قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 

تیسواں پارہ 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ     Ǻ۝ۚ
[عَمَّ: کس چیز کے بارے میں][ يَتَسَاۗءَلُوْنَ: یہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں]

 

نوٹ 1: عَمَّ دراصل دو حرفوں عن اور ما سے مرکب ہے۔ حرف مَا استفہام کے لیے آتا ہے۔ اس ترکیب میں حرف مَا سے الف ساقط کردیا جاتا ہے۔ معنی ہوئے کس چیز کے بارے میں۔ (معارف القرآن)

نوٹ 2: مکہ معظمہ میں جب اوّل اوّل رسول اللہ
نے اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو اس کی بنیاد تین چیزیں تھیں۔ ایک یہ بات کہ اللہ کے ساتھ کسی کو خدائی میں شریک نہ مانا جائے۔ دوسری یہ کہ آپ 1 کو اللہ نے اپنا رسول مقرر کیا ہے۔ تیسری یہ کہ اس دنیا کا ایک روز خاتمہ ہو جائے گا اور اس کے بعد ایک دوسرا عالم برپا ہو گا جس میں تمام اولین و آخرین دوبارہ زندہ کر کے اسی جسم کے ساتھ اٹھائے جائیں گے جس میں رہ کر انہوں نے اس دنیا میں کام کیا تھا۔ پھر ان کے عقائد اور اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اس محاسبہ میں جو لوگ مومن اور صالح ثابت ہوں گے وہ ہمیشہ کے لیے جنت میں جائیں گے اور جو کافر وفاسق ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے۔

 ان میں سے پہلی بات اگرچہ اہل مکہ کو سخت ناگوار تھی، لیکن بہرحال وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے منکر نہ تھے، اس کے رب اعلیٰ اور خالق ورازق ہونے کو بھی مانتے تھے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ دوسری جن جن ہستیوں کو وہ معبود قرار دیتے ہیں وہ اللہ ہی کی مخلوق ہیں۔ اس لیے جھگڑا صرف اس بات میں تھا کہ خدا کی خدائی میں ان ہستیوں کی کوئی شرکت ہے یا نہیں۔ دوسری بات کو مکہ کے لوگ ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ لیکن اس امر سے انکار کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا کہ چالیس سال تک جو زندگی آپ 1 نے ان کے درمیان گزاری تھی اس میں انہوں نے کبھی آپ 1 کو جھوٹا یا فریب کار یا مطلبی نہ پایا تھا۔ اس لیے ہزار بہانے اور الزامات تراشنے کے باوجود انھیں دوسروں کو باور کرانے اور خود باور کرنے میں سخت مشکل پیش آ رہی تھی کہ حضور 1 سارے معاملات میں تو راستباز ہیں اور صرف رسالت کے دعوے میں معاذ اللہ جھوٹے ہیں۔

 اس طرح پہلی دوباتیں اہل مکہ کے لیے اتنی زیادہ الجھن کا باعث نہ تھیں جتنی تیسری بات تھی۔ انھوں نے سب سے زیادہ اسی کا مذاق اڑایا، سب سے زیادہ حیرانی اور تعجب کا اظہار کیا اور اسے بالکل بعید از عقل اور ناممکن سمجھ کر جگہ جگہ اس کے ناقابل تصور ہونے کے چرچے شروع کر دئیے۔ مگر ان لوگوں کو اسلام کی راہ پر لانے کے لے یہ قطعی ناگزیر تھا کہ آخرت کا عقیدہ ان کے ذہن میں اتاراجائے کیونکہ اس عقیدے کو مانے بغیر یہ ممکن ہی نہ تھا کہ حق اور باطل کے معاملہ میں ان کا طرز فکر سنجیدہ ہو سکتا، خیروشر کے معاملہ میں ان کا معیار بدل سکتا اور دنیا پرستی کی راہ چھوڑ کر اس راہ پر ایک قدم بھی چل سکتے جس پر اسلام ان کو چلانا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی سورتوں میں زیادہ تر زور آخرت کا عقیدہ دلوں میں بٹھانے پر صرف کیا گیا ہے۔ البتہ اس کے لیے دلائل ایسے انداز سے دئیے گئے ہیں جن سے توحید کا تصور بھی خودبخود ذہن نشین ہوتا چلا جاتا ہے اور بیچ بیچ میں رسول اللہ
اور قرآن کے برحق ہونے کے دلائل بھی مختصراً دے دیے گئے ہیں۔ اس لیے اس دور کی سورتوں میں (سورۂ قیامہ سے نازعات تک) آخرت کے مضمون کی تکرار زیادہ ہے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 220۔ 221)

عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ  Ą۝ۙ
[عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ: اس عظیم خبر کے بارے میں]

الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْـتَلِفُوْنَ   Ǽ۝ۭ
[الَّذِي هُمْ فِيْهِ: وہ، یہ لوگ جس میں][ مُخْـتَلِفُوْنَ: اختلاف کرنے والے ہیں]

كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ   Ć۝ۙ
[كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ : ہرگز نہیں! یا یہ لوگ جان لیں گے]

ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ   Ĉ۝
[ثُمَّ: پھر (مکرر)][ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ: ہرگز نہیں! یہ لوگ جان لیں گے]

اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا  Č۝ۙ
[اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ: کیا ہم نے نہیں بنایا زمین کو][ مِهٰدًا: آرادم دہ ٹھکانہ]

وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا  Ċ۝۽
[وَّالْجبالَ اَوْتَادًا: اور پہاڑوں کو میخیں]

وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا  Ď۝ۙ
[وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا: اور ہم نے پیدا کئے تم لوگوں کے جوڑے جوڑے]

وَّجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا   ۝ۙ
[وَّجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ: اور ہم نے بنایا تمھاری نیند کو][ سُبَاتًا: آرام کے لیے]

 

نوٹ 3: آیت۔9۔ میں حق تعالیٰ نے انسان کی راحت کے سب سامانوں میں سے خاص طور پر نیند کا ذکر فرمایا ہے۔ غور کیجیے تو یہ ایک عظیم الشان نعمت ہے۔ اور اس نعمت کو حق تعالیٰ نے پوری مخلوق کے لیے ایسا عام فرما دیا ہے کہ امیر، غریب، عالم، جاہل، بادشاہ اور مزدور سب کو یہ دولت بیک وقت عطا ہوتی ہے۔ بلکہ دنیا کے حالات کا تجزیہ کریں تو غریبوں اور محنت کشوں کو یہ نعمت جیسی حاصل ہوتی ہے وہ مالداروں اور دنیا کے بڑوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ نیند کی نعمت گدوں، تکیوں یا کوٹھی بنگلوں کی فضا کے تابع نہیں ہے، یہ تو حق تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جو براہ راست اس کی طرف سے ملتی ہے۔ بعض اوقات مفلس کو بغیر کسی بستر تکیے کے، کھلی زمین پر یہ نعمت فراوانی سے دے دی جاتی ہے اور بعض اوقات سازوسامان والوں کو نہیں دی جاتی، ان کو خواب آ ور گولیاں کھا کر حاصل ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ گولیاں بھی کام نہیں کرتیں۔ پھر غور کرو کہ حق تعالیٰ نے ساری مخلوق کو یہ نعمت مفت اور بلا محنت دی ہے۔ پھر اس سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے اپنی رحمت کا ملہ سے اس نعمت کو جبری بنا دیا ہے۔ انسان بعض اوقات کام کی کثرت سے مجبور ہو کر چاہتا ہے کہ رات بھر جاگتا رہے مگر رحمت حق اس پر جبراً نیند مسلط کر کے اس کو سلا دیتی ہے کہ دن بھر کی تھکان دور ہو جائے اور اس کے قویٰ مزید کام کے لیے تیز ہو جائیں۔ (معارف القرآن)

وَّجَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا  10۝ۙ
[وَّجَعَلْنَا الَّيْلَ: اور ہم نے بنایا رات کو][ لِبَاسًا: ایک پردہ]

وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا   11۝۠
[وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ: اور ہم نے بنایا دن کو][ مَعَاشًا: زندگی گزارنے کا وقت]

وَّبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا  12۝ۙ
[وَّبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ: اور ہم نے بنائے تمھارے اوپر][ سَبْعًا شِدَادًا: سات مضبوط (آسمان)]

وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا  13؀۽
[وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَاجًا: اور ہم نے بنایا ایک بہت روشن چراغ]

 

 و ھ ج

[ وَھْحًا: (ض) آگ یا سورج کا روشن ہونا]

[ وَھَاجٌ فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ خوب روشن ہونے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔13۔]

 

نوٹ 4: آیت ۔13۔ میں روشن چراغ سے مراد سورج ہے۔ اس مختصر سے فقرے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت کے جس عظیم نشان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کا قطر زمین کے قطر سے 109 گنا اور حجم زمین کے حجم سے 3 لاکھ 33 ہزار گنا زیادہ بڑا ہے۔ اس کا درجۂ حرارت ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ زمین سے 9 کروڑ تیس لاکھ میل دور ہونے کے باوجود اس کی روشنی کا یہ حال ہے کہ انسان اگر برہنہ آنکھ سے اس کی طرف نظر جمانے کی کوشش کرے تو اپنی بینائی کھو بیٹھے۔ یہ اللہ ہی کی حکمت ہے کہ اس نے زمین کو اس سے ٹھیک اتنے فاصلے پر رکھا ہے کہ نہ اس سے بہت قریب ہونے کے باعث ہے انتہا گرم ہے اور نہ بہت دور ہونے کے باعث بےانتہا سرد۔ اسی وجہ سے یہاں انسان، حیوان اور نباتات کی زندگی ممکن ہوئی ہے۔ اسی سے قوت کے بےحساب خزانے نکل کر زمین پر پہنچ رہے ہیں۔ اسی سے فصلیں پک رہی ہیں اور ہر مخلوق کو غذا پہنچ رہی ہے۔ اسی کی حرارت سمندروں کے پانی کو گرم کر کے وہ بھاپیں اٹھاتی ہے جو ہوائوں کے ذریعہ سے زمین کے مختلف حصوں میں پھیلتی اور بارش کی شکل میں برستی ہیں۔ اس سورج میں اللہ تعالیٰ نے ایسی زبردست بھٹی سلگا رکھی ہے جو اربوں سال سے روشنی، حرارت اور مختلف اقسام کی شعاعیں سارے نظام شمسی میں پھینکے جا رہی ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْــصِرٰتِ مَاۗءً ثَجَّاجًا    14؀ۙ
[وَّانزَلْنَا مِنَ الْمُعْــصِرٰتِ: اور ہم نے اتارا بدلیوں میں سے][ مَاۗءً ثَجَّاجًا: موسلا دھار پانی]

 

ث ج ج

[ ثَجُوْجًا: (ن) پانی کا زور سے بہنا یا برسنا۔]

[ تَجَّاجٌ فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ ہے بہت زور سے بہنے ولا یا برسنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔14۔]

لِّنُخْرِجَ بِهٖ حَبًّا وَّنَبَاتًا    15؀ۙ
[لِنُخْرِجَ بِهٖ: تاکہ ہم نکالیں اس سے][ حَبًّا وَّنَبَاتًا: دانے اور سبزہ]

وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا    16؀ۭ
[وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا: اور کچھ گھنے باغات]

اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيْقَاتًا    17؀ۙ
[ان يَوْمَ الْفَصْلِ: یقینا فیصلے کا دن][ كَان مِيْقَاتًا: ہے ایک طے شدہ وقت]

 

نوٹ 1: یَوْمَ الْفَصْلِ سے مراد قیامت ہے۔ وہ ایک وقت اور متعین حد ہے جس پر یہ دنیا ختم ہو جائے گی جبکہ صور پھونکا جائے گا۔ اور دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نفخ صور دو مرتبہ ہو گا۔ پہلے نفخہ سے سارا عالم فنا ہو جائے گا اور دوسرے نفخہ سے پھر زندہ وقائم ہو جائے گا۔ اس دوسرے نفخہ کے وقت سارے عالم کے اگلے پچھلے انسان اپنے رب کے سامنے فوج در فوج ہو کر حاضر ہوں گے۔ حضرت ابوذر غفاری (رض)  کی روایت ہے کہ رسول اللہ
نے فرمایا کہ لوگ قیامت کے روز تین فوجوں میں تقسیم ہوں گے۔ ایک فوج ان لوگوں کی ہوگی جو پیٹ بھرے ہوئے لباس پہنے ہوئے سواریوں پر سوا رمیدان حشر میں آئیں گے، دوسری فوج پیادہ لوگوں کی ہوگی جو چل کر میدان میں آئیں گے اور تیسری فوج ان لوگوں کی ہوگی جن کو چہروں کے بل گھسیٹ کر میدان حشر میں لایا جائے گا۔ بعض روایات میں افواج کی تشریح دس قسم کی افواج سے کی گئی ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ حاضرین محشر کی بےشمار جماعتیں اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے ہوں گی۔ ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں، سب جمع ہو سکتے ہیں، (معارف القرآن)

يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا    18؀ۙ
[يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ: جس دن پھونکا جائے گا صور میں][ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا: تو تم لوگ آئو گے فوج در فوج]

وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا     19؀ۙ
[وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ: اور کھولا جائے گا آسمان][ فَكَانتْ اَبْوَابًا: تو وہ ہوگا دروازے دروازے]

وَّسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا   20؀ۭ
[وَّسُيِّرَتِ الْجبالُ: اور چلایا جائے گا پہاڑوں کو][ فَكَانتْ سَرَابًا: تو وہ ہوں گے چمکتی ریت]

اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا    21؀۽
[ان جَهَنَّمَ كَانتْ مِرْصَادًا: بیشک جہنم ہے گھات لگانے کا مستقل ٹھکانہ]

لِّلطَّاغِيْنَ مَاٰ بًا    22؀ۙ
[لِلطَّاغِيْنَ مَاٰبًا: سرکشی کرنے والوں کے لیے واپس ہونے کی جگہ ہوتے ہوئے]

لّٰبِثِيْنَ فِيْهَآ اَحْقَابًا    23؀ۚ
[لّٰبِثِيْنَ فِيْهَآ اَحْقَابًا: رہنے والے ہوتے ہوئے اس میں مدتوں]

 

نوٹ 2: آیت 23۔ میں ہے کہ وہ لوگ اس میں مدتوں رہنے والے ہیں۔ مدتوں کے لیے لفظ احقاب استعمال کیا گیا ہے (یہ جمع الجمع ہے۔ اس کا واحد حُقْبٌ ہے۔ اس کی جمع حُقُبٌ ہے اور اس کی جمع اَحْقَابٌ ہے۔ مرتب) جس کے معنی ہیں پے در پے آنے والے طویل زمانے۔ اس لفظ سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ جنت کی زندگی میں تو ہمیشگی ہوگی مگر جہنم میں ہمیشگی نہیں ہوگی کیونکہ یہ مدتیں خواہ کتنی ہی طویل ہوں لیکن بہرحال کبھی نہ کبھی جا کر ختم ہو جائیں گی۔ لیکن یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے۔ ایک یہ کہ عربی لغت کے لحاظ سے حقب کے لفظ ہی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ ایک حقب کے پیچھے دوسرا حقب ہو۔ اس لیے احقاب لازماً ایسے ادوار ہی کے لیے بولا جائے گا جو پے در پے ایک دوسرے کے بعد آتے چلے جائیں اور کوئی دور بھی ایسا نہ ہو جس کے پیچھے دوسرا دور نہ آئے۔ دوسرے یہ کہ کسی موضوع کے متعلق قرآن مجید کی کسی آیت سے کوئی ایسا مفہوم لینا اصولاً غلط ہے جو اسی موضوع کے بارے میں قرآن کے دوسرے بیانات سے متصادم ہو۔ قرآن میں 34 مقامات پر اہل جہنم کے لیے خلود (ہمیشگی) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ایک جگہ صاف صاف ارشاد ہوا ہے کہ وہ چاہیں گے کہ جہنم سے نکل جائیں مگر وہ اس سے ہرگز نکلنے والے نہیں ہیں۔ (المائدہ۔ 37) ان تصریحات کے بعد لفظ احقاب کی بنیاد پر یہ کہنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ جہنم میں خدا کے باغیوں کا قیام دائمی نہیں ہو گا۔ (تفہیم القرآن)

 یہ بات اس لیے بھی غلط ہے کہ زبان سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ مجمل کی شرح مفصل کی روشنی میں کرتے ہیں نہ کہ مفصل کی شرح مجمل کی روشنی میں۔ خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبْدَا کے الفاظ ظاہر ہے کہ مفصل ہیں اور لفظ اَحْقَابْ مجمل ہے۔ اس مجمل کو مفصل کی روشنی میں سمجھیں گے نہ کہ اس کے برعکس (تدبر قرآن)

لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا    24؀ۙ
[لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا: وہ لوگ نہیں چکھیں گے اس میں][ بَرْدًا وَّلَا شرابا: کوئی ٹھندک اور نہ کوئی پینے کی چیز]

اِلَّا حَمِيْمًا وَّغَسَّاقًا   25؀ۙ
[اِلَّا حَمِيْمًا وَّغَسَّاقًا: سوائے گرم پانی اور پیپ کے]

جَزَاۗءً وِّفَاقًا   26؀ۭ
[جَزَاۗءً وِّفَاقًا: جیسے کا تیسا بدلہ ہوتے ہوئے]

اِنَّهُمْ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ حِسَابًا   27؀ۙ
[انهُمْ كَانوْا لَا يَرْجونَ حِسَابًا: بیشک یہ لوگ توقع نہیں کیا کرتے تھے کسی محاسبہ کی]

وَّكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كِذَّابًا  28؀ۭ
[وَّكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا: اور انھوں نے جھٹلایا ہماری نشانیوں کو][ كِذَّابًا: بہت زیادہ جھٹلاتے ہوئے]

وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ كِتٰبًا   29؀ۙ
[وَكُلَّ شَيْءٍ: اور ہر چیز کو،][ اَحْصَيْنٰهُ: ہم نے احاطہ کیا اس کا][ كِتٰبًا: بطور لکھی ہوئی ہونے کے]

فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِيْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا  30؀ۧ
[فَذُوْقُوْا: پس تم لوگ چکھو][ فَلَنْ نَّزِيْدَكُمْ: تو ہم ہرگز زیادہ نہیں کریں گے تم کو][ اِلَّا عَذَابًا: مگر بلحاظ عذاب کے]

اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ مَفَازًا   31؀ۙ
[ان لِلْمُتَّقِيْنَ: یقینا متقی لوگوں ہی کے لیے][ مَفَازًا: مراد پانے کی ایک جگہ ہے]

 

ترکیب: (آیت۔31) مَفَازًا مبتدا مؤخر نکرہ ہے اور اِنَّ کا اسم ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے جو مَرْجُوْدٌ ہو سکتی ہے۔ لِلْمُتَّقِیْنَ قائم مقام خبر مقدم ہے۔

حَدَاۗىِٕقَ وَاَعْنَابًا   32؀ۙ
[حَدَاۗىِٕقَ وَاَعْنَابًا: باغیچے ہیں اور انگور ہیں]

وَّكَوَاعِبَ اَتْرَابًا 33؀ۙ
[وَّكَوَاعِبَ اَتْرَابًا: اور نوخیز ہم جولیاں ہیں]

 

(آیت۔ 23 تا 34) ۔ ان آیات کے الفاظ سابقہ آیت کے اِنَّ پر عطف ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں،

وَّكَاْسًا دِهَاقًا  34؀ۭ
[وَّكَاْسًا دِهَاقًا: اور چھلکتے جام ہیں]

 

د ھ ق

[دَھْقًا: (ف) پیالہ بھرنا۔ پانی کو زور سے گرانا۔]

[ دِھَاقٔ لبالب بھرا ہوا پیالہ۔ زیر مطالعہ آیت۔34۔]

لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا كِذّٰبًا  35؀ۚ
[لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا: وہ لوگ نہیں سنیں گے اس میں][ لَغْوًا وَّلَا كِذّٰبًا: کوئی بےسود بات اور نہ کوئی جھٹلانا]

 

 (آیت۔35) ۔ لَغْوًا اور کِذَّابًا، لا یَسْمَعُوْنَ کا مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں۔

جَزَاۗءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاۗءً حِسَابًا  36؀ۙ
[جَزَاۗءً مِّنْ رَّبِكَ: بدلہ ہوتے ہوئے آپؐ کے رب (کی طرف) سے][ عَطَاۗءً حِسَابًا: حساب کی ہوئی بخشش ہوتے ہوئے]

 

(آیت۔ 36) ۔ جَزَائً اور عَطَائً حِسَابًا حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں۔

 

نوٹ 1: آیت۔ 36۔ کا مطلب یہ ہے کہ اوپر جنت کی جن نعمتوں کا ذکر آیا ہے یہ جزاء ہے مومنین کے لیے اور عطاء ہے ان کے رب کی طرف سے یہاں ان نعمتوں کو پہلے جزائے اعمال بتلایا گیا پھر عطائے ربانی۔ بظاہر ان دونوں میں تضاد ہے۔ جزاء اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے بدلے میں ہو۔ اور عطاء وہ ہے جو بلا کسی بدلے کے بطور انعام ہو۔ قرآن کریم نے ان دونوں لفظوں کو ایک جگہ جمع کر کے اس طرف اشارہ کردیا کہ جنت میں داخل ہونا اور اس کی نعمتیں صرف صورت اور ظاہر کے اعتبار سے اہل جنت کے اعمال کی جزاء ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ خالص عطائے ربانی ہے، کیونکہ انسانی اعمال تو ان نعمتوں کا بھی بدلہ نہیں بن سکتے جو ان کو دنیا میں دے دی گئیں۔ اس لیے آخرت میں نعمتوں کا ملنا تو صرف حق تعالیٰ کا انعام اور عطائے محض ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت
نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے عمل سے جنت میں نہیں جا سکتا جب تک حق تعالیٰ کا فضل نہ ہو۔ صحابۂ کرام (رض)  نے عرض کیا کہ کیا آپ 1 بھی۔ آپ 1 نے فرمایا کہ ہاں میں بھی اپنے عمل سے جنت میں نہیں جا سکتا۔

 لفظ حِسَابًا کے دو معنی کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسی عطاء جو اس کی تمام ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔ اور اس لفظ کے دوسرے معنی حساب کے موازنہ اور مقابلہ کے لیے بھی آتے ہیں۔ اس معنی میں آیت کا مطلب یہ ہوا کہ یہ عطائے ربانی اہل جنت پر ان کے اعمال کے حساب سے مبذول ہو گی۔ اس عطاء میں درجات بحساب اخلاص اور احسانِ عمل کے ہوں گے جیسا کہ احادیث میں صحابہ کرام (رض)  کے اعمال کا درجہ باقی امت کے اعمال کے مقابلے میں یہ قرار دیا ہے کہ صحابی اگر اللہ کی راہ میں ایک مد یعنی ایک سیر خرچ کرے اور غیر صحابی احد پہاڑ کے برابر خرچ کرے تو صحابی کا ایک مُد اس پہاڑ سے بڑھا ہوا رہے گا۔ (معارف القرآن)

مورخہ 23۔ جمادی الثانی 1431 ھ بمطابق 7۔ جون 2010 ء

رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًا   37؀ۚ
[رَّبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ: جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے][ وَمَا بَيْنَهُمَا: اور اس کا جو ان دونوں کے درمیان ہے][ الرَّحْمٰنِ: جو انتہائی رحمت والا ہے][ لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًا: لوگ اختیار نہیں رکھتے اس سے خطاب کرنے کا]

 

 (آیت۔37) اس آیت میں رَبِّ اور اَلرَّحْمٰنِ، یہ دونوں گزشتہ آیت کے رَبِّکَ کا بدل ہونے کی وجہ سے حالت جرمہ میں ہیں۔

يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا    ٷ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا   38؀
[يَوْمَ يَقُوْمُ: جس دن کھڑے ہوں گے][ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ: وہ روح (جبریلؑ) اور سارے فرشتے][ صَفًّا: صف بنائے ہوئے][ ٷ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ: لوگ بول نہیں پائیں گے سوائے اس کے][ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ: اجازت دے گا جس کے لیے رحمن][ وَقَالَ صَوَابًا: اور وہ کہے گا بےلاگ بات]

ذٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ مَاٰبًا   39؀
[ذٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۚ: یہ ہو گا وہ برحق دن][ فَمَنْ شَاۗءَ: تو (اب) جس کا جی چاہے][ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِهٖ مَاٰبًا: وہ بنا لے اپنے رب کی طرف واپس ہونے کی ایک جگہ]

اِنَّآ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِيْبًا       ڄ يَّوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ يٰلَيْتَــنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا   40؀ۧ
[انآ انذَرْنٰكُمْ: بیشک ہم نے خبردار کردیا تم لوگوں کو][ عَذَابًا قَرِيْبًا: ایک قریبی عذاب سے][ يَّوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ: جس دن دیکھ لے گا ہر آدمی][ مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ: اس کو جو آگے بھیجا اس کے دونوں ہاتھوں نے][ وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ: اور کہے گا ہر کافر][ يٰلَيْتَــنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا: اے کاش میں ہوتا کوئی مٹی]

 

(آیت۔ 40) اَلْمَرْئُ اور اَلکَافِرُ دونوں پر لام جنس ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا    Ǻ۝ۙ
[وَالنّٰزِعٰتِ: قسم ہے کھینچ نکالنے والیوں کی][ غَرْقًا: ڈوب کر]

 

نوٹ۔1: یہاں پانچ اوصاف رکھنے والی ہستیوں کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی لیکن آگے کا مضمون اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور تمام مرے ہوئے انسان دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ اس کی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ یہ پانچ اوصاف کِن ہستیوں کے ہیں۔ لیکن صحابہ اکرام (رض)  اور تابعین کی بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں۔

 اب سوال یہ ہے کہ وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر فرشتوں کی قسم کیوں کھائی گئی، جبکہ یہ خود بھی اسی طرح غیر محسوس ہیں جس طرح وہ چیز غیر محسوس ہے جس کے واقع ہونے پر ان کو بطور گواہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب فرشتوں کے وجود کے منکر نہ تھے۔ وہ تسلیم کرتے تھے کہ انسان کی جان فرشتے ہی نکالتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ فرشتوں کی حرکت انتہائی تیز ہے۔ اور ہر حکم بلاتاخیر بجا لاتے ہیں۔ وہ یہ بھی ماتے تھے کہ فرشتے کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے چلاتے ہیں، اپنی مرضی کے مالک نہیں ہیں۔ اس لیے یہاں پر استدلال اس بنا پر کیا گیا ہے کہ جب خدا کے حکم سے فرشتے تمہاری جان نکالتے ہیں تو اسی کے حکم سے وہ دوبارہ جان ڈال بھی سکتے ہیں۔ جب خدا کے حکم سے وہ کائنات کا انتظام چلا رہے ہیں تو اسی کے حکم سے وہ اس کائنات کو درہم برہم کر کے ایک دوسری دنیا بھی بنا سکتے ہیں۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔2: اس جگہ فرشتوں کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں جن کا تعلق انسان کی موت اور روح قبض کرنے سے ہے۔ مقصد تو قیامت کا حق ہونا بیان کرنا ہے لیکن شروع انسان کی موت سے کیا گیا کہ ہر انسان کی موت اس کے لیے ایک جزوی قیامت ہے۔ پہلی صفت اَلنّٰزِعٰتِ غَرْقًا ہے، یعنی سختی سے کھینچ کر نکالنے والے۔ اس سے مراد وہ عذاب کے فرشتے ہیں جو کافر کی روح نکالتے ہیں۔ دوسری صفت وَالنّٰشِطٰتِ ہے۔ یہ نَشَطَ سے مشتق ہے جس کے معنے بندھن کھول دینے کے ہیں۔ جس چیز میں پانی یا ہوا وغیرہ بھری ہو اس کا بندھن کھول دینے سے وہ چیز آسانی کے ساتھ نکل جاتی ہے۔ اس میں مومن کی روح نکلنے کے لیے تشبیہ ہے کہ جو فرشتے مومن کی روح قبض کرنے پر مقرر ہیں وہ آسانی سے اس کو قبض کرتے ہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ کافر کو وقت نزع ہی برزخ کا عذاب سامنے آ جاتا ہے۔ اس سے گھبرا کر اس کی روح بدن میں چھپنا چاہتی ہے تو فرشتے اسے کھینچ کر نکالتے ہیں۔ جبکہ مومن کی روح کے سامنے عالم برزخ کی نعمتیں آتی ہیں تو اس کی روح ان کی طرف جانا چاہتی ہے۔ (معارف لقرآن)

وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا  Ą۝ۙ
[وَّالنّٰشِطٰتِ: اور بند کھولنے والیوں کی][ نَشْطًا: جیسے کھولنے کا حق ہے]

 

 

ن ش ط

(ض۔ ن) نَشْطاً گرہ کھولنا۔ گرہ لگانا۔ بند کھولنا۔ زیر مطالعہ آیت۔2۔

 نَاشِطَۃٌ اسم الفاعل ہے۔ بند کھولنے والی۔ زیر مطالعہ آیت۔2۔

وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا  Ǽ۝ۙ
[وَّالسّٰبِحٰتِ: اور تیرنے والیوں کی][ سَبْحًا: جیسے تیرتے ہیں]

فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا  Ć۝ۙ
[فَالسّٰبِقٰتِ: پھر سبقت کرنے والیوں کی][ سَبْقًا: جیسے سبقت کرتے ہیں]

فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا  Ĉ۝ۘ
[فَالْمُدَبِرٰتِ: پھر تدبیر کرنے والیوں کی][ اَمْرًا: کسی (بھی) حکم کے لیے]

يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ   Č۝ۙ
[يَوْمَ تَرْجُفُ: جس دن لرزے گی][ الرَّاجِفَةُ: وہ لرزنے والی]

تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ  Ċ۝ۭ
[تَتْبَعُهَا: اس کے پیچھے آئے گی][ الرَّادِفَةُ: وہ پیچھے لگنے والی]

قُلُوْبٌ يَّوْمَىِٕذٍ وَّاجِفَةٌ  Ď۝ۙ
[قُلُوْبٌ يَّوْمَىِٕذٍ: کچھ دل اس دن][ وَّاجِفَةٌ: مضطرب ہونے والے ہیں]

اَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ    ۝ۘ
[اَبْصَارُهَا: ان کی آنکھیں][ خَاشِعَةٌ: جھکنے والی ہیں]

يَقُوْلُوْنَ ءَاِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِي الْحَافِرَةِ   10۝ۭ
[يَقُوْلُوْنَ: وہ لوگ کہتے ہیں][ ءَانا لَمَرْدُوْدُوْنَ: کیا بےشک ہم ضرور لوٹائے جانے والے ہیں][ فِي الْحَافِرَةِ : اُسی قدم میں (اُلٹے پائوں)]

ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً    11۝ۭ
[ءَاِذَا كُنَا: کیا جب ہم ہو گئے][ عِظَامًا نَّخِرَةً : بُھر بُھری ہڈیاں]

 

ن خ ر

[نَخَرًا: (س) بوسیدہ ہو کر ریزہ ریزہ ہونا]

[ نَخِرَۃٌ صفت ہے۔ ریزہ ریزہ۔ بُھر بُھری۔ زیر مطالعہ آیت۔11۔ ]

قَالُوْا تِلْكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ   12۝ۘ
[قَالُوْا: انھوں نے کہا][ تِلْكَ اِذًا: وہ تو پھر][ كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ: خسارہ دینے والی باری ہو گی]

فَاِنَّمَا ھِيَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ   13؀ۙ
[فَانمَا ھِيَ: پھر وہ تو بس ][ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ: ایک (ہی) جھڑکی ہو گی]

فَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ    14؀ۭ
[فَاِذَا هُمْ: پھر جب ہی وہ لوگ][ بِالسَّاهِرَةِ: اس میدان میں ہوں گے]

 

س ھـ ر

 سَھَرًا رات بھر جاگتے رہنا۔

 سَاھِرَۃٌ رات بھر جاگنے والی۔ پھر اس سے مراد لیتے ہیں سطح زمین۔ میدان۔ زیر مطالعہ آیت۔14

هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى   15؀ۘ
[هَلْ اَتٰىكَ: کیا پہنچی آپؐ کے پاس][ حَدِيْثُ مُوْسٰى: موسیٰؑ کی بات]

 

نوٹ۔1: سابقہ آیات میں عذاب قیامت کی تصویر تھی۔ اب یہ اس عذاب کی تاریخی شہادت کا حوالہ ہے جس سے رسولوں کو جھٹلانے والوں کو اس دنیا میں سابقہ پیش آیا ہے۔ اس کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی سرگزشت کا انتخاب فرمایا ہے جو سب سے زیادہ مشہور ومعروف شہادت ہے۔ (تدبیر قرآن)

اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى    16؀ۚ
[اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ: جب آواز دی انؑ کو ان کے رب نے][ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ: پاک کی ہوئی وادی میں][ طُوًى: جو طوٰی (کہلاتی) ہے]

 

نوٹ۔2: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ تم اور ہارون، دونوں بھائی اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے اور خدا سے ڈرے۔ (طٰہٰ۔ 44) ۔ اس نرم کلام کا ایک نمونہ تو یہاں آیت۔ 18۔19۔ میں دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مبلغ کو کسی بگڑے ہوئے آدمی کی ہدایت کے لیے کس حکمت کے ساتھ تبلیغ کرنی چاہیے۔ دوسرے نمونے سورۂ طٰہٰ۔ آیات 49 تا 52، الشعرائ۔ 23 تا 28۔ اور القصص۔ 37۔ میں دیئے گئے ہیں۔ یہ منجملہ ان آیات کے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکمت تبلیغ کی تعلیم دی ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔3: ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کی رہائی کے لیے ہی فرعون کے پاس نہیں بھیجے گئے تھے، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے، بلکہ ان کی بعثت کا پہلا مقصد فرعون اور اس کی قوم کو راہ راست دکھانا تھا اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ اگر وہ راہ راست قبول نہ کرے تو بنی اسرائیل کو (جو اس وقت کی مسلمان قوم تھے) اس کی غلامی سے چھڑا کر مصر سے نکال لائیں۔ یہ بات ان آیات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کیوں کہ ان میں سرے سے بنی اسرائیل کی رہائی کا ذکر ہی نہیں ہے۔ بلکہ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے سامنے صرف حق کی تبلیغ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور ان مقامات سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے جہاں موسیٰ علیہ السلام نے اسلام کی تبلیغ بھی کی ہے اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ بھی فرمایا ہے۔ (تفہیم القرآن)

اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى   17؀ڮ
[اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ: (اور کہا کہ) آپؑ جائیں فرعون کی طرف][ انهٗ طَغٰى: بیشک اس نے سرکشی کی]

فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى   18؀ۙ
[فَقُلْ: پھر آپؑ کہیں][ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى: کیا تیرے لیے اس کی طرف (کوئی رجحان ہے)][ ان تَـزَكّٰى : کہ تو تزکیہ حاصل کرے]

وَاَهْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى    19؀ۚ
[وَاَهْدِيَكَ: اور (اس طرف) کہ میں تیری رہنمائی کروں][ اِلٰى رَبِكَ: تیرے رب کی طرف][ فَتَخْشٰى: نتیجتاً تو رعب محسوس کرے (اس کا)]

فَاَرٰىهُ الْاٰيَةَ الْكُبْرٰى   20؀ڮ
[فَاَرٰىهُ: تو انھوں ؑنے دکھائی اس (فرعون) کو][ الْاٰيَةَ الْكُبْرٰى: وہ سب سے بڑی نشانی]

فَكَذَّبَ وَعَصٰى    21؀ڮ
[فَكَذَّبَ وَعَصٰى: پس اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی]

ثُمَّ اَدْبَرَ يَسْعٰى   22؀ڮ
[ثُمَّ اَدْبَرَ يَسْعٰى: پھر اس نے پیٹھ پھیری بھاگ دوڑ کرتے ہوئے]

فَحَشَرَ فَنَادٰى  23؀ڮ
[فَحَشَرَ فَنَادٰى: پھر اس نے اکٹھا کیا (سب کو) تو آواز دی]

فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى   24؀ڮ
[فَقَالَ: پھر اس نے کہا][ انا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى: میں تم لوگوں کا سب سے برتر پرورش کرنے والا ہوں]

 

نوٹ۔4: فرعون کا رب اعلیٰ ہونے کا دعویٰ قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے، مثلاً الشعرائ۔29۔ القصص۔ 38۔ لیکن ان باتوں سے فرعون کا یہ مطلب نہ تھا، اور نہ ہی ہو سکتا تھا، کہ وہی کائنات کا خالق ہے۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر اور خود رب العالمین ہونے کا مدعی تھا۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو مذہبی معنوں میں لوگوں کا معبود قرار دیتا تھا۔ قرآن مجید ہی میں اس بات کی شہادت موجود ہے کہ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، وہ خود دوسرے معبودوں کی پرستش کرتا تھا۔ چنانچہ اس کے اہل دربار نے ایک موقع پر اس کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو یہ آزادی دیتے چلے جائیں گے کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اور آپ کو اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ الاعراف۔ 127۔ پس درحقیقت وہ مذہبی معنی میں نہیں بلکہ سیاسی معنی میں اپنے آپ کو الٰہ اور رب اعلیٰ کہتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک میں ہوں، میرے سوا کسی کو میری مملکت میں حکم چلانے کا حق نہیں ہے اور میرے اوپر کوئی بالاتر طاقت نہیں ہے جس کافرمان یہاں جاری ہو سکتا ہو۔ (تفہیم القرآن)

فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى  25؀ۭ
[فَاَخَذَهُ اللّٰهُ: تو پکڑا اس کو اللہ نے][ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى: دنیا اور آخرت کی عبرتناک سزا میں]

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰى   26؀ۉ
[ان فِيْ ذٰلِكَ: بیشک اس میں][ لَعِبْرَةً: یقینا ایک عبرت ہے][ لِمَنْ يَّخْشٰى: اس کے لیے جو ڈرتا ہے (رب سے)]

ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ   ۭ بَنٰىهَا  27؀۪
[ءَانتم اَشَدُّ: کیا تم لوگ زیادہ شدید ہو][ خَلْقًا: بلحاظ تخلیق کرنے کے][ اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ: یا یہ آسمان][ بَنٰىهَا: اسی نے بنایا جس کو]

 

ترکیب: (آیت۔ 27) بَنٰچھَا میں فعل بَنٰی کی ضمیر مفعولی ھَا۔ اَلسَّمَائُ کے لیے ہے۔

نوٹ۔1: سورۃ البقرہ کی آیت۔29۔ اور حٰمٓ السجدہ کی آیات۔ 9 تا 12۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ سات آسمان زمین کی پیدائش کے بعد بنائے گئے۔ اور النّٰزعٰت کی آیت۔30۔ سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین آسمان کے بعد بچھائی گئی۔ اس کے جواب کئی طرح دئیے گئے ہیں۔ احقر کو ابوحیان کی تقریر پسند ہے یعنی ضروری نہیں کہ سابقہ آیات میں ثُمَّ اور زیر مطالعہ آیت میں بَعْدَ ذٰلِکَ ترافیٔ زمان (زمانے کے رخ یعنی ترتیب) کے لیے ہو۔ ممکن ہے ان الفاظ سے ترافیٔ فی الاخبار (خبروں کی ترتیب) یا ترافیٔ رُتبی (رتبے کی ترتیب) مراد لیں جیسے قرآن کی دوسری جگہوں میں یہ ہی معنی مراد لیے گئے ہیں۔ بہرحال قرآن کریم میں ترتیب زمانی کی ترتیب نہیں ہے۔ ہاں نعمت کے تذکرہ میں زمین کا اور عظمت وقدرت کے تذکرہ میں آسمان کا ذکر مقدم رکھا ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) ۔ تفسیر آیات حٰم السجدہ)

 امام راغب اصفحانی (رح)  نے دحٰی (مادہ ’’ د ح ی‘‘) کے معنے کسی چیز کو اس کے مقر (جائے قرار) سے ہٹا دینے کے لکھے ہیں۔ تو شاید اس لفظ میں ادھر اشارہ ہو جو آج کل کی تحقیق ہے کہ زمین اصل میں کسی بڑے جرم فلکی کا ایک حصہ ہے جو اس سے الگ ہو گیا۔ واللہ اعلم۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) ۔ تفسیر آیت۔ النّٰزعٰت)

 اس کے بعد زمین کو بچھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آسمان کے بعد زمین کو پیدا کیا۔ بلکہ یہ ایسا ہی طرز بیان ہے جس میں مقصود ایک بات کے بعد دوسری بات کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے، اگرچہ دونوں ایک ساتھ پائی جاتی ہوں۔ اس طرزِ بیان کی متعدد مثالیں خود قرآن میں موجود ہیں۔ مثلاً سورۃ القلم۔ آیت۔13۔ میں فرمایا عُتُلٍ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ (جفاکار ہے اس کے بعد بداصل ہے) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ جفا کار بنا اس کے بعد بداصل بنا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جفا کار ہے اور اس پر مزید یہ کہ بداصل بھی ہے۔ (تفہیم القرآن) ۔ قرآن میں ترتیب زمانی کے ضمن میں آیت۔2:40، نوٹ۔1 (3) کو بھی دوبارہ دیکھ لیں تو بات مزید واضح ہو جائے گی۔ (مرتب)

وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا  30؀ۭ
وَالْاَرْضَ: اور (اس نے بنایا) زمین کو][ بَعْدَ ذٰلِكَ: اس کے بعد][ دَحٰىهَا: اس نے پھیلایا اس کو]

 

د ح ی

[دَحْیًا: (ف) کسی چیز کو پھیلانا۔ زیرمطالعہ آیت۔30۔]

 

(آیت۔ 30) وَالْاَرْضَ کی نصب بنا رہی ہے کہ یہ فعل بَنٰیکا مفعول ہے۔ بَعْدَ ذٰلِکَ میں ذٰلِکَ کا اشارہ اَلسَّمَائُ کی طرف مانا جا سکتا ہے اور الْاَرْضَ کی طرف بھی۔ اگر اَلسَّمَائُ کی طرف مانا جائے تو مطلب ہو گا آسمان بنانے کے بعد زمین بنائی۔ اور اگر اَلْاَرْضَ کی طرف مانا جائے تو مطلب ہو گا زمین بنانے کے بعد اس کو پھیلا ۔

اَخْرَجَ مِنْهَا مَاۗءَهَا وَمَرْعٰىهَا  31؀۠
[اَخْرَجَ مِنْهَا مَاۗءَهَا: اس نے نکالا اس سے اس کا پانی][ وَمَرْعٰىهَا: اور اس کا چارا]

 

(آیت۔ 31۔۔32) دَمٰچھَا۔ مِنْھَا۔ مَائَ ھْا ۔ مَرْعٰچھَا۔ اَرْسٰچھَا۔ ان سب میں ھا کی ضمیریں اَلْاَرْضَ کے لیے ہیں۔ فعل اَرْسیٰ دو مفعولوں کا تقاضہ کرتا ہے کس کو جمایا۔ کس میں جمایا۔ یہاں اَلْجِبَالَ فعل اَرْسیٰ کا مفعول مقدم اول ہے اور اس کے ساتھ ھَا کی ضمیر مفعولی مفعول ثانی ہے۔

وَالْجِبَالَ اَرْسٰىهَا  32؀ۙ
[وَالْجبالَ اَرْسٰىهَا: اور پہاڑوں کو اس نے جمایا اس میں]

مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ 33؀ۭ
[مَتَاعًا: برتنے کا سامان ہوتے ہوئے][ لَكُمْ وَلِانعامكُمْ: تمھارے لیے اور تمھارے مویشیوں کے لیے]

فَاِذَا جَاۗءَتِ الطَّاۗمَّةُ الْكُبْرٰى  34؀ڮ
[فَاِذَا جَاۗءَتِ: پھر جب آئے گی][ الطَّاۗمَّةُ الْكُبْرٰى: وہ سب سے بڑی چھا جانے والی (قیامت تو یہ سب درہم برہم ہو جائے گا)]

 

ط م م

[طَمًّا: (ن) کسی کا کسی چیز کو ڈھانک لینا۔ کسی پر چھا جانا۔]

[ طَامَّۃٌ اسم الفاعل ہے۔ چھا جانے والی۔ آفت، زیر مطالعہ آیت۔ 34۔]

 

(آیت۔ 34۔ 35) ۔ فَاِذَا جَائَ تْ میں اِذَا شرطیہ ہے، اس کا جواب شرط محذوف ہے، کہ جب اَلطَّامَّۃُ الْکُبْریٰ آئے گی تو سابقہ آیات میں آسمان و زمین کی بناوٹ، سب درہم برہم ہو جائے گی۔ یَوْمَ اسی محذوف جواب شرط کا ظرف ہے۔

يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰى   35؀ۙ
[يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْانسَان : اس دن یاد کرے گا انسان][ مَا سَعٰى: اس کو جو اس نے دوڑ دھوپ کی]

وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِمَنْ يَّرٰى  36؀
[وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ: اور ظاہر کی جائے گی دوزخ][ لِمَنْ يَّرٰى: اس کے لیے جو دیکھے گا (یعنی دوزخی کے لیے)]

فَاَمَّا مَنْ طَغٰى  37؀ۙ
[فَاَمَا مَنْ طَغٰى: تو وہ جو ہے جس نے سرکشی کی]

 

نوٹ۔3: آیات۔ 37 تا 41۔ میں اہل دوزخ اور اہل جنت کی خاص خاص علامات کا بیان ہے جس سے ایک انسان دنیا ہی میں یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ اس ضابطہ کے مطابق میرا ٹھکانہ دوزخ میں ہے یا جنت میں۔ ضابطہ اس لیے کہا گیا ہے کہ کسی کی شفاعت سے یا بلاواسطہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کسی جہنمی کو وہاں سے نکال کے جنت میں پہنچا دینا ایک استثنائی حکم ہے اور جنت یا دوزخ میں ٹھکانے کا اصل ضابطہ وہی ہے جو ان آیات میں بیان فرمایا ہے۔

 پہلے اہل جہنم کی خاص علامات بیان کی گئیں، وہ دو ہیں۔ اول طغیان یعنی اللہ اور اس کے رسول 1 کے احکام کی پابندی کرنے کی بجائے سرکشی کرنا۔ دوم دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینا۔ یعنی جب ایسا کوئی کام سامنے آئے کہ اس کے اختیار کرنے سے دنیا میں تو آرام یا لذت ملتی ہے مگر آخرت میں اس پر عذاب مقرر ہے، اس وقت وہ دنیا کی لذت کو ترجیح دے کر آخرت کی فکر کو نظر انداز کر دے۔ جو شخص دنیا میں ان دوبلائوں میں مبتلا ہے اس کے لیے فرما دیا کہ جہنم ہی اس کا ٹھکانہ ہے۔ اس کے بعد اہل جنت کی اسی طرح دو علامتیں بتائی ہیں۔ اول یہ کہ جس شخص کو دنیا میں اپنے ہر عمل ہر کام کے وقت یہ خوف لگا رہے کہ مجھے ایک روز اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو کر ان اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ دوم یہ کہ جس نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا اور ناجائز خواہشوں سے اس کو روک دیا۔ جس نے دنیا میں یہ دو وصف حاصل کر لیے قرآن کریم نے اس کو یہ خوشخبری دی ہے کہ جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہے۔

مورخہ 27۔ شعبان 1431 ھ بمطابق 9۔ اگست 2010 ء

وَاٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا 38؀ۙ
[وَاٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا: اور اس نے ترجیح دی دنیوی زندگی کو]

فَاِنَّ الْجَــحِيْمَ ھِيَ الْمَاْوٰى  39؀ۭ
[فَان الْجَــحِيْمَ: تو (اس کے لیے) یقینا دوزخ][ ھِيَ الْمَاوٰى: ہی ٹھکانہ ہے]

 

(آیت۔ 39۔ فَاِنَّ کا اسم اَلْجَحِیْمَ ہے اور اَلْمَاْوٰی اس کی خبر معرفہ ہے اس لیے ھِیَ ضمیر فاصل آئی ہے جس سے حصر کا مفہوم پیدا ہوا ہے۔

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى  40؀ۙ
[وَاَمَا مَنْ خَافَ: اور وہ جو ہے جس نے خوف کیا][ مَقَامَ رَبِهٖ: اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کے وقت کا][ وَنَهَى النَّفْسَ: اور اس نے روکا (اپنے) جی کو][ عَنِ الْهَوٰى: (من کی) چاہت سے]

فَاِنَّ الْجَنَّةَ ھِيَ الْمَاْوٰى   41؀ۭ
[فَان الْجَنَّةَ: تو (اس کے لیے) یقینا جنت][ ھِيَ الْمَاوٰى: ہی ٹھکانہ ہے]

يَسْـــَٔــلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰـىهَا  42؀ۭ
[يَسْـــَٔــلُوْنَكَ: یہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے][ عَنِ السَّاعَةِ: اس گھڑی (قیامت) کے بارے میں][ اَيَّان مُرْسٰـىهَا: کب ہے اس کے قائم ہونے کا وقت]

فِيْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰىهَا 43؀ۭ
[فِيْمَ انتَ: اس میں کیا ہے آپؐ کو][ مِنْ ذِكْرٰىهَا: اس کے ذکر میں سے]

 

 (آیت۔ 43) فِیْمَ اصل میں فِیْ مَا ہے اور یہ مَا استفہامیہ ہے۔

اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰهَا 44؀ۭ
[اِلٰى رَبِكَ: آپؐ کے رب کی طرف ہیں][ مُنْتَهٰهَا: اس کے ٹھہرنے کا وقت ہے]

اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَّخْشٰىهَا 45؀ۭ
[انمَآ انتَ: آپؐ تو بس][ مُنْذِرُ مَنْ: اس کو خبردار کرنے والے ہیں جو][ يَّخْشٰىهَا: ڈرتا ہے اس سے]

كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِـيَّةً اَوْ ضُحٰىهَا  46؀ۧ
[كَانهُمْ: (ایسا لگے گا) جیسے کہ وہ لوگ][ يَوْمَ يَرَوْنَهَا: جس دن وہ دیکھیں گے اس کو،][ لَمْ يَلْبَثُوْٓا: ٹھہرے ہی نہیں][ اِلَّا عَشِـيَّةً اَوْ ضُحٰىهَا: سوائے ایک شام کے یا اس کی صبح کے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ    Ǻ۝ۙ
[عَبَسَ وَ تَوَلّىٰٓ: انھوںؐ نے تیوری چڑھائی اور منہ موڑا]

 

نوٹ۔1: عَبْسَ کا فاعل یہاں مذکور نہیں ہے لیکن آگے کی آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ فاعل نبی
ہیں۔ اَعْمٰی سے اشارہ یہاں عبداللہ بن ام مکتوم (رض)  کی طرف ہے۔ یہ ایک نابینا صحابی تھے۔ ایک دن نبی قریش کے لیڈروں سے باتیں کر رہے تھے۔ آپ 1 نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تھا۔ اسی اثنا میں عبداللہ بن ام مکتوم (رض)  تشریف لائے اور موقع کی نزاکت کا اندازہ نہ کرسکنے کے باعث وہ بھی مجلس میں پہنچ گئے۔ ان کا یہ بےموقع آ جانا حضور 1 کو ناگوار گزرا۔ اسی واقعہ کو جو اتفاق سے پیش آ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کو یہ تعلیم دینے کا ذریعہ بنا لیا کہ آپ 1 اپنی توجہ کا اصل مرکز ان صحابہ (رض)  کو بنائیں جو اپنی اصلاح اور تربیت کی طلب میں آپ 1 کی مجلس میں آتے ہیں اور ان لوگوں کے درپے زیادہ نہ ہوں جو بےنیاز ہیں۔ (تدبر قرآن)

 اس موقع میں یہ تو ظاہر ہے کہ رسول اللہ
کے سامنے دوکام بیک وقت آ گئے تھے۔ ایک مسلمان کی تعلیم اور اس کی دلجوئی اور دوسرے غیر مسلموں کی ہدایت کے لیے ان کی طرف توجہ۔ قرآن کریم کے اس ارشاد نے یہ واضح کردیا کہ پہلا کام دوسرے کام پر مقدم ہے۔ دوسرے کام کی وجہ سے پہلے کام میں تاخیر کرنا یا خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی تعلیم اور ان کی اصلاح کی فکر، غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرنے کی فکر سے اہم اور مقدم ہے۔ اس میں ایسے علماء کے لیے ایک اہم ہدایت ہے جو غیر مسلموں کو اسلام سے مانوس کرنے کی خاطر بعض ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جن سے عام مسلمانوں کے دلوں میں شکوک وشبہات یا شکایات پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان کو اس قرآنی ہدایت کے مطابق مسلمانوں کی اصلاح کو مقدم رکھنا چاہیے۔ (معارف القرآن)

اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى   Ą۝ۭ
[ان جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى: (اس لیے) کہ آئے انؐ کے پاس وہ نابینا (رض) ]

وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّىٰٓ   Ǽ۝ۙ
[وَمَا يُدْرِيْكَ: اور آپؐ کو کیا خبر][ لَعَلَهٗ يَزَّكّىٰٓ: شاید کہ وہ (رض)  پاکیزگی حاصل کرتے]

اَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى   Ć۝ۭ
[اَوْ يَذَّكَّرُ: یا وہ یاددہانی حاصل کرتے][ فَتَنْفَعَهُ: نتیجتاً نفع دیتی ان کو][ الذِّكْرٰى: وہ عظیم نصیحت (یعنی قرآن)]

اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى   Ĉ۝ۙ
[اَمَا مَنِ اسْتَغْنٰى: وہ جو ہے جس نے بےپرواہی اختیار کی]

فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰى   Č۝ۭ
[فَانتَ لَهٗ: تو آپؐ اس کے لیے ہی][ تَصَدّٰى: متوجہ ہوئے ]

وَمَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّٰى   Ċ۝ۭ
[وَمَا عَلَيْكَ؛اور آپؐ پر نہیں ہے (کوئی الزام)][ اَلَّا يَزَّكّٰى: کہ وہ پاکیزگی حاصل نہیں کرتا]

وَاَمَّا مَنْ جَاۗءَكَ يَسْعٰى  Ď؀
[وَاَمَا مَنْ: اور وہ جو ہے جو][ جَاۗءَكَ يَسْعٰى: آیا آپؐ کے پاس بھاگتا دوڑتا]

وَهُوَ يَخْشٰى   ۝ۙ
[وَهُوَ يَخْشٰى: اس حال میں کہ وہ ڈرتا ہے]

فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى  10۝ۚ
[فَانتَ عَنْهُ تَلَهّٰى: تو آپؐ نے اس سے غفلت برتی]

كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ    11۝ۚ
[كَلَّآ انهَا: ہرگز نہیں! بیشک یہ (قرآن)][ تَذْكِرَةٌ: ایک یاددہانی ہے]

فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَهٗ   12۝ۘ
[فَمَنْ شَاۗءَ: پس جو چاہے][ ذَكَرَهٗ : وہ یاد رکھے اس کو]

فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ  13؀ۙ
[فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ : (اس کو لکھا گیا) معزز کیے ہوئے ایسے صحیفوں میں جو]

 

ترکیب: (آیات 13 تا 16) فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ سے پہلے فعل کُتِبَ محذوف ہے۔ اس کا نائب فاعل اس میں شامل ھُوَ کی ضمیر ہے جوتَذْکِرَۃٌ کے لیے ہے۔ واضح رہے کہ تَذْکِرَۃٌ مصدر ہے جو مذکر و مونث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے اس سے پہلے اِنَّھَا میں اس کے لیے ھَا کی مونث ضمیر آئی ہے اور اگلی آیت میں ذَکَرَہٗ میں اسی کے لیے ، کی مذکر ضمیر آئی ہے۔ صُحُفٍ جمع مکسر ہے، اس لیے اس کی صفت مُکَرَّمَۃٍ واحد مونث آئی ہے۔ آگے مَرْفُوْعَۃٍ اور مُطَھَّرَۃٍ بھی صُحُفٍ کی خصوصیات ہیں۔ سَفَرۃٍ نکرہ مخصوصہ ہے۔ جبکہ کِرَامٍ اور بَرَرَۃٍ اس کی خصوصیات ہیں۔ (آیت۔ 23) ۔ اس آیت کو گزشتہ آیت سے بھی متعلق مانا جا سکتا ہے اور اگلی آیت سے بھی اگر اس کو گزشتہ آیت سے متعلق مانا جائے تو یَقْضِ میں شامل ھُوَ کی ضمیر فاعلی کو شَائَ کے فاعل یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے مانا جائے گا اور اَمَرَہٗ میں ہٗ کی ضمیر کو مَا کی ضمیر عائد مانا جائے گا۔ ابن کثیر  (رح) نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔ (منقول از ترجمہ شیخ الہند (رح) ) اگر اس کو اگلی آیت سے متعلق مانا جائے تو پھر یَقْضِ کی ضمیر فاعلی آیت۔17۔ میں اَلْاِنْسَانُ کے لیے مانی جائے گی اور اَمَرَہٗ کی ضمیر مفعولی بھی اسی اَلْاِنْسَانُ کے لیے ہو گی۔

مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۢ   14۝ۙ
[مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۢ: بلندی دیئے ہوئے پاکیزگی دیئے ہوئے ہیں]

بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ    15؀ۙ
[بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ: کچھ ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں سے جو]

 

نوٹ۔2: آیت۔15۔ میں سَفَرَۃٍ کا لفظ سَافِرٌ کی جمع بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی کاتب کے ہیں۔ اس صورت میں اس سے مراد فرشتے، انبیاء ؑ اور ان کی وحی لکھنے والے حضرات ہوں گے۔ اور یہ لفظ سَفِیْرٌ بمعنی قاصد کی جمع بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں رسل ملائکہ، انبیاء ؑ اور وحی کی کتابت کرنے والے صحابہ (رض)  کے ساتھ علمائِ امت بھی اس میں داخل ہوں گے، کیونکہ وہ بھی رسول اللہ
اور امت کے درمیان سفیر اور قاصد ہیں۔ (معارف القرآن)

كِرَامٍۢ بَرَرَةٍ     16؀ۭ
[كِرَامٍۢ بَرَرَةٍ: بزرگی والے نیکی کرنے والے ہیں]

قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَكْفَرَهٗ    17؀ۭ
[قُتِلَ الْانسَان : مارا جائے انسان][ مَآ اَكْفَرَهٗ: کس قدر ناشکرا ہے وہ]

مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ   18؀ۭ
[مِنْ اَيِّ شَيْءٍ: (سوچو تو) کس چیز سے][ خَلَقَهٗ : اس نے پیدا کیا اس کو]

مِنْ نُّطْفَةٍ    ۭ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ    19؀ۙ
مِنْ نُّطْفَةٍ ۭ: (پانی کی) ایک بوند سے][ خَلَقَهٗ: اس نے تخلیق کی اس کی][ فَقَدَّرَهٗ: پھر اس نے تقدیر مقرر کی اس کی]

 

نوٹ۔3: آیت۔19۔ میں فَقَدَّرَہٗ کا مطلب یہ ہے کہ انسان ابھی ماں کے پیٹ میں بن رہا ہوتا ہے تو اس کی تقدیر طے کر دی جاتی ہے۔ اس کی جنس کیا ہو گی۔ اس کا رنگ، قد، جسامت وغیر کیسی ہو گی۔ اس کی شکل وصورت اور آواز کیسی ہو گی۔ اس کے جسم کی طاقت اور ذہنی صلاحیتیں کیا ہوں گی۔ کس سرزمین، کس خاندان اور کس ماحول میں یہ پیدا ہو گا، پرورش اور تربیت پائے گا۔ اور کتنا وقت اسے زمین میں کام کرنے کے لیے دیا جائے گا۔ اس تقدیر سے یہ بال برابر بھی ہٹ نہیں سکتا اور نہ اس میں ذرہ برابر ردوبدل کرسکتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

 تقدیر کی مذکورہ وضاحت کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ تقدیر کے اٹل ہونے کا تصور اس پہلو سے درست ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی انسان کے دائرۂ اختیار کے باہر ہے۔ لیکن یہ تصور درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی تقدیر میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا (اعوذ باللہ من ذالک) یا نہیں کرتا۔ وہ عَلی کُلِ شَیْئٍ قَدِیْرً ہے، فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ہے۔ عام قاعدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کی جو تقدیر مقرر کر دی ہے، اس میں وہ تبدیلی نہیں کرتا۔ لیکن جب چاہتا ہے، جس کے لیے چاہتا ہے اور جتنی چاہتا ہے تبدیلی کرتا ہے۔ رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ تقدیر کو کوئی چیز نہیں بدل سکتی سوائے دعا کے اسی حوالے سے وہ احادیث بھی سمجھی جا سکتی ہیں جن میں عمر کے کم ہو جانے یا زیادہ ہو جانے کا ذکر ہے۔ (مرتب)

ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ   20؀ۙ
[ثُمَّ السَّبِيْلَ: پھر راہ کو][ يَسَّرَهٗ: اس نے آسان کیا اس کے لیے]

 

نوٹ۔4: آیت۔20۔ میں راستہ کو آسان کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں وہ تمام اسباب اور وسائل فراہم کیے جن سے یہ کام لے سکے۔ ورنہ اس کے جسم اور ذہن کی ساری قوتیں بےکار ثابت ہوتیں اگر خالق نے ان کو استعمال کرنے کے لیے زمین پر یہ سروسامان مہیا نہ کردیا ہوتا اور یہ امکانات پیدا نہ کر دئیے ہوتے۔ مزید برآں خالق نے اس کو یہ موقع بھی دیا کہ اپنے لیے خیر یا شر، شکر یا کفر، طاعت یا نافرمانی کی جو راہ بھی اختیار کرنا چاہے کرسکے۔ اس نے دونوں راستے اس کے سامنے کھول کر رکھ دئیے اور ہر راہ اس کے لیے ہموار کر دی کہ جس پر بھی چلنا چاہے چلے۔ (تفہیم القرآن)

 خیر کی راہوں میں انسان کی طبیعت کو پسند نہ آنے والی چیزیں اور شر کی راہوں میں من بھاتی چیزیں تو اظہر من الشمس ہیں۔ اور ہر انسان ان راہوں کی اس ظاہری حقیقت کو خوب جانتا ہے۔ لیکن ان راہوں کا انجام اتنا ظاہر نہیں ہے اور ظاہر بین نگاہوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ دونوں راہوں کے باطنی حقائق اور ان کے انجام کو ظاہر کرنے اور انسان کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل اور کتب کا سلسلہ قائم کیا جو نبی کریم
کی بعثت اور نزولِ قرآن سے اپنے تکمیلی مرحلہ تک پہنچ گیا۔ اب انسان کی اخروی کامیابی کا راز اس میں ہے کہ وہ اپنی طبیعت اور اپنے موڈ کو لگام دے کر، انجام پر نظر رکھتے ہوئے زندگی کے سفر میں پیش آنے والی متبادل راہوں کا انتخاب کرتے ہوئے اپنا سفر مکمل کرے۔ اس انتخاب میں اللہ تعالیٰ کوئی مداخلت نہیں کرتا اور اس نے انسان کو اس ضمن میں مکمل خودمختاری دی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقدیر کی مجبوری کے باوجود انسان جوابدہ ہے اور جزاوسزا کا مستحق ہے۔ یہ نکتہ جن لوگوں کے سمجھ میں نہیں آتا، وہ پھر چیخ اٹھتے ہیں۔

ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی

چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا

 یہ درست ہے کہ انسان اپنی تقدیر کے فریم ورک کے اندر زندگی کا سفر کرنے کا پابند ہے اور اپنے فریم ورک میں بال برابر تبدیلی کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ اس کی مجبوری کا دائرہ ہے۔ اور اس فریم ورک کے اندر سفر کرتے ہوئے متبادل راہوں کے انتخاب کی اسے مکمل آزادی ہے۔ یہ اس کی خودمختاری کا دائرہ ہے۔ (مرتب)

ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ    21؀ۙ
[ثُمَّ اَمَاتَهٗ: پھر اس نے موت دی اس کو][ فَاَقْبَرَهٗ: تو اس نے دفن کرایا اس کو]

ثُمَّ اِذَا شَاۗءَ اَنْشَرَهٗ   22؀ۭ
[ثُمَّ اِذَا شَاۗءَ: پھر جب وہ چاہے گا][ انشَرَهٗ: تو وہ دوبارہ زندہ کرے گا اس کو]

كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَهٗ   23؀ۭ
[كَلَّا: ہرگز نہیں][ لَمَا يَقْضِ: ابھی تک اس نے پورا نہیں کیا][ مَآ: اس کو][ اَمَرَهٗ: جس کا اس نے حکم دیا اسے]

فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖٓ   24؀ۙ
[فَلْيَنْظُرِ الْانسَان: پس چاہیے کہ دیکھے انسان][ اِلٰى طَعَامِهٖٓ : اپنے کھانے کی طرف]

 

نوٹ۔1: انسان اپنی غذا کے مسئلہ پر ذرا غور کی نگاہ ڈالے جس پر اس کی زندگی کا انحصار ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اس کو پیدا کرتا ہے، پھر ضروریات کی نوعیت کے لحاظ سے کتنی گوناگوں شکلوں میں اس کو پھیلا دیتا ہے۔ اگر وہ اس پر غور کرے گا اور اس کی عقل میں فتور نہیں ہے تو نہایت آسانی سے یہ نکتہ اس کی سمجھ میں آ جائے گا کہ ربوبیت کا یہ وسیع نظام تقاضہ کرتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہو اور اس سے پوچھا جائے کہ ان نعمتوں کا حق ادا کیا یا نہیں۔ (تدبر قرآن)

اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا  25؀ۙ
[انا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا: بیشک ہم نے ہی برسایا پانی جیسے برساتے ہیں]

ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا  26؀ۙ
[ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا: پھر ہم نے پھاڑا، زمین کو جیسے پھاڑتے ہیں]

 

نوٹ۔2: آیت۔26۔ کا مطلب یہ ہے کہ ایک گھاس کے تنکے کی کیا طاقت تھی کہ وہ زمین کو چیر کر باہر نکل آتا۔ یہ قدرت کا ہاتھ ہے جو زمین کو پھاڑ کر اس سے طرح طرح کے غلے، پھل، سبز ے، ترکاریاں وغیرہ نکالتا ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

 زمین کو پھاڑنے سے مراد اس کو اس طرح پھاڑنا ہے کہ جو بیج یا گٹھلیاں وغیرہ انسان اس کے اندر بوئے یا جو کسی اور طریقے سے زمین کے اندر پہنچ جائیں، وہ اپنی کونپلیں نکال سکیں۔ انسان اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا کہ وہ زمین میں ہل چلاتا ہے اور جو بیج خدا نے پیدا کر دئیے ہیں، انھیں وہ زمین میں اتار دیتا ہے۔ اس کے سوا سب کچھ خدا کا کام ہے۔ اسی نے بےشمار قسم کی نباتات کے بیج پیدا کیے ہیں۔ اسی نے ان بیجوں میں یہ خاصیت پیدا کی ہے کہ زمین میں پہنچ کر وہ پھوٹیں اور ہر بیج سے اسی کی جنس کے نباتات اُگے۔ اور اسی نے زمین میں یہ صلاحیت پیدا کی ہے کہ پانی سے مل کر وہ ان بیجوں کو کھولے اور ہر جنس کی نباتات کے لیے اس کے مناسب حال غذا بہم پہنچا کر اسے نشوونما دے خدا نے یہ انتظام نہ کیا ہوتا تو کیا انسان کوئی بھی غذا پا سکتا تھا۔ (تفہیم القرآن)

مورخہ 5۔ رمضان المبارک 1431 ھ بمطابق 16۔ اگست 2010 ء

فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا حَبًّا  27؀ۙ
[فَانۢبَتْنَا فِيْهَا حَبًّا؛تو ہم نے اگائے اس میں دانے (اناج)]

وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا 28؀ۙ
[وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا؛اور انگور اور ترکاری]

 

ق ض ب

[قَضْبًا: (ض) لمبے اور پھیلے ہوئے درخت اگنا۔ کاٹنا۔]

[ قَضْبٌ ہر وہ درخت جس کی شاخیں لمبی ہو کر لٹک جائیں۔ سبزی ترکاری۔ زیرمطالعہ آیت۔ 28۔]

وَّزَيْتُوْنًا وَّنَخْلًا  29؀ۙ
[وَّزَيْتُوْنًا وَّنَخْلًا: اور زیتون اور کھجوریں]

وَّحَدَاۗىِٕقَ غُلْبًا 30؀ۙ
[وَّحَدَاۗىِٕقَ غُلْبًا: اور باغات موٹے تنے والے درختوں کے]

وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا  31؀ۙ
[وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا: اور میوہ اور مویشی کا چارہ]

 

ء ب ب

[اَبًّا: (ض) کسی کام کے لیے تیار ہونا۔]

 اَبٌّ ایسی گھاس جو کٹنے کے لیے تیار ہو۔ مویشی کا چارہ۔ زیر مطالعہ آیت۔31۔]

مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ 32؀ۭ
[مَّتَاعًا لَكُمْ وَلِانعامكُمْ: برتنے کا سامان ہوتے ہوئے تمھارے لیے اور تمھارے چوپایوں کے لیے]

فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ 33؀ۡ
[فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ: پھر جب آئے گی وہ کان پھاڑنے والی چیخ (نفخۂ صور)]

 

ص خ خ

[صَخًّا: (ن) کرخت آواز کا کان کو بہرا کر دینا۔]

[ صَاخَّۃٌ بہرا کر دینے والی چیخ۔ زیر مطالعہ ۔33۔]

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ 34؀ۙ
[يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ: جس دن بھاگیں گے سارے مرد][ مِنْ اَخِيْهِ: اپنے بھائی سے]

وَاُمِّهٖ وَاَبِيْهِ 35؀ۙ
[وَاُمِّهٖ وَاَبِيْهِ: اور اپنی ماں سے اور اپنے والد سے]

وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِيْهِ  36؀ۭ
[وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِيْهِ: اور اپنی ساتھ والی (بیوی) سے اور اپنے بیٹوں سے]

لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ  37؀ۭ
[لِكُلِ امْرِۍ مِّنْهُمْ: ہر مرد کے لیے ان میں سے][ يَوْمَىِٕذٍ شَان: اس دن ایک ایسی مصروفیت (فکر) ہوگی جو][ يُّغْنِيْهِ: کافی ہوگی اس کو]

وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ 38؀ۙ
[وُجوهٌ يَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ: کچھ چہرے اس دن روشن ہونے والے ہیں]

ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ   39؀ۚ
[ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ: ہنسنے والے ہیں خوشی منانے والے ہیں]

وَوُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ   40؀ۙ
[وَوُجوهٌ يَّوْمَىِٕذٍ: اور کچھ چہرے ہوں گے اس دن][ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ: جن پر گردوغبار ہو گا]

تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ   41؀ۭ
[تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ: چھا جائے گی ان پر سیاہی]

اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ   42؀ۧ
[اُولٰۗىِٕكَ: یہ لوگ][ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ: ہی ناشکری کرنے والے نافرمانی کرنے والے ہیں]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ   Ǻ۝۽
[اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ: جب سورج لپیٹ دیا جائے گا]

 

 

ترکیب: آیات۔ 1 تا 13۔ میں تمام جملے اِذَاسے شروع ہو رہے ہیں اس لیے ان میں افعال ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہو گا اور اِذَا کی وجہ سے یہ تمام جملے شرط ہیں، جبکہ آیت۔14۔ میں عَلِمَتْ نَفْسٌ جواب شرط ہے اس لیے عَلِمَتْ (ماضی) کا ترجمہ بھی مستقبل میں ہو گا۔ (آیت۔7) نُفُوْسٌ جمع ہے نَفَسٌ کی جس کے معنی ہیں، ’’ سانس۔‘‘ زندگی کا مدار سانس پر ہے اس لیے یہ جان کے لیے بھی آتا ہے اور جان والے یعنی شخص کے لیے بھی آتا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے دو طرح ترجمے کیے گئے ہیں۔ اول یہ کہ جانوں کو ان کے جسموں کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔ دوم یہ کہ ہم خیال اور ایک جیسے عمل کرنے والے اشخاص کو ایک ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔ ترجمہ میں ہم پہلی رائے کو ترجیح دیں گے۔ کیونکہ نَفَسٌ سے اگر جان مراد ہو تو یہ لفظ مؤنث اور اگر شخص مراد ہو تو یہ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ اور یہاں زُوِّجَتْ مؤنث کا صیغہ آیا ہے اس لیے پہلی رائے کو ترجیح دی گئی ہے۔

 

نوٹ۔1: پچھلی دونوں سورتوں، النّٰزعت اور عَبس میں جس حولِ قیامت سے ڈرایا گیا ہے، اس سورہ میں اسی حول قیامت کی پوری تصویر ہے۔ (تدبر قرآن) ۔ پہلی آیت میں کُوِّرَتْ کا لفظ سورج کو بےنور کر دئیے جانے کے لیے ایک بےنظیر استعارہ ہے۔ عربی زبان میں تَکْوِیْر کے معنی لپیٹنے کے ہیں ۔ سر پر عمامہ (صافہ) باندھنے کے لیے تکویر العمامہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سرکے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل کرسارے عالم میں پھیلی ہوئی ہے، عمامہ سے تشبیح دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا یعنی اس کی روشنی کا پھیلنا بند ہو جائے گا۔ (تفہیم القرآن) ۔ ظاہر ہے کہ جب سورج کی بساط ہی لپیٹ دی جائے گی تو سارا عالم تاریک ہو جائے گا۔ اگرچہ سورج کے چھپنے کا مشاہدہ ہمیں آج بھی ہر روز ہوتا رہتا ہے لیکن اس کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ یہ صورت صرف اس وجہ سے پیش آتی ہے کہ ہم اس سے اُوٹ میں ہو جاتے ہیں۔ البتہ جب قیامت برپا ہوگی تو سورج کا سار نظام ہی درہم برہم ہو جائے گا۔ کون اندازہ کرسکتا ہے اس تاریکی کا جب کہ سرے سے سورج ہی تاریک ہو جائے گا۔ (تدبر قرآن)

وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ  Ą۝۽
[وَاِذَا النُّجومُ انكَدَرَتْ: اور جب تارے بکھر کر بےنور ہو جائیں گے]

 

ک د ر

[کَدْرًا: (ن) گدلا ہونا، میلا ہونا۔]

[اِنْکِدَارًا: (انفعال) کسی چیز کا بکھر کر بجھ جانا۔ بےنور ہو جانا۔ زیر مطالعہ آیت۔2۔]

 

 دوسری آیت میں بتایا ہے کہ باہمی کشش ثقل کی وہ بندش جس نے اجرامِ فلکی کو اپنے اپنے مدار پر باندھ رکھا ہے وہ کھل جائے گی اور سب تارے اور سیارے کائنات میں منتشر ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ اِنْکِدَار میں کدورت کا مفہوم بھی شامل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف منتشر ہی نہیں ہوں گے بلکہ تاریک بھی ہو جائیں گے۔ (تفہیم القرآن)

وَاِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ   Ǽ۝۽
[وَاِذَا الْجبالُ سُيِّرَتْ: اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے]

وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ  Ć ۝۽
[وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ: اور جب حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی]

 

نوٹ۔2: آیت۔4۔ میں حاملہ اونٹنی کو چھوڑ دینے کی بات عربوں کو قیامت کی سختی کا تصور دلانے کے لیے ایک بہترین طرز بیان ہے۔ موجودہ زمانے کے ٹرک اور بسیں چلنے سے پہلے اہل عرب کے لیے اس اونٹنی سے زیادہ قیمتی مال اور کوئی نہ تھا جو بچہ جننے کے قریب ہو۔ اس حالت میں اس کی بہت زیادہ حفاظت اور دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ ایسی اونٹنیوں سے لوگوں کا غافل ہو جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس وقت کچھ ایسی سخت افتاد پڑے گی کہ انھیں اپنے عزیز ترین مال کی حفاظت کا بھی ہوش نہ رہے گا۔ (تفہیم القرآن)

وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ  Ĉ۝۽
[وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ؛اور جب وحشی جانور اکٹھا کیے جائیں گے]

 

و ح ش

[وَحْشًا: (ض) انسیت نہ پانا۔ وحشت محسوس کرنا۔]

[ وَحْشٌ ج وُحُوْشٌ۔ وہ جانور جو انسان سے مانوس نہ ہو۔ وحشی جانور۔ زیر مطالعہ آیت۔5۔]

 

نوٹ۔3: آیت۔5۔ میں وحشی جانوروں کے اکٹھا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان تو انسان، اس دن کے حول سے وحشی جانوروں پر بھی ایسی دہشت طاری ہوگی کہ ان کو جہاں بھی پناہ ملنے کی توقع ہوگی وہ سب وہیں اکٹھا ہو جائیں گے اور آپس کی فطری دشمنیاں بھول جائیں گے۔ جنگل میں آگ لگ جائے یا سیلاب آ جائے تو جنگلی جانور جس ٹیلے پر پناہ ملے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اس آفت کا حول ان پر ایسا طاری ہوتا ہے کہ بکری، شیر اور بھیڑیے پاس پاس کھڑے ہوتے ہیں لیکن کسی کو ہوش نہیں رہتا کہ ان کا شکار ان کی بغل میں ہے۔ یہی صورتحال خوفناک ترین شکل میں ظہورِ قیامت کے وقت پیش آئے گی۔ (تدبر قرآن)

وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ   Č۝۽
[وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ: اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے]

 

نوٹ۔4: آیت۔6۔ میں سمندر کو بھڑکائے جانے کے لیے لفظ سُجِّرَتْ استعمال کیا گیا ہے جو تسجیر سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے۔ تسجیر عربی زبان میں تندور کے اندر آگ بھڑکانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے روز سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ لیکن اگر پانی کی حقیقت نگاہ میں ہو تو اس میں کوئی چیز بھی قابل تعجب نہ رہے گی۔ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے کہ اس نے آکسیجن اور ہائیڈروجن دو ایسی گیسوں کو باہم ملایا جن میں سے ایک آگ بھڑکانے والی اور دوسری بھڑک اٹھنے والی ہے اور ان دونوں کی ترکیب سے پانی جیسا مادہ پیدا کیا جو آگ بجھانے والا ہے۔ اللہ کی قدرت کا ایک اشارہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ وہ پانی کی اس ترکیب کو بدل ڈالے اور یہ دونوں گیسیں ایک دوسرے سے الگ ہو کر بھڑکنے اور بھڑکانے میں مشغول ہو جائیں جو ان کی اصل بنیادی خاصیت ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ  Ċ۝۽
[وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ: اور جب جانیں (جسموں سے) جوڑی جائیں گی]

وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ  Ď۝۽
[وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ: اور جب زندہ دفن کی ہوئی سے پوچھا جائے گا]

 

و ء د

[وَأدًا: (ض) کسی کو زندہ دفن کرنا۔]

[ مَوْئُدْہٌ اسم المفعول کے مونث مفعولۃٌ کا وزن ہے۔ مَوْئُ وْدَۃٌ کو مَوْئٗ دَۃٌ لکھتے ہیں۔ زندہ دفن کی ہوئی۔ زیرمطالعہ آیت۔8۔]

 

نوٹ۔5: جاہلیت عرب میں یہ رسم تھی کہ لڑکی کو اپنے لیے موجب عار سمجھتے تھے اور اس کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ اسلام نے یہ رسم بد مٹائی۔ آیات۔ 8۔9۔ میں ہے کہ ایسی لڑکیوں سے پوچھا جائے گا۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیامت تو نام ہی یوم الحساب اور یوم الجزاء کا ہے، اس میں تو ہر شخص سے اس کے تمام اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا اس جگہ احوال قیامت کے سلسلہ میں زندہ دفن کی ہوئی لڑکی کے معاملے کو اتنی اہمیت کے ساتھ ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے۔ غور کرنے سے اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس کو خود اس کے ماں باپ نے قتل کیا ہے۔ اس کے خون کا بدلہ لینے کے لیے اس کی طرف سے دعویٰ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ حشر کے میدان میں جو عدالت الٰہیہ قائم ہوگی اس میں ایسے مظالم کو بھی سامنے لایا جائے گا جس کے ظلم پر نہ کوئی شہادت ہے نہ اس مظلوم کا کوئی پرسانِ حال ہے۔

 قتل اولاد گناہ کبیرہ اور ظلم عظیم ہے۔ چار ماہ کے بعد کسی حمل کو گرانا بھی اسی حکم میں ہے کیونکہ چوتھے مہینے میں حمل میں روح پڑ جاتی ہے اور وہ زندہ انسان کے حکم میں ہوتا ہے۔ اور چار ماہ سے پہلے بھی اسقاط حمل، بدون اضطراری حالات کے، حرام ہے مگر پہلی صورت کی نسبت کم ہے کیونکہ اس میں کسی زندہ انسان کا قتل نہیں ہے۔

 کوئی ایسی صورت اختیار کرنا جس سے حمل قرار نہ پائے، جیسے آج کل دنیا میں ضبط تولید (فیملی پلاننگ) کے نام سے اس کی مختلف صورتیں رائج ہو گئی ہیں اس کو بھی رسول اللہ
نے وَأْدَ خفی فرمایا ہے یعنی خفیہ طور سے بچے کو دفن کر دینا۔ (مسلم، راوی حزامۃ بنت وھب) ۔ اور بعض دوسری روایات میں جو عزل یعنی ایسی تدبیر کرنا کہ نطفہ رحم میں نہ جائے، اس پر رسول اللہ کی طرف سکوت یا عدم ممانعت منقول ہے وہ ضرورت کے مواقع کے ساتھ مخصوص ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ ہمیشہ کے لیے قطع نسل کی صورت نہ بنے۔ آج کل ضبط تولید کے نام سے جو دوائیں یا علاج کیے جاتے ہیں ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ ہمیشہ کے لیے نسل واولاد کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ اس کی کسی حال میں اجازت نہیں ہے۔ (معارف القرآن)

 فیملی پلاننگ کی مہم کے کارکنان عزل والی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں لیکن وَأْدَ خفی والی حدیث کو صاف پی جاتے ہیں۔ ایک مغرب زدہ دانشور صاحب کو میں نے اس دوسری حدیث کا حوالہ دیا تو فرمایا کہ یہ حدیث نہیں ہے کیونکہ یہ عزل والی حدیث کی ضد ہے اور اللہ کے رسول
متضاد بات نہیں کرسکتے۔ احادیث ڈھائی سو سال کے بعد لکھی گئی ہیں اور یہ دوسری حدیث اس وقت کے کسی کٹھ ملا قسم کے تابعی نے اپنی طرف سے بڑھائی دی ہے۔ ان کے اس طرزِ عمل سے مجھے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ اول یہ کہ وَأْدَ خفی والی حدیث ان کے علم میں تھی۔ دوم یہ کہ وہ اپنی مہم کو کامیاب کرنے کی خواہش سے اس درجہ مغلوب ہو چکے ہیں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے دروازے انہوں نے اپنے اوپر بند کر لیے ہیں۔ ورنہ اللہ اور اس کے رسول 1 کی مرضی ومنشا تلاش کرنے والوں کو ان احادیث کی تطبیق میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

 اس بات کو یوں سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سور کو حرام کیا ہے اور ساتھ ہی حالت اضطرار میں دو شرائط کے ساتھ سور کھانے کی رخصت بھی دی ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ سؤر کھاتے وقت اللہ اور اس کے رسول 1 سے بغاوت کا جذبہ نہ ہو۔ دوم یہ کہ حد سے تجاوز نہ کرے یعنی اضطرار کو ختم کرنے کے لیے جتنا کھانا ضروری ہو اس سے زیادہ نہ کھائے۔ یہی صورتحال ان دونوں احادیث کی ہے کہ عمومی حکم تو یہی ہے کہ منع حمل کی تدابیر اختیار کرنا بچے کو خفیہ طور پر دفن کرنا ہے اور گناہ ہے۔ البتہ حالت اضطرار میں کسی مخصوص شخص کے لیے رخصت ہوگی لیکن وہ ہوگی انھیں دو شرائط کے ساتھ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صاف نظر آ جاتا ہے کہ فیملی پلاننگ کے لیے ایک محکمہ قائم کرنا، وقفہ وقفہ سے اس کے لیے مہم چلانا، اشتہارات کی بوچھاڑ کرنا، ہر سال اس کا یوم منانا، یہ سب اللہ اور اس کے رسول 1 کے خلاف کھلی بغاوت ہے اور حد سے تجاوز کرنا ہے۔ (مرتب)

بِاَيِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ   ۝ۚ
[بِاَيِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ: کس گناہ کے سبب سے وہ قتل کی گئی]

وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ  10۝۽
[وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ: اور جب اوراق (اعمال نامے) کھولے جائیں گے]

وَاِذَا السَّمَاۗءُ كُشِطَتْ   11۝۽
[وَاِذَا السَّمَاۗءُ كُشِطَتْ؛اور جب آسمان سے پردہ اتار لیا جائے گا]

 

ک ش ط

[ کَشْطًا: (ض) کسی چیز سے اس کا ڈھکنا اتارنا۔ کسی کی کھال اتارنا۔ آیت۔11۔]

وَاِذَا الْجَــحِيْمُ سُعِّرَتْ   12۝۽
[وَاِذَا الْجَــحِيْمُ سُعِّرَتْ: اور جب دوزخ بھڑکائی جائے گی]

وَاِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ   13۝۽
[وَاِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ: اور جب جنت نزدیک لائی جائے گی]

عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ  14۝ۭ
[عَلِمَتْ نَفْسٌ: تو جان لے گی (ہر) ایک جان][ مَآ اَحْضَرَتْ: اس کو جو اس نے حاضر کیا]

فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ  15۝ۙ
[فَلَآ اُقْسِمُ: پس نہیں! میں قسم کھاتا ہوں][ بِالْخُنَّسِ: پیچھے ہٹنے والوں (یعنی ستاروں) کی]

 

خ ن س

[خَنْسًا: (ن) پیچھے ہٹنا۔ سکڑنا (لازم) پیچھے کرنا۔ سمیٹنا (متعدی) ۔]

 خانِسٌ ج خَنَّسٌ۔ پیچھے ہٹنے والا۔ سکڑنے والا۔ پیچھے کرنے والا۔ سمیٹنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 81:15۔

 خَنَّاسٌ فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ سے۔ باربار پیچھے ہٹنے والا۔ بار بار سکڑنے والا۔ آیت۔ 114 /4۔ ]

 

ترکیب: (آیت۔ 15 تا 18) بِالْخُنَّسِ کے حرف جَرّبِ پر عطف ہونے کی وجہ سے اَلْجَوَارِ اور اَلْکُنَسِ حالت جر میں ہیں۔ وَالَّیْلِ اور وَالصُّبْحِ کی واو کو قسمیہ بھی مانا جا سکتا ہے اور عاطفہ بھی مانا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اَلَّیْلِ اور اَلصُّبْح کی جَرّ بِ پر عطف ہونے کی وجہ سے مانی جائے گی۔ ہم انھیں واو عاطفہ مان کر ترجمہ کریں گے۔

 

نوٹ۔1: آیات۔15 تا 18۔ میں جو قسمیں کھائی گئی ہیں وہ جس بات پر کھائی گئی ہے وہ آگے کی آیات میں بیان کی گئی ہیں۔ مطلب اس قسم کا یہ ہے کہ محمد
نے تاریکی میں کوئی خواب نہیں دیکھا ہے بلکہ جب تارے چھپ گئے تھے، رات رخصت ہو گئی تھی اور روشن صبح نمودار ہو گئی تھی، اس وقت کھلے آسمان پر انہوں نے خدا کے فرشتے کو دیکھا تھا۔ اس لیے وہ جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ پورے ہوش گوش کے ساتھ دن کی روشنی میں پیش آنے والے تجربے پر مبنی ہے۔ (تفہیم القرآن)

 ان قسموں کی مناسبت آئندہ مضمون سے یہ ہے کہ ان ستاروں کا چلنا، ٹھہرنا اور چھپ جانا ایک نمونہ ہے سابقہ انبیاء پر وحی آنے، اور ایک مدت تک ان کے نشان باقی رہنے، پھر منقطع ہو کر غائب ہو جانے کا۔ اور رات کا آنا نمونہ ہے اس تاریک دور کا جو خاتم المرسلین
کی ولادت باسعادت سے پہلے دنیا پر گزرا کہ حق وباطل کی تمیز نہ رہی تھی اور وحی کے آثار بالکل مٹ چکے تھے۔ (یہ دور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد سے تقریباً چھ سو سال کا عرصہ ہے جب نزول وحی کا سلسلہ منقطع رہا۔ مرتب) اس کے بعد صبح کا دم بھرنا، حضور 1 کا اس جہاں میں تشریف لانا اور قرآن کا اترنا ہے کہ ہر چیز کو ہدایت کے نور سے دن کے مانند روشن کردیا گویا سابقہ انبیاء کا نور ستاروں کی طرح تھا اور اس نور اعظم (یعنی قرآن) کو آفتاب کہنا چاہیے۔ اور بعض علماء نے فرمایا کہ چلنا، لوٹنا اور چھپ جانا، فرشتے کے آنے، واپس جانے اور عالم ملکوت میں چھپنے کے مشابہ ہے۔ اور رات کا گزرنا اور صبح کا آنا، قرآن کے سبب سے ظلمت کفر دور ہو جانے اور نور ہدایت کے پوری طرح ظاہر ہو جانے کے مشابہ ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

الْجَوَارِ الْكُنَّسِ  16۝ۙ
[الْجوارِ: چلنے والوں (یعنی سیاروں) کی][ الْكُنَّسِ : چھپ جانے والوں (یعنی تاروں) کی]

 

ک ن س

[کَنُوْسًا: (ن) کسی کا اپنی پناہ گاہ میں پناہ لینا۔ دہک جانا۔]

 کَانِسٌ ج کَنَّسٌ۔ پناہ لینے والا۔ دبک جانے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔16۔ ]

وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ  17۝ۙ
[وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ: اور رات کی جب وہ گزر جائے]

وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ  18۝ۙ
[وَالصُّبْحِ: اور صبح کی][ اِذَا تَنَفَّسَ: جب وہ سانس لے (یعنی روشن ہو)]

اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ  19۝ۙ
[انهٗ: بیشک یہ (قرآن)][ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ: یقینا ایک بزرگ رسول (جبریلؑ) کا قول ہے]

 

 (آیت۔19) اِنَّہٗ میں ہٗ کی ضمیر قرآن مجید کے لیے ہے۔

ذِيْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ  20۝ۙ
[ذِيْ قُوَّةٍ: جو قوت والا ہے][ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْن: عرش والے کے پاس رتبہ والا ہے]

 

(آیت۔ 20۔21) ذِیْ قُوۃٍ۔ مَکِیْنٍ۔ مُطَاعٍ اور اَمِیْنٍ، یہ سب رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ کی صفت ہونے کی وجہ سے حالت جَر میں ہیں اور یہ صفات بتا رہی ہیں کہ گزشتہ آیت میں رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ سے مراد حضرت جبریلؑ ہیں۔

 

نوٹ۔2: آیات۔ 20۔21۔ میں حضرت جبریلؑ کی مزید صفات بیان کی گئی ہیں تاکہ اچھی طرح واضح ہو جائے کہ قرآن کِس محفوظ ومامون اور پاکیزہ ذریعہ سے اترا ہوا کلام ہے۔ مُطَاعٍ یعنی جو فرشتے ان کی ماتحتی میں ہیں وہ سب بےچوں و چرا ان کی اطاعت کرتے ہیں۔ مجال نہیں ہے کہ سرِمُو ان کے احکام سے انحراف کرسکیں، ان کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکیں یا ان کے دئیے ہوئے احکام میں تحریف یا ترمیم کرسکیں۔

 ثَمَّ اَمِیْن۔ یہاں ثُمَّ نہیں بلکہ ثَمَّ آیا ہے۔ ان دونوں کے استعمال میں فرق ہے۔ ثَمَّ کسی جگہ کی طرف خاص طور پر اشارے کے لیے بھی آتا ہے اور کسی صفت سے پہلے اس پر اہتمام سے زور دینے کے لیے بھی۔ یہاں یہ صفت امین سے پہلے آیا ہے۔ اس سے مقصود حضرت جبریلؑ کی اس صفت کی طرف خاص طور پر توجہ دلانا ہے۔ یعنی مذکورہ صفات کے ساتھ ان کی خاص اہمیت رکھنے والی صفت یہ بھی ہے کہ وہ امانتدار ہیں۔ اس صفت کا خاص اہتمام سے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی یہی صفت اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول 1 کے پاس جو کچھ لاتے ہیں اس میں کسی ملاوٹ یا کسی کمی بیشی کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔

مورخہ 23۔ رمضان المبارک 1431 ھ بمطابق 3۔ ستمبر 2010 ء

مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ   21۝ۭ
[مُّطَاعٍ: اس کی اطاعت کی جاتی ہے][ ثَمَّ: وہیں][ اَمِيْن: امانتدار (بھی) ہے]

وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُوْنٍ  22۝ۚ
[وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُوْنٍ: اور تم لوگوں کے ساتھیؐ مجنون نہیں ہیں]

وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ 23۝ۚ
[وَلَقَدْ رَاٰهُ: اور وہؐ یقینا دیکھ چکے ہیں ان (جبریلؑ) کو][ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ: کھلے آسمان کے کنارے پر]

 

(آیت۔ 23) لَقَدْ رَاٰہُ میں فعل رَاٰ میں شامل ضمیر فاعلی ھُوَ رسول اللہ
کے لیے ہے، جبکہ اس کی ضمیر مفعولی حضرت جبریلؑ کے لیے ہے۔ جبکہ آیت۔25۔ میں ھُو کی ضمیر قرآن مجید کے لیے ہے۔

وَمَا هُوَ عَلَي الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ  24۝ۚ
[وَمَا هُوَ عَلَي الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ: اور وہؐ غیب (بتانے) پر کنجوسی کرنے والے نہیں ہیں]

 

ض ن ن

[ضَنًّا: (ض) بخل کرنا۔

[ ضَنِیْنٌ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ بخل کرنے والا۔ بخیل زیر مطالعہ آیت 24۔ ]

وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ  25؀ۙ
وَمَا هُوَ: اور نہیں ہے یہ (قرآن) ][ بِقَوْلِ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ: کسی مردود شیطان کا قول ]

اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ   27؀ۙ
[ان هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ: نہیں ہے یہ (قرآن) مگر ایک یاددہانی][ لِلْعٰلَمِيْنَ: تمام جہانوں کے لیے]

لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّسْتَــقِيْمَ   28؀ۭ
[لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ: (خصوصاً) اس کے لیے جو چاہے تم میں سے][ ان يَّسْتَــقِيْمَ: کہ وہ سیدھی راہ پر رہے]

 

 (آیت۔ 28) ۔ لِمَنْ بدل ہے گزشتہ آیت میں لِلْعٰلَمِیْنَ کا۔ لیکن یہ بدل عام نہیں بلکہ بدل بعض ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ بدل مخصوصہ ہے یعنی یہ بدل ان لوگوں کے لیے جن کی خصوصیت آگے بیان ہوئی ہے۔ اردو میں بھی بدل بعض کا استعمال عام ہے۔ مثلاً ہم کہتے کہ انکم ٹیکس کے قوانین میں ہونے والی تبدیلیوں کو تمام ٹیکس دہندگان، خاص طور سے تنخواہ دار طبقہ اچھی طرح سمجھ لے۔ اسی طرح سے دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید ایک یاددہانی ہے تمام جہانوں کے لیے خاص طور سے ان کے لیے جو یہ چاہتے ہیں۔

وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ   29؀ۧ
[وَمَا تَشَاۗءُوْنَ: اور تم لوگ کیا چاہو گے][ اِلَّآ ان: سوائے اس کے کہ (جو)][ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ: چاہے گا اللہ][ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ: جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ    Ǻ۝ۙ
[اِذَا السَّمَاۗءُ انفَطَرَتْ: جب آسمان پھٹ جائے گا]

 

نوٹ۔1: ظہورِ قیامت کے وقت آسمان کے پھٹ جانے کا ذکر قرآن میں جگہ جگہ ہوا۔ دراصل قیامت کے بعد ایک بالکل نیا عالم نئے قوانین کے تحت ظہور میں آئے گا، اس وجہ سے اس عالم کہن کی ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ اس ٹوٹ پھوٹ کی شکل کیا ہو گی، اس کا صحیح تصور آج نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کی یاد دبانی اس لیے فرمائی گئی ہے کہ لوگوں کو جھنجھوڑا جائے کہ قیامت کی ہلچل ایسی ہوگی کہ یہ محکم چھت (یعنی آسمان) جس میں تم ڈھونڈے سے بھی کوئی رخنہ نہیں پا سکتے، بالکل رخنہ ہی رخنہ اور شگاف ہی شگاف بن کر رہ جائے گی۔ یہاں اس الجھن میں اپنے دماغ کو مت ڈالیئے کہ یہ آسمان جو ہمیں نظر آتا ہے، یہ محض ایک خلا ہے یا کوئی ٹھوس چیز ہے، بلکہ اس بات پر یقین رکھیں کہ جس طرح آج اس کا مشاہدہ ہم ایک محکم چھت کی شکل میں کر رہے ہیں، اسی طرح قیامت کی ہلچل کے وقت اس میں شگاف ہی شگاف نظر آئیں گے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: سورۂ تکویر میں فرمایا گیا ہے کہ سمندروں میں آگ بھڑکا دی جائے گی اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ سمندروں کو پھاڑ دیا جائے گا۔ دونوں آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے، اور یہ بات بھی نگاہ میں رکھی جائے کہ قرآن کی رو سے قیامت کے روز ایک ایسا زبردست زلزلہ آئے گا جو کسی علاقہ تک محدود نہیں ہو گا بلکہ پوری زمین بیک وقت ہلا ماری جائے گی، تو سمندروں کے پھٹنے اور ان میں آگ بھڑک اٹھنے کی کیفیت ہماری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ پہلے اس عظیم زلزلے کی وجہ سے سمندروں کی تہ پھٹ جائے گی اور ان کا پانی زمین کے اس اندرونی حصے میں اترنے لگے گا جہاں ہر وقت ایک بےانتہا گرم لاوا کھولتا رہتا ہے۔ پھر اس لاوے تک پہنچ کر پانی اپنے دو ابتدائی اجزاء کی شکل میں تحلیل ہو جائے گا جن میں سے ایک آکسیجن جلانے والی ہے اور دوسری ہائیڈروجن بھڑک اٹھنے والی ہے یوں تحلیل اور آتش افروزی کا ایک ایسا مسلسل ردعمل (
Chain Reaction) شروع ہوجائے گا جس سے دنیا کے تمام سمندروں میں آگ لگ جائے گی۔ یہ ہمارا قیاس ہے باقی صحیح علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔3: جب قیامت کے وہ حالات پیش آ چکیں گے جن کا ذکر شروع سورت میں کیا گیا ہے اس وقت ہر انسان جان لے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔ آگے بھیجنے سے مراد اس پر عمل کر لینا ہے اور پیچھے چھوڑنے سے مراد ترکِ عمل ہے۔ تو قیامت کے روز ہر شخص جان لے گا کہ اس نے نیک وبد کیا کیا عمل کر لیے اور نیکی وبدی میں سے کیا چھوڑ دی تھی۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ آگے بھیجے ہوئے اعمال سے مراد وہ عمل ہوں جو اس نے خود کیے، خواہ نیک ہوں یا بد، اور پیچھے چھوڑے ہوئے سے مراد وہ عمل ہوں جن کی رسم دنیا میں ڈال گئے۔ اگر وہ نیک کام ہیں تو ان کا ثواب اس کو ملتا رہے گا اور برے ہیں تو اس کی برائی اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی رہے گی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جس شخص نے اسلام میں کوئی اچھی سنت اور طریقہ جاری کرایا اس کا ثواب ہمیشہ اس کو ملتا رہے گا۔ اور جس نے کوئی بری رسم دنیا میں جاری کیا تو جب تک لوگ اس برے کام میں مبتلا ہوں گے اس کا گناہ اس شخص کے لیے بھی لکھا جاتا رہے گا۔ (معارف القرآن)

وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ   Ą۝ۙ
[وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْ: اور جب ستارے جھڑ جائیں گے]

وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ   Ǽ۝ۙ
[وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ: اور جب سمندر پھاڑ دیئے جائیں گے]

وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ   Ć۝ۙ
[وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ: اور جب قبریں ادھیڑی جائیں گی]

 

پ ع ث ر

[بَعْثَرَۃً: (رباعی) کسی چیز کو الٹنا پلٹنا۔ کریدنا۔ اس میں سے کچھ نکالنے کے لیے۔ بُعْثِرَ ماضی مجہول ہے۔ کریدا جانا۔ اِذَا بُعْثِرً مَافِی الْقُبُوْرِ (جب کریدا جائے گا اس کو جو قبروں میں ہے) ۔ 100:9۔]

عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ   Ĉ۝ۭ
[عَلِمَتْ نَفْسٌ: تو جان لے گی ہر ایک جان اس کو][ مَا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ: اس نے جو آگے کیا اور جو پیچھے کیا]

يٰٓاَيُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيْمِ   Č۝ۙ
[يٰٓاَيُّهَا الْانسَان مَا غَرَّكَ: اے انسان کس چیز نے دھوکے میں ڈالا تجھ کو][ بِرَبِكَ الْكَرِيْمِ؛تیرے کریم رب کے بارے میں]

 

نوٹ۔4: آیت۔6۔ کا مطلب یہ ہے کہ وہ رب کریم کیا اس کا حقدار تھا کہ اس کے حلم پر مغرور ہو کر تو نافرمانیاں کرتا رہے اور اس کے لطف وکرم کا جواب کفرو طغیان سے دے۔ اس کا کرم دیکھ کر تو اور زیادہ شرمانا اور حلیم کے غصے سے بہت زیادہ ڈرنا چاہے تھا۔ بیشک وہ کریم ہے لیکن منتقم اور حکیم بھی ہے۔ پھر یہ دھوکا نہیں تو اور کیا ہے کہ اس کی ایک صفت کو لے کر دوسری صفات سے آنکھیں بند کرلی جائیں۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

 اس دھوکے میں پڑنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ تیرا وجود خود بتا رہا ہے کہ تو خود نہیں بن گیا ہے، تیرے ماں باپ نے بھی تجھے نہیں بنایا ہے، عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے بھی اتفاقاً تو انسان بن کر پیدا نہیں ہو گیا ہے، بلکہ ایک خدائے حکیم و توانا نے تجھے اس مکمل انسانی شکل میں ترتیب دیا ہے۔ تیرے سامنے ہر قسم کے جانور موجود ہیں جن کے مقابلے میں تیری بہترین ساخت اور تیری افضل واشرف قوتیں صاف نمایاں ہیں۔ عقل کا تقاضہ یہ تھا کہ اس کو دیکھ کر تیرا سر باراحسان سے جھک جاتا اور اس رب کریم کے مقابلے میں تو کبھی نافرمانی کی جرأت نہ کرتا۔ تو خود جب کسی کا افسر ہوتا ہے تو اپنے اس ماتحت کو کمینہ سمجھتا ہے جو تیری شرافت اور نرم دلی کو کمزوری سمجھ کر تیرے سر چڑھ جائے۔ اس لیے تیری اپنی فطرت یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ مالک کا کرم ہرگز اس کا موجب نہ ہونا چاہیے کہ بندہ اس کے مقابلے میں جری ہو جائے۔ (تفہیم القرآن)

الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ   Ċ۝ۙ
[الَّذِي خَلَقَكَ: وہ جس نے پیدا کیا تجھ کو][ فَسَوّٰىكَ: پھر اس نے نوک پلک درست کی تیری][ فَعَدَلَكَ: پھر اس نے متناسب کیا تجھ کو]

فِيْٓ اَيِّ صُوْرَةٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ   Ď۝ۭ
[فِيْٓ اَيِّ صُوْرَةٍ: جس صورت میں][ مَا: جو (جیسا)][ شَاۗءَ: اس نے چاہا][ رَكَّبَكَ: اس نے ترتیب دیا تجھ کو]

 

نوٹ۔5: آیت۔8۔ کا مطلب یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ تخلیق سب انسانوں کی ایک خاص وضع اور ہیئت پر ہونے کی وجہ سے سب میں اشتراک ہے، اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ سب ایک ہی شکل و صورت کے ہوتے، مگر حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ نے کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں کی شکل وصورت میں ایسے امتیازات پیدا فرما دئیے جو ایک دوسرے کے مشابہ نہیں ہوتے بلکہ صاف اور نمایاں امتیاز رہتا ہے۔ (معارف القرآن)

كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُوْنَ بِالدِّيْنِ    ۝ۙ
[كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُوْنَ بِالدِّيْنِ: ہرگز نہیں! بلکہ تم لوگ جھٹلاتے ہو بدلے (جزا و سزا) کو]

وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ   10۝ۙ
[وَان عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ: اور بیشک تم لوگوں پر یقینا محفوظ کرنے والے (مقرر) ہیں]

 

ترکیب: (آیت۔ 10) اِنَّ کا اسم ہونے کی وجہ سے حٰفِظِّیْنَ حالت نصب میں ہے اس کی خبر محدوف ہے۔ عَلَیْکُمْ قائم مقام خبر ہے۔ لَحٰفِظِیْنَ پر لام تاکید ہے۔ لام تاکید عموماً اِنَّ کی خبر پر آتا ہے۔ لیکن خبر محذوف ہو تو اِنَّ کے اسم پر لے آتے ہیں۔

 

نوٹ۔1: آیت۔ 10 تا 12۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس مغالطہ میں نہ رہنا کہ تمھاری جلوت وخلوت کی ساری باتوں سے کون باخبر ہو سکتا ہے کہ ایک دن ان کا محاسبہ کرنے بیٹھے۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک کے اوپر اپنے نگراں بیٹھا رکھے ہیں جو تمہارے ہر قول وفعل کو نوٹ کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ نہایت معزز ہیں۔ ان فرشتوں کی صفت کِرَامًا، سے مقصود اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ یہ جس ڈیوٹی پر مامور ہیں اس کو نہایت فرضی شناسی، پورے احساس ذمہ داری اور کامل غیر جانبداری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اور جہاں کہیں بھی کرتے ہو، وہ سب ان پر واضح ہوتا ہے۔ یہاں صرف افعال کے جاننے کا ذکر ہے لیکن سورہ ق آیت۔ 18۔ میں فرمایا نہیں بولتا ہے وہ کوئی بات مگر ایک مستعد نگراں اس کے پاس موجود ہوتا ہے۔‘‘ سورہ ق میں یہ وضاحت بھی ہے کہ یہ فرشتے دو ہوتے ہیں اور دائیں بائیں دونوں طرف سے نگرانی کرتے ہیں۔ احادیث سے یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ ان میں تقسیم کار ہوتی ہے۔ ایک نیکیاں لکھنے پر مامور ہوتا ہے اور دوسرا بدیاں لکھنے پر (تدبر قرآن)

 ان فرشتوں کا مرتب کردہ ریکارڈ ایک مکمل ریکارڈ ہے جس میں درج ہونے سے کوئی بات رہ نہیں گئی ہے۔ اسی کے متعلق سورۂ کہف کی آیت۔49 میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے روز مجرمین یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ ان کا جو نامۂ اعمال پیش کیا جا رہا ہے اس میں کوئی چھوٹی یا بڑی بات درج ہونے سے رہ نہیں گئی ہے، جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب کا سب جوں کا توں ان کے سامنے حاضر ہے۔ (تفہیم القرآن)

مورخہ 27۔ رمضان المبارک 1431ئ بمطابق 7۔ ستمبر 2010 ء

كِرَامًا كَاتِبِيْنَ    11۝ۙ
[كِرَامًا كَاتِبِيْنَ: جو معزز ہیں، لکھنے والے ہیں]

 

 (آیت۔ 11) کِرامًا اور کَاتِبِیْنَ، یہ دونوں حٰفِظِیْنَ کا بدل ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں۔

يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ    12؀
[يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ: وہ جانتے ہیں اس کو جو تم لوگ کرتے ہو]

اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ  13۝ۚ
[ان الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ: بیشک نیک لوگ یقینا دائمی خوشحالی میں ہیں]

 

 (آیت۔13۔ 14) اَلْاَبْرَارَ اور اَلْفُجَّارَ ، یہ دونوں اِنَّ کے اسم ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں۔ ان کی خبریں محذوف ہیں۔ فِیْ نَعِیْمٍ اور فِیْ جَحِیْمٍ قائم مقام خبریں ہیں جن پر لامِ تاکید ہے۔

وَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِيْ جَحِيْمٍ  14۝ښ
[وَان الْفُجَّارَ لَفِيْ جَحِيْمٍ : اور بیشک نافرمانی کرنے والے یقینا جہنم میں ہیں]

يَّصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّيْنِ   15؀
[يَّصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّيْنِ: وہ لوگ گِریں گے اس میں بدلے کے دن]

وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَاۗىِٕبِيْنَ   16۝ۭ
[وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَاۗىِٕبِيْنَ: اور وہ لوگ اس (جہنم) سے چھپنے والے نہیں ہیں]

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ   17۝ۙ
[وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ: اور تو کیا جانے کیا ہے بدلے کا دن]

ثُمَّ مَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ  18۝ۭ
[ثُمَّ: پھر (مکرر)][ مَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ: تو کیا جانے کیا ہے بدلے کا دن]

يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَـيْــــًٔا    ۭ وَالْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ    19۝ۧ
[يَوْمَ لَا تملِكُ: جس دن اختیار نہ رکھے گی][ نَفْسٌ لِنَفْسٍ: کوئی جان کسی جان کے لیے][ شَـيْــــًٔا ۭ: کسی چیز کا][ وَالْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ: اور سارے معاملات اس دن][ للّٰهِ : اللہ کے لیے ہوں گے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ    Ǻ۝ۙ
[وَيْلٌ لِـلْمُطَفِّفِيْنَ؛تباہی ہے کمی کرنے والوں کے لیے]

 

ط ف ف

[طَفَّا: (ض) ہاتھ یا پائوں سے کسی چیز کو اٹھانا۔]

(تفعیل) تَطْفِیفًا کسی چیز میں ذرا سی کمی کرنا۔ پیمانہ کو تھوڑا سا کم بھرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔1۔]

 

نوٹ۔1: اس سورت کے انداز بیان اور مضامین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے جب اہل مکہ کے ذہن میں آخرت کا عقیدہ بٹھانے کے لیے پے در پے سورتیں نازل ہو رہی تھیں۔ بعض مفسرین نے اس کو مدنی قرار دیا ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ دراصل ابن عباس  (رض)  کی یہ روایت ہے کہ جب نبی
مدینے تشریف لائے تو یہاں کے لوگوں میں کم ناپنے اور تولنے کا مرض پھیلا ہوا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورہ نازل کی اور لوگ بہت اچھی طرح ناپنے تولنے لگے۔ لیکن جیسا کہ اس سے پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ صحابہ کرام (رض)  اور تابعین کا یہ عام طریقہ تھا کہ ایک آیت جس معاملہ پر چسپاں ہوتی ہو اس کے متعلق وہ یوں کہا کرتے تھے کہ یہ فلاں معاملہ میں نازل ہوئی۔ اس لیے ابن عباس  (رض)  کی روایت سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب ہجرت کے بعد نبی نے مدینہ کے لوگوں میں یہ بری عادت پھیلی ہوئی پائی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ 1 نے یہ سورت ان کو سنائی اور اس سے ان کے معاملات درست ہو گئے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 278)

نوٹ۔2: مُطَفِّفِیْن کا لفظ تَطْفِیْف سے مشتق ہے۔ عربی میں طَفِیْف چھوٹی اور حقیر چیز کے لیے بولتے ہیں اور تطفیف کا لفظ اصطلاحاً ناپ تول میں چوری چھپے کمی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ کام کرنے والا ناپ کر یا تول کر چیز دیتے ہوئے کوئی بڑی مقدار نہیں اڑاتا بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھا کر ہر خریدار کے حصے سے تھوڑا تھوڑا اڑاتا رہتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

 قرآن وحدیث میں ناپ تول میں کمی کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔ کیونکہ عام طور پر معاملات کا لین دین انہی دو طریقوں سے ہوتا ہے اور انہی کے ذریعہ کہا جا سکتا ہے کہ حقدار کا حق ادا ہوا یا نہیں۔ لیکن اس سے مقصود ہر ایک حقدار کا حق پورا پورا دینا ہے اور اس میں کمی کرنا حرام ہے۔ تو معلوم ہوا کہ یہ صرف ناپ تول کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر وہ چیز جس سے حق پورا کرنا یا نہ کرنا جانچا جاتا ہے، اس کا یہی حکم ہے۔ حضرت عمر (رض)  نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے رکوع سجدے وغیرہ پورے نہیں کرتا بلکہ جلدی جلدی نماز ختم کر ڈالتا ہے۔ تو اس سے فرمایا کہ تو نے اللہ کے حق میں تطفیف کر دی۔ حضرت عمر (رض)  کے اس قول کو نقل کر کے امام مالک (رح)  نے فرمایا کہ حق پورا دینا یا کم کرنا ہر چیز میں ہے، یہاں تک کہ نماز، وضو، طہارت وغیرہ میں بھی اور اسی طرح دوسرے حقوق اللہ اور عبادات میں کمی کوتاہی کرنے والا تطفیف کرنے کا مجرم ہے۔ اسی طرح حقوق العباد میں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتا ہے وہ بھی تطفیف کے حکم میں ہے۔ ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معاہدہ کیا ہے اس میں سے وقت چرانا اور چوری کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ وقت کے اندر جس طرح محنت کرنے کا عرف میں معمول ہے اس میں سستی کرنا بھی تطفیف ہے۔ اپنی ملازمت کے فرائض میں کمی کرنے کو کوئی گناہ بھی نہیں سمجھتا۔

 رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ جب قوم تطفیف کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کا رزق قطع کر دیتا ہے۔ حدیث میں جو رزق قطع کر دینے کا ارشاد ہے اس کی یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ اس کو رزق سے بالکل محروم کردیا جائے۔ اور یہ صورت بھی قطع رزق میں داخل ہے کہ رزق موجود ہوتے ہوئے وہ اس کو کھا نہ سکے یا استعمال نہ کرسکے جیسے بہت سی بیماریوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس زمانے میں بہت عام ہے۔ اسی طرح قحط کی یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ اشیاء ضرورت مفقود ہو جائیں اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موجود ہونے کے باوجود ان کی گرانی اتنی بڑھ جائے کہ خریداری مشکل ہو جائے۔ جیسا کہ آج کل اس کا مشاہدہ اکثر چیزوں میں ہو رہا ہے۔ اس سے وہ شبہات رفع ہو جاتے ہَیں جو حدیث کے الفاظ کے متعلق ظاہر حالات کے اعتبار سے ہو سکتے ہیں۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔3: معاشرے کی بےشمار خرابیوں میں سے ایک خرابی کو بطور مثال لے کر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ آخرت سے غفلت کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب تک لوگوں کو یہ احساس نہ ہو کہ خدا کے سامنے پیش ہونا ہے اور کوڑی کوڑی کا حساب دینا ہے، اس وقت تک یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے معاملات میں کامل راستبازی اختیا کرسکیں۔ کوئی شخص دیانتداری کو اچھی پالیسی سمجھ کر بعض چھوٹے چھوٹے معاملات میں دیانت برت بھی لے، تو ایسے مواقع پر وہ کبھی دیانت نہیں برت سکتا جہاں بےایمانی ایک مفید پالیسی ثابت ہوتی ہو۔ آدمی کے اندر سچی اور مستقل دیانتداری اگر پیدا ہو سکتی ہے تو صرف آخرت پر یقین ہی سے ہو سکتی ہے، کیونکہ اس صورت میں دیانت ایک ’’ پالیسی‘‘ نہیں بلکہ ’’ فریضہ‘‘ قرار پاتی ہے اور آدمی کے اس پر قائم رہنے یا نہ رہنے کا انحصار دنیا میں مفید ہونے یا غیر مفید ہونے پر نہیں رہتا۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 278۔ 279)

الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ   Ą۝ڮ
[الَّذِينَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَاسِ: وہ لوگ جو جب کبھی ناپ کر لیتے ہیں لوگوں سے][ يَسْتَوْفُوْنَ: تو پورا لینا چاہتے ہیں]

وَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ   Ǽ۝ۭ
[وَاِذَا كَالُوْهُمْ: اور جب کبھی ناپ کر دیتے ہیں ان کو][ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ: یا تول کر دیتے ہیں ان کو][ يُخْسِرُوْن؛تو کمی کرتے ہیں]

اَلَا يَظُنُّ اُولٰۗىِٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ   Ć۝ۙ
[اَلَا يَظُنُّ اُولٰۗىِٕكَ: کیا گمان نہیں کرتے وہ لوگ][ انهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ: کہ وہ اٹھائے جانے والے ہیں]

لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ Ĉ۝ۙ
[لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ: ایک عظیم دن کے لیے]

يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   Č۝ۭ
[يَّوْمَ يَقُوْمُ النَاسُ: جس دن کھڑے ہوں گے لوگ][ لِرَبِ الْعٰلَمِيْنَ: تمام جہانوں کے رب کے سامنے]

كَلَّآ اِنَّ كِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِيْ سِجِّيْنٍ   Ċ۝ۭ
[كَلَّآ ان كِتٰبَ الْفُجَّارِ: ہرگز نہیں! بیشک نافرمانی کرنے والوں کی کتاب (نامہ اعمال)][ لَفِيْ سِجِّيْنٍ: یقینا سجین میں ہے]

 

نوٹ۔4: آیت۔7۔ میں لفظ سِجِّیْنٍ آیا ہے جو سجن سے مشتق ہے جس کے معنی تنگ جگہ میں قید کرنے کے ہیں۔ اور احادیث و آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سجین ایک خاص مقام کا نام ہے اور کفار وفجار کی ارواح کا مقام یہی ہے اور اسی مقام پر ان کے نامۂ اعمال رہتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے اعمال نامہ اس جگہ محفوظ کر دئیے جاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جگہ کوئی ایسی جامع کتاب ہو جس میں تمام کفار وفجار کے اعمال لکھ دئیے جاتے ہوں۔ اس کے آگے کِتبٌ مَّرْقُوْمٌ کے الفاظ آئے ہیں ان کے متعلق امام بغوی اور ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ جملہ مقام سجین کی تفسیر نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے جو کِتٰبُ الفجار آیا ہے اس کا بیان ہے۔ (معارف القرآن)

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سِجِّيْنٌ   Ď۝ۭ
[وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سِجِّيْنٌ: اور تو کیا جانے کیا ہے سجین]

كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ  ۝ۭ
[كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ: (وہ) ایک لکھی ہوئی کتاب ہے]

وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ   10۝ۙ
[وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ: تباہی ہے اس دن][ لِلْمُكَذِّبِيْنَ: جھٹلانے والوں کے لئے]

الَّذِيْنَ يُكَذِّبُوْنَ بِيَوْمِ الدِّيْنِ   11۝ۭ
[الَّذِينَ يُكَذِّبُوْنَ: وہ لوگ جو جھٹلاتے ہیں][ بِيَوْمِ الدِّيْنِ: بِیَوْمِ الدِّیْنِ (11) چ ]

وَمَا يُكَذِّبُ بِهٖٓ اِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍ  12۝ۙ
[وَمَا يُكَذِّبُ بِهٖٓ: اور نہیں جھٹلاتے اس کو][ اِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍ: مگر سارے حد سے بڑھنے والے گنہگار]

اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِ اٰيٰـتُنَا قَالَ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ   13؀ۭ
[اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِ اٰيٰـتُنَا: جب کبھی پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اس کو ہماری آیتیں][ قَالَ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ: تو وہ کہتا ہے پہلے لوگوں کے افسانے ہیں]

 

نوٹ۔5: آیت۔14۔ میں رَانَ کا لفظ رین سے مشتق ہے جس کے معنی زنگ اور میل کچیل کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کا زنگ لگ گیا ہے اور جس طرح زنگ لوہے کو کھا کر مٹی بنا دیتا ہے اسی طرح ان کے گناہوں کے زنگ نے ان کے دل کی اس صلاحیت کو ختم کردیا جس سے بھلے برے کی تمیز ہوتی ہے۔ رسول اللہ
نے فرمایا کہ بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اگر اس نے توبہ کرلی تو یہ سیاہ نقطہ مٹ جاتا ہے اور دل اپنی اصلی حالت میں منور ہو جاتا ہے۔ اور اگر اس نے توبہ نہ کی بلکہ اپنے گناہوں میں زیادتی کرتا چلا گیا تو یہ سیاہی اس کے سارے قلب پر چھا جاتی ہے۔ (معارف القرآن)

كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ   14؀
[كَلَّا بَلْ ۫ رَان عَلٰي قُلُوْبِهِمْ: ہرگز نہیں! بلکہ چھا گیا ان کے دلوں پر][ مَا كَانوْا يَكْسِبُوْنَ: وہ جو یہ لوگ کماتے تھے]

 

ر ی ن

(ض) رَیْنًا کسی کا کسی پر غالب آنا۔ چھا جانا۔ زیر مطالعہ آیت۔14۔

كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ    15؀ۭ
[كَلَّآ انهُمْ عَنْ رَّبِهِمْ: ہرگز نہیں! بیشک یہ لوگ اپنے رب سے][ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجوبُوْنَ: اس دن یقینا روکے ہوئے ہوں گے]

كَلَّآ اِنَّ كِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّيِّيْنَ   18؀ۭ
[كَلَّآ ان كِتٰبَ الْاَبْرَارِ: ہرگز نہیں! بیشک نیکی کرنے والوں کی کتاب (اعمال نامہ)][ لَفِيْ عِلِيِّيْنَ: یقینا بلندیوں میں ہے]

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا عِلِّيُّوْنَ    19؀ۭ
[وَمَآ اَدْرٰىكَ: اور تو کیا جانے][ مَا عِلِيُّوْنَ: کیا ہیں (وہ) بلندیاں]

كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ  20؀ۙ
[كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ: (وہ) ایک لکھی ہوئی کتاب ہے]

يَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَ    21؀ۭ
[يَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَ: موجود ہوتے ہیں اس پر قربت دیئے ہوئے (فرشتے)]

اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ  22؀ۙ
[ان الْاَبْرَارَ: بیشک نیکی کرنے والے][ لَفِيْ نَعِيْمٍ: یقینا دائمی خوشحالی میں ہوں گے]

عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ يَنْظُرُوْنَ  23؀ۙ
[عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ يَنْظُرُوْنَ: تختوں پر (بیٹھے) دیکھتے ہوئے]

تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيْمِ  24؀ۚ
[تَعْرِفُ فِيْ وُجوهِهِمْ: تو پہچانے گا ان کے چہروں میں][ نَضْرَةَ النَّعِيْمِ؛دائمی خوشحالی کی تروتازگی کو]

يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّخْتُوْمٍ 25؀ۙ
[يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّخْتُوْمٍ: وہ پلائے جائیں گے سربمہر کی ہوئی خالص (شراب) سے]

خِتٰمُهٗ مِسْكٌ ۭ وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ   26؀ۭ
[خِتٰمُهٗ مِسْكٌ ۭ: جس کی مہر مشک ہو گی][ وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ: اور اس میں پس چاہیے کہ جان کھپائیں][ الْمُتَنَافِسُوْنَ: جان کھپانے والے]

 

نوٹ۔1: تنافس کے معنی ہے کہ چند آدمیوں کا کسی خاص مرغوب ومحبوب چیز کو حاصل کرنے کے لیے جھپٹنا اور دوڑنا تاکہ دوسروں سے پہلے وہ اس کو حاصل کر لیں۔ یہاں جنت کی نعمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد حق تعالیٰ نے غفلت شعار انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ آج تم لوگ جن چیزوں کو مرغوب ومطلوب سمجھ کر ان کو حاصل کرنے میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہو، وہ ناقص اور فانی نعمتیں اس قابل نہیں کہ ان کو مقصود زندگی سمجھ کر ان کے لیے مسابقت کرو۔ بلکہ ان میں تو قناعت وایثار سے کام لے کر یہ سمجھ لو یہ چند روزہ راحت کا سامان ہاتھ سے نکل بھی گیا تو کچھ بڑے صدمے کی بات نہیں، یہ ایسا خسارہ نہیں جس کی تلافی نہ ہو سکے۔ البتہ تنافس اور مسابقت کرنے کی چیز یہ جنت کی نعمتیں ہیں جو ہر حیثیت سے مکمل بھی ہیں اور دائمی بھی۔ (معارف القرآن)

مورخہ 2 شوال 1431 ھ بمطابق 12 ستمبر 2010 ء

وَمِزَاجُهٗ مِنْ تَسْنِيْمٍ  27؀ۙ
[وَمِزَاجُهٗ مِنْ تَسْنِيْمٍ: اور اس (رحیق) کی ملاوٹ تسنیم سے ہو گی]

عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُوْنَ   28؀ۭ
[عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُوْنَ: (یعنی) ایک ایسا چشمہ ہے پئیں گے جس سے قربت دیئے ہوئے]

اِنَّ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَضْحَكُوْنَ    29؀ڮ
[ان الَّذِينَ اَجْرَمُوْا: بیشک وہ لوگ جنھوں نے جرم کیا][ كَانوْا مِنَ الَّذِينَ اٰمَنُوْا يَضْحَكُوْنَ: وہ ان سے جو ایمان لائے ہنسی ٹھٹھا کرتے تھے]

وَاِذَا مَرُّوْا بِهِمْ يَتَغَامَزُوْنَ   30؀ڮ
[وَاِذَا مَرُّوْا بِهِمْ: اور جب گزرتے ان کے پاس سے][ يَتَغَامَزُوْنَ: تو باہم ایک دوسرے کو آنکھ مارتے]

وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْا فَكِهِيْنَ   31؀ڮ
[وَاِذَا انقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَهْلِهِمُ: اور جب لوٹتے ہیں اپنے گھر والوں کی طرف][ انقَلَبُوْا فَكِهِيْنَ: تو لوٹتے ہیں اکڑ باز ہوتے ہوئے]

وَاِذَا رَاَوْهُمْ قَالُوْٓا اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ لَضَاۗلُّوْنَ   32؀ۙ
[وَاِذَا رَاَوْهُمْ: اور جب وہ (مجرم) لوگ دیکھتے ہیں ان (اہل ایمان) کو][ قَالُوْٓا ان هٰٓؤُلَاۗءِ لَضَاۗلُّوْنَ: تو کہتے ہیں بیشک یہ لوگ یقینا بھٹکنے والے ہیں]

وَمَآ اُرْسِلُوْا عَلَيْهِمْ حٰفِظِيْنَ 33؀ۭ
[وَمَآ اُرْسِلُوْا عَلَيْهِمْ: حالانکہ وہ (مجرم) لوگ نہیں بھیجے گئے ان (اہل ایمان) پر][ حٰفِظِيْنَ: نگہبانی کرنے والے ہوتے ہوئے]

فَالْيَوْمَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُوْنَ  34؀ۙ
[فَالْيَوْمَ الَّذِينَ اٰمَنُوْا: تو آج کے دن وہ لوگ جو ایمان لائے][ مِنَ الْكُفَّارِ: انکار کرنے والوں سے][ يَضْحَكُوْنَ: ٹھٹھا کریں گے]

عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ  ۙ يَنْظُرُوْنَ  35؀ۭ
[عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ ۙ يَنْظُرُوْنَ: تختوں پر (بیٹھے) دیکھتے ہوئے]

هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ  36؀ۧ
[هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ: (تو) کیا بدلہ دے دیا گیا منکروں کو][ مَا كَانوْا يَفْعَلُوْنَ: وہ (اس کا) جو وہ کرتے تھے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ    Ǻ۝ۙ
[اِذَا السَّمَاۗءُ انشَقَّتْ: جب آسمان پھٹ جائے گا]

وَاَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ   Ą۝ۙ
[وَاَذِنَتْ لِرَبِهَا: اور وہ کان دھرے گا اپنے رب (کے حکم) کے لیے][ وَحُقَّتْ: اس حال میں کہ وہ اس لائق کیا گیا]

وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ   Ǽ۝ۙ
[وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ: اور جب زمین دراز کی جائے گی]

 

نوٹ۔1: زمین کے پھیلا دئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ سمندر اور دریا پاٹ دئیے جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دئیے جائیں گے اور زمین کی ساری اونچ نیچ برابر کر کے اسے ایک ہموار میدان بنا دیا جائے گا۔ سورہ طٰہٰ میں اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک چٹیل میدان بنا دے گا جس میں تم کوئی بل اور سلوٹ نہ پائو گے۔ (آیات۔ 106۔ 107) ۔ رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ زمین ایک دسترخوان کی طرح پھیلا کر بچھا دی جائے گی۔ پھر انسان کے لیے اس پر صرف قدم رکھنے کی جگہ ہو گی۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس دن تمام انسانوں کو جو روز آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہوں گے، بیک وقت زندہ کر کے عدالت الٰہی میں پیش کیا جائے گا۔ اتنی بڑی آبادی کو جمع کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سمندر، دریا، پہاڑ، جنگل، گھاٹیاں اور پست وبلند علاقے سب کے سب ہموار کر کے کرۂ زمین کو ایک میدان بنا دیا جائے تاکہ اس پر ساری نوع انسانی کے افراد کھڑے ہونے کی جگہ پا سکیں۔ (تفہیم القرآن)

وَاَلْقَتْ مَا فِيْهَا وَتَخَلَّتْ   Ć۝ۙ
[وَاَلْقَتْ مَا فِيْهَا: اور وہ ڈال دے گی وہ جو اس میں ہے][ وَتَخَلَّت؛اور خود خالی ہو جائے گی]

وَاَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ   Ĉ۝ۭ
[وَاَذِنَتْ لِرَبِهَا: اور وہ کان دھرے گی اپنے رب (کے حکم) کے لیے][ وَحُقَّتْ: اس حال میں کہ وہ اس لائق کی گئی]

يٰٓاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِ    Č۝ۚ
[يٰٓاَيُّهَا الْانسَان: اے انسان][ انكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِكَ: یقینا تو تگ و دو کرنے والا ہے اپنے رب کی طرف][ كَدْحًا: جیسا تگ و دو کرنے کا حق ہے][ فَمُلٰقِيْهِ: پھر ملاقات کرنے والا ہے اس سے]

 

[کَدْحًا: (ف) کسی کام میں بہت محنت کرنا۔ کسی چیز کے لیے تگ و دو کرنا۔]

[ کَادِحٌ اسم الفاعل ہے۔ تگ ودو کرنے والا۔ زیر مطالعہ آیت۔6۔]

 

نوٹ۔2: کَدْحٌ کے معنے کسی کام میں پوری جدوجہد اور اپنی توانائی صرف کرنے کے ہیں اور اِلٰی رَبِّکَ سے مراد اِلٰی لِقَائِ ربِّکَ ہے۔ یعنی انسان کی ہر سعی اور جدوجہد کی انتہا اس کے رب کی ملاقات کی طرف ہونے والی ہے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خطاب فرما کر اسے غوروفکر کے لیے ایک ایسی راہ دکھائی ہے کہ جس میں کچھ بھی عقل وشعور ہو تو وہ اپنی جدوجہد کارخ صحیح سمت کی طرف پھیر سکتا ہے جو اس کو دنیا اور دین، دونوں میں سلامتی اور عافیت کی ضمانت دے۔

 پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ انسان نیک ہو یا بد، مومن ہو یا کافر، وہ اپنی فطرت سے اس کا عادی ہے کہ کسی نہ کسی چیز کو اپنا مقصود بنا کر اس کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرے اور مشقت برداشت کرے۔ ایک نیک انسان اپنی ضروریات زندگی کی تحصیل میں جائز طریقوں کو اختیار کرتا ہے اور ان میں اپنی محنت وتوانائی صرف کرتا ہے۔ ایک بدکار انسان بھی اپنے مقاصد کسی محنت اور جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا۔ چور، ڈاکو اور دھوکہ فریب سے لوٹ گھسوٹ کرنے والوں کو دیکھو کیسی کیسی ذہنی اور جسمانی مشقت برداشت کرتے ہیں جب ان کو ان کا مقصود حاصل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ انسان اگر غور کرے تو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اس کی حرکات ہوں یا سکنات، وہ سب ایک سفر کی منزلیں ہیں جسے وہ غیر شعوری طور پر طے کررہا ہے۔ اس سفر کی انتہا موت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری۔ اور یہ انتہا ایسی حقیقت ہے کہ جس کا کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ انسان کی ہر جدوجہد کا موت پر ختم ہونا یقینی ہے۔ تیسری بات یہ بتلائی کہ موت کے بعد اپنے رب کے سامنے حاضری کے وقت تمام حرکات واعمال اور جدوجہد کا حساب ہونا ازروئے عقل وانصاف ضروری ہے تاکہ نیک وبد کا انجام الگ الگ معلوم ہو سکے کیونکہ دنیا میں اس کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ ایک نیک آدمی پورا مہینہ محنت مزدوری کر کے اپنا رزق اور جو ضروریات حاصل کرتا ہے، چور ڈاکو اس کو ایک رات میں حاصل کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی حساب اور جزا وسزا کا وقت نہ آئے تو دونوں برابر ہو گئے جو عقل وانصاف کے خلاف ہے۔

 آخر میں فرمایا فَمُلٰقِیْہِ۔ اس کی ضمیر کَدْحٌ کے لیے بھی ہو سکتی ہے ایسی صوت میں معنی ہوں گے کہ جو بھی جدوجہد انسان یہاں کر رہا ہے ان سے وہ اپنے رب کے پاس پہنچ کر مل لے گا۔ اور اس کے اچھے یا برے نتائج اس کے سامنے آ جائیں گے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مُلٰقِیْہِ کی ضمیر رب کے لیے ہو۔ تو معنی ہوں گے کہ ہر انسان آخرت میں اپنے رب سے ملنے والا ہے اور اپنے کیے کا حساب دینے والا ہے۔ اس کے آگے نیک وبد انسانوں کے الگ الگ انجام کا ذکر ہے۔

 اس سارے مجموعہ پر انسان اگر غور کرے کہ ضروریات زندگی اور مرغوبات نفس کو حاصل تو نیک وبد دونوں ہی کر لیتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح دنیا کی زندگی دونوں کی گزر جاتی ہے مگر ان دونوں کے انجام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک کے نتیجہ میں کبھی نہ ختم ہونے والی راحت ہی راحت ہے اور دوسرے کے نتیجہ میں کبھی نہ ختم ہونے والی مصیبت اور عذاب ہے۔ پھر کیوں نہ انسان اس انجام کو آج ہی سوچ سمجھ کر اپنی کوشش اور عمل کا رخ اس طرف پھیر دے جو دنیا میں بھی اس کی ضرورتوں کو پور کر دے اور آخرت کی دائمی نعمت بھی مل جائے۔ (معارف القرآن)

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ   Ċ۝ۙ
[فَاَمَا مَنْ: پس وہ جو ہے جس کو][ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ: دی گئی اس کی کتاب][ بِيَمِيْنِهٖ: اس کے داہنے ہاتھ میں]

فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا  Ď۝ۙ
[فَسَوْفَ يُحَاسَبُ: تو جلد ہی اس سے حساب لیا جائے گا][ حِسَابًا يَّسِيْرًا: ایک ہلکا سا حساب]

وَّيَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا  ۝ۭ
[وَّيَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ: اور وہ لوٹے گا اپنے گھر والوں کی طرف][ مَسْرُوْرًا: خوش کیا ہوا ہوتے ہوئے]

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ وَرَاۗءَ ظَهْرِهٖ   10۝ۙ
[وَاَمَا مَنْ: اور وہ جو ہے جس کو][ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ: دی گئی اس کی کتاب][ وَرَاۗءَ ظَهْرِهٖ: اس کی پیٹھ کے پیچھے سے]

فَسَوْفَ يَدْعُوْا ثُبُوْرًا   11۝ۙ
[فَسَوْفَ يَدْعُوْا ثُبُوْرًا: تو جلد ہی وہ پکارے گا ہلاک ہونے کو]

وَّيَصْلٰى سَعِيْرًا   12۝ۭ
[وَّيَصْلٰى سَعِيْرًا: اور وہ گرے گا آگ میں]

اِنَّهٗ كَانَ فِيْٓ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا   13؀ۭ
[انهٗ كَان فِيْٓ اَهْلِهٖ: بیشک وہ تھا اپنے گھر والوں میں][ مَسْرُوْرًا: خوش و خرم]

اِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ يَّحُوْرَ   14؀ڔ
[انهٗ ظَنَّ: بیشک اس نے گمان کیا][ ان لَّنْ يَّحُوْرَ: کہ وہ ہرگز واپس نہیں ہو گا]

بَلٰٓى ڔ اِنَّ رَبَّهٗ كَانَ بِهٖ بَصِيْرًا   15؀ۭ
[بَلٰٓى ان رَبَّهٗ: کیوں نہیں یقینا اس کا رب][ كَان بِهٖ بَصِيْرًا: اس کو ہر حال میں دیکھنے والا تھا]

فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ    16؀ۙ
[فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ: پس نہیں! میں قسم کھاتا ہوں شفق کی]

 

و س ق

[وَسْقًا: (ض) کسی چیز کے متفرق اجزا کو اکٹھا کرنا۔ جمع کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۔17۔]

 

نوٹ۔1: آیات۔ 16 تا 18۔ میں حق تعالیٰ نے چار چیزوں کی قسم کھا کر (یعنی شہادت کے طور پر پیش کر کے۔ مرتب) انسان کو پھر اس چیز کی طرف متوجہ کیا ہے جس ذکر بانَّکَ کَادِحٌ الٰی رَبِّکَ میں آ چکا ہے۔ یہ چاروں چیزیں جن کی قسم کھائی ہے اس مضمون کی شاہد ہیں جو جو اب قسم لَتَرَکَبْنَّ طَبَاقًا عَنْ طَبَقٍ میں آنے والا ہے کہ انسان کو ایک حال پر قرار نہیں ہے۔ اس کے حالات اور درجات ہر وقت بدلتے رہتے ہیں۔ پہلی چیز شفق ہے یعنی وہ سرخی جو آفتاب غروب ہونے کے بعد افق مغرب میں ہوتی ہے۔ یہ رات کی ابتداء ہے جو انسانی احوال میں ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہے کہ روشنی جا رہی ہے اور تاریکی کا سیلاب آ رہا ہے۔ دوسری رات کی قسم ہے جو انقلاب کی تکمیل کرتی ہے۔ تیسری قسم ان چیزوں کی ہے جن کو رات اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ یعنی وہ چیزیں جو دن کی روشنی میں منتشر پھیلی رہتی ہیں، رات کے وقت وہ سب سمٹ کر اپنے اپنے ٹھکانوں میں جمع ہوجاتی ہیں اور انسان، چرند وپرند، سب اپنے اپنے گھروں اور گھونسلوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔ کاروبار کے پھیلے ہوئے سامان کو سمیٹ کر یکجا کردیا جاتا ہے۔ یہ عظیم انقلاب خود انسان اور اس کے متعلقات میں ہے۔ (یعنی اسی طرح انسان بھی اپنے ’’ وطن‘‘ یعنی جنت سے نکل کر اس دنیا میں منتشر پھرتا رہتا ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد اس کو اس کے وطن کی طرف واپس سمیٹ لیا جاتا ہے۔ مرتب) ۔ چوتھی قسم جس چیز کی کھائی گئی وہ وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ ہے۔ اس میں چاند کے مختلف اتوار کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے ایک نہایت خفیف قوس کی شکل میں ہوتا ہے۔ پھر اس کی روشنی روزانہ کچھ ترقی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ بدر کامل ہو جاتا ہے۔ مسلسل اور پیہم انقلاباتِ احوال پر شہادت دینے والی چار چیزوں کی قسم کھا کر حق تعالیٰ نے فرمایا۔ لَتَرْکَبْنَّ طَبَقًاعَنْ طَبَقٍ۔ یعنی انسان اپنی تخلیق کی ابتدا سے انتہا تک کسی بھی وقت ایک حال پر نہیں رہتا۔ بلکہ اس کے وجود پر تدریجی انقلابات آتے رہتے ہیں۔

 طَبَقاً عَنْ طَبَقٍ کی تفسیر حضرت جابر بن عبداللہ (رض)  نے خود رسول اللہ
سے روایت کی ہے۔ یہ طویل حدیث قرطبی (رح)  نے اور ابن کثیر (رح)  نے مفصل نقل کی ہے۔ اس کا مضمون یہ ہے کہ انسان نطفہ سے منجمد خون بنا ۔ پھر اس سے ایک مضغۂ گوشت بنا۔ پھر اس میں ہڈیاں پیدا ہوئیں۔ پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھا اور اعضاء کی تکمیل ہوئی۔ پھر اس میں روح لا کر ڈالی گئی اور وہ ایک زندہ انسان بنا جس کی غذا بطن مادر کے اندر رحم کا گندا خون تھا۔ نو مہینے کے بعد اللہ نے اس کے دنیا میں آنے کا راستہ آسان کردیا اور گندی غذا کی جگہ ماں کا دودھ ملنے لگا۔ دنیا کی وسیع فضا اور ہوا دیکھی، بڑھنے اور پھلنے پھولنے لگا۔ دوبرس کے اندر چلنے پھرنے اور بولنے کی قوت بھی حرکت میں آئی۔ ماں کا دودھ چھوٹ کر اس سے زیادہ لذیذ اور طرح طرح کی غذائیں ملیں، کھیل کود اور لہولعب اس کے دن رات کا مشغلہ بنا۔ کچھ ہوش وشعور بڑھا تو تعلیم وتربیت کے شکنجے میں کسا گیا۔ جوان ہوا تو جوانی کی خواہشات نے ان کی جگہ لے لی اور ایک نیا عالم شروع ہوا۔ نکاح، شادی، اولاد اور خانہ داری کے مشاغل دن رات کا مشغلہ بن گئے۔ آخر یہ دور بھی ختم ہونے لگا۔ قویٰ میں ضعف پید اہوا، بیماریاں آئے دن رہنے لگیں، بڑھاپا آ گیا اور اس جہاں کی آخری منزل یعنی قبر تک پہنچنے کے سامان ہونے لگے۔ یہ سب چیزیں تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں۔ کسی کو ان سے انکار کرنے کی مجال نہیں۔ مگر حقیقت سے ناآشنا انسان سمجھتا ہے کہ یہ موت اور قبر اس کی آخری منزل ہے اور آگے کچھ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جو خالق کائنات ہے اور علیم وخبیر ہے، اس نے آگے آنے والے مراحل کو اپنے انبیاء کے ذریعہ انسان تک پہنچایا کہ قبر تیری آخری منزل نہیں بلکہ یہ صرف ایک انتظار گاہ (ویٹنگ روم) ہے۔ آگے اس سے بھی بڑا ایک جہان آنے والا ہے۔ اس میں ایک بڑے حساب کتاب کے بعد انسان کی آخری منزل مقرر ہو جائے گی جو یا دائمی راحت کی ہوگی یا پھر دائمی عذاب کی۔ اور اس آخری منزل پر ہی پہنچ کر انسان انقلابات کے چکر سے نکلے گا۔

 ان آیات میں انسان کو اس کی تخلیق اور دنیا میں اس کو پیش آنے والے حالات و انقلابات سامنے کر کے یہ ہدایت دی کہ عقلمند انسان کا کام یہ ہے کہ دنیا میں اپنے آپ کو مسافر سمجھے اور اپنے وطن اصلی کے لیے سامان تیار کرنے اور بھیجنے کی فکر کو ہی دنیا کا سب سے بڑا مقصد بنائے۔ پھر فرمایا کہ ان تمام روشن ہدایات کے باوجود بہت سے لوگ اپنی غفلت سے باز نہیں آتے۔ ایسے لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ اس کے سامنے جھکتے ہیں۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔2: حق تو یہ تھا کہ جب قرآن ان کو ایسی عظیم حقیقت سے آگاہ کر رہا ہے تو اس کو سننے کے بعد اس کی عظمت کے اعتراف میں اپنے رب کے آگے سجدہ میں گر پڑتے لیکن اس کے برعکس وہ اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ یہاں اہل عرب اور اہل مصر کی یہ روایت پیش نظر رہے کہ جب وہ کسی بات کی عظمت اور صداقت کا جوش وجذبہ کے ساتھ اعتراف کرنا چاہتے تو اس کو دیکھتے یا سنتے ہی سجدے میں گر پڑتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کے لیے فرعون نے جن ساحروں کو اکٹھا کیا تھا انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صداقت اور ان کے معجزات کی عظمت کا اعتراف اسی طرح کیا تھا۔ عرب کے مشہور شاعر لبید کے قصیدے کے ایک شعر پر بھی اس وقت کے مشہور شعراء عرب نے سجدہ کیا جس کی بنا پر اس کا قصیدہ خانۂ کعبہ پر آویزاں کیا گیا ہے ظاہر ہے کہ قرآن اپنی بلاغت و صداقت میں ان چیزوں سے بدر جہا بلند ہے لیکن جو لوگ اس کی قدروقیمت سے ناآشنا تھے (اور ہیں) وہ اللہ کو سجدہ کرنے کے بجائے اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ (تدبر قرآن)

مورخہ 7۔ شوال 1431 ھ بمطابق 16۔ ستمبر 2010

وَالَّيْلِ وَمَا وَسَقَ   17؀ۙ
[وَالَّيْلِ وَمَا وَسَقَ: اور رات کی اور اس کی جو اس نے اکٹھا کیا]

وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ   18؀ۙ
[وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ: اور چاند کی جب وہ کامل ہوا]

 

[اِتِّسَاقًا: (افتعال) کسی چیز کے متفرق اجزا کا اکٹھا ہونا۔ جمع ہونا، اس طرح کہ وہ چیز پوری ہو جائے۔ کامل ہو جائے۔ زیر مطالعہ آیت۔18۔]

لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ    19؀ۭ
[لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ: تم لوگ لازماً چڑھو گے ایک منزل پر ایک منزل سے]

فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ   20؀ۙ
[فَمَا لَهُمْ: تو ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے][ لَا يُؤْمِنُوْنَ: (کہ) یہ لوگ ایمان نہیں لاتے]

وَاِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْاٰنُ لَا يَسْجُدُوْنَ    21؀ڍ
[وَاِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْاٰنُ: اور جب پڑھ کر سنایا جاتا ہے ان کو قرآن][ لَا يَسْجُدُوْنَ: تو یہ لوگ سجدہ نہیں کرتے (السجدہ 13)]

بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُكَذِّبُوْنَ   22۝ڮ
[بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوْا يُكَذِّبُوْنَ: بلکہ جنھوں نے انکار کیا وہ جھٹلاتے ہیں]

وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يُوْعُوْنَ   23۝ڮ
[وَاللّٰهُ اَعْلَمُ: اور اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے][ بِمَا يُوْعُوْنَ: اس کو جو یہ محفوظ کرتے ہیں]

فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ  24۝ۙ
[فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ: تو آپؐ بشارت دیں ان کو ایک درد ناک عذاب کی]

اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ  25۝ۧ
[اِلَّا الَّذِينَ اٰمَنُوْا: سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے][ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور عمل کیے نیکیوں کے][ لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ: ان کے لیے ایک ایسا اجر ہے جو غیر منقطع ہے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ    Ǻ۝ۙ
[وَالسَّمَاۗءِ: قسم ہے آسمان کی][ ذَاتِ الْبُرُوْج: جو (سیاروں کی) منزلوں والا ہے]

 

نوٹ 1: اس آیت۔1۔ میں بروج سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک بڑے بڑے ستارے ہیں۔ حضرت ابن عباس  (رض)  کا یہی قول ہے۔ بعض مفسرین نے بروج سے مراد قصور یعنی محلات لیے ہیں اور اس سے مراد وہ مقامات ہیں جو آسمان میں پہرے داروں اور نگراں فرشتوں کے لیے مقرر ہیں۔ بعض متاخرین (بعد میں آنے والے) نے اس سے مراد وہ بروج بتلائے ہیں جو فلاسفہ کی اصطلاح ہے، جس میں کل آسمان کو بارہ حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصہ کو ایک برج کہا جاتا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ثابت ستارے انہی برجوں میں اپنی اپنی جگہ مقیم ہیں۔ اور سیارے حرکت فلک کے ساتھ متحرک ہوتے ہیں۔ اور ان برجوں میں سیاروں کا نزول ہوتا ہے۔ مگر یہ سراسر غلط ہے۔ قرآن کریم سیاروں کو آسمانوں میں مرکوز نہیں قرار دیتا بلکہ سیارے کو اپنی ذاتی حرکت سے متحرک قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ سورۂ یٰسین میں ہے وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ (اور وہ سب کے سب فلک میں تیرتے ہیں) فلک سے مراد یہاں آسمان نہیں بلکہ سیارے کا مدار ہے جس میں وہ حرکت کرتا ہے۔ (معارف القرآن)

وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ  Ą۝ۙ
[وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ: اور قسم ہے وعدہ کیے ہوئے دن کی]

وَشَاهِدٍ وَّمَشْهُوْدٍ   Ǽ۝ۭ
[وَشَاهِدٍ: اور قسم ہے حاضر ہونے والے کی] [ وَّمَشْهُوْدٍ : اور قسم ہے معائنہ کیے جانے والے کی]

قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ   Ć۝ۙ
[قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ : مارے جائیں خندقوں والے]

 

ترکیب: (آیت۔4) یہ ہم بتا چکے ہیں کہ فعل ماضی میں دعا کا مفہوم بھی ہوتا ہے۔ (دیکھیں آیت۔ 2/72، نوٹ۔2) ۔ یہاں قُتِلَ ماضی مجہول کا بھی دونوں طرح ترجمہ ہو سکتا ہے۔ ہم دعائیہ ترجمہ کریں گے۔

 

نوٹ 2: اصحاب الاخدود سے کون مراد ہیں؟ مفسرین نے کئی واقعات نقل کیے ہیں۔ لیکن صحیح مسلم، جامع ترمذی اور مسند احمد وغیرہ میں جو قصہ مذکور ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے زمانے میں کوئی کافر بادشاہ تھا۔ اس کے ہاں ایک ساحر رہتا تھا۔ جب اس کی موت کا وقت قریب ہوا تو اس نے بادشاہ سے درخواست کی کہ ایک ہوشیار اور ہونہار لڑکا مجھے دیا جائے تو میں اپنا علم اس کو سکھا دوں تاکہ میرے بعد یہ علم مٹ نہ جائے۔ چنانچہ ایک لڑکا تجویز کیا گیا جو روزانہ ساحر کے پاس جا کر اس کا علم سیکھتا تھا۔ راستہ میں ایک عیسائی راہب رہتا تھا جو اس وقت کے دین حق پہ تھا۔ لڑکا اس کے پاس بھی آنے جانے لگا۔ اور خفیہ طور پر راہب کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ اور اس کے فیض صحبت سے ولایت وکرامت کے درجے کو پہنچا۔ ایک روز لڑکے نے دیکھا کہ کسی بڑے جانور (شیر وغیرہ) نے راستہ روک رکھا ہے جس کی وجہ سے مخلوق پریشان ہے۔ اس نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر دعا کی کہ اے اللہ اگر راہب کا دین سچا ہے تو یہ جانور میرے ہاتھ سے مارا جائے۔ یہ کہہ کر پتھر پھینکا جس سے اس جانور کا کام تمام ہو گیا۔ لوگوں میں شور ہوا کہ اس لڑکے کو عجیب علم آتا ہے۔ کسی اندھے نے سن کر درخواست کی کہ میری آنکھیں اچھی کر دو۔ لڑکے نے کہا کہ اچھی کرنے والا میں نہیں۔ وہ اللہ ہے۔ اگر تو اس پر ایمان لے آئے تو میں دعا کروں۔ امید ہے وہ تجھے بینا کر دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہ خبریں بادشاہ کو پہنچیں۔ اس نے برہم ہو کر لڑکے کو مع راہب اور اندھے کے طلب کر لیا۔ اور کچھ بحث کے بعد راہب اور اندھے کو قتل کر دیا۔ اور لڑکے کے لیے حکم دیا کہ اس کو اونچے پہاڑ پر سے گرا کر ہلاک کردیا جائے۔ مگر خدا کی قدرت سے جو لوگ اس کو لے گئے تھے وہ پہاڑ سے گر کر ہلاک ہو گئے اور لڑکا واپس آ گیا۔ پھر بادشاہ نے اسے دریا میں غرق کرنے کا حکم دیا۔ وہاں بھی یہی ہوا کہ لڑکا بچ کر آ گیا اور جو گئے تھے وہ دریا میں ڈوب گئے۔ آخر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ میں خود اپنے مرنے کی ترکیب بتاتا ہوں۔ آپ سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کریں۔ ان کے سامنے مجھ کو سولی پر لٹکائیں۔ اور یہ لفظ کہہ کر مجھے تیر ماریں ’’ بسم اللہ رب الغلام‘‘۔ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا اپنے رب کے نام پر قربان ہو گیا۔ یہ عجیب واقعہ دیکھ کر لوگوں کی زبان سے ایک نعرہ بلند ہوا اٰمَنَّابِرَتِ الْغُلَامِ۔ لوگوں نے بادشاہ سے کہا کہ جس چیز کی روک تھام کر رہے تھے وہی پیش آئی۔ پہلے تو کوئی ایک دو مسلمان ہوتا تھا لیکن اب خلق کثیر نے اسلام قبول کر لیا۔ بادشاہ نے غصے میں آ کر بڑی بڑی خندقیں کھدوائیں اور ان کو آگ سے بھروا کر اعلان کیا کہ جو شخص اسلام سے نہ پھرے گا اس کو ان خندقوں میں جھونک دیا جائے گا۔ لوگ آگ میں ڈالے جا رہے تھے لیکن اسلام سے نہیں ہٹتے تھے۔ بادشاہ اور اس کے وزیر ومشیر خندقوں کے آس پاس بیٹھے ہوئے مسلمانوں کے جلنے کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

 یہ بادشاہ جس کا ذکر اس قصہ میں ہے ملک یمن کا بادشاہ تھا جس کا نام حضرت ابن عباس  (رض)  کی روایت میں یوسف ذونواس تھا۔ اس کا زمانہ نبی کریم
کی ولادت باسعدت سے ستر سال پہلے کا زمانہ تھا۔ اور یہ لڑکا جس کو ساحر کے پاس اس فن سیکھنے کے لیے بادشاہ نے مامور کیا تھا، اس کا نام عبداللہ بن تامر تھا۔ محمد بن اسحق کی روایت میں ہے کہ یہ لڑکا جس جگہ مدفون تھا وہ جگہ کسی ضرورت سے حضرت فاروق اعظم (رض)  کے زمانے میں کھودی گئی تو اس میں عبداللہ بن تامر کی لاش صحیح سالم اس طرح برآمد ہوئی کہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا ہاتھ اس جگہ پر رکھا ہوا تھا، جہاں تیر لگا تھا۔ کسی نے ان کا ہاتھ اس جگہ سے ہٹایا تو زخم سے خون جاری ہو گیا۔ پھر ویسے ہی رکھ دیا تو بند ہو گیا۔ ان کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس پر لکھا ہوا تھا اَللّٰہُ رَبِّی۔ (ابن کثیر) ۔ ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابن کثیر (رح)  نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ آگ کی خندق کا واقعہ دنیا میں ایک ہی نہیں، بلکہ بہت ملکوں اور زمانوں میں ہوئے ہیں۔ پھر ابن ابی حاتم نے ان میں سے تین کا خصوصیت سے ذکر کیا کہ ایک خندق یمن میں تھی، دوسری شام میں اور تیسری فارس میں تھی۔ مگر قرآن کریم نے جس خندق کا ذکر اس سورت میں کیا ہے وہ ملک یمن کی خندق ہے کیونکہ یہی عرب کے ملک میں تھی۔ (معارف القرآن، ص 713۔ 714۔ سے ماخوذ)

النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ  Ĉ۝ۙ
[النَارِ: اس آگ (والے) جو][ ذَاتِ الْوَقُوْدِ: ایندھن والی ہے]

 

 (آیت۔5) ۔ اَلنَّارِ کی جر بتا رہی ہے کہ اس سے پہلے اس کا مضاف اَصحٰبُ محذوف ہے۔ یہ مرکب اضافی اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ کا بدل ہے، جبکہ ذَاتِ الْوَقُوْدِ صفت ہے اَلنَّارِ کی ہے۔

اِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُوْدٌ   Č۝ۙ
[اِذْ هُمْ عَلَيْهَا: جب وہ لوگ ان (خندقوں) پر][ قُعُوْدٌ : بیٹھنے والے تھے]

 

(آیت۔6) عَلَیْھَا میں ھَا کی ضمیر اُخْدُوْدِ کے لیے بھی ہو سکتی ہے۔ اور اَلنَّارِ کے لیے بھی ۔ (آیت۔7) وَھُمْ عَلٰیمیں واو حالیہ ہے۔

وَّهُمْ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُوْدٌ   Ċ۝ۭ
[وَّهُمْ: اس حال میں کہ وہ][ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ: اس پر جو وہ لوگ کرتے تھے][ بِالْمُؤْمِنِيْنَ: ایمان لانے والوں کے ساتھ][ شُهُوْدٌ: حاضر رہنے والے ہوتے تھے]

وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ   Ď۝ۙ
[وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ: اور ان لوگوں نے سزا نہیں دی ان کو][ اِلَّآ ان: سوائے اس (بات) کے کہ ][ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ: وہ لوگ ایمان لائے اللہ پر][ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ: جو بالا دست ہے حمد کیا ہوا ہے]

الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ    ۝ۭ
[الَّذِي لَهٗ: وہ جس کے لیے ہی][ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ: زمین اور آسمانوں کی بادشاہت ہے][ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِ شَيْءٍ: اور اللہ ہر چیز پر][ شَهِيْدٌ: موجود رہنے والا ہے]

اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ   10۝ۭ
[ان الَّذِينَ فَتَنُوا: یقینا جن لوگوں نے مشکل میں ڈالا][ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ: ایمان لانے والوں کو اور ایمان لانے والیوں کو][ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا: پھر توبہ (بھی) نہیں کی][ فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ: تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے][ وَلَهُمْ: اور ان کے لیے ہی][ عَذَابُ الْحَرِيْقِ: شعلے کا عذاب ہے]

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۀ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيْرُ   11۝ۭ
[ان الَّذِينَ اٰمَنُوْا: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے][ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور انھوں نے عمل کیے نیکیوں کہ][ لَهُمْ جَنّٰتٌ: ان کے لیے ہی ایسے باغات ہیں][ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا: بہتی ہیں جن کے نیچے سے][ الْانهٰرُ: نہریں][ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيْر: یہ ہی سب سے بڑی کامیابی ہے]

 

ترکیب: (آیت۔11) اَلْفَوْزُ الْکَبِیْرُ مرکب توصیفی ہے۔ لیکن یہ ذٰلِکَ کا مُشَارٌ اِلَیْہِ نہیں ہے، بلکہ یہ اس کی خبر معرفہ ہے اور اس سے پہلے ضمیر فاصل ھُوَ محذوف ہے۔ پورا جملہ اس طرح ہے ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوُزُ الْکَبِیْرُ۔

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ   12۝ۭ
[ان بَطْشَ رَبِكَ: بیشک آپؐ کے رب کی گرفت][ لَشَدِيْدٌ: یقینا بڑی سخت ہے]

اِنَّهٗ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيْدُ   13۝ۚ
[انهٗ: حقیقت تو یہ ہے کہ][ هُوَ يُبْدِئُ: وہ (ہی) ابتدا کرتا ہے][ وَيُعِيْدُ: اور وہ (ہی) لوٹائے گا]

وَهُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ  14۝ۙ
[وَهُوَ الْغَفُوْرُ: اور وہ ہی بےانتہا بخشنے والا][ الْوَدُوْدُ: انتہائی خیر خواہ ہے]

ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدُ   15۝ۙ
[ذُو الْعَرْشِ: جو عرش کا مالک ہے][ الْمَجِيْدُ: وہ ہی عظیم الشان ہے]

 

 

(آیت۔15) اَلْمَجِیْدُ کی رفع بتا رہی ہے کہ نہ تو یہ اَلْعَرْشِ کی صفت ہے اور نہ ہی ذُوْکا مضاف الیہ ہے کیونکہ دونوں صورتوں میں یہ حالت جر میں اَلْمَجِیْدِ آتا۔ اس کی رفع سے معلوم ہوا کہ یہ وَھُوَا لْغَفُوْرُ کے مبتدا ھُوَ پر عطف ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس سے پہلے اس کا مبتدا ھُوَ محذوف ہے۔

فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ   16۝ۭ
[فَعَّالٌ: وہ کر گزرنے والا ہے][ لِمَا: اس کا جس کا][ يُرِيْدُ: وہ ارادہ کرتا ہے]

 

 (آیت۔16) فَعَّالٌ سے پہلے بھی اس کا مبتدا ھُوَ محذوف ہے۔

هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْجُــنُوْدِ   17؀ۙ
هَلْ اَتٰىكَ: کیا پہنچی آپؐ کے پاس][ حَدِيْثُ الْجُنُوْدِ: لشکروں کی بات]

(آیت۔17) حَدِیْثُکا مضاف الیہ اَلْجُنُوْدِ ہے، لیکن یہ آگے فِرْعَوْنَ وَثَمُوْدَ کامضاف نہیں ہو سکتا کیونکہ مضاف پر لام تعریف نہیں آتا۔ نیز یہ کہ فِرْعَوْنَ اور ثَمُوْدَ دونوں غیر منصرف ہیں۔ اس لیے ان کی یہ حالت نصب بھی ہو سکتی ہے اور حالت جر بھی۔ لیکن یہاں ان کے نصب میں ہونے کی کوئی وجہ یا قرینہ یا قیاس موجود نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں یہ دونوں حالت جر میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں بھی حَدِیْثُ کا مضاف الیہ ہیں۔ اس طرح یہ حَدِیْثُ الْجُنُوْدِ کا بدلِ بعض ہیں۔

فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ   18؀ۭ
[فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ: (جیسے) فرعون اور ثمود کی (بات)]

بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ تَكْذِيْبٍ    19؀ۙ
[بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوْا: بلکہ جنھوں نے انکار کیا وہ لوگ] فِيْ تَكْذِيْبٍ: جھٹلانے میں (پڑے ہوئے) ہیں]

وَّاللّٰهُ مِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ مُّحِيْــطٌ   20؀ۚ
[وَّاللّٰهُ: درآنحالیکہ اللہ][ مِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ: ان کے پیچھے سے (ان کو)][ مُّحِيْــطٌ: گھیرنے والا ہے]

بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ    21؀ۙ
[بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ: بلکہ وہ ایک ایسا عظیم الشان قرآن ہے جو]

فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ   22؀ۧ
[فِيْ لَوْحٍ: ایک ایسی تختی میں (لکھا ہوا) ہے جو][ مَّحْفُوْظٍ : محفوظ کی ہوئی ہے]

 

نوٹ 1: اہل ایمان کی حوصلہ افزائی کے بعد سابقہ آیات میں کافروں کو جو دھمکیاں دی گئی ہیں، ان کو مزید موکدّ اور م للّ کرنے کے لیے آیات۔12 تا 16۔ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کچھ مزید صفات کی یاد دہانی کرائی ہے۔ اور ان دھمکیوں کو حقیقی ثابت کرنے کے لیے آیات۔17۔ 18۔ میں تاریخی حقائق کی طرف اشارہ فرما دیا۔ پھر ان میں سے قوم ثمود اور فرعون کا ذکر خاص اہتمام سے فرمایا ہے۔ قریش کے لیڈروں پر ان دونوں قوموں کی عظمت وشوکت کی بڑی دھاک تھی۔ ان کی طرف اشارہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھ لو، جب خدا نے ان کو پکڑا تو چشم زدن میں وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے (تدبر قرآن۔ ص 292۔ 293۔ سے ماخوذ)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ     Ǻ۝ۙ
[وَالسَّمَاۗءِ: قسم ہے آسمان کی][ وَالطَّارِقِ: اور قسم ہے رات میں آنے والے کی]

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ   Ą۝ۙ
[وَمَآ اَدْرٰىكَ: اور کیا سمجھا تو نے][ مَا الطَّارِقُ: کیا ہے رات میں آنے والا]

النَّجْمُ الثَّاقِبُ   Ǽ۝ۙ
[النَّجْمُ الثَّاقِبُ: وہ چمکنے والا تارا ہے]

اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِـظٌ  Ć۝ۭ
[ان كُلُّ نَفْسٍ: نہیں ہے کوئی بھی جان][ لَمَا عَلَيْهَا حَافِـظٌ ]

 

ترکیب: (آیت۔4) اس آیت میں اِنْ کو اِنْ مخفّفہ بھی مانا گیا ہے اور اِنْ نافیہ بھی۔ جو لوگ اسے اِنْ مخفّفہ مانتے ہیں وہ لَمَّا کو لَمَا (میم بغیر تشدید کے پڑھتے ہیں) اور لام کو اِنَّ کی خبر پر آنے والا لام تاکید مانتے ہیں اور مَا کو زائدہ مانتے ہیں۔ اور جو لوگ اسے اِنْ نافیہ مانتے ہیں وہ لَمَّا کو اِلاً کے مفہوم میں لیتے ہیں۔ ہم اِنْ نافیہ کے طور پر ترجمہ کریں گے۔

 

نوٹ 1: آیت۔4۔ میں حافظ سے مراد فرشتے ہیں جو ہر آدمی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس کو بلائوں سے بچاتے ہیں اور اس کے عمل لکھتے ہیں۔ اس کے لیے ستاروں کی قسم کھانے میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ جس نے آسمان پر ستاروں کی حفاظت کے لیے سامان کیے ہیں، اس کو زمین پر تمھاری اور تمھارے اعمال کی حفاظت کرنا کیا دشوار ہے۔ نیز جس طرح آسمان پر ستارے ہر وقت محفوظ ہیں مگر ان کا ظہور شب میں ہوتا ہے، اسی طرح سارے اعمال نامۂ اعمال میں اس وقت بھی محفوظ ہیں مگر ان کا ظہور قیامت میں ہوگا۔ اس لیے انسان کو قیامت کی فکر کرنا چاہیے اور اگر وہ اس کو بعید از قیاس سمجھتا ہے تو اس کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے۔ نطفہ سے انسان بنا دینا زیادہ عجیب ہے بہ نسبت دوبارہ بنانے کے۔ جب یہ عجیب بات اللہ کے حکم سے واقع ہو رہی ہے تو جائز نہیں کہ اس سے کم عجیب بات کے وقوع کا انکار کیا جائے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

 رسول اللہ
نے فرمایا کہ ہر مومن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تین سو ساٹھ فرشتے اس کی حفاظت کے لیے مقرر ہیں جو انسان کے ہرہر عضو کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان میں سے سات فرشتے صرف انسان کی آنکھ کی حفاظت کے لیے مقرر ہیں۔ یہ فرشتے انسان سے ہر ایسی بلا و مصیبت جو اس کے لیے مقدر نہیں، اس طرح دور کرتے ہیں جیسے شہد کے برتن پر آنے والی مکھیوں کو پنکھے وغیرہ سے دور کیا جاتا ہے۔ (معارف القرآن)

فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ   Ĉ۝ۭ
[فَلْيَنْظُرِ الْانسَان: پس چاہیے کہ غور کرے انسان][ مِمَّ خُلِقَ: کس چیز سے اس کو پیدا کیا گیا]

خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ   Č۝ۙ
[خُلِقَ مِنْ مَاۗءٍ دَافِقٍ: وہ پیدا کیا گیا اچھل کر بہنے والے پانی سے]

 

د ف ق

(ن) دُفُوْقًا پانی کا اُبل کر گرنا۔ اچھل کر بہنا۔

 دَافِقٌ اسم الفاعل ہے۔ اچھل کر بہنے والا۔ زیر

يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ   Ċ۝ۭ
[يَّخْرُجُ: جو نکلتا ہے][ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ: پیٹھ اور پسلیوں کے درمیان سے]

اِنَّهٗ عَلٰي رَجْعِهٖ لَقَادِرٌ  Ď۝ۭ
[انهٗ عَلٰي رَجْعِهٖ: بیشک وہ اس کی واپسی پر][ لَقَادِر: یقینا قدرت رکھنے والا ہے]

 

 (آیت۔8) اِنَّہٗ میں ہٗ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جبکہ رَجْعِہٖ میں ہٖ کی ضمیر اَلْاِنْسَانُ کے لیے ہے۔

يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗىِٕرُ  ۝ۙ
[يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗىِٕرُ: جس دن جانچا جائے گا بھیدوں کو]

فَمَا لَهٗ مِنْ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍ  10۝ۭ
[فَمَا لَهٗ: تو نہیں ہوگی اس کے لیے][ مِنْ قُوَّةٍ: کوئی بھی قوت][ وَّلَا نَاصِرٍ: اور نہ کوئی بھی مدد کرنے والا]

وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ   12۝ۙ
[وَالْاَرْضِ: اور قسم ہے زمین کی][ ذَاتِ الصَّدْعِ: جو دراڑ والی ہے]

اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ   13۝ۙ
[انهٗ: بیشک یہ (قرآن)][ لَقَوْلٌ فَصْلٌ : یقینا ایک فیصلہ کن بات ہے]

 

 (آیت۔ 13۔ 14) اِنَّہٗ میں ہٗ اور مَاھُوَ میں ھُوَ، یہ دونوں ضمیریں قرآن مجید کے لیے ہیں۔ فَصْلٌ اور اَلْھَزْلِ، یہ دونوں قولٌ کی صفت ہیں۔ اَلْھَزْلِ سے پہلے اَلْقَوْلِ محذوف ہے۔ یعنی پورا جملہ یوں ہے وَمَا ھُوَ بِالْقَوْلِ الْھَزْلِ۔ لَقَوْلٌ فَصْلٌ مرکب توصیفی بن کر اِنَّ کی خبر ہے جبکہ (بِالْقَوْلِ) الْھَزْلِ مرکب توصیفی پھر مرکب جازی بن کر مَا نافیہ کی خبر ہے۔ اور یہ دونوں خبریں قرآن کے متعلق ہیں۔ (آیت۔17) م

 

نوٹ 2: آیات۔ 13۔14۔ کا مطلب یہ کہ یہ قرآن اور جو کچھ وہ قیامت کے متعلق بیان کرتا ہے، کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں ہے بلکہ حق وباطل کا دو ٹوک فیصلہ ہے۔ اس سے پہلے آیات۔ 11۔12۔ کی قسم کو اس بات سے یہ مناسبت ہوئی کہ قرآن آسمان سے آتا ہے اور جس میں قابلیت (یعنی حق کی طلب۔ مرتب) ہو اسے مالا مال کر دیتا ہے جیسے بارش آسمان سے آتی ہے اور عمدہ زمین کو فیضاب کرتی ہے۔ نیز قیامت میں ایک غیبی بارش ہوگی جس سے مردے زندہ ہو جائیں گے جیسے یہاں بارش سے مردہ زمین سر سبز ہو کر لہلہانے لگتی ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

وَّمَا هُوَ بِالْهَزْلِ  14۝ۭ
[وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ: اور یہ لاحاصل (بات) نہیں ہے]

 

ھـ ز ل

(ن۔ س) ھَزْلاً لاغر و کمزور ہونا۔

(ض) ھَزْلاً مذاق وٹھٹھا کرنا۔ بےنتیجہ یا لاحاصل بات کرنا۔

 ھَزْلٌ اسم صفت بھی ہے۔ کمزور۔ لاحاصل۔ بےنتیجہ۔ (جب یہ قول کی صفت کے طور پر آئے تو کمزور بات کا مطلب ہے ایسی بات جس کی کوئی سند یا دلیل نہ ہو اور لاحاصل بات کا مطلب ہے ایسی بات جس کا اچھا یا برا کوئی بھی نتیجہ نکلنے والا نہ ہو۔ (زیر مطالعہ آیت۔14)

اِنَّهُمْ يَكِيْدُوْنَ كَيْدًا   15؀ۙ
[انهُمْ يَكِيْدُوْنَ: بیشک یہ لوگ چالبازی کرتے ہیں][ كَيْدًا: جیسے چالبازی کرنے کا حق ہے]

وَّاَكِيْدُ كَيْدًا   16؀ښ
[وَّاَكِيْدُ: اور میں خفیہ تدبیر کروں گا][ كَيْدًا: جیسے تدبیر کرتے ہیں]

فَمَــهِّلِ الْكٰفِرِيْنَ اَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا   17؀ۧ
[فَمَــهِلِ الْكٰفِرِيْنَ: تو آپؐ ڈھیل دیتے رہیں کافروں کو][ اَمْهِلْهُمْ: (یعنی) آپؐ مہلت دیں ان کو] رُوَيْدًا: غیر محسوس طریقہ سے]

 

مَھِّلْ باب تفعیل کا فعل امر ہے جس میں کام کو تدریحاً اور تسلسل سے کرنے کا مفہوم ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا مطلب ہے تُو ڈھیل دیتا رہ۔ جبکہ باب افعال میں تدریج اور تسلسل کا مفہوم نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کے فعل امر اَمْھِلْ کا مطلب ہے تُو مہلت دے۔

 

نوٹ 3: آیت 17۔ میں کافروں کو مہلت دینے کی وجہ مفسرین نے یہ بتائی ہے کہ یہ لوگ اللہ سے بچ کر کہیں جا تو سکتے نہیں، اس لیے ان کو مہلت دو تاکہ یہ لوگ جو کرنا چاہتے ہیں وہ کرلیں اور ان پر اتمام حجت ہو جائے۔ آخرکار اللہ نے ان کو پکڑنا تو ہے ہی، لیکن میرا ذہن یہ کہتا ہے کہ بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی کافروں کو ڈھیل دیتے رہنے کی ہدایت کو جب ہم عمومیت پر رکھ کر سوچتے ہیں تو اس ہدایت میں ہمیں اپنی رہنمائی کے کچھ اور پہلو بھی سمجھ میں آتے ہیں۔

 اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عقیدے اور مذہب کے مجرمین، اور ہر نوعیت کے مجرمین کو تاحیات مہلت ملی ہوئی ہے، اِلَّا مَاشَائَ اللّٰہ۔ یہ بات اصولی طور پر بھی سمجھ میں آتی ہے۔ کمرۂ امتحان میں طالب علم جب اپنا پرچہ حل کر رہے ہوتے ہیں تو کوئی طالب علم خواہ کتنا بھی غلط جواب لکھ رہا ہو، اس پر کوئی نہ روک ٹوک ہوتی ہے نہ کوئی گرفت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت ختم ہونے کی گھنٹی بجنے کے بعد جب اس سے کاپی لے لی جائے گی تب دیکھا جائے گا کہ اس نے کیا صحیح لکھا اور کیا غلط۔ پھر اسی لحاظ سے اس کو نمبر ملیں گے۔ اس لیے گھنٹی بجنے تک ہر طالب علم کو مہلت ملی ہوئی ہے اور اسے آزادی (ڈھیل) بھی حاصل ہے کہ جو چاہے جواب لکھے۔ اس مہلت اور ڈھیل کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ غلط جواب لکھتے ہوئے طالب علم کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور بھولا ہوا سبق یاد آ جاتا ہے تو وہ غلط جواب کاٹ کر اس کی جگہ صحیح جواب لکھ دیتا ہے۔ یہ سہولت اسے اس لیے حاصل ہوئی کہ گھنٹی بجنے سے پہلے پہلے اس پر کوئی روک ٹوک اور گرفت نہیں تھی۔

 اسی طرح یہ دنیا ہماری زندگی کا کمرۂ امتحان ہے۔ موت کی گھنٹی بجنے تک ہماری مہلت ہے اور کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کی آزادی (ڈھیل) بھی ہم کو حاصل ہے۔ ہم کو یہ ڈھیل بھی حاصل ہے کہ جب چاہیں اپنا کوئی فیصلہ منسوخ کر کے اس کی جگہ کوئی نیا فیصلہ کر لیں۔ اس مہلت اور ڈھیل کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر خود اپنی اصلاح کرنے کا جو میکنزم رکھا ہے، اسے کام کرنے کا پورا پورا موقع ملے۔

 البتہ ایک فرق ہے۔ طالب علم کے کمرۂ امتحان میں اس کے کچھ لکھنے یا نہ لکھنے کے فیصلے میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں ہوتی۔ لیکن زندگی کے اس کمرۂ امتحان میں انسان پر کوئی مشکل، کوئی مصیبت آتی رہتی ہے جو کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس طرح مداخلت ہوئی۔ لیکن مہلت اور ڈھیل کی طرح یہ مداخلت بھی انسان کے حق میں مفید ہے۔ انسان کے اندر اپنی اصلاح کرنے کے میکنزم کی بیٹری کبھی اتنی ڈائون ہو جاتی ہے کہ وہ سلف اسٹارٹ نہیں رہتی، لیکن اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق اس بیٹری میں ابھی اتنی جان باقی ہوتی ہے کہ وہ دھکا اسٹارٹ ہو سکتی ہے، اس وقت کسی مشکل یا کسی مصیبت کی شکل میں دھکا لگایا جاتا ہے تاکہ انسان اگر چاہے تو اس کی مدد سے اپنی اصلاح کرنے کی بیٹری کو اسٹارٹ کر لے۔ کچھ لوگ اس دھکے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ لوگ اس موقعہ کو بھی ضائع کر دیتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے دھکوں سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اہل ایمان میں دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ یہاں مجرمین کی بات ہو رہی ہے اس لیے انھیں کی مشکلات اور مصائب کو یہاں دھکا کہا گیا ہے۔ صالحین، صدیقین اور انبیاء کرام کی مشکلات اور مصائب کی حکمتیں اور مصلحتیں کچھ اور ہیں جن کی وضاحت کا یہ موقعہ نہیں ہے۔

 اس ڈھیل دینے اور مہلت دینے کی ہدایت میں ان لوگوں کے لیے بڑی اہم رہنمائی ہے جو کسی کی تربیت کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، جیسے والدین، اساتذہ، افسران، وغیرہ۔ اس رہنمائی کے اہم مدارج کو سورۂ تغابن کی آیت۔14۔ میں مزید کھولا گیا ہے۔ وہاں پر قرآن کے الفاظ یہ ہیں۔ وَاِنْ تَعْفُوْا (اور اگر تم لوگ ڈھیل دو) وَتصْفَحُوْا (اور دیکھی اَن دیکھی کر جائو) وَتَغْفِرُوْا (اور معاف کرو) فَاِنّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ ان دونوں مقامات پر غور کرنے سے ہمیں قرآن مجید کا وہ فارمولا مل جاتا ہے جو انسانوں کو عموماً اور اہل ایمان کو خصوصاً اپنے جونیرز کی تربیت کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس فارمولے کی وضاحت ’’ جینے کا سلیقہ‘‘ حصہ سوم کے صفحہ 74 تا 86 پر کی گئی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہاں پر اس کا خلاصہ دنیا بھی ممکن نہیں ہے۔ البتہ اس میں دی گئی مثال کو ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس سے فارمولا کسی حد تک واضح ہو جائے گا۔

 ہم ساتویں یا آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے جب ہمیں سنیما دیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ والد مرحوم سے اجازت مانگی تو نہیں ملی۔ ہم نے والدہ مرحومہ اور دیگر لوگوں سے سفارش کروائی، رونا دھونا بھی کیا، اسکول کا ہوم ورک کرنے کی ہڑتال کی، دو تین وقت کی بھوک ہڑتال بھی کی۔ یہ سب کچھ کرنے کی ہمیں اجازت ملی یعنی ان حرکتوں پر نہ تو ہماری پٹائی ہوئی اور نہ ڈانٹ پڑی لیکن سنیما دیکھنے کی اجازت پھر بھی نہیں ملی۔ چنانچہ ہم نے چوری چھپے سنیما دیکھنے کا فیصلہ کرلیا لیکن اس میں کچھ قباحتوں سے سابقہ پڑا۔ پہلی قباحت یہ تھی کہ اس طرح شوق پورا کرنا ناممکن تھا کیونکہ ہماری خواہش تھی کہ شہر میں جو بھی پکچر لگے وہ سب دیکھی جائے، لیکن اس پر عمل کرنا ممکن نہیں تھا۔ جب کسی پکچر کی بہت تعریف سنتے تھے تب اسے دیکھنے کا پروگرام بناتے تھے۔ شام کو کھیلنے کا جو وقت تھا، اس سے پہلے گھر سے نکلنے کے لیے اور مغرب سے پہلے واپس نہ آنے کے لیے کوئی بہانا گھڑنا پڑتا تھا۔ سنیما ہال کے باہر اور اندر دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کوئی جاننے والا دیکھ نہ لے، وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال اس طرح چوری چھپے پکچر دیکھ کر جب ہم بخیریت گھر واپس آ جاتے تھے تو سکھ کا سانس لیتے تھے۔

 کچھ ہی عرصہ میں ایک نئی فکر لاحق ہو گئی کہ پتہ نہیں ہماری اس چوری کا والد صاحب کو علم ہے کہ نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گھر واپس آ کر جو ہم سکھ کا سانس لیتے تھے وہ رخصت ہوا۔ اب رات اس ادھیڑ بن میں گزرتی تھی کہ اگر والد صاحب کو پتہ ہے تو وہ اجازت ہی کیوں نہیں دے دیتے۔ اگر نہیں معلوم اور کبھی معلوم ہو گیا تو پھر کیا ہو گا۔ جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ تو گناہ بےلذت ہے۔ پکچر دیکھ کر گناہ بھی کرتے ہیں اور واپس آ کر پریشانی بھی مول لیتے ہیں۔ چنانچہ فیصلہ کرلیا کہ اب پکچر نہیں دیکھیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملازمت کے سلسلہ میں جب دوسرے شہروں میں تنہا رہنے کا موقع ملا، اس وقت تک سنیما دیکھنے کا شوق مرجھا چکا تھا۔ احباب کے اصرار پر کبھی کبھار چلے جاتے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔

 اس رام کہانی کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ دیکھی اَن دیکھی کر جانے کا اثر ہوتا ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اتنی جلدی نہ ہو اور اتنا واضح نہ ہو۔ اس لیے جلد جازی سے کام نہیں لینا چاہیے اور اس ہدایت کو اثر کرنے کا موقع دینا چاہیے۔

مورخہ 23۔ ذیعقد 1431 ھ بمطابق یکم نومبر 2010 ء

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى  Ǻ۝ۙ
[سَبِحِ: آپؐ تسبیح کریں][ اسْمَ رَبِكَ الْاَعْلَى: اپنے اعلیٰ رب کے نام کی]

 

ترکیب: (آیت۔1) الْاَعْلٰی پر رفع، نصب، جر ظاہر نہیں ہوتی۔ اس لئے گرامر کے لحاظ سے یہ ممکن ہے کہ اس کو حالت نصب میں مانا جائے تو یہ اِسْمَ کی صفت ہو گا اور اگر حالت جر میں مانیں تو یہ رَبِّ کی صفت ہو گا۔ لیکن مضمون کے لحاظ سے مناسب یہی ہے کہ اس کو رَبِّکی صفت مانا جائے۔

 

نوٹ۔1: لفظ تسبیح میں تنزیہہ کا پہلو غالب ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو ان تمام باتوں سے پاک اور برتر قرار دینا جو اس کی اعلیٰ شان کے منافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا صحیح تصور ہی تمام علم ومعرفت اور قوت واعتماد کا سرچشمہ ہے۔ اگر اس میں کوئی خلل پید اہو جائے تو انسان صحیح معرفت کی شاہراہ سے ہٹ جاتا ہے۔ اور شیطان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ تسبیح کی سب سے اعلیٰ شکل تو نماز ہے لیکن جس طرح سانس انسان کی مادی زندگی کے لیے ہر وقت ضروری ہے اسی طرح سے اللہ تعالیٰ کی یاد اس کی روحانی زندگی کے لیے ہر وقت ضروری ہے۔ اس لیے صرف نماز کے اوقات ہی میں نہیں بلکہ زندگی کی دوسری سرگرمیوں کے اندر بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے دل کو آباد رکھنا چاہیے تاکہ شیطان کو اس پر غلبہ پانے کا موقع نہ ملے (تدبیر قرآن)

الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى   Ą۝۽
[الَّذِي خَلَقَ فَسَوّٰى: وہ، جس نے پیدا کیا پھر اس نے نوک پلک درست کی (اس کی)]

 

 

 (آیت۔2۔3) خَلَقَ۔ سَوّٰی۔ قَدَّرَ۔ ھٰدٰی۔ اِن افعال کے مفعول محذوف ہیں۔ اس لیے مفہوم میں وسعت پیدا ہوئی اور یہاں ساری مخلوق مراد ہے، جس میں فرشتے، جن واِنس، حیوانات، نباتات، جمادات وغیرہ سب شامل ہو گئے۔ (حافظ احمد یار صاحب) ۔

 

آگے آیات۔ 2 تا 5 میں رَبِّ اَعْلٰی کی صفات کا ذکر ہے جو تخلیق کائنات میں اس کی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ کے مشاہدہ سے متعلق ہیں۔ خلق کے معنی محض صنعت گری کے نہیں بلکہ عدم سے وجود میں لانا بھی ہے۔ دوسری صفت فَسَوّٰی ہے۔ برابر کرنے سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز کو جو وجود عطا فرمایا ہے اس میں اس کی جسامت، شکل وصورت اور اعضاء وغیرہ کی وضع قطع میں ایک خاص تناسب ملحوظ رکھا ہے۔ تیسری چیز سلسلہ میں فرمائی قَدَّرَ، جس کے معنی ہر چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور خاص تجویز کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی چیزوں کو پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ ہر چیز کو کسی خاص کام کے لیے پیدا کیا اور اس کے مناسب اس کو وسائل دئیے اور اسی کام میں اس کو لگا دیا۔ غور کیا جائے تو یہ بات کسی خاص جنس یا نوع مخلوق کے لیے مخصوص نہیں۔ ساری کائنات کی مخلوقات ایسی ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے خاص خاص کاموں کے لیے بنایا ہے اور ہر چیز اپنے رب کی مقرر کردہ ڈیوٹی میں لگی ہوئی ہے۔ چوتھی چیز فرمائی فَھَدٰی۔ یعنی خالق کائنات نے جس چیز کو جس کام کے لیے پیدا فرمایا اس کو اس کی ہدایت بھی فرما دی کہ وہ کس طرح اس کام کو انجام دے۔ یہ ہدایت تمام کائنات کی مخلوقات کو شامل ہے۔ کیونکہ ایک خاص قسم کی عقل وشعور اللہ تعالیٰ نے ان سب کودیا ہے، گو وہ انسان کے عقل وشعور سے کم ہو۔

 انسان کو حق تعالیٰ نے عقل وشعور سب سے زیادہ عطا فرمایا ہے۔ اور زمین میں پیدا ہونے والی اشیاء انسان کی خدمت اور اس کے نفع کے لیے پیدا ہوئی ہیں۔ مگر ان سے فائدہ اٹھانا مختلف قسم کے منافع حاصل کرنا اور مختلف چیزوں کو جوڑ کر ایک نئی چیز پیدا کر لینا، بڑے علم وہنر کا تقاضہ کرتا ہے۔ قدرت نے انسان کے اندر فطری طور پر یہ عقل وفہم ودیعت کر رکھا ہے۔ اور یہ علم وہنر فلاسفہ کی تحقیقات اور کالجوں کی تعلیمات پر موقوف نہیں، بلکہ دنیا کی ابتدا سے اَن پڑھ جاہل یہ سب کام کرتے آئے ہیں۔ یہی فطری سائنس ہے جو حق تعالیٰ نے انسان کو فطرتاً بخشی ہے۔ پھر فنی اور علمی تحقیقات کے ذریعہ اس میں ترقی کرنے کی استعداد بھی اسی قدرت ربانی کا عطیہ ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ سائنس کسی چیز کو پیدا نہیں کرتی، بلکہ قدرت کی پیدا کردہ اشیاء کا استعمال سکھاتی ہے۔ اس استعمال کا ادنیٰ درجہ تو حق تعالیٰ نے انسان کو فطرۃً سکھا دیا۔ آگے اس میں فنی تحقیقات اور ترقی کا بڑا وسیع میدان رکھا ہے اور انسان کی فطرت میں اس کو سمجھنے کی استعداد وصلاحیت رکھی ہے جس کے مظاہر اس سائنسی دور میں نت نئے سامنے آ رہے ہیں اور معلوم نہیں آگے اس سے زیادہ کیا کیا سامنے آئے گا۔ غور کرو تو یہ سب قرآن کے ایک لفظ فَھَدٰی کی شرح ہے۔ (معارف القرآن)

وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى   Ǽ۝۽
[وَالَّذِي: اور وہ، جس نے][ قَدَّرَ: اور وہ، جس نے][ فَهَدٰى: پھر اس نے راہ سجھائی (اس کو)]

وَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى   Ć۝۽
[وَالَّذِيٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى: وہ، جس نے نکالا چارا]

فَجَعَلَهٗ غُثَاۗءً اَحْوٰى   Ĉ۝ۭ
[فَجَعَلَهٗ: پھر اس نے کردیا اس کو][ غُثَاۗءً اَحْوٰى: سیاہ کوڑا]

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى  Č۝ۙ
[سَنُقْرِئُكَ: ہم پڑھائیں گے آپؐ کو][ فَلَا تَنْسٰٓى: تو آپؐ نہیں بھولیں گے]

 

نوٹ۔2: آیت نمبر۔6۔ کے یہ الفاظ کہ ’’ ہم تمھیں پڑھوا دیں گے پھر تم نہیں بھولو گے یہ بتاتے ہیں کہ یہ سورہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ
کو ابھی وحی اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق نہیں ہوئی تھی اور نزولِ وحی کے وقت آپ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ کہیں اس کے الفاظ بھول نہ جائیں۔ اس آیت کے ساتھ سورۂ طٰہٰ کی آیت۔114۔ اور سورۂ قیامہ کی آیات۔ 16 تا 19۔ کو ملا کر دیکھا جائے تو واقعات کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اس سورہ میں حضور کو اطمینان دلایا گیا کہ ہم یہ کلام آپ کو پڑھوا دیں گے اور آپؐ اسے نہ بھولیں گے۔ پھر ایک مدت کے بعد جب سورہ قیامہ نازل ہو رہی تھی تو حضور 1 بےاختیار وحی کے الفاظ کو دہرانے لگے۔ اس وقت فرمایا گیا کہ اس وحی کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس کو یاد کرا دینا، پڑھوا دینا پھر اس کا مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ آخری مرتبہ سورۂ طٰہٰ کے نزول کے موقعہ پر آپؐ کو ندیشہ لاحق ہوا کہ یہ 113۔ آیتیں جو متواتر نازل ہو رہی ہیں ان میں سے کچھ میرے حافظے سے نکل نہ جائے اور آپؐ ان کو یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے اس پر فرمایا گیا کہ قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کریں جب تک آپؐ کی طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے۔ اس کے بعد پھر کبھی اس کی نوبت نہیں آئی۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص۔ 308)

 آگے فرمایا گیا اِلَّا مَاشَائَ اللّٰہُ۔ اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پورے قرآن کا لفظ بلفظ آپؐ کے حافظے میں محفوظ ہو جانا آپؐ کی اپنی قوت کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے فضل اور اس کی توفیق کا نتیجہ ہے، ورنہ اللہ چاہے تو اسے بھلا سکتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کبھی وقتی طور پر آپؐ کو نسیان لاحق ہو جانا اور آپؐ کا کسی آیت یا لفظ کو کسی وقت بھول جانا اس وعدے سے مستثنیٰ ہے۔ وعدہ جس بات کا کیا کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپؐ مستقل طور پر قرآن کے کسی لفظ کو نہیں بھول جائیں گے۔ اس مفہوم کی تائید بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے رسول اللہ
قرأت کے دوران میں ایک آیت چھوڑ گئے۔ نماز کے بعد حضرت اُبی بن کعب (رض)  نے پوچھا کہ کیا یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں میں بھول گیا تھا۔ (تفہیم القرآن)

اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ   ۭ اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَـهْرَ وَمَا يَخْفٰى  Ċ۝ۭ
[اِلَّا مَا: سوائے اس کے جو [ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ: چاہا اللہ نے][ انهٗ يَعْلَمُ الْجَـهْرَ: بیشک وہ جانتا ہے نمایاں کرنے کو][ وَمَا يَخْفٰى: اور اس کو جو پوشیدہ ہوتا ہے]

وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرٰى   Ď۝ښ
[وَنُيَسِّرُكَ: اور ہم آسان کریں گے (پہنچائیں گے) آپؐ کو][ لِلْيُسْرٰى: اس آسان (طریقت) تک]

 

(آیت۔8) پَسَّرَ، باب تفعیل، میں جس چیز کو آسان کرتے ہیں وہ مفعول بنفسہٖ آتا ہے اور جس کے لیے آسان کرتے ہیں اس پر لام کا صلہ آتا ہے۔ یہاں نُیَسِّرُ کا مفعول ضمیر مفعولی کَ ہے۔ ترجمہ اسی لحاظ سے ہو گا۔ یُسْرٰی صفت ہے۔ اس کا موصوف یہاں محذوف ہے۔

 

نوٹ 3: آیت۔8۔ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ہم آپؐ کو طریقہ یُسْریٰ کے لیے آسان کر دیں گے۔ اس مقام کا تقاضہ یہ تھا کہ فرمایا جاتا کہ ہم اس طریقہ اور شریعت کو آپؐ کے لیے آسان کر دیں گے لیکن قرآن کریم نے اس کو چھوڑ کر یہ فرمایا کہ ہم آپؐ کواِس طریقہ کے لیے آسان کر دیں گے۔ اس میں یہ بتا دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو طبعی طور پر اور مادی طور پر ایسا بنا دیں گے کہ شریعت آپ کی طبیعت بن جائے اور آپؐ شریعت کے سانچے میں ڈھل جائیں۔ (معارف القرآن)

 عام طور پر مفسرین نے ان دو فقروں (آیات۔ 8۔9) کو الگ الگ سمجھا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک فَذِکِّرْ کا لفظ دونوں فقروں کو باہم مربوط کرتا ہے۔ اور بعد کے فقرے کا مضمون پہلے فقرے کے مضمون پر مترتب ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اس ارشاد الٰہی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اے نبیؐ ہم تبلیغ دین کے معاملہ میں آپؐ کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے کہ تم بہروں کو سنائو اور اندھوں کو راہ دکھائو بلکہ ایک آسان طریقہ تمھارے لیے میسر کیے دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ نصیحت کرو جہاں تمھیں یہ محسوس ہو کہ کوئی اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کون فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے، تو ظاہر ہے کہ اس کا پتہ تبلیغ عام ہی سے چل سکتا ہے۔ اس لیے عام تبلیغ تو جاری رکھنی چاہیے مگر اِس سے مقصودیہ ہونا چاہیے کہ ان لوگوں کو تلاش کرو جو اس سے فائدہ اٹھا کرراہ راست اختیار کرنا چاہیں۔ انہی کی تعلیم وتربیت پر توجہ صرف کرنا چاہے۔ (تفہیم القرآن)

فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى   ۝ۭ
فَذَكِّرْ: تو آپؐ نصیحت کریں][ان نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى: اگر نفع دے یہ بڑی نصیحت]

 

(آیت۔9) ذِکْرٰی فاعل ہے اور مؤنث ہے اس لیے اس کا فعل نَفَعَتْ واحد مؤنث ہے۔

سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَّخْشٰى   10۝ۙ
[سَيَذَّكَّرُ مَنْ: نصیحت حاصل کرے گا (اس سے) وہ، جو][ يَّخْشٰى: ڈرتا ہے]

وَيَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى   11۝ۙ
[وَيَتَجَنَّبُهَا: اور اجتناب کرے گا اس سے][ الْاَشْقَى: بڑا بدبخت]

 

(آیت۔11) یَتَجَنَّبُ کی ضمیر مفعولی ھَا۔ اَلذِّکْرٰی کے لیے ہے۔

الَّذِيْ يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى   12۝ۚ
[الَّذِي يَصْلَى: وہ، جو گرے گا][ النَارَ الْكُبْرٰى: بڑی آگ میں]

ثُمَّ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰي   13۝ۭ
[ثُمَّ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا : پھر نہ وہ مرے گا اس میں [وَلَا يَحْيٰي: پھر نہ وہ مرے گا اس میں]

 

نوٹ۔4: آیت۔13۔ کا مطلب ہے کہ نہ اسے موت ہی آئے گی کہ عذاب سے چھوٹ جائے اور نہ جینے کی طرح جیئے گا کہ زندگی کا کوئی لطف اسے حاصل ہو۔ یہ سزا ان لوگوں کے لیے ہے جو سرے سے اللہ اور اس کے رسول کی نصیحت کو قبول نہ کریں اور مرتے دم تک کفروشرک یا دہریت پر قائم رہیں۔ رہے وہ لوگ جو دل میں ایمان رکھتے ہوں مگر اپنے برے اعمال کی بنا پر جہنم میں ڈالے جائیں تو ان کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ جب وہ اپنی سزا بھگت لیں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں موت دے دے گا۔ پھر ان کے حق میں شفاعت قبول کی جائے گی اور ان کی جلی ہوئی لاشیں جنت کی نہروں پر لا کر ڈالی جائیں گی اور اہل جنت سے کہا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو اس پانی سے وہ اس طرح جی اٹھیں گے جیسے نباتات پانی پڑنے سے اُگ آتی ہیں۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔5: حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے دوسرے متعدد نبیوں کے صحیفے اسفارِ تورات کی شکل میں موجود ہیں۔ ان میں اگرچہ بہت سی تحریفیں ہو چکی ہیں اور ان کی حیثیت تاریخ کی کتابوں سے زیادہ نہیں ہے، تاہم ان سب میں توحید اور قیامت کی تعلیم نہایت واضح اور مؤثر الفاظ میں اتنی کثرت سے موجود ہے کہ جس صحیفے کو بھی پڑھیے ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو جو تعلیم دی تھی، اگرچہ وہ صحیفے کی شکل میں نہیں تھی بلکہ زبانی تعلیم وتلقین کی صورت میں تھی۔ ان کی ذریت کی ایک شاخ یعنی بنی اسرائیل نے اس کو اپنے صحیفوں میں بشکل تحریر محفوظ کیا اور ان کے انبیا علیہ السلام اپنے اپنے دور میں برابر اس کی یاد دہانی کرتے رہے، جس کی ناقابل تردید شہادت آج بھی ان کے صحیفوں میں موجود ہے۔ اور قرآن نے بھی جابجا اس کا حوالہ دیا ہے۔ آپؑ کی ذریت کی دوسری شاخ بنی۔ اسمٰعیل نے اس کو تحریری شکل میں محفوظ نہیں کیا۔ انھوں نے روایات کی صورت میں اس کو کچھ مدت تک باقی رکھا پھر اس پر رفتہ رفتہ ذہول کا پردہ پڑ گیا۔ پھر نبی
کی بعثت سے اس کی تحدید اور تکمیل ہوئی۔ (تدبر قرآن)

مورخہ 30 ذیقعد 1431 ھ بمطابق 7۔ نومبر 2010 ء

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى   14۝ۙ
[قَدْ اَفْلَحَ مَنْ: اس نے مراد پالی ہے جس نے][ تَزَكّٰى : پاکیزگی حاصل کی]

وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى  15۝ۭ
[وَذَكَرَ: اور اس نے یاد رکھا][ اسْمَ رَبِهٖ: اپنے رب کے نام کو][ فَصَلّٰى : پھر نماز پڑھی ]

بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا  16۝ڮ
[بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ: بلکہ تم لوگ ترجیح دیتے ہو][ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا: اس دنیوی زندگی کو]

وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى  17۝ۭ
[وَالْاٰخِرَةُ: اس حال میں کہ آخرت] [خَيْرٌ وَّاَبْقٰى: بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے ]

اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى   18۝ۙ
[ان هٰذَا: بیشک یہ (بات)][ لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى: یقینا پہلے صحیفوں میں ہے]

صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى   19۝ۧ
[صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى: ابراہیمؑ اور موسیٰؑ کے صحیفوں میں]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْغَاشِـيَةِ    Ǻ۝ۭ
[هَلْ اَتٰىكَ: کیا پہنچی آپؐ کے پاس][ حَدِيْثُ الْغَاشِـيَةِ : اس چھا جانے والی (قیامت) کی بات]

 

نوٹ۔1: پہلی آیت میں سوال ہے کیا آپ 1 کو پہنچی۔ اس انداز میں جو سوال ہوتا ہے وہ جواب طلب کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ کسی چیز ہیبت یا اس کی عظمت کے اظہار کے لیے ہوتا ہے۔ آگے وُجُوْہٌ سے مراد اگرچہ افراد ہیں لیکن ان کو تعبیر وُجُوْہٌ سے اس لیے کیا ہے کہ ان کی اندرونی کیفیات کو ظاہر کرنا مقصود ہے۔ اور کیفیات کا اظہار سب سے زیادہ نمایاں طریقہ پر چہروں ہی سے ہوتا ہے۔ (تدبر قرآن)

وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌ  Ą۝ۙ
[وُجوهٌ يَّوْمَىِٕذٍ: کچھ چہرے (کچھ لوگ) اس دن][ خَاشِعَة: عاجزی کرنے والے ہیں]

 

ترکیب: (آیت۔ 2۔3 ) ۔ وُجُوْہٌ حالانکہ نکرہ ہے لیکن یہاں یہ مبتدا ہے۔ مفہوم کی ادائیگی کے تقاضے کے تحت اس کو معرفہ کے بجائے نکرہ لایا گیا ہے۔ خَاشِعَۃٌ اس کی خبر ہے۔ آگے عَامِلَۃٌ اور نَاصِبَۃٌ کو بھی اگر اس کی خبر مانیں تو مفہوم بنتا ہے کہ کچھ چہرے اس دن عاجزی کرنے والے ہیں، عمل کرنے والے ہیں، محنت کرنے والے ہیں یہ مفہوم خلاف واقعہ ہے۔ اور اگر عَامِلَۃٌ اور ناصِبَۃٌ کو وُجُوْہٌ کی صفت مانیں تو پھر مفہوم بنتا ہے کہ کچھ عمل کرنے والے محنت کرنے والے چہرے اس دن عاجزی کرنے والے ہیں۔ اور یہی مفہوم حضرت عمر (رض)  سے مفقول ہے (دیکھیں معارف القرآن) ۔

نوٹ۔2: آیت۔2۔3۔ میں کافروں کے چہرے کا ایک حال یہ بتایا ہے کہ وہ خاشعہ ہوں گے۔ خشوع کے معنے جھکنے اور ذلیل ہونے کے ہیں۔ نماز میں خشوع کا یہی مطلب ہے کہ اللہ کے سامنے جھکے اور ذلت وپستی کے آثار اپنے وجود پر طاری کرے۔ جن لوگوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع اختیار نہیں کیا، ان کو اس کی سزا قیامت میں یہ ملے گی کہ وہاں ان کے چہروں پر ذلت اور رسوائی چھائی ہوئی ہو گی۔ ان کے چہروں کا دوسرا اور تیسرا حال یہ بیان فرمایا کہ عاملہ اور ناصبہ ہوں گے کفار ومجرمین کا یہ حال کہ وہ عمل اور محنت سے تھکے اور درماندہ ہوں گے، ظاہر ہے کہ ان کی دنیا کا ہے۔ کیونکہ آخرت میں کوئی اور محنت نہیں ہے۔ اسی لیے قرطبی وغیرہ مفسرین نے اس کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ خاشعہ کا حال تو آخرت میں ہو گا، جبکہ عاملہ اور ناصبہ کے دونوں حال ان لوگوں کے دنیا ہی میں ہوتے ہیں۔ بہت سے کفار اور فجار مشرکانہ عبادت اور باطل طریقوں سے مجاہدہ اور ریاضت دنیا میں کرتے رہتے ہیں۔ ہندوئوں کے جوگی اور نصاریٰ کے راہب وغیرہ کے علاوہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کی رضاجوئی کے لیے دنیا میں عبادت وریاضت کرتے ہیں اور اس میں محنت شاقہ برداشت کرتے ہیں مگر وہ عبادات مشرکانہ اور باطل طریقہ پر ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی اجر وثواب نہیں رکھتی۔ (عبدالدینار اور عبدالدر ہم قسم کے لوگ بھی عبادت میں نہیں بلکہ دنیا میں اپنی روزی کمانے کے لیے اللہ پر توکل اور قناعت کرنے والوں سے کئی گنا زیادہ محنت ومشقت کرتے ہیں، چاہے نماز پڑھتے ہوں، چاہے روزے رکھتے ہوں۔ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ ان کے نماز روزے انھیں خاشعہ سے بچا لیں گے، لیکن عاملہ اور ناصبہ کی سزا تو نقد ہے۔ یہ لوگ دنیا تو خوب کماتے ہیں لیکن دنیا کے حقیقی لطف و سرور سے بالعموم محروم چلے جاتے ہیں۔ اِلاَّ مَاشَائَ اللّٰہ۔ مرتب) ۔

 حضرت حسن بصری (رح)  نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر (رض)  جب ملک شام میں تشریف لے گئے تو ایک نصرانی راہبب ان کے پاس آیا جو اپنے مذہب کی عبادت وریاضت میں لگا ہوا تھا۔ محنت سے اس کا چہرہ بگڑا ہوا، بدن خشک اور لباس خستہ تھا۔ جب حضرت عمر (رض) نے اس کو دیکھا تو آپ رو پڑے۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو آپ (رض)  نے فرمایا کہ مجھے اس کے حال پر رحم آ گیا کہ اس بیچارے نے رضائے الٰہی کے لیے بڑی محنت کی مگر وہ اس کو نہیں پا سکا۔ اور حضرت عمر (رض)  نے یہی آیات۔2۔3۔ تلاوت فرمائیں۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔3: قرآن مجید میں کہیں فرمایا گیا ہے کہ جہنم کے لوگوں کو زقوم کھانے کے لیے دیا جائے گا۔ کہیں ارشاد ہوا ہے کہ ان کے لیے غسلین کے سوا کوئی کھانا نہیں ہو گا۔ اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ انھیں خاردار سوکھی گھاس کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ ان بیانات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہنم کے بہت سے درجے ہوں گے جن میں مختلف قسم کے مجرمین اپنے جرائم کے لحاظ سے ڈالے جائیں گے اور مختلف قسم کے عذاب ان کو دئیے جائیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ زقوم کھانے سے بچنا چاہیں گے تو غسلین ان کو ملے گا اس سے بھی بچنا چاہیں گے تو خاردار گھاس کے سوا کچھ نہ پائیں گے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔4: اہل دوزخ کے متعلق قرآن میں یہ بات جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ دوزخ کے باڑے میں پہنچتے ہی وہ ایک دوسرے پر لعنت کریں گے کہ فلاں نے ہم کو گمراہ کیا۔ وہ گمراہ نہ کرتا تو ہم ہدایت پر ہوتے۔ لیڈروں اور ان کی پیروی کرنے والوں میں تو تکار ہو گی۔ اپنے اپنے پیروں اور لیڈروں کے لیے وہ لوگ دونے عذاب کا مطالبہ کرینگے۔ لیڈر جواب دیں گے کہ تم نے خود اپنی شامت بلائی کہ جان بوجھ کر ہماری پیروی کی۔ اس کے برعکس اہل جنت کا یہ حال بیان ہوا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہونے کے بعد ایک فتح مند ٹیم کی طرح ایک دوسرے کا خیرمقدم تحیت وسلام سے کریں گے۔ آپس میں مبارک سلامت کے تبادلے ہوں گے۔ نہایت خوشگوار موڈ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے اور ان میں مجلس محبت واخلاص کی عطر بیزیوں سے معمور ہو گی۔ (تدبر قرآن)

عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ  Ǽ۝ۙ
[عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ: جو عمل کرنے والے محنت کرنے والے تھے]

تَصْلٰى نَارًا حَامِيَةً   Ć۝ۙ
[تَصْلٰى نَارًا حَامِيَةً: وہ گریں گے ایک دہکنے والی آگ میں]

 

 (آیت۔4۔5) تَصْلٰی اور تُسْقٰی واحد مؤنث کے صیغے ہیں۔ وَجُوْہٌ جمع مکسر ہے، اس لیے لفظی رعایت کے تحت واحد مؤنث کے صیغے آئے ہیں۔ تُسْقٰی، ثلاثی مجرد اور باب افعال، دونوں کا مجہول ہو سکتا ہے کیونکہ دونوں کے مضارع مجہول ہم شکل ہو جاتے ہیں۔ اگر ثلاثی مجرد سے مانیں تو مطلب ہو گا، ان کو پلایا جائے گا۔ اگر باب افعال سے مانیں تو مطلب ہو گا انھیں پینے کو دیا جائے گا۔

تُسْقٰى مِنْ عَيْنٍ اٰنِيَةٍ   Ĉ۝ۭ
[تُسْقٰى: انھیں پینے کو دیا جائے گا][ مِنْ عَيْنٍ اٰنِيَةٍ : ایک انتہائی (گرم) چشمے سے]

لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِيْعٍ   Č۝ۙ
[لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ: نہیں ہو گا ان کے لیے کوئی کھانا][ اِلَّا مِنْ ضَرِيْعٍ: مگر ایک خاردار درخت سے]

 

(آیت۔6) وُجُوْہٌ کی لفظی رعایت کے تحت لَیْسَ لَھَا آنا چاہیے تھا لیکن یہاں معنوی رعایت کی گئی ہے اس لیے لَھُمْ آیا ہے۔ (آیت۔11) لَاغِیَۃً اسم الفاعل کے وزن پر صفت ہے۔ اس کا موصوف محذوف ہے جو کَلِمَۃً ہو سکتا ہے۔

لَّا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِيْ مِنْ جُوْعٍ  Ċ۝ۭ
[لَّا يُسْمِنُ: وہ موٹا نہیں کرے گا][ وَلَا يُغْنِيْ: اور نہ وہ بےنیاز کرے گا][ مِنْ جوعٍ: بھوک سے]

وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاعِمَةٌ    Ď۝ۙ
[وُجوهٌ يَّوْمَىِٕذٍ: کچھ چہرے (لوگ) اس دن][ نَاعِمَةٌ: تروتازہ ہونے والے ہیں]

لِّسَعْيِهَا رَاضِيَةٌ   ۝ۙ
[لِسَعْيِهَا: اپنی کوشش (کے نتیجے) سے][ رَاضِيَةٌ: راضی ہونے والے ہیں]

فِيْ جَنَّةٍ عَالِيَةٍ   10۝ۙ
[فِيْ جَنَّةٍ عَالِيَةٍ : (وہ لوگ ہوں گے) ایک اعلیٰ باغ میں]

لَّا تَسْمَعُ فِيْهَا لَاغِيَةً   11۝ۭ
[لَّا تَسْمَعُ فِيْهَا: وہ نہیں سنیں گے اس میں][ لَاغِيَةً: کوئی لایعنی (بات)]

فِيْهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌ   12۝ۘ
[فِيْهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌ: اس میں جاری ہونے والے چشمے ہیں]

 

(آیت۔ 12 تا 16) اِن آیات میں عَیْنٌ جَارِیَۃٌ۔ سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ۔ اَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ۔ نَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ۔ زَرَابیُّ مَبْثُوْثَۃٌ۔ یہ سب مُبتدامؤخرنکرہ ہیں اور ان کی خبریں محذوف ہیں۔ آیت۔12۔13۔ میں متعلق خبر فِیْھَا آیا ہے۔ آگے اس کو محذوف کردیا گیا ہے۔

فِيْهَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَةٌ   13۝ۙ
[فِيْهَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَةٌ: اس میں بلند کیے ہوئے تخت ہیں]

وَّاَكْوَابٌ مَّوْضُوْعَةٌ  14۝ۙ
[وَّاَكْوَابٌ مَّوْضُوْعَةٌ: اور چنے ہوئے جام ہیں]

وَّنَمَارِقُ مَصْفُوْفَةٌ  15۝ۙ
[وَّنَمَارِقُ مَصْفُوْفَةٌ: اور قطار بنائے ہوئے قالین ہیں]

وَّزَرَابِيُّ مَبْثُوْثَةٌ  16۝ۭ
[وَّزَرَابِيُّ مَبْثُوْثَةٌ: اور بکھیرے ہوئے گائو تکیے ہیں]

اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ    17؀۪
[اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ: تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹوں کی طرف][ كَيْفَ خُلِقَتْ: (کہ) کیسا اس کو بنایا گیا]

 

 ترکیب: (آیات۔17۔ تا 20۔) میں تمام افعال واحد مونث آئے ہیں۔ اس کی وجہ سمجھ لیں۔ اَلْاِبِلِ اسم جنس ہے جس میں تمام اونٹ اور اونٹنیاں شامل ہیں۔ اس طرح یہ اسم جمع کے حکم میں ہے جس کے لیے فعل واحد مذکر یا واحد مونث، دونوں میں سے کسی طرح لانا جائز ہوتا ہے۔ (دیکھیں آسان عربی گرمر، حصہ دوم، پیراگراف۔ 4:31) اَلسَّمَائِ اور اَلْاَرْضِ، دونوں مؤنث سماعی ہیں، جبکہ اَلْجِبَالِ غیر عاقل کی جمع مکسر ہے اَلسَّمَائِ اور اَلْجِبَالِ پر لام جنس ہے جبکہ اَلْاَرْضِ پر لام تعریف ہے۔

 

نوٹ۔1: آیات۔17 تا 20 کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ آخرت کی باتیں سن کر کہتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہو سکتا ہے تو کیا اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈال کر انھوں نے کبھی نہ سوچا کہ یہ اونٹ کیسے بن گئے۔ آسمان کیسے بلند ہو گیا۔ پہاڑ کیسے قائم ہو گئے، زمین کیسے بچھ گئی۔ یہ ساری چیزیں اگر بن سکتی ہیں اور بنی بنائی ان کے سامنے موجود ہیں تو آخرت میں ایک دوسری دنیا کیوں نہیں بن سکتی۔ جنت اور دوزخ کیوں نہیں ہو سکتیں۔ (تفہیم القرآن)

 

نوٹ۔1: آیات۔17 تا 20 کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ آخرت کی باتیں سن کر کہتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہو سکتا ہے تو کیا اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈال کر انھوں نے کبھی نہ سوچا کہ یہ اونٹ کیسے بن گئے۔ آسمان کیسے بلند ہو گیا۔ پہاڑ کیسے قائم ہو گئے، زمین کیسے بچھ گئی۔ یہ ساری چیزیں اگر بن سکتی ہیں اور بنی بنائی ان کے سامنے موجود ہیں تو آخرت میں ایک دوسری دنیا کیوں نہیں بن سکتی۔ جنت اور دوزخ کیوں نہیں ہو سکتیں۔ (تفہیم القرآن)

کائنات کی بےشمار چیزوں میں سے ان چار چیزوں کی تخصیص بقول ابن کثیر (رح)  اس لیے ہے کہ عرب کے لوگ اکثر جنگلوں میں چلتے پھرتے تھے۔ اس وقت ان کے سامنے یہی چار چیزیں ہوتی تھیں۔ سواری میں اونٹ، اوپر آسمان، نیچے زمین اور اردگرد پہاڑ۔ اس لیے ان ہی علامات میں غور کرنے کے لیے ارشاد ہوا۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

 ان میں سے دو نشانیاں، اونٹ اور زمین، ربوبیت کے پہلو سے اور دو نشانیاں، آسمان اور پہاڑ، خالق کی قدرت وحکمت کے پہلو سے زیادہ نمایاں ہیں۔ خالق کی انہی صفات پر قیامت اور جزاء وسزا کے پورے پہلو کی بنیاد ہے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: جانوروں میں اونٹ کی کچھ ایسی خصوسیات بھی ہیں جو غور کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت وقدرت کا آئینہ بن سکتی ہیں۔ اول تو عرب میں ڈیل ڈول کے اعتبار سے سب سے بڑا جانور اونٹ ہی ہے، ہاتھی وہاں ہوتا نہیں۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے اس عظیم جانور کو ایسا بنا دیا کہ عرب کے بدو اور مفلس آدمی بھی اتنے بڑے جانور کو پالنے اور رکھنے میں کوئی مشکل محسوس نہ کریں، کیونکہ اس کو چھوڑ دیں تو یہ اپنا پیٹ خود بھر لیتا ہے۔ اونچے درختوں کے پتے توڑنے کی زحمت بھی آپ کو نہیں کرنا پڑتی یہ خود درختوں کی شاخیں کھا کر گزارہ کر لیتا ہے۔ اس کی خوراک ہاتھی اور دوسرے جانوروں کی طرح نہیں جو بہت مہنگی پڑتی ہے۔ عرب میں پانی ایک بہت کمیاب چیز ہے، ہر جگہ ہر وقت نہیں ملتا۔ قدرت نے اس کے پیٹ میں ایک ریزروٹنکی ایسی لگا دی ہے کہ سات آٹھ روز کا پانی وہ اس ٹنکی میں محفوظ کر لیتا ہے اور تدریجی رفتار سے وہ اپنی پانی کی ضرورت کو پورا کرتا رہتا ہے۔ اتنے اونچے جانور پر سوارہونے کے لیے سیڑھی لگانی پڑتی مگر قدرت نے اس کے پائوں کو تین تہہ میں تقسیم کردیا یعنی ہر پائوں میں دو گھٹنے بنا دئیے، جسے وہ طے کر کے بیٹھ جاتا ہے تو اس پر چڑھنا اور اترنا آسان ہو جاتا ہے۔ محنت کش اتنا کہ سب جانوروں سے زیادہ بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ عرب کے میدانوں میں دھوپ کی وجہ سے دن کا سفر سخت مشکل ہے۔ قدرت نے اس کو رات بھر چلنے کا عادی بنا دیا۔ مسکین طبع ایسا ہے کہ ایک بچی اس کی مہار پکڑ کر جہاں چاہے لے جائے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خصوصیات میں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت بالغہ کا سبق دیتی ہیں۔ (معارف القرآن)

 یہ واحد جانور ہے کہ اس کو بیٹھا کر اس کی پیٹھ پر بوجھ لادیں، پھر اس کو کھڑا کریں تو یہ بوجھ سمیت اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کسی دوسرے جانور میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ پیٹھ پر بوجھ لاد کر بیٹھے سے اٹھ کھڑا ہو۔ کہتے ہیں کہ کسی شخص نے اپنے ایک دانا بزرگ کو بتایا کہ میں نے ایک ایسا جانور دیکھا ہے جو بوجھ لاد کر اٹھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ تو بزرگ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو اس کی گردن ضرور لمبی ہو گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اونٹ کی گردن بوجھ اٹھانے کے لیے لیور کا کام دیتی ہے۔ (حافظ احمد یار صاحب)

وَاِلَى السَّمَاۗءِ كَيْفَ رُفِعَتْ   18؀۪
[وَاِلَى السَّمَاۗءِ: اور آسمانوں کی طرف][ كَيْفَ رُفِعَتْ: (کہ) کیسا ان کو بلند کیا گیا]

وَاِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ     19؀۪
[وَاِلَى الْجبالِ: اور پہاڑوں کی طرف][ كَيْفَ نُصِبَتْ: (کہ) کیسا ان کو گاڑا گیا]

وَاِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ   20؀۪
وَاِلَى الْاَرْضِ: اور اس زمین کی طرف][ كَيْفَ سُطِحَتْ: (کہ) کیسا اس کو بچھایا گیا]

 

س ط ح

(ف) سَطَحًا بچھانا۔ ہموار کرنا۔ زیر مطالعہ آیت ۔20۔

فَذَكِّرْ    ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ   21؀ۭ
[فَذَكِّرْ: تو آپؐ نصیحت کرتے رہیں][ انمَآ انتَ مُذَكِّرٌ: آپؐ تو بس نصیحت کرنے والے ہیں]

 

نوٹ۔3: اب آیت۔21۔ اور اس سے آگے نبی
کو تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ آپ 1 کے انذار کو جھٹلا رہے ہیں وہ اس وجہ سے نہیں جھٹلا رہے ہیں کہ اس انذار کے حق میں دلائل نہیں ہیں۔ دلائل تو آسمان سے لے کر زمین تک چپہ چپہ پر ہیں لیکن ان سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے اندر خشیت ہوتی ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے دلوں پر قساوت چھا چکی ہے وہ ان نشانیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اس لیے آپ 1 ان کے ردوقبول سے بےنیاز ہو کر اپنی تذکیر وتبلیغ جاری رکھیں اور مطمئن رہیں کہ آپ 1 کا فرض تذکیر وتبلیغ ہی ہے۔ آپ 1 پر یہ ذمہ داری نہیں ہے آپ ان کے دلوں میں ایمان اتار ہی دیں۔ اللہ نے آپ کو یاد دہانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے، ان کے ایمان کا ٹھیکیدار بنا کر نہیں بھیجا ہے کہ ان کے ایمان نہ لانے کی پرسش آپ 1 سے ہو۔ (تدبر قرآن)

لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ  22؀ۙ
[لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِر: ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں]

اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَكَفَرَ   23؀ۙ
[اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَكَفَرَ: (اس لیے نصیحت کرتے ہیں) سوائے اس کے جس نے منہ موڑا اور (سننے سے ہی) انکار کیا]

 

 (آیت۔ 23) اِلاَّ سے استثناء کا تعلق سابقہ آیت میں مُصَیْطِرٍ سے نہیں ہے بلکہ اس سے بھی پہلے کی آیت میں فَذَکِّرْ سے ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ آپ 1 نصیحت کرتے رہیں سوائے اس کے جو منہ موڑے اور انکار کرے، کیونکہ آپ نصیحت کرنے والے ہیں، داروغہ نہیں ہیں۔

فَيُعَذِّبُهُ اللّٰهُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَ   24؀ۭ
[فَيُعَذِّبُهُ اللّٰهُ: تو ان کو تو عذاب دے گا اللہ] [الْعَذَابَ الْاَكْبَرَ: وہ بڑا (دوزخ کا) عذاب]

اِنَّ اِلَيْنَآ اِيَابَهُمْ  25؀ۙ
[ان اِلَيْنَآ: یقینا ہماری طرف ہی][ اِيَابَهُمْ : ان کی واپسی ہے]

ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ 26؀ۧ
[ثُمَّ ان عَلَيْنَا: پھر یقینا ہم پر ہی ہے][ حِسَابَهُمْ: ان سے حساب لینا]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَالْفَجْرِ   Ǻ۝ۙ
[وَالْفَجْرِ: قسم ہے فجر کی]

 

نوٹ۔1: یہاں پانچ چیزوں کی قسم کھا کر اس مضمون کی تاکید کی گئی ہے جو آگے اِنَّ رَبَّکَ لَیا لْمِرْصَادِ میں بیان ہوا ہے، یعنی اس دنیا میں تم جو کچھ کر رہے ہو اس پر جزاء وسزا ہونا لازمی اور یقینی ہے۔ تمہارا رب تمھارے سب اعمال کی نگرانی میں ہے۔

 وہ پانچ چیزیں جن کی قسم کھائی ہے، ان میں پہلی چیز فجر یعنی صبح صادق ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے مراد ہر روز کی صبح ہو، کیوں کہ وہ عالم میں ایک انقلاب عظیم لاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ حضرت علی (رض)  ، ابن عباس  (رض)  اور ابن زبیر (رض)  سے یہی معنی منقول ہے۔ بعض مفسرین نے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی یوم النحر (خون بہانے کا دن) کی صبح کو اس کی مراد قرر دیا ہے۔ مجاہد (رح)  وعکرمہ (رح)  کا یہی قول ہے۔ اور حضرت ابن عباس  (رض)  سے بھی ایک روایت میں یہ قول منقول ہے۔ اس یوم النحر کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دن کے ساتھ ایک رات لگائی ہے جو اسلامی اصول کے مطابق دن سے پہلے ہوتی ہے۔ صرف یوم النحر ایک ایسا دن ہے کہ اس کے ساتھ کوئی رات نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوم النحر سے پہلے جو رات ہے وہ یوم النحر کی نہیں بلکہ شرعاً یوم العرفہ ہی کی رات قرار دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی حج کرنے والا عرفہ کے دن میدان عرفات میں نہ پہنچ سکا لیکن رات کو صبح صادق سے پہلے کسی وقت بھی عرفات میں پہنچ گیا تو اس کا وقوف معتبر اور حج صحیح ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ روز عرفہ کی دو راتیں ہیں اور یوم النحرکی کوئی رات نہیں۔ اس طرح یوم النحر کی صبح ایک خاص شان رکھتی ہے۔

 دوسری قسم دس راتوں کی ہے۔ حضرت ابن عباس (رح) ، قتادہ (رح) ، مجاہد (رح) ، سُدّی (رح) ، ضحاک (رح) ، کلیبی (رح) ، ائمۂ تفسیر کے نزدیک ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں اس سے مراد ہیں۔ کیونکہ حدیث میں ان کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضرت ابن عباس  (رض)  نے فرمایا کہ یہ دس راتیں وہ ہی ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آئی ہیں۔ امام قرطبی (رح)  نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی یہی دس راتیں ذی الحجہ کی مقرر کی گئی تھیں۔

 وَالشَفْعِ وَالْوَتْرِ۔ قرآن کریم کے الفاظ سے یہ متعین نہیں کہ اِس جفت اور طاق سے کیا مراد ہے۔ اس لیے اس میں ائمۂ تفسیر کے بےشمار اقوال ہیں۔ ایک مرفوع حدیث میں جسے ابوزبیر نے حضرت جابر (رض)  سے روایت کیا ہے، یہ ہے کہ رسول اللہ
نے وَالْفَجْرِوَ لَیَالٍ عَشْر کے متعلق فرمایا کہ فجر سے مراد صبح اور عشر سے مراد عشرۂ نحر ہے۔ اور فرمایا کہ وتر سے مراد روز عرفہ اور شفع سے مراد یوم النحر ہے۔ قرطبی (رح)  نے اس روایت کو نقل کر کے فرمایا کہ یہ اسناد کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے بہ نسبت دوسری حدیث کے جس میں شفع اور وتر نماز کا ذکر ہے۔ اسی لیے حضرت ابن عباس  (رض) ، عکرمہ (رح) ، نحاس (رح)  نے اسی کو اختیار کیا کہ شفع سے مراد یوم النحر اور وتر سے مراد یوم عرفہ ہے۔

 وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ۔ یَسْرِیْ کی معنے رات کو چلنے کے ہیں۔ یہاں خود رات کو کہا گیا کہ جب وہ چلنے لگے یعنی ختم ہونے لگے۔ یہ پانچ قسمیں ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی دعوت دینے کے لیے فرمایا کہ کیا عقل والے آدمی کے لیے یہ قسمیں کافی ہیں یا نہیں۔ (معارف القرآن ج 8۔ ص 738 تا 740 سے ماخوذ)

نوٹ۔2: یہاں جو قسمیں کھائی گئی ہیں وہ دعوے پر شہادت کے لیے کھائی گئی ہیں کہ اس کائنات کا مدبر حقیقی اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کی باگ ہے۔ وہی جب چاہتا ہے ایک چیز کو نمودار کرتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کو اوجھل کر دیتا ہے۔ وہ جس کو جس حد تک چاہتا ہے ڈھیل دیتا ہے اور جہاں چاہتا ہے روک دیتا ہے۔ مجال نہیں ہے کہ کوئی چیز اپنی مقرر کردہ حد سے آگے بڑھے یا اس کے اختیار میں مداخلت کرسکے۔ (تدبر قرآن۔ ج 9۔ ص 346)

 ان اضداد سے پہلی دلیل تو قرآن نے توحید پر قائم کی ہے۔ (جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی ) ۔ اور قرآن نے اس سے دوسری دلیل قیامت پر قائم فرمائی ہے۔ وہ مختصر الفاظ میں یوں ہے کہ اس دنیا میں اس کے خالق نے ہر چیز جوڑے جوڑے پیدا کی ہے۔ اور ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر اپنی غایت کو پہنچتی ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہی حکم اس دنیا پر بھی لگ سکتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ آخرت کو نہ ملائیے تو اس کے اندر ایک ایسا خلا رہ جاتا ہے جو آخرت کو مانے بغیر کسی طرح نہیں بھرتا۔ اس میں نیکی اور بدی، عدل اور ظلم میں ہروقت جو کشمکش برپا ہے اس کا فطری مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایسا روز انصاف آئے جس میں اس کا خالق لوگوں کا محاسبہ کرے۔ پھر اچھے بندوں کو صلہ دے اور بروں کو ان کے کیفرِ کردار کو پہنچا دے۔ تیسری حقیقت یہ واضح فرمائی ہے کہ جس طرح انسان کے مادی وجود کے لیے دن کی روشنی اور حرارت کے ساتھ رات کی تاریکی اور خُنکیبھی ضروری ہے، اسی طرح اس کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو تنگی اور فراخی، صحت اور مرض کی آزمائشوں سے گزارا جائے، تاکہ اس کے صبر اور شکر کی تربیت ہو اور وہ رَاضِیَۃً مَرْضِیَۃً کا مقام حاصل کرنے کا اہل بنے۔ چوتھی حقیقت یہ واضح فرمائی کہ کسی کو، خواہ وہ کتنا ہی زور اور اثر رکھنے والا ہو، خدا کی ڈھیل سے اس گھمنڈ میں نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ اس کی گرفت سے باہر ہے۔ جب سورج اور چاند، رات اور دن اس کے کنٹرول سے باہر نہیں تو انسان کی کیا حقیقت ہے کہ وہ خود کو اس کے اقتدار سے باہر سمجھے۔ (تدبر قرآن۔ ج 9۔ ص 351 تا 353)

وَلَيَالٍ عَشْرٍ Ą۝ۙ
[وَلَيَالٍ عَشْرٍ: اور قسم ہے دس راتوں کی]

 

ترکیب: (آیت۔2) لَیَالٍ دراصل لَیَالِیٌ ہے جو قاعدہ کے مطابق تبدیل ہو کر لَیَالٍ لکھی جاتی ہے۔

وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ Ǽ۝ۙ
[وَّالشَّفْعِ: اور قسم ہے جفت کی][ وَالْوَتْرِ: اور قسم ہے طاق کی]

وَالَّيْلِ اِذَا يَسْرِ Ć۝ۚ
[وَالَّيْلِ: اور قسم ہے رات کی][ اِذَا يَسْرِ: جب وہ چلتی (ڈھلتی) ہے]

 

 (آیت۔4) یَسْرِ مادہ ’’ ی س ر‘‘ سے نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ اس کا ماضی ہوتا تو یَسَرَ یا یَسْرَ ہوتا اور اگر مضارع ہوتا یَیْسِرُ یا یَیْسُرْ ہوتا، کیونکہ یہ باب ضَرَبَ اور کَرمَ دونوں سے آتا ہے۔ یہاں یَسْرِ میں سین پر علامت سکون اور راکی کسرہ بتا رہی ہے کہ یہ مادہ ’’ س ر ی‘‘ کا مضارع یَسْرِیْ ہے، جس کی یا گری ہوئی ہے۔

هَلْ فِيْ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِيْ حِجْرٍ Ĉ۝ۭ
[هَلْ فِيْ ذٰلِكَ قَسَمٌ: کیا اس میں کوئی قسم ہے][ لِذِيْ حِجْرٍ: کسی عقل والے کیے لیے]

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ   Č۝۽
[اَلَمْ تَرَ: کیا آپؐ نے دیکھا نہیں][ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ: (کہ) کیسا کیا آپؐ کے رب نے][ بِعَادٍ: عاد کے ساتھ]

نوٹ۔3: جزا وسزا پر شب وروز کے نظام سے استدلال کرنے کے بعد آیات۔6 تا 14۔ میں انسانی تاریخ سے استدلال کیا گیا ہے۔ تاریخ کی چند معروف قوموں کے طرز عمل اور ان کے انجام کے ذکر سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ کائنات کسی اندھے بہرے قانون فطرت (
Law of Nature) پر نہیں چل رہی ہے بلکہ ایک خدائے حکیم اس کو چلا رہا ہے۔ اس خدا کی خدائی میں صرف ایک وہی قانون کار فرما نہیں ہے جسے تم قانون فطرت کہتے ہو۔ بلکہ ایک قانون اخلاق بھی کارفرما ہے جس کا لازمی تقاضا مکافاتِ عمل اور جزاء وسزا ہے۔ اس قانون کی کارفرمائی کے آثار خود اس دنیا میں بھی بار بار ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ یہاں جن قوموں نے بھی آخرت سے بےفکر ہو کر اپنی زندگی کا نظام چلایا وہ آخرکار مفسد بن کر رہے اور اس پر کائنات کے رب نے آخرکار عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ انسانی تاریخ کا یہ مسلسل تجربہ دو باتوں کی واضح شہادت دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ آخرت کا انکار ہر قوم کو بگاڑنے اور بالآخر تباہی میں دھکیلنے کا موجب ہوا ہے۔ اس لیے آخرت فی الواقع ایک حقیقت ہے جس سے ٹکرانے کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو حقیقت سے ٹکرانے کا ہوا کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جزائے اعمال کسی وقت مکمل طور پر بھی واقع ہونے والی ہے۔ کیونکہ فساد کی آخری حد پر پہنچ کر عذاب کا کوڑا جن لوگوں پر برسا، ان سے پہلے صدیوں تک بہت سے لوگ اس فساد کے بیچ بو کر دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ ان پر کوئی عذاب نہیں آیا تھا۔ خدا کے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی وقت ان سب کی بھی باز پرس ہو اور وہ بھی سزا پائیں۔ (تفہیم القرآن)

اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ   Ċ۝۽
[اِرَمَ: (یعنی عادِ) ارم کے ساتھ][ ذَاتِ الْعِمَادِ: جو ستونوں والے تھے]

 

 (آیت۔7) قبیلہ عاد دوتھے۔ عادِ اولیٰ کا دوسرا نام اِرَمُ (غیر منصرف) ہے۔ یہاں یہ عَادٍ کے بدل کے طور پر آیا ہے اس لیے اِرَمَ حالت جَر میں ہے۔ ذَاتِ اِلْعِمَادِ اِرَمَ کی صفت ہے اس لیے ذَاتِ حالت جر میں آیا ہے۔ اور عَادٍ ایک قبیلہ ہے اس لیے ذَاتِ مونث کا صیغہ آیا۔

الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ   Ď۝۽
[الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ: وہ، پیدا نہیں کیا گیا][ مِثْلُهَا: جن کے جیسا][ فِي الْبِلَادِ: سارے شہروں میں]

 

 (آیت۔8) لَمْ یُخْلَقْ کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مِثْلُھَا میں مِثْلُ حالت رفع میں آیا ہے۔

وَثَمُوْدَ الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ    ؀
[وَثَمُوْدَ: اور ثمود کے ساتھ][ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْر: جنھوں نے تراشیں چٹانیں][َ بِالْوَادِ: اس وادی میں]

 

 (آیات۔ 9۔10) ثَمُوْدَ اور فِرْعَوْنَ، یہ دونوں لِعَادٍ کی بِ پر عطف ہونے کی وجہ سے حالت جَرّ میں ہیں۔

وَفِرْعَوْنَ ذِي الْاَوْتَادِ   10۝۽
[وَفِرْعَوْنَ: اور فرعون کے ساتھ][ ذِي الْاَوْتَادِ: جو میخوں والا تھا]

الَّذِيْنَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ   11۝۽
[الَّذِينَ طَغَوْا: وہ لوگ جنھوں نے سرکشی کی][ فِي الْبِلَادِ: شہروں میں]

 

(آیت۔11) اَلَّذِیْنَ جمع کا صیغہ بتا رہا ہے کہ یہ عاد، ثمود اور فرعون تینوں کے لیے ہے۔

فَاَكْثَرُوْا فِيْهَا الْفَسَادَ   12۝۽
[فَاَكْثَرُوْا فِيْهَا: پھر انھوں نے کثرت دی ان میں][ الْفَسَادَ: فساد کو]

فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ  13۝ڌ
[فَصَبَّ عَلَيْهِمْ: تو برسایا ان پر][ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ: آپؐ کے رب نے ایک عذاب کا کوڑا]

اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ   14۝ۭ
[ان رَبَّكَ: بیشک آپؐ کا رب][ لَبِالْمِرْصَادِ: یقینا گھات میں ہے

فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ رَبُّهٗ فَاَكْرَمَهٗ وَنَعَّمَهٗ ڏ فَيَقُوْلُ رَبِّيْٓ اَكْرَمَنِ   15۝ۭ
[فَاَمَا الْانسَان: پس وہ جو ہے انسان][ اِذَا مَا: (تو) جب کبھی بھی][ ابْتَلٰىهُ: آزمائش میں ڈالتا ہے اس کو][ رَبُّهٗ: اس کا رب][ فَاَكْرَمَهٗ: تو وہ عزت دیتا ہے اس کو][ وَنَعَّمَهٗ: اور وہ بتدریج نعمت دیتا ہے اس کو][ ڏ فَيَقُوْلُ رَبِيْٓ: تو وہ (انسان) کہتا ہے میرے رب نے][ اَكْرَمَنِ: مہربانی کی مجھ پر]

 

نوٹ۔1: آیات۔15۔16۔ میں انسان سے مراد اصل میں تو کافر انسان ہے۔ مگر مفہوم عام کے اعتبار سے وہ مسلمان بھی اس خطاب میں شریک ہے جو اس جیسے خیال میں مبتلا ہو۔ اور وہ خیال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو اس کے رزق میں وسعت سے نوازے تو شیطان اس کو دوباطل خیالات میں مبتلا کرتا ہے۔ اول یہ کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ میری ذاتی صلاحیت، عقل وفہم اور محنت کا نتیجہ ہے جو مجھے ملنا ہی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ ان چیزوں کے حاصل ہونے سے وہ یہ سمجھ بیٹھے میں اللہ کے نزدیک بھی مقبول ہوں۔ اسی طرح سے جب کسی انسان پر رزق میں تنگی آئے تو اس کو اللہ کے نزدیک مردود ہونے کی دلیل سمجھے۔ ایسے خیالات کفار ومشرکین میں تو ہوتے ہی ہیں، مگر افسوس ہے کہ آج کل بہت سے مسلمان بھی اس گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ (معارف القرآن)

 اس دنیا میں انسان کو تنگی کی حالت پیش آئے یا فراخی کی، یہ دونوں ہی بطور امتحان پیش آتی ہیں۔ کسی کو فراخی بخشنے سے مقصود اس کے شکر کو جانچنا ہوتا ہے کہ نعمتیں پا کر وہ مغرور بن جاتا ہے یا اپنے رب کا شکر گزار اور اس کے بندوں کا خدمت گزار بنتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کا رزق تنگ کرتا ہے تو اس سے مقصود اس کے صبر کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کے فیصلے پر قانع و مطمئن اور اپنے کردار میں پُختہ ثابت ہوتا ہے یا حوصلہ ہار دیتا ہے۔ انسان کے صبروشکر کی پختگی ہی پر اس کے تمام دین کی پختگی کا انحصار ہے، اس لیے ان دونوں چیزوں کا امتحان برابر ہوتا رہتا ہے۔ جس نے اپنے اندر یہ دونوں صفات پیدا کر لیں، اس کو نفس مطمئنہ کی دولت حاصل ہو گئی اور اسی کو اللہ تعالیٰ کے ہاں رَاضِیَۃً مَرْضِیَّۃً کی بادشاہی حاصل ہو گی۔ (تدبر قرآن)

وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهٗ ڏ فَيَقُوْلُ رَبِّيْٓ اَهَانَنِ   16۝ۚ
[وَاَمَآ: اور وہ جو ہے][ اِذَا مَا: (کہ) جب کبھی بھی][ ابْتَلٰىهُ: وہ آزمائش میں ڈالتا ہے اس کو][ فَقَدَرَ عَلَيْهِ: تو وہ اندازہ (تنگی) کرتا ہے اس پر][ رِزْقَهٗ: اس کے رزق کا][ ڏ فَيَقُوْلُ رَبِيْٓ: تو وہ کہتا ہے میرے رب نے][ اَهَاننِ: اہانت کی میری]

كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ   17۝ۙ
[كَلَّا بَلْ: ہرگز نہیں، بلکہ (بات یہ ہے کہ)][ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ: تم لوگ مہربانی نہیں کرتے یتیم پر]

وَلَا تَحٰۗـضُّوْنَ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ   18۝ۙ
[وَلَا تَحٰۗـضُّوْنَ: اور تم لوگ ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے][ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ: مسکین کے کھانا (کھلانے) پر]

وَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا   19۝ۙ
[وَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ: اور تم لوگ کھاتے ہو میت کا مال][ اَكْلًا: جیسے کھاتے ہیں] لَّمًّا: سمیٹتے ہوئے]

وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا   20۝ۭ
[وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ: اور تم لوگ محبت کرتے ہو مال سے][ حُبًّا: جیسا محبت کرنے کا حق ہے][ جَمًّا: کثرت سے جمع کرتے ہوئے]

 

 ج م م

[جَمُوْمًا: (ن۔ ض) کسی چیز کا کثرت سے جمع ہونا۔ (لازم)]

[جَمًّا: کسی چیز کو کثرت سے جمع کرنا۔ (متعدی)، زیر مطالعہ آیت۔ 20۔]

كَلَّآ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا   21۝ۙ
[كَلَّآ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ: ہرگز نہیں، جب ہموار کی جائے گی زمین][ دَكًّا دَكًّا : کوٹ کوٹ کر]

وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا   22۝ۚ
[وَّجَاۗءَ رَبُّكَ: اور آئے گا آپؐ کا رب][ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا: اور سارے فرشتے قطار در قطار]

وَجِايْۗءَ يَوْمَىِٕذٍۢ بِجَهَنَّمَ   ڏ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى 23۝ۭ
[وَجِايْۗءَ يَوْمَىِٕذٍۢ بِجَهَنَّمَ: اور (نزدیک) لائی جائے گی اس دن جہنم][ ڏ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْانسَان: (تب) اس دن یاد کرے گا انسان][ وَ: اس حال میں (کہ)][انٰى لَهُ: کہاں ہوگی اس کے لیے][ الذِّكْرٰى: وہ بڑی نصیحت]

يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ قَدَّمْتُ لِحَيَاتِيْ  24۝ۚ
[يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ قَدَّمْتُ: (پھر) وہ کہے گا اے کاش میں نے آگے بھیجا ہوتا][ لِحَيَاتِيْ: اپنی زندگی کے لیے]

 

نوٹ۔2: آیت۔24۔ میں الفاظ ہیں جَائَ رَبُّکَ۔ ان کا لفظی ترجمہ ہے ’’ تیرا رب آئے گا۔‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کو ایک تمثیلی انداز بیان ہی سمجھنا ہو گا۔ جس سے یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے اقتدار اور اس کی سلطانی کے آثار اس طرح ظاہر ہوں گے جیسے دنیا میں کسی بادشاہ کے تمام لشکروں کی آمد سے وہ رعب طاری نہیں ہوتا جو بادشاہ کے خود دربار میں آ جانے سے طاری ہوتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهٗٓ اَحَدٌ   25؀ۙ
[فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُعَذِّبُ: تو اس دن عذاب نہیں دے (سکے) گا][ عَذَابَهٗٓ: اس (اللہ ) کے عذاب (جیسا)][ اَحَدٌ: کوئی ایک بھی]

 

نوٹ۔3: آیات۔ 25۔ 26۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن مجرموں کو ایسی سخت سزا دے گا اور ایسی سخت قید میں رکھے گا کہ کسی دوسرے کی طرف سے اس طرح کی سختی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں کہ ’’ اس روز نہ مارے گا اس کا سامارنا کوئی، نہ آگ نہ دوزخ کے مؤکل، نہ سانپ بچھو، جو دوزخ میں ہوں گے۔ کیونکہ ان کا مارنا اور دکھ دینا عذاب جسمانی ہے۔ اور حق تعالیٰ کا عذاب اس طور سے ہو گا کہ مجرم کی روح کو حسرت اور ندامت میں گرفتار کر دے گا، جو عذاب روحانی ہے، اور ظاہر ہے کہ عذاب روحانی کو عذاب جسمانی سے کیا نسبت۔ نیز نہ باندھے گا اس کا سا باندھنا کوئی۔ کیونکہ دوزخ کے پیادے ہر چند کہ دوزخیوں کے گلے میں طوق ڈالیں گے، زنجیروں سے جکڑیں گے اور دوزخ کے دروازے بند کر کے اوپر سے سر پوش رکھ دیں گے لیکن ان کی عقل اور خیال کو بند نہ کرسکیں گے۔ اور عقل وخیال کی عادت ہے کہ بہت سی باتوں کی طرف التفات کرتا ہے اور ان میں سے بعض باتیں دوسری باتوں کے لیے حجاب ہو جاتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ عقل وخیال کو ادھر ادھر جانے سے روک دے گا اور بالکل ہمہ تن دکھ درد ہی کی طرف متوجہ رکھے گا۔ تو ایسی قید بدنی قید سے ہزاروں درجے سخت ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

نوٹ۔4: نفس مطمئن سے مراد وہ انسان ہے جس نے کسی شک وشبہ کے بغیرپورے پورے اطمینان اور ٹھنڈے دل کے ساتھ اللہ وحدہٗ لاشریک کو اپنا رب اور انبیاء کے لائے ہوئے دین کو اپنا دین قرر دیا ہے۔ جو عقیدہ اور جو حکم بھی اللہ اور اس کے رسول سے ملا اسے سراسر حق مانا۔ جس چیز سے بھی اللہ کے دین نے منع کیا اسے بادل ناخواستہ نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ چھوڑا کہ فی الواقع وہ بری چیز ہے۔ حق پرستی کی راہ میں جس قربانی کی بھی ضرورت پیش آئی، بےدریغ پیش کر دی۔ جن مشکلات، تکالیف اور مصائب سے بھی اس راہ میں سابقہ پڑ، انھیں پورے سکون قلب کے ساتھ برداشت کیا اور دوسرے راستوں پر چلنے والوں کو اس دنیا میں جو فوائد منافع اور لذتیں حاصل ہوتی ہیں ان سے محروم رہ جانے پر اسے کوئی حسرت لاحق نہیں ہوئی، بلکہ وہ اس بات پر پوری طرح مطمئن رہا کہ دین حق کی پیروی نے اسے ان گندگیوں سے محفوظ رکھا ہے۔ (تفہیم القرآن)

11۔ ذی الحجہ 1431 ھ بمطابق 18۔ نومبر 2010 ء

وَّلَا يُوْثِقُ وَثَاقَهٗٓ اَحَدٌ   26؀ۭ
[وَّلَا يُوْثِقُ: اور نہیں جکڑے گا][ وَثَاقَهٗٓ: اس کا (سا) جکڑنا][ اَحَدٌ: کوئی ایک بھی]

يٰٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ   27؀ڰ
[يٰٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ: (پھر کہا جائے گا) اے مطمئن ہونے والی جان]

ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً   28؀ۚ
[ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِكِ: تو واپس چل اپنے رب کی طرف][ رَاضِيَةً: راضی ہوتے ہوئے (اپنے رب سے)][ مَّرْضِيَّةً: پسندیدہ ہوتے ہوئے (اپنے رب کی)]

فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ   29؀ۙ
[فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ: پھر تو داخل (شامل) ہو جا میرے بندوں میں]

وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ   30؀ۧ
[وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ: اور تو داخل ہو جا میری جنت میں]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ    Ǻ۝ۙ
[لَآ اُقْسِمُ: نہیں میں قسم کھاتا ہوں][ بِهٰذَا الْبَلَدِ: اس شہر کی]

 

نوٹ۔1: اس سورہ میں ایک بہت بڑے مضمون کی چند مختصر جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ اور یہ قرآن کا کمال اعجاز ہے کہ ایک پورا نظریۂ حیات، جسے مشکل سے ایک ضخیم کتاب میں بیان کیا جا سکتا تھا، اسے اس چھوٹی سی سورہ کے چھوٹے چھوٹے فقروں میں نہایت مؤثر طریقہ سے بیان کردیا گیا ہے۔ اس کا موضوع دنیا میں انسان کی، اور انسان کے لیے دنیا کی صحیح حیثیت سمجھانا اور یہ بتانا ہے کہ خدا نے انسان کے لیے سعادت اور شقاوت (نیک بختی اور بدبختی) کے دونوں راستے کھول کر رکھ دئیے ہیں، ان کے دیکھنے اور ان پر چلنے کے وسائل بھی اسے فراہم کر دئیے ہیں۔ اب یہ انسان کی اپنی کوشش اور محنت پر موقوف ہے کہ وہ سعادت کی راہ پر چل کر اچھے انجام کو پہنچتا ہے یا شقاوت کی راہ اختیار کر کے برے انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَاَنْتَ حِـۢلٌّ بِهٰذَا الْبَلَدِ  Ą۝ۙ
[وَانتَ حِـۢلٌّ: اور آپؐ کو حلال (سمجھا) ہے (کفارمکہ نے)][ بِهٰذَا الْبَلَدِ: اس شہر میں]

 

 آیت۔2۔ میں لفظ حِلٌّ میں دو احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ یہ حلول سے مشتق ہو، جس کے معنے کسی شئے کے اندر سمانے اور رہنے اور اترنے کے آتے ہیں۔ اس اعتبار سے حِلٌّ کے معنے اترنے اور رہنے کے ہوں گے اور مراد آیت کی یہ ہوگی کہ شہر مکہ خود بھی محترم ہے اور آپ 1 بھی اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس لیے شہر کی عظمت وحرمت دوہری ہو گئی۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ لفظ حِلٌّ مصدر حِلَّت سے مشتق ہو جس کے معنے کسی چیز کے حلال ہونے کے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ 1 کو کفار مکہ نے حلال سمجھ رکھا ہے۔ جس مقدس مقام پر کسی جانور کا قتل بھی جائز نہیں ہے، اور ان لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے، وہاں ان لوگوں نے اللہ کے رسول 1 کا قتل حلال سمجھ لیا ہے۔ دوسرے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ آپ 1 کے لیے حرمِ مکہ میں قتالِ کفار حلال ہونے والا ہے، جیسا کہ فتح مکہ میں ایک روز کے لیے کفار کا قتل حلال کردیا گیا تھا۔ مظہری میں تینوں احتمال مذکور ہیں۔

 آیت۔3۔ میں والد سے مراد حضرت آدمؑ ہیں اور مَاوَلدَ سے ان کی اولاد مراد ہے جو ابتدائے دنیا سے قیامت تک ہو گی۔ آگے جواب قسم مذکور ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت سے ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ اوّل عمر سے آخر تک محنتوں اور مشقتوں میں رہتا ہے۔ اس قسم اور جواب قسم میں انسان کو اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ تمھاری یہ خواہش کہ دنیا میں ہمیشہ راحت ہی راحت ملے اور کسی تکلیف سے سابقہ نہ پڑے، ایک خیال خام سے جو کبھی حاصل نہیں ہو گا۔ ہر شخص کو دنیا میں محنت و مشقت اور رنج ومصیبت ضرور ہی پیش آنی ہیں۔ اور جب ان کو پیش آنا ہی ہے تو عقلمند کا کام یہ ہے کہ اس چیز کے لیے مشقت جھیلے جو ہمیشہ اس کے کام آئے اور دائمی راحمت کا سامان ہے۔ اور یہ صرف ایمان اور طاعت حق میں منحصر ہے۔ (معارف القرآن)

وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ   Ǽ۝ۙ
[وَوَالِدٍ: اور قسم ہے جننے والے کی][ وَمَا وَلَدَ: اور اس کی جو اس نے جنا]

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ   Ć۝ۭ
[لَقَدْ خَلَقْنَا الْانسَان: بیشک ہم نے پیدا کیا ہے انسان کو][ فِيْ كَبَدٍ: ایک مشقت میں]

 

ک ب د

[ کَبْدًا: (س) درد جگر میں مبتلا ہونا۔ تکلیف برداشت کرنا۔][ کَبَدٌ اسم ذت ہے۔ سختی، مشقت، زیر مطالعہ آیت۔4۔]

 

 ترکیب: (آیت۔5) یَحْسَبُ میں شامل ھُوْ کی ضمیر فاعلی اَلْاِنْسَانَ کے لیے ہے۔

اَيَحْسَبُ اَنْ لَّنْ يَّقْدِرَ عَلَيْهِ اَحَدٌ  Ĉ۝ۘ
[اَيَحْسَبُ: کیا وہ (انسان) سمجھتا ہے][ ان لَّنْ يَّقْدِرَ عَلَيْه: کہ ہرگز قابو نہیں پائے گا اس پر][ِ اَحَدٌ: کوئی ایک بھی]

يَقُوْلُ اَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا  Č۝ۭ
[يَقُوْلُ اَهْلَكْتُ: وہ کہتا ہے میں نے ہلاک کیا (خرچ کیا)][ مَالًا لُّبَدًا: ڈھیروں ڈھیر مال]

 

نوٹ۔3: آیت۔6۔ میں یہ نہیں کہا کہ میں نے ڈھیر سا مال خرچ کر دیا، بلکہ اَھْلَکْتَ کہا ہے جس کے معنی ہیں کہ میں نے ڈھیر سا مال ہلاک کردیا یعنی لٹا دیا یا اڑا دیا۔ اور یہ مال اڑا دینا کس مد میں تھا۔ کسی حقیقی نیکی کے کام میں نہیں، جیسا کہ آگے کی آیات سے خودبخود ظاہر ہو رہا ہے بلکہ اپنی دولت مندی کی نمائش اور فخر کے اظہار میں تھا۔ شادی اور غمی کی رسموں میں سینکڑوں آدمیوں کی دعوت کرنا، جوئے میں دولت ہار دینا، جوا جیت جانے پر اونٹ پر اونٹ کاٹنا اور یار دوستوں کو خراب کھلانا، میلوں میں بڑے لائو لشکر کے ساتھ جانا اور دوسرے سرداروں سے بڑھ کر شان وشوکت کا مظاہرہ کرنا۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے نمائشی اخراجات تھے جنھیں جاہلیت میں آدمی کی فیاضی کی علامت اور اس کی بڑائی کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ انہی پر اس کی تعریفوں کے ڈنکے بجتے تھے اور وہ خود بھی ان پر اپنا فخر جتاتے تھے۔

 لیکن یہ فخر جتانے والا یہ نہیں سمجھتا کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو دیکھ رہا ہے کہ اس نے کن ذرائع سے یہ دولت حاصل کی، کن کاموں میں اسے کھپایا اور کن اغراض ومقاصد کے لیے اس نے یہ سارے کام کیے۔ کیا وہ سمجھتا ہے کہ خدا کے ہاں اس فضول خرچی، اس شہرت طلبی اور اس تفاخر کی کوئی قدر ہو گی۔ (تفہیم القرآن)

اَيَحْسَبُ اَنْ لَّمْ يَرَهٗٓ اَحَدٌ   Ċ۝ۭ
[اَيَحْسَبُ ان لَمْ يَرَهٗٓ: کیا وہ سمجھتا ہے کہ دیکھا ہی نہیں اس کو (کماتے خرچ کرتے)][ اَحَد: کسی ایک نے بھی]

اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَيْنَيْنِ   Ď۝ۙ
[اَلَمْ نَجْعَلْ لَهٗ: کیا ہم نے نہیں بنائیں اس کے لیے][ عَيْنَيْنِ: دو آنکھیں]

 

نوٹ۔4: آیات۔ 8۔9۔ کا مطلب یہ ہے کہ کیا ہم نے اسے علم وعقل کے ذرائع نہیں دئیے۔ دو آنکھوں سے مراد گائے اور بھینس کی آنکھیں نہیں بلکہ وہ انسانی آنکھیں ہیں جنھیں کھول کر آدمی دیکھے تو اسے ہر طرف وہ نشانات نظر آئیں جو حقیقت کا پتہ دیتے ہیں۔ اور صحیح وغلط کا فرق سمجھاتے ہیں۔ زبان اور ہونٹوں سے مراد محض بولنے کے آلات نہیں ہیں بلکہ نفس ناطقہ جو ان آلات کی پشت پر سوچنے سمجھنے کا کام کرتا ہے۔ پھر انسان ان سے اظہارِ مافی الضمیر کا کام لیتا ہے۔

وَلِسَانًا وَّشَفَتَيْنِ  ۝ۙ
[وَلِسَانا وَّشَفَتَيْنِ: اور ایک زبان اور دو ہونٹ]

ش ف ھـ

[شَفْھًا: (ف) شَفْھًا ہونٹ پر مارنا۔][ شَفَۃٌ: اسم ذات ہے۔ ہونٹ۔ تثنیہ شَفَتَانِ۔ شَفَتَیْنِ۔ جمع شِفَاہٌ اور شَفَھَاتٌ۔ (یہ دراصل شَفَھَۃٌ ہے۔ اہل زبان اس کی ھا گرا کر شَفَۃٌ بولتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمع میں اس کی ھا واپس آ جاتی ہے) ۔ زیر مطالعہ آیت۔9۔]

وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ   10۝ۚ
[وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ : اور ہم نے سمجھا دیئے اس کو دونوں راستے]

 

ن ج د

[نُجُوْد: (ن) نُجُوْدً ظاہر ہونا واضح ہونا۔][ نَجْد:ٌ اسم ذات ہے۔ بلند راستہ۔ واضح راستہ۔ زیر مطالعہ]

 

پھر آیت۔10۔ میں فرمایا کہ ہم نے محض عقل وفکر کی طاقتیں عطا کر کے انسان کو چھوڑ نہیں دیا کہ وہ اپنا راستہ خود تلاش کرے۔ بلکہ اس کی رہنمائی بھی کی۔ اس کے سامنے بھلائی اور برائی، نیکی اور بدی، دونوں کے راستے نمایاں کر کے رکھ دئیے تاکہ وہ سوچ سمجھ کر ان میں سے جس کو چاہے اختیار کر لے۔ یہ وہی بات ہے جو سورۂ دھر میں فرمائی گئی ہے کہ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا۔ خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔ (تفہیم القرآن)

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ   11۝ڮ
[فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ: پس وہ نہیں گھسا اس گھاٹی میں ]

 

 

نوٹ۔5: آیت۔11۔ میں اَلْعَقَبَۃَ آیا ہے۔ عقبہ پہاڑ کی بڑی چٹان کو بھی کہتے ہیں اور دو پہاڑوں کے درمیانی راستے یعنی گھاٹی کو بھی۔ دشمن سے نجات حاصل کرنے میں یہ عقبہ انسان کی مدد کرتا ہے کہ پہاڑ کے اوپر چڑھ کر دشمن سے اپنے آپ کو بچا لے یا پھر گھاٹی میں داخل ہو کر کہیں نکل جائے۔ اس جگہ طاعات وعبادات کو عقبہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ جس طرح عقبہ دشمن سے نجات دلانے کا سبب ہوتا ہے اسی طرح اعمالِ صالحہ آخرت کے عذاب سے نجات کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پھر ان اعمال صالحہ میں پہلے فرمایا کسی غلام (یا مقروض) کو آزاد کرنا۔ یہ بہت بڑی عبادت ہے اور ایک انسان کی زندگی کو سنوار دینا ہے۔ دوسری چیز بیان فرمائی بھوکے کو کھانا کھلانا۔ کسی کو بھی کھانا کھلایا جائے وہ ثواب سے خالی نہیں ہے، لیکن جب کسی ایسے یتیم کو کھلایا جائے جس کے ساتھ رشتہ داری بھی ہے تو اس میں دوہرا ثواب ہو گیا۔ ایک بھوکے کا پیٹ بھرنا دوسرے صلہ رحمی کا حق ادا کرنا۔ اگر یتیم رشتہ دار نہ ہو تو ایسا مسکین ہو جو محتاج ہو۔ (معارف القرآن)

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُ   12۝ۭ
[وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُ: اور تو کیا سمجھا کیا ہے وہ گھاٹی]

فَكُّ رَقَبَةٍ  13۝ۙ
[فَكُّ رَقَبَةٍ : (وہ) کسی گردن کا چھڑانا ہے]

 

 

(آیت۔13) فَکُّ رَقَبَۃٍ مرکب اضافی ہے اور خبر ہے۔ اس کا مبتدا ھِیَ محذوف ہے (آیات۔14 تا 16) اِطْعَامٌ مصدر ہے۔ اس نے فعل کا کام کیا ہے اور یَتِیْمًا اور مِسْکیْنًا کو نصب دی ہے۔ (دیکھیں آیت۔3/ 54، نوٹ۔1) ۔ (آیت۔20) نَارٌ نکرہ مخصوصہ ہے اور مُؤْصَدَہٌ اس کی خصوصیت ہے۔

اَوْ اِطْعٰمٌ فِيْ يَوْمٍ ذِيْ مَسْغَبَةٍ   14۝ۙ
[اَوْ اِطْعٰمٌ فِيْ يَوْمٍ: یا کھلانا ہے کسی ایسے دن میں جو][ ذِيْ مَسْغَبَةٍ : بھوک والا ہو]

 

س غ ب

[سَغَبًا: (س) وَمَسْغَبَۃً بھوکا ہونا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 14۔]

يَّـتِيْمًـا ذَا مَقْرَبَةٍ   15۝ۙ
[يَّـتِيْمًـا ذَا مَقْرَبَةٍ: کسی ایسے یتیم کو جو قربت والا ہو]

اَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ  16۝ۭ
[اَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ: یا کسی ایسے مسکین کو جو محتاجی والا ہو]

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ   17؀ۭ
[ثُمَّ كَان: پھر وہ ہو (بھی)][ مِنَ الَّذِينَ اٰمَنُوْا: ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے][ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر: اور باہم تاکید کی ثابت قدم رہنے کی][ِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ : اور باہم تاکید کی رحم دل ہونے کی]

 

نوٹ۔6: آیت۔ 17۔ کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ اوصاف کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ آدمی مومن بھی ہو۔ کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی عمل نہ تو عمل صالح ہے اور نہ وہ اللہ کے ہاں مقبول ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ نیکی وہی قابل قدر اور ذریعہ نجات ہے جو ایمان کے ساتھ ہو۔ مثلاً سورۂ نساء کی آیت۔ 124۔ میں فرمایا کہ جو نیک اعمال کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور (اس حال میں کہ) ہو وہ مومن، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ سورۂ نحل کی آیت۔ 97۔ میں فرمایا کہ جو نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور (اس حال میں کہ) ہو وہ مومن، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ایسے لوگوں کو ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے۔ جو شخص بھی قرآن پاک کا مطالعہ کرے گا وہ یہ دیکھے گا کہ اس کتاب میں جہاں بھی عمل صالح کے اجر کا ذکر ہے وہاں لازماً اس کے ساتھ ایمان کی شرط لگی ہوئی ہے۔ ایمان کے بغیر عمل کو قرآن میں کہیں بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں قرار دیا گیا اور نہ اس پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے۔ (تفہیم القرآن)

مورخہ۔14 ذی الحجہ 1431 ھ بمطابق 21۔ نومبر 2010 ء

اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ   18؀ۭ
[اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ : وہ لوگ داہنی طرف والے ہیں]

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا هُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَةِ    19؀ۭ
[وَالَّذِينَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا: اور وہ لوگ جنھوں نے انکار کیا ہماری آیتوں کا][ هُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَةِ : وہ بائیں طرف والے ہیں]

عَلَيْهِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَةٌ   20؀ۧ
[عَلَيْهِمْ نَارٌ: ان پر ایک ایسی آگ ہے جو][ مُّؤْصَدَةٌ: اوپر سے بند کی ہوئی ہے]

ء ص د

 ثلاثی مجرد سے فعل نہیں آتا۔

[اِیْصَادَ: (افعال) دروازہ یا ڈھکن بند کرنا۔][ مُؤصَدٌ اسم المفعول ہے۔ بند کیا ہوا۔ سر بمہر کیا ہوا۔ زیر مطالعہ]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَالشَّمْسِ وَضُحٰىهَا   Ǻ۝۽
[وَالشَّمْسِ وَضُحٰىهَا: قسم ہے سورج کی اور اس کی روشنی کی]

 

نوٹ۔1: مضمون کے لحاظ سے یہ سورہ دو حصوں میں مشتمل ہے۔ پہلا حصہ سورہ کے آغاز سے آیت۔10۔ پر ختم ہوتا ہے۔ اور دوسرا حصہ آیت۔ 11۔ سے آخر تک چلتا ہے۔ پہلے حصے میں تین باتیں سمجھائی گئی ہیں۔ ایک یہ جس طرح چاند، سورج، رات ، دن اور زمین و آسمان ایک دوسرے سے مختلف اور نتائج میں متضاد ہیں اسی طرح سے نیکی اور بدی بھی ایک دوسرے سے مختلف اور نتائج میں متضاد ہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کو جسم، حواس اور ذہن کی قوتیں دے کر ایک فطری الہام کے ذریعے اس کے لاشعور میں نیکی اور بدی کا فرق، ان کے مابین امتیاز اور ایک کے خیر اور دوسرے کے شر ہونے کا احساس اتار دیا ہے۔ تیسرے یہ کہ انسان کے مستقبل کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اپنے نفس کے اچھے اور برے رجحانات میں سے کس کو ابھارتا اور کس کو دباتا ہے۔ دوسرے حصے میں قوم ثمود کی تاریخی مثال پیش کرتے ہوئے رسالت کی اہمیت سمجھائی گئی ہے۔ رسول دنیا میں اس لیے بھیجا جاتا ہے کہ بھلائی اور برائی کا جو الہامی علم اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھ دیا ہے، وہ بجائے خود انسان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے۔ کیونکہ اس الہامی علم کو پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی انسان خیروشر کے غلط فلسفے اور معیار تجویز کر کے گمراہ ہوتا رہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام پر واضح اور صاف صاف وحی نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کو کھول کر بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا  Ą۝۽
[وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا: اور قسم ہے چاند کی جب وہ پیچھے پیچھے آتا ہے اس (سورج) کے]

وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا  Ǽ۝۽
وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا: اور قسم ہے دن کی جب وہ خوب روشن کر دیتا ہے اس (سورج) کو]

وَاللَّيْلِ اِذَا يَغْشٰـىهَا  Ć۝۽
وَاللَّيْلِ اِذَا يَغْشٰـىهَا: اور قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لیتی ہے اس (سورج) کو]

وَالسَّمَاۗءِ وَمَا بَنٰىهَا  Ĉ۝۽
وَالسَّمَاۗءِ: اور قسم ہے آسمان کی][ وَمَا: اور اس کی جیسا][ بَنٰىهَا: اس نے بنایا اس (آسمان) کو]

 

ترکیب: آیات۔ 5 تا 7 میں مَا کا لفظ آیا ہے۔ اس کو مصدر یہ بھی مانا گیا ہے اور موصولہ بھی۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ ذوی عقول کے لیے مَنْ موصولہ آتا ہے اور غیر ذوی عقول کے لیے مَا آتا ہے۔ لیکن عربی میں کبھی کبھی مَا بھی ذوی عقول کے لیے آ جاتا ہے۔ یعنی کبھی مَا بھی مَنْ کے معنی میں آ جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دونوں ترجمے درست مانے جائیں گے۔ ہم مَا مصدر یہ مان کر ترجمہ کریں گے۔

وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىهَا  Č۝۽
وَالْاَرْضِ: اور قسم ہے زمین کی][ وَمَا: اور اس کی جیسا][ طَحٰىهَا: اس نے پھیلایا اس کو]

 

 

ط ح ی

[طَحْیًا: (ض) کسی چیز کو پھیلانا۔ زیر مطالعہ]

 (آیت۔6) طَحَا کا مادہ ’’ ط ح و‘‘ بھی ہے اور ’’ ط ح ی‘‘ بھی۔ ناقص واوی میں یہ دوسرے معانی کے ساتھ پھیلنا (لازم) اور پھیلانا (متعدی) دونوں معانی میں آتا ہے۔ جبکہ یایی میں یہ صرف پھیلانا (متعدی) کے معنی دیتا ہے۔ اس طرح اس آیت میں طَحَا کوواوی بھی مان سکتے تھے۔ اور یایی بھی۔ لیکن قرآن مجید کی کتابت پر جب غور کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ھَا سے پہلے ایک دندانہ بنا ہوا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ کاتبانِ وحی نے اس کو یایی مان کر لکھا تھا۔ کیونکہ اگر واوی مان کر لکھتے تو یہ طَحٰھَا (دندانے کے بغیر) لکھا ہوتا۔ طَحٰچھَا لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ھا کی ضمیر طَحَا (واوی) پر نہیں بلکہ طَحٰی (یایی) پر لگائی ہے۔

وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا  Ċ۝۽
[وَنَفْسٍ: اور قسم ہے نفس کی][ وَمَا: اور اس کی جیسا][ سَوّٰىهَا: اس نے سنوارا اس کو]

فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا  Ď۝۽
[فَاَلْهَمَهَا: پھر اس نے الہام کیا اس میں][ فُجورَهَا: اس کی نافرمانی][ وَتَقْوٰىهَا: اور اس کی پرہیزگاری (کا شعور)]

 

 ل ھـ م

[ لَھْمًا (س) کسی چیز کو ایک ہی مرتبہ میں نگل جانا۔ ہڑپ کر جانا۔]

(افعال) اِلْھَاماً نگلوانا۔ کسی کے دل میں کوئی بات القا کر دینا۔ (لیکن یہ لفظ ایسی بات کے القا کے ساتھ مخصوص ہو چکا ہے جو اللہ تعالیٰ یا ملائِ اعلیٰ کی جانب سے دل میں ڈالی جاتی ہے۔ مفردات)

 (آیت۔8) یہ آیت جوابِ قسم نہیں ہے بلکہ یہ سابقہ آیت میں قسم وَنَفْسٍ کا جز ہے۔ ان قسموں کا جوابِ قسم آگے آیات۔ 9۔10۔ میں آیا ہے۔ دَسّٰچھَا۔ یہ اگر مادہ ’’ دسس‘‘ کے ثلاثی مجرد سے ہوتا تو یہ دَسَّھَا ہوتا۔ نہ سین پر کھڑا زبر ہوتا اور نہ اس کے آگے یا کا دندانہ ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ باب تفعیل سے ماضی کا صیغہ دَسَّسَ ہے۔ قاعدے کے مطابق تیسری سین یا میں تبدیل ہوئی تو یہ دَسَّیَ ہوا۔ پھر قاعدے کے مطابق دَسّٰی استعمال ہوتا ہے۔ (دیکھیں آیت۔ 2/259، نوٹ۔2)

 

نوٹ۔2: آیت۔8۔ کا جملہ ساتویں قسم وَنَفْسٍ کے ساتھ مربوط ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کو بنایا پھر اس کے دل میں فجور اور تقویٰ ، دونوں کا الہام کر دیا۔ مراد یہ ہے کہ نفس انسانی کی تخلیق میں حق تعالیٰ نے گناہ اور طاعت، دونوں کے مادے اور استعداد رکھ دی ہے۔ پھر انسان کو ایک اختیار اور قدرت دے دی کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے گناہ کی راہ اختیار کرلے یا طاعت کی۔ جب وہ اپنے ارادے اور اختیار سے ان میں سے کوئی راہ اختیار کرتا ہے تو اسی ارادے اور اختیار پر اس کو ثواب یا عذاب ملتا ہے۔ (معارف القرآن)

 اس جگہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فطری الہام اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق پر اس کی نوعیت کے لحاظ سے کیا ہے۔ مثلاً حیوانات کی ہر نوع کو اس کی ضرورت کے مطابق الہامی علم دیا ہے جس کی بنا پر مچھلی کو تیرنا، پرندے کو اڑنا، شہد کی مکھی کو چھتہ بنانا اور بئے (چھوٹی چڑیا) کو گھونسلا بنانا آ جاتا ہے۔ انسان کو اس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے الگ الگ قسم کے الہامی علوم دئیے گئے ہیں۔ انسان کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک حیوانی وجود ہے۔ اس حیثیت سے جو الہامی علم اس کو دیا گیا ہے اس کی ایک نمایاں ترین مثال بچے کا پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ چوسنا ہے۔ اس کی تعلیم اگر خدا نے فطری طور پر اس کو نہ دی ہوتی تو کوئی اسے یہ فن نہ سکھا سکتا تھا۔ اس کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک عقلی وجود ہے۔ اس حیثیت سے خدا نے انسان کے آغاز سے مسلسل اس کو الہامی رہنمائی دی ہے جس کی بدولت وہ پے در پے ایجادات کر کے تمدن میں ترقی کر رہا ہے ان ایجادات کی تاریخ کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ محسوس کرے گا کہ ان میں شاید ہی کوئی ایسی ہو جو محض انسانی فکر وکاوش کا نتیجہ ہو، ورنہ ہر ایک کی ابتدا اسی طرح ہوئی ہے کہ کسی شخص کے ذہن میں ایک بات آ گئی اور اس کی بدولت اس نے کوئی چیز ایجاد کر لی۔ ان دونوں حیثیتوں کے علاوہ انسان کی ایک اور حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک اخلاقی وجود ہے۔ اس حیثیت سے بھی اللہ تعالیٰ نے اسے خیروشر کا امتیاز اور خیر کے خیر ہونے اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا ہے۔ یہ امتیاز اور احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیروشرکے تصورات سے خالی نہیں رہا۔ اور کوئی ایسا معاشرہ نہ تاریخ میں کبھی پایا گیا ہے اور نہ اب پایا جاتا ہے جس کے نظام میں بھلائی اور برائی پر جزا اور سزا کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار نہ کی گئی ہو۔ اس چیز کا ہر زمانے، ہر جگہ اور ہر مرحلۂ تہذیب وتمدن میں پایا جانا، اس کے فطری ہونے کا صریح ثبوت ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ اس حقیقت کا بھی ثبوت ہے کہ ایک حکیم اور دانا خالق نے اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن مادی اجزا سے انسان کا جسمانی وجود مرکب ہے اور دنیا کا مادی نظام جن قوانین کے تحت چل رہا ہے، ان کے اندر کہیں بھی اخلاق کے ماخذ کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔ (تفہیم القرآن)

كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَآ  11۝۽
[كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ: جھٹلایا ثمود نے (رسول کو)][ بِطَغْوٰىهَآ: اپنی سرکشی کے باعث]

اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا  12۝۽
[اِذِ انۢبَعَثَ: جب اٹھ کھڑا ہوا][ اَشْقٰىهَا: ان کا زیادہ شقی]

 

نوٹ۔4: آیات۔12۔ اور 14۔ پر غور کرنے سے ایک خاص بات یہ سامنے آتی ہے کہ اگرچہ اونٹنی کے قتل کا ارتکاب قوم کے اندر سے ایک ہی شخص نے کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا مجرم پوری قوم کو ٹھہرایا اور اس کی سزا بھی پوری قوم کو دی۔ اس سے قرآن کے فلسفۂ تاریخ کا یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کے جرم میں پوری قوم کو سزا دیتا ہے اگر قوم اس جرم پر راضی ہو۔ اس کے وبال سے صرف وہی لوگ بچتے ہیں جو اپنے مقدور بھر اس کی اصلاح کے لیے جو کرسکتے ہوں وہ کر گزریں اور اگر کچھ نہ کرسکتے ہوں تو ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اس سے بیزار اور کنارہ کش رہیں۔ اس سے نیچے نہ ایمان کا کوئی درجہ ہے نہ خدا کی پکڑے بچنے کی کوئی سبیل ہے۔

 بِذَنَبِھِمْ کے الفاظ سے وضاحت ہو گئی کہ عذاب ان کے اوپر اس جرم کے سبب سے آیا کہ اللہ کے رسول کی تنبیہہ کے باوجود انھوں نے اونٹنی کو گزندپہنچانے کی جسارت کی۔ ظاہر ہے کہ اس جرم کے بعد اگر ان کو ڈھیل ملتی تو وہ اللہ کے رسول پر بھی ہاتھ ڈالنے کی جسارت کر گزرتے اور یہ وہ جرم ہے جس کی مہلت اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو نہیں دی بلکہ جب کسی قوم نے رسول کے قتل کا ارادہ کیا تو وہ تباہ کر دی گئی۔ (یہ سنت الٰہی رسولوں سے متعلق ہے۔ جبکہ انبیاء قتل کیے گئے ہیں۔ مرتب)

 معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ اس دور میں نازل ہوئی ہے جب قریش کے لیڈروں نے رسول اللہ
کے قتل کے مشورے شروع کر دئیے تھے۔ یہ مشورے چونکہ خفیہ تھے۔ اس وجہ سے قرآن نے بھی اشارات کی زبان میں ان کو آگاہی دے دی کہ اگر وہ کوئی ارادہ بد اپنے دل میں پرورش کر رہے ہیں تو اس کے دور رس نتائج پر نگاہ ڈال لیں۔ (تدبیر قرآن)

فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَسُقْيٰهَا  13۝ۭ
[فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ: تو کہا ان لوگوں سے اللہ کے رسولؑ نے][ نَاقَةَ اللّٰهِ: (محتاط رہو) اللہ کی اونٹنی سے][ وَسُقْيٰهَا: اور اس کے پینے (کی باری ) سے]

 

(آیت۔13) ۔ نَاقَۃَ اللّٰہِ میں نَاقَۃَ کی نصب بتا رہی ہے کہ اس کا فعل محذوف ہے جو کہ اِحْذَرُوْا (تم لوگ محتاط رہو) ہو سکتا ہے۔

فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَا    ۱ فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَا  14۝۽
[فَكَذَّبُوْهُ: پھر انھوں نے جھٹلایا ان (رسولؑ) کو][ فَعَقَرُوْهَا: تو انھوں نے ٹانگیں کاٹیں اس (اونٹنی) کی][ فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ: پس دھمادھم برسایا ان پر (عذاب)][ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ: ان کے رب نے ان کے گناہ کے باعث][ فَسَوّٰىهَا: تو اس نے برابر کردیا اس (قوم) کو]

وَلَا يَخَافُ عُقْبٰهَا  15؀ۧ
[وَلَا يَخَافُ: اور وہ نہیں ڈرتا] [عُقْبٰهَا: اس کے نتیجے سے]

 

نوٹ۔5: آیت۔15۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو تباہ کرتا ہے، تو اپنی اس سنت کے مطابق کرتا ہے جو اس نے اس دنیا کی مصلحت اور بہبود کے لیے اپنے علم اور قدرت کے تحت ٹھہرا رکھی ہے اس وجہ سے نہ اس کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ نتیجہ کے اعتبار سے اس کے اس فیصلے میں کوئی غلطی ہو سکتی ہے اور نہ یہ خوف ہوتا ہے کہ اس کو کوئی چیلنج کرسکتا ہے۔ اس سے ضمنی طور پر ان لغو بیانات کی بھی نفی ہو جاتی ہے جو تو رات کی کتاب پیدائش میں اس کے راویوں نے ملائے ہیں۔ مثلاً ’’ اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اس کے تصور اور خیالات سدا (ہمیشہ) برے ہیں، تب خداوند زمین پر انسان کو پید اکرنے سے ملول ہوا اور دل میں غم کیا۔‘‘

(پیدائش۔ باب۔6۔ آیت۔ 5۔6) (تدبر قرآن)

مورخہ 16۔ ذی الحجہ 1431 ھ بمطابق 23۔ نومبر 2010 ء

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى   Ǻ۝ۙ
[وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى: قسم ہے رات کی جب وہ چھا جاتی ہے]

وَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى   Ą۝ۙ
[وَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى : اور قسم ہے دن کی جب وہ خوب روشن ہوتا ہے]

وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰٓى   Ǽ۝ۙ
[وَمَا: اور قسم ہے اس کی جو][ خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْانثٰٓى: اس نے پیدا کیے مذکر اور مؤنث]

اِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتّٰى  Ć۝ۭ
[ان سَعْيَكُمْ لَشَتّٰى: بیشک تم لوگوں کی سعی و جہد متفرق ہے]

 

ترکیب: (آیت۔4) شَتّٰی۔ یہ مادہ ’’ ش ت ت‘‘ سے باب تفعیل کا ماضی کا صیغہ نہیں ہے کیونکہ اس پر اِنَّ کی خبر پر آنے والا لامِ تاکید لگا ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دراصل فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت شَتِیْتٌ کی جمع ہے، جیسے مَرِیْضٌ کی جمع مَرْضٰی ہے اس حوالے سے یہاں پر یہ بھی نوٹ کرلیں کہ فُعْلٰی کا وزن افعل تفضیل کی مؤنث کے لیے ہے۔ جبکہ فَعْلٰی جمع مکسر کے اوزان میں سے ایک وزن ہے۔

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى   Ĉ۝ۙ
[فَاَمَا مَنْ: پس وہ جو ہے جس نے][ اَعْطٰى وَاتَّقٰى: خوش دلی سے دیا اور پرہیزگار رہا]

 

نوٹ۔1: آیات۔5۔6۔ میں انسانی کوششوں کی ایک قسم میں سے تین کا ذکر کیا گیا ہے غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام خوبیوں کی جامع ہیں۔ ایک یہ کہ انسان ذرپرستی میں مبتلا نہ ہو بلکہ کھلے دل سے اپنا مال، جتنا کچھ اللہ نے دیا ہے، اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے میں صرف کرے۔ دوسرے یہ کہ اس کے دل میں خدا کا خوف ہو۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کاموں سے پرہیز کرے جو خدا کی ناراضی کے موجب ہوں۔ تیسرے یہ کہ وہ بھلائی کی تصدیق کرے۔ بھلائی ایک وسیع المعانی لفظ ہے جس میں عقیدے، اخلاق اور اعمال، تینوں کی بھلائی شامل ہے۔ انسانی کوششوں کی اس قسم کا نتیجہ اگلی آیت میں بیان ہوا ہے اس طرزِ زندگی میں سب سے پہلی آسانی انسان کو یہ حاصل ہوتی ہے کہ یہ راستہ انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ اس میں انسان کو اپنے ضمیر سے لڑ کر نہیں چلنا پڑتا۔ اس میں انسان کو ہر طرف اس مزاحمت اور کشمکش سے سابقہ پیش نہیں آتا جو گناہوں سے بھری زندگی میں پیش آتا ہے۔ اور معاشرے میں اسے ہر قدم پر صلح و آشتی اور قدرومنزلت میسر آتی چلی جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو آدمی اپنا مال خلق خدا کی بھلائی کے لیے خرچ کر رہا ہو، جس سے کسی کو خیانت، ظلم اور زیادتی کا اندیشہ نہ ہو، وہ خواہ کیسے ہی بگڑے ہوئے معاشرے میں رہتا ہو، بہرحال اس کی قدر ہو کر رہتی ہے۔ لوگ اس کی طرف کھنچتے ہیں۔ اس کا اپنا قلب وضمیر بھی مطمئن ہوتا ہے اور معاشرے میں اس کو وہ وقار حاصل ہوتا ہے جو کبھی کسی بدکردار آدمی کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہی بات سورۂ نحل کی آیت۔97۔ میں اس طرح فرمائی گئی کہ جو شخص نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور (یعنی اس حال میں کہ ) ہو وہ مومن، تو اسے ہم پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔ اور اسی بات کو سورۂ مریم کی آیت۔96، میں یوں فرمایا گیا کہ یقینا جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے، تو رحمان ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا۔

 یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے سورۂ بلد میں اسی راستے کو دشوار گزار گھاٹی کہا گیا ہے اور یہاں اس کو آسان راستہ قرار دیا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ہوگی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس راہ کو اختیار کرنے سے پہلے یہ آدمی کو دشوار گزار گھاٹی ہی محسوس ہوتی ہے جس پر چڑھنے کے لیے اسے اپنے نفس کی خواہشوں سے، اپنے دنیا پرست اہل وعیال سے، اپنے رشتہ داروں سے، اپنے دوستوں اور معاملہ داروں سے اور سب سے بڑھ کر شیطان سے لڑنا پڑتا ہے، کیونکہ ہر ایک اس میں رکاوٹیں ڈالتا ہے اور اس کو خوفناک بنا کر دکھاتا ہے۔ لیکن جب انسان اس پر چلنے کا عزم کر لیتا ہے تو اس گھاٹی پر چڑھنا اس کے لیے آسان اور اخلاقی پستیوں کے کھڈ میں لڑھکنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ اس راستے پر چلنے سے پہلے یہ انسان کو دشوار گزار محسوس ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ عملاً اس پر چلنا شروع کر دیتا ہے تو پھر اسے بتدریج وہ آسانیاں میسر آنا شروع ہو جاتی ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ مرتب) پھر یہی وہ راستہ ہے جس میں دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کے لیے سرور ہی سرور اور راحت ہی راحت ہے۔ اس کے نتائج عارضی اور وقتی نہیں بلکہ ابدی اور لازوال ہیں۔ (تفہیم القرآن)

وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى   Č۝ۙ
[وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى: اور اس نے تصدیق کی اس بڑی بھلائی کی]

فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْيُسْرٰى  Ċ۝ۭ
[فَسَنُيَسِّرُهٗ: تو ہم پہنچا دیں گے اس کو][ لِلْيُسْرٰى: اس بڑی آسانی تک]

وَاَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰى  Ď۝ۙ
[وَاَمَا مَنْۢ: اور وہ جو ہے جس نے][ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰى: کنجوسی کی اور بےپرواہ ہوا]

 

نوٹ۔2: آیات۔8۔9۔ میں انسانی کوششوں میں سے دوسری قسم کا بیان ہے جو اپنے ہر جز میں پہلی قسم کے ہر جز سے مختلف ہے۔ عام طور پر لوگ اس آدمی کو کنجوس کہتے ہیں جو روپیہ پیسہ جوڑ کر رکھتا ہے اور اسے اپنے اور اپنے بال بچوں پر خرچ نہیں کرتا۔ لیکن اس جگہ بخل سے مراد راہ خدا میں اور نیکی کے کاموں میں خرچ نہ کرنا ہے۔ اس لحاظ سے وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنی ذات پر، اپنے عیش و آرام اور تفریحات پر تو دل کھول کر خرچ کرنا ہے، مگر کسی نیک کام کے لیے اس کی جیب سے کچھ نہیں نکلتا۔ بےنیازی برتنے سے مراد یہ ہے کہ آدمی دنیا کے فائدہ ہی کو اپنی ساری تگ ودو کا مقصود بنا لے اور اس بات کی کچھ پرواہ نہ کرے کہ کس کام سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور کس کام سے ناراض ہوتا ہے۔ اس راستہ کو سخت اس لیے کہا گیا ہے کہ اس پر چلنے والا اگرچہ دنیوی لذتوں اور ظاہری کامیابیوں کے لالچ میں اس طرف جاتا ہے لیکن اس میں ہروقت اپنی فطرت سے، اپنے ضمیر سے، اللہ کے بنائے ہوئے قوانین سے اور معاشرے سے اس کی جنگ جاری رہتی ہے۔ اگر وہ کمزور ہو تو اس روش کے عوض اسے طرح طرح کی سزائیں بھگتنی ہوتی ہیں۔ اور اگر وہ طاقتور اور بااثر ہو تو چاہے دنیا اس کے زور آگے دب جائے لیکن کسی کے دل میں اس کے لیے خیرخواہی، عزت اور محبت کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا، اور یہ جو فرمایا گیا کہ ایسے شخص کو ہم سخت راستے پر چلنے کی سہولت دیں گے، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس سے بھلائی کے راستے پر چلنے کی توفیق سلب کرلی جائے گی۔ برائی کے دروازے اس کے لیے کھول دئیے جائیں گے اور اسی کے اسباب اور وسائل اسے فراہم کر دئیے جائیں گے۔ بدی کرنا اس کے لیے آسان ہو جائے گا۔ (تفہیم القرآن)

وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰى   ۝ۙ
[وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰى: اور اس نے جھٹلایا اس بڑی بھلائی کو]

فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰى   10۝ۭ
[فَسَنُيَسِّرُهٗ: تو ہم پہنچا دیں گے اس کو][ لِلْعُسْرٰى: اس بڑی سختی تک]

وَمَا يُغْنِيْ عَنْهُ مَالُهٗٓ اِذَا تَرَدّٰى   11۝ۭ
[وَمَا يُغْنِيْ عَنْهُ مَالُهٗٓ: اور کام نہ آئے گا اس کے اس کا سال][ اِذَا تَرَدّٰى: جب وہ گڑھے میں گرے گا]

 

(آیت۔11) تَرَدّٰیمیں یا اصلی ہے۔ یعنی یہ مادہ ’’ ردی‘‘‘ سے باب تفعل کا ماضی تَرَدَّیَ ہے جو قاعدے کے مطابق تبدیل ہو کر تَرَدّٰی استعمال ہوتا ہے۔

اِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدٰى   12۝ڮ
[ان عَلَيْنَا لَلْهُدٰى: بیشک ہم پر یقینا ہے راہ سُجھا دینا]

 

(آیت ۔12) اِنَّ کا اسم اَلْھُدٰی ہے اور اس کی خبر محذوف ہے جو وَاجِبٌ ہو سکتی ہے۔ خبر محذوف ہونے کی وجہ سے اِنَّ کی خبر پر آنے والا لامِ تاکید اس کے اسم پر آ گیا ہے، جس نے اَلْھُدیٰ کے ہمزۃ الوصل کو لکھنے میں بھی ساقط کر دیا۔ عَلَیْنَا قائم مقام خبر مقدم ہے۔

وَاِنَّ لَنَا لَـلْاٰخِرَةَ وَالْاُوْلٰى   13 ؀
[وَان لَنَا: اور بیشک ہمارے لیے ہی (قبضۂ قدرت میں)][ لَـلْاٰخِرَةَ: آخرت (بھی) ہے][ وَالْاُوْلٰى: اور یہ پہلی (دنیا) بھی ہے]

 

(آیت۔13) اِنَّ کا اسم ہونے کی وجہ سے اَلْاٰخِرَۃَ حالت نصب میں آیا ہے۔ اس کی بھی خبر محذوف ہے اس لیے لام تاکید اَلْاٰخِرَۃَ پر داخل ہوا تولَلْاَخِرَۃ استعمال ہوا۔ اَلْاُوْلٰی بھی اِنَّ کا اسم ہے لیکن فُعْلٰی کے وزن پر رفع۔ نصب۔ جر ظاہر نہیں ہوتی۔

فَاَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظّٰى   14؀ۚ
[فَانذَرْتُكُمْ نَارًا: پس میں نے خبردار کردیا تم لوگوں کو ایک ایسی آگ سے ][ تَلَظّٰى: جو غصّہ سے بھڑک اٹھتی ہے]

 

آیت نمبر 14 میں تَلَظّٰی باب تفعّل کا صیغہ واحد مونث غائب ہے۔ جو اصل میں تَتَلَظّٰی تھا۔ ایک تا کو گرا دیا گیا ہے۔

فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ   ۝ۭ
[فَاَمَا: پس وہ جو ہے، تو][ الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ: کسی بھی یتیم کو پس آپؐ ذلیل مت کریں]

 

 

 

 (آیات۔ 9 تا 11) ۔ اَلْیَتِیْمَ اور اَلسَّائِلَ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ لَا تَقْھَرْ اور لَاتَنْھَرْ کے مفعول مقدم میں اور حَدَّثَ کے مفعول پر بِ کا صلہ آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ یہ پورا فقرہ حَدِّثْ کا مفعول مقدم ہے۔ اَلْیَتِیْمَ اور اَلسَّائِلَ پر لام جنس ہے۔

وَاِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ   Ď۝ۧ
[وَاِلٰى رَبِكَ: اور اپنے رب کی طرف ہی] فَارْغَبْ: پھر آپؐ التجا کریں]

وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ   Ć۝ۭ
[وَمَا تَفَرَّقَ: اور الگ الگ نہیں ہوئے][ الَّذِينَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ: وہ لوگ جن کو دی گئی کتاب][ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا: مگر اس کے بعد سے جو][ جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ: آئی ان کے پاس واضح بات]

 

نوٹ 5: آیت۔4۔ میں تفرق سے مراد وہ انکار واختلاف ہے جو قرآن اور نبی کریم
کی نبوت کے بارے میں اہل کتاب میں پیدا ہوا۔ ان کی آسمانی کُتب تورات وانجیل میں رسول اللہ کی نبوت کا، آپ کی خاص خاص صفات کا اور آپ پر قرآن نازل ہونے کا واضح ذکر موجود تھا۔ اس لیے کسی یہودی یا نصرانی کو اس میں اختلاف نہیں تھا کہ آخر زمانے میں رسول اللہ تشریف لائیں گے، آپ پر قرآن (اللہ کا کلام) نازل ہو گا اور آپ ہی کا اتباع سب پر لازم ہو گا۔ مگر جب اللہ کا اَلْبَیِّنَہ یعنی رسول آخر الزماں تشریف لے آئے تو ان میں افتراق پیدا ہو گیا کہ کچھ لوگ تو آپ پر ایمان لے آئے اور بہت سے انکار کرنے لگے۔ یہ معاملہ چونکہ اہل کتاب ہی کے ساتھ مخصوص تھا اس لیے اس آیت میں صرف اہل کتاب ہی کا ذکر فرمایا ہے، مشرکین کو شامل نہیں کیا۔ (معارف القرآن)

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ   Ĉ۝ۭ
[وَمَآ اُمِرُوْٓا: اور ان لوگوں کو حکم نہیں دیا گیا سوائے اس کے کہ][ اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ: چاہیے کہ وہ لوگ بندگی کریں اللہ کی][ مُخْلِصِيْنَ: خالص کرنے والے ہوتے ہوئے][ لَهُ الدِّيْنَ: اسی کے لیے ضابطۂ حیات (دین) کو][ حُنَفَاۗءَ: یکسو ہوتے ہوئے][ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ: اور چاہیے کہ وہ لوگ قائم کریں نماز کو][ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ: اور چاہیے کہ وہ لوگ پہنچائیں زکوٰۃ کو][ وَذٰلِكَ: اور یہ ہے][ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ: (لوگوں کا) پختہ ضابطۂ حیات (دین)]

لَا يَصْلٰىهَآ اِلَّا الْاَشْقَى   15؀ۙ
[لَا يَصْلٰىهَآ اِلَّا الْاَشْقَى: نہیں گرے گا اس میں مگر بڑا بدبخت]

 

 (آیت۔ 15) یَصْلٰھَا میں ھَا کی ضمیر نَارًا تَلَظّٰی کے لیے ہے اور یَصْلٰی کا فاعل اَلْاَشْقَی ہے۔ یہ افعل تفضیل کے مذکر کے وزن اَفْعَلُ پر حالت رفع میں اَشْقَیَ تھا جو قاعدے کے مطابق تبدیل ہو کر اَشْقٰی آیا ہے۔ آگے ملانے کے لیے کھڑی زبر کو ہٹا کر اس پر پڑی زبر ڈالی ہے۔

 

نوٹ۔3: آیت۔15۔ میں ہے کہ اس میں یعنی بھڑکتی آگ میں وہی گرے گا جو زیادہ شقی ہے۔ یہاں بھڑکتی آگ سے شاید دوزخ کا وہ طبقہ مراد ہو گا جو بڑے بھاری مجرموں اور بدبختوں کے لیے مخصوص ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند) ۔ اس لحاظ سے آیت۔17۔ کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جو جتنا زیادہ پرہیزگار ہو گا اس کو اس بھڑکتی آگ سے اتنا ہی دور رکھا جائے گا۔ (مرتب)

مورخہ 18۔ ذی الحجہ 1431 ھ بمطابق 25۔ نومبر 2010 ء

الَّذِيْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى    16؀ۭ
[الَّذِي كَذَّبَ وَتَوَلّٰى: وہ جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا]

وَسَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى   17؀ۙ
[وَسَيُجَنَّبُهَا: اور بچا لیا جائے گا اس (آگ) سے][ الْاَتْقَى: بڑے پرہیزگار کو ]

الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى   18؀ۚ
[الَّذِي يُؤْتِيْ مَالَهٗ: وہ جو دیتا ہے اپنا مال ][ يَتَزَكّٰى: پاکیزگی حاصل کرتے ہوئے]

وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰٓى    19؀ۙ
[وَمَا لِاَحَدٍ: اس حال میں کہ نہیں ہے کسی ایک کا][ عِنْدَهٗ: اس کے پاس (یعنی اس پر)][ مِنْ نِّعْمَةٍ: کوئی بھی ایسی نعمت (احسان) جس کا][ تُجْزٰٓى: بدلہ دیا جانا ہو]

 

(آیت۔19) عِنْدَہٗ میں ہٗ کی ضمیر اَلْاَتْقٰی کے لیے ہے۔ تُجْزٰی کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مِنْ نِعْمَۃٍ محلاً حالت رفع میں ہے۔

اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰى   20؀ۚ
[اِلَّا: سوائے اس کے کہ][ ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِهِ الْاَعْلٰى: اپنے اعلیٰ رب کی توجہ کی جستجو کرنا]

وَلَسَوْفَ يَرْضٰى    21؀ۧ
[وَلَسَوْفَ يَرْضٰى: اور یقینا عنقریب وہ راضی ہو گا]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَالضُّحٰى    Ǻ۝ۙ
[وَالضُّحٰى: قسم ہے چاشت کے وقت کی]

 

 

نوٹ۔1: اس سورہ میں پہلے آفاق کے شواہد سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح اس دنیا کی مادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے دن کی حرارت وروشنی کی ضرورت ہے اور رات کی خنکی اور تاریکی کی بھی، اسی طرح انسانی فطرت کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو تنگی اور آسانی، دکھ اور سکھ، رنج اور راحت، دونوں طرح کے حالات سے گزارا جائے۔ جو لوگ زندگی کی تربیت میں ان امتحانوں کا مقام سمجھتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کی اعلیٰ صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اور جو لوگ ان امتحانوں کی حکمت سے ناواقف ہوتے ہیں یا اپنی کم ہمتی کی وجہ سے ان سے وہ فائدہ نہیں اٹھاتے جس کے لیے قدرت نے ان کو مقدر کیا ہے، وہ اپنے آپ کو اس مقام بلند سے محروم کر لیتے ہیں۔ جو اس امتحان سے گزرے بغیر انسان کو حاصل نہیں ہوتا۔ اس اصولی حقیقت کو بیان کرنے کے بعد نبی
کو خطاب کر کے تسلی دی ہے کہ جس امتحان سے آپ گزر رہے ہیں وہ خدا کی طرف سے کسی عتاب کے سبب پیش نہیں آیا ہے بلکہ یہ اسی امتحان کا ایک حصہ ہے جو انسان کی روحانی و اخلاقی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ۔2: روایات میں ہے کہ جبریل ؑ دیر تک رسول اللہ
کے پاس نہ آئے، یعنی وحی قرآنی بند رہی تو مشرکین کہنے لگے کہ محمد (1) کو اس کے رب نے رخصت کر دیا۔ اس کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ لیکن میرا گمان یہ ہے کہ مخالفین نے اس وقت اس طرح کی باتیں کی ہوں جب سورۂ اِقرأ کی ابتدائی آیات نازل ہونے کے بعد ایک طویل مدت تک وحی رکی رہی اور حضور 1 خود اس فترت (بندش) کے زمانے میں مضطرب رہے۔ یہاں تک کہ فرشتہ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یٰـاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ کا خطاب سنایا۔ چنانچہ ابن کثیر (رح)  نے ابن اسحاق وغیرہ سے جو الفاظ نقل کیے ہیں وہ اسی احتمال کی تائید کرتے ہیں۔ ممکن ہے اسی دوران وہ قصہ بھی پیش آیا ہو جو بعض احادیث میں بیان ہوا ہے کہ ایک مرتبہ حضور 1 بیماری کی وجہ سے دو تین رات نہ اٹھ سکے تو ایک عورت کہنے لگی ’’ اے محمدؐ معلوم ہوتا ہے تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘ (العیاذباللہ) ۔ غرض ان سب خرافات کا جواب اس سورہ میں دیا گیا ہے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

 واضح رہے کہ مکی دور میں جب قریش کی مخالفت زیادہ شدت اختیار کر گئی تو اس سے آپ 1 کو خاص پریشانی جو ہوئی وہ یہی ہوئی کہ ہو سکتا ہے ان لوگوں کی اس بیزاری میں آپ 1 کی کسی کوتاہی یا بےتدبیری کا کوئی دخل ہو جو اللہ تعالیٰ کے عتاب کا سبب بنی ہے۔ جس کے باعث یہ حالات پیش آ رہے ہیں۔ اس پریشانی میں قدرتی طور پر آپ 1 کو وحی کا انتظار ہوتا کیونکہ یہی وہ واحد چیز ہے جو تاریک حالات میں روشنی بھی دکھا سکتی ہے اور اسی سے آپ 1 کو یہ اندازہ بھی ہو سکتا تھا کہ آپ 1 فریضۂ دعوت رب کی منشا کے مطابق انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ حضور 1 کی ان پریشانیوں کا ذکر مکی سورتوں میں جگہ جگہ ہوا ہے۔ اس آیت (نمبر 3) میں آپ 1 کو جو تسلی دی گئی ہے وہ ایسے ہی حالات میں دی گئی ہے۔ (تدبر قرآن)

وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى  Ą۝ۙ
[وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى: اور قسم ہے رات کی جب سناٹا ہو جاتا ہے]

 

 س ج و

[سَجْوًا: (ن) رات کا پرسکون ہونا۔ سنسان ہونا۔ خاموش ہونا۔ پھر اس سے مراد لیتے ہیں رات کا چھا جانا۔ زیر مطالعہ آیت۔2۔

 (اس کا مادہ ناقص واوی ہے اور اس کا ماضی کا صیغہ سجا یا ییلکھا جاتا ہے یہاں اس کو سبحیٰ (ناقص پاپی کی طرح لکھنا قرآن کا مخصوص املا ہے)

ترکیب: (آیت۔2) سَبحٰی ماضی ہے لیکن اِذَا کی وجہ سے ترجمہ حال میں ہو گا۔

مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى   Ǽ۝ۭ
[مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ: نہ الوداع کہا آپؐ کو آپؐ کے رب نے][ وَمَا قَلٰى: اور نہ وہ بیزار ہوا (آپؐ سے)]

وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى   Ć۝ۭ
[وَلَلْاٰخِرَةُ: اور یقینا بعد میں آنے والی (حالت)][ خَيْرٌ لَّكَ: بہتر ہے آپؐ کے لیے][ مِنَ الْاُوْلٰى: پہلی سے]

 

نوٹ۔3: آیت۔4۔ میں اٰخرۃ اور اُولٰی کے الفاظ دنیا اور آخرت کے اصطلاحی مفہوم میں نہیں بلکہ عام مفہوم میں ہیں۔ یعنی دعوت کے آخری دور اور ابتدائی دور کے یا دعوت کے موجودہ دور اور اس کے مستقبل کے مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ اسی تسلی کی مزید وضاحت ہے کہ اس وقت جو حالات میں وہ بدل جائیں گے اور مستقبل موجودہ حال سے بہت بہتر ہو گا۔ قدیم صحیفوں میں آنحضرت
سے متعلق جو پیشن گوئیاں وارد ہوئی ہیں ان میں آپ 1 کی دعوت کے آغاز کو رائی کے دانے کی تمثیل سے سمجھایا ہے جو ہوتا تو نہایت چھوٹا ہے لیکن جب اُگتا ہے تو اس کا پودا سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ پرندے اس میں بسیرا لیتے ہیں۔ (تدبر قرآن)

 یہ خوشخبری اللہ تعالیٰ نے ایسی حالت میں دی تھی جبکہ مٹھی بھر آدمی آپ 1 کے ساتھ تھے، ساری قوم آپ 1 کی مخالف تھی اور بظاہر کامیابی کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابتدائی دور کی مشکلات سے آپ 1 پریشان نہ ہوں۔ ہر بعد کا دور پہلے دور سے آپ 1 کے لیے بہتر ہو گا۔ آپ 1 کی قوت، عزت اور قدرومنزلت برابر بڑھتی چلی جائے گی اور آپ 1 کا نفوذ واثر پھیلتا چلا جائے گا۔ اور اس میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ آخرت میں جو مرتبہ آپؐ کو ملے گا وہ اس مرتبہ سے بدرجہا بڑھ کر ہو گا جو دنیا میں آپ 1 کو حاصل ہو گا۔ ایک حدیث میں حضور 1 نے فرمایا کہ میرے سامنے وہ تمام فتوحات پیش کی گئیں جو میرے بعد میری امت کو حاصل ہونے والی ہیں۔ اس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل فرمایا کہ آخرت تمھارے لیے دنیا سے بھی بہتر ہے۔ (تفہیم القرآن)

وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى   Ĉ۝ۭ
[وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ: اور یقینا عنقریب عطا کرے گا آپؐ کو آپؐ کا رب][ فَتَرْضٰى: نتیجتاً آپؐ راضی ہو جائیں گے]

 

 

نوٹ۔4: آیت۔5۔ کا مطلب ہے کہ آپ 1 کا رب آپؑ1 کو اتنا دے گا کہ آپ 1 راضی ہو جائیں گے۔ اس میں حق تعالیٰ نے یہ متعین کر کے نہیں بتایا کہ کیا دیں گے۔ اس میں اشارہ عموم کی طرف ہے کہ آپ 1 کی ہر مرغوب چیز آپ 1 کو اتنی دیں گے کہ آپ 1 راضی ہو جائیں۔ آپ 1 کی مرغوب چیزوں میں امت کی ہر ضرورت، زمین میں اللہ کا کلمہ بلند کرنا اور دین حق پھیلانا سب داخل ہیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ
نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میری امت کے بارے میں میری شفاعت قبول فرمائیں گے یہاں تک کہ حق تعالیٰ فرمائیں گے اے محمد اب آپ راضی ہیں، تو میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار میں راضی ہوں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک روز رسول اللہ نے وہ آیت تلاوت فرمائی جو حضرت ابراہیم ؑ سے متعلق ہے۔ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورہ ابراہیم ؑ۔36) پھر دوسری آیت تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ (المائدہ۔118)

 پھر آپ 1 نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے۔ آپ 1 روتے رہے اور بار بار فرماتے تھے اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ اُمَّتِی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر جبریل ؑ تشریف لائے اور پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں۔ تو آپ 1 نے فرمایا کہ میں اپنی امت کی مغفرت چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ سے فرمایا کہ جائو اور کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم آپ 1 کو آپ 1 کی امت کے بارے میں راضی کر دیں گے۔ (معارف القرآن)

اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى   Č۝۠
[اَلَمْ يَجِدْكَ: کیا اس نے نہیں پایا آپؐ کو][ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى: یتیم تو اس نے رہنے کی جگہ دی آپؐ کو]

 

 

(آیات۔6۔7۔ اور 8۔ میں فَاٰوٰی، فَھَدیٰ اور فَاَغْنٰی، اِن تینوں کے آگے ضمیر مفعولی کَ محذوف ہے۔

 

نوٹ۔5: آنحضرت
کی ولادت سے پہلے ہی آپ 1 کے والد وفات پا چکے تھے۔ چھ سال کی عمر تھی کہ والدہ نے رحلت کی پھر آٹھ سال کی عمر تک اپنے دادا عبدالمطلب کی کفالت میں رہے۔ آخر میں ظاہری تربیت وپرورش کی سعادت آپ 1 کے چچا ابوطالب کے حصے میں آئی۔ انھوں نے زندگی بھر آپ 1 کی نصرت وحمایت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ ہجرت سے کچھ پہلے وہ بھی دنیا سے رخصت ہوئے۔ پھر یہ امانت الٰہی اللہ کے حکم سے انصارِ مدینہ کے گھر پہنچ گئی۔ اوس اور خزرج کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا اور انھوں نے اس کی حفاظت اس طرح کی جس کی نظیر چشم فلک نے کبھی نہ دیکھی ہو گی۔ یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ فَاٰویٰ کے تحت میں داخل ہیں۔ (ترجمہ اشیخ الہند (رح) )

نوٹ۔6: یہ بات معلوم ہے کہ رسول اللہ
کو جو رسوم وروایات خاندان کے بزرگوں سے ملیں ان پر آپ 1 کی سلیم فطرت مطمئن نہ ہو سکی اور دوسری کوئی ایسی روشنی تھی نہیں جو آپ 1 کے لیے سرمایۂ تسکین بنتی۔ آسمانی مذاہب کے پیروکار جو آپ 1 کے اردگرد تھے ان کے عقائد واعمال اس قدر مسخ ہو چکے تھے کہ کوئی حقیقت کو تلاش کرنے والا ان سے کوئی رہنمائی حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ اس صورت حال نے آپ 1 کو ذہنی کشمکش میں ڈال دیا تھا۔ آپ 1 کی اسی کشمکش کو آیت۔7۔ میں وَوَجَدَکَ ضَالًّا کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انبیاء علیہم السلام بعثت سے پہلے بھی فطرت سلیم پر ہوتے ہیں۔ لیکن فطرت عقائد واعمال کی موٹی موٹی باتوں ہی میں رہنمائی کرتی ہے لیکن عقائد واعمال کے تمام لوازمات کی وہ تشریح نہیں کرسکتی۔ اس وجہ سے فطرت پر ہونے کے باوجود ایک شخص یہ جاننے کا محتاج رہتا ہے کہ جس خدا کے وجود پر اس کا دل گواہی دے رہا ہے اس کی صفات کیا ہیں اور ان صفات کے تقاضے کیا ہیں۔ اس کے کیا حقوق بندے پر عائد ہوتے ہیں اور وہ کس طرح ادا کرنے ہیں۔ زندگی کی ایسی ضابطہ بندی کس طرح کی جائے کہ وہ پوری کی پوری خالق کی پسند کے مطابق ہو جائے یہی سوالات ہیں جو نبی کے دل پر زندگی کے اس دور میں مستولی تھے جس کی طرف وَوَجَدَکَ ضَالًّا کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔ بعثت سے پہلے غار حرا کی تنہائیوں میں آپ 1 انہی گتھیوں کو سلجھانے میں گم رہے۔

 رسول اللہ
کی بعثت سے پہلے عرب میں دین حنیفی کے پیروکاروں کا حال کتابوں میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ ان میں سے بعض افراد ایسی شدید الجھن میں مبتلا تھے کہ وہ بیت اللہ سے ٹیک لگا کر حرم میں بیٹھ جاتے تھے اور نہایت حسرت کے ساتھ کہتے تھے کہ اے رب ہم نہیں جانتے کہ تیری عبادت کس طرح کریں ورنہ اسی طرح کرتے۔ یہی حال اس وقت تک نبی کا بھی رہا ہو گا جب تک آپ 1 کتاب سے روشناس نہیں ہوئے۔ چنانچہ سورۂ شوریٰ کی آیت۔52۔ میں اسی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ’’ اور اسی طرح ہم نے تمھاری طرف ایک روح وحی کی جو ہمارے امر میں سے ہے۔ نہ تم کتاب سے آشنا تھے اور نہ ایمان سے لیکن ہم نے اس وحی کو روشنی بنایا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں راہ دکھاتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن)

وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَهَدٰى   Ċ۝۠
[وَوَجَدَكَ: اور اس نے پایا آپؐ کو][ ضَاۗلًّا: راہ تلاش کرنے والا][ فَهَدٰى: تو اس نے رہنمائی کی (آپؐ کی)]

 

 

(آیت۔7) اس میں ضَالاًّ اسم الفاعل ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں اس کی جمع ضَالِیْنَ آئی ہے۔ وہاں اس کا ترجمہ گمراہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہاں اس کا ترجمہ راستہ تلاش کرنے والا کیا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے استادِ محترم پروفیسر حافظ احمد یار صاحب مرحوم نے فرمایا کہ انھوں نے متعدد ڈکشنریاں اور کتب دیکھیں تو اس لفظ کے کوئی بارہ مختلف مفاہیم میں استعمال سامنے آئے۔ اور قرآن مجید میں بھی یہ متعدد مفاہیم میں آیا ہے۔ پھر انھوں نے تلاش کیا کہ اس لفظ کا وہ بنیادی معنی کیا ہے جس سے یہ تمام مفاہیم نکلتے ہیں۔ تو انھوں نے امام راغب اصفہانی (رح)  کے بیان کردہ معنی کو اس لحاظ سے سب سے زیادہ تسلی بخش پایا۔ امام صاحب نے اس کے معنی بتائے ہیں کہ مطلوبہ راستہ سے ہٹ جانا، خواہ قصداً ہو یا سہواً، معمولی ہو یا زیادہ۔ قرآن میں اس کے مختلف استعمال کا ایک خاکہ ذہن نشین کرنے کے لیے طلبا زیر حوالہ آیات کو قرآن میں دیکھ لیں۔ واضح رہے کہ یہ مکمل فہرست نہیں ہے البقرہ۔ 282 (اَنْ تَضِلَّ اِحْدَ الھُمَا) ۔ الانعام۔ 24۔ بنی اسرائیل۔ 67۔ الکھف۔ 104۔ طٰہٰ۔ 52۔ محمدؐ۔1۔

وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى   Ď۝ۭ
[وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا: اور اس نے پایا آپؐ کو تنگ دست][ فَاَغْنٰى : تو اس نے غنی کیا (آپؐ کو) ]

وَاَمَّا السَّاۗىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ   10 ۝ۭ
[وَاَمَا: اور وہ جو ہے، تو][ السَّاۗىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ: کسی بھی مانگنے والے کو پس آپؐ مت جھڑکیں]

 

 

نوٹ۔7: آیت۔10۔ کے دو معنی ہیں۔ اگر سائل کو مدد مانگنے والے حاجت مند کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مدد کرسکتے ہو تو کر دو، ورنہ نرمی کے ساتھ معذرت کر لو، مگر بہرحال اسے جھڑ کو نہیں۔ اور اگر سائل کو پوچھنے والے کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پوچھنے والا خواہ کیسا ہی جاہل اور اُجڈ ہو اور خواہ کتنے ہی نامعقول طریقے سے سوال کرے، بہرحال اسے شفقت کے ساتھ جواب دو اور علم کا زعم رکھنے والے بدمزاج لوگوں کی طرح اسے جھڑک کر دور مت کرو۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔8: نعمت کا لفظ عام ہے۔ اس سے مراد وہ نعمتیں بھی ہیں جو اس سورہ کے نزول تک اللہ تعالیٰ نے آپ
کو عطا فرمائی تھیں اور وہ نعمتیں بھی جو بعد میں عطا کیں۔ پھر حکم یہ ہے کہ اے نبی ہر نعمت جو اللہ نے تم کو دی ہے اس کا ذکر اور اس کا اظہار کرو۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ ہر نعمت اپنی نوعیت کے لحاظ سے اظہار کی ایک صورت چاہتی ہے۔ مجموعی طور پر تمام نعمتوں کے اظہار کی صورت یہ ہے کہ زبان سے اللہ کا شکر ادا کرے اور اس بات کا اقرار واعتراف کرے کہ جو نعمتیں بھی مجھے حاصل ہیں یہ سب اللہ کا فضل واحسان ہیں اور کوئی چیز بھی میرے کسی ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں ہے۔ نعمت نبوت کا اظہار یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ کا حق ادا کیا جائے۔ نعمت قرآن کا اظہار یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس کی اشاعت کی جائے اور اس کی تعلیمات لوگوں کے ذہن نشین کی جائیں۔ نعمت ہدایت کا اظہار یہ ہے کہ اللہ کی بھٹکی ہوئی مخلوق کو سیدھا راستہ بتایا جائے اور اس کام کی ساری تلخیوں اور ترشیوں کو صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے۔ الغرض یہ ایک بڑی جامع ہدایت تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس مختصر سے فقرے میں دی۔ (تفہیم القرآن)

 ہر نعمت کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔ مالی نعمت کا شکریہ ہے کہ اس مال میں سے کچھ اللہ کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ خرچ کرے۔ نعمت بدن کا شکر یہ ہے کہ جسمانی طاقت کو اللہ تعالیٰ کے واجبات ادا کرنے میں صرف کرے۔ علم ومعرفت کا شکریہ ہے کہ دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔ (معارف القرآن)

نوٹ۔9: سورۂ والضحیٰ سے آخر قرآن تک ہر سورت کے ساتھ تکبیر کہنا سنت ہے۔ اس تکبیر کے الفاظ شیخ صالح مصری نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ بتلائے ہیں۔ ابن کثیر نے ہر سورت کے ختم پر اور بغوی نے ہر سورت کے شروع میں ایک مرتبہ تکبیر کہنے کو سنت کہا ہے۔ دونوں میں سے جو صورت بھی اختیار کرے سنت ادا ہو جائے گی۔

 سورۂ ضحی سے آخر قرآن تک بیشتر سورتوں میں رسول اللہ
پر حق تعالیٰ کے خاص انعامات اور آپ 1 کے مخصوص فضائل کا ذکر ہے اور چند سورتوں میں قیامت اور اس کے احوال کا۔ قرآن حکیم کا شروع خود قرآن کی عظمت اور ناقابل شک وشبہہ ہونے سے کیا گیا اور ختم قرآن اس ذات کی عظمت وشان پر کیا گیا جس پر قرآن نازل ہوا۔ (معارف القرآن)

مورخہ 23۔ ذی الحجہ 1431 ھ بمطابق 30۔ نومبر 2010 ء

وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ   11۝ۧ
[وَاَمَا: اور وہ جو ہے آپ][ بِنِعْمَةِ رَبِكَ فَحَدِّثْ: اپنے رب کی نعمت کا آپؐ چرچا کریں]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ    Ǻ۝ۙ
[اَلَمْ نَشْرَحْ: کیا ہم نے کھول نہیں دیا][ لَكَ صَدْرَكَ: آپؐ کے لیے آپؐ کے سینے کو]

 

نوٹ 1: شرح صدر (سینہ کھولنے) کا لفظ قرآن میں جن مواقع پر آیا ہے ان پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر قسم کے ذہنی خلجان اور تردد سے پاک ہوکر اس بات پر مطمئن ہو جانا کہ اسلام کا راستہ ہی برحق ہے۔ دوسرا یہ کہ نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے کی اس میں ہمت پیدا ہو جائے۔ مثلاً سورۂ انعام۔ آیت۔125۔ میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ یہاں یہ لفظ پہلے معنی میں ہے۔ جبکہ سورۂ طٰہٰ۔ آیات 25۔26۔ میں ہے کہ نبوت ملنے کے موقعہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ اے میرے رب میرا سینہ میرے لیے کھول دے اور میرا کام میرے لیے آسان کر دے۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہے غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس سورہ کی پہلی آیت میں رسول اللہ
کا سینہ کھول دینے سے یہ دونوں معنی مراد ہیں۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ 2: وِزْرَ سے مراد غم کا بوجھ ہے جو بعثت سے پہلے آپ
کے دل پر اس سبب سے تھا کہ آپ حقیقت کی تلاش میں سرگرداں تھے لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ پھر جب اللہ نے آپ پر ہدایت کی راہ کھول دی تو اس غم پر مزید اضافہ اس سبب سے ہوا کہ آپ کی پوری قوم دشمن بن کر کھڑی ہو گئی۔ اور توقع کے خلاف جب آپ نے دیکھا کہ جتنی دعوت کی راہ میں آپ کی سرگرمی بڑھتی جا رہی تھی اتنی ہی لوگوں کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، تو قدرتی طور پر آپ کو یہ گمان گزرا کہ شاید آپ کی جدوجہد میں کہیں کوئی کمی ہے۔ علاوہ ازیں اس طرح کے حالات میں اگر وحی کے آنے میں کچھ وقفہ ہو جاتا تو یہ وقفہ بھی آپ کی پریشانی میں اضافہ کر دیتا۔ حضور کی ان پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے جس طرح پچھلی سورہ میں تسلی دی گئی ہے اسی طرح یہاں بھی دی گئی ہے۔ (تدبر قرآن)

نوٹ 3: رسول اللہ
کا ذکر بلند کرنے کی بات اس زمانے میں فرمائی گئی تھی جب کوئی یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ جس کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہیں اور وہ بھی صرف شہر مکہ تک محدود ہیں اس کا ذکر دنیا بھر میں کیسے بلند ہو گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان ہی حالات میں یہ خوشخبری سنائی اور پھر عجیب طریقہ سے اسے پورا کیا۔ سب سے پہلے اس نے آپ کے رفع ذکر کا کام خود آپ کے دشمنوں سے لیا۔ حج کے موقع پر جب تمام عرب سے لوگ ان کے شہر میں آتے تھے، اس زمانے میں کفار مکہ کے وفود حاجیوں کے ڈیرے پر جاتے اور لوگوں کو خبردار کرتے کہ یہاں ایک شخص ہے جو لوگوں پر جادو کرتا ہے تو باپ بیٹے، بھائی بھائی اور شوہر بیوی میں جدائی پڑ جاتی ہے۔ اس لیے اس سے بچ کے رہنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کے گوشے گوشے میں آپ کا نام پہنچ گیا۔ اس کے بعد ہجرت سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا جس میں منافقین، یہود اور تمام عرب کے مشرکین آپ کو بدنام کرنے میں سرگرم تھے۔ دشمنوں نے جنگ سے حضور کے اثر کو مٹانے کی کوشش کی مگر آپ کی قیادت میں اہل ایمان کی جو جماعت تیار ہوئی تھی اس نے نظم وضبط، شجاعت اور اخلاقی حدود کی پابندی سے اپنی برتری ثابت کر کے سارے عرب سے اپنا لوہا منوا لیا۔ اور دس سال کے اندر اندر حضور کا رفع ذکر اس طرح ہوا کہ عرب کا گوشہ گوشہ کلمۂ شہادت کی صدا سے گونج اٹھا۔

 پھر تیسرے مرحلے کا آغاز خلافتِ راشدہ کے دور سے ہوا جب آپ
کا نام مبارک تمام روئے زمین میں بلند ہونا شروع ہوا۔ یہ سلسلہ آج تک بڑھتا ہی جا رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک بڑھتا چلا جائے گا۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی کوئی بستی موجود ہو اور دن میں پانچ مرتبہ اذان میں آپ کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو، نمازوں میں آپ پر درود نہ بھیجا جا رہا ہو، جمعہ کے خطبوں میں آپ کا ذکرِ خیر نہ ہو۔ سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی دن، اور دن کے 24 گھنٹوں میں سے کوئی وقت ایسا نہیں ہے جب روئے زمین میں کسی نہ کسی جگہ آپ کا ذکر نہ ہو رہا ہو۔ نبوت کے ابتدائی دور میں جس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ رَفَعْنَا لَکَ ذِکرَکَ اس وقت کوئی بھی یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ رفع ذکر اس شان سے اور اتنے بڑے پیمانے پر ہو گا۔ یہ قرآن کی صداقت کا ایک اور کھلا ہوا ثبوت ہے۔ (تفہیم القرآن) ۔

وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ   Ą۝ۙ
[وَوَضَعْنَا: اور ہم نے اتارا][ عَنْكَ وِزْرَكَ: آپؐ سے آپؐ کے بوجھ کو]

الَّذِيْٓ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ   Ǽ۝ۙ
[الَّذِيٓ انقَضَ: وہ (بوجھ) جس نے ٹوٹنے کے قریب کیا][ ظَهْرَكَ: آپؐ کی پیٹھ کو]

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ   Ć۝ۭ
[وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ: اور ہم نے بلند کیا آپؐ کے لیے آپؐ کے ذکر کو]

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا   Ĉ۝ۙ
[فَان مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا: پس یقینا سختی کے ساتھ ایک نرمی ہے]

 

نوٹ 4: آیات۔5۔6۔ سے پہلے جو باتیں کہی گئیں ہیں وہ رسول اللہ
کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ کھولا۔ آپ سے آپ کا بوجھ بٹایا۔ آپ کے لیے آپ کا ذکر بلند کیا۔ لیکن ان آیات میں یہ نہیں کہا کہ آپ کی مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بلکہ بات کو عمومی انداز میں کہا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ دراصل آفاقی صداقت (Classical Truth) کا بیان ہے یہ ایک ایسا قاعدہ ہے جو رسول اللہ کی بعثت سے پہلے بھی رائج تھا۔ البتہ حیاتِ طیبہ کے دوران وہ اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ لیکن اس کے بعد یہ قاعدہ ختم نہیں ہو گیا۔ بلکہ آج بھی ہلکے پیمانے پر جاری ہے۔ اور مومن۔ مسلم۔ کافر۔ دہر یہ سب کی زندگی میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ (مرتب) ۔ اب اگر دنیا میں کسی شخص کو عُسر کے بعد یُسر نصیب نہ ہو تو وہ اس آیت کے منافی نہیں ہے۔ البتہ عادۃُ اللہ اب بھی یہی ہے کہ جو شخص سختی پر صبر کرے اور آسانی میں دیر ہونے سے آس نہ توڑ بیٹھے تو ضرور اللہ تعالیٰ اس کے حق میں آسانی کر دے گا۔ بعض روایات حدیث میں بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ (معارف القرآن)

 یہاں اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ ایک ہی بات دو مرتبہ فرمائی گئی ہے۔ یہ تکرار محض تاکید کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ یہ عُسر اور یُسر دنیا میں لازم وملزوم ہیں۔ ایک گھاٹی کسی نے پار کرلی تو وہ یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ بس اب کسی گھاٹی سے اس کو سابقہ نہیں پیش آنا ہے بلکہ دوسری اور تیسری گھاٹی بھی آ سکتی ہے۔ چاہیے کہ ان کو عبور کرنے کا حوصلہ بھی قائم رکھے۔ زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ اس جہاں میں ہر مسافر کو نشیب وفراز سے سابقہ پیش آتا ہے اور ان سے گزرنے کے بعد ہی کوئی مسافر منزل مقصود پر پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی معاملہ حق کے راستے پر چلنے والوں سے بھی ہے۔ جو لوگ اس راستہ پر چلنے کا ارادہ کرتے ہیں ان کے لیے یہ نہیں ہوتا کہ راستے کی تمام مشکلات خودبخود دور ہو جائیں، بلکہ ان کو دور کرنے کے لیے خود ان کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے یہ ضمانت ضرور ہے کہ اگر وہ راہ کی رکاوٹوں سے ہمت نہیں ہاریں گے تو وہ ان کے لیے ہر مشکل کے بعد آسانی پیدا کرے گا جس سے تازہ دم ہو کر وہ آگے کے سفر کے لیے مزید عزم وحوصلہ حاصل کرلیں گے۔ اس طرح ایک کے بعد دوسری مشکل سے لڑتے اور اس کو سر کرتے ہوئے بالآخر منزل مطلوب پر پہنچ جائیں گے۔ (تدبر قرآن)

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا   Č۝ۭ
[ان مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا: بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے]

فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ   Ċ۝ۙ
[فَاِذَا فَرَغْتَ: پھر جب آپؐ فارغ ہوں][ فَانصَبْ: تو آپؐ کوشش کریں]

 

نوٹ 5: آیات۔7۔8۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ
دعوت حق اور تبلیغ احکام سے فارغ ہوں تو دوسری محنت کے لیے تیار ہو جائیے۔ وہ یہ کہ نماز، ذکر اللہ اور دعاواستغفار میں لگ جائیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ کی دعوت وتبلیغ، خلق خدا کو راستہ دکھانا اور ان کی اصلاح کی فکر، یہ آپ کی سب سے بڑی عبادت تھی۔ مگر یہ عبادت بواسطہ مخلوق تھی۔ آیت کا مقصود یہ ہے کہ اسی عبادت بالواسطہ پر آپ قناعت نہ کریں، بلکہ جب اس سے فرصت ملے خلوت میں بلاواسطہ حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور اسی سے ہر کام میں کامیابی کی دعا کریں۔ اصل مقصود جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے وہ عبادت بلاواسطہ ہی ہے۔ شاید اسی لیے عبادت بالواسطہ سے فراغت کا ذکر فرمایا کہ وہ کام ایک ضرورت کے لیے ہے، اس سے فراغت ہو سکتی ہے اور توجہ اِلی اللہ ایسی چیز ہے کہ اس سے فراغت مومن کو کبھی نہیں ہو سکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم وتبلیغ کا کام کرنے والوں کو اس سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور کچھ وقت توجہ اِلی اللہ کے لیے بھی مخصوص ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر تبلیغ مؤثر نہیں ہوتی اور اس میں نوروبرکت نہیں ہوتی۔ (معارف القرآن) ۔

9 محرم الحرام 1432 ھ بمطابق 16۔ دسمبر 2010ئ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ    Ǻ۝ۙ
[وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ: قسم ہے انجیر کی اور قسم ہے زیتون کی]

 

نوٹ 1: پہلی آیت کی تفسیر میں ایک رائے یہ ہے کہ انجیر سے مراد یہی انجیر ہے جسے لوگ کھاتے ہیں اور زیتون سے مراد یہی زیتون ہے جس سے تیل نکالا جاتا ہے اس میں شک نہیں کہ ایک عام عربی دان ان الفاظ کو سُن کر یہی معنی لے گا۔ لیکن دو وجوہ ایسے ہیں جو یہ معنی لینے میں رکاوٹ ہیں۔ ایک یہ کہ آگے طور سینا اور شہر مکہ کی قسم کھائی گئی ہے اور دو پھلوں کے ساتھ دو مقامات کی قسم کھانے میں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی۔ دوسرے ان چار چیزوں کی قسم کھا کر آگے جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس پر طور سینا اور شہر مکہ تو دلالت کرتے ہیں لیکن یہ دو پھل اس پر دلالت نہیں کرتے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ تین سے مراد دمشق کا شہر ہے اور زیتون سے مراد بیت المقدس ہے۔ لیکن یہ الفاظ سُن کر یہ معنی ایک عام عرب کے ذہن میں نہیں آ سکتے کیونکہ اہل عرب میں یہ بات معروف نہیں تھی کہ تین اور زیتون ان مقامات کے نام ہیں۔

 البتہ یہ طریق اہل عرب میں رائج تھا کہ جو پھل کسی علاقے میں کثرت سے پیدا ہوتا ہو اس علاقے کو وہ بسااوقات اس پھل کے نام سے موسوم کر دیتے تھے۔ اس محاورے کے لحاظ سے تین اور زیتون کے الفاظ کا مطلب ان کی پیداوار کا علاقہ ہو سکتا ہے۔ اور وہ ملک شام اور ملک فلسطین کا علاقہ ہے کیونکہ اس زمانے میں یہی علاقہ ان کی پیداوار کے لیے مشہور تھا۔ (تفہیم القرآن) ۔

 اس طرح ان قسموں میں وہ تمام مقاماتِ مقدسہ شامل ہو گئے جہاں خاص خاص انبیاء علیہم السلام پیدا اور مبعوث ہوئے ملک شام عام انبیاء علیھم السلام کا وطن ہے۔ کوہ طور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کی جگہ ہے۔ جبکہ سینین یا سینا اس مقام کا نام ہے جہاں یہ پہاڑ واقع ہے۔ اور مکہ مکرمہ رسول اللہ
کا مسکن ہے۔ (معارف القرآن)

نوٹ 2: چار چیزوں کی قسم کھا کر فرمایا کہ ہم نے انسان کو بہترین تقویم پر پیدا کیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی جبلت وفطرت کو بھی دوسری مخلوقات کے اعتبار سے احسن بنایا گیا ہے۔ اور اس کی جسمانی ہیئت اور شکل و صورت کو بھی دوسرے جانداروں سے بہتر اور حسین بنایا گیا ہے۔ ابن عربی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں کوئی انسان سے احسن نہیں کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے حیات کے ساتھ عالِم۔ قادر۔ متکلم۔ سمیع۔ بصیر۔ مدبر اور حکیم بنایا ہے اور یہ سب صفات دراصل خود اللہ تعالیٰ کی ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا ہے۔ مراد اس سے یہی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا کوئی درجہ اس کو بھی دیا گیا ہے۔ ورنہ حق تعالیٰ ہر شکل وصورت سے بَری ہے۔ (معارف القرآن)

 تقویم کے بنیادی معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں۔ سیدھی کی ہوئی چیز میں حسن اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کی لمبائی اور چوڑائی میں ایک اعتدال اور تناسب ہو۔ خطاطی کے ماہر فن لوگ اگر الف لکھیں گے تو اس کی لمبائی اور موٹائی کے تناسب کا لحاظ رکھیں گے، اسی طرح الفاظ کے تمام حروف کے قدوکاٹھ میں اعتدال اور تناسب کا لحاظ رکھا جائے گا۔ جو خطاط جتنا مناسب اعتدال وتناسب قائم کر لیتا ہے اس کی خطاطی دیکھنے میں اتنی ہی خوبصورت ہوتی ہے۔ (حافظ احمد یار صاحب کے کیسٹ سے ماخوذ) ۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر جب ہم غور کرتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے انسان کی جسمانی ساخت میں اس کی صلاحیتوں میں اور اس کی استعداد میں جبروقدر کا ایک بڑا عجیب توازن کا امتزاج نظر آتا ہے۔ ہماری آنکھ دیکھ سکتی ہے، کان سن سکتے ہیں لیکن ان کی یہ استعداد لامحدود نہیں ہے۔ ایک خاص فاصلہ سے آگے کی آواز ہمارے کان نہیں سن سکتے۔ جبکہ اس فاصلے پر موجود چیزوں کو آنکھ دیکھ سکتی ہے لیکن ایک حد سے آگے آنکھ بھی نہیں دیکھ سکتی۔ ہم کو نفس امارہ دیا گیا ہے تو ساتھ ہی نفس لوامہ بھی دیا گیا ہے۔ اس انداز میں انسان کی فطرت وجبلت پر غور کریں تو ہر جگہ ہمیں توازن، اعتدال اور تناسب کا ایک حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ دوسری مخلوقات کو یہ حسن اتنا نہیں دیا گیا جتنا انسان کو دیا گیا ہے۔ (مرتب) ۔

وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ   Ą۝ۙ
[وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ: اور قسم ہے سینین کی (کوہِ) طور کی]

وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ   Ǽ۝ۙ
[وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ: اور قسم ہے اس امن والے شہر کی]

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ   Ć۝ۡ
[لَقَدْ خَلَقْنَا الْانسَان: بیشک ہم نے پیدا کیا ہے انسان کو][ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ: بہترین تعدیل و تناسب میں]

ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ   Ĉ۝ۙ
[ثُمَّ رَدَدْنٰهُ: پھر ہم نے لوٹایا اس کو][ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ: پست ہونے والوں کا سب سے پست]

 

نوٹ 3: اس کے آگے آیت۔5۔ میں فرمایا کہ پھر ہم نے اس کو لَوٹا دیا پست ترین لوگوں میں۔ یہ مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے کہ پست ترین مخلوق میں یعنی درندوں سے بھی بدتر۔ (مرتب) ۔ مفسرین نے عام طور پر اس آیت کے دو معنی بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے اسے ارذل العمر یعنی بڑھاپے کی ایسی حالت کی طرف پھیر دیا جس میں وہ کچھ سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے قابل نہ رہا۔ دوسرے یہ کہ ہم نے اسے جہنم کے سب سے نیچے درجے کی طرف پھیر دیا۔ لیکن اس سورہ کا مقصود جزاوسزا کے برحق ہونے پر استدلال کرنا ہے۔ اس لیے یہ دونوں معنی اس مقصود کلام کے لیے دلیل نہیں بنتے۔ ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کے بعد انسان اپنے جسم اور ذہن کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے اور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہا تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی مخلوق گراوٹ میں اس حد کو پہنچی ہوئی نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدے میں آتی ہے۔ (تفہیم القرآن)

 اس آیت میں ثُمَّ رَدَدْنٰـہُ کے الفاظ آئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ لوٹانے کے عمل کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب کر رہا ہے لیکن ذمہ دار انسان ہے۔ یہ وہی انداز کلام ہے جو قرآن میں جابجا استعمال ہوا ہے اور سب سے پہلے خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ والی آیت میں آیا تھا۔ وہیں پر اس کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ (دیکھیں آیت۔ 2۔7، نوٹ۔4) ۔ (مرتب)

اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ   Č۝ۭ
[اِلَّا الَّذِينَ اٰمَنُوْا: سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے][ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور انھوں نے عمل کیے نیکیوں کے][ فَلَهُمْ اَجْرٌ: تو ان کے لیے ایک ایسا اجر ہے جو][ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ: غیر منقطع ہے]

فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّيْنِ   Ċ۝ۭ
[فَمَا يُكَذِّبُكَ: تو کیا چیز (دلیل) جھٹلا سکتی ہے آپؐ کو][ بَعْدُ: اس کے بعد][ بِالدِّيْنِ: بدلے کے بارے میں]

 

نوٹ 4: آیت۔7۔8 کا مفہوم یہ ہے کہ بہترین ساخت پر پیدا کیے ہوئے انسانوں میں سے ایک گروہ اعمالِ بد اختیار کرنے کے نتیجے میں اخلاقی پستیوں میں گرتے گرتے سب نیچوں سے بھی نیچے چلا جاتا ہے اور دوسرا گروہ اعمال صالحہ اختیار کرنے کے نتیجے میں اسی حالت پر قائم رہتا ہے جو بہترین ساخت پر انسان کو پیدا کرنے سے مطلوب تھی۔ اس کے بعد بدلے کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے۔ کیا عقل یہ کہتی ہے کہ دونوں قسم کے انسانوں کا انجام یکساں ہو۔ جب دنیا کے چھوٹے چھوٹے حاکموں سے تم یہ چاہتے ہو کہ وہ انصاف کریں، مجرموں کو سزا دیں اور اچھے کام کرنے والوں کو انعام دیں، تو خدا کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے؟ کیا وہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ تو کیا اس کے بارے میں تمھارا خیال ہے کہ وہ انصاف نہیں کرے گا؟ کیا وہ برے اور بھلے کو ایک جیسا کر دے گا۔ (تفہیم القرآن)

اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ   Ď۝ۧ
[اَلَيْسَ اللّٰهُ: کیا اللہ نہیں ہے][ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ: تمام حاکموں کا سب سے بڑا حاکم]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ   Ǻ۝ۚ
[اِقْرَاْ: آپؐ پڑھیئے][ بِاسْمِ رَبِكَ الَّذِي: اپنے اس رب کے نام کے ساتھ جس نے][ خَلَقَ: پیدا کیا (ہر چیز کو)]

 

نوٹ 1: علماء کی اکثریت کا اتفاق ہے کہ وحی کی ابتدا سورۃ علق کی ابتدائی پانچ آیات سے ہوئی ہے۔ بعض حضرات نے سورۂ مدثر کو اور بعض نے سورۂ فاتحہ کو پہلی سورت قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورۂ علق کی پانچ آیات نازل ہونے کے بعد نزولِ قرآن کچھ عرصہ تک موقوف رہا۔ اس کے بعد پھر اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام سامنے آئے اور سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ اس وقت بھی رسول اللہ
پر وہی کیفیت طاری ہوئی جو سورۂ علق کے نزول کے وقت پیش آئی تھی۔ اس لحاظ سے اس کو بعض حضرات نے پہلی سورت کہا ہے۔ اور سورۂ فاتحہ کو پہلی سورت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ مکمل سورت سب سے پہلے سورۂ فاتحہ ہی نازل ہوئی ہے، اس سے پہلے چند سورتوں کی متفرق آیات ہی کا نزول ہوا تھا۔

 ایک طویل حدیث میں وحی کی ابتدا کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ (اس حدیث کی تفصیلات تفاسیر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہم صرف اس کے اہم نکات درج کر رہے ہیں۔ مرتب) سب سے پہلے رسول اللہ
پر وحی کا سلسلہ سچے خوابوں سے شروع ہوا۔ اس کے بعد آپ میں خلوت میں عبادت کرنے کا داعیہ پیدا ہوا۔ یہ عبادت لوگوں سے الگ ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ خاص اور تفکر کی تھی۔ غارِ حرا میں خلوت گزینی کی مدت ایک ماہ ہے یعنی آپ نے پورے ماہ رمضان اس میں قیام فرمایا۔ وہاں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا اِقْرَاْ۔ جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ تو جبریل علیہ السلام نے آپ کو آغوش میں لے کر دبایا۔ اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ پھر انھوں نے پانچ آیات پڑھیں۔ یہ آیتیں لے کر آپ گھر واپس آئے۔ آپ پر گھبراہٹ طاری تھی۔ جب آپ کو آفاقہ ہوا تو آپ نے بی بی خدیجہ (رض)  کو سارا واقعہ سنایا۔ وہ انھیں اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ انھوں نے سنتے ہی کہا یہ وہی فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اتارا تھا۔ کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکالے گی، کیونکہ جب بھی کوئی آدمی یہ دین حق لے کر آیا جو آپ لائے ہیں تو اس کی قوم نے اس کو ستایا ہے۔ اس کے چند ہی روز بعد ورقہ بن نوفل کا انتقال ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد وحیِٔ قرآن کا سلسلہ رُک گیا۔ روایات میں وحی میں وقفہ کی مدت ڈھائی سے تین سال تک بیان کی گئی ہے۔ (معارف القرآن۔ ج 8۔ ص 781 تا 784 سے ماخوذ)

 یہ قصہ خود اپنے منہ سے بول رہا ہے کہ فرشتے کی آمد سے ایک لمحہ پہلے تک بھی رسول اللہ
اس بات سے خالی الذہن تھے کہ آپ نبی بنائے جانے والے ہیں۔ اس چیز کا طالب یا متوقع ہونا تو درکنار آپ کے وہم وگمان میں بھی یہ نہ تھا کہ ایسا کوئی معاملہ پیش آنے والا ہے۔ فرشتے کا اس طرح سامنے آنا ایک حادثہ تھا جس کا پہلا تاثر آپ کے اوپر وہی ہوا جو ایک انسان پر فطری طور پر ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تو مکہ کے لوگوں نے آپ پر ہر طرح کے اعتراضات کیے، مگر ان میں کوئی یہ کہنے والا نہ تھا کہ ہم کو تو پہلے ہی یہ خطرہ تھا کہ آپ کوئی دعویٰ کرنے والے ہیں کیونکہ آپ ایک مدت سے نبی بننے کی تیاریاں کر رہے تھے، دوسری بات یہ ہے کہ ورقہ بن نوفل مکہ کے باشندے تھے، بچپن سے حضور کی زندگی دیکھتے چلے آ رہے تھے اور پندرہ سال کی قریبی رشتہ داری کی بنا پر وہ آپ کے حالات سے اور زیادہ گہری واقفیت رکھتے تھے۔ انھوں نے جب یہ واقعہ سنا تو اِسے کوئی وسوسہ نہیں سمجھا بلکہ سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ وہی فرشتہ ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک آپ اتنے بلند پایہ انسان تھے کہ آپ کا نبوت کے منصب پر سرفراز ہونا کوئی قابل تعجب بات نہ تھی۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ 2: آیت۔5۔ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اصل میں بالکل بےعلم تھا۔ اسے جو کچھ بھی علم حاصل ہوا ہے وہ اللہ کے دینے سے حاصل ہوا ہے۔ اللہ ہی نے جس مرحلے پر انسان کے لیے علم کے جو دروازے کھولنے چاہے وہ اس پر کھلتے چلے گئے۔ جن جن چیزوں کو انسان اپنی علمی دریافت سمجھتا ہے درحقیقت وہ پہلے اس کے علم میں نہ تھیں، اللہ ہی نے جب چاہا ان کا علم اسے دیا (تفہیم القرآن) یہ وہ مادی علوم ہیں، جن کا دروازہ کھولنے کا جب اللہ تعالیٰ فیصلہ کر لیتا ہے تو انسان اپنے حواس خمسہ کے ذریعے اور اپنی عقل کی مدد سے ان تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن اس کائنات کے وہ حقائق جو انسان کے حواس خمسہ اور عقل کی پہنچ سے باہر ہیں، ان کی تعلیم کے لیے رسل وکتب کا سلسلہ قائم کیا تھا۔ پھر رسول اللہ
پر اس علم وحی کے فائنل ایڈیشن کا نزول ہوا۔ جبکہ مادی علوم کی تعلیم کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ (مرتب)

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ   Ą۝ۚ
[خَلَقَ الْانسَان: اس نے پیدا کیا انسان کو][ مِنْ عَلَقٍ: ایک چمٹے ہوئے خون سے]

اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ  Ǽ۝ۙ
[اِقْرَاْ: آپؐ پڑھیئے][ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ: اور آپؐ کا رب ہی سب سے زیادہ کریم ہے]

الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ Ć۝ۙ
[الَّذِي عَلَّمَ: وہ، جس نے علم دیا][ بِالْقَلَمِ: قلم کے ذریعہ سے]

عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ Ĉ۝ۭ
[عَلَّمَ الْانسَان: اس نے علم دیا انسان کو][ مَا: اس کا جس کو][ لَمْ يَعْلَمْ: اس نے جانا ہی نہیں]

كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى   Č۝ۙ
[كَلَّآ ان الْانسَان: ہرگز نہیں! بیشک انسان][ لَيَطْغٰٓى: ضرور سرکشی کرتا ہے]

اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى  Ċ۝ۭ
[ان رَّاٰهُ : (جب) کہ وہ دیکھے خود کو][اسْتَغْنٰى: بےنیاز]

اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى  Ď۝ۭ
[ان اِلٰى رَبِكَ: بےشک آپؐ کے رب کی طرف ہی][ الرُّجْعٰى: لوٹنا ہے (سب کو)]

 

ترکیب: (آیت۔8) اَلرُّ جْعیٰ فُعْلٰی کا وزن ہے لیکن یہ افعل تفضیل میں واحد مونث نہیں ہے بلکہ یہ رَجَعَ۔ یَرْجِعُ کا ایک مصدر ہے۔ فُعْلٰی کے وزن پر کچھ مصدر بھی آتے ہیں۔

اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰى   ۝ۙ
[اَرَءَيْتَ الَّذِي يَنْهٰى: کیا آپؐ نے دیکھا اس کو جو روکتا ہے]

عَبْدًا اِذَا صَلّٰى   10۝ۭ
[عَبْدًا اِذَا صَلّٰى: ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے]

اَرَءَيْتَ اِنْ كَانَ عَلَي الْهُدٰٓى    11۝ۙ
اَرَءَيْتَ: کیا آپؐ نے غور کیا][ ان كَان: اگر وہ ہوتا ][ عَلَي الْهُدٰٓى: ہدایت پر]

 

 (آیات۔11۔ 13) ان دونوں آیات میں اِنْ شرطیہ ہے۔ دونوں کا جوابِ شرط محذوف ہے جسے ترجمہ میں ظاہر کیا جائے گا۔

اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰى   12۝ۭ
[اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰى: یا وہ ترغیب دیتا خدا خوفی کی (تو کیسا انسان ہوتا)]

اَرَءَيْتَ اِنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى   13؀ۭ
[اَرَءَيْتَ: کیا آپؐ نے غور کیا][ ان كَذَّبَ وَتَوَلّٰى: اگر اس نے جھٹلایا اور اعراض کیا (تو اپنا ہی نقصان کیا)]

اَلَمْ يَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰهَ يَرٰى    14؀ۭ
[اَلَمْ يَعْلَمْ: کیا اس نے جانا ہی نہیں][ بِان اللّٰهَ يَرٰى: کہ اللہ دیکھتا ہے (سب کچھ)]

كَلَّا لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَهِ ڏ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِيَةِ     15؀ۙ
[كَلَّا لَىِنْ لَمْ يَنْتَهِ : ہرگز نہیں! بیشک اگر وہ باز نہ آیا][ لَنَسْفَعًۢا بِالنَاصِيَةِ: تو ہم ضرور پکڑ کر گھسیٹیں گے (اس کو) پیشانی کے بال سے]

 

 س ف ع

[سَفْعًا: (ف) کسی کو پکڑ کر گھسیٹنا۔ کھینچنا۔ زیر مطالعہ آیت۔15۔]

 

 (آیت۔15) یَنْتَہِ دراصل مضارع یَنْتَھِیْ ہے۔ اس کو لَمْ نے مجزوم کیا تو یا گر گئی۔ لَنَسْفَعًا دراصل مضارع نَسْفَعُ ہے۔ اس پر لام تاکید اور نون خفیفہ داخل ہوا تو یہ لَنَسْفَعَنْ ہو گیا اور عربی میں یہ اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ یہ قرآن کا مخصوص املا ہے کہ نون خفیفہ کی جگہ تنوین لگا کر الف کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ ایسا قرآن میں صرف دو مرتبہ ہوا ہے۔ ایک اس جگہ اور دوسری سورۂ یوسف کی آیت۔32۔ میں لَیَکُوْنَنْ کو لَیَکُوْناً لکھا گیا ہے۔

نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ     16؀ۭ
[نَاصِيَةٍ: ایک ایسی پیشانی سے جو][ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ: جھوٹی خطاکار ہے۔]

 

 (آیت۔16) ۔ نَاصِیَۃٍ سابقہ آیت میں بِالنَّاصِیَۃِ کا بدل ہونے کی وجہ سے حالت جَر میں ہے اور یہ نکرہ موصوفہ ہے۔ حالانکہ بِالنَّاصِیَۃِ معرفہ ہے اور اس کا بدل نَاصِیَۃٍ نکرہ ہے۔ لیکن نکرہ موصوف ہو تو معرفہ سے بدل پڑ سکتا ہے۔ (تدبر قرآن) کَاذِبَۃٍ اور خَاطِئَۃٍ اس کی صفت ہونے کی وجہ سے حالت جَر میں ہیں۔

فَلْيَدْعُ نَادِيَهٗ    17؀ۙ
[فَلْيَدْعُ نَادِيَهٗ: پس اسے چاہیے کہ وہ بلا لے اپنے اہل مجلس کو]

 

نوٹ 1: ان آیات میں آخر سورہ تک ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب نبی کریم
نے نماز پڑھنا شروع کی تو ابوجہل نے آپ کو نماز پڑھنے سے روکا اور دھمکی دی کہ آئندہ نماز پڑھیں گے تو وہ معاذ اللہ آپ کی گردن کو پائوں سے کچل دے گا۔ (معارف القرآن) ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ مقام ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے کہا کہ میں نے تم کو اس سے منع نہیں کیا تھا۔ اور اس نے آپ کو دھمکیاں دیں۔ جواب میں آپ نے اس کو جھڑک دیا۔ اس پر اس نے کہا کہ تم کس بل بوتے پر مجھے ڈراتے ہو۔ خدا کی قسم اس وادی میں میرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں۔ آیات۔ 17۔ 18۔ میں اس کا حوالہ ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ 2: اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے منصب پر سرفراز فرمانے کے بعد رسول اللہ
کو نماز پڑھنے کا طریقہ سکھا دیا تھا۔ اس طریقے کا ذکر قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے۔ یہ اس بات کا یک اور ثبوت ہے کہ رسول اللہ پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعے سے آپ کو ایسی باتوں کی تعلیم دی جاتی تھی جو قرآن میں درج نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ 3: رسول اللہ
نے فرمایا کہ بندہ اپنے رب سے قریب تر اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو۔ اس لیے سجدہ میں بہت دعا کیا کرو ایک دوسری حدیث میں یہ لفظ بھی آئے ہیں کہ سجدے کی حالت میں دعا قبول ہونے کے لائق ہے۔

 نفل نماز کے سجدہ میں دعا کرنا ثابت ہے۔ بعض احادیث میں دعا کے خاص الفاظ بھی آئے ہیں۔ وہ الفاظ ماثورہ پڑھے جائیں تو بہتر ہے۔ فرض نمازوں میں اس طرح کی دعائیں ثابت نہیں ہیں کیونکہ فرائض میں اختصار مطلوب ہے (معارف القرآن) ہمیں بزرگوں نے یہ سکھایا تھا کہ نفل نماز کے سجدوں میں صرف وہ دعائیں مانگی جا سکتی ہیں جو قرآن مجید اور احادیث میں دی ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ دعائیں مانگنی ہوں تو سلام پھیر کے استغفار اور درود شریف پڑھنے کے بعد دعا مانگتے ہوئے سجدے میں چلے جائو، پھر جو چاہو مانگو، جس زبان میں چاہو مانگو۔ (مرتب)

14۔ محرم الحرام 1432 ھ بمطابق 21 دسمبر 2010ئ۔

سَـنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ    18؀ۙ
[سَـنَدْعُ الزَّبَانيَةَ: ہم بلائیں گے سپاہیوں (فرشتوں ) کو]

 

 زب ن

[زَبْنًا: (ض) ٹکر لگانا۔ دھکے دینا۔]

 زِبْنِیَِۃٌ ج زبا نِیَۃٌ۔ سخت انسان یا جن۔ سپاہی۔ زیر مطالعہ آیت۔18۔ ]

كَلَّا ۭ لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ     19؀ڙ
[كَلَّا ۭ لَا تُطِعْهُ: ہرگز نہیں! آپ مت مانیں اس کی][ وَاسْجُدْ: اور آپؐ سجدہ کریں][ وَاقْتَرِبْ: اور آپؐ قربت اختیار کریں (سجدہ۔14)]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ   Ǻ۝ښ
[انآ انزَلْنٰهُ: یقینا ہم نے ہی اتارا اس (قرآن) کو][ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ: قدر کی رات میں]

 

نوٹ 1: قدر کے ایک معنی عظمت وشرف (قدروقیمت والا ہونا) کے ہیں۔ اور اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ اس رات کی عظمت ہے۔ قدر کے دوسرے معنی تقدیر کے بھی آتے ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے اس کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یہ ہوگی کہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لیے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے، اس کا جو حصہ اس سال رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والا ہے، وہ ان فرشتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جو کائنات کے امور نافذ کرنے کے لیے مامور ہیں۔ حضرت ابن عباس  (رض)  کا قول ہے کہ وہ فرشتے جن کو یہ امور سپرد کیے جاتے ہیں چار ہیں، حضرت اسرافیل ؑ، حضرت میکا ئیل ؑ، حضرت عزرائیل ؑ، حضرت جبریل ؑ۔

 قرآن کریم کی تصریحات سے ثابت ہے کہ شب قدر ماہِ رمضان المبارک میں آتی ہے۔ مگر تاریخ کے تعین میں علماء کے مختلف اقوال ہیں صحیح یہ ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے مگر آخری عشرہ کی کوئی خاص تاریخ متعین نہیں بلکہ ان میں سے کسی بھی رات میں ہو سکتی ہے اور وہ ہر رمضان میں بدلتی بھی رہتی ہے۔ اور ان میں سے طاق راتوں میں زیادہ احتمال ہے۔ اس رات کی سب سے بڑی فضیلت تو وہی ہے جو اس سورت میں بیان ہوئی ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں یعنی 83 سال سے زائد کی عبادت سے بھی بہتر ہے۔ پھر بہتر ہونے کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ کتنی بہتر ہے دوگنی، چوگنی، دس گنی، سوگنی وغیرہ سب ہی احتمالات ہیں۔ (قیاس یہ کہتا ہے کہ حد مقرر نہ کرنے میں شاید یہ حکمت ہو کہ بندے بندے کی عبادت میں اخلاص کی وجہ سے فرق ہوتا ہے۔ اس کا لحاظ رکھنے کی خاطر حد کو کھلا چھوڑا گیا ہے۔ گویا فکر ہر کس بقدر ہمت اوست والی بات ہے۔ مرتب) رسول اللہ
نے فرمایا کہ جو شب قدر میں عبادت کے لیے کھڑا رہا اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہو گئے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا کہ شب قدر میں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہیٰ پر ہے، حضرت جبریل ؑ کے ساتھ دنیا میں اترتے ہیں اور کوئی مومن مرد یا عورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں بجز اس کے جو شراب پیتا ہو یا سور کا گوشت کھاتا ہو۔ شب قدر میں بعض حضرات کو خاص انوار کا مشاہدہ بھی ہوتا ہے، مگر اس رات کی برکات اور ثواب حاصل ہونے میں ایسے مشاہدات کا کچھ دخل نہیں ہے اس لیے اس کی فکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔

 اس سورت کی پہلی آیت میں تصریح ہے کہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا۔ اس کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ پورا قرآن لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر اتارا گیا پھر جبریل ؑ اس کو تدریجاً۔ 23۔ سال کے عرصے میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق تھوڑا تھوڑا لاتے رہے۔ اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ نزولِ قرآن کی ابتدا اس رات میں چند آیتوں سے ہو گئی، باقی بعد میں نازل ہوتا رہا۔ رسول اللہ
نے فرمایا کہ مصحفِ ابراہیم علیہ السلام تیسری رمضان میں تو رات چھٹی رمضان میں، انجیل تیرھویں رمضان اور زبور اٹھارویں رمضان میں نازل ہوئی ہیں۔

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ   Ą۝ۭ
[وَمَآ اَدْرٰىكَ: اور آپؐ کیا جانیں][ مَا: کیا ہے][ لَيْلَةُ الْقَدْرِ: قدر کی رات]

لَيْلَةُ الْقَدْرِ ڏ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ  Ǽ۝ڼ
[لَيْلَةُ الْقَدْرِ ڏ خَيْرٌ: قدر کی رات زیادہ بہتر ہے][ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ: ایک ہزار مہینوں سے]

تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ Ć۝ڒ
[تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ: اترتے ہیں فرشتے اور وہ روح (جبریلؑ)][ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِهِمْ ۚ : اس (رات) میں اپنے رب کے اِذن سے][مِنْ كُلِ اَمْرٍ: ہر کام سے (کے ساتھ)]

سَلٰمٌ    ڕهِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ Ĉ۝ۧ
[سَلٰمٌ هِيَ: سلامتی ہے یہ (رات)][ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ: فجر کے طلوع ہونے کے وقت تک]

 

ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ کا مطلب یہ ہے کہ لیلۃ القدر کی برکات رات کے کسی خاص حصے کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ غروبِ آفتاب سے طلوع فجر تک ایک ہی حکم ہے۔ جس شخص نے شب قدر میں عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لی اس نے بھی اس رات کا ثواب پا لیا اور جو شخص جتنا زیادہ کرے گا اتنا زیادہ ثواب پائے گا۔ رسول اللہ
نے فرمایا کہ جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرلی تو آدھی رات کے قیام کا ثواب پا لیا اور جس نے صبح کی نماز بھی جماعت سے ادا کرلی تو پوری رات جاگنے عبادت کرنے کا ثواب حاصل کر لیا۔

 اختلاف مطالع (سورج طلوع ہونے کے وقت میں فرق) کی وجہ سے مختلف ملکوں اور شہروں میں شب قدر مختلف اوقات اور مختلف دنوں میں ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ کیونکہ ہر جگہ کے اعتبار سے جو رات شب قدر قرار پائے گی، اس جگہ اسی رات میں شب قدر کے برکات حاصل ہوں گے۔ (معارف القرآن۔ ج 8۔ ص 791 تا 794 سے ماخوذ)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ    Ǻ۝ۙ
[لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوْا: تھے ہی نہیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا][ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ: مشرکین اور اہل کتاب میں سے][ مُنْفَكِّيْنَ: باز آنے والے (کفر سے)][ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ: جب تک کہ (نہ) پہنچے ان کے پاس][ الْبَيِّنَةُ: روشن دلیل]

 

ترکیب: (آیت۔1) لَمْ یَکُنْ میں کَانَ کا اسم اَلَّذِیْنَ سے اَلْمُشْرِکِیْنَ تک کا پورا فقرہ ہے اور مُنْفَکِّیْنَ اس کی خبر ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ اَلْمُشْرِکِیْنَ سابقہ مِنْ پر عطف ہونے کی وجہ سے حالت جَر میں ہے۔ (آیت۔2) رَسُولٌ کو اگر خبر مانیں تو اس سے پہلے اس کا مبتدا محذوف مانا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کو فاعل مانیں اور اس سے پہلے فعل فَقَدْ جَائَ یا فَقَدْ اَتٰی محذوف مانیں۔ دونوں صورتوں میں یہ پورا جملہ سابقہ اَلْبَیِّنَۃُ کی وضاحت ہے۔ ترجمہ میں ہم دوسری صورت کو ترجیح دیں گے کیونکہ ایسی صورت میں آگے فعل مضارع یَتْلُوْا کو رَسُوْلٌ کا حال ماننے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے، جو زیادہ حسب حال ہے۔ صُحْفًا مُّطَھَّرَۃً یہ پورا مرکب توصیفی نکرہ مخصوصہ ہے۔ اور آگے کا پورا جملہ اس کی خصوصیت ہے۔ (آیت۔3) کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ مبتدا مؤخر نکرہ ہے اس کی خبر موجودۃُ محذوف ہے اور فِیْھَا قائم مقام خبر مقدم ہے۔ اس میں ھَا کی ضمیر صُحُفًا مُّطَھَّرَۃٌ کے لیے ہے۔ (آیت۔5) لِیَعْبُدُوا پر لام کَی نہیں ہے۔ آیت میں سے مَا نا فیہ اور اِلاَّ کو نکال دیں تو عبارت یوں بنتی ہے۔ وَاُمِرُوْا لِیَعْبُدُوْا۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ اس پر لام کَی نہیں بلکہ لام امر ہے اور یَعْبُدُوْا منصوب نہیں بلکہ مجزوم ہے۔ ترجمہ اسی لحاظ سے کرنا ہو گا۔ مُخْلِصِیْنَ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے اور یہ اسم الفاعل ہے۔ اس نے الدِّیْنَ کو نصب دی ہے۔ یُقِیْمُوْا اور یُؤْتُوْا سابقہ لِیَعْبُدُوْا کے لام امر پر عطف ہونے کی وجہ سے مجزوم ہیں۔ دِیْنُ الْقِیَمّۃِ مرکب اضافی ہے۔ اَلْقَیِّمَۃِ مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے دِیْنُ کی صفت نہیں ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کا موصوف یہاں محذوف ہے جو اَلْمِلَّۃِ یا اَلرِّجَالِ ہو سکتا ہے۔

 

نوٹ 1: قرآن مجید کی ترتیب میں سورۃ البینہ کو سورۂ علق اور سورۂ قدر کے بعد رکھنا بہت معنی خیز ہے۔ سورۂ علق میں پہلی وحی درج کی گئی ہے۔ سورۂ قدر میں بتایا گیا ہے کہ وہ کب نازل ہوئی اور اس سورہ میں بتایا گیا ہے کہ اس کتاب کے ساتھ ایک رسول بھیجنا کیوں ضروری تھا۔

نوٹ 2: کفر میں مشترک ہونے کے باوجود اہل کتاب اور مشرکین، دونوں گروہوں کو دو الگ الگ ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس انبیاء کی لائی ہوئی کتابیں تھیں اور مشرکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی نبی کے پیرو اور کسی کتاب کے ماننے والے نہ تھے۔ اگرچہ قرآن مجید میں اہل کتاب کے شرک کا بہت سے مقامات پر ذکر کیا گیا ہے لیکن قرآن میں کہیں بھی ان کے لیے مشرک کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اصل دین تو توحید ہی کو مانتے تھے اور پھر شرک کرتے تھے۔ بخلاف اس کے غیر اہل کتاب کے لیے مشرک کا لفظ بطور اصطلاح استعمال کیا گیا ہے کیونکہ وہ اصل دین شرک ہی کو قرار دیتے تھے اور توحید کو ماننے سے ان کو قطعی انکار تھا۔ یہ فرق ان دونوں گروہوں کے درمیان صرف اصطلاح میں ہی نہیں بلکہ شریعت کے احکام میں بھی ہے۔ اہل کتاب کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال کیا گیا اور ان کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی۔ جبکہ مشرکین کا نہ ذبیحہ حلال ہے اور نہ ان کی عورتوں سے نکاح حلال ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ 3: آیت۔1۔ کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کے کفر سے نکلنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ ایک روشن دلیل آ کر انھیں کفر کی ہر صورت کا غلط اور خلافِ عقل ہونا سمجھائے اور راہ راست کو واضح اور مدلل طریقے سے ان کے سامنے پیش کر دے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس روشن دلیل کے آ جانے کے بعد وہ سب کفر سے باز آ جانے والے تھے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دلیل کی غیر موجودگی میں ان کا حالت کفر سے نکلنا ممکن ہی نہ تھا۔ البتہ اس کے آنے کے بعد بھی ان میں سے کچھ لوگ اگر کفر پر قائم رہیں تو اس کی ذمہ داری پھر ان ہی پر ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ 4: کفروشرک کی عالمگیر ظلمت کو دور کرنے کے لیے رب العالمین کی حکمت ورحمت کا تقاضہ یہ ہوا کہ جیسے یہ مرض شدید اور عالمگیر ہے، اس کے علاج کے لیے ویسا ہی کوئی ماہر معالج بھیجنا چاہیے آگے اس ماہر حکیم کی صفت بیان کی کہ اس کا وجود ایک اَلْبَیِّنَۃ یعنی روشن دلیل ہو۔ آگے فرمایا اس معالج سے مراد اللہ کا وہ رسول ہے جو قرآن کی واضح حجت لے کر ان کے پاس آئے۔ آگے قرآن کی چند اہم صفات کا بیان ہے۔

 تلاوت کے معنے پڑھنے کے ہیں لیکن ہر پڑھنے کو تلاوت نہیں کہا جاتا بلکہ تلاوت اس پڑھنے کو کہتے ہیں جو پڑھانے والے کی تلقین کے بالکل مطابق ہو۔ کتاب اور صحیفہ تقریباً ہم معنی لفظ ہیں۔ لیکن کتاب کا لفظ حکم کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے اور قرآن میں بھی اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً الانفال۔ 68۔ اس جگہ بھی یہی دوسرے معنی مراد ہیں۔ حضرت ابن عباس  (رض)  کا قول ہے کہ صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً سے مراد یہ ہے کہ یہ صحیفے جھوٹ، شک، نفاق اور گمراہی سے پاک ہیں۔ آگے قَیِّمَۃ کو اگر مستقیم کے معنی میں کتب یعنی احکام کی صفت لیں تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ احکام منصفانہ اور معتدل ہیں اور اگر اس کو مضبوط ومستحکم کے معنی میں لیں تو مطلب ہو گا کہ یہ احکام جو قرآن میں آئے ہیں قیامت تک قائم رہیں گے۔ (معارف القرآن)

رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً   Ą۝ۙ
[رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ: (تو آ چکا ہے) ایک رسول اللہ کی طرف سے][ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً: پڑھتا ہوا ایسے پاکیزہ صحیفے]

فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ   Ǽ۝ۭ
[فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ: جن میں پختہ لکھی ہوئی باتیں (احکام) ہیں]

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا   ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ   Č۝ۭ
[ان الَّذِينَ كَفَرُوْا: بیشک وہ لوگ جنھوں نے انکار کیا][ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: اہل کتاب میں سے][ وَالْمُشْرِكِيْنَ: اور (بیشک) سب شرک کرنے والے][ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ: جہنم کی آگ میں ہیں][ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ: ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے اس میں][ اُولٰۗىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ: وہ لوگ ہی تمام مخلوق کے بدترین ہیں]

 

ترکیب 1: اَلْمُشْرِکِیْنَ کے دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو مِنْ پر عطف مانا جائے۔ ایسی صورت میں مطلب ہو گا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ (مِنَ) الْمُشْرِکِیْنَ۔ دوسرے یہ کہ اس کو اِنَّ پر عطف مانا جائے۔ ایسی صورت میں مطلب ہو گا وَ (اِنَّ) الْمُشْرِکِیْنَ۔ دونوں ترجمے درست مانے جائیں گے۔ یہ پورا فقرہ مبتدا ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے۔ فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ قائم مقام خبر ہے اور خٰلِدِیْنَ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے ھُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ میں ھُمْ ضمیر فاصل ہے۔ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ مرکب اضافی ہے اس لیے یہاں شَرُّ تفضیل کل (
SuperlativeDegree ) ہے۔ (دیکھیں آسان عربی گرامر حصہ سوم، پیراگراف:6:62) اَلْبَرِیَّۃِ دراصل فَعِیْلٌ کے وزن پر بَرِیْئٌ کا مونث بَرِیْئَۃٌ ہے، اس کو اس طرح بھی پڑھتے ہیں اور ہمزہ کو یا میں تبدیل کر کے بَرِیَّۃٌ بھی پڑھتے ہیں۔

 

نوٹ 1: آیت۔6۔ میں فرمایا کہ جو قرآن کی تکذیب کر کے کفر کے مرتکب ہوئے ہیں وہ سب جہنم میں بھر دئیے جائیں گے۔ ساتھ ہی یہ تاکید بھی ہے کہ وہ اس جہنم میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل کیے جائیں گے۔ یہاں اہل کتاب کے زعم پر نظر رہے کہ اول تو دوزخ کی آگ سے ان کو کوئی سابقہ پڑنے والا نہیں ہے اور اگر پڑا بھی تو وہ چند دنوں سے زیادہ کے لیے نہیں ہو گا۔ آگے اُولٰگکَ ھُمْ شَرُّالْبَرِیَّۃِ فرما کر ان کے غرور وتکبر پر ضرب لگائی گئی ہے۔ اہل کتاب اور مشرکین کے سردار قرآن اور پیغمبر
پر ایمان لانے کے لیے شرط لگاتے تھے کہ جب تک کوئی فرشتہ آسمان سے نہیں اترے گا یا ایسی ہی دوسری شرائط لگاتے کہ اس کے بغیر وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ محمد اپنے دعوائے رسالت میں سچے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ شرائط وہ اس غرور کی بنا پر لگاتے تھے کہ وہ اپنے ہی اند رکے ایک شخص کو جو دنیوی اعتبار سے ان سے کم تر بھی ہے، خدا کا رسول مان کر اس کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں کس طرح ڈال لیں۔ ان کا یہ غرور قبولِ حق سے مانع بنا جس نے ان کو بدترین مخلوق بنا دیا۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ   Ċ۝ۭ
[ان الَّذِينَ اٰمَنُوْا: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے][وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ: اور انھوں نے عمل کیے نیکیوں کے][ اُولٰۗىِٕكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ: وہ لوگ ہی تمام مخلوق کے بہترین ہیں]

جَزَاۗؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا   ۭرَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ   ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهٗ   Ď۝ۧ
[جَزَاۗؤُهُمْ: ان لوگوں کی جزا][ عِنْدَ رَبِهِمْ: ان کے رب کے پاس ][ جَنّٰتُ عَدْنٍ: عدن کے باغات ہیں][ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْانهٰرُ: بہتی ہیں جن کے دامن سے نہریں][ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا: ایک حالت میں رہنے والے ہوتے ہوئے اس میں ہمیشہ][ ۭرَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ: راضی ہوا اللہ ان لوگوں سے][ وَرَضُوْا عَنْهُ ۭ: اور وہ لوگ راضی ہوئے اس سے][ ذٰلِكَ لِمَنْ: یہ اس کے لیے ہے جو][ خَشِيَ رَبَّهٗ: مرعوب ہوا اپنے رب سے]

 (آیت۔8) جزاؤُھُمْ مبتدا ہے۔ عِنْدَ رَبِّھِمْ اس کی خبر نہیں ہے بلکہ متعلق خبر مقدم ہے اور جَنّٰتُ عَدْنٍ اس کی خبر ہے۔

نوٹ 2: آیت۔8۔ میں اہل جنت کی سب سے بڑی نعمت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے، اب ناراضی کا کوئی خطرہ نہیں۔ رسول اللہ
نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے خطاب فرمائیں گے یَا اھْلَ الْجَنَّۃِ تو اہل جنت جواب دیں گے لَبَّیْکَ رَبَّنَا وَ سَعْدَیْکَ وَالْخیْرُ کُلُّہٗ فِیْ یَدَیْکَ۔ پھر حق تعالیٰ فرمائیں گے ھَلْ رَضِیْتُمْ۔ وہ جواب دیں گے اے ہمارے پروردگار اب بھی راضی نہ ہونے کا کیا احتمال ہے جبکہ آپ نے ہمیں وہ سب کچھ عطا فرما دیا جو کسی مخلوق کو نہیں مِلا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا میں تم کو اس سے بھی افضل اور بہتر نعمت دے دوں۔ پھر فرمائیں گے کہ میں نے اپنی رضا تمھارے اوپر نازل کر دی اب کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔ اس حدیث میں اہل جنت سے پوچھا گیا ہے کہ آپ راضی بھی ہو۔ اور اس آیت میں خبر دی گئی ہے کہ اہل جنت اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں گے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے ہر حکم اور ہر فعل سے راضی ہونا تو لازمۂ عبدیت ہے۔ اس کے بغیر تو کوئی جنت میں جا ہی نہیں سکتا، پھر یہاں اہل جنت کی رضامندی کا ذکر کرنے کا کیا مطلب ہے جواب یہ ہے کہ رضا کے عام مفہوم کے اعتبار سے تو رضاء بالقدر فرائض عبدیت میں سے ہے لیکن رضا کا ایک درجہ اور بھی ہے جو اس سے آگے ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس کی ہر مراد عطا کر دیں اور کوئی تمنا یا آرزو باقی نہ چھوڑیں۔ (معارف القرآن)

نوٹ 3: سورت کے آخر میں وہ بات بتا دی جس پر تمام دینی کمالات اور آخرت کی نعمتوں کا مدار ہے اور وہ ہے اللہ کی خشیت۔ خشیت اس خوف کو نہیں کہا جاتا جو کسی دشمن، درندے یا موذی چیز سے طبعاً ہوتا ہے بلکہ خشیت اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت اور جلال سے پیدا ہو اور جس کا تقاضہ یہ ہو کہ وہ ہر کام اور ہر حال میں اس کی رضاجوئی کی فکر کرے اور ناراضی کے شبہہ سے بھی بچتا رہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو عبدِ کامل اور مقبول بنانے والی ہے۔ (معارف القرآن)

مورخہ 5۔ صفر 1432 ھ بمطابق 10۔ جنوری 2011 ء

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا   Ǻ۝ۙ
[اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ: جب ہلایا جائے گا زمین کو][ زِلْزَالَهَا: جیسے اس کو ہلا مارنے کا حق ہے]

 

ترکیب: (آیت۔1 تا 3) بات اِذَا سے شروع ہو رہی ہے اس لیے ان آیات میں آے والے افعال ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہو گا۔

 

نوٹ 1: اس میں اختلاف ہے کہ یہاں جس زلزلہ کا ذکر ہے، یہ وہ زلزلہ ہے جو نفخۂِ اولٰی (پہلا صور پھونکے جانے) سے پہلے دنیا میں ہو گا، جیسا کہ علاماتِ قیامت میں ذکر آیا ہے۔ یا اس زلزلہ سے مراد وہ زلزلہ ہے جو دوسرا صور پھونکے جانے کے بعد ہو گا جب مردے زندہ ہو کر اٹھیں گے۔ مفسرین کے اقوال مختلف ہیں لیکن آگے احوال قیامت اور حساب کتاب کا ذکر ہے، وہ قرینہ اسی کا ہے کہ یہ زلزلہ دوسرا صور پھونکے جانے کے بعد کا ہے۔ (معارف القرآن) ۔

 اس وقت زمین جو کچھ اس کے پیٹ میں ہے مثلاً مردے یا سونا چاندی وغیرہ، سب کچھ باہر اگل ڈالے گی لیکن اس وقت مال کا کوئی لینے والا نہ ہو گا۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) ) ۔ رسول اللہ
نے فرمایا کہ زمین اپنے جگر کے ٹکڑے بڑی چٹانوں کی صورت میں اُگل دے گی۔ اس وقت ایک شخص جس نے مال کے لیے کسی کو قتل کیا تھا وہ دیکھ کر کہے گا یہ وہ چیز ہے جس کے لیے میں نے اتنا بڑا جرم کیا تھا۔ جس شخص نے اپنے رشتہ داروں سے مال کی وجہ سے قطع تعلق کیا تھا وہ کہے گا یہ ہے وہ چیز جس کے لیے میں نے یہ حرکت کی تھی۔ چوری کی سزا میں جس چور کا ہاتھ کاٹا گیا تھا وہ کہے گا اس کے لیے میں نے اپنا ہاتھ گنوایا تھا۔ پھر کوئی بھی اس سونے کی طرف التفات نہ کرے گا۔ (معارف القرآن)

وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَا  Ą۝ۙ
[وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ: اور نکال ڈالے گی زمین][ اَثْقَالَهَا: اپنے سارے بوجھ]

وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَا  Ǽ۝ۚ
[وَقَالَ الْانسَان: اور کہے گا انسان][مَالَهَا: اس کو کیا (ہوگیا) ہے]

يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا  Ć۝ۙ
[يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ: اس دن وہ بیان کرے گی][ اَخْبَارَهَا: اپنی خبریں]

 

(آیت۔4) تُحَدِّثُ کا مفعول اَخْبَارَھَا بنفسہٖ آیا ہے۔ اس حوالے سے نوٹ کرلیں کہ حَدَّثَ کا مفعول بِ کے صلہ کے ساتھ بھی آتا ہے اور بنفسہٖ بھی آتا ہے۔

 

نوٹ 2: آیت۔4۔ کے متعلق رسول اللہ
نے فرمایا کہ وہ حالات یہ ہیں کہ زمین ہر بندے اور بندی کے بارے میں اس عمل کی گواہی دے گی جو اس کی پیٹھ پر اس نے کیا ہو گا۔ وہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں کام کیا تھا۔ یہ ہیں وہ حالات جو زمین بیان کرے گی۔

 زمین کے متعلق یہ بات کہ وہ قیامت کے روز اپنے اوپر گزرے ہوئے سب حالات و واقعات بیان کرے گی، قدیم زمانے کے آدمی کے لیے تو بڑی حیران کُن ہوگی کہ آخر زمین کیسے بولنے لگے گی، لیکن آج علوم طبعی کے انکشافات اور سنیما، ریڈیو، ٹیلیویژن، ٹیپ ریکارڈر، الیکٹرانکس وغیرہ ایجادات کے اس دور میں یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ زمین اپنے حالات کیسے بیان کرے گی۔ انسان اپنی زبان سے جو کچھ بولتا ہے اس کے نقوش ہوا میں، ریڈیائی لہروں میں اور مختلف جگہوں کے ذرات میں ثبت ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس وقت چاہے ان ساری آوازوں کو ٹھیک اسی طرح ان چیزوں سے دہروا سکتا ہے جس طرح کبھی وہ انسان کے منہ سے نکلی تھیں۔ پھر انسان نے زمین پر جہاں بھی کوئی کام کیا ہے اس کی ایک ایک حرکت کا عکس اس کے گردوپیش کی تمام چیزوں پر پڑا ہے اور اس کی تصویر ان پر نقش ہو چکی ہے۔ بالکل گھپ اندھیرے میں بھی اس نے کوئی فعل کیا ہو تو خدا کی خدائی میں ایسی شعاعیں موجود ہیں جن کے لیے اندھیرا اور اُجالا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ ہر حالت میں اس کی تصویر لے سکتی ہیں۔ یہ ساری تصویریں قیامت کے روز ایک متحرک فلم کی طرح انسان کے سامنے آ جائیں گی۔

 اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے اعمال کو براہِ راست خود جانتا ہے، مگر آخرت میں جب وہ عدالت قائم کرے گا تو جس کو بھی سزا دے گا، انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے دے گا۔ اس کی عدالت میں ہر مجرم انسان کے خلاف جو مقدمہ قائم کیا جائے گا، اس کو ایسی مکمل شہادتوں سے ثابت کردیا جائے گا کہ اس کے مجرم ہونے میں کسی کلام کی گنجائش باقی نہ رہے۔ (تفہیم القرآن)

بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَا  Ĉ۝ۭ
[بِان رَبَّكَ: (یہ) اس سبب سے کہ آپؐ کے رب نے][ اَوْحٰى لَهَا: الہام کیا اس کو]

 

 (آیت۔ 5) قرآن مجید میں تقریباً ہر جگہ اَوْحیٰ کا مفعول الیٰ کے صلہ کے ساتھ آیا ہے۔ یہ واحد مقام ہے جہاں اس کی ضمیر مفعولی ھا کے ساتھ لام کا صلہ آیا ہے۔

يَوْمَىِٕذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا   ڏ لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ Č۝ۭ
[يَوْمَىِٕذٍ يَّصْدُرُ النَاسُ: اس دن واپس ہوں گے لوگ][ اَشْتَاتًا: الگ الگ ہوتے ہوئے][ لِيُرَوْا: تاکہ ان لوگوں کو دکھایا جائے][ اَعْمَالَهُمْ : ان کا سب کیا دھرا]

 

 (آیت۔6) اَشْتَاتًا حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ یَرَوْا مضارع مجہول ہے جو ثلاثی مجرد اور بابِ افعال میں ہم شکل ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہاں ان میں پہچان کا ایک قرینہ موجود ہے۔ رَئٰ ی۔ یَرٰی (ثلاثی مجرد) کا ایک مفعول آتا ہے، کس کو دیکھا۔ جبکہ اَرٰی۔ یُرِی (باب افعال) کے دو مفعول آتے ہیں، کس کو دکھایا اور کیا دکھایا۔ یہاں یُرَوْا میں شامل ھم کی ضمیر نائب فاعل (یعنی مفعول اوّل) موجود ہے۔ آگے اَعْمَالَھُمْ اس کا مفعول ثانی آیا ہے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ یہاں یُرَوْا بابِ افعال کا مضارع مجہول ہے۔

فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ   Ċ۝ۭ
[فَمَنْ يَّعْمَلْ: پس جس نے (بھی) عمل کیا][ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا: کسی ذرہ کے ہم وزن کسی بھلائی کا][ يَّرَهٗ: تو وہ دیکھ لے گا اس کو]

 

(آیت۔7) مَنْ شرطیہ ہے۔ اس لیے یَعْمَلْ مجزوم آیا ہے۔ یَرٰی جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا تو اس کی یا گر گئی۔ ترجمہ جملہ شرطیہ کے لحاظ سے ہو گا۔ یَعْمَلْ کا مفعول خَیْرًا ہے جو نکرہ مخصوصہ ہے۔ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ اس کی خصوصیت مقدم ہے۔

نوٹ 3: آیت۔7۔ میں خیر سے مراد وُہ خیر ہے جو شرعاً معتبر ہے یعنی جو ایمان کے ساتھ ہو۔ بغیر ایمان کے کوئی نیک عمل اللہ کے نزدیک نیک نہیں یعنی آخرت میں ایسے نیک عمل کا جو حالت کفر میں کیا گیا تھا، کوئی اعتبار نہیں ہو گا، گو دنیا میں اس کو اس کا بدلہ دے دیا جائے۔ اسی لیے اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو گا وہ بالآخر جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ کیونکہ اس آیت کے وعدے کے مطابق اس کو اپنی نیکی کا پھل بھی آخرت میں ملنا ضرور ہے۔ اگر اور کوئی نیکی نہ ہو تو خود ایمان بہت بڑی نیکی ہے۔ اگلی آیت میں شر سے مراد وُہ شر ہے جس سے اپنی زندگی میں توبہ نہ کرلی ہو، کیونکہ توبہ سے گناہوں کا معاف ہونا قرآن وسنت میں یقینی طور پر ثابت ہے۔ البتہ جس گناہ سے توبہ نہ کی گئی ہو وہ چھوٹا ہو یا بڑا، آخرت میں اس کا نتیجہ ضرور سامنے آئے گا۔ رسول اللہ
نے فرمایا ایسے گناہوں سے بچنے کا پورا اہتمام کرو جن کو چھوٹا یا حقیر سمجھا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر بھی مواخذہ ہونا ہے۔ (معارف القرآن) ۔

وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ   Ď۝ۧ
[وَمَنْ يَّعْمَلْ: اور جس نے (بھی) عمل کیا][ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا: کسی ذرہ کے ہم وزن کسی برائی کا][ يَّرَهٗ: تو وہ دیکھ لے گا اس کو]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا   Ǻ۝ۙ
[وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا: قسم ہے ہانپتے ہوئے تیز دوڑنے والوں (گھوڑوں) کی]

 

 

ض ب ح

[ضَبْحًا: (ف) دوڑتے ہوئے سینے سے آواز نکالنا۔ ہانپنا۔ زیر مطالعہ آیت۔1۔]

 

ترکیب: عربی میں عام طور پر گھوڑوں کے لیے جمع مؤنث کے صیغے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان آیات میں جمع مؤنث کے صیغوں کا ترجمہ اردو محاورے کے مطابق جمع مذکر میں کیا جائے گا، (آیت۔1) ضَبْحًا حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔

 

نوٹ 1: قرآن مجید جس چیز کی قسم کھا کر کوئی مضمون بیان فرماتا ہے تو اس چیز کو اس مضمون کے ثبوت میں دخل ہوتا ہے۔ یہاں جنگی گھوڑوں کی خدمات کا ذکر اس بات کی شہادت میں لایا گیا ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ جنگی گھوڑے میدان جنگ میں انسان کے حکم اور اشارے کے تحت اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کیسی کیسی سخت خدمات انجام دیتے ہیں۔ حالانکہ انسان نے ان گھوڑوں کو پیدا نہیں کیا۔ انسان ان کو جو گھاس، دانہ وغیرہ دیتا ہے وہ بھی اس کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے۔ اس کا کام صرف اتنا ہے کہ اللہ کے پیدا کیے ہوئے رزق کو ان تک پہنچانے کا ایک واسطہ بنتا ہے۔ اب گھوڑے کو دیکھیں کہ وہ انسان کے اتنے سے احسان کو کیسا پہچانتا اور مانتا ہے کہ اس کے ایک اشارے پر اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اس کے بالمقابل انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک حقیر قطرے سے پیدا کیا، اس کو مختلف کاموں کی قوت بخشی، اس کے کھانے پینے کی ہر چیز پیدا فرمائی اور اس کی تمام ضروریات کو اس تک پہنچا دیا مگر وہ ان تمام احسانات کا شکر گزار بننے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ (معارف القرآن)

نوٹ 2: یہاں انسان کے متعلق دو باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ تکلیفوں کو یاد رکھتا ہے اور نعمتوں اور احسانات کو بھول جاتے ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ مال کی محبت میں شدید ہے۔ یہ دونوں باتیں شرعاً اور عقلاً مذموم ہیں۔ ناشکری کا مذموم ہونا تو بالکل ظاہر ہے لیکن مال کی محبت کو بھی مذموم قرار دیا گیا ہے حالانکہ اس پر انسانی ضروریات کا مدار ہے اور اس کے کسب و اکتساب کو شریعت نے صرف حلال ہی نہیں بلکہ بقدر ضرورت فرض قرار دیا ہے۔ تو مال کی محبت کا مذموم ہونا اس اعتبار سے ہے کہ انسان مال کی محبت سے اتنا مغلوب ہو جائے کہ اللہ کے احکام سے غافل ہو جائے اور حلال وحرام کی پروا نہ رہے۔ اس لیے مال کو کمانا اور بقدر ضرورت جمع کرنا تو مذموم نہیں بلکہ فرض ہے لیکن دل میں اس کی محبت ہونا مذموم ہے۔ جیسے انسان بیماری میں دوا بھی پیتا ہے، آپریشن بھی کراتا ہے مگر دل میں ان چیزوں کی محبت نہیں ہوتی بلکہ بدرجۂ مجبوری اور بقدر ضروت کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے نزدیک مومن کو ایسا ہونا چاہیے کہ بقدر ضرورت مال کو حاصل بھی کرے، اس کی حفاظت بھی کرے اور ضرورت پر اس سے کام بھی لے مگر دل اس کے ساتھ مشغول نہ ہو۔ جیسا کہ مولانا رومی (رح)  نے فرمایا: کہ پانی جب تک کشتی کے نیچے رہے تو وہ کشتی کا مددگار ہے مگر یہی پانی جب کشتی کے اندر آ جائے تو کشتی کو لے ڈوبتا ہے۔ اسی طرح مال جب تک دل کی کشتی کے اردگرد رہے تو مفید ہے لیکن جب دل کے اندر گھس گیا تو ہلاکت ہے۔ (معارف القرآن)

 مال ودولت کے متعلق اسلام کا یہ وہ متوازن طرزِ فکر اور طرزِ عمل ہے جو ہمارے پروردگار کو مطلوب ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کو بیان کرنا اور اس کی تلقین کرنا جتنا آسان ہے، اس کو اپنانا اور لائف اسٹائل بنانا اتنا ہی مشکل ہے۔ یہ اس دنیا کا پُل صراط ہے، بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز۔ کوئی مائی کا لعل گزر نہیں سکتا، اللہ اگر توفیق نہ دے۔ اس لیے اسی کے آگے گڑگڑاتے رہنا چاہیے، اسی سے توفیق وتائید مانگتے رہنا چاہیے۔ یہ لائف اسٹائل اختیار کرنا نسبتاً آسان ہے۔ اور اللہ جب اس راہ کا راہی بنا دے تو پھر کہہ دینا چاہیے حَسْبِیَ اللّٰہ لَا الٰہ الاَّ ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیِمْ (التوبہ۔129) رسول اللہ
نے فرمایا کہ جو شخص صبح اور شام اس آیت کو سات سات بار پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کو دین اور دنیا کی فکروں سے نجات دیدے گا۔ (حدیث منقول از صحیفۂ اہل حدیث، 7۔ جنوری 2011ئ۔ مرتب)

فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا  Ą۝ۙ
[فَالْمُوْرِيٰتِ: پھر قسم ہے رگڑ سے آگ نکالنے والوں کی][ قَدْحًا: جیسا رگڑنے کا حق ہے]

 

ق د ح

[قَدْحًا: (ف) دو چیزوں کو رگڑ کر آگ نکالنا، زیر مطالعہ آیت۔2۔]

 

(آیت۔2) قَدْحًا مصدر ہے اور اس میں رگڑ کر آگ جلانے کا مفہوم ہے۔ جبکہ اَلْمُوْرِیٰتِ مادہ وری سے باب افعال میں اسم الفاعل ہے۔ اس میں بھی رگڑ کر آگ جلانے والے کا مفہوم ہے۔ یہ دونوں ہم معنی ہونے کی وجہ سے بہتر ہے کہ قَدْحاً کو مُوْرِیَات کا مفعول مطلق مانا جائے۔ (حافظ احمد یار صاحب) ۔ اَلْمُوْرِیٰتِ کو حالت نصب میں ماننے کی کوئی وجہ یا قرینہ یہاں موجود نہیں ہے۔ اس لیے اس کو پہلی آیت کے واو قسمیہ پر عطف مان کر حالت جَرّ میں مانا جائے گا۔ ضَبْحًا ظرف ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔

فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا  Ǽ۝ۙ
[فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا: پھر قسم ہے صبح کے وقت غارتگری کرنے والوں کی]

فَاَثَرْنَ بِهٖ نَقْعًا  Ć۝ۙ
[فَاَثَرْنَ: پھر وہ اٹھاتے ہیں اس (وقت) میں][ بِهٖ نَقْعًا: گردوغبار کو]

 

ن ق ع

[نَقْعاً: (ف) کسی جگہ پانی کا جمع ہو کر ٹھہر جانا۔ گردوغبار کا گر کر بیٹھ جانا۔]

[ نَقْعٌ اسم ذات بھی ہے۔ گردوغبار۔ ٹھہرا ہوا پانی۔ زیر مطالعہ آیت۔4۔]

 

(آیت۔4۔5) ۔ اَثَرْنَ اور وَسَطْنَ فعل ماضی میں جمع مؤنث کے صیغے ہیں۔ لیکن ان میں آفاقی صداقت یعنی گھوڑوں کی مستقل خصلت کا بیان ہے اس لیے ان کا ترجمہ حال میں ہو گا۔ (دیکھیں آیت۔ 2:49۔ نوٹ۔2) ۔ نَقَعًا اور جَمْعاً بالترتیب اَثَرْنَ اور وَسَطْنَ کے مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں۔

فَوَسَطْنَ بِهٖ جَمْعًا  Ĉ۝ۙ
[فَوَسَطْنَ بِهٖ: پھر وہ درمیان میں گھس جاتے ہیں اس وقت][ جَمْعًا: کسی جماعت کے]

اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ   Č۝ۚ
[ان الْانسَان لِرَبِهٖ: بیشک انسان اپنے رب کے لیے][ لَكَنُوْدٌ: یقینا انتہائی ناشکرا ہے]

 

 

 ک ن د

[کُنُوْدًا: (ن) زمین کا بنجر ہونا۔ انسان کا ناشکری کرنا]

[ کَنُوْدٌ فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ نعمتوں کو بھولنے والا اور مصائب کو شمار کرنے والا۔ انتہائی ناشکرا۔ زیر مطالعہ آیت۔6۔]

وَاِنَّهٗ عَلٰي ذٰلِكَ لَشَهِيْدٌ  Ċ۝ۚ
[وَانهٗ عَلٰي ذٰلِكَ: حالانکہ بیشک وہ اس (بات) پر][ لَشَهِيْدٌ: یقینا معائنہ کرنے والاہے]

وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ  Ď۝ۭ
[وَانهٗ لِحُبِ الْخَيْرِ: اور بیشک وہ مال کی محبت کے لیے][ لَشَدِيْدٌ: یقینا بہت سخت ہے]

اَفَلَا يَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُوْرِ  ۝ۙ
[اَفَلَا يَعْلَمُ: تو کیا وہ جانتا نہیں (اس وقت کو)][ اِذَا بُعْثِرَ: جب کریدا جائے گا][ مَا فِي الْقُبُوْرِ: اس کو جو قبروں میں ہے]

وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُوْرِ   10۝ۙ
[وَحُصِّلَ مَا: اور حاصل کرلیا جائے گا اس کو جو][ فِي الصُّدُوْرِ: سینوں میں ہے]

 

ح ص ل

[حُصُوْلاً: (ن) حاصل ہونا۔ باقی رہنا۔]

(تفعیل) تحصیلاً حاصل کرنا، ظاہر کرنا، کان سے سونا، چاندی یا دوسری معدنیات نکالنا۔ کسی چیز کا چھلکا اتار کر گودہ نکالنا۔ (زیر مطالعہ آیت۔10)

 

نوٹ 3: آیت۔10۔ کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری افعال کے پیچھے جو باطنی محرکات (
Motives) چھپے ہوئے ہیں وہ سب کھول کر رکھ دئیے جائیں گے اور ان کی جانچ پڑتال کر کے اچھائی برائی کو الگ الگ کردیا جائے گا۔ یعنی فیصلہ صرف ظاہر ہی کو دیکھ کر نہیں کیا جائے گا کہ انسان نے عملاً کیا کچھ کیا۔ بلکہ دلوں میں چھپے ہوئے رازوں کو نکال کر دیکھا جائے گا کہ انسان نے جو کام کیے وہ کس نیت اور کس غرض سے کیے۔ اس بات پر اگر انسان غور کرے تو وہ یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اصلی اور مکمل انصاف خدا کی عدالت کے سوا اور کہیں نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے لادینی قوانین بھی اصولی حیثیت سے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کے محض ظاہری فعل کی بنا پر اسے سزا نہ دی جائے بلکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ اس نے کس نیت سے وہ فعل کیا۔ لیکن دنیا کی کسی عدالت کے پاس وہ ذرائع نہیں ہیں جن سے وہ نیت کی ٹھیک ٹھیک تحقیق کرسکے۔ یہ صرف اور صرف خدا ہی کرسکتا ہے کہ انسان کے ہر ظاہری فعل کے پیچھے جو باطنی محرکات کارفرما رہے ہیں ان کی بھی جانچ پڑتال کر کے جزا یا سزا کا فیصلہ کرے۔ پھر آیت کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ محض اللہ کے اس علم کی بنا پر نہیں ہو گا جو وہ دلوں کے ارادوں اور نیتوں کے بارے میں پہلے ہی سے رکھتا ہے، بلکہ قیامت کے روز ان رازوں کو کھول کر سامنے رکھ دیا جائے گا اور کھلی عدالت میں یہ دکھایا جائے گا کہ ان میں خیر کیا تھی اور شر کیا تھا۔ (تفہیم القرآن)

مورخہ 12 صفر 1432 ھ۔ بمطابق 17۔ جنوری 2011ئ۔

اِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّخَبِيْرٌ   11۝ۧ
[ان رَبَّهُمْ بِهِمْ: بیشک ان کا رب ان کے بارے میں][ يَوْمَىِٕذٍ لَّخَبِيْرٌ: اس دن یقینا خبررکھنے والا ہے]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

اَلْقَارِعَةُ    Ǻ۝ۙ
[اَلْقَارِعَةُ: کھٹکھٹانے والی]

 

نوٹ 1: قَارِعَۃٌ کا لفظی ترجمہ ہے ٹھونکنے والی۔ یہ لفظ ہولناک حادثہ اور بڑی بھاری آفت کے لیے بولا جاتا ہے۔ یہاں یہ لفظ قیامت کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور اِن آیات میں قیامت کے پہلے مرحلے سے لے کر عذاب وثواب کے آخری مرحلے تک کو یک جا کردیا گیا ہے۔ پہلی پانچ آیات میں قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر ہے جب وہ حادثۂ عظیم (اَلْقَارِعَۃُ) برپا ہو گا جس کے نتیجے میں دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اس وقت لوگ گھبراہٹ کے عالم میں اس طرح بھاگے بھاگے پھریں گے جیسے روشنی پر آنے والے پروانے ہر طرف پراگندہ ومنتشر ہوتے ہیں اور پہاڑ دھنکے ہوئے اُون کی طرح ہوں گے۔ پھر اگلی آیات میں اس مرحلے کا ذکر ہے جب دوبارہ زندہ ہو کر لوگ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوں گے۔ (تفہیم القرآن)

مَا الْقَارِعَةُ  Ą۝ۚ
[مَا الْقَارِعَةُ: کیا ہے کھٹکھٹانے والی]

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْقَارِعَةُ   Ǽ۝ۭ
[وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْقَارِعَةُ: اور تو نے کیا سمجھا کیا ہے کھٹکھٹانے والی]

يَوْمَ يَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ  Ć۝ۙ
[يَوْمَ يَكُوْنُ النَاسُ: جس دن ہو جائیں گے لوگ][ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ: بکھیرے ہوئے پتنگوں کی مانند]

 

 یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ کا ایک مطلب یہ بھی لیا گیا ہے کہ یہ اس وقت کی کیفیت کا بیان ہے جب لوگ دوبارہ زندہ ہو کر قبروں سے نکلیں گے۔ لیکن اگلی آیت میں پہاڑوں کی جس کیفیت کا بیان ہے اس کی بنیاد پر یہ رائے زیادہ قرین قیاس نہیں ہے۔ (مرتب)

 اعمال کے وزن کی وضاحت الاعراف کی آیات۔8۔9۔ کے نوٹ۔2 میں کی جا چکی ہے۔

مورخہ 13۔ صفر 1432 ھ بمطابق 18۔ جنوری 2011ئ۔

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ  Ĉ۝ۭ
[وَتَكُوْنُ الْجبالُ: اور ہو جائیں گے سارے پہاڑ][ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ: دُھنی ہوئی رنگین اون کی مانند]

فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ   Č۝ۙ
[فَاَمَا مَنْ: پس وہ جو ہے][ ثَــقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ: بھاری ہوئے جس کے ترازو (پلڑے)]

فَهُوَ فِيْ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ   Ċ۝ۭ
[ فَهُوَ فِيْ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ: تو وہ من بھاتی زندگی گزارنے میں ہے]

وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ   Ď۝ۙ
[وَاَمَا مَنْ: اور وہ جو ہے][ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ: ہلکے ہوئے جس کے ترازو (پلڑے)]

فَاُمُّهٗ هَاوِيَةٌ     ۝ۭ
[فَاُمُّهٗ: تو اس کی ماں (گود)][ هَاوِيَةٌ: ایک نیچے اترنے والی (جگہ۔ گڑھا) ہے]

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا هِيَهْ   10۝ۭ
[وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا هِيَهْ: اور تو نے کیا سمجھا کیا ہے وہ (جگہ)]

نَارٌ حَامِيَةٌ    11۝ۧ
[نَارٌ حَامِيَةٌ : (وہ) ایک دہکنے والی آگ ہے۔]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ  Ǻ۝ۙ
[اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ ۝ ۙ

 

ترکیب: (آیت۔1) تَکَاثُرْ باب تفاعل کا مصدر ہے اس لیے اس میں باہم ایک دوسرے پر کثرت حاصل کرنے کا مفہوم شامل ہے اور یہ اَلْھٰی کا فاعل ہونے کی وجہ سے حالت رفع میں ہے۔ جس چیز میں کثرت کی خواہش نے انسان کو غافل کیا وہ یہاں محذوف ہے اس لیے اس کے مفہوم میں وسعت ہے۔ دنیوی سازوسامان نے جس چیز سے انسان کو غافل کیا وہ بھی محذوف ہے۔ جو آخرت بھی ہو سکتی ہے، ذکر اللہ بھی ہو سکتا ہے۔

 

نوٹ 1: تکاثر کا مطلب ہے کثرت کے ساتھ مال ودولت جمع کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے یہ سورۃ پڑھ کر فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مال کو ناجائز طریقوں سے حاصل کیا جائے اور مال پر جو فرائض اللہ کے عائد ہوئے ہیں ان میں خرچ نہ کریں۔

(معارف القرآن)

حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ  Ą۝ۭ
حَتّٰى زُرْتم الْمَقَابِرَ ۝ۭ

كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ  Ǽ۝ۙ
كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۝ ۙ

ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ   Ć۝ۭ
ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۝ۭ

كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ   Ĉ۝ۭ
كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ ۝ۭ

 

نوٹ 2: مسجد خالد، لاہور کے پہلے خطیب کرنل اختر مرحوم نے ایک مثال کے ذریعے علم القین اور عین الیقین کا فرق اس طرح واضح کیا کہ ایک عام آدمی بھی بڑی آسانی سے اس کو سمجھ لیتا ہے۔ مثال یہ ہے کہ دو آدمی بازار سے ہو کر اپنے گھر جا رہے تھے۔ کسی نے ان کو اطلاع دی کہ اس راستے پر آگے تمھارا دشمن بیٹھا ہے۔ اس راستے سے مت جائو۔ ایک آدمی نے اس اطلاع پر یقین کرلیا اور راستہ بدل کر بخیریت گھر پہنچ گیا۔ دوسرے آدمی نے یقین نہیں کیا۔ آگے جا کر جب وہ دشمن کے ہتھے چڑھ گیا تب اس کو یقین آیا اس مثال میں ایک اَن دیکھی حقیقت کا علم دونوں کو دیا گیا۔ پہلے آدمی نے اس علم پر یقین کر لیا۔ اس کو علم الیقین کہتے ہیں۔ اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ اس علم سے فائدہ اٹھانے یا کسی خطرے سے بچائو کرنے کے لیے عمل کرن

نوٹ 2: مسجد خالد، لاہور کے پہلے خطیب کرنل اختر مرحوم نے ایک مثال کے ذریعے علم القین اور عین الیقین کا فرق اس طرح واضح کیا کہ ایک عام آدمی بھی بڑی آسانی سے اس کو سمجھ لیتا ہے۔ مثال یہ ہے کہ دو آدمی بازار سے ہو کر اپنے گھر جا رہے تھے۔ کسی نے ان کو اطلاع دی کہ اس راستے پر آگے تمھارا دشمن بیٹھا ہے۔ اس راستے سے مت جائو۔ ایک آدمی نے اس اطلاع پر یقین کرلیا اور راستہ بدل کر بخیریت گھر پہنچ گیا۔ دوسرے آدمی نے یقین نہیں کیا۔ آگے جا کر جب وہ دشمن کے ہتھے چڑھ گیا تب اس کو یقین آیا اس مثال میں ایک اَن دیکھی حقیقت کا علم دونوں کو دیا گیا۔ پہلے آدمی نے اس علم پر یقین کر لیا۔ اس کو علم الیقین کہتے ہیں۔ اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ اس علم سے فائدہ اٹھانے یا کسی خطرے سے بچائو کرنے کے لیے عمل کرنے کا موقع باقی رہتا ہے۔ دوسرے آدمی نے علم پر یقین نہیں کیا۔ آگے جا کر جب اس کو دشمن نظر آیا تو اس کو یقین آ گیا۔ اس کو عین الیقین کہتے ہیں۔ لیکن اس وقت عمل کرنے کا موقع باقی نہیں رہتا۔ آیات۔ 5 تا 7۔ میں اسی حقیقت کی نشاندہی اس انداز میں کی گئی ہے کہ کاش تم لوگ علم الیقین کی افادیت کو سمجھتے۔ اب نہیں سمجھ رہے ہو تو آگے جا کر دوزخ کو دیکھ کر عین الیقین تو حاصل ہو جائے گا لیکن اس کا فائدہ کوئی نہیں ہو گا۔ اس حوالہ سے اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ سارا اجروثواب علم الیقین پر ہے اور اسی کا دوسرا نام ایمان بالغیب ہے۔ جدید تعلیم یافتہ کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایمان بالغیب کا مطالبہ غیر فطری ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے کیونکہ غیب پر ایمان لانے کی صلاحیت انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ (Inbuilt) ہے۔ اس کی تشریح آیت۔ 2:3، نوٹ۔ 2 میں کی جا چکی ہے۔

مورخہ 16۔ صفر 432 ھ ۔ بمطابق 21۔ جنوری 2011ئ۔"

"لَتَرَوُنَّ الْجَــحِيْمَ    Č۝ۙ

لَتَرَوُنَّ الْجَــحِيْمَ ۝ ۙ"

"ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِيْنِ   Ċ۝ۙ

ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِيْنِ ۝ ۙ

 

 (آیت۔7۔) تَعْلَمُوْنَ کا مفعول ہونے کی وجہ سے عِلْمَ الْیَقِیْنِ حالت نصب میں ہے۔ ثُمَّ لَتَرَوْنَّ کا مفعول ھَا کی ضمیر ہے اور عَیْنَ الْیَقِیْنَ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ عِلْمَ الْیَقِیْنِ اور عَیْنَ الْیَقِیْنِ دونوں مرکب اضافی ہیں لیکن اضافت کے ساتھ ترجمہ کرنے سے ان اصطلاحات کا مفہوم واضح نہیں ہوتا اس لیے ان کا ترجمہ اردو محاورے کے مطابق ہو گا۔"

"ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ   Ď۝ۧ

ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ ۝ۧ

 

(آیت۔8) اَلنَّعِیْمِ پر لام جنس ہے۔"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"وَالْعَصْرِ  Ǻ۝ۙ

[وَالْعَصْرِ: قسم ہے زمانے کی ]

 

نوٹ 1: العصر (زمانہ) کا لفظ گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور گزرتے ہوئے زمانے کے لیے بھی جسے حال کہتے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی اِن صفات سے خالی تھے وہ بالآخر خسارے میں پڑ کر رہے۔ اور گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کا مطلب سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ جو زمانہ اب گزر رہا ہے یہ دراصل وہ وقت ہے جو ہر ایک شخص کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان کے کمرے میں طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جس تیز رفتاری سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہو جائے گا۔ پس گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھا کر جو بات اس سورہ میں کہی گئی ہے کہ وہ یہ ہے کہ یہ تیز رفتار زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ ان چار صفات سے خالی ہو کر انسان جن کاموں میں بھی اپنی مہلت عمر صرف کر رہا ہے وہ سب کے سب خسارے کے سودے ہیں۔ نفع میں صرف وہ لوگ ہیں جو ان چاروں صفات سے متصف ہو کر دنیا میں کام کریں۔ (تفہیم القرآن)"

"اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ   Ą۝ۙ

[ان الْانسَان لَفِيْ خُسْرٍ: بیشک تمام انسان یقینا خسارے میں ہیں]

 

نوٹ 2: اس سورہ میں خسارے سے بچنے کے لیے جن چار صفات کا ذکر ہے وہ یہ ہیں ایمان۔ عملِ صالح۔ تواصی بالحق۔ تواصی بالصبر۔ ان میں ایمان اور عملِ صالح خود انسان کی ذات سے متعلق ہیں۔ ان کا معاملہ واضح ہے اور کسی تشریح کا محتاج نہیں، البتہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر قابل غور ہیں۔ تواصی کا لفظ وصیت سے بنا ہے۔ کسی شخص کو تاکید کے ساتھ مؤثر انداز میں نصیحت کرنے کا نام وصیت ہے۔ اسی وجہ سے مرنے والا اپنے بعد کے لیے جو ہدایات دیتا ہے اس کو بھی وصیت کہا جاتا ہے۔ لفظ حق اور صبر کے معنی میں ایک احتمال یہ ہے کہ حق سے مراد صحیح عقائد اور اعمال صالحہ کا مجموعہ ہو اور صبر سے مراد تمام گناہوں اور برے کاموں سے بچنا ہو۔ ایسی صورت میں حق کا حاصل امر بالمعروف ہو گیا اور صبر کا حاصل نہی عن المنکر ہو گیا، یعنی وہ ایمان اور عمل صالح جس کو انسان نے خود اختیار کیا ہے اس کی تاکید اور نصیحت دوسروں کو کرنا۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ حق سے مراد صحیح اعتقادات لیے جائیں اور صبر کے مفہوم میں تمام نیک اعمال کی پابندی اور برے کاموں سے بچنا شامل ہو۔ حافظ ابن تیمیہ کے ایک رسالے کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ تواصی بالحق سے مراد دوسرے مسلمانوں کی علمی اصلاح ہے اور تواصی بالصبر سے مراد عملی اصلاح ہے۔

 اس لحاظ سے اس سورہ میں مسلمانوں کو ایک بہت بڑی ہدایت دی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کا اپنے عمل کو قرآن وسنت کے تابع کر لینا جتنا اہم اور ضروری ہے اتنا ہی اہم اور ضروری یہ بھی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ایمان اور عمل صالح کی طرف بلانے کی مقدور بھر کوشش کرے ورنہ صرف اپنا عمل نجات کے لیے کافی نہ ہو گا۔ خاص طور سے اپنے اہل وعیال، متعلقین اور احباب کے برے اعمال سے غفلت برتنا اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے، اگرچہ خود وہ کیسے ہی اعمال صالحہ کا پابند ہو۔ اس معاملہ میں عام مسلمان بلکہ بہت سے خواص تک غفلت میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ہدایت پر عمل کی توفیق نصیب فرما دے۔ (معارف القرآن)

 آج (1432 ھ۔ 2011ئ) کے پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہ معاملہ اب غفلت برتنے سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو، اور اس میں بھی خاص طور سے نہی عن المنکر کو ہم لوگ دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی سمجھ کر معیوب سمجھتے رہے۔ پھر جب بات اس سے بھی آگے بڑھی تو پہیہ الٹا گھومنا شروع ہو گیا۔ یعنی اب ہم لوگ نہی عن المنکر کے فریضے کو نہ صرف اپنے لیے معیوب سمجھتے ہیں بلکہ یہ فریضہ سرانجام دینے والے کو اس کام سے منع کرتے ہیں اور اپنے مقدور بھر روکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ الاماشاء اللہ۔ ہمارا دوسرا المیہ یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ یہ فریضہ سرانجام دینے کے لیے کمر بستہ ہوتے ہیں تو پھر وہ داروغہ بن بیٹھتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کی اجازت اپنے حبیب کو بھی نہیں دی تھی۔ ان دونوں انتہائی (extereme) رویوں کی بنیادی وجہ ایک ہی ہے، اور وہ یہ کہ اس فریضے کو سرانجام دینے کے لیے قرآن وحدیث کا مطلوبہ متوازن طرزعمل ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم میں سے جو لوگ اس کو فرض سمجھتے بھی ہیں تو انھوں نے اس کو فرض کفایہ یعنی مولوی لوگوں کی ذمہ داری قرار دے کر خود کو فارغ کرلیا ہے۔ حالانکہ یہ فرض عین ہے یعنی فرداً فرداً ہر شخص پر اس کے ظروف واحوال کے مطابق فرض ہے۔ اسی ذہنی خلا کو پر کرنے کی نیت سے کچھ عرصہ پہلے فائونڈیشن کے میگزین میں شائع ہونے والے چند مضامین کو یکجا کر کے ’’ اصلاحِ معاشرہ‘‘ کے عنوان سے شائع کر کے تقسیم کیا گیا تھا پھر اسے جینے کا سلیقہ کورس میں شامل کردیا گیا۔ جن طلبا کے پاس یہ کتابچہ نہیں ہے وہ اپنے رول نمبر کے حوالے سے یہ کتابچہ بلامعاوضہ طلب کر لیں۔

 اس ضمن میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اوپر معارف القرآن کی عبارت میں کہا گیا ہے کہ اس فریضہ سے پہلو تہی کرنا اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے۔ یہاں نجات کا مطلب یہ ہے کہ بندے کو میدان حشر سے براہ راست جنت میں داخلے کا پروانہ نصیب ہو جائے۔ اس میں اس عقیدے کی نفی نہیں ہے کہ گنہگار اہل ایمان اپنے گناہوں کے بمقدار سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال لیے جائیں گے۔

مورخہ 18۔ صفر 14532 ھ بمطابق 23۔ جنوری 2011ئ۔"

"اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ڏ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ Ǽ۝ۧ

[اِلَّا الَّذِينَ اٰمَنُوْا: سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے][ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور انھوں نے عمل کیے نیکیوں کے][ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ: اور باہم تاکید کی اس حق (دین) کی][ ڏ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ: اور باہم تاکید کی ثابت قدم رہنے کی]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ     Ǻ۝ۙ

[وَيْلٌ لِكُلِ: تباہی ہے ہر ایک][ هُمَزَةٍ: بہت طعنہ زنی کرنے والے][ لُّمَزَةِۨ: بہت عیب جوئی کرنے والے کے لیے]

 

ترکیب: (آیات۔ 1 تا 4) ھُمَزَۃٌ۔ لُمَزَۃٌ۔ حُطَمَۃٌ یہ تینوں الفاظ اسمائے صفت ہیں اور ان تینوں پر تائے مبالغہ ہے۔

 

نوٹ 1: سابق سورۃ العصر اور اس سورہ کے مضمون میں نہایت واضح مناسبت یہ ہے کہ سابق سورہ میں فلاح پانے والے انسانوں کا کردار بیان ہوا ہے اور اس سورہ میں اس کے بالکل ضد کردار بیان ہوا ہے جو روپیہ گن گن کر رکھتے ہیں اور لوگوں کے حقوق ادا کرنا تو درکنار، کسی کو اگر دیکھ پائیں کہ وہ ادائے حقوق کے معاملے میں عملاً وقولاً سرگرم ہے تو اپنے طعن وطنز سے اسے تنگ کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا حوصلہ پست کر دیں تاکہ ان کی بخالت پر پردہ پڑا رہے اور ان کو خفت وندامت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ قرآن نے بخیل سرمایہ داروں کے اس کردار کی طرف جگہ جگہ اشارہ کیا ہے۔ مثلاً سورۃ توبہ کی آیت۔49۔ میں ہے۔ ’’ جو لوگ خوش دلی سے انفاق کرنے والے اہل ایمان پر ان کے صدقات کے باب میں نکتہ چینی کرتے ہیں اور جو غریب اپنی محنت مزدوری سے انفاق کرتے ہیں، ان پر پھبتیاں چست کرتے ہیں، اللہ نے ان لوگوں کا مذاق اڑایا اور ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔ ‘‘ (تدبر قرآن)

نوٹ 2: اس سورہ کو اگر ان سورتوں کے تسلسل میں رکھ کر دیکھا جائے جو سورہ زلزال سے یہاں تک چلی آ رہی ہیں تو آدمی بڑی اچھی طرح یہ سمجھ سکتا ہے کہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں کس طریقے سے اسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات کو لوگوں کے ذہن نشین کیا گیا تھا۔ سورۂ زلزال میں بتایا گیا کہ کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی ایسی نہ ہوگی جو اس نے دنیا میں کی ہو اور وہ آخرت میں اس کے سامنے نہ آ جائے۔ سورہ عادیات میں اس کشت وخون اور غارت گری کی طرف اشارہ کیا گیا جو عرب میں ہر طرف برپا تھی۔ پھر یہ احساس دلانے کے بعد کہ خدا کی دی ہوئی طاقتوں کا یہ استعمال اس کی بہت بڑی ناشکری ہے، لوگوں کو بتایا گیا کہ یہ معاملہ اسی دنیا میں ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ موت کے بعد دوسری زندگی میں صرف افعال ہی کی نہیں بلکہ نیتوں تک کی جانچ پڑتال ہو گی۔ سورۂ قارعہ میں قیامت کا نقشہ پیش کرنے کے بعد لوگوں کو خبردار کیا گیا کہ آخرت میں انسان کے انجام کا انحصار اس پر ہو گا کہ اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہے یا ہلکا۔ سورۂ تکاثر میں اس ذہنیت پر گرفت کی گئی جس کی وجہ سے لوگ مرتے دم تک دنیا کے عیش و آرام اور جاہ ومنزلت میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ پھر اس کے برے انجام سے آگاہ کیا گیا کہ ایک ایک نعمت جو یہاں تمھیں مل رہی ہے اس کے لیے تمھیں اپنے رب کو جواب دینا ہو گا کہ اسے کیسے حاصل کیا اور کہاں استعمال کیا۔ سورۂ عصر میں بتا دیا گیا کہ نوع انسانی کا ایک ایک فرد خسارے میں ہے اگر اس میں مذکورہ چار صفات نہ ہوں۔ اس کے بعد یہ سورہ آئی ہے جس میں جاہلیت کی سرداری کا ایک نمونہ پیش کر کے لوگوں کے سامنے گویا یہ سوال رکھ دیا گیا کہ یہ کردار خسارے میں کیوں نہ ہو۔ (تفہیم القرآن)"

"الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٗ   Ą۝ۙ

[الَّذِي جَمَعَ مَالًا: جس نے جمع کیا کچھ مال][ وَّعَدَّدَهٗ: اور وہ بار بار گنتا رہا اس کو]"

"يَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗٓ اَخْلَدَهٗ  Ǽ۝ۚ

[يَحْسَبُ ان مَالَهٗٓ: وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال][ اَخْلَدَهٗ: دوام بخشے گا اس کو]

 

 

(آیت۔3) اَنَّ کا اسم مَالَہٗ ہے اس لیے یہ حالت نصب میں ہے اور یہ اَخْلَدَ کا فاعل ہے۔ اس سے متصل ہٗ کی ضمیر مفعولی گزشتہ آیت میں اَلَّذِیْ کے لیے ہے۔

 

نوٹ 3: آیت۔3۔ کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے حیاتِ جاوداں بخش دے گا یعنی دولت جمع کرنے اور اسے گن گن کر رکھنے میں وہ ایسا منہمک ہے کہ اسے اپنی موت یاد نہیں رہی اور اسے کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ایک وقت یہ سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہونا ہے۔"

"كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ  Ć۝ڮ

[كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ: ہرگز نہیں! اس (شخص) کو لازماً پھینکا جائے گا][ فِي الْحُطَمَةِ: اس بہت روندنے والی میں]"

"وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْحُطَمَةُ  Ć۝ۭ

[وَمَآ اَدْرٰىكَ: اور تو نے کیا سمجھا][ مَا الْحُطَمَةُ: کیا ہے وہ بہت روندنے والی]"

"نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ   Č۝ۙ

[نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ: (وہ) اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے]

 

 

(آیت۔6) نَارُ اللّٰہِ خبر ہے۔ اَلْمُوْقَدَۃْ۔ نَارْ کی صفت ہے اس لیے اس پر تاۓ تانیث ہے۔ اس خبر کا مبتدا ھِیَ محذوف ہے۔"

"الَّتِيْ تَـطَّلِــعُ عَلَي الْاَفْــِٕدَةِ   Ċ۝ۭ

[الَّتِيْ تَـطَّلِــعُ عَلَي الْاَفْــِٕدَةِ: جو چڑھتی ہے دلوں پر]

 

 

آیت۔7۔ میں افگدۃ کا لفظ آیا ہے جو فواد کی جمع ہے اور جس کے معنی دل کے ہیں۔ لیکن یہ لفظ اس عضو کے لیے استعمال نہیں ہوتا جو سینے کے اندر دھڑکتا ہے بلکہ اس مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے جو انسان کے شعور وادراک، جذبات وخواہشات، عقائد وافکار اور نیتوں اور ارادوں کا مقام ہے۔ دلوں تک اس آگ کے پہنچنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ آگ اس جگہ تک پہنچے گی جو انسان کے فاسد عقائد اور ناپاک خواہشات وجذبات کا مرکز ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی وہ آگ دنیا کی آگ کی طرح اندھی نہیں ہوگی کہ مستحق اور غیر مستحق سب کو جلا دے بلکہ وہ ایک ایک مجرم کے دل تک پہنچ کر ہر ایک کو اس کے جرم کے مطابق عذاب دے گی۔ (تفہیم القرآن) ۔

مورخہ 20۔ صفر 1432 ھ۔ بمطابق 25۔ جنوری 2011 ء"

"اِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُّؤْصَدَةٌ   Ď۝ۙ

[انهَا عَلَيْهِمْ: بیشک وہ (آگ) ان پر][ مُّؤْصَدَةٌ: اوپر سے بند کی ہوئی ہے]

 

 

 (آیت۔8) اِنَّ کا اسم اس کے ساتھ ھَا کی ضمیر ہے جو نَارٌ کے لیے ہے۔ مُؤْصَدَۃٌ اس کی خبر ہے اس لیے اس پر تائے تانیث ہے۔"

"فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ    Ḍ۝ۧ

[ فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ: دراز کیے ہوئے ستونوں میں]

 

 

 (آیت۔9) فِیْ عَمَدٍ متعلق خبر ہے اِنَّھَا کی اور مُمَدَّدَۃٍ صف ہے عَمَدٍ، جو جمع مکسر ہے۔ اس لیے اس کی صفت واحد مؤنث آئی ہے۔"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ    Ǻ۝ۭ

[اَلَمْ تَرَ: کیا تو نے غور نہیں کیا][ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ: کیسا کیا تیرے رب نے][ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ: ہاتھی والوں کے ساتھ]

 

نوٹ 1: سورہ بروج کے نوٹ۔2۔ میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یمن کے بادشاہ نے اللہ پر ایمان لانے والے عیسائیوں کو آگ میں زندہ جلا دیا تھا۔ اس ظلم کا بدلہ لینے کے لیے حبشہ کی عیسائی حکومت نے یمن پر حملہ کردیا اور 525 ء میں اس پورے علاقے پر حبشی حکومت قائم ہو گئی تھی یمن پر جو حبشی فوج حملہ آور ہوئی تھی اس کے دو سردار اریاط اور ابرہہ بعد میں آپس میں لڑ پڑے مقابلہ میں اریاط مارا گیا اور ابرہہ ملک پر قابض ہو گیا۔ یمن میں پوری طرح اپنا اقتدار مضبوط کر لینے کے بعد ابرہہ نے اس مقصد کے لیے کام شروع کیا جو ابتدا سے رومی سلطنت اور حبشی عیسائیوں کے پیش نظر تھا۔ یعنی عرب میں عیسائیت پھیلانا اور اس تجارت پر قبضہ کرنا جو بلادِ مشرق (یعنی انڈونیشیا، ہندوستان وغیرہ) اور رومی مقبوضات کے درمیان عربوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔ اس مقصد کے لیے اس نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا گھر) تعمیر کرایا۔ اس کی تکمیل کے بعد اس نے حبشہ کے بادشاہ کو لکھا کہ میں عربوں کا حج کعبہ سے اس کلیسا کی طرف موڑے بغیر نہ رہوں گا۔ اس نے یمن میں علی الاعلان اپنے اس ارادے کا اظہار کیا اور اس کی منادی کرا دی۔ اس پر کسی عرب یا قریشی نے یا چند قریشی نوجوانوں نے مشتعل ہو کر کلیسا کو گندا کردیا یا اس کو آگ لگائی۔ لیکن یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ ابرہہ نے خود اپنے کسی آدمی سے ایسی کوئی حرکت کرائی ہو تاکہ اسے مکہ پر حملہ کرنے کا بہانہ مل جائے۔ بہرحال اس واقعہ کے بعد اس نے کعبہ کو ڈھا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ 570 ء یا 571 ء میں وہ ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں دو عرب سرداروں نے اپنے اپنے لشکر جمع کر کے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر دونوں کو شکست ہوئی۔

 حضرت ابن عباس  (رض)  سے روایت ہے کہ یہ لشکر جب عرفات کے قریب پہنچا تو حضرت عبدالمطلب اس کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کو یہاں تک آنے کی کیا ضرورت تھی۔ آپ کو اگر کوئی چیز مطلوب تھی تو ہمیں کہلا بھیجتے ہم اسے لے کر خود آپ کے پاس حاضر ہو جاتے۔ اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ یہ گھر امن کا گھر ہے، میں اس کا امن ختم کرنے آیا ہوں۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ یہ اللہ کا گھر ہے اور اس نے آج تک کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا ہے۔ ابرہہ نے کہا ہم اس کو منہدم کیے بغیر نہیں پلٹیں گے۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ آپ جو کچھ چاہیں لے لیں اور واپس چلے جائیں۔ مگر ابرہہ نے انکار کردیا اور اپنے لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت ابن عباس  (رض)  کی روایت میں اونٹوں کے قصے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

 یہ امر بالکل واضح ہے کہ مکہ اور اس کے آس پاس کے قبائل اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ اس لیے یہ بالکل قابل فہم بات ہے کہ قریش نے اس کی مزاحمت کی کوئی کوشش نہ کی۔ ابرہہ کے لشکر سے واپس آ کر حضرت عبدالمطلب نے قریش والوں سے کہا کہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو جائے۔ پھر وہ قریش کے چند سرداروں کو لے کر حرم میں حاضر ہوئے اور کعبے کے دروازے کا کُنڈا پکڑ کر انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھر اور اس کے خادموں کی حفاظت فرمائے۔ اس وقت خانۂ کعبہ میں 360 بت موجود تھے لیکن اس وقت یہ لوگ ان سب کو بھول گئے اور انھوں نے صرف اللہ کے آگے دست سوال پھیلایا۔ ان کی جو دعائیں تاریخوں میں منقول ہیں ان میں اللہ واحد کے سوا کسی دوسرے کا نام تک نہیں پایا جاتا۔ دعائیں مانگ کر حضرت عبدالمطلب اور ان کے ساتھی بھی پہاڑوں میں چلے گئے۔

 دوسرے روز ابرہہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا مگر اس کا خاص ہاتھی محمود، جو آگے آگے تھا یکایک بیٹھ گیا۔ اس کو بہت تَبرَ مَارے گئے، آنکسوں سے کچو کے دئیے گئے یہاں تک کہ اسے زخمی کردیا گیا مگر وہ نہ ہلا۔ اسے کسی اور سمت موڑ کر چلاتے تو وہ دوڑنے لگتا مگر مکہ کی طرف موڑا جاتا تو فوراً بیٹھ جاتا اور کسی طرح آگے بڑھنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔ اتنے میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں لیے ہوئے آئے اور لشکر پر اِن کی بارش کر دی۔ جس پر یہ کنکر گرتے اس کا جسم گلنا شروع ہو جاتا اور ہڈیاں نکل آتیں۔ خود ابرہہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ان لوگوں نے یمن کی طرف بھاگنا شروع کیا۔ سب کے سب اسی وقت ہلاک نہیں ہوئے۔ کچھ تو وہیں ہلاک ہوئے اور کچھ بھاگتے ہوئے راستے بھر گرتے چلے گئے، ابرہہ بھی خشعم کے علاقے میں پہنچ کر مرا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں عرب کے دوسرے سردار نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حبشیوں کو صرف یہی سزا دینے پر اکتفا نہ کیا بلکہ تین چار سال کے اندر یمن سے حبشی اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ واقعہ فیل کے بعد یمن میں ان کی طاقت ٹوٹ گئی۔ جگہ جگہ یمنی سردار علم بغاوت لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک یمنی سردار نے شاہ ایران سے فوجی مدد طلب کر لی۔ ایران سے صرف ایک ہزار فوج چھ جہازوں کے ساتھ آئی تھی جو حبشی حکومت کا خاتمہ کر دینے کے لیے کافی ہو گئی۔ یہ 575 ء کا ہے۔

 یہ اتنا بڑا واقعہ تھا جس کی تمام عرب میں شہرت ہو گئی۔ بہت سے شعراء نے قصائد کہے۔ ان تمام قصائد میں یہ بات بالکل نمایاں ہے کہ سب نے اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اعجاز قرر دیا اور کہیں اشارہ وکنایتہ بھی یہ نہیں کہا کہ اس میں ان بتوں کا بھی کوئی دخل تھا جو کعبہ میں پوجے جاتے تھے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ قریش نے دس سال تک اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت نہ کی۔ جس سال یہ واقعہ پیش آیا اہل عرب اسے عام الفیل کہتے ہیں۔ اور اسی سال رسول اللہ کی ولادتِ مبارکہ ہوئی۔ محدثین اور مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ محرم میں پیش آیا تھا اور حضور کی ولادت ربیع الاوّل میں ہوئی تھی۔ اکثریت یہ کہتی ہے کہ آپ کی ولادت واقعہ فیل کے پچاس دن بعد ہوئی۔

 جو تاریخی واقعات اوپر دئیے گئے ہیں ان کو نگاہ میں رکھ کر سورۂ فیل پر غور کیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس سورہ میں اس قدر اختصار کے ساتھ صرف اصحاب فیل پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ذکر کر دینے پر کیوں اکتفا کیا گیا۔ واقعہ کچھ پرانا نہ تھا اور مکہ کا بچہ بچہ اس کو جانتا تھا۔ تمام اہل عرب اس بات کے قائل تھے کہ ابرہہ کے حملے سے کعبے کی حفاظت کسی دیوی دیوتا نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے کی تھی۔ قریش کے سرداروں نے اللہ ہی سے مدد کے لیے دعائیں مانگی تھیں۔ پھر اس واقعہ سے وہ اس قدر متاثر رہے کہ کئی سالوں تک انھوں نے اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی تھی۔ اس لیے سورۂ فیل میں تفصیلات کے ذکر کے بجائے صرف اس واقعہ کو یاد دلا دینا کافی تھا تاکہ قریش کے لوگ خصوصاً اور اہل عرب عموماً سوچیں کہ محمد جس چیز کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دوسرے تمام معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کی جائے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 462 تا 469 سے ماخوذ)"

"اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ   Ą۝ۙ

[اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ: کیا اس نے نہیں کیا ان کے دائو کو][ فِيْ تَضْلِيْلٍ: تباہ کرنے میں]

 

نوٹ 2: آیت۔2۔ میں لفظ کَید استعمال کیا گیا ہے جو کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے خُفیہ تدبیر کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں کیا چیز خفیہ تھی۔ ابرہہ ساٹھ ہزار کا لشکر ہاتھیوں کے دستے کے ساتھ لے کر اعلانیہ یمن سے مکہ آیا تھا اور اس نے یہ بات چھپا کر نہیں رکھی تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھانے آیا ہے۔ اس لیے یہ تدبیر تو خفیہ نہ تھی۔ البتہ اس اعلانیہ کاروائی کے پیچھے جو نیت تھی وہ خفیہ تھی اور وہ حبشیوں کی یہ غرض تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھا کر اور تمام اہل عرب کو مرعوب کر کے تجارت کا وہ راستہ عربوں سے چھین لینا چاہتے تھے جو جنوبِ عرب سے شام ومصر کی طرف جاتا تھا۔ اس مقصد کو انھوں نے چھپا کر رکھا تھا اور ظاہر یہ کیا تھا کہ ان کے کلیسا کی جو بےحرمتی عربوں نے کی ہے اس کا بدلہ وہ ان کا معبد ڈھا کر لینا چاہتے ہیں۔ (تفہیم القرآن)"

"وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ   Ǽ۝ۙ

[وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا: اور اس نے بھیجے ان لوگوں پر کچھ پرندے][ اَبَابِيْلَ: جھنڈ در جھنڈ ہوتے ہوئے]

 

نوٹ 3: ابابیل کا لفظ جمع کا ہے مگر اس کا کوئی مفرد (واحد) مستعمل نہیں ہے۔ اس کے معنی پرندوں کے غول کے ہیں اور یہ کسی خاص پرندے کا نام نہیں ہے۔ اردو میں ایک خاص چڑیا کو ابابیل کہتے ہیں، یہاں وہ مراد نہیں ہے بلکہ یہ پرندے عجیب طرح کے تھے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے تھے۔ جسامت میں کبوتر سے چھوٹے تھے اور ان کے پنجے سرخ تھے۔ یہ کوئی ایسی جنس تھی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی اور نہ بعد میں دیکھی گئی۔ (معارف القرآن) ۔

مورخہ 11۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 15۔ فروری 2011ئ۔"

"تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ   Ć۝۽

[تَرْمِيْهِمْ: جو پھینکتے تھے ان پر][ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ: کچھ پتھر مٹی کے پتھر میں سے]"

"فَجَــعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ  Ĉ۝ۧ

[فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَاكُوْلٍ: پھر اس نے کردیا ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ   Ǻ۝ۙ

[لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ: (ہم نے ہلاک کیا اصحاب فیل کو) قریش کو مانوس کرنے کے واسطے]

 

ترکیب: (آیت۔1) اِیْلَافٌ باب افعال کا مصدر ہے۔ اس پر حروف جارہ کا لِ داخل ہوا جس نے اس کو جَرّ دی ہے اور مضاف ہونے کی وجہ سے اس کی تنوین ختم ہوئی ہے۔ قُرَیْشٍ اس کا مضاف الیہ ہے۔ بات کا مرکب جاری سے شروع ہونا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ محذوف مانا جائے۔ چنانچہ مفسرین کے ایک گروہ نے پچھلی سورت کے ساتھ معنوی تعلق کی بنا پر یہاں اِنَّا اَھْلَکْناھُمْ یا اِنَّا اَھْلَکْنَا اَصحٰبَ الْفِیْلِ کو محذوف مانا ہے۔ دوسرے گروہ نے اس کا تعلق اس جملہ سے مانا ہے جو آگے آ رہا ہے یعنی فَلْیَعْبُدْوْا ہم پہلی رائے کو ترجیح دیں گے۔

 

نوٹ 1: اس پر تو مفسرین کا اتفاق ہے کہ معنی اور مضمون کے اعتبار سے یہ سورت سورۂ فیل ہی سے متعلق ہے اور شاید اسی وجہ سے بعض مصاحف میں ان دونوں کو ایک ہی سورت کی طور پر لکھا گیا تھا اور ان کے درمیان بسم اللہ نہیں لکھی گئی تھی مگر حضرت عثمان (رض)  نے جب تمام مصاحف قرآن کو جمع کر کے ایک نسخہ تیار فرمایا اور تمام صحابہ کرام (رض)  کا اس پر اجماع ہوا، تو اس میں ان دونوں کو الگ الگ سورتوں کے طور پر لکھا گیا اور دونوں کے درمیان بسم اللہ لکھی گئی۔ (معارف القرآن)

نوٹ 2: اس سورہ کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے جس سے اس سورہ کے مضمون اور سورۂ فیل کے مضمون کا گہرا تعلق ہے۔

 قریش کا قبیلہ نبی کے جداعلیٰ قُصَیّ بن کلاب کے زمانے تک حجاز میں منتشر تھا۔ قُصَیّ نے ان کو مکہ میں جمع کیا اور بیت اللہ کا انتظام اس قبیلہ کے ہاتھ آ گیا۔ اس نے اطرافِ عرب سے آنے والے حاجیوں کی خدمت کا بہترین انتظام کیا۔ قُصَیّ کے بعد اس کے بیٹوں عبد مناف اور عبدالدّار کے درمیان یہ انتظامات تقسیم ہو گئے۔ عبدمناف کے چار بیٹے تھے۔ ان میں ہاشم، حضرت عبد المطلب کے والد اور رسول اللہ کے پردادا تھے۔ ہاشم کو سب سے پہلے یہ خیال آیا کہ اس بین الاقوامی تجارت میں حصہ لیا جائے جو شام ومصر اور بلادِ مشرق (یعنی ہندوستان، انڈونیشیا وغیرہ) کے درمیان ہو رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران کی حکومت اس تجارتی راستے پر قابض ہو چکی تھی جو شمالی علاقوں اور خلیج فارس کے راستے سے رومی سلطنت اور بلادِ مشرق کے درمیان ہوتی تھی۔ اس لیے جنوبی عرب سے بحر احمر کے ساحل کے ساتھ ساتھ جو تجارتی راستہ شام ومصر کی طرف جاتا تھا، اس کا کاروبار بہت چمک اٹھا تھا۔ دوسرے تجارتی قافلوں کی بہ نسبت قریش کو یہ سہولت حاصل تھی کہ راستے کے تمام قبائل بیت اللہ کے خادم ہونے کی حیثیت سے ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کے قافلوں پر ڈاکے نہیں مارتے تھے اور نہ ان سے رہگذر کے وہ بھاری ٹیکس وصول کرتے جو دوسرے قافلوں سے وصول کیا جاتا تھا۔ ہاشم نے انہی تمام پہلوئوں کو دیکھ کر تجارت کی اسکیم بنائی اور اس میں اپنے باقی تین بھائیوں کو شامل کیا۔ یہ اسکیم کامیاب رہی اور ان کی تجارت تیزی سے ترقی کرنے لگی۔

 اس تجارت کی وجہ سے قریش کے لوگوں کو شام۔ مصر۔ عراق۔ ایران۔ یمن اور حبش کے لوگوں سے تعلقات کے مواقع حاصل ہوئے۔ اور مختلف ملکوں کی ثقافت وتہذیب سے براہ راست سابقہ پیش آنے کے باعث ان کی دانش وبینش کا معیار اتنا بلند ہوتا چلا گیا کہ کوئی دوسرا قبیلہ ان کی ٹکر کا نہ رہا۔ ان بین الاقوامی تعلقات کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ عراق سے یہ لوگ وہ رسم الخط لے کر آئے جو بعد میں قرآن مجید لکھنے میں استعمال ہوا۔ عرب کے کسی دوسرے قبیلے میں اتنے پڑھے لکھے لوگ نہ تھے جتنے قریش میں تھے۔ یہ حالات تھے جب مکہ پر ابرہہ کی چڑھائی کا واقعہ پیش آیا۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتا تو عرب میں قریش ہی کی نہیں خود کعبہ کی دھاک بھی ختم ہو جاتی۔ مکہ تک حبشیوں کی پیش قدمی کے بعد رومی سلطنت آگے بڑھ کر شام اور مکہ کے درمیان کا تجارتی راستہ بھی اپنے قبضہ میں لے لیتی اور قریش اس سے زیادہ خستہ حالی میں مبتلا ہو جاتے جس میں وہ قُصَیّ بن کلاب سے پہلے مبتلا تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حبشیوں کی ساٹھ ہزار فوج کو تباہ کردیا اور مکہ سے یمن تک سارے راستے اس فوج کے لوگ گر گر کر مرتے گئے، تو کعبہ کے بیت اللہ ہونے پر تمام اہل عرب کا ایمان پہلے سے بدرجہ زیادہ مضبوط ہو گیا ساتھ ہی قریش کی دھاک بھی ملک بھر میں پہلے سے زیادہ قائم ہو گئی۔

 نبی کی بعثت کے زمانے میں یہ حالات سب ہی کو معلوم تھے، اس لیے ان کے ذکر کی حاجت نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورہ کے چار مختصر فقروں میں قریش سے صرف اتنی بات کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ جب تم مانتے ہو کہ یہ گھر بتوں کا نہیں بلکہ اللہ کا گھر ہے اور جب تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں اس گھر کے طفیل یہ امن عطا کیا، تمھاری تجارت کو یہ فروغ بخشا اور تمھیں فاقہ زدگی سے بچا کر یہ خوشحالی نصیب کی، تو تمھیں اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ (تفہیم القرآن ج 6۔ ص 474 تا 476 سے ماخوذ)

مورخہ 13۔ ربیع الاوّل 1432 ھ بمطابق 17۔ فروری 2011ئ۔"

"اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاۗءِ وَالصَّيْفِ   Ą۝ۚ

[اٖلٰفِهِمْ: ان کو مانوس کرنا][ رِحْلَةَ: سفر سے][ الشِّتَاۗءِ: سردی کے][ وَالصَّيْفِ: اور گرمی کے]

 

(آیت۔2) اٰلٰفِھِمْ میں اِیلَافِ کی جَرّ بتا رہی ہے کہ پچھلے مرکب جارّی لِاِیْلَافِ قُرِیْشٍ کا بدل ہے اِیْلاَفٌ دو مفعول کا تقاضہ کرتا ہے۔ کس کو مانوس کیا اور کس چیز سے مانوس کیا۔ یہاں اِیْلاَفِ کا مفعول اول ھِمْ کی ضمیر ہے اور رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ مفعول ثانی ہے"

"فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ   Ǽ۝ۙ

[فَلْيَعْبُدُوْا: تو چاہیے کہ یہ لوگ بندگی کریں][ رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ: اس گھر کے مالک کی]"

"الَّذِيْٓ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ   ڏ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ   Ć۝ۧ

[الَّذِيٓ اَطْعَمَهُمْ: وہ جس نے کھانے کو دیا ان کو][ مِّنْ جوعٍ: بھوک میں][ وَّاٰمَنَهُمْ: اور جس نے امن دیا ان کو][ مِّنْ خَوْفٍ: خوف میں]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ    Ǻ۝ۭ

[اَرَءَيْتَ الَّذِي: کیا تو نے دیکھا اس کو جو][ يُكَذِّبُ: جھوٹ جانتا ہے][ بِالدِّيْنِ: بدلے (کے دن) کو]

 

نوٹ 1: اس سورہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آخرت پر ایمان نہ لانا، انسان کے اندر کس قسم کے اخلاق پیدا کرتا ہے۔"

"فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ   Ą۝ۙ

[فَذٰلِكَ: تو وہ،][ الَّذِي: وہ ہے جو][ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ: دھکا دیتا ہے یتیم کو]

 

 آیات۔2 اور 3۔ میں ان کفار کی حالت بیان کی گئی ہے جو اعلانیہ آخرت کو جھٹلاتے ہیں۔ اور آخری چار آیتوں میں ان منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے جو بظاہر مسلمان ہیں مگر دل میں آخرت اور اس کی جزاوسزا کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ مجموعی طور پر دو گروہوں کے طرز عمل کو بیان کرنے سے مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرانا ہے کہ انسان کے اندر ایک مستحکم اور پاکیزہ کردار عقیدۂ آخرت کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ (تفہیم القرآن)"

"وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ   Ǽ۝ۭ

[وَلَا يَحُضُّ: اور وہ ترغیب نہیں دیتا (کسی کو)][ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ: مسکین کا کھانا (دینے) پر]

 

نوٹ 2: آیت۔3۔ میں اگر اِطْعَامِ الْمِسْکِیْن کہا گیا ہوتا تو معنی یہ ہوتے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اکساتا۔ لیکن طَعَامِ الْمِسْکِیْن کے معنی یہ ہیں کہ وہ مسکین کا کھانا اس کو دینے پر نہیں اکساتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو کھانا مسکین کو دیا جاتا ہے وہ دینے والے کا کھانا نہیں ہے بلکہ اسی مسکین کا کھانا ہے۔ یعنی دینے والا کوئی بخشش نہیں دے رہا ہے بلکہ مسکین کا حق ادا کر رہا ہے۔ (تفہیم القرآن)"

"فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ   Ć۝ۙ

[فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِيْنَ: تو بربادی ہے نمازیوں کے لیے]

 

نوٹ 3: آیت۔4۔5۔ کے متعلق حضرت انس  (رض)  فرماتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے فِیْ صَلَا تِھِمْ سَاھُوْن نہیں فرمایا بلکہ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ فرمایا ہے۔ ہم نماز میں بھولتے تو ضرور ہیں مگر نماز سے غافل نہیں ہیں۔ اس لیے ہمارا شمار منافقوں میں نہیں ہو گا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض)  سے ان کے صاحبزادے مصعب بن سعد نے پوچھا کہ آپ نے اس آیت پر غور فرمایا کیا اس کا مطلب نماز چھوڑ دینا ہے یا اس سے مراد نماز پڑھتے ہوئے خیال کسی اور طرف چلا جانا ہے۔ خیال ہٹ جانے کی حالت ہم میں سے کس پر نہیں گزرتی۔ حضرت سعد  (رض)  نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز کے وقت کو ضائع کرنا اور اسے وقت ٹال کر پڑھنا ہے۔ (تفہیم القرآن)

مورخہ 16۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 20 فروری 2011ئ۔"

"الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ   Ĉ۝ۙ

[الَّذِينَ هُمْ: یہ وہ لوگ ہیں جو][ عَنْ صَلَاتِهِمْ: اپنی نماز سے][ سَاهُوْنَ: غافل ہونے والے ہیں]"

"الَّذِيْنَ هُمْ يُرَاۗءُوْنَ   Č ۝ۙ

[الَّذِينَ هُمْ: یہ وہ لوگ ہیں جو][ يُرَاۗءُوْنَ: ریاکاری کرتے ہیں]"

"وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ   Ċ۝ۧ

[وَيَمْنَعُوْنَ: اور روکتے ہیں][ الْمَاعُوْنَ: گھریلو اشیاء کو (گردش سے)]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ   Ǻ۝ۭ

[انآ اَعْطَيْنٰكَ: بیشک ہم نے عطا کی آپؐ کو][ الْكَوْثَرَ: بےانتہا (خیر)]

 

 

نوٹ 1: کوثر کے معنی ہیں بہت زیادہ بھلائی اور بہتری۔ یہاں اس سے کیا چیز مراد ہے اس کے متعلق متعدد اقوال ہیں۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس لفظ کے تحت ہر قسم کی دینی ودنیوی اور حِسی ومعنوی نعمتیں داخل ہیں جو آپ کو اور آپ کے طفیل اس امت کو ملنے والی تھیں۔ ان میں سے ایک بہت بڑی نعمت وہ حوض کوثر ہے جس کے پانی سے آپ اپنی امت کو محشر میں سیراب فرمائیں گے۔ بعض روایات سے اس کا محشر میں ہونا اور اکثر سے جنت میں ہونا ثابت ہوتا ہے۔ علماء نے اس کی تطبیق یوں کی ہے کہ اصل نہر جنت میں ہوگی اور اسی کا پانی میدان حشر میں کسی حوض میں جمع کردیا جائے گا۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

 یہ انتہائی سخت وقت ہو گا جبکہ ہر ایک اَلْعَطَش۔ اَلْعَطَش (پیاس پیاس) پکار رہا ہو گا۔ اس وقت آپ کی امت اس حوض پر حاضر ہوگی اور اس سے سیراب ہوگی لیکن کچھ لوگ محروم رہیں گے۔ اس کے بارے میں حضور نے بار بار اپنے زمانے کے لوگوں کو خبردار کیا کہ میرے بعد تم میں سے جو لوگ بھی میرے طریقے کو بدلیں گے ان کو اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا۔ میں کہوں گا یہ میرے اصحاب ہیں تو مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا ہے۔ پھر میں ان کو دفع کروں گا اور کہوں گا کہ دور ہو۔ یہ مضمون بکثرت روایات میں بیان ہوا ہے۔ (بخاری۔ مسلم۔ مسند احمد۔ ابن ماجہ وغیرہ) ۔

 اسی طرح حضور نے اپنے دور کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ ان میں سے جو بھی میرے طریقے سے ہٹ کر چلیں گے اور اس میں ردوبدل کریں گے انھیں اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ اے رب یہ تو میرے ہیں، میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا ّآپ کو نہیں معلوم کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا تغیرات کیے اور الٹے ہی پھرتے چلے گئے۔ پھر میں ان کو دفع کروں گا۔ اور حوض پر نہ آنے دوں گا۔ اس مضمون کی بہت سی روایات احادیث میں ہیں۔

(بخاری۔ مسلم۔ مسند۔ احمد۔ ابن ماجہ) (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 493 تا 495 سے ماخوذ)"

"فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ Ą۝ۭ

[فَصَلِ لِرَبِكَ: تو آپؐ نماز پڑھیں اپنے رب کے لیے][ وَانحَرْ: اور آپؐ اونٹ قربان کریں]

 

ن ح ر

[نَحْرًا] (ف) گلے میں چوٹ لگانا۔ ذبح کرنا۔]

[ اِنْحَرْ فعل امر ہے۔ تو ذبح کر۔ قربانی کر۔ زیر مطالعہ آیت۔2۔ ]"

"اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ Ǽ۝

[ان شَانئَكَ: بیشک آپؐ سے بغض رکھنے والا][ هُوَ الْاَبْتَرُ: ہی بالکل بےنام و نشان ہے۔]

 

 

ب ت ر

[بَتْرًا: (ن) کاٹنا۔ اللہ کا کسی کو بےاولاد کرنا۔ کسی کی نسل کو کاٹنا۔]

[بَتَرًا: (س) کٹ جانا۔ بےاولاد ہونا۔ نسل کٹا ہونا۔]

[ اَبْتَرُ اَفْعَلُ کا وزن ہے بےاولاد۔ نسل کٹا۔ جس کی موت کے بعد اس کا خلف یعنی نام لیوا کوئی نہ ہو، نہ اولاد ہو اور نہ رشتہ دار یا احباب میں کوئی نام لیوا ہو زیر مطالعہ آیت۔3۔ (ایسا لگتا ہے کہ یہ لفظ افعل الوان وعیوب اور افعل تفضیل، دونوں کے مفاہیم کا جامع ہے۔ بےاولاد یا نسل کٹا ہونا، الوان وعیوب کا مفہوم ہے اور کوئی خلف نہ ہونا (افعل وتفضیل کا مفہوم ہے)]

 

نوٹ 2: جب حضور نبی بنائے گئے اور آپ نے قریش کو اسلام کی دعوت دینی شروع کی کہ قریش کے لوگ کہنے لگے کہ محمد اپنی قوم سے کٹ کر ایسے ہو گئے ہیں جیسے کوئی درخت اپنی جڑ سے کٹ گیا ہو اور کچھ مدت بعد سوکھ کر پیوند خاک ہو جائے۔ رسول اللہ کی اولاد نرینہ میں بڑے صاحب زادے قاسم (رض)  تھے اور چھوٹے حضرت عبداللہ (رض)  تھے۔ پہلے حضرت قاسم (رض)  کا انتقال ہوا پھر حضرت عبداللہ (رض)  نے بھی وفات پائی۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا کہ محمد ابتر ہیں۔ ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے جوان کا قائم مقام بنے۔ جب وہ مر جائیں گے تو ان کا نام دنیا سے مٹ جائے گا اور ان سے تمھارا پیچھا چھوٹ جائے گا۔ ایسی ہی باتیں ابوجہل، عقبہ بن ابی معیط وغیرہ سے بھی منقول ہیں۔ حضور کا اپنا چچا، جس کا گھر بالکل آپ کے گھر سے ملا ہوا تھا، دوڑتا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور ان کو یہ خوشخبری دی کہ آج رات محمد کی جڑ کٹ گئی۔ قریش اس لیے آپ سے بگڑے تھے کہ آپ صرف اللہ ہی کی بندگی کرتے تھے اور ان کے شرک کو آپ نے اعلانیہ رد کردیا تھا۔ اس کی وجہ سے پوری قوم میں جو مرتبہ اور مقام آپ کو نبوت سے پہلے حاصل تھا وہ آپ سے چھین لیا گیا تھا اور آپ گویا برادری سے کاٹ کر پھینک دئیے گئے تھے۔ آپ کے چند مٹھی بھر ساتھی سب بے یارومددگار تھے۔ یہ تھے وہ انتہائی دل شکن حالات جن میں سورۂ کوثر حضور پر نازل کی گئی۔

(تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 489 تا 490 سے ماخوذ)

 اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ابتر آپ نہیں ہیں بلکہ آپ کے یہ دشمن ابتر ہیں۔ یہ قرآن کی اہم پیشنگوئیوں میں سے ایک پیشنگوئی تھی جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ اس وقت کوئی تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ قریش کے یہ بڑے بڑے سردار کیسے ابتر ہو جائیں گے۔ لیکن چند سالوں میں حالات بالکل پلٹ گئے اور وہ بالکل بےنام نشان ہو گئے۔ آج لاکھوں انسان آپ ہی سے نہیں بلکہ آپکے ساتھیوں کے خاندانوں سے اپنی نسبت کو باعث عزت وشرف سمجھتے ہیں۔ کوئی سید ہے، کوئی علوی ہے، کوئی عباسی، ہاشمی، صدیقی، فاروقی، عثمانی، زبیری ہے تو کوئی انصاری ہے۔ مگر نام کو بھی کوئی ابوجہلی یا ابولہبی نہیں پایا جاتا۔ تاریخ نے ثابت کردیا کہ ابتر حضور نہیں بلکہ آپ کے دشمن ہی تھے اور ہیں۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص۔ 497 سے ماخوذ)

مورخہ 17۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 21 فروری 2011 ء"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ    Ǻ۝ۙ

[قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ: آپؐ کہہ دیجئے اے کافرو ]

 

نوٹ 1: مکہ معظمہ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب نبی کی دعوت اسلام کے خلاف قریش کے معاشرے میں مخالفت کا طوفان تو برپا ہو چکا تھا، لیکن ابھی قریش کے سردار اس بات سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے کہ حضور کو کسی نہ کسی طرح مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے گا۔ اس لیے وقتاً فوقتاً وہ آپ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے تاکہ آپ ان میں سے کسی کو مان لیں۔ اس سلسلہ میں متعدد روایات احادیث میں منقول ہوئی ہیں۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک ہی مجلس میں نہیں بلکہ مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر کفار قریش نے اِس قسم کی تجویزیں پیش کی تھیں۔ اور اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک ہی دفعہ دو ٹوک جواب دے کر ان کی اس امید کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے کہ رسول اللہ دین کے معاملہ میں کچھ دو اور کچھ لو کے طریقے پر ان سے کوئی مصالحت کرلیں گے۔

 اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ مذہبی رواداری کی تلقین کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ آج کل کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں، بلکہ اس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفار کے دین، ان کی پوجا پاٹ اور ان کے معبودوں سے قطعی براءت کا اعلان کردیا جائے۔ اور انھیں بتا دیا جائے کہ دین کفر اور دین اسلام ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ ان کے باہم مل جانے کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات اگرچہ ابتدائً قریش کے کفار کو مخاطب کر کے ان کی تجاویز مصالحت کے جواب میں کہی گئی تھی لیکن اسے قرآن مجید میں درج کر کے تمام مسلمانوں کو قیامت تک کے لیے یہ تعلیم دے دی گئی ہے کہ دین کفر جہاں جس شکل میں بھی ہے مسلمانوں کو اس سے براءت کا اظہار کرنا چاہیے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 500۔ 501 سے ماخوذ) ۔"

"لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ   Ą۝ۙ

[لَآ اَعْبُدُ: میں بندگی نہیں کرتا][ مَا: اس کی جس کی][ تَعْبُدُوْنَ: تم لوگ بندگی کرتے ہو]"

"وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ   Ǽ۝ۚ

[وَلَآ انتم عٰبِدُوْنَ: اور نہ تم لوگ بندگی کرنے والے ہو][ مَآ: اس کی جس کی ][ اَعْبُدُ: میں بندگی کرتا ہوں]

 

نوٹ 2: آیت۔3۔ میں اور۔5۔ میں مَا اَعْبُدْ آیا ہے۔ عربی زبان میں ما کا لفظ عموماً بےجان یا بےعقل چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور ذی عقل ہستیوں کے لیے مَنْ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں مَنْ اَعْبُدْ کہنے کے بجائے مَااَعْبُدْکیوں کہا گیا۔ عام طور پر اس کے چار جواب مفسرین نے دئیے ہیں۔ یہ چاروں تاویلات اگرچہ ایک ایک لحاظ سے درست ہیں اور عربی زبان میں ان سب کی گنجائش ہے، لیکن ان میں سے کسی سے بھی وہ اصل مدعا واضح نہیں ہوتا جس کے لیے مَنْ اَعْبُدْ کہنے کے بجائے مَا اَعْبُدُ کہا گیا ہے۔

 دراصل عربی زبان میں کسی شخص کے لیے جب مَنْ کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مقصود اس کی ذات کے متعلق کچھ کہنا یا پوچھنا ہوتا ہے۔ اور جب مَا کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مقصود اس کی صفت کے بارے میں استفسار یا اظہار خیال ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اردو میں جب ہم کہتے ہیں یہ صاحب کون ہیں تو مقصد اس شخص کی ذات سے تعارف حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مگر جب ہم کہتے ہیں یہ صاحب کیا ہیں۔ تو اس سے یہ معلوم کرنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ شخص کیا کرتا ہے یا اس کے پیشے میں اس کا مقام ومنصب کیا ہے۔ مثلاً اگر وہ کسی درسگاہ سے تعلق رکھتا ہے تو کیا وہ لکچرر ہے۔ پروفیسر ہے کس علم یا فن کا استاد ہے۔ کیا ڈگریاں رکھتا ہے وغیرہ۔ اگر آیت میں یہ کہا جاتا کہ لَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَنْ اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تم اس ہستی کی عبادت کرنے والے نہیں جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں مشرکین یہ کہہ سکتے تھے کہ اللہ کی ہستی کو تو ہم مانتے ہیں اور ہم اس کی بھی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ کہا گیا کہ لَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہواکہ جن صفات کے معبود کی عبادت میں کرتا ہوں ان صفات کے معبود کی عبادت کرنے والے تم نہیں ہو اور یہی وہ اصل بات ہے جس کی بنا پر نبی کا دین منکرین خدا (یعنی دہریوں) کے سوا تمام اقسام کے کفار کے دین سے قطعی طور پر الگ ہو جاتا ہے کیونکہ نبی کا خدا ان سب کے خدا سے بالکل مختلف ہے۔ ان میں سے کسی کا خدا چھ دن میں دنیا پیدا کرنے کے بعد ساتویں دن آرام کرنے والا ہے۔ حضرت یعقوب سے کشتی لڑتا ہے اور عُزَیْرنامی ایک بیٹا رکھتا ہے۔ کسی کا خدا دوسروں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے اپنے اکلوتے بیٹے کو صیلب پر چڑھا دیتا ہے۔ کسی کا خدا بیوی بچے رکھتا ہے مگر اس کے ہاں صرف بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کسی کا خدا انسانی شکل میں روپ دھار کر زمین پر انسانوں کے لیے کام کرتا ہے وغیرہ۔ غرض خدا کو ماننے والے کفار بھی اس خدا کو نہیں مانتے جس کی صفات کی تعلیم قرآن دیتا ہے۔ ان صفات کے معبود کی عبادت محمد اور ان کی پیروی کرنے والوں کے سوا دنیا میں کوئی بھی نہیں کر رہا ہے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 505۔ 506 سے ماخوذ)

نوٹ 3: اس سورہ میں کافروں کی طرف سے پیش کی ہوئی مصالحت کی مختلف صورتوں کو بالکل رد کر کے اعلان براءت کیا گیا۔ مگر سورۃ الانفال کی آیت۔61۔ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ کفار اگر صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی جھک جائیے یعنی صلح کر لیجیے اور مدینہ میں یہود سے آپ کا معاہدۂ صلح مشہور ومعروف ہے۔ اس ضمن میں صحیح بات یہ ہے کہ جس قسم کی مصالحت سے اس سورہ میں اعلان براءت کیا گیا وہ جیسے اس وقت حرام تھی، آج بھی حرام ہے اور جس صورت کی اجازت سورۂ انفال میں آئی ہے اور میثاقِ مدینہ سے عملاً ظاہر ہوئی، وہ جیسے اس وقت جائز تھی آج بھی جائز ہے۔ بات صرف موقع ومحل اور شرائط صلح کو دیکھنے اور سمجھنے کی ہے۔ اس کا فیصلہ خود رسول اللہ نے ایک حدیث میں فرمایا ہے جس میں کفار سے معاہدہ کو جائز قرار دینے کے ساتھ ایک استثنا کا ارشاد ہے اِلاَّ صُلْحًا اَحَلَّ حَرَامًا اَوْحَرَّمَ حَلَالاً۔ یعنی ہر صلح جائز ہے سوائے اس صلح کے جس کی رو سے اللہ کی حرام کی ہوئی کسی چیز کو حلال یا حلال کی ہوئی چیز کو حرام قرار دیا گیا ہو۔ (معارف القرآن)

مورخہ 18۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 22 فروری 2011ئ۔"

"وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ   Ć۝ۙ

[وَلَآ انا عَابِدٌ: اور نہ (ہی) میں بندگی کرنے والا ہوں][ مَا عَبَدْتم: اس کی جس کی تم لوگوں نے بندگی کی]"

"وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ   Ĉ۝ۭ

[وَلَآ انتم عٰبِدُوْنَ: اور نہ تم لوگ بندگی کرنے والے ہو][ مَآ اَعْبُدُ: اس کی جس کی میں بندگی کرتا ہوں]"

"لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ   Č۝ۧ

[لَكُمْ دِيْنُكُمْ: تمھارے لیے تمھارا دین ہے][ وَلِيَ دِيْنِ: اور میرے لیے میرا دین ہے]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ    Ǻ۝ۙ

[اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ: جب آئے اللہ کی مدد][ وَالْفَتْحُ: اور وہ فتح ]"

"وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا  Ą۝ۙ

[وَرَاَيْتَ النَاسَ: اور آپؐ دیکھیں لوگوں کو][ يَدْخُلُوْنَ: داخل ہوتے ہوئے][ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا : اللہ کے دین میں گروہ در گروہ ہوتے ہوئے]ۙ

 

 

نوٹ 1: آیت۔2۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ زمانہ رخصت ہو جائے جب ایک ایک دو دو کر کے لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے اور وہ وقت آ جائے جب پورے پورے قبیلے ازخود مسلمان ہونے لگیں۔ آیت۔3۔ کا مطلب ہے کہ اپنے رب کی قدرت کا یہ کرشمہ جب تم دیکھ لو تو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اس میں حمد کا مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کامیابی کے متعلق تمھارے دل میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ یہ تمھارے اپنے کمال کا نتیجہ ہے۔ بلکہ اس کو سراسر اللہ کا فضل وکرم سمجھو۔ اس پر اس کا شکر ادا کرو اور دل وزبان سے اس کا اعتراف کرو۔ تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنے میں ایک پہلو تعجب کا بھی ہے۔ جب کوئی مُخیّر العقول واقعہ پیش آتا ہے تو آدمی سبحان اللہ کہتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کی قدرت سے ایسا حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے ورنہ دنیا کی کسی طاقت کے بس میں یہ نہیں تھا۔

 وَاسْتَغْفِرْہُ کا مطلب ہے کہ اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اس نے تمھارے سپرد کی تھی اس کو انجام دینے میں جو بھول چوک کوتاہی ہوئی ہو، اس سے درگزر فرمائے۔ یہ ہے وہ ادب جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے۔ کسی انسان سے اللہ کے دین کی کیسی بھی بڑی سے بڑی خدمت انجام پائی ہو اور اس کی عبادت وبندگی میں کتنی بھی محنت اس نے کی ہو، اس کے دل میں کبھی یہ خیال نہ آنا چاہیے کہ میں نے اپنے رب کا حق ادا کر دیا۔ بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کرسکا اور اسے دعا مانگنی چاہیے کہ مجھ سے جو بھی کوتاہی ہوئی ہے اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرمائے۔ (تفہیم القرآن)

 حضرت عائشہ  (رض)  فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ جب کوئی نماز پڑھتے تو یہ دعا کرتے تھے۔ سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلیْ۔ حضرت اُم سلمہ (رض)  فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد اٹھتے بیٹھتے اور آتے جاتے ہر وقت یہ دعا پڑھتے تھے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیہِ (معارف القرآن)

مورخہ 19۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 23۔ فروری 2011ئ۔"

"فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ     ڼ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا  Ǽ۝ۧ

[فَسَبِحْ: تو آپؐ تسبیح کریں][ بِحَمْدِ رَبِكَ: اپنے رب کی حمد کے ساتھ][ وَاسْتَغْفِرْهُ: اور آپؐ مغفرت مانگیں اس سے][ انهٗ كَان تَوَّابًا: بیشک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ    Ǻ۝ۭ

[تَبَّتْ: تباہ ہوں][ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ: ابولہب کے دونوں ہاتھ][ وَّتَبَّ: اور وہ (بھی) تباہ ہو]

 

ترکیب: (آیت۔1) تَبَّتْ واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ اسی کا فاعل یَدَانِ ہے۔ مضاف ہونے کی وجہ سے نون تثنیہ گرا ہوا ہے۔ تَبَّ واحد مذکر غائب ہے۔ اس کا فاعل اس میں شامل ھُوَ کی ضمیر ہے۔ افعال ماضی میں خبر دینے کا مفہوم بھی ہوتا ہے اور دعا مانگنے کا بھی۔ (دیکھیں آیت۔2: 72، نوٹ۔2) اس آیت کے خبریہ اور دعائیہ، دونوں ترجمے درست مانے جائیں گے۔ ہم دعائیہ کو ترجیح دیں گے۔

 

نوٹ 1: قرآن مجید میں یہ ایک ہی مقام ہے جہاں دشمنانِ اسلام میں سے کسی شخص کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی ہے حالانکہ مکہ میں بھی اور مدینہ میں بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو اسلام اور محمد کی عداوت میں ابولہب سے کسی طرح کم نہ تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس شخص کی وہ کیا خصوصیت تھی جس کی بنا پر اس کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔ وجہ یہ ہے کہ عربی معاشرے کی اخلاقی قدروں میں صلۂ رحمی کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور قطع رحمی کو بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ عرب کی انہی روایات کا یہ اثر تھا کہ قریش کے دوسرے خاندانوں اور ان کے سرداروں نے تو حضور کی شدید مخالفت کی مگر بنوہاشم نے نہ صرف آپ کی مخالفت نہیں کی بلکہ وہ آپ کی حمایت کرتے رہے، حالانکہ ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لائے تھے۔ قریش کے دوسرے خاندان اس حمایت کو عرب کی روایات کے عین مطابق سمجھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے کبھی بنوہاشم کو یہ طعنہ نہیں دیا کہ تم اپنے آبائی دین سے منحرف ہو گئے ہو۔ اس اخلاقی اصول کو صرف ایک شخص نے توڑ ڈالا۔ اور وہ تھا ابولہب جو آپ کا سگا چچا تھا۔ یہاں تک کہ نبوت کے ساتویں سال جب قریش نے بنوہاشم کا معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کیا اور بنو ہاشم کے تمام خاندانوں نے رسول اللہ کی حمایت پر ثابت قدم رہتے ہوئے شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے تو تنہا یہی ابولہب تھا جس نے اپنے خاندان کا ساتھ دینے کے بجائے قریش کا ساتھ دیا۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 520 تا 523 سے ماخوذ۔ اس کے باقی جرائم کی تفصیل ان ہی صفحات میں دیکھی جا سکتی ہے)

نوٹ 2: جب رسول اللہ پر آیت وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ نازل ہوئی تو آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر قبیلہ قریش کے لوگوں کو آواز دی تو لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں تمھیں خبر دوں کہ دشمن صبح شام میں تم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے تو کیا تم لوگ میری تصدیق کرو گے۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا ہاں ضرور تصدیق کریں گے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمھیں ڈراتا ہوں ایک عذاب شدید ہے۔ یہ سن کر ابولہب نے کہا تَبًّالَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا۔ اس آیت۔1۔ میں پہلا جملہ تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ بطور بددعا کے ہے یعنی ابولہب ہلاک ہو جائے۔ اور دوسرا جملہ وَتَبَّ خبر یہ ہے۔ گویا بددعا کے ساتھ اس کا اثر بھی بتا دیا کہ وہ ہلاک ہو گیا۔ بددعا کا جملہ مسلمانوں کے شفاء غیظ کے لیے ارشاد فرمایا گیا کیونکہ جب ابولہب نے آپ کی شان میں تَبًّا کہا تو مسلمانوں کے دل کی خواہش تھی کہ وہ اس کے لیے بددعا کریں۔ حق تعالیٰ نے گویا ان کے دل کی بات خود فرما دی۔ (معارف القرآن)

 یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہے کہ ایک فعل کو دعائیہ اور دوسرے کو خبریہ مانا جائے۔ اس لیے منطقی تقاضا یہ ہے کہ تَبَّتْ ، تَبَّ اور مَا اَغْنٰی تینوں افعال کو یا تو دعائیہ مانا جائے یا خبریہ۔ ہم نے دعائیہ کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ اس وقت کے اہل ایمان کے دل کی آواز تھی۔ اور جہاں تک دعا کے پورا ہونے کا مسئلہ ہے تو اس وقت بھی آج بھی ہر اہل ایمان کا ایمان ہے کہ اللہ کا فرمان اٹل ہے۔ اس لیے خبر دینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ (مرتب)"

"مَآ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَمَا كَسَبَ  Ą۝ۭ

[مَآ اَغْنٰى عَنْهُ: کام نہ آئے اس کے][ مَالُهٗ: اس کا مال][ وَمَا: اور وہ جو][ كَسَبَ: اس نے کمایا]

 

(آیت۔2) مَا اَغْنٰی مَا کو نافیہ بھی مانا جا سکتا ہے اور استفہائیہ بھی، دونوں ترجمے درست ہوں گے۔ ہم نافیہ کو ترجیح دیں گے۔ مَاکَسَبَ میں مَا موصولہ ہے

 

نوٹ 3: کَسَبَ کے معنی ہیں کمانا۔ یعنی وقت، محنت اور اپنے وسائل خرچ کر کے کوئی چیز حاصل کرنا۔ ظاہر ہے اس میں وہ مال بھی آتا ہے جو انسان کماتا ہے، معاشرے میں وہ مقام ومرتبہ بھی جو وہ کوشش کر کے اپنے لیے بناتا ہے، وہ انصار واعوان بھی جو وہ اپنے تعلقات کے ذریعہ بناتا ہے اور رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق آدمی کا بیٹا بھی اس کا کسب ہے۔ یہاں آیت۔2۔ میں مال کا ذکر پہلے آ چکا ہے اس لیے وَمَا کَسَبَ میں مال کے علاوہ باقی دوسری کمائیاں مراد ہیں جس میں بیٹے بھی شامل ہیں۔ ابولہب کے انجام سے یہ سب معانی مناسبت رکھتے ہیں۔ کیونکہ بدر کی شکست کے سات روز بعد اس کو طاعون کی گلٹی نکلی جس کو عرب میں عَدَسَہ کہتے ہیں اور جو چھوت کی بیماری ہے۔ اس لیے سب گھر والوں نے اس کو الگ ڈال دیا اور اسی بےکسی کی حالت میں وہ مر گیا۔ تین روز تک لاش پڑی رہی۔ جب سڑنے لگا تو بیٹوں نے مزدوروں سے اٹھوا کر مٹی میں دبوا دیا۔ اس وقت مال، اولاد، تعلقات، کچھ بھی اس کے کام نہ آیا۔

مورخہ 20۔ ربیع الاول 1432 ھ"

"سَيَصْلٰى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ  Ǽ۝ښ

[سَيَصْلٰى نَارًا: وہ گرے گا ایک ایسی آگ میں جو][ ذَاتَ لَهَبٍ: شعلے والی ہے]

 

 (آیت۔3) سَیَصْلٰی کا فاعل اس میں شامل ھُوَ کی ضمیر ہے۔ (آیت۔4) وَامْرَاَتُہٗ کی رفع بتا رہی ہے کہ یہ سَیَصْلٰی کا فاعل ثانی ہے۔ اس کا حال ہونے کی وجہ سے حَمَّالَۃَ حالت نصب میں ہے۔"

"وَّامْرَاَتُهٗ   ۭ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ  Ć۝ۚ

[وَّامْرَاَتُهٗ ۭ : اور اس کی عورت (بھی)][حَمَالَةَ الْحَطَبِ: بہت ہی اٹھانے (لیے پھرنے) والی ہوتے ہوئے لگائی بجھائی کو]"

"فِيْ جِيْدِهَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ   Ĉ۝ۧ

[فِيْ جِيْدِهَا: اس کی گردن میں][ حَبْلٌ: ایک ایسی رسی ہے جو][ مِّنْ مَّسَدٍ: کھجور کے ریشے سے (بٹی) ہے]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ    Ǻ۝ۚ

[قُلْ: آپؐ کہیے][ هُوَ: حقیقت بس یہ ہے کہ][ اللّٰهُ اَحَدٌ: اللہ یکتا ہے]

 

ترکیب: (آیت۔1) اس کی مختلف ترکیبیں کی گئی ہیں۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ ھُوَ ضمیر الشان ہے۔ اَللّٰہُ مبتدا اور اَحَدٌ اس کی خبر ہے۔

 

نوٹ 1: قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں بالعموم کسی ایسے لفظ کو ان کا نام قرار دیا گیا ہے جو ان میں وارد ہوا ہو۔ لیکن اس سورہ میں لفظ اخلاص کہیں وارد نہیں ہوا۔ اس کو یہ نام اس کے معنی کے لحاظ سے دیا گیا ہے جو شخص بھی اس کو سمجھ کر اس کی تعلیم پر ایمان لے آئے گا وہ شرک سے خلاصی پا جائے گا۔ جب رسول اللہ توحید کی دعوت لے کر اٹھے تھے اس وقت دنیا کے مذہبی تصورات کیا تھے۔ (اس کا ایک ہلکا سا جائزہ سورۂ کافرون کے نوٹ۔2۔ کے آخر میں دیا ہوا ہے۔ مرتب) اس حالت میں جب اللہ وحدہٗ لاشریک کو ماننے کی دعوت دی گئی تو لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی تھا کہ وہ رب آخر کس قسم کا ہے کہ تمام معبودوں کو چھوڑ کر تنہا ایک ہی رب اور معبود ماننے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے ان سوالات کا جواب چند الفاظ میں دے کر اللہ کی ہستی کا ایسا واضح تصور پیش کردیا جو تمام مشرکانہ تصورات کا قلع قمع کر دیتا ہے اور اس کی ذات کے ساتھ مخلوقات کی صفات میں سے کسی صفت کی آلودگی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ کی نگاہ میں اس سورت کی بڑی عظمت تھی اور آپ مسلمانوں کو اس کی اہمیت محسوس کراتے تھے تاکہ وہ کثرت سے اس کو پڑھیں اور لوگوں میں اسے پھیلائیں۔ احادیث میں کثرت سے یہ روایات بیان ہوئی ہیں کہ آپ نے لوگوں کو بتایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ مفسرین نے اس ارشاد کی بہت سی توجیہات بیان کی ہیں۔ ہمارے نزدیک سیدھی بات یہ ہے کہ قرآن جس دین کو پیش کرتا ہے اس کی بنیاد تین عقیدے ہیں۔ توحید، رسالت اور آخرت۔ یہ سورہ چونکہ خالص توحید کو بیان کرتی ہے اس لیے رسول اللہ نے اس کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 530 تا 533 سے ماخوذ)

نوٹ 2: ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے اس سورہ سے بڑی محبت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی محبت نے تمھیں جنت میں داخل کر دیا۔ ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص صبح اور شام قل ھواللہ احد اور مُعَوِّذَتَیْنِ (یعنی سورہ فلق اور سورہ الناس) پڑھ لیا کرے تو یہ اس کو ہر بلا سے بچانے کے لیے کافی ہے۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا کہ میں تم کو ایسی تین سورتیں بتاتا ہوں کہ جو تورات، انجیل، زبور اور قرآن، سب میں نازل ہوئی ہیں۔ اور فرمایا کہ رات کو اس وقت تک مت سوئو جب تک ان تین کو نہ پڑھ لو۔ (یعنی مُعَوِّذَتَیْنِ اور قل ھواللہ احد) (معارف القرآن) ۔

مورخہ 21۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 25۔ فروری 2011 ء"

"اَللّٰهُ الصَّمَدُ   Ą۝ۚ

[اللّٰهُ الصَّمَدُ: اللہ ہی قطعی بےنیاز ہے]

 

ص م د

[ صَمْدًا: (ن۔ ض) حاجت روائی کے لیے کسی کا قصد کرنا۔ رجوع کرنا۔]

[ صَمَدٌ ایسی ہستی جس کی طرف حاجت روائی کے لیے رجوع کیا جائے اور جس کو کسی سے بھی رجوع کرنے کی ضرورت نہ ہو، بےنیاز۔ اللّٰہُ لصَّمَد (اللہ قطعی بےنیاز ہے) ۔ 112:2۔]

 

(آیت۔2) اَللّٰہُ مبتد اور اَلصَّمَدُ اس کی خبر معرفہ ہے۔ اس پر جو الف لام ہے اس کو اگر لام تعریف مانیں تو بین السطور مطلب یہ ہو گا کہ متعدد ہستیاں صمد ہیں اور یہاں کسی مخصوص صمد کی بات ہو رہی ہے یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس پر لام جنس ہے۔"

"لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ   Ǽ۝ۙ

[لَمْ يَلِدْ: اس نے جنا ہی نہیں][ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ: اور نہ ہی وہ جنا گیا]"

"وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ    Ć۝ۧ

[وَلَمْ يَكُنْ: اور ہوا ہی نہیں][ لَهٗ كُفُوًا: اس کا مماثل (اس کے جیسا)][ اَحَدٌ: کوئی ایک بھی]

 

ک ف ء

[کَفْاً: (ف) لَوٹنا۔ اعتدال سے متجاوز ہونا۔]

[ مُکافَئَۃً: (مفاعلہ) برابری کرنا۔ ہم پلہ ہونے کی کوشش کرنا۔]

 کُفُوًا بربری والا۔ ہم پلہ۔ مماثل۔ آیت 112:4۔ ]

 

(آیت۔4) لَمْ یَکُنْ کا اسم اَحَدٌ ہے اس لیے یہ حالت رفع میں ہے۔ اور یَکُنْ کی خبر ہونے کی وجہ سے کُفُوًا حالت نصب میں ہے۔ سادہ جملہ یوں ہو سکتا ہے وَلَمْ یَکُنْ اَحَدٌ کُفُوًا لَّہٗ۔"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ    Ǻ۝ۙ

[قُلْ اَعُوْذُ: آپؐ کہیے میں پناہ میں آتا ہوں][ بِرَبِ الْفَلَقِ: صبح کے مالک کی]"

"مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ   Ą۝ۙ

[مِنْ شَرِّ مَا: اس کے شر سے جو][ خَلَقَ: اس نے پیدا کیا]

 

نوٹ 4: سورۂ فلق کی آیت۔2۔ میں یہ بات قابل غور ہے کہ شر کو پیدا کرنے کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی گئی، بلکہ مخلوقات کی پیدائش کی نسبت اللہ کی طرف اور شرکی نسبت مخلوقات کی طرف کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو شر کے لیے نہیں پیدا کیا ہے۔ اس کا ہر کام خیر اور کسی مصلحت ہی کے لیے ہوتا ہے۔ البتہ مخلوقات کے اندر جو اوصاف اس نے اس لیے پیدا کیے ہیں کہ ان کی تخلیق کی مصلحت پوری ہو، ان سے بعض اوقات اور بعض اقسام کی مخلوقات سے اکثر شررونما ہوتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ 5: قرآن مجید کے آغاز اور اس کے اختتام میں جو مناسبت ہے وہ بھی ذہن میں واضح ہونی چاہیے۔ قرآن کریم کو حق تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ سے شروع فرمایا ہے جس کا خلاصہ حق تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد اس کی مدد حاصل کرنا اور اس سے صراطِ مستقیم کی توفیق مانگنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور صراطِ مستقیم یہی دو چیزیں ہیں جن میں انسان کی دنیا ودین کے سب مقاصد کی کامیابی مضمر ہے۔ لیکن ان دونوں چیزوں کے حصول میں اور حصول کے بعد ان کے استعمال میں ہر قدم پر شیاطین جن واِنس کے مکروفریب اور وسوسوں کا جال بچھا رہتا ہے۔ اس لیے اس جال کو پاش پاش کرنے کی موثر تدابیر استعاذہ پر قرآن کو ختم کیا گیا۔ (معارف القرآن)"

"وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ   Ǽ۝ۙ

[وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ: اور اندھیرا کرنے والے (یعنی رات) کے شر سے][ اِذَا وَقَبَ: جب وہ چھا جائے]

 

و ق ب

[وَقْباً: (ض) آنا۔ جیسے چاند کا گہن میں آنا۔ تاریکی پھیلنا۔ آیت 113:3۔ ]"

"وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ    Ć۝ۙ

[وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ: اور پھونک مارنے والیوں کے شر سے][ فِي الْعُقَدِ:ِٖگِرہوں میں]

 

ن ف ث

[ نَفْثًا: (ن۔ ض) منہ سے تھوڑا سا تھوک نکالنا یا تھوتھوکرنا۔ جادو کے گنڈوں پر پھونک مارنا۔]

[ نَفَّاثٌ مؤنث نَفَّاثَۃٌ۔ فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بار بار یا کثرت سے پھونک مارنے والا۔ آیت۔ 113:4۔ ]"

"وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ   Ĉ۝ۧ

[وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ: اور حسد کرنے والے کے شر سے][ اِذَا حَسَدَ: جب وہ حسد کرے]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ    Ǻ۝ۙ

[قُلْ اَعُوْذُ: آپؐ کہیے میں پناہ میں آتا ہوں][ بِرَبِ النَاسِ: انسانوں کے پروردگار کی]

 

نوٹ 1: سورۂ فلق اور سورۂ ناس، یہ دونوں سورتیں ایک ساتھ، ایک ہی واقعہ میں نازل ہوئیں۔ ابن قمّ (رح)  نے ان دونوں سورتوں کی تفسیر یکجا لکھی ہے۔ اس میں فرمایا کہ ان دونوں سورتوں کے منافع اور برکات سے سب لوگوں کی ضرورت ایسی ہے کہ کوئی انسان ان سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ ان کو سحر، نظر بد اور تمام جسمانی اور روحانی آفات دور کرنے میں تاثیر عظیم حاصل ہے۔ اس کا واقعہ اس طرح ہے کہ نبی کریم پر ایک یہودی نے جادو کردیا تھا جس کے اثر سے آپ بیمار ہو گئے تھے۔ جبرئیل ؑ نے آ کر آپ کو اطلاع دی کہ آپ پر ایک یہودی نے جادو کیا ہے اور جس چیز پر عمل کیا گیا ہے وہ فلاں کنویں میں ہے۔ آپ نے وہاں آدمی بھیجے جو وہ چیز کنویں میں سے نکال لائے۔ اس میں گرہیں لگی ہوئی تھیں۔ آپ نے ان گرہوں کو کھول دیا اور آپ تندرست ہو گئے۔ جبرئیل ؑ نے آپ کو اس یہودی کا نام بتا دیا تھا اور آپ اس کا جانتے تھے، مگر اپنے نفس کے معاملہ میں کسی سے انتقام لیں آپ کی عادت نہیں تھی، اس لیے آپ نے اس یہودی سے عمر بھر کچھ نہ کہا۔ (معارف القرآن) ۔

نوٹ 2: جو لوگ سحر (جادو) کی حقیقت سے ناواقف ہیں ان کو تعجب ہوتا ہے کہ رسول اللہ پر جادو کا اثر کیسے ہو سکتا ہے۔ سحر کی حقیقت اور اس کے اقسام واحکام پوری تفصیل کے ساتھ سورۂ بقرہ کی تفسیر میں جلد اول صفحہ 217 تا 223 میں بیان کیے جا چکے ہیں، وہاں دیکھ لیے جائیں۔ یہاں اس کا جو خلاصہ جاننا ضروری ہے وہ اتنا ہے کہ سحر کا اثر بھی طبعی اسباب کا اثر ہوتا ہے۔ جیسے آگ سے جلنا یا گرم ہونا، پانی سے سرد ہونا، کسی سبب سے بخار آ جانا یا کسی مرض کا پیدا ہو جانا وغیرہ۔ یہ سب امر طبعی ہیں جن سے انبیاء مستثنیٰ نہیں ہوتے۔ اسی طرح جادو کا اثر بھی اسی قسم سے ہے اس لیے بعید نہیں۔ (معارف القرآن)

 اس جادو کے واقعہ میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کے منصب نبوت میں قادع (عیب لگانے والی) ہو۔ ذاتی حیثیت سے اگر آپ کو زخمی کیا جا سکتا ہے، اگر آپ کو گھوڑے سے گر کو چوٹ لگ سکتی ہے، اگر آپ کو بچھو کاٹ سکتا ہے، اور ان میں سے کوئی چیز بھی اس تحفظ کے منافی نہیں ہے جس کا نبی ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا، تو آپ اپنی ذاتی حیثیت میں جادو کے اثر سے بیمار بھی ہو سکتے تھے۔ نبی پر جادو کا اثر ہونا تو قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ سورۂ طٰہٰ میں ہے کہ فرعون کے جادوگروں نے جو لاٹھیاں اور رسیاں پھینکی تھیں ان کے متعلق عام لوگوں نے ہی نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی سمجھا کہ وہ ان کی طرف سانپوں کی طرح دوڑی چلی آ رہی ہیں۔ اور اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام خوفزدہ ہو گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی کہ خوف نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے۔ اب رہا یہ اعتراض کہ اس طرح تو کفار مکہ کے اس الزام کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ نبی کو وہ سحر زدہ آدمی کہتے تھے۔ لیکن یہ اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ کفار آپ کو سحرزدہ آدمی اس معنی میں نہیں کہتے تھے کہ آپ جادو کے اثر سے بیمار ہو گئے ہیں، بلکہ اس معنی میں کہتے تھے کہ کسی جادوگر نے معاذ اللہ آپ کو پاگل کردیا ہے اور اسی پاگل پن میں آپ نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں۔ اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ کفار کا یہ الزام ایسے واقعہ پر سرے سے چسپاں ہی نہیں ہوتا جس کے متعلق تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جادو کا اثر صرف ذاتِ محمد پر ہوا تھا، نبوت محمد اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 555۔ 556)

نوٹ 3: ان سورتوں کے معاملہ میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا جھاڑ پھونک کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے اور یہ کہ جھاڑ پھونک مؤثر بھی ہے یا نہیں؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ بکثرت احادیث میں یہ ذکر آیا ہے کہ رسول اللہ ہر رات کو سوتے وقت معوذتین (یعنی سورۂ فلق اور سورۂ ناس) یا بعض روایات کے مطابق معوذات (یعنی سورۂ اخلاص اور معوذتین) تین مرتبہ پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتے اور پورے جسم پر ہاتھ پھیر لیتے۔

 اس معاملہ میں شرعی مسئلہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ایک طویل حدیث کے آخر میں رسول اللہ نے فرمایا کہ میری امت کے وہ لوگ بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے جو نہ داغنے کا علاج کراتے ہیں نہ جھاڑ پھونک کراتے ہیں، نہ فال لیتے ہیں بلکہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا کہ جس نے داغنے سے علاج کرایا اور جھاڑ پھونک کرائی، وہ اللہ پر توکل سے بےتعلق ہو گیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود  (رض)  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ دس چیزوں کو ناپسند فرماتے تھے جن میں سے ایک جھاڑ پھونک بھی ہے سوائے معوذتین یا معوذات کے۔ بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں حضور نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرما دیا تھا پھر بعد میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی کہ اس میں شرک نہ ہو، اللہ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے۔ کلام ایسا ہو جو سمجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس میں کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے۔ بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ شفا دینے والی ہے بلکہ اللہ پر بھروسہ کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا۔

 ایک مرتبہ نبی بیمار ہوئے تو جبرئیل ؑ نے آ کر پوچھا کہ کیا آپ بیمار ہو گئے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ جبرئیل ؑ نے کہا:

بِسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ یُّؤْذِیْکَ مِنْ شَرِّْکُلِّ نَفْسٍ اَوْعَیْنٍ حَاسِدٍ اَللّٰہُ یَشْفِیْکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ ترجمہ۔ اللہ کے نام سے میں جھاڑتا ہوں آپؐ کو تمام ایسی چیز سے جو اذیت دے آپؐ کو ہر ایک نفس کے شر سے یا حسد کرنے والے کی آنکھ (کے شر) سے اللہ شفا دے آپؐ کو اللہ کے نام سے میں جھاڑتا ہوں آپؐ کو۔

 اس کے علاوہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے زہریلے جانوروں کے کاٹے، ذباب کے مرض اور نظربد کے جھاڑنے کی اجازت دی۔ جبکہ دوا سے علاج کرنے کی آپ نے تاکید کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے اور تم لوگ دوا کیا کرو۔ آپ نے خود بھی لوگوں کو بعض امراض کے علاج بتائے جیساکہ احادیث میں باب الطب کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے۔ لیکن دوا بھی اللہ ہی کے حکم اور اذن سے نافع ہوتی ہے۔ اب اگر دوا سے علاج کرنے کے ساتھ اللہ کے کلام اور اس کے اسماء حسنیٰ سے بھی استفادہ کیا جائے تو یہ بات مادہ پرستوں کے سوا کسی کی عقل کے بھی خلاف نہیں ہے۔ البتہ یہ صحیح نہیں ہے۔ کہ دوا سے علاج کو چھوڑ دیا جائے اور صرف جھاڑ پھونک سے ہی کام لینے پر اکتفا کیا جائے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 557 تا 560 سے ماخوذ)"

"مَلِكِ النَّاسِ   Ą۝ۙ

[مَلِكِ النَاسِ: انسانوں کے بادشاہ کی]"

"اِلٰهِ النَّاسِ   Ǽ۝ۙ

[اِلٰهِ النَاسِ: انسانوں کے حاجت روا، مشکل کشا، پناہ دہندہ کی]"

"مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ڏ الْخَنَّاسِ   Ć۝۽

[مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ڏ الْخَنَاسِ: بار بار وسوسہ اندازی کرنے والے بار بار دبک جانے والے کے شر سے]

 

ترکیب: اَلْوَسْوَاسِ اور اَلْخَنَّاسِ دونوں اسم المبالغہ ہیں جو ایک طرح سے اسم الصّفہ ہوتے ہیں۔ (دیکھیں آسان عربی گرامر، حصہ سوم پیراگراف 1:60۔ اس لیے اَلْخَنَّاسِ کو مضاف الیہ اَلْوَسْوَاسِ کی صفت ماننے کی گنجائش نہیں ہے اور اَلْخَنَّاسِ کو شَرِّ کا مضاف الیہ ثانی مانا جائے گا۔ اَلْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ کا موصوف یہاں محذوف ہے۔ آگے آیات ۔4۔5 میں اسی محذوف موصوف کی وضاحت ہے۔"

"الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ   Ĉ۝ۙ

[الَّذِي يُوَسْوِسُ: وہ جو وسوسہ اندازی کرتاہے][ فِيْ صُدُوْرِ النَاسِ: انسانوں کے دلوں میں]"

"مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ    Č۝ۧ

[مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَاسِ: جو جنوں اور انسانوں میں سے ہوتا ہے]"

ے کا موقع باقی رہتا ہے۔ دوسرے آدمی نے علم پر یقین نہیں کیا۔ آگے جا کر جب اس کو دشمن نظر آیا تو اس کو یقین آ گیا۔ اس کو عین الیقین کہتے ہیں۔ لیکن اس وقت عمل کرنے کا موقع باقی نہیں رہتا۔ آیات۔ 5 تا 7۔ میں اسی حقیقت کی نشاندہی اس انداز میں کی گئی ہے کہ کاش تم لوگ علم الیقین کی افادیت کو سمجھتے۔ اب نہیں سمجھ رہے ہو تو آگے جا کر دوزخ کو دیکھ کر عین الیقین تو حاصل ہو جائے گا لیکن اس کا فائدہ کوئی نہیں ہو گا۔ اس حوالہ سے اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ سارا اجروثواب علم الیقین پر ہے اور اسی کا دوسرا نام ایمان بالغیب ہے۔ جدید تعلیم یافتہ کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایمان بالغیب کا مطالبہ غیر فطری ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے کیونکہ غیب پر ایمان لانے کی صلاحیت انسان کی ف