قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
پارہ چہارم

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ڛ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ      92؀

[لَنْ تَنَالُوا : تم لوگ ہرگز نہیں حاصل کرو گے] [الْبِرَّ : نیکی کو ] [حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [تُنْفِقُوْا : تم لوگ خرچ کرو] [مِمَّا: اس میں سے جو ] [ تُحِبُّوْنَ : تم لوگ پسند کرتے ہو] [وَمَا : اور جو بھی ] [تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو گے] [مِنْ شَیْئٍ : کسی چیز میں سے ] [فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [بِہٖ : اس کو ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے]

 

ترکیب :’’ وَمَا تُنْفِقُوْا‘‘ کا ’’ مَا‘‘ شرطیہ ہے اس لیے ’’ تُنْفِقُوْا‘‘ مجزوم ہوا ہے۔ ’’ کَانَ‘‘ کا اسم ’’ کُلُّ الطَّعَامِ‘‘ ہے اور ’’ حِلًّا‘‘ اس کی خبر ہے۔’’ حَرَّمَ‘‘ کا فاعل ’’ اِسْرَائِ یْلُ‘‘ ہے جو حضرت یعقوبؑ کا لقب ہے۔ ’’ اِفْتَرٰی‘‘ کا فاعل ’’ مَنْ‘‘ ہے اور ’’ اَلْکَذِبَ‘‘ اس کا مفعول ہے۔

نوٹ: اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ ایک مرتبہ آپؑ سخت بیمار ہوئے تو منت مانی کہ صحت یاب ہونے پر اپنی سب سے محبوب چیز چھوڑ دوں گا۔ چنانچہ صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے اونٹ کے گوشت اور دودھ کا استعمال ترک کردیا ‘ کیونکہ یہ انہیں بہت پسند تھا۔ اس کے بعد ان کی اولاد نے بھی اسے اپنے اوپر حرام کر لیا۔ واضح رہے کہ اسلام میں کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی منت ماننے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی تفصیل ‘ اِن شاء اللہ ‘ سورۃ التحریم میں آئے گی۔

كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِھٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ  ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ     93؀
[کُلُّ الطَّعَامِ : کھانے کا کُل ] [کَانَ حِـلاًّ : حلال تھا] [لِّبَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ : بنو اسرائیل کے لیے ] [اِلاَّ : سوائے اس کے ] [مَا : جو ] [حَرَّمَ : حرام کیا ] [اِسْرَآئِ یْلُ : اسرائیل (یعقوبؑ) نے] [عَلٰی نَفْسِہٖ : اپنے آپ پر ] [مِنْ قَبْلِ : اس سے پہلے ] [اَنْ : کہ ] [تُـنَزَّلَ : اُتاری جاتی ] [التَّوْرٰٹۃُ : تورات ] [قُلْ : آپؐ کہیے ] [فَاْتُوْا : تو لائو تم لوگ ] [بِالتَّوْرٰٹۃِ : تورات کو ] [فَاتْلُوْہَآ : پھر پڑھو اس کو ] [اِنْ : اگر ] [کُنْتُمْ : تم لوگ ہو ] [صٰدِقِیْنَ : سچ کہنے والے ]

فَمَنِ افْتَرٰى عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ     94؀۬
[فَمَنِ : پھر جس نے ] [افْتَرٰی : گھڑا ] [عَلَی اللّٰہِ : اللہ پر ] [الْکَذِبَ : جھوٹ ] [مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ : اس کے بعد سے] [فَاُولٰٓئِکَ : تو وہ لوگ ] [ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ : ہی ظالم ہیں]

قُلْ صَدَقَ اللّٰهُ     ۣفَاتَّبِعُوْا مِلَّــةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا  ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ     95؀
[قُلْ: آپؐ کہیے] [صَدَقَ : سچ کہا ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [فَاتَّبِعُوْا : پس تم لوگ پیروی کرو] [مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ : ابراہیم ؑ کے دین کی] [حَنِیْفًا : یکسو ہو کر] [وَمَا کَانَ : اور وہ نہیں تھے ] [مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ : شرک کرنے والوں میں سے ]

 

ب ر ک

 بَرَکَ (ن) بُرُوْکًا : غیر حسی خیر اور بھلائی والا ہونا۔

 بَرَکَۃٌ (اسم ذات) : غیر حسی خیر اور بھلائی‘ برکت (جو خیر اور بھلائی حواسِ خمسہ کے دائرے کے باہر ہو اور محسوس نہ کی جا سکے‘ اسے برکت کہتے ہیں۔ اردو میں بھی برکت ہی استعمال ہوتا ہے‘ کوئی دوسرا ہم معنی لفظ نہیں ہے) ۔ {رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِط} (ھود:73) ’’ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں تم لوگوں پر ہیں‘ اے اس گھر والو۔‘‘

 بَارَکَ (مفاعلہ) مُبَارَکَۃً : کسی کو برکت دینا‘ کسی پر برکت اتارنا۔ {وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَبٰرَکَ فِیْھَا} (حٰمٓ السجدۃ:10) ’’ اور بنائے اس (زمین) میں بھاری پہاڑ اس کے اوپر سے اور برکت دی اس میں۔‘‘ {وَبٰرَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحٰقَ} (الصّٰفّٰت:113) ’’ اور ہم نے برکت اتاری اس پر اور اسحاقؑ پر۔‘‘

 مُبَارَکٌ (اسم المفعول) : برکت دیا ہوا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 تَـبَارَکَ (تفاعل) تَـبَارُکًا : (1) دوسرے کو برکت والا سمجھنا۔ یہ غیر اللہ کے لیے ہے اور اس مفہوم میں قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔ (2) برکت کا سرچشمہ ہونا‘ بابرکت ہونا‘ یہ مفہوم صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے۔ {تَبٰرَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِی الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ ۔ } (الرحمٰن) ’’ برکت کا سرچشمہ ہوا تیرے رب کا نام جو جلال اور اکرام والا ہے۔‘‘

 ترکیب:’’ حَنِیْفًا‘‘ حال ہے۔ ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم ’’ اَوَّلَ بَیْتٍ‘‘ ہے اور نکرہ مخصوصہ ہے۔ ’’ وُضِعَ لِلنَّاسِ‘‘ اس کی خصوصیت ہے۔’’ لَـلَّذِیْ بِبَکَّۃَ‘‘ خبر ہے۔ ’’ مُبَارَکًا‘‘ اور ’’ ھُدًی‘‘ حال ہے۔ ’’ مَقَامُ اِبْرٰھِیْمَ‘‘ سے پہلے ’’ مِنْھَا‘‘ محذوف ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ دَخَلَہٗ‘‘ شرط اور ’’ کَانَ اٰمِنًا‘‘ جواب شرط ہے۔ ’’ کَانَ‘‘ کا اسم اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ اٰمِنًا‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ حِجُّ الْبَیْتِ‘‘ مبتدأ مؤخر ہے‘ اس کی خبر ’’ وَاجِبٌ‘‘ محذوف ہے اور ’’ لِلّٰہِ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ مَنِ اسْتَطَاعَ‘‘ کا ’’ مَنْ‘‘ ’’ اَلنَّاسِ‘‘ کا بدل ہے لیکن یہ بدلِ کل نہیں بلکہ بدلِ بعض ہے۔ یعنی تمام ’’ النّاس‘‘ کا بدل نہیں ہے بلکہ ان میں سے کچھ کا بدل ہے۔

اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ      96؀ۚ
[اِنَّ : یقینا ] [اَوَّلَ بَیْتٍ : کوئی پہلا گھر جو ] [وُّضِعَ : رکھا گیا (یعنی بنایا گیا) ] [لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے

لَلَّذِیْ : لازماً وہ ہے جو] [بِبَکَّۃَ : مکہ میں ہے] [مُبٰـرَکًا : برکت دیا ہوا ہوتے ہوئے ] [وَّہُدًی : اور ہدایت ہوتے ہوئے] [لِّلْعٰلَمِیْنَ: تمام جہانوں کے لیے]

 

نوٹ (1) : تورات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں جس بیت ایل (بیت اللہ) کی تعمیر کا ذکر ہے وہ خانۂ کعبہ ہی ہو سکتا ہے نہ کہ بیت المقدس (تدبر قرآن) ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بائبل ہی کی شہادت کے مطابق حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے 450 سال بعد حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے بیت المقدس کو تعمیر کیا ۔ اس طرح یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر نوبیت المقدس سے تقریباً 12۔13 سو سال پہلے ہوئی تھی۔

 یہ بھی نوٹ کرلیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانۂ کعبہ کو تعمیر نہیں کیا تھا بلکہ اس کی تعمیر نو کی تھی۔ سورۃ البقرۃ‘ آیت 127 میں واضح الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) نے خانۂ کعبہ کی بنیادوں کو بلند کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خانۂ کعبہ پہلے سے موجود تھا اور طوفان نوح میں اس کی دیواریں گر گئی تھیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت آدم ؑ اور بی بی حوا نے خانۂ کعبہ تعمیر کیا اور طواف کیا ۔ ابن کثیر (رح)  نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔ لیکن اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ اس زمین پر لوگوں کے لیے تعمیر ہونے والی سب سے پہلی عبادت گاہ خانۂ کعبہ ہے۔ جیسا کہ ایک صحیح روایت میں نبی اکرم
کا فرمان ہے کہ سب سے پہلی مسجد جو روئے زمین پر تعمیر کی گئی ‘ وہ مسجد حرام ہے اور دوسری مسجد بیت المقدس ہے اور ان دونوں کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہے۔

 نوٹ (2) : حج کے لیے استطاعت کا مطلب یہ ہے کہ راستہ محفو ظ و مامون ہو‘ آدمی صحت مند ہو‘ حج پر جانے کا خرچہ موجود ہو اور غیر حاضری کے دوران پیچھے گھر والوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام ہو۔ جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرتا ہے وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہے۔ ایک شخص فرضیت کا انکار نہیں کرتالیکن استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا تو وہ بھی اپنے عمل سے کافروں جیسا ہو جاتا ہے۔ (معارف القرآن)

فِيْهِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِيْمَ  ڬ وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا  ۭ وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا  ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ     97؀
[فِیْہِ : اس میں ] [اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ : کچھ واضح نشانیاں ہیں] [مَّقَامُ اِبْرٰہِیْمَ : (ان میں سے) ابراہیم ؑ کے کھڑے ] [ہونے کی جگہ ہے] [وَمَنْ : اور جو ] [دَخَلَہٗ : داخل ہو گا اس میں] [کَانَ : تو وہ ہو گا] [اٰمِنًا : امن میں ہونے والا ] [وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے ہی ہے] [عَلَی النَّاسِ : لوگوں پر ] [حِجُّ الْبَیْتِ : البیت (یعنی خانۂ کعبہ) کا حج] [مَنِ : (ان میں سے) اس پر جو] [اسْتَطَاعَ : قدرت رکھتا ہو] [اِلَـیْہِ : اس کی طرف ] [سَبِیْلاً : راستے کی ] [وَمَنْ : اور جس نے ] [کَفَرَ : انکار کیا ] [فَاِنَّ اللّٰہَ : تو بےشک اللہ ] [غَنِیٌّ : بےنیاز ہے ] [عَنِ الْعٰلَمِیْنَ : تمام جہانوں سے]

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِيْعُوْا فَرِيْقًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ يَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ كٰفِرِيْنَ     ١٠٠؀
[يٰٓاَيُّھَا الَّذِينَ : اے لوگو جو] [اٰمَنُوْآ: ایمان لائے ] [اِنْ تُطِیْعُوْا : اگر تم لوگ اطاعت کرو گے] [فَرِیْقًا : کسی فریق کی ] [مِّنَ الَّذِیْنَ : ان میں سے جو] [اُوْتُوْا: دیے گئے ] [الْـکِتٰبَ : کتاب ] [یَرُدُّوْکُمْ : تو وہ لوگ پھیر دیں گے تم کو] [بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ : تمہارے ایمان کے بعد] [کٰفِرِیْنَ : کفر کرنے والا ہوتے ہوئے]

 

ع ص م

 عَصَمَ (ض) عَصْمًا : کسی کو کسی سے بچانا ۔{وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط} (المائدۃ:67) ’’ اور اللہ بچائے گا آپؐ ‘ کو لوگوں سے۔‘‘

 عَاصِمٌ (اسم الفاعل) : بچانے والا۔ {مَالَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍج} (یونس:32) ’’ ان کے لیے نہیں ہے اللہ سے کوئی بچانے والا۔‘‘

 عِصَمٌ (اسم ذات) : بچائو‘ حفاظت۔ اس مفہوم کے ساتھ نکاح کے لیے آتا ہے : {وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْـکَوَافِرِ} (الممتحنۃ:10) ’’ اور تم لوگ مت تھامو یعنی مت قائم رکھو کافر عورتوں کے نکاح کو۔‘‘

 اِعْتَصَمَ (افتعال) اِعْتِصَامًا : بچائو یا حفاظت کے لیے کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِعْتَصِمْ : تو مضبوطی سے پکڑ۔ {وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا} (آل عمران:103) ’’ اور تم لوگ مضبوطی سے پکڑو اللہ کی رسی کو‘ سب کے سب۔‘‘

 اِسْتَعْصَمَ (استفعال) اِسْتِعْصَامًا : بچائو یا حفاظت چاہنا یعنی باز رہنا۔ {وَلَقَدْ رَاوَدْتُّــہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ فَاسْتَعْصَمَط} (یوسف:32) ’’ میں نے پھسلایا اس کو اس کے نفس سے تو وہ باز رہا۔‘‘

وَكَيْفَ تَكْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللّٰهِ وَفِيْكُمْ رَسُوْلُهٗ  ۭ وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ     ١٠١؁ۧ
[وَکَیْفَ تَـکْفُرُوْنَ : اور تم لوگ کیسے کفر کروگے] [وَ : حالانکہ (یعنی جبکہ) ] [اَنْتُمْ : تم لوگ ہو (کہ) ] [تُـتْلٰی عَلَیْکُمْ : پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تم کو] [اٰیٰتُ اللّٰہِ : اللہ کی آیتیں] [وَ : اور (جبکہ) ] [فِیْکُمْ : تم لوگوں میں ہے] [رَسُولُــہٗ : اس کا رسولؐ] [وَمَنْ یَّـعْتَصِمْ : اور جو مضبوطی سے پکڑے گا ] [بِاللّٰہِ : اللہ کو ] [فَقَدْ ہُدِیَ: تو لازماً اس کی راہنمائی کی جائے گی] [اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ : ایک سیدھے راستے کی طرف]

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ     ١٠٢؁
[يٰٓاَيُّھَا الَّذِينَ : اے لوگو جو ] [اٰمَنُوا : ایمان لائے ] [اتَّقُوا : تم لوگ تقویٰ کرو] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [حَقَّ تُقٰتِہٖ : (جیسا کہ) اس کے تقویٰ کا حق ہے] [وَلاَ تَمُوْتُنَّ : اور تم لوگ ہرگز مت مرنا] [اِلاَّ : مگر] [وَ : اس حال میں کہ

اَنْتُمْ : تم لوگ ] [مُّسْلِمُوْنَ : فرماں برداری کرنے والے ہو]

 

ح ب ل

 حَبَلَ (ن) حَبْلاً : رسّی سے باندھنا۔

 حَبْلٌ ج حِبَالٌ (اسم ذات) : رسّی‘ معاہدہ۔ {فَاَلْـقَوْا حِبَالَھُمْ وَعِصِیَّھُمْ} (الشعرائ:44) ’’ تو انہوں نے ڈالیں اپنی رسّیاں اور اپنی لاٹھیاں۔‘‘

ش ف و

 شَفَا (ن) شَفْوًا : چاند نکلنا‘ کسی چیز کا کنارہ ظاہر ہونا۔

 شَفَا : ہر چیز کا کنارا۔ آیت زیر مطالعہ۔

ح ف ر

 حَفَرَ (ض) حَفْرًا : مٹی کھودنا‘ گڑھا بنانا۔

 حَافِرَۃٌ (اسم الفاعل) : مٹی کھودنے والا‘ پھر استعارۃً گھوڑے کے سُم اور دوسرے قدموں کے لیے آتا ہے جو چلتے وقت مٹی اُڑاتے ہیں۔ {ئَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَۃِ ۔ } (النّٰـزعٰت) ’’ کیا ہم لوگ ضرور لوٹائے جانے والے ہیں قدم میں یعنی الٹے پائوں۔‘‘

 حُفْرَۃٌ (اسم ذات) : گڑھا۔ آیت زیر مطالعہ۔

ن ق ذ

 نَـقَذَ (ن) نَقْذًا : نجات دینا‘ چھوڑنا۔

 اَنْقَذَ (افعال) اِنْقَاذًا : کسی آنے والی مصیبت سے بچانا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِسْتَنْقَذَ (استفعال) اِسْتِنْقَاذًا : کسی مصیبت میں گرفتار کو چھڑانا‘ نجات دلانا۔ {وَاِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لاَّ یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُط} (الحج:73) ’’ اور اگر چھین لے ان سے مکھی کوئی چیز تو وہ لوگ نہ چھڑا سکیں اس کو اس سے۔‘‘

 ترکیب:’’ جَمِیْعًا‘‘ تمیز ہے۔ ’’ تَفَرَّقُوْا‘‘ کی ایک ’’ تا‘‘ گری ہوئی ہے‘ یعنی یہ فعل نہی ’’ لاَ تَتَفَرَّقُوْا‘‘ ہے۔ ’’ کُنْتُمْ‘‘ کی خبر ’’ اَعْدَائً‘‘ ہے۔ ’’ اَصْبَحْتُمْ‘‘ فعل ناقص ہے۔ اس کا اسم ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ اِخْوَانًا‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ وَکُنْتُمْ‘‘ کی خبر محذوف ہے جو’’ قَائِمِیْنَ‘‘ ہو سکتی ہے۔’’ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ ’’ فَاَنْقَذَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے۔ ’’ یُـبَــیِّنُ‘‘ کا مفعول ہونے کی وجہ سے ’’ اٰیٰتِہٖ‘‘ منصوب ہے۔

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا  ۠وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا  ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا  ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ     ١٠٣؁
[وَاعْتَصِمُوْا : اور تم لوگ مضبوطی سے پکڑو] [بِحَبْلِ اللّٰہِ : اللہ کی رسّی کو] [جَمِیْعًا : سب کے سب] [وَّلاَ تَفَرَّقُوْا: اور تم لوگ پھٹ کر الگ الگ مت ہو] [وَاذْکُرُوْا : اور یاد کرو] [نِعْمَتَ اللّٰہِ : اللہ کی نعمت کو ] [عَلَیْکُمْ : اپنے اوپر ] [اِذْ کُنْتُمْ : جب تم لوگ ] [اَعْدَآئً : دشمن تھے] [فَاَلَّفَ : پھر اس نے محبت پیدا کی] [بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ : تمہارے دلوں کے درمیان] [فَاَصْبَحْتُمْ : تو تم لوگ ہو گئے] [بِنِعْمَتِہٖ : اس کی نعمت سے ] [اِخْوَانًا : بھائی بھائی ] [وَکُنْتُمْ : اور تم لوگ تھے ] [عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ : ایک گڑھے کے کنارے پر] [مِّنَ النَّارِ : آگ میں سے] [فَاَنْقَذَکُمْ : پھر اس نے بچایا تم کو] [مِّنْہَا : اس سے] [کَذٰلِکَ : اس طرح ] [یُـبَـیِّنُ : واضح کرتا ہے ] [اللّٰہُ : اللہ ] [لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [اٰیٰتِہٖ : اپنی آیتوں کو] [لَـعَلَّـکُمْ : شاید کہ تم لوگ] [تَہْتَدُوْنَ : ہدایت پائو]

 نوٹ : سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اختلاف سے منع نہیں کیا ہے بلکہ تفرقہ سے روکا ہے۔ اختلاف ایک فطری امر ہے ‘ اس لیے یہ تو ہو گا اور رہے گا۔ اختلاف تو صحابہ کرام (رض)  میں بھی تھا۔ لیکن اس کی بنیاد پر پھٹ کر ایک دوسرے سے الگ ہو جانا اور ایک دوسرے کی تنقیص کرنا تفرقہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس حرکت سے منع کیا ہے۔

 آیت زیر مطالعہ کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع (رح)  نے کافی تفصیل سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے آخر میں فرمایا ہے کہ ’’ اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضور اکرم
کی تشریح و تفصیل کو قبول کرتے ہوئے اپنی فطری استعداد اور دماغی صلاحیتوں کی بنا پر فروع میں (یعنی جزوی باتوں میں) اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری ہے اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا۔ صحابہ (رض)  و تابعین اور ائمہ فقہاء کا اختلاف اسی قسم کا اختلاف تھا اور اسی اختلاف کو رحمت قرار دیا گیا ہے ۔ ہاں اگر ان ہی فروعی بحثوں کو اصل دین قرار دیا جائے اور ان میں اختلاف کو جنگ و جدل اور سبّ و شتم کا ذریعہ بنا لیا جائے تو یہ بھی مذموم ہے‘‘۔ (معارف القرآن)

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ     ١٠٤؁
[وَلْـتَـکُنْ : اور چاہیے کہ ہو ] [مِّنکُمْ : تم لوگوں میں ] [اُمَّـۃٌ : ایک گروہ جو ] [یَّدْعُوْنَ : دعوت دے ] [اِلَی الْخَیْرِ : بھلائی کی طرف] [وَیَـاْمُرُوْنَ : اور تاکید کرے] [بِالْمَعْرُوْفِ : نیکی کی ] [وَیَنْہَوْنَ : اور منع کرے

عَنِ الْمُنْکَرِ: برائی سے ] [وَاُولٰٓئِکَ : اور وہ لوگ ] [ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : ہی مراد پانے والے ہیں]

ن ک ر

 نَــکِرَ (س) نَـکَرًا : (1) کسی چیز کا عرفان نہ ہونا‘ کسی کو اجنبی سمجھنا۔ (2) ناگوار ہونا‘ برا ہونا (اجنبیت انسان کو اچھی نہیں لگتی) ۔{نَـکِرَھُمْ وَاَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃًط} (ھود:70) ’’ انہوں نے اجنبی سمجھا ان کو اور محسوس کیا ان سے خوف۔‘‘

 نَـکِیْرٌ : فَعِیْلٌ کا وزن ہے۔ اسم ذات کے معنی میں آتا ہے۔ ناواقفیت‘ عدم عرفان۔ {فَـکَیْفَ کَانَ نَـکِیْرِ ۔ } (سبا) ’’ تو کیسی تھی مجھ سے ناواقفیت!‘‘ {مَالَـکُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ یَّـوْمَئِذٍ وَّمَالَـکُمْ مِّنْ نَّــکِیْرٍ ۔ } (الشوریٰ) ’’ تمہارے لیے نہیں ہوگی کسی قسم کی کوئی پناہ گاہ اس دن اور تمہارے لیے نہیں ہو گا کسی قسم کا کوئی عدم عرفان۔‘‘

 نُکْرٌ اور نُـکُرٌ (صفت) : ناگوار‘ برا۔ {فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّـکْرًا ۔ } (الکہف) ’’ تو وہ عذاب دے گا اس کو ایک برا عذاب۔‘‘{یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰی شَیْئٍ نُّــکُرٍ ۔ } (القمر) ’’ جس دن بلائے گا بلانے والا ایک ناگوار چیز کی طرف۔‘‘

 اَنْـکَرُ (افعل التفضیل) : زیادہ برا‘ زیادہ ناگوار۔{اِنَّ اَنْـکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ ۔ } (لقمٰن) ’’ بے شک ناگوار ترین آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘

 اَنْـکَرَ (افعال) اِنْکَارًا : واقفیت کا اقرار نہ کرنا‘ پہچاننے سے انکار کرنا۔ {یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰہِ ثُمَّ یُنْکِرُوْنَھَا} (النحل:83) ’’ وہ لوگ پہچانتے ہیں اللہ کی نعمت کو ‘ پھر پہچاننے سے انکار کرتے ہیں اس کا۔‘‘

 مُنْکِرٌ (اسم الفاعل) : نہ پہچاننے والا‘ انکار کرنے والا۔ {فَعَرَفَھُمْ وَھُمْ لَـہٗ مُنْـکِرُوْنَ ۔ } (یوسف) ’’ تو اس نے پہچانا ان کو اور وہ لوگ اس کو نہ پہچاننے والے تھے۔‘‘{قُلُوْبُھُمْ مُّنْکِرَۃٌ} (النحل:22) ’’ ان کے دل انکار کرنے والے ہیں۔‘‘

 مُنْکَرٌ : اسم المفعول ہے اور صفت کے طور پر بھی آتا ہے۔ (1) نہ پہچانا ہوا‘ اجنبی۔ (2) ناگواری۔ (3) برائی (جس کو انسانی فطرت نہیں پہچانتی) ۔ {اِنَّـکُمْ قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ ۔ } (الحجر) ’’ بے شک تم لوگ ایک اجنبی قوم ہو۔‘‘{وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰـتُـنَا بَـیِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمُنْکَرَط} (الحج:72) ’’ اور جب کبھی پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان کو ہماری واضح آیات تو تُو دیکھتا ہے ان کے چہروں میں جنہوں نے کفر کیا‘ ناگواری کو) ۔‘‘ برائی کے مفہوم میں آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔

 نَـکَّرَ (تفعیل) تَنْکِیْرًا : کسی کو ناقابل پہچان بنانا‘ کسی کا بھیس بدلنا۔

 نَـکِّرْ (فعل امر) : تو بھیس بدل دے۔ {نَـکِّرُوْا لَـھَا عَرْشَھَا} (النمل:41) ’’ تم لوگ بھیس بدل دو اس کے لیے اس کے تخت کا۔‘‘

 ترکیب:’’ وَلْتَـکُنْ‘‘ ‘ ’’ کَانَ‘‘ کا فعل امر غائب میں واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے اور یہ ’’ کَانَ‘‘ تامہ ہے۔ ’’ اُمَّـۃٌ‘‘ اس کا فاعل ہے اور نکرہ مخصوصہ ہے۔ ’’ یَدْعُوْنَ‘ یَاْمُرُوْنَ‘‘ اور ’’ یَنْھَوْنَ‘‘ اس کی خصوصیت ہیں۔ ’’ اُمَّـۃٌ‘‘ مؤنث غیر حقیقی ہے اس لیے مذکر کے صیغے بھی جائز ہیں اور اسم جمع ہے ‘ اس لیے جمع کے صیغے آئے ہیں۔ ’’ تَفَرَّقُوْا‘‘ فعل ماضی کا جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ ’’ جَائَ‘‘ کا فاعل ’’ اَلْاٰیٰتُ‘‘ محذوف ہے۔’’ اَلْـبَـیِّنٰتُ‘‘ اس کی صفت ہے اور مؤنث غیر حقیقی ہونے کی وجہ سے فعل ’’ جَائَ تْ‘‘ کے بجائے ’’ جَائَ‘‘ بھی درست ہے۔

نوٹ: ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں سے کچھ زیادہ وسیع النظر قسم کے افراد اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر فرض تو ہے لیکن یہ فرض کفایہ ہے‘ فرض عین نہیں ہے۔ لیکن علامہ ابن کثیر (رح)  نے یہ مطلب نہیں لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ یہ یاد رہے کہ ہر ہر متنفس پر تبلیغ حق فرض ہے ‘ تاہم ایک جماعت تو خاص اسی کام میں مشغول رہنی چاہیے۔ رسول اللہ
فرماتے ہیں: تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے اسے ہاتھ سے دفع کر دے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے۔ اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو اپنے دل سے اسے متغیر کرے۔ یہ ضعیف ترین ایمان ہے‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر)

 مفتی محمد شفیع (رح)  کا کہنا ہے کہ ’’ اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی ذمہ داری ہر مسلمان پر ڈالنے کے لیے قرآن کریم میں بہت سے واضح ارشادات وارد ہوئے ہیں‘‘۔ انہوں نے سورۃ العصر کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق خسارے سے صرف وہی انسان بچے گا جو ایمان اور عمل صالح کے ساتھ دوسروں کو حق اور صبر کی تاکید کرے گا۔ نیز آل عمران:110 کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں پوری امت پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے۔ (معارف القرآن)

 ہمارے لبرل بھائیوں کے ذہنوں میں اس ضمن میں اور بھی بہت سی الجھنیں ہیں۔ ان کا تسلی بخش جواب مفتی محمد شفیع (رح)  نے اس آیت کی تفسیر میں دیا ہے اور حق تو یہ ہے کہ حق ادا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان میں سے چند اہم نکات ہم اپنے الفاظ میں دے رہے ہیں۔

 (1) خیر کی تعریف خود رسول اللہ
نے بیان فرما دی ہے کہ خیر سے مراد قرآن اور میری سنت کا اتباع ہے۔ اسی طرح منکر میں وہ تمام برائیاں داخل ہیں جن کا آپ کی طرف سے ناجائز قرار دینا معلوم و معروف ہو۔

 (2) کسی شخص کو اگر قرآن و حدیث کے مطابق معروف اور منکر کا علم نہیں تو اس پر یہ علم حاصل کرنا فرض ہے‘ لیکن اس خدمت کے لیے کھڑا ہوناجائز نہیں ہے۔ اس لیے جاہل واعظین اور عوام سے سنی سنائی غلط باتوں پر لوگوں سے جھگڑا کرنا جائز نہیں۔

 (3) قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امت کے ہر فرد پر لازم ہے۔ البتہ ہر فرد پر اس کی استطاعت اور قدرت کے مطابق یہ فریضہ عائد ہو گا۔

 (4) ایک شخص جب تک متعلقہ علم حاصل کرنے کا فرض ادا نہیں کرتا‘ اس وقت تک یہ فریضہ اس کی استطاعت کے باہر ہے۔

