 ’’ اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو‘‘۔ ’’ خریدوفروخت چھوڑ دو‘‘۔ یہ حکم قطعی طور پر نماز جمعہ کے فرض ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس کی تائید بکثرت احادیث کرتی ہیں جن میں رسول اللہ
نے سخت ترین تاکید کی ہے اور اسے صاف صاف الفاظ میں فرض قرار دیا ہے۔ (ہم یہاں پر صرف ایک حدیث نقل کر رہے ہیں۔ مرتب) ۔ حضور نے فرمایا: آج سے لے کر قیامت تک جمعہ ہم لوگوں پر فرض ہے۔ جو شخص اسے ایک معمولی چیز سمجھ کر یا اس کا حق نہ مان کر اسے چھوڑے، خدا اس کا حال درست نہ کرے، نہ اسے برکت دے۔ خوب سن رکھو اس کی نماز نماز نہیں، اس کا روزہ روزہ نہیں، اس کی کوئی نیکی نیکی نہیں جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے۔ پھر جو توبہ کرلے اللہ اسے معاف فرمانے والا ہے۔ البتہ آپ عورت، بچے، غلام، مریض اور مسافر کو اس فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ قرآن و حدیث کو انہی تصریحات کی وجہ سے جمعہ کی فرضیت پر پوری امت کا اجماع ہے۔

فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ     10؀
[فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ: پھر جب پوری کرلی جائے نماز] [فَانتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ: تو تم لوگ منتشر ہو جائو زمین میں] [وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ: اور تلاش کرو اللہ کے فضل میں سے (روزی)] [وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا: اور ذکر کرتے رہو اللہ کا کثرت سے] [لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ: شاید کہ تم لوگ مراد پائو]

 

 آیت۔10۔ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانا اور رزق تلاش کرنا ضروری ہے بلکہ یہ ارشاد اجازت کے معنی میں ہے جیسے سورئہ نساء میں ایک سے زائد نکاح کی اجازت فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ کے الفاظ میں دی گئی ہے۔ یہاں اگرچہ فَانْکِحُوْا فعل امر ہے مگر کسی نے بھی اس کو حکم کے معنی میں نہیں لیا ہے۔ اس سے یہ اصولی مسئلہ نکلتا ہے کہ صیغۂ امر ہمیشہ وجوب ہی کے معنی میں نہیں ہوتا بلکہ کبھی یہ اجازت اور کبھی استحباب کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔ یہ بات قرأن سے معلوم ہوتی ہے کہ کہاں یہ حکم کے معنی میں ہے اور کہاں اجازت کے معنی میں اور کہاں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ کو ایسا کرنا پسند ہے۔ لیکن یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ فعل فرض یا واجب ہے۔

 اس مام پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ یہودیوں کے سبت اور عیسائیوں کے اتوار کیطرح قرآن میں جمعہ کو عام تعطیل کا دن قرار نہیں دیا گیا ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ جمعہ ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کا شعار ملت ہیں۔ اگر ہفتہ میں کوئی ایک دن عام تعطیل کے لیے مقرر کرنا تمدنی ضرورت ہو تو جس طرح یہودی اس کے لیے فطری طور پر ہفتہ کو اور عیسائی اتوار کو منتخب کرتے ہیں اسی طرح مسلمان اس غرض کے لیے جمعہ کوہی منتخب کرے گا بلکہ عیسائیوں نے تو دوسرے ایسے ملکوں پر بھی اپنے اتوار کو مسلط کرنے میں تامل نہ یا جہاں عیسائی آبادی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی۔ یہودیوں سے جب فلسطین میں اپنی ریاست قائم کی تو اولین کام جو انھوں نے کیا وہ یہ تھا کہ اتوار کے بجائے ہفتہ کو چھٹی کا دن مقرر کیا۔ تقسیم سے پہلے ہندوستان میں برطانوی ہند اور مسلمان ریاستوں کے درمیان نمایاں فرق یہ نظر آتا تھا کہ ملک کے ایک حصے میں اتوار کی چھٹی ہوتی تھی اور دوسرے حصے میں جمعہ کی۔ البتہ جہاں مسلمانوں کے اندر اسلامی حِس موجود نہیں ہوتی وہاں وہ اپنے ہاتھ میں اقتدار آنے کے بعد بھی اتوار کو سینے سے لگائے رہتے ہیں، جیسا کہ ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں بلکہ اس سے زیادہ جب بےحسی طاری ہوتی ہے تو جمعہ کی چھٹی منسوخ کر کے اتوار کو چھٹی رائج کی جاتی ہے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 5۔ ص 493 تا 498 سے ماخوذ) ۔

وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَۨا انْفَضُّوْٓا اِلَيْهَا وَتَرَكُوْكَ قَاۗىِٕمًا   ۭ قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ    ۭ وَاللّٰهُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ      11۝ۧ
[وَاِذَا رَاَوْا: اور جب وہ دیکھتے ہیں] تِجَارَةً اَوْ لَهْوَۨا: کوئی تجارت یا تماشہ] [انفَضُّوْٓا اِلَيْهَا: تو بکھر جاتے ہیں اس کی طرف] [وَتَرَكُوْكَ قَاۗىِٕمًا: اور چھوڑ جاتے ہیں آپ کو کھڑا ہوا] [قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ: آپ کہیے جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے] [مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ: تماشے سے اور تجارت سے] [وَاللّٰهُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ: اور اللہ رزق دینے والوں کا بہترین ہے]

 

نوٹ۔2: آیت۔11۔ میں ان لوگوں کو تنبیہہ کی گئی ہے جو جمعہ کا خطبہ چھوڑ کر تجارتی کام کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ امام ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب نبی کریم
خطبۂ جمعہ نماز جمعہ کے بعد دیا کرتے تھے جیسا کہ عیدین میں اب بھی یہی معمول ہے۔ ایک جمعہ کے روز یہ واقعہ پیش آیا کہ نماز جمعہ سے فارغ ہو کر رسول اللہ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک قافلہ مدینہ کے بازار میں پہنچا اور اس کا اعلان ہونے لگا، اس وقت نماز جمعہ سے فراغت ہو چکی تھی، خطبہ ہو رہا تھا۔ بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بازار چلے گئے اور آپ کے ساتھ تھوڑے سے حضرات رہ گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مدینہ میں اشیاء ضرورت کی کمی اور سخت مہنگائی تھی۔ اوّل تو نماز فرض ادا ہو چکی تھی۔ خطبہ کے متعلق یہ معلوم نہ تھا کہ جمعہ میں وہ بھی فرض کا جز ہے، دوسرے اشیاء کی گرانی، ان اسباب کے تحت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ لغزشہوئی۔ اسی پر عار دلانے اور تنبیہہ کرنے کے لیے آیت مذکورہ نازل ہوئی اور اسی کے سبب سے رسول اللہ نے خطبہ کے معاملے میں اپنا طرز بدل دیا کہ نماز جمعہ سے پہلے خطبہ دینے کا معمول بنا لیا اور یہی اب سنت ہے۔ (معارف القرآن بروایت ابن کثیر)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ        ۝

اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ     ۘ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ    ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ     Ǻ۝ۚ
[اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ: جب آتے ہیں آپ کے پاس منافق لوگ] [قَالُوْا: تو وہ کہتے ہیں (کہ)] [نَشْهَدُ انكَ: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ] [لَرَسُوْلُ اللّٰهِ: یقینا اللہ کے رسول ہیں] [وَاللّٰهُ يَعْلَمُ: اور اللہ جانتا ہے] [انكَ لَرَسُوْلُهٗ: کہ آپ یقینا اس کے رسول ہیں] [وَاللّٰهُ يَشْهَدُ: اور اللہ گواہی دیتا ہے] [ان الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ: کہ منافق لوگ یقینا جھوٹے ہیں]

 

ترکیب: (آیت۔1) عام قاعدہ یہ ہے کہ اِنَّ جملہ کے شروع میں آتاہے اور اَنَّ جملہ کے درمیان میں آتا ہے۔ اس کا ایک استثنا ہم پڑھ چکے ہیں کہ قَالَ یا اس کے مشتقات سے شروع ہونے والے جملوں کے درمیان میں اِنَّ آتاہے لیکن ایسی صورت میں اِنَّ کے معنی ’’ بیشک‘‘ نہیں بلکہ ’’ کہ‘‘ ہوتے ہیں، (دیکھیں آیت نمبر۔2:25، نوٹ۔2) ۔ اب آیت زیر مطالعہ میں اس قاعدے کا دوسرا استثنا آیا ہے۔ اس آیت میں نَشْھَدُ۔ یَعْلَمْ اور یَشْھَدُ تینوں افعال کے بعد اِنَّ کے بجائے اَنَّ آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خبر پر اگر لام تاکید آ رہا ہو تو پھر جملے کے درمیان میں اَنَّ کے بجائے اِنَّ آتا ہے اور ایسی صورت میں بھی اس کا ترجمہ ’’ کہ‘‘ ہی کیا جاتاہے۔

 

نوٹ۔1: جس خاص واقعہ کے بارے میں یہ سورہ نازل ہوئی ہے اس کا ذکر کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مدینہ کے منافقین کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے، کیونکہ جو واقعہ اس موقع پر پیس آیا تھا وہ محض ایک اتفاقی حادثہ نہ تھا، بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا سلسلۂ واقعات تھا۔

 مدینہ میں رسول اللہ
کی تشریف آوری سے پہلے اوس اور خزرج کے قبیلے آپس کی خانہ جنگیوں سے تھک کر ایک شخص کی قیادت پر متفق ہو چکے تھے اور اس کو اپنا بادشاہ بنا کر باقاعدہ اس کی تاجپوشی کرنے والے تھے۔ یہ شخص قبیلہ خزرج کا رئیس عبد اللہ بن اُبی تھا۔ اس صورتحال میں اسلام کا چرچا مدینے پہنچا اور دونوں قبیلوں کے بااثر لوگ مسلمان ہونا شروع ہو گئے۔ اس کے بعد جب حضور مدینے پہنچے تو انصار کے ہر گھرانے میں اسلام اتنا پھیل چکا تھا کہ عبد اللہ بن ابی بےبس ہو گیا اور اس کو اپنی سرداری بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئی کہ خود بھی مسمان ہو جائے۔ چنانچہ وہ اپنے ان بہت سے ساتھیوں کے ساتھ، جن میں دونوں قبیلوں کے سردار شامل تھے، داخل اسلام ہو گیا۔ حالانکہ ان سب کے دل جل رہے تھے۔ خاص طور پر عبد اللہ ابن ابی کو اس بات کا سخت غم تھا کہ رسول اللہ نے اس کی بادشاہت چھین لی ہے۔ کئی سال تک اس کا یہ منافقانہ ایمان اور بادشاہت چھن جانے کا یہ غم طرح طرح کے غم دکھاتا رہا۔

1۔ جنگ بدر کے بعد جب بنی قینقاع کی بلااشتعال سرکشی پر رسول اللہ
نے ان پر چڑھائی کی تو یہ شخص ان کی حمایت پر اٹھ کھڑا ہوا اور حضور کی زرہ پکڑ کر کہنے لگا کہ یہ سات سو مردانِ جنگی جو ہر شخص کے قابلے پر میرا ساتھ دیتے رہے ہیں، آپ ایک دن میں انھیں ختم کر ڈالنا چاہتے ہیں۔ خدا کی قسم میں آپ کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا جب تک آپ میرے ان حلیفوں کو معاف نہ کر دیں۔

2۔ جنگ احد کے موقع پر قریش تین ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر چڑھ آئے تھے اور رسول اللہ
صرف ایک ہزار آدمی لے کر مدافعت کے لیے نکلے تھے۔ اس وقت یہ منافق تین سو آدمی توڑ لایا اور حضور کو صرف سات سو کی جمیعت کے ساتھ تین ہزار دشمنوں کا مقابلہ کرناپڑا۔ اس کے بعد مدینہ کے مسلمانوں کو معلوم ہو گیا کہ یہ شخص قطعی منافق ہے اور اس کے وہ ساتھی بھی پہچان لیے گئے و منافقت میں اس کے شریک کار تھے۔

3۔ پھر 4 ھ میں غزوئہ بنی نضیر پیش آیا۔ اس موقع پر اس شخص نے اور اس کے ساتھیوں نے اور بھی زیادہ کھل کر اسلام کے دشمنوں کی حمایت کی۔ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ عیہ و سلم یہودی دشمنوں سے جنگ کی تیاری کر رہے تھے اور دوسری طرف یہ منافقین یہودیوں کو پیغام بھیج رہے تھے کہ ڈٹے رہو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ اس خفیہ ساز باز کا راز اللہ تعالیٰ نے کھول دیا جیسا کہ سورئہ حشر کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔

 اس کی اور اس کے ساتھیوں کی اتنی پردہ دری ہو جانے کے باوجود رسول اللہ
اس کے ساتھ درگزر کا معاملہ فرماتے رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اوس اور خزرج کے بہت سے سردار اس کے حامی تھے اور مدینہ کی آبادی میں کم از کم ایک تہائی تعداد اس کے ساتھیوں کی موجود تھی، جیسا کہ غزوئہ احد کے موقع پر ظاہر ہو چکا تھا۔ ایسی حالت میں یہ کسی طرح مناسب نہیں تھا کہ باہر کے دشمنوں سے لڑائی کے ساتھ ساتھ اندر کے ان دشمنوں سے بھی جنگ مول لی جائے۔ اسی بنا پر ان کی منافقت کا حال جانتے ہوئے بھی آپ ایک مدت تک ان کے ساتھ ان کے ظاہری دعوائے ایمان کے لحاظ سے معاملہ فرماتے رہے۔ اس سبب سے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو غزوہ بنی مصطلق میں شامل ہونے کا موقع مل گیا اور اس مہم میں دو عظیم فتنے اٹھائے۔ ان میں ایک فتنہ وہ تھا جس کا ذکر سورئہ نور میں گزر چکا ہے۔ (یعنی بی بی عائشہ پر بہتان لگانے کا فتنہ) اور دوسرا فتنہ یہ ہے جس کا اس سورہ میں ذکر کیا گیا ہے۔

