بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ " "تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ Ǻ۝ۙ [تَبٰرَكَ الَّذِي: بابرکت ہوئی وہ (ذات)][ بِيَدِهِ: جس کے ہاتھ میں][ الْمُلْكُ ۡ: ساری بادشاہت ہے][ وَهُوَ عَلٰي كُلِ شَيْءٍ: اور وہ ہر چیز پر][ قَدِيْرُ: قدرت رکھنے والا ہے] نوٹ۔1: حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سورۃ عذاب کو روکنے والی اور عذاب سے نجات دلانے والی ہے۔ یہ اپنے پڑھنے والے کو عذاب سے بچائے گی۔ (معارف القرآن)" "الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ Ą۝ۙ [الَّذِي خَلَقَ: جس نے پیدا کیا][ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ: موت کو اور حیات کو][ لِيَبْلُوَكُمْ: تاکہ وہ جانچے تم لگوں کو (کہ)][ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ: تم لوگوں کا کون زیادہ اچھا ہے][ عَمَلًا : بلحاظ عمل کے][ ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْر: اور وہ ہی بالا دست ہے بےانتہا بخشنے والا ہے] نوٹ۔2: آیت۔2 میں ہے کہ اس نے پیدا کیا موت اور قیامت کو۔ حیات کے لیے پیدا کرنے کا لفظ تو اپنی جگہ ظاہرہے، کہ حیات ایک وجودی چیز ہے۔ لیکن موت جو بظاہر ایک عدم کا نام ہے، اس کے ساتھ تخلیق کا تعلق کس طرح ہوا۔ اس کے جواب میں ائمہ تفسیر سے متعدد اقوال منقول ہیں۔ سب سے زیادہ واضح بات یہ ہے کہ موت عدم محض کا نام نہیں ہے بلکہ روح اور بدن کا تعلق منقطع کر کے روح کو ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقل کرنے کا نام ہے اور یہ ایک وجودی چیز ہے۔ غرض جس طرح حیات ایک حال (یعنی حالت) سے جو جسم انسانی پر طاری ہوتا ہے، اسی طرح موت بھی ایک ایسا ہی حال ہے۔ (معارف القرآن) ۔ اس دنیا میں انسانوں کے مرنے اور جینے کا یہ سلسلہ اس نے اس لیے شروع کیا ہے کہ ان کا امتحان لے کہ کس انسان کا عمل زیادہ بہتر ہے۔ اس مختصر سے فقرے میں بہت سی حقیقتوں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ اوّل یہ کہ موت اور حیات اَسی کی طرف سے ہے، کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے والا ہے نہ موت دینے والا۔ دوسرے یہ کہ انسان جیسی مخلوق، جیسے نیکی اور بدی کرنے کی قدرت عطا کی گئی ہے، اس کی نہ زندگی ہے نہ مقصد ہے نہ موت۔ خالق نے اسے یہاں امتحان کے لیے پیدا کیا ہے۔ زندگی اس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے امتحان کا وقت ختم ہو گیا۔ تیسرے یہ کہ اسی امتحان کی غرض سے کالق نے ہر ایک کو عمل کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دنیا میں کام کر کے اپنی اچھائی یا برائی کا اظہار کرسکے۔ چوتھے یہ کہ خالق ہی اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا بُرا۔ اعمال کی اچھائی اور برائی کا معیار تجویز کرنا امتحان دینے والوں کا کام نہیں ہے بلکہ امتحان پہلے والے کا کام ہے۔ اس لیے جو بھی امتحان میں کامیاب ہونا چاہے اسے یہ معلوم کرنا ہو گا کہ امتحان لینے والے کے نزدیک حسن عمل کیا ہے۔ پانچواں نکتہ خود امتحان کے مفہوم میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ جس کا جیسا عمل ہو گا اسی کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی۔ (تفہیم القرآن)" "الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ۭ مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ Ǽ۝ [الَّذِي خَلَقَ: جس نے پیدا کیا][ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ: سات آسمانوں کو][ طِبَاقًا ۭ: تلے اوپر ہوتے ہوئے][ مَا تَرٰى: تو نہیں دیکھے گا][ فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ: رحمان کی تخلیق میں][ مِنْ تَفٰوُتٍ ۭ: کسی طرح بھی ہم آہنگ نہ ہونا][ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ: پس تو لوٹا بصارت کو][ هَلْ تَرٰى: کیا تو دیکھتا ہے][ مِنْ فُطُوْرٍ: کچھ بھی شگاف]" "ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّهُوَ حَسِيْرٌ Ć۝ [ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ: پھر تو لوٹا بصارت کو][ كَرَّتَيْنِ: دوبارہ][ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ: تو پلٹ آئے گی تیری طرف بصارت][ خَاسِئًا: تھکی ماندی ہوتے ہوئے][ وَّهُوَ حَسِيْرٌ: اس مال میں کہ وہ ناکام ہو گی]" "وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيْرِ Ĉ۝ [وَلَقَدْ زَيَّنَا: اور بیشک ہم نے سجایا ہے ][ السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا: نزدیکی (دنیوی) آسمان کو] بِمَصَابِيْحَ: چراغوں سے][ وَجَعَلْنٰهَا: اور ہم نے بنایا ان (چراغوں) کو][ رُجومًا: سنگسار کرنے کے ذرائع][ لِلشَّـيٰطِيْنِ: شیطانوں کے لیے][ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ: اور ہم نے تیار کیا ان کے لیے][ عَذَابَ السَّعِيْرِ: بھڑکتی آگ کا عذاب] نوٹ۔3: آیت۔6۔ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہی تارے شیطانوں پر پھینک مارے جاتے ہیں اور یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ شہاب ثاقب صرف شیطانوں کو مارنے ہی کے لیے گرتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ تاروں سے جو بےحد و حساب شہابِ ثاقب نکل کر کائنات میں انتہائی تیز رفتاری سے گھومتے رہتے ہیں اور جن کی بارش زمین پر بھی ہر وقت ہوتی رہتی ہے، وہ اس امر میں مانع ہے کہ زمین کے شیاطین عالم بالا میں جا سکیں۔ اگر وہ اوپر جانے کی کوشش کریں بھی تو یہ شہابِ ثاقب انہیں مار بھگاتے ہیں۔ رہا یہ سوال کہ ان شہابوں کی حقیقت کیا ہے، تو اس کے بارے میں انسان کی معلومات اس وقت تک کسی قطعی تحقیق سے قاصر ہیں۔ تاہم جس قدر بھی حقائق اور واقعات اب تک انسان کے علم میں آئے ہیں اور زمین پر گرے ہوئے شہابیوں کے معائنے سے جو معلومات حاصل کی گئی ہیں ان کی بناء پر سائنس دانوں میں سب سے زیادہ مقبول نظریہ یہی ہے کہ یہ شہابیے کسی سیارے کے انفجار کی بدولت نکل کر خلا میں گھومتے رہتے ہیں اور پھر کسی وقت زمین کی کشش کے دائرے میں آ کر ادھر کا رخ کر لیتے ہیں۔ (تفہیم القرآن) ۔" "وَلِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ Č۝ [وَلِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا: اور ان کے لیے جنھوں نے انکار کیا][ بِرَبِهِمْ: اپنے رب کا][ عَذَابُ جَهَنَّمَ ۭ: جہنم کا عذاب ہے][ وَبِئْسَ: اور بہت بری ہے (وہ)][ الْمَصِيْرُ: لوٹنے کی جگہ]" "اِذَآ اُلْقُوْا فِيْهَا سَمِعُوْا لَهَا شَهِيْقًا وَّهِىَ تَفُوْرُ Ċ۝ۙ [اِذَآ اُلْقُوْا فِيْهَا: جب وہ ڈالے جائیں گے اس میں][ سَمِعُوْالَهَا: تو وہ سنیں گے اس میں][ شَهِيْقًا: رینکنے والی آواز][ وَّهِىَ تَفُوْر: اس حال میں کہ وہ ابلتی ہو گی] ترکیب: (آیت۔7۔8) اِذَا اور کُلَّمَا حرف شرط ہیں۔ اس لیے افعال ماضی کا ترجمہ مستبقل میں ہو گا۔ تُمَیِّزُ کی پہچان یہ ہے کہ نہ تو یہ تَمَیَّزَ (باب تفعل کا ماضی) ہے اور نہ ہی یہ تُمَیِّزُ (باب تفعیل کا مضارع) ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہ بات تفعل کا مضارع تَتَمَیَّرُ ہے جس کی ایک تا گری ہوئی ہے۔ خَازِنٌ کی جمع خَزَنَۃٌ ہے۔ یہاں یہ سَئَلَ کا فاعل اسم ظاہر ہے اس لیے فاعل جمع ہونے کے باوجود فعل سَئَلَ واحد آیا ہے۔ نوٹ۔1: آیت ۔7 میں شَھِیْقٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو گدھے کی سی آواز کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس فقرے کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ خود جہنمکی آواز ہو گی، اور یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ آواز جہنم سے آ رہی ہوگی جہاں ان سے پہلے گرے ہوئے لوگ چیخیں مار رہے ہوں گے۔ اس دوسرے مفہوم کی تائید سورۃ ہود کی آیت۔106 سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ دوزخ میں یہ دوزخی لوگ ہانپیں گے اور پھنکاریں گے اور پہلے مفہوم کی تائید سورئہ فرقان کی آیت۔12۔ سے ہوتی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ دوزخ میں جاتے ہوئے یہ لوگ دور ہی سے اس کے غضب اور جوش کی آوازیں سنیں گے۔ اس بنا پر صحیح یہ ہے کہ یہ شور خود جہنم کا بھی ہو گا اور جہنمیوں کا بھی۔ (تفہیم القرآن) ۔" "تَكَادُ تَمَــيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ ۭ كُلَّمَآ اُلْقِيَ فِيْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَذِيْرٌ Ď۝ [تَكَادُ تمــيَّزُ: قریب ہے کہ وہ پھٹ پڑے گی][ مِنَ الْغَيْظِ ۭ: شدید غصّہ سے][ كُلَمَآ: جب کبھی بھی][ اُلْقِيَ فِيْهَا فَوْجٌ: ڈالا جائے گا اس میں کسی گروہ کو][ سَاَلَهُمْ: تو پوچھیں گے ان سے][ خَزَنَــتُهَآ: اس (جہنم) کے داروغہ لوگ][ اَلَمْ يَاْتِكُمْ: کیا نہیں پہنچا تمھارے پاس][ نَذِيْرٌ: کوئی خبردار کرنے والا]" "قَالُوْا بَلٰي قَدْ جَاۗءَنَا نَذِيْرٌ ڏ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ښ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ كَبِيْرٍ Ḍ۝ [قَالُوْا بَلٰي: وہ لوگ کہیں گے کیوں نہیں][ قَدْ جَاۗءَنَا: آ چکا تھا ہمارے پاس][ نَذِيْرٌ: ایک خبردار کرنے والا][ ڏ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا: تو ہم نے جھٹلایا اور ہم نے کہا][ مَا نَزَّلَ اللّٰهُ: نہیں اتارا اللہ نے][ مِنْ شَيْءٍ: کوئی بھی چیز][ ښ ان انتم اِلَّا: نہیں ہو تم (خبردار کرنے والے) لوگ مگر][ فِيْ ضَلٰلٍ كَبِيْرٍ: ایک بڑی گمراہی میں] (آیت۔9) قَالُوْا سے پہلے کوئی حرف شرط نہیں ہے لیکن پھر بھی فعل ماضی کا ترجمہ مستبقل میں ہو گا کیونکہ یہ قیامت کا بیان ہے۔ (دیکھیں آیت۔2:28، نوٹ۔13) ۔ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ کَبِیْرٍ میں اِنْ کے بعد اِلَّا آ رہا ہے۔ اس سے معلوم ہا کہ یہ اِنْ نافیہ ہے۔" "وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ 10 ؀ [وَقَالُوْا: اور وہ (جہنمی) لوگ کہیں گے][ لَوْ كُنَا نَسْمَعُ: کاش ہم سنا کرتے][ اَوْ نَعقل: یا عقل استعمال کیا کرتے][ مَا كُنَا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ: تو ہم نہ ہوتے آگ والوں میں] (آیت۔10) اس آیت کے مختلف ترجمے ممکن ہیں۔ لَوْ کو شرطیہ (اگر) مان کر بھی ترجمہ ہو ہے اور اسے تمنی (کاش) مان کر بھی ترجمہ ہو سکتا ہے۔ دونوں ترجمے درست مانے جائیں گے۔ اسی طرح کُنَّا نَسْمَعُ کو ماضی استمراری بھی مانا جا سکتا ہے اور کُنَّا کو فعل ناقص مان لیں تو اس میں شامل نَحْنُ کی ضمیر اس کا اسم اور نَسْمَعُ اس کی خبر ہو گی۔ دونوں ترجمے درست ہوں گے۔" "فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ ۚ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِيْرِ 11 ؀ [فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ ۚ: پھر وہ لوگ اعتراف کریں گے اپنے گناہ کا][ فَسُحْقًا: (تو ثابت ہو گی) دوری (رحمت سے)][ لِاَصْحٰبِ السَّعِيْرِ: آگ والوں کے لیے] (آیت۔11) سُحْقًا کسی فعل محذوف کا مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔" "اِنَّ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ 12 ؀ [ان الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ: بیشک جو لوگ مرعوب رہتے ہیں اپنے رب سے][ بِالْغَيْبِ: اَن دیکھے میں][ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ: اس کے لیے مغفرت ہے][ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ: اور بڑا اجر ہے]" "وَاَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖ ۭ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ 13؀ [وَاَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ: اور تم لوگ چھپائو اپنی بات کو][ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖ ۭ: یا نمایاں کرو اس کو][ انهٗ عَلِيْمٌۢ: بیشک وہ (تو) جاننے والا ہے][ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ: سینوں والی (بات) کو (بھی)]" "اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ 14؀ۧ [اَ: کیا][لَا يَعْلَمُ: نہیں جانے گا][ مَنْ خَلَقَ ۭ: وہ جس نے پیدا کیا][ وَهُوَ اللَّطِيْفُ: دو آنحالیکہ وہی باریک بین ہے][ الْخَبِيْرُ: باخبر ہے] (آیت۔14) اس کے بھی دو ترجمے ممکن ہیں، ایک یہ کہ ان کو حرف تنبیہ (خبردار۔ سن لو) مان کر ترجمہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ہمزہ کو استفہامیہ (کیا) مان کر اور لَا یَعْلَمُ کو فعل نفی مان کر ترجمہ کیا جائے۔ دونوں ترجمے درست ہوں گے۔" "هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِهَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ ۭ وَاِلَيْهِ النُّشُوْرُ 15؀ [هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ: وہ، وہ ہے جس نے بنایا تمھارے لیے زمین کو][ ذَلُوْلًا: رام (تابعدار) کی ہوئی][ فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِهَا: پس تم لوگ چلو اس کے کندھوں (راستوں) میں][ وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ ۭ: اور کھائو اس (اللہ) کے رزق میں سے][ وَاِلَيْهِ النُّشُوْرُ: اور اس ہی کی طرف دوبارہ اٹھنا ہے] ترکیب: (آیت۔15) ئِ زْقِہٖ کی ضمیر ھُوَ الَّذِیْ کے لیے ہے۔ اگر اَلْاَرْضَ کے لیے ہوتی تو رِزْقَھَا آتا۔ نوٹ۔1: فرمایا کہ زمین کو تمہارے لیے ہم نے ایسا مطیع بنا دیا کہ تم اس کے مونڈھوں (کندھوں) پر چڑھتے پھرو۔ مطلب یہ ہے کہ زمین کو حق تعالیٰ نے ایک ایسا قوام (مادہ) بخشا ہے کہ نہ تو پانی کی طرح بہنے والا ہے، نہ روئی اور کیچڑ کی طرح دبنے والا، کیونکہ زمین ایسی ہوتی تو اس پر کسی انسان کا ٹھہرنا ممکن نہ ہوتا۔ اسی طرح زمین کو لوہے یا پتھر کی طرح سخت بھی نہیں بنایا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس میں درخت اور کھیتی نہ بوئی جا سکتی، کنویں اور نہریں نہ کھودی جا سکتیں اور اس کو کھود کر اونچی عمارتوں کی بنیاد نہ رکھی جا سکتی۔ اس قوام (نرم مادے) کے ساتھ اس کو ایسا سکون بخشا کہ اس پر عمارتیں ٹھہر سکیں اور چلنے پھرنے والوں کو لغزش نہ ہو۔ (معارف القرآن) ۔" "ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُ 16؀ۙ [ءَاَمِنْتم: کیا تم لوگ امن میں (نڈر) ہو گئے][ مَنْ فِي السَّمَاۗءِ: اس سے جو آسمان میں ہے][ ان يَّخْسِفَ: (اِس سے) کہ وہ دھنسا دے][ بِكُمُ الْاَرْضَ: تمھارے ساتھ زمین کو][ فَاِذَا هِيَ تموْرُ: پھر جب ہی وہ کپکپاتی ہو] نوٹ۔2: مَنْ فِی السَّمَائِ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں رہتا ہے بلکہ یہ بات اس لحاظ سے فرمائی گئی ہے کہ انسان فطری طور پر جب خدا سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ دعا مانگتا ہے تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتابوں کو کتب سماوی کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی باتوں سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ بات کچھ انسان کی فطرت ہی میں ہے کہ وہ جب خدا کا تصور کرتاہے تو اس کا ذہن آسمان کی طرف جاتا ہے۔ اسی بات کو ملحوظ رکھ کے یہاں اللہ تعالیٰ کے متعلق یہاں عَنْ فِی السَّمَائِ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس میں اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کو آسمان میں مقیم قرار دیتاہے۔ یہ شبہ آخر کیسے پیدا ہو سکتا ہے جب کہ اسی سورئہ ملک کے آغاز میں فرمایا جا چکا ہے کہ جس نے تہہ بہ تہہ سات آسمان پید اکیے اور سورئہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (پس تم جدھر بھی رخ کرو اس طرح اللہ کا رخ ہے) (تفہیم القرآن)" "اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ 17؀ [اَمْ اَمِنْتم: یا تم لوگ امن میں ہو گئے][ مَنْ فِي السَّمَاۗءِ: اس سے جو آسمان میں ہے][ ان يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ: کہ وہ بھیج دے تم لوگوں پر][ حَاصِبًا ۭ: کنکریاں مارنے والی تند ہوا][ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ: پھر تم جان لو گے (کہ) کیسا تھا][ نَذِيْرِ: میرا خبردار کرنے والا] (آیت۔17۔18) نَذِیْرِ اور نَکِیْرِ کی ر پر کسرہ بتا رہی ہے کہ ان کے آگے یائے متکلم محذوف ہیں اور یہ دراصل نَذِیْرِیْ اور نَکِیْرِیْ ہیں۔" "وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ 18؀ [وَلَقَدْ كَذَّبَ: اور بیشک جھٹلا چکے ہیں][ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ: وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے][ فَكَيْفَ كَان : تو (دیکھو کہ) کیسا تھا][ نَكِيْرِ: میرا عدم عرفان]" "اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صٰۗفّٰتٍ وَّيَقْبِضْنَ ڪ مَا يُمْسِكُـهُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ ۭ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍۢ بَصِيْرٌ 19؀ [اَوَلَمْ يَرَوْا: اور کیا انھوں نے غور ہی نہیں کیا][ اِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ: پرندوں کی طرف اپنے اوپر][ صٰۗفّٰتٍ: صف بچھانے (پھیلانے) والے ہوتے ہوئے][ وَّيَقْبِضْنَ: اور سمیٹتے ہوئے][ ڪ مَا يُمْسِكُـهُنَّ: نہیں تھامتا ان کو (کوئی)][ اِلَّا الرَّحْمٰنُ ۭ : سوائے رحمن کی][ انهٗ بِكُلِ شَيْءٍۢ: بیشک وہ ہر چیز کو][ بَصِيْرٌ: دیکھنے والا ہے]" "اَمَّنْ هٰذَا الَّذِيْ هُوَ جُنْدٌ لَّكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ ۭ اِنِ الْكٰفِرُوْنَ اِلَّا فِيْ غُرُوْرٍ 20؀ۚ [اَمَنْ هٰذَا الَّذِي: یا کون یہ ہے جو (کہ)][ هُوَ جُنْدٌ لَكُمْ: وہ ہو ایسا لشکر تمھارے لیے][ يَنْصُرُكُمْ: جو مدد کرے تمھاری][ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ ۭ: رحمن کے بجائے][ ان الْكٰفِرُوْنَ: نہیں ہیں کافر لوگ][ اِلَّا فِيْ غُرُوْر: مگر کچھ فریبوں میں (مبتلا)] (آیت۔20) اَمَّنْ دراصل اَمْ مَنْ ہے جس کو ملا کر لکھا گیا ہے۔" "اَمَّنْ هٰذَا الَّذِيْ يَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَهٗ ۚ بَلْ لَّجُّوْا فِيْ عُتُوٍّ وَّنُفُوْرٍ 21؀ [اَمَنْ هٰذَا الَّذِي؛یا کون یہ ہے جو][ يَرْزُقُكُمْ: روزی دے تم کو][ ان اَمْسَكَ رِزْقَهٗ ۚ: اگر وہ (رحمن) روک لے اپنا رزق][ بَلْ لَّجوا: بلکہ وہ لوگ اڑے رہے][ فِيْ عُتُوٍّ: سرکشی کرنے میں][ وَّنُفُوْرٍ : اور بیزاریوں میں] (آیت۔21) اَمْسَکَ میں شامل ھُوَ کی ضمیر کو اگر قریبی مرجع ھٰذَا الَّذِیْ کے لیے مانیں تو جملہ بےمعنی ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ضمیر اَلرَّحْمٰن کے لیے ہے۔" "اَفَمَنْ يَّمْشِيْ مُكِبًّا عَلٰي وَجْهِهٖٓ اَهْدٰٓى اَمَّنْ يَّمْشِيْ سَوِيًّا عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 22؀ [اَفَمَنْ يَّمْشِيْ: تو کیا وہ جو چلتا ہے][ مُكِبًّا: اوندھا کرنے والا ہوتے ہوئے (خود کو)][ عَلٰي وَجْهِهٖٓ: اپنے چہرے کے بل][ اَهْدٰٓى: زیادہ ہدایت پر ہے][ اَمَنْ يَّمْشِيْ: یا وہ جو چلتا ہے][ سَوِيًّا: کامل (سیدھا) ہوتے ہوئے][ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ: ایک سیدھے راستے پر] (آیت۔22) یَمْشِیْ فعل لازم ہے۔ اس لیے مُکِبًا اور سَوِیًّا اس کے مفعول نہیں ہو سکتے بلکہ یہ حال ہیں۔ نوٹ۔3: آیت۔22۔ میں اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ان لوگوں پر یہ آیت کی راہ کیوں نہیں کھل رہی ہے اور سمجھانے کے باوجود یہ گمراہی میں بھٹک رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ لوگ اپنی خواہشوں کے غلام ہیں۔ جس طرح کتا زمین کو سونگھتا ہوا چلتا ہے کہ شائد کوئی چیز کھانے کی مل جائے۔ اسی طرح ان لوگوں کی رہنما بھی عقل کے بجائے ان کی خواہش ہے اور یہ سرجھکائے، آنکھیں بند کیے اپنی خواہش کے پیچھے چل رہے ہیں۔ خواہش کے پیچھے چلنے والا کبھی ہدایت کی راہ ہیں پا سکتا۔ ہدایت کی راہ اس کو ملتی ہے جو سیدھی راہ پر سر اٹھا کر دہنے بائیں اور آگے پیچھے کا جائزہ لیتا ہوا چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے انسان کو مستوی القامت پیدا کیا، جانوروں کی طرح زمین کی طرف جھکا ہوا نہیں پیدا کیا۔ لیکن بہت سے انسان جانوروں ہی کی روش کی تقلید کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اس اعلیٰ خصوصیت کو کھو بیٹھتے ہیں جو انسان کا اصلی شرف ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ خواہش کے پیچھے چلنے والوں کی مثال قرآن میں جگہ جگہ جانوروں سے دی گئی ہے۔ (تدبر قرآن)" "قُلْ هُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ 23؀ [قُلْ: آپ کہیے][ هُوَ الَّذِيٓ انشَاَكُمْ: وہ، وہ ہے جس نے اٹھایا تم لوگوں کو][ وَجَعَلَ لَكُمُ: اور بنائے تمھارے لیے][ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۭ: سماعت اور بصارتیں اور دل][ قَلِيْلًا مَا تَشْكُرُوْنَ: بہت تھوڑا تم لوگ شکر کرتے ہو] نوٹ۔1: آیت۔23۔ میں اعضاء انسانی میں ان تین اعضاء کا ذکر ہے جن پر علم و ادراک اور شعور موقوف ہے۔ فلاسفہ نے علم و ادراک کے پانچ ذریعے بیان کیے ہیں جن کو حواس خمسہ کہا جاتا ہے۔ ان پانچ چیزوں میں سے صرف دو کا ذکر کیا ہے یعنی کان اور آنکھ۔ وجہ یہ ہے کہ سونگھنے، چکھنے اور چھونے سے بہت کم چیزوں کا علم انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کی معلومات کا بڑا مدار سننے اور دیکھنے پر ہے۔ اور ان میں بھی سننے کو مقدم کیا گیا ہے۔ غور کرو تو معلوم ہو گا کہ انسان کو اپنی عمر میں جتنی معلومات ہوتی ہیں ان میں سنی ہوئی چیزیں بہ نسبت دیکھی ہوئی چیزوں کے بدرجہا زائد ہوتی ہیں۔ بیشتر معلومات انسانی انہیں دوراہوں سے حاصل ہوتی ہیں اور تیسری چیز قلب کو بتلایا ہے کہ وہ علم کا اصل مرکز اور بنیاد ہے، کانوں سے سنی ہوئی اور آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیزوں کا علم بھی قلب پر موقوف ہے۔ جبکہ فلاسفہ (یعنی فلسفی لوگ) دماغ کو اس کا مرکز مانتے ہیں۔ (معارف القرآن) ۔ جو اس خمسہ سے حاصل شدہ معلومات کے ضمن میں دماغ یعنی عقل اور دل، دونوں کا اپنا اپنا ایک رول ہے جس کی وضاہت آیت۔7:172، نوٹ۔2 میں کی جا چکی ہے۔ اسے دوبارہ دیکھ لیں۔ (مرتب)" "قُلْ هُوَ الَّذِيْ ذَرَاَكُمْ فِي الْاَرْضِ وَاِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 24؀ [قُلْ هُوَ الَّذِي: آپ کہیے وہ، وہ ہے جس نے][ ذَرَاَكُمْ فِي الْاَرْضِ: بکھیرا تم لوگوں کو زمین میں][ وَاِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ: اور اس کی طرف ہی تم لوگ اکٹھا کیے جائو گے] نوٹ۔2: آیت۔24۔ میں اس حقیقت کی یاد دہانی کر دی ہے کہ ایک کسان اپنے کھیت میں کوئی فصل بوتا ہے، اس کو کھاد اور پانی دیتا ہے، چرند و پرندے اس کی حفاظت کرتے ہیں تو ہر دیکھنے والا بن بتائے یہ جانتا ہے کہ ایک دن وہ اس کو کاٹے گا اور اس کے دانے اور بھس کو الگ الگ کرے گا۔ آکر یہ واضح حقیقت خدا کے متعلق تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ اگر تم عقل سے کام لو (آیت۔23 کے حوالے سے) تو یہ واضح حقیقت نہایت آسانی سے سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ جس خدا نے تم کو زمین میں بویا (پھیلایا) ہے اور تمہاری پرورش کر رہا ہے وہ تم کو یونہی نہیں چھوڑ رکھے گا، بلکہ وہ اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹ کر اپنے کھلیان میں جمع کرے گا۔ پھر اس کے دانے کو بھس سے الگ کرے گا اور اس کو کھتے میں جمع کر کے بھس کو جلا دے گا۔ یہ امر واضح رہے کہ قرآن نے یہاں جو حقیقت نہایت سادہ لفظوں میں بیان کر دی ہے، قدیم ضحیفوں خصوصاً انجیل میں مختلف اسلوبوں سے بیان ہوتی ہے۔ (تدبر قرآن)" "وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 25؀ [وَيَقُوْلُوْنَ: اور یہ لوگ کہتے ہیں][ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ: کب ہے یہ وعدہ][ ان كُنْتم صٰدِقِيْنَ: اگر تم لوگ سچے ہو]" "قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ۠ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ 26؀ [قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ: آپ کہیے یہ علم تو بس][ عِنْدَ اللّٰهِ ۠: اللہ کے پاس ہے][ وَاِنَّمَآ اَنَا: اور میں تو صرف][ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ: ایک کھلا کھلا خبردار کرنے والا ہوں]" "فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيْۗـــــَٔتْ وُجُوْهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَقِيْلَ هٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تَدَّعُوْنَ 27؀ [فَلَمَا رَاَوْهُ: پھر جب وہ دیکھیں گے اس (وعدہ) کو][ زُلْفَةً: قریب میں][ سِيْۗـــــَٔتْ: تو بگاڑے جائیں گے][ وُجوهُ الَّذِينَ كَفَرُوْا: ان لوگوں کے چہرے جنھوں نے کفر کیا][ وَقِيْلَ هٰذَا الَّذِي: اور کہا جائے گا یہ ہے وہ][ كُنْتم بِهٖ تَدَّعُوْنَ: تم لوگ جس کو مانگا کرتے تھے]" "قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَهْلَكَنِيَ اللّٰهُ وَمَنْ مَّعِيَ اَوْ رَحِمَنَا ۙ فَمَنْ يُّجِيْرُ الْكٰفِرِيْنَ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ 28؀ [قُلْ اَرَءَيْتُمْ: آپ کہیے کیا تم لوگوں نے غور کیا][اِنْ اَهْلَكَنِيَ اللّٰهُ: اگر ہلاک کر دے مجھ کو اللہ][ وَمَنْ مَّعِيَ: اور ان کو (بھی) جو میرے ساتھ ہیں][ اَوْ رَحِمَنَا ۙ: یا رحم کرے ہم پر][ فَمَنْ يُّجِيْرُ الْكٰفِرِيْنَ: تو کون بچائے گا کافروں کو][ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ: ایک دردناک عذاب سے]" "قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِهٖ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا ۚ فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ هُوَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 29؀ [قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ: آپ کہیے وہی رحمن ہے][ اٰمَنَا بِهٖ: ہم ایمان لائے جس پر][ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا ۚ : اور اس پر ہی ہم نے بھروسہ کیا][ فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ هُوَ: پس تم لوگ جان لو گے کون وہ ہے جو][ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ: ایک کھلی گمراہی میں ہے]" "قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَاۗءٍ مَّعِيْنٍ 30؀ۧ [قُلْ اَرَءَيْتم: آپ کہیے کیا تم لوگوں نے غور کیا][ اِنْ اَصْبَحَ مَاۗؤُكُمْ: اگر ہو جائے تمھارا پانی][ غَوْرًا: زمین میں جذب][ فَمَنْ يَاْتِيْكُمْ: تو کون لائے گا تمھارے پاس][ بِمَاۗءٍ مَّعِيْنٍ: کچھ رواں پانی۔] نوٹ۔3: آخر سورۃ میں (آیت۔30) پھر ایک جملہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ زمین پر بسنے والو اور اس کو کھود کر کنویں بنانے والو اور اس کے پانی سے اپنے پینے پلانے اور نباتات اگانے کا کام لینے والو، اس بات کو مت بھولو کہ یہ سب چیزیں کوئی تمہاری ذاتی جاگیر نہیں ہیں، بلکہ صرف حق تعالیٰ کا عطیہ ہیں۔ پانی اس نے برسایا، پانی کو برف کی شکل میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس نے لاد دیا، پھر برف کو آہستہ آہستہ پگھلا کر پہاڑوں کے عروق کے ذریعہ زمین کے اندر اس نے اتارا اور بغیر کسی پائپ لائن کے پوری زمین میں اس کا ایسا جال پھیلا دیا کہ جہاں چاہو زمین کھود کر پانی نکال لو۔ مگر یہ پانی اس نے زمین کی اوپری سطح پر رکھا ہے جس کو چند فٹ یا چند گز زمین کھود کر نکالا جا سکتا ہے۔ یہ مالک و خالق کا عطیہ ہے اگر وہ چاہے تو اس پانی کو زمین کی نیچے کی سطح پر اتار دے جہاں تک تمہاری رسائی ممکن نہ ہو۔ تو تمہاری کون سی طاقت ہے جو اس بھاری پانی کو حاصل کرسکے۔ حدیث میں ہے کہ جب آدمی اس آیت کی تلاوت کرے تو اس کو سوچنا چاہیے اَللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْن۔ یعنی اللہ ہی پھر اس کو لا سکتا ہے، ہماری کسی کی طاقت نہیں۔ (معارف القرآن) مورخہ 24: محرم 1431 ھ بمطابق 11۔ جنوری 2010 ء" "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ " "نۗ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ Ǻ۝ۙ [نۗ وَالْقَلَمِ: قسم ہے قلم کی][ وَمَا يَسْطُرُوْنَ: اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں]" "مَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ Ą۝ۚ [مَآ انتَ بِنِعْمَةِ رَبِكَ: آپ اپنے رب کی نعمت کے سبب سے][ بِمَجْنُوْن: کوئی مجنون نہیں ہیں]" "وَاِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَيْرَ مَمْنُوْنٍ Ǽ۝ۚ [وَاِنَّ لَكَ: اور بیشک آپ کے لیے][ لَاَجْرًا: یقینا ایک ایسا اجر ہے جو][ غَيْرَ مَمْنُوْنٍ : منقطع ہونے والا نہیں ہے]" "وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ Ć۝ [وَاِنَّكَ: اور بیشک آپ][ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ: یقینا عظیم اخلاقیات پر ہیں] نوٹ۔1: رسول کریم ﷺ کے وجود میں حق تعالیٰ نے تمام ہی اخلاق فاضلہ بدرجۂ کمال جمع فرما دیئے تھے۔ خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس کام کے لیے بھیجا گیا ہے کہ میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کروں۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی اس پوری مدت میں جو کام میں نے کیا، آپ ﷺ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ایسا کیوں کیا اور جو کام نہیں کیا اس پر کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا۔ بی بی عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا بجز جہاد فی سبیل اللہ کے۔ ورنہ آپ نے نہ کسی خادم کو، نہ کسی عورت کو کبھی نہیں مارا۔ ان میں سے کسی سے خطا و لغزش بھی ہوئی تو اس کا انتقام نہیں لیا بجز اس کے کہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کو ہو تو شرعی سزا جاری فرمائی۔ آپ نہ فحش گو تھے نہ فحش کے پاس جاتے تھے، نہ بازار میں شوروشغب کرتے تھے۔ برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معافی اور درگزر کا معاملہ فرماتے تھے۔ اور حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میزانِ عمل میں خلق حسن کے برابر کسی عمل کا وزن نہیں ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ گالی گلوچ کرنے والے بدزبان سے بغض رکھتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان اپنے حسن خلق کی بدولت اس شخص کا درجہ حاصل کر لیتا ہے جو ہمیشہ رات کو عبادت میں جاگتا اور دن بھر روزہ رکھتا ہو۔ اور حضرت معاذ نے فرمایا کہ مجھے یمن کا عامل (گورنر) مقرر کر کے بھیجنے کے وقت آخری وصیت جو آپ نے مجھے اس وقت فرمائی جبکہ میں اپنا ایک پائوں رکاب میں رکھ چکا تھا، وہ یہ تھی کہ اے معاذ لوگوں سے حسن خلق کا برتائو کرنا۔ (معارف القرآن)" "فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُوْنَ Ĉ۝ۙ [فَسَتُبْصِرُ: پس آپ دیکھیں گے][ وَيُبْصِرُوْنَ: اور یہ لوگ (بھی) دیکھ لیں گے]" "بِاَىيِّكُمُ الْمَفْتُوْنُ Č۝ [بِاَىيِّكُمُ: تمھارے کس کے ساتھ][ الْمَفْتُوْنُ: مبتلائِ فتنہ (شخص) ہے]" "اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۠ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ Ċ۝ [اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ: بیشک آپ کا رب ہی خوب جاننے والا ہے][ بِمَنْ ضَلَّ: اس کو جو بھٹک گیا][ عَنْ سَبِيْلِهٖ: اس کے راستے سے][ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ: اور وہ ہی خوب جاننے والا ہے ہدایت پانے والوں کو]" "فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ Ď۝ [فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ: تو آپ کہنا مت مانیں جھٹلانے والوں کا]" "وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ Ḍ۝ [وَدُّوْا: ان لوگوں نے خواہش کی][ لَوْ تُدْهِنُ: کاش آپ ڈھیلے پڑیں][ فَيُدْهِنُوْنَ: تو وہ لوگ بھی ڈھیلے پڑیں گے]" "وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍ 10۝ۙ [وَلَا تُطِعْ: تو آپ کہنا مت مانیں][ كُلَّ حَلَّافٍ: کسی بھی بہت قسم کھانے والے کا][ مَّهِيْنٍ: کسی بےوقعت کا] نوٹ۔2: آیت۔10۔ کو سابقہ آیت فَلَا تُطِعِ الْمُکَنِّہ بِیْنَ پر عطف کر کے تاکید کے ساتھ پھر تنبیہہ فرمائی کہ تم ہرلپاٹیے ذلیل کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ یہ اشارہ کسی خاص شخص کی طرف نہیں ہے بلکہ قریش کی پوری قیادت کی اخلاقی پستی کی تصویر آگے کی چند آیتوں میں کھینچ دی گئی ہے اور مقصود یہ دکھانا ہے کہ ایک طرف پیغمبر کا بےمثال خلقِ عظیم ہے اور دوسری طرف قریش کے لیڈروں کا یہ کردار ہے جو بیان ہو رہا ہے۔ ان دونوں کو سامنے رکھ کر ہر منصف مزاج فیصلہ کرسکتا ہے کہ کون کس انجام سے دوچار ہونے والا ہے۔ یہ بات کہ یہاں کسی خاص شخص کا نہیں بلکہ قریش کی پوری قیادت کا کردار بیان ہو رہا ہے، مختلف پہلوئوں سے واضح ہے۔ (1) اس کا عطف اَلْمُکَنِّہ بِیْنَ پر ہے اور مکذبین سے مراد ظاہر ہے کہ کوئی متعین شخص نہیں بلکہ قریش کی پوری قیادت ہے۔ (2) لفظ کل بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں کسی متعین شخص کا کردار زیر بحث نہیں ہے بلکہ جماعت کا کردار ہے۔ (3) یہاں جو کردار بیان ہوا ہے وہ قریش کی پوری قیادت پر تو ٹھیک ٹھیک منطبق ہو جاتا ہے لیکن ہر بات اگر کسی ایک شخص پر منطبق کرنے کی کوشش کی جائے تو تکلف کرنا پڑے گا۔ (تدبر قرآن)" "هَمَّازٍ مَّشَّاۗءٍۢ بِنَمِيْمٍ 11۝ۙ [هَمَّازٍ: کسی کثرت سے طعنہ دینے والے کا][ مَّشَّاۗءٍۢ: بہت چلنے والا ][ بِنَمِيْمٍ: چغلی کے ساتھ]" "مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍ 12۝ۙ [مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ: بہت منع کرنے والا کسی بھی بھلائی سے][ مُعْتَدٍ: زیادتی کرنے والا][ اَثِيْمٍ: پکا گنہگار]" "عُتُلٍّۢ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍ 13؀ۙ [عُتُلٍّۢ: بدمزاج][ بَعْدَ ذٰلِكَ: اس کے بعد (ساتھ)][ زَنِيْمٍ: بدذات بھی]" "اَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِيْنَ 14؀ۭ [ااَنْ كَانَ : (اس لیے) کہ وہ ہوا][ ذَا مَالٍ وَّبَنِيْنَ: مال اور بیٹوں والا]" "اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِ اٰيٰتُنَا قَالَ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ 15؀ [اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِ: جب بھی پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اس کو][ اٰيٰتُنَا: ہماری آیتیں][ قَالَ: تو وہ کہتا ہے][ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ: پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں]" "سَنَسِمُهٗ عَلَي الْخُرْطُوْمِ 16؀ [سَنَسِمُهٗ: ہم داغ دیں گے اس کو][ عَلَي الْخُرْطُوْمِ : سونڈ (ناک) پر]" "اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِيْنَ 17؀ۙ [اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ: بیشک ہم نے آزمائش میں ڈالا اِن کو][ كَمَا بَلَوْنَآ: جیسے ہم نے آزمایا][ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ ۚ: باغ والوں کو][ اِذْ اَقْسَمُوْا: جب انھوں نے قسم کھائی][ لَيَصْرِمُنَّهَا: ہم لازماً کاٹیں گے اس (باغ کی فصل) کو][ مُصْبِحِيْنَ: صبح کرنے والے ہوتے ہوئے] ص ر م [ صَرْمًا: (ض) (1) کسی چیز کا ٹوٹنا (لازم) کسی چیز کو کاٹنا (متعدی) ۔ زیر مطالعہ آیت۔17۔] ترکیب: (آیت۔17) بَلَوْنٰھُمْ میں ھُمْ کی ضمیر اہل مکہ کے لیے ہے۔ اَقْسَمُوْا میں شامل ھُمْ کی ضمیر فاعلی اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ کے لیے ہے۔ نوٹ۔1: بَلَوْنٰھُمْ میں ضمیر ھُمْ کا مرجع ظاہر ہے کہ وہی لوگ ہوں گے جن کا کردار اوپر زیر بحث آیا ہے۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ وہ کردار کسی معین شخص کا نہیں بلکہ قریش کی پوری قیادت کا ہے، ورنہ جمع کی جگہ واحد ضمیر آتی۔ اسی طرح یہاں زبان کا ایک دوسرا نکتہ بھی قابل لحاظ ہے۔ یہاں لفظ اَلْجَنَّۃِ پر الف لام داخل ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی خاص باغ والوں کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ تمثیلات میں لام تعریف یا اَلَّذِیْ اور اَلَّتِیْ وغیرہ جو آتے ہیں تو اس سے مقصود یہ نہیں ہوتا کہ کوئی معین ذات مدنظر ہے بلکہ اس سے مقصود صرف صورت حال کو مشخص و مصور کرنا ہوتا ہے تاکہ قاری کے سامنے واقعہ کی پوری تفصیل آ جائے۔ اس وجہ سے یہاں کسی خاص باغ کے مالکوں کی جستجو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک خاکہ ہے جس میں قریش کے لیڈروں کے ذہن اور ان کے انجام کی تصویر اس طرح کھینچ دی گئی ہے کہ اس کا کوئی گوشہ مخفی نہیں رہ گیا ہے۔ (تدبر قرآن)" "وَلَا يَسْتَثْنُوْنَ 18؀ [وَلَا يَسْتَثْنُوْنَ: اور انھوں نے استثناء (ان شاء اللہ) نہیں کہا] نوٹ۔2: لَایَسْتَثْنُوْنَ کے معنی استثناء نہ کرنے کے ہیں اور مراد اس استثناء سے ان شاء اللہ کہنا ہے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے استثناء سے مراد یہ لیا ہے کہ ہم پورا پورا غلہ اور پھل لے آئیں گے اور فقراء کا حصہ مستثنیٰ نہیں کریں گے۔ (معارف القرآن)" "فَطَافَ عَلَيْهَا طَاۗىِٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ وَهُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ 19؀ [فَطَافَ عَلَيْهَا: تو گھوم گیا اس (باغ) پر][ طَاۗىِٕفٌ: ایک گھومنے والا (بگولہ)][ مِّنْ رَّبِكَ: آپ کے رب (کی طرف) سے][ وَ: اس حال میں کہ][ هُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ: وہ لوگ نیند کرنے والے تھے]" "فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِيْمِ 20؀ۙ [فَاَصْبَحَتْ: نتیجۃً وہ (باغ) صبح کو ہو گیا][ كَالصَّرِيْمِ: کاٹے ہوئے کھیت کی مانند] [ صَرِیْمٌ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے اسم المفعول کے معنی میں۔ کاٹا ہوا۔ پھر اس فصل کے لیے بھی آتا ہے جو کاٹ لی گئی ہو اور اس زمین کے لیے بھی جس کی فصل کاٹ لی گئی ہو۔ زیر مطالعہ آیت۔20۔]" "فَتَنَادَوْا مُصْبِحِيْنَ 21 ؀ۙ [فَتَنَادَوْا: تو انھوں نے ایک دوسرے کو پکارا][ مُصْبِحِيْنَ؛صبح سویرے]" "اَنِ اغْدُوْا عَلٰي حَرْثِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰرِمِيْنَ 22؀ [اَنِ اغْدُوْا: کہ تم لوگ سویرے پہنچو][ عَلٰي حَرْثِكُمْ: اپنی کھیتی پر][ اِنْ كُنْتم صٰرِمِيْنَ: اگر تم لوگ ہو کاٹنے والے] [صَارِمٌ اسما الفاعل ہے۔ کاٹنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔22۔]" "فَانْطَلَقُوْا وَهُمْ يَتَخَافَتُوْنَ 23؀ۙ [فَانْطَلَقُوْا: تو وہ لوگ چلے][ وَهُمْ يَتَخَافَتُوْنَ: ار وہ لوگ باہم سرگوشی کرتے تھے]" "اَنْ لَّا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُمْ مِّسْكِيْنٌ 24؀ۙ [اَنْ لَّا يَدْخُلَنَّهَا: کہ چاہیے کہ ہرگز داخل نہ ہو اس (باغ) میں][ الْيَوْمَ عَلَيْكُمْ: آج تم پر][ مِّسْكِيْنٌ: کوئی مسکین] (آیت۔24) یہاں پر لَا یَرْخُلَنَّ کے دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو مضارع منفی مانا جائے جس نون ثقیلہ داخل ہوا ہے۔ ایسی صورت میں ترجمہ ہو گا ’’ ہرگز داخل نہیں ہوگا۔‘‘ دوسرا یہ کہ اس کو لائے نہی غائب لایدخل مانا جائے جس پر نون ثقیلہ داخل ہوا ہے۔ اس کا ترجمہ ہو گا ’’ چاہے کہ ہرگز داخل نہ ہو۔‘‘ سیاق و سباق کے لحاظ سے دوسرے امکان کو ترجیح دینا بہتر ہے۔" "وَّغَدَوْا عَلٰي حَرْدٍ قٰدِرِيْنَ 25؀ [وَّغَدَوْا: اور وہ سویرے نکلے][ عَلٰي حَرْدٍ قٰدِرِيْنَ: ایک ارادہ پر قادر ہوتے ہوئے] ح ر د [صَرْدًا: (ض) (1) منع کرنا۔ (2) ارادہ کرنا۔] [ صَرْدٌ اسم ذات بھی ہے۔ ارادہ۔ زیر مطالعہ آیت۔