 (5) ایک شخص کو ہاتھ سے یا زبان سے کسی برائی کو روکنے میں کوئی شدید خطرہ لاحق ہو تو یہ فریضہ اس کی قدرت سے باہر ہے ‘ اس لیے اس کے ترک کرنے پر اس کو گناہ نہیں ہو گا۔ البتہ اگر کوئی نقصان برداشت کر کے بھی یہ فریضہ سرانجام دیتا ہے تو یہ بڑی فضیلت کی بات ہے ‘ لیکن ایسا کرنا اس پر فرض یا واجب نہیں تھا۔

 (6) جو اُمور واجب ہیں ان میں معروف کا امر اور منکر سے نہی کرنا واجب ہے اور مستحب امور میں ایسا کرنا مستحب ہے‘ واجب نہیں ہے۔

 (7) روکنے ٹوکنے کا معاملہ صرف ان مسائل میں ہو گا جو امت میں مشہور و معروف اور سب کے نزدیک متفق علیہ ہیں۔ اجتہادی مسائل جن میں اصول شرعیہ کے ماتحت آراء ہو سکتی ہیں ان میں یہ روک ٹوک کا سلسلہ نہ ہونا چاہیے۔

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ  ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ        ١٠٥؁ۙ
[ وَلاَ تَـکُوْنُوْا : اور تم لوگ مت ہونا] [کَالَّذِیْنَ : ان کی مانند جو] [تَفَرَّقُوْا : پھٹ کر الگ الگ ہوئے] [وَاخْتَلَفُوْا : اور اختلاف کیا] [مِنْم بَعْدِ مَا: اس کے بعد کہ جو] [جَآئَ ہُمُ : آئیں ان کے پاس ] [الْبَـیِّنٰتُ : واضح (نشانیاں)] [ وَاُولٰٓئِکَ : اور یہ وہ لوگ ہیں] [لَہُمْ : جن کے لیے ] [عَذَابٌ عَظِیْمٌ : ایک عظیم عذاب ہے]

يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ  ۣاَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ    ١٠٦؁
[يَّوْمَ : جس دن ] [تَبْيَضُّ: سفید ہوں گے] [ وُجوه: سفید ہوں گے] [ٌ وَّتَسود: اور سیاہ ہوں گے] [ وُجوهٌ ۚ: کچھ چہرے] [ فَاَمَا الَّذِينَ: پس وہ لوگ جو ہیں] [ اسْوَدَّتْ: سیاہ ہوئے] [ وُجوھُھُمْ: جن کے چہرے] [ ۣاَكَفَرْتم: کہاجائے گا ان سے کیا تم نے کفر کیا] [ بَعْدَ اِيْمَانكُمْ: اپنے ایمان کے بعد] [ فَذُوْقُوا: اچھا تو پھر تم مزہ چکھو] [ الْعَذَابَ: عذاب کا] [ بِمَا: بسبب اس کے جو] [ كُنْتم تَكْفُرُوْنَ: تم لوگ کفر کیا کرتے تھے]

 

ذ و ق

 ذَاقَ (ن) ذَوْقًا : کسی چیز کا مزہ چکھنا۔ {فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِھِمْ} (التغابن:5) ’’ تو ان لوگوں نے چکھا اپنے کام کا وبال۔‘‘

 ذُقْ (فعل امر) : تو چکھ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ذَائِقٌ (اسم الفاعل) : چکھنے والا۔ {کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِقف} (العنکبوت:57) ’’ ہر ایک جان موت کو چکھنے والی ہے۔‘‘

 اَذَاقَ (افعال) اِذَاقَۃً : کسی کو مزہ چکھانا۔ {وَاِذَا اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً فَرِحُوْا بِھَاط} (الروم:36) ’’ اور جب کبھی ہم مزہ چکھاتے ہیں لوگوں کو کسی رحمت کا تو وہ لوگ خوش ہوتے ہیں اس سے۔‘‘

 ترکیب:’’ وُجُوْہٌ‘‘ غیر عاقل کی جمع مکسر ہے اس لیے افعال واحد مؤنث کے صیغوں میں

آئے ہیں۔ ’’ اَکَفَرْتُمْ‘‘ سے پہلے ’’ فَـیُـقَالُ لَھُمْ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ فِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ‘‘ کا مبتدأ ’’ ھُمْ‘‘ محذوف ہے اور اس کی خبر بھی محذوف ہے۔ ’’ مَا‘‘ کا اسم ’’ اَللّٰہُ‘‘ ہے اور اس کی خبر جملہ فعلیہ ’’ یُرِیْدُ ظُلْمًا‘‘ ہے اور یہ پورا جملہ محلاً منصوب ہے ‘ جبکہ ’’ ظُلْمًا‘‘ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ لِلّٰہِ‘‘ پر لامِ تملیک ہے۔

نوٹ: چہرے کا سفید یا سیاہ ہونا عربی محاورے ہیں۔ جیسے سرخ رُو ہونا اردو محاورہ ہے۔ اس میں چہرے کا سرخ ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کامیابی کے تأثرات کا چہرے پر نمایاں ہونا۔ اسی طرح عربی میں چہرے کے سفید یا سیاہ ہونے کا مطلب ہے کامیابی کے تأثرات اور ناکامی کے تأسف کا چہرے پر نمایاں ہونا۔

وَاَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِيْ رَحْمَةِ اللّٰهِ  ۭ ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ    ١٠٧؁
[وَاَمَّا الَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو ہیں ] [ابْـیَضَّتْ : سفید ہوئے ] [وُجُوہُہُمْ : جن کے چہرے ] [فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ : تو (وہ لوگ) اللہ کی رحمت میں ہوں گے] [ہُمْ : وہ لوگ ] [فِیْہَا : اس میں ] [خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں]

تِلْكَ اٰيٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْھَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ  ۭوَمَا اللّٰهُ يُرِيْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِيْنَ    ١٠٨؁
[تِلْکَ : یہ ] [اٰیٰتُ اللّٰہِ : اللہ کی آیتیں ہیں ] [نَتْلُوْہَا : ہم پڑھ کر سناتے ہیں انہیں] [عَلَیْکَ : آپؐ ‘ کو ] [بِالْحَقِّ : حق سے ] [وَمَا اللّٰہُ : اور نہیں اللہ ] [یُرِیْدُ : ارادہ کرتا ] [ظُلْمًا : کسی ظلم کا ] [لِّلْعٰلَمِیْنَ : تمام جہانوں کے لیے

وَلِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ     ١٠٩؁ۧ
[وَلِلّٰہِ : اور اللہ کا ہی ہے ] [مَا : وہ (سب) جو] [فِی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہے ] [وَمَا : اور وہ (سب) جو

فِی الْاَرْضِ : زمین میں ہے ] [وَاِلَی اللّٰہِ : اور اللہ کی طرف ہی ] [تُرْجَعُ : لوٹائے جائیں گے] [الْاُمُوْرُ: تمام کام]

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ ۭمِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ     ١١٠؁
[کُنْتُمْ : تم لوگ ] [خَیْرَ اُمَّۃٍ : ایک ایسی بہترین امت ہو جو] [اُخْرِجَتْ : نکالی گئی ] [لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے ] [تَاْمُرُوْنَ : تم لوگ تلقین کرتے ہو] [بِالْمَعْرُوْفِ : نیکی کی ] [وَتَنْہَوْنَ : اور منع کرتے ہو ] [عَنِ الْمُنْکَرِ : برائی سے ] [وَتُؤْمِنُوْنَ : اور تم لوگ ایمان لاتے ہو ] [بِاللّٰہِِ : اللہ پر ] [وَلَـوْ : اور اگر ] [اٰمَنَ : ایمان لاتے ] [اَہْلُ الْکِتٰبِ : اہل کتاب ] [لَـکَانَ خَیْرًا : تو یقینا بہتر ہوتا] [لَّــہُمْ ط : ان کے لیے ] [مِنْہُمُ : ان میں سے

الْمُؤْمِنُوْنَ: ایمان لانے والے (بھی) ہیں] [وَ : اور (یعنی جبکہ) ]
اکْثَرُہُمُ : ان کی اکثریت] [الْفٰسِقُوْنَ : نافرمانی کرنے والی (ہی) ہے]

 

د ب ر

دَبَرَ (ن) دَبْرًا : کسی چیز کا اپنے اختتام کو پہنچنا‘ پیچھے تک‘ آخر تک یا انجام تک پہنچنا۔

دَابِرٌ (اسم الفاعل) : آخر تک پہنچنے والا ۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ قرآن مجید میں یہ لفظ کسی چیز کی جڑ کے لیے آیا ہے :{فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاط} (الانعام:45) ’’ تو کاٹی گئی اس قوم کی جڑ جنہوں نے ظلم کیا۔‘‘

دُبُرٌ ج اَدْبَارٌ : کسی چیز کا پچھلا یا آخری حصہ‘ پیٹھ‘ آخر۔ {وَقَدَّتْ قَمِیْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ} (یوسف:25) ’’ اور اس عورت نے پھاڑا اس کی قمیص کو پیچھے سے۔‘‘{وَمِنَ الَّــیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ ۔ } (قٓ) ’’ اور رات کے اوقات میں تسبیح کر اس کی اور سجدوں کے آخر میں۔‘‘

اَدْبَرَ (افعال) اِدْبَارًا : کسی طرف پیٹھ کرنا‘ اعراض کرنا۔ {تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰی ۔ } (المعارج) ’’ بلائے گی اس کو جس نے اعراض کیا اور منہ پھیرا۔‘‘

 مُدْبِرٌ (اسم الفاعل) : پیٹھ پھیرنے والا‘ اعراض کرنے والا۔ {ثُمَّ وَلَّـیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ ۔ } (التوبۃ) ’’ پھر تم لوگ بھاگے پیٹھ دینے والا ہوتے ہوئے۔‘‘

 دَبَّرَ (تفعیل) تَدْبِیْرًا : کسی کو اس کے آخر یا انجام تک پہنچانا‘ کسی کام کی تدبیر کرنا۔{یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَائِ اِلَی الْاَرْضِ} (السجدۃ:5) ’’ وہ انجام تک پہنچاتا ہے تمام کام کو آسمان سے زمین کی طرف۔‘‘

 مُدَبِّرٌ (اسم الفاعل) : تدبیر کرنے والا۔ {فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا } (النّٰـزعٰت) ’’ پھر کسی کام کی تدبیر کرنے والیاں۔‘‘

 تَدَبَّرَ (تفعّل) تَدَبُّرًا : کسی کے آخر یا انجام تک پہنچنے کی کوشش کرنا‘ غور و فکر کرنا۔ {اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَط} (النسائ:82) ’’ تو کیا یہ لوگ غور و فکر نہیں کرتے قرآن میں؟‘‘

 ترکیب:’’ کُنْتُمْ‘‘ کا اسم اس میں ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ خَیْرَ اُمَّۃٍ‘‘ اس کی خبر ہے ‘ اس لیے ’’ خَیْرَ‘‘ منصوب ہے۔ ’’ اُمَّۃٍ‘‘ نکرہ مخصوصہ ہے۔ ’’ اُخْرِجَتْ‘‘ سے ’’ تُـؤْمِنُوْنَ‘‘ تک اس کی خصوصیات ہیں۔’’ اَلْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ مبتدأ مؤخر ہے‘ اس کی خبر ’’ مَوْجُوْدُوْنَ‘‘ محذوف ہے اور ’’ مِنْھُمْ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ اَکْثَرُھُمْ‘‘ مبتدأ ہے اور ’’ اَلْفٰسِقُوْنَ‘‘ خبر معرفہ ہے‘ اس کی ضمیر فاصل ’’ ھُمْ‘‘ محذوف ہے۔

لَنْ يَّضُرُّوْكُمْ اِلَّآ اَذًى ۭ وَاِنْ يُّقَاتِلُوْكُمْ يُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَارَ   ۣ ثُمَّ  لَا يُنْصَرُوْنَ     ١١١؁
[لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ : ہرگز نقصان نہیں پہنچائیں گے تم لوگوں کو] [اِلاَّ : مگر] [اَذًی : کچھ اذیت ] [وَاِنْ : اور اگر

یُّـقَاتِلُوْکُمْ : وہ لوگ جنگ کریں گے تم سے] [یُوَلُّــوْکُمُ : تو وہ پھیریں گے تمہاری طرف] [الْاَدْبَارَ : پیٹھوں کو] [ثُمَّ : پھر] [لاَ یُنْصَرُوْنَ: ان کی مدد نہیں کی جائے گی]

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ اَيْنَ مَا ثُـقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ  ۭذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ      ١١٢؁ۤ
[ضُرِبَتْ: تھوپی گئی] [عَلَیْہِمُ : ان پر] [ الذِّلَّــۃُ : ذلت ] [اَیْنَ مَا : جہاں کہیں ] [ثُقِفُوْآ : وہ لوگ پائے جائیں] [اِلاَّ : سوائے اس کے کہ ] [بِحَبْلٍ : کسی معاہدے سے ] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے] [وَحَبْلٍ : اور کسی معاہدے سے ] [مِّنَ النَّاسِ : لوگوں (کی طرف) سے] [وَبَآئُ وْ : اور وہ لوٹے] [بِغَضَبٍ : ایک غضب کے ساتھ] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ کی طرف سے ] [وَضُرِبَتْ : اور تھوپی گئی ] [عَلَیْہِمُ : ان پر ] [الْمَسْکَنَۃُط : محتاجی] [ذٰلِکَ : یہ ] [بِاَنَّہُمْ : اس وجہ سے کہ وہ لوگ ] [کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ: انکار کیا کرتے تھے] [بِاٰیٰتِ اللّٰہِ : اللہ کی نشانیوں کا] [وَیَـقْـتُلُوْنَ : اور قتل کرتے تھے] [الْاَنْبِیَـآئَ : نبیوں کو] [بِغَیْرِ حَقٍّ : کسی حق کے بغیر] [ذٰلِکَ : یہ ] [بِمَا : اس وجہ سے جو ] [عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی] [وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ: اور حد سے تجاوز کرتے تھے]

 

ء ن ی

 اَنَی (ض) اِنًی : (1) کسی چیز کا وقت قریب آنا۔ (2) کسی چیز کا انتہا کو پہنچ جانا۔ {اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا} (الحدید:16) ’’ کیا وقت نہیں آیا ان کے لیے جو ایمان لائے؟‘‘

 اٰنٍ (مؤنث اٰنِیَۃٍ ) : فَاعِلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ (1) قریب ہونے والا یعنی قریبی۔ (2) انتہا کو پہنچنے والا یعنی انتہائی۔ {یَطُوْفُوْنَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ ۔ } (الرحمٰن) ’’ وہ لوگ طواف کریں گے اس کے اور انتہائی گرم پانی کے مابین۔‘‘

 اَنًی ج اٰنَائٌ : وقت کا کچھ حصہ۔ آیت زیر مطالعہ

 ترکیب : ’’ لَـیْسُوْا‘‘ کا اسم اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ سَوَائً‘‘ اس کی خبر ہے۔’’ یَتْلُوْنَ‘‘ کا مفعول ہونے کی وجہ سے ’’ اٰیٰتِ اللّٰہِ‘‘ منصوب ہے ‘ جبکہ ’’ اٰنَائَ الَّــیْلِ‘‘ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ اَللَّیْل‘‘ کو ایک لام سے لکھنا قرآن کا مخصوص املاء ہے۔