 بنی مصطلق کو شکست دینے کے بعد لسکر ایک بستی میں ٹھہرا ہوا تھا۔ وہاں کنویں پر پانی بھرنے میں دو صحابیوں کا جھگڑا ہو گیا۔ ان ایک حضرت عمر کے ملازم تھے اور دوسرے ایک انصاری تھے۔ زبانی ترش کلامی سے گزر کر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی تو دونوں نے اپنے اپنے قبیلوں کو مدد کے لیے پکارا۔ قریب تھا کہ انصار اور مہاجر آپس میں لڑ پڑتے لیکن یہ شور سن کر رسول اللہ
نکل آئے اور آپ نے فرمایا کہ یہ جاہلیت کی پکار کیسی۔ تم لوگ کہاں اور یہ جاہلیت کی پکار کہاں۔ اسے چھوڑ دو۔ یہ بری گندی چیز ہے۔ اس پر دونوں طرف سے صالح لوگوں نے آگے بڑھ کر معاملہ رفع دفع کرا دیا۔

 اس کے بعد منافقین عبد اللہ بن ابی کے پاس پہنچے۔ اس نے کہا کہ یہ سب کچھ تمھارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ تم نے ان لوگوں کو اپنے ملک میں جگہ دی، ان پر اپنے مال تقسیم کیے، اب یہ پھل پھول کر خود ہمارے ہی حریف بن گئے ہیں۔ تم لوگ ان سے ہاتھ روک لو تو یہ چلتے نظر آئیں۔ خدا کی قسم مدینہ واپس پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو نکال دے گا۔ اس مجلس میں حضرت زید بن ارقم بھی موجود تھے جو اس وقت ایک کم عمر لڑکے تھے۔ انھوں نے اپنے چچا سے اس کا ذکر کیا۔ ان کے چچا نے جو انصار کے رئیسوں میں سے تھے، جا کر رسول اللہ
کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کر دیا۔ آپ نے عبد اللہ ن ابی کو بلا کر پوچھا تو وہ قسمیں کھانے لگا کہ میں نے یہ باتیں ہرگز نہیں کیں۔ مگر حضور حضرت زید کو بھی جانتے تھے اور عبد اللہ بن ابی کو بھی، اس لیے آپ سمجھ گئے کہ اصل بات کیا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ بات تمام انصار میں پھیل گئی اور ان میں عبد اللہ بن ابی کے خلاف سخت غصہ پیدا ہو گیا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ آکر رسول اللہ سے معافی مانگو لیکن اس نے انکار کر دیا۔ یہ تھے وہ حالات جن میں یہ سورت نازل ہوئی۔

اِتَّخَذُوْٓا اَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ    ۭ اِنَّهُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ      Ą۝
[اِتَّخَذُوْٓا اَيْمَانهُمْ: انھوں نے بنایا اپنی قسموں کو] [جُنَّةً: ایک ڈھال] [فَصَدُّوْا: پھر وہ روکتے ہیں (لوگوں کو)] [عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: اللہ کے راستہ سے] [انهُمْ: بیشک وہ لوگ (ہیں کہ)] [سَاۗءَ مَا: برا ہے وہ جو] [كَانوْا يَعْمَلُوْنَ: یہ لوگ کرتے رہتے ہیں]

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ     Ǽ۝
[ذٰلِكَ بِانهُمْ: یہ اس سبب سے ہے کہ یہ لوگ] [اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا: ایمان لائے پھر انھوں نے انکار کیا] [فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ: تو ٹھپہ لگا دیا گیا ان کے دلوں پر] [فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ: نتیجۃً وہ سمجھتے نہیں ہیں]

وَاِذَا رَاَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ ۭ وَاِنْ يَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۭ كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ      ۭ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۭ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ  ۡ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ    Ć۝
[وَاِذَا رَاَيْتَهُمْ: اور جب کبھی آپ دیکھتے ہیں ان کو] [تُعْجبكَ اَجسامُهُمْ: تو دلکش لگتے ہیں آپ کو ان کے جسم] [وَان يَّقُوْلُوْا: اور اگر وہ لوگ کہتے ہیں (کچھ)] [تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ: تو آپ سنتے ہیں ان کی بات کو] [كَانهُمْ: جیسے کہ وہ لوگ] [خُشُبٌ: ایسی موٹی لکڑیاں ہیں جو] [مُّسَنَّدَةٌ: نیک دی ہوئی ہیں] [يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ: وہ لوگ گمان کرتے ہیں ہر چنگھاڑ کو] [عَلَيْهِمْ: اپنے پر ہی (پڑنے والی)] [هُمُ الْعَدُوُّ: وہلوگ ہی دشمن ہیں] [فَاحْذَرْهُمْ: تو آپ محتاط رہیں ان سے] [قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ: ہلاک کرے ان کو اللہ] [انٰى يُؤْفَكُوْنَ: کہاں سے پھیر دیئے جاتے ہیں]

 

 س ن د

[سُنُوْدًا: (ن) ] بھروسہ کرنا۔ سہارا لینا۔

(تفصیل) تَسْنِیْدًا مضبوط کرنا۔ سہارا دینا۔

 مُسَنَّدٌ اسم المفعول ہے۔ سہارا دیا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت۔4

 

(آیت۔4) فعل ماضی کبھی خبریہ کے بجائے دعائیہ بھی ہوتا ہے جیسے یہاں قَاتَلَھُمْ دعائیہ ہے۔ اردو محاورہ کی وجہ سے دعائیہ افعال ماضی کا ترجمہ اردو کے فعل سے کیا جاتا ہے۔ (دیکھیں آیت 2:72، نوٹ۔2)

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ وَرَاَيْتَهُمْ يَصُدُّوْنَ وَهُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ     Ĉ۝
[وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ: اور جب بھی کہا جاتا ہے ان سے] [تَعَالَوْا: تم لوگ آئو] [يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ: تو مغفرت مانگیں گے تمھارے لیے] [رَسُوْلُ اللّٰهِ: اللہ کے رسول] [لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ: تو وہ لوگ مٹکاتے ہیں اپنے سروں کو] [وَرَاَيْتَهُمْ يَصُدُّوْنَ: اور آپ دیکھتے ہیں ان کو رکتے ہوئے] [وَهُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ: اس حال میں کہ وہ بڑائی چاہنے والے ہوتے ہوئے]

سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۭ لَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ      Č۝
[سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ: برابر ہے ان پر] [اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ: خواہ آپ استغفار کریں ان کے لیے] [اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ: یا آپ استغفار نہ کریں ان کے لیے] [لَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ: ہرگز معاف نہیں کرے گا اللہ ان کے لیے (ان کے گناہوں کو)] [ان اللّٰهَ لَا يَهْدِي: بیشک اللہ ہدایت نہیں دیتا] [الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ: نافرمانی کرنے والی قوم کو]

هُمُ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰي مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا   ۭ وَلِلّٰهِ خَزَاۗىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَهُوْنَ     Ċ۝
[هُمُ الَّذِينَ يَقُوْلُوْنَ: وہ لوگ ہی وہ ہیں جو کہتے ہیں] [لَا تُنْفِقُوْا عَلٰي مَنْ: تم لوگ خرچ مت کرو ان پر جو] [عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ: اللہ کے رسول کے پاس ہیں] [حَتّٰى يَنْفَضُّوْا: یہاں تک کہ وہ لوگ منتشر ہو جائیں] [وَللّٰهِ خَزَاۗىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ: حالانکہ اللہ ہی کے ہیں آسمانوں اور زمین کے خزانے] [وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَهُوْنَ: اور لیکن منافق لوگ سمجھتے نہیں ہیں]

يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ ۭ وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ      Ď۝ۧ
[يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ: وہ لوگ کہتے ہیں بیشک اگر ہم لوٹے] [اِلَى الْمَدِيْنَةِ: مدینہ کیطرف] [لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ: تو لازماً نکالے گا زیادہ باعزت] [مِنْهَا الْاَذَلَّ: اس سے زیادہ ذلیل کو] [وَللّٰهِ الْعِزَّةُ: حالانکہ اللہ ہی کے لیے ہے کل عزت] [وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ: اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان لانے والوں کے لیے] [وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ: اور لیکن منافق لوگ جانتے نہیں ہیں]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ     ۝
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ: اے لوگو جو ایمان لائے تم لوگوں کو غافل نہ کریں] [اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ: تمھارے مال اور نہ تمھاری اولادیں] [عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ: اللہ کی یاد سے] [وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ: اور جو کرے گا یہ (کام)] [فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ: تو وہ لوگ ہی خسارہ پانے والے ہیں]

 

نوٹ۔1: اب خطاب مومنین سے ہے۔ ان کو اس سے ڈرایا گیا ہے کہ دنیا کی محبت میں ایسے مدہوش نہ ہو جائیں جیسے منافقین ہو گئے۔ دنیا کی سب سے بڑی دو چیزیں ہیں جو انسان کو اللہ سے غافل کرتی ہیں۔ مال اور اولاد۔ اس لیے ان دونوں کا نام لیا گیا، ورنہ مراد اس سے پوری متاعِ دنیا ہے۔ اور ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ مال و اولاد سے محبت ایک درجہ میں مذموم نہیں، ان کے ساتھ ایک درجہ تک لگاؤ صرف جائز نہیں بلکہ واجب بھی ہوجاتا ہے، مگر اس کی یہ حدِّ فاصل ہر وقت سامنے رہنا چاہیے کہ یہ چیزیں انسان کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔ حسن بصری نے فرمایا کہ ذکر سے مراد یہاں تمام اطاعتیں اور تمام عبادتیں ہیں۔ اور یہی قول سب کا جامع ہے۔ (معارف القرآن)

وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ      10 ؀
[وَانفِقُوْا: اور تم لوگ خرچ کرو] [مِنْ مَا رَزَقْنٰكُمْ: اس میں سے جو ہم نے عطا کیا تم کو] [مِّنْ قَبْلِ ان : اس سے پہلے کہ] [يَاْتِيَ اَحَدَكُمُ: آ پہنچے تم میں کے کسی ایک کو] [الْمَوْتُ: موت] [فَيَقُوْلَ رَبِ: نتیجۃً وہ کہے اے میرے رب] [لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ: کیوں نہ تو نے پیچھے کیا (مہلت دی) مجھ کو] [اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ: ایک قریبی مدت تک] [فَاَصَّدَّقَ: نتیجۃً میں صدقہ کرتا] [وَاَكُنْ: اور (پھرتو) میں ہو جائوں گا] [مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ: نیکی کرنے والوں میں سے]

 

ترکیب: (آیت۔10) فا سببیہ ہونے کی وجہ سے اَصَّدَّقَ حالت نصب میں آیا ہے۔ آگے اَکُنْ اگر فا سببیہ پر عطف ہوتا تو یہ حالت نصب میں اَکُوْنَ ہوتا۔ لیکن یہ حالت جزم میں اَکُنْ آیا ہے۔ اس لیے اس سے پہلے کوئی شرط والا فعل محذوف مانا جاتا ہے جس کا جواب شرط ہونے کی وجہ سے یہ مجزوم ہے۔ مثلاً وَلَگنْ اَحَرْتَنِیْ کو محذوف مانا جا سکتاہے۔

وَلَنْ يُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُهَا   ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ      11 ۝ۧ
[وَلَنْ يُّؤَخِّرَ اللّٰهُ: اور ہرگز پیچھے نہیں کرے گا (مہلت نہیں دے گا) اللہ] [نَفْسًا: کسی جان کو] [اِذَا جَاۗءَ اَجَلُهَا: جب آ جائے گا اس کا (خاتمے کا) وقت] [وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ: اور اللہ باخبرہے] [بِمَا تَعْمَلُوْنَ: اس سے جو ہم لوگ عمل کرو گے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ        ۝

يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ     Ǻ۝
[يُسَبِحُ للّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ: تسبیح کرتی ہے اللہ کی (ہر) وہ چیز جو آسمانوں میں ہے] [وَمَا فِي الْاَرْضِ: اور (بر) وہ چیز جو زمین میں ہے] [لَهُ الْمُلْكُ: اس کے لیے ہی ساری بادشاہت ہے] [وَلَهُ الْحَمْدُ: اور اس کے لیے ہی کل حمد ہے] [وَهُوَ عَلٰي كُلِ شَيْءٍ: اور وہ ہر چیز پر] [قَدِيْرٌ: قدرت رکھنے والا ہے]

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ     Ą۝
[هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ: وہ، وہ ہے جس نے پیدا کیا تم کو] [فَمِنْكُمْ كَافِرٌ: تو تم میں سے کوئی انکار کرنے والا ہے] [وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ: اور تمہیں سے کوئی ایمان لانے والا ہے] [وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ: اور اللہ اس کو جو تم لوگ کرو گے] [بَصِيْرٌ: دیکھنے والا ہے]

 

نوٹ۔1: آیت۔2۔ میں فَمِنْکُمْ کا حرف فا تعقیب (یعنی ایک چیز کا دوسرے کے بعد ہونے) پر دلالت کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اول تخلیق و آفرینش میں کوئی کافر نہیں تھا۔ یہ کافرو مومن کی تقسیم بعد میں اس اختیار کے تحت ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بخشا ہے۔ اور اسی کسب و اختیار کی وجہ سے اس پر گناہ و ثواب عائد ہوتاہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اولاد آدم سب ایک برادری ہے۔ اس برادری کو قطع کرنے اور ایک الگ گردہ بنانے والی چیز صرف کفر ہے۔ اس لیے پوری دنیا میں انسانوں میں گروہ بندی صرف ایمان و کفر کی بناء پر ہو سکتی ہے۔ رنگ، زبان، نسل، خاندان، وطن اور ملک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو انسانی برادری کو مختلف گروہوں میں بانٹ دے۔ رنگ و زبان کے اختلاف کو قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی نشانیوں اور انسان کے لیے بہت سے فوائد پر مشتمل ہونے کی بناء پر ایک نعمت تو قرار دیا ہے مگر اس کو بنی آدم میں گروہ بندی کا ذریعہ بنانے کی اجازت نہیں دی۔ کیونکہ ایمان و کفر کی بناء پر دو قوموں کی تقسیم ایک اختیاری امر پر مبنی ہے۔ اگر کوئی شخص ایک قومیت چھوڑ کر دوسری میں شامل ہونا چاہیے، تو بڑی آسانی سے اپنے عقائد بدل کر دوسرے میں شامل ہو سکتا ہے، بخلاف نسب و خاندان یا رنگ بدل دے۔ زبان اور وطن اگرچہ بدلے جا سکتے ہیں مگر زبان و وطن کی بنیاد پر بننے والی قومیں دوسروں کو اپنے اندر جذب کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتیں خواہ ان کی ہی زبان بولنے لگے اور ان کے وطن میں آباد ہو جائے (معارف القرآن)

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ۚ وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ     Ǽ۝
[خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ: اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو] [بِالْحَقِّ: حق (مقصد) کے ساتھ] [وَصَوَّرَكُمْ: اور اس نے صورت بنائی تم لوگوں کی] [فَاَحْسَنَ: پھر اس نے حُسن دیا] [صُوَرَكُمْ: تمھاری صورتوں کو] [وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ: اور اس کی طرف ہی لوٹنا ہے]

 

نوٹ۔2: یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتب آسمانی نے کبھی انسان کے پیدائشی گنہگار ہونے کا وہ تصور پیش نہیں کیا جسے ڈیڑھ ہزار سال سے عیسائیت نے اپنا بنیادی عقیدہ بنا رکھا ہے۔ آج خود کیتھولک علماء یہ کہنے لگے ہیں کہ بائبل میں اس عقیدے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ چنانچہ بائبل کا ایک مشہور جرمن عالم ریورینڈ ہربرٹ ہاگ اپنی کتاب
IS ORIGINAL SIN IN SCRIPTURE میں لکھتا ہے کہ ابتدائی دور کے عیسائیوں میں کم از تیسری صدی تک یہ عقیدہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے اور جب یہ خیال لوگوں میں پھیلنے لگا تو دو صدیوں تک عیسائی اہل علم اس کی تردید کرتے رہے۔ مگر آخرکار پانچویں صدی میں سینٹ آگسٹائن نے اپنی منطق کے زور سے اس بات کو مسیحیت کے بنیادی عقائد میں شامل کر دیا۔ (تفہیم القرآن)

ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِيْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ يَّهْدُوْنَنَا  ۡ فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ    ۭ وَاللّٰهُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ      Č۝
[ذٰلِكَ بِانهٗ: یہ بسبب اس حقیقت کے کہ] [كَانتْ تَّاْتِيْهِمْ: آئے تھے ان کے پاس] [رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ: ان کے رسول واضح (نشانیوں) کے ساتھ] [فَقَالُوْٓا: تو وہ کہتے تھے کیا ] [اَبَشَرٌ يَّهْدُوْنَنَا: کچھ بشر ہدایت دیں گے ہم کو] [فَكَفَرُوْا وَتَوَلَوْا: پھر انھوں نے انکار کیا اور منہ موڑا] [وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ: اور بےنیازی اختیار کی اللہ نے] [وَاللّٰهُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ: اور اللہ ہے (ہی) بےنیاز حمد کیا ہوا]

 

نوٹ۔3: آیت۔6 ۔ یں کافروں کا قول نقل ہوا ہے کہ کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے۔ یہ ان کی تباہی کی اولین اور بنیادی وجہ ہے۔ نوع انسانی کو دنیا میں صحیح راہ عمل اس کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی تھی کہ اس کا خالق اسے صحیح علم دے۔ اور خالق کی طرف سے علم دیئے جانے کی عملی صورت اس کے سوا کچھ نہ ہو سکتی تھی کہ وہ انسانوں ہی میں سے بعض افراد کو علم عطا کر کے دوسروں تک اسے پہنچانے کی خدمت سپرد کر دے۔ اس غرض کے لیے اس نے انبیاء کو بینات کے ساتھ بھیجا تاکہ لوگوں کے لیے ان کے برحق ہونے میں شک کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ رہے۔ مگر انھوں نے سرے سے یہی ماننے سے انکار کردیا کہ بشر خدا کا رسول ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد ان کے لیے ہدایت پانے کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔

 اس معاملہ میں گمراہ انسانوں کی جہاتل و نادانی کا یہ عجیب کرشمہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ بشر کی رہنمائی قبول کرنے میں تو انھوں نے کبھی تامل نہیں کیا ہے، حتیٰ کہ انہی کی رہنمائی میں لکڑی اور پتھر کے بتوں تک کو معبود بنایا۔ خود انسانوں کو خدا اور خدا کا اوتار اور خدا کا بیٹا تک مان لیا۔ گمراہ کن لیڈروں کی اندھی پیروی میں ایسے ایسے عجیب مسلک اختیار کیے جنھوں نے انسانی تہزیب و تمدن اور اخلاق کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ مگر جب خدا کے رسول ان کے پاس حق لے کر آئے تو انھوں نے کہا: ’’ کیا اب بشر ہمیں ہدایت دیں گے۔‘‘ اس کے معنیٰ یہ تھے کہ بشر اگر گمراہ کرے تو سر آنکھوں پر لیکن اگر وہ راہ راست دکھاتا ہے تو اس کی رہنمائی قابل قبول نہیں۔ (تفہیم القرآن)

زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا   ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ   ۭ وَذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ       Ċ۝
[زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوْٓا: یقینی جانا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا] [ان لَّنْ يُّبْعَثُوْا: کہ وہ ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے] [قُلْ بَلٰى: آپ کہیے کیوں نہیں] [وَرَبِيْ: میرے رب کی قسم] [لَتُبْعَثُنَّ: تم لوگ لازماً اٹھائے جائو گے] [ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ: پھر تم لوگوں کو لازماً باخبر کیا جائے گا] [بِمَا عَمِلْتم: اس سے جو تم نے عمل کیا] [وَذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ: اور یہ اللہ پر آسان ہے]

 

نوٹ۔1: زیر مطالعہ آیت۔7۔ میں یہ تیسرا مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا ہے کہ اپنے رب کی قسم کھا کر لوگوں سے کہو کہ ضرور ایسا ہو کر رہے گا۔ پہلے سورہ یونس کی آیت۔53۔ میں سورئہ سبا کی آیت۔3۔ میں اور اب اس آیت میں۔ سوال یہ ہے کہ ایک منکر آخرت کے لیے اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ اسے آخرت کی خبر قسم کھا کر دیں کیا قسم کھائے بغیر دیں۔ وہ جب نہیں مانتا تو اس بنا پر کیسے مان لے گا کہ آپ قسم کھا کر اس سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رسول اللہ
کے مخاطب وہ لوگ تھے جو اپنے علم اور تجربہ کی بنا پر یہ بات خوب جانتے تھے کہ انھوں نے کبھی عمر بھر جھوٹ نہیں بولا۔ اس لیے خواہ زبان سے وہ آپ کے خلاف کیسے بھی بہتان گھڑتے رہے ہوں اپنے دل میں وہ یہ تصور نہیں کرسکتے تھے کہ ایسا سچا انسان کبھی خدا کی قسم کھا کر وہ بات کہہ سکتا ہے جس کے برحق ہونے کا اسے یقین نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ نبی کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالاتر ہے۔ نبی کی اصلی حیثیت یہ نہیں ہے کہ عقلی استدلال سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ آخرت ہونی چاہیے۔ بلکہ اس کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ آخرت ہوگی اور یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ وہ ضرور ہو کر رہے گی۔ اس لیے ایک نبی ہی قسم کھا کر یہ بات کہہ سکتاہے اور ایک فلسفی اس پر قسم نہیں کھا سکتا۔ فلسفی اگر صحیح الفکر فلسفی ہو تو وہ ’’ ہونا چاہیے‘‘ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ’’ ہے اور یقینا ہے‘‘ کہنا صرف نبی کا کام ہے۔ (تفہیم القرآن)

فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا   ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ      Ď۝
[فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ: پس تم لوگ ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر] [وَالنُّوْرِ الَّذِيٓ انزَلْنَا: اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا] [وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ: اور اللہ اس سے جو تم لوگ کرتے ہو] [خَبِيْرٌ: باخبر ہے]

يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۭوَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُّكَفِّرْ عَنْهُ سَـيِّاٰتِهٖ وَيُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا     ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ       ۝
[يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ: جس دن وہ جمع کرے گا تم لوگوں کو] [لِيَوْمِ الْجَمْعِ: جمع کیے جانے کے دن کے لیے] [ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ: وہ نفع نقصان (کے ظہور) کا دن ہو گا] [وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ: اور ایمان لائے گا اللہ پر] [وَيَعْمَلْ صَالِحًا: اور عمل کرے گا نیک] [يُّكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّاٰتِهٖ: تو وہ دور کر دے گا اس سے اس کی برائیوں کو] [وَيُدْخِلْهُ: اور وہ داخل کرے گا اس کو] [جَنّٰتٍ: ایسے باغات میں] [تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْانهٰرُ: بہتی ہوں گی جن کے دامن میں نہریں] [خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ: ایک حالت میں رہنے والے ہوتے ہوئے ان میں] [اَبَدًا: ہمیشہ ہمیش] [ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ: یہ ہی شاندار کامیابی ہے]

 

غ ب ن

[غَبْنًا: (ن) ] وَ غَبَنًا کاروبار میں دھوکہ دے کر اپنا پلہ بھاری کر لینا۔ کسی کو نقصان پہنچانا۔

[غَبَنًا: (س) ] وَ غَبْنًا ذہانت کا کم ہونا۔ ضعیف الرائے ہونا۔

(تفاعل) تَغَابُنًا معاملات میں بعض کا بعض کو نقصان پہنچانا۔ کسی کا کسی کے مقابلہ میں غافل یا ضعیف الرائے ہونا۔ زیر مطالعہ آیت۔9

 

نوٹ۔2: تغابن غبن سے مشتق ہے جس کے معنیٰ خسارے اور نقصان کے ہیں۔ مالی نقصان کو بھی غبن کہتے ہیں اور رائے اور عقل کے نقصان کو بھی۔ لفظ تغابن کا مطلب ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو اور دوسرا اس کو نقصان پہنچائے یا اس کے نقصان کو ظاہر کرے۔ قیامت کو یوم تغابن کہنے کی وجہ یہ ہے کہ احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے آخرت میں دوگھر پیدا کیے ہیں، ایک جہنم میں دوسرا جنت میں۔ اہل جنت کو جنت میں داخل کرنے سے پہلے ان کا وہ مقام بھی دکھایا جائے گا جو ایمان و عمل نہ ہونے کی صورت میں ان کے لیے مقرر تھا تاکہ اس کو دیکھنے کے بعد جنت کے مقام کی اور زیادہ قدر ان کے دل میں پیدا ہو، اور اللہ تعالیٰ کا مزید شکرگزار ہو۔ اسی طرح اہل جہنم کو جہنم میں داخل کرنے سے پہلے ان کا جنت کا وہ مقام دکھلایا جائے گا جو ایمان اور عمل صالح کی صورت میں ان کے لیے مقرر تھا تاکہ ان کو اور زیادہ حسرت ہو۔ ان روایات میں یہ بھی ہے کہ پھر جنت میں جو مقامات اہل جہنم کے تھے وہ بھی اہل جنت کو مل جائیں گے اور جہنم میں جو مقامات اہل جنت کے تھے وہ اہل جہنم کے حصے میں آئیں گے۔ اس وقت کفار اور فجار کو اپنے غبن اور خسارے کا احساس ہو گا کہ کیا چھوڑا اور کیا پایا۔

 بہت سے ائمۂ تفسیر نے فرمایا کہ اس دن غبن اور خسارے کا احساس صرف کفار اور فجار ہی کو نہیں بلکہ مؤمنین صالحین کو بھی ہو گا کہ کاش ہم عمل اور زیادہ کرتے تاکہ جنت کے مزید درجات حاصل کرتے۔ اس روز ظالم اور بدعمل لوگ اپنی تقصیرات پر حسرت کریں گے اور مومنین نے عمل میں جو کوتاہی کی ہے اس پر ان کو حسرت ہو گی۔ اس طرح قیامت کے روز سبھی اپنی اپنی کوتاہی پر نادم اور عمل کی کمی پر غبن و خسارہ کا احساس کریں گے اس لیے اس کو یوم التغابن کہا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور پوری مجلس میں اللہ کا ذکر نہ کیا تو یہ مجلس قیامت کے روز اس کے لیے حسرت بنے گی۔ (معارف القرآن)

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا    ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ      10۝ۧ
[وَالَّذِينَ كَفَرُوْا: اور جنھوں نے انکار کیا] [وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ: اور جھٹلایا ہماری نشانیوں کو] [اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَارِ: وہ لوگ آگ والے ہیں] [خٰلِدِيْنَ فِيْهَا: ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے اس میں] [وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ: اور بہت بری ہے (وہ) لوٹنے کی جگہ]

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ   ۭ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ   ۭ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ         11؀
[مَآ اَصَابَ: نہیں آ لگتی] [مِنْ مُّصِيْبَةٍ: کوئی بھی آ لگنے والی (مصیبت)] [اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ: مگر اللہ کی اجازت سے] [وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ: اور جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر] [يَهْدِ قَلْبَهٗ: تو وہ ہدایت دیتا ہے اس کے دل کو] [وَاللّٰهُ بِكُلِ شَيْءٍ عَلِيْمٌ: اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے]

 

نوٹ۔1: آیت۔11۔ کا مطلب یہ ہے کہ مصائب کے وقت جو چیز انسان کو راہ راست پر قائم رکھتی ہے اور اس کے قدم ڈگمگانے نہیں دیتی، وہ صرف ایمان باللہ ہے۔ جس کے دل میں ایمان نہ ہو وہ آفات کو اتفاقات کا نتیجہ سمجھتا ہے، یا دنیوی طاقتوں کو ان کے لانے اور روکنے میں مؤثر مانتا ہے، یا انھیں ایسی خیالی طاقتوں کا عمل سمجھتا ہے جنھیں انسانی اوہام نے نفع و ضرر پہنچانے پر قادر فرض کرلیا ہے، یا خدا کو فاعل مختار مانتا تو ہے مگر صحیح (پکے) ایمان کے ساتھ نہیں مانتا۔ ان تمام صورتوں میں آدمی کم ظرف ہو کر رہ جاتاہے۔ ایک خاص حد تک تو وہ مصیبت سہہ لیتا ہے، لیکن اس کے بعد وہ گھٹنے ٹیک دیتاہے۔ ہر آستانے پر جھک جاتا ہے۔ ہر ذلت قبول کر لیتا ہے۔ ہر غلط کام کرنے پر آمادہ ہو جاتاہے۔ اس کے برعکس جو شخص یہ جانتا اور سچے دل سے مانتا ہو کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اسی کے اذن سے مصیبت آتی اور اسی کے حکم سے ٹل سکتی ہے، اس کے دل کو اللہ تعالیٰ صبر اور تسلیم و رضا کی توفیق دیتاہے۔ اس کو عزم اور ہمت کے ساتھ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت بخشتاہے اور بڑی سے بڑی آفت بھی اس کو راہ راست سے بٹانے نہیں پاتی۔ اس طرح ہر مصیبت اس کے لیے نتیجہ کے اعتبار سے سراسر رحمت بن جاتی ہے۔ کیونکہ خواہ وہ اس کا شکار ہو کر رہ جائے یا اس سے بخیریت گزر جائے، دونوں صورتوں میں وہ اپنے رب کی ڈالی ہوئی آزمائش سے کامیاب ہو کر نکلتا ہے۔ اسی چیز کو رسول اللہ
نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ اس کے حق میں جو بھی فیصلہ کرتا ہے وہ اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔ مصیبت پڑے تو صبر کرتا ہے اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ خوشحالی میسر آئے تو شکر کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے اچھا ہی ہوتاہے۔ یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ (تفہیم القرآن)

وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰي رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ       12 ؀
[وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ: اور تم لوگ اطاعت کرو اللہ کی] [وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ: اور تم لوگ اطاعت کرو اِن رسول کی] [فَان تَوَلَّيْتم: پھر اگر تم لوگوں نے منہ موڑا] [فَانمَا عَلٰي رَسُوْلِنَا: تو ہمارے رسول پر تو بس] [الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ: واضح طور پر پہنچا دینا ہے]

اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ   ۭ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ     13 ؀
[اللّٰهُ: اللہ (وہ ہے کہ)] [لَآ اِلٰهَ: کوئی بھی اِلٰہ نہیں] [اِلَّا هُوَ: سوائے اس کے] [وَعَلَي اللّٰهِ: اور اللہ پر بھی] [فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ: چاہیے کہ توکل کریں مومن لوگ]

 

نوٹ۔2: زیر مطالعہ آیات۔11 تا 13۔ میں جو ہدایات ہمیں دی گئیں ہیں ان کو اب ایک اور پہلو سے سمجھنا ہے۔ اس کے لیے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لیں۔ ہماری زندگی میں کچھ حالات و واقعات ہوتے ہیں جو ہم پر ٹپک پڑتے ہیں۔ ان کے واقع ہونے میں نہ تو ہمارا کوئی عمل دخل ہوتا ہے اور نہ ان پر ہمارا کوئی اختیار ہوتاہے۔ یہ حالات خوشگوار بھی ہوتے ہیں اور ناگوار بھی۔ دوسری طرف ہماری زندگی میں کچھ اعمال ہوتے ہیں جو ہم کرتے ہیں۔ ان اعمال کے ظہور پذیر ہونے میں ہمارے غور و فکر، نیت و ارادہ اور کوشش کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ان کو کرنے یا نہ کرنے کا ہم کو اختیار ہوتا ہے، یہ اعمال کامیاب بھی ہوتے ہیں اور ناکام بھی۔ ہماری زندگی کے یہ دو الگ الگ دائرے ہیں، ان کو آپس میں گڈمڈ کر دینے کے نتیجے میں ذہن الجھ جاتا ہے اور اکثر ہم غلط نتائج اخذ کر لیتے ہیں۔ اس لیے اس فرق کو ایک مثال سے سمجھ لیں۔

 فرض کریں بیرون ملک سے ایک تاجر آئے ہوئے ہیں۔ صبح دس بجے ان سے ملاقات کا وقت طے ہے۔ آپ کو یقین ہے کہ اس ملاقات سے آپ کے کاروبار میں ترقی ہو گی۔ مکمل تیاری کے ساتھ آپ اسی ہوٹل کے لیے روانہ ہوتے ہیں جس میں وہ تاجر ٹھہرا ہوا ہے۔ راستہ میں سڑک پر کوئی حادثہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہے اور آپ بھی اس میں پھنس جاتے ہیں۔ جب راستہ کھلا اور آپ آدھا گھنٹہ تاخیر سے ہوٹل پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ تاجر آپ کا انتظار کر کے کہیں جا چکا ہے۔ یہ آپ پر ٹپک پڑنے والا ایک واقعہ ہے۔ اس پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ تاجر کی پاکستان آمد سے باخبر ہونا، اس سے ملاقات کا وقت حاصل کرنا، مکمل تیاری کے ساتھ ٹھیک وقت پر روانہ ہونا، یہ سب آپ کا اختیاری عمل تھا۔ ٹریفک جام ہونا وارد شدہ تقدیری واقعہ ہے۔ اس تقدیری واقعہ کے وارد ہونے کے بعد رنج و غم میں سارا دن ضائع کریں گے یا خود کو سنبھال کر اس دن کے باقی کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیں گے، یہ آپ کا عمل ہو گا، اسکا تقدیر سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

 اب آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہم پر وارد ہونے والے تقدیری حالات و واقعات اور ہماری اختیاری سعی و جہد کا دائرہ الگ الگ تو ہے لیکن عموماً یہ ایک دوسرے سے متصل ہوتے ہیں اور زیادہ تر ان کے مابین سبب اور علت
CAUSE AND EFFECT کا تعلق ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ بےاحتیاطی میں انھیں آپس میں گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ اگر تھوڑی سی شعوری کوشش کی جائے تو ان میں فرق کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس لیے یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ ہم پر وارد ہونے والے حالات و واقعات ہماری تقدیر کا حصہ ہیں۔ انھیں وارد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن ان واقعات کے نتیجے میں ہماری زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کا تعلق ہمارے عمل سے ہے۔ اس لیے وہ اثرات ہماری تقدیر کا حصہ نہیں ہیں۔ (جینے کا سلیقہ خط و کتابت کورس، حصہ چہارم صفحہ 64 تا 66 سے ماخوذ)

 اس حوالے سے اب یہ نوٹ کریں کہ آیت۔11۔ میں تقدیری معاملات کے لیے ہدایت ہے۔ یہاں پر ایمان باللہ سے مراد ہے اللہ کی ربوبیت پر دل کا جم جانا۔ وہ ہماری پرورش کرنے والا ہے۔ وہ ہماری ضروریات کو ہم سے زیادہ جانتا ہے اور ہم سے بڑھ کر ہمارا خیر خواہ ہے۔ اس کے ہاتھ میں کل خیر ہے۔ اس لیے جو کچھ ہوا ہے اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ جس کے دل ممیں یہ یقین ہو گا، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو تسلیم و رضا کی ہدایت دے گا۔ جب دل کو یہ ہدایت ملے گی تب بندہ تاجر سے ملاقات نہ ہونے میں اپنی خیر سمجھے گا اور غم و غصہ میں مبتلا ہونے کے بجائے اس دن کے بقیہ کام خوش اسلوبی سے سرانجام دے کہ اس دن کو ضائع ہونے سے بچا لے گا۔ آگے آیات۔12۔13۔ میں یہ ہدایات کا تعلق ہمارے عمل کے دائرے سے باہر ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ کوئی بھی کوشش کرتے وقت یہ فکر کرنا لازمی ہے کہ کسی چیز سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے، کیا چیز مباح ہے اور کیا چیز اجر و ثواب کا باعث ہے۔ جس چیز سے منع کیا گیا ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔ اطاعت کرنے کا یہی مطلب ہے۔ اس ضمن میں دوسری ہدایت یہ ہے کہ کوشش کے نتیجہ کے لیے بھروسہ اور توکل صرف اللہ پر کرو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں کوشش کرنے کا تو پابند کیا گیا ہے لیکن اس کے نتیجے کو اللہ تعالیٰ نے کلیۃً اپنے قبضہ میں رکھا ہے۔ نتیجہ پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہماری کوشش کا نتیجہ نکلے گا یا نہیں، کتنا نکلے گا اور کب نکلے گا، یہ سب فیصلے اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ اور چونکہ وہ ہمارا رب ہے اس لیے اس کا ہر فیصلہ ہماری بہتری کے لیے ہوتا ہے۔ دل میں یہ یقین ہو گا تو اللہ تعالیٰ ہمارے دل کو ہدایت دے گا۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ۚ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ       14؀
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْٓا: اے لوگو جو ایمان لائے] [ان مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ: یقینا تمھارے جوڑوں میں سے اور تمھاری اولادوں میں سے] [عَدُوًّا لَكُمْ: کچھ دشمن ہیں تمھارے (ایمان) کے لیے] [فَاحْذَرُوْهُمْ: پس تم لوگ محتاط رہو ان سے] [وَان تَعْفُوْا: اور اگر تم لوگ درگزر کرو] [وَتَصْفَحُوْا: اور نظر انداز کرو] [وَتَغْفِرُوْا: اور معاف کرو] [فَان اللّٰهَ: تو بیشک الہ (بھی)] [غَفُوْرٌ: بےانتہا معاف کرنے والا ہے] [رَّحِيْمٌ: ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

 

نوت۔3: آیت۔14۔ میں ایک بہت بڑی آزمائش سے متنبہ فرمایا ہے۔ یہ بیوی بچوں کی محبت ہے۔ یہ محبت ہے تو ایک فطری چیز لیکن ساتھ ہی یہ انسان کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش بھی ہے۔ اگر آدمی کا علم و ایمان پختہ نہ ہو تو اندیشہ ہوتا ہے کہ اس پر بیوی بچوں کی محبت اس قدر غالب آ جائے کہ وہ خدا کی محبت کو نظر انداز کر بیٹھے حالانکہ یہ چیز اس کے ایمان کو غارت کر دینے والی ہے۔ آیت میں لفظ من سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص کے بیوی بچے لازماً اللہ کی راہ سے روکنے والے ہوں۔ بہتوں کے بیوی بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو راہ حق میں مزاحم ہونے کے بجائے معاون ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کسی کے اہل و عیال ایسے نہیں ہیں تو اس کو چاہیے کہ وہ ان سے محتاط رہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ جس کو اس طرح کی آزمائش سے سابقہ پیش آئے اس کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی فتنہ میں پڑنے سے تو بچائے اور اپنے قول و عمل سے اپنے اہل و عیال کی اصلاح کی کوشش کرے لیکن جب تک کفر و ایمان کا کوئی سوال پیدا نہ ہو اس وقت تک ان سے قطع تعلق نہ کرے بلکہ عفو و درگزر سے کام لے۔ گویا ان کے ساتھ زندگی تو گزارے لیکن گھل مل کر نہیں بلکہ بچ بچا کر اس طرح کہ خود بھی محفوظ رہے اور ان کی بھی اصلاح ہو۔ (تدبر قرآن)

اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ   ۭوَاللّٰهُ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ       15؀
[انمَآ: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ: تمھارے مال اور تمھاری اولادیں] [فِتْنَةٌ: ایک آزمائش ہیں] [وَاللّٰهُ: اور اللہ (ہے کہ)] [عِنْدَهٗٓ: اس ہی کے پاس] [اَجْرٌ عَظِيْمٌ: شاندار اجر ہے]

فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ ۭ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ     16؀
[فَاتَّقُوا اللّٰهَ: پس تم لوگ تقوٰی اختیار کرو اللہ کا] [مَا: اتنا جو] [اسْتَطَعْتم: تم صلاحیت رکھتے ہو] [وَاسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا وَانفِقُوْا: اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو] [خَيْرًا لِانفُسِكُمْ: بھلائی ہوتے ہوئے تمھاری اپنی جانوں کے لیے] [وَمَنْ يُّوْقَ: اور جس کو بچا لیا گیا] [شُحَّ نَفْسِهٖ: اس کے جی کے لالچ سے] [فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ: تو وہ لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں]

اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا يُّضٰعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ  ۭ وَاللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِيْمٌ      17۝ۙ
[ان تُقْرِضُوا اللّٰهَ: اگر تم لوگ قرض دو اللہ کو] [قَرْضًا حَسَنًا: جیسے خوبصورت قرض دینے کا حق ہے] [يُّضٰعِفْهُ لَكُمْ: تو وہ ضرب دے گا اس کو تمھارے لیے] [وَيَغْفِرْ لَكُمْ: اور وہ بخش دے گا تم کو] [وَاللّٰهُ شَكُوْرٌ: اور اللہ انتہائی قدردان ہے] [حَلِيْمٌ: ہمیسہ تحمل کرنے والا ہے]

عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ      18۝ۧ
[عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ: (وہ) غائب اور موجودہ کا جاننے والا ہے] [الْعَزِيْزُ: بالادست ہے] [الْحَكِيْمُ: حکمت والا ہے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ        ۝

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحْصُواالْعِدَّةَ   ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ   ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ   ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ   ۭ لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا         Ǻ۝
[يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ: اے نبی (آپ کہہ دیجئے کہ)] [اِذَا طَلَّقْتم النِّسَاۗءَ: جبکبھی تم لوگ طلاق دو (اپنی) عورتوں کو] [فَطَلِقُوْهُنَّ: تو طلاق دو ان کو] [لِعِدَّتِ هِنَّ: ان کی مدت (تک) کے لیے] [وَاَحْصُواالْعِدَّةَ: اور پورا شمار کرو مدت کو] [وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ: اور تقوٰی اختیار کرو اللہ کا جو تمھارا رب ہے] [لَا تُخْرِجوهُنَّ: اور تم لوگ مت نکالو ان کو] [مِنْۢ بُيُوْتِ هِنَّ: ان کے گھروں سے] [وَلَا يَخْرُجْنَ: اور چاہیے کہ وہ (بھی) نہ نکلیں] [اِلَّآ ان يَاْتِيْنَ: سوائے اس کے کہ وہ کریں] [بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ: کوئی کھلی بےحیائی (کا کام)] [وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ: اور یہ اللہ کی حدود ہیں] [وَمَنْ يَّتَعَدَّ: اور جو تجاوز کرے گا] [حُدُوْدَ اللّٰهِ: اللہ کی حدود سے] [فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ: تو اس نے ظلم یا ہے اپنے آپ پر] [لَا تَدْرِيْ: تو نہیں جانتا] [لَعَلَّ اللّٰهَ: شاید کہ اللہ] [يُحْدِثُ: وجود میں لے آئے] [بَعْدَ ذٰلِكَ: اس کے بعد] [اَمْرًا: کوئی نیا معاملہ]

 

ترکیب: (آیت۔1) نبی
کو مخاطب کر کے آگے طَلَّقْتُمْ میں واحد مخاطب کی ضمیرت کے بجائے جمع مخاطب کی ضمیر تُمْ آئی ہے۔ پھر اس کے آگے طَلِّقُوْا۔ اَحْصُوْا۔ اِتَّقُوْا۔ لَا تُخْرِجُوْا یہ سب جمع مخاطب کے صیغے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ خطاب نبی سے ہے لیکن ہدایات پوری امت کے لیے ہیں۔ اس لیے استادِ محترم حافظ احمد یار صاحب مرحوم کی رائے ہے کہ یایھا النبی کے بعد قل کو محذوف مان لیا جائے تو مفہوم صحیح طریقے سے واضح ہو جائے گا۔

 

نوٹ۔1: سابق سورۃ التغابن کی آیات 14 تا 16 میں یہ تنبیہفرمائی ہے کہ آدمی کے بیوی بچے اس کے لیے بڑی آزمائش ہیں۔ اگر وہ چوکنا نہ رہے تو ان کی محبت میں گرفتار ہو کر وہ اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے جی چرانے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ چیز اسے نفاق میں مبتلا کر دیتی ہے اور اس طرح ان کے ساتھ دوستی خود اپنے ساتھ دشمنی بن جای ہے۔ ساتھ ہی یہ تنبیہہ بھی فرمائی کہ ان سے چوکنا رہنے کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ بالکل ہی قطع تعلق کرلے بلکہ تا حدِّ امکان اس طرح عفو و درگزر کا معاملہ رکھے کہ ان کی اصلاح بھی ہو اور اپنے کو ان کے ضرر سے مہفوط بھی رکھ سکے۔ سورئہ تغافن کے بعد دو سورتوں، الطلاق اور التحریم، میں اسی نازک مسئلہ کی مزید وضاحت فرمائی ہے اور نفرت و محبت، دونوں طرح کے حالات میں صہیح رویہ کے حدود معین کر دیئے تاکہ کسی بےاعتدالی کی گنجائش باقی نہ رہے۔ سورئہ طلاق میں بتایا کہ بیوی سے کسی سبب سے نفرت پیدا ہو جائے تو اس کے معاملہ میں کس طرح حدود اللہ کی پابندی کا اہتمام کرے۔ اور سورہ تحریم میں یہ واضح فرمایا ہے کہ محبت میں کس طرح اپنے آپ کو اور ان کو حدود اللہ کا پابند رکھنے کی کوشش کرے۔ (تدبر قرآن ج 8۔ ص 429۔430)

 حضرت عبد اللہ بن مسعود نے صراحت فرمائی ہے کہ اس سورہ کا نزول سورہ بقرہ کی ان آیات کے بعد ہوا ہے جن میں طلاق کے احکام تین مرتبہ دیئے گئے تھے۔ اگرچہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اس کا ٹھیک زمانۂ نزول کیا ہے لیکن روایات سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ جب سورہ بقرہ کے احکام کو سمجھنے میں لوگ غلطیاں کرنے لگے تب اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے یہ ہدایات نازل فرمائیں۔ ان ہدایات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ہدایات کو پھر سے ذہن میں تازہ کرلیا جائے جو طلاق اور عدت کے متعلق اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہو چکی ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سورئہ طلاق ان قاعدوں میں سی کسی قاعدے کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ دو مقاصد کے لیے نازل ہوئی ہے۔ ایک یہ کہ مرد کو طلاق کا جو اختیار دیا گیا ہے اسے استعمال کرنے کے ایسے طریقے بتائے جائیں جن سے حتیٰ الامکان علیحدگی کی نوبت نہ آئے اور اگر آئے تو ایسی حالت میں آئے جبکہ باہمی موافقت کے سارے امکانات ختم ہو چکے ہوں، دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورئہ بقرہ کے احکام کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دے کر اسلام کے عائلی قانون کے اس شعبہ کی تکمیل کر دی جائے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 5۔ ص۔550 تا 552)

نوٹ۔2: جاہلیت میں طلاق کا عام طریقہ یہ رہا ہے کہ جس کو بیوی پر کسی سبب سے غصہ آیا، وہ نتائج و عوقب کا لحاظ کیے بغیر، ایک ہی سانس میں تین ہی نہیں بلکہ ہزاروں طلاقیں دے کر بیوی کو گھر سے نکال دیتا۔ اس طریقہ طلاق میں عورت، مرد، بچوں بلکہ پورے کنبہ کے لیے جو مضرتیں ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر ہدایت فرمائی کہ جب طلاق دیے کی نوبت آئے تو وہ عدت کے حساب سے طلاق دے۔ اور عدت کا شمار رکھے۔ اس عدت کا شمار میاں اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے۔ بیوی کے لیے اس وجہ سے ضروری ہے کہ عدت کے دوران وہ کسی اور مرد کی زوجیت میں نہیں جا سکتی۔ میاں کے لیے اس وجہ سے ضروری ہے کہ عدت کے دوران اگر وہ چاہے تو مراجعت کر لے۔ عدت گزر جانے کے بعد اس کا یہ حق ختم ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں اس دوران میں معلوم ہوا کہ بیوی حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل تک ہو جائے گی اور اس دوران میں عورت کے نان و نفقہ اور اس کی رہائش کی ساری ذمہ داری مرد پر ہو گی۔

 اس عدت کے دوران نہ تمھیں یہ حق حاصل ہے کہ ان کو گھر سے نکالو اور نہ بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ وہاں سے نکل کھڑی ہوں، بلکہ دونوں یکجا ایک ہی گھر میں رہیں تاکہ باہمی سازگاری اور اصلاح احوال کی کوئی گنجائش ہو تو یہ یکجائی اس میں مددگار ہو۔ طلاق ایک مجبوری کا علاج ہے لیکن جائز چیزوں میں اللہ کے نزدیک یہ سب سے زیادہ مکروہ ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے بندوں کو اس سے بچانے کے لیے طلاق پر عدت کی شرط عائد کی ہے اور یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ اس مدت میں میاں بیوی ایک ہی گھر میں رہیں تاکہ دونوں ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرسکیں کہ آخری قدم اٹھانے سے پہلے اصلاح احوال کا کوئی امکان ہے یا نہیں۔ یہاں گھر سے نکلنے سے مراد وہ نکلنا نہیں ہے جو معمول کے مطابق اپنی ضروریات کے لیے ہوا کرتا ہے، بلکہ وہ نکلنا ہے جو کسی گھر کو خیر باد کہنے کے معنی میں ہوتا ہے۔ (تدبر قرآن۔ ج 8۔ ص 435 تا 437)

فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَاَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ   ۭ ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ   ڛ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا     Ą۝ۙ
[فَاِذَا بَلَغْنَ: پھر جب وہ خواتین پہنچ جائیں] [اَجَلَهُنَّ: اپنی مدت کو] [فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ: تو تم لوگ تھامے رہو ان کو بھلائی کے ساتھ] [اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ: اور قائم کرو گواہی کو اللہ کے لیے] [وَّاَشْهِدُوْا: یہ ہے، وہ نصیحت کرتا ہے جس کے ذریعہ] [ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ: اس کو جو ہے (کہ)] [وَاَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ للّٰهِ: وہ ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور آخری دن پر] [ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ بِهٖ: یہ ہے، وہ نصیحت کرتا ہے جس کے ذریعہ] [مَنْ كَان: اس کو جو ہے (کہ)] [يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ: وہ ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور آخری دن پر] [وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ: اور جو تقوٰی اختیار کرے گا اللہ کا] [يَجْعَلْ لَهٗ: تو وہ بنا دے گا اس کے لیے] [مَخْرَجًا: (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی جگہ (راستہ)]

 

(آیت۔2) ذو کا تثنیہ حالت رفع میں ذوا۔ اور حالت نصب و جر میں ذوی آتا ہے۔ یہاں یہ اَشْھِدُوْا کا مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ آیت۔177۔ کے نوٹ۔2۔ میں بتایا جا چکا ہے کہ اس کی جمع ذَوُوْ۔ ذَوِیْ۔ ذَوِیْ آتی ہے۔ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ میں کَانَ ماضی استمراری کا نہیں ہے بلکہ یہ کَانَ تامۃ ہے۔ (دیکھیں آیت۔2:193، نوٹ۔1) مَنْ سابقہ فعل یُوْعَظُ کا مفعول بھی ہے اور کَانَ تامہ کا فاعل بھی ہے اور آگے یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اس کی صفت ہے۔ وَ مَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ کا مَنْ شرطیہ ہے اس لیے یَتَّقْ مجزوم ہے۔ آگے ملانے کے لیے اس کو کسرہ دی گئی ہے۔ آگے یَجْعَلِّ اور یَرْزُقْ جوابِ شرطیہ ہے اس لیے یَتَوَکَّلْ مجزوم ہے فَھُوَ حَسْبُہٗ پورہ جملہ جوابِ شرط ہے اور محدد مجزوم ہے۔

 

نوٹ۔1: عدّتِ طلاق عام حالات میں تین حیض پورے ہیں، جس کا بیان سورئہ بقرہ میں ہو چکا ہے۔ لیکن وہ عورتیں جن کو عمر زیادہ ہونے یا کسی بیماری کے سبب سے حیض آنا بند ہو چکا ہو یا وہ عورتیں جن کو کم عمری کے سبب سے ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، تو ان کی عدت آیت۔4۔ میں تین حیض کے بجائے تین مہینے مقرر فرما دی اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل قرار دی ہے چاہے وہ کتنے ہی دنوں میں ہو۔ اس آیت میں اِنِ ارْتَبْتُمْ (اگر تمھیں شک ہو) سے مراد یہ ہے کہ اصل عدت حیض سے شمار ہوتی ہے اور اِن عورتوں کا حیض بند ہے تو پھر عدت شمار کیسے ہو گی۔ یہ تردد مراد ہے۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔2: زیر مطالعہ آیات 2 تا 5 میں تقوٰی کے فضائل و برکات کا بیان آیا ہے۔ اس کا خلاصہ پانچ چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ متقی کے لیے دنیا و آخرت کے مصائب و مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے لیے رزق کے ایسے دروازے کھول دیتا ہے جن کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں جاتا۔ تیسرے یہ کہ اس کے سب کاموں میں آسانی پیدا فرما دیتا ہے۔ چوتھے یہ کہ اس کے گناہوں کا کفارہ کر دیتا ہے۔ پانچویں یہ کہ اس کا اجر بڑھا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ سورہ انفال کی ایت۔29۔ میں تقوے کی یہ برکت بھی بتلائی گئی ہے کہ اس کی وجہ سے حق و باطل کی پہچان آسان ہو جاتی ہے۔ (معارف القرآن)

ذٰلِكَ اَمْرُ اللّٰهِ اَنْزَلَهٗٓ اِلَيْكُمْ ۭ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَـيِّاٰتِهٖ وَيُعْظِمْ لَهٗٓ اَجْرًا      Ĉ۝
[ذٰلِكَ اَمْرُ اللّٰهِ: یہ اللہ کا حکم ہے] [انزَلَهٗٓ اِلَيْكُمْ: اس نے اتارا اس (حکم) کو تمھاری طرف] [وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ: اور جو تقوٰی اختیار کرے گا اللہ کا] [يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّاٰتِهٖ: تو وہ دور کر دے گا اس سے اس کی برائیوں کو] [وَيُعْظِمْ لَهٗٓ اَجْرًا: اور وہ عظیم کرے گا اس کے لیے اجر کو]

اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَاۗرُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ    ۭ وَاِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَيْهِنَّ حَتّٰى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ۚ وَاْتَمِرُوْا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ ۚ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗٓ اُخْرٰى       Č۝ۭ
[اَسْكِنُوْهُنَّ: تم لوگ سکونت دو ان خواتین کو] [مِنْ حَيْثُ سَكَنْتم: وہاں جہاں تم نے سکونت اختیار کی] [مِّنْ وُّجْدِكُمْ: اپنی صلاحیت میں سے] [وَلَا تُضَاۗرُّوْهُنَّ: اور تکلیف مت دو ان کو] [لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْ هِنَّ: تاکہ تم لوگ تنگی کرو ان پر] [وَان كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ: اور اگر وہ ہوں حمل والیاں] [فَانفِقُوْا عَلَيْ هِنَّ: تو تم لوگ خرچ کرو ان پر] [حَتّٰى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ: یہاں تک کہ وہ جَنیں اپنا بچہ] [فَان اَرْضَعْنَ لَكُمْ: پھر اگر وہ دودھ پلائیں (بچے کو) تمھارے لیے] [فَاٰتُوْهُنَّ اُجورَهُنَّ: تو تم لوگ دو ان کو ان کی اجرتیں] [وَاْتمرُوْا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ: اور مشورہ کرو آپس میں کسی بھلائی کا] [وَان تَعَاسَرْتم: اور اگر باہم ضد کرو گے] [فَسَتُرْضِعُ لَهٗٓ: تو دودھ پلائے گی اس کے لیے] [اُخْرٰى: کوئی دوسری (عورت)]

لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ    ۭ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ ۭ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰىهَا    ۭ سَيَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا      Ċ۝ۧ
[لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ: چاہیے کہ خرچ کرے وسعت والا] [مِّنْ سَعَتِهٖ: اپنی وسعت میں سے] [وَمَنْ: اور وہ] [قُدِرَ عَلَيْهِ: کیا گیا جس پر] [رِزْقُهٗ: اس کے رزق کو] [فَلْيُنْفِقْ مِمَآ: تو چاہیے کہ وہ خرچ کرے اس میں سے جو] [اٰتٰىهُ اللّٰهُ: دیا اس کو اللہ نے] [لَا يُكَلِفُ اللّٰهُ نَفْسًا: ذمہ داری نہیں ڈالتا اللہ کسی جان پر] [اِلَّا مَآ اٰتٰىهَا: سوائے اس کے جو اس نے دیا اس کو] [سَيَجْعَلُ اللّٰهُ: بنا دے گا اللہ] [بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا: تنگی کے بعد آسانی]

وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِيْدًا   ۙ وَّعَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا      Ď۝
[وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ: اور کتنی ہی ہیں بستیوں میں سے] [عَتَتْ: جنھوں نے سرکشی کی] [عَنْ اَمْرِ رَبِهَا: اپنے رب کے حکم سے] [وَرُسُلِهٖ: اور اس کے رسولوں سے] [فَحَاسَبْنٰهَا: تو ہم نے حساب لیا ان سے] [حِسَابًا شَدِيْدًا: جیسے سخت حساب لینے کا حق ہے] [وَّعَذَّبْنٰهَا: اور ہم نے عذاب دیا ان کو] [عَذَابًا نُّكْرًا: جیسے برا عذاب دینے کا حق ہے]

فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ اَمْرِهَا خُسْرًا      ۝
[فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا: پھر انھوں نے چکھی اپنے کیے کی سزا] [وَكَان عَاقِبَةُ اَمْرِهَا: اور ہے ان کے کام کا انجام] [خُسْرًا : گھاٹا]

اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا   ۙ فَاتَّقُوا اللّٰهَ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ ڂ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا       ٽ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا      10 ۝ۙ
[اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ: تیار کیا اللہ نے ان کے لیے] [عَذَابًا شَدِيْدًا: ایک سخت عذاب] [فَاتَّقُوا اللّٰهَ: تو تقوٰی اختیار کرو] [يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ ڂ الَّذِينَ اٰمَنُوْا: اے خالص عقل والو جو ایمان لائے] [قَدْ انزَلَ اللّٰهُ: اتار دیا ہے اللہ نے] [اِلَيْكُمْ: تمھاری طرف] [ذِكْرًا: ایک یاددہانی (قرآن)]

 

ترکیب: (آیت۔10) اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے دو امکان ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو یٰاُولِی الْاَلْبَابِ سے متعلق مانا جائے ایسی صورت میں اس پر جملہ ختم ہو گا اور قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ سے نیا جملہ شروع ہو گا اور مطلب ہو گا اے وہم و جذبات سے پاک عقل والو جو ایمان لائے ہو۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ پہلا جملہ یٰاُولِی الْاَلْبَاب پر ختم کر کے اَلَّذِیْنَ سے نیا جملہ شروع کیا جائے۔ ایسی صورت میں اَلَّذِیْنَ سے پہلے حرفِ ندا یٰاَیُّھَا محذوف ماننا ہو گا اور مطلب ہو گا اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ نازل کر چکا ہے۔ ترجمہ میں ہم پہلی صورت کو ترجیح دیں گے۔

 

نوٹ۔1: یاولی الالباب کے بعد الذین امنو سے یہ بات نکلتی ہے کہ عقل اور ایمان میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے۔ جو شخص عاقل ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ایمان سے بہرہ ور ہو۔ اگر کوئی شخص ایمان سے بہرہ ور نہیں ہے تو آسمان و زمین کا طول و عرض ناپنے میں وہ خواہ کتنا ہی ماہر ہو لیکن اسکی عقل میں بہت بڑا فتور ہے۔ (تدبر قرآن) ۔ مولانا اصلاحی مرحوم کی اس بات کو سمجھنے کے لیے آیت نمبر۔2:179۔ کی لغت میں مادہ ’’ ل ب ب‘‘ کو دوبارہ دیکھ لیں۔ لُبّ جس کی جمع الباب ہے، خالص عقل کو کہتے ہیں، یعنی ایسی عقل جو ہر طرح کے تعصبات، توہمات، جذبات اور اسی دوسری آلائشوں سے پاک ہو۔ ایسی عقل میں اور ایمان میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے۔ لیکن اگر کسی عقل میں مذکورہ آلائشوں میں سے کوئی آلائش یا کچھ آلائشیں داخل ہو جائیں تو پھر ایسی عقل میں فتور واقع ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ذہن میں
BLIND SPOTS آجاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس کی عقل کچھ چیزوں کو سمجھنے میں پوری طرح کام کرتی ہے لیکن کچھ چیزوں کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتی ہے یا اگر سمجھتی ہے تو یہ آلائشیں اسے ان کا اعتراف اور اقرار کرنے سے روک دیتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں اولی العقل کے بجائے ایمان لانے والوں کو اولی الالباب کہا گیا ہے۔ (مرتب)

رَّسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ مُبَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُّدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا   ۭ قَدْ اَحْسَنَ اللّٰهُ لَهٗ رِزْقًا      11۝
[رَّسُوْلًا: (اور بھیج دیا ہے) ایک ایسا رسول جو] [يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ: پڑھ کر سناتا ہے تم لوگوں کو] [اٰيٰتِ اللّٰهِ: اللہ کی آیتیں] [مُبَيِّنٰتٍ: واضح ہوتے ہوئے] [لِيُخْرِجَ الَّذِينَ: تاکہ وہ نکالیں ان لوگوں کو جو] [اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: ایمان لائے اور عمل کیے نیکیوں کے] [مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ: اندھیروں سے نور کی طرف] [وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ: اور جو ایمان لائے گا اللہ پر] [وَيَعْمَلْ صَالِحًا: اور عمل کرے گا نیکی کا] [يُّدْخِلْهُ جَنّٰتٍ: تو وہ داخل کرے گا اس کو ایسے باغات میں] [تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا: بہتی ہیں جن کے دامن سے] [الْانهٰرُ: نہریں] [خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا: رہنے والے ہوتے ہوئے ان میں سے ہمیشہ] [قَدْ اَحْسَنَ اللّٰهُ لَهٗ: خوبی دی ہے اللہ نے ان کے لیے] [رِزْقًا: رزق میں]

 

(آیت۔11) رَسُوْلًا کی نصب کے متعلق ایک رائے یہ ہے کہ اس کوسابقہ آیت میں ذکرا کا بدل مانا جائے۔ ایسی صورت میں مطلب ہو گا کہ وہ ذکر خود رسول (
) ہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ رسولا کو کسی فعل محذوف کا مفعول مانا جائے۔ ترجمہ میں ہم دوسری رائے کو ترجیح دیں گے اور رسولا سے پہلے وقد ارسل محذوف مانیں گے۔

 

نوٹ۔2: مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ کا مطلب یہ ہے کہ جہانت کی تارکیوں سے علم کی روشنی میں نکال لائے۔ اس ارشاد کی پوری اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب انسان طلاق، عدت اور نفقات کے متعلق دنیا کے دوسرے قدیم اور جدید عائلی قوانین کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کی تبدیلیوں اور نت نئی قانون سازیوں کے باوجود آج تک کسی قوم کو ایسا معقول اور فطری اور معاشرے کے لیے فطری قانون میسر نہیں آسکا جیسا اس کتاب اور اس کے لانے والے رسول نے ڈیڑھ ہزاربرس پہلے ہم کو دیا تھا۔ یہاں اس تقابلی بحث کا موقع نہیں ہے۔ اس کا محض ایک مختصر سا نمونہ ہم نے اپنی کتاب ’’ حقوق الزوجین‘‘ کے آخری حصّہ میں درج کیا ہے۔ (تفہیم القرآن)

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ   ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا      12۝ۧ
[اللّٰهُ الَّذِي خَلَقَ: اللہ وہ ہے جس نے پیدا کیے] [سَبْعَ سَمٰوٰتٍ: سات آسمان] [وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ: اور زمین سے ان (آسمانوں) جیسی بھی (پیدا کیں)] [يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ: اترتے ہیں تمام احکام ان کے مابین] [لِتَعْلَمُوْٓا ان اللّٰهَ: تاکہ تم لوگ جان لو کہ اللہ] [عَلٰي كُلِ شَيْءٍ قَدِيْرٌ: ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے] [وَّان اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ: اور یہ کہ اللہ نے احاطہ یا ہوا ہے] [بِكُلِ شَيْءٍ عِلْمًا: ہر چیز کا بلحاظ علم کے]

 

(آیت۔12) مثلھن میں مثل کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ خلق کا مفعول ہے۔ اس کے ساتھ جمع مؤنث کی ضمیر ھن آئی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہ ضمیر الارض کے لیے نہیں ہے بلکہ سبع سموت کے لیے ہے۔

 

نوٹ۔3: مِثْلَھُنَّ (انہی کی مانند) کا مطلب یہ نہیں ہے ہ جتنے آسمان بنائے اتنی ہی زمینیں بھی بنائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے متعدد زمینیں بھی بنائی ہیں۔ وَ مِنَ الْاَرْضِ (اور زمین کی قسم سے) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ زمین جس پر انسان رہتے ہیں، اپنی موجودات کے لیے فرش اور گہوارہ بنی ہوئی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات میں اور زمینیں بھی تیار کر رکھی ہیں جو اپنی اپنی آبادیوں کے لیے فرش اور گہوارہ ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو قرآن میں یہ اشارہ بھی کردیا گیا ہے کہ جاندار مخلوقات صرف زمین ہی پر نہیں ہیں بلکہ عالم بالا میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر سورئہ شورٰی آیت۔29۔ بالفاظ دیگر آسمان میں یہ جو بےشمار تارے اور سپارے نظر آتے ہیں یہ سب ویران نہیں ہیں بلکہ زمین کی طرح ان میں بھی بکثرت ایسے ہیں جن میں دنیائیں آباد ہیں۔

 قدیم مفسرین میں صرف ابن عباس ایک ایسے مفسرین جنھوں نے اس دور میں اس حقیقت کو بیان کیا تھا جب آدمی اس کا تصور تک کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوتا تھا کہ کائنات میں اس زمین کے سوا کہیں اور بھی ذی عقل مخلوق بستی ہے۔ آج اس زمانے کے سائنس دانوں تک کو اس کے امر واقعہ ہونے میں شک ہے، کجا کہ چودہ سو برس پہلے کے لوگ اسے باور کرسکتے ۔ اسی لیے ابن عباس عام لوگوں کے سامنے یہ بات کہتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ان کی تفسیر یہ ہے۔ ’’ ان میں سے ہر زمین میں نبی ہے تمھارے نبی جیسا اور آدم ہے تمھارے آدم جیسا اور نوح ہے تمھارے نوح جیسا اور ابراہیم ہے اور تمھارے ابراہیم جیسا اور عیسیٰ ہے تمھارے عیسیٰ جیسا۔‘‘ امام ذہبی نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے البتہ اسے صرف ایک راوی نے روایت کیا ہے اس لیے یہ ایک شاذ روایت ہے۔ (وجہ ظاہر ہے۔ ابن عباس اسے عام طور پر بیان نہیں کرتے تھے۔ اور اغلباً سننے والے بھی اس قول کو نقل کرنے سے گریز کرتے ہوں گے۔ مرتب) بعض دوسرے علماء نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ علامہ آلوسی اپنی تفسیر میں اس قول پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’ اس کو صحیح ماننے میں نہ عقلاً کوئی چیز مانع ہے نہ شرعاً۔ مراد یہ ہے کہ ہر زمین میں ایک مخلوق ہیجو ایک اصل کی طرف اسی طرح راجع ہوتی ہے جس طرح بنی آدم ہماری زین میں حضرت آدم کی طرف راجع ہوتے ہیں۔ ہر زمین میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو اپنے ہاں دوسروں کی بہ نسبت اسی طرح ممتاز ہیں جیسے ہمارے ہاں نوح اور ابراہیم ممتاز ہیں۔‘‘ آگے چل کر علامہ موصوف لکھتے ہیں ’’ ممکن ہے کہ زمینیں سات سے زیادہ ہوں اور اسی طرح آسمان بھی سات ہی نہ ہوں۔ سات کے عدد پر، جو عددِ تام ہے، اکتفا کرنا اس بات کو متلزم نہیں کہ اس سے زائد کی نفی ہو۔‘‘ پھر بعض احادیث میں ایک ایک آسمان کی درمیانی مسافت جو پانچ پانچ سو برس بیان کی گئی ہے اس کے متعلق علامہ موصوف کہتے ہیں کہ اس سے مراد ٹھیک ٹھیک مسافت کی پیمائش بیان کرنا نہیں ہے بلکہ قصود بات کو اس طرح بیان کرنا ہے کہ وہ لوگوں کی سمجھ سے قریب تر ہو۔

 یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کے رانڈ کارپوریشن نے فلکی مشاہدات سے ادنازہ لگایا ہے کہ زمین جس گلیکسی میں واقع ہے صرف اسی کے اندر تقریباً ساٹھ کروڑ ایسے سیارے پائے جاتے ہیں جن کے طبعی حالات ہماری زمین سے بہت کچھ ملتے جلتے ہیں اور امکان ہے کہ ان کے اندر بھی جاندار مخلوق آباد ہو۔ اکانومسٹ لندن۔ مورخہ 26۔ جولائی 19690ئ۔ (تفہیم القرآن)

 اوپر جس قول کا حوالہ دیا گیا ہے اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حضرت ابن عباس ایک
VISIONARY صحابی تھے۔ ان کے اِس VISION کی تصدیق ان کے ایک دوسرے قول سے بھی ہوتی ہے۔ سورئہ فاتحہ میں رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ میں واحد لفظ عالم کے بجائے جمع عالمین آیا ہے۔ اس کے متعلق ان کا قول ہے کہ اللہ رب ہے اس عالم کا بھی جسے ہم جانتے ہیں اور ان تمام عالموں کا جنھیں ہم نہیں جانتے۔ (مرتب)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ        ۝

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ    ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ      Ǻ۝
[يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ: اے نبی آپ کیوں حرام کرتے ہیں] [مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ: اس کو جسے حلال کیا اللہ نے آپ کے لیے] [تَبْتَغِيْ: آپ جستجو کرتے ہیں] [مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ: اپنی ازواج کے راضی ہونے کی] [وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: اور اللہ بےانتہا بخشنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]

قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ       Ą۝
[قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ: فرض کردیا ہے اللہ نے آپ لوگوں کے لیے ] [تَحِلَّةَ اَيْمَانكُمْ: اپنی قسموں کا کفارہ ادا کرنے کو] [وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ: اور اللہ ہی آپ لوگوں کا کارساز ہے] [وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ: اور وہ ہی جاننے والا ہے حکمت والا ہے]

 

نوٹ۔1: حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ
کا معمول تھا کہ عصر کے بعد تمام ازواج مطہرات کے پاس چکر لگاتے تھے۔ ایک موقعہ پر آپ حضرت زینب کے ہاں زیادہ دیر تک بیٹھنے لگے، کیونکہ ان کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا تھا اور آپ وہاں سہد کا شربت نوش فرماتے تھے۔ حضرت عائسہ کا بیان ہے کہ مجھ کو اس پر رشک آیا اور میں نے حضرت حفصہ، حضرت سودہ اور حضرت صفیہ سے مل کر یہ طے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی آپ آئیں وہ آپ سے یہ کہے کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہوتا ہے جس میں کچھ ساند ہوتی ہے اور اگر شہد کی مکھی اس سے شہد حاصل کرے تو اس کے اندر بھی اس ساند کا اثر آ جاتا ہے۔ جب متعدد بیویوں نے یہ کہا تو آپ نے یہ عہد کرلیا اب یہ شہد استعمال نہیں کریں گے۔ (تفہیم القرآن) آیت۔1 میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔

نوٹ۔2: اوپر کی آیت میں خطاب صرف نبی
سے تھا جبکہ آیت۔2۔ میں عام مسلمانوں سے خطاب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ کو ٹوکنے سے اصل مقصود یہ تھا کہ اس کے سبب سے امت کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو۔ چنانچہ اس آیت میں تمام مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا گیا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے اوپر کسی جائز چیز کو حرام کرنے کی قسم کھا بیٹھے تو اللہ نے اس کے لیے یہ ضروری ٹھہرایا ہے کہ وہ اس قسم کو توڑ دے۔ اور کفارہ کا حکم المائدہ کی آیت۔89۔ میں بیان ہو چکا ہے۔ (تدبر قرآن)

وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِيُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِيْثًا  ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَاَظْهَرَهُ اللّٰهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٗ وَاَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ هٰذَا   ۭ قَالَ نَبَّاَنِيَ الْعَلِيْمُ الْخَبِيْرُ      Ǽ۝
[وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِيُّ: اور جب رازدارانہ بتائی نبی نے] [اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ: اپنی ازواج کو کسی کو] [حَدِيْثًا: ایک بات] [فَلَمَا نَبَّاَتْ: پھر جب انھوں (زوجہ) نے بتا دیا (کسی کو)] [بِهٖ: اس (راز) کے بارے میں] [وَاَظْهَرَهُ اللّٰهُ: اور آگاہ کیا ان کو اللہ نے] [عَلَيْهِ: اس (راز فاش ہونے) پر] [عَرَّفَ: تو آپ نے بتایا ] [بَعْضَهٗ: اس (آگاہی) کے بعض کو] [وَاَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ: اور اعراض کیا بعض سے] [فَلَمَا نَبَّاَهَا: پھر جب آپ نے جتلایا ان (زوجہ) کو] [بِهٖ: اس کے بارے میں] [قَالَتْ: تو انھوں (زوجہ) نے کہا] [مَنْ انۢبَاَكَ هٰذَا: کس نے خبر دی آپ کو اس کی] [قَالَ نَبَّانيَ: آپ نے کہا بتلایا مجھ کو] [الْعَلِيْمُ الْخَبِيْرُ: اس علیم خبیر (ہستی) نے]

 

ترکیب: (آیت۔3) نبات کا فاعل اس میں شامل ھی کی ضمیر سے جو بعض ازواجہ کے لیے ہے۔ اس کا مفعول یہاں مذکور نہیں ہے جبکہ بہ کی ضمیر راز والی بات کے لیے ہے۔ اظھر کے ساتھ ہُ کی ضمیر مفعولی نبی کے لیے ہے اور علیہ کی ضمیر راز فاش کرنے والی بات کے لیے ہے۔ عسرف کا فاعل اس میں شامل ھو کی ضمیر ہے جو نبی کے لیے ہے۔ بعضہ کی ضمیر اللہ کی دی ہوئی آگاہی کے لیے ہے۔ فلما نباھا بہ میں نبا کا فاعل ھو کی ضمیر ہے جو نبی کے لیے ہے۔ اس کے ساتھ ھا کی ضمیر مفعولی بعض ازواجہ کے لیے ہے اور بہ کی ضمیر راز فاش کرنے والی بات کے لیے ہے۔

 

نوٹ۔3: آیت۔3۔ میں قرآن نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے کہ حضور نے کیا راز کی بات کہی اور کس بیوی سے کہی۔ قرآن نے اس کو پردے ہی میں رکھا ہے۔ اس وجہ سے ہم اس راز کے در پے ہونا جائز نہیں سمجھتے۔ حضور کی ازواج ہمارے لیے مائوں کی منزلت میں ہیں۔ بیٹوں کے لیے یہ بات کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنی مائوں کے رازوں کے کھوج میں لگیں۔ بالخصوص جب کہ اس راز کے انکشاف سے اس آیت کے فہم میں کوئی مدد بھی نہ مل رہی ہو۔ یہاں راز کو فاش کرنے پر ہی تنبیہ کی گئی ہے اب اگر ہم اس کے در پے ہوں گے تو اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ جس چیز سے روکا گیا ہے، ہم نے اسی کا ارتکاب کیا۔ (تدبر قرآن)

 راز ظاہر کرنے پر یہاں اس لیے ٹوکا گیا ہے کہ نہ صرف ازواج مطہرات بلکہ مسلم معاشرے کے تمام ذمہ دار لوگوں کی بیویوں کو رازوں کی حفاظت کی تربیت دی جائے۔ آیت میں اس سوال کو قطعی نظرانداز کردیا گیا ہے کہ جس راز کی بات کو افشا کیا گیا تھا وہ کوئی اہمیت رکھتی ہے یا نہیں اور اس کے افشا سے کسی نقصان کا خطرہ تھا یا نہیں۔ گرفت اس امر پر کی گئی ہے کہ راز کی بات کو دوسرے سے بیان کردیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ذمہ دار ہستی کے گھر والوں میں اگر یہ کمزوری موجود ہو تو آج ایک غیر اہم راز افشا ہوا ہے، کل کوئی اہم راز افشا ہو سکتا ہے۔ کسی وقت بھی یہ کمزوری کسی بڑے خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔ (تفہیم القرآن)

اِنْ تَتُوْبَآ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا  ۚ وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ     Ć۝
[ان تَتُوْبَآ اِلَى اللّٰهِ: اگر تم دونوں توبہ کرو اللہ کی طرف] [فَقَدْ صَغَتْ: تو مائل تو ہو چکے ہیں] [قُلُوْبُكُمَا: تم دونوں کے دل] [وَان تَظٰهَرَا: اور اگر تم دونوں باہم مدد کرو گی] [عَلَيْهِ: اِن (نبی) کے خلاف] [فَان اللّٰهَ: تو بیشک اللہ (جو) ہے] [هُوَ مَوْلٰىهُ: وہ ہے ان کا کارساز] [وَجبرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ: اور جبریل اور مومنوں کا صالح (بھی)] [وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ: اور فرشتے] [بَعْدَ ذٰلِكَ: اس کے بعد] [ظَهِيْرٌ: مددگار ہیں]

 

(آیت۔4) ان تتوبا شرط ہے اور فقہ صفت جواب شرط ہے۔ ترجمہ میں اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ وان تظھرا علیہ میں تظھرا باب تفاعل میں فعل ماضی کے مثنیہ مذکر غائب کا صیغہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ مضارع کے تثنیہ مؤنث غائب کا صیغہ تنظھران ہے۔ باب تفعل اور تفاعل کے مضارع کے جن صیغوں دو تا آ جاتی ہیں وہاں ایک تا کو گرا دینا جائز ہے۔ اس لیے یہاں ایک تا گری ہوئی ہے اور ان شرطیہ کی وجہ سے نون اعرابی گرا ہوا ہے۔

عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا     Ĉ۝
[عَسٰى رَبُّهٗٓ: قریب ہے ان کا رب] [ان طَلَّقَكُنَّ: اگر وہ طلاق دیں تم عورتوں کو] [ان يُّبْدِلَهٗٓ: کہ وہ بدلہ میں دے ان کو] [اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ: ایسی بیویاں جو بہتر ہوں گی تم سے] [مُسْلِمٰتٍ: حق کو قبول کرنے والیاں] [مُّؤْمِنٰتٍ: ایمان لانے والیاں] [قٰنِتٰتٍ: اطاعت کو لازم کرنے والیاں] [تٰۗىِٕبٰتٍ: توبہ کرنے والیاں] [عٰبِدٰتٍ: عبادت کرنے والیاں] [سٰۗىِٕحٰتٍ: روزے دار ہونے والیاں] [ثَيِّبٰتٍ: شوہر آشنا ہونے والیاں ہوتے ہوئے] [وَّاَبْكَارًا: اور (یا) کنواریاں ہوتے ہوئے]

 

(آیت۔5) یبدلہ میں لہ پر حرف جارّہ والا لا) نہیں ہے بلکہ یہ فعل کے مادہ ’’ ب د ل‘‘ والا لام ہے۔ یعنی یہ دراصل یبدل ہ ہے۔ مسلمت سگحت تک کو صفات کے درمیان میں کہیں بھی واو نہیں آئی ہے لیکن تیبت اور ابکارا کے درمیان وائو لائی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مسلمت سے سگحت تک کی تمام صفات کسی ایک قانون میں بیک وقت جمع ہو سکتی ہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی خاتون ایک ہی وقت میں ثیبت میں سے بھی ہو اور ابکارا میں سے بھی۔ اس توجیہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے کس طرح قرآن کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کی چھان پھٹک کی ہے اور تدبرِ قرآن کا حق ادا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ان کی عرق ریزیوں سے کماحقہ استفادہ کریں۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ     Č۝
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا: اے لوگو جو ایمان لائے] [قُوْٓا: تم لوگ بچائو] [انفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا: اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو ایک ایسی آگ سے] [وَّقُوْدُهَا: جس کا ایندھن] [النَاسُ وَالْحِجَارَةُ: انسان اور پتھر ہیں] [عَلَيْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ: اس (آگ) پر ایسے فرشتے (مقرر) ہیں جو] [غِلَاظٌ شِدَادٌ: انتہائی سخت ہیں] [لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ: وہ نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی] [مَآ اَمَرَهُمْ: اس میں جو اس نے حکم دیا ان کو] [وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ: اور کرتے ہیں وہ (ہی) جو انھیں حکم دیا گیا]

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ ۭ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ     Ċ۝ۧ
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوْا: اے لوگوں جنھوں نے انکار کیا] [لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ: تم لوگ بہانے مت گھڑو آج کے دن] [انمَا تُجْزَوْنَ مَا: تم کو تو بس بدلہ دیا جاتا ہے وہی جو] [كُنْتم تَعْمَلُوْنَ: تم لوگ کیا کرتے تھے]

 

نوٹ۔1: آیت۔7۔ بتا رہی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظامِ فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ اپنی حدِّ استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان نہیں اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بچے دنیا میں خوشحال ہوں، بلکہ اس سے بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ رسول اللہ
کا فرمان ہے کہ ’’ تم میں سے ہر ایک راعی (چرواہا) ہے اور ہر ایک اپنی رعیت (گلے) کے بارے میں جوابدہ ہے۔ حکمراں راعی ہے اور وہ اپنی رعیت …رعایا) کے معاملہ میں جوابدہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن)

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا    ۭعَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۙ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللّٰهُ النَّبِيَّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ۚ نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ    Ď۝
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا: اے لوگو جو ایمان لائے] [تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ: تم لوگ توبہ کرو اللہ سے] [تَوْبَةً نَّصُوْحًا: انتہائی خالص توبہ] [عَسٰى رَبُّكُمْ: قریب ہے تمھارا رب] [ان يُّكَفِّرَ عَنْكُمْ: کہ وہ دور کر دے تم سے] [سَيِّاٰتِكُمْ: تمھاری برائیوں کو] [وَيُدْخِلَكُمْ: اور وہ داخل کر دے تم کو] [جَنّٰتٍ: ایسے باغات میں] [تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْانهٰرُ: بہتی ہیں جن کے دامن سے نہریں] [يَوْمَ: اس دن جب] [لَا يُخْزِي اللّٰهُ: رسوا نہیں کرے گا اللہ] [النَّبِيَّ: ان نبی کو] [وَالَّذِينَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ: اور ان کو جو ایمان لائے ان کے ساتھ] [نُوْرُهُمْ يَسْعٰى: ان کا نور دوڑتا ہو گا] [بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانهِمْ: ان کے آگے اور ان کے داہنی جانب] [يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ: وہ لوگ کہتے ہوں گے اے ہمارے رب] [اَتممْ لَنَا نُوْرَنَا: تو پورا کر دے ہمارے لیے ہمارے نور کو] [وَاغْفِرْ لَنَا: اور تو بخش ہمارے لیے (ہمارے گناہوں کو)] [انكَ عَلٰي كُلِ شَيْءٍ قَدِيْرٌ : بیشک تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے]

 

نوٹ۔2: تَوْبَۃً نَصُوْصًا کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ ریا اور نمود سے خالص ہو۔ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوفِ عذاب سے گناہ پر نادم ہو کر توبہ کی ہو۔ حضرت علی سے سوال کیا گیا کہ توبہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا جس میں چھ چیزیں جمع ہوں۔ (1) اپنے گذشتہ برے عمل پر ندامت (2) جو فرائض واجبات اللہ تعالیٰ کے چھوٹے ہوں ان کی قضا (3) کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا تھا تو اس کی واپسی۔ (4) کسی کو ہاتھ یا زبان سے تکلیف پہنچائی تھی تو اس سے معافی (5) آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم وارادہ (6) اور یہ کہ جس طرح اس نے اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی کرتے دیکھا، اسی طرح اب وہ اسے اللہ کی اطاعت کرتے دیکھ لے۔ حضرت علی نے جو توبہ کی شرائط بیان کی ہیں وہ سب کے ہی نزدیک مسلم ہیں۔ بعض نے مختصر اور بعض نے مفصل بیان کردیا ہے۔ (معارف القرآن)

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۭ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ    ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ    ۝
[يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ: اے نبی آپ جہاد کریں] [الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ: کافروں سے اور منافقوں سے] [وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ: اور آپ سختی کریں ان پر] [وَمَاوٰىهُمْ جَهَنَّمُ: اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے] [وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ : اور کتنی بری ہے (وہ) لوٹنے کی جگہ]

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ     10؀
[ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا: بیان کرتا ہے اللہ ایک مثال] [لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا: ان کے لیے جنھوں نے کفر کیا] [امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ: نوح کی عورت (بیوی) اور لوط کی عورت (بیوی) کی] [كَانتَا: وہ دونوں تھیں] [تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ: ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کے تحت] [فَخَانتٰهُمَا: پھر ان دونوں (خواتین) نے خیانت کی ان دونوں (بندوں) سے] [فَلَمْ يُغْنِيَا: تو وہ دونوں (بندے) کام نہ آئے] [عَنْهُمَا: ان دونوں (خواتین) کے] [مِنَ اللّٰهِ: اللہ سے (چھڑانے میں)] [شَيْــــًٔا: کچھ بھی ] [وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَارَ: اور کہا گیا تم دونوں داخل ہو آگ میں] [مَعَ الدّٰخِلِيْنَ: داخل ہونے والوں کے ساتھ]

 

ترکیب: (آیت۔10) ضرب کا مفعول ہونے کی وجہ سے مثلاً حالت نصب میں سے، جبکہ امرات کی نصب مثلا کا بدل ہونے کی وجہ سے ہے۔ ایک نوٹ کرنے والی بات یہ ہے ان آیات زیر مطالعہ میں تینوں جگہ امراۃ کو گول تے سے لکھنے کے بجائے لمبی تے سے امرات لکھا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کوئی ۔16۔17۔ مقامات پر اس کو لمبی تے سے لکھا گیا ہے۔ عام رائے یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن قاری حضرات کا کہنا ہے کہ قراءت میں فرق پڑتا ہے۔ جہاں یہ لفظ گول تے سے لکھا ہے وہاں اگر سانس ٹوٹنے کی وجہ سے وقف کرنا ہو تو چھوٹی ہا کی آواز کے ساتھ امراہ کہہ کر وقف کریں گی۔ اور جہاں یہ لمبی تے سے لکھا ہے وہاں تا کی آواز کے ساتھ امرات کہہ کر وقف کریں گے پھر پیچھے سے ملا کر پڑھنا شروع کریں گے۔

 لیکن حال ہی میں اس کی ایک اور وجہ سامنے آئی ہے۔ اسلام سے پانچ سو سال قبل کی نبطیوں کی
INSCRIPTIONS (کندہ تحریریں) دریافت ہوئی ہیں، جہاں سے عربی رسم الخط آیا ہے۔ ان کے ہاں گول تے (ۃ) کو لمبی تے (ت) سے لکھنا ثابت ہے۔ اس لیے عربی زبان کے عبوری دور میں لمبی اور گول تا میں تمیز کرنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔ بعد میں کوفہ اور بصرہ میں جب عربی گرامر مرتب کرنے کا کام ہوا، اس وقت یکسانیت پیدا کرنے کی غرض سے اس کے بھی قاعدے طے کیے گئے۔

 دوسری بات یہ نوٹ کریں کہ صالحین (جمع کا صیغہ) نہیں آیا ہے بلکہ صالحین (تثنیہ کا صیغہ) آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ عباد نا کی صفت نہیں ہے بلکہ عبدین کی صفت ہے۔ یغنیا میں شامل ھما کو ضمیر فاعلی عبدین کے لیے ہے جبکہ عنھما کی ضمیر دونوں خواتین کے لیے ہے۔

 

نوٹ۔1: آیت۔10 میں خیانت اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ بدکاری کی مرتکب ہوئی تھیں بلکہ اس معنی میں ہے کہ انھوں نے ایمان کی راہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط کا ساتھ نہ دیا بلکہ ان کے مقابلہ میں دشمنانِ دین کا ساتھ دیتی رہیں۔ (تفہیم القرآن)

 اس آیت میں مثال پیش کی ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کام آنے والی چیز آدمی کا اپنا عمل ہے۔ جس کے پاس حسن عمل کی پونجی نہیں ہوگی اس کو کسی بڑے سے بڑے کی نسبت بھی کچھ نفع پہنچانے والی نہیں بن سکے گی۔ آخرت کی جوابدہی سے سب سے زیادہ بےپرواہی اہل مذاہب کے اندر اس وہم نے پیدا کی کہ انھوں نے خیال کیا کہ وہ اللہ کے محبوبوں اور برگزیدہ لوگوں کی اولاد ہیں‘ اس وجہ سے دوزخ کی آگ ان کو نہیں چھوئے گی۔ یہود اور نصارٰی اسی فتنہ میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی زیر مطالعہ آیات میں یہ امر خاص توجہ کے لائق ہے کہ برائی کی مثال کے لیے بھی عورتوں ہی کا انتخاب کیا ہے اور بھلائی کی مثال کے لیے بھی انہی کے نام لیے ہیں۔ اس سے مقصود اس عام غلط فہمی کو رفع کرنا ہے کہ تمام برائی کا سرچشمہ عورت ہی ہے۔ اپنی خلقت کے اعتبار سے عورت بھی خیر و شر دونوں صلاحیتوں کی حامل ہے۔ اس کا انحصار اس کے ارادہ اور اختیار کے استعمال پر ہے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: یہ سورہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں چند واقعات کی طرف اشارہ کر کے چند اہم مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

1۔ ایک یہ کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود مقرر کرنے کے اختیارات قطعی طور پر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ عام انسان تو درکنار، خود اللہ کے نبی
کی طرف بھی اس کا کوئی حصّہ منتقل نہیں کیا گیا۔

2۔ دوسرے یہ کہ انسانی معاشرہ میں نبی کا مقام انتہائی نازک مقام ہے۔ ایک معمولی سی بات جو کسی دوسرے انسان کی زندگی میں چنداں اہمیت نہیں رکھتی، نبی کی زندگی میں اگر پیش آ جائے تو وہ قانون کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کی زندگی پر کڑی نگرانی رکھی گئی ہے کہ ان کا کوئی ادنیٰ اقدام بھی منشاء الٰہی سے ہٹا ہوا نہ ہو۔ ایسا کوئی فعل گر نبی سے کبھی صادر ہوا ہے تو اس کی اصلاح کر دی گئی ہے تاکہ اسلامی قانون اور اس کے اصول اپنی بالکل صحیح صورت میں نہ صرف خدا کی کتاب بلکہ نبی کے اسود حسنہ کی صورت میں بھی خدا کے بندوں تک پہنچ جائیں۔

3۔ تیسری بات جو مذکورہ بالا نکتہ سے خودبخود نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ذرا سی بات پر جب نبی
کو ٹوک دیا گیا اور نہ صرف اس کی اصلاح کی گئی بلکہ اسے ریکارڈ پر بھی لے آیا گیا، تو یہ چیز ہمارے دل میں قطعی طور پر یہ اطمینان پیدا کر دیتی ہے کہ حیات طیبہ میں جو اعمال و افعال اور جو احکام و ہدایات ہمیں اب ملتے ہیں، اور جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت یا اصلاح ریکارڈ پر موجود نہیں ہے وہ سرا سر اللہ کی مرضی سے پوری مطابقت رکھتے ہیں۔

4۔ چوتھی بات یہ ہے کہ جس رسول مقدس کی عزت و حرمت کو اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کے حق میں لازمۂ ایمان قرار دیتا ہے اور جن ازواج مطہرات کو اللہ تعالیٰ خود اہل ایمان کی ماں قرار دیتا ہے، انہی کو اس نے اس سورہ میں تنبیہہ فرمائی ہے اور پھر یہ خفیہ طور پر نہیں کی گئی بلکہ اس کتاب میں درج کر دی گئی جسے تمام امت کو ہمیشہ تلاوت کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ کتاب اللہ یں اس ذکر کا منشا یہ نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور امہات المؤمنین کو اہل ایمان کی نگاہوں میں گرا دینا چاہتا تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن پاک کی یہ سورہ پڑھ کر کسی مسلمان کے دل سے ان کا احترام اٹھ نہیں گیا۔ اب قرآن میں یہ ذکر لانے کی مصلحت اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اپنے بزرگوں کے احترام کی صحیح حدود سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔ نبی کا احترام اس بنا پر نہیں ہے کہ اس سے لغرش کا صدور ناممکن ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ وہ مہر ھئی الٰہی کا مکمل نمائندہ ہے۔ اسی طرح سے صحابہ کرام ہوں یا ازواج مطہرات، یہ سب انسان تھے، فرشتے یا فوق البشر نہ تھے۔ ان سے غلطیوں کا صدور ہو سکتا تھا۔ ان کو جو مرتبہ بھی حاصل ہوا اس وجہ سے حاصل ہوا کہ اللہ کی رہنمائی اور اللہ کے رسول کی تربیت نے ان کو انسانیت کا بہترین نمونہ بنا دیا تھا۔ اسی وجہ سے نبی
کے عہد مبارک میں صحابہ یا ازواج مطہرات سے بشریت کی بنا پر جب بھی کسی غلطی کا صدور ہوا، تو اس پر ٹوکا گیا۔ ان کی بعض غلطیوں کی اصلاح حضور نے کی جن کا ذکر احادیث میں بکثرت آیا ہے اور بعض غلطیوں کا ذکر قرآن مجید میں کر کے اللہ تعالیٰ نے خود ان کی اصلاح کی تاکہ مسلمان بھی بزرگوں کے احترام کا کوئی ایسا مبالغہ آمیز تصور نہ قائم کرلیں جو انھیں انسانیت کے مقام سے اٹھ کر دیویوں اور دیوتائوں کے مقام پر پہنچا دیں۔

5۔ پانچویں بات جو اس سورہ میں کھول کر بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا دین بالکل بےلاگ ہے۔ اس میں ہر شخص کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کا وہ اپنے ایمان و اعمال کے لحاظ سے مستحق ہو۔ کسی بڑی سے بڑی بستی کے ساتھ نسبت بھی اس کے لیے قطعاً نافع نہیں ہے اور کسی بری سے بری ہستی کے ساتھ نسبت بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس معاملہ میں تین قسم کی عورتوں کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔ ایک مثال حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں کی ہے۔ انبیاء کی بیویاں ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا اور وہ جہنم کی مستحق ہویں۔ دوسری مثال فرعون کی بیوی کی ہے، جو اگرچہ ایک بدترین دشمن خدا کی بیوی تھیں لیکن اس جیسے کافر کی بیوی ہونا بھی ان کے لیے کسی نقصان کا موجب نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت کا مستحق بنا دیا۔ تیسری مثال حضرت مریم کی ہے جنھیں یہ مرتبۂ عظیم اس لیے ملا کہ اللہ نے جس شدید آزمائش میں انھیں ڈالنے کا فیصلہ فرمایا تھا اس کے لیے انھوں نے سرتسلیم خم کر دیا۔ اور ایک سچی مومنہ کی حیثیت سے وہ سب کچھ برداشت کرنا قبول کرلیا جو اللہ کی مرضی پوری کرنے کے لیے برداشت کرنا ناگزیر تھا۔ تب اللہ نے ان کو شیدۃ النساء فی الجنۃ کے مرتبہ عالی پر سرفراز فرمایا۔

 ان امور کے علاوہ ایک اور اہم حقیقت جو اس سورہ سے ہمیں معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی
کے پاس صرف وہی علم نہیں آتا تھا جو قرآن مجید میں درج ہے، بلکہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے دوسری باتوں کا علم بھی دیا جاتا تھا جو قرآن مجید میں درج ہے، بلکہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے دوسری باتوں کا علم بھی دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی صریح دلیل اس سورہ کی آیت۔3۔ ہے۔ اس میں نبی نے ایک اپنی ایک زوجہ محترمہ کو بتایا کہ راز فاش کرنے کی خبر ان کو اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پورے قرآن مجید میں وہ آیت کہاں ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر دی تھی۔ اگر ایسی کوئی آیت قرآن میں نہیں ہے تو یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی نبی پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ اس سے منکرین حدیث کا یہ دعوٰی بالکل باطل ہو جاتا ہے کہ آپ پر قرآن کے سوا اور کوئی وحی نہیں آتی تھی۔

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ    ۘاِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّــنِيْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهٖ وَنَجِّــنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ     11۝ۙ
[وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا: اور بیان کرتا ہے اللہ ایک مثال] [لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا: ان کے لیے جو ایمان لائے] [امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ: فرعون کی عورت (بیوی) کی] [اِذْ قَالَتْ رَبِ: جب اس (خاتون) نے کہا اے میرے رب] [ابْنِ لِيْ: تو تعمیر کر دے میرے لیے] [عِنْدَكَ: اپنے پاس] [بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ: ایک گھر جنت میں] [وَنَجِّــنِيْ: اور تو نجات دے مجھ کو] [مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهٖ: فرعون اور اس کے عمل سے] [وَنَجِّــنِيْ: اور تو نجات دے مجھ کو] [مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ: اِس طالم قوم سے]

 

 (آیت۔11) کانت مؤنث ہے اس لحاظ سے اس کی خبر من القنثت آنی چاہیے تھی مگر مذکر قانتین آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قانتون کے لفظ میں مرد اور عورت سب شامل ہیں اس لیے قانتین لانا بھی جائز ہے۔ (حافظ احمد یار صاحب مرحوم کے ترجمہ قرآن کیسٹ سے ماخوذ۔ اِن کیسٹوں کی ریکارڈنگ 1987 ء یا 1988 ء میں ہوئی تھی)

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ     12۝ۧ
[وَمَرْيَمَ: اور مریم کی (مثال)] [ابْنَتَ عِمْرٰنَ: جو عمران کی بیٹی تھیں] [الَّتِيْٓ: وہ (بیٹی) جنھوں نے] [اَحْصَنَتْ: حفاظت کی] [فَرْجَهَا: اپنی عصمت کی] [فَنَفَخْنَا فِيْهِ: تو ہم نے پھونکا اس میں] [مِنْ رُّوْحِنَا: اپنی روح میں سے] [وَصَدَّقَتْ: اور انھوں نے تصدیق کی] [بِكَلِمٰتِ رَبِهَا: اپنے رب کے فرمانوں کی] [وَكُتُبِهٖ: اور اس کی کتابوں کی] [وَكَانتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ: اور وہ تھیں فرمانبرداری کرنے والوں میں سے]