25۔]" "فَلَمَّا رَاَوْهَا قَالُوْٓا اِنَّا لَضَاۗلُّوْنَ 26؀ۙ [فَلَمَّا رَاَوْهَا: پھر جب انھوں نے دیکھا اس (باغ) کو][ قَالُوْٓا اِنَّا لَضَاۗلُّوْنَ: تو کہا بیشک ہم یقینا راستہ بھولنے والے ہیں]" "بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ 27؀ [بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ: (نہیں) بلکہ ہم محروم کیے گئے ہیں]" "قَالَ اَوْسَطُهُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْلَا تُـسَبِّحُوْنَ 28؀ [قَالَ اَوْسَطُهُمْ: کہا ان کے زیادہ افضل نے][ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ: کیا میں نے نہیں کہا تھا تم لوگوں سے][ لَوْلَا تُـسَبِّحُوْنَ: کہ تسبیح کیوں نہیں کرتے (اللہ کی)]" "قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ 29؀ [قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَآ : انھوں نے کہا ہمارے رب کی پاکیزگی ہے][ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ: بیشک ہم تھے ظلم کرنے والے]" "فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَلَاوَمُوْنَ 30؀ [فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ: تو سامنے ہوا ان کا کوئی کسی پر][ يَّتَلَاوَمُوْنَ: باہم ملامت کرتے ہوئے]" "قَالُوْا يٰوَيْلَنَآ اِنَّا كُنَّا طٰغِيْنَ 31؀ [قَالُوْا يٰوَيْلَنَآ: انھوں نے کہا ہائے ہماری بربادی][ اِنَّا كُنَّا طٰغِيْنَ: ہم تھے حد سے بڑھنے والے]" "عَسٰى رَبُّنَآ اَنْ يُّبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَآ اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ 32؀ [عَسٰى رَبُّنَآ: امید ہے ہمارے رب سے][ اَنْ يُّبْدِلَنَا: کہ وہ بدلے میں دے ہم کو][ خَيْرًا مِّنْهَآ: زیادہ بھلا اس (باغ) سے][ اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا: بیشک ہم اپنے رب کی طرف][ رٰغِبُوْنَ: رغبت کرنے والے ہیں]" "كَذٰلِكَ الْعَذَابُ ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ 33؀ۧ [كَذٰلِكَ الْعَذَابُ ۭ: ایسا ہوتا ہے (دنیوی) عذاب][ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ: اور یقینا آخرت کا عذاب (تو)][ اَكْبَرُ ۘ: سب سے بڑا ہے][ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ: کاش یہ لوگ جانتے ہوتے]" "اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ 34؀ [اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ: بیشک متقی لوگوں کے لیے ان کے رب کے پاس][ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ: دائمی نعمتوں کے باغات ہیں] ترکیب: قاعدہ یہ ہے کہ جملہ کے شروع میں اَنَّ (بیشک) آتا ہے اور جملہ کے درمیان میں ان (کہ) آتا ہے۔ اس قاعدے کا ایک استثناء ہم آیت۔2:25، نوٹ۔2۔ میں پڑھ چکے ہیں کہ قَالَ یا اس کے مشتقات سے شروع ہونے والے جملوں کے درمیان میں اِنَّ آتا ہے لیکن ایسی صورت میں اس کے معنیٰ ’’ کہ‘‘ ہوتے ہیں۔ اس قاعدے کا دوسرا استثناء یہ ہے کہ ان کی خبر پر اگر لام تاکید آ رہا ہو تو اس کی جگہ ان آتا ہے لیکن اس کے معنی اِنَّ (کہ) کے بھی ہوتے ہیں۔ اس حوالہ سے نوٹ کریں کہ آیت۔38۔39۔ میں لما میں ما پر لام تاکید آیا ہے اس لیے ان سے پہلے ان آیا ہے لیکن ان کے معنی ’’ کہ‘‘ ہی ہیں۔ تَخَیَّرُوْنَ اگر باب تفعیل سے ہوتا تو تُخَیِّرُوْنَ آتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ باب تفعل سے تَتَخَیَّرُوْنَ ہے جس کی ایک تا گری ہوئی ہے۔ نوٹ۔1: ان آیات میں نیک بندوں کی جزاء کا ذکر ہے اور اس کے بعد مشرکین کے ایک اور باطل دعوے کا ری ہے۔ کفار مکہ کیا کرتے تھے کہ اول تو قیامت آنے والی نہیں ہے اور دوبارہ زندہ ہو کر حساب کتاب کا قصہ سب افسانہ ہے۔ اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی گیا تو ہمیں وہاں بھی ایسی ہی نعمتیں ملیں گی جیسے دنیا میں ملی ہیں۔ اس کا جواب دیا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نیک بندوں اور محرموں کو برابر کر دے گا۔ یہ کیسا عجیب و غریب فیصلہ ہے جس کی نہ کوئی سند نہ دلیل نہ کسی آسمانی کتاب سے اس کا ثبوت اور نہ ہی اللہ کی طرف سے کوئی وعدہ وعید کہ وہاں بھی تمہیں نعمت دے گا۔ ان آیات کے مذکورہ طرز استدلال سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کا آنا حساب کتاب کا ہونا اور نیک و بد کی جزاء و سزا، یہ سب عقلاً ضروری ہے (یعنی انسانی عقل اس کا تقاضہ کرتی ہے) دنیا میں ہر شخص اس کا مشاہدہ کرتا ہے اور کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں عموماً بدکار اور ظالم نفع میں رہتے ہیں اور مزے اڑاتے ہیں۔ پھر وہ نہ خوف خدا کو جانیں، نہ آخرت کو مانیں، نہ کسی شرم و حیا کے پابند ہوں اور اپنے نفس کی خواہشات کو جس طرح چاہیں پورا کرتے ہیں جبکہ نیک آدمی اوّل تو خدا سے ڈرتا ہے اور اگر وہ نہ ہو تو برادری کی شرم و حیا سے مغلوب ہو جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ دنیا کے کارخانے میں تو بدکار اور بدمعاش کامیاب اور نیک شریف آدمی ناکام نظر آٹاہے۔ اب اگر آگے بھی کوئی ایسا وقت نہ آئے جس میں حق اور ناحق کا صحیح انصاف ہو، نیک کو اچھا بدلہ ملے اور بدکو سزا ملے تو پھر اوّل تو کسی برائی کو برائی کہنا لغو اور بےمعنیٰ ہو جاتا ہے اور دوم یہ کہ پھر عدل و انصاف کے کوئی معنیٰ باقی نہیں رہتے۔ جو لوگ خدا کے وجود کے قائل ہیں وہ اس کا کیا جواب دیں گے کہ خدا تعالیٰ کا انصاف کہاں گیا۔ رہا یہ خیال کہ دنیا میں مجرم پکڑا جاتاہے اور سزا پاتا ہے۔ اس طرح شریف آدمی کا امتیاز اسی دنیا میں واضح ہو جاتا ہے اور عدل و انصاف حکومتوں کے قوانین سے قائم ہو جاتا ہے (تو پھر دوبارہ زندہ ہو کر حساب کتاب اور جزاء و سزا کی کیا ضرورت ہے۔ مرتب) اور اس لیے غلط ہے کہ اوّل تو ہر جگہ اور ہرحال میں حکومت کی نگرانی ہو ہی نہیں سکتی، جہاں ہو جاوے وہاں عدالتی ثبوت ہرجگہ بہم پہنچانا آسان نہیں اور جہاں ثبوت بھی بہم پہنچ جائے تو زور و زر اور رشوت و سفارش اور دبائو کے کتنے چور دروازے ہیں جن سے مجرم نکل بھاگتا ہے۔ اس دنیا کی حکومتی اور عدالتی جرم و سزا کا جائزہ لیا جائے تو یہاں پر سزا صرف وہ جسے عقل اور بےسہارا آدمی پاتا ہے جو کوئی چور دروازہ نہ نکال سکے۔ باقی سب مجرم آزاد پھرتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ نے اس حقیقت کو واضح کردیا کہ عقلاً ایک ایسا وقت آنا ضروری ہے جب سب کا حساب ہو اور جہاں مجرموں کے لیے کوئی چور دروازہ نہ ہو۔ (معارف القرآن)" "اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ 35 ؀ۭ [اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ: تو کیا ہم بنائیں گے فرمانبرداروں کو][ كَالْمُجْرِمِيْنَ: مجرموں کے جیسا]" "مَا لَكُمْ ۪ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ 36؀ۚ [مَا لَكُمْ ۪: تمہیں کیا ہے][ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ: کیسا تم لوگ فیصلہ کرتے ہو]" "اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ فِيْهِ تَدْرُسُوْنَ 37؀ۙ [اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ: یا تمھارے لیے کوئی ایسی (آسمانی) کتاب ہے][ فِيْهِ تَدْرُسُوْنَ: جس میں تم سبق پڑھتے ہو]" "اِنَّ لَكُمْ فِيْهِ لَمَا تَخَيَّرُوْنَ 38؀ۚ [اِنَّ لَكُمْ فِيْهِ: کہ تمھارے لیے اس (کتاب) میں][ لَمَا: ضرور وہ ہے جو][ تَخَيَّرُوْنَ: تم لوگ اپنے لیے پسند کرتے ہو]" "اَمْ لَكُمْ اَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۙ اِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُوْنَ 39؀ۚ [اَمْ لَكُمْ اَيْمَانٌ عَلَيْنَا: یا تمھارے لیے ہم پر ایسی قسمیں ہیں جو][ بَالِغَةٌ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۙ: پہنچنے والی ہیں قیامت کے دن تک][ اِنَّ لَكُمْ: کہ تمھارے لیے ][ لَمَا: ضرور وہ ہو گا جو][ تَحْكُمُوْنَ: تم لوگ آڈر دو گے]" "سَلْهُمْ اَيُّهُمْ بِذٰلِكَ زَعِيْمٌ 40؀ڔ [سَلْهُمْ اَيُّهُمْ: آپ پوچھیں ان سے کہ ان کا کون][ بِذٰلِكَ زَعِيْمٌ: اس کی ضمانت دینے والا ہے]" "اَمْ لَهُمْ شُرَكَاۗءُ ڔ فَلْيَاْتُوْا بِشُرَكَاۗىِٕهِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ 41؀ [اَمْ لَهُمْ شُرَكَاۗءُ ڔ : یا ان کے لیے کچھ شریک ہیں][فَلْيَاْتُوْا بِشُرَكَاۗىِٕهِمْ: تو چاہیے کہ وہ آئیں اپنے شریکوں کے ساتھ][اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ: اگر وہ لوگ سچے ہیں]" "يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ 42؀ۙ [يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ: جس دن پردہ اٹھایا جائے گا پنڈلی سے][ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ: اور ان کو بلایا جائے گا سجدہ کرنے کی طرف][ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ: تو وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں گے] نوٹ۔2: آیت۔42۔ میں یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ کے الفاظ کے متعلق صحابہ کرام اور تابعین کی ایک جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ محاورے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ عربی محاورے کے مطابق سخت وقت آ پڑنے کو کشفِ ساق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایک اور قول کے مطابق اس میں کشفِ ساق سے مراد حقائق پر سے پردہ اٹھا نا لیا گیا ہے۔ اس تاویل کی رو سے معنیٰ یہ ہوں گے کہ جس روز تمام حقیقتیں بےنقاب ہو جائیں گی اور لوگوں کے اعمال کھل کر سامنے آ جائیں گے اور قیامت کے دن اس بات کا مظاہرہ کرایا جائے گا کہ دنیا میں کون اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا تھا اور کون اس سے منحرف تھا۔ اس غرض کے لیے لوگوں کو بلایا جائے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ بجا لائیں۔ جو لوگ دنیا میں عبادت گزار تھے وہ سجدہ ریز ہو جائیں گے اور جنہوں نے دنیا میں اللہ کے آگے سرنیاز جھکانے سے انکار کیا تھا ان کی کمر تختہ ہو جائے گی اور ان کے لیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہاں عبادت گزار ہونے کا جھوٹا مظاہرہ کرسکیں۔ (تفہیم القرآن) استادِ محترم پروفیسر حافظ احمد یار صاحب مرحوم نے کشفِ ساق کے محاورے کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ عرب کے لوگوں کا لباس ٹخنوں تک ہوتا ہے۔ جب کوئی دشمن حملہ آورہوتا تھا یا ڈاکو آ جاتے تھے تو یہ لوگ اپنے کپڑے گھٹنوں کے اوپر باندھ کر لڑنے کے لیے یا بھاگنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ اس طرح کشف ساق کے محاورے میں کسی کام کے لیے تیار ہو جانے کا مفہوم ہے۔ حافظ صاحب کی اس وضاحت سے ذہن اردو محاورے کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اس مفہوم کی ادائیگی کے لیے اردو میں ہم کہتے ہیں، کسی کام کے لیے کمرکس لینا۔ بہترحال حافظ صاحب کی وضاحت کے مطابق اس آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ جس دن دوبارہ زندہ کر کے اللہ کے حضور پیش کرنے کے لیے لوگوں کو تیار کیا جائے گا اور اس تیاری کا پہلا مرحلہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ حضور سجدہ کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ اس وقت دو قومی نظریہ کھل کر سامنے آ جائے گا۔" "خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۭ وَقَدْ كَانُوْا يُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَهُمْ سٰلِمُوْنَ 43؀ [خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ: جھکی پڑیں گی ان کی نظریں][ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۭ: چھا جائے گی ان پر ذلت][ وَقَدْ كَانُوْا يُدْعَوْنَ: حالانکہ وہ بلائے گئے تھے][ اِلَى السُّجُوْدِ: سجدہ کرنے کی طرف][ وَهُمْ سٰلِمُوْنَ: اس حال میں کہ وہ صحیح سالم تھے] (آیت۔43) اَبْصَارُھُمْ جمع مکسر سے اس لیے لیے خاشعۃ مؤنث کا صیغہ آیا ہے اور یہ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔" "فَذَرْنِيْ وَمَنْ يُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ ۭ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ 44؀ۙ [فَذَرْنِيْ: تو آپ چھوڑ دیں مجھ کو][ وَمَنْ يُّكَذِّبُ: اور اس کو جو جھٹلاتا ہے][ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ ۭ : اِس بات (قرآن) کو][سَنَسْتَدْرِجُهُمْ: ہم بتدریج لے جائیں گے ان کو (خسران میں)][ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ: جہاں سے یہ لوگ جانتے نہیں ہیں] نوٹ۔1: آیت۔44۔ میں ہے کہ آپ جھٹلانے والوں کو اور مجھے چھوڑ دیں۔ یہاں چھوڑنا ایک محاورہ کے طور پر فرمایا گیا ہے۔ مراد اس سے اللہ پر بھروسہ کرنا ہے۔ اور اس کا حاصل کلام یہ ہے کہ کفار کی طرف سے یہ مطالبہ بھی پیش ہوا کرتا تھا کہ اگر ہم واقعی اللہ کے مجرم ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب دینے پر قادر ہے تو پھر ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔ اس پر یہ فرمایا گیا کہ اپنی حکمت کو ہم خوب جانتے ہیں۔ ایک حد تک مہلت دیتے ہیں اور فوراً عذاب نہیں بھیج دیتے۔ پھر حضرت یونس کے واقعہ کا ذکر فرما کر آنحضرت ﷺ کو نصیحت فرمائی کہ آپ ان لوگوں کے ایسے مطالبہ سے مغلوب نہ ہوں اور ان پر جلدی عذاب نازل کرنے کے خواہشمند نہ ہوں۔ اپنی حکمتوں اور مصلحتوں کو ہم ہی جانتے ہیں۔ ہم پر توکل کریں۔ (معارف القرآن) بےخبری میں بتدریج کسی کو تباہی کی طرف لے جانے کی صورت یہہے کہ ایک حق کے دشمن اور ظالم کو دنیا میں نعمتوں سے نوازا جائے، صحت، مال، اور دنیوی کامیابیاں عطا کی جائیں۔ جن سے دھوکا کھا کر وہ سمجھے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں خوب کر رہا ہوں۔ اس طرح وہ ظلم و طغیان میں زیادہ سے زیادہ غرق ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ جو نعمتیں اسے مل رہی ہیں وہ انعام نہیں ہیں بلکہ اس کی ہلاکت کا سامان ہے۔ (تفہیم القرآن) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہل ایمان میں سے کسی کو اگر اللہ تعالیٰ دنیوی کامیابیوں اور یہاں کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو یہ اس کا انعام ہیں۔ قرآن مجید میں کم از کم دو مقامات، الانفال۔28۔ اور التغابن۔15، میں براہ راست اہل ایمان کو خطاب کر کے خبردار کیا گیا ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد یعنی دنیا کی نعمتیں فتنہ یعنی آزمائش ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جو ان آزمائشوں میں پورا اترے گا تو یہ دنیوی نعمتیں اس کی آخرت کی کامیابیوں اور انعام کا ذریعہ بن جائیں گی، ناکامی کی صورت میں یہی نعمتیں آخرت میں ناکامی اور خسارے کا باعث ہونگی۔ (مرتب)" "وَاُمْلِيْ لَهُمْ ۭ اِنَّ كَيْدِيْ مَتِيْنٌ 45؀ [وَاُمْلِيْ لَهُمْ ۭ: اور میں ڈھیل دیتا ہوں ان کو][ اِنَّ كَيْدِيْ مَتِيْنٌ: بیشک میری تدبیر بڑی پکی ہے]" "اَمْ تَسْــَٔــلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ 46؀ۚ [اَمْ تَسْــَٔــلُهُمْ اَجْرًا: یا آپ مانگتے ہیں ان سے کوئی اجرت][ فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ: تو وہ تاوان سے][ مُّثْقَلُوْنَ: لائے ہوئے ہیں]" "اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُوْنَ 47؀ [اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ: یا ان کے پاس غیب (کی خبر) ہے][ فَهُمْ يَكْتُبُوْنَ: تو وہ لوگ لکھتے ہیں]" "فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ ۘ اِذْ نَادٰى وَهُوَ مَكْظُوْمٌ 48؀ۭ [فَاصْبِرْ: تو آپ ثابت قدم (منتظر) رہیں][ لِحُكْمِ رَبِكَ: اپنے رب کے حکم کے][ وَلَا تَكُنْ: اور آپ مت ہوں][ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ ۘ : مچھلی والے (یونس) کی طرح][ اِذْ نَادٰى: جب انھوں نے پکارا (رب کو)][ وَهُوَ مَكْظُوْمٌ: اس حال میں کہ وہ غم زدہ تھے]" "لَوْلَآ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَاۗءِ وَهُوَ مَذْمُوْمٌ 49؀ [لَوْلَآ اَنْ تَدٰرَكَهٗ: اگر نہ ہوتا کہ آ لیا ان کو][ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ: ایک نعمت نے ان کے رب (کے پاس) سے][ لَنُبِذَ: تو ضرور وہ پھینکے گئے رہتے][ بِالْعَرَاۗءِ: اس چٹیل میدان میں][ وَهُوَ مَذْمُوْمٌ: اس حال میں کہ وہ مذمت کیے ہوئے ہوتے] نوٹ۔2: آیت۔49۔ کو سورئہ القافات کی آیت۔142 تا 146 کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حضرت یونس مچھلی کے پیٹ میں ڈالے گئے تھے اس وقت تو وہ ملامت میں مبتلا تھے، لیکن جب انہوں نے اللہ کی تسبیح کی اور اپنے قصور کا اعتراف کرلیا تو اگرچہ وہ مچھلی کے پیٹ سے نکال کر بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینکے گئے تھے، مگر وہ اس وقت مذمت میں مبتلا نہ تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اس جگہ ایک بیلدار درخت اگا دیا، تاکہ اس کے پتے ان پر سایہ کریں اور وہ اس کے پھل سے اپنی بھوک پیاس بھی دور کرسکیں۔ (تفہیم القرآن)" "فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَجَــعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ 50؀ [فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ: پھر نوازا ان کو ان کے رب نے][ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ: تو اس نے کردیا ان کو نیک لوگوں میں سے]" "وَاِنْ يَّكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَيُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ 51۝ۘ [وَاِنْ يَّكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوْا: اور بیشک ایسے لگتا ہے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا][ لَيُزْلِقُوْنَكَ: کہ وہ ضرور پھسلا دیں آپ کو][ بِاَبْصَارِهِمْ: اپنی (غضبناک) نظروں سے][ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ: جب وہ سنتے ہیں اس یاد دہانی (قرآن) کو][ وَيَقُوْلُوْنَ: اور وہ لوگ کہتے ہیں][ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ: بیشک یہ ضرور مجنون ہے] نوٹ۔3: آیت۔15۔ کا تعلق بھی صبر و ثبات کی تلقین کے اس مضمون ہی سے ہے جو فاصبر لحکم ربک میں بیان ہوا ہے۔ یعنی اگرچہ حالات نہایت سخت ہیں کہ کفار جب قرآن سنتے ہیں تو تمہیں اس طرح گھورتے ہیں جیسے وہ اپنی نگاہوں کے زور سے تمہیں دھکیل کر تمہارے مقام سے تم کو پھسلا دیں گے اور جوش غضب میں تمہیں خبطی اور مجنون بتاتے ہیں لیکن ان کے اس رویہ کے باوجود تم اپنے موقف پر ڈتے رہو۔ یہاں ابتدائے سورہ کی آیت ما انت بنعمۃ ربک بمجلون، ذہن میں تازہ کر لیجئے۔ سورہ جس مضمون سے شروع ہوئی تھی اسی پر ختم ہو رہی ہے۔ (تدبر قرآن) نوٹ۔4: آیات۔51 ۔ 52۔ کے ضمن میں کچھ مفسرین نے ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ انسان کی نظر بدلگ جانا اور اس سے کسی انسان کو نقصان اور بیماری بلکہ ہلاکت تک پہنچ جانا حقیقت ہے اور احادیث میں اس کا حق ہونا وارد ہے۔ یہ بات عرب میں بھی معروف و مشہور تھی اور مکہ میں ایک شخص نظر لگانے میں بڑا مشہو رتھا۔ اونٹوں یا جانوروں کو نظر لگا دیتا تو وہ ہلاک ہو جاتے۔ کفار مکہ کو رسول اللہ ﷺ سے عداوت تو تھی ہی اور وہ آپ کو ایذاء پہنچانے کی ہر طرح کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ان کو یہ سوجھی کہ اس شخص سے رسول اللہ ﷺ کو نظر لگوائو۔ تو لوگ اس کو بلا لائے۔ اس نے نظر بد لگانے کی اپنی پوری کوشش کرلی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ یہ آیات اسی سلسلہ میں نازل ہوئیں اور لِیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِھِمْ میں اسی نگاہ بدلگانے کو بیان فرمایا گیا ہے۔ حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ جس شخص کو کسی انسان کی نظر بد لگ گئی ہو اس پر یہ آیات پڑھ کر دم کر دینا اس کے اثر کو زائل کر دیتا ہے۔ (معارف القرآن بحوالہ تفسیر مظہری) مورخہ 6۔ صفر 1431 ء بمطابق 22۔ جنوری 2010 ء" "وَمَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ 52؀ۧ [وَمَا هُوَ: حلانکہ نہیں ہے وہ][ اِلَّا ذِكْرٌ: سوائے ایک ایسی یاددہانی ہے جو][ لِّلْعٰلَمِيْنَ: تمام جہانوں کے لیے ہے]" "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ " "اَلْحَاۗقَّةُ Ǻ۝ۙ [اَلْحَاۗقَّةُ: وہ ثابت ہونے والی] نوٹ۔1: سابقہ سورہ القلم سے اس سورہ کو گہری مناسبت ہے۔ دونوں کا عمود (یعنی مرکزی موضوع) ایک ہی ہے یعنی اثبات عذاب (دنیا میں آنے والے عذاب) اور قیامت (دنیا کا خاتمہ) ۔ البتہ نہج استدلال دونوں میں الگ الگ ہے۔ قرآن کی عظمت و صداقت جس طرح سابق سورہ میں واضح کی گئی ہے اور اس کی تکذیب کے نتائج سے ڈرایا گیا ہے، اسی طرح اِس سورہ میں بھی یہی مضمون زیر بحث آیا ہے۔ بس یہ فرق ہے کہ سابق سورہ میں یہ مضمون تمہید کی حیثیت سے ہے اور اس سورہ میں اختتام کے طور پر ہے۔ تذکیر و تعلیم کے پہلو سے ان دونوں اسلوبوں کی اہمیت الگ الگ ہے۔ (تدبیر قرآن) نوٹ۔2: کفار مکہ چونکہ قیامت کو جھٹلا رہے تھے اور اس کے آنے کی خبر کو مذاق سمجھتے تھے اس لیے پہلے ان کو خبردار کیا گیا کہ وہ تو ہونی شُدنی ہے، تم چاہے مانو یا نہ مانو، وہ بہرحال آ کر رہے گی۔ اس کے بعد ان کو بتایا گیا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک پیش آنے والے واقعہ کی خبر کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں، بلکہ اس کا نہایت گہرا تعلق قوموں کے اخلاق اور پھر ان کے مستقبل سے ہے۔ تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے بھی آخرت کا انکار کر کے اسی دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھا اور اس بات کو جھٹلا دیا کہ انسان کو آخرکار خدا کی عدالت میں اپنا حساب دینا ہو گا، وہ سخت اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہوئی، یہاں تک کہ خدا کے عذاب نے آ کر دنیا کو اس وجود سے پاک کر دیا۔ (تفہیم القرآن)" "مَا الْحَاۗقَّةُ Ą۝ۚ [مَا الْحَاۗقَّةُ : کیا ہے وہ ثابت ہونے والی]" "وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْحَاۗقَّةُ Ǽ۝ۭ [وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْحَاۗقَّةُ: اور تم کیا جانو کیا ہے وہ ثابت ہونے والی (قیامت)]" "كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَعَادٌۢ بِالْقَارِعَةِ Ć۝ كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَعَادٌۢ: جھٹلایا ثمود نے اور عاد نے][ بِالْقَارِعَةِ: اس کھٹکھٹانے والی (قیامت) کو]" "فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِيَةِ Ĉ۝ [فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا: پس وہ جو ثمود تھے تو ان کو ہلاک کیا گیا][ بِالطَّاغِيَةِ: حد سے گزرنے والی (چنگھاڑ) سے]" "وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ Č۝ۙ [وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا: اور وہ جو عاد تھے تو ان کو ہلاک کیا گیا][ بِرِيْحٍ: ایک ایسی ہوا سے جو][ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ: حد سے زیادہ تیز و تند تھی]" "سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَّثَمٰنِيَةَ اَيَّامٍ ۙ حُسُوْمًا ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِيْهَا صَرْعٰى ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ Ċ۝ۚ [سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ: اس (اللہ) نے مطیع (مسلط) کیا اس (ہوا) کو ان لوگوں پر][ سَبْعَ لَيَالٍ: سات راتوں][ وَّثَمٰنِيَةَ اَيَّامٍ ۙ: اور آٹھ دنوں تک][ حُسُوْمًا ۙ: منحوس ہوتے ہوتے][ فَتَرَى الْقَوْمَ فِيْهَا: پس تو دیکھتا ہے اس قوم کو اس (سرزمین) میں][ صَرْعٰى ۙ: پچھاڑے ہوئے][ كَاَنَّهُمْ: جیسے کہ وہ ہوں][ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ: کچھ اوندھی ہونے والی کھجوروں کے تنے] ح س م [حَسْمًا: (ض) کسی چیز کو جڑ سے کاٹ دینا۔] [ حُسُوْمٌ صفت سے۔ نا مبارک۔ منحوس۔ زیر مطالعہ آیت۔7] ص ر ع [صَرْعًا: (ف) زمین پر پٹخ دینا۔ پچھاڑنا] صَرِیْحٌ ج صَرْعٰی۔ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے اسم المفعول کے معنی ہیں۔ پٹخا ہوا۔ پچھاڑا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت۔7]" "فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِيَةٍ Ď۝ [فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ: تو کیا تو دیکھتا ہے ان لوگوں کی][ مِّنْۢ بَاقِيَةٍ: کوئی بھی باقی رہنے والی (جان)]" "وَجَاۗءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهٗ وَالْمُؤْتَفِكٰتُ بِالْخَاطِئَةِ Ḍ۝ۚ [وَجَاۗءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهٗ: اور آیا فرعون اور وہ لوگ جو اس سے پہلے تھے][ وَالْمُؤْتَفِكٰتُ: اور الٹنے والی بستیوں (والے)][ بِالْخَاطِئَةِ: (ہر ایک) خطا کرنے والی (جان) کے ساتھ]" "فَعَصَوْا رَسُوْلَ رَبِّهِمْ فَاَخَذَهُمْ اَخْذَةً رَّابِيَةً 10۝ [فَعَصَوْا: پھر ان لوگوں نے نافرمانی کی][ رَسُوْلَ رَبِّهِمْ: اپنے رب کے رسول کی][ فَاَخَذَهُمْ: تو اس نے پکڑا ان کو][ اَخْذَةً رَّابِيَةً: ایک اٹھنے والی (شدید) پکڑ میں]" "اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ 11۝ۙ [اِنَّا لَمَّا: بیشک ہم نے، اس وقت جب][ طَغَا الْمَاۗءُ: جوش میں آیا پانی][ حَمَلْنٰكُمْ: سوار کیا تم لوگوں کو][ فِي الْجَارِيَةِ : اس جاری ہونے والی (کشتی) میں]" "لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّتَعِيَهَآ اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ 12۝ [لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ: تاکہ ہم بنائیں اس (کشتی) کو تمھارے لیے][ تَذْكِرَةً: ایک یاددہانی ][ وَّتَعِيَهَآ: اور تاکہ یاد رکھے اس کو][ اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ : کوئی یاد رکھنے والا کان]" "فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ 13۝ۙ [فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ: پھر جب پھونکا جائے گا صور میں][ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ: ایک ہی بار پھونکنا] ترکیب : (آیت۔13) آگے قیامت کے واقعات کا ذکر ہے اس لیے (دیکھیں آیت۔2:27، نوٹ۔3) اور بات اِذَا شرطیہ سے شروع ہوا ہی، اس لیے بھی آگے افعال ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا۔ نُفِخَ کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے نَفْخَۃٌ حالت رفع میں ہے۔ نوٹ۔1: زیر مطالعہ آیات کو پڑھتے ہوئے یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ قرآن مجید میں کہیں تو قیامت کے تین مراحل الگ الگ بیان کیے گئے ہیں جو یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں پیش آئیں گے۔ اور کہیں پہلے مرحلے سے آخری مرحلے تک کے واقعات کو سمیٹ کر یکجا بیان کردیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ نمل آیت۔87۔ میں پہلے نفخ صور کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب تمام دنیا کے انسان یک لخت ایک ہولناک آواز سے گھبرا اٹھیں گے۔ اس وقت نظام عالم کے درہم برہم ہونے کی وہ کیفیات ان کی آنکھوں کے سامنے پیش آئیں گی جو سورہ حج آیات۔1۔2، سورئہ یٰسین آیات۔59۔50، اور سورہ تکویر آیات۔1 تا 6۔ میں بیان ہوئی ہیں۔ سورئہ زمر آیات 67 تا 70۔ میں دوسرے اور تیسرے نفخ صور کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ایک نفخ پر سب لوگ مر کر گر جائیں گے اور اس کے بعد جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو جب جی اٹھیں گے اور خدا کی عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔ سورئہ طٰہٰ آیات۔102 تا 112، سورہ انبیاء آیات۔101 تا 103، سورہ یٰسین آیات۔51 تا 53، اور سورہ ق آیات۔20 تا 22 میں صرف تیسرے نفخ صور کا ذکر ہے۔ لیکن یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن میں پہلے نفخ صور سے لے کر جنت اور جہنم میں لوگوں کے داخل ہونے تک کے تمام واقعات کو ایک ہی سلسلہ میں بیان کردیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن) نوٹ۔2: قرآن مجید میں قیامت کے جو احوال بیان ہوئے ہیں ان کا تعلق متشابہات سے ہے۔ ہمارے فہم سے قریب لانے کے لیے ان کو اپنے لفظوں میں بیان کیا جاتا ہے جن سے ان کا ایک تصور ہمارے ذہن میں قائم ہو سکے۔ یہ احوال ایک نادیدہ عالم کے ہیں، ان کا تصور دینے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ان کی اصل حقیقت کا جاننا اس عالم میں ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن نے ان کے متعلق یہ ہدایت دی ہے کہ وہ جس طرح بیان ہوئے ہیں، اسی طرح ان پر اجمالی ایمان رکھا جائے۔ ان کی اصل حقیقت کے در پے نہ ہوا جائے ورنہ اندیشہ ہے کہ آدمی کسی فتنہ میں پڑ جائے۔ (تدبر قرآن) قیامت کے روز عرش رحمن کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ بعض روایاتِ حدیث میں ہے کہ قیامت سے پہلے تو یہ کام چار فرشتوں کے سپرد ہے۔ قیامت کے روز ان کے ساتھ چار اور بڑھا دیئے جائیں گے۔ رہا یہ معاملہ کہ عرش رحمن کیا چیز ہے اور اس کی حقیقت اور شکل و صورت کیا ہے اور فرشتوں کا اس کو اٹھانا کس صورت سے ہے، یہ سب چیزیں وہ ہیں کہ عقل انسانی ان کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ ان مباحت میں پڑنے، ان پر غور و فکر کرنے اور سوالات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ صحابہ اور تابعین کا مسلک اس جیسے تمام معاملات میں یہ ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے کہ اس سے جو کچھ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے وہ حق ہے ار اس کی حقیقت و کیفیت نامعلوم ہے۔ (معارف القرآن) نوٹ۔3: سیدھے ہاتھ میں نامۂ اعمال کا دیا جانا ہی ظاہر کر دے گا کہ اس کا حساب بےباق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے نہیں بلکہ صالح انسان کی حیثیت سے پیش ہو رہا ہے۔ اغلب یہ ہے کہ اعمال ناموں کی تقسیم کے وقت صالح انسان خود سیدھا ہاتھ بڑھا کر اپنا نامۂ اعمال لے گا، کیونکہ موت کے وقت سے میدان حشر میں حاضری تک اس کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہو گا اس کی وجہ سے اس کو پہلے ہی یہ اطمینان حاصل ہو چکا ہو گا کہ میں یہاں انعام پانے کے لیے پیش ہو رہا ہوں نہ کہ سزا پانے کے لیے۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بڑی صراحت کے ساتھ بتائی گئی ہے کہ موت کے وقت ہی سے یہ بات انسان پر واضح ہو جاتی ہے کہ وہ نیک بخت آدمی کی حیثیت سے دوسرے عالم میں جا رہا ہے یا بدبخت آدمی کی حیثیت سے۔ پھر موت سے قیامت تک نیک انسان کے ساتھ مہمان کا سا معاملہ ہوتا ہے اور بدانسان کے ساتھ حوالاتی مجرم کا سا۔ اس کے بعد جب قیامت کے روز دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے اسی وقت سے صالحین کی حالت و کیفیت کچھ اور ہوتی ہے جبکہ کفار، منافقین اور مجد کی کچھ اور۔ سورئہ انشقاق میں فرمایا گیا ہے ’’ اور جس کا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔‘‘ غالباً اس کی صورت یہ ہوگی کہ مجرم کو چونکہ پہلے ہی سے اپنے مجرم ہونے کا علم ہو گا اور وہ جانتا ہو گا کہ اس کے نامۂ اعمال میں اس کا سارا کچا چٹھا درج ہے اس لیے وہ نہایت بےدلی کے ساتھ اپنا بایاں ہاتھ بڑھا کر اسے لے گا اور فوراً پیٹھ کے پیچھے چھپا لے گا تاکہ کوئی دوسرا اسے دیکھنے نہ پائے۔ (تفہیم القرآن)" "وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً 14 ۝ۙ [وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ: اور اٹھائی جائے گی یہ زمین اور سارے پہاڑ][ فَدُكَّتَا: پھروں دونوں کوٹ کر ہموار کیے جائیں گے][ دَكَّةً وَّاحِدَةً : ایک ہی بار ہموار کرنا] (آیت۔14) دُکَّتَا تثنیہ مؤنث کا صیغہ ہے۔ اس کا نائب فاعل اس میں شامل ھُمَا کی ضمیر ہے جو اَلْاَرْضُ وَالْجِبَالُ کے لیے ہے اور محلاً حالت رفع میں ہے۔ دَکَّۃً اس کا مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ (آیت۔70) وَالْمَلْکُ پر الف لام کو لام تعریف بھی مانا جا سکتا ہے اور لامِ جنس بھی۔ ترجمے میں ہم لام جنس کو ترجیح دیں گے۔" "فَيَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ 15؀ۙ [فَيَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ: تو اس دن واقع ہو گی][ الْوَاقِعَةُ: وہ واقع ہونے والی (قیامت)]" "وَانْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ فَھِيَ يَوْمَىِٕذٍ وَّاهِيَةٌ 16؀ۙ [وَانْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ: اور پھٹ جائے گا آسمان][ فَھِيَ يَوْمَىِٕذٍ: تو وہ (آسمان) اس دن][ وَّاهِيَةٌ : بوسیدہ ہو گا] و ھـ ی [وَھْیًا: (ض۔ ح) کسی چیز کا بوسیدہ ہو کر پھٹ جانا۔ شگاف پڑنا۔ بوسیدہ ہونا۔] وَاھٍی مؤنث وَاھِیَۃٌ۔ اسم الفاعل ہے۔ پھٹنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔16۔]" "وَّالْمَلَكُ عَلٰٓي اَرْجَاۗىِٕهَا ۭ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ 17؀ۭ [وَّالْمَلَكُ عَلٰٓي اَرْجَاۗىِٕهَا ۭ: اور فرشتے اس کے کنارون پر ہوں گے][ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ: اور اٹھائیں گے تیرے رب کا عرش][ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ: اپنے اوپر اس دن][ ثَمٰنِيَةٌ: آٹھ (فرشتے)]" "يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ 18؀ [يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ: اس دن تم لوگ سامنے لائے جائو گے][ لَا تَخْفٰى: چھپی نہیں ہو گی][ مِنْكُمْ خَافِيَةٌ: تمھاری کوئی چھپنے والی (بات)] (آیت۔18) ثلاثی مجرد اور باب افعال، دونوں کا مضارع مجہول ہم شکل ہو جاتا ہے۔ عبارت کا سیاق و سباق بتا رہے ہے کہ یہاں تُعْرِضُوْنَ بابِ افعال کا نہیں بلکہ ثلاثی مجرد کا مضارع مجہول ہے۔ خَفِیَ کے ساتھ صلہ کے استعمال سے مفہوم بدلتا ہے۔ خَفِیَ عَلَیْہِ (پوشیدہ ہوا اس پر یعنی اس سے پوشیدہ ہوا۔) خَفِیَ مِنْہُ۔ (پوشیدہ ہوا اس سے یعنی اس کا کوئی کام پوشیدہ ہوا) ترجمہ کرتے وقت اردو محاورے کا لحاظ کرنا ہو گا" "فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ ۙ فَيَقُوْلُ هَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ 19؀ۚ [فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ: پس وہ جو ہے جس کو دی گئی][ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ ۙ: اس کی کتاب اس کے داہنے ہاتھ میں][ فَيَقُوْلُ هَاۗؤُمُ: تو وہ کہے گا یہ لو][ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ: پڑھو میری کتاب] (آیت۔19) اُوْتِیْ کا نائب فاعل مَنْ ہے جو محلا حالت رفع میں ہے، جبکہ کِتٰبَہٗ میں کتب مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ کِتٰبِیَہْ (دراصل کتابی ہے جس پر ہائے سکت لگی ہوئی ہے۔ (دیکھیں آیت 2:259، نوٹ۔2) ۔ اسی طرح آگے حِسَابِیَہْ۔ مَالِیَہْ۔ سُلْطٰنِیَہْ وغیرہ میں بھی ہائے متکلم کے آگے ہائے سکت لگی ہے۔ نوٹ کرلیں کہ ثائے ثانیث پر جب وقف کرتے ہیں تو وہ بھی با کی آواز دیتی ہے لیکن کتابت میں اس پر تا کے دو نقطے آتے ہیں جیسے رَاضِیَۃٍ۔ عَالِیَۃٍ۔ دَانِیَۃٍ۔ اَلْقَاضِیَۃَ وغیرہ۔ جب کہ ہائے سکت نقطوں سے خالی ہوتی ہے۔" "اِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ 20؀ۚ [اِنِّىْ ظَنَنْتُ: بیشک میں نے خیال کیا][اَنِّىْ مُلٰقٍ: کہ میں ملاقات کرنے والا ہوں][ حِسَابِيَهْ: اپنے حساب سے]" "فَهُوَ فِيْ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ 21۝ۙ [ فَهُوَ فِيْ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ : تو وہ من بھاتی زندگی گزارنے میں ہے]" "فِيْ جَنَّةٍ عَالِيَةٍ 22؀ۙ [فِيْ جَنَّةٍ عَالِيَةٍ: اونچا ہونے والے باغ میں]" "قُطُوْفُهَا دَانِيَةٌ 23؀ [قُطُوْفُهَا دَانيَةٌ: جس کے میوے قریب ہونے والے (جھکے ہوئے) ہوں گے] ق ط ف [قَطْفًا: (ض) پھل چننا۔] قِطْفٌ ج قُطُوْنٌ۔ اسم ذات ہے۔ پھل۔ میوہ۔ زیر مطالعہ آیت۔23۔]" "كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِيْۗئًۢا بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِي الْاَيَّامِ الْخَالِيَةِ 24؀ [كُلُوْا وَاشْرَبُوْا: (کھا جائے گا) تم لوگ کھائو اور پیو][ هَنِيْۗئًۢا: خوشگوار ہوتے ہوئے][ بِمَآ اَسْلَفْتُمْ: بسبب اس کے جو تم لوگوں نے آگے بھیجا][ فِي الْاَيَّامِ الْخَالِيَةِ: گزرنے والے دنوں میں]" "وَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ ڏ فَيَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِيَهْ 25؀ۚ [وَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ: اور وہ جو ہے جس کو دی گئی][ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ: اس کی کتاب اس کے بائیں ہاتھ میں][ ڏ فَيَقُوْلُ: تو وہ کہے گا][ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُوْتَ: اے کاش مجھ کو دی ہی نہ جاتی][ كِتٰبِيَهْ: میری کتاب]" "وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ 26؀ۚ [وَلَمْ اَدْرِ: اور میں جانتا ہی نہ][ مَا حِسَابِيَهْ: کیا ہے میرا حساب]" "يٰلَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ 27؀ۚ [يٰلَيْتَهَا كَانتِ: اے کاش وہ (موت ہی) ہوتی][ الْقَاضِيَةَ: فیصلہ کرنے (قصّہ چکانے) والی] (آیت۔27) کَانَتْ کا اسم اس میں شامل ھِیَ کی ضمیر ہے جب کہ اَلْقَاضِیَۃَ اس کی خبر ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔" "مَآ اَغْنٰى عَنِّيْ مَالِيَهْ 28؀ۚ [مَآ اَغْنٰى عَنِّيْ: کیا کام آیا میرے ][ مَالِيَهْ: میرا مال]" "هَلَكَ عَنِّيْ سُلْطٰنِيَهْ 29؀ۚ [هَلَكَ عَنِّيْ: ہلاک (زائل) ہوا مجھ سے][ سُلْطٰنِيَهْ: میرا اختیار]" "خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ 30؀ۙ [خُذُوْهُ: (کہا جائے گا) پکڑو اس کو][ فَغُلُّوْهُ: پھر طوق پہناؤ اس کو]" "ثُمَّ الْجَحِيْمَ صَلُّوْهُ 31؀ۙ [ثُمَّ الْجَحِيْمَ: پھر دہکتی آگ میں][ صَلُّوْهُ: تم لوگ بھونو اس کو]" "ثُمَّ فِيْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ 32؀ۭ [ثُمَّ فِيْ سِلْسِلَةٍ: پھر ایک ایسی زنجیر میں][ ذَرْعُهَا: جس کی لمبائی ][ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا: ستر ہاتھ ہے][ فَاسْلُكُوْهُ: تم لوگ ڈالو (جکڑو) اس کو]" "اِنَّهٗ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِيْمِ 33؀ۙ [اِنَّهٗ: بیشک وہ][كَانَ لَا يُؤْمِنُ: ایمان نہیں لاتا تھا][ بِاللّٰهِ الْعَظِيْمِ: اس عظیم اللہ پر]" "وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ 34؀ۭ [وَلَا يَحُضُّ: اور ترغیب نہیں دیتا تھا (کسی کو)][ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ: مسکین کے کھانا (کھلانے) پر] ح ض ض (ن) حَضًّا کسی کام پر اکسانا۔ ترغیب دینا۔ زیر مطالعہ آیت۔34۔ (تفاعل) تَحَاضًّا ایک دوسرے کو ترغیب دینا۔ وَلَاتَحٰفُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنَ (اور تم لوگ باہم ترغیب نہیں دیتے مسکین کے کھانا (کھلانے) پر۔ 89:18۔ تَحٰضُّوْنَ دراصل تَتَحٰضُّوْنَ ہے جس کی ایک تا گری ہوئی ہے۔" "فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هٰهُنَا حَمِيْمٌ 35 ؀ۙ [فَلَيْسَ لَهُ: تو نہیں ہے اس کے لیے][ الْيَوْمَ هٰهُنَا: آج یہاں][ حَمِيْمٌ: کوئی گرم جوش (دوست)]" "وَّلَا طَعَامٌ اِلَّا مِنْ غِسْلِيْنٍ 36؀ۙ [وَّلَا طَعَامٌ: اور نہ چکھنے کی کوئی چیز][ اِلَّا مِنْ غِسْلِيْنٍ: سوائے زخموں کے میل کچیل میں سے]" "لَّا يَاْكُلُهٗٓ اِلَّا الْخَاطِـــُٔوْنَ 37؀ۧ [لَّا يَاْكُلُهٗٓ: نہیں کھاتے اس کو مگر ][ اِلَّا الْخَاطِـــُٔوْنَ: خطا (گناہ) کرنے والے]" "فَلَآ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ 38؀ۙ [فَلَآ: پس نہیں!][ اُقْسِمُ: میں قسم کھاتا ہوں][ بِمَا تُبْصِرُوْنَ: اس کی جو تم لوگ دیکھتے ہو] نوٹ۔1: قسم سے پہلے اس طرح جو لا آیا کرتا ہے وہ نہ تو زائد ہوتا ہے اور نہ قسم کی نفی کے لیے، بلکہ یہ قسم سے پہلے مخاطب کی بات کی تردید کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں جہاں کوئی قسم کھائی گئی ہے بالعموم دعوے کی شہادت اور اس کی دلیل کے طور پر کھائی گئی ہے۔ یہاں اصل دعوٰی اثبات جزاء و سزا ہے۔ قیامت اور جزاء و سزا پر قرآن نے جو دلائل دیے ہیں وہ پچھلی سورتوں میں بھی گزر چکے ہیں اور اس سورہ میں بھی زیر بحث آئے ہیں۔ ان پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان کا تعلق آفاق و انفس کے ان شواہد سے بھی ہے جو آنکھوں سے دیکھے جا سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ان صفات اور آخرت کے ان احوال سے بھی ہے جو آنکھوں سے تو نہیں دیکھے جا سکتے لیکن عقل سے سمجھے جا سکتے ہیں۔ اسی سورہ میں جزاء و سزا پر جو دلیل قائم کی گئی ہے وہ پہلے قوموں کی تاریخ اور ان کی تباہی کے آثار سے قائم کی گئی ہے۔ پھر عالم غیب کے وہ احوال سنائے گئے ہیں جن سے اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کو سابقہ پیش آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے ایک کا تعلق اس عالم سے ہے جس کی گواہی تاریخ کے صفاحات اور زمین کے آثار میں موجود ہے۔ اور دوسرے کا تعلق اس نادیدہ عالم سے ہے جس کو ہر چند یہاں آنکھوں سے تو نہیں دیکھا جا سکتا لیکن عقل اس کو تسلیم کرتی ہے کیونکہ خالق کی صفات اور اس جہاں میں پیش آنے والے مکافاتِ عمل کے واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ انہی دو طرح کی دلیلوں کو گواہی میں پیش کر کے منکروں کو آگاہ فرمایا ہے کہ قرآن جس جزاء و سزا سے تمہیں آگاہ کر رہا ہے وہ ایک حقیقت ہے۔ اس عالم مشہود اور عالم غیر مشہود کے دلائل اس کی تائید میں ہیں۔ اس کو کسی شاعر کا کلام قرار دے کر جھٹلانے کو کوشش مت کرو۔ (تدبر قرآن)" "وَمَا لَا تُبْصِرُوْنَ 39؀ۙ [وَمَا لَا تُبْصِرُوْنَ: اور اس کی جو تم لوگ نہیں دیکھتے]" "اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ 40؀ڌ [اِنَّهٗ: بیشک یہ (قرآن)][ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ: یقینا ایک بزرگ رسول کا کہا ہوا ہے] نوٹ۔2: آیت۔40 میں رسول کریم سے مراد محمد ﷺ ہیں اور سورہ تکویر (آیت۔19) میں اس سے مراد حضرت جبریل ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہاں قرآن کو رسول کریم کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ کسی شاعر یا کاہن کا قول نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ کفار مکہ جبریل کو نہیں بلکہ محمد ﷺ کو شاعر اور کاہن کہتے تھے جبکہ سورئہ تکویر میں قرآن کو رسول کریم کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ وہ رسول بڑی قوت والا ہے، صاحب عرش کے ہاں بلند مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، وہ امانت دار ہے اور محمد ﷺ نے اس کو روشن افق پر دیکھا ہے۔ قریب قریب یہی مضمون سورہ نجم کی آیات۔5 تا 10۔ میں حضرت جبریل کے متعلق بیان ہوا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کو محمد ﷺ اور جبریل کا قول کس معنی میں کہا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ اس کو حضور کی زبان نے اور حضور اسے جبریل کی زبان سے سن رہے تھے۔ اس لیے ایک لحاظ سے یہ حضور کا قول تھا اور دوسرے لحاظ سے جبریل کا قول، لیکن آگے چل کر یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ فی الاصل یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔ خود رسول کا لفظ بھی اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ان دونوں کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ پیغامبر ہونے کی حیثیت سے انھوں نے اس کو پیغام بھیجنے والے کی طرف سے پیش کیا ہے۔ (تفہیم القرآن)" "وَّمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۭ قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ 41؀ۙ [وَمَا هُوَ: اور یہ (قرآن)][ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۭ: کسی شاعر کا کہا ہوا نہیں ہے][ قَلِيْلًا مَّا: بہت ہی تھوڑاسا][ تُؤْمِنُوْنَ: تم لوگ ایمان لاتے ہو]" "وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ 42؀ۭ [وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۭ: اور نہ کسی کاہن کا کہا ہوا ہے][ قَلِيْلًا مَّا: بہت ہی تھوڑی سی][ تَذَكَّرُوْنَ: تم لوگ نصیحت پکڑتے ہو]" "تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ 43؀ [تَنْزِيْلٌ: (یہ) اتارا ہوا ہے][ مِّنْ رَّبِ الْعٰلَمِيْنَ: تمام جہاں کے رب ( کی طرف ) سے]" "وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ 44 ؀ۙ [وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا: اور اگر وہ غلط منسوب کرتے ہم پر][ بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ: باتوں کی کوئی (بات)] نوٹ۔3: آیات۔44 تا 47۔ میں ایک خاص واقعہ کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ اگر خدانخواستہ معاذ اللہ رسول اللہ ﷺ اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے تو آپ کے ساتھ یہ معاملہ کیا جاتا۔ اس میں کوئی عام ضابطہ بیان نہیں کیا گیا کہ جو شخص بھی نبوت کا جھوٹا دعوٰی کرے، ہمیشہ اس کو ہلاک ہی کردیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعوٰی کیا لیکن ان پر کوئی ایسا عذاب نہیں آیا۔ (معارف القرآن) اس کی مثال یوں سمجھو کہ جس طرح بادشاہ ایک شخص کو کسی منصب پر مامور کر کے اور سند و فرمان وغیرہ دے کر کسی طرف روانہ کرتے ہیں۔ اب اگر اس شخص سے اس خدمت میں کچھ خیانت ہوئی یا بادشاہ پر کچھ جھوٹ باندھنا اس سے ثابت ہوا تو اسی وقت بلاتوقف اس کا تدارک کرتے ہیں۔ لیکن اگر سڑک کوٹنے والا مزدور یا جھاڑو دینے والا بھنگی بکتا پھرے کہ گورنمنٹ کا میرے لیے یہ فرمان ہے یا میرے ذریعہ سے یہ احکام دیئے گئے ہیں، تو کون اس کی بات پر کان دھرتا ہے اور کون اس کے دعوئوں سے تعرض کرتا ہے۔ بہرحال آیت ہذا میں حضور کی نبوت پر استدلال نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بتلایا گیا ہے کہ قرآن کریم خالص اللہ کا کلام ہے جس میں ایک حرف یا ایک شوشہ بھی نبی کریم ﷺ اپنی طرف سے شامل نہیں کرسکتے اور نہ آپ کی یہ شان ہے کہ کوئی بات اللہ کی طرف منسوب کر دیں جو اس نے نہ کی ہو۔ تورات سفر استثناء کے اٹھارویں باب میں بیسواں فقرہ یہ ہے، لیکن وہ نبی ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ ہی قتل کیا جائے۔‘‘ (ترجمہ شیخ الہند) مورخہ 17۔ صفر 1431 ھ بمطابق 2۔ فروری 2010 ء" "لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ 45؀ۙ [لَاَخَذْنَا مِنْهُ: تو ہم ضرور پکڑتے اس کو][ بِالْيَمِيْنِ: داہنے ہاتھ (پوری طاقت) سے] ترکیب: (آیت۔45) اس میں یہ نہیں کہا کہ لَاَخَزْنَاہُ بلکہ ضمیر مفعولی کے ساتھ مِنْ لگا دیا ہے کیونکہ کسی کو جب پکڑتے ہیں تو اس کا پورا جسم نہیں پکڑتے بلکہ جسم کا کوئی حصہ جیسے گردن یا ہاتھ وغیرہ پکڑتے ہیں تو اس کا پورا جسم نہیں پکڑتے ہیں۔ بالیمین (داہنے ہاتھ سے) ۔ اس سے مراد ہے قوت سے۔ طاقت سے۔ (حافظ احمد یار صاحب کے کیسٹ سے ماخوذ) ۔ اس آیت کے ترجمہ سے متعلق تدبر قرآن میں ہے کہ عام طور پر لوگوں نے اس کا ترجمہ کیا ہے ’’ ہم اس کا (پیغمبر کا) داہنا ہاتھ پکڑتے‘‘ لیکن عربیّت کے قاعدے سے اس کا ترجمہ ہونا چاہیے ’’ ہم اس کو اپنے قوی بازو سے پکڑتے۔‘‘ اور تفسیر ابن جریر سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ (آیت۔47) لفظ اَحَدٌ میں کبھی جمع کا مفہوم ہوتا ہے۔ جیسے ہم کہیں کہ تم لوگوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تم سب کے سب ایسے نہیں ہو۔ اس طرح اس جملہ میں لفظ ایک جمع کے مفہوم میں ہے۔ اس آیت میں بھی مِنْ اَحَدٍ جمع کے مفہوم میں ہے، اس لیے حَاجِزًا (واحد) کے بجائے حَاجِزِیْنَ (بھی) آیا ہے۔" "ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ 46؀ڮ [ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ: پھر ہم ضرور کاٹ دیتے اس سے][ الْوَتِيْنَ: (اس کی) رگِ دل کو]" "فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِـزِيْنَ 47؀ [فَمَا مِنْكُمْ: تو نہ ہوتا تم میں سے][ مِّنْ اَحَدٍ: کوئی ایک بھی][ عَنْهُ حٰجِـزِيْنَ: اس سے روکنے والا]" "وَاِنَّهٗ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ 48؀ [وَاِنَّهٗ لَتَذْكِرَةٌ: اور بیشک یہ (قرآن) یقینا ایک یاددہانی ہے][لِّلْمُتَّقِيْنَ: متقی لوگوں کے لیے]" "وَاِنَّا لَنَعْلَمُ اَنَّ مِنْكُمْ مُّكَذِّبِيْنَ 49؀ [وَاِنَّا لَنَعْلَمُ: اور بیشک ہم یقینا جانتے ہیں][اَنَّ مِنْكُمْ: کہ تم میں سے][ مُّكَذِّبِيْنَ: کچھ لوگ جھٹلانے والے ہیں (اس کو)]" "وَاِنَّهٗ لَحَسْرَةٌ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ 50؀ [وَاِنَّهٗ: اور بیشک یہ (جھٹلانا) ضرور][ لَحَسْرَةٌ: ایک حسرت ہو گا][ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ: انکار کرنے والوں پر]" "وَاِنَّهٗ لَحَقُّ الْيَقِيْنِ 51؀ [ووَاِنَّهٗ لَحَقُّ الْيَقِيْنِ: اور بیشک یہ یقین کرنے کا حقدار ہے]" "فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ 52؀ۧ [فَسَبِّحْ: تو پھر تو تسبیح کر][ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ: اپنے عظیم رب کے نام کی]" "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ " "سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ Ǻ۝ۙ [سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ: مانگا ایک مانگنے والے نے][ بِعَذَابٍ: ایک ایسا عذاب جو][ وَّاقِع: واقع ہونے والا ہے]" "لِّلْكٰفِرِيْنَ لَيْسَ لَهٗ دَافِعٌ Ą۝ۙ [لِلْكٰفِرِيْنَ لَيْسَ لَهٗ: کافروں کے لیے نہیں ہے جس کو][ دَافِعٌ: کوئی دفع کرنے والا] ترکیب: (آیت۔2) لَیْسَ لَہٗ میں ہ کی ضمیر بِعَذَابٍ کے لیے ہے۔" "مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ Ǽ۝ۭ [مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ: جو بلندیوں والے اللہ (کی طرف) سے ہو گا] (آیت۔3) مِنْ اللّٰہِ سے بھی مانا جا سکتا ہے۔ اس وقت معنی ہوں گے کہ اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہو گا اور اس کا تعلق بِعَذَابٍ سے بھی مانا جا سکتا ہے۔ اس وقت معنی ہوں گے کہ وہ عذاب اللہ کی طرف سے واقع ہونے والا ہے۔ مِنَ اللّٰہِ سے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے دَافِعٌ سے اس کا متعلق قابلِ ترجیح تھا لیکن آگے کی عبارت کا تقاضہ ہے کہ اس کو بعذاب سے متعلق مانا جائے۔" "تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ Ć۝ۚ [تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ: چڑھیں گے فرشتے اور الرّوح (جبریل)][ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ: اس کی طرف ایک ایسے دن میں][ كَان مِقْدَارُهٗ: ہے جس کے اندازے کا پیمانہ][ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ: پچاس ہزار سال ہے] نوٹ۔1: ایک دن کا ایک ہزار سال یا پچاس ہزار سال کے برابر ہونے کا کیا مفہوم ہے، اس کی ایک وضاحت آیت نمبر۔22:47، نوٹ۔2 : میں کی جا چکی ہے جبکہ ہمارے طلباء کے علم میں یہ بات بھی ہونی چاہیے کہ ہمارے مفسرین نے ان آیات کو کس طرح سمجھا ہے اور ان کی کیا وضاحت کی ہے۔ چنانچہ اس موقع پر ہم مفسرین کے رائے نقل کر رہے ہیں۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عذاب جس کا اوپر ذکر آیا ہے، اس کا وقوع اس روز ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی۔ حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے اس دن کے متعلق سوال کیا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی کہ یہ دن کتنا دراز ہو گا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ یہ دن مومن پر اتنا ہلکا ہو گا کہ ایک نماز فرض ادا کرنے کے وقت سے بھی کم ہو گا۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ یہ دن مومنین کے لیے اتنا ہو گا جتنا وقت ظہر و عصر کے درمیان ہوتا ہے۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ اس دن کا یہ طول کہ پچاس ہزار سال کا ہو گا، ایک اضافی امر ہے، کہ کفار کے لیے اتنا دراز اور مومنوں کے لیے اتنا مختصر ہو گا۔ اس آیت میں ایک دن کی مقدار پچاس ہزار سال بتائی ہے، جبکہ سورئہ السجدہ کی آیت۔5 میں ایک ہزار سال آئے ہیں۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے۔ ’’ تدبیر کرتے ہیں امر الٰہی کی آسمان سے زمین تک۔ پھر چڑھتے ہیں اس کی طرف ایک ایسے دن میں جس کی مقدار ایک ہزار سال ہے عام شمار کے اعتبار سے۔‘‘ بظاہر ان دونوں آیتوں کے مضمون میں تضاد ہے۔ اس کا جواب گذشتہ روایات حدیث سے ہو گیا کہ اس دن کا طول مختلف گروہوں کے اعتبار سے مختلف ہو گا۔ کفار کے لیے پچاس ہزار سال کا اور مومنین صالحین کے لیے ایک نماز کا وقت۔ ان کے درمیان مختلف گروہ ہیں۔ ممکن ہے بعض کے لیے ایک ہزار سال کے برابر ہو۔ اور وقت کا دراز و مختصر ہونا، شدت و بےچینی اور عیش و آرام میں مختلف ہونا، مشہور و معروف ہے۔ سورہ السجدہ کی جس آیت میں ایک ہزار سال کا دن بیان کیا گیا ہے، اس کی ایک توجیہہ تفسیر مظہری میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اس آیت میں جس دن کا ذکر ہے وہ دنیا ہی کے دنوں کا ایک دن ہے، اس میں جبریل اور فرشتوں کا آسمان سے زمین پر آنا پھر زمین سے آسمان پر واپس جانا اتنی بڑی مسافت کو طے کرتا ہے کہ انسان اگر طے کرتا تو اس کو ایک ہزار سال لگتے کیونکہ احادیث میں آیا ہے کہ آسمان سے زمین تک پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ اس طرح پانچ سو سال اوپر سے نیچے آنے کے اور پانچ سو واپس جانے کے، یہ کل ایک ہزار سال انسانی چال کے اعتبار سے ہیں’ بالغرض اگر انسان اس مسافت کو طے کرتا تو آنے اور جانے میں ایک ہزار سال لگ جاتے۔ اگرچہ فرشتے اس مسافت کو بہت ہی مختصر وقت میں طے کر لیتے ہیں۔ تو سورئہ سجدہ میں دنیا ہی کے دنوں میں سے ایک دن کا بیان ہوا اور سورئہ معارج میں قیامت کے دن کا بیان ہے جو ایّام دنیا سے بہت بڑا ہو گا اور اس کی درازی اور کوتاہی مختلف لوگوں پر اپنے اپنے حالات کے اعتبار سے مختلف محسوس ہو گی۔ (معارف القرآن)" "فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيْلًا Ĉ۝ [فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيْلًا: تو آپ صبر کریں جیسے خوبصورت صبر کرنا ہوتا ہے]" "اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا Č۝ۙ [اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا: بیشک وہ لوگ دیکھتے ہیں اس (قیامت) کو دور ہوتے ہوئے] (آیت۔6۔7) یَرَوْنَہٗ اور نسٰرہ دونوں کی ضمیر مفعولی یَوْمٍ کے لیے ہے جس سے مراد عَذَابٌ وَاقِعٌ والا دن یعنی قیامت ہے۔" "وَّنَرٰىهُ قَرِيْبًا Ċ۝ۭ [وَّنَرٰىهُ قَرِيْبًا: اور ہم دیکھتے ہیں اس کو قریب]" "يَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَاۗءُ كَالْمُهْلِ Ď۝ۙ [يَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَاۗءُ: جس دن ہو جائے گا آسمان][ كَالْمُهْلِ: پگھلی ہوئی دھات کی مانند]" "وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ Ḍ۝ۙ [وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ: اور ہو جائیں گے پہاڑ][ كَالْعِهْنِ: رنگی ہوئی اون کی مانند] ع ھ ن [عَھْنًا: (ض) شاخ کا لچکنا اور ٹوٹنے کے قریب ہونا۔] عِھْنٌ رنگی ہوئی اون۔ آیت زیر مطالعہ۔9]" "وَلَا يَسْـَٔــلُ حَمِيْمٌ حَمِـيْمًا 10۝ښ [وَلَا يَسْـَٔــلُ حَمِيْمٌ: اور نہیں پوچھے گا کوئی دوست ][ حَمِـيْمًا: کسی دوست سے (خیر خیریت)]" "يُّبَصَّرُوْنَهُمْ ۭ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِيْ مِنْ عَذَابِ يَوْمِىِٕذٍۢ بِبَنِيْهِ 11۝ۙ [يُّبَصَّرُوْنَهُمْ ۭ: ان (دوستوں) کو دکھائے جائیں گے وہ سب (دوست)][ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ: تمنا کریں گے سارے مجرم][ لَوْ يَفْتَدِيْ: کاش وہ خود کو چھڑا لیں][ مِنْ عَذَابِ يَوْمِىِٕذٍۢ: اس دن کے عذاب سے][ بِبَنِيْهِ: بدلے میں دے کر اپنے بیٹے کو] (آیت۔11) بَظَرَ(باب تفعیل) کے دو مفعول آتے ہیں۔ کس کو دکھایا اور کیا دکھایا۔ یہاں اس کا مضارع مجہول آیا ہے۔ یُبَصَّرُوْنَ میں شامل ھُمْ کی ضمیر اس کا مفعول اوّل ہے جواب نائب فاعل کہلائے گا اور یہ ضمیر حَمِیْمٌ کے لیے ہے۔ اس کے آگے ھُمْ کی ضمیر مفعولی اس کے مفعول ثانی کے لیے ہے۔ یہ ضمیر حَمِیْمًا کے لیے ہے۔" "وَصَاحِبَتِهٖ وَاَخِيْهِ 12۝ۙ [وَصَاحِبَتِهٖ: اور اپنی ساتھ والی (بیوی) کو][ وَاَخِيْهِ: اور اپنے بھائی کو]" "وَفَصِيْلَتِهِ الَّتِيْ تُـــــْٔوِيْهِ 13۝ۙ [وَفَصِيْلَتِهِ الَّتِيْ: اور اپنے اس کنبے کو جو][ تُـــــْٔوِيْهِ: ٹھکانہ دیتا تھا اس کو]" "وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ ثُمَّ يُنْجِيْهِ 14۝ۙ [وَمَنْ فِي الْاَرْضِ: اور ان کو جو زمین میں ہیں][ جَمِيْعًا ۙ: سب کے سب کو][ ثُمَّ يُنْجِيْهِ: پھر وہ (فدیہ دینا) نجات دلائے اس کو]" "كَلَّا ۭ اِنَّهَا لَظٰى 15۝ۙ [كَلَّا ۭ: ہرگز نہیں][ اِنَّهَا لَظٰى: بیشک یہ آگ کی تپش ہے] ل ظ ک [ لَظًی: (س) آگ کا بھڑکنا۔] لَظٰی آگ کا شعلہ جہنم کا اسمِ علم بھی ہے۔ زیر مطالعہ آیت۔15۔] [ تَلَظُّیًا: (تفعل) غصّہ سے جل اٹھنا۔ فَاَنْذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظّٰی (تو میں نے خبردار کردیا تم لوگوں ایک ایسی آگ جو غصّہ سے جل اٹھے گی) 92:14۔]" "نَزَّاعَةً لِّلشَّوٰى 16۝ښ [نَزَّاعَةً لِّلشَّوٰى: اُدھیڑنے والی ہوتے ہوئے چمڑی کو]" "تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰى 17؀ۙ [تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ: وہ (تپش) بلائے گی اس کو جس نے پیٹھ پھیری)][ وَتَوَلّٰى: اور روگردانی کی]" "وَجَمَعَ فَاَوْعٰى 18؀ [وَجَمَعَ فَاَوْعٰى: اور جمع کیا (مال) پھر محفوظ رکھا]" "اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا 19؀ۙ [اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ: بیشک تمام انسان پید اکیے گئے][ هَلُوْعًا: بڑے بےصبرے] ھـ ل ع [ھَلْعًا: (س) گھبرانا مشکل میں صبر نہ کرنا۔ بےصبرا ہونا۔] ھَلُوْعٌ فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بہت گھبرانے والا۔ ذرا بھی صبر نہ کرنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔19۔] (آیات 19 تا 21) ھَلُوْعًا۔ جَزُوْعًا۔ مَنُوْعًا، یہ تینوں فعول کے وزن پر مبالغے ہیں اور حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں۔ (آیت۔22) نوٹ۔1: جس بات کو ہم اپنی زبان میں یوں کہتے ہیں کہ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے، اسی کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ انسان ایسا پیدا کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بکثرت مواقع پر نوع انسانی کی عام اخلاقی کمزوریوں کا ذکر کرنے کے بعد ایمان لانے والے اور راہ راست اختیار کرنے والے لوگوں کو ان سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اور یہی مضمون آگے کی آیات میں بھی آ رہا ہے۔ اس سے یہ حقیقت خودبخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہ پیدائشی کمزوریاں ایسی نہیں ہیں کہ ان کو تبدیل نہ کیا جا سکے۔ بلکہ انسان اگر خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کر کے اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرے تو وہ ان کو دور کرسکتا ہے۔ (تفہیم القرآن) اللہ تعالیٰ نے انسان کو متضاد داعیات کی کشمکش میں پید اکر کے اس سے یہ چاہا ہے کہ وہ خدا کے احکام کے مطابق جن کی تعلیم اس کو نبیوں کے ذریعہ سے دی گئی ہے، ان کے اندر توازن اور ہم آہنگی پید اکرے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کے قوانین کا تابع بنائے۔ اس امتحان میں کامیابی ہی پر انسان کی تمام اخروی سعادت کا انحصار ہے۔ اختیار کا شرف بھی اس کو اس امتحان کے لیے عطا ہوا ہے۔ یہ امتحان مقصود نہ ہوتا تو انسان کو اختیار کے شرف سے مشرف کرنے کے کوئی معنی نہ ہوتے اور اس کو دوسری مخلوقات پر برتری حاصل کرنے کے بھی کوئی وجہ نہ ہوتی۔ (تدبر قرآن) نوٹ۔2: زیر مطالعہ آیات ہمہ جہت (Multi Dimentional) ہیں۔ ان کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے آپ کو تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہماری زیادہ تر توجہ آیات کے اس پہلو پر مرتکز رہے گی جس کا تعلق بےصبری کے علاج سے یا جدید اصطلاح میں جذباتی بلوغت کے حصول سے ہے۔ کسی شخص کو اپنے جذبات پر جتنا کنٹرول حاصل ہے، اتنی ہی جذباتی بلوغت اس نے حاصل کرلی ہے اور کوئی شخص جس حد تک اپنے جذبات کے قابو میں ہے، اتنا ہی وہ جذباتی لحاظ سے نابالغ ہے۔ اب نوٹ کریں کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ جسمانی، ذہنی اور جذباتی، تینوں لحاظ سے نابالغ ہوتا ہے۔ پھر جسمانی اور ذہنی بلوغت حاصل کرنے میں جسم کے قدرتی نظام اور انسانی کوشش، دونوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن جب انسان سوچنے سمجھنے اور نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے تو اس کے بعد جذباتی بلوغت حاصل کرنے کا انحصار انسانی کوشش پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسمانی بلوغت حاصل کرنے کا انحصار انسانی کوشش پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسمانی بلوغت تقریباً ہر شخص کو پندرہ سال کے لگ بھگ حاصل ہو جاتی ہے۔ ذہنی بلوغت کوئی شخص جتنی حاصل کرسکتا ہے، وہ تقریباً چالیس سال کی عمر تک حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن جذباتی بلوغت کے لیے نہ تو عمر کی کوئی قید ہے اور نہ ہی یہ ہر شخص کو نصیب ہوتی ہے۔ کچھ لوگ کم عمری میں ہی جذباتی لحاظ سے بالغ ہو جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ اس کے بغیر ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جذباتی بلوغت کا تقریباً کل کا کل انحصار انسان کی اپنی کوشش اور مشق پر ہے۔ اس ضمن میں پہلے یہ سمجھ لیں کہ ’’ اُخروی سعادت‘‘ کے ساتھ ساتھ ہماری اس دنیا کی زندگی میں جذباتی بلوغت کی کیا اہمیت ہے۔ ماہرین نفسیات اب اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ ذہانت کے ٹیسٹ (I.Q. Test) میں کسی کا زیادہ نمبر حاصل کر لینا اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ ایسا شخص عملی زندگی میں کامیاب رہے گا۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ زندگی کی کامیابی میں ذہانت کا حصّہ صرف بیس فیصد ہے، جبکہ اسّی فیصد انحصار دیگر عوامل پر ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم عامل کو جذباتی ذہانت (emotional I.Q) کہا گیا ہے۔ (ریڈرز ڈائجسٹ، مئی 1996ئ) ۔ اس اہمیت کے پیش نظر ہم جذبات پر کنٹرول حاصل کرنے کے طریقے آیات زیر مطالعہ سے سیکھنے کی کوشش کریں گے۔ جذباتی بلوغت حاصل کرنے کے لیے ان آیات میں جن صفات کا ذکر ہے، ان کی ابتداء بھی نماز کے ذکر سے ہوتی ہے اور ان کا اختتام بھی نماز کے ذکر پر ہوا ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’ نماز ہی سے تمام نیکیاں نشوونما بھی پاتی ہیں اور وہی اپنے حصار میں ان کی حفاظت بھی کرتی ہے۔ اگر نماز وجود میں نہ آئے تو دوسری نیکیاں بھی وجود میں نہیں آتیں۔‘‘ (تدبر قرآن ج 5 ص 300) ۔ اس کورس، جینے خا سلیقہ حصّہ اوّل میں نماز میں عمل خود تجویزی (Self suggestion) کے نظام اور انسانی عمل پر اس کے اثرات کے متعلق جو کچھ آپ نے پڑھا ہے، اسے ذہن میں تازہ کرلیں تو پھر آپ اس حقیقت کو قبول کرلیں گے کہ نماز تمام اچھی صلاحیتوں کی نرسری ہے۔ اب غور کریں کہ اس آیت میں پہلی صفت کے طور پر جو نماز کا ذکر آیا ہے، اس میں الفاظ کی بندش بہت معنی خیز ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ جذباتی بلوغت حاصل کرنے کے لیے نماز پڑھنی چاہیے۔ نہ ہی یہ فرمایا کہ جو لوگ نماز پڑھتے ہیں وہ اس نقص سے مستثنیٰ ہو جاتے ہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس سے ایسے نمازی مستثنیٰ ہوتے ہیں جو اپنی نماز پر ’’ دائم‘‘ ہوتے ہیں۔ ’’ حضرت عتبہ بن عامر سے نماز میں دائم رہنے کا مطلب پوچھا گیا کہ کیا اس کی مراد یہ ہے کہ جو ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ نہیں یہ مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جو اول سے آخر تک اپنی نماز کی طرف متوجہ رہے۔‘‘ (معارف القرآن) اب دیکھیں ایک نمازی دن میں پانچ مرتبہ اور نماز کی ہر رکعت میں جب یہ کوشش کرتا ہے کہ غیر متعلق خیالات کو ذہن سے نکال کر وہ اپنی توجہ کو نماز پر مرکوز رکھے تو اس مسلسل مشق کی وجہ سے اس کی دو صلاحیتیں اجاگر ہو کر پختہ ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ ذہن میں غیر متعلق یا ناپسندیدہ خیالات کی موجودگی کا احساس ہو جانا۔ دوسرے یہ استعداء حاصل ہو جانا کہ انسان جس خیال کو چاہے ذہن سے جھٹک دے اور جس خیال کو چاہے ذہن میں رہنے دے۔ نماز میں یہ صلاحیتیں حاصل کر لینے کے بعد زندگی کے معاملات میں انہیں استعمال کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہتا۔ اب یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جذبات پر کنٹرول حاصل کرنے کی یہ شاہ کلید (Master key) ہے، کیونکہ جیسے خیالات انسان کے ذہن میں ہوتے ہیں ویسے ہی جذبات اس کے اندر پروان چڑھتے ہیں۔ اس ضمن میں دوسری صفت یہ بیان ہوئی کہ سائل اور محروم کا حق ادا کرتے ہیں۔ اب نوٹ کریں کہ رزق کی مختلف اقسام میں سب سے قوی محبت مال کی محبت ہے۔ انفاق سے اس جذبہ کو کنٹرول کرنے کی مشق ہوتی ہے۔ اس پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد زندگی کے معاملات میں دیگر محبتوں اور رغبتوں پر کنٹرول حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ خیالات اور جذبات پر کنٹرول حاصل کرنے کے یے جو طریقۂ کار اب تک سامنے آیا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کن خیالات کو غلط سمجھ کر ذہن سے نکالا جائے اور کن کو پروان چڑھایا جائے۔ اس سلسلہ میں درست فیصلہ کرنے میں، اصولی طور پر تو انسان کو کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کیونکہ نیکی اور بدی کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت کر کے اسے دنیا کی امتحان گاہ میں بھیجا جاتا ہے۔ (سورۃ الشمس۔8) لیکن یہاں آ کر اس کی فطرت پر خواہشات اور مفادات کے پردے پڑ جاتے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان بدلے کے دن یعنی آخرت کے حساب کتاب کے یقین اور اللہ کے عذاب کے خوف کے ساتھ غور و فکر کرے تو پھر یہ پردے ہٹ جائیں گے اور اس کی فطرت اس کی رہنمائی کرے گی۔ پھر اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ کون سے خیالات اور جذبات پسندیدہ ہیں اور کون سے ناپسندیدہ ہیں۔ اس کے بعد بتایا گیا کہ بےصبری کی کمزوری سے مستثنیٰ لوگوں کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ جنس کے معاملہ میں وہ ایک نظم و ضبط (Sex Discipline) کے پابند ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام انسانی جذبوں میں جنس کا جذبہ سب سے زیادہ پرکشش ہے۔ اس لیے جو شخص اس کو کنٹرول کرلے اس کے لیے باقی جذبوں کو کنٹرول کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہتا۔ چنانچہ اس ضمن میں سب سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ جب بھی ذہن میں کوئی ایسا خیال آئے جو ایسے جنسی جذبے کو بیدار کرے جس کی اجازت نہیں ہے، تو اسے لازماً ذہن سے جھٹک کر ذہن کو دوسرے خیالات میں مصروف کرنے کی کوشش کرے۔ اس کوشش میں کامیابی کی استعداد حاصل کیے بغیر جنسی نظم و ضبط کی پابندی کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کے بعد اگلی صفت یہ بیان ہوئی کہ بےصبری سے مستثنیٰ لوگ اپنی امانتوں اور عہد کا پاس کرتے ہیں۔ اس میں نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ واحد لفظ امانت کے بجائے اس کی جمع امانات استعمال کی گئی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امانت کی مختلف اقسام ہیں اور یہ لوگ ہر قسم کی امانت کا پاس کرتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہمیں حواسِ خمسہ، عقل اور تفقہہ کی جو صلاحیتیں دی ہیں، وہ سب امانت ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب واپس مانگتا ہے تو دینا پڑتا ہے۔ اس لیے واپس نہ کرنے والی خیانت کی تو ہمیں قدرت ہی نہیں ہے۔ البتہ انھیں استعمال کرنے کی اجازت کچھ حدود و قیود کے اتھ ملی ہے۔ جس نے ان کا لحاظ رکھتے ہوئے انھیں استعمال کیا اس نے امانت کا حق ادا کر دیا۔ جس نے ان کا لحاظ نہیں رکھا اس نے خیانت کی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وارننگ دیۃ دی ہے کہ ان سب صلاحیتوں (کے استعمال) کے متعلق ہم سے پوچھا جائے گا۔ (سورئہ بنی اسرائیل۔36) ۔ اس کے علاوہ ہمارے تمام مال و اسباب بھی اس پہلو سے امانت ہیں کہ انھیں حاصل کرنے کی بھی اور انھیں استعمال کرنے کی اجازت بھی حدود قیود کے ساتھ ملی ہے۔ ان کے متعلق بھی قیامت کے دن پوچھا جائے گا (سورۃ تکاثر۔8) ۔ اب یہ بات بہت واضح ہے کہ جذبات پر کنٹرول حاصل کے کیے بغیر ان امانتوں کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے شامل ہیں جو انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان، انسان اور انسان کے درمیان یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں۔ معاہدے تحریری بھی ہوتے ہیں اور زبانی بھی، لیکن بہت سے معاہدے صرف Implied ہوتے ہیں جیسے والدین اور اولاد، استاد اور شاگرد وغیرہ کے حقوق و فرائض۔ اسی طرح اگلی آیت میں شہادت (گواہی) کے بجائے جمع کا صیغہ شہادات استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ شہادت کی بہت سی قسمیں ہیں اور ہر قسم کی شہادت کو قائم رکھنا واجب ہے۔ اس میں توحید و رسالت کی گواہی (کلمۂ شہادت) بھی شامل ہے، حدود شرعیہ کی شہادت بھی اور لوگوں کے باہمی معاملات جو کسی کے سامنے ہوئے ہوں، ان کی شہادت بھی۔ ان شہادتوں کو چھپانا اور ان میں کمی بیشی کرنا حرام ہے۔ ان کو صحیح صحیح قائم رکھنا اس آیت کی رو سے فرض ہے۔ (معارف القرآن) رسول اللہ ﷺ نے مختلف پیرائے میں ہم کو جذباتی بلوغت حاصل کرنے کی تلقین کی ہے’ ہم صرف دو ارشادات نقل کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے طرزِ عمل کو لوگوں کے طرزِ عمل کا تابع بنا کر مت رکھو۔ یہ کہنا غلط ہے۔ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم لوگ اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بنائوں۔ اگر لوگ نیکی کریں تو تم لوگ نیکی کرو اور اگر لوگ بدسلوکی کریں تو تم لوگ ظلم نہ کرو۔ (تفہیم القرآن۔ ج 2، ص 456) اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے نبیٔ کریم ﷺ نے مسلمانوں کو React کرنے سے منع کیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ میرے رب نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے۔ ان میں سے چار باتیں آپ نے یہ فرمائیں کہ میں خواہ کسی سے خوش ہوں یا ناراض، ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں۔ جو میرا حق مارے میں اس کا حق ادا کروں۔ جو مجھے محروم کرے میں اسے عطا کروں۔ اور جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کر دوں۔ ایک اور حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو تجھ سے خیانت کرے، تو اس سے خیانت نہ کر۔ (تفہیم القرآن۔ ج 2، ص 456) ۔ ایک طرف یہ اسی ہدایت کی تشریح ہے کہ تم لوگ اپنے طرز عمل کو لوگوں کے طرزِ عمل کا تابع مت بنائو۔ دورے طرف یہ ایک بالغ شخصیت کا کردار ہے جس کا کامل نمونہ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ بات ختم کرنے سے پہلے ذہن میں یہ حقیقت واضح کرلیں کہ جسمانی اور ذہنی بلوغت سے شخصیت (Personality) بالغ نہیں ہوتی۔ بالغ شخصیت (Matured Personality) کے لیے جذباتی بلوغت ضروری ہے۔ (جینے کا سلیقہ حصہ چہارم صفحات 25 تا 37 سے ماخوذ) ۔" "اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا 20؀ۙ [اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ: جب کبھی چھوتی ہے کسی کو برائی][ جَزُوْعًا: تو واویلا کرنے والا ہے]" "وَّاِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا 21؀ۙ [وَاِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ: اور جب کبھی چھوتی ہے کسی کو بھلائی][ مَنُوْعًا: تو بہت کنجوسی کرنے والا ہے]" "اِلَّا الْمُصَلِّيْنَ 22؀ۙ [اِلَّا الْمُصَلِّيْنَ: سوائے ان نماز پڑھنے والوں کے ] اصول یہ ہے کہ جمع میں سے واحد کو مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے لیکن واحد میں سے جمع کو مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اس آیت میں المصلین جمع ہے جس کو الانسان میں سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ الانسان پر لام تعریف نہیں بلکہ لام جلس ہے۔" "الَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَاتِهِمْ دَاۗىِٕمُوْنَ 23 ؀۽ [الَّذِينَ: جو ہیں کہ][ هُمْ عَلٰي صَلَاتِهِمْ: وہ لوگ اپنی نماز پر][ دَاۗىِٕمُوْنَ: ہمیشہ (متوجہ) رہنے والے ہیں]" "وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ 24؀۽ [وَالَّذِينَ فِيْٓ اَمْوَالِهِمْ: اور وہ لوگ جن کے مالوں میں][ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ: ایک معلوم (مقرر کردہ) حق ہے]" "لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ 25؀۽ [لِلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ: مانگنے والے اور محروم کے لیے]" "وَالَّذِيْنَ يُصَدِّقُوْنَ بِيَوْمِ الدِّيْنِ 26؀۽ [وَالَّذِينَ يُصَدِّقُوْنَ: اور وہ لوگ جو تصدیق کرتے ہیں][ بِيَوْمِ الدِّيْنِ: بدلے کے دن کی]" "وَالَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ 27؀ۚ [وَالَّذِينَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِهِمْ: اور وہ جو ہیں کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے][ مُّشْفِقُوْنَ: ڈرنے والے ہیں]" "اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَاْمُوْنٍ 28؀ [اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ: بیشک ان کے رب کا عذاب][ غَيْرُ مَامُوْنٍ: بھروسہ کیا ہوا (کے قابل) نہیں ہے] (آیت۔28) اَمِنَ، یَامَنُ کے معروف معنی ہیں ’’ امن میں ہونا‘‘۔ اس معنی میں یہ فعل لازم ہے جس کا مفعول مَامُوْنٌ نہیں آتا۔ لیکن نوٹ کریں کہ آیت۔2:3 کی لغت میں ہم بتا چکے ہیں کہ اس کے دوسرے معنی ’’ بھروسہ کرنا۔ اعتبار کرنا‘‘ بھی ہیں۔ اس معنی میں یہ متعدی ہے اور مَامُوْنٌ کا لفظ اسی معنٰی میں آتا ہے۔" "وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ 29؀ۙ [وَالَّذِينَ: اور وہ جو ہیں کہ][ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ: وہ لوگ اپنی شرمگاہوں کی][ حٰفِظُوْنَ: حفاظت کرنے والے ہیں]" "اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ 30؀ۚ [اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ: سوائے اپنی بیویوں کے][ اَوْ مَا مَلَكَتْ: یا جن کے مالک ہوئے] [اَيْمَانُهُمْ: ان کے داہنے ہاتھ][فَاِنَّهُمْ: تو بیشک وہ لوگ][ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ: ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں]" "فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ 31؀ۚ [فَمَنِ ابْتَغٰى: پھر جس نے جستجو کی][ وَرَاۗءَ ذٰلِكَ: اس کے علاوہ کی][ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ: تو وہ لوگ ہی حد سے بڑھنے والے ہیں]" "وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ 32؀۽ [وَالَّذِينَ: اور وہ جو ہیں کہ][ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ: وہ لوگ اپنی امانتوں کی][ وَعَهْدِهِمْ: اور اپنے قول و قرار کی][ رٰعُوْنَ: نگرانی کرنے والے ہیں]" "وَالَّذِيْنَ هُمْ بِشَهٰدٰتِهِمْ قَاۗىِٕمُوْنَ 33؀۽ [وَالَّذِينَ: اور وہ جو ہیں کہ][ هُمْ بِشَهٰدٰتِهِمْ: وہ لوگ اپنی گواہیوں پر][ قَاۗىِٕمُوْنَ: ڈٹے رہنے والے ہیں]" "وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ 34؀ۭ [وَالَّذِينَ: اور وہ جو ہیں کہ][ هُمْ عَلٰي صَلَاتِهِمْ: وہ لوگ اپنی نماز پر][ يُحَافِظُوْنَ: مسلسل پہرہ دیتے ہیں]" "اُولٰۗىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ 35؀ۉ [اُولٰۗىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ: وہ لوگ باغوں میں][ مُّكْرَمُوْنَ: عزت دیئے ہوئے ہوں گے] (آیت۔35) جنت حالت جر میں ہے۔ مُکْرَمُوْنَ اگر جَنّٰتٍ کی صفت ہوتا تو صیغہ مؤنث کا ہوتا اور حالت نصب میں ہوتا لیکن یہ حالت رفع میں آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ اُولٰگکَ کی خبر ہے۔" "فَمَالِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا قِبَلَكَ مُهْطِعِيْنَ 36؀ۙ [فَمَا: تو کیا ہے][ لِ الَّذِينَ كَفَرُوْا: ان کے لیے جنھوں نے انکار کیا][ قِبَلَكَ: (آتے ہیں) آپ کی طرف][ مُهْطِعِيْنَ؛لپکنے (ڑھائی کرنے) والے ہوتے ہوئے] ترکیب: (آیت۔36) فَمَالِ میں جو لام ہے یہ حروف جارہ والا لام ہے اور اس کا تعلق فما سے نہیں ہے بلکہ الذین سے ہے۔ اصل عبارت یوں ہے۔ فَمَا لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔ جو کہ حرفِ جار لِ الگ لکھا گیا ہے اس لیے اَلَّذِیْنَ کا ہمزہ الوصل واپس آ گیا ہے۔ اس آیت میں اس کو اس طرح لکھنا قرآن مجید کا مخصوص املا ہے۔ مُھْطِعِیْنَ اسم الفاعل ہے اور حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ نوٹ۔1: سابقہ آیات۔19 تا 35۔ میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس قسم کے لوگوں کو جنت میں جگہ ملے گی۔ قرآن کا یہ فیصلہ سن کر قریش کے مغروروں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ وہ یہ کس طرح سن سکتے تھے کہ محمد ( ﷺ) اور ان کے مفلوک الحال ساتھی تو جنت میں براجمان ہوں گے اور تمام عزتوں اور عظمتوں کے وارث، ساداتِ قریش دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ اس غصہ میں وہ ٹولیاں بنا بنا کر آنحضرت ﷺ کی تردید و توہین کے لیے دائیں بائیں سے آپ پر پل پڑے۔ زیر مطالعہ آیات میں اسی صورت حال کی تصویر اور ان مغروروں کی خود باختگی پر اظہار تعجب ہے۔ (تدبر قرآن) آیت۔38۔ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی جنت تو ان لوگوں کے لیے ہے جن کی صافت ابھی ابھی بیان کی جا چکی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ جو حق بات سننا تک گوارہ نہیں کرتے اور حق کی آواز کو دبانے کے لیے دوڑے چلے آ رہے ہیں، جنت کے امیدوار ہو سکتے ہیں؟ کیا خدا نے اپنی جنت ایسے ہی لوگوں کے لیے بنائی ہے؟ اس مقام پر سورۃ القلم کی آیات۔34 تا 41 پیش نظر رکھنی چاہیں جن میں کفار مکہ کو ان کی اِس بات کا جواب دیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن) نوٹ۔2: آیت۔39۔ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ مضمونِ سابق کے ساتھ اس کا تعلق مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جس مادے سے یہ لوگ بنے ہیں اس کے لحاظ سے تو سب انسان یکساں ہیں۔ اگر وہ مادہ ہی انسان کے جنت میں جانے کا سبب ہو تو نیک و بد، ظالم و عادل، مجرم اور بےگناہ، سب ہی کو جنت میں جانا چاہیے۔ لیکن معمولی عقل ہی یہ فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ جنت کا استحقاق انسان کے مادہ تخلیق کی بنا پر نہیں بلکہ اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہونا چاہیے۔ اور اگر اس فقرے کو بعد کے مضمون کی تمہید سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ہمارے عذاب سے محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ ہم ان کو دنیا میں بھی جب چاہیں عذاب دے سکتے ہیں اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کر کے بھی جب چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔ یہ خود جانتے ہیں کہ نطفہ کی ایک حقیر سی بوند سے ان کی تخلیق کی ابتداء کر کے ہم نے ان کو چلتا پھرتا انسان بنایا ہے۔ اگر اپنی اس تخلیق پر یہ غور کرتے تو انھیں کبھی یہ غلط فہمی لاحق نہ ہوتی کہ ہم انھیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ (تفہیم القرآن) نوٹ۔3: آیت۔40۔ میں اللہ تعایٰ نے خود اپنی ذات کی قسم کھائی ہے۔ مشرقوں اور مغریوں کا لفظ اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ سال کے دوران میں سورج ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع اور نئے زاویہ پر غروب ہوتا ہے۔ نیز زمین کے مختلف حصوں پر سورج الگ الگ اوقات میں پے در پے طلوع اور غروب ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان اعتبارات سے مشرق اور مغرب ایک نہیں ہیں بلکہ بہت سے ہیں۔ ایک دوسرے اعتبار سے شمال اور جنبوب کے مقابلے میں ایک جیت مشرق ہے اور دوسری جیت مغرب ہے۔ اس بنا پر سورۃ شعراء کی آیت۔28 اور سورہ مزمل کی آیت۔19۔ میں رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک اور لحاظ سے زمین کے دو مشرق اور دو مغرب ہیں کیونکہ جب زمین کے ایک نصف کُرے پر سورج غروب ہوتا ہے تو دوسرے پر طلوع ہوتا ہے۔ اس بنا پر سورئہ رحمن کی آیت۔17۔ میں رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَ رَبَّ الْمَغْرِبَیْنِ کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں۔ (تفہیم القرآن) مورخہ 8۔ ربیع الاوّل 1431 ھ بمطابق 23۔ فروری 2010 ء" "عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِيْنَ 37؀ [عَنِ الْيَمِيْنِ: دائیں سے][ وَعَنِ الشِّمَالِ: اور بائیں سے][ عِزِيْنَ: گروہ در گروہ ہوتے ہوئے] ع ز و [عَزْوًا: (ن) منسوب ہونا۔ اپنے آپ کو دوسرے کی طرف منسوب کرنا۔ خواہ یہ سچ ہو یا جھوٹ۔] [ عِزَۃٌ (یہ دراصل عِزَوٌ تھا۔ اس کی واؤ گری ہوئی ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ لام کلمہ کا حرف علّت کسی وجہ سے گراتے ہیں تو اس کی جگہ گول تا لگا دیتے ہیں۔ اس طرح یہ عِزَۃٌ استعمال ہوتا ہے۔ اس کی جمع عِزُوْن۔ عِزِیْنَ، عِزِیْنَ آتی ہے) ۔ اس کے معنی ہیں گروہ یا جماعت۔ لیکن یہ ایسی جماعت کے لیے آتا ہے جس کے افراد بلحاظ نسبت یا بلحاظ مدد و تعاون ایک دوسرے کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ زیر مطالعہ آیت۔37۔]" "اَيَطْمَعُ كُلُّ امْرِۍ مِّنْهُمْ اَنْ يُّدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيْمٍ 38؀ۙ [اَيَطْمَعُ: کیا امید رکھتا ہے][ كُلُّ امْرِۍ مِّنْهُمْ: ہر ایک شخص ان میں سے][ ان يُّدْخَلَ: کہ وہ داخل کیا جائے گا][ جَنَّةَ نَعِيْمٍ: سدا بہاری کے باغ میں]" "كَلَّا ۭ اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّمَّا يَعْلَمُوْنَ 39؀ [كَلَّا ۭ: ہرگز نہیں][ انا خَلَقْنٰهُمْ: بیشک ہم نے پیدا کیا ان کو][ مِّمَا يَعْلَمُوْنَ: اس سے جسے یہ لوگ جانتے ہیں]" "فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ 40؀ۙ [فَلَآ: پس نہیں!][ اُقْسِمُ: میں قسم کھاتا ہوں][ بِرَبِ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ: مشرقوں اور مغربوں کے رب کی][ انا لَقٰدِرُوْنَ: بیشک ہم یقینا قدرت رکھنے والے ہیں]" "عَلٰٓي اَنْ نُّبَدِّلَ خَيْرًا مِّنْهُمْ ۙ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِيْنَ 41؀ [عَلٰٓي ان نُّبَدِّلَ: اس پر کہ ہم تبدیل کر دیں (ان کو)][ خَيْرًا مِّنْهُمْ ۙ: ان سے بہتر سے][ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِيْنَ: اور ہم عاجز کیے ہوئے نہیں ہیں]" "فَذَرْهُمْ يَخُوْضُوْا وَيَلْعَبُوْا حَتّٰى يُلٰقُوْا يَوْمَهُمُ الَّذِيْ يُوْعَدُوْنَ 42؀ۙ [فَذَرْهُمْ: تو آپ چھوڑ دیں ان کو][ يَخُوْضُوْا وَيَلْعَبُوْا: وہ بےپر کی اڑائیں اور کھیلیں کودیں][ حَتّٰى يُلٰقُوْا: یہاں تک کہ وہ ملاقات کریں][ يَوْمَهُمُ الَّذِي: اپنے اس دن سے جس کا][ يُوْعَدُوْنَ: ان سے وعدہ کیا جاتا ہے] (آیت۔42) ۔ فَذَرْھُمْ میں زَرْ فعل امر ہے۔ اس کا جواب امر ہونے کی وجہ سے یَخُوْضُوْا اور یَلْعَبُوْا مضارع مجزوم ہیں، جبکہ حتیٰ کی وجہ سے یُلٰقُوْا مضارع منصوب ہے۔" "يَوْمَ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ يُّوْفِضُوْنَ 43؀ۙ [يَوْمَ يَخْرُجونَ: جس دن وہ لوگ نکلیں گے][ مِنَ الْاَجْدَاثِ: قبروں سے][ سِرَاعًا: ایک دوسرے پر جلدی کرتے ہوئے][كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ: جیسے کہ وہ لوگ کسی استھان کی طرف][ يُّوْفِضُوْنَ: بھاگتے ہوں گے]" "خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۭ ذٰلِكَ الْيَوْمُ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ 44؀ۧ [خَاشِعَةً: جھکنے والی ہوں گی][ اَبْصَارُهُمْ: ان کی آنکھیں][ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۭ: چھا جائے گی ان پر ذلت][ ذٰلِكَ الْيَوْمُ: یہ دن ][ الَّذِي: وہ ہے جس کا][ كَانوْا يُوْعَدُوْنَ: ان سے وعدہ کیا جاتا تھا] و ف ض ثلاثی مجرد سے فعل نہیں آتا۔ [اِیْفَاضًا: (افعال) تیز چلنا، دوڑنا، زیر مطالعہ آیت۔44۔] (آیت۔44) حَاشِعَۃً اسم الفاعل ہے اور حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔" "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ " "اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖٓ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ Ǻ۝ [اِنَّآ اَرْسَلْنَا: بیشک ہم نے بھیجا] [نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖٓ: نوح کو ان کی قوم کی طرف] [اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ: کہ آپ خبردار کریں اپنی قوم کو] [مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَهُمْ: اس سے پہلے کہ پہنچے ان کے پاس] [عَذَابٌ اَلِيْمٌ: ایک دردناک عذاب]" "قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّىْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ Ą۝ۙ [قَالَ يٰقَوْمِ: انھوں نے کہا اے میری قوم] [اِنِّىْ لَكُمْ: بیشک میں تمھارے لیے] [نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ: ایک واضح خبردار کرنے والا ہوں]" "اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّقُوْهُ وَاَطِيْعُوْنِ Ǽ۝ۙ [اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ: کہ تم لوگ بندگی کرو اللہ کی] [وَاتَّقُوْهُ: اور تقوٰی اختیار کرو اس کا] [وَاَطِيْعُوْنِ: اور اطاعت کرو میری] ترکیب: (آیت۔3۔4) اُعْبُدُوْا، اِتَّقُوْا، اَطِیْعُوْا، فعل امر ہیں۔ ان کا جواب امر ہونے کی وجہ سے یَغْفِرْ اور یُؤَخِّرْ مجزوم ہوئے ہیں۔" "يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ Ć۝ [يَغْفِرْ لَكُمْ: تو وہ بخش دے گا تمھارے لیے] [مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ: تمھارے گناہوں میں سے] [وَيُؤَخِّرْكُمْ: اور وہ پیچھے کرے گا (مہلت دے گا) تم کو] [اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى: ایک مقررہ مدت تک] [اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ: بیشک اللہ کا (مقرر کردہ) وقت] [اِذَا جَاۗءَ: جب آ جائے] [لَا يُؤَخَّرُ: تو وہ مؤخر نہیں کیا جاتا] [لَوْ كُنْتم تَعْلَمُوْنَ: کاش تم لوگ جانتے] نوٹ۔2: آیت۔4۔ میں حضرت نوح کی دعوت کے تین بنیادی ارکان بیان ہوتے ہیں، توحید، شریعتِ الٰہی کی پابندی اور رسول کی اطاعت۔ انہی تین ارکان پر تمام رسولوں کی دعوت مبنی رہی ہے۔ اس حوالہ سے آگے آیت۔4۔ میں فرمایا کہ اگر تم نے میری یہ تینوں باتیں مان لیں تو اللہ تعالیٰ تمھارے ان جرائم کو معاف کر دے گا جن کے سبب سے تم عذاب کے مستحق قرار پائے ہو اور ایک معین مدت تک کے لیے تم کو اس دنیا میں رہنے بسنے کی مہلت مل جائے گی۔ یہاں لفظ من اپنے معروف معنیٰ یعنی تبعیض ہی کے لیے آیا ہے پوری بات گویا یوں ہے کہ اگر تم میری باتیں مان لو گے تو اللہ تمھارے وہ سارے گناہ معاف کر دے گا جو اب تک تم سے صادر ہوئے ہیں، یہ بات معلوم بھی ہے اور معقول بھی کہ کفر کے بعد ایمان کی زندگی اختیار کرنے سے آدمی کے وہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں جو کفر کی زندگی میں اس سے صادر ہوئے ہوتے ہیں۔ رہے وہ گناہ جن کا ارتکاب آدمی ایمان کی زندگی اختیار کرنے کے بعد کرتا ہے، تو ان کے معاف ہونے کے لیے ایک ضابطہ ہے جو سورئہ نساء کی آیت۔17۔ میں بیان ہوا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے۔ ’’ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ توبہ (قبول کرنا) اللہ پر ان لوگوں کے لیے ہے جو برا کام کرتے ہیں نادانی میں پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں۔ تو یہ لوگ ہیں اللہ جن کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ اس آیت میں لفظ مِنْ اسی حقیقت کے اظہار کے لیے آیا ہے۔ اگر یہ مِنْ یہاں نہ ہوتا تو آیت کے یہ معنی بھی نکل سکتے تھے کہ تمھارے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ کفر کے بعد ایمان صرف پچھلے گناہوں کو گرانے والا بنتا ہے، آگے کے گناہوں کا گرانے والا نہیں بنتا۔ (تدبر قرآن) حرف مِنْ اکثر تبعیض کے لیے آتا ہے۔ اگر یہ معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے سے تمھارے وہ گناہ معاف ہو جائیں گے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ کیونکہ حقوق العباد کی معافی کے لیے ایمان لانے کے بعد بھی یہ شرط ہے کہ جو حقوق ادائیگی کے قابل ہیں ان کو ادا کرے، جیسے مالی واجبات وغیرہ اور جو قابل ادائیگی نہیں‘ جیسے زبان یا ہاتھ سے کسی کو ایذا پہنچانا، تو ان کو معاف کرائے۔ حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ ایمان لانے سے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اس میں بھی حقوق العباد کی ادائیگی یا معانی شرط ہے۔ (معارف القرآن) نوٹ۔3: وَیُؤَخِّرْکُمْ اِلیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی کا مطلب یہ ہے کہ تم ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ تمھیں اس مدت تک دنیا میں مہلت دے گا جو تمھارے لیے مقرر ہے۔ اس کا حاصل یہ ہوا کہ اگر ایمان نہ لائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ مدت مقررہ سے پہلے ہی تم پر عذاب لا کر ہلاک کر دے۔ معلوم ہوا کہ عمر کی مدت مقررہ میں بعض اوقات کوئی شرط ہوتی ہے کہ اس نے فلاں کام کرلیا تو اس کی عمر اتنی ہوگی اور نہ کیا تو اتنی کم کر دی جائے گی۔ اللہ کی ناشکری سے عمر گھٹ جانا اور شکر گزاری سے عمر بڑھ جانا ، اسی طرح بعض اعمال مثلا والدین کی اطاعت و خدمت سے عمر میں ترقی ہونا جو احادیث سے ثابت ہے، اس کا یہی مطلب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قضائے الٰہی کو کوئی چیز بجز دعا کے نہیں روک سکتی اور کسی کی عمر میں زیادتی بجز برّ والدین کے نہیں ہو سکتی۔ برّ کے معنی ان کے ساتھ اچھا سلوک ہے اور اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ تقدیر معلق میں ان اعمال کی وجہ سے تبدیلی ہو سکتی ہے۔ اس کی تشریح تفسیر مظہری میں یہ ہے کہ تقدیر اور قضائے الٰہی کی دو قسمیں ہیں، ایک مُبرم یعنی قطعی اور دوسری معلق یعنی جو کسی شرط پر معلق ہو۔ قرآن کریم میں ان دونوں قسم کی قضا و تقدیر کا ذکر سورۃ الرعد کی آیت۔39۔ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ لوحِ محفوظ میں ترمیم و تبدیل کرتا رہتا ہے اور اللہ کے پاس اصل کتاب ہے۔ اس سے مراد وہ کتاب ہے جس میں تقدیر مُبرم لکھی ہوئی ہے۔ (معارف القرآن)" "قَالَ رَبِّ اِنِّىْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ لَيْلًا وَّنَهَارًا Ĉ۝ۙ [قَالَ رَبِّ: انھوں نے کہا اے میرے رب] [اِنِّىْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ: بیشک میں نے بلایا اپنی قوم کو] [لَيْلًا وَّنَهَارًا: رات میں اور دن میں] (آیت۔5) لَیْلًا اور نَھَارًا ظرف ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں۔" "فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَاۗءِيْٓ اِلَّا فِرَارًا Č۝ [فَلَمْ يَزِدْهُمْ: تو زیادہ نہیں کیا ان کو] [دُعَاۗءِيْٓ: میرے بلانے نے] [اِلَّا فِرَارًا: سوائے بھاگنے کے] (آیت۔6) لَمْ یَزِدْ کا فاعل دُعَائِ ْی ہے اور اس کا مفعول ھُمْ کی ضمیر ہے۔ جبکہ فِرَ ارًا کی نصب تمیز ہونے کی وجہ سے ہے۔" "وَاِنِّىْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَهُمْ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا Ċ۝ۚ [وَاِنِّىْ كُلَّمَا: اور بیشک میں نے جب بھی] [دَعَوْتُهُمْ: بلایا ان کو ] [لِتَغْفِرَ لَهُمْ: تاکہ تو بخش دے ان کے لیے (ان کے گناہ)] [جَعَلُوْٓا اَصَابِعَهُمْ: تو وہ رکھ لیتے ہیں اپنی انگلیاں] [فِيْٓ اٰذَانهِمْ: اپنے کانوں میں] [وَاسْتَغْشَوْا: اور خود کو ڈھانپتے ہیں] [ثِيَابَهُمْ: اپنے کپڑوں سے] [وَاَصَرُّوْا: اور اڑ جاتے ہیں] [وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا: اور بڑائی چاہتے ہیں جیسے بڑائی کا حق ہے] (آیت۔7) کُلَّمَا شرط ہے اس لیے اس کے آگے آنے والے افعال ماضی کا ترجمہ حال میں ہو گا۔ اِسْتِکْبَارًا کی نصب مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے ہے۔" "ثُمَّ اِنِّىْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا Ď۝ۙ [ثُمَّ اِنِّىْ دَعَوْتُهُمْ: پھر بیشک میں نے بلایا ان کو] [جِهَارًا: آواز بلند کرتے ہوئے] (آیت۔8) جِھَارًا حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔" "ثُمَّ اِنِّىْٓ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَاَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًا Ḍ۝ۙ [ثُمَّ اِنِّىْٓ اَعْلَنْتُ لَهُمْ: پھر بیشک میں نے اعلان کیا ان کے لیے] [وَاَسْرَرْتُ لَهُمْ: اور میں نے چپکے سے کہا ان سے] [اِسْرَارًا: جیسے چپکے سے کہتے ہیں] (آیت۔9) اِسْرَارًا مفعول مطلق ہے۔" "فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا 10۝ۙ [فَقُلْتُ: تو میں نے کہا] [اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ: تم لوگ مغفرت مانگو اپنے رب سے] [اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا: بیشک وہ بہت بخشنے والا ہے] (آیت۔10) کَانَ کی خبر ہونے کی وجہ سے غَفَّارًا حالت نصب میں ہے۔ کَانَ کا ترجمہ حال میں ہو گا کیونکہ یہ آفاقی صداقت کا بیان ہے (دیکھیں آیت ۔2:49 نوٹ۔2) نوٹ۔4: آیت۔10 تا 12۔ جو بات کہی گئی ہے کہ اللہ سے مغفرت کے طلبگار بنو تو اللہ تعالیٰ تمھیں معیشت اور افرادی قوت کی فراوانی عطا فرمائے گا، یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ مثلاً المائدہ۔66، الاعراف۔96، ھود۔3۔52، طٰہٰ۔124۔ وغیرہ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا سے بغاوت کی روش صرف آخرت میں ہی نہیں، دنیا میں بھی انسان کی زندگی تنگ کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی قوم ایمان و تقوٰی اور احکام الٰہی کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرلے تو یہ آخرت ہی میں نافع نہیں بلکہ دنیا میں بھی اس پر نعمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ قرآن مجید کی اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک مرتبہ قحط کے موقع پر حضرت عمر بارش کی دعا کرنے کے لیے نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے بارش کے لیے تو دعا کی ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے آسمان کے ان دروازوں کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے اور پھر سورہ نوح کی یہ آیات پڑھ کر لوگوں کو سنا دیں۔ (تفہیم القرآن)" "يُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا 11۝ۙ [يُّرْسِلِ: (مغفرت مانگو گے) تو وہ بھیجے گا] [السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ: آسمان کو تم لوگوں پر] [مِّدْرَارًا: لگاتار برسنے والا ہوتے ہوئے] (آیت۔11) یُرْسِلِ میں لام کی کسرہ بتا رہی ہے کہ یہ مضارع مجزوم ہے اور سابقہ آیت میں فعل امر اِسْتَغْفِرُوْا کا جواب امر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے۔ اس کا مفعول اَلسَّمَاءَ ہے اور مِدْرَارًا حال ہے۔" "وَّيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّيَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا 12۝ۭ [وَّيُمْدِدْكُمْ: اور وہ اعانت کرے گا تمھاری] [بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ: اموال (معیشت) سے اور بیٹوں (افرادی قوت) سے] [وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنّٰتٍ: اور وہ بنائے گا تمھارے لیے کچھ باغات] [وَّيَجْعَلْ لَكُمْ انهٰرًا: اور بنائے گا تمھارے لیے کچھ نہریں] (آیت۔12) یُمْدِدْ اور یَجْعَلْ بھی سابقہ فعل امر اِسْتَغْفِرُوْا کا جواب امر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہیں جبکہ جَنّٰتٍ اور اَنْھٰرًا مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں۔" "مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا 13؀ۚ [مَا لَكُمْ: تم لوگوں کو کیا ہوا ہے] [لَا تَرْجونَ للّٰهِ: (کہ) تم لوگ امید نہیں رکھتے اللہ سے ] [وَقَارًا: کسی عظمت کی] (آیت۔13) تَرْجُوْنَ کا مفعول وَقَارًا ہے۔ نوٹ۔5: آیت۔13۔14۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بڑائی سے امید رکھنا چاہیے کہ اس کی فرمانبرداری کرو گے تو تم کو عزت و وقار عنایت فرمائے گا۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کی بڑائی کا اعتقاد کیوں نہیں رکھتے اور اس کی عظمت و جلال سے ڈرتے کیوں نہیں۔ (حالانکہ تمھارا اپنا وجود اس کی عظمت کی علامت کے طور پر کافی ہے) ۔ ماں کے پیٹ میں تم نے طرح طرح کے رنگ بدلے۔ اور اصلی مادے سے لے کر موت تک آدمی کتنی پلٹیاں کھاتا ہے، کتنے اطوار و ادوار اور اتار چڑھائو سے گزرتا ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند)" "وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا 14؀ [وَقَدْ خَلَقَكُمْ: حالانکہ اس نے پیدا کیا ہے تم لوگوں کو] [اَطْوَارًا: مختلف حالتوں پر ہوتے ہوئے] (آیت۔14) اَطْوَارًا حال ہے۔ نوٹ۔1: سابقہ سورہ۔ المعارج۔ میں عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کو جواب اور پیغمبر ﷺ کو صبر و انتظار کی تلقین ہے۔ اس سورہ میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کے مراحل، ان کے طویل صبر و انتظار اور بالآخر ان کی قوم کے مبتلائے عذاب ہونے کی سرگزشت اختصار کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور اس سے مقصود آنحضرت ﷺ اور آپؐ کی قوم کے سامنے ایک ایسا آئینہ رکھ دینا ہے جس میں آپؐ بھی دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کو اپنی آخری منزل تک پہنچنے کے لیے صبر و انتظار کے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، ساتھ ہی آپؐ کی قوم بھی دیکھ لے کہ اللہ تعالیٰ جلد بازوں کو ان کی جلد بازی اور طنز و طعن کے باوجود ڈھیل دیتا ہے لیکن بالآخر پکڑتا ہے اور جب پکڑتا ہے تو کوئی چھڑانے والا نہیں ہوتا۔ (تدبر قرآن)" "اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا 15؀ۙ [اَلَمْ تَرَوْا: کیا تم لوگوں نے غور ہی نہیں کیا] [كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ: کیسے پیدا کیا اللہ نے] [سَبْعَ سَمٰوٰتٍ: سات آسمانوں کو] [طِبَاقًا: تہہ در تہہ ہوتے ہوئے] نوٹ۔1: آیات۔15۔16۔ میں آسمان اور اس کی نشانیوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد آیات۔17۔18۔ میں زمین کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سب سے پہلے زمین کی سب سے اشرف مخلوق یعنی انسان کو لیا ہے۔ فرمایا کہ اللہ نے تمھیں زمین سے اگایا اور اگانے کے بعد پھر اسی میں تمھیں مرنے کے بعد لوٹا دیتا ہے۔ اور پھر اسی سے تمھیں ایک دن نکالے گا۔ یہ قرآن کی بلاغت کا اعجاز ہے کہ اس آیت میں جو دعوٰی ہے وہی اس دعوے کی نہایت واضح دلیل بھی ہے۔ اس کے مفہوم کو کھول دیجیے، تو بات یوں ہوگی کہ جس طرح زمین سے سبزہ اگتا ہے، اسی طرح اللہ نے تمھیں بھی اسی زمین سے اگایا ہے۔ اور جس طرح زمین سے اگنے والی چیزیں فنا ہو کر زمین میں مل جاتی ہیں، اسی طرح تم بھی مر کر زمین میں مٹی بن جاتے ہو۔ پھر جس طرح تم دیکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے فنا شدہ سبزوں کو از سر نو زندہ کر دیتاہے اسی طرح جب چاہے گا تمھیں بھی بغیر کسی زحمت کے اٹھا کھڑا کرے گا۔ (تدبر قرآن)" "وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا 16؀ [وَّجَعَلَ الْقَمَرَ: اور اس نے بنایا چاند کو] [فِيْ هِنَّ نُوْرًا: ان (آسمانوں) میں ایک نور ہوتے ہوئے] [وَّجَعَلَ الشَّمْسَ: اور اس نے بنایا سورج کو] [سِرَاجًا: ایک چراغ ہوتے ہوئے] ترکیب: (آیت۔16) فَعَلَ کے دو مفعول آتے ہیں۔ اس لحاظ سے نُوْرًا اور سِرَاجًا کو اس کا مفعول ثانی بھی مانا جا سکتا ہے اور علی الترتیب اَلْقَمَرَ اور الشَّمْسَ کا حال بھی مانا جا سکتا ہے۔ دونوں ترجمے درست مانے جائیں گے۔ ہم انھیں حال ماننے کو ترجیح دیں گے۔" "وَاللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا 17؀ۙ [وَاللّٰهُ انۢبَتَكُمْ: اور اللہ نے اگایا تم لوگوں کو] [مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا: زمین سے جیسے اگانے کا حق ہے] (آیت۔17) اَنْبَتَ باب افعال ہے۔ اس کا مصدر اِنْبَاتًا ہے، لیکن یہاں مفعول مطلق کے طور پر اِنْبَاتًاکے بجائے ثلاثی مجرد کا مصدر نَبَاتًا آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابواب مزید فیہ کے افعال کا مفعول مطلق اسی باب کے مصدر سے بھی آ سکتا ہے اور ثلاثی مجرد کے مصدر سے بھی۔" "ثُمَّ يُعِيْدُكُمْ فِيْهَا وَيُخْرِجُكُمْ اِخْرَاجًا 18؀ [ثُمَّ يُعِيْدُكُمْ: پھر وہ واپس لے جائے گا تم لوگوں کو] [فِيْهَا: اس (زمین) میں] [وَيُخْرِجُكُمْ: اور وہ نکالے گا تم کو] [اِخْرَاجًا: جیسے نکالنے کا حق ہے] (آیت۔18) یہاں یُخْرِجُ بھی باب افعال ہے اور اس کا مفعول مطلق اسی باب کے مصدر اِخْرَاجًا سے ہی آیا ہے۔" "وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا 19؀ۙ [وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ: اور اللہ نے بنایا تمھارے لیے زمین کو] [بِسَاطًا: ایک بچھونا ہوتے ہوئے] (آیت۔19) یہاں بھی ہم بِسَاطًا کو جَعَلَ کا مفعول ثانی ماننے کے بجائے اسے اَلْاَرْضَ کا حال ماننے کو ترجیح دیں گے۔" "لِّتَسْلُكُوْا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا 20؀ۧ [لِتَسْلُكُوْا مِنْهَا: تاکہ تم لوگ چلو اس (زمین) میں سے] [سُبُلًا فِجَاجًا: کشادہ راستوں پر]" "قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّهُمْ عَصَوْنِيْ وَاتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهٗ وَوَلَدُهٗٓ اِلَّا خَسَارًا 21؀ۚ [قَالَ نُوْحٌ رَّبِ: کہا نوحؑ نے اے میرے رب] [انهُمْ عَصَوْنِيْ: بیشک ان لوگوں نے نافرمانی کی میری] [وَاتَّبَعُوْا مَنْ: اور پیروی کی ان (سرداروں) کی] [لَمْ يَزِدْهُ: زیادہ نہیں کیا جن کو] [مَالُهٗ وَوَلَدُهٗٓ: ان کے مال اور ان کی اولاد نے] [اِلَّا خَسَارًا: مگر بلحاظ خسارے کے] (آیت۔21) لَمْ یَزِدْہُ کی ضمیر ہٗ دراصل مَنْ کی ضمیر عائد ہے۔ مَالُہٗ اور وَلَدُہٗ لَمْ یَزِدْ کے فاعل ہیں جبکہ خَسَارًا تمیز ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے، یہ بات ہم پڑھ چکے ہیں کہ مَنْ کا لفظ اصلا واحد ہے لیکن یہ واحد، تثنیہ، جمع، مذکر مؤنث سب کے لیے آتا ہے۔ اس آیت میں مَنْ جمع کے معنی میں ہے، البتہ لفظی رعایت کے تحت مَالُہٗ اور وَلَدُہٗ کے ساتھ واحد ضمیریں آئی ہیں، جبکہ معنوی رعایت کے تحت آگے کی آیات میں مَکَرُوْا۔ قَالُوْا۔ قَدْاَ ضَلُّوْا، سب جمع کے صیغے آئے ہیں۔ ان میں شامل ھُمْ کی فاعلی ضمیریں اسی مَنْ کے لیے ہیں۔ کیونکہ نوحؑ کی قوم نے انؑ کی نافرمانی کرنے میں کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ قوم کے سرداروں کی پیروی کی تھی۔" "وَمَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًا 22؀ۚ [وَمَكَرُوْا: اور ان لوگوں (سرداروں) نے چال چلی] [مَكْرًا كُبَّارًا: جیسے کوئی زبردست چال چلنے کا حق ہے]" "وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ڏ وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا 23؀ۚ [وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ: اور انھوں نے کہا تم لوگ ہرگز مت چھوڑنا اپنے خدائوں کو] [وَلَا تَذَرُنَّ: اور تم لوگ ہرگز مت چھوڑنا] [وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ڏ وَّلَا يَغُوْثَ: ودّ کو اور نہ سواع کو اور نہ یغوث کو] [وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا: اور (نہ ہی) یعوق اور نسر کو] نوٹ۔2: آیت۔23۔ میں جن پانچ بتوں کا ذکر ہے ان کے متعلق امام بغوی نے نقل کیا ہے کہ یہ پانچوں دراصل اللہ کے نیک و صالح بندے تھے جو حضرت آدمؑ اور حضرت نوحؑ کے درمیانی زمانے میں گزرے تھے۔ بہت سے لوگ ان کے معتقد اور پیروکار تھے اور عرصہ دراز تک لوگوں نے انھیں کے نقش قدم پر عبادت اور اللہ کے احکام کی اطاعت جاری رکھی۔ پھر شیطان نے ان کو سمجھایا کہ تم اپنے جن بزرگوں کی پیروی کرتے ہوئے عبادت کرتے ہو، اگر عبادت کے وقت ان کی تصویریں سامنے رکھ لیا کرو تو تمھاری عبادت بڑی مکمل ہو جائے گی اور تم کو خشوع و خضوع حاصل ہو گا۔ لوگ اس کے فریب میں آ گئے اور بزرگوں کے مجسمے بنا کر عبادت گاہ میں رکھنے لگے۔ مجسموں کو دیکھ کر بزرگوں کی یاد تازہ ہو جانے سے ایک خاص کیفیت محسوس کرنے لگے، یہاں تک کہ اسی حال میں یہ لوگ یکے بعد دیگرے مر گئے۔ جب نئی نسل نے ان کی جگہ لی تو شیطان نے ان کو یہ پڑھایا کہ تمھارے بزرگوں کے خدا اور معبود یہی بت تھے اور وہ انہی کی عبادت کرتے تھے۔ یہاں سے بت پرستی شروع ہو گئی۔ (معارف القرآن)" "وَقَدْ اَضَلُّوْا كَثِيْرًا ڬ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا ضَلٰلًا 24؀ [وَقَدْ اَضَلُّوْا: اور انھوں (سرداروں) نے گمراہ کیا ہے] [كَثِيْرًا: بہتوں کو] [وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيْنَ: اور تو زیادہ مت کر ظلم کرنے والوں کو] [اِلَّا ضَلٰلًا: مگر بلحاظ گمراہی کے]" "مِمَّا خَطِيْۗـــٰٔــتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ڏ فَلَمْ يَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا 25؀ [مِمَا: اس (سبب) سے جو] [خَطِيْۗـــٰٔــتِهِمْ: ان کی خطائیں تھیں] [اُغْرِقُوْا: ان کو غرق کیا گیا] [فَاُدْخِلُوْا نَارًا: پھر ان کو داخل کیا گیا ایک آگ میں] [فَلَمْ يَجِدُوْا لَهُمْ: پھر انھوں نے نہیں پایا اپنے لیے] [مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے علاوہ] [انصَارًا: کچھ (دوسرے) مدد کرنے والے] نوٹ۔3: آیت۔25۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی خطائوں ، کفرو شرک کی وجہ سے پانی میں غرق کیے گئے تو آگ میں داخل ہو گئے۔ یہ متضاد عذاب کہ ڈوبے پانی میں اور نکلے آگ میں، حق تعالیٰ کی قدرت سے کیا بعید ہے اور ظاہر ہے کہ یہاں جہنم کی آگ تو مراد نہیں ہے کیونکہ اس میں داخلہ تو قیامت کے حساب کتاب کے بعد ہو گا۔ یہ برزخی آگ ہے جس میں داخل ہونے کی قرآن کریم نے خبر دی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ عالم برزخ میں رہنے کے زمانے میں بھی مردوں پر عذاب ہو گا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ جب قبر میں بدعمل کو عذاب ہو گا تو نیک عمل والوں کو ثواب اور نعمت بھی ملے گی۔ احادیث متواترہ میں قبر کے اندر عذاب و ثواب ہونے کا بیان اس کثرت اور وضاحت سے آیا ہے کہ انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے اس پر امت کا اجماع ہے۔ (معارف القرآن)" "وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا 26؀ [وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِ: اور کہا نوحؑ نے اے میرے رب] [لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ: تو مت چھوڑ زمین پر] [مِنَ الْكٰفِرِيْنَ: کافروں میں سے (کسی کو)] [دَيَّارًا: رہتا بستا ہوا] (آیت۔26) ۔ دَیَّارٌکا لفظ فَعَّالُ کے وزن پر نہیں ہے۔ کیونکہ اس وزن پر لفظ دَوَّارٌ بنے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دراصل فَیْعَالٌ کے وزن پر ہے۔ اس وزن پر اصلی شکل دَیْوَارٌ بنتی ہے۔ پھر واو ، یا میں تبدیل ہو کر سابقہ یا میں مدغم ہوتی ہے تو دَیَّارٌ استعمال ہوتا ہے۔" "اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا 27؀ [انكَ ان تَذَرْهُمْ: بیشک اگر تو نے چھوڑا ان کو] [يُضِلُّوْا عِبَادَكَ: تو وہ گمراہ کریں گے تیرے بندوں کو] [وَلَا يَلِدُوْٓا: اور نہیں جنیں گے] [اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا: مگر نافرمانی کرنے والا بڑا ہی ناشکرا]" "رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ۭ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا تَبَارًا 28؀ۧ [رَبِ اغْفِرْ لِيْ: اے میرے رب تو بخش دے میرے لیے] [وَلِوَالِدَيَّ: اور میرے والدین کے لیے] [وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ: اور اس کے لیے جو داخل ہوا میرے گھر میں] [مُؤْمِنًا: ایمان لانے والا ہوتے ہوئے] [وَّلِلْمُؤْمِنِيْنَ: اور ایمان لانے والوں] [وَالْمُؤْمِنٰتِ: اور ایمان لانے والیوں کے لئے (گناہوں کو)] [وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيْنَ: اور تو زیادہ مت کر ظالموں کو] [اِلَّا تَبَارًا: مگر بلحاظ بربادی کے]" "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ " "قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا Ǻ۝ۙ [قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ: آپؐ کہیے وحی کیا گیا میری طرف] [انهُ: کہ حقیقت یہ ہے کہ] [اسْتمعَ نَفَرٌ: دھیان سے سنا ایک ایسی ٹولی نے جو] [مِّنَ الْجِنِّ: جنوں میں سے تھی] [فَقَالُوْٓا انا سَمِعْنَا: پھر انھوں نے کہا بیشک ہم نے سنا] [قُرْاٰنًا عَجبا: ایک عجیب پڑھی جانے والی چیز] ترکیب: آیات۔1۔3۔4۔6۔ میں اَنَّہٗ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان ضمیروں کا کوئی مرجع نہیں ہے، اس لیے یہ سب ضمیر الشان ہیں۔ دیکھیں آیت۔2:85، نوٹ۔1۔ (آیت۔1) یہاں پر لفظ قُرْاٰنًا، کلام اللہ کے اسم علم کے طور پر نہیں بلکہ اپنے لغوی معنی میں آیا ہے، دیکھیں آیت۔2:185۔ مادہ ’’ ق ر ئ‘‘ ۔" "يَّهْدِيْٓ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ ۭ وَلَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا Ą۝ۙ [يَّهْدِيْٓ اِلَى الرُّشْدِ: جو ہدایت دیتی ہے نیک راہ کی طرف] [فَاٰمَنَا بِهٖ: تو ہم ایمان لائے اس پر] [وَلَنْ نُّشْرِكَ: اور ہم ہرگز شریک نہیں کریں گے] [بِرَبِنَآ اَحَدًا: اپنے رب کے ساتھ کسی ایک کو (بھی)]" "وَّاَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّلَا وَلَدًا Ǽ۝ۙ [وَّانهٗ: اور یہ کہ حقیقت یہ ہے کہ] [تَعٰلٰى جَدُّ رَبِنَا: بلند ہوئی ہمارے رب کی عظمت] [مَا اتَّخَذَ: اس نے نہیں بنایا] [صَاحِبَةً: کوئی ساتھی (بیوی)] [وَّلَا وَلَدًا: اور نہ کوئی اولاد]" "وَّاَنَّهٗ كَانَ يَقُوْلُ سَفِيْهُنَا عَلَي اللّٰهِ شَطَطًا Ć۝ۙ [وَّانهٗ: اور یہ کہ سچ یہ ہے کہ] [كَان يَقُوْلُ: کہا کرتا تھا] [سَفِيْهُنَا: ہم میں کا بیوقوف (سردار)] [عَلَي اللّٰهِ: اللہ پر (باتیں)] [شَطَطًا: حد سے گزرتے ہوئے] نوٹ۔2: آیات۔4۔5۔ سے مراد یہ ہے کہ ایمان لانے والے جنات نے اب تک شرک و کفر میں مبتلا رہنے کا عذر یہ بیان کیا کہ ہماری قوم کے بےو قوف لوگ اللہ تعالیٰ کی شان میں بےسروپا باتیں کیا کرتے اور ہمیں یہ گمان نہ تھا کہ کوئی انسان یا جن اللہ کی طرف جھوٹی بات کی نسبت کرسکتا ہے اس لیے ان بےوقوفوں کی باتوں میں آ کر آج تک ہم کفرو شرک میں مبتلا تھے۔ اب قرآن سنا تو حقیقت کھلی۔ (معارف القرآن) ان آیات سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ جنات عوام کے طبقہ سے تھے’ ان کے سردار جس ڈگر پر ان کو چلاتے رہے، اس پر وہ چلتے رہے۔ لیکن جب حقیقت ان پر واضح ہو گئی تو انھوں نے ان کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردنوں سے نکال پھینکا اور اللہ کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم پر چل پڑے۔ آنحضرت ﷺ کے واسطہ سے قریش کے عوام کو یہ باتیں اس لیے سنائی گئیں کہ ان کے اندر بھی اپنے احمق لیڈروں کے پھندے سے نکلنے اور اپنی عقل و بصیرت پر اعتماد کرنے کا حوصلہ پیدا ہو۔ (تدبر قرآن) نوٹ۔3: عربی لغت میں لفظ سَمَائٌ جس طرح آسمان کے لیے بولا جاتا ہے اسی طرح بادل پر بھی لفظ سَمَائٌ کا اطلاق عام اور معروف ہے۔ آیت۔8۔ میں بظاہر سَمَائٌ سے مراد یہی بادل ہے۔ اور جنات لوگوں کا آسمانی خبریں سننے کے لیے آسمان تک جانے کا مطلب یہی ہے کہ وہ بادلوں تک جاتے تھے اور وہاں سے آسمانی خبریں سنتے تھے۔ اس کی دلیل حضرت عائشہ (رض) کی حدیث ہے۔ آپ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ فرشتے عنان سماء میں اترتے ہیں جس کے معنیٰ بادل کے ہیں۔ وہاں وہ ان فیصلوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آسمان میں جاری فرمائے ہیں۔ یہاں سے شیاطین یہ خبریں چراتے ہیں اور سن کر کاہنوں کے پاس لاتے ہیں اور اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا کر ان کو بتاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے شیاطین کا آسمانی خبریں سن کر کاہنوں تک پہنچانے کا سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری تھا مگر رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت آسمانی وحی کی حفاظت کے لیے اس سلسلہ کو اس طرح بند کردیا گیا کہ جب کوئی شیطان خبریں سننے کے لیے اوپر آتا تو اس کی طرف شہاب ثاقب کا انگارہ پھینک کر اس کو دفع کردیا جاتا ہے۔ یہی وہ نیا حادثہ تھا جس کو تحقیق حال کے لیے دنیا کی مشرق و مغرب میں جنوں نے وفود بھیجے پھر مقام نخلہ میں رسول اللہ ﷺ سے قرآن سن کر جنوں کے ایک وفد کا ایمان لانا اس سورہ میں ذکر فرمایا گیا۔ یہاں یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ شہاب ثاقب جس کو عرفِ عام میں ستارہ ٹوٹنا کہتے ہیں، یہ تو دنیا میں قدیم زمانے سے ہوتا آیا ہے، جب کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عہد نبوی کی خصوصیت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شہابِ ثاقب کا وجود تو ابتداء عالم سے ہے مگر اس آتشیں مادہ سے شیاطین کو دفع کرنے کا کام رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے شروع ہوا اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جتنے شہاب ثاقب نظر آتے ہیں، سب سے ہی یہ کام لیا جاتا ہو۔ (معارف القرآن)" "وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا Ĉ۝ۙ [وَّانا ظَنَنَآ: اور یہ کہ ہم نے گمان کیا] [ان لَّنْ تَقُوْلَ: کہ ہرگز نہیں کہیں گے] [الْانسُ وَالْجِنُّ: انسان اور جن] [عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا: اللہ پر کوئی جھوٹ] (آیت۔5) یہاں تَقُوْلَ واحد مؤنث کا صیغہ ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ فاعل اگر اسم ظاہر ہو تو فعل ہمیشہ واحد آتا ہے، البتہ جنس میں اس کا صیغہ اسم ظاہر کی جنس کے مطابق ہوتا ہے۔ لیکن اگر اسم ظاہر عاقل کی جمع مکسر ہو یا اسم الجمع ہو یا مؤنث غیر حقیقی ہو، تو پھر فعل واحد مذکر اور واحد مؤنث، دونوں طرح سے لانا جائز ہے۔ یہاں اَلْاِنْسُ وَالْجِنُّ اسم الجمع ہیں اس لیے واحد مؤنث کا صیغہ بھی جائز ہے۔" "وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا Č۝ۙ [وَّانهٗ: اور یہ کہ حقیقت یہ ہے کہ] [كَان رِجَالٌ: تھے کچھ ایسے مرد] [مِّنَ الْانسِ: انسانوں میں سے] [يَعُوْذُوْنَ: جو پناہ پکڑتے تھے] [بِرِجَالٍ: کچھ ایسے مردوں کی جو] [مِّنَ الْجِنِّ: جنوں میں سے تھے] [فَزَادُوْهُمْ: تو انھوں (انسانوں) نے زیادہ کیا ان (جنوں) کو] [رَهَقًا: بلحاظ سر چڑھنے کے] (آیت۔6) فَزَادُوْھُمْ میں زَادُوْا کی ضمیر فاعلی رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ کے لیے بھی ہو سکتی ہے اور رِجَالٌ مِّنَ الْجِنِّ کے لیے بھی۔ اسی طرح ھُمْ کی ضمیر مفعولی کو بھی دونوں میں سے کسی کے لیے بھی ماننے کی گنجائش موجود ہے۔ دونوں طرح کے ترجمے درست مانے جائیں گے۔" "وَّاَنَّهُمْ ظَنُّوْا كَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ اَحَدًا Ċ۝ۙ [وَّانهُمْ ظَنُّوْا: اور یہ کہ ان (انسانوں) نے گمان کیا] [كَمَا ظَنَنْتم: جیسے تم (جن) لوگوں نے گمان کیا] [ان لَّنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ: ہرگز نہیں اٹھائے گا اللہ] [اَحَدًا: کسی ایک کو (بھی قبر سے)] (آیت۔7) وَاَتَّھُمْ ظِلُّوْا میں اَتَّھُمْ ضمیر الشان نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ ہمیشہ واحد مذکر یا واحد مؤنث کی ضمیر سے آتی ہے۔ یہاں ھُمْ کی ضمیر اَنَّ کا اسم ہے اور ظَنُّوْا جملہ فعلیہ بن کر اَنَّ کی خبر ہے اور ھُمْ کی ضمیر انسانوں کے لیے ہے بَعَثَ کا اصل مفہوم ہے کسی کو اٹھا کر کسی طرف بھیجنا۔ اس لیے یہ لفظ اٹھانا اور بھیجنا، دونوں معانی میں آتا ہے۔ یہاں لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًا کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ کسی کو قبر سے نہیں اٹھائے گا اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ اب کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ دونوں ترجمے درست ہوں گے۔" "وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّشُهُبًا Ď۝ۙ [وَّانا لَمَسْنَا السَّمَاۗءَ: اور یہ کہ ہم نے بیشک چھوا (ٹٹولا) آسمان کو] [فَوَجَدْنٰهَا: تو ہم نے پایا اس کو] [مُلِئَتْ: (کہ) اس کو بھر دیا گیا] [حَرَسًا شَدِيْدًا: بڑے سخت محافظوں کے دستوں سے] [وَّشُهُبًا: اور انگاروں سے] ح ر س حَرْسًا حفاظت کرنا۔ پہرہ دینا۔ حَارِسٌ ج حَرَسٌ۔ فَاعِلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ حفاظت کرنے والا۔ چوکیدار۔ پہرے دار۔ حَرَسِیٌّ ج حَرَسٌ۔ اسم الجمع ہے۔ محافظوں کا دستہ۔ باڈی گارڈوں کا دستہ زیر مطالعہ آیت۔8۔" "وَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ۭ فَمَنْ يَّسْتَمِعِ الْاٰنَ يَجِدْ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا Ḍ۝ۙ [وَّانا كُنَا نَقْعُدُ: اور یہ کہ ہم بیٹھا کرتے تھے] [مِنْهَا مَقَاعِدَ: اس (آسمان) میں بیٹھنے کی جگہوں (مورچوں) پر] [لِلسَّمْعِ: سننے کے لیے] [فَمَنْ يَّسْتمعِ الْاٰنَ: پس جو (کوئی) سنتا ہے اب] [يَجِدْ لَه: تو وہ پاتا ہے اپنے لیے] [شِهَابًا رَّصَدًا: ایک گھات میں بیٹھنے والا انگارہ] نوٹ۔1: یہاں یہ جان لینا ضروری ہے کہ جنوں کی حقیقت کیا ہے تاکہ ذہن کسی الجھن کا شکار نہ ہو۔ بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جن کسی حقیقی چیز کا نام نہیں ہے بلکہ یہ بھی پرانے زمانے کے اوہام میں سے ایک بےبنیاد خیال ہے۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ اس طرز فکر سے متاثر ہیں، مگر قرآن کا انکار بھی نہیں کرسکتے، انھوں نے جن، ابلیس اور شیطان کے متعلق قرآن کے صاف صاف بیانات کو طرح طرح کی تاویلات کا تختۂ مشق بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی ایسی پوشیدہ مخلوق نہیں ہے جو اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہو، بلکہ کہیں تو اس سے مراد انسان کی اپنی بہیمی قوتیں ہیں جنھیں شیطان کہا گیا ہے اور کہیں اس سے مراد وحشی اور جنگلی اور پہاڑی قومیں ہیں اور کہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو چھپ چھپ کر قرآن سنا کرتے تھے۔ لیکن قرآن مجید کے ارشادات اس معاملہ میں اس قدر صاف اور صریح ہیں کہ ان تاویلات کے لیے ان کے اندر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن میں بکثرت مقامات پر جن اور انسان کا ذکر اس حیثیت سے کیا گیا ہے کہ یہ دو الگ قسم کی مخلوقات ہیں۔ سورئہ رحمن تو پوری کی پوری اس پر ایسی صریح شہادت دیتی ہے کہ جنوں کو انسانوں کی کوئی قسم سمجھنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ اعراف۔12، فجر۔26۔27، رحمن۔14۔15 میں صاف صاف بتایا گیا کہ انسان کا مادئہ تخلیق مٹی ہے اور جنوں کا مادئہ تخلیق آگ ہے۔ سورۃ حجر۔27۔ میں صراحت کی گئی کہ جن انسان سے پہلے پیدا کئے گئے اسی بات پر قصّہ آدم و ابلیس شہادت دیتا ہے جو قرآن میں سات مقامات پر بیان ہوا ہے اور ہر جگہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کے وقت ابلیس موجود تھا۔ پھر سورئہ کہف۔50۔ میں بتایا گیا کہ ابلیس جنوں میں سے ہے۔ سورئہ اعراف۔27۔ میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ جن انسانوں کو دیکھتے ہیں مگر انسان ان کو نہیں دیکھتے۔ سورۃ حجر۔16 تا 18، سورئہ صافّٰات۔6 تا 10، اور سورئہ ملک۔5۔ میں بتایا گیا ہے کہ جن عالم بالا کی طرف پرواز کرسکتے ہیں مگر ایک حد سے آگے نہیں جا سکتے۔ اس سے اوپر جانے کی کوشش کریں تو انھیں روک دیا جاتا ہے۔ اس سے مشرکین کے اس خیال کی تردید کی گئی ہے کہ جن غیب کا علم رکھتے ہیں۔ اسی خیال کی تردید سورئہ سبا۔14۔ میں بھی کی گئی ہے۔ سورئہ بقرہ۔30 تا 34۔ اور سورئہ کہف۔50۔ سے معلوم ہوتاہے کہ زمین کی خلافت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے اور انسان جنوں سے افضل مخلوق ہے اگرچہ بعض غیر معمولی طاقتیں جنوں کو بھی بخشی گئی ہیں، جن کی ایک مثال سورئہ نمل۔7۔ میں ملتی ہے۔ لیکن اس طرح بعض طاقتیں حیوانات کو بھی انسان سے زیادہ ملی ہیں اور وہ اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ جانوروں کو انسان پر فضیلت حاصل ہے۔ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جن انسان کی طرح ایک بااختیار مخلوق ہے اور اس کو کفر و ایمان کا ویسا ہی اختیار دیا گیا ہے جیسا انسان کو دیا گیا ہے۔ قرآن میں یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ ابلیس نے تخلیقِ آدم کے وقت ہی یہ عزم کرلیا تھا کہ وہ نوع انسانی کو گمراہ کرے گا اور اسی وقت سے شیاطین جن انسان کو گمراہ کرنے کے در پے ہیں مگر وہ زبردستی کوئی کام کرانے کی طاقت نہیں رکھتے، بلکہ وہ اس کے دل میں وسوسے ڈالتے ہیں اور بدی و گمراہی کو خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جن انسان سے الگ ایک دوسری ہی نوع کی پوشیدہ مخلوق ہیں۔ ان کی پراسرار صفات کی وجہ سے جاہل لوگوں نے ان کے متعلق بڑے مبالغہ آمیز تصورات قائم کر رکھے ہیں حتیٰ کہ ان کی پرستش تک کر ڈالی ہے۔ مگر قرآن نے ان کی اصل حقیقت پوری طرح کھول کر بیان کر دی ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ (تفہیم القرآن ج 6، ص 109 تا 1 11)" "وَّاَنَّا لَا نَدْرِيْٓ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا 10۝ۙ [وَّانا لَا نَدْرِيْٓ: اور یہ کہ ہم نہیں جانتے] [اَشَرٌّ اُرِيْدَ: آیا کسی برائی (عذاب) کا ارادہ کیا گیا] [بِمَنْ فِي الْاَرْضِ: ان کے بارے میں جو زمین میں ہیں] [اَمْ اَرَادَ بِهِمْ: یا ارادہ کیا ان کے بارے میں] [رَبُّهُمْ رَشَدًا: ان کے رب نے کسی بھلی راہ کا] ترکیب: (آیت۔10) لَا نَدْرِیْ کے آگے اَشَرٌّ سے لے کر رَشَدًا تک پورا جملہ نَدْرِیْ کا مفعول ہے۔ اُرِیْدَ ما ضی مجہول ہے اور اس کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے شَرٌّ حالت رفع میں ہے نوٹ۔1: اس (آیت۔10) سے معلوم ہوا کہ عالم بالا میں اس قسم کے غیر معمولی انتظامات (جس کا ذکر گزشتہ آیت میں کیا گیا ہے) دو ہی حالتوں میں کیے جاتے تھے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اہل زمین پر کوئی عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا ہو اور منشائے الٰہی یہ ہو کہ اس کے نزول سے پہلے جن اس کی بھنک پا کر اپنے دوست انسانوں کو خبردار نہ کر دیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے زمین میں کسی رسول کو مبعوث فرمایا ہو اور تحفظ کے ان انتظامات سے مقصود یہ ہو کہ رسول کی طرف جو پیغامات بھیجے جا رہے ہیں، ان میں نہ تو شیاطین کسی قسم کی خلل اندازی کرسکیں اور نہ قبل از وقت یہ معلوم کرسکیں کہ پیغمبر کو کیا ہدایات دی جا رہی ہیں۔ پس جنوں کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم نے آسمان میں یہ چوکی پہرے دیکھے تو ہمیں یہ معلوم کرنے کی فکر ہوئی کہ ان دونوں صورتوں میں سے کون سی صورت درپیش ہے۔ اسی تلاش میں ہم نکلے تھے کہ ہم نے وہ حیرت انگیز کلام سنا اور ہمیں معلوم ہو گیا کہ اللہ نے خلقِ خدا کو راہ راست دکھانے کے لیے ایک رسول مبعوث فرمایا ہے۔ (تفہیم القرآن)" "وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِكَ ۭ كُنَّا طَرَاۗىِٕقَ قِدَدًا 11۝ۙ [وَّانا مِنَا الصّٰلِحُوْنَ: اور یہ کہ ہم میں نیک لوگ (بھی) ہیں] [وَمِنَا دُوْنَ ذٰلِكَ: اور ہم میں اس کے علاوہ (بھی) ہیں] [كُنَا طَرَاۗىِٕقَ قِدَدًا: ہم تھے مختلف الرَّائے طریقوں پر] نوٹ۔2: آیت۔11۔ کا مطلب یہ ہے کہ اب تک تو نیکی اور بدی کے درمیان ہماری نگاہوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ برے اور بھلے دونوں ہماری نظروں میں یکساں تھے لیکن اس قرآن نے ہمارا یہ مغالطہ دور کردیا ہے اور یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ ہمارے طریقے اور راہیں الگ الگ ہیں اور ضروری ہے کہ ہم اس فرق کو ملحوظ رکھ کر لوگوں کے ساتھ معاملہ کریں۔ ہمارے درمیان وصل و فصل کی بنیاد ایمان و کفر کو ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جو ہمارے قبیلہ کا ہے وہ ہمارا ہے، چاہے کافر ہو یا مومن، نیک ہو یا بد۔ (تدبر قرآن)" "وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ نُّعْجِزَ اللّٰهَ فِي الْاَرْضِ وَلَنْ نُّعْجِزَهٗ هَرَبًا 12۝ۙ [وَّانا ظَنَنَآ: اور یہ کہ ہم نے گمان کیا (سمجھ لیا)] [ان لَّنْ نُّعْجِزَ: کہ ہم ہرگز عاجز نہ کرسکیں گے] [اللّٰهَ فِي الْاَرْضِ: اللہ کو زمین میں] [وَلَنْ نُّعْجِزَهٗ: اور ہم ہرگز عاجز نہ کرسکیں گے اس کو] [هَرَبًا: بلحاظ بھاگنے کے] ھـ ر ب [ھَرْبًا: (ن) ] تیز چلنا۔ بھاگنا۔ زیر مطالعہ آیت۔12۔ ح ر ی [حَرْیًا: (ض) ] کسی چیز کا گھٹنا۔ کم ہونا۔ (تفعل) تَحَرٍّی دو چیزوں میں سے بہتر کو کوشش کر کے حاصل کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔14۔" "وَّاَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدٰٓى اٰمَنَّا بِهٖ ۭ فَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِرَبِّهٖ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَّلَا رَهَقًا 13؀ۙ [وَّانا لَمَا سَمِعْنَا: اور یہ کہ جب ہم نے سنا] [الْهُدٰٓى: اِس ہدایت (قرآن) کو] [اٰمَنَا بِهٖ: تو ہم ایمان لائے اس پر] [فَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِرَبِهٖ: پھر جو ایمان لاتا ہے اپنے رب پر] [فَلَا يَخَافُ بَخْسًا: تو وہ خوف نہیں کرتا کسی حق تلفی کا] [وَّلَا رَهَقًا: اور نہ کسی زیادتی کا]" "وَّاَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَ ۭ فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰۗىِٕكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا 14؀ [وَّانا مِنَا الْمُسْلِمُوْنَ: اور یہ کہ ہم میں فرمانبرداری کرنے والے (بھی) ہیں] [وَمِنَا الْقٰسِطُوْنَ: اور ہم میں بےانصافی کرنے والے (بھی) ہیں] [فَمَنْ اَسْلَمَ: تو جس نے فرمانبرداری کی] [فَاُولٰۗىِٕكَ تَحَرَّوْا: تو ان لوگوں نے پا لیا] [رَشَدًا: بھلی راہ کو]" "وَاَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا 15؀ۙ [وَاَمَا الْقٰسِطُوْنَ: اور وہ جو ناانصافی کرنے والے ہیں] [فَكَانوْا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا: تو وہ لوگ جہنم کے ایندھن ہیں] ح ط ب [حَطْبًا: (ض) ] (1) لکڑی چننا (آگ جلانے کے لیے) (2) چغلی کھانا، افتراء باندھنا۔ (لڑائی کی آگ جلانے کے لیے) حَطَبٌ اسم ذات ہے۔ (1) ایندھن۔ زیر مطالعہ آیت۔15۔ (2) چغلی حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ (چغلی کو اٹھانے یعنی لیے پھرنے والی) 111:4۔" "وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَةِ لَاَسْقَيْنٰهُمْ مَّاۗءً غَدَقًا 16؀ۙ [وَّان: اور (وحی کیا گیا میری طرف) کہ] [لَّوِ اسْتَــقَامُوْا: اگر وہ لوگ استقامت اختیار کرتے] [عَلَي الطَّرِيْقَةِ: اس (سیدھے) راستے پر] [لَاَسْقَيْنٰهُمْ: تو ہم ضرور پینے کے لئے دیتے ان کو] [مَاۗءً غَدَقًا: وافر پانی] غ د ق [غَدَقًا: (س) ] بارش کا خوب برسنا۔ کسی چیز کا وافر ہونا۔ زیر مطالعہ آیت۔16۔ (آیت۔16) اَلطَّرِیْقَۃِ پر لامِ تعریف ہے اس کا معودِ ذہنی صحیح راستہ کو بھی مانا جا سکتا ہے اور غلط راستہ کو بھی، کیونکہ قرآن مجید میں دونوں طرح کی آزمائش کا ذکر ہے۔ سورۃ الانعام کی آیات 43۔44 میں نافرمانوں پر آخری عذاب نازل کرنے سے پہلے نعمتوں کے تمام دروازے کھولنے کا ذکر ہے اور سورۃ الانبیاء کی آیت۔35۔ میں اس اصول کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک و بد تمام انسانوں کو دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے۔ اس لیے یہاں اَلطَّرِیْقَۃِ سے صحیح اور غلط دونوں راستے مراد لینا ممکن ہے۔ البۃ اس سے پہلے اَسْتَقَا مُوْا آیا ہے اور استقامت کا لفظ عموماً صحیح راستہ کے یے آتا ہے۔ اس لیے ہماری ترجیح یہ ہے کہ یہاں صحیح راستہ مراد لیا جائے۔ (حافظ احمد یار صاحب) پیچھے پہلی آیت میں فَقَالُوْا سے جنوں کا قول شروع ہوا تھا اور اس کے لیے مسلسل اَنَّا (کہ ہم) سے بات شروع ہوتی رہی ہے اب یہاں اَنَّا (کہ ہم) کے بجائے اَنْ (کہ) آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ گذشتہ آیت پر جنوں کا قول ختم ہو گیا اور اس اَنْ کا تعلق پہلی آیت کے قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ سے ہے۔" "لِّنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ ۭ وَمَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهٖ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا 17؀ۙ [لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ: تاکہ ہم آزمائیں ان کو اس (پانی کے استعمال) میں] [وَمَنْ يُّعْرِضْ: اور جو اعراض کرے گا] [عَنْ ذِكْرِ رَبِهٖ: اپنے رب کی یاد سے] [يَسْلُكْهُ: تو وہ (رب) ڈال دے گا اس کو] [عَذَابًا صَعَدًا: ایک چڑھائی والے (مسائل والے) عذاب میں] نوٹ۔3: مفتی محمد شفیع (رح) کے ایک کتابچے ’’ ذکر اللہ‘‘ کے مطابق ذکر۔ ورد۔ تسبیح وغیرہ ذکر اللہ نہیں ہیں بلکہ ذریعہ ذکر ہیں یعنی یہ بندے کو ذکر اللہ کی منزل تک پہنچانے کے ذرائع ہیں۔ ذکر۔ ورد۔ تسبیح وغیرہ میں اللہ کو یاد کرنے والے کلمات کی تکرار کرتے ہوئے جب بندہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ زندگی کی گہما گہمی کے بیچ منجدھار میں معاملات کرتے وقت اسے اللہ کے احکام یاد آنے لگیں اور وہ ان کے مطابق معاملات کرے، تو یہ ذکر اللہ ہے۔ اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اس نے اللہ کو یاد کیا، اگرچہ اس کی نماز، روزہ (نفلی) وغیرہ کم ہوں اور جس نے احکامِ خداوندی کی خلاف ورزی کی اس نے اللہ کو بھلا دیا، اگرچہ اس کی نماز، روزہ (نفلی) تسبیحات وعیرہ زیادہ ہوں۔ (آیت 20:152، نوٹ۔1) اس حوالہ سے اب اس بات کو سمجھ لیں کہ زیر مطالعہ آیت۔17۔ میں ذِکْرِ رَبِّہٖ سے مراد یہی ذکر اللہ ہے، تسبیحات وغیرہ نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص فرض نماز، روزوں وغیرہ کا اہتمام تو کرتا ہے لیکن ذکر، ورد، تسبیح وغیرہ کا اہتمام نہیں کرتا تو وہ اس کے اضافی ثواب سے محروم رہے گا، لیکن اس بنیاد پر وہ عذاب کا مستحق نہیں ہو گا۔ عذاب کا مستحق تو وہ ہو گا جس نے اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کی، اگرچہ اس کی نماز، روزے، تسبیحات وغیرہ زیادہ ہوں۔ اللہ کی یاد سے یعنی اس کی قائم کردہ حدود و قیود سے اعراض کرتے ہوئے یعنی کَنّی کتراتے ہوئے زندگی بسر کرنے والے کی نقد سزا یہ ہے کہ اسے اسی دنیا میں عَذَابًا صَعْدًا میں جھونک دیا جاتا ہے۔ صَعِدَ۔ یَصْعَدُ کے معنی ہیں سیڑھی پر چڑھنا۔ چڑھائی چڑھنا۔ اس میں آمی بلند سے بلند تر سطح پر پہنچتا رہتا ہے، اس لیے اس میں ترقی پذیری کا مفہوم پید اہوتا ہے اور چڑھائی چڑھنا مشقت طلب کام بھی ہے اس لیے اس میں مشکل کا مفہوم بھی ہے۔ لیکن یہاں عَذَابًا صَعَدًا کا واضح مفہوم یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس کی زندگی الجھنوں، پریشانیوں اور مسائل کا شکا رہو کر رہ جاتی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک پریشانی آتی رہتی ہے اور اسے زندگی میں اطمینان و سکون نصیب نہیں ہوتا اور اس کی زندگی ہانپنتے کانپتے ہی بسر ہوتی ہے۔ پھر جب اس دنیا میں آنکھ بند ہوتی ہے اور اس دنیا میں کھل جاتی ہے تو اس عذاب کی چوٹی سامنے آ جاتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے جو ابدی اور حساب و کتاب کے وقت حسرت اور تاسف کی کیفیات۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے۔" "وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا 18؀ۙ [وَّان: اور (وحی کیا گیا) کہ] [الْمَسٰجِدَ للّٰهِ: تمام سجدہ گاہیں اللہ کے لیے ہیں] [فَلَا تَدْعُوْا: پس تم لوگ مت پکارو] [مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا: اللہ کے ساتھ کسی ایک کو]" "وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا 19؀ۉ [وَّانهٗ: اور حقیقت یہ ہے کہ] [لَمَا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ: جب کھڑا ہوا اللہ کا بندہ] [يَدْعُوْهُ: اس کو پکارتے ہوئے] [كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ: لگتے تھے کہ وہ (جن) ہو جائیں گے] [عَلَيْهِ: اس (بندےؐ) پر] [لِبَدًا: گھیرا ڈالنے والے گروہ در گروہ] ل ب د [لُبُوْدًا: (ن) ] گھیرنا۔ چمٹنا۔ گتھ جانا۔ لِبْدَۃٌ ج۔ لِبْدٌ۔ تہہ بہ تہہ جمی ہوئی اون۔ لوگوں کا جوق در جوق جمع ہونے والا گروہ۔ زیر مطالعہ آیت۔19۔ لُبْدَۃٌ ج لُبَدٌ۔ شیر کی گردن کے بال جو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر کسی چیز کی بہتات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یَقُوْلُ اَھْلَکْتُ مَالًا لُّبَدًا (وہ کہتا ہے میں نے ہلاک کیا یعنی خرچ کیا ڈھیروں مال:90:6۔ (آیت۔19) ۔ عَبْدُ اللّٰہِ رسول اللہ ﷺ کے لیے ہے۔ یَدْعُوْہُ حال ہے۔ یَکُوْنُوْنَ کی ضمیر فاعلی ھُمْ کو مشرکوں کے لیے بھی مانا گیا ہے لیکن سارا ذکر جنوں کا چلا آ رہا ہے اس لیے ہماری ترجیح ہے کہ اس کو جنوں کے لیے مانا جائے۔" "قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِهٖٓ اَحَدًا 20؀ [قُلْ انمَآ: آپؐ کہہ دیں کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [اَدْعُوْا رَبِيْ: میں پکارتا ہوں اپنے رب کو] [وَلَآ اُشْرِكُ بِهٖٓ اَحَدًا : اور میں شریک نہیں کرتا اس کے ساتھ کسی ایک کو]" "قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا 21؀ [قُلْ انى: آپؐ کہہ دیں کہ میں] [لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ: اختیار نہیں رکھتا تم لوگوں کے لیے] [ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا: کسی تکلیف کا اور نہ کسی بھلی راہ کا]" "قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ڏ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا 22؀ۙ [قُلْ انى لَنْ يُّجِيْرَنِيْ: آپؐ کہیے کہ ہرگز نہیں بچائے گا مجھ کو] [مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ: اللہ سے کوئی ایک بھی] [وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ: اور میں ہرگز نہیں پائوں گا اس کے علاوہ] [مُلْتَحَدًا: کوئی پناہ گاہ] ترکیب: (آیت 22) مُلْتَحَدًا باب افتعال سے اسم المفعول ہے جو یہاں اسم الظرف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔" "اِلَّا بَلٰـغًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِسٰلٰتِهٖ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا 23؀ۭ [اِلَّا بَلٰـغًا: سوائے اس کے کہ پہنچانا (حق کو)] [مِّنَ اللّٰهِ: اللہ (کی طرف) سے] [وَرِسٰلٰتِهٖ: اور اس کے پیغامات کو] [وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ: اور جو نافرمانی کرے گا اللہ کی اور اس کے رسول کی] [فَان لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ: تو یقینا اس کے لے ہی جہنم کی آگ ہے] [خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ: ایک حالت میں رہنے والے اس میں] [اَبَدًا: ہمیشہ ہمیش] (آیت۔23) بَلٰغًا اور رِسٰلٰتِہٖ، یہ دونوں لَنْ اَجِدَ مُلْتَحَدًا سے مستثنیٰ ہیں اور یہ مستثنیٰ منقطع ہے۔ اس لیے یہ دونوں حالت نصب میں ہیں۔ (دیکھیں آیت۔2:34، نوٹ۔1) نوٹ۔1: آیت۔23۔ میں اِلَّا بَلٰغًا کا تعلق آیت۔21۔ میں لَا اَمْلِکَ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَارَشَدًا سے بھی مانا گیا ہے، ایسی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ میں نہ تمھارے مطالبہ پر تمھیں عذاب دکھا سکتا ہوں اور نہ تمھارے دلوں میں ہدایت اتار سکتا۔ میرا کام صرف یہ ہے کہ اللہ نے جو پیغام دے کر مجھے بھیجا ہے وہ بےکم و کاست میں تمھیں پہنچا دوں اور اس کے حکموں سے تمھیں آگاہ کر دوں۔ (تدبر قرآن) دوسری طرف اِلَّابِلٰغًا کا تعلق آیت۔22۔ میں لَنْ اَجِدَ مُلْتَحَدًا سے مانا گیا ہے۔ ایسی صورت میں مطلب یہ ہے کہ تمہارے برے بھلے کا اختیار رکھنا تو درکنار، مجھے خود اپنے برے بھلے کا بھی اختیار نہیں ہے۔ اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو مجھے اس سے بچانے والا کوئی نہیں ہے اور اس کی پکڑ سے بچنے کے لیے کوئی پناہ گاہ بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی پناہ گاہ ہے تو بس یہ ہے کہ میں اپنی ابلاغ کی ذمہ داری کو کماحقہٗ ادا کر دوں۔ پھر میں اس کی گرفت سے بچ جائوں گا اور وہ لوگ پکڑے جائیں گے جو اس کی نافرمانی کریں گے (حافظ احمد یار صاحب مرحوم کا کیسٹ ترجمہ قرآن) اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر گناہ اور نافرمانی کی سزا ابدی جہنم ہے بلکہ جس سلسلۂ کلام میں یہ بات کہی گئی ہے اس کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے توحید کی جو دعوت دی گئی ہے اس کو جو شخص نہ مانے اور شرک سے باز نہ آئے تو اس کے لیے ابدی جہنم کی سزا ہے۔ (تفہیم القرآن)" "حَتّىٰٓ اِذَا رَاَوْا مَا يُوْعَدُوْنَ فَسَيَعْلَمُوْنَ مَنْ اَضْعَفُ نَاصِرًا وَّاَقَلُّ عَدَدًا 24؀ [حَتّىٰٓ اِذَا رَاَوْا: یہاں تک کہ جب وہ دیکھیں گے] [مَا يُوْعَدُوْنَ: اس کو جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے] [فَسَيَعْلَمُوْنَ: تو وہ لوگ جان لیں گے] [مَنْ اَضْعَفُ: کہ کون زیادہ ضعیف ہے] [نَاصِرًا: بلحاظ مدد گار کے] [وَّاَقَلُّ عَدَدًا: اور زیادہ قلیل ہے بلحاظ گنتی کے]" "قُلْ اِنْ اَدْرِيْٓ اَقَرِيْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ يَجْعَلُ لَهٗ رَبِّيْٓ اَمَدًا 25؀ [قُلْ ان اَدْرِيْٓ: آپؐ کہیے میں نہیں جانتا] [اَقَرِيْبٌ: آیا قریب ہے] [مَا تُوْعَدُوْنَ: وہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے] [اَمْ يَجْعَلُ لَهٗ رَبِيْٓ: یا مقرر کرے گا اس کے لیے میرا رب] [اَمَدًا: کوئی مدت] (آیت۔25۔26) ۔ رَبِّیْ پر یائے متکلم ہے اس لیے اس کی رفع، نصب ختم ہو گئی ہے۔ اس آیت میں یہ یَجْعَلُ کا فاعل ہونے کی وجہ سے حالت رفع میں ہے۔ عٰلِمُ الْغَیْبِ اس کا بدل ہے اس لیے عٰلِمُ حالت رفع میں آیا ہے۔ نوٹ۔2: آیت۔25۔ میں رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ جو لوگ آپ کو قیامت کا معیّن وقت بتلانے پر مجبور کرتے ہیں ان سے کہہ دیں کہ قیامت کا آنا تو یقینی ہے لیکن اس کے واقع ہونے کی صحیح تاریخ اللہ نے کسی کو نہیں بتلائی، اس لیے میں نہیں جانتا کہ وہ روز قیامت قریب آ چکا ہے یا ابھی کچھ مدت باقی ہے۔ پھر اگلی آیت۔26۔ میں اس کی وجہ بتائی کہ قیامت کی تاریخ سے میری بےخبری اس لیے ہے کہ میں عالم الغیب نہیں ہوں بلکہ عالم الغیب ہونا صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ یہاں الغیب کا الف لام، استغراقِ جنس کے لیے ہے۔ مقصود اس کلام سے علم غیب کلّی، جس سے جہان کا کوئی ذرّہ مخفی نہ ہو، کی غیر اللہ کے لیے نفی اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اثبات ہے۔ اس غیب کلّی پر وہ کسی کو غالب وقادر نہیں کرتا کہ کوئی جس غیب کو جب چاہے معلوم کر لے، البتہ منصب رسالت کے لیے جس قدر غیب کا علم کسی رسول کو دینا ضروری ہے وہ ان کو من جانب اللہ بذریعہ وحی دے دیا جاتا ہے اور وہ ایسے محفوظ طریقے سے دیا جاتا ہے کہ جب ان پر اللہ کی طرف سے کوئی وحی نازل ہوتی ہے تو اس کے ہر طرف فرشتوں کا پہرہ ہوتا ہے تاکہ شیاطین اس میں کوئی مداخلت نہ کرسکیں۔ اس میں اوّل تو لفظ ’’ رسول‘‘ سے اس غیب کی نوعیت متعین کر دی گئی جس کا علم رسول و نبی کو دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جو علم غیب رسول و نبی کو دیا جاتا ہے اس کی نوعیت متعین کر دی کہ وہ فرشتوں کے ذریعے بھیجا جاتا ہے اور وحی لانے والے فرشتوں کے گرد دوسرے فرشتوں کا پہرہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جس علمِ غیب کا نبی و رسول کے لیے اثبات ہے وہ بعض اور مخصوص علم غیب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ استثناء اصطلاحی لفظوں میں استثناء منقطع ہے۔ (معارف القرآن)" "عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا 26؀ۙ [عٰلِمُ الْغَيْبِ: جو تمام غیب کا جاننے والا ہے] [فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ: تو وہ مطلع نہیں کرتا اپنے غیب پر] [اَحَدًا: کسی ایک کو]" "اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا 27؀ۙ [اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى: سوائے اس کے جس کو اس نے پسند کیا] [مِنْ رَّسُوْلٍ: کسی رسول میں سے] [فَانهٗ يَسْلُكُ: پھر بیشک وہ چلاتا ہے] [مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ: اس (رسول) کے آگے] [وَمِنْ خَلْفِهٖ: اور اس کے پیچھے] [رَصَدًا: پہرہ دینے والے]" "لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّهِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا 28؀ۧ [لِيَعْلَمَ ان: تاکہ وہ جان لے کہ] [قَدْ اَبْلَغُوْا: ان لوگوں (فرشتوں اور رسولوں) نے پہنچا دیے ہیں] [رِسٰلٰتِ رَبِهِمْ: اپنے رب کے پیغامات] [وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ: اور اس نے احاطہ کیا اس کا جو ان کے پاس ہے] [وَاَحْصٰى: اور اس نے شمار پورا کیا] [كُلَّ شَيْءٍ: ہر چیز کا] [عَدَدًا: بلحاظ گنتی کے]" "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ " "يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ Ǻ۝ۙ [يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ: اے کپڑا لپیٹنے والے] زم ل [زَمْلًا: (ن) ] کسی کو سواری پر پیچھے بٹھانا۔ (تفعل) تَزَمَّلًا اور اِزَّمُّلاً۔ کپڑے کو اپنے اوپر لپیٹ لینا۔ مُزَّمِّلٌ اسم الفاعل ہے۔ لپیٹنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔1" "قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا Ą۝ۙ [قُمِ الَّيْلَ: آپؐ کھڑے رہیں رات کے وقت] [اِلَّا قَلِيْلًا: سوائے تھوڑے (وقت) کے] ترکیب: (آیت۔2) ۔ قُمْ ثلاثی مجرد سے فعل امر ہے، جو کہ لازم ہے، اس کا مفعول نہیں آتا۔ اس لیے اَلَّیْلَ ظرف ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔" "نِّصْفَهٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا Ǽ۝ۙ [نِّصْفَهٗٓ: جو اس (رات) کا آدھا ہے] [اَوِ انقُصْ: یا آپؐ (چاہیں تو) گھٹائیں] [مِنْهُ قَلِيْلًا: اس (نصف) میں سے تھوڑا سا] (آیت۔3۔4) قَلِیْلاً کا بدل ہونے کی وجہ سے نِصْفَہٗ حالت نصب میں ہے اور اس میں چہٗ کی ضمیر اَ لَّیْلَ کے لیے ہے۔ اُنْقُصْ مِنْہُ اور زِدْ عَلَیْہِ کی ضمیریں نِصْفَہٗ کے لیے ہیں۔" "اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا Ć۝ۭ [اَوْ زِدْ عَلَيْهِ: یا آپؐ (چاہیں تو) زیادہ کریں اس (نصف) پر] [وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ: اور آپؐ ترتیل سے پڑھیں قرآن کو] [تَرْتِيْلًا: جیسا ترتیل کا حق ہے] نوٹ۔1: ترتیل کا مطلب یہ ہے کہ تیز تیز رواں دواں مت پڑھو بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھہرو تاکہ ذہن پوری طرح کلام الٰہی کے مفہوم و مدّعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کے عظمت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا ذکر ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہو جائے۔ کہیں عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ رسول اللہ ﷺ کی قرأت کا طریقہ حضرت انس (رض) سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ آپؐ الفاظ کو کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپؐ اللہ۔ رحمن اور رحیم کو مدّ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ بی بی ام سلمہ (رض) سے یہی سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ حضور ﷺ ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھہرتے جاتے تھے۔ مثلاً اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھ کر رک جاتے، پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پر ٹھہرتے اور اس کے بعد رک کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کہتے۔ حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضور ﷺ کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو آپؐ کی قرأت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے۔ (تفہیم القرآن) ترتیل میں تحسین صوت یعنی بقدر اختیار خوش آوازی سے پڑھنا بھی شامل ہے۔ (معارف القرآن) ۔ روایات سے معلوم ہوتاہے کہ حضور ﷺ قرآن لحن اور لَے سے پڑھتے تھے۔ (تدبر قرآن)" "اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا Ĉ۝ [انا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ: بیشک ہم ڈالیں گے آپؐ پر] [قَوْلًا ثَـقِيْلًا: ایک وزنی قول] نوٹ۔2: آ یت۔5۔ میں اس عظیم مقصد کی طرف اشارہ ہے جس کے لیے قیام لیل کی یہ ہدایت دی گئی ہے۔ ارشاد ہوا کہ ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس بھاری بات کے تحمل کے لیے ایک پیشگی ریاضت اور تیاری کے طور پر یہ حکم ہوا، اس بھاری بات سے کیا مراد ہے، اس کے جواب میں مختلف اقوال منقول ہیں۔ زیادہ قرین قیاس رائے یہ ہے کہ اس سے مراد انذارِ عام ہے جس کا حکم اگلی سورہ میں قُمْ فَاَنْذِرْ اور اس کے بعد جہادِ عظیم کی تیاری کے لیے دیا گیا جس سے آپؐ کو صحابۂ کرام (رح) کو اقامت دین کی راہ میں سابقہ پیش آنے والا تھا۔ اقامتِ دین کی جدوجہد کی یہی وہ امتیازی خصوصیت ہے جو اس کو دوسری تمام تحریکات سے ممتاز کرتی ہے۔ اس کے لیے دوسرے وسائل و ذرائع کے فراہم ہونے سے پہلے معرفتِ رب، مستحکم ایمان، غیر متزلزل ایمان اور اپنے رب پر کامل اعتماد و توکل ضروری ہے۔ ان اوصاف کے حصول کا واحد ذریعہ نماز، اور بالخصوص شب کی نماز ہے۔ اسی چٹان پر اقامتِ دین کی جدوجہد کی بنیاد ہے۔ (تدبر قرآن)" "اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ وَطْـاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًا Č۝ۭ [ان نَاشِئَةَ الَّيْلِ: بیشک رات کا سو کر اٹھنا] [هِيَ اَشَدُّ: یہ زیادہ سخت ہے] [وَطْـاً: بلحاظ پامال کرنے کے] [وَّاَقْوَمُ قِيْلًا: اور زیادہ سیدھی ہے بلحاظ بات کے]" "اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا Ċ۝ۭ [ان لَكَ فِي النَّهَارِ: بیشک آپؐ کے لیے دن میں] [سَبْحًا طَوِيْلًا: طویل مصروفیت ہے]" "وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا Ď۝ۭ [وَاذْكُرِ: اور آپؐ ذکر کریں] [اسْمَ رَبِكَ: اپنے رب کے نام کا] [وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ: اور سب سے الگ ہو کر آپؐ لَو لگائیں] [تَبْتِيْلًا: جیسا مسلسل الگ کیے جانے کا حق ہے] ب ت ل [بَتَلًا: (ن۔ ض) کسی سے کوئی چیز کاٹ کر الگ کرنا۔ (تفعیل) تَبْتِیْلًا کسی سے کوئی چیز کاٹ کر مسلسل الگ رکھنا۔ زیر مطالعہ آیت۔8۔ (تفعل) تَبَتُّلًا کسی سے کٹ کر الگ ہونا۔ سب سے ٹوٹ کر اللہ سے لَو لگانا۔ زیر مطالعہ۔ آیت۔8۔ (آیت۔8) ۔ تَبَتَّلْ باب تفعل کا فعل امر ہے۔ اس کے مفعول مطلق کے طور پر باب تفعیل کا مصدر تَبْتِیْلًا آیا ہے لیکن یہ معروف نہیں بلکہ مجہول کے معنی میں ہے۔" "رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلًا Ḍ۝ [رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ: وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے] [لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: کوئی اِلٰہ نہیں سوائے اس کے] [فَاتَّخِذْهُ: تو آپؐ بنائیں اس کو] [وَكِيْلًا: کام (بگڑی) بنانے والا]" "وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا 10 ؀ [وَاصْبِرْ عَلٰي مَا: اور آپؐ صبر کریں اس پر جو] [يَقُوْلُوْنَ: یہ لوگ کہتے ہیں] [وَاهْجُرْهُمْ: اور آپؐ چھوڑ دیں ان کو] [هَجْرًا جَمِيْلًا: جیسا خوبصورتی سے چھوڑنے کا حق ہے] نوٹ۔3: چھوڑنا دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک چھوڑنا تو وہ ہے جو لعن طعن کے بعد فساد و انتقام کے جذبے کے ساتھ ہو اس طرح کا چھوڑنا عام دنیاداروں کا شیوہ ہے۔ انبیاء و صالحین یہ شیوہ اختیار نہیں کرتے۔ وہ خلق کی اصلاح کی کوشش اپنی کسی ذاتی منفعت کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی ہدایت اور اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔ لوگ ان کی دل آزاری اور ناقدری کرتے ہیں تو انھیں غصہ یا نفرت کے بجائے ان کی محرومی اور بدانجامی پر صدمہ ہوتا ہے۔ وہ ان کے رویہ سے مجبور ہو کر ان کو چھوڑتے تو ہیں لیکن یہ چھوڑنا اسی طرح کا ہوتا ہے جس طرح ایک شریف باپ اپنے نالائق بیٹے کے رویہ پر خاموشی اور علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔ اس طرح کے چھوڑنے کو یہاں ھَجْرًا جَمِیْلًا سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اس طرح کی علیحدگی بعض اوقات مفید نتائج پیدا کرتی ہے۔ جن کے اندر خیر کی کوئی رمق ہوتی ہے وہ اس شریفانہ طرز عمل سے متاثر ہوتے ہیں اور اپنے رویہ کا جائزہ لینے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ (تدبر قرآن) ۔" "وَذَرْنِيْ وَالْمُكَذِّبِيْنَ اُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيْلًا 11؀ [وَذَرْنِيْ: اور آپؐ چھوڑیں مجھ کو] [وَالْمُكَذِّبِيْنَ: اور اِن جھٹلانے والوں کو] [اُولِي النَّعْمَةِ: جو خوشحالی والے ہیں] [وَمَهِلْهُمْ: اور آپؐ ڈھیل دیں ان کو] [قَلِيْلًا: تھوڑی سی]" "اِنَّ لَدَيْنَآ اَنْكَالًا وَّجَحِــيْمًا 12 ۝ۙ [ان لَدَيْنَآ انكَالًا: بیشک ہمارے پاس بیڑیاں ہیں] [وَّجَحِــيْمًا: اور دہکتی آگ ہے]" "وَّطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّعَذَابًا اَلِـــيْمًا 13؀ۤ [وَّطَعَامًا: اور ایک ایسا کھانا ہے جو] [ذَا غُصَّةٍ: گلے میں اٹکنے والا ہے] [وَّعَذَابًا اَلِـــيْمًا: اور ایک دردناک عذاب ہے] غ ص ص [غَصَصًا: (س) ] کھانے یا پانی سے گلے میں پھندا لگنا۔ گلے میں اٹکنا۔ غُصَّۃٌ جس سے پھندا لگے۔ اٹکنے والی چیز۔ زیر مطالعہ آیت۔13۔" "يَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيْبًا مَّهِيْلًا 14؀ [يَوْمَ تَرْجُفُ: جس دن کانپے گی] [الْاَرْضُ وَالْجبالُ: یہ زمین اور سارے پہاڑ] [وَكَانتِ الْجبالُ: اور ہو جائیں گے پہاڑ] [كَثِيْبًا مَّهِيْلًا: بھربھری ریت کا ٹیلہ] ک ث ب کَثْبًا جمع کرنا۔ اکٹھا کرنا (متعدی) جمع ہونا۔ اکٹھا ہونا (لازمی) کَثِیْبٌ فَعِیْلٌ کا وزن ہے۔ دائمی طور پر اکٹھا ہونے والا۔ ریت کا ٹیلا۔ زیر مطالعہ آیت۔14۔ ھـ ی ل [ھَیْلًا: (ض) مٹی ڈالنا۔ مٹی بکھیرنا۔ مَھِیْلً مَفْعُوْلٌ (اجوف یائی میں مَفِیْلٌ) کے وزن پر صفت ہے۔ بکھیری ہوئی۔ بھربھری مٹی۔ زیر مطالعہ آیت۔14 (آیت۔14) کَانَتْ کا اسم اَلْجِبَالُ ہے جو کہ جمع ہے لیکن اس کے خبر کَثِیْبًا مَّھِیْلًا واحد لائی گئی ہے۔ یہ اسلوب اس حقیقت کی تاکید کے لیے اختیار کیا گیا ہے کہ بلا استثناء ہر ایک پہاڑ کَثِیْبًا مَّھِیْلًا ہو گا۔ مَھِیْلٌ مادہ ’’ م ھـ ل‘‘ سے فَعِیْلٌ کا وزن نہیں ہے بلکہ یہ مادہ ’’ ھ ی ل‘‘ کا اسم المفعول ہے ۔ یہ ہم پڑھ چکے ہیں کہ اجوف یائی کا اسم المفعول، مَفْعُوْلٌ کے وزن پر بھی آتا ہے اور مَفِیْلٌ کے وزن پر بھی جیسے مَبِیْعٌ (دیکھیں آسان عربی گرامر۔ حصّہ سوم۔ پیراگراف۔5:72) ۔ یہ مَفِیْلٌ کے وزن پر ہے۔" "اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا ڏ شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا 15؀ۭ [انآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْكُمْ: بیشک ہم نے بھیجا تم لوگوں کی طرف] [رَسُوْلًا ڏ شَاهِدًا عَلَيْكُمْ: ایک ایسا رسول جو گواہی دینے والا ہے تم لوگوں پر] [كَمَآ اَرْسَلْنَآ: جیسے کہ ہم نے بھیجا] [اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا: فرعون کی طرف ایک رسول]" "فَعَصٰى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰهُ اَخْذًا وَّبِيْلًا 16؀ [فَعَصٰى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ: پھر نافرمانی کی فرعون نے ان رسولؑ کی] [فَاَخَذْنٰهُ اَخْذًا وَّبِيْلًا: تو ہم نے پکڑا اس کو ایک سخت پکڑ میں]" "فَكَيْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبَۨا 17؀ڰ [فَكَيْفَ تَتَّقُوْنَ: پھر تم لوگ کیسے بچو گے] [ان كَفَرْتم: اگر تم نے انکار کیا] [يَوْمًا: ایک ایسے دن سے جو] [يَّجْعَلُ الْوِلْدَان: بنا دے گا بچوں کو] [شِيْبَۨا: بوڑھا]" "السَّمَاۗءُ مُنْفَطِرٌۢ بِهٖ ۭ كَانَ وَعْدُهٗ مَفْعُوْلًا 18؀ [السَّمَاۗءُ مُنْفَطِرٌۢ بِهٖ: آسمان پھٹنے والا ہے اس (دن) میں] [كَان وَعْدُهٗ: اس کا وعدہ ہے] [مَفْعُوْلًا: کیا ہوا] (آیت۔18) اَلسَّمَائُ مبتدا ہے۔ اس کی خبر مُنْفَطِرَۃٌ مؤنث کے بجائے مذکر مُنْفَطِرٌ آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی میں اَلسَّمَائُ عام طور پر مؤنث استعمال ہوتا ہے لیکن چند قبیلے اس کو مذکر استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے عربی میں اس کا مؤنث اور مذکر، دونوں استعمال درست مانا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے لکھنؤ والے دہی کو کھٹی کہتے ہیں اور دہلی والے کھٹا کہتے ہیں۔ دونوں اہل زبان ہیں۔ اس لیے اردو میں دہی کا مذکر اور مؤنث دونوں استعمال درست مانا جاتا ہے۔" "اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ ۚ فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا 19؀ۧ [ان هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ: بیشک یہ ایک یاددہانی ہے] [فَمَنْ شَاۗءَ: پھر جو چاہے] [اتَّخَذَ اِلٰى رَبِهٖ: وہ بنائے اپنے رب کی طرف] [سَبِيْلًا: ایک راستہ]" "اِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰى مِنْ ثُلُـثَيِ الَّيْلِ وَنِصْفَهٗ وَثُلُثَهٗ وَطَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الَّذِيْنَ مَعَكَ ۭ وَاللّٰهُ يُقَدِّرُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۭعَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ۭ عَلِمَ اَنْ سَيَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى ۙ وَاٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ ۙوَاٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ڮ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ۙ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا ۭ وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا ۭ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 20؀ۧ [ان رَبَّكَ يَعْلَمُ: بیشک آپؐ کا رب جانتا ہے] [انكَ تَقُوْمُ: کہ آپؐ کھڑے ہوتے ہیں] [اَدْنٰى: زیادہ قریب (تقریباً)] [مِنْ ثُلُـثَيِ الَّيْلِ: رات کے دوتہائی میں سے] [وَنِصْفَهٗ: اور (کبھی) اس کے آدھے وقت] [وَثُلُثَهٗ: اور (کبھی) اس کے ایک تہائی وقت] [وَطَاۗىِٕفَةٌ: اور ایک گروہ (بھی)] [مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ: ان لوگوں میں سے جو آپؐ کے ساتھ ہیں] [وَاللّٰهُ يُقَدِّرُ: اور اللہ اندازہ مقرر کرتاہے] [الَّيْلَ وَالنَّهَارَ: رات کا اور دن کا] [عَلِمَ ان لَّنْ تُحْصُوْهُ: اس نے جانا کہ تم لوگ ہرگز نہ نباہ سکو گے اس (قیام الیل) کو] [فَتَابَ عَلَيْكُمْ: تو اس نے شفقت کی تم پر] [فَاقْرَءُوْا: پس تم لوگ قرأت کرو] [مَا تَيَسَّرَ: اتنی جتنی آسان ہو] [مِنَ الْقُرْاٰنِ: قرآن میں سے] [عَلِمَ ان سَيَكُوْنُ: اس نے جانا کہ ہوں گے] [مِنْكُمْ مَّرْضٰى: تم میں سے کچھ مریض] [وَاٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ: اور کچھ دوسرے سفر کریں گے زمین میں] [يَبْتَغُوْنَ: تلاش کرتے ہوئے] [مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ: اللہ کے فضل میں سے (روزی)] [وَاٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ: اور کچھ دوسرے قتال کریں گے] [فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: اللہ کی راہ میں] [فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ: تو قرأت کرو اتنی جتنی آسان ہو اس میں سے] [وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ: اور قائم کرو نماز کو] [وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ: اور پہنچائو زکوٰۃ کو] [وَاَقْرِضُوا اللّٰهَ: اور قرض دو اللہ کو] [قَرْضًا حَسَنًا: ایک خوبصورت قرضہ] [وَمَا تُقَدِّمُوْا لِانفُسِكُمْ: اور جو تم لوگ آگے بھیجو گے اپنے آپ کے لیے] [مِّنْ خَيْرٍ: کوئی بھی نیکی] [تَجِدُوْهُ: تو تم لوگ پائو گے اس کو] [عِنْدَ اللّٰهِ: اللہ کے پاس] [هُوَ خَيْرًا: وہی بہترین ہوتے ہوئے] [وَّاَعْظَمَ اَجْرًا: اور عظیم ہوتے ہوئے بلحاظ اجر کے] [وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ: اور مغفرت مانگو اللہ سے] [ان اللّٰهَ: بیشک اللہ] [غَفُوْرٌ: بےانتہا بخشنے والا] [رَّحِيْمٌ: ہمیشہ رحم کرنے والا ہے] ترکیب: ثُلْثَیِ دراصل ثُلُثَانِ تھا۔ اس پر مِنْ داخل ہوا تو یہ حالت جر میں ثُلُثَیْنِ ہو گیا۔ پھر یہ اَلَّیْل کا مضاف بنا تو نون اعرابی گر گیا اور یہ ثُلْثَیْ استعمال ہوا۔ نِصْفَہٗ اور ثُلُثَہٗ ظرف ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں اور ان کی چہٗ کی ضمیریں اَلَّیْل کے لیے ہیں۔ تُحْصُوْہُ میں ہُ کی ضمیر قِیَامُ الَّیْل کے لیے ہے۔ اَنْ مضارع کو نصب دیتاہے لیکن اگر مضارع پر س آ جائے تو پھر اَنْ کا عمل ساقط ہو جاتا ہے۔ اس لیے اَنْ سَیَکُوْنُ آیا ہے۔ مَاتُقَدِّمُوْا کا ما شرطیہ ہے۔ اس لیے تُقَدِّمُوْا مجزوم ہوا ہے۔ جبکہ تَجِدُوْا جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔ خَیْرًا اور اَعْظَمَ کی نصب حال ہونے کی وجہ سے ہے۔ نوٹ۔1: یہ آیت جس کے ذریعہ نماز تہجد کی فرضیت منسوخ ہوئی، شروع سورت کی آیات سے ایک سال یا آٹھ ماہ بعد نازل ہوئی ہے۔ مسند احمد، مسلم، ابودائود، ابن ماجہ اور نسائی میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ اس سورت کے شروع میں قیام اللیل کو فرض کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام (رض) اس کی پابندی کرتے رہے۔ سورت کا آخری حصّہ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں روک رکھا۔ سال بھر کے بعد آخری حصّہ نازل ہوا جس میں قیام اللیل کی فرضیت منسوخ ہو کر تخفیف ہو گئی اور اس کے بعد قیام اللیل صرف نفل و مستحب رہ گیا۔ (معارف القرآن) تفہیم القرآن میں اس رائے سے اختلاف کیا گیا ہے کہ یہ آخری آیت سورت کے نزول کے ایک سال بعد مکہ میں نازل ہوئی۔ صاحب تفہیم کی رائے ہے کہ یہ آخری آیت سورت کے نزول کے دس سال بعد مدینہ میں نازل ہوئی۔ اس کی سند میں ایک تابعی حضرت سعید بن جبیر (رح) کا قول نقل کیا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ ’’ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے۔ اور وہاں بھی اس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضور ﷺ کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے، جب کفار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا۔‘‘ لیکن میرا ذہن اس دلیل کو قبول کرنے سے معذور ہے۔ اس آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے میرا ذہن اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ بی بی عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) کے اقوال میں اور اس آیت کے مضامین میں کوئی بعد یا تضاد نہیں ہے۔ میں اپنی رائے نقل کر رہا ہوں تاکہ امانت ادا ہو جائے۔ سورۃ المزّمل کے پہلے رکوع کے نزول کے لگ بھگ ایک سال بعد جب یہ آیت نازل ہوئی ہے، اس وقت صورتحال یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام (رض) آدھی آدھی رات، ایک ایک تہائی رات اور کبھی دو تہائی رات عبادت میں گزار کر قیام اللیل کے حکم کو نباہ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بات کا آغاز ہی اسی صورتحال کی تحسین سے کیا ہے۔ اور پھر اس حکم میں تخفیف کی وجہ بیان کی ہے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس تخفیف کی بنیاد نہ کسی ایسی صوتحال پر تھی جو اس وقت موجود تھی اور نہ کسی ایسے واقعہ پر تھی جو وقوع پذیر ہو چکا تھا بلکہ اس کی بنیاد ایسے حالات و واقعات پر تھی جو مستقبل میں پیش آنے والے تھے اور اللہ کو ان کا علم تھا۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر جب ہم آیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو کسی ابہام کے بغیر بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ تم لوگ قیام اللیل کے فرض کو ابھی تو نباہ رہے ہو لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آگے چل کر تم لوگ اسے ہرگز نہ نباہ سکو گے۔ اس لیے اس حکم کی فرضیت ختم ہے۔ اس کا نعم البدل یہ ہے کہ تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرو۔ جو لوگ رات میں عبادت کے لیے جاگیں ان کے لیے اب نصف شب کے لگ بھگ عبادت کرنا ضروری نہیں ہے۔ جو جتنی دیر آسانی سے عبادت کرسکے اور تلاوت کرسکے وہ کر لے۔ اور جو لوگ رات میں جاگ نہیں سکتے وہ دن میں تلاوت کا خصوصی اہتمام کریں۔ اس کے بعد ان چند وجوہات کا ذکر ہے جن کی وجہ سے یہ تخفیف کا حکم دیا گیا تھا۔ اس میں نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ بات کا آغاز اَنْ یَّکُوْنَ سے نہیں کیا گیا، کیونکہ اس میں حال اور مستقبل دونوں کے معنی ہیں۔ اس کے بجائے بات کا آغاز اَنْ سَیَکُوْنُ سے کیا گیا تاکہ حال کے معنی ختم ہو جائیں۔ اس لیے آیت کے متعلقہ جز کے معنی اب یہ نہیں رہے کہ تم میں کچھ مریض ہو جاتے ہیں کچھ تجارتی سفر کرتے ہیں اور کچھ قتال کرتے ہیں، بلکہ اب معنی صرف یہ رہ گئے کہ تم میں کچھ مریض ہو جائیں گے، کچھ تجارتی سفر کریں گے اور کچھ قتال کریں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آگے چل کر پیش آنے والے ایسے حالات کے پیش نظر یہ حکم اتارا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت بھی لوگ بیمار پڑتے تھے لیکن اس وقت لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ جیسے جیسے انسان مہذب ہوتا جائے گا، اس کے جسمانی نظام کی قوت مدافعت کمزور ہوتی جائے گی اور نت نئے امراض کا اضافہ ہوتا رہے گا۔ البتہ اللہ جانتا تھا۔ اس وقت بھی صحابۂ کرام (رض) معاشی اور تجارتی کام کرتے تھے لیکن قریش کے تجارتی قافلوں میں ان کی عدم شمولیت کی وجہ سے ان کے تجارتی سفر نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔ اور ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ صورتحال کبھی تبدیل ہو گی۔ لیکن اللہ جانتا تھا کہ نہ صرف ان کے تجارتی اسفار میں اضافہ ہونے والا ہے بلکہ ایک وقت وہ بھی آنے والا ہے جب اہل ایمان اندلس سے انڈونیشیا تک، یعنی اس وقت کی معلوم دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تجارتی سفر کریں گے۔ اس وقت صحابۂ کرام (رض) کو قتال کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن اللہ جانتا تھا کہ نہ صرف قتال کی اجازت دی جائے گی بلکہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب قتال فرض قرار دیا جائے گا۔ اس طرح مستقبل کی صورتحال کی طرف اشارے کر کے صحابۂ کرام (رض) کو تسلی بھی دی گئی اور ان کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ مستقبل کے یہ حالات اتنے یقینی ہیں کہ ان کی وجہ سے تخفیف کا حکم بھی نازل کیا جا رہا ہے۔ اس آیت کے زمانۂ نزول کے متعلق بی بی عائشہ صدیقہ (رض) اور ابن عباس (رض) کے اقوال پر شک کرنے کی دوسری وجہ آیت کا اگلا حصہ ہے جس میں مستقبل کی طرف اشارے کرنے کے بعد پھر قیام اللیل کے نعم البدل یعنی تلاوتِ قرآن کے ذکر کے ساتھ ہدایت دی گئی کہ نماز قائم رکھو، زکوٰۃ پہنچاتے رہو اور اللہ کو قرض حسن دیتے رہو۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نماز معراج میں اور زکوٰۃ ہجرت کے بعد فرض ہوئی ہے اس لیے یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ لیکن یہ دلیل بھی قابل قبول نہیں ہے۔ معراج میں پانچ وقت کی نمازیں اپنے اوقات کے تعین کے ساتھ فرض ہوئی ہیں لیکن نماز کی ہدایت اس سے پہلے سے موجود تھی۔ مکی صورتوں میں جگہ جگہ واضح الفاظ میں یہ ہدایت موجود ہے۔ بات کو سمجھنے کے لیے ان شاء اللہ ایک ہی آیت کا حوالہ کافی ہو گا۔ سورہ ھود کی آیت۔114۔ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ اور آپؐ قائم رکھیں نماز کو دن کے دونوں کناروں پر اور کچھ حصّوں میں رات میں سے۔‘‘ آیت کے اس جز کی تشریح تفہیم القرآن میں ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ ’’ دن کے دونوں سروں پر سے مراد صبح اور مغرب ہے اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشاء کا وقت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ارشاد اس زمانے کا ہے جب نماز کے لیے ابھی پانچ وقت مقرر نہیں کیے گئے تھے۔ معراج کا واقعہ اس کے بعد پیش آیا جس میں پنج وقتہ نماز فرض ہوئی۔‘‘ اب کوئی ابہام نہیں رہتا کہ آیت زیر مطالعہ میں اس وقت کی ہدایت کے مطابق نماز قائم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اسی طرح سے زکوٰۃ کے قواعد و ضوابط کو آخری شکل یقینا مدینہ میں دی گئی ہے لیکن زکوٰۃ کا حکم پہلے سے موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد مکی سورتوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً سورۃ المؤمنون کی پہلی گیارہ آیات میں مومنوں کی صفات بیان کی گی ہیں۔ ان میں سے آیت نمبر۔4۔ میں ہے کہ وہ لوگ زکوٰۃ پر عمل پیرا ہیں۔ اس کی تشریح میں ’’ ابن کثیر اور دیگر مفسرین کا کہنا ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت مکہ ہی میں ہو چکی تھی۔ مگر سرکاری طور پر اس کے وصول کرنے کا انتظام اور نصابات وغیرہ کی تفصیلات مدینہ جانے کے بعد جاری ہوئیں۔‘‘ (معارف القرآن) ان وجوہات کی بنا پر میر اذہن اس پر آمادہ نہیں ہوتا کہ جلیل القدر صحابۂ کرام کے اقوال کو چھوڑ کر ایک تابعی (رح) کے قول کو ترجیح دی جائے، اور وہ بھی آیات کے زمانۂ نزول کے بارے میں۔ نوٹ۔2: مَاتُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دیا وہ تمھارے لیے اس سے زیادہ نفع بخش ہے جو تم نے دنیا میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے۔ لوگوں نے عرض کیا ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ فرمایا سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارا حال واقعی یہی ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ تمھارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دیا اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے۔ (تفہیم القرآن)" "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ " "يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ Ǻ۝ۙ [يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ: اے کپڑے میں لپٹنے والے] د ث ر [دُثُوْرًا: (ن) ] کپڑے کا میلا ہونا۔ بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونا۔ (تفعل) تَدَثُرا اِدَّثَّرًا۔ کپڑا اوڑھنا۔ کپڑے میں لپٹنا۔ مُدَّثِّرٌ اسم الفاعل ہے۔ کپڑے میں لپٹنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔1۔" "قُمْ فَاَنْذِرْ Ą۝۽ [قُمْ فَانذِرْ: آپؐ کھڑے ہوں پھر آپؐ خبردار کریں (لوگوں کو)]" "وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ Ǽ۝۽ [وَرَبَّكَ فَكَبِرْ: اور اپنے رب کی پھر آپؐ بڑائی بیان کریں] نوٹ۔1: آیت۔3۔ میں حکم دیا گیا کہ صرف اپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے، قول سے بھی اور عمل سے بھی۔ اس جگہ لفظ رب اس لیے اختیار کیا گیا کہ یہ اس حکم کی علت ہے کیونکہ جو سارے جہان کا پالنے والا ہے صرف وہی ہر بڑائی اور کبریائی کا مستحق ہے (معارف القرآن) انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں توحید کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے یعنی صرف اللہ ہی کی کبریائی و یکتائی کا اعلان کہ اللہ کے سوا جو بھی کبریائی کے مدعی ہیں یا جن کی کبریائی کا دعوٰی کیا جاتا ہے، وہ سب باطل ہیں۔ ایک جاہلی معاشرہ میں یہ اعلان ساری خدائی سے لڑائی مول لینے کے ہم معنی تھا لیکن دین کی بنیاد چونکہ اسی کلمہ پر ہے اس لیے ہر نبی کو بےدرنگ یہ اعلان کرنا پڑا۔ (تدبر قرآن)" "وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ Ć۝۽ [وَثِيَابَكَ فَطَهِرْ: اور اپنے کپڑوں کو پھر آپؐ پاک رکھیں] نوٹ۔2: وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ۔ یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جن کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست سے پاک رکھو، کیونکہ جسم و لباس کی پاکیزگی اور روح کی پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہ ﷺ جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تھے وہ صرف عقائد اور اخلاق کی خرابیوں میں مبتلا نہ تھا بلکہ طہارت و نظافت کے بھی ابتدائی تصورات تک سے خالی تھا اور حضور ﷺ کا کام ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پاکیزگی کا سبق سکھانا تھا۔ اس لیے ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنی ظاہری زندگی میں بھی طہارت کا ایک اعلیٰ معیار قائم فرمائیں۔ چنانچہ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ حضور ﷺ نے نوع انسانی کو طہارتِ جسم و لباس کی وہ مفصل تعلیم دی ہے جو زمانہ، جاہلیت کے اہل عرب تو درکنار، آج اس زمانے کی مہذب ترین قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے، حتیٰ کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایسا کوئی لفظ تک نہیں پایا جاتا جو لفظ ’’ طہارت‘‘ کا ہم معنی ہو۔ بخلاف اس کے اسلام کا حال یہ ہے کہ حدیث اور فقہہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی کتاب الطہارت سے ہوتا ہے۔ ان الفاظ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اپنا لباس صاف ستھرا رکھو۔ راہبانہ تصورات نے دنیا میں مذہبیت کا معیار یہ قرار دے رکھا تھا کہ آدمی جتنا زیادہ میلا کچیلا ہو، اتنا ہی زیادہ وہ مقدس ہوتا ہے۔ اگر کوئی ذرا اُجلے کپڑے پہن لیتا تو سمجھا جاتا کہ وہ دنیا دار انسان ہے۔ اسی بنا پر اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ اس کی ظاہری حالت بھی پاکیزہ اور نفیس ہو۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ لباس کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھو یعنی لباس صاف ستھرا تو ضرور ہو لیکن اس میں فخر و غرور، شان و شوکت اور نمائش کا شائبہ تک نہ ہونا چاہیے۔ چوتھا مفہوم یہ ہے کہ اپنا دامن پاک رکھو۔ اردو زبان کی طرح عربی زبان میں بھی پاک دامنی کے ہم معنی الفاظ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ متعدد اکابر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھو۔ (تفہیم القرآن)" "وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ Ĉ۝۽ [وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ: اور گندگی کو پس آپؐ چھوڑ دیں] نوٹ۔3: رُجْزٌ۔ رِجْزٌ اور رِجْسٌ تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں۔ اس کا استعمال اس گندگی کے لیے ہوتا ہے جس کو دیکھ کر طبیعت میں ارتعاش اور گِھن پیدا ہو۔ یوں تو اس سے ہر قسم کی گندگی مراد ہو سکتی ہے لیکن یہاں یہ خاص طور پر شرک کی گندگی کے لیے آیا ہے کہ اپنے دامن کو شرک کے چھینٹوں سے محفوظ رکھنے کے لیے شرک کی ناپاکی سے دور رہو۔ اس ہدایت کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ العیاذ باللہ آپؐ کے کسی شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ تھا۔ مقصود صرف کفار ومشرکین کو آگاہ کرنا تھا کہ وہ جان لیں کہ جو خبردار کرنے والا ان کے پاس آیا ہے اس کا موقف ان کے دین شرک کے بارے میں کیا ہے اور وہ اپنے رب کی طرف سے اس باب میں کن ہدایات کے ساتھ مبعوث ہوا ہے۔ (تدبر قرآن)" "وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ Č۝۽ [وَلَا تمنُنْ تَسْتَكْثِرُ: اور آپؐ احسان مت کریں کثرت (بہت معاوضہ) چاہتے ہوئے]" "وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ Ċ۝ۭ [وَلِرَبِكَ فَاصْبِرْ: اور اپنے رب کے لیے پھر آپؐ ثابت قدم رہیں]" "فَاِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُوْرِ Ď۝ [فَاِذَا نُقِرَ فِي النَاقُوْرِ: پھر جب پھونکا جائے گا بگل میں]" "فَذٰلِكَ يَوْمَىِٕذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ Ḍ۝ۙ [فَذٰلِكَ يَوْمَىِٕذٍ: تو وہ (واقعہ) ایسے دن ہو گا جو] [يَّوْمٌ عَسِيْرٌ: ایک دشوار دن ہے] ترکیب: (آیت۔9۔10) فَذٰلِکَ کا اشارہ گذشتہ آیت میں اِذَا نُقِرَ کی طرف ہے۔ یَوْمَگذٍ نکرہ مخصوصہ ہے۔ یَوْمٌ عَسِیْرٌ (مرکب توصیفی) اور غَیْرُ یَسِیْرٍ (مرکب اضافی) دونوں اس کی خصوصیت ہیں۔" "عَلَي الْكٰفِرِيْنَ غَيْرُ يَسِيْرٍ 10؀ [عَلَي الْكٰفِرِيْنَ غَيْرُ يَسِيْرٍ: کافروں پر کسی نرمی کے بغیر ہے]" "ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا 11۝ۙ [ذَرْنِيْ: آپؐ چھوڑ دیں مجھ کو] [وَمَنْ: اور اس کو جس کو] [خَلَقْتُ وَحِيْدًا: میں نے پیدا کیا تنہا ہوتے ہوئے] (آیت۔11) ذَرْ فعل امر کا مفعول نِیْ کی ضمیر ہے اور مَنْ خَلْقُتُ کا مفعول مقدم ہے۔ جبکہ وَحِیْدًا حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ اس کو خَلَقْتُ کی ضمیر فاعلی کا حال بھی مانا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں مطلب ہو گا کہ میں نے تنہا اس کو پیدا کیا۔ اس کام میں کوئی بھی میرا شریک نہیں اور اس کو مَنْ کا حال مانا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے دو مطلب ہوں گے۔ ایک یہ کہ ہر انسان (مَنْ واحد۔ جمع۔ مذکر۔ مؤنث سب کے لیے آتا ہے) ماں کے پیٹ سے اکیلا آتا ہے۔ مال و اولاد اور دیگر سازوسامان ساتھ نہیں لاتا۔ دوسرا یہ کہ اس کو اپنے ماں باپ کا اکلوتا پیدا کیا،" "وَّجَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا 12۝ۙ [وَّجَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا: اور میں نے بنایا اس کے لیے بڑھایا ہوا مال] (آیت۔12۔13) جَعَلْتُ کا مفعول مَالًا اور بَیِّنَ ہے۔ شُھُوْدًا کو جَعَلْتُ کا تیسرا مفعول بھی ماناجا سکتا ہے ایسی صورت میں مطلب ہو گا موقع پر حاضر رہنے والے یعنی نوکر چاکر، اور اس کو بَنِیْنَ کا حال بھی مانا جا سکتا ہے۔ (حافظ احمد یار صاحب ) ۔ ہماری رائے ہے کہ چونکہ بَنِیْنَ اور شُھُوْدًا کے درمیان وائو عاطفہ نہیں ہے اس لیے بہتر ہے کہ شُھُوْدًا کو بَنِیْنَ حال مانا جائے۔" "وَّبَنِيْنَ شُهُوْدًا 13؀ۙ [وَّبَنِيْنَ شُهُوْدًا: اور بیٹے حاضر رہنے والے]" "وَّمَهَّدْتُّ لَهٗ تَمْهِيْدًا 14؀ۙ [وَّمَهَّدْتُّ لَهٗ: اور میں نے ہموار کیا اس کے لیے (راہوں کو)] [تمهِيْدًا: جیسے ہموار کرتے ہیں]" "ثُمَّ يَطْمَعُ اَنْ اَزِيْدَ 15؀ڎ [ثُمَّ يَطْمَعُ: پھر وہ للچاتا ہے] [ان اَزِيْدَ: کہ میں زیادہ کروں]" "كَلَّا ۭ اِنَّهٗ كَانَ لِاٰيٰتِنَا عَنِيْدًا 16؀ۭ [كَلَّا ۭ انهٗ كَان: ہرگز نہیں! بیشک وہ تھا] [لِاٰيٰتِنَا عَنِيْدًا: ہماری آیتوں کی مخالفت کرنے والا]" "سَاُرْهِقُهٗ صَعُوْدًا 17؀ۭ [سَاُرْهِقُهٗ صَعُوْدًا: میں مبتلا کروں گا اس کو ایک دشوار چڑھائی میں]" "اِنَّهٗ فَكَّرَ وَقَدَّرَ 18؀ۙ [انهٗ فَكَّرَ: بیشک اس نے غوروفکر کیا] [وَقَدَّرَ: اور قدر و قیمت طے کی]" "فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ 19؀ۙ [فَقُتِلَ: تو مارا جائے (ستیاناس ہو جائے)] [كَيْفَ قَدَّرَ: کیسی اس نے قیمت طے کی]" "ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ 20؀ۙ [ثُمَّ: پھر (I Repeat)] [قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ: مارا جائے کیسی اس نے قیمت طے کی]" "ثُمَّ نَــظَرَ 21؀ۙ [ثُمَّ نَــظَرَ: پھر اس نے نظر دوڑائی]" "ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ 22؀ۙ [ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ: پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بسورا] ع ب س (ض) عَبْسًا ترش روئی کرنا۔ تیوری چڑھائی۔ زیر مطالعہ آیت۔22 عَبُوْسٌ فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ صفت کے طور پر آتا ہے۔ انتہائی ترش رو۔ انتہائی بدمزاج۔ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا (بیشک ہم ڈرتے ہیں اپنے رب سے ایک ایسے دن سے جو انتہائی ترش، بہت شدید ہے) 76:10 ب س ر (ن) بُسُوْرًا (1) منہ بگاڑنا۔ منہ بسورنا (مایوسی سے) ۔ (2) چہرے کا اداس ہونا۔ چہرے کا مرجھانا۔ زیر مطالعہ آیت۔22۔ بَاسِرَۃٌ اسم الفاعل بَاسِرٌ کا مؤنث ہے۔ اداس ہونے والا۔ مرجھانے والا۔ وُجُوْہٌ یَّوْمَگذٍ بَاسِرَۃٌ (کچھ چہرے اس دن مرجھانے والے ہیں) 75:24" "ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ 23؀ۙ [ثُمَّ اَدْبَرَ: پھر اس نے پیٹھ پھیری] [وَاسْتَكْبَرَ: اور بڑا بنا]" "فَقَالَ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ يُّؤْثَرُ 24؀ۙ [فَقَالَ ان هٰذَآ: تب اس نے کہا نہیں ہے یہ] [اِلَّا سِحْرٌ: مگر ایک ایسا جادو جو] [يُّؤْثَرُ: نقل کیا جاتا ہے]" "اِنْ هٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ 25؀ۭ [ان هٰذَآ اِلَّا: نہیں ہے یہ مگر] [قَوْلُ الْبَشَرِ: اس بشر کا قول] نوٹ۔1: اس سورۃ کی پہلی سات آیات مکہ معظمہ کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ ہیں۔ سورۃ کا باقی ماندہ حصّہ آیت۔8 سے آخر تک اس وقت نازل ہوا جب اسلام کی علانیہ تبلیغ شروع ہو جانے کے بعد مکہ میں پہلی مرتبہ حج کا موقع آیا۔ اور مکہ کے لوگوں کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اس موقع پر تمام عرب سے حاجیوں کے قافلے آئیں گے، اگر محمد ﷺ نے ان قافلوں کی قیام گاہوں پر حاجیوں سے ملاقاتیں کیں اور اجتماعات میں قرآن جیسا مؤثر کلام سنایا تو عرب کے ہر گوشے تک ان کی دعوت پہنچ جائے گی اور نہ معلوم کون کون اس سے متاثر ہو جائے۔ اس لیے قریش کے سرداروں نے ایک کانفرنس کی جس میں طے کیا گیا کہ حاجیوں کے آتے ہی ان کے اندر رسول اللہ ﷺ کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا جائے۔ اس پر اتفاق رائے ہو گیا تو ولید بن مغیرہ نے حاضرین سے کہا کہ اگر آپ لوگوں نے محمد ( ﷺ) کے متعلق مختلف باتیں لوگوں سے کہیں تو ہم سب کا اعتبار جاتا رہے گا۔ اس لیے کوئی ایک بات طے کرلو جسے سب بالاتفاق کہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا ہم کاہن کہیں گے۔ ولید نے کہا قرآن کو کاہنوں سے دور کی نسبت بھی نہیں ہے۔ کچھ نے کہا انھیں مجنون کہا جائے۔ ولید نے کہا کون باور کرے گا کہ محمد ( ﷺ) جو کلام پیش کرتے ہیں وہ دیوانگی کی بڑ ہے یا جنون کے دورے میں آدمی یہ باتیں کرسکتا ہے۔ لوگوں نے کہا اچھا تو پھر ہم شاعر کہیں گے۔ ولید نے کہا ہم شعر کی ساری اقسام سے واقف ہیں۔ اس کلام پر شاعری کی کسی قسم کا اطلاق بھی نہیں ہوسکتا۔ لوگ بولے تو ان کو ساحر کہا جائے۔ ولید نے کہا جادوگر اپنے جادو کے لیے جو طریقے اختیار کرتے ہیں، ان سے بھی ہم واقف ہیں۔ یہ بات بھی ان پر چسپاں نہیں ہوتی۔ پھر ولید نے کہا ان باتوں میں سے جو بات بھی تم کرو گے، لوگ اسے ناروا الزام سمجھیں گے۔ خدا کی قسم اس کلام میں بڑی حلاوت ہے۔ اس کی جڑ بڑی گہری اور اس کی ڈالیاں بڑی ثمردار ہیں۔ اس پر ابوجہل ولید کے سر ہو گیا اور اس نے کہا تمہاری قوم تم سے راضی نہ ہوگی جب تک تم محمد ( ﷺ) کے بارے میں کوئی بات نہ کہو۔ اس نے کہا اچھا مجھے سوچ لینے دو۔ پھر سوچ سوچ کر بولا قریب ترین بات جو کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ تم عرب کے لوگوں سے کہو یہ شخص جادوگر ہے۔ یہ ایسا کلام پیش کر رہا ہے جو آدمی کو باپ۔ بھائی۔ بیوی۔ بچوں اور سارے خاندان سے جدا کر دیتا ہے۔ ولید کی اس بات کو سب نے قبول کر لیا۔ پھر ایک منصوبہ کے مطابق حج کے زمانے میں قریش کے وفود حاجیوں کے درمیان پھیل گئے اور انھوں نے لوگوں کو خبردار کرنا شروع کیا کہ یہاں ایک ایسا شخص اٹھ کھڑا ہوا ہے جو بڑا جادوگر ہے اور اس کا جادو خاندانوں میں تفریق ڈال دیتا ہے، اس سے ہوشیار رہنا مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ کا نام خود ہی سارے عرب میں مشہور کر دیا۔ یہی واقعہ ہے جس پر اس سورہ کے دوسرے حصّے یعنی آیت۔8۔ سے آخر تک ، میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 138 تا 140 سے ماخوذ)" "سَاُصْلِيْهِ سَقَرَ 26؀ [سَاُصْلِيْهِ سَقَرَ: میں ڈالوں گا اس کو جھلسانے والی (دوزخ) میں]" "وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُ 27؀ۭ [وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُ: اور آپؐ کیا جانیں کیا ہے جھلسانے والی] ترکیب: (آیت۔27) سَقَرُ غیر منصرف ہے اور مؤنث سماعی بھی ہے۔ اس لیے آگے مُبْقِیْ۔ تَذَرُ۔ لَوَّاحَۃٌ اس کے لیے مؤنث کے صیغے آئے ہیں اور آگے اس کے لیے ضمیریں بھی مؤنث کی آئی ہیں۔" "لَا تُبْقِيْ وَلَا تَذَرُ 28؀ۚ [لَا تُبْقِيْ وَلَا تَذَرُ: وہ باقی نہیں رہنے دیتی اور نہ چھوڑتی ہے]" "لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ 29؀ښ [لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ: جھلسانے والی ہے انسانوں کو] (آیت۔29) لَوَّاحَۃٌ خبر ہے۔ اس کا مبتدا ھِیَ محذوف ہے۔ لِلْبَشَرِ متعلق خبر ہے اور اس پر لام جنس ہے اس لیے اس کا ترجمہ جمع میں ہو گا۔" "عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ 30؀ۭ [عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ: اس پر انیس (فرشتے) ہیں] (آیت۔30) عَلَیْھَا کی ضمیر سَقَرُ کے لیے ہے۔ نوٹ۔1: آیت۔30۔ میں ہے کہ دوزخ پر انیس فرشتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوزخ کے انتظام پر جو فرشتوں کا لشکر ہو گا اس کے افسرانیس فرشتے ہوں گے۔ جن میں سب سے بڑے ذمہ دار کا نام مالک ہے۔ (دیکھیں آیت۔43:77، نوٹ۔1) ۔ حضرت شاہ عبد العزیز (رح) نے نہایت تفصیل سے انیس کے عدد کی حکمتیں بیان کی ہیں جو قابل دید ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جہنم میں مجرموں کو عذاب دینے کے لیے انیس قسم کے فرائض ہیں۔ جن میں سے ہر فرض کی انجام دہی ایک ایک فرشتے کی سرکردگی میں ہو گی۔ کوئی شبہ نہیں کہ فرشتہ کی طاقت بہت بڑی ہے اور ایک فرشتہ وہ کام کرسکتا ہے جو لاکھوں آدمی مل کے نہیں کرسکتے۔ لیکن یاد رہے کہ ہر فرشتہ کی یہ قوت اسی دائرے میں محدود ہے جس کام کے کرنے کے لیے وہ مامور ہوا ہے۔ مثلاً ملک الموت لاکھوں آدمیوں کی جان ایک آن میں نکال سکتا ہے۔ مگر عورت کے پیٹ میں ایک بچے کے اندر جان نہیں ڈال سکتا۔ حضرت جبریلؑ چشم زدن میں وحی لا سکتے ہیں لیکن پانی برسانا ان کا کام نہیں ہے۔ جس طرح کان دیکھ نہیں سکتا، آنکھ سن نہیں سکتی۔ اسی طرح اگر ایک فرشتہ عذاب کے واسطے دوزخیوں پر مقرر ہوتا تو اس سے ایک ہی قسم کا عذاب دوزخیوں پر ہو سکتا تھا۔ دوسری قسم کا عذاب جو اس کے دائرہ استعداد سے باہر ہے ممکن نہ تھا۔ اس لیے انیس قسم کے عذابوں کے لیے، جن کی تفصیل تفسیر عزیزی میں ہے، انیس ذمہ دار فرشتے مقرر ہوئے علماء نے اس عدد کی حکمتوں پر بہت کچھ کہا ہے مگر احقر کے نزدیک حضرت شاہ صاحب (رح) کا کلام بہت عمیق و لطیف ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )" "وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰۗىِٕكَةً ۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۙ لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَيَزْدَادَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِيْمَانًا وَّلَا يَرْتَابَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۙ وَلِيَقُوْلَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْكٰفِرُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا ۭ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ ۭ وَمَا ھِيَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْبَشَرِ 31؀ۧ [وَمَا جَعَلْنَآ: اور ہم نے نہیں بنایا (کسی کو)] [اَصْحٰبَ النَارِ: آگ والے (داروغہ)] [اِلَّا مَلٰۗىِٕكَةً: مگر کچھ فرشتوں کو] [وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ: اور ہم نے نہیں بنایا ان کی گنتی کو] [اِلَّا فِتْنَةً: مگر ایک آزمائش] [لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا: ان کے لیے جنھوں نے کفر کیا] [لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ: تاکہ یقین حاصل کریں وہ لوگ جن کو] [اُوْتُوا الْكِتٰبَ: دی گئی کتاب] [وَيَزْدَادَ الَّذِينَ اٰمَنُوْٓا: اور زیادہ ہوں وہ لوگ جو ایمان لائے] [اِيْمَانا: بلحاظ ایمان کے] [وَّلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ: اور تاکہ شبہہ میں نہ پڑیں وہ لوگ جن کو] [اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ: دی گئی کتاب اور مومن لوگ] [وَلِيَقُوْلَ الَّذِينَ: اور تاکہ کہیں وہ لوگ] [فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ: جن کے دلوں میں ایک روگ ہے] [وَّالْكٰفِرُوْنَ: اور کافر لوگ] [مَاذَآ اَرَادَ اللّٰهُ: کیا ارادہ کیا اللہ نے] [بِهٰذَا مَثَلًا: اس (گنتی) سے بطور مثال کے] [كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ: اس طرح پھسلا دیتا ہے اللہ] [مَنْ يَّشَاۗءُ: اس کو جس کو وہ چاہتا ہے] [وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ: اور وہ ہدایت دیتا ہے اس کو جس کو وہ چاہتا ہے] [وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِكَ: اور نہیں جانتا آپؐ کے رب کے لشکروں کو (کوئی بھی)] [اِلَّا هُوَ: مگر وہی] [وَمَا ھِيَ: اور نہیں ہے یہ (سقر کی بات)] [اِلَّا ذِكْرٰى لِلْبَشَرِ: مگر ایک یاددہانی انسانوں کے لیے] (آیت۔31) لِیَسْتَیْقَنَ کے لام کَی پر عطف ہونے کی وجہ سے یَزْدَادَ اور یَرْتَابَ ، دونوں مضارع حالت نصب میں آئے ہیں کیونکہ لام کَی کے بعد اَنْ مقدر ہوتا ہے۔ وَمَاھِیَ ذِکْرٰی میں ھِیَ بھی سَقَرُ کے لیے ہے اور آیت۔26۔ سے اس کی جو بات چلی آ رہی ہے اسے ذِکْرٰی کہا ہے۔ نوٹ۔2: اگلی آیت۔31۔ میں دوزخ کے کارکنوں کی تعداد بیان کرنے کی وجہ بیان کی گئی کہ یہ تعداد اس لئے بیان کی گئی کہ یہ ہر اس شخص کے لیے فتنہ بن جائے جو اپنے اندر کوئی کفر چھپائے بیٹھا ہو۔ اگر وہ خدا کی عظیم قدرتوں کے بارے میں یا وحی و رسالت کے بارے میں شک کا کوئی شائبہ بھی اپنے دل میں رکھتا ہے، تو یہ سنتے ہی کہ خدا کی اتنی بڑی جیل میں بےحد و حساب مجرموں کو صرف 19 سپاہی قابو میں رکھیں گے اور فرداً فرداً ایک ایک شخص کو عذاب بھی دیں گے، تو اس کا کفر فوراً کھل کر باہر آ جائے گا۔ دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ اہل کتاب اس سے یقین حاصل کریں گے۔ بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ اہل کتاب کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں جو دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے اس لیے یہ بات سن کر ان کو یقین آ جائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی کی فرمائی ہوئی ہے۔ لیکن دو وجوہ سے یہ تفسیر صحیح نہیں ہے۔ اوّل یہ کہ یہود و نصارٰی کی کتابوں میں یہ بات کہیں نہیں ملتی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد۔19 ہے۔ دوسرے یہ کہ قرآن مجید میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جو اہل کتاب کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں۔ لیکن وہ لوگ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد ﷺ نے یہ باتیں ان کی کتابوں سے نقل کرلی ہیں۔ ان وجوہ سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سے دوزخ کے انیس فرشتوں کا ذکر سنکر میرا خوب مذاق اڑایا جائے گا۔ اس کے باوجود بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انھوں نے کسی جھجھک کے بغیر لوگوں کے سامنے پیش کردیا اور کسی مذاق استھزاء کی پرواہ نہ کی۔ جہلائے عرب تو انبیاء کی اس شان سے ناواقف تھے، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیتے تھے۔ اس بنا پر اہل کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے اس طرز عمل کو دیکھ کر انھیں یقین آ جائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجھک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ (تفہیم القرآن)" "كَلَّا وَالْقَمَرِ 32؀ۙ [كَلَّا وَالْقَمَرِ: ہرگز نہیں! قسم ہے چاند کی]" "وَالَّيْلِ اِذْ اَدْبَرَ 33 ؀ۙ [وَالَّيْلِ اِذْ اَدْبَرَ: قسم ہے رات کی جب اس نے پیٹھ پھیری]" "وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ 34؀ۙ [وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ: قسم ہے صبح کی جب وہ روشن ہوتی ہے]" "اِنَّهَا لَاِحْدَى الْكُبَرِ 35؀ۙ [انهَا: بیشک یہ (بات)] [لَاِحْدَى الْكُبَرِ: یقینا بہت بڑی باتوں کی ایک ہے] (آیت۔35۔36) اِنَّھَا لَاِحْدَی الْکُبَرِ میں اِنَّھَا کی ضمیر بھی سَقَرُ کے لیے ہے اور اَلْکُبَرِ ۔ کُبْرٰی کی جمع ہے۔ نَذِیْرًا۔ اِنَّھَا کا حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ فَعِیْلٌ کے وزن پر آنے والے اسماء الصّفہ میں کبھی مذکر مؤنث میں فرق کرنے کے لیے تائے ثانیث لگاتے ہیں اور کبھی نہیں بھی لگاتے۔ اس لیے یہاں نَذِیْرَۃً کے بجائے نَذِیْرًا بھی درست ہے۔" "نَذِيْرًا لِّلْبَشَرِ 36؀ۙ [نَذِيْرًا لِلْبَشَرِ: خبردار کرنے والی ہوتے ہوئے انسانوں کے لیے]" "لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّتَقَدَّمَ اَوْ يَتَاَخَّرَ 37؀ۭ [لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ: اس کے لیے جو چاہے تم میں سے] [ان يَّتَقَدَّمَ: کہ وہ آگے بڑھے] [اَوْ يَتَاَخَّرَ: یا (چاہے تو) پیچھے رہے]" "كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ 38؀ۙ [كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ: ہر جان، اس میں جو اس نے کمائی کی] [رَهِيْنَةٌ: گروی رکھی ہوئی ہے]" "اِلَّآ اَصْحٰبَ الْيَمِيْنِ 39؀ړ [اِلَّآ اَصْحٰبَ الْيَمِيْنِ: سوائے داہنی طرف والوں کے]" "فِيْ جَنّٰتٍ ۺ يَتَسَاۗءَلُوْنَ 40؀ۙ [فِيْ جَنّٰتٍ ۺ يَتَسَاۗءَلُوْنَ: (وہ لوگ) باغات میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے] نوٹ۔1: زیر مطالعہ آیات ۔40 تا 48۔ میں جن مجرمین کا ذکر ہے ان کے متعلق یہ بات ذہن میں واضح کرلیں کہ یہ ملحدوں یا کافروں کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو ایمانیات کو مانتے ہیں اور دل سے مانتے ہیں۔ آخرت کا اقرار کرتے ہیں لیکن دنیاوی معاملات میں الجھتے وقت آخرت میں جوابدہی اور حساب کتاب کا خوف محسوس نہیں کرتے۔ اس طرح آخرت کی تکذیب عملی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے عمل میں کمزور ہیں۔ ٹی۔ وی دیکھ رہے ہیں یا کسی مجلس میں شخصیات پر گرما گرم بحث میں مبتلا ہیں، کسی کی غیبت ہے، کسی پر بہتان ہے یا روزہ رکھا ہوا ہے اور روزہ بہلانے کے لیے کلب میں بیٹھے تاش کھیل رہے ہیں، ایسے میں اذان کی آواز آ جاتی ہے تو جلدی سے اپنا کام روک دیتے ہیں۔ اذان کا جواب دیتے ہیں اذان ختم ہونے کی دعا پڑھ کر منہ پر ہاتھ پھیر کے پھر شروع ہو جاتے ہیں اور نماز پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ البتہ اگر کبھی غیرتِ اسلامی کے مظاہرے کا موقع آ جائے تو جلسہ جلوس، مارکٹائی، ڈکیتی اور قتل و غارتگری میں اسلام کی سربلندی کے لیے اس طرح شریک ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ حدود اور رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی ہدایات کو پیروں تلے روند کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے۔ اسلام کی خاطر ان کی سرفروشی کو دیکھ کر ہمارے جیسے کچے پکے مسلمان ان کو خود سے بہتر مسلمان سمجھتے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے اگر معافی دے کر اپنی رحمت سے ہمیں جنت میں بھیج دیا یا رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کے طفیل ہمیں دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچا دیا گیا، تو وہاں ہم ایسے سرفروشوں کو تلاش کریں گے اور ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ وہ جیالے کدھر ہیں، نظر نہیں آتے۔ پھر جب جنت کو چھوڑ کر دوزخ کا جائزہ لیں گے تو وہاں وہ نظر آ جائیں گے اور ہم حیران ہو کر پوچھیں گے کہ حضرت آپ یہاں کیسے۔ اس وقت جو مکالمہ ہو گا، آیت۔47۔ تک میں اس کا بیان ہے اور آیت۔48۔ میں ایسے مجرموں کے لیے اللہ تعالیٰ کے حتمی فیصلے کا بیان ہے۔ (مرتب) وہ جو کہیں گے کہ ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان لوگوں میں سے نہ تھے جنھوں نے خدا اور اس کے رسول اور اس کی کتب کو مان کر خدا کا وہ اوّلین حق ادا کیا ہو جو ایک خدا پرست انسان پر عائد ہوتا ہے یعنی نماز۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نماز کوئی شخص اس وقت تک پڑھ ہی نہیں سکتا جب تک وہ ایمان نہ لایا ہو۔ اس لیے نمازیوں میں سے ہونا آپ سے آپ ایمان لانے والوں میں سے ہونے کو مستلزم ہے۔ لیکن نمازیوں میں سے نہ ہونے کو دوزخ میں جانے کا سبب قرار دے کر یہ بات واضح کر دی گئی کہ ایمان لا کر بھی آدمی دوزخ سے نہیں بچ سکتا اگر وہ تارکِ نماز ہو۔ (تفہیم القرآن) مجرموں کے جواب کا آخری جملہ بہت اہم ہے جس میں انھوں نے کہا ’’ یہاں تک کہ آن پہنچا ہمارے پاس وہ یقین‘‘ یعنی موت۔ ایک طرف اس میں حسرت ہے کہ قبل اس کے کہ ہم توبہ کرتے اور اپنی اصلاح کرتے، ہمارا وقت پورا ہو گیا اور ہمیں توبہ کا موقع نہیں ملا۔ دوسری طرف اس میں اس چیز کی طرف اشارہ ہے جو اس عارضی دنیا میں اہل ایمان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے یعنی توبہ کا دروازہ۔ اور ہمارے لیے رہنمائی یہ ہے کہ کوئی پتہ نہیں توبہ کا دروازہ کب بند ہو جائے اس لیے ہر صاحب ایمان پر لازم ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً جائزہ لیتا رہے، اپنے اعمال کی اصلاح کرتا رہے اور محض اپنے ایمان کی پونجی کے بھروسے پر مت بیٹھا رہے۔ اس آیت میں موت کو الیقین اس لیے کہا گیا ہے کہ اس دنیا میں جب انسان کی آنکھ بند ہوتی ہے تو اس دنیا میں کھل جاتی ہے اور وہاں کی جن جن باتوں کی خبر انسان کو یہاں دی گئی ہے، وہ سب اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں۔ اس وقت اہل ایمان کا علم الیقین، عین الیقین میں ڈھل جاتا ہے اور اس وقت کٹر سے کٹر ملحد اور کافر بھی یقین لانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس یقین کی وادی کا دروازہ موت ہے۔ (مرتب) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ آخرت میں اللہ کے فرشتے، انبیائ، شہداء اور صالحین گنہگاروں کی شفاعت کریں گے اور وہ ان کی شفاعت سے جہنم سے نکال لیے جائیں گے سوائے ان چار قسم کے مجرمین کے جن کا ذکر یہاں آیا ہے۔ یعنی جو نماز اور زکوٰۃ کے تارک ہیں، جو اہل باطل کی اسلام کے خلاف باتوں میں ان کے شریک رہتے ہیں اور جو قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ (معارف القرآن) ہمارے جاننے والے چند اصحاب کو یہ بات تسلیم کرنے میں تردّد ہے کہ یہاں نکذب بیوم الدین سے مراد تکذیبِ عملی ہے جبکہ صوتحال یہ ہے کہ یہاں جتنے بھی جرائم کا ذکر ہے ان سب کا تعلق عمل سے ہے، کسی ایک کا بھی تعلق قول سے نہیں ہے۔ منکرِ صلوٰۃ اور منکرِ زکوٰۃ مجرم نہیں بلکہ کافر ہے۔ جب کہ تارکِ صلوٰۃ اور تارکِ زکوٰۃ کافر نہیں ہے مجرم ہے۔ جرم یہ ہے کہ وہ زبان سے ان کا اقرار کر رہا ہے اور اپنے عمل سے ان کی تکذیب کر رہا ہے۔ اسی طرح سے جو زبان سے آخرت کا اقرار کرے لیکن اس عقیدے کے عملی تقاضوں کو پورا نہ کرے وہ آخرت کے عقیدے کی عملی تکذیب کا مجرم ہے کافر نہیں ہے۔ ایک مسلمان جب خوض کرنے والوں کے ساتھ خوض کرتا ہے اور زندگی کے دیگر معاملات میں اللہ کی حکم عدولی کرتا ہے، اس وقت اس کے دل سے آخرت کا خوف نکل چکا ہوا ہے، چاہے زبان سے وہ آخرت کا اقرار کرتا ہو لیکن اپنے عمل سے وہ اس کی تکذیب کرتا ہے۔ یہاں ایسے ہی لوگوں کا اعتراف جرم ہے۔ (مرتب) 18: جمادی الاوّل 1431 ھ بمطابق 3: مئی 2010 ء" "عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ 41؀ۙ [عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ: مجرموں کے بارے میں]" "مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ 42؀ [مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ: (پھر مجرموں سے پوچھیں گے) کس چیز نے ڈالا تم کو دوزخ میں]" "قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ 43؀ۙ [قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِيْنَ: وہ لوگ کہیں گے ہم نہیں تھے نمازیوں میں سے]" "وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ 44؀ۙ [وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ: اور ہم نہیں کھلایا کرتے تھے] [الْمِسْكِيْنَ: مسکینوں کو]" "وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ 45؀ۙ [وَكُنَا نَخُوْضُ: اور ہم لاحاصل بحث کیا کرتے تھے] [مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ: بحث کرنے والوں کے ساتھ]" "وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ 46؀ۙ [وَكُنَا نُكَذِّبُ: اور ہم جھٹلایا کرتے تھے] [بِيَوْمِ الدِّيْنِ: بدلے کے دن کو]" "حَتّىٰٓ اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ 47؀ۭ [حَتّىٰٓ اَتٰىنَا: یہاں تک کہ آن پہنچا ہمارے پاس] [الْيَقِيْنُ: وہ یقین (موت)]" "فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَ 48؀ۭ [فَمَا تَنْفَعُهُمْ: تو نفع نہیں دے گی ان کو] [شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَ: شفاعت کرنے والوں کی شفاعت]" "فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِيْنَ 49؀ۙ [فَمَا لَهُمْ: تو انھیں کیا (ہو گیا) ہے] [عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِيْنَ: (کہ) اس یاددہانی سے اعراض کرنے والے ہوتے ہیں]" "كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ 50؀ۙ [كَانهُمْ: (ایسے) جیسے کہ وہ لوگ] [حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ: بدکنے والے ایسے گدھے ہیں جو]" "فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ 51؀ۭ [فَرَّتْ: بھاگے] [مِنْ قَسْوَرَةٍ: کسی شیر (شیرانِ خدا کی دہشت) سے]" "بَلْ يُرِيْدُ كُلُّ امْرِۍ مِّنْهُمْ اَنْ يُّؤْتٰى صُحُفًا مُّنَشَّرَةً 52 ؀ۙ [بَلْ يُرِيْدُ كُلُّ امْرِۍ مِّنْهُمْ: بلکہ چلتا ہے ہر مرد ان میں سے] [ان يُّؤْتٰى: کہ اس کو دیئے جائیں] [صُحُفًا مُّنَشَّرَةً: کھولے ہوئے اور اق]" "كَلَّا ۭ بَلْ لَّا يَخَافُوْنَ الْاٰخِرَةَ 53؀ۭ [كَلَّا ۭ بَلْ لَّا يَخَافُوْنَ الْاٰخِرَةَ: ہرگز نہیں بلکہ یہ لوگ خوف نہیں محسوس کرتے آخرت کا]" "كَلَّآ اِنَّهٗ تَذْكِرَةٌ 54؀ۚ [كَلَّآ انهٗ تَذْكِرَةٌ: ہرگز نہیں بیشک یہ (قرآن) ایک یاددہانی ہے]" "فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَهٗ 55؀ۭ [فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَه: تو جو چاہے وہ یاد کرے اس کو]" "وَمَا يَذْكُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۭ هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَاَهْلُ الْمَغْفِرَةِ 56؀ۧ [وَمَا يَذْكُرُوْنَ: اور وہ لوگ یاد نہیں کریں گے] [اِلَّآ ان: سوائے اس کے کہ] [يَّشَاۗءَ اللّٰهُ: چاہے اللہ] [هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى: وہی تقویٰ کیے جانے کا اہل ہے] [وَاَهْلُ الْمَغْفِرَةِ: بخش دینے کا اہل ہے۔]" "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ " "لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ Ǻ۝ۙ [لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ: نہیں میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی] نوٹ۔1: یہاں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اور ملامت کرنے والے نفس (ضمیر) کی قسم جس بات پر کھائی ہے اسے بیان نہیں کیا گیا کیونکہ بعد کا فقرہ خود اس بات پر دلالت کر رہا ہے۔ قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ ضرور پیدا کرے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات پر ان دو چیزوں کی قسم کس مناسبت سے کھائی گئی ہے۔ جہاں تک روز قیامت کا تعلق ہے، اس کی قسم کھانے کی وجہ یہ ہے کہ پوری کائنات کا نظام اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ نظام نہ ہمیشہ سے تھا اور نہ ہمیشہ باقی رہ سکتا ہے۔ جتنا جتنا اس دنیا کے متعلق انسان کا علم بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی یہ امر یقینی ہوتا چلا جاتا ہے کہ اس نظام کی ایک ابتدا ہے جس سے پہلے یہ نہ تھا اور لازماً اس کی ایک انتہا ہے جس کے بعد یہ نہ رہے گا۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع پر خود قیامت کی ہی قسم کھائی ہے لیکن روز قیامت کی قسم صرف اس امر کی دلیل ہے کہ ایک دن یہ نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا۔ رہی یہ بات کہ اس کے بعد انسان دوبارہ اٹھایا جائے گا اور اس کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا، تو اس کے لیے دوسری قسم نفس لوامہ کی کھائی گئی ہے۔ کوئی انسان دنیا میں موجود نہیں ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو۔ اس کا ضمیر اسے برائی کرنے اور بھلائی نہ کرنے پر ٹوکتا ضرور ہے۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان ایک اخلاقی وجود ہے اور وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور برے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ اب اگر انسان میں نفس لوامہ کی موجودگی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ یہی نفس لوامہ زندگی بعدِ موت کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ کیونکہ فطرت کا یہ تقاضہ کہ انسان کو اچھے اور برے اعمال کی جزا یا سزا ضرور ملنی چاہیے، زندگی بعد موت کے سوا کسی دوسری صورت میں پورا نہیں ہو سکتا۔ (تفہیم القرآن)" "وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ Ą۝ۭ [وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ: اور نہیں میں قسم کھاتا ہوں باربار ملامت کرنے والے نفس کی] نوٹ۔2: نفس لوامہ سے مراد کوئی علیحدہ اور مستقل نفس نہیں ہے بلکہ یہ نفس انسانی ہی کا ایک پہلو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کی تشکیل اس طرح فرمائی ہے کہ اس کے اندر نیکی اور بدی کا شعور ودیعت فرما دیا ہے۔ اور اس کے لیے ضابطہ یہ ٹھہرایا ہے کہ جو اپنے نفس کو برائیوں سے پاک رکھے گا وہ فلاح پانے والا ہے اور جو اس کو برائیوں سے آلودہ رکھے گا وہ نامراد ہو گا۔ سورۃ الشمس میں اس کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے ’’ اور گواہ ہے نفس اور اس کی تشکیل۔ پس اس کو الہام کر دی اس کی بدی اور نیکی۔ جس نے اس کو پاک رکھا اس نے فلاح پائی اور جس نے اس کو آلودہ رکھا وہ نامراد ہوا۔‘‘ (آیات 7 تا 10) ۔ اس تشکیل کی اس نوعیت کے سبب سے نفس بعض اوقات اپنی خواہشوں سے مغلوب ہو کر اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے اور وہ انسان کو کسی برائی پر آمادہ کر دیتا ہے۔ نفس کے اس رجحان کو قرآن میں نفس امّارہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ (سورہ یوسف۔53) لیکن یہ نفس نیکیوں کا شعور بھی رکھتا ہے۔ اس وجہ سے جب تک اس کا توازن برقرار رہتا ہے اس وقت تک وہ اپنے آپ کو بھی برائی صادر ہونے پر ملامت کرتا ہے اور دوسروں کی برائیوں کو دیکھ کر بھی کڑھتا ہے اور بسااوقات ملامت کرتا ہے۔ نفس کے اسی پہلو کو یہاں نفس امارہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ نفس کے توازن کو درست رکھنے کی تدبیر اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ آدمی برابر اپنے رب اور روز جزاء و سزا کو یاد رکھے۔ یہ یاد نفس کے توازن کو درست رکھتی ہے اور وہ کبھی اپنی خواہشوں سے اتنا مغلوب نہیں ہوتا کہ بالکل اس کے آگے سپر انداز ہو جائے۔ اگر کبھی کوئی لغزش ہو جاتی ہے تو نفس لوامہ فوراً اس کو ٹوکتا ہے اور وہ متنبہ ہو کر توبہ وانابت سے اس داغ کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جس نفس کے اندر یہ توازن پیدا ہو جائے قرآن نے اس کو نفس مطمئنہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ سورۃ الفجر۔ 27۔ (تدبر قرآن)" "اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ Ǽ۝ۭ [اَيَحْسَبُ الْانسَان اَلَنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ: کیا گمان کرتا ہے انسان کہ ہم ہرگز جمع نہیں کریں گے اس کی ہڈیوں کو] ترکیب: (آیت۔3) اَلَّنْ میں ہمزہ استفہام نہیں ہے۔ اگر یہ ہمزئہ استفہام ہوتا تو اَلَنْ آتا۔ لام پر تشدید بتا رہی ہے کہ یہ دراصل اَنْ لَّنْ ہے اور اَنْ کا نون گرا ہوا ہے۔ قرآن مجید کے اس مقام پر اَنْ کے نون کو گرا کر لکھنا قرآن کا مخصوص املا ہے، ورنہ عام عربی میں اس کو اَنْ لَّنْ ہی لکھتے ہیں البتہ پڑھتے اَلَّنْ ہیں۔ نوٹ 3: آیات ۔3۔4۔ کا حاصل یہ ہے کہ تمھیں اس پر تعجب ہے کہ مَیّت کے ذرات منتشرہ اور بوسیدہ ہڈیوں کو جمع کیسے کیا جائے گا۔ حالانکہ یہ بات ایک مرتبہ مشاہدہ میں آ چکی ہے کہ ہر انسان کا وجود جو دنیا میں پلتا اور بڑھتا ہے وہ دنیا بھر کے مختلف ملکوں اور خطوں کے اجزاء اور ذرات کا مرکب ہوتا ہے۔ تو جس ذاتِ قادر نے پہلی مرتبہ ساری دنیا میں بکھرے ہوئے ذرات کو ایک انسان کے وجود میں جمع کردیا تھا، اس کے لیے دوبارہ جمع کرنا کیوں مشکل ہوگا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم صرف اسی پر قادر نہیں ہیں کہ مَیّت کے سارے اجز اعضاء کو دوبارہ اسی طرح بنا دیں بلکہ انسانی وجود کی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی ہم ٹھیک اسی طرح کر دیں گے جس طرح وہ پہلے تھی۔ اس میں بنان یعنی انگلیوں کے پوروں کا خاص ذکر فرمایا کہ وہ سب سے چھوٹے اجزاء ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو شاید انگلیوں کے پوروں کی تخصیص میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوا حق تعالیٰ نے ایک انسان کو دوسرے انسان سے ممتاز کرنے کے لیے اس کے سارے ہی بدن میں ایسی خصوصیات رکھی ہیں جن سے وہ پہچانا جاتا ہے اور دوسروں سے ممتاز ہوتا ہے۔ خصوصاً انسانی چہرہ جو چند انچ مربع سے زائد نہیں، اس کے اندر قدرت حق نے ایسے امتیازات رکھے ہیں کہ اربوں انسانوں میں ایک کا چہرہ دوسرے کے ساتھ اتنا نہیں ملتا کہ امتیاز باقی نہ رہے۔ انسان کی زبان اور حلقوم ایک ہی طرح ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ایسی ممتاز ہے کہ بچے، بوڑھے، عورت، مرد کی آوازیں الگ پہچانی جاتی ہیں۔ اور ہر انسان کی آواز الگ الگ پہچانی جاتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز انسان کے انگوٹھے اور انگلیوں کے پور ہیں کہ ان کے اوپر جو نقش و نگار خطوط کے جال کی صورت میں قدرت نے بنائے ہیں وہ کبھی ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ نہیں ملتے۔ صرف آدھ انچ کی جگہ میں ایسے امتیازات کہ اربوں انسانوں میں یہ پور مشترک ہونے کے باوجود ایک کے خطوط دوسرے سے نہیں ملتے۔ قدیم وجدید ہر زمانے میں انگوٹھے کے نشان کو ایک امتیازی چیز قرار دے کر اس پر عدالتی فیصلے ہوتے رہے ہیں، اور اب فنی تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ بات صرف انگوٹھے ہی میں نہیں بلکہ ہر انگلی کے پور کے خطوط بھی اسی طرح ممتاز ہوتے ہیں۔ یہ سمجھ لینے کے بعد بنان کے بیان کی تخصیص خودبخود سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ تمھیں تو اسی پر تعجب ہے کہ یہ انسان دوبارہ کیسے زندہ ہو گا۔ ذرا اس سے آگے سوچو اور غور کرو کہ وہ صرف زندہ ہی نہیں ہو گا بلکہ اپنی سابقہ شکل وصورت اور اس کے ہر امتیازی وصف کے ساتھ زندہ ہو گا۔ یہاں تک کہ انگوٹھے اور انگلیوں کے پوروں کے خطوط پہلی پیدائش میں جس طرح تھے، دوبارہ بھی بالکل وہی ہوں گے۔ (معارف القرآن)" "بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ Ć۝ [بَلٰى: کیوں نہیں (ہم ضرور جمع کریں گے)] [قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي ان: قادر ہوتے ہوئے اس پر کہ] [نُّسَوِّيَ بَنَانهٗ: ہم درست کر دیں اس کی پور پورکو] (ایت۔4) قٰدِرُوْنَ کے بجائے قٰدِرِیْنَ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ اس لیے بَلٰی کے بعد لَنَجْمَعَنَّ محذوف مانا جاتا ہے۔ اس طرح جملہ کا اصل مفہوم ہے کہ کیوں نہیں! ہم لازماً جمع کریں گے قادر ہوتے ہوئے اس پر کہ…" "بَلْ يُرِيْدُ الْاِنْسَانُ لِيَفْجُرَ اَمَامَهٗ Ĉ۝ۚ [بَلْ يُرِيْدُ الْانسَان: بلکہ چاہتا ہے انسان] [لِيَفْجُرَ اَمَامَهٗ: کہ وہ اپنی مرضی چلائے اپنے آگے (آنے والے وقت میں بھی)]" "يَسْــَٔـلُ اَيَّانَ يَوْمُ الْقِيٰمَةِ Č۝ۭ [يَسْــَٔـلُ اَيَّان يَوْمُ الْقِيٰمَةِ: وہ پوچھتا ہے کب ہو گا قیامت کا دن]" "فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ Ċ۝ۙ [فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ: تو جب چندھیا جائے گی آنکھ] نوٹ 4: آیات۔ 7 تا 9۔ میں قیامت کے پہلے مرحلے میں نظام عالم کے درہم برہم ہو جانے کی کیفیت کا ایک مختصر بیان ہے۔ چاند کے بےنور ہو جانے اور چاند سورج کے مل کر ایک ہو جانے کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صرف چاند ہی کی روشنی ختم نہ ہوگی جو سورج سے ماخوذ ہے، بلکہ خود سورج بھی تاریک ہو جائے گا اور بےنور ہو جانے میں دونوں یکساں ہو جائیں گے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زمین یکایک الٹی چل پڑے اور اس دن چاند اور سورج دونوں بیک وقت مغرب سے طلوع ہوں گے۔ تیسرا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ چاند زمین کی کشش سے چھوٹ کر نکل جائے اور سورج میں جاپڑے۔ ممکن ہے اس کا کوئی اور مفہوم بھی ہو جس کو آج ہم نہیں سمجھ سکتے۔ (تفہیم القرآن)" "وَخَسَفَ الْقَمَرُ Ď۝ۙ [وَخَسَفَ الْقَمَرُ: اور گہنا جائے گا چاند]" "وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ Ḍ۝ۙ [وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ: اور اکٹھا کیے جائیں گے سورج اور چاند]" "يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍ اَيْنَ الْمَفَرُّ 10۝ۚ [يَقُوْلُ الْانسَان يَوْمَىِٕذٍ: کہے گا انسان اس دن] [اَيْنَ الْمَفَرُّ: کدھر ہے بھاگنے کی جگہ]" "كَلَّا لَا وَزَرَ 11۝ۭ [كَلَّا لَا وَزَرَ: ہرگز نہیں! کوئی بھی پناہ گاہ نہیں ہے] (آیت۔11) لَاوَزَرَ میں وَزَرَ ماضی کا صیغہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ اسم وَزَرٌ ہے۔ اس پر لائے نفیٔ جنس داخل ہونے کی وجہ سے یہ وَزَرَ ہوا ہے۔ (دیکھیں آیت۔2:2)" "اِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِۨ الْمُسْتَــقَرُّ 12۝ۭ [اِلٰى رَبِكَ يَوْمَىِٕذِۨ الْمُسْتَــقَرُّ: تیرے رب کی طرف ہی اس دن ٹھہرنے کا ٹھکانہ ہے]" "يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ [يُنَبَّؤُا الْانسَان يَوْمَىِٕذٍۢ: جتلا دیا جائے گا انسان کو اس دن] [بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ: وہ جو اس نے آگے بھیجا اور (جو) اس نے پیچھے چھوڑا] نوٹ 5: آیت۔ 13۔ میں ہے بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ۔ یہ بڑا جامع فقرہ ہے جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں اور غالباً وہ سب ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کو اس روز یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ اپنی دنیا کی زندگی میں مرنے سے پہلے کیا نیکی یا بدی کما کر اس نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیجی تھی۔ اور یہ حساب بھی اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا کہ اپنے اچھے یا برے اعمال کے کیا اثرات وہ اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آیا تھا جو اس کے بعد مدت ہائے دراز تک آنے والی نسلوں میں چلتے رہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اسے وہ سب کچھ بتا دیا جائے گا جو اسے کرنا چاہیے تھا مگر اس نے نہیں کیا اور جو کچھ نہ کرنا چاہیے تھا مگر اس نے کر ڈالا۔ تیسرے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ اس نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں کیا اس کا پورا حساب تاریخ وار اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ چوتھے معنی یہ ہیں کہ جو نیکی یا بدی اس نے کی وہ بھی اسے بتا دی جائے گی اور جس نیکی یا بدی کے کرنے سے وہ باز رہا اس سے بھی اسے آگا کیا جائے گا۔ (تفہیم القرآن) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جو نیک کام اپنی موت سے پہلے کرلیا وہ آگے بھیج دیا۔ اور جو نیک یا بد، مفید یا مضر کوئی طریقہ، کوئی رسم ایسی چھوڑی کہ اس کے بعد لوگ اس پر عمل کریں، وہ اس نے پیچھے چھوڑا۔ اور حضرت قتادہ (رح) نے فرمایا کہ مَاقَدَّمَ سے مراد وہ عمل صالح جو اپنی زندگی میں کر گزرا اور مَا اَخَرَ سے مراد وہ عمل صالح ہے جس کو کرسکتا تھا مگر نہ کیا اور فرصت ضائع کر دی۔ (معارف القرآن)" "بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌ 14؀ۙ [بَلِ الْانسَان عَلٰي نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌ: بلکہ انسان اپنے آپ کو خوب دیکھنے والا ہے]" "وَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَهٗ 15؀ۭ [وَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَهٗ: اور اگرچہ وہ ڈالے (پیش کرے) اپنے بہانے]" "لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ 16؀ۭ [لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانكَ: آپؐ حرکت نہ دیں اس (قرآن) کے ساتھ اپنی زبان کو] [لِتَعْجَلَ بِهٖ: تاکہ آپؐ جلدی یاد کریں اس کو] ح ر ک [حَرَکًا: (ک) ] ہلنا۔ حرکت کرنا۔ (تفعیل) تَحْرِیْکًا ہلانا۔ حرکت دینا۔ زیر مطالعہ آیت۔16۔ نوٹ 1: آیت۔ 16۔ سے لے کر۔ 19۔ تک کی پوری عبارت ایک جملۂ معترضہ ہے جو سلسلہ کلام کو بیچ میں توڑ کر نبی ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبوت کے ابتدائی دور میں جبکہ آپؐ کو وحی اخذ کرنے کی عادت اور مشق پوری طرح نہیں ہوئی تھی، آپؐ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپؐ کو یہ اندیشہ لاحق ہوتا تھا کہ آپؐ کو وہ کلام ٹھیک ٹھیک یاد رہ سکے گا یا نہیں۔ اس لیے آپؐ وحی سننے کے ساتھ ساتھ اسے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگتے تھے۔ ایسی ہی صورت اس وقت پیش آئی جب حضرت جبریل ؑ سورۂ قیامہ کی آیات آپؐ کو سنا رہے تھے۔ چنانچہ سلسلہ کلام کو توڑ کر آپؐ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپؐ وحی کے الفاظ یاد کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ غور سے سنتے رہیں۔ اسے یاد کرا دینا اور بعد میں ٹھیک ٹھیک آپؐ سے پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ یہ فرمانے کے بعد اصل سلسلۂ کلام ’’ ہر گز نہیں! اصل بات یہ ہے‘‘ سے پھر شروع ہو جاتا ہے جو لوگ اس پس منظر سے واقف نہیں ہیں وہ اس مقام پر ان فقروں کو دیکھ کر یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس سلسلۂ کلام میں یہ بالکل بےجوڑ ہیں۔ لیکن اس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد کلام میں کوئی بےربطی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک استاد درس دیتے ہوئے یہ دیکھے کہ طالب علم کسی اور طرف متوجہ ہے اور وہ درس کا سلسلہ روک کر طالب علم سے کہے کہ توجہ سے میری بات سنو اور اس کے آگے پھر اپنا درس شروع کر دے۔ ان آیات کے درمیان یہ فقرے بطور جملۂ معترضہ آنے کی جو تو توجیہہ ہم نے کی ہے وہ محض قیاس پر مبنی نہیں ہے بلکہ مسند احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن جریر، طبرانی، بیہقی وغیرہ میں معتبر روایات سے اس کی یہی وجہ بیان ہوئی۔ (تفہیم القرآن)" "اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه ٗ 17؀ښ [ان عَلَيْنَا جَمْعَهٗ: بیشک ہم پر ہے اس کا جمع کرنا (آپؐ کے سینے میں)] [وَقُرْاٰنَه: اور (آسان کرنا) اس کا پڑھنا] نوٹ 2: آیت ۔17۔ میں لفظ جمع ایک جامع لفظ ہے۔ اس سے مراد قرآن کو نبی ﷺ کے سینے میں محفوظ کرنا بھی ہے اور ان منتشر موتیوں کو ایک لڑی میں پرونا بھی ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر رہنمائی حاصل ہوتی رہی کہ مختلف مواقع پر نازل ہونے والی آیات کو الگ الگ سورتوں میں کس ترتیب سے آپؐ جمع کرائیں۔ چنانچہ اسی رہنمائی کی روشنی میں آپؐ نے الگ الگ سورتوں میں ان کے مواقع کے تعین کے ساتھ آیات جمع کرنے کی ہدایت فرمائی اور جمع کرنے والوں نے آپؐ کے حکم کی تعمیل کی۔ اس کے علاوہ ایک مزید اہتمام اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہررمضان میں نبی ﷺ حضرت جبریل ؑ کے ساتھ اتنے قرآن کا مذاکرہ فرماتے جتنا نازل ہو چکا ہوتا تاکہ کسی سہو ونسیان کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیاتِ مبارک کے آخری رمضان میں آپؐ نے یہ مذاکرہ دو مرتبہ فرمایا۔ (تدبر قرآن)" "فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ 18؀ۚ [فَاِذَا قَرَانٰهُ: پھر جب بھی ہم (فرشتے کی زبان سے) پڑھیں اس کو] [فَاتَّبِعْ: تو آپؐ پیچھے پیچھے چلیں] [قُرْاٰنَهٗ: اس کو پڑھے جانے کے]" "ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ 19؀ۭ [ثُمَّ ان عَلَيْنَا بَيَانهٗ: پھر بیشک ہم پر ہے اس کا ظاہر کرنا] نوٹ 3: آیت۔ 19۔ بڑی اہم آیت ہے جس سے چند ایسی اصولی باتیں ثابت ہوتی ہیں جنھیں آدمی اگر اچھی طرح سمجھ لے تو وہ ان گمراہیوں سے بچ سکتا ہے جو پہلے بھی بعض لوگ پھیلاتے رہے ہیں اور آج بھی پھیلا رہے ہیں۔ اولاً اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپؐ کو ایسا علم دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے الفاظ اور اس کی مخصوص اصطلاحات کا جو مفہوم حضور ﷺ کو سمجھایا جاتا تھا وہ اگر قرآن ہی میں درج ہوتا تو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے، کیونکہ وہ تو پھر قرآن ہی میں مل جاتا۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مطالب قرآن کی جو تفہیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جاتی تھی وہ بہرحال الفاظِ قرآن کے علاوہ تھی۔ یہ وحی خفی (وحی غیر متلو) کا ایک اور ثبوت ہے جو ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔ (قرآن مجید سے اس کے مزید ثبوت ہم نے اپنی کتاب ’’ سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں صفحات 94۔ 95۔ اور صفحات 118 تا 125 میں پیش کر دئیے ہیں۔) ثانیا قرآن کے احکام کی تشریح جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو بتائی گئی تھی وہ اسی لیے بتائی گئی تھی کہ آپؐاپنے قول اور عمل سے اس کے مطابق لوگوں کو قرآن سمجھائیں اور قرآن کے احکام پر (اللہ کی مرضی کے مطابق۔ مرتب) عمل کرنا سکھائیں۔ اس لیے صرف ایک بیوقوف آدمی ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تشریحی علم کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے خود سورۂ نحل کی آیت۔ 44۔ میں فرمایا ہے: ’’ اور اے نبیؐ یہ ذکر ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح کرتے جائو جو ان کے لیے اتاری گئی ہے۔‘‘ اور قرآن میں چار جگہ اللہ نے صراحت فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا کام صرف کتاب اللہ کی آیات سنا دینا ہی نہیں تھا بلکہ اس کتاب کی تعلیم دینا بھی تھا۔ (ان سب آیات کی تشریح ہم ’’ سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں صفحہ 74 تا 77 میں تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں) ۔ اس کے بعد کوئی ایسا آدمی جو قرآن کو مانتا ہو اس بات کو تسلیم کرنے سے کیسے انکار کرسکتا ہے کہ قرآن کی مستند اور سرکاری تشریح صرف وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے قول اور عمل سے فرما دی ہے کیونکہ وہ آپؐ کی ذاتی تشریح نہیں ہے بلکہ قرآن نازل کرنے والے خدا کی بتائی ہوئی تشریح ہے۔ ثالثاً قرآن کا سرسری مطالعہ بھی اگر کسی شخص نے کیا ہو تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جنھیں ایک عربی جاننے والا محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر یہ نہیں جان سکتا کہ ان کا حقیقی مدعا کیا ہے اور ان میں جو حکم بیان کیا گیا ہے اس پر کیسے عمل کیا جائے۔ مثال کے طور پر لفظ صلوٰۃ ہے۔ محض عربی لغت کی مدد سے کوئی شخص اس کا مفہوم تک تعین نہیں کرسکتا۔ قرآن میں اس کا ذکر بار بار دیکھ کر وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس لفظ کو کسی خاص اصطلاحی معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مراد کوئی خاص فعل ہے لیکن صرف قرآن پڑھ کر کوئی عربی جاننے والا یہ طے نہیں کرسکتا کہ وہ خاص فعل کیا ہے اور کس طرح اسے ادا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک معلم کو مقرر کر کے صلوٰۃ کے حکم کی تعمیل کرنے کا طریقہ پوری وضاحت کے ساتھ اسے سکھا دیا جس کی وجہ سے آج ڈیڑھ ہزار برس سے مسلمان نسل در نسل ساتھ اسے سکھا دیا جس کی وجہ سے آج ڈیڑھ ہزار برس سے مسلمان نسل در نسل نماز کے حکم پر یکساں عمل کر رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر صرف قرآن کے الفاظ ہی وحی نہیں فرمائے تھے بلکہ ان الفاظ کا مطلب بھی آپؐ کو پوری طرح سمجھا دیا تھا۔ رابعًا قرآن کے الفاظ کی جو تشریح اللہ نے اپنے رسولؐ کو بتائی اور رسولؐ نے اپنے قول وعمل سے اس کی جو تعلیم امت کو دی، اس کو جاننے کا ذریعہ ہمارے پاس حدیث وسنت کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ حدیث سے مراد وہ روایات ہیں جو حضور ﷺ کے اقوال و افعال کے متعلق سند کے ساتھ اگلوں سے پچھلوں تک منتقل ہوئیں۔ اور سنت سے مراد وہ طریقہ ہے جو حضور ﷺ کی قولی وعملی تعلیم سے مسلم معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رائج ہوا۔ اس ذریعہ علم کو جو شخص قبول کرنے سے انکار کرتا ہے وہ گویا یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت۔ 19۔ میں قرآن کا مطلب اپنے رسول کو سمجھا دینے کی جو ذمہ داری لی تھی اسے پورا کرنے میں معاذ اللہ وہ ناکام ہو گیا ہے۔ (والعیاذ باللہ) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے حدیثیں گھڑ لی تھیں، تو ان کا یہ قول خود اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ آغازِ اسلام میں پوری امت رسول اللہ ﷺ کے اقوال و اعمال کو قانون کا درجہ دیتی تھی، ورنہ گمراہی پھیلانے والوں کو جھوٹی حدیثیں گھڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ جعل ساز لوگ وہی سکے جعلی بناتے ہیں جن کا بازار میں چلن ہو۔ جن نوٹوں کی بازار میں کوئی قیمت نہ ہو انھیں کون جعلی طور پر چھاپے گا۔ پھر ایسی بات کہنے والوں کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ اس امت سے اول روز سے اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ جس ذاتِ پاکؐ کے اقوال وافعال قانون کا درجہ رکھتے ہیں اس کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہونے پائے۔ اس امت کے خیرخواہ لوگوں نے اس بات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا تھا کہ صحیح کو غلط سے ممیز کیا جائے۔ صحیح وغلط روایات کی تمیز کا یہ علم ایک بڑا ہی عظیم الشان علم ہے جو مسلمانوں کے سوا دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایجاد نہیں کیا۔ سخت بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اس علم کو حاصل کیے بغیر حدیث وسنت کو ناقابل اعتبار ٹھہراتے ہیں۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 169 تا 171 سے ماخوذ) نوٹ 4: اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی انسانی صلاحیت کے متعلق بات ہو چکی ہے۔ آیت نمبر 6:103، نوٹ۔1۔ دوبارہ دیکھ لیں۔" "كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ 20؀ۙ [كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ: ہرگز نہیں بلکہ تم لوگ پسند کرتے ہو] [الْعَاجِلَةَ: جلدی حاصل ہونے والی (دنیا) کو]" "وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ 21؀ۭ [وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ: اور تم لوگ چھوڑتے ہو پیچھے ہونے والی (آخرت) کو]" "وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22؀ۙ [وُجوهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَاضِرَةٌ: کچھ چہرے اس دن ترو تازہ ہونے والے ہیں] ن ض ر [نَضْرَۃً: (ن۔ س) ] تروتازہ ہونا۔ ملائم ہونا۔ خوبصورت ہونے والا۔ نَضْرَۃٌ اسم ذات بھی ہے۔ تروتازگی۔ ملائمیت، خوبصورتی۔ تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ نَضْرَۃَ الْنَّعِیْمِ (تو پہچانے گا ان کے چہروں میں ہمیشگی کی تروتازگی کو) 83:24۔ نَاضِرَۃٌ اسم الفاعل ہے۔ تروتازہ ہونے والی۔ زیر مطالعہ آیت۔32۔" "اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ 23؀ۚ [اِلٰى رَبِهَا نَاظِرَةٌ: اپنے رب کی طرف دیکھنے والے ہیں]" "وَوُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍۢ بَاسِرَةٌ 24؀ۙ [وَوُجوهٌ يَّوْمَىِٕذٍۢ بَاسِرَةٌ: اور کچھ چہرے اس دن مرجھانے والے ہیں]" "تَظُنُّ اَنْ يُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ 25؀ۭ [تَظُنُّ ان يُّفْعَلَ: وہ گمان کریں گے کہ کیا جائے گا] [بِهَا فَاقِرَةٌ: ان کے ساتھ (کمر) توڑنے والا کام]" "كَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ 26؀ۙ [كَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ: ہرگز نہیں جب کبھی پہنچتی ہے (جان) ہنسلیوں تک]" "وَقِيْلَ مَنْ ۫رَاقٍ 27؀ۙ [وَقِيْلَ مَنْ: اور کہا جاتا ہے کون (کوئی)] [رَاقٍ: جھاڑ پھونک کرنے والا ہے]" "وَّظَنَّ اَنَّهُ الْفِرَاقُ 28؀ۙ [وَّظَنَّ انهُ الْفِرَاقُ: اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک دوسرے سے جدا ہونا ہے]" "وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ 29؀ۙ [وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ: اور (جب ) لپٹتی ہے پنڈلی پنڈلی سے]" "اِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِۨ الْمَسَاقُ 30؀ۧ [اِلٰى رَبِكَ يَوْمَىِٕذِۨ الْمَسَاقُ: (تو وہ سمجھتا ہے) تیرے رب کی طرف اس دن ہانکا جانا ہے]" "فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى 31 ؀ۙ [فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى: پھر اس نے نہ تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی] نوٹ 1: آیات۔ 31 تا 33۔ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا اس نے وہ سب کچھ سنا جو اوپر کی آیات میں بیان کیا گیا ہے، مگر پھر بھی وہ اپنے انکار پر ہی اڑا رہا اور یہ آیات سننے کے بعد اکڑتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل دیا ہے اس میں یہ الفاظ کہ فَلَا صَدِّقَ وَلَا صَلَّی خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں۔ ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب کی صداقت تسلیم کر لینے کا اولین اور لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھے۔ اللہ کے دوسرے احکام کی تعمیل کی نوبت تو بعد میں آتی ہے، لیکن ایمان کے اقرار کے بعد کچھ زیادہ مدت نہیں گزرتی کہ نماز کا وقت آ جاتا ہے۔ اس وقت معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے زبان سے جس چیز کے ماننے کا اقرار کیا ہے وہ کس حد تک اس کے دل کی آواز ہے۔ (تفہیم القرآن) نوٹ 2: عربی زبان میں اِبِلٌ سُدًی اس اونٹ کے لیے بولتے ہیں جو یوں ہی چھوٹا پھر رہا ہو، جہاں چاہے چرتا پھرے اور کوئی اس کی نگرانی کرنے والا نہ ہو۔ اسی معنی میں ہم شتر بےمہار کا لفظ بولتے ہیں۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کیا انسان نے اپنے آپ کو شتر بےمہار سمجھ رکھا ہے کہ اس کے خالق نے اسے زمین میں غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا ہے۔ کوئی فرض اس پر عائد نہ ہو۔ کوئی چیز اس کے لیے ممنوع نہ ہو۔ اور کوئی وقت ایسا آنے والا نہ ہو جب اس سے اس کے اعمال کی باز پرس کی جائے، یہی بات سورۂ المومنون کی آیت۔ 115۔ میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ ’’ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمھیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمھیں کبھی ہماری طرف پلٹ کر نہیں آنا ہے۔‘‘ ان دونوں مقامات پر موت کے بعد کی زندگی کے واجب ہونے کی دلیل سوال کی شکل میں پیش کی گئی ہے۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا تم نے اپنے آپ کو جانور سمجھ رکھا ہے۔ کیا تمھیں اپنے میں اور جانور میں یہ کھلا فرق نظر نہیں آتا کہ وہ بےاختیار ہے اور تم بااختیار ہو۔ اس کے افعال میں اخلاقی حسن وقبح کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور تمھارے افعال میں یہ سوال لازماً پیدا ہوتا ہے۔ پھر تم نے اپنے متعلق یہ کیسے سمجھ لیا کہ جس طرح جانور غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ ہے اسی طرح تم بھی ہو۔ جانور کے دوبارہ زندہ کر کے نہ اٹھانے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اس پر اپنے کسی عمل کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی جس کی باز پرس کے لیے اسے دوبارہ زندہ کرنے کی حاجت ہو۔ لیکن تم حیات بعد موت سے کیسے معاف کیے جا سکتے ہو جبکہ مرتے دم تک تم ایسے اخلاقی افعال کرتے رہتے ہو جن کے نیک یا بد ہونے اور جزا یا سزا کے مستوجب ہونے کا خود تمھاری عقل حکم لگاتی ہے۔ (تفہیم القرآن) نوٹ 3: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سورۂ قیامہ کی آخری آیت کی تلاوت کرے، اس کو یہ کلمات کہنے چاہیے۔ بَلٰی وَاَنَا عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشّٰھِدِیْنَ یعنی بلاشبہ وہ اس پر قادر ہے اور میں بھی ان لوگوں میں داخل ہوں جو اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اس حدیث میں یہی الفاظ سورۂ والتین کی آخری آیت پڑھنے کے وقت بھی کہنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ جو شخص سورۂ مرسلٰت کی آخری آیت پر پہنچے تو اس کو اٰمَنَّا بِاللّٰہِ کہنا چاہیے۔" "وَلٰكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى 32؀ۙ [وَلٰكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى: اور لیکن (بلکہ) اس نے جھٹلایا اور روگردانی کی]" "ثُمَّ ذَهَبَ اِلٰٓى اَهْلِهٖ يَتَمَطّٰى 33؀ۭ [ثُمَّ ذَهَبَ اِلٰٓى اَهْلِهٖ: پھر وہ گیا اپنے گھر والوں کی طرف] [يَتمطّٰى: اکڑتا ہوا] م ط ی [مَطَیًا: (س) ] لمبا ہونا۔ دراز ہونا۔ (تفعل) تَمَطُّیًا بتکلف دراز ہونا۔ اکڑ کر چلنا۔ زیر مطالعہ آیت۔33۔" "اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى 34؀ۙ [اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى: (تباہی) زیادہ قریب ہے تیرے لیے، زیادہ قریب]" "ثُمَّ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى 35؀ۭ [ثُمَّ: پھر (I Repeat)] [اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى: (تباہی) زیادہ قریب ہے تیرے لیے، زیادہ قریب]" "اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى 36؀ۭ [اَيَحْسَبُ الْانسَان: کیا سمجھتا ہے انسان] [ان يُّتْرَكَ: کہ وہ چھوڑ دیا جائے گا] [سُدًى: (یوں ہی) بےلگام]" "اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْـنٰى 37؀ۙ [اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً: کیا وہ نہیں تھا ایک ایسی بوند] [مِّنْ مَّنِيٍّ: کسی منی میں سے جو] [يُّمْـنٰى: ٹپکائی گئی]" "ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰى 38؀ۙ [ثُمَّ كَان عَلَقَةً: پھر وہ تھا خون کا ایک لوتھڑا] [فَخَلَقَ: تو اس نے بنایا (اس کو)] [فَسَوّٰى: پھر اس نے (ناک نقشہ) درست کیا]" "فَجَــعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى 39؀ۭ [فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ: پھر اس نے بنائے اس سے جوڑے] [الذَّكَرَ وَالْانثٰى: مذکر اور مؤنث کے]" "اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى 40؀ۧ [اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ: کیا وہ قدرت رکھنے والا نہیں ہے] [عَلٰٓي ان يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى: اس پر کہ وہ زندہ کرے مردوں کو]" "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ " "هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا Ǻ۝ [هَلْ اَتٰى عَلَي الْانسَان: کیا پہنچا (گزرا) انسان پر] [حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ: کوئی ایسا وقت زمانے میں سے] [لَمْ يَكُنْ: جب وہ تھا ہی نہیں] [شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا: کوئی ذکر کی جانے والی چیز] نوٹ 1: اکثر مفسرین نے یہاں ھَلْ کو قَدْ کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کے معنی یہ لیتے ہیں کہ بیشک انسان پر ایسا ایک وقت آیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظ ھَلْ عربی زبان میں ’’ کیا‘‘ کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اس سے مقصود ہر حال میں سوال ہی نہیں ہوتا بلکہ مختلف مواقع پر یہ بظاہر سوالیہ لفظ مختلف معانی میں بولا جاتا ہے۔ مثلاً کبھی ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ فلاں واقعہ پیش آیا ہے یا نہیں تو پوچھتے ہیں کہ کیا یہ واقعہ ہوا ہے؟ کبھی ہمارا مقصود سوال نہیں بلکہ کسی بات کا انکار کرنا ہوتا ہے اور یہ انکار ہم اس انداز میں کرتے ہیں کہ کیا یہ کام کوئی اور بھی کرسکتا ہے۔ (یعنی نہیں کرسکتا) ۔ کبھی ہم کسی بات کا اقرار کرانا چاہتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ کیا میں نے تمھاری رقم ادا کر دی۔ اور کبھی ہمارا مقصود محض اقرار ہی کرانا نہیں ہوتا بلکہ سوال ہم اس غرض سے کرتے ہیں کہ مخاطب کے ذہن کو ایک اور بات سوچنے پر مجبور کر دیں جو لازماً اقرار کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ہم کسی سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں نے تمھارے ساتھ کوئی برائی کی ہے۔ اس سے مقصود صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کا اقرر کرے کہ آپ نے اس کے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ہے، بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی ہوتا ہے کہ جس نے میرے ساتھ کوئی برائی نہیں کی اس کے ساتھ میں برائی کرنے میں کہاں تک حق بجانب ہوں۔ آیت زیر بحث میں سوالیہ فقرہ دراصل اسی آخری معنی میں ارشاد ہوا ہے۔ اس سے مقصود انسان سے صرف یہی اقرار کرانا نہیں ہے کہ فی الواقعہ اس پر ایک ایسا وقت گزرا ہے، بلکہ یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی ہے کہ جس خدا نے اس کی تخلیق کا آغاز ایسی حقیر سی حالت سے کر کے اسے پورا انسان بنا کھڑا کیا وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے سے آخر کیوں عاجز ہو گا۔ (تفہیم القرآن)" "اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ڰ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا Ą۝ [انا خَلَقْنَا الْانسَان: بیشک ہم نے پیدا کیا انسان کو] [مِنْ نُّطْفَةٍ: ایک ایسی بوند سے جو] [اَمْشَاجٍ: ملی جلی چیزوں سے تھی] [نَّبْتَلِيْهِ: ہم (رحم مادر میں) الٹتے پلٹتے رہے اس (انسان) کو] [فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا: پھر ہم نے بنایا اس کو سننے والا دیکھنے والا] م ش ج [مَشْجًا: (ن) ] خلط ملط کرنا۔ ملانا۔ مَشِیْجٌ ج اَمْشَاجٌ مخلوط۔ ملا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت۔2۔ نوٹ 2: مِنْ نُطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ میں لفظ اَمْشَاجٍ جمع ہے مَشِیْجٌ کی (جبکہ نُطْفَۃٍ واحد ہے) اس کے معنی ملی جلی اور مخلوط چیز کے ہیں۔ اَمْشَاجٍ اگرچہ جمع ہے لیکن یہ ان الفاظ میں سے ہے جو جمع ہونے کے باوجود مفرد الفاظ کی صفت کے طور پر آئے ہیں۔ (تدبر قرآن) اِمْشَاجٌٔ کے معنی مخلوط کے آتے ہیں اور یہاں ظاہر یہ ہے کہ مرد وزن کا مخلوط نطفہ مراد ہے جیسا کہ اکثر مفسرین نے فرمایا ہے۔ اور روح المعانی میں بعض مفسرین سے نقل کیا ہے کہ امشاج سے مراد اخلاطِ اربعہ یعنی خون، بلغم، سودا اور صفراء ہیں جن سے نطفہ مرکب ہوتا ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو یہ اخلاطِ اربعہ بھی اقسام غذا سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور ہر انسان کی غذا میں غور کیا جائے تو اس میں دور دراز ملکوں اور خطوں کی آب وہوا کے اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک انسان کے موجودہ جسم کا تجزیہ اور تحلیل کی جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ ایسے اجزاء اور ذرات کا مجموعہ ہے جو دنیا کے گوشے گوشے میں بکھرے ہوئے تھے۔ قدرت کے نظامِ عجیب نے حیرت انگیز طریقہ پر ان کو اس کے وجود میں سمویا ہے۔ اگر امشاج کا یہ مطلب لیا جائے تو اس جگہ لفظ امشاج کے ذکر سے منکرین قیامت کے سب سے بڑے شبہ کا ازالہ بھی ہو جائے گا۔ کیونکہ ان لوگوں کے نزدیک قیامت قائم ہونے اور مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے میں سب سے بڑا اشکال یہی ہے کہ انسان مر کر مٹی اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر دنیا میں بکھر جاتا ہے، ان کو دوبارہ جمع کرنا پھر ان میں روح ڈالنا ان کے نزدیک گویا ناممکن ہے۔ امشاج کی اس تفسیر میں ان کے اس شبہ کا واضح جواب ہے کہ ابتدائی تخلیق انسانی میں بھی تو دنیا بھر کے اجزاء و ذرات شامل تھے۔ جس کو یہ ابتدائی تخلیق مشکل نہ ہوئی اس کے لیے اس کا دوبارہ پیدا کرنا کیوں مشکل ہو گیا۔ اس طرح اس جگہ لفظ امشاج کا اضافہ ایک مستقل فائدہ کے لیے ہو سکتا ہے۔ (معارف القرآن) ۔ کیوں کہ لفظ امشاج کے بغیر صرف لفظ نطفہ سے بھی بات مکمل ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود اگر اس پر لفظ امشاج کا اضافہ کیا گیا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ زیب داستان کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا کوئی مقصد ہے۔ (مرتب) نَبْتَلِیْہِ کو عام طور پر لوگوں نے بیانِ علت کے مفہوم میں لیا ہے، یعنی ہم نے انسان کو آزمانے کے لیے پیدا کیا۔ لیکن یہ اگر علت کے مفہوم میں ہوتا تو اس پر لامِ علت آنا تھا حالانکہ یہ حال کی صورت میں ہے اور حال کا مفہوم علت کے مفہوم سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ حال ہی کے مفہوم میں سے اور مطلب اس کا یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اسی طرح (یعنی اس حال میں۔ مرتب) پیدا کیا کہ درجہ بدرجہ اس کو مختلف اطوار ومراحل سے گزارتے ہوئے ایک سمیع وبصیر مخلوق کے درجے تک پہنچا دیا۔ ابتلاء کے معنی لغت میں جانچنے پرکھنے کے ہیں۔ آدمی جب کسی چیز کو جانچتا ہے تو اس کو مختلف پہلوئوں سے الٹ پلٹ کر اور ٹھونک بجا کر دیکھتا ہے۔ یہیں سے اس کے اندر ایک طور سے گزار کر دوسرے طور میں لے جانے کا مفہوم پیدا ہوا۔ یہاں یہ لفظ اسی معنی میں ہے۔ انسان کی تخلیق جن اطوارومراحل سے گزر کر مرتبۂ تکمیل تک پہنچتی ہے اس کی وضاحت قرآن مجید میں جگہ جگہ ہوئی ہے۔ مثلاً سورۂ حج کی آیت۔5۔ میں ہے کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر ایک نطفہ سے پھر خون کی ایک پھٹکی سے پھر گوشت کی ایک بوٹی سے، کوئی تمام اور کوئی ناتمام۔ پھر ہم رحموں میں ٹھہراتے ہیں جتنا چاہتے ہیں ایک مدت معین تک پھر ہم تم کو بچے کی صورت میں باہر لاتے ہیں پھر ہم تم کو پروان چڑھاتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔ انہی اطوار ومراحل کی تفصیل سورۂ مومنون کی آیات۔ 12 تا 14۔ میں یوں آئی ہے کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا مٹی کے جوہر سے پھر ہم نے اس کو رکھا ایک نطفہ کی صورت میں ایک محفوظ ٹھکانے میں پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کی پھٹکی کی شکل دی پھر خون کی پھٹکی کو مضغۂ گوشت بنایا پھر گوشت میں ہڈیاں پیدا کیں اور ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنایا پھر اس کو ایک بالکل دوسری ہی مخلوق کی صورت میں کھڑا کر دیا۔ ان آیات میں جن اطوار ومراحل کی تفصیل ہے انہی کی طرف آیت زیر بحث میں اجمال کے ساتھ اشارہ فرمایا ہے اور انہی مراحل سے درجہ بدرجہ گزارنے کے لیے لفظ نَبْتَلِیْہِ آیا ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس قطرے کو گہر ہونے تک بہت سے مرحلے طے کرنے پڑے ہیں اور ہر مرحلہ میں قدرت نے اس کو اچھی طرح جانچا پرکھا ہے کہ جس دور میں جو صلاحیت اس کے اندر پیدا ہونی چاہیے وہ پیدا ہو گئی یا نہیں۔ پھر وہ دور آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو سمع وبصر کی اعلیٰ صفات سے متصف ہستی بنا دیا۔ یہاں پر سَمِیْعًا بَصِیْرًا انسان کی تمام اعلیٰ صفات کی نہایت جامع تعبیر ہے۔ انہی صفات کے فیض سے انسان کے اندر خیر و شر میں امتیاز کی صلاحیت پیدا ہوئی اور وہ اس قابل ٹھہرا کہ اللہ تعالیٰ اس کا امتحان کرے کہ وہ خیر کی راہ اختیار کر کے اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنتا ہے یا شر کی راہ اختیار کر کے ناشکرا بن جاتا ہے۔ پھر اس کا نتیجہ بھی نکلنا لازمی ہے ورنہ اس سارے اہتمام کا کیا مقصد جو انسان کی پیدائش کے لیے قدرت نے کیے۔ (تدبر قرآن) نوٹ 3: کوئی نیک کام کرنے کا عہد کر لینے کو نذر (منت) کہتے ہیں۔ وفادار بندوں (ابرار) کے اوصاف میں ایفائے نذر کو خاص طور سے نمایاں کیا گیا ہے۔ جو لوگ ایسی نذروں کو پورا کرنے کا بھی اہتمام کریں جو انہوں نے بطور خود اپنے اوپر واجب کی ہوں، ان سے ایسی نیکیوں کے اہتمام کی توقع بدرجۂ اولیٰ ہے جو ان کے رب نے ان پر واجب ٹھہرائی ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نذر کی اہمیت سابق ادیان میں بھی بہت رہی ہے اور عرب جاہلیت میں بھی اس کا بڑا اہتمام تھا۔ عربوں کے اندر اس کی زیادہ تر وجہ یہ تھی کہ دین کے طریقے ان کو واضح طور پر معلوم نہیں تھے اس لیے ان کے نیک لوگ نذروں کے ذریعے سے اس خلا کو بھرتے تھے۔ اسلام کے آ جانے کے بعد جب شریعت کے اصول وفروع لوگوں کو معلوم ہو گئے تو اس کا دائرہ محدود ہو گیا۔ وہ نذریں جو مشرکانہ نوعیت کی تھیں، وہ تو بالکل ہی ختم کر دی گئیں۔ جو نذریں تکلف مالایطاق نوعیت کی تھیں، وہ بھی یا تو منوع قرار پا گئیں یا ان کی اصلاح کر دی گئی۔ یہ سورہ چونکہ اس دور کی ہے جب شریعت کے احکام و آداب تفصیل سے معلوم نہیں ہوئے تھے، اس وجہ سے اس میں اس کا ذکر خاص اہمیت سے ہوا ہے۔ بعد میں جب شریعت کا پورا میثاق نازل ہو گیا تو اس کا دائرہ نہایت محدود ہو گیا۔ (تدبر قرآن) فقہاء نے نذر کی چار قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اللہ سے یہ عہد کرے کہ وہ اس کی رضا کی خاطر فلاں نیک کام کرے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ اس بات کی نذر مانے کہ اگر اللہ نے میری فلاں حاجت پوری کر دی تو میں شکرانے میں فلاں نیک کام کروں گا۔ ان دونوں قسم کی نذروں پر اتفاق ہے کہ اسے پورا کرنا واجب ہے۔ تیسرے یہ کہ آدمی کوئی ناجائز کام کرنے یا کوئی واجب کام نہ کرنے کا عہد کر لے۔ چوتھے یہ کہ آدمی کوئی مباح کام کرنے کو اپنے اوپر لازم کرلے یا کوئی مستحب کام نہ کرنے کا عہد کر لے۔ تیسری قسم کی نذر کے متعلق اتفاق ہے کہ وہ منعقد ہی نہیں ہوتی۔ چوتھی قسم کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اسے پورا کرنا چاہیے۔ بعض کہتے ہیں کہ قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے، خواہ نذر پوری کر دے یا کفارہ ادا کر دے۔ (تفہیم القرآن)" "اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا Ǽ۝ [انا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ: بیشک ہم سجھا دیا اس کو یہ راستہ] [اِمَا شَاكِرًا وَّاِمَا كَفُوْرًا: (اب) چاہے شکر کرنے والا ہو اور چاہے ناشکری کرنے والا ہو]" "اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَلٰسِلَا۟ وَاَغْلٰلًا وَّسَعِيْرًا Ć۝ [انآ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ: بیشک ہم نے تیار کیا کافروں کے لیے] [سَلٰسِلَا۟ وَاَغْلٰلًا وَّسَعِيْرًا: زنجیریں اور طوق اور دہکتی آگ]" "اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا Ĉ۝ۚ [ان الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ: بیشک نیک لوگ پئیں گے] [مِنْ كَاْسٍ: ایک ایسے جام سے] [كَان مِزَاجُهَا: جس کی آمیزش] [كَافُوْرًا: کافور ہے] م ز ج (ن) مَزْجًا پینے کی چیز میں کچھ ملانا جیسے شراب میں پانی ملانا۔ مِزَاجٌ جو چیز ملائی جائے۔ ملاوٹ۔ آمیزش۔ زیر مطالعہ آیت۔5" "عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ يُفَجِّرُوْنَهَا تَفْجِيْرًا Č۝ [عَيْنًا: جو ایک چشمہ ہے] [يَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ: پئیں گے جس سے اللہ کے بندے] [يُفَجِّرُوْنَهَا: وہ لوگ جاری کریں گے اس کو] [تَفْجِيْرًا: جیسے جاری کرنے کا حق ہے]" "يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُوْنَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْـتَطِيْرًا Ċ۝ [يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ: وہ لوگ (اس دنیا میں) پوری کرتے ہیں منت] [وَيَخَافُوْنَ يَوْمًا: اور ڈرتے ہیں ایک ایسے دن سے] [كَان شَرُّهٗ: جس کا شر] [مُسْـتَطِيْرًا: پھیل جانے والا ہے]" "وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا Ď۝ [وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ: اور وہ لوگ کھلاتے ہیں کھانا] [عَلٰي حُبِهٖ: اس (کھانے) کی محبت کے باوجود] [مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا: مسکین کو اور یتیم کو اور قیدی کو]" "اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا Ḍ۝ [انمَا نُـطْعِمُكُمْ: (کہتے ہیں) ہم تو بس کھلاتے ہیں تم کو] [لِوَجْهِ اللّٰهِ: اللہ کی توجہ (حاصل کرنے) کے لیے] [لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ: ہم نہیں چاہتے تم سے] [جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا: کوئی بدلہ اور نہ کوئی احسان ماننا]" "اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا 10؀ [انا نَخَافُ مِنْ رَّبِنَا: بیشک ہم ڈرتے ہیں اپنے رب سے] [يَوْمًا: ایک ایسے دن سے جو] [عَبُوْسًا: بہت ترش ہو گا] [قَمْطَرِيْرًا: بہت شدید ہو گا]" "فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْيَوْمِ وَلَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّسُرُوْرًا 11۝ۚ [فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ: تو بچایا ان کو اللہ نے] [شَرَّ ذٰلِكَ الْيَوْمِ: اس دن کے شر سے] [وَلَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّسُرُوْرًا: اور دی ان کو تازگی اور سرور] ترکیب: (آیت 11) فَوَ قٰھُمْ اور لَقّٰھُمْ میں ھُمْ کی ضمیریں آیت۔5۔ میں مذکور اَلْاَ بْرَارَ کے لیے ہے جبکہ ذٰالِکَ الْیَوْمِ میں اشارہ گزشتہ آیت میں مذکور یَوْمًا عَبُوْمًا کے لیے ہے۔" "وَجَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّحَرِيْرًا 12۝ۙ [وَجَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا: اور اس نے بدلے میں دیا ان کو بسبب اس کے جو وہ ثابت قدم رہے] [جَنَّةً وَّحَرِيْرًا: ایک باغ اور باریک ریشم]" "مُّتَّكِــــِٕيْنَ فِيْهَا عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ ۚ لَا يَرَوْنَ فِيْهَا شَمْسًا وَّلَا زَمْهَرِيْرًا 13۝ۚ [مُّتَّكِــــِٕيْنَ فِيْهَا: ٹیک لگا کر بیٹھنے والے ہوتے ہوئے اس میں] [عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ: آراستہ تختوں پر] [لَا يَرَوْنَ فِيْهَا: وہ لوگ نہیں دیکھیں گے اس میں] [شَمْسًا وَّلَا زَمْهَرِيْرًا: کوئی سورج (دھوپ) اور نہ کوئی ٹھٹھرن] نوٹ 1: آیت۔13۔ میں سورج اور زمہریر نہ دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ گرمی اور سردی دونوں کی اذیتوں سے محفوظ رہیں گے۔ ان کے سورج میں روشنی اور قوت بخشی تو ہوگی مگر اس میں حدت اور تمازت نہ ہو گی۔ وہاں کا موسم معتدل اور پُربہار رہے گا۔ خزاں کی نحوست اور بادِ زمہریر (یخ ٹھنڈی ہوا) اسے ان کو کبھی سابقہ پیش نہیں آئے گا۔ (تدبر قرآن) اگلی آیت میں شاید درختوں کی شاخوں کو ظلال (سائے) سے تعبیر فرمایا ہے یا واقعی سایہ ہو۔ کیونکہ آفتاب کی دھوپ نہ سہی کوئی دوسری قسم کا نور ہو گا۔ اس کے سایہ میں بہشتی تفنن وتفریح کی غرض سے کبھی بیٹھنا چاہیں گے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )" "وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلٰلُهَا وَذُلِّـلَتْ قُـطُوْفُهَا تَذْلِيْلًا 14؀ [وَدَانيَةً عَلَيْهِمْ: اور نزدیک ہونے (جھکنے) والے ہوتے ہوئے ان پر] [ظِلٰلُهَا: اس کے سائے] [وَذُلِـلَتْ قُـطُوْفُهَا: اور مطیع کیے (جھکائے) گئے اس کے پھل] [تَذْلِيْلًا: جیسی جھکائے جانے کا حق ہے] (آیت۔ 14) دَانِیَۃً حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے اور یہ اسم الفاعل ہے۔ یہاں پر اس نے فعل کا عمل کیا ہے (دیکھیں آیت۔2: 54، نوٹ۔1) ظِلٰلُھَا اس کا فاعل ہے۔ ذُلِّلَتْ کا نائب فاعل قُطُوْفُھَا ہے۔ قُطُوْفٌ جمع مکسر ہے اس لیے فعل دُّلِّلَتْ واحد مؤنث آیا ہے۔" "وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِاٰنِيَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّاَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَا۩رِيْرَا۟ 15۝ۙ [وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ: اور گھمائے پھرائے جائیں گے ان کے گرد (خدّام)] [بِاٰنِيَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ: ایسے برتنوں کے ساتھ جو چاندی کے ہوں گے] [وَّاَكْوَابٍ: اور ایسے آبخوروں کے ساتھ جو] [كَانتْ قَوَا۩رِيْرَا۟: ہوں گے شیشے کے] (آیت۔15) بِاٰنِیۃٍ کے حرفِ جَرَّبِ پر عطف ہونے کی وجہ سے اَکْوَابٍ حالت جر میں آیا ہے۔ اٰنِیَۃٍ اور اَکْوَابٍ کو یُطَافُ کا نائب فاعل مان کر بھی ترجمہ کیا گیا ہے۔ لیکن حافظ احمد یار صاحب کی رائے ہے کہ یُطَافُ کا نائب فاعل اس میں شامل ضمیر ہے جو خُدّام کے لیے ہے۔ ترجمہ شیخ الہند کے ترجمہ میں بھی اسی لحاظ سے ترجمہ ہے۔ ہم اسی کو ترجیح دیں گے۔ قَوَارِیْرُ غیر منصرف ہے۔ حالت نصب میں یہ قَوَارِیْرُ آتا ہے۔ یہاں الف کے اضافے کے ساتھ لکھنا قرآن کا مخصوص املا ہے۔" "قَوَا۩رِيْرَا۟ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوْهَا تَقْدِيْرًا 16؀ [قَوَا۩رِيْرَا۟ مِنْ فِضَّةٍ: (وہ) شیشے چاندی کے ہوں گے] [قَدَّرُوْهَا: (خدّام ) اندازہ مقرر کریں گے جن کا] [تَقْدِيْرًا: جیسے اندازہ کرنے کا حق ہے] نوٹ 2: آیت۔16۔ میں چاندی کے شیشے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہوگی تو چاندی مگر شیشے کی طرح شفاف ہو گی۔ چاندی کی یہ قسم اس دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ یہ صرف جنت کی خصوصیت ہوگی کہ وہاں شیشے جیسی شفاف چاندی کے برتن اہل جنت کے دسترخوان پر ہوں گے۔ اور قَدَّرُوْ ھَا تَقْدِیْرًا کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کے لیے اس کی خواہش کے ٹھیک اندازے کے مطابق ساغر بھر بھر کر دئیے جائیں گے۔ نہ وہ اس کی خواہش سے کم ہوں گے نہ زیادہ۔ دوسرے الفاظ میں اہل جنت کے خدام اس قدر ہوشیار اور تمیزدار ہوں کہ وہ جس کی خدمت میں جام پیش کریں گے اس کے متعلق ان کو پورا اندازہ ہو گا کہ وہ کتنی شراب پینا چاہتا ہے۔ (تفہیم القرآن)" "وَيُسْقَوْنَ فِيْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيْلًا 17۝ۚ [وَيُسْقَوْنَ فِيْهَا: وہ (ابرار) لوگ پلائے جائیں گے اس میں] [كَاْسًا كَان مِزَاجُهَا: ایک ایسے پیالے سے جس کی ملاوٹ] [زَنْجبيْلًا: ادرک ہے]" "عَيْنًا فِيْهَا تُسَمّٰى سَلْسَبِيْلًا 18؀ [عَيْنًا فِيْهَا: جو ایک چشمہ ہے اس میں] [تُسَمّٰى: اس کو نام دیا جائے گا] [سَلْسَبِيْلًا: سلسبیل]" "وَيَطُوْفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ ۚ اِذَا رَاَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا 19؀ [وَيَطُوْفُ عَلَيْهِمْ: اور گھومیں پھریں گے ان کے گرد] [وِلْدَان مُّخَلَّدُوْنَ: ہمیشگی دیئے ہوئے کم عمر لڑکے] [اِذَا رَاَيْتَهُمْ: جب بھی تو دیکھے گا ان کو] [حَسِبْتَهُمْ: تو تُو گمان کرے گا ان کو] [لُؤْلُؤًا مَنْثُوْرًا: بکھیرے ہوئے موتی]" "وَاِذَا رَاَيْتَ ثَمَّ رَاَيْتَ نَعِيْمًا وَّمُلْكًا كَبِيْرًا 20؀ [وَاِذَا رَاَيْتَ: اور جب بھی تو دیکھے گا] [ثَمَّ رَاَيْتَ: تو وہیں تُو دیکھے گا] [نَعِيْمًا: دائمی خوشحالی] [وَّمُلْكًا كَبِيْرًا: اور ایک بڑی بادشاہت]" "عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُـنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ ۡ وَّحُلُّوْٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ ۚ وَسَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا 21؀ [عٰلِيَهُمْ: چڑھنے والے ہوتے ہوئے ان پر] [ثِيَابُ سُـنْدُسٍ: کچھ باریک ریشم کے کپڑے ہوں گے] [خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ: (وہ ) سبز اور بھڑکیلے ہوں گے] [وَّحُلُّوْٓا: اور ان کو آراستہ کیا جائے گا] [اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ: چاندی کے کنگنوں سے] [وَسَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ: اور پلائے گا ان کو ان کا رب] [شرابا طَهُوْرًا: ایک نہایت پاکیزہ مشروب] (آیت۔21) ۔ عٰلِیْھُمْ میں اسم الفاعل عَالٍ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں عَالِیًا ہے مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ضم ہوئی تو عَالِیَ استعمال ہوا۔ یہ بھی یہاں فعل کا عمل کر رہا ہے۔ ثِیَابُ سُنْدُسٍ اس کا فاعل ہے۔ فُضْرٌ استَبرْقٌ صفت نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ ثِیَابُ کی صفت ہوتے تو اَلخْضْرُ اور اَلْاِسْتَبْرَقُ آتے۔ کیونکہ ثیابُ سندس اضافت کی وجہ سے معرفہ ہے جب موصوف معرفہ ہو تو صفت بھی معرفہ ہی ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ خبر ہیں اور ان کا مبتدا ھَی مخدوف ہے جو ثِیَابُ کے لیے ہے۔ نوٹ 3: آیت۔ 21۔ میں ہے وَسَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا۔ اس میں ایک نکتہ قابل توجہ ہے۔ پہلے آیت۔ 5۔ میں ہے یَغْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ وہ لوگ پئیں گے ایک ایسے جام سے) اس کے بعد آیت۔17۔ میں فرمایا یُسْقَوْنَ فِیْھَاکَاًسًا (ان لوگوں کو پینے کے لیے دیا جائے گا اس میں ایک ایسے جام سے) اور یہاں ارشاد ہوا کہ سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ (پلائے گا ان کو ان کا رب) ۔ عربیت کا ذوق رکھنے والے آسانی سے اس فرق کو سمجھ سکتے ہیں جو ان تینوں اسلوبوں یعنی یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ، یُسْقَوْنَ کَا سًا اور سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ میں ہے۔ (تدبر قرآن) (فرق یہ ہے کہ شَرِبَ۔ یَشْرَبْ میں مفہوم یہ ہے کہ سامنے کسی چیز میں پینے کی کوئی چیز دیکھی یا کسی نہر یا دریا پر گزرا ہوا تو ہاتھ بڑھا کر خود پی لیا۔ جبکہ باب افعال میں اَسْقٰی۔ یُسْقِیْ کے معنی ہیں کسی کو پینے کی کوئی چیز دینا۔ یُسْقَوْنَ اس کا مضارع مجہول ہے۔ اس میں مفہوم یہ ہے کہ پینے کی چیز ان کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔ اور ثلاثی مجرّد میں سَقٰی۔ یَسْقِیْ کے معنی ہیں کسی کو پلانا، اس طرح سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ میں مفہوم یہ ہے کہ ان کا رب خود ان کو پلائے گا۔ مرتب) سوال یہ ہے کہ یہ فرق کیوں ہے۔ شاید یہ اشارہ اس حقیقت کی طرف ہے کہ یہ ابرار درجہ بدرجہ قرب الٰہی کی منزلی طے کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ جائینگے کہ خود رب کریم ان کو شراب طہور کا جام پلائے گا۔ یہ شراب طہور کیا ہے، اس کا تصور اس دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے قرآن نے کوئی اس طرح کا تمثیلی اسلوب اختیار نہیں کیا جس طرح کا اسلوب اوپر چشمہ کافور اور چشمۂ زنجبیل کے لیے اختیار فرمایا۔ اس کو صرف رب کریم ہی جانتا ہے۔ (تدبر قرآن)" "اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاۗءً وَّكَانَ سَعْيُكُمْ مَّشْكُوْرًا 22۝ۧ [ان هٰذَا: بیشک یہ] [كَان لَكُمْ جَزَاۗءً: ہو گا تمھارے لیے ایک بدلہ] [وَّكَان سَعْيُكُمْ: اور ہوگی تمھاری دوڑ دھوپ] [مَّشْكُوْرًا: قدر کی ہوئی] (آیت۔ 22) اِنَّ کا اسم ھٰذَا ہے اور محلًّا حالت نصب میں ہے۔ اس کے آگے پورا جملہ کَانَ لَکُمْ جَزَائً ۔ اِنَّ کی خبر ہے اور محلًّا حالت رفع میں ہے۔ اس جملے میں کَانَ کا اسم اس میں شامل ھُوَ کی ضمیر ہے اور اس کی خبر ہونے کی وجہ سے جزائً حالت نصب میں ہے۔ اگلے جملے میں کَانَ کا اسم سَعْیُکُمْ ہے اور مَشْکُوْرًا اس کی خبر ہے۔ ان آیات میں قیامت کے حالات کا ذکر ہے۔ اس لیے افعال ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہو گا۔ (دیکھیں آیت۔2:27، نوٹ۔3)" "اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِيْلًا 23؀ۚ [انا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ: بیشک ہم نے ہی اتارا آپؐ پر] [الْقُرْاٰنَ: اس قرآن کو] [تَنْزِيْلًا: جیسے جستہ جستہ اتارنے کا حق ہے] نوٹ 1: آیت۔23۔ میں مخاطب بظاہر نبی ﷺ ہیں لیکن دراصل روئے سخن کفار کی طرف ہے کفار مکہ کہتے تھے کہ محمد ﷺ یہ قرآن خود سوچ سوچ کر بنا رہے ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی فرمان آتا تو اکٹھا ایک ہی مرتبہ آ جاتا۔ قرآن میں بعض مقامات پر ان کا یہ اعتراض نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں اسے نقل کیے بغیر اللہ تعالیٰ نے پورے زور کے ساتھ فرمایا ہے کہ اس کے نازل کرنے والے ہم ہی ہیں یعنی محمد ﷺ اسکے مصنف نہیں ہیں۔ اور ہم ہی اس کو بتدریج نازل کر رہے ہیں۔ یہ ہماری حکمت کا تقاضہ ہے کہ اپنا پیغام بیک وقت ایک کتاب کی شکل میں نازل نہ کریں، بلکہ اسے تھوڑا تھوڑا کر کے بھیجیں۔ (تفہیم القرآن)" "فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا 24؀ۚ [فَاصْبِرْ: پس آپؐ ثابت قدم رہیں] [لِحُكْمِ رَبِكَ: اپنے رب کے حکم کے لیے (حقیقی حکم پر)] [وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ: اور کہنا مت مانیں ان میں سے] [اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا: کسی گنہگار کا یا کسی ناشکرے کا]" "وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا 25 ؀ڻ [وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِكَ: اور آپؐ یاد کریں اپنے رب کے نام کو] [بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا: صبح سویرے اور شام کے وقت]" "وَمِنَ الَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيْلًا 26؀ [وَمِنَ الَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ: اور رات میں سے پھر آپؐ سجدہ کریں اس کو] [وَسَبِحْهُ: اور آپؐ تسبیح کریں اس کی] [لَيْلًا طَوِيْلًا: طویل رات میں]" "اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ يُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُوْنَ وَرَاۗءَهُمْ يَوْمًا ثَــقِيْلًا 27؀ [ان هٰٓؤُلَاۗءِ يُحِبُّوْنَ: بیشک یہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں] [الْعَاجِلَةَ: جلد حاصل ہونے والی (دنیا) کو] [وَيَذَرُوْنَ وَرَاۗءَهُمْ: اور وہ چھوڑتے ہیں اپنے (پیٹھ) پیچھے] [يَوْمًا ثَــقِيْلًا: ایک بھاری دن (قیامت کی فکر) کو]" "نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَشَدَدْنَآ اَسْرَهُمْ ۚ وَاِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَآ اَمْثَالَهُمْ تَبْدِيْلًا 28؀ [نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ: ہم نے ہی پیدا کیا ان کو] [وَشَدَدْنَآ: اور ہم نے مضبوط کیا] [اَسْرَهُمْ: ان کی بندش (جوڑبند) کو] [وَاِذَا شِئْنَا: اور جب بھی ہم چاہیں گے] [بَدَّلْنَآ اَمْثَالَهُمْ: ہم تبدیل کر دیں گے (ان کو) ان کے جیسوں سے] [تَبْدِيْلًا: جیسے تبدیل کرتے ہیں] نوٹ 2: آیت 28۔ میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ انسان اپنے ایک ایک جوڑ پر نظر ڈالے کہ بتقاضائے حکمت وراحت انسانی جوڑ دیکھنے میں نرم ونازک معلوم ہوتے ہیں اور نرم نرم پٹھوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، جس کا طبعی تقاضا یہ تھا کہ سال دو سال ہی میں یہ جوڑوں کے بندھن اور اعصاب گھس جاتے اور ٹوٹ جاتے، خصوصاً جبکہ دن رات وہ حرکت میں رہتے ہیں اور موڑے توڑے جاتے ہیں۔ اتنی شبانہ روز حرکت کے ساتھ تو لوہے کے اسپرنگ بھی سال دو سال میں گھس کر ٹوٹ جاتے ہیں۔ ان نرم ونازک پٹھوں کو دیکھو کس طرح آعظاء کے جوڑوں کو باندھے ہوئے ہیں، نہ گھستے ہیں نہ ٹوٹتے ہیں۔ انسان اپنی انگلیوں کے جوڑوں کو دیکھے اور حساب لگائے کہ عمر بھر میں ان جوڑوں نے کتنی حرکتیں کی ہیں، کیسے کیسے زور آور دبائو ان پر ڈالے گئے ہیں کہ اگر فولاد بھی ہوتا تو گھس گیا ہوتا مگر یہ جوڑ ہیں جو ستر اسی سال چلنے پر بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔ (معارف القرآن)" "اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ ۚ فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا 29؀ [ان هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ: بیشک یہ ایک یادہانی ہے] [فَمَنْ شَاۗءَ: تو جو چاہے] [اتَّخَذَ اِلٰى رَبِهٖ: وہ بنا لے اپنے رب کی طرف] [سَبِيْلًا: ایک راستہ ] نوٹ 3: آیات۔ 29۔ 30۔ میں تین باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرے۔ دوسرے یہ کہ تمھارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ نہ چاہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ بڑا حکیم وعلیم ہے۔ ان تینوں باتوں پر اگر اچھی طرح غور کیا جائے تو انسان کی آزادیٔ اختیار اور اللہ کی مشیت کا تعلق بخوبی سمجھ میں آ جاتا ہے اور وہ تمام الجھنیں صاف ہو جاتی ہیں جو تقدیر کے مسئلہ میں بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں پائی جاتی ہیں۔ پہلی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو جو اختیارات دیے گئے ہیں وہ صرف اس حد تک ہیں کہ یہاں زندگی بسر کرنے کے لیے جو مختلف راستے اس کے سامنے آتے ہیں ان میں سے کسی کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرے۔ یہ انتخاب کی آزادی (Free dom of Choice) ہے جو اللہ نے انسان کو دی ہے۔ مثلاً ایک آدمی کے سامنے اپنی روزی حاصل کرنے کا سوال جب آتا ہے تو اس کے سامنے بہت سے راستے ہوتے ہیں جن میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام ہیں۔ ان میں کسی ایک راستے کو انتخاب کرنے کا فیصلہ انسان کے اپنے انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اپنا رزق کس طریقے سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح اخلاق کے مختلف ڈھنگ ہیں۔ اس کو پوری آزادی ہے کہ وہ اچھے برے جس ڈھنگ کے اخلاق اختیار کرنا چاہے کر لے۔ ایسا ہی معاملہ دین ومذہب کا ہے کہ اس میں بھی بہت سے راستے انسان کے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔ الحاد اور انکار خدا، شرک وبت پرستی، شرک وتوحید کے مختلف مخلوطے، ایک وہ خالص خدا پرستی جس کی تعلیم قرآن دیتا ہے۔ یہ فیصلہ بھی انسان پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ ان میں سے کس کو اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر جبراً اپنا کوئی فیصلہ نہیں ٹھونستا کہ وہ چاہتا تو ہو حلال روزی اور اللہ زبردستی اس کو حرام خور بنائے، یا وہ چاہتا تو ہو قرآن کی پیروی اور اللہ جبراً اسے ملحد یا مشرک یا کافر بنا دے۔ لیکن اس آزادیٔ انتخاب کے بعد یہ بات کہ انسان عملاً بھی وہی کچھ کرسکے جو وہ کرنا چاہتا ہے، اللہ کی مشیت اور اس کے اذن اور اس کی توفیق پر منحصر ہے۔ اگر اللہ کی مشیت یہ ہو کہ انسان کو وہ کام کرنے دے جس کے کرنے کی خواہش یا ارادہ یا فیصلہ اس نے کیا ہے، تب ہی وہ اس کو کرسکتا ہے ورنہ وہ چاہے کتنی بھی کوشش کرلے اللہ کے اذن کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔ یہی بات دوسری بات میں فرمائی گئی ہے۔ اس معاملہ کو یوں سمجھئے کہ اگر دنیا میں انسان کو سارے اختیارات دے دئیے گئے ہوتے اور یہ بات اس کی مرضی پر چھوڑی گئی ہوتی کہ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے کر گزرے تو نظام عالم درہم برہم ہو جاتا۔ ایک قاتل دنیا کے تمام انسانوں کو قتل کر دینے کے لیے کافی تھا ایک جیب کترا دنیا کے کسی آدمی کی جیب سلامت نہ چھوڑتا، ایک ڈاکو سے کسی کا گھر نہ بچ سکتا اگر ان میں سے ہر ایک کو من مانی کرنے کے پورے اختیارات حاصل ہوتے۔ اس لیے یہ بات اللہ نے اپنے ہی اختیار میں رکھی ہے کہ انسان صحیح یا غلط جس راستے پر بھی جانا چاہے اس پر اسے چلنے دے ۔ اس کے بعد تیسری بات اس غلط فہمی کو رفع کرتی ہے کہ اللہ کی یہ مشیت اَلَل ٹپ (Arbitrary) نہیں ہے۔ وہ دانا ہے اور سب کچھ جانتا ہے وہ جو کچھ بھی کرتا ہے علم اور دانائی کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ اپنے پورے علم اور پوری حکمت کے ساتھ یہ طے کرتا ہے کہ کس کو کیا توفیق دینی چاہیے اور کیا نہ دینی چاہیے۔ جس حدتک وہ انسان کو موقع دیتا ہے اور اسباب کو اس کے لیے سازگار بناتا ہے اسی حد تک وہ اپنی خواہش کے مطابق کام کرسکتا ہے خواہ وہ اچھا کام ہو یا برا کام ہو۔ ہدایت کا معاملہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنا پر جانتا ہے اور وہی اپنی حکمت کی بنا پر طے کرتا ہے کہ کون ہدایت کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6، ص 576۔ 577)" "وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا 30 ؀ڰ [وَمَا تَشَاۗءُوْنَ: اور تم لوگ کیا چاہو گے] [اِلَّآ ان: سوائے اس کے کہ جو] [يَّشَاۗءَ اللّٰهُ: چاہے گا اللہ] [ان اللّٰهَ كَان: بیشک اللہ ہے] [عَلِيْمًا حَكِيْمًا: جاننے والا حکمت والا]" "يُّدْخِلُ مَنْ يَّشَاۗءُ فِيْ رَحْمَتِهٖ ۭ وَالظّٰلِمِيْنَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا 31؀ۧ [يُّدْخِلُ: وہ داخل کرتا ہے] [مَنْ يَّشَاۗءُ: اس کو جس کو وہ چاہتا ہے] [فِيْ رَحْمَتِهٖ: اپنی رحمت میں] [وَالظّٰلِمِيْنَ: اور ظلم (شرک) کرنے والوں کو؟] [اَعَدَّ لَهُمْ: اس نے تیار کیا ان کے لیے] [عَذَابًا اَلِيْمًا: ایک دردناک عذاب]" "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ " "وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا Ǻ۝ۙ [وَالْمُرْسَلٰتِ: قسم ہے بھیجی جانے والیوں (ہوائوں) کی] [عُرْفًا: بھلائی ہوتے ہوئے] نوٹ 1: اس سورت میں حق تعالیٰ نے چند چیزوں کی قسمیں کھا کر قیامت کے یقینی طور پر آنے کا ذکر فرمایا ہے۔ ان چیزوں کا نام بیان کرنے کے بجائے ان کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ مرسلات۔ عاصفات۔ ناشرات۔ فارقات اور ملقیت الذکر۔ کسی حدیث میں بھی یہ تعین نہیں ہے کہ یہ کن چیزوں کی صفات ہیں۔ اس لیے صحابہ اور تابعین کی تفسیریں اس معاملہ میں مختلف ہو گئیں۔ بعض حضرات نے ان پانچوں صفات کا موصوف فرشتوں کو قرار دیا ہے اور بعض نے ان کا موصوف ہوائوں کو قرار دیا ہے۔ جبکہ بعض حضرات نے ان کا موصوف انبیاء ورسل کو قرار دیا ہے۔ ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ شروع کی تین صفات ہوائوں کے لیے ہیں۔ ان تین میں ہوائوں کی قسم ہے۔ باقی دو صفتیں فرشتوں کے لیے ہیں تو یہ فرشتوں کی قسم ہے۔ (معارف القرآن)" "فَالْعٰصِفٰتِ عَصْفًا Ą۝ۙ [فَالْعٰصِفٰتِ: پھر قسم ہے جھونکا دینے والیوں کی] [عَصْفًا: جیسے جھونکا دیتے ہیں]" "وَّالنّٰشِرٰتِ نَشْرًا Ǽ۝ۙ [وَّالنّٰشِرٰتِ: اور قسم ہے پھیلانے والیوں کی] [نَشْرًا: جیسے پھیلاتے ہیں]" "فَالْفٰرِقٰتِ فَرْقًا Ć۝ۙ [فَالْفٰرِقٰتِ: پھر قسم ہے الگ الگ کرنے والیوں کی] [فَرْقًا: جیسے الگ الگ کرتے ہیں]" "فَالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا Ĉ ۝ۙ [فَالْمُلْقِيٰتِ: پھر قسم ہے سامنے کرنے والیوں کی] [ذِكْرًا: یاددہانی کو]" "عُذْرًا اَوْ نُذْرًا Č۝ۙ [عُذْرًا: عذر ختم کرنے کے لیے] [اَوْ نُذْرًا: یا خبردار کرنے کے لیے]" "اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِـعٌ Ċ۝ۭ [انمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [تُوْعَدُوْنَ: جو تم لوگوں سے وعدہ کیا جاتا ہے] [لَوَاقِـعٌ: یقینا واقع ہونے والا ہے]" "فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ Ď۝ۙ [فَاِذَا النُّجومُ طُمِسَتْ: پھر جب ستارے مٹا دیئے جائیں گے]" "وَاِذَا السَّمَاۗءُ فُرِجَتْ Ḍ۝ۙ [وَاِذَا السَّمَاۗءُ فُرِجَتْ: اور جب آسمان میں شگاف ڈالے جائیں گے] نوٹ 2: ان آیات میں بارش لانے والی ہوائوں کی ترتیب یہ بیان کی گئی کہ پہلے پے در پے ہوائیں چلتی ہیں، پھر آندھی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، پھر بادلوں کو اٹھا کر پھیلاتی ہیں، پھر انھیں پھاڑ کر جدا کرتی ہیں۔ اس کے بعد بارش کے نزول کا ذکر کرنے کے بجائے یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی یاد دلوں میں ڈالتی ہیں، عذر کے طور پر یا ڈراوے کے طور پر اگر ایک مدت تک بارش نہ ہوئی ہو اور لوگ پانی کے قطرے قطرے کو ترس رہے ہوں تو اس موقع پر کٹے سے کٹا کافر بھی خدا کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اگر معمولی قحط ہو تو عام آدمی جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ دور نہیں ہے، وہ تو اللہ کو یاد کرے گا لیکن دوسرے لوگ (یعنی اعلیٰ تعلیم یافتہ دانشور لوگ) سائنس بکھاریں گے اور کہیں گے کہ گھبرانے کی بات نہیں ہے، فلاں فلاں اسباب سے بارش نہیں ہو رہی ہے، اتنی سی بات پر دعائیں مانگنے لگنا ضعیف الاعتقادی ہے۔ البتہ اگر طویل مدت تک قحط برپا رہے تو بڑے سے بڑے کافر کو خدا یاد آنے لگتا ہے۔ اور خدا سے دعا مانگتے ہیں کہ جو ہوائیں بادل اٹھا کر لا رہی ہیں ان سے پورے ملک میں بارش ہو جائے۔ یہ ہے عذر کے طور پر دلوں میں خدا کی یاد کا القائ۔ رہا نذر (ڈراوے) کے طور پر اس کا القاء تو یہ اس وقت ہوتا ہے جب آندھی طوفان عظیم بن جائے یا بارش اس قدر زور دار ہو کہ سیلاب بلا بن جائے اپنے وقت میں مضبوط سے مضبوط دل کا منکر بھی خدا کے آگے گڑگڑانے لگتا ہے اور اس وقت طوفان یا سیلاب کی ساری سائنٹیفیک توجیہات اس کے نہاں خانۂ دماغ سے فرار اختیار کر جاتی ہیں۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6، ص 579)" "وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ 10۝ۙ [وَاِذَا الْجبالُ نُسِفَتْ: اور جب پہاڑوں کو اکھاڑ کر اڑا دیا جائے گا]" "وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ 11۝ۭ [وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ: اور جب تمام رسول اکٹھا کیے جائیں گے]" "لِاَيِّ يَوْمٍ اُجِّلَتْ 12۝ۭ [لِاَيِّ يَوْمٍ اُجِّلَتْ: کس دن کے لیے مدت مقرر کی گئی]" "لِيَوْمِ الْفَصْلِ 13؀ۚ [لِيَوْمِ الْفَصْلِ: فیصلہ کرنے کے دن کے لیے]" "وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الْفَصْلِ 14؀ۭ [وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الْفَصْلِ: اور تو کیا جانے کیا ہے فیصلہ کرنے کا دن]" "وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ 15؀ [وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِلْمُكَذِّبِيْنَ: تباہی ہے جس دن جھٹلانے والوں کے لیے]" "اَلَمْ نُهْلِكِ الْاَوَّلِيْنَ 16؀ۭ [اَلَمْ نُهْلِكِ الْاَوَّلِيْنَ: کیا ہم نے ہلاک نہیں کیا پہلوں کو]" "ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْاٰخِرِيْنَ 17؀ [ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ: پھر ہم ان کے پیچھے بھیجتے ہیں] [الْاٰخِرِيْنَ: بعد والوں کو]" "كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِيْنَ 18؀ [كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِيْنَ: اس کے جیسا ہی ہم کرتے ہیں مجرموں کے ساتھ]" "وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ 19؀ [وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِلْمُكَذِّبِيْنَ: تباہی ہے جس دن جھٹلانے والوں کے لیے]" "اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ 20؀ۙ [اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَاۗءٍ مَّهِيْنٍ: کیا ہم نے پیدا نہیں کیا تم کو ایک حقیر پانی سے]" "فَجَــعَلْنٰهُ فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ 21؀ۙ [فَجَــعَلْنٰهُ: پھر ہم نے رکھا اس (پانی) کو] [فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ: ایک مضبوط ٹھکانے میں]" "اِلٰى قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ 22؀ۙ [اِلٰى قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ: ایک طے شدہ اندازے (مدت) تک]" "فَقَدَرْنَا ڰ فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ 23؀ [فَقَدَرْنَا: پھر ہم قابو یافتہ رہے] [فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ: تو ہم کیا ہی اچھے قابو پانے والے ہیں]" "وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ 24؀ [وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِلْمُكَذِّبِيْنَ: تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے]" "اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا 25؀ۙ [اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا: کیا ہم نے نہیں بنایا زمین سمیٹنے کے لیے] ک ف ت [کَفْتًا: (ض) ] کسی چیز کو جمع کر کے اپنے قبضہ میں لے لینا۔ سمیٹنا۔ زیر مطالعہ آیت۔25۔" "اَحْيَاۗءً ‎وَّاَمْوَاتًا 26؀ۙ [اَحْيَاۗءً: زندوں کو (اپنی پیٹھ پر)] [‎وَّاَمْوَاتًا: اور مردوں کو (اپنے پیٹ میں)]" "وَّجَعَلْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ شٰمِخٰتٍ وَّاَسْقَيْنٰكُمْ مَّاۗءً فُرَاتًا 27؀ۭ [وَّجَعَلْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ شٰمِخٰتٍ: اور ہم نے بنائے اس میں اونچے پہاڑ] [وَّاَسْقَيْنٰكُمْ مَاۗءً فُرَاتًا: اور ہم نے پینے کے لیے دیا تم کو شیریں پانی] ش م خ [شَمْخًا: (ف) ] بلند ہونا۔ شَامِخَۃٌ اسم الفاعل کے وزن پر صفت ہے۔ بلند ہونے والی یعنی بلند۔ زیر مطالعہ آیت۔27۔" "وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ 28؀ [وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِلْمُكَذِّبِيْنَ: تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے]" "اِنْــطَلِقُوْٓا اِلٰى مَا كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ 29؀ۚ [انــطَلِقُوْٓا اِلٰى مَا: تم لوگ چلو اس کی طرف] [كُنْتم بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ: تم لوگ جس کو جھٹلایا کرتے تھے جس کو]" "اِنْـطَلِقُوْٓا اِلٰى ظِلٍّ ذِيْ ثَلٰثِ شُعَبٍ 30؀ۙ [انـطَلِقُوْٓا اِلٰى ظِلٍّ: تم لوگ چلو ایک ایسے سائے کی طرف جو] [ذِيْ ثَلٰثِ شُعَبٍ: تین شاخوں والا ہے]" "لَّا ظَلِيْلٍ وَّلَا يُغْنِيْ مِنَ اللَّهَبِ 31؀ۭ [لَّا ظَلِيْلٍ: جو نہ گھنی چھائوں ہے] [وَّلَا يُغْنِيْ: اور جو فائدہ نہیں پہنچائے گا] [مِنَ اللَّهَبِ: آگ کی لپٹ سے] ل ھـ ب [لَھْبًا: (ف) ] آگ کا بھڑکنا۔ لَھَبٌ آگ کا شعلہ، بلند غبار۔ زیر مطالعہ آیت۔31۔" "اِنَّهَا تَرْمِيْ بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ 32؀ۚ [انهَا تَرْمِيْ: بیشک وہ (آگ) پھینکتی ہے] [بِشَرَرٍ: ایسی چنگاریاں جو] [كَالْقَصْرِ: محل کے مانند ہیں]" "كَاَنَّهٗ جِمٰلَتٌ صُفْرٌ 33 ؀ۭ [كَانهٗ: جیسے کہ وہ (چنگاریاں)] [جِمٰلَتٌ صُفْرٌ: زرد اونٹ ہوں]" "وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ 34؀ [وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِلْمُكَذِّبِيْنَ: تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے] " "هٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُوْنَ 35؀ۙ [هٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُوْنَ: یہ ان کے نہ بول سکنے کا دن ہے] نوٹ 1: آیت۔35۔ 36 میں ایک ایسے دن کا ذکر ہے جب کافر لوگ نہ بول سکیں گے نہ کوئی عذر پیش کریں گے۔ یہ ان کی آخری حالت ہوگی جو جہنم میں داخلہ کے وقت ان پر طاری ہو گی۔ اس سے پہلے میدان حشر میں تو یہ لوگ بہت کچھ کہیں گے، بہت سی معذرتیں پیش کریں گے، ایک دوسرے پر اپنے قصوروں کا الزام ڈال کر خود بےقصور بننے کی کوشش کریں گے، اپنے گمراہ کرنے والے سرداروں اور پیشوائوں کو گالیاں دیں گے حتیٰ کہ بعض لوگ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے جرائم کا انکار تک کر گزریں گے جیساکہ قرآن مجید میں متعد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مگر جب تمام شہادتوں سے ان کا مجرم ہونا ثابت کردیا جائے گا اور جب ان کے ہاتھ پائوں اور ان کے اعضاء تک ان کے خلاف گواہی دے کر ثبوت جرم میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے تو ان کے لیے اپنی معذرت میں کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ عذر پیش کرنے کی اجازت نہ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صفائی کا موقع دیئے بغیر ان کے خلاف فیصلہ صادر کردیا جائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جرم اس طرح قطعی حد تک ثابت کردیا جائے گا کہ ان کے لیے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہے گی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ میں نے اس کو بولنے نہیں دیا یا میں نے اس کی زبان (بولتی) بند کر دی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے اس پر ایسی حجت تمام کی کہ اس کے لیے زبان کھولنے کا کوئی موقع باقی نہ رہا۔ (تفہیم القرآن)" "وَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُوْنَ 36؀ [وَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ: اور نہ اجازت دی جائے گی ان کو] [فَيَعْتَذِرُوْنَ: پس وہ معذرت نہ کرسکیں گے] ترکیب: (آیت۔46) وَلَایُؤْذَنُ لَھُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ میں نون اعرابی کی موجودگی بتا رہی ہے کہ اس کا فاسببیہ نہیں ہے۔ اگر یہ فاسببیہ ہوتا تو فَیَعْتَذِرُوْا آتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ فاعاطفہ ہے جو لَایُؤْذَنُ پر عطف ہے۔ ترجمہ میں اس کا لحاظ کرنا ہو گا۔ فا سببیہ کے طور پر جو ترجمے کیے گئے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ (حافظ حمد یار صاحب مرحوم)" "وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ 37؀ [وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِلْمُكَذِّبِيْنَ: تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے]" "هٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ ۚ جَمَعْنٰكُمْ وَالْاَوَّلِيْنَ 38؀ [هٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ: یہ فیصلہ کرنے کا دن ہے] [جَمَعْنٰكُمْ وَالْاَوَّلِيْنَ: ہم نے جمع کیا تم کو اور پہلوں کو]" "فَاِنْ كَانَ لَكُمْ كَيْدٌ فَكِيْدُوْنِ 39؀ [فَان كَان لَكُمْ كَيْدٌ: پھر اگر ہے تمھاری کوئی چالبازی] [فَكِيْدُوْنِ: تو تم لوگ چالبازی کرو مجھ سے]" "وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ 40؀ۧ [وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِلْمُكَذِّبِيْنَ: تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے]" "اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ ظِلٰلٍ وَّعُيُوْنٍ 41؀ۙ [ان الْمُتَّقِيْنَ: یقینا متقی لوگ] [فِيْ ظِلٰلٍ وَّعُيُوْنٍ: سایوں اور چشموں میں ہوں گے]" "وَّفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُوْنَ 42؀ۭ [وَّفَوَاكِهَ: اور پھلوں میں] [مِمَا يَشْتَهُوْنَ: اس میں سے جو وہ چاہیں گے]" "كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِيْۗــــــًٔـــۢا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 43؀ [كُلُوْا وَاشْرَبُوْا: تم لوگ کھائو اور پیؤ] [هَنِيْۗــــــًٔـــۢا بِمَا: خوشگوار ہوتے ہوئے بسبب اس کے جو] [كُنْتم تَعْمَلُوْنَ: تم لوگ عمل کیا کرتے تھے]" "اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ 44؀ [انا كَذٰلِكَ نَجْزِي: بیشک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں] [الْمُحْسِنِيْنَ: خوب کاروں کا]" "وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ 45؀ [وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِلْمُكَذِّبِيْنَ: تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے]" "كُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِيْلًا اِنَّكُمْ مُّجْرِمُوْنَ 46؀ [كُلُوْا وَتمتَّعُوْا قَلِيْلًا: کھا لو اور برت لو تھوڑا عرصہ] [انكُمْ مُّجْرِمُوْنَ: بیشک تم لوگ مجرم ہو]" "وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ 47؀ [وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِلْمُكَذِّبِيْنَ: تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے]" "وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ ارْكَعُوْا لَا يَرْكَعُوْنَ 48؀ [وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ: اور جب کہا جاتا ہے ان سے] [ارْكَعُوْا لَا يَرْكَعُوْنَ: تم لوگ رکوع کرو تو وہ رکوع نہیں کرتے]" "وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ 49؀ [وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِلْمُكَذِّبِيْنَ: تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے]" "فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ 50؀ۧ [فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ: تو (اب) کسی بات پر] [بَعْدَهٗ: اس (قرآن) کے بعد] [يُؤْمِنُوْنَ: وہ لوگ ایمان لائیں گے]" "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ "