قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

تیسرہ پارہ

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ  ۘ مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ ۭ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِھِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْھُمُ الْبَيِّنٰتُ وَلٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ مَّنْ كَفَرَ  ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا  ۣوَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ  ٢٥٣؁ۧ
[تِلْکَ الرُّسُلُ : یہ رسول ] [فَضَّلْنَا : ہم نے فضیلت دی ہے ] [بَعْضَہُمْ : ان کے بعض کو ] [عَلٰی بَعْضٍ : بعض پر ] [مِنْہُمْ مَّنْ : ان میں وہ بھی ہیں جن سے ] [کَلَّمَ : کلام کیا ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [وَرَفَعَ : اور اس نے بلند کیا ] [بَعْضَہُمْ : ان کے بعض کو ] [دَرَجٰتٍ : درجات ہوتے ہوئے] [وَاٰتَیْنَا : اور ہم نے دیا ] [عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ : عیسیٰ ابن مریم کو

الْبَیِّنٰتِ : واضح (معجزے) ] [وَاَیَّدْنٰـہُ : اور ہم نے تقویت دی انؑ کو] [بِرُوْحِ الْقُدُسِ: پاک روح سے ] [وَلَوْ : اور اگر] [شَآئَ : چاہتا ] [اللّٰہُ : اللہ ] [مَا اقْتَتَلَ : تو آپس میں نہ لڑتے] [الَّذِیْنَ : وہ لوگ جو (تھے) ] [مِنْم بَعْدِہِمْ : ان (رسولوں) کے بعد] [مِّنْم بَعْدِ مَا : اس کے بعد کہ جو ] [جَآئَ تْہُمُ : آئیں ان کے پاس] [الْبَـیِّنٰتُ : واضح (نشانیاں) ] [وَلٰـکِنِ : اور لیکن ] [اخْتَلَفُوْا : ان لوگوں نے اختلاف کیا] [فَمِنْہُمْ مَّنْ : تو ان میں وہ بھی ہیں جو ] [اٰمَنَ : ایمان لائے ] [وَمِنْہُمْ مَّنْ : اور ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے] [کَفَرَ : کفر کیا] [وَلَوْ : اور اگر ] [شَآئَ : چاہتا] [اللّٰہُ : اللہ ] [مَا اقْتَتَلُوْا: تو وہ لوگ آپس میں نہ لڑتے] [وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ : اور لیکن اللہ ] [یَفْعَلُ : کرتا ہے ] [مَا : وہ جو ] [یُرِیْدُ : وہ چاہتا ہے ]

 

 ترکیب :’’ تِلْکَ الرُّسُلُ‘‘ مرکب اشاری ہے اور مبتدأ ہے۔ آگے پورا جملہ ’’ فَضَّلْنَا‘‘ سے ’’ بَعْضٍ‘‘ تک اس کی خبر ہے۔ ’’ کَلَّمَ‘‘ کا فاعل ’’ اللّٰہُ‘‘ ہے اور ’’ مِنْھُمْ مَّنْ‘‘ اس کا مفعول ہے۔’’ رَفَعَ‘‘ کی ضمیر فاعلی اللہ کے لیے ہے اور ’’ بَعْضَھُمْ‘‘ مفعول ہے‘ جبکہ ’’ دَرَجٰتٍ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ اس کو تمیز ماننے کی گنجائش نہیں ہے‘ کیونکہ تمیز عموماً واحد نکرہ آتی ہے۔

 ’’ اٰتَیْنَا‘‘ کا مفعول اوّل ’’ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ‘‘ ہے اس لیے ’’ ابْنَ‘‘ منصوب ہے (دیکھیں البقرۃکی آیت 87‘ نوٹ 1) جبکہ ’’ اَلْـبَیِّنٰتِ‘‘ مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ یہ صفت ہے اور اس کا موصوف محذوف ہے۔ ’’ اَیَّدْنٰـہُ‘‘ کی ضمیر مفعولی ’’ عِیْسٰی‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ بِرُوْحِ الْقُدُسِ‘‘ میں ’’ اَلْقُدُسِ‘‘ پر لام تعریف ہے جو کہ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) کے لیے ہے۔ ’’ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ‘‘ کے بعد ’’ کَانُوْا‘‘ محذوف ہے۔ ’’ مِنْ بَعْدِھِمْ‘‘ میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ’’ اَلرُّسُلُ‘‘ کے لیے ہے۔

 نوٹ (1) : ’’ آسان عربی گرامر‘‘ میں آپ نے پڑھا تھا کہ عموماً غیر عاقل کی جمع مکسر کی صفت‘ خبر‘ اسم اشارہ اور ضمیر واحد مؤنث آتی ہے۔ اسی کتاب میں آپ کو تاکید کی گئی تھی کہ جب بھی کوئی قاعدہ پڑھیں تو ذہن میں اس کے استثناء کے لیے ایک کھڑکی ہمیشہ کھلی رکھیں۔ اب نوٹ کریں کہ گزشتہ آیت میں لفظ ’’ اٰیٰتٌ‘‘ غیر عاقل کی جمع ہے ‘ لیکن مکسر نہیں بلکہ سالم ہے۔ پھر بھی اس کے لیے اسم اشارہ ’’ تِلْکَ‘‘ اور ضمیر ’’ ھَا‘‘ واحد مؤنث آئی ہے۔ اسی طرح آیت زیر مطالعہ میں لفظ ’’ اَلرُّسُلُ‘‘ جمع مکسر ہے ‘ لیکن غیر عاقل کی نہیں بلکہ عاقل کی جمع ہے۔ پھر بھی اس کے لیے اسم اشارہ ’’ تِلْکَ‘‘ واحد مؤنث آیا ہے ۔ اس حوالہ سے یہ اصول اب ذہن نشین کرلیں کہ استثناء سے کوئی قاعدہ ساقط نہیں ہوتا بلکہ ثابت ہوتا ہے۔ انگریزی کی معروف کہاوت کا بھی یہی مطلب ہے کہ exception proves the rule (استثناء قاعدے کو ثابت کرتا ہے) ۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ  ۭ وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ  ٢٥٤؁
[ یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو! جو] [اٰمَنُوْآ : ایمان لائے ] [اَنْفِقُوْا : تم لوگ خرچ کرو ] [مِمَّا : اس میں سے جو ] [رَزَقْنٰـکُمْ : ہم نے دیا تم کو ] [مِّنْ قَـبْلِ : اس سے پہلے ] [اَنْ : کہ ] [یَّـاْتِیَ : آئے ] [یَوْمٌ : وہ دن ] [لاَّ بَیْعٌ : کوئی سودا نہیں ہے

فِیْہِ : جس میں ] [وَلاَ خُلَّـۃٌ : اور نہ کوئی دوستی ہے ] [وَّلاَ شَفَاعَۃٌ : اور نہ ہی کوئی شفاعت ہے] [وَالْکٰفِرُوْنَ : اور انکار کرنے والے] [ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ: ہی ظالم ہیں ]

 

ب ی ع

 بَاعَ (ض) بَیْعًا : فروخت کرنا‘ سودا کرنا۔

 بَیْع ٌ (اسم ذات) : سودا‘ آیت زیر مطالعہ۔

 بِیَعٌ (اسم ذات) : عبادت خانہ‘ معبد۔ {لَھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ} (الحج:40) ’’ تو منہدم کیے جاتے گرجے اور عبادت خانے اور نمازیں اور مسجدیں۔‘‘

 بَایَعَ (مفاعلہ) ‘ مُبَایَعَۃً : (1) کسی سودے کا معاہدہ کرنا۔ (2) بیعت کرنا۔ {فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط} (التوبۃ:111) ’’ پس تم لوگ خوشی منائو اپنے اس سودے پر تم نے معاہدہ کیا جس کا۔‘‘ {لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ} (الفتح:18) ’’ بے شک اللہ راضی ہوا ہے مؤمنوں سے جب وہ لوگ آپؐ ‘ کی بیعت کرتے تھے اس درخت کے نیچے۔‘‘

 تَـبَایَعَ (تفاعل) تَـبَایُعًا : باہم خرید و فروخت کرنا۔ {وَاَشْھِدُوْآ اِذَا تَـبَایَعْتُمْص} (البقرۃ:282) ’’ اور تم لوگ گواہ بنائو جب باہم خرید و فروخت کرو۔‘‘

خ ل ل

 خَلَّ (ن) خَلاًّ : کسی چیز میں سوراخ کرنا۔

 خَلٌّ ج خِلَالٌ (اسم ذات) : سوراخ‘ کسی چیز کے دو کناروں کا درمیانی فاصلہ‘ دراڑ۔ {اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّجَعَلَ خِلٰلَھَا اَنْھٰرًا} (النمل:61) ’’ یا وہ جس نے بنایا زمین کو ٹھہرا ہوا اور بنایا اس کی دراڑوں کو نہریں۔‘‘

 خُلَّۃٌ ج خِلَالٌ (اسم ذات) : ایک طرح کی میٹھی گھاس (یعنی مٹھاس سوراخ کر کے گھاس کے اندر چلی جاتی ہے) ۔ پھر استعارۃً دوستی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ۔ اور: {اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خِلٰلٌ ۔ } (ابراھیم) ’’ کہ آئے وہ دن کوئی سودا نہیں ہے جس میں اور نہ ہی یارانے۔‘‘

 خَلِیْلٌ ج اَخِلَّائُ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت): قریبی دوست‘ خاص دوست۔ {وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰھِیْمَ خَلِیْلًا ۔ } (النسائ) ’’ اور بنایا اللہ نے ابراہیم ؑ کو دوست۔‘‘ {اَلْاَخِلَّائُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلاَّ الْمُتَّقِیْنَ ۔ } (الزُّخرف) ’’ سارے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔‘‘

 ترکیب : فعل امر ’’ اَنْفِقُوْا‘‘ کا فاعل اس میں ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ مِمَّا رَزَقْنٰــکُمْ‘‘ اس کا مفعول ہے۔ ’’ یَاْتِیَ‘‘ کا فاعل ’’ یَوْمٌ‘‘ ہے اور نکرہ مخصوصہ ہے۔’’ بَیْعٌ‘‘ ’’ خُلَّۃٌ‘‘ اور ’’ شَفَاعَۃٌ‘‘ مبتدأ نکرہ ہیں ‘ کیونکہ قاعدہ بیان ہو رہا ہے اور ان کی خبریں محذوف ہیں۔ اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ  ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ  ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ  ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ  ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا  ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ   ٢٥٥؁
[اَللّٰہُ : اللہ] [لَآ اِلٰــہَ : کسی قسم کا کوئی الٰہ نہیں ہے] [اِلاَّ : سوائے اس کے کہ ] [ہُوَ : وہ ہے ] [اَلْحَیُّ : جو (حقیقتاً) زندہ ہے ] [الْقَیُّوْمُ : جو (حقیقی) نگران و کفیل ہے] [لاَ تَاْخُذُہٗ : نہیں پکڑتی اس کو ] [سِنَـۃٌ : کوئی اونگھ] [وَّلاَ نَوْمٌ : اور نہ کوئی نیند ] [لَہٗ : اس کی ہی (ملکیت) ہے ] [مَا : وہ جو ہے ] [فِی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ] [وَمَا : اور وہ جو ہے ] [فِی الْاَرْضِ : زمین میں ] [مَنْ ذَا الَّذِیْ : کون ہے وہ جو ] [یَشْفَعُ : شفاعت کرے ] [عِنْدَہٗ : اس کے پاس ] [اِلاَّ : مگر ] [بِاِذْنِہٖ : اس کی اجازت سے ] [یَعْلَمُ : وہ جانتا ہے ] [مَا : اس کو جو ] [بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ : ان کے آگے ہے ] [وَمَا : اور اس کو جو ] [خَلْفَہُمْ : ان کے پیچھے ہے ] [وَلاَ یُحِیْطُوْنَ : اور وہ احاطہ نہیں کرتے] [بِشَیْئٍ : کسی چیز کا ] [مِّنْ عِلْمِہٖٓ : اس کے علم میں سے ] [اِلاَّ : مگر ] [بِمَا: اس کا جو ] [شَآئَ : وہ چاہے ] [وَسِعَ : کشادہ ہوا ] [کُرْسِیُّہُ : اس کا تختِ حکومت ] [السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ] [وَالْاَرْضَ : اور زمین میں ] [وَلاَ یَئُوْدُہٗ : اور نہیں تھکاتا اس کو ] [حِفْظُہُمَا : ان دونوں کی حفاظت کرنا] [وَہُوَ : اور وہ ] [الْعَلِیُّ : بالاتر ہے] [الْعَظِیْمُ : عظیم ہے ]

 

و س ن

 وَسِنَ (س) سِنَۃً : اُونگھ آنا۔

 سِنَۃٌ (اسم ذات) : اُونگھ‘ غفلت‘ آیت زیرِ مطالعہ۔

ن و م

 نَامَ (ف) نَوْمًا : نیند کرنا‘ سونا۔

 نَوْمًا (اسم ذات) : نیند‘ آیت زیر مطالعہ۔

 نَائِمٌ (اسم الفاعل) : نیند کرنے والا‘ سونے والا۔ {فَطَافَ عَلَیْھَا طَـآئِفٌ مِّنْ رَّبِّکَ وَھُمْ نَــآئِمُوْنَ ۔ } (القلم) ’’ تو چکر لگایا ایک آفت نے آپؐ کے رب کی طرف سے اس حال میں کہ وہ لوگ نیند کرنے والے تھے۔‘‘

 مَنَامٌ (مَفْعَلٌ کے وزن پر اسم الظرف) : نیند کرنے یا سونے کی جگہ یا وقت۔ {اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ} (الصّٰفّٰت:102) ’’ بے شک مَیں دیکھتا ہوں سونے کے وقت میں کہ میں تجھ کو ذبح کرتا ہوں۔‘‘

ک ر س

 (x) x : ثلاثی مجرد سے فعل استعمال نہیں ہوتا۔

 اَکْرَسَ (افعال) اِکْرَاسًا : کسی چیز کو تہہ در تہہ جمانا‘ عمارت کی بنیاد کو ٹھونک ٹھونک کر پختہ کرنا۔

 کُرْسِیٌّ : بیٹھنے یا جمنے کی جگہ‘ کرسی‘ تختِ حکومت ۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

ء و د

 آد َ (ن) اَوْدًا : گرانبار کرنا‘ تھکانا۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

ع ل و

 عَلَا (ن) عُلُوًّا : (1) بلند ہونا‘ (2) کسی چیز پر چڑھنا‘ چڑھائی کرنا‘ غالب ہونا‘ (3) سرکشی کرنا‘ بغاوت کرنا۔ {اَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ۔ } (النمل) ’’ کہ تم لوگ بلند مت ہو مجھ سے اور تم لوگ آئو میرے پاس فرمانبردار ہوتے ہوئے۔‘‘{وَلَعَلَا بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍط} (المؤمنون:91) ’’ اور ضرور چڑھائی کرتے ان کے بعض‘ بعض پر۔‘‘ {اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ} (القصص:4) ’’ بے شک فرعون نے سرکشی کی زمین میں۔‘‘

 عُلُوٌّ (اسم ذات بھی ہے) : بلندی‘ بڑائی۔ {تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًاط} (القصص:83) ’’ یہ آخری گھر‘ ہم نے بنایا اسے ان لوگوں کے لیے جو نہیں چاہتے بڑائی زمین میں اور نہ فساد۔‘‘

 اَعْلٰی مؤنث عُلْیَا (اَفْعَلُ اور فُعْلٰی کے وزن پر اسم التفضیل) : زیادہ بلند‘ سب سے بلند‘ غالب۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو مطلب ہوتا ہے انتہائی بلند‘ مطلق بلند۔ {لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی ۔ } (طٰہٰ) ’’ تو مت ڈر ‘ بےشک تو غالب ہے۔‘‘ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی ۔ } (الاعلـٰی) ’’ تو تسبیح کراپنے بلند رب کے نام کی۔‘‘ {وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَاط} (التوبۃ:40) ’’ اور اللہ کا فرمان ہی بلند ہے۔‘‘

 عَالٍ (اسم الفاعل) : صفت کے طور پر بھی آتا ہے: بلند ہونے والا یعنی بلند۔ {فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ ۔ } (الحاقۃ) ’’ ایک بلند باغ میں۔‘‘{عٰلِیَھُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ} (الدھر:21) ’’ چڑھنے والا ہے ان پر ایک باریک ریشم کا کپڑا۔‘‘{وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِج} (یونس:83) ’’ اور بےشک فرعون سرکشی کرنے والا ہے زمین میں۔‘‘

 عَلِیٌّ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : ہمیشہ اور ہر حال میں بلند‘ بالاتر۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 عِلِّیٌّ (اسم ذات) : بلندی۔ {اِنَّ کِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ ۔ } (المطففین) ’’ یقینا نیکی کرنے والوں کی کتاب بلندیوں میں ہے۔‘‘

 تَعَالٰی (تفاعل) تَعَالٍ : دوسروں سے بلند ہونا۔ {فَتَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ۔ } (الاعراف) ’’ توبلندہوا اللہ اس سے جو یہ لوگ شرک کرتے ہیں۔‘‘

 تَعَالَ ج تَعَالَوْا (فعل امر) : تو بلندہو‘ تو اٹھ‘ پھر زیادہ تر ’’ تو آ‘‘ کے معنی میں آتا ہے۔ {تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَـکُمْ} (آل عمران:64) ’’ تم لوگ آئو ایک ایسے کلمے کی طرف جو برابر ہے ہمارے اور تمہارے مابین۔‘‘

 مُتَعَالٍ (اسم الفاعل) : صفت کے طور پر بھی آتا ہے: دوسروں سے بلند ہونے والا یعنی دوسروں سے بلند۔ {عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْـکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ ۔ } (الرعد) ’’ شھادہ (ظاہر) اور غیب کا جاننے والا جو ہمیشہ بڑا ہے‘ سب سے بلند ہے۔‘‘

 اِسْتَعْلٰی (استفعال) اِسْتِعْلَائً : بلندی یا غلبے کی کوشش کرنا یعنی بلند ہونا‘ غالب ہونا۔ {وَقَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰی ۔ } (طٰــہٰ) ’’ اور اس نے مراد پا لی ہے آج جو غالب ہوا۔‘‘

 ترکیب : ’’ اَللّٰہُ‘‘ مبتدأ اور اس کے آگے ’’ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ‘‘ پورا جملہ اس کی خبر ہے‘ جبکہ اس جملہ میں ’’ لَا اِلٰــہَ‘‘ مبتدأ ہے‘ اس کی خبر ’’ بِحَقٍّ مَوْجُوْدٌ‘‘ محذوف ہے اور ’’ اِلاَّ ھُوَ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ اَلْحَیُّ‘‘ اور ’’ اَلْقَیُّوْمُ‘‘ مبتدأ لفظ ’’ اَللّٰہُ‘‘ کا بدل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہیں اور ان پر لام جنس ہے۔ ’’ لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ‘‘ پورا جملہ ’’ اَللّٰہُ‘‘ کی صفت ہے۔ اس جملہ میں ’’ لَا تَاْخُذُہٗ‘‘ فعل ہے ’’ ہٗ‘‘ اس کی ضمیر مفعولی ہے‘ جبکہ ’’ سِنَۃٌ‘‘ اور ’’ نَوْمٌ‘‘ اس کے فاعل ہیں۔ ’’ مَا‘‘ مبتدأ ہے‘ اس کی خبر ’’ مَوْجُوْدٌ‘‘ محذوف ہے اور ’’ فِی السَّمٰوٰتِ‘‘ اور ’’ فِی الْاَرْضِ‘‘ قائم مقام خبر ہیں۔ پھر یہ دونوں جملے مبتدأ مؤخر ہیں‘ ان کی خبر ’’ ثَابِتٌ‘‘ محذوف ہے ‘ جبکہ ’’ لَـہٗ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے‘ اور اس پر لامِ تملیک لگا ہوا ہے۔ ’’ یَعْلَمُ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَللّٰہُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ مَا‘‘ اس کا مفعول ہے ‘ جبکہ ’’ بَیْنَ‘‘ اور ’’ خَلْفَ‘‘ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ ’’ کُرْسِیُّہٗ‘‘ مرکب اضافی ہے اور ’’ وَسِعَ‘‘ کا فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے‘ جبکہ ’’ اَلسَّمٰوٰتِ‘‘ اور ’’ اَلْاَرْضَ‘‘ دونوں اس کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ ’’ یَـئُوْدُ‘‘ کا فاعل ’’ حِفْظُھُمَا‘‘ ہے۔ ’’ اَلسَّمٰوٰتِ‘‘ ایک جنس ہے اور ’’ اَلْاَرْضَ‘‘ دوسری جنس ہے ‘ اس لیے تثنیہ کی ضمیر ’’ ھُمَا‘‘ آئی ہے۔

 نوٹ (1) : تفسیر ابن کثیر میں متعدد احادیث دی ہوئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ عظمت والی آیت ہے۔ ہر نماز کے بعد اور رات کو سوتے وقت اس کو پڑھ لینے سے انسان شیاطین جن و انس سے محفوظ رہتا ہے۔ لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ڐ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ  ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا  ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ    ٢٥٦؁
[لَآ اِکْرَاہَ : کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہے ] [فِی الدِّیْنِ : دین (قبول کرنے) میں ] [قَدْ تَّــبَـیَّنَ : واضح ہو گئی ہے ] [الرُّشْدُ : ہدایت ] [مِنَ الْغَیِّ : گمراہی سے ] [فَمَنْ یَّـکْفُرْ : پس جو انکار کرتا ہے ] [بِالطَّاغُوْتِ : سرکشی (کے راستوں) کا] [وَیُؤْمِنْم : اور ایمان لاتا ہے ] [بِاللّٰہِ : اللہ (کی اطاعت) پر] [فَقَدِ اسْتَمْسَکَ : تو وہ چمٹا ہے ] [بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی : انتہائی مضبوط ] [کنڈے سے] [ لاَ انْفِصَامَ : کسی طرح ٹوٹنا نہیں ہے] [لَـہَا : اس کو ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [سَمِیْعٌ : سننے والا ہے ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے]

 

غ و ی

 غَوٰی (ض) غَـیًّا : صحیح راستے سے بھٹک جانا‘ گمراہ ہونا۔ {وَعَصٰی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی ۔ } (طٰـہٰ) ’’ اور کہنا نہ مانا آدمؑ نے اپنے رب کا تو وہ صحیح راستے سے ہٹ گئے ۔‘‘

 غَیٌّ (اسم ذات بھی ہے) : گمراہی۔ آیت زیرِ مطالعہ۔

 غَاوٍ (فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل) : گمراہ ہونے والا۔ {وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗنَ ۔ } (الشُّعرائ) ’’ اور شاعر لوگ‘ ان کی پیروی کرتے ہیں گمراہ ہونے والے۔‘‘

 غَوِیٌّ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : گمراہ۔ {اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ ۔ } (القصص) ’’ بے شک تو کھلا گمراہ ہے۔‘‘

 اَغْوٰی (افعال) اِغْوَائً : راستے سے بہکا دینا‘ گمراہ کرنا۔ {رَبَّـنَا ھٰٓـؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَغْوَیْنَاج} (القصص:63) ’’ اے ہمارے ربّ! یہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا۔‘‘

 طَغٰی (ف) طَغْیًا وَطُغْیَانًا : مناسب حد سے بڑھنا۔{اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَائُ حَمَلْنٰـکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ ۔ } (الحاقّۃ) ’’ بے شک ہم نے تم کو کشتی میں سوار کیا جب پانی اپنی حد سے بڑھ گیا۔‘‘{فَاَمَّا مَنْ طَغٰی ۔ وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا ۔ } (النّٰزعٰت) ’’ پس جو حد سے بڑھا اور اس نے دنیوی زندگی کو ترجیح دی۔‘‘

 اَلطَّاغُوْتُ (اسم) یہ واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہو جاتا ہے‘ اگرچہ اس کی جمع طَوَاغِیْتُ اور طَوَاغٍ بھی آتی ہے : انتہائی سرکش‘ حد ودِ بندگی سے تجاوز کرنے والا‘ شیطان‘ معبودِ باطل خواہ انسان ہو یا جن یا بُت۔

 الطَّاغِیَۃُ : انتہائی سرکش‘ ۃ مبالغہ کی ہے‘ کڑک دار بجلی جس کی کڑک حد سے بڑھی ہو۔ {فَاُھْلِکُوا بِالطَّاغِیَۃِ ۔ } (الحاقۃ) ’’ وہ ہلاک کیے گئے کڑک دار بجلی سے۔‘‘

 الطَّغْوٰی : سرکشی‘ نافرمانی۔{کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰٹھَا ۔ } (الشمس) ’’ قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے جھٹلایا۔‘‘

ع ر و

 عَرٰی (ن) عَرْوًا : کسی کے سامنے آنا‘ لاحق ہونا۔

 عُرْوَۃٌ (اسم ذات) : کسی چیز کو تھامنے یا لینے کا ذریعہ‘ جیسے پانی کے جگ کا دستہ‘ دروازے کا کنڈا‘ رسی کی گرہ وغیرہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِعْتَرٰی (افتعال) اِعْتِرَائً : اہتمام سے لاحق ہونا۔ {اِنْ نَّـقُوْلُ اِلاَّ اعْتَرٰٹکَ بَعْضُ اٰلِھَتِنَا بِسُوْئٍ ط} (ھود:54) ’’ ہم نہیں کہتے مگر یہ کہ تجھ کو لاحق ہوا ہمارے خدائوں میں سے کوئی بری طرح۔‘‘

ف ص م

 فَصَمَ (ض) فَصْمًا : توڑنا‘ کاٹنا۔

 اِنْفَصَمَ (انفعال) اِنْفِصَامًا : ٹوٹنا‘ کٹنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ لاَ اِکْرَاہَ‘‘ مبتدأ ہے‘ اس کی خبر ’’ مَوْجُوْدٌ‘‘ محذوف ہے اور ’’ فِی الدِّیْنِ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ ’’ تَـبَیَّنَ‘‘ کا فاعل ’’ الرُّشْدُ‘‘ ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ یَکْفُرْ‘‘ سے ’’ بِاللّٰہِ‘‘ تک شرط ہے اور ’’ فَقَدِ‘‘ سے ’’ لَھَا‘‘ تک جواب شرط ہے۔ ’’ انْفِصَامَ‘‘ مبتدأ ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ لَـھَا‘‘ قائم مقام خبر ہے۔

 نوٹ : ’’ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو اسلام میں داخل کرنے کے لیے زبردستی نہیں کی جائے گی۔ لیکن جو بھی اسلام میں داخل ہو گا اس پر اسلامی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہو گا اور نہ کرنے پر وہ سزا کا مستحق ہو گا‘ جبکہ ایک غیر مسلم اس سزا سے مستثنیٰ ہو گا۔ اسلامی حکومت میں ملکی قوانین کی پابندی مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے یکساں ہوگی اور اس پہلو سے ان کے مابین کوئی امتیاز (discrimination) نہیں ہو گا۔ اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا  ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ  ٢٥٧؁ۧ
[اَللّٰہُ : اللہ ] [وَلِیُّ الَّذِیْنَ : ان لوگوں کا دوست ] [ہے جو] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [یُخْرِجُہُمْ : وہ نکالتا ہے ان کو ] [مِّنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے ] [اِلَی النُّوْرِ : نور کی طرف ] [وَالَّذِیْنَ : اور جنہوں نے ] [کَفَرُوْآ : کفر کیا ] [اَوْلِیٰٓــئُہُمُ : ان کے دوست ہیں ] [الطَّاغُوْتُ : طاغوت] [یُخْرِجُوْنَہُمْ : وہ لوگ نکالتے ہیں ان کو] [مِّنَ النُّوْرِ : نور سے ] [اِلَی الظُّلُمٰتِ : اندھیروں کی طرف ] [اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ ] [اَصْحٰبُ النَّارِ : آگ کے ساتھی ہیں] [ہُمْ : وہ لوگ ] [فِیْہَا : اس میں ] [خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں]

 

 ترکیب : ’’ اَللّٰہُ‘‘ مبتدأ ہے۔ ’’ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ صلہ موصول مل کر خبر اوّل ہے‘ جبکہ ’’ یُخْرِجُھُمْ‘‘ سے ’’ اِلَی النُّوْرِ‘‘ تک پورا جملہ خبر ثانی ہے۔ ’’ اَلطَّاغُوْتُ‘‘ یہاں جمع کے معنی میں آیا ہے اس لیے ’’ اَوْلِیَائُ‘‘ اور ’’ یُخْرِجُوْنَ‘‘ جمع آئے ہیں۔

 نوٹ : اس آیت میں نور اور ظلمات‘ ہدایت اور گمراہی کے لیے استعارے ہیں۔ ہدایت ایک ہی ہوتی ہے اس لیے نور واحد آیا ہے‘ جبکہ گمراہی کی متعدد صورتیں ہوتی ہیں اس لیے ظلمات جمع آیا ہے۔ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّهٖٓ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ  ۘاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ  ۭ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ يَاْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِيْ كَفَرَ  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ   ٢٥٨؁ۚ
[اَلَمْ تَرَ : کیا تو نے غورہی نہیں کیا ] [اِلَی الَّذِیْ : اس (کی حالت) کی طرف جس نے] [حَآجَّ : بحث کی ] [اِبْرٰھٖمَ : ابراہیم ؑ سے] [فِیْ رَبِّہٖٓ : ان کے رب (کے بارے ) میں ] [اَنْ : (اس سبب سے) کہ ] [اٰتٰٹہُ : دی اس کو ] [اللّٰہُ : اللہ نے] [الْمُلْکَ : بادشاہت] [اِذْ قَالَ : جب کہا ] [اِبْرٰہٖمُ : ابراہیم ؑ نے] [رَبِّیَ الَّذِیْ : میرا رب وہ ہے جو ] [یُحْیٖ : زندگی دیتا ہے ] [وَیُمِیْتُ : اور موت دیتا ہے ] [قَالَ : اس نے کہا ] [اَنَا : میں (بھی) ] [اُحْیٖ : زندگی دیتا ہوں] [وَاُمِیْتُ : اور موت دیتا ہوں] [قَالَ : کہا ] [اِبْرٰہٖمُ : ابراہیم ؑ نے] [فَاِنَّ : (اچھا تو) پھر یقینا] [اللّٰہَ : اللہ ] [یَاْتِیْ : لاتا ہے ] [بِالشَّمْسِ : سورج کو ] [مِنَ الْمَشْرِقِ : مشرق سے ] [فَاْتِ : پس تو لا ] [بِہَا : اس کو ] [مِنَ الْمَغْرِبِ : مغرب سے ] [فَـبُہِتَ : پس (اس طرح) ششدر رہ گیا] [الَّذِیْ : وہ جس نے ] [کَفَرَ : انکار کیا ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [لاَ یَہْدِی : ہدایت نہیں دیتا

الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ : ظالم قوم کو ]

 

ب ھـ ت

 بَھَتَ (ف) بَھْتًا : حیران کر دینا‘ ششدر کر دینا۔ {بَلْ تَاْتِیْھِمْ بَغْتَۃً فَتَبْھَتُھُمْ} (الانبیائ:40) ’’ بلکہ وہ (یعنی آگ) آئے گی ان کے پاس اچانک تو وہ ششدر کر دے گی ان کو۔‘‘

 بُھْتَانٌ (فُعْلَانٌ کے وزن پر مبالغہ) : انتہائی حیران و ششدر کرنے والا ۔ پھر اصطلاحاً ایسے جھوٹ اور جھوٹے الزام کے لیے آتا ہے جسے سن کر انسان ششدر اور دم بخود رہ جائے۔ {ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ ۔ } (النور) ’’ یہ ایک عظیم جھوٹا الزام ہے۔‘‘

 ترکیب : ’’ اَنْ‘‘ سے پہلے ’’ بَا‘‘ سببیہ محذوف ہے۔ ’’ اٰتٰٹہُ‘‘ میں ضمیر مفعولی ’’ اَلَّذِیْ‘‘ کے لیے ہے‘ جبکہ ’’ اَلْمُلْکَ‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ فَاِنَّ‘‘ میں ’’ فَ‘‘ کا مفہوم ہے ’’ اچھا تو پھر‘‘۔ ’’ بُھِتَ‘‘ ماضی مجہول ہے۔ اس سے پہلے ’’ کَذٰلِکَ‘‘ محذوف ہے۔

 نوٹ : استادِ محترم حافظ احمد یار صاحب ۔ نے نشاندہی کی ہے کہ لفظ ابراہیم سورۃ البقرۃ میں ’’ ی‘‘ کے بغیر یعنی ’’ اِبْرٰھٖم‘‘ لکھا گیا ہے ‘ جبکہ باقی قرآن مجید میں اسے ’’ ی‘‘ کے ساتھ یعنی ’’ اِبْرٰھِیْم‘‘ لکھا گیا ہے۔ اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ وَّهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا  ۚ قَالَ اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا  ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَـةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ  ۭ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ  ۭ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ  ۭ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَـنَّهْ  ۚ وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا  ۭ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ  ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ  ٢٥٩؁
[اَوْ: یا] [كَالَّذِيْ: اس کی مانند جو] [مَرَّ: گزرا] [عَلٰي قَرْيَةٍ: ایک بستی پر] [وَّ: اس حال میں کہ] [هِيَ: وہ] [خَاوِيَةٌ: اوندھی تھی] [عَلٰي عُرُوْشِهَا: اپنی چھتوں پر] [قَالَ: اس نے کہا] [انٰى: کس طرح سے] [يُـحْيٖ: زندہ کرے گا] [ھٰذِهِ: اس کو] [اللّٰهُ: اللہ] [بَعْدَ مَوْتِهَا: اس کی موت کے بعد] [فَاَمَاتَهُ: تو موت دی اس کو] [اللّٰهُ: اللہ نے] [مِائَـةَ عَامٍ: ایک سو سال (کے لیے] [ثُمَّ: پھر] [بَعَثَهٗ: اس نے اٹھایا اس کو] [قَالَ: (اللہ نے) کہا] [كَمْ: کتنا (عرصہ) ] [لَبِثْتَ: تو ٹھہرا] [قَالَ: اس نے کہا] [لَبِثْتُ: میں ٹھہرا] [يَوْمًا: ایک دن] [اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ: یا ایک دن کا کچھ (حصہ) ] [قَالَ: (اللہ نے) کہا] [بَلْ: بلکہ] [لَبِثْتَ: تو ٹھہرا] [مِائَةَ عَامٍ: ایک سو سال] [فَانظُرْ: پس تو دیکھ] [اِلٰى طَعَامِكَ: اپنی خوراک کی طرف] [وَشرابكَ: اور اپنی پینے کی چیز کی طرف] [لَمْ يَتَسَـنَّهْ: وہ متغیر ہی نہیں ہوئی] [وَانظُرْ: اور تو دیکھ] [اِلٰى حِمَارِكَ: اپنے گدھے کی طرف] [وَلِنَجْعَلَكَ: اور (یہ) اس لیے کہ ہم بنائیں تجھ کو] [اٰيَةً: ایک نشانی] [لِّلنَّاسِ: لوگوں کے لیے] [وَانظُرْ: اور تو دیکھ] [اِلَى الْعِظَامِ: ہڈیوں کی طرف] [كَيْفَ: کیسے] [نُنْشِزُھَا: ہم اٹھاتے ہیں ان کو] [ثُمَّ: پھر] [نَكْسُوْھَا: ہم پہناتے ہیں ان کو] [لَحْــمًا: گوشت] [فَلَمَا: پس جب] [تَبَيَّنَ: واضح ہوا] [لَهٗ: اس کے لیے] [قَالَ: تو اس نے کہا] [اَعْلَمُ: میں جانتا ہوں] [ان اللّٰهَ: کہ اللہ] [عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ: ہر چیز پر] [قَدِيْرٌ: قدرت رکھنے والا ہے]

 

خ و ی

خواء (ض) اوندھا ہونا۔

خاویۃ: اسم الفاعل خاو کا مونث ہے، اوندھی ہونے والی یعنی اوندھی۔ آیت زیر مطالعہ۔

ع ر ش

عرشا (ض) کسی چیز پر چھپر یا چھت ڈالنا۔ ودمرنا ماکان یصنع فرعون و قومہ وما کانوا یعرشون۔ (اور ہم نے برباد کیا اس کو جا بنایا کرتے تھے فرعون اور اس کی قوم، اور اس کو جو وہ لوگ چھت ڈالا کرتے تھے۔ 137/7

عرش ج عروش: اسم ذات ہے، چھپر، چھت، تخت (کیونکہ یہ زمین سے اونچا ہوتا ہے) ورفع ابویہ علی العرش (اور اس نے اٹھایا اپنے والدین کو تخت پر) 100/12۔ وھو رب العرش العظیم (اور وہ عظیم عرش کا مالک ہے) 129/9

معروش: اسم المفعول، چھپر یا چھت ڈالا ہوا۔ وھو الذی انشاء جنت معروشات و غیر معروشات (اور وہ ہے جس نے پیدا کیا باغات کو، چھپر ڈالے ہوئے اور بغیر چھپر ڈالے ہوئے) 141/6

ل ب ث

لبثا (س): کسی جگہ قیام کرنا، ٹھہرنا، آیت زیر مطالعہ۔

لابث: اسم الفاعل ہے، ٹھہرنے والا، لبثین فیھا احقابا (قیام کرنے والے ہیں اس میں مدتوں) 23/78

تلبثا (تفعل) بتکلف ٹھہرنا یعنی دیر کرنا۔ وما تلبثوا بھا الا یسیرا ( تو وہ لوگ دیر نہیں کریں گے اس میں مگر تھوڑی سی) 14/33

س ن ھ

سنھا (س) بہت سالوں والا ہونا، متغیر ہونا، بگڑ جانا (مدت گزر جانے کی وجہ سے)

تسنھا (تفعل) متغیر ہونا، خراب ہونا، آیت زیر مطالعہ۔

ح م ر

حمرا (ن) کھال کھرچنا (جس سے سرخی ظاہر ہوجائے)

احمر: مونث حمراء ج حمر۔ افعل الوان و عیوب ہے، سرخ رنگ والا، ومن الجبال جدد بیض و حمر۔ (اور پہاڑوں میں سرخ و سفید راستے ہیں) 27/35

حمار: ج حمر اور حمیر۔ اسم ذات ہے، گدھا۔ کانھم حمر مستنفرۃ (گویا کہ وہ لوگ بدکے ہوئے گدھے ہیں) 50/74۔ ان انکر الاصوات لصوت الحمیر۔ بیشک سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے) 19/31

ن ش ز

نشزا (ن) کسی چیز کا اپنی جگہ سے ابھرنا، اوپر اٹھنا۔

نشوزا: بد خو یا بد کلام ہونا، زیادتی کرنا۔

انشر: فعل امر ہے، تو ابھر، تو اٹھ۔ واذا قیل انشزوا فانشزوا (اور جب کہا جائے کہ تم لوگ اٹھو تو تم لوگ اٹھ جاؤ) 77/58

نشوزا: اسم ذات ہے ، بدخوئی، زیادتی، وان امراۃ خافت من بعلھا نشوزا (اور اگر کسی عورت کو خوف ہو اپنے شوہر سے زیادتی کا) 128/4

انشازا (افعال) کسی کو اس کی جگہ سے اٹھانا، آیت زیر مطالعہ۔

 

ترکیب:

اَوْ گزشتہ آیت کے الم تر پر عطف ہے، پورا جملہ اس طرح ہوگا او الم تر الی الذی کان کالذی۔ هِيَ کا واؤ حالیہ ہے ، یحی کا مفعول ھذہ ہے، مائۃ عام ظرف ہے، اس لیے مائۃ منصوب ہے، کم لبثت میں کم کی تمیز محذوف ہے جو یوما یا عاما ہوسکتی ہے، طعام اور شراب کے لیے تثنیہ کا صیغہ آنا چاہیے تھا لیکن لم یتسنہ واحد آیا ہے، اس کی وضاحت آگے نوٹ میں کی جائے گی، اور یہ دراصل یتسنہ تھا جو لم کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے ۔ لنجعلک ایۃ للناس درمیان میں جملہ معترضہ ہے، الی الطعام گزشتہ جملہ کے حمارک پر عطف ہے ، ننشزھا اور نکسوھا کی ضمیر مفعول العظام کے لیے ہیں جبکہ نکسو کا مفعول ثانی لحما ہے۔ اور نحن ضمیر جو ان میں چھپی ہوئی ہے ان کی فاعل ہے جو اللہ کے لیے ہے۔

 

نوٹ 1: اردو میں ہم کہتے ہیں " دودھ اور دہی کا ذائقہ خراب نہیں ہوا"۔ حالانکہ گرامر کے لحاظ سے کہنا چاہیے تھا " ذائقے خراب نہیں ہوئے" ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بات کہنے کا یہ انداز عربی سے لیا گیا ہے۔ کیونکہ عربی میں کبھی واحد بول کر تثنیہ اور کبھی تثنیہ بول کر واحد مراد لیتے ہیں۔ اس آیت میں بھی یہی انداز ہے کہ لم یتسنہ واحد بول کر تثنیہ مراد لیا گیا ہے۔

اس حوالے سے آسان عربی گرامی کے "ابتدائیہ" میں بتائی گئی اس بات کو ذہن میں تازہ کرلیں کہ زبان پہلے وجود میں آتی ہے اور قواعد بعد میں مرتب کیے جاتے ہیں ، اس لیے گرامر اہل زبان کے تابع ہوتی ہے لیکن اہل زبان گرامر کے پابند نہیں ہوتے۔

نوٹ 2: یتسنہ کے مادے کے بارے میں اختلاف رائے ہے، ایک رائے یہ ہے کہ اس کا مادہ " س ن ھ" ہے۔ حافظ احمد یار صاحب مرحوم نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور ہم نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے۔

دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا مادہ " س ن ن " ہے۔ باب تفعل میں اس کا مضارع یتسنن بنتا ہے۔ یہ قاعدہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ کسی لفظ میں ایک ہی حرف دو دفعہ آجائے تو عام طور پر ان کا ادغام کردیتے ہیں۔ اب یہ قاعدہ بھی نوٹ کرلیں کہ ایک ہی حرف اگر تین دفعہ آجائے تو پہلے دو حروف کا ادغام کر کے تیسرے حرف کو "ی " میں تبدیل کرسکتے ہیں یعنی یہ قاعدہ اختیاری ہے۔ اس طرح یتسنن تبدیل ہوکر یتسنی ہوگیا۔ پھر اس پر لم داخل ہوا تو "ی" گر گئی اور لم یتسنن باقی بچا۔ اس کے آگے جو ہائے ساکن ہے اسے ہائے سکت کہتے ہیں۔ اس کو وقف کے لیے لگاتے ہیں اور اس کے کوئی معنی نہیں ہوتے ۔ جیسے کتبیہ، حسابیہ وغیرہ۔ وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى  ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ  ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ  ۭ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰي كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا  ۭ وَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ    ٢٦٠؁ۧ
[ وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا ] [ اِبْرٰہٖمُ : ابراہیم ؑنے] [رَبِّ : اے میرے ربّ! ] [اَرِنِیْ : تو دکھامجھ کو ] [کَیْفَ: کیسے ] [تُحْیِ : تو زندہ کرے گا ] [الْمَوْتٰی : مردوں کو] [قَالَ : (اللہ تعالیٰ نے) کہا ] [اَوَ : تو کیا ] [لَمْ تُؤْمِنْ: تو ایمان ہی نہیں لایا؟] [قَالَ : (ابراہیم ؑ نے) کہا] [بَلٰی : کیوں نہیں ] [وَلٰـکِنْ : اور لیکن ] [لِّیَطْمَئِنَّ : (میں پوچھتا ہوں) تاکہ پرسکون ہو جائے] [قَلْبِیْ : میرا دل ] [قَالَ : (اللہ تعالیٰ نے ) کہا ] [فَخُذْ : پس تو پکڑ] [اَرْبَعَۃً : چار ] [مِّنَ الطَّیْرِ : پرندوں میں سے ] [فَصُرْ : پھر تو مائل کر ] [ہُنَّ : ان کو ] [اِلَـیْکَ : اپنی طر ف] [ثُمَّ : پھر ] [اجْعَلْ : تو رکھ ] [عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ : ہر ایک پہاڑ پر ] [مِّنْہُنَّ : ان میں سے ] [جُزْئً‘ ا : ایک ٹکڑا] [ثُمَّ : پھر ] [ادْعُہُنَّ : تو پکار ان کو ] [یَاْتِیْنَکَ : وہ آئیں گے تیرے پاس ] [سَعْیًا : دوڑتے ہوئے ] [وَاعْلَمْ : اور تو جان لے ] [اَنَّ اللّٰہَ : کہ اللہ ] [عَزِیْزٌ : بالادست ہے ] [حَکِیْمٌ : حکمت والا ہے]

 

ط م ء ن

 طَمْأَنَ (رُباعی) طَمْاَنَۃً : ذہن کو خلجان سے خالی کرنا‘ پرسکون کرنا‘ مطمئن کرنا۔

 اِطْمَئَنَّ (اِفْعِلْ لَالٌ) اِطْمِئْنَانًا : ذہن کا خلجان سے خالی ہو جانا‘ پرسکون ہو جانا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 مُطْمَئِنٌّ (اسم الفاعل) : پرسکون ہو جانے والا ۔ {اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ} (النحل:106) ’’ سوائے اس کے جو مجبور کیا گیا اس حال میں کہ اس کا دل مطمئن ہو جانے والا ہے ایمان پر۔‘‘

ط ی ر

 طَارَ (ض) طَیْرًا : کسی چیز کا اڑنا‘ پھیل جانا۔ {وَلَا طٰئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ} (الانعام:38) ’’ اور نہ کوئی پرندہ جو اڑتا ہے اپنے پروں کے ساتھ ۔‘‘

 طَائِرٌ ج طَیْرٌ (اسم الفاعل) : اُڑنے والا۔ مختلف مفاہیم میں آتا ہے: (1) پرندہ۔ مذکورہ بالا آیت (الانعام:38) دیکھیں۔ (2) اعمال (کیونکہ عمل کر لینے کے بعد وہ انسان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں ‘ یعنی اڑ جاتے ہیں) ۔ {وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖط} (الاسرائ:13) ’’ اور ہر ایک انسان‘ ہم نے لازم کیا اس پر اس کا عمل اس کی گردن میں۔‘‘ (3) بدشگونی‘ نحوست (عرب لوگ پرندوں سے شگون لیا کرتے تھے۔ پھر یہ شگون کے بجائے بدشگونی کے لیے استعمال ہونے لگا) ۔ {قَالُوْا طَائِرُکُمْ مَّعَکُمْط} (یٰسٓ:19) ’’ انہوں نے کہا تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے۔‘‘

 تَطَیَّرَ (تفعّل) تَطَیُّرًا : بدشگونی لینا‘ منحوس سمجھنا۔ {قَالُوْا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْج} (یٰسٓ:18) ’’ انہوں نے کہا بےشک ہم تم لوگوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔‘‘

 اِسْتَطَارَ (استفعال) اِسْتِطَارَۃً : پھیل جانا‘ منتشر ہونا۔

 مُسْتَطِیْرٌ (اسم الفاعل) : پھیل جانے والا۔ {وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًا ۔ } (الدّھر) ’’ اور وہ لوگ خوف کرتے ہیں اس دن کا ہو گا جس کا شر پھیل

جانے والا۔‘‘

ص و ر

 صَارَ (ن) صَوْرً ا : (1) بلانا‘ مائل کرنا۔ (2) کاٹنا‘ مجسمہ تراشنا۔

 صُرْ (فعل امر) : تو مائل کر۔ آیت زیر مطالعہ۔

 صُوْرَۃٌ ج صُوَرٌ (اسم ذات) : شکل‘ حلیہ‘ صورت۔ {فِیْ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ ۔ } (الانفطار) ’’ جیسی شکل میں اس نے چاہا‘ اس نے ترتیب دیا تجھ کو۔‘‘{فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ} (المؤمن:64) ’’ تو اس نے اچھی بنائیں تمہاری شکلیں۔‘‘

 صُوْرٌ (اسم ذات) : ہر وہ چیز جس میں پھونکنے سے آواز پیدا ہو‘ جیسے بگل‘ سائرن وغیرہ۔ {یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِط} (الانعام:73) ’’ جس دن پھونکا جائے گا صور میں۔‘‘

 صَوَّرَ (تفعیل) تَصْوِیْرًا : کسی کو کوئی شکل یا حلیہ دینا۔ {ھُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآئُ ط} (آل عمران:6) ’’ وہ ہے جو شکل دیتا ہے تم لوگوں کو رحموں میں جیسی وہ چاہتا ہے۔‘‘

 مُصَوِّرٌ (اسم الفاعل) : شکل دینے والا۔ {ھُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ} (الحشر:24) ’’ وہ اللہ ہے جو پیدا کرنے والا ہے‘ وجود بخشنے والا ہے‘ شکل دینے والا ہے۔‘‘

ج ب ل

 جَبَلَ (ن) جَبْلاً : بنانا‘ جیسے مٹی میں پانی ڈال کر گارا بنانا۔

 جِبِلَّۃٌ ج جِبِلٌّ (اسم ذات) : بنائی ہوئی چیز‘ خلقت ۔ (جِبِلَّۃٌ اسم جمع ہے اور اس کی جمع بھی آتی ہے) ۔ {وَاتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِیْنَ ۔ } (الشُّعرائ) ’’ اور تم لوگ تقویٰ اختیار کرو اس کا جس نے پیدا کیا تم لوگوں کو اور پہلی خلقت کو۔‘‘{وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ جِبِلاًّ کَثِیْرًاط} (یٰسٓ:62) ’’ اور اس نے گمراہ کیا تم میں سے بہت سی خلقتوں کو۔‘‘

 جَبَلٌ ج جِبَال ٌ : پہاڑ۔{وَکَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا} (الحجر:82) ’’ اور وہ لوگ تراشتے تھے پہاڑوں میں سے گھر۔‘‘

ج ز ء

 جَزَئَ (ف) جَزْئً ا : کسی چیز کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا۔

 جُزْئٌ (اسم ذات) : ٹکڑا‘ حصہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ رَبِّ‘‘ کی جریائے متکلم کی علامت ہے ‘ یعنی یہ دراصل ’’ رَبِّیْ‘‘ تھا۔ ’’ اَرِ‘‘ فعل امر ہے ’’ نِیْ‘‘ ضمیر مفعولی ہے اور آگے ’’ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی‘‘ پورا جملہ اس کا مفعول ثانی ہے۔ ’’ لِیَطْمَئِنَّ‘‘ سے پہلے ’’ سَئَلْتُکَ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ فَخُذْ‘‘ کا مفعول’’ مِنَ الطَّیْرِ‘‘ ہے اور محلاً منصوب ہے‘ جبکہ ’’ اَرْبَعَۃً‘‘ تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ اِجْعَلْ‘‘ کا مفعول ’’ جُزْئً ا‘‘ ہے جبکہ ’’ مِنْھُنَّ‘‘ اس سے متعلق ہے۔ ’’ طَیْرٌ‘‘ غیر عاقل کی جمع ہے‘ اس لحاظ سے فعل واحد مؤنث آنا چاہیے تھا لیکن ’’ یَاْتِیْنَ‘‘ جمع مؤنث آیا ہے۔ یہ ایک استثنائی صورت ہے۔ جیسے عام طور پر ’’ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃً‘‘ آتا ہے لیکن کبھی ’’ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ‘‘ بھی آ جاتا ہے۔ ’’ سَعْیًا‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔

نوٹ (1) : اس سے پہلے رباعی مجرد کے چند الفاظ آ چکے ہیں اور اب رباعی مزید فیہ کا لفظ پہلی مرتبہ آیا ہے۔ اس مقام پر اس کے متعلق چند باتیں ذہن نشین کر لیں۔

 (1) رباعی کے اَوزان میں ’’ فَـا‘‘ اور ’’ عین‘‘ کے بعد ’’ لام‘‘ دو مرتبہ آتا ہے۔ نوٹ کرلیں کہ پہلا ’’ لام‘‘ مادے کے تیسرے حرف کے لیے اور دوسرا ’’ لام‘‘ چوتھے حرف کے لیے ہوتاہے۔

 (2) رباعی مجرد کا ایک ہی باب ہے۔ اس کا ماضی اور مضارع فَعْلَلَ اور یُفَعْلِلُ کے وزن پر آتے ہیں‘ جبکہ مصدر کے لیے زیادہ تر فَعْلَلَۃً اور فِعْلَالًا کے اوزان استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے طَمْئَنَ ۔ یُطَمْئِنُ ۔ طَمْئَنَۃً اور زَلْزَلَ۔ یُزَلْزِلُ ۔ زِلْزَالاً وغیرہ۔ یہ باب زیادہ تر متعدی ہوتا ہے۔

 (3) رباعی مزید فیہ کے تین ابواب ہیں جس میں سے ایک آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔ اس کے ماضی‘ مضارع اور مصدر کے اوزان یہ ہیں : اِفْعَلَلَّ ۔ یَفْعَلِلُّ ۔ اِفْعِلَّالًا۔ آپ کی آسانی کے لیے ہم نے مصدر کے وزن کو کھول کر اِفْعِلْ لَالٌ لکھا ہے تاکہ تیسرے اور چوتھے کلمہ پر آپ صحیح حرکات و سکنات لگا سکیں۔ نوٹ کرلیں کہ اس باب کا ہمزہ ‘ ہمزۃ الوصل ہے اور یہ باب زیادہ تر لازم ہوتا ہے۔

 نوٹ (2) : اس آیت کے حوالے سے ایک اہم اور بنیادی بات یہ نوٹ کرلیں کہ یہ کائنات اور اس کی ہر چیز اپنی زبانِ حال سے اللہ تعالیٰ کے وجود‘ اس کی توحید اور اس کی قدرت کی گواہی دے رہی ہے۔ اور یہی ایمان کی اصل بنیاد ہے۔ اس ایمان کے بعد جو تفصیلات اور جزئیات قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں ان پر ایمان اور عمل لازمی ہو جاتا ہے‘ خواہ اطمینانِ قلب حاصل ہو یا نہ ہو۔

 نوٹ کریں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایمان کا اقرار کیا ہے تب اللہ تعالیٰ نے ان کے اطمینانِ قلب کا بندوبست کیا ہے۔ اسی طرح سے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام پر ایمان اور اخلاصِ نیت سے عمل کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے انہیں اطمینانِ قلب عطا فرماتا ہے۔ مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ  ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ    ٢٦١؁
[ مَثَلُ الَّذِیْنَ : ان لوگوں کی مثال جو] [یُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں ] [اَمْوَالَہُمْ : اپنے مالوں کو ] [فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [کَمَثَلِ حَبَّۃٍ : ایک ایسے دانے کی مثال کی طرح ہے ] [اَنْبَتَتْ : جس نے اگائے ] [سَبْعَ سَنَابِلَ : سات خوشے ] [فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ : ہر ایک خوشے میں] [مِّائَۃُ حَبَّۃٍ : ایک سو دانے ہیں ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [یُضٰعِفُ : ضرب دیتا ہے (انفاق کو) ] [لِمَنْ : اس کے لیے جس کے لیے] [یَّشَآئُ : وہ چاہتا ہے] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [وَاسِعٌ : وسعت دینے والا ہے ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ]

 

س ب ع

 سَبَعَ (ف) سَبْعًا : ساتواں حصہ لینا (کسی چیز کو سات حصوں میں تقسیم کر کے) ۔

 سَبْعٌ (اسم عدد بھی ہے) : سات۔{لَھَا سَبْعَۃُ اَبْوَابٍط} (الحجر:44) ’’ اس کے سات دروازے ہیں۔‘‘

 سَبْعُوْنَ : ستر۔ {اِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْط} (التوبۃ:80) ’’ اگر آپؐ استغفار کریں ان کے لیے ستر مرتبہ تو (بھی) ہرگز نہیں بخشے گا اللہ ان کو۔‘‘

 سَبُعٌ (اسم ذات) : درندہ (کیونکہ وہ اپنے شکار کو پھاڑ کر ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے) ۔ {وَمَا اَکَلَ السَّبُعُ} (المائدۃ:3) ’’ اور جس کو کھایا درندے نے۔‘‘

س ن ب ل

 سَنْبَلَ (رُباعی) سَنْبَلَۃً : کھیتی کا بالیاں نکالنا۔

 سُنْبُلٌ ج سَنَابِلُ (اسم ذات) : پودے کی بال‘ خوشہ۔ {فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْہُ فِیْ سُنْبُلِہٖ} (یوسف:47) ’’ پس جو تم لوگ کاٹو تو چھوڑ دو اس کو اس کے خوشے میں۔‘‘{وَسَبْعَ سُنْبُلٰتٍ خُضْرٍ} (یوسف:43) ’’ اور سات سبز بالیاں (خوشے) ۔‘‘

 ترکیب :’’ کَمَثَلِ‘‘ کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے ’’ حَبَّۃٍ‘‘ مجرور ہے۔ ’’ اَنْبَتَتْ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو’’ حَبَّۃٍ‘‘ کے لیے ہے‘ جبکہ مرکب اضافی ’’ سَبْعَ سَنَابِلَ‘‘ اس کا مفعول ہے۔ اس لیے اس کا مضاف ’’ سَبْعَ‘‘ منصوب ہے اور مضاف الیہ ’’ سَنَابِلَ‘‘ حکماً مجرور ہے۔ ’’ مِائَۃُ حَبَّۃٍ‘‘ مبتدأ مؤخر ہے اس لیے مضاف ’’ مِائَۃُ‘‘ مرفوع ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔’’ یُضٰعِفُ‘‘ کا مفعول محذوف ہے جو کہ ’’ اِنْفَاقًا‘‘ ہو سکتا ہے ‘ جبکہ ’’ لِمَنْ‘‘ متعلق فعل ہے۔

 نوٹ (1) : لفظ’’ مِائَۃٌ‘‘ میں الف زائدہ ہے جیسے ’’ اُولٰٓـئِکَ‘‘ میں وائو زائدہ ہے۔ چند الفاظ میں حروف ِزائدہ لکھنے کی وجہ سمجھ لیں۔

 صحابہ کرام (رض) کے زمانے میں بھی اور آج بھی عربی حرکات و سکنات کے بغیر لکھی اور پڑھی جاتی ہے ‘ جیسے فارسی اور اردو حرکات و سکنات کے بغیر لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ البتہ غیر عربی لوگوں کی سہولت کے لیے بعد میں قرآن مجید میں حرکات و سکنات لکھنے کا رواج ہوا۔

 اسی طرح عربی حروف پر نقطے ڈالنے کا رواج بھی بعد میں ہوا۔ صحابہ کرام (رض)  کے زمانے میں عربی حروف کے نقطوں کے بغیر لکھی اور پڑھی جاتی تھی۔ مثلاً اس زمانے میں حرف ’’ ح‘‘ کو حسبِ موقع ج ‘ ح اور خ پڑھا جاتا تھا اور بالکل درست پڑھا جاتا تھا۔ ہم لوگ اس کو ناممکن قرار دینے سے پہلے اتنا بھی نہیں سوچتے کہ انگریزی اگرچہ ہماری مادری زبان نہیں ہے‘ لیکن اس کے باوجود ہم لوگ انگریزی حرف ’’C‘‘ کو لفظ circle میں پہلے سین کی آواز سے اور پھر کاف کی آوز سے پڑھ لیتے ہیں۔ حرف ’’G‘‘ کو لفظ general میں جیم اور God میں گاف کی آواز سے پڑھ لیتے ہیں۔ علیٰ ھذا القیاس۔

 بہرحال عربی حروف پر نقطے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ الفاظ میں مشابہت دُور کرنے کے لیے کسی ایک لفظ میں کوئی زائد حرف لکھا جاتا تھا۔ جیسے ’’ الیک‘‘ سے فرق کرنے کے لیے ’’ اولٰٓـئک‘‘ میں وائو زائد لکھا گیا۔ اسی طرح ’’ منہ‘‘ سے فرق کرنے کے لیے ’’ مائۃ‘‘ میں الف زائد لکھا گیا۔

 نوٹ (2) : ’’ کُلُّ‘‘ کا مضاف الیہ زیادہ تر واحد نکرہ آتا ہے۔ لیکن اگر معرفہ آئے تو مفہوم میں کچھ فرق پڑتا ہے۔ مثلاً’’ کُلُّ کِتَابٍ‘‘ کا مطلب ہے ہر ایک کتاب۔ جبکہ ’’ کُلُّ الْکِتَابِ‘‘ کا مطلب ہے کل کی کل کتاب ‘ یعنی وہ پوری کتاب جس کی بات ہو رہی ہے۔ اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًى ۙ لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ   ٢٦٢؁
[ اَلَّذِیْنَ : وہ لوگ جو ] [یُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں ] [اَمْوَالَہُمْ : اپنے مالوں کو ] [فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [ثُمَّ : پھر ] [لاَ یُتْبِعُوْنَ : وہ لوگ پیچھے نہیں لگاتے] [مَآ : اس کے جو ] [اَنْفَقُوْا : انہوں نے خرچ کیا] [مَنًّا : احسان جتانے کو ] [وَّلَآ اَذًی : اور نہ ہی ستانے کو ] [لَّـہُمْ : ان کے لیے ہے ] [اَجْرُہُمْ : ان کا اجر ] [عِنْدَ رَبِّہِمْ : ان کے رب کے پاس ] [وَلاَ خَوْفٌ : اور کوئی خوف نہیں ہے] [عَلَیْہِمْ : ان پر ] [وَلاَ ہُمْ : اور نہ ہی وہ لوگ ] [یَحْزَنُوْنَ : پچھتاتے ہیں ]

 

ترکیب : ’’ یُتْبِعُوْنَ‘‘ کا مفعول اوّل ’’ مَا‘‘ ہے‘ جبکہ ’’ مَنًّا‘‘ اور ’’ اَذًی‘‘ اس کے مفعول ثانی ہیں‘ اس لیے یہاں ’’ اَذًی‘‘ محلاً منصوب ہے۔ ’’ اَجْرُھُمْ‘‘ مبتدأ مؤخر ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے جو ’’ ثَابِتٌ‘‘ یا ’’ مَحْفُوْظٌ‘‘ ہو سکتی ہے۔ ’’ لَھُمْ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے اور ’’ عِنْدَ رَبِّھِمْ‘‘ متعلق خبر ہے۔’’ لاَ خَوْفٌ‘‘ مبتدأ نکرہ ہے‘ کیونکہ قاعدہ بیان ہو رہا ہے‘ اس کی بھی خبر محذوف ہے اور ’’ عَلَیْھِمْ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ ’’ ھُمْ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ یَحْزَنُوْنَ‘‘ جملہ فعلیہ بن کر اس کی خبر ہے۔

نوٹ (1) : خوف کا تعلق مستقبل کے اندیشوں سے ہے کہ انسان کو ہر وقت دھڑکا لگا رہے کہ کہیں یہ نہ ہو جائے کہیں وہ نہ ہو جائے۔ حزن کا تعلق ماضی کے پچھتاووں سے ہے کہ کاش میں نے یہ نہ کیا ہوتا! کاش ایسا نہ ہوتا!۔ ایک انسان اگر ان دو کیفیتوں سے محفوظ و مأمون ہو جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے جو بےغرض انفاق کے اصل اجر کے علاوہ ہے۔ اسی لیے فرما دیا کہ ان کا اجر تو ان کے رب کے پاس محفوظ ہے اور یہ دنیا میں ان کا انعام ہے۔

 یہ داخلی کیفیت اصلاً تو جنتی لوگوں کا خاصہ ہے ‘ لیکن بےغرض انفاق کرنے والوں کو کسی درجہ میں یہ انعام اس دنیا میں بھی ملتا ہے۔ امام ابن تیمیہ (رح) کا غالباً یہی مطلب تھا جب انہوں نے فرمایا کہ میری جنت میرے سینے میں ہے۔ برٹرنڈرسل نے بھی اپنی کتاب

’’ Conquest of Happiness‘‘ میں اپنے غور و فکر کا نچوڑ اِن الفاظ میں بیان کیا کہ ’’Happiness is a state of mind‘‘۔

 اس دنیا میں جنت حاصل کرنے کے لیے بےغرض انفاق کی ایک صفت اس آیت میں بیان ہوئی ہے کہ نہ صرف احسان نہیں جتاتے بلکہ یہ احتیاط بھی کرتے ہیں کہ ان کے طرزِ عمل سے دوسرے کو کوئی جذباتی ٹھیس بھی نہ پہنچے۔ ایک اور صفت سورۃ الدہر کی آیات 8‘9 میں بیان ہوئی ہے کہ وہ لوگ جب کسی مسکین‘ یتیم یا قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں تو کسی بدلے کی امید تو کیا‘ وہ شکریے کی بھی امید نہیں رکھتے ؎

یہ بزمِ مے ہے‘ یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں ‘ مینا اسی کا ہے قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ يَّتْبَعُهَآ اَذًى ۭ وَاللّٰهُ غَنِىٌّ حَلِيْمٌ    ٢٦٣؁
[قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ : ایک بھلی بات] [وَّمَغْفِرَۃٌ : اور درگزر] [خَیْرٌ : زیادہ بہتر ہے ] [مِّنْ صَدَقَۃٍ : ایسے صدقے سے] [یَّتْبَعُہَآ : پیچھے پیچھے آتا ہے جس کے ] [اَذًی : ستانا] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [غَنِیٌّ : بےنیاز ہے] [حَلِیْمٌ : بردبار ہے]

 

غ ن ی

 غَنِیَ (س) غَنِیً : (1) کسی قسم کی کوئی ضرورت لاحق نہ ہونا‘ ضروریات سے بےنیاز ہونا (یہ مفہوم صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے) ۔ (2) ضروریات پوری کرنے کے ذرائع میسر ہونا‘ مالدار ہونا‘ بےفکر و بےپرواہ ہونا (یہ مفہوم غیر اللہ کے لیے ہے) ۔

 مَغْنًی : اپنا وجود قائم رکھنا‘ یعنی زندہ رہنا‘ کسی جگہ رہنا۔ {کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَاط} (ھود:68) ’’ جیسے کہ وہ لوگ رہتے ہی نہیں تھے اس میں۔‘‘

 غَنِیٌّ ج اَغْنِیَائُ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : بےنیاز‘ مالدار۔ {اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَکَ وَھُمْ اَغْنِیَآئُج} (التوبۃ:93) ’’ الزام تو بس ان لوگوں پر ہے جنہوں نے رخصت مانگی آپؐ سے اس حال میں کہ وہ لوگ مالدار تھے۔‘‘

 اَغْنٰی (افعال) اِغْنَائً : (1) کسی کی کوئی ضرورت پوری کرنا یا تکلیف دور کرنا‘ یعنی کام آنا۔ (2) مالدار کرنا۔ (3) بےفکر و بےپرواہ کرنا۔ {مَا اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ ۔ } (اللّھب) ’’ کام نہیں آیا اس کے اس کا مال اور جو اس نے کمایا۔‘‘{وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی ۔ } (الضُّحٰی) ’’ اور اس نے پایا آپؐ ‘ کو تنگ دست تو اس نے مالدار کیا۔‘‘{لاَ یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ ۔ } (الغاشیۃ) ’’ وہ موٹا نہیں کرتا ہے اور نہ بےفکر کرتا ہے بھوک سے۔‘‘

 مُغْنٍ (اسم الفاعل) : کام آنے والا‘ بےپرواہ کرنے والا۔ {فَھَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍط} (ابرٰھیم:21) ’’ تو کیا تم لوگ دور کرنے والے ہو ہم سے اللہ کے عذاب سے کچھ بھی؟‘‘

 اِسْتَغْنٰی (استفعال) اِسْتِغْنَائً : (1) بےنیازی اختیار کرنا۔ (2) بےفکر و بےپرواہ سمجھنا۔ {فَـکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُط} (التغابن:6) ’’ تو انہوں نے انکار کیا اور منہ موڑا اور بےنیاز ہوا اللہ۔‘‘{وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی ۔ } (اللیل) ’’ اور وہ جس نے بخل کیا اور بےپروا ہوا۔‘‘

 ترکیب : مرکب توصیفی ’’ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ‘‘ اور مفرد ’’ مَغْفِرَۃٌ‘‘ یہ دونوں مبتدأ نکرہ ہیں اور ’’ خَیْرٌ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ خَیْرٌ‘‘ افعل التفضیل ہے اور ’’ مِنْ‘‘ کے ساتھ آیا ہے اس لیے یہ واحد ہی رہے گا۔ ’’ صَدَقَۃٍ‘‘ نکرہ موصوفہ ہے۔’’ یَتْبَعُ‘‘ کا فاعل ’’ اَذًی‘‘ ہے اس لیے یہاں پر یہ محلاً مرفوع ہے۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا  ۭ لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ   ٢٦٤؁
[ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو! جو ] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [لاَ تُبْطِلُوْا : تم لوگ باطل مت کرو] [صَدَقٰـتِکُمْ : اپنے صدقات کو] [ بِالْمَنِّ : احسان جتانے سے ] [وَالْاَذٰی : اور ستانے سے ] [کَالَّذِیْ : اس کی مانند جو ] [یُنْفِقُ : خرچ کرتا ہے ] [مَالَہٗ : اپنے مال کو ] [رِئَــآئَ النَّاسِ: لوگوں کو دکھاتے ہوئے] [وَ : اس حال میں کہ ] [لَا یُؤْمِنُ : وہ ایمان نہیں لاتا ] [بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخری دن (آخرت) پر ] [فَمَثَلُہٗ : تو اس کی مثال ] [کَمَثَلِ صَفْوَانٍ : ایک ایسے صاف پتھر کی مثال کی مانند ہے ] [عَلَیْہِ : جس پر ] [تُرَابٌ : کچھ مٹی ہے ] [فَاَصَابَہٗ : پھر آ لگی اس کو ] [وَابِلٌ : ایک موٹی بوندوں والی بارش] [فَتَرَکَہٗ : تو اس نے چھوڑا اس کو ] [صَلْدًا : چمکتا ہوا ] [لاَ یَقْدِرُوْنَ : وہ لوگ قابو نہیں پاتے] [عَلٰی شَیْئٍ : کسی چیز پر ] [مِّمَّا : اس میں سے جو ] [کَسَبُوْا : انہوں نے کمایا] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [لاَ یَہْدِی : ہدایت نہیں دیتا ] [الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ : ناشکری کرنے والے لوگوں کو]

 

ت رب

 تَرِبَ (س) تَرَبًا : کسی چیز کو مٹی لگنا‘ خاک آلود ہونا۔

 مَتْرَبَۃً : محتاج ہونا۔

 مَتْرَبَۃٌ (اسم ذات بھی ہے) : محتاجی۔ {اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ ۔ } (البلد) ’’ یا کسی مسکین محتاجی والے کو۔‘‘

 تُرَابٌ (اسم ذات) : مٹی۔ آیت زیر مطالعہ۔

 تَرِیْـبَۃٌ ج تَرَائِبُ : سینے کی پسلی۔ {یَخْرُجُ مِنْم بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ ۔ } (الطارق) ’’ وہ نکلتا ہے پیٹھ اور پسلیوں کے درمیان سے۔‘‘

 تِرْبٌ ج اَتْرَابٌ : ایک مٹی میں کھیلے ہوئے‘ ہم عمر۔ {وَکَوَاعِبَ اَتْرَابًا ۔ } (النبأ) ’’ اور ہم عمر عورتیں۔‘‘

و ب ل

 وَبُلَ (ک) وَبَلًا : کسی چیز کا سخت ہونا‘ نقصان دہ ہونا۔

 وَابِلٌ : بڑے بڑے اور وزنی قطروں والی بارش ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 وَبَالٌ : نقصان‘ برا انجام‘ سزا۔ {لِیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ ط} (المائدۃ:95) ’’ تاکہ وہ چکھے سزا اپنے کام کی۔‘‘

 وَبِیْلٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : سخت‘ نقصان دہ‘ مُضر۔{فَاَخَذْنٰـہُ اَخْذًا وَّبِیْلًا ۔ } (المزّمّل) ’’ تو ہم نے پکڑا اس کو ایک سخت پکڑ میں۔‘‘

ص ل د

 صَلَدَ (ض) صَلْدًا : گنجے سر کا چمکنا‘ پتھر کا چکنا اور چمکدار ہونا۔

 صَلْدٌ (اسم ذات بھی ہے) : چکنا اور چمکدار پتھر۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ یُنْفِقُ‘‘ کا مفعول ’’ مَالَہٗ‘‘ ہے جبکہ ’’ رِئَائَ النَّاسِ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ وَلَا یُؤْمِنُ‘‘ کا ’’ وائو‘‘ حالیہ ہے۔ ’’ صَفْوَانٍ‘‘ نکرہ موصوفہ ہے۔ ’’ تُرَابٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے۔ اس کی خبر ’’ مَوْجُوْدٌ‘‘ محذوف ہے اور ’’ عَلَیْہِ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ اس کی ضمیر ’’ صَفْوَانٍ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ فَاَصَابَہٗ‘‘ کی ضمیر مفعولی بھی ’’ صَفْوَانٍ‘‘ کے لیے ہے اور اس کا فاعل ’’ وَابِلٌ‘‘ ہے۔ ’’ صَلْدًا‘‘ حال ہے۔ وَمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَتَثْبِيْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۢ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰ تَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ ۚ فَاِنْ لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ  ٢٦٥؁
[وَمَثَلُ الَّذِیْنَ : اور ان لوگوں کی مثال جو] [یُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں ] [اَمْوَالَہُمُ : اپنے مالوں کو ] [ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ : اللہ کی رضا کی جستجو کرتے ہوئے ] [وَتَثْبِیْتًا : اور جماتے ہوئے ] [مِّنْ اَنْفُسِہِمْ : اپنے آپ کو ] [کَمَثَلِ جَنَّۃٍم : ایک ایسے باغ کی مثال کی مانند ہے جو ] [بِرَبْوَۃٍ : ایک ٹیلے پر ہے ] [اَصَابَہَا : آ لگی اس کو ] [وَابِلٌ: ایک موٹے ] [قطروں والی بارش] [فَاٰتـَتْ : تو اس نے دیا ] [اُکُلَہَا : اپنا پھل ] [ضِعْفَیْنِ : دوگنا ] [فَاِنْ لَّـمْ یُصِبْہَا : پھر اگر نہیں لگی اس کو] [وَابِلٌ : کوئی موٹے قطروں والی بارش] [فَطَلٌّ : تو (آ لگی اس کو) ایک پھوار] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [بِمَا : اس کو جو ] [تَعْمَلُوْنَ : تم لوگ کرتے ہو] [بَصِیْرٌ : دیکھنے والا ہے ]

 

ر ب و

 رَبَا (ن) رِبَائً : کسی چیز کا اپنی جگہ سے بلند ہونا‘ اُگنا‘ بڑھنا‘ اُبھرنا۔{وَتَرَی الْاَرْضَ ھَامِدَۃً فَاِذَا اَنْزَلْنَا عَلَیْھَا الْمَآئَ اھْتَزَّتْ وَرَبَتْ} (الحج:5) ’’ اور تو دیکھتا ہے زمین کو مرجھائی ہوئی ‘ پھر جب بھی ہم اتارتے ہیں اس پر پانی کو تو وہ لہلہاتی ہے اور اُبھرتی ہے۔‘‘

 اَرْبٰی (افعل التفضیل) : زیادہ اُگنے یا بڑھنے والا۔ {تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلًام بَیْنَکُمْ اَنْ تَـکُوْنَ اُمَّۃٌ ھِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍط} (النحل:92) ’’ تم لوگ بناتے ہو اپنی قسموں کو دخل دینے (کے بہانے) کے لیے آپس میں ‘ تاکہ ہو جائے ایک قوم زیادہ بڑھنے والی دوسری قوم سے۔‘‘

 رَابٍ (فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل) : اُبھرنے والا‘ چڑھنے والا۔ {فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًاط} (الرعد:17) ’’ تو اٹھایا بہتے پانی نے ابھرنے والا کچھ جھاگ۔‘‘

 رِبٰوا (اسم ذات) : بڑھی ہوئی یا اُبھری ہوئی چیز۔ اصطلاحاً سود کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ {یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِط} (البقرۃ:276) ’’ مٹاتا ہے اللہ سود کو اور بڑھاتا ہے صدقات کو۔‘‘

 رَبْوَۃٌ (اسم ذات) : بلند جگہ‘ ٹیلہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَرْبٰی (افعال) اِرْبَائً : بلند کرنا‘ بڑھانا۔ {یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِط} (البقرۃ:276) ’’ مٹاتا ہے اللہ سود کو اور بڑھاتا ہے صدقات کو۔‘‘

 رَبّٰی (تفعیل) تَرْبِیَۃً : بتدریج بلند کرتے رہنا‘ بڑھاتے رہنا ‘ یعنی تربیت کرنا۔ {رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّـیٰنِیْ صَغِیْرًا ۔ } (الاسرائ) ’’ اے میرے ربّ! تو رحم کر ان دونوں پر جیسا کہ ان دونوں نے تربیت کی میری بچپن میں۔‘‘

ط ل ل

 طَلَّ (ن) طَلًّا : شبنم پڑنا‘ پھوارپڑنا۔

 طَلٌّ (اسم ذات) : شبنم‘ پھوار۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ یُنْفِقُوْنَ‘‘ کا مفعول’’ اَمْوَالَھُمْ‘‘ ہے جبکہ مرکب اضافی’’ اِبْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ مَرْضَاتِ‘‘ کو لمبی ’’ تا ‘‘ سے لکھنا قرآن کا مخصوص املاء ہے۔ ’’ تَثْبِیْتًا‘‘ بھی حال ہے۔ ’’ جَنَّۃٍ‘‘ نکرہ مخصوصہ ہے۔ ’’ اَصَابَھَا‘‘ کا فاعل ’’ وَابِلٌ‘‘ ہے اور اس کی ضمیر مفعولی ’’ جَنَّـۃٍ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ فَاٰ تَتْ‘‘ کی ضمیر فاعلی ’’ ھِیَ‘‘ بھی’’ جَنَّــۃٍ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ ضِعْفَیْنِ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ فَطَلٌّ‘‘ فعل محذوف کا فاعل ہے ‘ یعنی ’’ فَاَصَابَھَا طَلٌّ‘‘۔ اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَهٗ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۙ لَهٗ فِيْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ وَاَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهٗ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاۗءُ ښ فَاَصَابَهَآ اِعْصَارٌفِيْهِ نَارٌفَاحْتَرَقَتْ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ   ٢٦٦؁ۧ
[اَیَوَدُّ : کیا چاہتا ہے ] [اَحَدُکُمْ : تم میں کا (کوئی) ایک ] [اَنْ : کہ ] [تَـکُوْنَ : ہو ] [لَـہٗ : اس کے لیے ] [جَنَّــۃٌ : ایک باغ ] [مِّنْ نَّخِیْلٍ : کچھ کھجوروں سے ] [وَّاَعْنَابٍ : اور کچھ انگوروں سے ] [تَجْرِیْ : بہتی ہوں ] [مِنْ تَحْتِہَا : ان کے نیچے سے ] [الْاَنْہٰرُ : نہریں ] [ لَـہٗ : اس کے لیے ہو ] [فِیْہَا : اس میں ] [مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ : تمام پھلوں میں سے (ایک حصہ) ] [وَاَصَابَہُ : اور آلگے اس کو ] [الْـکِبَرُ : بڑھاپا ] [وَ: اس حال میں کہ ] [لَـہٗ : اس کی ہوں ] [ذُرِّیَّـۃٌ ضُعَفَآئُ : کچھ کمزور اولادیں] [فَاَصَابَہَآ : پھر آ لگے اس کو ] [اِعْصَارٌ : ایک بگولہ ] [فِیْہِ : جس میں ہو ] [نَارٌ : ایک آگ ] [فَاحْتَرَقَتْ : پس وہ بھسم ہو ] [کَذٰلِکَ : اس طرح ] [یُـبَـیِّنُ : واضح کرتا ہے ] [اللّٰہُ : اللہ ] [لَـکُمُ : تم لوگوں کے لیے ] [الْاٰیٰتِ : نشانیوں کو ] [لَـعَلَّـکُمْ : شاید کہ ] [تَتَفَکَّرُوْنَ : تم لوگ سوچ وبچار کرو]

 

ن خ ل

 نَخَلَ (ن) نَخْلًا : آٹا چھان کر بھوسی الگ کرنا‘ اچھی چیز پسند کرنا۔

 نَخْلٌ (اسم جنس) : واحد ’’ نَخْلَۃٌ‘‘ جمع ’’ نَخِیْلٌ‘‘: کھجور کا درخت۔ {فِیْھِمَا فَاکِھَۃٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ ۔ } (الرحمٰن) ’’ ان دونوں میں ہیں کچھ میوے اور کچھ کھجور اور کچھ انار۔‘‘ {ھُزِّیْ اِلَـیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ} (مریم:25) ’’ تو ہلا اپنی طرف کھجور کے تنے کو!‘‘

ع ص ر

 عَصَرَ (ض) عَصْرًا : کسی چیز کا رَس نچوڑنا‘ نچوڑنے کے لیے کسی چیز کو گھمانا‘ گردش دینا۔ {وَفِیْہِ یَعْصِرُوْنَ ۔ } (یوسف) ’’ اور اس میں وہ لوگ رس نچوڑیں گے۔‘‘

 عَصْرٌ (اسم ذات) : زمانہ (کیونکہ یہ زمین کی گردش کا نچوڑ ہے) {وَالْعَصْرِ A

 اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ۔ } (العصر) ’’ زمانے کی قسم ! بے شک تمام انسان خسارے

میں ہیں۔‘‘

 اِعْصَارٌ (اسم ذات) : بگولہ‘ سائکلون۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَعْصَرَ (افعال) اِعْصَارًا : بارش برسانا۔

 مُعْصِرٌ (اسم الفاعل) : بارش برسانے والا ‘ یعنی بادل۔ {وَاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَائً ثَجَّاجًا ۔ } (النبا) ’’ اور ہم نے اتارا بدلیوں سے کچھ پانی موسلا دھار۔‘‘

ح ر ق

 حَرَقَ (ن) حَرْقًا : کسی چیز کو جلانا۔

 حَرِیْقٌ : ہمیشہ اور ہر حال میں جلانے والا‘ آگ کا شعلہ۔ {ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ۔ } (آل عمران) ’’ تم لوگ چکھو شعلے کا عذاب۔‘‘

 حَرَّقَ (تفعیل) تَحْرِیْقًا : کثرت سے جلانا‘ جلا کر بھسم کر دینا۔ {لَـنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّہٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا ۔ } (طٰہٰ) ’’ ہم لازماً جلا کر بھسم کریں گے اس کو پھر ہم لازماً بکھیریں گے اس کو پانی میں جیسے بکھیرتے ہیں۔‘‘

 حَرِّقْ(فعل امر) : توجلا کر بھسم کر۔ {قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا اٰلِھَتَـکُمْ} (الانبیائ:68) ’’ ان لوگوں نے کہا تم لوگ جلا کر بھسم کرو اس کو اور تم لوگ مدد کرو اپنے معبودوں کی ۔‘‘

 اِحْتَرَقَ (افتعال) اِحْتِرَاقًا : اہتمام سے جلنا‘ جل کر بھسم ہونا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ یَوَدُّ‘‘ کا فاعل ’’ اَحَدُکُمْ‘‘ ہے۔ ’’ اَنْ تَـکُوْنَ‘‘ کا اسم’’ جَنَّـۃٌ‘‘ ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ لَـہٗ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ تَجْرِیْ‘‘ کا فاعل ’’ اَلْاَنْـھٰرُ‘‘ ہے‘ یہ غیر عاقل کی جمع مکسر ہے اس لیے فعل واحد مؤنث آیا ہے۔ ’’ لَـہٗ‘‘ خبر محذوف کی قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ فِیْھَا‘‘ اور ’’ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ‘‘ متعلق خبر ہیں اور مبتدأ بھی محذوف ہے جو ’’ نَصِیْبٌ‘‘ ہو سکتا ہے۔ ’’ وَاَصَابَہٗ‘‘ کی ضمیر مفعولی ’’ اَحَدُکُمْ‘‘ کے لیے ہے اور ’’ اَلْکِبَرُ‘‘ اس کا فاعل ہے۔ مرکب توصیفی ’’ ذُرِّیَۃٌ ضُعَفَائُ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے‘ خبر محذوف ہے اور ’’ لَـہٗ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ ذُرِّیَّــۃٌ‘‘ یہاں جمع کے مفہوم میں آیا ہے۔ ’’ فَاحْتَرَقَتْ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ جَنَّـۃٌ‘‘ کے لیے ہے۔

نوٹ (1) : سائکلون میں ہوا کی گردش سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے اسے اس آیت میں آگ کہا گیا ہے‘ کیونکہ وہ بجلی جب کسی چیز پر گرتی ہے تو اسے جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۠ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْهِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِيْهِ ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيْدٌ   ٢٦٧؁
[یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو! جو ] [اٰمَنُوْآ : ایمان لائے ] [اَنْفِقُوْا : تم لوگ خرچ کرو ] [مِنْ طَیِّبٰتِ مَا: اس کے پاکیزہ میں سے جو] [کَسَبْتُمْ : تم لوگوں نے کمایا] [وَمِمَّآ : اور اس میں سے جو ] [اَخْرَجْنَا : ہم نے نکالا ] [لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے ] [وَلاَ تَـیَمَّمُوا : اور تم لوگ ارادہ مت کرو] [الْخَبِیْثَ : ناکارہ کا ] [مِنْہُ : اس میں سے (جس سے ) ] [تُنْفِقُوْنَ : تم لوگ خرچ کرتے ہو] [وَلَسْتُمْ : حالانکہ تم لوگ نہیں ہو] [بِاٰخِذِیْہِ : اس کو پکڑنے والے ] [اِلَّآ اَنْ : مگر یہ کہ ] [تُغْمِضُوْا : تم چشم پوشی کرتے ہو] [فِیْہِ : اس سے ] [وَاعْلَمُوْآ : اور جان لو ] [اَنَّ : کہ ] [اللّٰہَ : اللہ ] [غَنِیٌّ : بےنیاز ہے ] [حَمِیْدٌ : حمد کیا ہوا ہے ]

 

ی م م

 یَمَّ (ن) یَمًّا : کسی چیز کو پانی میں ڈالنا۔

 یَمٌّ (اسم ذات) : پانی۔ {فَاَغْرَقْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ} (الاعراف:136) ’’ تو ہم نے ڈبویا ان کو پانی میں۔‘‘

 تَـیَمَّمَ (تفعّل) تَـیَمُّمًا : کسی چیز کا قصد کرنا‘ ارادہ کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

خ ب ث

 خَبُثَ (ک) خَبَاثَـۃً : گندا اور ناپاک ہونا‘ ناکارہ اور ردّی ہونا۔ {وَالَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلاَّ نَـکِدًاط} (الاعراف:58) ’’ اور جو ناکارہ ہوا اس سے نہیں نکلتا مگر مشکل سے۔‘‘

 خَبِیْثٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : گندا‘ ناکارہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

غ م ض

 غَمَضَ (ن) غَمُوْضًا : نیند کا جھونکا آنا۔

 اَغْمَضَ (افعال) اِغْمَاضًا : آنکھ بند کرنا‘ چشم پوشی کرنا‘ غفلت برتنا۔ آیت زیرِمطالعہ۔

 ترکیب : ’’ طَیِّبٰتِ‘‘ مضاف ہے اور ’’ مَا‘‘ اس کا مضاف الیہ ہے۔ ’’ لَـسْتُمْ‘‘ کا اسم اس میں شامل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ بِاٰخِذِیْہِ‘‘ اس کی خبر ہے۔ یہ ’’ بِاٰخِذِیْنَ‘‘ تھا‘ مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا ہوا ہے۔ اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ ۚ وَاللّٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا  ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ    ٢٦٨؁ڦ
[اَلشَّیْطٰنُ : شیطان ] [یَعِدُ : وعدہ دیتا ہے ] [کُمُ : تم لوگوں کو ] [الْفَقْرَ : مفلسی کا ] [وَیَاْمُرُ : اور ترغیب دیتا ہے ] [کُمْ : تم لوگوں کو ] [بِالْفَحْشَآئِ : اعلانیہ بےحیائی کی ] [وَاللّٰـہُ : اور اللہ ] [یَعِدُ: وعدہ کرتا ہے ] [کُمْ : تم لوگوں سے ] [مَّغْفِرَۃً : مغفرت کا] [مِّنْہُ : اس سے (یعنی اپنی) ] [وَفَضْلاً : اور (اپنے ) فضل کا ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [وَاسِعٌ : وسعت والا ہے ] [عَلِیْمٌ: جاننے والا ہے ]

 

ف ق ر

 فَقَرَ (ن) فَقْرًا : کھودنا‘ توڑنا۔

 فَاقِرٌ (اسم الفاعل) : توڑنے والا۔ {تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِھَا فَاقِرَۃٌ ۔ } (القیٰمۃ) ’’ وہ گمان کریں گے کہ کیا جائے گا ان سے توڑنے والا کام۔‘‘

 فَقُرَ (ک) فَقْرًا : محتاج ہونا‘ مفلس ہونا۔

 فَقْرٌ (اسم ذات) : محتاجی‘ مفلسی۔ آیت زیر مطالعہ۔

 فَقِیْرٌ ج فُقَرَائُ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : محتاج‘ مفلس۔{وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِط} (النسائ:6) ’’ اور جو ہو محتاج تو اسے چاہیے کہ وہ کھائے دستور کے مطابق۔‘‘ {یٰـاَیـُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَائُ اِلَی اللّٰہِج} (فاطر:15) ’’ اے لوگو! تم لوگ محتاج ہواللہ کے۔‘‘

 ترکیب : ’’ یَعِدُ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَلشَّیْطٰنُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ کُمْ‘‘ کی ضمیر اس کا مفعول اوّل ہے اور ’’ اَلْفَقْرَ‘‘ مفعول ثانی ہے۔ اس کے آگے ’’ یَعِدُ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے۔ ’’ کُمْ‘‘ مفعولِ اوّل ہے ‘ جبکہ ’’ مَغْفِرَۃً‘‘ اور ’’ فَضْلاً‘‘ دونوں مفعولِ ثانی ہیں۔ يُّؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا ۭوَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ    ٢٦٩؁
[یُّؤْتِی : وہ دیتا ہے ] [الْحِکْمَۃَ : دانائی ] [مَنْ : اس کو جس کو ] [یَّشَآئُ : وہ چاہتاہے ] [وَمَنْ : اور جس کو ] [یُّؤْتَ : دی جاتی ہے ] [الْحِکْمَۃَ : دانائی ] [فَقَدْ اُوْتِیَ : تو اس کو دی گئی ہے ] [خَیْرًا کَثِیْرًا : ایک کثیر بھلائی ] [وَمَا یَذَّکَّرُ: اور نصیحت نہیں حاصل کرتے] [اِلَّآ : مگر ] [اُولُوا الْاَلْبَابِ : سوجھ بوجھ والے لوگ]

 

ترکیب : ’’ یُـؤْتِیْ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے۔ ’’ اَلْحِکْمَۃَ‘‘ اس کا مفعول اوّل ہے اور ’’ مَنْ‘‘ مفعول ثانی ہے۔ اس کے آگے ’’ وَمَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا‘‘ جواب شرط ہے۔ شرط ہونے کی وجہ سے مضارع مجہول ’’ یُوْتٰی‘‘ مجزوم ہوا تو’’ یا ‘‘ گر گئی اور ’’ یُوْتَ‘‘ باقی بچا۔ اس کا نائب فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے‘ جبکہ ’’ اَلْحِکْمَۃَ‘‘ مفعول ثانی کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ اُوْتِیَ‘‘ ماضی مجہول ہے اور جواب شرط ہونے کی وجہ سے محلاً مجزوم ہے۔ اس کا نائب فاعل بھی اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے ‘ جبکہ ’’ خَیْرًا کَثِیْرًا‘‘ مفعول ثانی ہے۔ وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُهٗ  ۭ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ٢٧٠؁
[وَمَآ : اور جو ] [اَنْفَقْتُمْ : تم لوگ خرچ کرتے ہو] [مِّنْ نَّـفَقَۃٍ : کسی قسم کا خرچہ ] [اَوْ نَذَرْتُمْ : یا منت مانتے ہو ] [مِّنْ نَّذْرٍ : کسی قسم کی منت ] [فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [یَعْلَمُہٗ : جانتا ہے اس کو ] [وَمَا : اور نہیں ہیں ] [لِلظّٰلِمِیْنَ : ظلم کرنے والوں کے لیے ] [مِنْ اَنصَارٍ: کسی قسم کے مددگار ]

 

ترکیب : ’’ وَمَا اَنْفَقْتُمْ‘‘ میں ’’ مَا‘‘ موصولہ ‘ شرطیہ ہے۔ ’’ اَنْفَقْتُمْ‘‘ سے ’’ مِنْ نَذْرٍ‘‘ تک شرط ہے۔ اس میں افعالِ ماضی استعمال ہوئے ہیں‘ اس لیے ان پر مجزوم ہونے کا عمل ظاہر نہیں ہوا اور وہ محلاً مجزوم ہیں۔ ’’ فَاِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُہٗ‘‘ پورا جملہ جوابِ شرط ہے اور یہ پورا جملہ محلاً مجزوم ہے ‘ اس لیے اس میں استعمال ہونے والا فعل مضارع ’’ یَعْلَمُ‘‘ مجزوم نہیں ہوا۔ اگر جوابِ شرط میں فعل مضارع آتا تب وہ مجزوم ہوتا۔ اس وقت جملہ اس طرح ہوتا ’’ فَـیَعْلَمْہُ اللّٰہُ‘‘۔ ’’ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ ‘‘ میں ’’ مَا‘‘ نافیہ ہے۔ اس کا اسم ’’ مِنْ اَنْصَارٍ‘‘ ہے جو مبتدأ مؤخر نکرہ کے طور پر آیا ہے اور ’’ لِلظّٰلِمِیْنَ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔

 نوٹ (1) : احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں منت ماننے کو مستحسن نہیں قرار دیا گیا ہے۔ لیکن کوئی شخص اگر منت مان بیٹھے اور اس میں کسی شرعی قباحت کا کوئی پہلو نہ ہو تو اس کو پورا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ (تدبر قرآن)

 ہر انفاق اور منت کا عمل بھی اللہ کے علم میں ہوتا ہے اور ان کے پیچھے پوشیدہ جذبے اور نیت کو بھی اللہ جانتا ہے۔ یہ اعمال اگر صرف اللہ تعالیٰ کے لیے نہ ہوں‘ بلکہ جذبے اور نیت میں کوئی فتور ہو‘ تو پھر ایسے عمل کرنے والوں کو یہاں ظالم کہا گیا ہے۔ اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ  ۚ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۭ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ   ٢٧١؁
[ اِنْ : اگر ] [تُبْدُوا : تم لوگ ظاہر کرو] [الصَّدَقٰتِ : صدقات کو ] [فَنِعِمَّا : تو کیا ہی اچھا ہے ] [ہِیَ : وہ ] [وَاِنْ : اور اگر ] [تُخْفُوْہَا : تم لوگ چھپائو اس کو ] [وَتُؤْتُوْہَا : اور پہنچائو اسے ] [الْفُقَرَآئَ : حاجت مندوں کو ] [فَہُوَ : تو وہ (بھی) ] [خَیْرٌ : بہتر ہے ] [لَّــکُمْ : تم لوگوں کے لیے ] [وَیُکَفِّرُ : اور وہ دور کرے گا ] [عَنْکُمْ : تم سے ] [مِّنْ سَیِّاٰتِکُمْ: تمہاری برائیوں کو] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [بِمَا : اس سے جو ] [تَعْمَلُوْنَ : تم لوگ کرتے ہو] [خَبِیْرٌ : آگاہ ہے ]

 

خ ف ی

 خَفِیَ (س) خُفْیَۃً : پوشیدہ ہونا‘ چھپا ہوا ہونا۔{وَمَا یَخْفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ} (ابرٰھیم:38) ’’ اور پوشیدہ نہیں ہوتی اللہ پر (یعنی اللہ سے) کوئی بھی چیز۔‘‘

 خَافٍ (اسم الفاعل) : پوشیدہ ہونے والا ۔ {لَا تَخْفٰی مِنْکُمْ خَافِیَـۃٌ ۔ } (الحاقّۃ) ’’ پوشیدہ نہیں ہوگی تم سے کوئی پوشیدہ ہونے والی (جان) ۔‘‘

 اَخْفٰی (افعل التفضیل) : زیادہ پوشیدہ۔ {فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی ۔ } (طٰہٰ) ’’ تو وہ جانتا ہے بھید کو اور زیادہ پوشیدہ کو۔‘‘

 خَفِیٌّ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : پوشیدہ۔ {اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَائً خَفِیًّا ۔ } (مریم) ’’ اور جب اس نے پکارا اپنے رب کو ایک پوشیدہ پکار سے۔‘‘

 اَخْفٰی (افعال) اِخْفَائً : پوشیدہ کرنا‘ چھپانا۔ {وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَا اَخْفَیْتُمْ وَمَا اَعْلَنْتُمْط} (المُمتحنۃ:1) ’’ اور مَیں جانتا ہوں اس کو جو تم لوگ چھپاتے ہو اور اس کو جو تم لوگ اعلان کرتے ہو۔‘‘

 اِسْتَخْفٰی (استفعال) اِسْتِخْفَائً : پوشیدگی چاہنا‘ یعنی چھپنا۔{یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ} (النسائ:108) ’’ وہ لوگ چھپتے ہیں انسانوں سے اور نہیں چھپتے اللہ سے۔‘‘

 مُسْتَخْفٍ (اسم الفاعل) : چھپنے والا۔ {وَمَنْ ھُوَ مُسْتَخْفٍم بِالَّـیْلِ} (الرعد:10) ’’ اور وہ جو چھپنے والا ہے رات میں۔‘‘

 ترکیب : ’’ تُؤْتُوْا‘‘ کا مفعول اوّل ’’ ھَا‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَلصَّدَقٰتِ‘‘ کے لیے ہے اور ’’ اَلْفُقَرَائَ‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ یُکَفِّرُ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس کو ’’ اَلصَّدَقٰتِ‘‘ کے لیے ماننا ممکن نہیں ہے ‘ کیونکہ ایسی صورت میں فعل ’’ تُکَفِّرُ‘‘ آتا ہے۔

نوٹ (1) : فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ کو اعلانیہ دینا افضل ہے۔ اس کے علاوہ جو صدقات و خیرات ہیں ان کو چھپانا زیادہ بہتر ہے۔ یہی اصول تمام اعمال کے لیے ہے کہ فرائض کو اعلانیہ انجام دینا فضیلت رکھتا ہے اور نوافل کو چھپا کر کرنا افضل ہے۔ (تفہیم القرآن) لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ ۭ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ اللّٰهِ  ۭوَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ   ٢٧٢؁
[لَـیْسَ : نہیں ہے (لازم)] [عَلَیْکَ : تجھ پر ] [ہُدٰٹہُمْ : ان کی ہدایت ] [وَلٰــکِنَّ : اور لیکن (یعنی بلکہ) ] [اللّٰہَ : اللہ ] [یَہْدِیْ : ہدایت دیتا ہے ] [مَنْ : اس کو جس کو ] [یَّشَآئُ : وہ چاہتاہے ] [وَمَا : اور جو بھی ] [تُنْفِقُوْا : تم لوگ خرچ کرتے ہو] [مِنْ خَیْرٍ : کسی قسم کی کوئی بھلائی ] [فَلِاَنْفُسِکُمْ : تو وہ تمہارے اپنے آپ کے لیے ہے ] [وَمَا تُنْفِقُوْنَ : اور تم لوگ خرچ نہیں کرتے] [اِلاَّ : مگر ] [ابْتِغَـآئَ وَجْہِ اللّٰہِ : اللہ کی خوشنودی کی جستجو کرتے ہوئے ] [وَمَا : اور جو بھی ] [تُنْفِقُوْا : تم لوگ خرچ کرتے ہو ] [مِنْ خَیْرٍ : کسی قسم کی کوئی بھلائی ] [یُّوَفَّ : تو پورا حق دیا جائے گا] [اِلَـیْکُمْ : تم لوگوں کی طرف ] [وَاَنْتُمْ : اور تم لوگوں پر ] [لاَ تُظْلَمُوْنَ : ظلم نہیں کیا جائے گا (یعنی حق تلفی نہیں ہو گی)

 

ترکیب : ’’ لَـیْسَ‘‘ کا اسم ’’ ہُدٰٹہُمْ‘‘ ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے جو کہ ’’ لِزَامًا‘‘ ہو سکتی ہے۔ ’’ عَلَیْکَ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ ’’ لٰـکِنَّ‘‘ کا اسم ’’ اللّٰہَ‘‘ ہے اس لیے منصوب ہے اور جملۂ فعلیہ ’’ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَائُ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ وَمَا تُنْفِقُوْا‘‘ کا ’’ مَا‘‘ شرطیہ ہے ‘ اس لیے ’’ تُنْفِقُوْا‘‘ کا نونِ اعرابی گرا ہواہے۔ ’’ فَلِاَنْفُسِکُمْ‘‘ جملہ اسمیہ جوابِ شرط ہے۔ اس کا مبتدأ ’’ ھُوَ‘‘ بھی محذوف ہے اور خبر بھی محذوف ہے جو ’’ وَاجِبٌ‘‘ یا ’’ ثَابِتٌ‘‘ ہو سکتی ہے۔ ’’ لِاَنْفُسِکُمْ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ ’’ وَمَا تُنْفِقُوْنَ‘‘ کا ’’ مَا‘‘ نافیہ ہے اس لیے ’’ تُنْفِقُوْنَ‘‘ کا نون نہیں گرا۔’’ اِبْتِغَائَ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ یُوَفَّ‘‘ دراصل باب تفعیل کا مضارع مجہول ’’ یُوَفّٰی‘‘ ہے‘ لیکن جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا تو ’’ ی‘‘ گر گئی۔

 نوٹ (1) : ابتدا میں مسلمانوں کا خیال تھا کہ صرف مسلمان حاجت مندوں کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اس آیت میں ان کی یہ غلط فہمی دور کی گئی ہے کہ لوگوں سے ہدایت قبول کرانا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ تم لوگوں تک ہدایت پہنچاکر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکے۔ اب کسی کی مدد کرنے میں اس وجہ سے تأمل نہ کرو کہ اس نے ہدایت قبول نہیں کی۔ اللہ کی رضا کے لیے جس انسان کی بھی مدد کرو گے اس کا اجر اللہ تمہیں دے گا۔ (تفہیم القرآن)

 یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ یہاں انفاق سے مراد نفلی انفاق ہے جسے ذمی کافر کو دینا بھی جائز ہے‘ لیکن حربی کافر کو کسی قسم کا انفاق کرنا جائز نہیں ہے۔ (معارف القرآن)

 نوٹ (2) : اس آیت میں لفظ ’’ خَیْرٌ‘‘ کاترجمہ عام طور پر ’’ مال‘‘ کیا گیا ہے‘ لیکن ’’ مِنْ‘‘ تبعیضیہ کی وجہ سے بہتر ہے کہ اسے عام رکھا جائے۔ اسی لیے ہم نے ’’ کسی قسم کی کوئی بھلائی‘‘ ترجمہ کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اس سے یہ راہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ اگر مال خرچ کرنے کی استطاعت نہیں ہے ‘ لیکن کسی انسان کی مدد کرنے کے لیے اگر تم اپنا علم‘ تجربہ اور مشورہ وغیرہ بروئے کار لاتے ہو یا صرف کسی کا دکھ ہی سن لیتے ہو تو یہ سب کچھ ’’ مِنْ خَیْرٍ‘‘ میں شامل ہے ‘ اور اگر یہ سب کچھ صرف اللہ کی رضا کی غرض سے کیا جائے تو یہ بھی انفاق فی سبیل اللہ ہے جس کا پورا پورا اجر ملے گا۔ تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ social fiber (یعنی معاشرتی بندھن) کو مضبوط کرنے میں مالی انفاق کی نسبت غیر مالی انفاق زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ اس غیر مالی انفاق میں اگر ذمی کافر کو شامل کیا جائے تو یہ اسلام کی زیادہ مؤثر تبلیغ بھی ہو گی۔ لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ ۡ يَحْسَبُھُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ  ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا  ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ   ٢٧٣؁ۧ
[لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ : یہ ایسے حاجت مندوں کے لیے ہے جو ] [اُحْصِرُوْا : روک دیے گئے ] [فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ : جو صلاحیت نہیں رکھتے] [ضَرْبًا : سفر کرنے کی ] [فِی الْاَرْضِ: زمین میں ] [یَحْسَبُہُمُ : گمان کرتے ہیں جن کو ] [الْجَاہِلُ : ناواقف لوگ ] [اَغْنِیَـآئَ : خوش حال ] [مِنَ التَّعَفُّفِ : خوددار ہونے کے سبب سے] [تَعْرِفُہُمْ : تو پہچانے گا جن کو ] [بِسِیْمٰہُمْ : ان کی علامت سے ] [لاَ یَسْئَلُوْنَ : وہ لوگ نہیں مانگتے ] [النَّاسَ : لوگوں سے ] [اِلْحَافًا: لپٹتے ہوئے ] [وَمَا : اور جو بھی ] [تُنْفِقُوْا : تم لوگ خرچ کرتے ہو ] [مِنْ خَیْرٍ : کسی قسم کی بھلائی ] [فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [بِہٖ عَلِیْمٌ: اس کو جاننے والا ہے ]

 

ع ف ف

 عَفَّ (ض) عِفَّۃً : ہر ناپسندیدہ بات اور کام سے محفوظ ہونا‘ پاک دامن ہونا۔

 تَعَفَّفَ (تفعّل) تَعَفُّفًا : ناپسندیدہ چیزوں سے خود کو روکنا‘ جھجکنا‘ خود دار ہونا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِسْتَعَفَّ (استفعال) اِسْتِعْفَافًا : ناپسندیدہ چیزوں سے بچائو چاہنا‘ بچنا‘ باز رہنا۔ {وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْط} (النسائ:6) ’’ اور جو غنی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ باز رہے۔‘‘

ل ح ف

 لَحَفَ (ف) لَحْفًا : کسی چیز کو کپڑے سے ڈھکنا۔

 اَلْحَفَ (افعال) اِلْحَافًا : کسی پر چھا جانا‘ لپٹنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب :’’ لِلْفُقَرَائِ‘‘ سے پہلے اس کا مبتدأ محذوف ہے جو کہ ’’ اَلْاِنْفَاق‘‘ یا ’’ تِلْکَ الصَّدَقٰتُ‘‘ ہو سکتا ہے۔ اس کی خبر بھی محذوف ہے۔ ’’ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ ضَرْبًا‘‘ مفعول ہے۔ ’’ یَحْسَبُ‘‘ کا فاعل ’’ اَلْجَاھِلُ‘‘ ہے اور اس پر لامِ جنس ہے۔ اس کا مفعول اول’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ کے لیے ہے اور ’’ اَغْنِیَائَ‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ مِنَ التَّعَفُّفِ‘‘ کا ’’ مِنْ‘‘ سببیہ ہے۔ ’’ اِلْحَافًا‘‘ حال ہے۔ اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ  ٢٧٤؁۩۩
[اَلَّذِیْنَ : جو لوگ ] [یُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں ] [اَمْوَالَہُمْ : اپنے مال ] [بِالَّـیْلِ : رات میں ] [وَالنَّہَارِ : اور دن میں ] [سِرًّا : چھپاتے ہوئے ] [وَّعَلاَنِیَۃً : اور ظاہر کرتے ہوئے ] [فَلَہُمْ : تو ان کے لیے ہے ] [اَجْرُہُمْ : ان کا اجر ] [عِنْدَ رَبِّہِمْ : ان کے رب کے پاس ] [وَلاَ خَوْفٌ : اور کوئی خوف نہیں ہے ] [عَلَیْہِمْ : ان پر ] [وَلاَ ہُمْ : اور نہ ہی وہ لوگ ] [یَحْزَنُوْنَ : پچھتاتے ہیں] اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ  ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا  ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا  ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ  ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ  ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ  ٢٧٥؁
[اَلَّذِیْنَ : جو لوگ ] [یَاْکُلُوْنَ : کھاتے ہیں ] [الرِّبٰوا : سود ] [لاَ یَقُوْمُوْنَ : وہ لوگ نہیں کھڑے ہوں گے] [اِلاَّ : مگر ] [کَمَا : اس طرح جیسے ] [یَـقُوْمُ الَّذِیْ : کھڑا ہوتا ہے وہ] [ یَتَخَبَّطُہُ : خبطی کر دیتا ہے جس کو] [الشَّیْطٰنُ : شیطان ] [مِنَ الْمَسِّ : چھو کر ] [ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ : یہ اس سبب سے کہ انہوں نے] [قَالُوْآ : کہا ] [اِنَّمَا : کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [الْبَیْعُ : خرید و فروخت کرنا ] [مِثْلُ الرِّبٰوا : سود کی مانند ہے ] [وَاَحَلَّ : حالانکہ حلال کیا ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [الْبَیْعَ : خرید و فروخت کرنے کو ] [وَحَرَّمَ : اور اس نے حرام کیا ] [الرِّبٰوا : سود کو ] [فَمَنْ جَآئَ‘ ہٗ : پس وہ ‘ آئی جس کے پاس] [مَوْعِظَۃٌ : کوئی نصیحت ] [مِّنْ رَّبِّہٖ : اس کے رب (کی طرف) سے] [فَانْتَہٰی : پھر وہ باز آیا ] [فَلَہٗ : تو اس کے لیے ہے ] [مَا : وہ جو ] [سَلَفَ : گزر گیا ] [وَاَمْرُہٗ : اور اس کا حکم (یعنی فیصلہ) ] [اِلَی اللّٰہِ : اللہ کی طرف ہے ] [وَمَنْ : اور وہ جس نے ] [عَادَ : دوبارہ کیا ] [فَاُولٰٓئِکَ : تو وہ لوگ ] [اَصْحٰبُ النَّارِ : آگے والے ہیں] [ہُمْ : وہ لوگ ] [فِیْہَا : اس میں ] [خٰلِدُوْنَ: ہمیشہ رہنے والے ہیں]

 

خ ب ط

 خَبَطَ (ض) خَبْطًا : کسی چیز کو روندنا‘ کچلنا۔

 تَخَبَّطَ (تفعّل) تَخَبُّطًا : کسی چیز کو روند کر غیر متوازن کر دینا‘ دیوانہ بنا دینا۔ آیت زیر مطالعہ۔

س ل ف

 سَلَفَ (ن) سَلْفًا : آگے بڑھنا‘ پہلے گزرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 سَلَفٌ (اسم ذات) : گزری ہوئی چیز۔ {فَجَعَلْنٰھُمْ سَلَفًا وَّمَثَلًا لِّلْاٰخِرِیْنَ ۔ } (الزخرف) ’’ تو ہم نے بنایا ان کو ایک گزری ہوئی چیز اور ایک مثال بعد والوں کے لیے۔‘‘

 اَسْلَفَ (افعال) اِسْلَافًا : آگے کرنا‘ آگے بھیجنا۔{ھُنَالِکَ تَـبْلُوْا کُلُّ نَـفْسٍ مَّا اَسْلَفَتْ} (یونس:30) ’’ وہاں جانچ لے گی ہر جان اس کو جو اس نے آگے بھیجا۔‘‘

ع و د

 عَادَ (ن) عَوْدًا : کوئی کام شروع کرنے کے بعد اس کی ابتدا کی طرف دوبارہ لوٹنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے: (1) کوئی کام دوبارہ یا پھر سے کرنا۔ (2) کسی کی طرف واپس ہونا۔ (3) پہلی حالت پر لوٹنا‘ دوبارہ ہوجانا۔ {رَبَّنَا اَخْرِجْنَا مِنْھَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ ۔ } (المؤمنون) ’’ اے ہمارے ربّ! تو نکال ہم کو اس سے ‘ پھر اگر ہم دوبارہ (ایسا ) کریں تو بےشک ہم ظالم ہیں۔‘‘{لَنُخْرِجَنَّـکُمْ مِّنْ اَرْضِنَا اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاط} (ابرٰھیم:13) ’’ ہم لازماً نکالیں گے تم لوگوں کو اپنی سرزمین سے یا تم لوگ لازماً واپس ہو گے ہمارے مذہب میں۔‘‘{وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰـہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ ۔ } (یٰسٓ) ’’ اور چاند! ہم نے مقرر کیا اس کو منزلوں کے لحاظ سے یہاں تک کہ وہ پھر سے ہو جائے پرانی ٹہنی کی مانند۔‘‘

 عَائِِدٌ (اسم الفاعل) : دوبارہ کرنے والا‘ واپس ہونے والا۔ {اِنَّا کَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّــکُمْ عَائِِدُوْنَ ۔ } (الدُّخان) ’’ بے شک ہم کھولنے والے ہیں عذاب کو تھوڑا سا‘

بے شک تم لوگ دوبارہ کرنے والے ہو۔‘‘

 مَعَادٌ (مَفْعَلٌ کے وزن پر اسم الظرف) : لوٹنے یا واپس ہونے کی جگہ۔ {اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَادُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ط} (القصص:85) ’’ بے شک جس نے فرض کیا آپؐ پر قرآن‘ وہ ضرور لوٹانے والا ہے آپؐ ‘ کو واپس ہونے کی جگہ کی طرف۔‘‘

 عِیْدٌ : خوشی کا ایسا دن جو ہر سال لوٹ آئے‘ عید۔{رَبَّـنَا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَائِ تَـکُوْنُ لَنَا عِیْدًا} (المائدۃ:114) ’’ اے ہمارے ربّ! تو اتار ہم پر ایک خوان آسمان سے‘ ہوجائے ہمارے لیے ایک عید۔‘‘

 عَادٌ : حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم کا نام ہے۔ {وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًاط} (الاعراف:65) ’’ اور عاد کی طرف ان کے بھائی ھودؑ کو۔‘‘

 اَعَادَ (افعال) اِعَادَۃً : (1) واپس لے جانا‘ (2) واپس لانا‘ (3) لوٹانا ۔ {مِنْھَا خَلَقْنٰـکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ} (طٰــہٰ:55) ’’ اس سے (یعنی زمین سے) ہم نے پیدا کیا تم کو اور اس میں ہم واپس لے جائیں گے تم کو۔‘‘{فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَاط} (بنی اسرائیل :51) ’’ تو وہ لوگ عنقریب کہیں گے کون دوبارہ لائے گا ہم کو۔‘‘{وَلَا تَخَفْوقفۃ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الْاُوْلٰی ۔ } (طٰـہٰ) ’’ اور آپؐ خوف مت کریں۔ ہم عنقریب لوٹا دیں گے اس کو اس کی پہلی حالت پر۔‘‘

 ترکیب : ’’ مَوْعِظَۃٌ‘‘ مؤنث غیر حقیقی ہے ‘ اس لیے فعل ’’ جَائَ‘‘ مذکر کے صیغے میں بھی درست ہے۔ ’’ مَنْ عَادَ‘‘ کا ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے ‘ اس لیے ’’ عَادَ‘‘ کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا۔ يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ٢٧٦؁
[یَمْحَقُ : گھٹاتا ہے ] [اللّٰہُ : اللہ ] [الرِّبٰوا : سود کو ] [وَیُرْبِی : اور وہ بڑھاتا ہے ] [الصَّدَقٰتِ : صدقات کو ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [لَا یُحِبُّ : پسند نہیں کرتا ] [کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ : کسی گنہگار ناشکرے کو]

 

م ح ق

 مَحَقَ (ف) مَحْقًا : گھٹانا‘ برکت ختم کر دینا۔ آیت زیر مطالعہ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ  ٢٧٧؁
[اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک جو لوگ ] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے ] [الصّٰلِحٰتِ : نیک ] [وَاَقَامُوا : اور قائم کی ] [الصَّلٰوۃَ : نماز ] [وَاٰتَوُا : اور پہنچائی ] [الزَّکٰوۃَ : زکوٰۃ] [لَـہُمْ : (تو) ان کے لیے ہے] [اَجْرُہُمْ : ان کا اجر ] [عِنْدَ رَبِّہِمْ : ان کے رب کے پاس ] [وَلاَ خَوْفٌ : اور کوئی خوف نہیں ہے] [عَلَیْہِمْ : ان پر ] [وَلاَ ہُمْ : اور نہ ہی وہ لوگ ] [یَحْزَنُوْنَ: پچھتاتے ہیں ]

 

ترکیب :’’ اٰتَوُا‘‘ دراصل ’’ اٰتَوْا‘‘ ہے۔ آگے ملانے کے لیے وائو کو ضمہ دی گئی ہے۔ دیکھیں البقرۃ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ  ٢٧٨؁
[یٰٓـــاَیُّہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو! جو ] [اٰمَنُوا : ایمان لائے ] [اتَّقُوا : تم لوگ تقویٰ اختیار کرو] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [وَ : اور ] [ذَرُوْا : تم لوگ چھوڑو] [مَا : اس کو جو ] [بَـقِیَ : باقی بچا ] [مِنَ الرِّبٰٓوا : سود میں سے ] [اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ ] [مُّؤْمِنِیْنَ : مومن ہو] فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ   ٢٧٩؁
[ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا : پس اگر تم لوگ نہیں کرتے (اس کو (] [فَاْذَنُوْا : تو تم لوگ سن لو ] [بِحَرْبٍ : ایک جنگ (کی خبر) ] [مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ : اللہ اور اس کے رسول (کی طرف) سے] [وَاِنْ تُبْتُمْ : اور اگر تم لوگ توبہ کرتے ہو] [فَـلَـکُمْ : تو ] [تمہارے لیے ہیں] [رُئُ‘ وْسُ اَمْوَالِکُمْ : تمہارے مالوں کے سر (یعنی زرِ اصلی) ] [لاَ تَظْلِمُوْنَ : تم لوگ ظلم نہیں کرو گے] [وَلاَ تُظْلَمُوْنَ : اور نہ تم لوگوں پر ظلم کیا جائے گا]

 

ح ر ب

 حَرَبَ (ن) حَرْبًا : کسی کی کوئی چیز لوٹ لینا‘ حاصل کر لینا۔

 حَرِبَ (س) حَرَبًا : سخت غضب ناک ہونا۔

 حَرْبٌ (اسم فعل) : لڑائی‘ جنگ (یعنی انتہائی غضب کی حالت میں دوسرے کا سب کچھ یہاں تک کہ زندگی بھی چھین لینے کا عمل) ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 مِحْرَابٌ ج مَحَارِیْبُ (مِفْعَالٌ کے وزن پر اسم آلہ) : کسی سے کچھ حاصل کرنے کا ذریعہ یا کنجی۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں آتاہے : (1) آرام و سکون حاصل کرنے کے لیے مکان میں داخل ہونے کا ذریعہ‘ مکان کی محراب‘ دروازہ‘ کھڑکی۔ (2) اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لیے اس سے ہم کلامی کا ذریعہ‘ مسجد کی محراب۔ {اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ ۔ } (صٓ) ’’ جب انہوں نے پھلانگا دروازے کو۔‘‘{وَھُوَ قَائِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ} (آل عمران:39) ’’ اور وہ کھڑا تھا اس حال میں کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا محراب میں۔‘‘ {یَعْمَلُوْنَ لَـہٗ مَا یَشَآئُ مِنْ مَّحَارِیْبَ} (سبا:13) ’’ وہ لوگ عمل کرتے (یعنی بناتے) اس کے لیے جو وہ چاہتا محرابوں میں سے۔‘‘

 حَارَبَ (مفاعلہ) مُحَارَبَۃٌ : لڑائی کرنا‘ جنگ کرنا۔ {اَلَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ} (المائدۃ:33) ’’ جو لوگ لڑتے ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے۔‘‘

 ترکیب :’’ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا‘‘ کے بعد ’’ ھٰذَا‘‘ یا’’ ذٰلِکَ‘‘ محذوف ہے جو گزشتہ آیت میں ’’ ذَرُوْا‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔ فعل امر ’’ اِیْذَنْ‘‘ میں ’’ ی ‘‘ دراصل فا کلمہ کے ہمزہ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ اسے جب ماقبل سے ملا کر پڑھتے ہیں تو فا کلمہ کا ہمزئہ اصلی واپس آ جاتا ہے اور ماقبل سے ملا کر پڑھا جاتا ہے‘ جبکہ فعل امر کا ہمزۃ الوصل صامت (silent) ہو جاتا ہے اور کبھی اس کو لکھنے میں بھی گرا دیتے ہیں۔ اس قاعدہ کے تحت ’’ ف ا أ ذ ن= فَائْذَنْ‘‘ بھی درست ہے اور ’’ فَأْذَنْ‘‘ بھی درست ہے۔ اس آیت میں ہمزۃ الوصل گرا کر ’’ فَاْذَنْ‘‘ کا جمع مذکر کا صیغہ ’’ فَاْذَنُوْا‘‘ استعمال ہوا ہے۔ وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ     ٨٠؁
[وَاِنْ : اور اگر ] [کَانَ : وہ ہو ] [ذُوْ عُسْرَۃٍ : تنگی والا ] [فَنَظِرَۃٌ : تو مہلت ہے ] [اِلٰی مَیْسَرَۃٍ : کشادگی تک ] [وَاَنْ : اور یہ کہ ] [تَصَدَّقُوْا : تم لوگ اپنا حق چھوڑ دو] [خَیْرٌ : (تو یہ) زیادہ بہتر ہے] [لَّــکُمْ : تمہارے لیے ] [اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ: اگر تم لوگ جانتے ہو]

 

ترکیب : ’’ اِنْ‘‘ حرفِ شرط’’ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ‘‘ شرط اور ’’ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ‘‘ جوابِ شرط ہے۔ اس میں ’’ کَانَ‘‘ تامّہ ہے اور ’’ ذُوْ عُسْرَۃٍ‘‘ اس کا فاعل ہے‘ اس لیے ’’ ذُوْ‘‘ مرفوع ہے۔ ’’ خَیْرٌ‘‘ افعل التفضیل ہے اور خبر ہے۔ اس کا مبتدأ’’ فَھُوَ‘‘ محذوف‘ ہے۔ وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ   ٢٨١؁ۧ
[وَاتَّقُوْا : اور تم لوگ بچو ] [یَوْمًا : ایک ایسے دن سے ] [تُرْجَعُوْنَ : تم لوگ لوٹائے جائو گے] [فِیْہِ : جس میں ] [اِلَی اللّٰہِ : اللہ کی طرف ] [ثُمَّ تُوَفّٰی : پھر پورا پورا دیا جائے گا] [کُلُّ نَفْسٍ : ہر ایک جان کو ] [مَّا : وہ جو ] [کَسَبَتْ : اس نے کمایا] [وَ : اس حال میں کہ ] [ہُمْ : ان پر ] [لاَ یُظْلَمُوْنَ: ظلم نہیں کیا جائے گا (یعنی حق تلفی نہیں ہو گی)

 

ترکیب : ’’ وَاتَّقُوْا‘‘ کا فاعل اس میں ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے ‘ جبکہ ’’ یَوْمًا‘‘ اس کا مفعول ہے اور نکرہ مخصوصہ ہے۔ آگے اس کی خصوصیت ہے۔ ’’ تُوَفّٰی‘‘ باب تفعیل میں مضارع مجہول کا واحد مؤنث کا صیغہ ہے۔ ’’ کُلُّ نَفْسٍ‘‘ اس کا نائب فاعل ہے اس لیے ’’ کُلُّ‘‘ مرفوع ہے۔

 نوٹ (1) : سود کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جیسے سورۃ الانفال کی آیت 60 میں دشمن کے خلاف قوت جمع کرنے کے لیے گھوڑے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ‘ لیکن زمانے کی ترقی کے ساتھ اب ہم گھوڑوں کے بجائے ٹینک رکھتے ہیں لہٰذا اس سے مذکورہ آیت کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی‘ اسی طرح سود سے متعلق مذکورہ بالا آیات میں بھی اس زمانے کے سود کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا‘ لہٰذا اب زمانے کی ترقی کے ساتھ بینک کے تجارتی سود پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ تو جس طرح امت کے فوجی استحکام کے لیے ٹینک کا استعمال ضروری ہے اسی طرح امت کے معاشی استحکام کے لیے بینک کے تجارتی سود کا استعمال ضروری ہے۔

 اس دلیل میں جو منطقی کجی ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ‘ کیونکہ وہ از خود عیاں ہے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ سورۃالانفال کی مذکورہ آیت میں دشمن کے خلاف قوت جمع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب جس زمانے میں اس قوت کی جو بھی شکل ہوگی اسی شکل میں اسے جمع کرنے سے اس آیت کے حکم پر عمل ہو گا۔ جبکہ سود سے متعلق مذکورہ آیات میں ہمیں سود کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب جس زمانے میں سود کی جو بھی شکل ہوگی اس کی ہر شکل کو چھوڑ کر ہی ان آیات کے حکم پر عمل ہو گا۔

 کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں غرباء کو ان کی ضروریات کے لیے سود پر قرض دینے کا رواج تھا جس کی وجہ سے غریب لوگ قرضوں اور سود در سود کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے تھے‘ جو کہ صریحاً ظلم تھا۔ ہمیں اس سود کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے‘ جبکہ آج کل بینک کا تجارتی سود وہ سود نہیں ہے ‘ کیونکہ ان قرضوں سے تاجر اور صنعت کار منافع کماتے ہیں اور اس میں سے سود دیتے ہیں ‘ اس لیے مذکورہ حکم کا اطلاق تجارتی قرضوں پر نہیں ہوتا۔

 یہ بات اس وقت کے عرب معاشرے سے ناواقفیت کی وجہ سے کہی جاتی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے اور تسلیم کرتی ہے کہ اس وقت پورے عرب معاشرے میں قبائلی نظام رائج تھا اور ان کی معاش کا انحصار زراعت سے زیادہ تجارت پر تھا۔ قبائلی نظام کی ایک بہت اہم خصوصیت یہ ہے کہ کسی قبیلے کا کوئی فرد اگر کسی مشکل میں گرفتار ہو جاتا ہے تو پورا قبیلہ اسے مشکل سے نکالنے کے لیے اس کی مدد کرتا ہے۔ وہ اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے سود پر قرضہ دے کر اس کا نام AID (مدد) نہیں رکھتا۔ یہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ اس لیے یہ کہنا خلافِ واقعہ ہے کہ اس زمانے میں غیر تجارتی قرضوں اور سود کا رواج تھا۔ اگر کبھی کوئی غریب کسی یہودی کے چنگل میں پھنس بھی جاتا تھا تو وہ استثناء شمار ہو گا‘ اسے رواج کہنا غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تجارت پیشہ لوگ تھے اور اس زمانے میں بھی تجارتی قرضوں اور سود کا ہی رواج تھا جسے حرام قرار دیا گیا۔

 تجارتی قرضوں پر بھی سود کی ممانعت کی جو بنیادی وجہ ہے اس کو سمجھ کر ذہن نشین کر لیں۔ ایک تاجر کسی سرمایہ دار سے سود پر تجارتی قرض لیتا ہے۔ اگر تجارت میں نفع ہوتا ہے تو سرمایہ دار کے حصے میں منافع کی کریم یعنی مکھن آتا ہے اور تاجر کے حصے میں مکھن نکلا ہوا منافع آتا ہے‘ حالانکہ سرمایہ دار آرام سے گھر بیٹھا رہا اور تاجر نے دن رات ایک کیا۔ اگر تجارت میں نقصان ہوتا ہے تو سارا نقصان تاجر کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ’’ مَرے پر سَو دُرّے‘‘ کے مصداق سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں ایک فریق کے مفادات کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ‘ جو کہ سرمایہ دار ہے ‘ جبکہ دوسرے فریق یعنی تاجر کو کلیتاً حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ صریحاً ناانصافی اور ظلم ہے‘ اس لیے اللہ نے سود کو حرام کیا ہے۔

 ایک تاجر کسی سرمایہ دار سے نفع و نقصان میں شراکت پر تجارتی قرض لیتا ہے۔ اب اگر تجارت میں نفع ہوتا ہے تو دونوں مل کر اسے کھاتے ہیں اور اگر نقصان ہوتا ہے تو دونوں مل کر اس کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘ اس طرح دونوں کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ یہ طریقۂ کار انصاف اور عدل پر مبنی ہے ‘ اس لیے اللہ نے ’’ بیع‘‘ کو حلال کیا ہے۔

 کہا جاتا ہے کہ نفع و نقصان میں شراکت پر قرض دیا گیا تو تاجر غلط نقصان دکھائے گا اور بینک نقصان میں رہینگے‘ اس لیے اس مسئلہ کا قابلِ عمل حل یہی ہے کہ قرضہ مقررہ شرح یعنی سود پر دیا جائے۔ لیکن پاکستان میں جس طرح تھوک کے حساب سے قرضے معاف (write off) کیے گئے ہیں اور کیے جا رہے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سود پر قرضہ دینا بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ ہے۔

 شرحِ سود مقرر ہونے کی وجہ سے بینک زیادہ چھان بین نہیں کرتا کہ جس تجارت یا صنعت کے لیے قرض لیا جا رہا ہے اس کے نفع بخش ہونے کے کیا امکانات ہیں۔ محض کاغذی کارروائی پوری کرنے کے لیے ایک feasibility report فائل میں لگا لی جاتی ہے۔ اکثر و بیشتر بینک کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا دیا ہوا تجارتی قرضہ تاجر نے کہاں خرچ کیا ہے۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کی بنا پر قرضوں کے نادہندگان کی فہرست دن بدن طویل ہوتی جا رہی ہے۔ یہی سرمایہ اگر نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر دیا جائے تو منصوبوں کی چھان بین کرنے کے لیے بینک کو اپنا ایک نظام وضع کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ قرضوں کو خرچ کرنے کی نگرانی کرنا بھی بینک کے لیے ضروری ہو جائے گا۔ اس طرح نادہندگان کی تعداد بہت کم ہوگی اور جو بھی قرضے معاف کیے جائیں گے وہ جعلی نہیں ہوں گے۔

 ایک یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں لفظ ’’ رِبٰو‘‘ ایک مخصوص اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور اس سے مراد وہ اضافہ تھا جو تجارتی قرضوں پر مقررہ شرح سے حاصل کیا جاتا‘ جبکہ تجارتی لین دین سے حاصل ہونے والے نفع کے لیے ’’ بیع‘‘ کی اصطلاح مخصوص تھی۔ البتہ نفع و نقصان میں شراکت والے معاہدے بھی شامل تھے‘ جیسے

نبی کریم ﷺ حضرت بی بی خدیجہ (رض) کا سامانِ تجارت لے کر بیرونِ ملک جاتے تھے۔

 اس حقیقت کا ایک واضح ثبوت عربوں کا یہ قول ہے جو قرآن کریم میں منقول ہے کہ : {قَالُوْا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا 7} (البقرۃ:275) ’’ یہ کہتے ہیں : بیع بھی تو ربا کی مانند ہے‘‘ ۔ لیکن مشابہت کے باوجود وہ لوگ ان کے فرق سے بھی واقف تھے‘ جبھی تو ان کے لیے الگ الگ اصطلاح استعمال کرتے تھے‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب نہیں دیا ‘ بلکہ صرف اپنا فیصلہ سنایا کہ :’’ اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور ربا کو حرام کیا ہے‘‘۔

 اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے اس مسئلہ کو کس طرح سمجھا اور دیکھا ہے۔ ابن عربی  (رح)  نے ’’ احکام القرآن‘‘ میں فرمایا کہ:’’ ربا کے معنی اصل لغت میں زیادتی کے ہیں اور آیت میں اس سے مراد وہ زیادتی ہے جس کے مقابلے میں کوئی مال نہ ہو (یعنی کوئی شے نہ ہو)‘ بلکہ محض ادھار اور اس کی میعاد ہو‘‘۔

 امام رازی (رح)  نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ :’’ ربا کی دو قسمیں ہیں: ایک معاملاتِ بیع و شراء کے اندر‘ دوسرے ادھار کا ربا۔ اور جاہلیت عرب میں (ربا کے نام سے) دوسری قسم ہی رائج اور معروف تھی کہ وہ اپنا مال (یعنی پیسہ) کسی کو معین میعاد کے لیے دیتے تھے اور مخصوص مدت پر اس کا نفع لیتے تھے۔ اگر میعادِ معین پر ادائیگی نہ کرسکا تو میعاد بڑھا دی جاتی تھی بشرطیکہ وہ سود کی رقم بڑھا دے۔ یہی جاہلیت کا ربا تھا جس کو قرآن نے حرام کیا‘‘۔ (منقول از معارف القرآن‘ ج 1‘ ص 664) ۔

 اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر پیسہ ادھار دے کر نفع لیا جائے تو یہ ربا ہے جس کو قرآن نے حرام قرار دیا ہے ‘ جبکہ اگر کوئی چیز بیچ کر نفع لیا جائے تو یہ بیع و شراء ہے جسے قرآن نے حلال قرار دیا ہے۔

 سود کے متعلق آیات کے نزول کے وقت صحابہ کرام (رض) کو ’’ بیع‘‘ اور ’’ ربا‘‘ میں تمیز کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ انہوں نے ربا کا کاروبار ترک کردیا ‘ جبکہ بیع کا کاروبار بدستور جاری رہا۔ نبی کریم ﷺ نے ان کو اس سے نہیں روکا۔

 مفتی محمد شفیع  (رح)  نے لکھا ہے کہ: ’’ البتہ نبی کریم ﷺ نے ربا کے مفہوم میں بیع و شراء کی چند صورتوں کو بھی داخل فرمایا جن کو عرب ربا نہ سمجھتے تھے۔ مثلاً چھ چیزوں کی بیع و شراء میں یہ حکم دیا کہ اگر ان کا تبادلہ کیا جائے تو برابر سرابر ہونا چاہیے اور نقد دست بدست ہونا چاہیے۔ اس میں کمی بیشی کی گئی یا ادھار کیا گیا تو یہ بھی ربا ہے۔ یہ چھ چیزیں سونا‘ چاندی‘ گندم‘ جو‘ کھجور اور انگور ہیں‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج 1‘ ص 665)

 مفتی محمد شفیع  (رح)  نے مزید لکھا ہے کہ: ’’ اس میں یہ بات قابل غور تھی کہ ان چھ چیزوں کی خصوصیت ہے یا ان کے علاوہ اور بھی چیزیں ان کے حکم میں ہیں؟ اور اگر ہیں تو ان کا ضابطہ کیا ہے؟ یہی اشکال حضرت فاروق اعظم (رض) کو پیش آیا جس کی بنا پر فرمایا کہ آیت ربا قرآن کی آخری آیتوں میں ہے‘ اس کی پوری تفصیلات بیان فرمانے سے پہلے رسول کریم ﷺ کی وفات ہو گئی‘ اس لیے اب احتیاط لازم ہے‘ ربا کو تو چھوڑنا ہی ہے‘ جس صورت میں ربا کا شبہ بھی ہو اس کو بھی چھوڑ دیناچاہیے‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج 1‘ ص 665) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ  ۭ وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ ۠ وَلَا يَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ يَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْيَكْتُبْ ۚ وَلْيُمْلِلِ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَـيْــــًٔـا  ۭ فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيْهًا اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّمِلَّ ھُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهٗ بِالْعَدْلِ ۭ وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاۗءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى ۭ وَلَا يَاْبَ الشُّهَدَاۗءُ اِذَا مَا دُعُوْا  ۭ وَلَا تَسْــَٔـــمُوْٓا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِيْرًا اَوْ كَبِيْرًا اِلٰٓى اَجَلِهٖ  ۭ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَاَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدْنٰٓى اَلَّا تَرْتَابُوْٓا اِلَّآ اَنْ تَكُـوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيْرُوْنَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا  ۭ وَاَشْهِدُوْٓا اِذَا تَبَايَعْتُمْ  ۠وَلَا يُضَاۗرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيْدٌ ڛ وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ  ۭ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ    ٢٨٢؁
[ یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو! جو ] [اٰمَنُوْآ : ایمان لائے ] [اِذَا : جب بھی ] [تَدَایَنْتُمْ : تم لوگ باہم لین دین کرو] [بِدَیْنٍ : کسی اُدھار کا ] [اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی : ایک معین وقت تک کے لیے] [فَاکْتُبُوْہُ : تو تم لوگ لکھو اس کو ] [وَلْیَکْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھے ] [بَّـیْنَـکُمْ : تمہارے مابین ] [کَاتِبٌ : ایک لکھنے والا ] [بِالْعَدْلِ : انصاف سے ] [وَلاَ یَاْبَ : اور انکار نہ کرے ] [کَاتِبٌ : کوئی لکھنے والا ] [اَنْ یَّــکْتُبَ : کہ وہ لکھے ] [کَمَا : اس طرح جیسے ] [عَلَّمَہُ : سکھایا اس کو ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [فَلْیَکْتُبْ : پس چاہیے کہ وہ لکھے] [وَلْیُمْلِلِ : اور چاہیے کہ املاء کرائے] [الَّذِیْ عَلَیْہِ : وہ جس پر ] [الْحَقُّ : حق ہے (یعنی مقروض) ] [وَلْیَتَّقِ : اور چاہیے کہ وہ تقویٰ اختیار کرے] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [رَبَّـہٗ : جو اس کا پالنے والا ہے ] [وَلاَ یَبْخَسْ : اور وہ نہ گھٹائے] [مِنْہُ : اس سے ] [شَیْئًا : کوئی چیز ] [فَاِنْ : پھر اگر ] [کَانَ : ہو ] [الَّذِیْْ عَلَیْہِ : وہ جس پر ] [الْحَقُّ : حق ہے ] [سَفِیْہًا : کچھ نا سمجھ] [اَوْ ضَعِیْفًا : یاکچھ کمزور ] [اَوْلاَ یَسْتَطِیْعُ: یاوہ صلاحیت نہیں رکھتا] [اَنْ یُّمِلَّ : کہ املاء کرائے] [ہُوَ : وہ خود ] [فَلْیُمْلِلْ : تو چاہیے کہ املاء کرائے] [وَلِـیُّـہٗ : اس کاسرپرست] [بِالْعَدْلِ : انصاف سے ] [وَاسْتَشْہِدُوْا : اور تم لوگ گواہی کے لیے کہو] [شَہِیْدَیْنِ : دو گواہوں سے] [مِنْ رِّجَالِکُمْ : اپنے مردوں میں سے] [فَاِنْ : پھر اگر] [لَّمْ یَکُوْنَا : نہ ہوں] [رَجُلَیْنِ : دو مرد] [فَرَجُلٌ : تو ایک مرد] [وَّامْرَاَتٰنِ : اور کوئی دو عورتیں] [مِمَّنْ : ان میں سے جن سے] [تَرْضَوْنَ : تم لوگ راضی ہو] [مِنَ الشُّہَدَآئِ : موقع پر موجود میں سے] [اَنْ : (اس لیے) کہ ] [تَضِلَّ : بھٹک (یعنی بھول) جائے] [اِحْدٰٹہُمَا : دونوں کی ایک] [فَتُذَکِّرَ : تو یاد دلائے ] [اِحْدٰہُمَا: دونوں کی ایک کو] [ الْاُخْرٰی : دوسری ] [وَلاَ یَاْبَ : اور انکار نہ کریں] [الشُّہَدَآئُ : گواہ] [اِذَا مَا : جب کبھی بھی ] [دُعُوْا : وہ لوگ بلائے جائیں] [وَلَا تَسْئَمُوْآ : اور تم لوگ مت اُکتا ئو] [اَنْ : کہ ] [تَـکْتُبُوْہُ : تم لوگ لکھو اس کو ] [صَغِیْرًا : (خواہ) چھوٹا ہو] [اَوْ : یا] [کَبِیْرًا : بڑا] [اِلٰٓی اَجَلِہٖ: اپنی مدت تک (کے لحاظ سے) ] [ذٰلِکُمْ : یہ ] [اَقْسَطُ: زیادہ حق کے مطابق ہے] [عِنْدَ اللّٰہِ : اللہ کے نزدیک ] [وَاَقْوَمُ : اور زیادہ نگران ہے] [لِلشَّہَادَۃِ : گواہی کے لیے] [وَاَدْنٰٓی : اور زیادہ قریب ہے] [اَلاَّ تَرْتَابُوْا : کہ تم لوگ شبہ میں نہ پڑو] [اِلَّآ اَنْ : سوائے اس کے کہ ] [تَـکُوْنَ : وہ ہو ] [تِجَارَۃً حَاضِرَۃً : کوئی ایسا حاضر سودا] [تُدِیْرُوْنَہَا : تم لوگ گھماتے ہو جس کو] [بَیْنَـکُمْ : اپنے مابین ] [فَلَیْسَ : تو نہیں ہے ] [عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [جُنَاحٌ : کوئی گناہ ] [اَلاَّ تَـکْتُبُوْہَا : کہ نہ لکھو اس کو] [وَاَشْہِدُوْآ : اور تم لوگ گواہ بنائو] [اِذَا : جب بھی ] [تَــبَایَعْتُمْ : باہم خرید و فروخت کرو] [وَلاَ یُضَآرَّ : اور تکلیف نہ دی جائے] [کَاتِبٌ : لکھنے والے کو ] [وَّلاَ شَہِیْدٌ : اور نہ گواہ کو ] [وَاِنْ تَفْعَلُوْا : اور اگر تم لوگ (یہ) کرو گے] [فَاِنَّـہٗ : تو یقینا یہ ] [فُسُوْقٌ : نافرمانی ہے ] [بِکُمْ : تم لوگوں کی ] [وَاتَّقُوا : اور تم لوگ تقویٰ اختیار کرو] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [وَیُعَلِّمُکُمُ : اور سکھاتا ہے تم لوگوں کو] [اللّٰہُ : اللہ ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [بِکُلِّ شَیْئٍ : ہر ایک چیز کو ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ]

ء ج ل

 اَجِلَ (س) اَجَلًا : کسی مشکل میں یا کسی چیز میں مبتلا ہونا۔

 اَجَلٌ (اسم ذات بھی ہے) : (1) مدت (ابتلاء کے جاری رہنے کی) ۔ (2) وقت (ابتلاء کے خاتمے کا) ۔{لَوْ لَآ اَخَّرْتَنَــآ اِلٰی اَجَلٍ} (النسائ:77) ’’ کیوں نہ تو نے مؤخر کیا ہمیں کچھ مدت تک؟‘‘{وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌج} (الاعراف:34) ’’ اور ہر ایک امت کے لیے ایک وقت ہے (یعنی خاتمے کا) ۔‘‘

 اَجْلٌ : سبب‘ وجہ ۔ {مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَج} (المائدۃ:32) ’’ اس وجہ سے۔‘‘

 اَجَّلَ (تفعیل) تَأْجِیْلًا : وقت مقرر کرنا۔ {وَبَلَغْنَا اَجَلَنَا الَّذِیْ اَجَّلْتَ لَنَاط} (الانعام:128) ’’ اور ہم پہنچے اپنی اس مدت کو جس کا تو نے وقت مقرر کیا ہمارے لیے۔‘‘

 مُؤَجَّلٌ (اسم المفعول) : مقرر کیا ہوا وقت ۔ {وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ کِتٰــبًا مُّؤَجَّلًاط} (آل عمران:145) ’’ اور نہیں ہے کسی جان کے لیے کہ وہ مرے مگر اللہ کے حکم سے ایک لکھے ہوئے مقرر کردہ وقت پر۔‘‘

ب خ س

 بَخَسَ (ف) بَخْسًا : حق سے کم دینا‘ گھٹانا۔ {وَلَا تَـبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَـآئَ ھُمْ} (الاعراف:85) ’’ اور تم لوگ حق سے کم نہ دو لوگوں کو ان کی چیزیں۔‘‘

س ء م

 سَئِمَ (س) سَئَمًا : کسی چیز یا کام سے اُکتا جانا۔ آیت زیر مطالعہ۔

ق س ط

 قَسَطَ (ض) قَسْطًا : حق کے خلاف کرنا‘ ظلم کرنا۔

 قَاسِطٌ (اسم الفاعل) : حق کے خلاف کرنے والا۔ {وَاَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَـکَانُوْا لِجَھَنَّمَ حَطَبًا ۔ } (الجن) ’’ اور جو حق کے خلاف کرنے والے ہیں تو وہ لوگ جہنم کے لیے ہیں بطور ایندھن۔‘‘

 قَسَطَ (ن) قِسْطًا : حق کے مطابق ہونا‘ انصاف ہونا۔

 قِسْطٌ (اسم ذات بھی ہے) : حق ‘ انصاف۔ {وَیَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ} (آل عمران:21) ’’ اور وہ لوگ قتل کرتے ہیں ان لوگوں کو جو ترغیب دیتے ہیں انصاف کی۔‘‘

 اَقْسَطُ (افعل التفضیل) : زیادہ انصاف والا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَقْسَطَ (افعال) اِقْسَاطًا : حق کے مطابق کرنا‘ انصاف کرنا۔ {اَنْ تَـبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْآ اِلَـیْھِمْط} (المُمتحنۃ:8) ’’ کہ تم لوگ نیکی کرو ان سے اور تم لوگ انصاف کرو ان کے ساتھ۔‘‘

 اَقْسِطْ (فعل امر) : تو انصاف کر۔ {فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْاط} (الحُجُرٰت:9) ’’ تو تم لوگ صلح کرائو ان دونوں کے درمیان انصاف سے اور تم لوگ حق کے مطابق کرو۔‘‘

 مُقْسِطٌ (اسم الفاعل) : حق کے مطابق کرنے والا۔ {اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ } (المائدۃ) ’’ بے شک اللہ پسند کرتا ہے حق کے مطابق کرنے والوں کو۔‘‘

 ترکیب : ’’ وَلْـیَکْتُبْ‘‘ کا فاعل ’’ کَاتِبٌ‘‘ ہے۔ ’’ لَا یَاْبَ‘‘ میں ’’ یَاْبَ‘‘ دراصل ’’ یَاْبٰی‘‘ تھا جسے لائے نہی نے مجزوم کیا تو ’’ ی‘‘ گر گئی اور ’’ لَا یَاْبَ‘‘ ہو گیا۔ ’’ وَلْیُِِمْلِلْ‘‘ کو آگے ملانے کے لیے کسرہ دی گئی ہے‘ اس لیے یہ ’’ وَلْیُِِمْلِلِ‘‘ ہو گیا ہے۔ اور یہ فعل امر غائب ہے۔ ’’ اَللّٰہَ‘‘ کا بدل ہونے کی وجہ سے ’’ رَبَّـہٗ‘‘ منصوب ہے۔ ’’ مِنْہُ‘‘ کی ضمیر ’’ اَلْحَقُّ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ سَفِیْھًا اَوْ ضَعِیْفًا‘‘ ‘’’ کَانَ‘‘ کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ ’’ اَنْ یُّمِلَّ‘‘ میں ضمیر فاعلی ’’ ھُوَ‘‘ از خود موجود ہے ‘ لیکن یہاں تاکید کے لیے اسے ظاہر کیا گیا ہے ۔

 ’’ یَـکُوْنَا‘‘ دراصل ’’ یَـکُوْنَانِ‘‘ تھا جس کا نونِ اعرابی ’’ لَمْ‘‘ کی وجہ سے گرا ہوا ہے۔ اس کا اسم اس میں شامل ’’ ھُمَا‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ شَھِیْدَیْنِ‘‘ کے لیے ہے ‘ جبکہ ’’ رَجُلَیْنِ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ مِنَ الشُّھَدَآئِ‘‘ میں لفظ’’ اَلشُّھَدَآئِ‘‘ اپنے لغوی مفہوم میں آیا ہے۔ ’’ تَضِلَّ‘‘ کا فاعل ’’ اِحْدٰٹـھُمَا‘‘ ہے۔’’ اَنْ‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے ’’ فَتُذَکِّرَ‘‘ منصوب ہوا ہے۔ اس کا فاعل ’’ اَلْاُخْرٰی‘‘ کو اور مفعول ’’ اِحْدٰٹھُمَا‘‘ کو مانا جائے گا۔ ’’ اِذَا‘‘ میں غیر معین مدت کا مفہوم ہوتا ہے۔ اسے مزید غیر معین کرنے کے لیے ’’ مَا‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ’’ اَنْ تَـکْتُـبُوْہُ‘‘ میں ضمیر مفعولی حق یا’’ بِدَیْنٍ‘‘ کے لیے ہے اور ’’ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا‘‘ اس کا حال ہے۔ ’’ اَلاَّ تَـکْتُبُوْھَا‘‘ کی ضمیر مفعولی ’’ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ یُضَارَّ‘‘ کو مضارع معروف اور مجہول‘ دونوں ماننا ممکن ہے ‘ لیکن آگے ’’ وَاِنْ تَفْعَلُوْا‘‘ آیا ہے اس لیے یہ مضارع مجہول ہے۔

نوٹ (1) : سود کی ممانعت کے بعد اب اس آیت میں ادھار کے بیع و شراء کے متعلق ہدایات دی گئی ہیں۔ مدینہ والوں کا ادھار لین دین دیکھ کر آنحضور ﷺ نے فرمایا: ’’ ناپ تول یا وزن مقرر کرلیا کرو ‘ بھائو تائو چکا لیا کرو اور مدت کا بھی فیصلہ کرلیا کرو‘‘۔ (بخاری شریف‘ منقول از ابن کثیر) ۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ میعاد مقرر کر کے قرض کے لین دین کی اجازت اس آیت سے بخوبی ثابت ہوتی ہے۔ (ابنِ کثیر)

 نوٹ (2) : عربی کے جملہ فعلیہ میں عام طور پر فعل کے بعد فاعل اور اس کے بعد مفعول آتا ہے۔ لیکن اس ترتیب کو ہمیشہ قائم رکھنا ضروری نہیں ہے۔ البتہ چند صورتیں ایسی ہیں جب فاعل کو مقدم کرنا واجب ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ:

1) جب فاعل اور مفعول دونوں مبنی کی طرح ہوں ‘ یعنی ان کی اعرابی حالت ظاہر نہ ہو۔

 2) جب دونوں الفاظ میں فاعل اور مفعول بننے کی صلاحیت موجود ہو۔

 (3) جب ان دونوں میں امتیاز کرنے کا کوئی قرینہ موجود نہ ہو۔ مثلاً اگر ہم اَکْرَمَ زَیْدٌ حَامِدًاکے بجائے اَکْرَمَ حَامِدًا زَیْـدٌ کہیں‘ تب بھی معنی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ کیونکہ ہم زید اور حامد کی اعرابی حالت سے فاعل اور مفعول کا تعین کرسکتے ہیں۔ البتہ اگر اَکْرَمَ یَحْیٰی عِیْسٰیکہیں تو اب یَحْیٰیکو فاعل اور عِیْسٰیکو مفعول ماننا لازمی ہے۔ لیکن اگر ہم اَکَلَ یَحْیٰی کُمَّثْرٰی (یحییٰ نے امرود کھایا) کے بجائے اَکَلَ کُمَّثْرٰی یَحْیٰیکہیں تو بھی درست ہو گا اور دونوں جملوں میں یَحْیٰیکو ہی فاعل مانا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ کُمَّثْرٰی (امرود) میں اَکَلَ کا فاعل بننے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔

 آیت زیر مطالعہ میں فَتُذَکِّرَ اِحْدٰٹھُمَا الْاُخْرٰی آیا ہے۔ اس میں اِحْدٰی اور اُخْرٰی دونوں مبنی کی طرح ہیں اور دونوں میں فاعل اور مفعول بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ البتہ ان میں امتیاز کرنے کا ایک قرینہ موجود ہے۔ اس سے پہلے اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰٹھُمَا میں اِحْدٰیکے بھولنے کی بات ہو چکی ہے ‘ اس لیے اب فَتُذَکِّرَ کا فاعل اَلْاُخْرٰیکو اور مفعول اِحْدٰٹھُمَاکو مانا جائے گا۔ وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ  ۭ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ  ۭ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ  ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ  ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ    ٢٨٣؁ۧ
[وَاِنْ : اور اگر ] [کُنْتُمْ : تم لوگ ہو ] [عَلٰی سَفَرٍ : کسی سفر پر ] [وَّلَمْ تَجِدُوْا : اور تم لوگ نہ پائو] [کَاتِبًا : کوئی لکھنے والا ] [فَرِہٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ : تو قبضہ میں لیا ہوا رہن ( لینا) ہے] [فَاِنْ : پھر اگر ] [اَمِنَ : بھروسہ کرے ] [بَعْضُکُمْ : تم میں کا کوئی ] [بَعْضًا : کسی پر ] [فَلْیُؤَدِّ : تو چاہیے کہ واپس کرے] [الَّذِی : وہ جس کو ] [اؤْتُمِنَ : امین بنایا گیا] [اَمَانَتَہٗ : اس کی امانت کو ] [وَلْـیَتَّقِ : اور اسے چاہیے کہ وہ تقویٰ اختیار کرے] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [رَبَّہٗ : جو اس کا پالنے والا ہے ] [وَلاَ تَـکْتُمُوا: اور تم لوگ مت چھپائو] [الشَّہَادَۃَ : گواہی کو ] [وَمَنْ یَّـکْتُمْہَا : اور جو چھپاتا ہے اس کو] [فَاِنَّـہٗ : تو یقینا وہ ہے ] [اٰثِمٌ قَلْبُہٗ : جس کا دل گناہ کرنے والا ہے] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [بِمَا : اس کو جو ] [تَعْمَلُوْنَ : تم لوگ کرتے ہو] [عَلِیْمٌ : جاننے ]والا ہے ]

ر ھـ ن

 رَھَنَ (ف) رَھْنًا : کسی بات کی ضمانت لینا‘ گروی رکھنا۔

 رِھْنٌ ج رِھَانٌ (اسم ذات) : ضمانت‘ رہن۔ آیت زیر مطالعہ۔

 رَھِیْنٌ (فَعِیْلٌ کا وزن ) اسم المفعول کے معنی میں ہے: گروی رکھا ہوا۔ {کُلُّ امْرِیٍٔم بِمَا کَسَبَ رَھِیْنٌ ۔ } (الطور) ’’ ہر شخص‘ بسبب اس کے جو اس نے کمایا‘ گروی رکھا ہواہے۔‘‘

 ترکیب :’’ فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ‘‘ مرکب توصیفی ہے اور مبتدأ نکرہ ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے۔ دوسرا امکان یہ بھی ہے کہ ’’ فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ‘‘ کو خبر مان کر اس کے مبتدأ کو محذوف مانا جائے۔ دونوں صورتوں میں مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ’’ اَمِنَ‘‘ کا فاعل ’’ بَعْضُکُمْ‘‘ ہے اور ’’ بَعْضًا‘‘ اس کا مفعول ہے۔’’ اُؤْتُمِنَ‘‘ دراصل مادہ ’’ ء م ن‘‘ کا بابِ افتعال میں ماضی مجہول’’ اُوْتُمِنَ‘‘ تھا۔ ماقبل سے ملانے کے لیے افتعال کا ہمزۃ الوصل صامت (silent) ہے تو فاء کلمہ کا ہمزہ واپس آ گیا۔ اب وائو دراصل ہمزہ کو لکھنے کی کرسی ہے جس کو پڑھا نہیں جائے گا۔ ’’ اَمَانَتَہٗ‘‘ کی ضمیر ’’ بَعْضُکُمْ‘‘ کے لیے ہے۔ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ  ۭ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ  ٢٨٤؁
[لِلّٰہِ : اللہ کی ہی (ملکیت) ہے] [مَا : وہ جو ] [فِی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہے ] [وَمَا : اور وہ جو ] [فِی الْاَرْضِ: زمین ] [میں ہے ] [وَاِنْ : اور اگر ] [تُبْدُوْا : تم لوگ ظاہر کرو ] [مَا : اس کو جو ] [فِیْ اَنْفُسِکُمْ : تمہارے جی میں ہے ] [اَوْ : یا] [تُخْفُوْہُ : تم لوگ چھپائو اس کو ] [یُحَاسِبْـکُمْ: حساب لے گا تم لوگوں سے] [بِہِ : اس کا ] [اللّٰہُ : اللہ ] [فَـیَغْفِرُ : پھر وہ معاف کرے گا] [لِمَنْ : اس کو جسے ] [یَّشَآئُ : وہ چاہے گا] [وَیُعَذِّبُ : اور وہ عذاب دے گا] [مَنْ : اس کو جس کو ] [یَّشَآئُ : وہ چاہے گا ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ : ہر چیز پر ] [قَدِیْرٌ : قدرت رکھنے والا ہے]

 

ترکیب :’’ مَا‘‘ مبتدأ ہے‘ اس کی خبر ’’ مَوْجُوْدٌ‘‘ محذوف ہے اور ’’ فِی السَّمٰوٰتِ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ اسی طرح ’’ مَا فِی الْاَرْضِ‘‘ ہے۔ یہ دونوں جملے مبتدأ مؤخر ہیں‘ ان کی خبر ’’ مُلْکٌ‘‘ محذوف ہے اور ان کی قائم مقام خبر ’’ لِلّٰہِ‘‘ مقدم ہے۔ ’’ یُحَاسِبْـکُمْ‘‘ جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے اور اس کا فاعل’’ اَللّٰہُ‘‘ ہے۔ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ  ۣلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ  ٢٨٥؁
[اٰمَنَ : ایمان لائے ] [الرَّسُوْلُ : یہ رسولؐ] [بِمَآ : اس پر جو ] [اُنْزِلَ : نازل کیا گیا] [اِلَـیْہِ : ان ؐ‘ کی طرف] [مِنْ رَّبِّہٖ : انؐ کے رب ( کی جانب) سے] [وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور ایمان لانے والے] [کُلٌّ : سب ] [اٰمَنَ : ایمان لائے] [بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [وَمَلٰٓئِکَتِہٖ : اور اس کے فرشتوں پر] [وَکُتُبِہٖ : اور اس کی کتابوں پر] [وَرُسُلِہٖ : اور اس کے رسولوں پر] [لاَ نُفَرِّقُ : (وہ لوگ کہتے ہیں کہ) ہم فرق نہیں کرتے] [بَیْنَ اَحَدٍ : کسی ایک کے مابین] [مِّنْ رُّسُلِہٖ : اس کے رسولوں میں سے] [وَقَالُوْا : اور ان لوگوں نے کہا ] [سَمِعْنَا : ہم نے سنا ] [وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی ] [غُفْرَانَکَ: (ہم مانگتے ہیں) تیری مغفرت] [رَبَّـنَا : اے ہمارے ربّ] [وَاِلَـیْکَ : اور تیری طرف ہی ] [الْمَصِیْرُ : لوٹنا ہے]

 

ترکیب :’’ اٰمَنَ‘‘ کے فاعل ’’ اَلرَّسُوْلُ‘‘ اور’’ اَلْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ ہیں۔ ’’ اَلرَّسُوْلُ‘‘ پر لامِ تعریف ہے۔ ’’ لاَ نُفَرِّقُ‘‘ سے پہلے ’’ وَیَـقُوْلُوْنَ‘‘ محذوف ہے‘ جبکہ ’’ غُفْرَانَکَ‘‘ سے پہلے ’’ نَسْئَلُ‘‘ محذوف ہے۔ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا  ۭ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ  ۭرَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا  ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا  ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ۚ وَاعْفُ عَنَّا   ۪ وَاغْفِرْ لَنَا   ۪ وَارْحَمْنَا   ۪ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْــصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ   ٢٨٦؀ۧ
[لاَ یُکَلِّفُ : ذمہ دار نہیں بناتا] [اللّٰہُ : اللہ ] [نَفْسًا : کسی جان کو ] [اِلاَّ : مگر ] [وُسْعَہَا : اس کی اہلیت کو ] [لَہَا : اس کے لیے ہے ] [مَا : وہ (ثواب) جو ] [کَسَبَتْ : اس نے کمایا] [وَعَلَیْہَا : اور اس پر ہے ] [مَا : وہ ( گناہ) جو ] [اکْتَسَبَتْ : اس نے اہتمام سے کمایا] [رَبَّـنَا : اے ہمارے ربّ] [لاَ تُؤَاخِذْنَــآ : تو مت پکڑ ہم کو ] [اِنْ : اگر ] [نَّسِیْنَا : ہم بھول جائیں ] [اَوْ : یا ] [اَخْطَاْنَا : ہم چوک جائیں ] [رَبَّـنَا : اے ہمارے ربّ] [وَلاَ تَحْمِلْ : اور تو مت ڈال ] [عَلَـیْـنَــآ : ہم پر ] [اِصْرًا : کوئی ذمہ داری ] [کَمَا : جس طرح ] [حَمَلْتَہٗ : تو نے ڈالا اس کو ] [عَلَی الَّذِیْنَ : ان لوگوں پر جو ] [مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے تھے ] [رَبَّـنَا : اے ہمارے ربّ] [وَلاَ تُحَمِّلْنَا: اور تومت اٹھوا ہم سے] [مَا : اس کو ] [لاَ طَاقَۃَ : کسی قسم کی کوئی طاقت نہیں ہے] [لَنَا : ہم میں ] [بِہٖ : جس کی ] [وَاعْفُ : اور تو درگزر کر ] [عَنَّا : ہم سے ] [وَاغْفِرْ: اور تو بخش دے] [لَـنَا : ہم کو ] [ وَارْحَمْنَــآ : اور تو رحم کر ہم پر ] [اَنْتَ : تو ] [مَوْلٰٹنَا : ہماری بگڑی بنانے والا ہے] [فَانْصُرْنَا : پس تو ہماری مدد کر] [عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ : کافرقوم (کے مقابلے ) ]

ء ص ر

 اَصَرَ (ض) اَصْرًا : کسی چیز میں گرہ لگانا۔

 اِصْرًا (اسم ذات ) : (1) عہد و پیمان (2) ذمہ داری‘ بوجھ۔ {قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْط} (آل عمران:81) ’’ اس نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے) کہا کیا تم لوگوں نے اقرار کیا اور تم لوگوں نے پکڑا (یعنی قبول کیا) اس پر میرے عہد کو؟‘‘

نوٹ (1) : نیکی کرنا انسانی فطرت کے مطابق ہے اس لیے اس کے لیے فعل ثلاثی مجرد سے ’’ کَسَبَتْ‘‘ آیا ہے۔ جبکہ برائی کرنے کے لیے انسان کو اپنے ضمیر سے لڑنا پڑتا ہے‘ اس لیے اس کا فعل بابِ افتعال سے ’’ اِکْتَسَبَتْ‘‘ آیا ہے۔ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝ الۗـۗمَّ   Ǻ۝ۙ
الۗـۗمَّ اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ الْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ  Ą۝ۭ
[ اللّٰہُ : اللہ] [لَآ اِلٰــہَ : کسی قسم کا کوئی الٰہ نہیں ہے ] [اِلاَّ : سوائے اس کے کہ ] [ہُوَ : وہ ہے ] [الْحَیُّ : جو (حقیقتاً) زندہ ہے] [الْقَیُّوْمُ : جو (حقیقی) نگران و کفیل ہے] نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ  Ǽ۝ۙ
[نَزَّلَ : اس نے بتدریج اتارا] [عَلَیْکَ : آپؐ پر ] [الْکِتٰبَ : اِس کتاب کو ] [بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ] [مُصَدِّقًـا : تصدیق کرنے والی ہوتے ہوئے] [لِّمَا : اس کی جو ] [بَیْنَ یَدَیْہِ : اس سے پہلے ہے ] [وَاَنْزَلَ : اور اس نے اتارا ] [التَّوْرٰٹۃَ : تورات کو ] [وَالْاِنْجِیْلَ : اور انجیل کو ] مِنْ قَبْلُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ڛ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ  ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ  Ć۝
[مِنْ قَـبْلُ : اس سے پہلے ] [ہُدًی : ہدایت ہوتے ہوئے ] [لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے ] [وَاَنْزَلَ : اور (پھر) اس نے اتارا] [الْفُرْقَانَ : خوب فرق واضح کرنے والے کو] [اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک جنہوں نے ] [کَفَرُوْا : انکار کیا ] [بِاٰیٰتِ اللّٰہِ : اللہ کی آیتوں کا ] [لَہُمْ : ان کے لیے ہے ] [عَذَابٌ شَدِیْدٌ : ایک سخت عذاب] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [عَزِیْزٌ : بالادست ہے ] [ذُوانْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا ہے

ن ق م

 نَقَمَ (ض) نَقْمًا : (1) کسی چیز کی کوئی چیز بری لگنا۔ (2) سزا دینا۔ {وَمَا نَقَمُوْا اِلاَّ اَنْ اَغْنٰـٹھُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ} (التوبۃ:74)’’ اور ان کو برا نہیں لگا سوائے اس کے کہ ان کو مال‘ دار کیا اللہ نے اور اس کے رسول نے‘‘۔

 اِنْـتَقَمَ (افتعال) اِنْتِقَامًا : اہتمام سے سزا دینا‘ بدلہ لینا‘ آیت زیر مطالعہ۔

 مُنْتَقِمٌ (اسم الفاعل) : بدلہ لینے والا۔ {اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ ۔ } (السجدۃ) ’’ یقینا ہم مجرموں سے بدلہ لینے والے ہیں۔‘‘

 ترکیب : ’’ مُصَدِّقًا‘‘ حال ہے ’’ اَلْکِتٰبَ‘‘ کا اور ’’ یَدَیْہِ‘‘ کی ضمیر بھی ’’ اَلْکِتٰبَ‘‘ کے لیے ہے جس پر لام تعریف ہے۔ ’’ ھُدًی‘‘ حال ہے ’’ اَلتَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ‘ ‘ کا۔ ’’ وَاللّٰہُ‘‘ مبتدأ ہے۔ ’’ عَزِیْزٌ‘‘ اس کی خبر اوّل ہے اور ’’ ذُو انْتِقَامٍ‘‘ خبر ثانی ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَخْفٰى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ   Ĉ۝ۭ
[اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ ] [لاَ یَخْفٰی : پوشیدہ نہیں ہوتی ] [عَلَیْہِ : اس سے ] [شَیْئٌ : کوئی چیز ] [فِی الْاَرْضِ : زمین میں ] [وَلاَ فِی السَّمَآئِ : اور نہ ہی آسمان میں] ھُوَ الَّذِيْ يُصَوِّرُكُمْ فِي الْاَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاۗءُ  ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ   Č۝
[ہُوَ الَّذِیْ : وہ ہے جو ] [یُصَوِّرُکُمْ : شکل دیتا ہے تم لوگوں کو] [فِی الْاَرْحَامِ : رحموں میں ] [کَیْفَ : جیسی ] [یَشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] [لَآ اِلٰــہَ : کوئی الٰہ نہیں ہے ] [اِلاَّ : سوائے اس کے کہ ] [ہُوَ : وہ ہے ] [الْعَزِیْزُ : جو بالادست ہے] [الْحَکِیْمُ : جو حکمت والا ہے ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ  ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا  ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ   Ċ۝
[ہُوَ الَّذِیْ: وہ ہے جس نے ] [اَنْزَلَ : اتاری ] [عَلَیْکَ : آپؐ پر ] [الْکِتٰبَ : یہ کتاب ] [مِنْہُ : اس میں ہیں ] [اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ : پختہ کی ہوئی (یعنی واضح) آیات ] [ہُنَّ : یہ سب ] [اُمُّ الْکِتٰبِ : اس کتاب کی اصل ہیں] [وَاُخَرُ : اور دوسری ] [مُتَشٰبِہٰتٌ : باہم ملنے جلنے والی (یعنی غیر واضح ) ہیں ] [فَاَمَّا الَّذِیْنَ : پس وہ جو ہیں ] [فِیْ قُلُوْبِہِمْ : جن کے دلوں میں ] [زَیْغٌ : کجی ہے ] [فَـیَتَّبِعُوْنَ : تو وہ لوگ پیچھا کرتے ہیں] [مَا : اس کا جو ] [تَشَابَہَ : باہم ملتا جلتا (یعنی غیر واضح) ہوا] [مِنْہُ : اس میں سے ] [ابْتِغَـآئَ الْفِتْنَۃِ : آزمائش کی جستجو کرتے ہوئے] [وَابْتِغَـآئَ تَاْوِیْلِہٖ : اور اس کی تعبیر کی جستجو کرتے ہوئے ] [وَمَا یَعْلَمُ : اور کوئی نہیں جانتا ] [تَاْوِیْلَہٗ : اس کی تعبیر کو] [اِلاَّ : سوائے

اللّٰہُ : اللہ کے ] [وَالرّٰسِخُوْنَ : اور جم جانے والے] [فِی الْْعِلْمِ : علم میں ] [یَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں ] [اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے ] [بِہٖ : اس پر ] [کُلٌّ : سب (کا سب) ] [مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا : ہمارے رب کے پاس سے (آیا) ہے] [وَمَا یَذَّکَّرُ : اور نصیحت نہیں حاصل کرتے] [اِلَّآ : مگر ] [اُولُوا الْاَلْبَابِ : تعصبات سے پاک عقل والے]

 

ر س خ

 رَسَخَ (ن) رُسُوْخًا : اپنی جگہ گڑ جانا‘ جم جانا۔

 رَاسِخٌ (اسم الفاعل) : گڑ جانے والا‘ جم جانے والا۔ آیت زیر مطالعہ۔

ز ی غ

 زَاغَ (ض) زَیْغًا : کسی چیز کی سیدھ یعنی صحیح سمت سے کسی ایک طرف مائل ہو جانا یا جھک جانا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے۔ (1) ٹیڑھا ہونا۔ (2) بہک جانا۔ {وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ} (الاحزاب:10) ’’ اور جب کج ہوئیں (یعنی پتھرا گئیں) آنکھیں۔‘‘{اَمْ زَاغَتْ عَنْھُمُ الْاَبْصَارُ ۔ } (صٓ) ’’ یا بہک گئیں ان سے آنکھیں۔‘‘

 زَیْغٌ (اسم ذات) : ٹیڑھ‘ کجی۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَزَاغَ (افعال) اِزَاغَۃً : ٹیڑھا کرنا‘ بہکانا۔ {فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْط} (الصّف:5) ’’ پھر جب وہ لوگ بہکے تو ٹیڑھا کیا اللہ نے ان کے دلوں کو۔‘‘

 ترکیب : ’’ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ مِنْہُ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔’’ ھُنَّ‘‘ مبتدأ ہے اور یہ ضمیر ’’ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اُمُّ الْکِتٰبِ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ اُمُّ‘‘ اسم جنس کے طور پر آیا ہے اس لیے یہ واحد لفظ جمع (ھُنَّ) کی خبر دے رہا ہے۔’’ اُخَرُ‘‘ جمع ہے ’’ اُخْرٰی‘‘ کی اور مبتدأ ہے۔ ’’ مُتَشٰبِھٰتٌ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ اِبْتِغَائَ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ‘‘ میں’’ مِنْہُ‘‘ کی ضمیر ’’ الْکِتٰبَ‘‘ کے لیے ہے۔ اگر ’’ اٰیٰت‘‘ کے لیے ہوتی تو ’’ مِنْھَا‘‘ آتا۔

نوٹ : محکم آیات سے مراد وہ آیات ہیں جن کے مفہوم میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ متشابہات وہ آیات ہیں جن کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے۔ قرآن مجید میں متشابہات کو جگہ دینے کی کیا وجہ ہے ‘ اس کو سمجھ لیں۔

 اس کائنات میں بےشمار حقائق ایسے ہیں جو ہمارے حواسِ خمسہ کے دائرے کے باہر ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو نہ ہم نے کبھی دیکھا ‘ نہ سنا‘ نہ سونگھا اور نہ ہی کبھی چھوا۔ اس وجہ سے ان چیزوں کے لیے کسی بھی انسانی زبان میں ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں جن کو استعمال کرنے سے ان کا حقیقی تصور ہمارے ذہن میں واضح ہو سکے۔ دوسری طرف انسانیت کی فلاح و بہبود کا تقاضا ہے کہ ایسے حقائق کے متعلق کم از کم ضروری معلومات انسان کو فراہم کی جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی معلوم چیزوں کے لیے انسانی زبان میں رائج ہیں۔ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً  ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ   Ď۝
[رَبَّـنَا : (اور وہ لوگ کہتے ہیں) اے ہمارے ربّ] [لاَ تُزِغْ : تو ٹیڑھا مت کر] [قُلُوْبَنَا : ہمارے دلوں کو ] [بَعْدَ اِذْ : اس کے بعد کہ جب ] [ہَدَیْتَنَا : تو نے ہدایت دی ہم کو ] [وَ : اور ] [ہَبْ : تو عطا کر ] [لَـنَا : ہم کو ] [مِنْ لَّدُنْکَ : اپنے خزانے سے ] [رَحْمَۃً : رحمت ] [اِنَّکَ : بےشک تو ] [اَنْتَ الْوَہَّابُ : ہی بےانتہا عطا کرنے والا ہے]

 

ل د ن

 لَدُنَ (ک) لَدَانَۃً : نرم ہونا۔

 لَدُنْ (یہ ظرفِ زمان اور ظرفِ مکان ہے) : (1) کسی کام کی ابتداء کا وقت۔ (2) کسی کے خزانے میں ‘ کسی کے پاس۔ آیت زیر مطالعہ۔

و ھـ ب

 وَھَبَ (ف) وَھْبًا اور ھِبَۃً : کسی استحقاق یا معاوضہ کے بغیر دینا‘ بخش دینا‘ عطا کرنا۔ {وَوَھَبْنَا لَـہٗ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَط} (الانعام:84) ’’ اور ہم نے عطا کیا ان کو اسحٰق ؑاور یعقوبؑ۔‘‘

 ھَبْ (فعل امر) : تو عطا کر۔ آیت زیر مطالعہ۔

 وَھَّابٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ) : بہت زیادہ اور بار بار عطا کرنے والا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ رَبَّـنَا‘‘ گزشتہ آیت میں ’’ یَقُوْلُوْنَ‘‘ پر عطف ہے۔ اس لیے اس سے پہلے ’’ وَیَقُوْلُوْنَ‘‘ محذوف مانا جائے گا جس کی ضمیر فاعلی ’’ ھُمْ‘ اَلرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اَلْوَھَّابُ‘‘ سے پہلے ’’ اَنْتَ‘‘ ضمیر فاصل ہے۔ ’’ لِیَوْمٍ‘‘ نکرہ مخصوصہ ہے۔ رَبَّنَآ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ    Ḍ۝ۧ
[رَبَّـنَـآ : (اور وہ کہتے ہیں) اے ہمارے ربّ] [اِنَّکَ : یقینا تو ] [جَامِعُ النَّاسِ : لوگوں کو جمع کرنے والا ہے] [لِیَوْمٍ : ایک ایسے دن کے لیے ] [لاَّ رَیْبَ : کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے ] [فِیْہِ : جس میں ] [اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ ] [لاَ یُخْلِفُ : خلاف نہیں کرتا ] [الْمِیْعَادَ : وعدے کے ] اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِىَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآ اَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَـيْـــــًٔـا  وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمْ وَقُوْدُ النَّارِ 10۝ۙ
[اِنَّ الَّذِیْنَ : یقینا وہ لوگ جنہوں نے ] [کَفَرُوْا : کفر کیا ] [لَنْ تُغْنِیَ : ہرگز کفایت نہ کریں گے] [عَنْہُمْ : ان کو ] [اَمْوَالُہُمْ : ان کے مال ] [وَلَآ اَوْلاَدُہُمْ : اور نہ ہی ان کی اولادیں] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ سے ] [شَیْئًا : کچھ بھی ] [وَاُولٰٓئِکَ : اور وہ لوگ ] [ہُمْ : وہی] [وَقُوْدُ النَّارِ : آگ کا ایندھن ہیں] كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا  ۚ فَاَخَذَھُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ وَاللّٰهُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ      11؀
[کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون کے پیروکاروں کی عادت کے مطابق] [وَالَّذِیْنَ : اور ان لوگوں کی جو] [مِنْ قَبْلِہِمْ : ان سے پہلے تھے ] [کَذَّبُوْا : (کہ) انہوں نے جھٹلایا] [بِاٰیٰـتِنَا : ہماری نشانیوں کو] [فَاَخَذَ : تو پکڑا] [ہُمُ : ان کو ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [بِذُنُوْبِہِمْ : ان کے گناہوں کے سبب سے] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [شَدِیْدُ الْعِقَابِ : سخت گرفت کرنے والا ہے]

د ء ب

 دَأَبَ (ف) دَأْبًا : کسی کام کو لگاتار کرنا‘ کسی راستے پر مسلسل چلنا۔

 دَأْبٌ (اسم ذات بھی ہے) : عادت‘ دستور۔ آیت زیر مطالعہ۔

 دَأْبٌ : لگاتار‘ مسلسل۔{تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًاج} (یوسف:47) ’’ تم لوگ کھیتی کرو گے سات سال لگاتار۔‘‘

 دَائِبٌ (اسم الفاعل) : لگاتار کرنے والا‘ مسلسل چلنے والا۔ {وَسَخَّرَلَـکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِج} (ابرٰھیم:33) ’’ اور اس نے مسخر کیا تمہارے لیے سورج کو اور چاند کو مسلسل چلنے والا ہوتے ہوئے۔‘‘

ذ ن ب

 ذَنَبَ (ض۔ ن) ذَنْبًا : کسی کی دُم پر پیر رکھنا‘ ایسا کام کرنا جس کا برا نتیجہ نکلے۔

 ذَنْبٌ ج ذُنُوْبٌ : جرم‘ گناہ۔ {غَافِرِ الذَّنْبِم وَقَابِلِ التَّوْبِ} (المؤمن:3) ’’ گناہ کو بخشنے والا اور توبہ کو قبول کرنے والا۔‘‘

 ذَنُوْبٌ (فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ) : بھیانک انجام‘ برا نتیجہ۔ {فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا} (الذٰرٰیت:59) ’’ پس یقینا ان لوگوں کے لیے جنہوں نے ظلم کیا ایک بھیانک انجام ہے‘‘

 ترکیب : ’’ لَنْ تُغْنِیَ‘‘ کا فاعل ’’ اَمْوَالُـھُمْ‘‘ اور ’’ اَوْلَادُھُمْ‘‘ ہیں۔ یہ جمع مکسر ہیں اس لیے فعل واحد مونث آیا ہے۔ ’’ اُولٰٓئِکَ‘‘ کے بعد ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر فاصل ہے۔ ’’ کَدَاْبِ‘‘ سے ’’ بِاٰیٰتِنَا‘‘ تک ’’ کَفَرُوْا‘‘ کا بدل یعنی وضاحت ہے۔ اسی طرح ’’ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا‘‘ پورا جملہ ’’ کَدَاْبِ‘‘ کا بدل ہے۔ ’’ بِذُنُوْبِھِمْ‘‘ کا ’’ بَا‘‘ سببیہ ہے۔ قُلْ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَـتُغْلَبُوْنَ وَتُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ ۭ وَبِئْسَ الْمِهَادُ     12؀
[قُلْ : آپ ‘ کہہ دیجیے] [لِّلَّذِیْنَ : ان لوگوں سے جنہوں نے] [کَفَرُوْا : کفر کیا ] [سَتُغْلَبُوْنَ : تم لوگ مغلوب ہو گے] [وَتُحْشَرُوْنَ : اور تم لوگ اکٹھا کیا جائوگے] [اِلٰی جَہَنَّمَ : جہنم کی طرف ] [وَبِئْسَ الْمِہَادُ : اور کتنا برا ٹھکانہ ہے (وہ) ] قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰيَةٌ فِيْ فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا  ۭ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَاُخْرٰى كَافِرَةٌ يَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَيْهِمْ رَاْيَ الْعَيْنِ ۭ وَاللّٰهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ  13؀
[قَدْ کَانَ : ہو چکی ہے ] [لَــکُمْ : تمہارے لیے ] [اٰیَۃٌ : ایک نشانی ] [فِیْ فِئَتَیْنِ : دو جماعتوں میں جو] [الْـتَقَتَا : آمنے سامنے ہوئیں] [فِئَۃٌ : ایک جماعت ] [تُـقَاتِلُ : قتال کرتی ہے ] [فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [وَاُخْرٰی : اور دوسری ] [کَافِرَۃٌ : کافر ہے ] [یَّرَوْنَہُمْ : وہ لوگ سمجھتے ہیں ان کو ] [مِّثْلَیْہِمْ : اپنے کی دو مثالیں (یعنی دوگنا) ] [رَاْیَ الْعَیْنِ : آنکھوں کا دیکھنا (یعنی آنکھوں دیکھے) ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [یُؤَیِّدُ : تائید کرتا ہے ] [بِنَصْرِہٖ : اپنی مدد سے ] [مَنْ : اس کی جسے ] [یَّشَآئُ : وہ چاہتاہے ] [اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ : بےشک اس میں ] [لَعِبْرَۃً : ایک عبرت ہے ] [لِّاُولِی الْاَبْصَارِ: بصیرت والوں کے لیے]

 

ع ب ر

 عَبَرَ (ن) عَبْرًا : کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جانا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے۔ (1) کسی وادی یا دریا کو پار کرنا‘ عبور کرنا۔ (2) کسی واقعہ کو دیکھ کر ان دیکھے نتیجہ تک پہنچ جانا‘ نصیحت حاصل کرنا‘ عبرت پکڑنا۔ (3) خواب سن کر اس کی حقیقت تک پہنچ جانا‘ تعبیر بتانا۔ {اِنْ کُنْتُمْ لِلرُّئْ یَا تَعْبُرُوْنَ ۔ } (یوسف) ’’ اگر تم لوگ خواب کی تعبیر بتاتے ہو۔‘‘

 عِبْرَۃٌ (اسم ذات) : نصیحت‘ عبرت۔ آیت زیر مطالعہ۔

 عَبَرَ (ف) عَبْرًا : کسی جگہ سے گزرجانا‘ سفر کرنا۔

 عَابِرٌ (فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل) : گزرنے والا‘ سفر کرنے والا۔ {اِلاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ} (النسائ:43) ’’ سوائے اس کے کہ کسی راستے کا گزرنے والا۔‘‘

 اِعْتَـبَرَ (افتعال) اِعْتِبَارًا : اہتمام سے عبرت پکڑنا۔

 اِعْتَـبِرْ (فعل امر) : تو عبرت پکڑ۔ {فَاعْتَبِرُوْا یٰـاُولِی الْاَبْصَارِ ۔ } (الحشر) ’’ پس تم لوگ عبرت پکڑو ‘ اے بصیرت والو۔‘‘

 ترکیب : ’’ کَانَ‘‘ کا اسم ’’ اٰیَۃٌ‘‘ مؤنث غیرحقیقی ہے اس لیے ’’ کَانَتْ‘‘ کے بجائے ’’ کَانَ‘‘ بھی جائز ہے۔ ’’ فِئَتَـیْنِ‘‘ نکرہ موصوفہ ہے اور’’ اِلْتَقَتَا‘‘ اس کی صفت ہے۔ اس کا مادہ ل ق ی ہے اور یہ بابِ افتعال کے ماضی کا تثنیہ مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ ’’ یَرَوْنَ‘‘ کا فاعل اس میں شامل ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جبکہ اس کے آگے ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مفعولی ہے۔ ان کے مراجع کے متعدد امکانات ہیں۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ ضمیر فاعلی کافروں کے لیے اور ضمیر مفعولی مسلمانوں کے لیے مانی جائے۔

 ’’ مِثْلٌ‘‘ کا تثنیہ ’’ مِثْلَانِ‘ یَرَوْنَ‘‘ کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہو کر ’’ مِثْلَیْنِ‘‘ تھا۔ پھر مضاف ہونے کی وجہ سے نون گراتو ’’ مِثْلَیْھِمْ‘‘ آیا۔ ’’ رَاْیَ الْعَیْنِ‘‘ مرکب اضافی ہے اور مفعول مطلق ہے ‘ اس لیے ’’ رَاْیـًا‘‘ آیا پھر مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ختم ہوئی تو ’’ رَاْیَ‘‘ استعمال ہوا۔ ’’ لَعِبْرَۃً‘‘ اِنَّ‘‘ کا اسم ہے۔ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا  ۚ وَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ    14؀
[ زُیِّنَ : سجایا گیا ] [لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے ] [حُبُّ الشَّہَوٰتِ : آرزئوں کی محبت کو] [مِنَ النِّسَآئِ : جیسے عورتوں کی ] [وَالْبَنِیْنَ : اور بیٹوں کی] [وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ : اور جمع کیے ہوئے ڈھیروں (کی محبت کو) ] [مِنَ الذَّہَبِ : جیسے سونے کی ] [وَالْفِضَّۃِ : اور چاندی کی ] [وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ : اور نشان زدہ گھوڑوں کی] [وَالْاَنْعَامِ : اور مویشیوں کی] [وَالْحَرْثِ : اور کھیتی کی] [ذٰلِکَ : یہ] [مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا : دنیوی زندگی کا سامان ہے] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [عِنْدَہٗ : اس کے پاس ہی ] [حُسْنُ الْمَاٰبِ : اچھا ٹھکانہ ہے ]

 

ش ھـ و

 شَھَا (ن) شَھْوَۃً : دل میں کسی چیز کو حاصل کرنے کی طلب پیدا ہونا‘ آرزو کرنا‘ خواہش کرنا‘ چاہنا۔

 شَھْوَۃٌ ج شَھَوٰتٌ (اسم ذات بھی ہے) : آرزو‘ خواہش‘ چاہت۔ {اِنَّـکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَۃً} (الاعراف:81) ’’ بے شک تم لوگ آتے ہو مردوں کے پاس خواہش کرتے ہوئے۔‘‘

 اِشْتَھَا (افتعال) اِشْتِھَائً : اہتمام سے خواہش کرنا‘ چاہنا۔ {وَلَـکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْ اَنْفُسُکُمْ} (حٰم السجدۃ:31) ’’ اور تمہارے لیے ہے اس میں وہ‘ جو تمہارا جی چاہے گا۔‘‘

ق ن ط ر

 قَنْطَرَ (رباعی) قَنْطَرَۃً : کوئی چیز بہت زیادہ مقدار میں جمع کرنا۔

 مُقَنْطَرَۃٌ (اسم المفعول) : جمع کیا ہوا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 قِنْطَارٌ ج قَنَاطِیْرُ : ایک وزن کا نام ہے جس کی مقدار بدلتی رہتی ہے۔ اصطلاحاً کسی چیز کے ڈھیر کے لیے آتا ہے۔ {اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَـیْکَج} (آل عمران:75) ’’ اگر تو بھروسہ کرے اس پر کسی ڈھیر کے بارے میں تو وہ لوٹا دے گا اس کو تیری طرف۔‘‘

ف ض ض

 فَضَّ (ن) فَضًّا : کسی چیز کو توڑ کر منتشر کرنا۔

 فِضَّۃٌ (اسم ذات) : (1) ایسی زمین جہاں پتھر ایک دوسرے پر بکھرے ہوں۔ (2) چاندی۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِنْفَضَّ (انفعال) اِنْفِضَاضًا : ٹوٹنا‘ منتشر ہونا۔ {لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْاط} (المُنٰفقون:7) ’’ تم لوگ خرچ مت کرو ان پر جو اللہ کے رسولؐ کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ لوگ منتشر ہو جائیں۔‘‘

خ ی ل

 خَالَ (ف) خَیْلًا : ذہن میں کسی چیز کی تصویر بنانا‘ تصور کرنا‘ سمجھنا‘ خیال کرنا۔

 خَیْلٌ (اسم ذات) : گھوڑے سوار (کیونکہ وہ خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے) ۔ پھر گھوڑے اور سوار دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ اسم جمع ہے اور اس کی جمع بھی آتی ہے۔ {وَاَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ} (بنی اسرائیل :64) ’’ اور چڑھا لا ان پر اپنے سواروں کو اور اپنے پیادوں کو۔‘‘

 خَیَّلَ (تفعیل) تَخْیِیْلاً : دوسروں کے ذہن میں کوئی تصور قائم کرنا‘ تصور دینا۔ {فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی ۔ } (طٰــہٰ) ’’ پھر جب ان کی رسیوں اور ان کی لاٹھیوں کا تصور دیا گیا اس کو ان کے جادو سے کہ وہ دوڑتی ہیں۔‘‘

 اِخْتَالَ (افتعال) اِخْتِیَالًا : خود کو برتر تصور کرنا‘ تکبر کرنا‘ اترانا۔

 مُخْتَالًا (اسم الفاعل) : اترانے والا۔ {وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ۔ } (الحدید) ’’ اور اللہ پسند نہیں کرتا کسی بھی اترانے والے فخر کرنے والے کو۔‘‘

ء و ب

 ئَ ا بَ (ن) اَوْبًا : واپس ہونا‘ لوٹنا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی طرف واپس ہونے اور رجوع کرنے کے لیے آیا ہے۔

 اِیَابٌ (اسم فعل) : واپسی۔{اِنَّ اِلَـیْنَــآ اِیَابَھُمْ ۔ } (الغاشیۃ) ’’ یقینا ہماری طرف ہی ان کی واپسی ہے۔‘‘

 اَوَّابٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ) : بار بار رجوع کرنے والا۔ {فَاِنَّـہٗ کَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا ۔ } (بنی اسرائیل ) ’’ تو بےشک وہ بار بار رجوع کرنے والوں کے لیے بےانتہا بخشنے والا ہے۔‘‘

 مَاٰبٌ (مَفْعَلٌ کے وزن پر اسم الظرف) : واپس ہونے کی جگہ‘ ٹھکانہ۔ آیت زیرمطالعہ۔

 اَوَّبَ (تفعیل) تَاْوِیْبًا : کسی کے ساتھ واپس ہونا‘ کسی کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرنا‘ ہم قدمی کرنا‘ ہم نوائی کرنا۔

 اَوِّبْ (فعل امر) : تو ہم نوائی کر۔ {یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ} (سبا:10) ’’ اے پہاڑو! تم ہم نوائی کرو اس کے ساتھ۔‘‘

 ترکیب : ’’ زُیِّنَ‘‘ کا نائب فاعل ’’ حُبُّ الشَّھَوٰتِ‘‘ ہے۔ ’’ مِنَ النِّسَائِ‘‘ کا ’’ مِنْ‘‘ بیانیہ ہے۔ ’’ اَلْقَنَاطِیْرِ‘‘ کا مضاف ’’ حُبُّ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ مِنَ الذَّھَبِ‘‘ کا ’’ مِنْ‘‘ بھی بیانیہ ہے۔ قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ ۭ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ  ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ    15؀ۚ
[قُلْ : آپؐ کہیے ] [اَؤُنَــبِّئُکُمْ : کیا مَیں خبر دوں تم لوگوں کو] [بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ : اس سے زیادہ بہتر (چیز ) کی ] [لِلَّذِیْنَ : ان لوگوں کے لیے جنہوں نے] [اتَّقَوْا : تقویٰ اختیار کیا ] [عِنْدَ رَبِّہِمْ : ان کے رب کے پاس] [جَنّٰتٌ : ایسے باغات ہیں] [تَجْرِیْ : بہتی ہیں ] [مِنْ تَحْتِہَا : جن کے دامن میں ] [الْاَنْہٰرُ : نہریں ] [خٰلِدِیْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے] [فِیْہَا : ان میں ] [وَاَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ : اور پاک کیے ہوئے جوڑے ہیں] [وَّرِضْوَانٌ : اور خوشنودی ہے] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [بَصِیْرٌ : دیکھنے والا ہے ] [بِالْعِبَادِ : بندوں کو ]

ترکیب :’’ بِخَیْرٍ‘‘ تفضیل بعض ہے۔ ’’ ذٰلِکُمْ‘‘ دراصل ’’ ذٰلِکَ‘‘ ہے ‘ صرف واحد ضمیر ’’ کَ‘‘ کے بجائے جمع کی ضمیر ’’ کُمْ‘‘ آئی ہے‘ معنی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ’’ لِلَّذِیْنَ اتَّـقَوْا‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ جَنّٰتٌ ‘ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ‘‘ اور ’’ رِضْوَانٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہیں۔ ’’ خٰلِدِیْنَ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔

 ’’ اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ‘‘ گزشتہ آیت میں ’’ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا‘‘ کا بدل ہے۔ اسی طرح ’’ اَلصّٰبِرِیْنَ‘‘ سے ’’ اَلْمُسْتَغْفِرِیْنَ‘‘ تک ’’ لِلَّذِیْنَ‘‘ کا بدل ہونے کی وجہ سے مجرور ہیں۔ اَلَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ  اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ  16؀ۚ
[اَلَّذِیْنَ : جو لوگ ] [یَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں ] [رَبَّـنَـآ : اے ہمارے ربّ] [اِنَّــنَــآ اٰمَنَّا : بےشک ہم ایمان لائے] [فَاغْفِرْ : پس تو بخش دے] [لَـنَا : ہمارے لیے ] [ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہوں کو] [وَ : اور ] [قِنَا : تو بچا ہم کو ] [عَذَابَ النَّارِ: آگ کے عذاب سے] اَلصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالْقٰنِـتِيْنَ وَالْمُنْفِقِيْنَ وَالْمُسْـتَغْفِرِيْنَ بِالْاَسْحَارِ  17؀
[اَلصّٰبِرِیْنَ : (جو لوگ رہے) ثابت قدم رہنے والے ] [وَالصّٰدِقِیْنَ : اور سچ کرنے والے ] [وَالْقٰنِتِیْنَ: اور فرماں برداری کرنے والے] [وَالْمُنْفِقِیْنَ : اور انفاق کرنے والے ] [وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ: اور مغفرت مانگنے والے] [بِالْاَسْحَارِ : سویرے سویرے شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ   18؀ۭ
[شَہِدَ : گواہی دی ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [اَنَّــہٗ لَآ اِلٰــہَ : کہ کسی قسم کا کوئی الٰہ نہیں ہے] [اِلاَّ : سوائے ] [ہُوَ : اس کے ‘] [وَالْمَلٰٓئِکَۃُ : اور فرشتوں نے ] [وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور علم والوں نے‘] [قَــآئِمًا : نگرانی کرنے والا ہوتے ہوئے] [بِالْقِسْطِ : حق کی ] [لَآ اِلٰــہَ : کسی قسم کا کوئی الٰہ نہیں ہے ] [اِلاَّ : سوائے ] [ہُوَ : اس کے ] [الْعَزِیْزُ : جو بالادست ہے] [الْحَکِیْمُ : حکمت والا ہے ]

 

ترکیب :’’ شَھِدَ‘‘ کے فاعل ’’ اَللّٰہُ ‘ اَلْمَلٰٓئِکَۃُ‘‘ اور ’’ اُولُوا الْعِلْمِ‘‘ ہیں۔ ’’ اِلاَّ ھُوَ‘‘ کا حال ہونے کی وجہ سے ’’ قَائِمًا‘‘ منصوب ہے۔ ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم’’ الدِّیْنَ‘‘ ہے اور ’’ اَلْاِسْلَامُ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ بَغْیًا‘‘ حال ہے۔

نوٹ : عدل اور قسط کا ترجمہ انصاف کیا جاتا ہے جو کہ درست ہے۔ لیکن ان تینوں الفاظ کے بنیادی مفہوم میں جو فرق ہے وہ ذہن میں واضح ہونا چاہیے۔

 مادہ ’’ ن ص ف‘‘ سے بابِ افعال کا مصدر ہے’’ اِنْصَافٌ‘‘۔ اس کا بنیادی مفہوم ہے آدھا کرنا۔ کسی چیز کو برابر یعنی مساوی حصوں میں تقسیم کرنا۔ عدل کا بنیادی مفہوم ہے کسی چیز کو وزن یا رتبہ کے لحاظ سے کسی دوسری چیز کے برابر کرنا یعنی ہم پلہ کرنا۔ اس طرح عدل میں بدلہ دینے کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ‘ یعنی کسی چیز کے عوض اس کے ہم پلہ کوئی دوسری چیز دینا۔ جبکہ قسط‘ میں بنیادی مفہوم ہے کسی چیز کا کسی کے حق کے مطابق ہونا۔ اب ایک مثال کی مدد سے اس کو مزید سمجھ لیں۔

 اکبر ایک مزدور ہے اور اس کے زیر کفالت دس افراد ہیں۔ اصغر بھی ایک مزدور ہے اور اس کے زیر کفالت پانچ افراد ہیں۔ میرے پاس پندرہ سو روپے زکوٰۃ ہے جو مَیں دونوں میں 750۔750 تقسیم کر دیتا ہوں۔ یہ مساوات ہے‘ انصاف ہے ‘ لیکن اِقساط نہیں ہے۔ اگر میں ایک ہزار اکبر کو اور پانچ سو اصغر کو دوں تو یہ مساوات یا انصاف تو نہیں ہے لیکن اِقساط ہے۔

 اب ایک عام قاری کے لیے تو خیر ہے ہی لیکن ’’ اسلامی سوشلزم‘‘ کے علمبرداروں کے لیے یہ ایک خصوصی لمحۂ فکریہ ہے کہ قرآن مجید میں عدل اور قسط کے الفاظ تو استعمال ہوئے ہیں ‘ ثلاثی مجرد سے لفظ ’’ نِصْفٌ‘‘ (آدھا) بھی آیا ہے ‘ لیکن پورے قرآن مجید میں کسی ایک جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے انصاف کا لفظ استعمال نہیں کیا۔{اَفَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَط}’’ تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟‘‘ (النسائ:82)

 قسط کا مفہوم اگر سمجھ میں آگیا ہے تو اب آیت زیرِ مطالعہ میں ’’ قَائِمًا بِالْقِسْطِ‘‘ کا مفہوم ذہن میں واضح کرلیں کہ اللہ تعالیٰ قسط کی نگرانی کرنے والا ہے۔ اور اس سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ کس کا کس وقت کیا حق ہے! اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ۣ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ     19؀
[اِنَّ : یقینا ] [الدِّیْنَ : دین ] [عِنْدَ اللّٰہِ : اللہ کے ہاں ] [الْاِسْلاَمُ : اسلام ہی ہے ] [وَمَا اخْتَلَفَ : اور اختلاف نہیں کیا] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں نے جن کو ] [اُوْتُوا : دی گئی ] [الْکِتٰبَ : کتاب‘] [اِلاَّ : مگر ] [مِنْم بَعْدِ مَا : اس کے بعد جو ] [جَآئَ : آیا ] [ہُمُ : ان کے پاس ] [الْعِلْمُ : علم‘] [بَغْیًا : سرکشی کرتے ہوئے ] [بَیْنَہُمْ : آپس میں ] [وَمَنْ یَّـکْفُرْ : اور جو انکار کرتا ہے] [بِاٰیٰتِ اللّٰہِ : اللہ کی آیات کا ] [فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [سَرِیْعُ الْحِسَابِ : حساب لینے میں تیز ہے] فَاِنْ حَاۗجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلّٰهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ۭ وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ  ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا  ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ  ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ   20؀ۧ
[فَاِنْ : پھر اگر ] [حَآجُّوْکَ : وہ لوگ دلیل بازی کریں آپؐ سے ] [فَقُلْ : تو آپؐ کہہ دیں] [اَسْلَمْتُ : میں نے فرماں ] [بردارکیا] [وَجْہِیَ : اپنے چہرے کو ] [لِلّٰہِ : اللہ کا ] [وَمَنِ : اور اس نے جس نے ] [اتَّــبَـعَنِ : میری پیروی کی ] [وَقُلْ : اور آپ کہہ دیں] [لِّلَّذِیْنَ : ان سے جن کو ] [اُوْتُوا : دی گئی ] [الْکِتٰبَ : کتاب ] [وَالْاُمِّیّٖنَ : اور اَن پڑھ لوگوں سے ] [ئَ : کیا] [ اَسْلَمْتُمْ : تم لوگوں نے فرماں برداری قبول کی ] [فَاِنْ : پھر اگر ] [اَسْلَمُوْا : وہ لوگ فرماں برداری قبول کرلیں ] [فَقَدِ اہْتَدَوْا : تو انہوں نے ہدایت پالی ] [وَاِنْ : اور اگر ] [تَوَلَّوْا : وہ لوگ بےرخی کریں ] [فَاِنَّمَا : تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] [عَلَیْکَ : آپؐ پر ہے ] [الْبَلٰغُ : پہنچا دینا ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [بَصِیْرٌ : دیکھنے والا ہے ] [بِالْعِبَادِ : بندوں کو ]

 

ترکیب : ’’ وَمَنِ اتَّـبَعَنِ‘‘ میں ’’ مَنْ‘‘ کا عطف ہے ’’ اَسْلَمْتُ‘‘ پر اور فاعل ثانی ہے۔ ’’ اِتَّـبَعَنِ‘‘ میں نون کی جرّبتا رہی ہے کہ یہاں یائے متکلم محذوف ہے۔ ’’ قُلْ‘‘ کا ایک مفعول ’’ لِلَّذِیْنَ‘‘ ہے اور دوسرا مفعول’’ اَلْاُمِّیّٖنَ‘‘ ہے جو کہ ’’ لِلَّذِیْنَ‘‘ کی ’’ لِ‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے مجرور ہے۔ ’’ اَلْبَلٰغُ‘‘ مبتدأ مؤخر ہے۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۙ وَّيَقْتُلُوْنَ الَّذِيْنَ يَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ   21؀
[اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک وہ لوگ جو ] [یَکْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں] [بِاٰیٰتِ اللّٰہِ : اللہ کی آیات کا ] [وَیَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں] [النَّبِیّٖنَ : نبیوں کو] [بِغَیْرِ حَقٍّ : کسی حق کے بغیر] [وَّیَـقْتُلُوْنَ : اور وہ لوگ قتل کرتے ہیں] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کو جو] [یَاْمُرُوْنَ : ترغیب دیتے ہیں] [بِالْقِسْطِ : حق کے مطابق ہونے کی ] [مِنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے] [فَـبَشِّرْ: تو آپؐ بشارت دے دیجیے] [ہُم : ان کو ] [بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ: ایک دردناک عذاب کی] اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ  ۡ وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ   22؀
[اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ : یہ وہ لوگ ہیں] [حَبِطَتْ : اکارت ہوئے ] [اَعْمَالُہُمْ : جن کے اعمال ] [فِی الدُّنْیَا : دنیا میں] [وَالْاٰخِرَۃِ : اور آخرت میں] [ وَمَا لَہُمْ : اور ان کے لیے نہیں ہے] [مِّنْ نّٰصِرِیْنَ : کوئی بھی مدد کرنے والا] اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللّٰهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ وَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ  23؀
[اَلَمْ تَرَ : کیا تو نے غور ہی نہیں کیا ] [اِلَی الَّذِیْنَ : ان (کی حالت) کی طرف جن کو ] [اُوْتُوْا : دیا گیا ] [نَصِیْبًا : ایک حصہ ] [مِّنَ الْکِتٰبِ : کتاب سے ] [یُدْعَوْنَ : (جب) وہ لوگ بلائے جاتے ہیں] [اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ : اللہ کی کتاب کی طرف ] [لِیَحْکُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کرے ] [بَیْنَہُمْ : ان کے مابین ] [ثُمَّ : پھر ] [یَتَوَلّٰی : بے رُخی کرتا ہے ] [فَرِیْقٌ : ایک فریق ] [مِّنْہُمْ : ان میں سے ] [وَہُمْ : اور وہ لوگ ] [مُّعْرِضُوْنَ : اعراض کرنے والے ہیں]

 

غ ر ر

 غَـرَّ (ن) غَرًّا : دھوکا دینا‘ فریب دینا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 غُرُوْرٌ (فُعُوْلٌ کے وزن پر جمع) : دھوکے۔ {وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ۔ } (آل عمران) ’’ اور نہیں ہے دنیوی زندگی مگر فریبوں کا سامان۔‘‘

 غَرُوْرٌ (فَـعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ) : بےانتہا دھوکا دینے والا۔ {وَغَرَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ ۔ } (الحدید) ’’ اور تم کو دھوکا دیا اللہ کے بارے میں اس انتہائی دھوکے باز نے۔‘‘

ف ر ی

 فَرٰی (ض) فَرْیًا : (1) کاٹنا‘ چیرنا۔ (2) غلط یا بےبنیاد بات کہنا۔

 فَرِیَ (س) فَرًی : دہشت زدہ ہونا‘ متحیر ہونا۔

 فَرِیٌّ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : دہشت زدہ کرنے والی چیز‘ حیران کن۔ {لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا ۔ } (مریم) ’’ بے شک تو آئی ہے ایک حیران کن چیز کے ساتھ۔‘‘

 اِفْتَرٰی (افتعال) اِفْتِرَائً : اہتمام سے بےبنیاد بات کہنا‘ بات گھڑنا۔ {وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا} (الانعام:21) ’’ اور کون اس سے زیادہ ظالم ہے جس نے گھڑا اللہ پر ایک جھوٹ؟‘‘

 مُفْتَرٍ (اسم الفاعل) : گھڑنے والا۔ {اِنَّمَا اَنْتَ مُفْتَرٍط} (النحل:101) ’’ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ تو گھڑنے والا ہے۔‘‘

 مُفْتَرًی (اسم المفعول) : گھڑا ہوا۔ {مَا ھٰذَا اِلاَّ اِفْکٌ مُّفْتَرًیط} (سبا:43) ’’ یہ نہیں ہے مگر ایک گھڑا ہوا بہتان۔‘‘

 ترکیب:’’ لِیَحْکُمَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ کِتٰبِ اللّٰہِ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ‘‘ میں ’’ ذٰلِکَ‘‘ کا اشارہ ’’ یَتَوَلّٰی‘‘ اور ’’ مُعْرِضُوْنَ‘‘ کی طرف ہے۔ ’’ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘ ظرف ہے۔ ’’ غَرَّ‘‘ کے آگے ’’ ھُمْ‘‘ ضمیر مفعولی ہے اور اس کا فاعل ’’ مَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ‘‘ ہے۔ ’’ وُفِّیَتْ‘‘ کا نائب فاعل ’’ کُلُّ نَفْسٍ‘‘ ہے اور مفعول ثانی ’’ مَا کَسَبَتْ‘‘ ہے۔ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّنَا النَّارُ اِلَّآ  اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ  ۠ وَغَرَّھُمْ فِيْ دِيْــنِهِمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ   24؀
[ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ : یہ اس سبب سے کہ انہوں نے ] [قَالُوْا : کہا ] [لَنْ تَمَسَّنَا : ہرگز نہیں چھوئے گی ہم کو] [النَّارُ : آگ ] [اِلَّآ : مگر ] [اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ : چند گنے ہوئے دن ] [وَّغَرَّ : اور دھوکا دیا] [ہُمْ : ان کو ] [فِیْ دِیْنِہِمْ : ان کے دین میں مَّا : اس نے جو ] [کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ : وہ لوگ گھڑا کرتے تھے]

نوٹ : لفظ’’ یَفْتَرُوْنَ‘‘ کے متعلق ایک بات نوٹ کر لیں۔ مادہ ’’ ف ر ی‘‘ سے بابِ افتعال میں یہ جمع مذکر غائب کا صیغہ اصلاً ’’ یَفْتَرِیُوْنَ‘‘ تھا جو قاعدے کے مطابق تبدیل ہو کر ’’ یَفْتَرُوْنَ‘‘ استعمال ہوتا ہے اور یہ قرآن مجید میں 17 مقامات پر آیا ہے۔ جبکہ مادہ ’’ ف ت ر‘‘ (ن) سے ثلاثی مجرد میں جمع مذکر غائب کا صیغہ ’’ یَفْتُرُوْنَ‘‘ آتا ہے جس کے معنی ہیں تھکنا اور یہ قرآن مجید میں صرف ایک جگہ (الانبیائ:20) آیا ہے۔ ان دونوں میں فرق ’’ تا‘‘ کی فتحہ اور ضمہ سے کیا جاتا ہے۔ اس فرق کو ذہن نشین کر لیں۔ فَكَيْفَ اِذَا جَمَعْنٰھُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِ    ۣ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ   25؀
[فَکَیْفَ : تو کیسا ہو گا] [اِذَا : جب ] [جَمَعْنٰہُمْ : ہم جمع کریں گے ان کو ] [لِیَوْمٍ : ایک ایسے دن کے لیے ] [لاَّ رَیْبَ : کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے] [فِیْہِ : جس میں] [ وَوُفِّیَتْ : اور پور اپورا دیا جائے گا ] [کُلُّ نَفْسٍ : ہر ایک جان کو ] [مَّا : وہ ‘ جو ] [کَسَبَتْ : اس نے کمایا] [وَہُمْ : اور ان پر ] [لاَ یُظْلَمُوْنَ : ظلم نہیں کیا جائے گا] قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ   ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ  ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ  ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ   26؀
[قُلِ : آپؐ کہیے ] [اللّٰہُمَّ : اے اللہ! ] [مٰلِکَ الْمُلْکِ : اے ملک کے مالک ] [تُؤْتِی : تو دیتا ہے ] [الْمُلْکَ : ملک ] [مَنْ : اس کو جسے ] [تَشَآئُ : تو چاہتا ہے ] [وَتَنْزِعُ : اور تو چھین لیتا ہے ] [الْمُلْکَ : ملک ] [مِمَّنْ : اس سے جس سے] [ تَشَآئُ : تو چاہتا ہے ] [وَتُعِزُّ : اور تو عزت دیتا ہے ] [مَنْ : اس کو جسے ] [تَشَآئُ : تو چاہتا ہے ] [وَتُذِلُّ : اور تو ذلت دیتا ہے ] [مَنْ : اس کو جسے ] [تَشَآئُ : تو چاہتا ہے ] [بِیَدِکَ : اور تیرے ہاتھ میں ] [الْخَیْرُ : کل خیر ہے ] [اِنَّکَ : یقینا تو ] [عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ : ہر چیز پر ] [قَدِیْرٌ : قدرت رکھنے والا ہے ]

 

ن ز ع

 نَزَعَ (ض) نَزْعًا : کسی چیز میں سے کوئی چیز کھینچ لینا‘ چھین لینا‘ اکھاڑنا۔ {وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ} (الاعراف:43) ’’ اور ہم نے کھینچا اس کو جو ان کے سینوں میں تھی کوئی بھی کدورت۔‘‘

 نَازِعٌ (اسم الفاعل) : کھینچنے والا۔ {وَالنّٰـزِعٰتِ غَرْقًا ۔ } (النّٰزعٰت) ’’ قسم ہے کھینچنے والوں کی غوطہ لگا کر۔‘‘

 نَزَّاعٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ) : بار بار کھینچنے والا۔ {نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی ۔ } (المعارج) ’’ بار بار کھینچنے والی کھال کو۔‘‘

 نَازَعَ (مفاعلہ) نِزَاعًا : باہم جھگڑنا۔ {فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ} (الحج:67) ’’ تو وہ لوگ ہرگز جھگڑا مت کریں آپؐ سے اس معاملہ میں۔‘‘

 تَنَازَعَ (تفاعل) تَنَازُعًا : باہم کھینچا تانی کرنا‘ اختلاف کرنا۔ {فَـتَنَازَعُوْا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ} (طٰہٰ:62) ’’ تو انہوں نے اختلاف کیا اپنے معاملہ میں آپس میں۔‘‘

و ل ج

 وَلَجَ (ض) وَلُوْجًا : کسی تنگ جگہ میں گھسنا‘ داخل ہونا۔ {حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِط} (الاعراف:40) ’’ یہاں تک کہ گھس جائے اونٹ سوئی کے ناکے میں۔‘‘

 وَلِیْجَۃٌ : (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے اور اس پر تائے مبالغہ ہے جیسے ’’ عَلَّامَۃٌ‘‘): دل کا بھیدی‘ رازداں۔{وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَا رَسُوْلِہٖ وَلَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃًط} (التوبۃ:16) ’’ اور انہوں نے بنایا ہی نہیں اللہ کے سوا اور نہ اس کے رسول کے سوا اور نہ مؤمنوں کے سوا کوئی دل کا بھیدی۔‘‘

 اَوْلَجَ (افعال) اِیْلَاجًا : گھسانا‘ داخل کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب :’’ اَللّٰھُمَّ‘‘ میں لفظ ’’ اَللّٰہُ‘‘ کے آگے حرفِ ندا ’’ مّ‘‘ (میم مشدّد) ہے۔ ’’ مٰلِکَ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ منادیٰ مضاف ہے اور ندائے ثانی ہے۔ ’’ مِمَّنْ‘‘ دراصل ’’ مِنْ مَنْ‘‘ ہے۔ ’’ اَلْخَیْرُ‘‘ مبتدأ مؤخر ہے اور اس پر لامِ جنس ہے۔

 نوٹ (1) : ترکیب میں بتایا گیا کہ ’’ اَللّٰھُمَّ‘‘ میں حرفِ ندا میم مشدّد لگا ہے‘ یعنی یہ دراصل ’’ الَلّٰہُ مَّ‘‘ ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں نوٹ کر لیں۔ اوّلاً یہ کہ حرف ’’ یَا‘‘ کی طرح میم مشدد (مّ) بھی ایک حرفِ نداہے۔ فرق یہ ہے کہ ’’ یَا‘‘ منادیٰ سے پہلے آتا ہے ‘ جبکہ میم مشدد منادیٰ کے بعد آتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ اسلام کے آغاز سے پہلے بھی عربی میں میم مشدد کا استعمال صرف اللہ تعالیٰ کو پکارنے کے لیے مخصوص تھا اور آج تک ہے۔

 نوٹ (2) : آیات زیرِ مطالعہ میں ’’ بِیَدِکَ الْخَیْرُ‘‘ کے الفاظ بہت توجہ طلب ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم سے کوئی چیز چھن جاتی ہے یا کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے جس میں ہم اپنی سبکی محسوس کرتے ہیں تو اس میں بھی ہمارے لیے کوئی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اگر کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسے ممکن ہے‘ تو اسے اس حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کیسے رات کو دن میں اور دن کو رات میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ کسی ایسی بات سے خیر برآمد کر دے جو ہماری محدود سمجھ کے مطابق نقصان دہ اور تکلیف دہ ہے۔ البتہ اس میں کچھ وقت لگتا ہے جیسے رات کو دن میں تبدیل ہونے میں لگتا ہے۔

 اکثر و بیشتر ہم لوگ اپنی منفی سوچ اور غلط ردّعمل کی وجہ سے خود کو اس آنے والے خیر سے محروم کر لیتے ہیں۔ جن کا دل اس حقیقت پر مطمئن ہوتا ہے کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اس کے ہاتھ میں کل خیر ہے‘ وہ لوگ وقت آنے پر اس کے خیر سے مستفید ہوتے ہیں۔ تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۡ وَتُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ ۡ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ   27؀
[تُوْلِـجُ : تو گھساتا ہے] [الَّـیْلَ : رات کو ] [فِی النَّہَارِ : دن میں ] [وَتُوْلِـجُ : اور تو گھساتا ہے] [النَّہَارَ : دن کو ] [فِی الَّـیْلِ : رات میں ] [وَتُخْرِجُ : اور تو نکالتا ہے] [الْحَیَّ : زندہ کو ] [مِنَ الْمَیِّتِ : مردہ سے ] [وَتُخْرِجُ : اور تو نکالتا ہے ] [الْمَیِّتَ : مردہ کو ] [مِنَ الْحَیِّ : زندہ سے ] [وَتَرْزُقُ : اور تو عطا کرتا ہے ] [مَنْ : اس کو جسے ] [تَشَآئُ : تو چاہتا ہے ] [بِغَیْرِ حِسَابٍ: کسی حساب کے بغیر] لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ  ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِيْ شَيْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً  ۭ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ  ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ 28 ؀
[لاَ یَتَّخِذِ : چاہیے کہ مت بنائیں] [الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن لوگ ] [الْکٰفِرِیْنَ : کافروں کو ] [اَوْلِیَـآئَ : کارساز ] [مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ : مؤمنوں کے علاوہ ] [وَمَنْ یَّفْعَلْ : اور جو کرے گا] [ذٰلِکَ : یہ ] [فَلَیْسَ : تو وہ نہیں ہے ] [مِنَ اللّٰہِ : اللہ (کے دین) سے ] [فِیْ شَیْئٍ : کسی چیز میں ] [اِلاَّ : سوائے اس کے ] [اَنْ : کہ ] [تَـتَّقُوْا : تم لوگ بچو ] [مِنْہُمْ : ان سے تُقٰٹۃً : جیسے بچنا چاہیے ] [وَیُحَذِّرُ : اور محتاط رہنے کی تلقین کرتا ہے] [کُمُ : تم لوگوں کو ] [اللّٰہُ : اللہ ] [نَفْسَہٗ : اس کے نفس (یعنی غضب) سے] [وَاِلَی اللّٰہِ : اور اللہ کی طرف ہی ] [الْمَصِیْرُ : لوٹنا ہے ]

 

ص د ر

 صَدَرَ (ن) صَدْرًا : (1) سینے میں درد ہونا۔ (2) واپس ہونا‘ پھرنا۔{یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًالا} (الزلزال:6) ’’ جس دن واپس ہونگے لوگ گروہ در گروہ۔‘‘

 صَدْرٌ ج صُدُوْرٌ : سینہ۔ {رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ ۔ } (طٰہٰ) ’’ اے میرے ربّ! تو کھول دے میرے لیے میرے سینے کو۔‘‘

 اَصْدَرَ (افعال) اِصْدَارًا : واپس کرنا‘ واپس لے جانا‘ یعنی پھیرنا۔ {لاَ نَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَائُ سکتہ} (القصص:23) ’’ ہم نہیں پلاتے یہاں تک کہ واپس لے جائیں چرواہے۔‘‘

ء م د

 اَمِدَ (س) اَمَدًا : غصہ ہونا (کسی چیز کے انجام کے پیشِ نظر) ۔

 اَمَدٌ : کسی چیز کی انتہا‘ مدت ۔ {اَمْ یَجْعَلُ لَـہٗ رَبِّیْ اَمَدًا ۔ } (الجن) ’’ یا مقرر کرے گا اس کے لیے میرا رب ایک مدت۔‘‘

 ترکیب : ’’ مِنَ اللّٰہِ‘‘ سے مراد ہے ’’ مِنْ دِیْنِ اللّٰہِ‘‘۔ ’’ اِلاَّ‘‘ کا استثناء ’’ لاَ یَتَّخِذْ‘‘ کے لیے ہے ۔ ’’ مِنْ خَیْرٍ‘‘ اور ’’ مِنْ سُوْئٍ‘‘ کا ’’ مِنْ‘‘ تبعیضیہ ہے۔ ’’ مُّحْضَرًا‘‘ حال ہے۔ ’’ تَوَدُّ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ کُلُّ نَفْسٍ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اَمَدًام بَعِیْدًا‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور ’’ اَنَّ‘‘ کا اسم ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔

نوٹ (1) : آیات زیر مطالعہ کے علاوہ بھی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر غیر مسلموں سے تعلقات کی ممانعت آئی ہے۔ اس حکم کا ایک استثناء آیات زیر مطالعہ میں اِلاَّ اَنْ تَـتَّـقُوْا کے الفاظ میں آیا ہے اور دوسرا استثناء سورۃ الممتحنۃکی آیت 8 میں ہے۔ اس مسئلہ پر مفتی محمد شفیع صاحب (رح)  نے معارف القرآن میں کافی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

 باہمی تعلقات میں ایک درجہ قلبی تعلق کا ہے‘ جس میں یہ چیزیں آتی ہیں: (i) مودّت: یعنی ایک دوسرے کے دل میں باہمی چاہت اور محبت کا رشتہ استوار کرنا (المجادلۃ:22) ۔ (ii) دوسرے کو اپنا ولیجہ یعنی دل کا بھیدی اور رازدار بنانا (التوبۃ:16) ۔ (iii) دوسرے کو اپنا ولی یعنی حمایتی اور کارساز بنانا اور ضرورت ہو تو اس کا احسان لینے میں تکلف نہ کرنا‘ (آیت زیر مطالعہ) ۔

 قلبی تعلق کے اس درجہ کے لیے ’’ موالات‘‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور اس درجہ کے تعلقات مؤمنوں کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ جائز نہیں ہیں۔

 تعلقات کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے‘ ان کا حق ادا کیا جائے اور حالات اجازت دیں تو ان پر احسان کیا جائے۔ اس کے لیے ’’ مواسات‘‘ کی اصطلاح ہے۔ اس درجہ‘ کے تعلقات مسلمانوں اور ذمی کافر کے علاوہ ایسے کافر کے ساتھ بھی جائز ہیں جس کی قوم مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہو۔ البتہ حربی کافر کے ساتھ اس درجہ کے تعلقات بھی جائز نہیں ہیں۔ (المُمتحنۃ:8)

 تعلقات کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ جن لوگوں سے رسمی میل ملاقات اور راہ و رسم ہو‘ ان کے ساتھ ہنس مکھ ہو اور خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اس کے لیے ’’ مدارات‘‘ کی اصطلاح ہے اور یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ اور آیت زیر مطالعہ میں اِلاَّ اَنْ تَـتَّـقُوْاسے یہی درجہ مراد ہے۔

 چوتھا درجہ یہ ہے کہ کسی کے ساتھ تجارت‘ ملازمت‘ اجرت‘ صنعت یا حرفت کا معاملہ کیا جائے۔ اس کے لیے ’’ معاملات‘‘ کی اصطلاح ہے اور یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام (رض) کا عمل اس بات کی سند ہے۔ البتہ حربی کافر کے ہاتھ اسلحہ فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ اَوْ تُبْدُوْهُ يَعْلَمْهُ اللّٰهُ   ۭوَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ  ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ   29؀
[قُلْ : آپؐ کہیے !] [اِنْ : اگر ] [تُخْفُوْا : تم لوگ چھپائو ] [مَا : اس کو جو ] [فِیْ صُدُوْرِکُمْ : تمہارے سینوں میں ہے] [اَوْ : یا ] [تُبْدُوْہُ : تم لوگ ظاہر کرو اس کو ] [یَعْلَمْہُ : جانتا ہے اس کو ] [اللّٰہُ : اللہ ] [وَیَعْلَمُ : اور وہ جانتا ہے ] [مَا : اس کو جو ] [فِی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہے ] [وَمَا : اور اس کو جو ] [فِی الْاَرْضِ : زمین میں ہے ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ : ہر چیز پر ] [قَدِیْرٌ : قادر ہے ] يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا      ٻ وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْۗءٍ ڔ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهٗٓ اَمَدًۢا بَعِيْدًا  ۭ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ  ۭوَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ  30؀ۧ
[یَوْمَ : جس دن ] [تَجِدُ : پائے گی ] [کُلُّ نَفْسٍ : ہر ایک جان ] [مَّا : اس کو جو ] [عَمِلَتْ : اس نے عمل کیا ] [مِنْ خَیْرٍ : کسی بھی بھلائی میں سے ] [مُّحْضَرًا : حاضر کیا ہوا ] [وَّمَا : اور اس کو جو ] [عَمِلَتْ : اس نے عمل کیا] [مِنْ سُوْئٍ : کسی بھی برائی میں سے ] [تَوَدُّ : وہ چاہے گی ] [لَوْ : کاش] [اَنَّ : کہ ] [بَیْنَہَا وَبَیْنَہٗ : اس (نفس) کے اور اس (برائی) کے مابین ] [اَمَدًام بَعِیْدًا : انتہائی دوری ہوتی ] [وَیُحَذِّرُ : اور محتاط رہنے کی تلقین کرتا ہے] [کُمُ : تم لوگوں کو ] [اللّٰہُ : اللہ ] [نَفْسَہٗ : اپنے نفس (یعنی غضب) سے] [وَاللّٰـہُ : اور اللہ ] [رَؤُوْفٌ : بہت نرمی کرنے والا ہے ] [بِالْعِبَادِ : بندوں سے ] قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     31؀
[قُلْ : آپؐ ‘ کہیے !] [اِنْ : اگر ] [کُنْتُمْ : تم لوگ ہو کہ ] [تُحِبُّوْنَ : تم محبت کرتے ہو ] [اللّٰہَ : اللہ سے ] [فَاتَّبِعُوْنِیْ : تو پھر پیروی کرو میری] [یُحْبِبْکُمُ : تو محبت کرے گا تم سے ] [اللّٰہُ : اللہ ] [وَیَغْفِرْ : اور وہ بخش دے گا ] [لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [ذُنُوْبَکُمْ : تمہارے گناہوں کو ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [غَفُوْرٌ : بےانتہا بخشنے والا ہے ] [رَّحِیْمٌ : ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ]

 

ترکیب : حرف شرط ’’ اِنْ‘‘ ماضی (کُنْتُمْ) پر آیا ہے اس لیے اس کا عمل ظاہر نہیں ہوا ‘ لیکن وہ محلاًّ مجزوم ہے۔ جوابِ شرط میں فعل امر ’’ اِتَّبِعُوْا‘‘ آیا ہے جو کہ از خود مجزوم ہوتا ہے۔ ’’ یُحْبِبْ‘‘ اور ’’ یَغْفِرْ‘‘ جواب شرط نہیں ہیں‘ بلکہ ’’ اِتَّبِعُوْا‘‘ کا جواب امر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہیں۔’’ تَوَلَّوْا‘‘ کے دو امکانات ہیں۔ یہ ماضی میں جمع مذکر غائب کا صیغہ بھی ہو سکتا ہے اور مضارع میں جمع مذکر مخاطب ’’ تَتَوَلَّوْنَ‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی پہلی تا حذف ہوئی اور شرط ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا تو ’’ تَوَلَّوْا‘‘ آیا۔ پیچھے فعل امر مخاطب ’’ اَطِیْعُوْا‘‘ آیا ہے اس لیے اس کو جمع مذکر مخاطب ماننا بہتر ہے۔ ’’ اٰدَمَ‘‘ ۔ ’’ نُوْحًا‘‘ اور ’’ اٰلَ‘‘ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں ‘ جبکہ ’’ اِبْرٰھِیْمَ‘‘ اور ’’ عِمْرٰنَ‘‘ مجرور ہیں ‘ کیونکہ یہ ’’ اٰلَ‘‘ کا مضاف الیہ ہیں۔ ’’ ذُرِّیَّۃً‘‘ حال ہے۔

 نوٹ : البقرۃ:49 کے نوٹ:1 میں وضاحت کی جا چکی ہے کہ کسی نبی کی پیروی کرنے والے اس کی آل میں ہیں ‘ خواہ نبی سے ان کا نسلی رشتہ ہو یا نہ ہو۔ غالباً اسی لیے آیت زیر مطالعہ میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ آل ابراہیم ؑ اور آل عمران میں سے جن کو اللہ نے چنا وہ ان کی نسل سے تھے۔ قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ  32؀
[قُلْ : آپؐ ‘ کہیے ] [اَطِیْعُوا : تم لوگ اطاعت کر و] [اللّٰہَ : اللہ کی ] [وَالرَّسُوْلَ : اور رسولؐ ‘ کی ] [فَاِنْ : پھر اگر ] [تَوَلَّوْا : تم لوگ روگردانی کرو گے ] [فَاِنَّ : تو یقینا ] [اللّٰہَ : اللہ ] [لاَ یُحِبُّ : محبت نہیں کرتا ] [الْکٰفِرِیْنَ : انکار کرنے والوں سے ] اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰٓي اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ 33 ؀ۙ
[اِنَّ : یقینا ] [اللّٰہَ : اللہ نے ] [اصْطَفٰٓی : چن لیا ] [اٰدَمَ : آدمؑ کو ] [وَنُوْحًا : اور نوحؑ کو] [وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ : اور ابراہیم ؑ کے پیروکاروں کو] [وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کے پیروکاروں کو] [عَلَی الْعٰلَمِیْنَ : تمام جہان (والوں ) پر] ذُرِّيَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ  بَعْضٍ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ    34؀ۚ
[ذُرِّیَّۃًم : اولاد ہوتے ہوئے ] [بَعْضُہَا مِنْم بَعْضٍ : ان کا کوئی کسی کی ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [سَمِیْعٌ : سننے والا ہے ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّىْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِيْ بَطْنِىْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّىْ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ  35؀
[اِذْ : جب ] [قَالَتِ : کہا ] [امْرَاَتُ عِمْرٰنَ : عمران کی بیوی نے ] [رَبِّ : اے میرے ربّ] [اِنِّیْ : بےشک میں نے ] [نَذَرْتُ : منت مانی ] [لَکَ : تیرے لیے ] [مَا : اس کی جو ] [فِیْ بَطْنِیْ : میرے پیٹ میں ہے ] [مُحَرَّرًا : آزاد کیا ہواہوتے ہوئے] [فَتَقَبَّلْ : پس تو قبول فرما] [مِنِّیْ : مجھ سے ] [اِنَّکَ اَنْتَ: بےشک تو ہی] [السَّمِیْعُ : سننے والا ہے ] [الْعَلِیْمُ : جاننے والا ہے ] فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّىْ وَضَعْتُهَآ اُنْثٰى ۭ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ ۭ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰى ۚ وَاِنِّىْ سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَاِنِّىْٓ اُعِيْذُھَابِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ  36؀
[فَلَمَّا : پھر جب ] [وَضَعَتْہَا : اس نے جنا اس کو ] [قَالَتْ : تو اس نے کہا ] [رَبِّ : اے میرے ربّ] [اِنِّیْ : بےشک میں نے ] [وَضَعْتُہَآ : جنا اس کو ] [اُنْثٰی : مؤنث] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [اَعْلَمُ : زیادہ جانتا ہے ] [بِمَا : اس کو جو ] [وَضَعَتْ : اس نے جنا ] [وَلَـیْسَ الذَّکَرُ : اور نہیں ہے مذکر ] [کَالْاُنْثٰی : مؤنث کی مانند] [وَاِنِّیْ : اور بےشک میں نے ] [سَمَّیْتُہَا : نام رکھا اس کا ] [مَرْیَمَ : مریم] [وَاِنِّیْ : اور بےشک میں ] [اُعِیْذُہَا : پناہ میں دیتی ہوں اس کو ] [بِکَ : تیری ] [وَذُرِّیَّـتَہَا : اور اس کی اولاد کو ] [مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ : دھتکارے ہوئے شیطان سے ]

 

و ض ع

 وَضَعَ (ف) وَضْعًا : (1) تیز چلنا‘ دوڑنا۔ (2) کسی چیز کو اتار کر نیچے رکھنا۔ (i) اُتارنا۔ (ii) رکھنا۔ (iii) بچہ جننا۔ {وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ ۔ } (الم نشرح) ’’ اور ہم نے اتارا آپؐ سے آپؐ کا بوجھ۔‘‘{حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَاج} (محمد:4) ’’ یہاں تک کہ جنگ رکھ دے اپنے بوجھ یعنی ہتھیار۔‘‘

 مَوْضُوْعٌ (اسم المفعول) : رکھا ہوا۔ {وَاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ ۔ } (الغاشیۃ) ’’ اور آبخورے رکھے ہوئے۔‘‘

 مَوْضَعٌ ج مَوَاضِعُ (مَفْعَلٌ کے وزن پر اسم الظرف) : رکھنے کی جگہ‘ مقام۔ {یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ} (النسائ:46) ’’ اور وہ لوگ پھیر دیتے ہیں باتوں کو ان کی جگہوں سے‘‘۔

 اَوْضَعَ (افعال) اِیْضَاعًا : تیز چلانا‘ دوڑانا۔ {لَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ} (التوبۃ:47) ’’ اور وہ لوگ ضرور دوڑاتے تم لوگوں کے بیچ میں۔‘‘

 ترکیب : ’’ اِمْرَاَتُ‘‘ لمبی تا سے لکھا گیا ہے‘ یہ قرآن مجید کا مخصوص املاء ہے۔ ’’ اِمْرَاَتُ‘‘ کا مضاف الیہ ’’ عِمْرٰنَ‘‘ ہے۔ ’’ نَذَرْتُ‘‘ کا مفعول ’’ مَا‘‘ ہے۔ ’’ مُحَرَّرًا‘‘ اسم المفعول ہے اور حال ہے۔ ’’ اِنِّیْ‘‘ میں ہر جگہ یائے متکلم کی ضمیریں ’’ اِمْرَاَتُ عِمْرَانَ‘‘ کے لیے ہیں‘ درمیان میں ’’ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ‘‘ سے ’’ کَالْاُنْثٰی‘‘ تک جملہ معترضہ ہے۔ ’’ اُنْثٰی‘‘ حال ہے۔ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّاَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَـنًا  ۙ وَّكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا  ڝ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ  ۙ وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا  ۚ قَالَ يٰمَرْيَـمُ اَنّٰى لَكِ ھٰذَا  ۭ قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ   37؀
[فَتَقَبَّـلَہَا : تو قبول کیا اس کو ] [رَبُّہَا : اس کے رب نے ] [بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ : خوبصورت قبول کرنا] [وَّاَنْبَتَہَا : اور اس نے نشوونما کی اس کی ] [نَــبَاتًا حَسَنًا : خوبصورت نشوونما کرنا] [وَّکَفَّلَہَا : اور اس نے کفیل بنایا ان کا] [زَکَرِیَّا : زکریا ؑ کو] [کُلَّمَا : جب کبھی ] [دَخَلَ : داخل ہوتے ] [عَلَیْہَا : ان پر ] [زَکَرِیَّا : زکریاؑ] [الْمِحْرَابَ : محراب میں ] [وَجَدَ : تو وہ پاتے] [عِنْدَہَا : ان کے پاس ] [رِزْقًا : کچھ رزق ] [قَالَ : تو وہ کہتے ] [یٰمَرْیَمُ : اے مریم ] [اَنّٰی: کہاں سے ] [لَکِ : تیرے لیے ] [ہٰذَا : یہ ہے ] [قَالَتْ : تو وہ کہتیں ] [ہُوَ : یہ ] [مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ : اللہ کے پاس سے ہے ] [اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ

یَرْزُقُ : رزق دیتا ہے ] [مَنْ : اس کو جس کو ] [یَّشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] [بِغَیْرِ حِسَابٍ : کسی حساب کے بغیر]

 

ک ف ل

 کَفَلَ (ن۔ ض) کَفْلًا : کسی شخص یا مال کا ضامن ہونا۔

 کَفَالَۃً : کسی کی ضروریات کا ضامن ہونا‘ رکھوالی کرنا‘ کفالت کرنا۔ {ھَلْ اَدُلُّـکُمْ عَلٰی اَھْلِ بَیْتٍ یَّـکْفُلُوْنَہٗ لَـکُمْ} (القصص:12) ’’ کیا میں پتا بتائوں تم لوگوں کو ایک ایسے گھر والوں کا جو پال پوس دیں گے اس کو تمہارے لیے۔‘‘

 کَفِیْلٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : (1) ضمانت دینے والا یعنی ضامن۔ (2) رکھوالی کرنے والا یعنی رکھوالا‘ نگران۔ {وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًاط} (النحل:91) ’’ اور تم لوگ بنا چکے ہو اللہ کو اپنا ضامن۔‘‘

 کِفْلٌ (اسم ذات) : (1) ضمانت۔ (2) حصہ (اچھے یا برے نتیجے میں) ۔ {وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّـکُنْ لَّـہٗ کِفْلٌ مِّنْھَاط} (النسائ:85) ’’ اور جو سفارش کرتا ہے‘ کوئی بری سفارش ‘ تو ہو گا اس کے لیے ایک حصہ اس میں سے۔‘‘

 ذَا الْکِفْلِ : ایک نبی کا نام ہے۔ {وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِط} (الانبیائ:85) ’’ اور اسمٰعیل ؑ کو اور ادریس ؑ اور ذو الکفل ؑ کو۔‘‘

 اَکْفَلَ (افعال) اِکْفَالاً : کسی کو کسی کی کفالت میں دینا۔

 اَکْفِلْ (فعل امر) : تو کفالت میں دے۔ {فَقَالَ اَکْفِلْنِیْھَا} (ص:23) ’’ پھر اس نے کہا تومیری کفالت میں دے اس کو۔‘‘

 کَفَّلَ(تفعیل) تَـکْفِیْلًا : کسی کو کفیل بنانا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب :’’ تَقَبَّلَھَا‘‘ اور’’ اَنْبَتَھَا‘‘ میں ضمیر مفعولی مریم کے لیے ہے اور ان کا فاعل ’’ رَبُّھَا‘‘ ہے۔ ’’ بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ‘‘ اور’’ نَبَاتًا حَسَنًا‘‘ ثلاثی مجرد سے مفعول مطلق آئے ہیں‘ جبکہ فعل علی الترتیب بابِ تفعّل اور افعال سے آئے ہیں۔ (آل عمران:37 ‘ نوٹ:1) ’’ کَفَّلَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو رب کے لیے ہے۔ ’’ ھَا‘‘ مفعول اور ’’ زَکَرِیَّا‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ زَکَرِیَّا‘‘ مبنی کی طرح استعمال ہوتا ہے‘ اس لیے اس کی رفع‘ نصب اور جر ظاہر نہیں ہوتی۔ ’’ کُلَّمَا‘‘ حرفِ شرط ہے۔ ’’ دَخَلَ‘‘ کا فاعل ’’ زَکَرِیَّا‘‘ ہے۔ ’’ اَلْمِحْرَابَ‘‘ ظرف ہے۔ ’’ وَجَدَ عِنْدَھَا‘‘ جواب شرط ہے۔ ھُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهٗ  ۚ قَالَ رَبِّ ھَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً  ۚ اِنَّكَ سَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ  38؀
[ھُنَالِكَ: وہیں ] [دَعَا : پکارا ] [زَکَرِیَّا : زکریاؑ نے ] [رَبَّہٗ : اپنے رب کو ] [قَالَ : انہوں نے کہا ] [رَبِّ : اے میرے ربّ

ھَبْ : تو عطا کر ] [لِیْ : میرے لیے ] [مِنْ لَّدُنْکَ : اپنے خزانے سے ] [ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً : ایک پاکیزہ اولاد ] [اِنَّکَ : بےشک تو ] [سَمِیْعُ الدُّعَآئِ : دعا کا سننے والا ہے ] فَنَادَتْهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَھُوَ قَاۗىِٕمٌ يُّصَلِّيْ فِي الْمِحْرَابِ ۙ اَنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيٰى مُصَدِّقًۢـا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ   39؀
[فَنَادَتْہُ : تو آواز دی انؑ کو] [الْمَلٰٓئِکَۃُ : فرشتوں نے ] [وَ : اس حال میں کہ ] [ہُوَ : وہ ] [قَــآئِمٌ : کھڑے تھے] [یُّصَلِّیْ : نماز پڑھتے ہوئے ] [فِی الْْمِحْرَابِ : محراب میں ] [اَنَّ : کہ ] [ اللّٰہَ : اللہ ] [یُـبَشِّرُکَ : بشارت دیتا ہے آپؑ کو] [بِیَحْیٰی : یحییٰ ؑکی] [مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا ہوتے ہوئے] [بِکَلِمَۃٍ : ایک فرمان کی ] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے] [وَسَیِّدًا : اور سردار ہوتے ہوئے] [وَّحَصُوْرًا: اور عورتوں سے الگ ہوتے ہوئے] [وَّنَبِیًّا : اور نبی ہوتے ہوئے ] [مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ : صالحین میں سے]

ع ق ر

 عَقَرَ (ض) عَقْرًا : (1) درخت کو جڑ سے کاٹنا۔ (2) چوپائے کی ٹانگیں کاٹنا۔ (3) اپنی نسل کاٹنا یعنی بانجھ ہونا۔ {فَعَقَرُوا النَّاقَۃَ} (الاعراف:77) ’’ پھر ان لوگوں نے ٹانگیں کاٹیں اونٹنی کی۔‘‘

 عَاقِرٌ (فَاعِلٌ کے وزن پر صفت) : کاٹنے والا۔ بانجھ (یہ مذکر اور مؤنث دونوں کے لیے آتا ہے) ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ واو‘‘ حالیہ ہے اور یہ ’’ ھُوَ‘‘ کا حال ہے۔ جبکہ ’’ قَائِمٌ‘‘ کا حال ’’ یُصَلِّیْ‘‘ ہے۔ ’’ مُصَدِّقًا‘ سَیِّدًا‘ حُصُوْرًا‘ نَبِیًّا‘‘ یہ سب ’’ یَحْیٰی‘‘ کے حال ہیں۔ ’’ یَـکُوْنُ‘‘ کَانَ تامّہ ہے۔

 نوٹ : ’’ بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ‘‘ سے مراد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ہیں ‘ جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بغیر باپ کے پیداہوئے۔ قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّقَدْ بَلَغَنِىَ الْكِبَرُ وَامْرَاَتِيْ عَاقِرٌ   ۭ قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ  40؀
[قَالَ : انہوں نے کہا ] [رَبِّ : اے میرے ربّ] [اَنّٰی : کہاں سے] [یَکُوْنُ : ہو گا] [ لِیْ : میرے لیے ] [غُلٰـمٌ : کوئی لڑکا] [وَّ : اس حال میں کہ ] [قَدْ بَلَغَنِیَ : پہنچ چکا ہے مجھ کو ] [الْکِبَرُ : بڑھاپا] [وَامْرَاَتِیْ : اور میری عورت ] [عَاقِرٌ : بانجھ ہے ] [قَالَ : (فرشتے نے) کہا] [کَذٰلِکَ : اس طرح (ہی ہے) ] [اللّٰہُ : اللہ ] [یَفْعَلُ : کرتا ہے ] [مَا : وہ جو ] [یَشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّيْٓ اٰيَةً  ۭ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰــثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا   ۭوَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْرًا وَّسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ   41؀ۧ
[قَالَ : (زکریاؑ نے) کہا] [رَبِّ : اے میرے ربّ] [اجْعَلْ : تو بنا ] [لِّیْ : میرے لیے ] [اٰیَۃً : ایک نشانی ] [قَالَ : (اللہ تعالیٰ نے) کہا] [اٰیَتُکَ : تیری نشانی ہے ] [اَلاَّ تُکَلِّمَ : کہ تو کلام نہیں کرے گا] [النَّاسَ : لوگوں سے] [ثَلٰـثَۃَ اَیَّامٍ : تین دن ] [اِلاَّ : مگر ] [رَمْزًا : اشارے سے ] [وَاذْکُرْ : اور تو یاد کر] [رَّبَّکَ : اپنے رب کو] [کَثِیْرًا : کثرت سے ] [وَّسَبِّحْ : اور تو تسبیح کر ] [بِالْعَشِیِّ : شاموں کو ] [وَالْاِبْکَارِ : اور صبح سویرے ]

 

ر م ز

 رَمَزَ (ن۔ ض) رَمْزًا : اشاروں میں بات سمجھانا‘ اشارہ کرنا۔

 رَمْزٌ (اسم ذات بھی ہے) : اشارہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

ع ش و

 عَشَا (ن) عَشْوًا : (1) آنکھ میں موتیا اُترنے کی وجہ سے دھندلا نظر آنا۔ (2) کسی طرف سے آنکھ بند کرنا‘ جی چرانا۔{وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ} (الزخرف:36) ’’ اور جو آنکھ چراتا ہے رحمن کی یاد سے۔‘‘

 عِشَائٌ : رات کی ابتدائی تاریکی ۔ {وَجَائُ وْ اَبَاھُمْ عِشَائً یَّـبْـکُوْنَ ۔ } (یوسف) ’’ اور وہ آئے اپنے والد کے پاس مغرب کے بعد روتے ہوئے۔‘‘

 عَشِیَّۃٌ ج عَشِیٌّ : شام۔ {لَمْ یَلْبَثُوْا اِلاَّ عَشِیَّۃً اَوْ ضُحٰٹھَا ۔ } (النٰزعٰت) ’’ وہ لوگ نہیں ٹھہرے مگر ایک شام یا اس کے دن چڑھے (وقت کا ایک حصہ) ۔‘‘

 ترکیب :’’ اٰیَتُکَ‘‘ مبتدأ ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ اَلاَّ تُکَلِّمَ‘‘‘ ’’ اٰیَۃُ‘‘ کا بدل ہے۔ ’’ اَلاَّ‘‘ دراصل ’’ اَنْ لَا‘‘ ہے اور ’’ اَنْ‘‘ نے ’’ تُکَلِّمَ‘‘ کو منصوب کیا ہے۔ اس کا مفعول ’’ النَّاسَ‘‘ ہے۔ ’’ ثَلٰثَۃَ‘‘ ظرف اور ’’ رَمْزًا‘‘ مستثنیٰ منقطع یا متصل ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ ’’ وَاذْکُرْ‘‘ کا مفعول مطلق ’’ ذِکْرًا‘‘ محذوف ہے اور ’’ کَثِیْرًا‘‘ اس کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔

نوٹ : لفظ ’’ رَمْزٌ‘‘ میں بنیادی مفہوم ہے ہونٹ کی حرکت سے اشارہ کر کے بات سمجھانا۔ جبکہ اَبرو اور آنکھ سے اشارہ کر کے بات سمجھانے کو ’’ غَمْزٌ‘‘ کہتے ہیں ‘ اور یہ لفظ باب تفاعل سے سورۃ المُطفّفین کی آیت 30 میں آیا ہے وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفٰىكِ عَلٰي نِسَاۗءِ الْعٰلَمِيْنَ   42؀
[وَاِذْ : اور جب ] [قَالَتِ : کہا ] [الْمَلٰٓئِکَۃُ : فرشتوں نے ] [یٰمَرْیَمُ : اے مریم ] [اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ نے ] [اصْطَفٰٹکِ : چن لیا آپ کو ] [وَطَہَّرَکِ : اور اس نے پاک کیا آپ کو] [وَاصْطَفٰٹکِ : اور اس نے چنا آپ کو ] [عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ: تمام جہانوں کی عورتوں پر] يٰمَرْيَمُ اقْنُتِىْ لِرَبِّكِ وَاسْجُدِيْ وَارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ  43 ؀
[یٰمَرْیَمُ : اے مریم ] [اقْنُتِیْ : آپ فرماں برداری کریں] [لِرَبِّکِ : اپنے رب کی ] [وَاسْجُدِیْ : اور آپ سجدہ کریں ] [وَارْکَعِیْ : اور آپ رکوع کریں ] [مَعَ الرّٰکِعِیْنَ : رکوع کرنے والوں کے ساتھ] ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ  ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَيُّھُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ  ۠وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ  44؀
[ذٰلِکَ : یہ ] [مِنْ اَنْبَـآئِ الْغَیْبِ: غیب کی خبروں میں سے ہے] [نُوْحِیْـہِ : ہم وحی کرتے ہیں اس کو ] [اِلَـیْکَ : آپؐ ‘ کی طرف ] [وَمَا کُنْتَ : اور آپؐ ‘ نہیں تھے] [لَدَیْہِمْ : ان کے پاس ] [اِذْ : جب ] [یُلْقُوْنَ : وہ ڈالتے تھے ] [اَقْلاَمَہُمْ : اپنے قلم ] [اَیُّہُمْ : (کہ) ان میں سے کون ] [یَکْفُلُ : کفالت کرے گا ] [مَرْیَمَ : مریم کی ] [وَمَا کُنْتَ : اور آپؐ ‘ نہیں تھے ] [لَدَیْہِمْ : ان کے پاس ] [اِذْ : جب ] [یَخْتَصِمُوْنَ: وہ لوگ ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے ]

 

و ح ی

 وَحَی (ض) وَحْیًا : پوشیدہ پیغام بھیجنا ‘ الہام کرنا۔

 وَحْیٌ (اسم ذات) : پوشیدہ پیغام‘ الہام‘ وحی۔ {وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّـکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلاَّ وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا} (الشوریٰ:51) ’’ اور نہیں ہے کسی بشر کے لیے کہ کلام کرے اس سے اللہ مگر الہام سے یا پردے کے پیچھے سے ‘ یا وہ بھیجے ایک پیغامبر (یعنی فرشتہ) ۔‘‘

 اَوْحٰی (افعال) اِیْحَائً : پوشیدہ پیغام بھیجنا‘ الہام کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔ (یہ ثلاثی مجرد کے ہم معنی ہے لیکن قرآن مجید میں افعال ثلاثی مجرد سے نہیں بلکہ بابِ افعال سے آئے ہیں) ۔

ک ھـ ل

 کَھَلَ (ف) کُھُوْلًا : ادھیڑ عمر کا ہونا۔

 کَھْلٌ : ادھیڑ عمری کا زمانہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ ذٰلِکَ‘‘ مبتدأ ہے ‘ اس کی خبر ’’ اَنْبَائٌ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ مِنْ اَنْبَائِ الْغَیْبِ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ ’’ نُوْحِیْہِ‘‘ جملہ فعلیہ ہے اور ’’ ذٰلِکَ‘‘ کی خبر ثانی ہے۔ ’’ اِلَیْکَ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ اِسْمُہٗ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ اَلْمَسِیْحُ‘‘ اس کی خبر ہے‘ جبکہ ’’ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ‘‘ بدل ہے ’’ اَلْمَسِیْحُ‘‘ کا۔ ’’ وَجِیْھًا‘‘ اور ’’ کَھْلًا‘‘ حال ہیں۔ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ   ڰ اسْمُهُ الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيْهًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ   45؀ۙ
[اِذْ قَالَتِ : جب کہا ] [الْمَلٰٓئِکَۃُ : فرشتوں نے ] [یٰمَرْیَمُ : اے مریم ] [اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ ] [یُبَشِّرُکَ : بشارت دیتا ہے آپ کو ] [بِکَلِمَۃٍ : ایک فرمان کی ] [مِّنْہُ : اپنی طرف سے ] [اسْمُہُ : اس کا نام ] [الْمَسِیْحُ : مسیحؑ ہے ] [عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ : جو عیسیٰ ابن مریم ہیں ] [وَجِیْہًا : بلند رتبہ ہوں گے] [فِی الدُّنْیَا : دنیا میں ] [وَالْاٰخِرَۃِ : اور آخرت میں ] [وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ : اور (وہ ہوں گے) مقربین میں سے ] وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِيْنَ   46؀
[وَیُکَلِّمُ : اور وہ کلام کریں گے ] [النَّاسَ : لوگوں سے ] [فِی الْمَهْدِ : گہوارے میں ] [وَکَہْلاً : اور ادھیڑ عمر ہوتے ہوئے] [وَّمِنَ الصّٰلِحِیْنَ : اور (وہ ہوں گے) صالحین میں سے ]

نوٹ : یہاں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے دو معجزوں کا ذکر ہے۔ ایک یہ کہ وہ گہوارے میں لوگوں سے کلام کریں گے۔ دوسرا یہ کہ ادھیڑ عمری کی حالت میں کلام کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ دودھ پیتے بچے کا کلام کرناتو معجزہ ہے ‘ لیکن ادھیڑ عمری میں تو ہرشخص کلام کرتا ہے۔ اس کو معجزے کے طور پر بیان کرنے کا کیا مطلب ہے؟

 یہ بات سب مانتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ کے عقیدہ کے مطابق پھانسی دیے جانے کے وقت اور اسلامی عقیدے کے مطابق آسمان پر اٹھائے جانے کے وقت حضرت عیسیٰ ؑ کی عمر 30 اور 35 سال کے درمیان تھی۔ اس طرح وہ ادھیڑ عمر کو پہنچے ہی نہیں۔ اب یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں اور ادھیڑ عمر کو پہنچیں۔ اس لیے جس طرح ان کا بچپن کا کلام معجزہ تھا اسی طرح ادھیڑ عمری کا کلام بھی معجزہ ہو گا۔ (معارف القرآن سے ماخوذ) قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ وَلَدٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ ۭقَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ   ۭ اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ  47؀
[قَالَتْ : (بی بی مریم نے) کہا ] [رَبِّ : اے میرے ربّ] [اَنّٰی : کہاں سے ] [یَکُوْنُ : ہو گا ] [لِیْ : میرے لیے ] [وَلَدٌ : کوئی لڑکا ] [وَّ : اس حال میں کہ ] [لَمْ یَمْسَسْنِیْ : چھوا ہی نہیں مجھ کو] [بَشَرٌ : کسی بشر نے ] [قَالَ : (فرشتے نے) کہا ] [کَذٰلِکِ : اسی طرح ہی ہے ] [اللّٰہُ : اللہ ] [یَخْلُقُ : پیدا کرتا ہے ] [مَا : اس کو جس کو ] [یَشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] [اِذَا : جب کبھی ] [قَضٰٓی : وہ فیصلہ کرتا ہے ] [اَمْرًا : کسی کام کا ] [فَاِنَّمَا : تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] [یَـقُوْلُ : وہ کہتا ہے ] [لَـہٗ : اس سے ] [کُنْ : تو ہو جا ] [فَـیَکُوْنُ : پس وہ ہو جاتا ہے ]

 

نوٹ : ’’ کُنْ فَـیَکُوْنُ‘‘ کا ہم لوگوں کے ذہن میں تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی حکم دیتا ہے تو وہ پلک جھپکتے ہی فوراً ہو جاتا ہے‘ جبکہ ’’ فَـیَکُوْنُ‘‘ کا یہ مطلب نہیں ہے۔ اس کا مطلب بس اتنا ہے کہ وہ ہو جاتا ہے‘ خواہ فوری طور پر ہو یا کچھ وقت لگے۔ اب نوٹ کرلیں کہ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ عالم امر میں اس کے احکام کی تعمیل فوری ہوتی ہے‘ جبکہ عالم خلق میں تدریج کا اصول کارفرما ہے اور یہاں وقت لگتا ہے۔ مثال کے طور پر کسان جب زمین میں بیج ڈالتا ہے تو کچھ بیج نہیں پھوٹتے‘ کیونکہ انہیں حکم نہیں ملا۔ یہ وہ بیج ہیں جو ضائع ہو گئے۔ لیکن جن بیجوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہو جاتا ہے کہ ’’ کُنْ‘‘ یعنی تو درخت ہو جا‘ تو ان کے اندر اس کیمیائی تبدیلی کا عمل فوری طور پر شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں بیج پھوٹتا ہے۔ یہ عالم امر ہے اور یہاں حکم کی تعمیل فوری ہے۔ لیکن کیمیائی تبدیلی کے نتیجے میں بیج کا پھوٹنا‘ اکھوے کا نکلنا‘ پودا بننا ‘ پھر درخت بننا اور پھل آنا‘ یہ سب عالم خلق ہے۔ اس میں وقت لگتا ہے اور یہاں تدریج کا اصول کارفرماہے۔ وَيُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ  48؀ۚ
[وَیُعَلِّمُہُ : اور وہ علم دے گا انؑ کو ] [الْکِتٰبَ : کتاب کا ] [وَالْحِکْمَۃَ : اور حکمت کا ] [وَالتَّوْرٰٹۃَ : اور تورات کا ] [وَالاِْنْجِیْلَ : اور انجیل کا ]

ترکیب : ’’ یُعَلِّمُہٗ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ‘ جبکہ ضمیر مفعولی ’’ ہٗ‘‘ حضرت عیسیٰ ؑ کے لیے ہے اور یہ ’’ یُعَلِّمُ‘‘ کا مفعول اوّل ہے۔ ’’ اَلْکِتٰبَ‘‘ سے ’’ وَالْاِنْجِیْلَ‘‘ تک مفعول ثانی ہیں۔

نوٹ (2) : حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو تورات اور انجیل کی تعلیم دینے کا مطلب تو واضح ہے۔ لیکن یہاں ’’ الکتٰب‘‘ اور’’ الحِکمۃ‘‘ کی تعلیم دینے سے کیا مراد ہے‘ اس ضمن میں آراء مختلف ہیں۔ میرا ذہن شیخ الہند (رح)  کی رائے کو ترجیح دیتا ہے کہ کتاب و حکمت سے مراد قرآن و سنت ہے‘ کیونکہ حضرت عیسیٰ  ؑ دوبارہ اس دنیا میں رسول اللہ ﷺ کے امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور قرآن و سنت کے مطابق احکام دیں گے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ انہیں قرآن و سنت کی تعلیم بھی دی جائے۔ وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢ ا بِاِذْنِ اللّٰهِ  ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ  ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِيْ بُيُوْتِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ   49؀ۚ
[وَرَسُوْلاً : اور (وہ ہوں گے) ایک رسول] [اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ : بنو اسرائیل کی طرف ] [اَنِّیْ : (وہ کہیں گے) کہ مَیں] [قَدْ جِئْتُکُمْ : آیا ہوں تمہارے پاس ] [بِاٰ یَۃٍ : ایک نشانی کے ساتھ ] [مِّنْ رَّبِّکُمْ: تمہارے رب (کی طرف) سے] [

اَ نِّیْ : کہ مَیں] [اَخْلُقُ : بناتا ہوں] [لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [مِّنَ الطِّیْنِ : گارے سے ] [کَہَیْئَۃِ الطَّیْرِ : پرندوں کی شکل جیسا ] [فَاَنْفُخُ : پھر میں پھونکتا ہوں] [فِیْہِ : اس میں ] [فَـیَکُوْنُ : تو وہ ہو جاتا ہے] [طَیْرًا : اڑنے والا ] [بِاِذْنِ اللّٰہِ : اللہ کی اجازت سے ] [وَاُبْرِیُٔ : اور مَیں شفا دیتا ہوں] [الْاَکْمَہَ : پیدائشی اندھے کو ] [وَالْاَبْرَصَ : اور کوڑھی کو] [وَاُحْیِ : اور مَیں زندہ کرتا ہوں ] [الْمَوْتٰی : مردہ کو] [بِاِذْنِ اللّٰہِ : اللہ کی اجازت سے ] [وَاُنَــبِّئُکُمْ : اور میں بتا دیتا ہوں تم لوگوں کو] [بِمَا : وہ ‘ جو ] [تَاْکُلُوْنَ : تم لوگ کھاتے ہو ] [وَمَا : اور وہ‘ جو ] [تَدَّخِرُوْنَ : تم لوگ ذخیرہ کرتے ہو ] [فِیْ بُیُوْتِکُمْ : اپنے گھروں میں ] [اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ : بےشک اس میں ] [لَاٰیَۃً : ایک نشانی ہے ] [لَّـکُمْ : تمہارے لیے ] [اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ ہو ] [مُّؤْمِنِیْنَ : ایمان لانے والے ]

 

ط ی ن

 طَانَ (ض) طَیْنًا : گارے سے دیوار لیپنا۔

 طِیْنٌ (اسم ذات) : گارا۔ آیت زیر مطالعہ۔

ھـ ی ء

 ھَائَ (ض) ھَیْئَۃً : خوش شکل ہونا۔

 ھَیْئَۃٌ (اسم ذات بھی ہے) : شکل‘ حلیہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ھَیَّئَ (تفعیل) تَھْیِئَۃً : کسی کو شکل دینا ‘ یعنی کسی کام کا سامان مہیا کرنا‘ اسباب پیدا کرنا۔ {وَیُھَیِِیْٔ

لَـکُمْ مِّنْ اَمْرِکُمْ مِّرْفَقًا ۔ } (الکہف) ’’ اور وہ اسباب پیدا کرے گا تمہارے لیے تمہارے کام میں آسانی کے۔‘‘

 ھَیِّیْٔ (فعل امر) : تو سامان فراہم کر‘ تو اسباب پیدا کر۔ {رَبَّنَا اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّھَیِّیْٔ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا ۔ } (الکہف) ’’ اے ہمارے ربّ! تو عطا کر ہم کو اپنے خزانے سے کچھ رحمت اور تو اسباب پیدا کر ہمارے لیے ہمارے کام میں بھلائی کی راہ کے۔‘‘

ن ف خ

 نَفَخَ (ن) نَفْخًا : پھونک مارنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 نَفْخَۃٌ (اسم ذات) : پھونک ۔ {فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۔ } (الحاقّۃ) ’’ پھر جب پھونکی جائے گی صور میں پہلی پھونک۔‘‘

ک م ھـ

 کَمِہَ (س) کَمْھًا : اندھا ہونا۔

 اَکْمَہُ (افعل التفضیل) : زیادہ اندھا ‘ یعنی پیدائشی اندھا۔ آیت زیر مطالعہ۔

ب ر ص

 بَرِصَ (س) بَرَصًا : برص کا مریض ہونا۔

 اَبْرَصُ (افعل التفضیل) : برص کا پرانا مریض‘ کوڑھی۔ آیت زیر مطالعہ۔

ذ خ ر

 ذَخَرَ (ف) ذَخْرًا : وقت ضرورت کے لیے جمع کرنا۔

 اَذْخَرَ (افتعال) اِذِّخَارًا : مستقبل کے لیے اہتمام سے جمع کرنا‘ ذخیرہ کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب : ’’ رَسُوْلًا‘‘ سے پہلے اگر’’ یُبْعَثُ‘‘ کو محذوف مانیں تو ’’ رَسُوْلًا‘‘ اس کا مفعول ثانی ہے‘ اور اگر’’ یَـکُوْنُ‘‘ کو محذوف مانیں تو ’’ رَسُوْلًا‘‘ اس کی خبر ہے۔ دوسری صورت زیادہ قرین قیاس ہے۔ اسی طرح ’’ اَنِّیْ‘‘ سے پہلے ’’ وَیَقُوْلُ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ تَدَّخِرُوْنَ‘‘ مادہ ’’ ذ خ ر‘‘ سے باب افتعال میں جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے۔ یہ اصلاً’’ تَذْتَخِرُوْنَ‘‘ تھا۔ پھر قاعدے کے مطابق افتعال کی ’’ تا ‘‘ کو ’’ ذ‘‘ میں تبدیل کر کے ادغام کیا تو ’’ تَذَّخِرُوْنَ‘‘ ہوا ‘ اور یہ اسی طرح استعمال ہوتا ہے۔ پھر ’ ذ‘ کو ’ د‘ میں تبدیل کرنا قرآن مجید کی خصوصیت ہے۔ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَلِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِيْ حُرِّمَ عَلَيْكُمْ وَجِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ   ۣ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ  50؀
[وَمُصَدِّقًا: اور تصدیق کرنے والا ہوتے ہوئے] [لِّمَا : اس کی جو ] [بَیْنَ یَدَیَّ : میرے سامنے ہے ] [مِنَ التَّوْرٰٹۃِ : تورات میں سے ] [وَلِاُحِلَّ : اور تاکہ مَیں حلال کروں] [لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [بَعْضَ الَّذِیْ : اس کے کچھ کو جو ] [حُرِّمَ : حرام کیا گیا ] [عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [وَجِئْتُکُمْ : اور میں آیا ہوں تمہارے پاس ] [بِاٰیَۃٍ : ایک نشانی کے ساتھ ] [مِّنْ رَّبِّکُمْ: تمہارے رب (کی طرف) سے] [فَاتَّقُوا : پس تم لوگ تقویٰ کرو] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [وَاَطِیْعُوْنِ : اور اطاعت کرو میری ]

 

ترکیب :’’ مُصَدِّقًا‘‘ حال ہے۔ ’’ بَیْنَ یَدَیْنَ‘‘ میں ’’ یَدَیْنَ‘‘ مضاف بنا تو نون اعرابی گر گیا اور اس کی مضاف الیہ ’’ یائے متکلم‘‘ آئی تو یہ ’’ یَدَیْ یَ‘‘ ہوا۔ پھر دونوں ’’ یا ‘‘ کا ادغام کر کے ’’ یَدَیَّ‘‘ بنا۔ ’’ اَطِیْعُوْا‘‘ فعل امر ہے اور ’’ نِ‘‘ ضمیر مفعولی ’’ نِیْ‘‘ کا نونِ وقایہ ہے۔ دیکھئے البقرۃ کی آیت 40 کی ترکیب۔

 نوٹ: آیات 49 اور 50 سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی بعثت صرف بنواسرائیل کے لیے تھی‘ تمام عالم کے لیے نہیں تھی۔ وہ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے‘ بلکہ شریعت موسوی کی تجدید کے لیے آئے تھے ۔ اور یہ کام انہوں نے اس تورات سے کیا جو اس زمانے میں یہودیوں کے پاس تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر صورت حال یہ تھی تو پھر انؑ کا بعض حرام چیزوں کو حلال کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس ضمن میں دو آراء ہیں: ایک یہ کہ شریعت موسوی کے بعض سخت احکام میں نرمی کی‘ جیسے ایامِ سبت کے احکام بہت سخت تھے‘ جنہیں نرم کیا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ علمائِ یہود کے اختلاف‘ رہبانیت پسند لوگوں کے تشدد اور جہلاء کے توہم کی وجہ سے شریعت موسوی میں بعض ایسی چیزیں حرام قرار پا گئی تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں کیا تھا ۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اس وقت کی موجود تورات کی سند پر ایسی چیزوں کو دوبارہ حلال کیا۔ آیت 50 میں ماضی مجہول کا لفظ ’’ حُرِّمَ‘‘ آیا ہے جس سے دوسری رائے کو تقویت ملتی ہے ‘ لیکن پہلی رائے کو بھی غلط قرار دینا ممکن نہیں ہے۔ میرے خیال کے مطابق اس امکان کو بھی رد نہیں کرنا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ  ؑ نے مذکورہ دونوں کام کیے ہوں۔ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ   ۭھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ    51؀
[اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [رَبِّیْ : میرا رب ہے ] [وَرَبُّکُمْ : اور تمہارا رب ہے ] [فَاعْبُدُوْہُ : پس تم لوگ بندگی کرو اس کی] [ہٰذَا : یہ ] [صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ : ایک سیدھا راستہ ہے] فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ  اِلَى اللّٰهِ   ۭ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ۚ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ   52؀
[فَلَمَّآ : پھر جب ] [اَحَسَّ : احساس کیا ] [عِیْسٰی : عیسیٰ  ؑ نے] [مِنْہُمُ : ان لوگوں سے ] [الْکُفْرَ : انکار کا ] [قَالَ : (تو ) انہوں نے کہا ] [مَنْ : کون ] [اَنْصَارِیْ : میرا مددگار ہے ] [اِلَی اللّٰہِ : اللہ کی طرف ] [قَالَ : کہا ] [الْحَوَارِیُّوْنَ : حواریوں نے ] [نَحْنُ : ہم ] [اَنْصَارُ اللّٰہِ : اللہ کے مددگار ہیں ] [اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے ] [بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [وَاشْہَدْ : اور آپؑ گواہی دیں ] [بِاَنَّا : کہ ہم ] [مُسْلِمُوْنَ : فرماں برداری قبول کرنے والے ہیں]

 ح س س

 حَسَّ (ن) حَسًّا : جڑ سے اکھاڑنا‘ قتل کرنا۔ {اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِہٖج} (آل عمران:152) ’’ جب تم لوگ قتل کرتے تھے ان کو اس کی اجازت سے۔‘‘

 حَسَّ (ض) حِسًّا : حواسِ خمسہ کے ذریعہ کسی بات کا پتا چلنا‘ محسوس ہونا۔

 حَسِیْسٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : ہلکی اور پست آواز‘ سرسراہٹ۔ {لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَاج} (الانبیائ:102) ’’ وہ لوگ نہیں سنیں گے اس کی سرسراہٹ۔‘‘

 اَحَسَّ (افعال) اِحْسَاسًا : حواسِ خمسہ کے ذریعے پتاچلانا‘ احساس کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 تَحَسَّسَ (تفعّل) تَحَسُّسًا : کوشش کر کے پتا چلانا‘ سراغ لگانا۔

 تَحَسَّسْ (فعل امر) : تو سراغ لگا۔ {یٰـبَـنِیَّ اذْھَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَاَخِیْہِ} (یوسف:87) ’’ اے میرے بیٹو تم لوگ جائو پھر سراغ لگائو یوسف کا اور اس کے بھائی کا۔‘‘ رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ  53؀
[رَبَّـنَا : اے ہمارے ربّ] [اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے ] [بِمَآ : اس پر جو ] [اَنْزَلْتَ : تو نے اتارا ] [وَاتَّـبَعْنَا : اور ہم نے پیروی کی ] [الرَّسُوْلَ : ان رسول ؑ کی ] [فَاکْتُبْنَا : پس تو لکھ دے ہم کو ] [مَعَ الشّٰہِدِیْنَ : گواہی دینے والوں کے ساتھ] وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُ   ۭ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ  54؀ۧ
[وَمَکَرُوْا : اور ان لوگوں نے چال چلی ] [وَمَکَرَ : اور تدبیر کی ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ : بہترین تدبیر کرنے والا ہے]

 

م ک ر

 مَکَرَ (ن) مَکْرًا : خفیہ تدبیر کرنا‘ چال چلنا (اچھے اور برے‘ دونوں مقصد کے لیے آتا ہے) ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 مَکْرٌ (اسم ذات بھی ہے) : تدبیر‘ چال۔ {وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ اِلاَّ بِاَھْلِہٖط} (فاطر:43) ’’ اور نہیں پڑتی بری چال مگر اپنے اہل پر (یعنی چال چلنے والے پر) ۔‘‘

 مَاکِرٌ (اسم الفاعل) : تدبیر کرنے والا‘ چال چلنے والا۔ آیت زیر مطالعہ۔ اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ  ۚثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ  55؀
[اِذْ قَالَ : جب کہا ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [یٰـعِیْسٰٓی : اے عیسیٰ  ؑ] [اِنِّیْ : بےشک میں ] [مُتَوَفِّیْکَ : پورا پورا لینے والا ] [ہوں آپؑ کو] [وَرَافِعُکَ : اور میں اٹھانے والا ہوں آپؑ کو] [اِلَیَّ : اپنی طرف ] [وَمُطَہِّرُکَ : اور میں نجات دلانے والا ہوں آپ ؑ کو] [مِنَ الَّذِیْنَ : ان لوگوں سے جنہوں نے ] [کَفَرُوْا : انکار کیا ] [وَجَاعِلُ : اور میں بنانے والا ہوں ] [الَّذِیْنَ : ان کو جنہوں نے ] [اتَّـبَعُوْکَ : پیروی کی آپؑ کی ] [فَوْقَ الَّذِیْنَ : ان سے اوپر جنہوں نے ] [کَفَرُوْآ : انکار کیا ] [اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن تک] [ثُمَّ : پھر ] [اِلَیَّ : میری طرف ہی ] [مَرْجِعُکُمْ : تم لوگوں کا لوٹنا ہے ] [فَاَحْکُمُ : تب میں فیصلہ کروں گا] [بَیْنَـکُمْ : تمہارے مابین ] [فِیْمَا : اس میں ] [کُنْتُمْ : تم لوگ ] [فِیْہِ : جس میں ] [تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے تھے ]

 

ترکیب : ’’ مَرْجِعُکُمْ‘‘ مبتدأ مؤخر ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے اور قائم مقام خبر مقدم ہے۔ اس میں ’’ مَرْجِعٌ‘‘ مصدر بھی ہو سکتا ہے اور اسم الظرف بھی۔ ہم مصدر ہونے کو ترجیح دیں گے۔ ’’ اُعَذِّبُ‘‘ کا مفعول ’’ ھُمْ‘‘ ہے اور ’’ عَذَابًا شَدِیْدًا‘‘ مفعول مطلق ہے۔ ’’ مِنْ نّٰصِرِیْنَ‘‘ کا ’’ مِنْ‘‘ تبعیضیہ ہے۔

 نوٹ : البقرۃ کی آیت 40 کی لغت میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ باب تفعّل میں ’’ تَوَفّٰی‘ یَتَوَفّٰی‘‘ کے اصلی معنی ہیں ’’ پورا پورا لے لینا‘‘۔ پھر اس سے موت دینا مراد لیا جاتا ہے جو کہ اس کے مجازی معنیٰ ہیں۔ اس آیت میں لفظ ’’ مُتَوَفِّیْ‘‘ آیا ہے ‘ جو اس کا اسم الفاعل ہے۔ اس کے اصلی معنی ہیں پورا پورا لے لینے والا‘ اور اس کے مجازی معنی ہیں موت دینے والا۔

 اس قسم کے الفاظ کے متعلق اصول یہ ہے کہ عبارت یا جملہ میں کوئی ایسا قرینہ موجود ہو کہ ایسے لفظ کے اصلی معنی لینا ممکن نہ ہو‘ تب مجازی معنی لیے جاتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی ایسا قرینہ موجود ہو کہ مجازی معنی لینا ضروری ہو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت نہ ہو تو پھر عام طور پر لفظ کے اصلی معنی ہی لیے جاتے ہیں۔

 آیت زیر مطالعہ میں مذکورہ دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت موجود نہیں ہے۔ اس لیے اصولاً ’’ مُتَوَفِّیْکَ‘‘ کا اصلی معنی ہی لیاجانا چاہیے۔ اب یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ یہاں ایک ایسا قرینہ موجود ہے جس کی وجہ سے مجازی معنی لینا ممکن نہیں رہتا۔ اور وہ یہ ہے کہ ’’ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ‘‘ کے بعد ’’ وَرَافِعُکَ‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ لفظ ’’ مُتَوَفِّیْ‘‘ کا معنی ٔمراد ‘ یعنی صاحب کلام کا مطلب اگر ’’ موت دینے والا‘‘ ہوتا تو پھر ’’ رَافِعُکَ‘‘ کا اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس اضافے نے ’’ مُتَوَفِّیْ‘‘ کے مجازی معنی کے امکان کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ہے۔

 فعل ’’ رَفَعَ‘‘ بھی دو معانی میں آتا ہے: (1) جسمانی طور پر اٹھا نا۔ (2) درجات یا رتبہ کے لحاظ سے بلند کرنا۔ قرآن مجید میں اس کے مختلف صیغے اور مشتقات 29 مقامات پر آئے ہیں‘ کہیں پہلے اور کہیں دوسرے معنی میں۔ اس ضمن میں نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ پورے قرآن مجید میں اس کے ساتھ ’’ اِلٰی‘‘ کا صلہ صرف دو مقامات پر آیا ہے‘ ایک آیت زیر مطالعہ میں اور دوسرا اسورۃ لنساء کی آیت 158 میں۔ دونوں جگہ پر یہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے لیے آیا ہے اور دونوں جگہ ’’ اِلٰی‘‘ کی نسبت اللہ کی طرف ہے۔ اس کی وجہ سے یہ امکان ختم ہو جاتا ہے کہ مذکورہ دونوں مقامات پر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے رتبہ کی بلندی کا معنی لیاجائے۔ اس لیے اس آیت کا معنی ٔ مراد یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو ان کے جسم کے ساتھ اللہ نے آسمان میں اٹھایا۔

 جو لوگ اس آیت میں لفظ ’’ مُتَوَفِّیْ‘‘ کا مطلب ’’ موت دینے والا‘‘ لیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ امت کے مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے بھی اس کے یہی معنی لیے ہیں۔ یہ بات درست ہے‘ لیکن انہوں (رض)  نے آیت کے معنی ٔ مراد کو بھی قائم رکھا ہے۔ انہوں (رض)  نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ’’ میں آپؑ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا‘ پھر آخر زمانہ میں آپؑ کو طبعی طور پر وفات دوں گا‘‘۔ (در منثور‘ ج 2‘ ص 36‘ منقول از معارف القرآن) ۔ یعنی آیت کے الفاظ میں تقدیم و تأخیر ہے۔ پہلے ’’ رَافِعُکَ‘‘ کا وقوع ہو گا اور اس کے بعد ’’ مُتَوَفِّیْکَ‘‘ کا وقوع ہو گا۔

 امام رازی (رح)  نے نشاندہی کی ہے کہ بعض مصلحتوں کے تحت قرآن کریم میں اس طرح کی تقدیم و تأخیر بکثرت آئی ہے کہ جو واقعہ بعد میں ہونے والا تھا اس کو پہلے اور پہلے ہونے والے واقعہ کو بعد میں بیان فرمایا (تفسیر کبیر‘ ج 2‘ ص 481 ‘ منقول از معارف القرآن) ۔ آیت زیر مطالعہ میں تقدیم و تأخیر کس مصلحت سے کی گئی ہے‘ اس کی وضاحت معارف القرآن میں دی ہوئی ہے۔ خواہش مند حضرات وہاں سے مطالعہ کر لیں۔

 اس طرح آیت زیر مطالعہ اور سورۃ النساء کی آیت 158 نص صریح ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو جسمانی طور پر آسمان میں اٹھایا ہے۔ اور حضرت ابن عباس (رض) کی تفسیر کے مطابق حضرت عیسیٰ  ؑ کے دنیا میں واپس آنے کی سند بھی آیت زیر مطالعہ میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایک سو سے زائد احادیث میں مختلف پیرائے میں جو خبریں دی گئی ہیں ان کی وجہ سے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا رفع جسمانی اور ان کی واپسی ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا تر ہو جاتی ہے۔ فَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ   ۡ وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ   56؀
[فَاَمَّا الَّذِیْنَ : پس وہ جنہوں نے ] [کَفَرُوْا : انکار کیا ] [فَاُعَذِّبُہُمْ : ان کو تو میں عذاب دوں گا] [عَذَابًا شَدِیْدًا : ایک ] [شدید عذاب ] [فِی الدُّنْیَا : دنیا میں ] [وَالْاٰخِرَۃِ : اور آخرت میں ] [وَمَا لَہُمْ : اور ان کے لیے نہیں ہے ] [مِّنْ نّٰصِرِیْنَ : کسی قسم کا کوئی مدد کرنے والا ] وَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُوَفِّيْهِمْ اُجُوْرَھُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ57؀
[وَاَمَّا الَّذِیْنَ : اور وہ جو ] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے ] [الصّٰلِحٰتِ : نیک ] [فَیُوَفِّیْہِمْ : ان کو تو وہ پورا پورا دے گا] [اُجُوْرَہُمْ : ان کے اجر ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [لاَ یُحِبُّ : پسند نہیں کرتا ] [الظّٰلِمِیْنَ: ظلم کرنے والوں کو ] ذٰلِكَ نَتْلُوْهُ عَلَيْكَ مِنَ الْاٰيٰتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيْمِ 58؀
[ ذٰلِکَ : یہ ] [نَتْلُوْہُ : ہم پڑھ کر سناتے ہیں اسے] [عَلَیْکَ : آپؐ ‘ کو ] [مِنَ الْاٰیٰتِ : آیتوں میں سے] [وَالذِّکْرِ الْحَکِیْمِ: اور پُر حکمت نصیحت میں سے]

 ترکیب

ترکیب : ’’ مِنْ‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے ’’ اَلذِّکْرِ الْحَکِیْمِ‘‘ مجرور ہے۔ اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ   59؀
[اِنَّ : یقینا ] [مَثَلَ عِیْسٰی : عیسیٰ کی مثال] [عِنْدَ اللّٰہِ : اللہ کے نزدیک ] [کَمَثَلِ اٰدَمَ: آدم کی مثال جیسی ہے] [خَلَقَہٗ : اس نے پیدا کیا انؑ کو] [مِنْ تُرَابٍ : ایک مٹی سے ] [ثُمَّ : پھر ] [قَالَ : اس نے کہا ] [لَـہٗ : انؑ سے ] [کُنْ : تو ہو جا] [فَـیَکُوْنُ: پس وہ ہو گئے]

 ترکیب

’’ اِنَّ ‘‘ کا اسم ’’ مَثَلَ عِیْسٰی‘‘ ہے اس لیے اس کا مضاف ’’ مَثَلَ‘‘ منصوب ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے۔ ’’ کَمَثَلِ اٰدَمَ‘‘ قائم مقام خبر ہے اور ’’ عِنْدَ اللّٰہِ‘‘ متعلق خبر ہے۔ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ   60؀
[اَلْحَقُّ : حق ہے ] [مِنْ رَّبِّکَ : تیرے رب (کی طرف) سے] [فَلاَ تَـکُنْ : تو آپؐ ‘ نہ ہوں] [مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ : شک کرنے والوں میں سے] فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ  ۣ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ    61؀
[فَمَنْ : پھر جو ] [حَآجَّکَ : حجت کرے آپؐ سے ] [فِیْہِ : اس میں ] [مِنْۢ بَعْدِ مَا : اس کے بعد کہ جو ] [جَآئَ کَ : آیا آپؐ کے پاس ] [مِنَ الْعِلْمِ : علم میں سے ] [فَقُلْ : تو آپؐ ‘ کہیں ] [تَعَالَوْا : تم لوگ آئو ] [نَدْعُ : تو ہم پکاریں] [اَبْنَآئَ نَا : اپنے بیٹوں کو ] [وَاَبْنَآئَ کُمْ : اور (تم) تمہارے بیٹوں کو] [وَنِسَآئَ نَا : اور (ہم) اپنی عورتوں کو] [وَنِسَآئَ کُمْ : اور (تم) تمہاری عورتوں کو] [وَاَنْفُسَنَا : اور (ہم) اپنی جانوں کو ] [وَاَنْفُسَکُمْ : اور (تم) تمہاری جانوں کو] [ثُمَّ نَـبْتَہِلْ : پھر ہم گڑگڑائیں] [فَنَجْعَلْ : پھر ہم بنائیں (یعنی بھیجیں) ] [لَّـعْنَتَ اللّٰہِ : اللہ کی لعنت ] [عَلَی الْکٰذِبِیْنَ : جھوٹ کہنے والوں پر]

 

ب ھـ ل

 بَھَلَ (ف) بَھْلاً : کسی کو آزاد چھوڑنا۔

 اِبْتَھَلَ (افتعال) اِبْتِھَالًا : اہتمام سے آزاد ہونا‘ آزادی سے کھل کر التجا کرنا‘ گڑگڑانا‘ آیت زیرمطالعہ۔

 ترکیب : فعل امر ’’ تَعَالَوْا‘‘ کا جواب امر ہونے کی وجہ سے ’’ نَدْعُ۔ نَـبْتَھِلْاور نَجْعَلْ ‘‘ مجزوم ہوئے ہیں۔’’ اِنَّ ‘‘ کا اسم’’ ھٰذَا‘‘ ہے۔ ’’ اِنَّ‘‘ کی خبر پر تاکید مزید کے لیے اکثر لامِ تاکید لگا دیتے ہیں۔ وہی لام تاکید یہاں ضمیر فاصل ’’ ھُوَ‘‘ پر آیا ہے اور ’’ اَلْقَصَصُ الْحَقُّ‘‘ خبر معرفہ ہے۔ ’’ مِنْ اِلٰـہٍ‘‘ کا ’’ مِنْ‘‘ مزید عموم کے لیے ہے۔ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ ۚ وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ  ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ   62؀
[اِنَّ ہٰذَا : بےشک یہ ] [لَہُوَ : لازماً یہی ] [الْقَصَصُ الْحَقُّ : سچا قصہ ہے ] [وَمَا : اور نہیں ہے ] [مِنْ اِلٰہٍ : کسی قسم کا کوئی الٰہ] [اِلاَّ اللّٰہُ : سوائے اللہ کے ] [وَاِنَّ اللّٰہَ : اور یقینا اللہ] [لَہُوَ : لازماً وہی ] [الْعَزِیْزُ : بالادست ہے] [الْحَکِیْمُ ] [حکمت والا ہے ] فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِالْمُفْسِدِيْنَ   63؀ۧ
[فَاِنْ : پھر اگر ] [تَوَلَّوْا : وہ لوگ روگردانی کریں] [فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ (تو) ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ] [بِالْمُفْسِدِیْنَ : فساد پھیلانے والوں کو] قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ  ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ  64؀
[قُلْ : آپ ‘ؐ کہیے] [یٰٓـــاَہْلَ الْـکِتٰبِ : اے اہل کتاب ] [تَـعَالَوْا : تم لوگ آئو ] [اِلٰی کَلِمَۃٍ : ایک ایسے کلمے کی طرف جو ] [سَوَآئٍ : یکساں ہے ] [بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ: ہمارے اور تمہارے درمیان] [اَلاَّ نَعْبُدَ : کہ ہم بندگی نہ کریں] [اِلاَّ اللّٰہَ : مگر اللہ کی ] [وَلاَ نُشْرِکَ : اور (یہ) کہ ہم شرک نہ کریں] [بِہٖ : اس کے ساتھ ] [شَیْئًا : ذرا سا بھی] [وَّلاَ یَتَّخِذَ : اور (یہ) کہ نہ بنائے ] [بَعْضُنَا : ہم میں کا کوئی ] [بَعْضًا : کسی کو ] [اَرْبَابًا : پرورش کرنے والا ] [مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ : اللہ کے سوا ] [فَاِنْ : پھر اگر ] [تَوَلَّوْا : وہ لوگ روگردانی کریں] [فَقُوْلُوا : تو تم لوگ کہو ] [اشْہَدُوْا : گواہ رہو ] [بِاَنَّا : کہ ہم تو ] [مُسْلِمُوْنَ: اطاعت شعاری کرنے والے ہیں]

 

ترکیب :’’ کَلِمَۃٍ‘‘ نکرہ مخصوصہ ہے اور ’’ سَوَائٍ‘‘ اس کی خصوصیت ہے۔ ’’ اَلاَّ‘‘ دراصل ’’ اَنْ‘‘ اور’’ لاَ‘‘ ہے اور اس میں لائے نفی ہے ‘ اس لیے ’’ اَنْ‘‘ نے ’’ نَعْبُدَ‘‘ کو منصوب کیا ہے۔ ’’ نُشْرِکَ‘‘ اور ’’ یَتَّخِذَ‘‘ ’’ اَنْ‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ ’’ یَتَّخِذَ‘‘ کا فاعل’’ بَعْضُنَا‘‘ ہے۔ ’’ بَعْضًا‘‘ اس کا مفعول اوّل اور ’’ اَرْبَابًا‘‘ مفعول ثانی ہے۔’’ ھَا‘‘ کلمۂ تنبیہہ ہے۔ ’’ اَنْتُمْ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ ھٰؤُلَائِ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ حَاجَجْتُمْ‘‘ خبر کا بدل ہے اس لیے ترجمہ حال میں ہو گا۔ ’’ لَـیْسَ‘‘ کا اسم ’’ عِلْمٌ‘‘ ہے‘ اس کی خبر ’’ مَوْجُوْدًا‘‘ محذوف ہے اور ’’ لَـکُمْ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔

نوٹ (1) : کسی اور کو رب بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت کی جائے۔ (ابن کثیر) يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰىةُ وَالْاِنْجِيْلُ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِهٖ  ۭاَفَلَا تَعْقِلُوْنَ  65؀
[یٰٓــاَہْلَ الْکِتٰبِ : اے اہل کتاب ] [لِمَ : کیوں] [تُحَآجُّوْنَ : تم لوگ حجت کرتے ہو] [فِیْ اِبْرٰہِیْمَ : ابراہیم ؑ (کے بارے) میں] [وَمَآ : حالانکہ نہیں ] [اُنْزِلَتِ : اتاری گئی ] [التَّوْرٰٹۃُ : تورات ] [وَالْاِنْجِیْلُ : اور انجیل ] [اِلاَّ مِنْم بَعْدِہٖ : مگر انؑ کے بعد ] [اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ: تو کیا تم لوگ عقل نہیں کرتے] ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ حَاجَجْتُمْ فِيْمَا لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ   66؀
[ھٰٓانتم : سن لو! تم لوگ] [ھٰٓؤُلَاۗءِ : وہ ہو ] [حَاجَجْتُمْ : جو حجت کرتے ہو] [فِیْمَا : اس میں ] [لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [بِہٖ : جس میں ] [عِلْمٌ : ایک علم ہے ] [فَلِمَ : پھر کیوں ] [تُحَآجُّوْنَ : تم لوگ حجت کرتے ہو] [فِیْمَا : اس میں ] [لَـیْسَ : نہیں ہے ] [لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [بِہٖ : جس میں ] [عِلْمٌ : کوئی علم ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [یَعْلَمُ : جانتا ہے ] [وَاَنْتُمْ : اور تم لوگ ] [لاَ تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے ہو] مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا   ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ   67؀
[مَا کَانَ : نہیں تھے ] [اِبْرٰہِیْمُ : ابراہیم ؑ] [یَہُوْدِیًّا : یہودی ] [وَّلاَ نَصْرَانِیًّا : اور نہ ہی نصرانی] [وَّلٰـکِنْ : اور لیکن (یعنی بلکہ) ] [کَانَ : وہ تھے ] [حَنِیْفًا : یکسو] [مُّسْلِمًا : فرماں بردار] [وَمَا کَانَ : اور وہ نہیں تھے ] [مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ: شرک کرنے والوں میں سے]

ترکیب : ’’ یَھُوْدِیًّا۔ نَصْرَانِیًّا۔ حَنِیْفًا اور مُسْلِمًا‘‘ یہ سب ’’ کَانَ‘‘ کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ ’’ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ‘‘ میں’’ اَوْلٰی‘‘ تفضیل کل ہے اور یہ پورا فقرہ ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم ہے۔ ’’ لَـلَّذِیْنَ‘‘ کا ’’ ل‘‘ لامِ تاکید ہے۔ ’’ اِنَّ‘‘ کی خبر اوّل ’’ لِلَّذِیْنَ اتَّـبَعُوْہُ‘‘ ہے۔ ’’ وَھٰذَا النَّبِیُّ‘‘ خبر ثانی ہے اور ’’ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ خبر ثالث ہے۔ اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭوَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ   68؀
[اِنَّ : بےشک ] [اَوْلَی النَّاسِ: لوگوں میں سب سے زیادہ قریب] [بِاِبْرٰہِیْمَ : ابراہیم ؑ سے ] [لَلَّذِیْنَ : لازماً وہ لوگ ] [ہیں جنہوں نے] [اتَّـبَعُوْہُ : پیروی کی انؑ کی] [وَہٰذَا النَّبِیُّ : اور یہ نبیؐ ہیں] [وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ ہیں جو ] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے (ان نبیؐ پر) ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ : مؤمنوں کا کارساز ہے] وَدَّتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يُضِلُّوْنَكُمْ ۭ وَمَا يُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ    69؀
[وَدَّتْ : آرزو کی ] [طَّـآئِفَۃٌ : ایک جماعت نے] [مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ : اہل کتاب میں سے] [لَوْ : کاش] [یُضِلُّوْنَـکُمْ : وہ لوگ ] [گمراہ کر دیں تم لوگوں کو] [وَمَا یُضِلُّوْنَ : اور وہ گمراہ نہیں کرتے] [اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ : مگر اپنے آپ کو ] [وَ : اس حال میں کہ ] [مَا یَشْعُرُوْنَ : وہ لوگ شعور نہیں رکھتے] يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ   70؀
[يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ: اے اہل کتاب] [لِمَ : کیوں ] [تَکْفُرُوْنَ : تم لوگ انکار کرتے ہو ] [بِاٰیٰتِ اللّٰہِ : اللہ کی آیتوں کا] [وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ : تم لوگ گواہی دیتے ہو]

 

ترکیب :’’ اٰمِنُوْا‘‘ کا مفعول ’’ بِالَّذِیْ اُنْزِلَ‘‘ ہے۔ ’’ وَجْہَ النَّھَارِ‘‘ میں ’’ وَجْہَ‘‘ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ اسی طرح ’’ اٰخِرَ‘‘ بھی ظرف ہے اور اس کے ساتھ ’’ ھٗ‘‘ کی ضمیر ’’ اَلنَّھَارِ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ لَـعَلَّھُمْ‘‘ کی ضمیر ’’ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ کے لیے ہے۔ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ    71؀ۧ
[يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل لکتاب] [لِمَ : کیوں] [تَلْبِسُوْنَ : تم لوگ گڈمڈ کرتے ہو] [الْحَقَّ : حق کو ] [بِالْبَاطِلِ : باطل کے ساتھ] [وَتَکْتُمُوْنَ : اور چھپاتے ہو ] [الْحَقَّ : حق کو ] [وَ : حالانکہ ] [اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم لوگ جانتے ہو] وَقَالَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوْٓا اٰخِرَهٗ لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ   72؀ښ
[وَقَالَتْ : اور کہا ] [طَّــآئِفَۃٌ : ایک جماعت نے ] [مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ : اہل کتاب میں سے] [اٰمِنُوْا : تم لوگ ایمان لائو] [بِالَّذِیْ: اس پر جو ] [اُنْزِلَ : اُتارا گیا ] [عَلَی الَّذِیْنَ : ان لوگوں پر جو ] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [وَجْہَ النَّہَارِ : دن کے شروع میں ] [وَاکْفُرُوْآ : اور انکار کرو] [اٰخِرَہٗ : اس کے آخر میں ] [لَـعَلَّہُمْ : شاید وہ لوگ ] [یَرْجِعُوْنَ : لوٹ آئیں] وَلَا تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِيْنَكُمْ ۭ قُلْ اِنَّ الْهُدٰى ھُدَى اللّٰهِ ۙ اَنْ يُّؤْتٰٓى اَحَدٌ مِّثْلَ مَآ اُوْتِيْتُمْ اَوْ يُحَاۗجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ ۭ قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللّٰهِ ۚ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭوَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ   73؀ڌ
[وَلاَ تُؤْمِنُوْآ : اور (جماعت نے کہا) تم لوگ بات مت مانو] [اِلاَّ : مگر ] [لِمَنْ : اس کی جو ] [تَبِعَ : چلا

دِیْنَـکُمْ : تمہارے دین پر ] [قُلْ : آپؐ کہیے ] [اِنَّ : یقینا ] [الْہُدٰی : اصل ہدایت ] [ہُدَی اللّٰہِ : اللہ کی ہدایت ہے ] [اَنْ : (اور نہ مانو) کہ] [یُّؤْتٰٓی : دیا جائے گا ] [اَحَدٌ : کسی ایک کو ] [مِّثْلَ مَآ : اس کے جیسا جو ] [اُوْتِیْتُمْ : دیا گیا تم کو ] [اَوْ : یا ] [یُحَآجُّوْکُمْ : (یہ کہ) وہ لوگ حجت کریں گے تم سے ] [عِنْدَ رَبِّکُمْ : تمہارے رب کے پاس] [قُلْ : آپؐ کہیے ] [اِنَّ : یقینا ] [الْفَضْلَ : فضل ] [بِیَدِ اللّٰہِ : اللہ کے ہاتھ میں ہے ] [یُؤْتِیْہِ : وہ دیتا ہے اسے ] [مَنْ : اس کو جسے ] [یَّشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [وَاسِعٌ : وسعت والا ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ]

 

ترکیب: ’’ وَلَا تُؤْمِنُوْا‘‘ کا وائو گزشتہ آیت میں ’’ وَقَالَتْ طَّائِفَۃٌ‘‘ پر عطف ہے اور ’’ تُؤْمِنُوْا‘‘ کے بعد ’’ لِ‘‘ کا صلہ آیا ہے۔ ترجمہ اس کے لحاظ سے ہو گا۔ (دیکھیں البقرۃ:55‘ نوٹ 1) ۔ ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم ’’ اَلْھُدٰی‘‘ ہے اور اس پر لامِ جنس ہے‘ جبکہ ’’ ھُدَی اللّٰہِ‘‘ خبر ہے اور یہ درمیان میں جملۂ معترضہ ہے۔ ’’ اَنْ یَّؤْتٰی‘‘ میں ’’ اَنْ‘‘ پیچھے ’’ وَلَا تُؤْمِنُوْا‘‘ پر عطف ہے اور ’’ اَنْ‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے آگے ’’ یُحَاجُّوْا‘‘ منصوب ہوا ہے۔ يَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ  74؀
[یَّخْتَصُّ : وہ مخصوص کرتا ہے ] [بِرَحْمَتِہٖ : اپنی رحمت سے ] [مَنْ : اس کو جسے ] [یَّشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ : بڑے فضل والا ہے] وَمِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّهٖٓ اِلَيْكَ  ۚ وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِيْنَارٍ لَّا يُؤَدِّهٖٓ اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَاۗىِٕمًا  ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ ۚ وَيَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ   75؀
[وَمِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ : اور اہل کتاب میں سے] [مَنْ : وہ بھی ہے جو ] [اِنْ : (کہ) اگر] [تَاْمَنْہُ : تو بھروسہ کرے اس پر ] [بِقِنْطَارٍ : ڈھیروں (مال) کا] [یُّؤَدِّہٖٓ : تو وہ واپس کرے گا اسے] [اِلَـیْکَ : تیری طرف ] [وَمِنْ ہُمْ : اور ان میں سے ] [مَّنْ : وہ بھی ہے جو ] [اِنْ : (کہ) اگر ] [تَاْمَنْہُ : تو بھروسہ کرے اس پر ] [بِدِیْنَارٍ : ایک دینار کا] [لاَّ یُؤَدِّہٖٓ : تو وہ واپس نہیں کرے گا اسے] [اِلَـیْکَ : تیری طرف ] [اِلاَّ : مگر ] [مَا دُمْتَ : جب تک تو رہے ] [عَلَیْہِ : اس پر ] [قَـآئِمًا : کھڑا] [ذٰلِکَ : یہ ] [بِاَنَّہُمْ : اس سبب سے کہ انہوں نے] [قَالُوْا : کہا] [لَـیْسَ : نہیں ہے ] [عَلَیْنَا : ہم پر ] [فِی الْاُمِّیّٖنَ: اُمّی لوگوں (کے بارے) میں] [سَبِیْلٌ : کوئی الزام ] [وَیَـقُوْلُوْنَ : اور وہ لوگ کہتے ہیں ] [عَلَی اللّٰہِ : اللہ پر ] [الْکَذِبَ : جھوٹ] [وَ : اس حال میں کہ ] [ہُمْ یَعْلَمُوْنَ : وہ لوگ جانتے ہیں]

 

ترکیب :’’ مَا دُمْتُ‘‘ افعالِ ناقصہ میں سے ہے (دیکھیں البقرۃ:57‘ نوٹ 2) ۔ اس کا اسم اس میں شامل ’’ اَنْتَ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ قَائِمًا‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ لَـیْسَ‘‘ کا اسم’’ سَبِیْلٌ‘‘ ہے‘ خبر محذوف ہے اور ’’ عَلَیْنَا‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ بَلٰي مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ   76؀
[بَلٰی : کیوں نہیں ] [مَنْ : جس نے ] [اَوْفٰی : پورا کیا ] [بِعَہْدِہٖ : اپنے عہد کو ] [وَاتَّقٰی : اور تقویٰ اختیار کیا ] [فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [یُحِبُّ : پسند کرتا ہے ] [الْمُتَّقِیْنَ : تقویٰ کرنے والوں کو] اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا اُولٰۗىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ۠ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ    77؀
[اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک جو لوگ] [یَشْتَرُوْنَ : خریدتے ہیں ] [بِعَہْدِ اللّٰہِ : اللہ کے عہد کے بدلے] [وَاَیْمَانِہِمْ : اور اپنی قسموں کے بدلے] [ثَمَنًا قَلِیْلاً : تھوڑی قیمت کو] [اُولٰٓئِکَ : یہ وہ لوگ ہیں ] [لاَ خَلاَقَ : بھلائی میں کسی قسم کا کوئی حصہ نہیں ہے] [لَہُمْ : جن کے لیے ] [فِی الْاٰخِرَۃِ : آخرت میں ] [وَلاَ یُکَلِّمُہُمُ : اور کلام نہیں ] [کرے گا ان سے] [اللّٰہُ : اللہ ] [وَلاَ یَنْظُرُ : اور نہ ہی وہ دیکھے گا ] [اِلَـیْہِمْ : ان کی طرف ] [یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن] [وَلاَ یُزَکِّیْہِمْ : اور نہ ہی وہ پاک کرے گا ان کو] [وَلَہُمْ : اور ان کے لیے ] [عَذَابٌ اَلِیْمٌ : ایک دردناک عذاب ہے]

ل و ی

لَـوٰی (ض) لَــیًّا : بنیادی مفہوم ہے رسّی بٹنا‘ پھر زیادہ تر دو معانی میں آتا ہے: (1) کسی چیز کو مروڑنا۔ (2) کسی چیز کو گھمانا۔{وَاِنْ تَلْوٗا اَوْ تُعْرِضُوْا} (النسائ:135) ’’ اور اگر تم لوگ مروڑتے ہو (بات کو) یا اعراض کرتے ہو۔‘‘{اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلَا تَلْوٗنَ عَلٰی اَحَدٍ} (آل عمران:153) ’’ جب تم لوگ بھاگے جاتے تھے اور نہیں گھماتے تھے (گردن کو) کسی ایک پر۔‘‘

 لَـوّٰی (تفعیل) تَلْوِیَۃً (تفعیل) : بار بار مروڑنا‘ بار بارگھمانا۔ {لَوَّوْارُئُ وْسَھُمْ} (المنٰفقون:5) ’’ تو وہ لوگ مٹکاتے ہیں اپنے سروں کو۔‘‘

ل س ن

 لَسِنَ (س) لَسَنًا : قوتِ گویائی والاہونا۔

 لِسَانٌ ج اَلْسِنَۃٌ : اسم ذات ہے اور دو معانی میں آتا ہے: زبان بمعنی بولی۔ (2) زبان بمعنی عضوِ گویائی۔ {لِتَـکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ۔ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍ مُّبِیْنٍ ۔ } (الشُّعرائ) ’’ تاکہ آپؐ ہو جائیں خبردار کرنے والوں میں سے واضح عربی زبان میں۔‘‘{لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ} (القیٰمۃ:16) ’’ آپؐ بار بار حرکت نہ دیں اس کے ساتھ اپنی زبان کو۔‘‘

 ترکیب:’’ اَیْمَانِھِمْ‘‘ میں ’’ اَیْمَانِ‘‘ کی جر بتارہی ہے کہ یہ ’’ بِ‘‘ پر عطف ہے۔ ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ کا موصول ’’ اُولٰٓـئِکَ‘‘ ہے۔ ’’ یَوْمَ‘‘ ظرف ہے۔ ’’ فَرِیْقًا‘‘ نکرہ مخصوصہ ہے۔ ’’ یَلْوٗنَ‘‘ دراصل باب ضَرَبَ سے فعل مضارع ’’ یَلْوِیُوْنَ‘‘ تھا جو قاعدے کے مطابق تبدیل ہو کر ’’ یَلْوُوْنَ‘‘ ہوا جسے ’’ یَلْوٗنَ‘‘ لکھا گیا ہے ۔

نوٹ (1) : کسی سے بات نہ کرنا اور اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھنا دراصل غصے اور ناراضگی کی انتہائی اور آخری شکل ہے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ آخرت میں ایک طرف تو کچھ وہ نصیبے والے ہوں گے جو کسی حساب کتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے‘ وہیں کچھ ایسے بدنصیب بھی ہوں گے جو کسی حساب کتاب کے بغیر جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔

 آیات زیر مطالعہ میں یہ بات یہود و نصاریٰ کے حوالے سے کہی گئی ہے جو تورات اور انجیل کو دنیاوی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے اور اس غرض سے جھوٹی قسمیں کھانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ اس لیے ہم لوگوں کا ذہن مطمئن رہتا ہے کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک بہت مہلک غلط فہمی ہے‘ اسے دور کرنا ضروری ہے۔

 اصولی بات یہ ہے کہ قرآن مجید نہ تو تاریخ کی کتاب ہے اور نہ ہی تاریخ کا علم دینا اس کا مقصد ہے۔ اس میں یہود و نصاریٰ اور دیگر اقوام کا ذکر ہماری ہدایت اور راہنمائی کی غرض سے کیا گیا ہے۔ اس لیے ایسے مقامات کا مطالعہ کرتے وقت ضروری ہے کہ اپنے گریبان میں جھانک کر ایک مرتبہ ہم اپنا جائزہ ضرور لیں‘ ورنہ قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ یاد رکھیں کہ اس وقت بھی اگر آپ اس شیطانی چکر میں پڑ گئے کہ فلاں مولانا تو یہ کرتے ہیں اور فلاں عالم نے یہ کیا ہے‘ تو پھر آپ خود ہدایت سے محروم رہ جائیں گے۔ اس لیے پہلے اپنا گریبان اور اپنی فکر‘ بعد میں دوسروں کی فکر۔

 یہ اصول اگر سمجھ میں آگیا ہے تو آیات زیر مطالعہ کے حوالے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجانی چاہیے کہ یہود و نصاریٰ کے کچھ لوگوں نے تورات اور انجیل کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہی سلوک اگر ہم نے قرآن مجید کے ساتھ کیا تو ہمارا بھی وہی حشر ہو گا جو ایسے یہود و نصاریٰ کا ہونا ہے اور جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔

 مذکورہ بالا منطقی دلیل کے علاوہ اس بات کی بہت واضح سند قرآن مجید میں موجود ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 172 میں خطاب کا آغاز یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے ہوا ہے۔ یعنی یہ خطاب براہِ راست ہم لوگوں سے ہے اور اسی تسلسل میں آیت 174 میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ یقینا جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اتارا ہے ‘ ان سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ تو کلام کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا۔ اب کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس لیے ہر شخص کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ قرآن مجید کے کتنے حقوق ادا کر رہا ہے۔ اس میں کوتاہی کے نتیجے پر ایک حدیث سے بھی روشنی پڑتی ہے۔

 سورئہ بنی اسرائیل کی آیت 79 کی تفسیر میں ابن کثیر نے ایک بہت طویل حدیث نقل کی ہے جس کے آخر میں یہ ہے کہ آخری مرتبہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے کچھ امتیوں کو دوزخ سے نکال کر لائیں گے تو فرمائیں گے کہ یااللہ! اب تو وہاں پر وہ لوگ رہ گئے ہیں جنہیں قرآن نے روک رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے خلاف قرآن کی حجت قائم ہو گئی وہ رحمۃٌ للعالمین ﷺ کی شفاعت سے بھی محروم رہے گا۔ اب اپنے اوپر یہ لازم کرلیں کہ آپ معلوم کریں کہ قرآن مجید کے آپ پر کیا حقوق ہیں اور پھر اپنے مقدور بھر اس کی ادائیگی کی کوشش کریں تاکہ قیامت کے دن آپ یہ معذرت پیش کرسکیں کہ یا اللہ میں نے اپنے مقدور بھر کوشش کی تھی اور کوشش کے بعد تیری اس رحمت کا آسرا کیا تھا کہ لاَ یُـکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا۔ وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِيْقًا يَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَھُمْ بِالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَمَا ھُوَ مِنَ الْكِتٰبِ ۚ  وَيَقُوْلُوْنَ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَمَا ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ  ۚ وَيَـقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ 78 ؀
[وَاِنَّ : اور بےشک ] [مِنْہُمْ : ان میں ] [لَفَرِیْقًا : لازماً ایک ایسا فریق ہے] [یَّلْوٗنَ : جو مروڑتا ہے] [اَلْسِنَتَہُمْ : اپنی زبانوں کو] [بِالْکِتٰبِ : کتاب میں] [لِتَحْسَبُوْہُ : تاکہ تم لوگ گمان کرو اس کو] [مِنَ الْـکِتٰبِ : کتاب میں سے] [وَمَا ہُوَ : حالانکہ وہ نہیں ہے ] [مِنَ الْکِتٰبِ : کتاب سے ] [وَیَقُوْلُوْنَ : اور وہ لوگ کہتے ہیں ] [ہُوَ : وہ

] [مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ : اللہ کے پاس سے ہے ] [وَمَا ہُوَ : حالانکہ وہ نہیں ہے] [مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ : اللہ کے پاس سے ] [وَیَقُوْلُوْنَ : اور وہ لوگ کہتے ہیں ] [عَلَی اللّٰہِ : اللہ پر ] [الْکَذِبَ : جھوٹ ] [وَ: اس حال میں کہ ] [ہُمْ : وہ لوگ ] [یَعْلَمُوْنَ: جانتے ہیں ] مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ   79؀ۙ
[وَمَا کَانَ : اور (جائز) نہیں ہے] [لِبَشَرٍ : کسی بشر کے لیے] [اَنْ : کہ ] [یُّؤْتِیَہُ : اس کو دے ] [اللّٰہُ : اللہ ] [الْـکِتٰبَ : کتاب ] [وَالْحُکْمَ : اور حکمت] [وَالنُّبُوَّۃَ : اور نبوت ] [ثُمَّ : پھر ] [یَـقُوْلَ : (یہ کہ) وہ کہے ] [لِلنَّاسِ : لوگوں سے ] [کُوْنُوْا : تم لوگ ہو جائو ] [عِبَادًا : بندے ] [لِّیْ : میرے لیے ] [مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ : اللہ کے علاوہ ] [وَلٰــکِنْ : اور لیکن (یعنی بلکہ وہ کہے) ] [کُوْنُوْا : تم لوگ ہو جائو ] [رَبَّانِیّٖنَ : رب والے ] [بِمَا : اس سبب سے کہ جو ] [کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ : تم لوگ تعلیم دیا کرتے ہو] [الْکِتٰبَ : کتاب کی ] [وَبِمَا : اور اس سبب سے کہ جو] [کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ : تم لوگ سبق لیا کرتے ہو]

 

د ر س

 دَرَسَ (ن) دُرُوْسًا : کسی مٹنے والی چیز کا نشان باقی رہ جانا۔

 دِرَاسَۃً : کسی کتاب کا علم محفوظ کرنا‘ توجہ سے پڑھنا‘ سبق لینا‘ آیات زیر مطالعہ۔{وَاِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِھِمْ لَغٰفِلِیْنَ} (الانعام:156) ’’ اور بےشک ہم لوگ تھے ان سے سبق لینے سے غفلت برتنے والے۔‘‘

 ترکیب:’’ مَا کَانَ‘‘ کی خبر محذوف ہے جو ’’ جَائِزًا‘‘ یا ’’ مُنَاسِبًا‘‘ ہو سکتی ہے۔ ’’ یَقُوْلَ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ ’’ اَنْ‘‘ پر عطف ہے۔ ’’ وَلٰـکِنْ‘‘ کے بعد ’’ یَقُوْلُ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ بِمَا‘‘ کا ’’ بَا‘‘ سببیہ ہے۔ ’’ وَلَا‘‘ کے بعد ’’ جَائِزٌ اَنْ‘‘ محذوف ہے۔ وَلَا يَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَالنَّبِيّٖنَ اَرْبَابًا  ۭ اَيَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ   80؀ۧ
[وَلاَ : اور نہ ہی (جائز ہے کہ)] [یَاْمُرَکُمْ : وہ حکم دے تم کو ] [اَنْ : کہ ] [تَتَّخِذُوا : تم لوگ بنائو ] [الْمَلٰٓئِکَۃَ : فرشتوں کو ] [وَالنَّبِیّٖنَ : اور نبیوں کو] [اَرْبَابًا : ربّ] [اَیَاْمُرُکُمْ : کیا وہ حکم دے گا تم کو] [بِالْکُفْرِ : کفر کا ] [بَعْدَ اِذْ : اس کے بعد کہ جب ] [اَنْتُمْ : تم لوگ ] [مُّسْلِمُوْنَ: مسلمان ہو] وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ  ۭ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا  ۭ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ   81؀
[ وَاِذْ : اور جب ] [اَخَذَ : لیا ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ : نبیوں کا عہد (انبیاء سے) ] [لَمَآ : جو کچھ ] [اٰتَـیْتُکُمْ : میں دوں تم لوگوں کو] [مِّنْ کِتٰبٍ : کسی کتاب سے ] [وَّحِکْمَۃٍ : اور کسی حکمت سے ] [ثُمَّ : پھر ] [جَآئَ کُمْ : آئے تمہارے پاس ] [رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ : ایک تصدیق کرنے والا رسول] [لِّمَا : اس کی جو ] [مَعَکُمْ : تمہارے پاس ہے ] [لَتُؤْمِنُنَّ : تو تم لوگ لازماً ایمان لائو گے] [بِہٖ : اس پر ] [وَلَتَنْصُرُنَّہٗ : اور تم لوگ لازماً مدد کرو گے اس کی ] [قَالَ : (اللہ نے) کہا ] [ئَ : کیا ] [اَقْرَرْتُمْ : اقرار کیا تم لوگوں نے ] [وَاَخَذْتُمْ : اور (کیا) پکڑا تم لوگوں نے] [عَلٰی ذٰلِکُمْ : اس پر ] [اِصْرِیْ : میرے عہد کو ] [قَالُوْآ : (انبیاء نے) کہا] [اَقْرَرْنَا : ہم نے اقرار کیا ] [قَالَ : (اللہ نے) کہا] [فَاشْہَدُوْا : پس تم لوگ گواہ ہو جائو] [وَاَنَا : اور میں ] [مَعَکُمْ : تمہارے ساتھ ہوں] [مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ: گواہی دینے والوں میں سے]

 

ترکیب :’’ لَـمَا اٰتَیْتُـکُمْ‘‘ کا ’’ مَا‘‘ موصولہ ہے اور اس پر لامِ تاکید ہے۔ ’’ قَالَ‘‘ کا فاعل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے اور ’’ قَالُوْا‘‘ کا فاعل’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو’’ اَلنَّبِیِّیْنَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ وَاَخَذْتُمْ‘‘ میں حرفِ استفہام’’ئَ‘‘ محذوف ہے اور اس کا مفعول ’’ اِصْرِیْ‘‘ ہے۔

نوٹ: دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو انبیاء و رُسل (علیہ السلام) بھیجے ہیں ‘ ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور کچھ کا نہیں ہے (النسائ:164۔ المؤمن:78) ۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی ایک سے زیادہ انبیاء مبعوث رہے ہیں‘ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) یا حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ۔ ایک بستی والوں کا ذکر ہے جہاں بیک وقت تین انبیاء مبعوث ہوئے تھے (یٰسٓ:14) ۔ لیکن زیادہ تر یہ ہوتا تھا کہ ایک نبی کے جانے کے بعد دوسرا نبی آتا تھا۔

 اس پس منظر میں یہ بات سمجھ لیں کہ جو انبیائf اپنے بعد میں آنے والے نبی کا زمانہ نہیں پاتے تھے وہ اپنی قوم کو ان کی آمد کی خبر اور نشانیاں بتا کر تاکید کر جاتے تھے کہ جب وہ آئیں تو تم لوگ لازماً ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا۔ رسول کریم ﷺ سے پہلے تمام انبیاء و رُسل ؑکا یہ دستور رہا ہے۔ تاریخِ انبیاء میں یہ پہلا اور واحد موقع ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بار بار اور انتہائی تاکید کے ساتھ خبر دی ہے کہ اب انؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یہ آپؐ کے خاتم النبیین ہونے کا ایک بہت واضح ثبوت ہے۔ فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ   82؀
[فَمَنْ : پھر جو ] [تَوَلّٰی : روگردانی کرے] [بَعْدَ ذٰلِکَ : اس کے بعد ] [فَاُولٰٓئِکَ : تو وہ لوگ ] [ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ : ہی نافرمانی کرنے والے ہیں] اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللّٰهِ يَبْغُوْنَ وَلَهٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ  83؀
[اَفَغَیْرَ دِینِ اللّٰہِ : تو کیا اللہ کے دین کے علاوہ] [یَبْغُوْنَ : وہ لوگ چاہتے ہیں ] [وَ : حالانکہ ] [لَہٗ : اس کا ہی ] [اَسْلَمَ : فرماں بردار ہوا] [مَنْ : وہ‘ جو] [فِی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہے ] [وَالْاَرْضِ : اور زمین میں ہے] [طَوْعًا : فرماں برداری کرتے ہوئے ] [وَّکَرْہًا : اور ناپسند کرتے ہوئے] [وَّاِلَیْہِ : اور اس کی طرف ہی ] [یُرْجَعُوْنَ : وہ لوگ لوٹائے جائیں گے]

 

ترکیب:’’ یَبْغُوْنَ‘‘ کا مفعول ’’ غَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ‘‘ ہے اس لیے ’’ غَیْرَ‘‘ منصوب ہے ۔ ’’ طَوْعًا‘‘ اور ’’ کَرْھًا‘‘ حال ہیں۔ ’’ اِبْرٰھِیْمَ‘‘ سے ’’ وَالْاَسْبَاطِ‘‘ تک سب الفاظ ’’ عَلٰی‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے مجرور ہیں۔ ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے اس لیے ’’ یَبْتَغِ‘‘ مجزوم ہوا ہے۔ اس کا مفعول ’’ غَیْرَ الْاِسْلَامِ‘‘ ہے اور ’’ دِیْنًا‘‘ تمیز ہے۔ قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ عَلٰٓى اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَالنَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۠ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ۡ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ  84؀
[قُلْ : آپؐ ‘ کہیے ] [اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے ] [بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [وَمَآ : اور اس پر جو ] [اُنْزِلَ : اُتارا گیا] [عَلَیْنَا : ہم پر ] [وَمَآ : اور اس پر جو ] [اُنْزِلَ : اتارا گیا] [عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ : ابراہیم ؑ پر] [وَاِسْمٰعِیْلَ : اور اسمٰعیل ؑ پر] [وَاِسْحٰقَ : اور اسحاقؑ پر] [وَیَعْقُوْبَ : اور یعقوبؑ پر] [وَالْاَسْبَاطِ : اور (ان کی) نسل پر] [وَمَآ : اور جو ] [اُوْتِیَ : دیا گیا] [مُوْسٰی : موسٰی ؑ کو] [وَعِیْسٰی : اور عیسیٰ ؑ کو] [وَالنَّبِیُّوْنَ : اور نبیوں کو] [مِنْ رَّبِّہِمْ : ان کے رب (کی طرف) سے] [لاَ نُفَرِّقُ : ہم فرق نہیں کرتے] [بَیْنَ اَحَدٍ : کسی ایک کے درمیان] [مِّنْہُمْ : ان میں سے] [وَنَحْنُ : اور ہم ] [لَہٗ : اس کے ہی ] [مُسْلِمُوْنَ: فرماں برداری کرنے والے ہیں] وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ  ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ  85؀
[وَمَنْ : اور جس نے ] [یَّـبْـتَغِ : طلب کیا] [غَیْرَ الْاِسْلاَمِ : اسلام کے علاوہ کو] [دِیْنًا : بطور دین کے] [فَلَنْ یُّقْبَلَ : تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا] [مِنْہُ : اس سے ] [وَہُوَ : اور وہ ] [فِی الْاٰخِرَۃِ : آخرت میں ] [مِنَ الْخٰسِرِیْنَ : خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا ] كَيْفَ يَهْدِي اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِهِمْ وَشَهِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ ۭوَاللّٰهُ لَايَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ  86؀
[کَیْفَ : کیسے ] [یَہْدِی : ہدایت دے گا] [اللّٰہُ : اللہ ] [قَوْمًا : ایسی قوم کو ] [کَفَرُوْا : جس نے کفر کیا ] [بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ : اپنے ایمان کے بعد] [وَ : اس حال میں کہ] [شَہِدُوْآ : ان لوگوں نے گواہی دی ] [اَنَّ : کہ ] [الرَّسُوْلَ : یہ رسولؐ] [حَقٌّ : برحق ہیں ] [وَّجَآئَ ہُمُ : اور آئیں ان کے پاس] [الْبَـیِّنٰتُ : واضح (نشانیاں) ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ

لاَ یَہْدِی : ہدایت نہیں دیتا ] [الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ : ظلم کرنے والی قوم کو]

 

ترکیب :’’ اَلْبَـیِّنٰتُ‘‘ صفت ہے۔ اس کا موصوف ’’ اَلْاٰیٰتُ‘‘ محذوف ہے جو کہ مؤنث غیر حقیقی ہے۔ اس لیے فعل ’’ جَائَ تْ‘‘ کے بجائے ’’ جَائَ‘‘ بھی درست ہے۔ ’’ اَلْمَلٰئِکَۃِ‘‘ اور ’’ اَلنَّاسِ‘‘ مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے مجرور ہیں۔ ان کا مضاف ’’ لَـعْنَۃَ‘‘ محذوف ہے اور یہ سب ’’ اَنَّ‘‘ کا اسم ہیں اس لیے ’’ لَـعْنَۃَ‘‘ منصوب ہے۔ ’’ اَنَّ‘‘ کی خبر محذوف ہے اور ’’ عَلَیْھِمْ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ اَلنَّاسِ‘‘ کی تاکید ہونے کی وجہ سے ’’ اَجْمَعِیْنَ‘‘ منصوب ہے۔ ’’ فِیْھَا‘‘ کی ضمیر ’’ لَـعْنَۃَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ یُنْظَرُوْنَ‘‘ باب افعال کا مضارع مجہول ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ جَزَاۗؤُھُمْ اَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ  87؀ۙ
[اُولٰٓئِکَ : یہ لوگ ہیں ] [جَزَآؤُہُمْ : جن کا بدلہ ہے ] [اَنَّ : کہ ] [عَلَیْہِمْ : ان پر ہے ] [لَعْنَۃَ اللّٰہِ : اللہ کی لعنت ] [وَالْمَلٰٓئِکَۃِ : اور فرشتوں کی ] [وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ : اور تمام لوگوں کی ] خٰلِدِيْنَ فِيْهَا  ۚ لَا يُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْظَرُوْنَ 88؀ۙ
[خٰلِدِیْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں] [فِیْہَا : اس (لعنت ) میں ] [لاَ یُخَفَّفُ : ہلکا نہیں کیا جائے گا] [عَنْہُمُ : ان سے ] [الْعَذَابُ : عذاب ] [وَلاَ ہُمْ : اور نہ ہی ان کو ] [یُنْظَرُوْنَ : مہلت دی جائے گی] اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا      ۣ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ    89؀
[اِلاَّ الَّذِیْنَ : سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے] [تَابُوْا : توبہ کی ] [مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ : اس کے بعد سے ] [وَاَصْلَحُوْا : اور اصلاح کی ] [فَاِنَّ : تو یقینا] [اللّٰہَ : اللہ ] [غَفُوْرٌ : بےانتہا بخشنے والا ہے ] [رَّحِیْمٌ : ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ] اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُھُمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الضَّاۗلُّوْنَ    90؀
[اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک جن لوگوں نے ] [کَفَرُوْا : کفر کیا ] [بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ : اپنے ایمان کے بعد] [ثُمَّ : پھر

ازْدَادُوْا : وہ لوگ زیادہ ہوئے ] [کُفْرًا : بلحاظ کفر کے ] [لَّنْ تُقْبَلَ : ہرگز قبول نہیں کی جائے گی] [تَوْبَتُہُمْ : ان کی توبہ ] [وَاُولٰٓئِکَ : اور وہ لوگ ] [ہُمُ الضَّالُّـــوْنَ : ہی گمراہ ہونے والے ہیں]

 

ترکیب: ’’ اِزْدَادُوْا‘‘ دراصل بابِ افتعال میں ’’ اِزْتَادُوْا‘‘ تھا۔ پھر قاعدے کے مطابق ’’ تا‘‘ کو’’ دال‘‘ میں تبدیل کیا گیا تو ’’ اِزْدَادُوْا‘‘ استعمال ہوا۔’’ کُفْرًا‘‘ اس کی تمیز ہے۔ ’’ یُقْبَلَ‘‘ کا نائب فاعل ’’ مِلْ ئُ الْاَرْضِ‘‘ ہے اور ’’ ذَھَبًا‘‘ تمیز ہے۔ ’’ اُولٰئِکَ‘‘ مبتدأ ہے۔ ’’ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘ پورا جملہ اس کی خبر ہے۔ اس جملہ میں ’’ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے‘ خبر محذوف ہے اور ’’ لَھُمْ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَھَبًا وَّلَوِ افْتَدٰى بِهٖ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ وَّمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ    91؀ۧ
[اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک جنہوں نے ] [کَفَرُوْا : کفر کیا ] [وَمَاتُوْا : اور وہ مرے ] [وَ : اس حال میں کہ ] [ہُمْ : وہ ] [کُفَّارٌ : کافر (ہی) تھے] [فَلَنْ یُّقْبَلَ : تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا] [مِنْ اَحَدِہِمْ : ان کے ایک سے (بھی) ] [مِّلْئُ الْاَرْضِ : زمین کے جتنا ] [ذَہَبًا : سونا ] [وَّ : اور ] [لَوِ : اگر (یعنی خواہ) ] [افْتَدٰی : وہ خود کو ] [چھڑائے دے کر ] [بِہٖ : اسے ] [اُولٰٓئِکَ : یہ لوگ ہیں ] [لَہُمْ : جن کے لیے ] [عَذَابٌ اَلِیْمٌ : ایک دردناک عذاب ہے] [وَّمَا لَہُمْ : اور جن کے لیے نہیں ہے ] [مِّنْ نّٰصِرِیْنَ : کوئی بھی مدد کرنے والا ]