لَيْسُوْا سَوَاۗءً  ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ     ١١٣؁
[لَـیْسُوْا : وہ لوگ نہیں ہیں ] [سَوَآئً : برابر] [مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ : اہل کتاب میں سے] [اُمَّـۃٌ : ایک گروہ ہے جو ] [قَـآئِمَۃٌ : قائم ہے (دین پر) ] [یَّـتْـلُوْنَ : وہ لوگ پڑھتے ہیں] [اٰیٰتِ اللّٰہِ : اللہ کی آیتوں کو] [اٰنَــآئَ الَّــیْلِ : رات کے وقتوں میں] [وَہُمْ : اور وہ لوگ ] [یَسْجُدُوْنَ : سجدہ کرتے ہیں]

 

نوٹ: یہ مضمون البقرۃ:61 میں بھی گزر چکا ہے‘ لیکن وہاں ذلت اور مسکنت تھوپنے میں ہمیشگی کا مفہوم نہیں تھا۔ آیت زیر مطالعہ میں {اَیْنَ مَا ثُقِفُوْا}کے الفاظ سے ہمیشگی کا مفہوم پیدا ہوا ہے ‘ اس لیے استثناء کا بھی یہیں ذکر کیا گیا ہے۔

 معاہدہ بھی عربی لفظ ہے اور اس کے فعل کے مختلف صیغے قرآن مجید میں استعمال بھی ہوئے ہیں۔ لیکن آیت زیر مطالعہ میں لفظ معاہدہ کے بجائے استعارے کے طور پر ’’ حبل‘‘ کا لفظ لانے سے اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ اب ان میں ایسی دعائیں بھی شامل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قبول کر لیتا ہے۔ جیسے ابلیس نے اس وقت دعا مانگی تھی جب اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرما رہا تھا کہ تو مجھے قیامت تک کے لیے مہلت دے دے (الاعراف:14) اور اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ دعا قبول کر لی۔ یہ بھی ’’ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّٰہِ ‘‘ کی ایک صورت ہے۔ ان میں اللہ تعالیٰ کی ایسی سنتیں بھی شامل ہیں جو تبدیل نہیں ہوتیں (الاحزاب:62) ۔ جیسے یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو اپنے عمل کا بدلہ دنیا میں چاہتا ہے اسے اللہ دنیا میں جتنا مناسب سمجھتا ہے دے دیتا ہے (آل عمران:145) ۔ یہ بھی ’’ بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ‘‘ کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ اسی طرح سے ’’ بِحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ‘‘ کی بھی متعدد صورتیں ہیں۔ جیسے کسی اسلامی حکومت میں جزیہ دے کر امن اور سکون سے رہنا۔ کسی غیر مسلم قوم یا حکومت کا تعاون اور مدد حاصل کر لینا۔ آج کے دور میں اسرائیل کی حکومت اس کی بہت واضح مثال ہے جو امریکہ کی پشت پناہی پر قائم ہے۔

 آیت زیر مطالعہ کا مضمون اور اس کا سیاق و سباق بہت واضح طور پر بتا رہا ہے کہ یہاں مسکنت کا مطلب مال و دولت کی محتاجی نہیں ہے ‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ذلت و خواری سے بچنے کے لیے دوسروں کے محتاج رہیں گے۔

 اس پس منظر میں ذلت و خواری اور دوسروں کی محتاجی میں ہمیشگی کا مفہوم سمجھ لیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنو اسرائیل (یہودیوں) کا اصل مقدر تو ذلت و خواری ہی ہے۔ البتہ کبھی کبھی وقتی طور پر اور جزوی طور پر سانس لینے کا کچھ وقفہ مل جاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ وقفہ بھی یہ لوگ اپنے بل بوتے پر کبھی حاصل نہ کرسکے ‘ بلکہ اس کے لیے یہ لوگ ہمیشہ دوسروں کے محتاج رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ان کے عذاب استیصال تک جاری رہے گا۔

 یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب کوئی قوم اپنے رسول کا انکار کر دیتی ہے تو پھر اس پر عذاب استیصال نازل ہوتا ہے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ بنو اسرائیل اپنے آخری رسول حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا انکار کر کے اس‘ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔ ان کا یہ عذاب عیسیٰ ( علیہ السلام) ہی کے ذریعے آئے گا اور وہی اللہ کے حکم سے ان کو صفحۂ ہستی سے نابود کر دیں گے۔

يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ     ١١٤؁
[یُؤْمِنُوْنَ : وہ لوگ ایمان لاتے ہیں] [بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [وَالْـیَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخری دن پر] [وَیَاْمُرُوْنَ : اور تلقین کرتے ہیں] [بِالْمَعْرُوْفِ : نیکی کی ] [وَیَنْہَوْنَ : اور منع کرتے ہیں] [عَنِ الْمُنْکَرِ : برائی سے ] [وَیُسَارِعُوْنَ : اور وہ لوگ باہم سبقت کرتے ہیں] [فِی الْْخَیْرٰتِ: بھلائیوں میں] [ وَاُولٰٓئِکَ : اور وہ لوگ ] [مِنَ الصّٰلِحِیْنَ : نیکوں میں سے ہیں]

 

ترکیب :’’ یُؤْمِنُوْنَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو گزشتہ آیت میں ’’ اُمَّـۃٌ‘‘ کے لیے ہے‘ کیونکہ یہ اسم جمع ہے۔ ’’ مَا‘‘ شرطیہ ہے اس لیے ’’ یَفْعَلُوْا‘‘ مجزوم ہوا ہے۔ ’’ یُکْفَرُوْا‘‘ ثلاثی مجرد کا مجہول ہے۔ اس کا نائب فاعل اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے۔ ’’ ہُ‘‘ کی ضمیر مفعول ثانی ہے جو’’ خَیْرٍ‘‘ کے لیے ہے۔

وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُّكْفَرُوْهُ  ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالْمُتَّقِيْنَ     ١١٥؁
[وَمَا : اور جو (بھی)] [یَـفْعَلُوْا : وہ لوگ کریں گے] [مِنْ خَیْرٍ : کسی قسم کی کوئی بھلائی] [فَلَنْ یُّــکْفَرُوْہُ: تو ان سے ہرگز ناقدری نہیں کی جائے گی اس کی ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ] [بِالْمُتَّقِیْنَ : تقویٰ اختیار کرنے والوں کو]

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِىَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآ اَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَـيْــــًٔـا  ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ       ١١٦؁
[اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک جنہوں نے] [کَفَرُوْا : کفر کیا] [لَنْ تُغْنِیَ : ہرگز کام نہ آئیں گے] [عَنْہُمْ : ان کے] [اَمْوَالُہُمْ : ان کے مال] [وَلاَ اَوْلَآٓدُہُمْ : اور نہ ان کی اولاد] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ سے (بچنے میں) ] [شَیْئًا : ذرا بھی] [وَاُولٰٓئِکَ : اور وہ لوگ ] [اَصْحٰبُ النَّارِ: آگ والے ہیں] [ہُمْ : وہ لوگ] [فِیْہَا : اس میں ہی] [خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں]

مَثَلُ مَا يُنْفِقُوْنَ فِيْ ھٰذِهِ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيْحٍ فِيْھَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَاَھْلَكَتْهُ  ۭوَمَا ظَلَمَھُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ    ١١٧؁
[مَثَلُ مَا : اس کی مثال جو] [یُنْفِقُوْنَ : وہ لوگ خرچ کرتے ہیں] [فِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا: اس دنیوی ] [زندگی میں] [کَمَثَلِ رِیْحٍ : ایک ایسی ہوا کی مثال کی مانند ہے ] [فِیْہَا : جس میں ] [صِرٌّ : کچھ پالا ہے ] [اَصَابَتْ : وہ آن لگی ] [حَرْثَ قَوْمٍ : ایک ایسی قوم کی کھیتی کو] [ظَلَمُوْآ : جنہوں نے ظلم کیا ] [اَنْفُسَہُمْ : اپنے آپ پر ] [فَاَہْـلَـکَتْہُ : پھر اس نے ہلاک کیا اس کو ] [وَمَا ظَلَمَہُمُ : اور ظلم نہیں کیا ان پر ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [وَلٰــکِنْ : اور لیکن (یعنی بلکہ) ] [اَنْفُسَہُمْ : اپنے آپ پر ] [یَظْلِمُوْنَ: وہ لوگ (خود ہی) ظلم کرتے ہیں]

 

ص ر ر

صَرَّ (ن) صَرًّا : کسی چیز کو تھیلی میں باندھنا۔

صَرَّ (ض) صَرَرًا : زور سے بولنا۔

صَرَّۃٌ : چیخ‘ تیز آواز۔{فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِیْ صَرَّۃٍ} (الذٰریٰت:29) ’’ تو سامنے آئیں ان کی بیوی تیز آواز میں‘‘ یعنی زور سے بولتی ہوئی۔

صِرٌّ : ٹھنڈک‘ پالا‘ آیت زیر مطالعہ۔

اَصَرَّ (افعال) اِصْرَارًا : اپنی بات پر جمے رہنا‘ اَڑنا‘ اصرار کرنا۔ {وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا} (آل عمران:135) ’’ اور وہ لوگ اَڑتے نہیں اس پر جو انہوں نے کیا۔‘‘

خ ب ل

 خَبَلَ (ن) خَبْلاً : دماغ خراب کرنا‘ عقل کو بگاڑنا‘ مَت مار دینا۔

 خَبَالٌ : عقلی فساد‘ ذہنی پراگندگی۔ آیت زیر مطالعہ۔

ف و ھـ

 فَاہَ (ن) فَوْھًا : بولنا‘ بات کرنا۔

 فَــوٌ (اسم ذات) : منہ‘ یہ جب مضاف ہوتا ہے تو رفع میں ’’ فُوْ‘‘ نصب میں ’’ فَا‘‘ اور جر میں ’’ فِیْ‘‘ آتا ہے۔ اس کی جمع ’’ اَفْوَاہٌ‘‘ ہے۔ {کَبَاسِطِ کَفَّـیْہِ اِلَی الْمَائِ لِیَـبْلُغَ فَاہُ وَمَا ھُوَ بِبَالِغِہٖط} (الرعد:14) ’’ اپنی دونوں ہتھیلیوں کو پھیلانے والے کی مانند‘ پانی کی طرف تاکہ وہ پہنچے اس کے منہ کو‘ حالانکہ وہ پہنچنے والا نہیں ہے اس کو۔‘‘

ب غ ض

 بَغَضَ (ن) و بَغِضَ (س) بَغَاضَۃً : کسی مکروہ چیز سے دل کا متنفر ہونا۔

 بَغْضَائُ (ج) بُغْضٌ : افعل الوان و عیوب کا وزن ہے۔ نفرت‘ کراہیت‘ آیت زیر مطالعہ۔

 ترکیب:’’ مَثَلُ‘‘ کا مضاف الیہ ’’ مَا‘‘ ہے۔ ’’ اَصَابَتْ‘‘ کا فاعل ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ رِیْحٍ‘‘ کے لیے ہے اور ’’ حَرْثَ قَوْمٍ‘‘ اس کا مفعول ہے۔ ’’ اَھْلَکَتْہُ‘‘ کا فاعل ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ رِیْحٍ‘‘ کے لیے ہے اور اس کی ضمیر مفعولی ’’ ہُ‘‘’’ حَرْثَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ لَا یَاْلُـوْنَ‘‘ کا فاعل ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مِنْ دُوْنِکُمْ‘‘ کے لیے ہے۔ اس کا مفعول ’’ کُمْ‘‘ ہے اور ’’ خَبَالًا‘‘ تمیز ہے۔ ’’ وَدُّوْا‘‘ کا مفعول ’’ مَا‘‘ ہے۔ ’’ بَدَتْ‘‘ کا فاعل ’’ اَلْبَغْضَائُ‘‘ ہے ‘ اور یہ مؤنث ہے اس لیے فعل مؤنث آیا ہے ۔ ’’ تُخْفِیْ‘‘ کا فاعل ’’ صُدُوْرُ‘‘ ہے ‘ اور یہ غیر عاقل کی جمع مکسر ہے اس لیے فعل مؤنث آیا ہے۔

نوٹ : حضرت عمر (رض) سے کہا گیا کہ یہاں پر ایک (غیر مسلم) شخص بڑا اچھا لکھنے والا اور بہت اچھے حافظے والا ہے‘ آپ (رض)  اسے اپنا منشی مقرر کر لیں۔ آپ (رض)  نے فرمایا : پھر تو میں غیر مومن کو بطانہ بنا لوں گا جو اللہ نے منع کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)

 بعد میں مسلمانوں نے اس اصول کو ترک کر دیا۔ امام قرطبی (رح)  پانچویں صدی ہجری کے عالم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ حالات میں ایسا انقلاب آیا کہ یہود و نصاریٰ کو رازدار اور امین بنا لیا گیا اور اس ذریعہ سے وہ جاہل اغنیاء و امراء پر مسلط ہو گئے‘‘۔ چنانچہ اسلامی مملکتوں اور خلافت ِ عثمانیہ کے زوال کے اسباب میں ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ مسلمانوں نے اپنے امور کارازدار ومعتمد غیر مسلموں کو بنا لیا تھا (یعنی وہ لوگ حساس عہدوں پر فائز تھے) ۔ اس کے برعکس روس اور چین میں کسی ایسے شخص کو جو کمیونزم پر ایمان نہ رکھتاہو‘ کسی ذمہ دار عہدہ پر فائز نہیں کیا جاتا۔ (معارف القرآن)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا  ۭ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاۗءُ مِنْ اَفْوَاهِھِمْ ښ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُھُمْ اَكْبَرُ  ۭ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ    ١١٨؁
[يٰٓاَيُّھَا الَّذِیْنَ : اے لوگو! جو] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [لاَ تَـتَّخِذُوْا : تم لوگ مت بنائو] [بِطَانَۃً : کوئی دل کا بھیدی] [مِّنْ دُوْنِکُمْ : اپنوں کے سوا] [لاَ یَاْلُوْنَـکُمْ : وہ لوگ کوتاہی نہیں کریں گے تم سے] [خَبَالاً : بلحاظ ذہنی خلفشار کے] [وَدُّوْا : انہوں نے چاہا ] [مَا : اس کو جو] [عَنِتُّمْ : مشکل میں ڈالے تم کو] [قَدْ بَدَتِ : ظاہر ہو چکی ہے ] [الْـبَـغْضَآئُ : نفرت] [مِنْ اَفْوَاہِہِمْ : ان کے مونہوں سے] [وَمَا : اور وہ‘ جو] [تُخْفِیْ : چھپاتے ہیں] [صُدُوْرُہُمْ : ان کے سینے] [اَکْبَرُ : زیادہ بڑا ہے] [قَدْ بَـیَّـنَّا : ہم نے واضح کردیا ہے ] [لَـکُمُ : تمہارے لیے] [الْاٰیٰتِ: آیتوں کو] [اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ] [تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لیتے ہو]

ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّھٖ ۚوَاِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا ۑ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ     ١١٩؁
[ھٰٓانتم : سنو! تم لوگ] [اُولَآئِ : یہ ہو (کہ) ] [تُحِبُّـوْنَـہُمْ : تم لوگ محبت کرتے ہو ان سے ] [وَلاَ یُحِبُّوْنَـکُمْ : اور وہ لوگ محبت نہیں کرتے تم سے] [وَ: حالانکہ] [َتُؤْمِنُوْنَ : تم لوگ ایمان رکھتے ہو] [بِالْکِتٰبِ : تمام (آسمانی) کتابوں پر] [کُلِّہٖ : ان کے کل پر ] [وَاِذَا : اور جب بھی ] [لَقُوْکُمْ : وہ سامنے آتے ہیں تمہارے] [قَالُوْآ : تو کہتے ہیں] [اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے ] [وَاِذَا : اور جب کبھی ] [خَلَوْا : وہ تنہا ہوتے ہیں] [عَضُّوْا : تو چباتے ہیں] [عَلَیْکُمُ : تم پر] [الْاَنَامِلَ : انگلیوں کے سروں کو] [مِنَ الْغَیْظِ : شدید غصے سے] [قُلْ : کہو] [مُوْتُوْا : تم لوگ مرو] [بِغَیْظِکُمْ : اپنے غیظ کے سبب سے] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ] [عَلِیْمٌم : جاننے والا ہے ] [بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں والی (بات) کو]

 

ع ض ض

 عَضَّ (س) عَضًّا : کسی چیز کو دانت سے چبانا۔ آیت زیر مطالعہ۔

ن م ل

 نَمَلَ (ن) نَمْلاً : چغلی کھانا۔

 نَمْلٌ (اسم جنس) واحد نَمْلَۃٌ ج نِمَالٌ : چیونٹی ۔ {قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰـاَیــُّـھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَـکُمْ ج} (النمل:18) ’’ کہا ایک چیونٹی نے اے چیونٹیو! تم لوگ داخل ہو اپنے ٹھکانوں میں۔‘‘

 اَنْمِلَۃٌ ج اَنَامِلُ : انگلی کا سرا۔ آیت زیر مطالعہ۔

غ ی ظ

 غَاظَ (ض) غَیْظًا : سخت غصہ دلانا‘ خون کھولا دینا۔ {لـِیَـغِیْظَ بِھِمُ الْـکُفَّارَط} (الفتح:29) ’’ تاکہ وہ خون کھولائے ان سے کافروں کا۔‘‘

 غَائِظٌ (اسم الفاعل) : غصہ دلانے والا ۔ {وَاِنَّھُمْ لَـنَا لَغَـآئِظُوْنَ ۔ } (الشعرائ) ’’ اور یقینا وہ سب ہم لوگوں کا خون کھولانے والے ہیں۔‘‘

 غَیْضٌ (اسم ذات) : شدید غصہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 تَغَیَّظَ (تفعّل) تَغَیُّظًا : سخت غصہ ہونا‘ غصے سے کھولنا۔ {سَمِعُوْا لَھَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا ۔ } (الفرقان) ’’ وہ لوگ سنیں گے اس کو غصے سے کھولتے ہوئے اور چنگھاڑتے ہوئے۔‘‘

ف ر ح

 فَرِحَ (س) فَرْحًا: (1) بہت خوش ہونا۔ (2) خوشی سے پھٹ پڑنا۔ {وَیَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ } (الروم) ’’ اور اس دن بہت خوش ہوں گے ایمان لانے والے۔‘‘{وَاِذَا اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً فَرِحُوْا بِھَاط} (الروم:36) ’’ اور جب بھی ہم مزا چکھاتے ہیں لوگوں کو کسی رحمت کا تو وہ لوگ اِتراتے ہیں اس پر۔‘‘

 فَرِحٌ (اسم صفت) : بہت خوش ہونے والا‘ اِترانے والا۔ {اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ ۔ } (القصص) ’’ بے شک اللہ پسند نہیں کرتا اِترانے والوں کو۔‘‘

ک ی د

 کَادَ (ض) کَیْدًا : خفیہ تدبیر کرنا‘ چالبازی کرنا۔ {کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَط} (یوسف:76) ’’ اس طرح ہم نے خفیہ تدبیر کی یوسفؑ کے لیے۔‘‘

 کَیْدٌ (اسم ذات) : خفیہ تدبیر‘ دائو۔ آیت زیر مطالعہ۔

 کِدْ (فعل امر) : تو خفیہ تدبیر کر‘ تو چالبازی کر۔ {فَـکِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ ۔ } (ھود) ’’ پس تم لوگ چالبازی کرو مجھ سے پھر تم مہلت نہ دو مجھے۔‘‘

 مَکِیْدٌ (اسم الظرف) : خفیہ تدبیر یا چالبازی کی جگہ یعنی اس کا نشانہ۔ {فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھُمُ الْمَکِیْدُوْنَ ۔ } (الطور) ’’ تو جن لوگوں نے کفر کیا وہی چالبازی کا نشانہ ہیں۔‘‘

 ترکیب : ’’ بِالْکِتٰبِ‘‘ پر لام جنس ہے جو تمام آسمانی کتابوں کے لیے ہے۔ ’’ کُلِّہٖ‘‘ تاکید کے لیے اس کا بدل آیا ہے‘ اس لیے ’’ کُلِّ‘‘ مجرور ہے اور لفظی رعایت سے ضمیر واحد آئی ہے۔ ’’ یَفْرَحُوْا‘‘ جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔’’ لَا یَضُرُّ‘‘ پر لائے نفی ہے۔ البتہ جواب شرط ہونے کی وجہ سے ’’ یَضُرُّ‘‘ مجزوم ہے۔ اس کو ادغام کے بغیر ’’ یَضْرُرْ‘‘ لکھنا بھی درست ہے اور ادغام کر کے ’’ یَضُرُّ‘‘۔ ’’ یَضُرَّ‘‘ اور ’’ یَضُّرِّ‘‘ تینوں طرح لکھنا بھی درست ہے۔ ’’ کَیْدُھُمْ‘‘ اس کا فاعل ہے اور ’’ شَیْئًا‘‘ مفعول مطلق ہے۔

اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَـسُؤْھُمْ ۡ وَاِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَّفْرَحُوْا بِھَا ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا  ۭاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ    ١٢٠؁ۧ
[اِنْ : اور اگر ] [تَمْسَسْکُمْ : پہنچتی ہے تم کو] [حَسَنَۃٌ : کوئی بھلائی ] [تَسُؤْہُمْ : تو وہ بری لگتی ہے ان کو

وَاِنْ : اور اگر ] [تُصِبْکُمْ : آن لگتی ہے تم کو] [سَیِّـئَۃٌ : کوئی برائی ] [یَّـفْرَحُوْا : تو وہ لوگ بہت خوش ہوتے ہیں] [بِھَا : اس سے ] [وَاِنْ : اور اگر ] [تَصْبِرُوْا : تم لوگ ثابت قدم رہو ] [وَتَتَّقُوْا : اور تقویٰ اختیار کرو] [لاَ یَضُرُّکُمْ : تو نقصان نہیں دے گی تم کو] [کَیْدُہُمْ : ان کی چالبازی] [شَیْئًا : ذرا بھی] [ اِنَّ اللّٰہَ: بےشک اللہ

 بِمَا : اس کا جو] [ یَعْمَلُوْنَ : یہ لوگ کرتے ہیں] [مُحِیْطٌ : احاطہ کرنے والا ہے]

وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ  ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ      ١٢١؁ۙ
[ وَاِذْ : اور جب ] [غَدَوْتَ : آپؐ نکلے صبح کے وقت] [مِنْ اَہْلِکَ : اپنے گھر والوں سے ] [تُبَـوِّیُٔ : (اور جب) آپؐ ٹھکانہ دیتے تھے] [الْمُؤْمِنِیْنَ : مؤمنوں کو] [مَقَاعِدَ : بیٹھنے کی جگہوں میں] [لِلْقِتَالِ : جنگ کے لیے ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [سَمِیْعٌ : سننے والا ہے ] [عَلِیْمٌ: جاننے والا ہے ]

 

 غ د و

 غَدَا (ن) غُدُوًّا : صبح سویرے نکلنا‘ سویرے پہنچنا۔ (آیت زیر مطالعہ)

 اُغْدُ (فعل امر) : تو سویرے نکل۔ {اَنِ اغْدُوْا عَلٰی حَرْثِکُمْ} (القلم:22) ’’ کہ تم لوگ صبح سویرے پہنچو اپنی کھیتی پر۔‘‘

 غَدَاۃٌج غُدُوٌّ : صبح سویرے کا وقت۔ {الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ}(الکہف:28) ’’ وہ لوگ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح کو اور شام کو۔‘‘{یُسَبِّحُ لَـہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ۔ } (النور) ’’ وہ لوگ تسبیح کرتے ہیں اس کی اس میں صبحوں اور شاموں کو۔‘‘

 غَـدٌ : آنے والی صبح یا دن (1) آنے والا کل (2) آنے والا قیامت کا دن۔ {وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ۔ اِلاَّ اَنْ یَّشَائَ اللّٰہُز} (الکہف) ’’ تم ہرگز مت کہنا کسی چیز کے لیے کہ مَیں کرنے والا ہوں اسے کل‘ سوائے اس کے کہ اگر چاہا اللہ نے۔‘‘{وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج} (الحشر:18) ’’ اور چاہیے کہ دیکھے ہر جان اس کو جو اس نے آگے بھیجا قیامت کے دن کے لیے۔‘‘

 غَدِیَ (س) غَدًا و غَدَائً : صبح کا ناشتہ کرنا یا دوپہر کا کھانا کھانا۔

 غَدَائٌ (اسم ذات) : صبح کا ناشتہ یا دوپہر کا کھانا ۔ {قَالَ لِفَتٰـٹہُ اٰتِنَا غَدَائَ نَاز} (الکہف:62) ’’ انہوں نے کہا اپنے خادم سے تو دے ہم کو ہمارا ناشتہ۔‘‘

ھـ م م

 ھَمَّ (ن) ھَمًّا : پختہ ارادہ کرنا‘ ہمت کرنا۔ (آیت زیر مطالعہ)

 اَھَمَّ (افعال) اِھْمَامًا : بےچین کرنا۔ {وَطَائِفَۃٌ قَدْ اَھَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ} (آل عمران:154) ’’ اور ایک جماعت ہے‘ بےچین کیا ہے جن کو ان کی جانوں نے۔‘‘

ف ش ل

 فَشِلَ (س) فَشَلًا : بزدلی دکھانا‘ ہمت ہارنا۔

و ک ل

 وَکَلَ (ض) وَکْلًا : اپنا کام کسی کے سپرد کرنا‘ سونپنا۔

 وَکِیْلٌ (فَعِیْلٌ کا وزن ہے اسم المفعول کے معنی میں) : سپرد کیا ہوا‘ سونپا ہوا یعنی نگہبان‘ کارساز۔ {وَمَا اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِوَکِیْلٍ ۔ } (الانعام) ’’ اور آپؐ ان کے نگہبان نہیں ہیں۔‘‘{وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ ۔ } (الانعام) ’’ اور وہ ہر چیز کا کارسازہے۔‘‘

 وَکَّلَ (تفعیل) تَوْکِیْلًا : کسی کو نگہبان مقرر کرنا۔ {یَتَوَفّٰـٹکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ} (السجدۃ:11) ’’ موت دیتا ہے تم لوگوں کو موت کا فرشتہ جس کو نگہبان مقرر کیا گیا تمہارا۔‘‘

 تَوَکَّلَ (تفعل) تَوَکُّلًا : قرآن مجید میں ’’ عَلٰی‘‘ کے صلے کے ساتھ آیا ہے جس کے معنی ہیں کسی پر بھروسہ کرنا۔{اِنِّیْ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ} (ھود:56) ’’ بے شک میں بھروسہ کرتا ہوں اللہ پر۔‘‘

 مُتَوَکِّلٌ (اسم فاعل) : بھروسہ کرنے والا ۔ {اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ۔ } (آل عمران) ’’ بے شک اللہ پسند کرتا ہے بھروسہ کرنے والوں کو۔‘‘

 ترکیب : ’’ غَدَوْتَ‘‘ اور ’’ تُبَوِّئُ‘‘ کا فاعل ان میں ’’ تَ‘‘ اور’’ اَنْتَ‘‘ کی ضمائرہیں جو رسول اللہ
کے لیے ہیں۔ ’’ تُبَوِّئُ‘‘ سے پہلے ’’ وَاِذْ‘‘ محذوف ہے اور اس کا مفعولِ اوّل’’ اَلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ ہے اور ’’ مَقَاعِدَ‘‘ مفعولِ ثانی ہے۔ ’’ اَنْ‘‘ کی وجہ سے ’’ تَفْشَلَانِ‘‘ کا نون گرا ہوا ہے۔

نوٹ : یہاں سے اب جنگ احد پر تبصرہ شروع ہو رہا ہے۔ اور یہاں جن دو گروہوں کی طرف اشارہ ہے وہ قبیلۂ خزرج کے بنوسلمہ اور قبیلہ ٔ اوس کے بنوحارثہ ہیں۔ منافقوں کی شرارت کی وجہ سے ان میں کچھ کم ہمتی پیدا ہوئی تھی لیکن پھر وہ سنبھل گئے۔ (تدبر قرآن)

اِذْ ھَمَّتْ طَّاۗىِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا  ۙوَاللّٰهُ وَلِيُّهُمَا  ۭ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ     ١٢٢؁
[اِذْ : جب ] [ہَمَّتْ : ارادہ کیا ] [طَّـآئِفَتٰنِ : دو جماعتوں نے ] [مِنْکُمْ : تم میں سے ] [اَنْ : کہ ] [تَفْشَلاَ: وہ دونوں ہمت ہاریں] [وَ : حالانکہ ] [اللّٰہُ : اللہ ] [وَلِیُّہُمَا : ان کا پشت پناہ تھا] [وَعَلَی اللّٰہِ : اور اللہ پر ہی ] [فَلْیَتَوَکَّلِ : چاہیے کہ بھروسہ کریں] [الْمُؤْمِنُوْنَ: ایمان لانے والے ]

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ     ١٢٣؁
[وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ : اور مدد کر چکا ہے تمہاری] [اللّٰہُ : اللہ ] [بِبَدْرٍ : بدر میں] [وَّ : حالانکہ ] [اَنْتُمْ : تم لوگ ] [اَذِلَّــۃٌ : نرم (چارہ) تھے] [فَاتَّـقُوا : پس تم لوگ تقویٰ اختیار کرو] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [لَـعَلَّـکُمْ : شاید کہ تم لوگ] [تَشْکُرُوْنَ : شکر ادا کرو]

اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُنْزَلِيْنَ     ١٢٤؁ۭ
[اِذْ : جب ] [تَقُوْلُ : آپؐ کہتے تھے ] [لِلْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان لانے والوں سے] [اَ : کیا ] [لَنْ یَّـکْفِیَکُمْ : ہرگز کافی نہیں ہو گا تم کو ] [اَنْ : (یہ) کہ ] [یُّمِدَّکُمْ : مدد کرے تمہاری] [رَبُّـکُمْ : تمہارا رب ] [بِثَلٰـثَۃِ اٰلٰفٍ : تین ہزار] [مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ : فرشتوں سے] [مُنْزَلِیْنَ : اتارے ہوئے ہوتے ہوئے]

 

ف و ر

 فَارَ (ن) فَوْرًا : جوش مارنا‘ اُبلنا۔ {وَفَارَ التَّـنُّـوْرُ} (ھود:40) ’’ اور اُبلا تنور۔‘‘

 فَوْرٌ (اسم ذات بھی ہے) : جوش‘ اُبال۔ (آیت زیر مطالعہ)

ط ر ف

 طَرَفَ (ض) طَرْفًا : کسی کو کسی چیز کے کنارے پر کرنا۔

 طَرْفٌ (اسم ذات بھی ہے) : (1) کسی چیز کا کنارہ ‘ پہلو۔ (2) آنکھ کی پلک۔ {قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَـیْکَ طَرْفُکَط} (النمل:40) ’’ قبل اس کے کہ لوٹے آپ کی طرف آپ کی پلک۔‘‘

ک ب ت

 کَبَتَ (ض) کَبْتًا : کسی کو ذلیل کرنا ۔ (آیت زیر مطالعہ)

خ ی ب

 خَابَ (ض) خَیْبَۃً : مقصد میں ناکام ہونا‘ نامراد ہونا۔ {وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ۔ } (ابرٰھیم) ’’ اور نامراد ہوا ہر ایک سرکش ہٹ دھرم۔‘‘

 خَائِبٌ (اسم الفاعل) : نامراد ہونے والا۔ (آیت زیر مطالعہ)

 ترکیب:’’ کُمْ‘‘ کی ضمیر ’’ یَکْفِیَ‘‘ کا مفعول ہے اور آگے ’’ اَنْ یُمِدَّ‘‘ سے ’’ مُنْزَلِیْنَ‘‘ تک پورافقرہ اس کا فاعل ہے۔ ’’ مُنْزَلِیْنَ‘‘ اگر ’’ مَلٰئِکَۃِ‘‘ کی صفت ہوتا تو پھر ’’ اَلْمُنْزَلِیْنَ‘‘ آتا‘ اس لیے یہ ان کا حال ہے۔ اسی طرح ’’ مُسَوِّمِیْنَ‘‘ بھی حال ہے۔ ’’ مَا جَعَلَہُ‘‘ میں ’’ ٹہُ‘‘ کی ضمیر مفعولی گزشتہ بات کے لیے ہے جس میں مدد کا ذکر ہے۔ اور ’’ جَعَلَ‘‘ کا مفعول ثانی ’’ بُشْرٰی‘‘ ہے۔ ’’ بِہٖ‘‘ کی ضمیر ’’ بُشْرٰی‘‘ کے لیے ہے جو مؤنث غیر حقیقی ہے ‘ اس لیے مذکر ضمیر بھی جائز ہے۔ ’’ اَلنَّصْرُ‘‘ پر لامِ جنس ہے۔ ’’ لِیَقْطَعَ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ ’’ فَا‘‘ سببیہ کی وجہ سے ’’ یَنْقَلِبُوْا‘‘ منصوب ہوا ہے اور یہ فعل لازم ہے ‘ اس لیے ’’ خَائِبِیْنَ‘‘ اس کا مفعول نہیں ہو سکتا‘ بلکہ یہ اس کا حال ہے۔

بَلٰٓى ۙاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُسَوِّمِيْنَ     ١٢٥؁
[بَلٰٓی : کیوں نہیں ] [اِنْ : اگر ] [تَصْبِرُوْا : تم لوگ ثابت قدم رہو] [وَتَـتَّـقُوْا : اور تقویٰ کرو] [وَیَاْتُوْکُمْ : اور وہ آئیں تمہارے پاس] [مِّنْ فَوْرِہِمْ ہٰذَا : اپنے اس جوش سے] [یُمْدِدْکُمْ : تو مدد کرے گا تمہاری] [رَبُّـکُمْ : تمہارا رب ] [بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ : پانچ ہزار] [مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ : فرشتوں سے] [مُسَوِّمِیْنَ: نشان لگانے والے ہوتے ہوئے]

وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَلِتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ ۭوَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ     ١٢٦؁ۙ
[وَمَا جَعَلَہُ : اور نہیں بنایا اس کو ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [اِلاَّ : مگر ] [بُشْرٰی : ایک خوشخبری] [لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [وَلِتَطْمَئِنَّ : اور تاکہ مطمئن ہوں] [قُلُوْبُـکُمْ : تمہارے دل ] [بِہٖ : اس سے ] [وَمَا النَّصْرُ: اور کسی نوع کی کوئی مدد نہیں ہے] [اِلاَّ : مگر] [مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ : اللہ کے پاس سے] [الْعَزِیْزِ : جو بالادست ہے] [الْحَکِیْمِ : حکمت والا ہے ]

نوٹ: آیت 124 میں رسول اللہ
کے قول کی آیت 125 میں اللہ تعالیٰ نے تصدیق کی ہے ‘ اور آپؐ کے اعزاز کے طور پر فرشتوں کی تعداد بڑھا دی‘ لیکن یہ وضاحت بھی کر دی کہ مدد کے لیے فرشتوں کا اُترنا ثابت قدمی اور تقویٰ کے ساتھ مشروط ہے۔ ساتھ ہی اس اصول کی وضاحت کر دی کہ مدد کی خواہ کوئی بھی نوعیت ہو اور خواہ وہ کسی کے لیے ہو‘ مدد بہرحال اللہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔

 جنگ ِ احد میں مسلمانوں نے ثابت قدمی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں وہ جیتی ہوئی جنگ ہار گئے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ جنگ جیتنے کے باوجود‘ مدینہ میں داخل ہو کر مسلمانوں کو ختم کر دینے کا حوصلہ کافروں کو نصیب نہیں ہوا۔ چنانچہ ذلیل و خوار ہو کر انہیں نامراد واپس جانا پڑا۔ یہ بھی اللہ کی مدد کا ایک انداز ہے۔

لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْ يَكْبِتَھُمْ فَيَنْقَلِبُوْا خَاۗىِٕــبِيْنَ      ١٢٧؁
[لِیَـقْطَعَ : تاکہ وہ کاٹے] [طَرَفًا : ایک پہلو کو] [مِّنَ الَّذِیْنَ : ان لوگوں سے جنہوں نے] [کَفَرُوْا : کفر کیا] [اَوْ : یا] [یَکْبِتَہُمْ : وہ ذلیل کرے ان کو] [فَـیَنْقَلِبُوْا : نتیجتاً وہ لوگ پلٹیں] [خَآئِبِیْنَ: نامراد ہو نے والے ہو کر

لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ     ١٢٨؁
[لَـیْسَ : نہیں ہے ] [لَکَ : آپؐ کے لیے ] [مِنَ الْاَمْرِ : اس حکم میں سے] [شَیْئٌ : کوئی چیز ] [اَوْ: یا] [یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ : وہ توبہ قبول کرے ان کی] [اَوْ : یا] [یُـعَذِّبَہُمْ : وہ عذاب دے ان کو] [فَاِنَّـہُمْ : تو یقینا وہ لوگ] [ظٰلِمُوْنَ : ظلم کرنے والے (تو) ہیں]

ترکیب:’’ شَیْئٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور ’’ لَـیْسَ‘‘ کا اسم ہے۔ ’’ لَکَ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے اور ’’ مِنَ الْاَمْرِ‘‘ متعلق خبر ہے۔ درمیان میں یہ جملۂ معترضہ ہے‘ کیونکہ آگے ’’ یَتُوْبَ‘‘ اور ’’ یُعَذِّبَ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ گزشتہ آیت کے ’’ لِیَطْقَعَ‘‘ اور ’’ اَوْ یَکْبِتَھُمْ‘‘ پر عطف ہے۔ جملۂ معترضہ میں ’’ اَلْاَمْرِ‘‘ پر لامِ تعریف انہی امور کے لیے ہے۔

وَلِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ  ۭ يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     ١٢٩؁ۧ
[وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے ہی ہے ] [مَا : وہ‘ جو] [فِی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہے] [وَمَا : اور وہ‘ جو] [فِی الْاَرْضِ : زمین میں ہے] [یَغْفِرُ : وہ بخشتا ہے] [لِمَنْ : اسے جس کو] [یَّشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] [وَیُـعَذِّبُ : اور وہ عذاب دیتا ہے] [مَنْ : اسے جس کو] [یَّشَآئُ : وہ چاہتاہے] [وَاللّٰہُ : اور اللہ] [غَفُوْرٌ : غفور ہے] [رَّحِیْمٌ: رحیم ہے

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً  ۠  وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ    ١٣٠؁ۚ
[ يٰٓاَيُّھَا الَّذِينَ : اے لوگو! جو] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [لاَ تَاْکُلُوا : تم لوگ مت کھائو] [الرِّبٰٓوا : سود ] [اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً : ضرب دے کر کئی گنا کرتے ہوئے] [وَاتَّقُوا : اور تقویٰ اختیار کرو] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [لَـعَلَّـکُمْ : شاید کہ تم ] [تُفْلِحُوْنَ : فلاح پائو ]

ک ظ م

 کَظَمَ (ض) کَظْمًا : کسی چیز کی روانی کو روکنا‘ جیسے پانی‘ سانس یا جذبات وغیرہ روکنا۔

 کَظَمَ (ض) کَظْمًا وَکُظُوْمًا غَیْظَہٗ : غصہ کو پی جانا۔

 کَاظِمٌ (اسم الفاعل) : روکنے والا۔ {اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ کٰظِمِیْنَط} (المؤمن:18) ’’ جب دل نرخروں کے پاس ہوں گے روکنے والے ہوتے ہوئے یعنی سانس گھوٹنے والے ہوتے ہوئے۔‘‘

 مَکْظُوْمٌ (اسم المفعول) : روکا ہوا‘ غم زدہ ۔ {اِذْ نَادٰی وَھُوَ مَکْظُوْمٌ ۔ } (القلم) ’’ جب اس نے پکارا اس حال میں کہ وہ غم زدہ تھا۔‘‘

 کَظِیْمٌ (فَعِیْلٌ کا وزن اسم المفعول کے معنی میں) : ہمیشہ سے غم زدہ۔ {وَابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَـھُوَ کَظِیْمٌ ۔ } (یوسف) ’’ اور سفید ہوئیں انؑ کی دونوں آنکھیں غم سے اس حال میں کہ وہ مستقل غم زدہ ہیں۔‘‘

 ترکیب :’’ لاَ تَاْکُلُوْا‘‘ کا مفعول ’’ الرِّبٰوا‘‘ ہے۔ مرکب ِ توصیفی ’’ اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ مَغْفِرَۃٍ‘‘ نکرہ مخصوصہ ہے اور ’’ مِنْ رَّبِّکُمْ‘‘ اس کی خصوصیت ہے۔ ’’ اِلٰی‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے ’’ جَنَّۃٍ‘‘ مجرور ہے اور یہ بھی نکرہ مخصوصہ ہے۔ ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ گزشتہ آیت میں ’’ لِلْمُتَّقِیْنَ‘‘ پر عطف ہے اور یہ پورا جملہ ان کی صفت ہے۔ ’’ لِلْمُتَّقِیْنَ‘‘ کی صفت ہونے کی وجہ سے ’’ اَلْکٰظِمِیْنَ‘‘ مجرور ہے اور یہ اسم الفاعل ہے‘ اس کا مفعول ’’ اَلْغَیْظَ‘‘ ہے۔ ’’ اَلْعَافِیْنَ‘‘ بھی ’’ لِلْمُتَّقِیْنَ‘‘ کی صفت ہے۔

وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ    ١٣١؁ۚ
[وَاتَّقُوا : اور تم لوگ بچو] [النَّارَ الَّتِیْ : اس آگ سے جو ] [اُعِدَّتْ : تیار کی گئی ] [لِلْکٰفِرِیْنَ : انکار کرنے والوں کے لیے]

وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ     ١٣٢؁ۙ
[وَاَطِیْعُوا : اور تم لوگ اطاعت کرو] [اللّٰہَ : اللہ کی ] [وَالرَّسُوْلَ : اور اِن رسولؐ ‘ کی] [لَـعَلَّـکُمْ : شاید کہ ] [تُرْحَمُوْنَ : تم لوگ رحم کیے جائو

وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ    ١٣٣؁ۙ
[وَسَارِعُوْآ : اور تم لوگ لپکو] [اِلٰی مَغْفِرَۃٍ : ایک ایسی مغفرت کی طرف جو] [مِّنْ رَّبِّکُمْ : تمہارے رب (کی طرف) سے ہے] [وَجَنَّۃٍ : اور ایک ایسی جنت کی طرف ] [عَرْضُہَا : جس کی چوڑائی] [السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ: آسمان اور زمین ہیں] [اُعِدَّتْ : وہ تیار کی گئی ] [لِلْمُتَّقِیْنَ : تقویٰ کرنے والوں کے لیے]

الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ    ١٣٤؁ۚ
[الَّذِیْنَ : وہ لوگ جو ] [یُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں] [فِی السَّرَّآئِ : خوشی میں ] [وَالضَّرَّآئِ : اور تکالیف میں] [وَالْکٰظِمِیْنَ : اور جو روکنے والے ہیں] [الْغَیْظَ : غیظ کو] [وَالْعَافِیْنَ : اور جو درگزر کرنے والے ہیں] [عَنِ النَّاسِ: لوگوں سے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [یُحِبُّ : پسند کرتا ہے ] [الْمُحْسِنِیْنَ : بلاکم و کاست کام کرنے والوں کو]

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ    ١٣٥؁
[وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو ] [اِذَا : جب کبھی ] [فَعَلُوْا : کرتے ہیں ] [فَاحِشَۃً : کوئی کھلی گمراہی] [اَوْ ظَلَمُوْآ : یا ظلم کرتے ہیں] [اَنْفُسَہُمْ : اپنے آپ پر] [ذَکَرُوا : تو وہ لوگ یاد کرتے ہیں] [اللّٰہَ : اللہ کو] [فَاسْتَغْفَرُوْا : پھر ] [مغفرت چاہتے ہیں] [لِذُنُوْبِہِمْ : اپنے گناہوں کی] [وَمَنْ : اور کون ] [یَّغْفِرُ : بخشتا ہے] [الذُّنُوْبَ : گناہوں کو] [اِلاَّ اللّٰہُ : سوائے اللہ کے] [وَلَمْ یُصِرُّوْا : اور وہ ہرگز نہیں اَڑتے] [عَلٰی مَا : اس پر جو] [فَـعَلُوْا : انہوں نے کیا] [وَ : اس حال میں کہ ] [ہُمْ : وہ لوگ] [یَعْلَمُوْنَ : جانتے ہوں]

س ن ن

 سَنَّ (ن) سَنًّا : کثیر المعانی لفظ ہے (1) چھری تیز کرنا‘ دانت میں مسواک کرنا۔ (2) آہستہ آہستہ پانی گرانا‘ گیلا کرنا۔ (3) کوئی طریقہ اختیار کرنا‘ کسی طریقے کو عادت بنانا۔

 مَسْنُوْنٌ (اسم المفعول) : پانی گرایا ہوا یعنی گیلا۔ {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ۔ } (الحجر) ’’ اور ہم نے پیدا کیا ہے انسان کو ایسی کھنکتی مٹی سے جو گیلے گارے سے تھی۔‘‘

 سِنٌّ (اسم ذات) : دانت۔ {وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ} (المائدۃ:45) ’’ اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت۔‘‘

 سُنَّــۃٌ ج سُنَنٌ (اسم ذات) : طریقہ‘ عادت ۔ {وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا ۔ } (الاحزاب) ’’ اور تو ہرگز نہیں پائے گا اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی۔‘‘

س ی ر

 سَارَ (ض) سَیْرًا : چلنا‘ سفر کرنا۔ {وَّتُسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا ۔ } (الطور) ’’ اور چلیں گے پہاڑ جیسا کہ چلنے کا حق ہے۔‘‘

 سِرْ ج سِیْرُوْا (فعل امر) : تو چل۔ (آیت زیر مطالعہ)

 سَیَّارَۃٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر مؤنث) : بار بار چلنے والی۔ پھر اصطلاحاً قافلے اور قافلے والوں ‘ دونوں کے لیے آتا ہے۔ {وَجَائَ تْ سَیَّارَۃٌ} (یوسف:19) ’’ اور آیا ایک قافلہ۔‘‘ {وَطَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّـکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِج} (المائدۃ:96) ’’ اور اس کا کھانا ایک سامان ہے تمہارے لیے اور قافلے والوں کے لیے۔‘‘

 سِیْرَۃٌ : طور طریقہ‘ خصلت۔ {سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الْاُوْلٰی ۔ } (طٰہٰ) ’’ ہم لوٹا دیں گے اس کو اس کی پہلی خصلت پر۔‘‘

 سَیَّرَ(تفعیل) تَسْیِیْرًا : چلانا‘ گھمانا پھرانا۔ {ھُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِط} (یونس:22) ’’ وہی ہے جو گھماتا پھراتا ہے تم لوگوں کو خشکی میں اور سمندر میں۔‘‘

 ترکیب:’’ وَالَّذِیْنَ‘‘ گزشتہ آیت میں ’’ لِلْمُتَّقِیْنَ‘‘ پر عطف ہے۔ ’’ فَعَلُوْا‘‘ سے ’’ اَنْفُسَھُمْ‘‘ تک ’’ اِذَا‘‘ کی شرط ہے۔ ’’ فَاحِشَۃً‘‘ پر تائے مبالغہ ہے جیسے ’’ عَلَّامَۃٌ‘‘ پر ہے۔ ’’ ذَکَرُوْا‘‘ اور ’’ فَاسْتَغْفَرُوْا‘‘ جوابِ شرط ہیں۔ ’’ خٰلِدِیْنَ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور اس سے پہلے ’’ ھُمْ یَدْخُلُوْنَ‘‘ محذوف ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ جَزَاۗؤُھُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَجَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا  ۭ وَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ    ١٣٦؁ۭ
[اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ ہیں] [جَزَآؤُہُمْ : جن کی جزا] [مَّغْفِرَۃٌ : مغفرت ہے] [مِّنْ رَّ بِّہِمْ : ان کے رب (کی طرف) سے] [وَجَنّٰتٌ : اور ایسے باغات ہیں] [تَجْرِیْْ : بہتی ہیں] [مِنْ تَحْتِہَا : جن کے نیچے سے ] [الْاَنْہٰرُ : نہریں] [خٰلِدِیْنَ : (وہ لوگ داخل ہوں گے) ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے] [فِیْہَا : ان میں ] [وَنِعْمَ : اور کیا ہی اچھا ہے ] [اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ: عمل کرنے والوں کا اجر]

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ ۙ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ     ١٣٧؁
قَدْ خَلَتْ : گزرے ہیں] [مِنْ قَبْلِکُمْ : تم لوگوں سے پہلے] [سُنَنٌ : کچھ طریقے] [فَسِیْرُوْا : تو تم لوگ چلو پھرو] [فِی الْاَرْضِ : زمین میں] [فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو] [کَیْفَ : کیسا] [کَانَ : تھا] [عَاقِـبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ: جھٹلانے والوں کا انجام]

ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ     ١٣٨؁
[ہٰذَا : یہ ] [بَیَانٌ : ایک خطبہ ہے ] [لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے ] [وَہُدًی : اور ہدایت ہے ] [وَّمَوْعِظَۃٌ: اور ایک نصیحت ہے] [ لِّلْمُتَّقِیْنَ : تقویٰ کرنے والوں کے لیے]

وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ     ١٣٩؁
[وَلاَ تَهِنُوْا : اور تم لوگ ہمت مت ہارو] [وَلاَ تَحْزَنُوْا : اور تم لوگ غمگین مت ہو] [وَ : اس حال میں کہ ] [

اَنْتُمُ : تم لوگ ] [الْاَعْلَوْنَ: برتر ہو] [اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ ] [مُّؤْمِنِیْنَ : ایمان لانے والے ہو]

و ھـ ن

 وَھَنَ (ض) وَھْنًا : (1) جسمانی طور پر کمزور ہونا‘ سست ہونا۔ (2) ارادہ اور ہمت کا کمزور ہونا‘ ہمت ہارنا۔ {وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ} (مریم:4) ’’ کمزور ہوئی ہڈی مجھ سے یعنی میری۔‘‘{فَمَا وَھَنُوْا لِمَا اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} (آل عمران:146) ’’ تو وہ لوگ ہمت نہیں ہارے اس سے جو مصیبت آئی انہیں اللہ کی راہ میں۔‘‘

 وَھْنٌ (اسم ذات) : کمزوری‘ تکلیف۔ {حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ} (لقمٰن:14) ’’ اٹھایا اس کو اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف میں ہوتے ہوئے۔‘‘

 اَوْھَنَ (افعال) اِیْھَانًا : کمزور کرنا۔

 مُوْھِنٌ (اسم الفاعل) : کمزور کرنے والا۔ {وَاَنَّ اللّٰہَ مُوْھِنُ کَیْدَ الْکٰفِرِیْنَ ۔ } (الانفال) ’’ اور یہ کہ اللہ کافروں کے دائوں کو کمزور کرنے والا ہے۔‘‘

ق ر ح

 قَرَحَ (ف) قَرْحًا : زخمی کرنا۔

 قَرْحٌ (اسم ذات) : زخم‘ چرکا۔ (آیت زیر مطالعہ)

د و ل

 دَالَ (ن) دَوْلاً‘ دُوْلَۃً اور دَوْلَۃً : زمانے کا ادل بدل ہونا ۔ یعنی جو حالت آج ایک کی ہے وہ کل دوسرے کی ہو جائے اور دوسرے کی حالت پہلے کی ہو جائے‘ کسی چیز کا گردش میں ہونا۔ {کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْط} (الحشر:7) ’’ تاکہ وہ نہ ہو گردش میں تم میں سے غنی لوگوں کے مابین۔‘‘

 دَاوَلَ (مفاعلہ) مُدَاوَلَۃً : ادل بدل کرنا‘ گردش دینا۔ (آیت زیر مطالعہ)

م ح ص

 مَحَصَ (ف) مَحْصًا : کسی چیز کو کرید کر اس کے ناپسندیدہ اجزا کو الگ کرنا‘ کسی چیز کو نکھارنا۔

 مَحَّصَ (تفعیل) تَمْحِیْصًا: بتدریج نکھارنا‘ کثرت سے یعنی بالکل نکھار دینا۔ (آیت زیر مطالعہ)

 ترکیب:’’ اَعْلَوْنَ‘‘ افعل التفضیل ’’ اَعْلٰی‘‘ کی جمع ہے۔ ’’ اَفْعَلُ‘‘ کے وزن پر یہ ’’ اَعْلَیُ‘‘ بنتا ہے جو قاعدے کے مطابق تبدیل ہو کر ’’ اَعْلٰی‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ اس کی جمع ’’ اَفْعَلُوْنَ‘‘ کے وزن پر ’’ اَعْلَیُوْنَ‘‘ بنتی ہے جو قاعدے کے مطابق ’’ اَعْلَوْنَ‘‘ استعمال ہوتی ہے۔ ’’ اَلْقَوْمَ‘‘ پر لامِ تعریف ہے۔ ’’ لِیُمَحِّصَ‘‘ کے لام ’’ کَـْی‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے ’’ یَمْحَقَ‘‘ منصوب ہے۔ ’’ لَمَّا‘‘ جازمہ ہے اس لیے ’’ یَعْلَمِ‘‘ دراصل ’’ یَعْلَمْ‘‘ ہے۔ آگے ملانے کے لیے اسے کسرہ دی گئی ہے۔ جبکہ ’’ وَیَعْلَمَ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ گزشتہ آیت کے لام ’’ کَـیْ‘‘ پر عطف ہے۔ ’’ تَلْقَوْہُ‘‘ اور ’’ رَاَیْتُمُوْہُ‘‘ کی ضمیر مفعولی ’’ اَلْمَوْتَ‘‘ کے لیے ہیں۔

اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ  ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ  ۚ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ  ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ    ١٤٠؁ۙ
[اِنْ یَّمْسَسْکُمْ : اگر لگا تم لوگوں کو] [قَرْحٌ : کوئی چرکا] [فَقَدْ مَسَّ : تو لگ چکا ہے ] [الْقَوْمَ : اس قوم کو ] [قَرْحٌ : ایک چرکا] [مِّثْلُہٗ : اس کے جیسا] [وَتِلْکَ الْاَیَّامُ : اور یہ دن‘] [نُدَاوِلُہَا : ہم گردش دیتے ہیں ان کو] [بَیْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان] [وَلِیَعْلَمَ : اور (یہ اس لیے) کہ جان لے] [اللّٰہُ : اللہ] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کو جو] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے] [وَیَتَّخِذَ : اور تاکہ وہ بنائے] [مِنْکُمْ : تم میں سے ] [شُہَدَآئَ : گواہ ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [لاَ یُحِبُّ : پسند نہیں کرتا] [الظّٰلِمِیْنَ : ظالموں کو]

وَلِيُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ    ١٤١؁
[وَلِیُمَحِّصَ : اور (اس لیے ) کہ نکھار دے] [اللّٰہُ : اللہ ] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کو جو] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے] [وَیَمْحَقَ : اور تاکہ وہ گھٹائے] [الْکٰفِرِیْنَ : کافروں کو]

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ ١٤٢؁
[اَمْ حَسِبْتُمْ : کیا تم لوگوں نے خیال کیا] [اَنْ تَدْخُلُوا : کہ تم لوگ داخل ہو گے] [الْجَنَّـۃَ : جنت میں ] [وَ : حالانکہ ] [لَمَّا یَعْلَمِ : ابھی تک نہیں جانا] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کو جنہوں نے] [جٰہَدُوْا : جدوجہد کی ] [مِنْکُمْ : تم میں سے ] [وَیَعْلَمَ : اور تاکہ وہ جان لے ] [الصّٰبِرِیْنَ : ثابت قدم رہنے والوں کو]

وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَـمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْهُ  ۠ فَقَدْ رَاَيْتُمُوْهُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ    ١٤٣؁ۧ
[وَلَـقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ : اور بےشک تم لوگ تمنا کرچکے تھے] [الْمَوْتَ : موت کی ] [مِنْ قَـبْلِ : اس سے پہلے

اَنْ : کہ ] [تَلْقَوْہُ: تم لوگ سامنے آتے اس کے ] [فَقَدْ رَاَ یْتُمُوْہُ : تو تم لوگ دیکھ چکے اس کو] [وَ : اس حال میں کہ ] [اَنْتُمْ: تم لوگ ] [ تَنْظُرُوْنَ: آنکھوں دیکھتے ہو]

 

 نوٹ : آیت 140 میں ایام کو گردش دینے کا ایک مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ ہم میں سے کون سچ مچ ایمان لایا ہے۔ پھر آیت 142 میں ایک دوسرے پیرائے میں اس کا اعادہ کیا گیا کہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہو گا جب تک اللہ تعالیٰ یہ نہ جان لے کہ کس نے اس کی راہ میں جدوجہد کی اور کون ثابت قدم رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے‘ پھر اس کے جان لینے کا کیا مطلب ہے۔ اس بات کو سمجھ لیں۔

 قرآن مجید میں متعددمقامات پر اللہ تعالیٰ کے لیے عالم الغیب کے الفاظ آئے ہیں‘ حالانکہ اللہ کے لیے تو غیب ہے ہی نہیں‘ اس کے لیے تو ہر چیز ہر لمحہ الشہادۃ ہے۔ اس لیے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے عالم الغیب کے الفاظ کا استعمال ہماری نسبت سے کیا جاتا ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس کا بھی جاننے والا ہے جو ہمارے لیے غیب ہے۔ اسی طرح سے آیات زیر مطالعہ میں اور قرآن مجید میں دیگر مقامات پر‘ جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کے لیے جان لینے کے الفاظ آئے ہیں ‘ وہ ہماری نسبت سے ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ جس بات کو ہم نہیں جانتے انہیں اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے‘ کھول دے یا ریکارڈ پر لے آئے۔

 حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کے کچھ ظاہری اقوال یعنی دعوے اور وعدے ہوتے ہیں اور کچھ ظاہری اعمال ہوتے ہیں‘ لیکن ان کے پیچھے کچھ باطنی کیفیات بھی ہوتی ہیں جن سے وہ شخص خود بھی اکثر اوقات پوری طرح باخبر نہیں ہوتا‘ لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ قیامت میں فیصلہ کرتے وقت وہ اقوال و اعمال بھی شامل کیے جائیں گے جو ریکارڈ پر آئے اور ان کو مٹایا نہیں گیا ‘ یعنی عفو کی درخواست نہیں کی گئی۔ لیکن ان کے ساتھ باطنی کیفیات بھی شامل کی جائیں گی۔ اسی لیے بتادیا کہ جب لوگوں کو قبروں سے نکالا جائے گا تو جو کچھ ان کے سینوں یعنی جی میں تھا وہ بھی حاصل کرلیا جائے گا۔ (العٰدیٰت:9‘10)

 باطنی کیفیات کن عناصر پر مشتمل ہوتی ہیں ان کی وضاحت بہت مشکل ہے اور انسان کے تمام جذبات و احساسات کو الفاظ کا جامہ پہناناممکن نہیں ہے۔ لیکن قرآن اور حدیث میں دو ایسے عناصر کی راہنمائی موجود ہے جو انسانی ذہن کی گرفت میں آ سکتے ہیں۔ ایک انسان کا حقیقی نظریہ اور عقیدہ جو بعض اوقات اس کے ظاہر سے مختلف ہوتا ہے اور دوسرے اس کی نیت۔

 باطنی کیفیات کی اصل ضرورت تو آخرت میں پڑے گی لیکن کبھی کسی فرد یا کسی اجتماعیت کے مفاد کا تقاضا ہوتا ہے کہ ان کی باطنی کیفیات میں سے کسی عنصر کو ظاہر کردیا جائے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جب ہماری اس ضرورت کو پورا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے طریقہ کار (
procedure ) وہ ہے جسے ہم لوگ آزمائش کہتے ہیں۔ میدان احد میں مسلمانوں کی فتح کاشکست میں تبدیل ہو جانا بھی اسی طریقۂ کار کے تحت تھا تاکہ آئندہ مسلمان کوئی منصوبہ بندی کرتے وقت صرف افراد کی گنتی کو سامنے نہ رکھیں بلکہ ان میں باطنی کیفیات کے مختلف ہونے کی گنجائش بھی رکھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مدینہ منورہ میں رسول اللہ نے دو مرتبہ مردم شماری کرائی تھی ‘ اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ پہلی مردم شماری میں عورتوں اور بچوں سمیت مسلمانوں کی کل تعداد 500 تھی اور دوسری میں 1500 تھی۔

 آیت 141 میں’’ مَحَّصَ‘‘ کا ترجمہ ہم نے ’’ نکھارنا‘‘ کیا ہے۔ اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ باطنی کیفیات میں اگر کہیں کوئی کمی‘ خامی یا کجی رہ گئی ہے تو اسے دور کردیا جائے۔.

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا  ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ     ١٤٤؁
[وَمَا مُحَمَّدٌ : اور نہیں ہیں محمد] [اِلاَّ : مگر] [رَسُوْلٌ : ایک رسول ] [قَدْ خَلَتْ : گزرے ہیں] [مِنْ قَـبْلِہِ : ان ؐ سے پہلے] [الرُّسُلُ : رسول (لوگ) ] [اَفَائِنْ : تو کیا اگر ] [مَّاتَ : وہؐ بےجان ہو جائیں گے] [اَوْ قُتِلَ : یا قتل کیے جائیں گے] [انْقَلَبْتُمْ : تو تم لوگ پلٹ جائو گے] [عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ : اپنی ایڑیوں پر] [وَمَنْ : اور جو ] [یَّنْقَلِبْ : پلٹے گا ] [عَلٰی عَقِبَیْہِ : اپنی دونوں ایڑیوں پر] [فَلَنْ یَّضُرَّ : تو وہ ہرگز نقصان نہیں کرے گا] [اللّٰہَ : اللہ کا

شَیْئًا : کچھ بھی ] [وَسَیَجْزِی : اور عنقریب جزا دے گا] [اللّٰہُ : اللہ ] [الشّٰکِرِیْنَ : شکر کرنے والوں کو]

 

ترکیب:’’ مَا‘‘ کا اسم ’’ مُحَمَّدٌ‘‘ ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ مُحَمَّدٌ‘‘ کا بدل ہونے کی وجہ سے ’’ رَسُوْلٌ‘‘ مرفوع ہے۔ ’’ خَلَتْ‘‘ کا فاعل ’’ الرُّسُلُ‘‘ ہے۔ ’’ اَفَائِنْ‘‘ کا جوابِ شرط ’’ اِنْـقَـلَـبْتُمْ‘‘ ہے ۔ ’’ وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ‘‘ میں ’’ کَانَ‘‘ کی خبر محذوف ہے جو کہ ’’ مُمْکِنًا‘‘ ہو سکتی ہے۔ ’’ کِتَابًا مُّـؤَجَّلاً‘‘ کو تفسیر حقانی میں فعل محذوف کا مفعول مطلق مانا گیا ہے ۔ لیکن ہماری ترجیح یہ ہے کہ اسے ظرف مانا جائے۔

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا  ۭ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِھٖ مِنْھَا  ۚ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِھٖ مِنْھَا  ۚ وَ سَنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ   ١٤٥؁
[وَمَا کَانَ : اور نہیں ہے (ممکن) ] [لِنَفْسٍ : کسی جان کے لیے ] [اَنْ : کہ ] [تَمُوْتَ : وہ بےجان ہو] [اِلاَّ : مگر] [بِاِذْنِ اللّٰہِ : اللہ کی اجازت سے] [کِتٰـبًا مُّؤَجَّلاً: ایک لکھے ہوئے مقررہ وقت پر] [وَمَنْ : اور جو

یُّرِدْ : ارادہ کرتا ہے] [ثَوَابَ الدُّنْیَا : دنیا کے بدلے کا] [نُؤْتِہٖ : تو ہم دیتے ہیں اس کو] [مِنْہَا : اس میں سے ] [وَمَنْ : اور جو ] [یُّرِدْ : ارادہ کرتا ہے ] [ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ : آخرت کے بدلے کا] [نُؤْتِہٖ : تو ہم دیتے ہیں اس کو ] [مِنْہَا : اس میں سے ] [وَسَنَجْزِی : اور عنقریب ہم جزا دیں گے] [الشّٰکِرِیْنَ : شکر کرنے والوں کو]

وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَهٗ رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ  ۚ فَمَا وَهَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا  ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ    ١٤٦؁
[وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ : اور نبیوں میں سے کتنے ہی ہیں] [قٰـتَلَ : قتال کیا] [مَعَہٗ : جن کے ساتھ (مل کر) ] [رِبِّـیُّـوْنَ کَثِیْرٌ : بہت سے اللہ والوں نے] [فَمَا وَہَنُوْا : تو وہ لوگ ہمت نہیں ہارے] [لِمَآ : اس سے جو ] [اَصَابَہُمْ : پہنچی ان کو (کوئی تکلیف) ] [فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں] [وَمَا ضَعُفُوْا : اور نہ کمزور ہوئے] [وَمَا اسْتَـکَانُوْا : اور نہ جھکے] [وَاللّٰہُ : اور اللہ] [یُحِبُّ : پسند کرتا ہے] [الصّٰبِرِیْنَ : ثابت قدم رہنے والوں کو]

 

ک و ن

 کَانَ (ن) کَوْنًا : کسی چیز کا اپنا وجود پانا‘ واقع ہونا‘ ہو جانا۔ افعالِ ناقصہ میں سے ہے۔

 کُنْ (فعل امر) : تو ہو جا۔{وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ ۔ } (الاعراف) ’’ اور تو ہو جا شکر کرنے والوں میں سے۔‘‘

 مَکَانٌ (مَفْعَلٌ کے وزن پر اسم الظرف) : واقع ہونے کی جگہ‘ پھر مطلقاً جگہ‘ ٹھکانہ وغیرہ کے معانی میں آتا ہے۔ {وَاِذَا بَدَّلْـنَا اٰیَۃً مَّـکَانَ اٰیَۃٍ} (النحل:101) ’’ اور جب ہم بدلتے ہیں کسی آیت کو کسی آیت کی جگہ۔‘‘{اُولٰٓـئِکَ شَرٌّ مَّکَانًا} (المائدۃ:60) ’’ وہ لوگ زیادہ برے ہیں ٹھکانے کے لحاظ سے ۔‘‘

 اِسْتَـکَانَ (استفعال) اِسْتِکَانَۃً : عاجزی کرنا‘ جھک جانا۔ (آیت زیر مطالعہ)

س ر ف

 سَرَفَ (ن) سَرْفًا : کسی چیز کا ضرورت سے زیادہ ہونا۔

 اَسْرَفَ (افعال) اِسْرَافًا : کسی چیز کو ضرورت سے زیادہ کرنا‘ کسی کام میں حد سے تجاوز کرنا۔ {یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط} (الزمر:53) ’’ اے میرے بندو! جنہوں نے حد سے تجاوز کیا اپنے آپ پر‘ تم لوگ مایوس مت ہو اللہ کی رحمت سے۔‘‘

 مُسْرِفٌ (اسم الفاعل) : حد سے تجاوز کرنے والا۔ {وَاَنَّ الْمُسْرِفِیْنَ ھُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ ۔ } (المؤمن) ’’ اور یہ کہ حد سے تجاوز کرنے والے ہی آگ والے ہیں۔‘‘

ترکیب :’’ کَاَ یِّنْ‘‘ یہاں کم خبریہ کے معنی میں آیا ہے۔ ’’ مِنْ نَّبِیٍّ‘‘ اس کا اسم ہے۔ ’’ مَعَہٗ‘‘ میں ’’ ٹہٗ‘‘ کی ضمیر ’’ نَبِیٍّ‘‘ کے لیے ہے۔ لفظی رعایت کے تحت ضمیر واحد آئی ہے لیکن کم خبریہ کا اسم ہونے کی وجہ سے اس میں جمع کا مفہوم ہے۔ ’’ قٰـتَلَ‘‘ کا فاعل ’’ رِبِّیُّوْنَ‘‘ ہے‘ ’’ کَثِیْرٌ‘‘ اس کی صفت ہے۔ ’’ کَثِیْرٌ‘‘ واحد اور جمع دونوں کے لیے آتا ہے اور اس کی جمع ’’ کَثِیْرُوْنَ‘‘ بھی آتی ہے ‘ لیکن یہ قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوئی۔ ’’ قَالُوْا رَبَّـنَا‘‘ سے ’’ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ‘‘ تک پورا جملہ کَانَ کا اسم ہے اور ’’ قَوْلَھُمْ‘‘ کَانَکی خبر مقدم ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔

وَمَا كَانَ قَوْلَھُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ   ١٤٧؁
[وَمَا کَانَ : اور نہیں تھا] [قَوْلَہُمْ : ان کا کہنا] [اِلَّآ اَنْ : سوائے اس کے کہ ] [قَالُوْا : انہوں نے کہا] [ربَّـنَا : اے ہمارے رب ] [اغْفِرْ : تو بخش دے] [لَـنَا : ہمارے لیے] [ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہوں کو ] [وَاِسْرَافَنَا : اور ہمارے حد سے تجاوز کرنے کو] [فِیْ اَمْرِنَا : ہمارے کام میں] [وَثَـبِّتْ : اور تو جما دے ] [اَقْدَامَنَا : ہمارے قدموں کو] [وَانْصُرْنَا : اور تو ہماری مدد کر] [عَلَی الْقَوْمِ الْـکٰفِرِیْنَ : کافروں کی قوم (کے مقابلہ) پر]

فَاٰتٰىھُمُ اللّٰهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ  ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ    ١٤٨؁ۧ
[فَاٰتٰٹہُمُ : تو دیا ان کو] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [ثَـوَابَ الدُّنْیَا : دنیا کا ثواب] [وَحُسْنَ ثَـوَابِ الْاٰخِرَۃِ : اور آخرت کے ثواب کا حسن] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [یُحِبُّ : پسند کرتا ہے ] [الْمُحْسِنِیْنَ : بلاکم و کاست کام کرنے والوں کو]

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِيْعُوا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَرُدُّوْكُمْ عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ   ١٤٩؁
[یٰٓــاَیـُّــھا الَّذِیْنَ : اے لوگو! جو ] [اٰمَنُوْآ : ایمان لائے ] [اِنْ تُطِیْعُوا : اگر تم لوگ اطاعت کرو گے] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کی جنہوں نے] [کَفَرُوْا : کفر کیا] [یَرُدُّوْکُمْ : تو وہ لوگ لوٹا دیں گے تم کو] [عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ : تمہاری ایڑیوں پر] [فَتَنْقَلِبُوْا : نتیجتاً تم لوگ پلٹو گے] [خٰسِرِیْنَ: خسارہ اٹھانے والے ہوتے ہوئے]

 

ر ع ب

 رَعَبَ (ف) رَعْبًا : خوف زدہ ہونا‘ ڈرنا۔

 رُعْبٌ (اسم ذات) : خوف‘ ہیبت‘ دہشت۔ (آیت زیر مطالعہ)

س ل ط

 سَلِطَ (س) و سَلُطَ (ک) سَلَاطَۃً : کسی پر غلبہ حاصل کرنا‘ مسلط ہونا۔

 سُلْطَانٌ (فُعْلَانٌ کے وزن پر مبالغہ) : متعدد معانی میں آتا ہے: (1) زبردست قوت (2) اختیار‘ غلبہ۔ (3) قطعی دلیل‘ سند۔{اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْاط لَا تَنْفُذُوْنَ اِلاَّ بِسُلْطٰنٍ ۔ } (الرحمٰن) ’’ اگر تم لوگوں میں استطاعت ہے کہ تم لوگ نکلو آسمانوں اور زمین کی قطاروں سے تو نکلو۔ تم لوگ نہیں نکلو گے مگر کسی قوت سے۔‘‘ {وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلاَّ اَنْ دَعَوْتُـکُمْ} (ابرٰھیم:22) ’’ اور نہیں تھا میرے لیے تم لوگوں پر کسی قسم کا کوئی اختیار سوائے اس کے کہ میں نے دعوت دی تم لوگوں کو۔‘‘

 سَلَّطَ (تفعیل) تَسْلِیْطًا : کسی کو کسی پر اختیار دینا‘ غلبہ دینا۔ {وَّلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ ط} (الحشر:6) ’’ اور لیکن اللہ غلبہ دیتا ہے اپنے رسولوں کو اس پر جس پر وہ چاہتا ہے۔‘‘

ء و ی

 اَوٰی (ض) اِوَائً : کسی کے ساتھ ُجڑ جانا‘ ضم ہو جانا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں آتا ہے۔ کسی جگہ اُترنا‘ پناہ لینا وغیرہ۔ {سَاٰوِیْ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَـآئِط} (ھود:43) ’’ میں ٹھہروں گا کسی پہاڑ پر وہ بچالے گا مجھ کو پانی سے۔‘‘

 مَاْوًی (اسم الظرف) : اُترنے یا ٹھہرنے کی جگہ‘ منزل‘ پناہ گاہ۔ (آیت زیر مطالعہ)

 اٰوٰی (افعال) اِیْوَائً : ٹھہرانا‘ جگہ دینا۔ {وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَـیْہِ اَخَاہُ} (یوسف:69) ’’ اور جب وہ لوگ داخل ہوئے یوسف ؑ کے پاس تو انہوں نے جگہ دی اپنے پاس اپنے بھائی کو۔‘‘

ث و ی

 ثَـوٰی (ض) ثَوَائً : کسی جگہ مستقل قیام کرنا‘ ٹھکانہ بنانا۔

 ثَاوٍ (اسم الفاعل) : قیام کرنے والا۔ {وَمَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِیْ اَھْلِ مَدْیَنَ} (القصص:45) ’’ اور آپؐ قیام کرنے والے نہیں تھے اہل مدین میں۔‘‘

 مَثْوًی (اسم الظرف) : مستقل قیام کرنے کی جگہ‘ ٹھکانہ۔ (آیت زیر مطالعہ)

ترکیب:’’ اِنْ‘‘ کا جواب شرط ’’ یَرُدُّوْکُمْ‘‘ ہے۔ ’’ فَتَنْقَلِبُوْا‘‘ کا ’’ فا‘‘ سببیہ ہے۔ ’’ خٰسِرِیْنَ‘‘ حال ہے۔ ’’ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطَنًا‘‘ یہ پورا جملہ ’’ اَشْرَکُوْا‘‘ کا مفعول ہے۔ ’’ یُنَزِّلْ‘‘ کی ضمیر فاعلی اللہ کے لیے ہے۔

بَلِ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ ۚ وَھُوَ خَيْرُ النّٰصِرِيْنَ    ١٥٠؁
[بَلِ : بلکہ ] [اللّٰہُ : اللہ] [مَوْلٰٹکُمْ : تمہارا کارساز ہے] [وَہُوَ : اور وہ] [خَیْرُ النّٰصِرِیْنَ: بہترین مددگار ہے]

سَـنُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا  ۚ وَمَاْوٰىھُمُ النَّارُ  ۭ وَبِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِمِيْنَ    ١٥١؁
[سَنُلْقِیْ : ہم ڈالیں گے] [فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ : ان کے دلوں میں جنہوں نے] [کَفَرُوا : کفر کیا] [الرُّعْبَ : دہشت] [بِمَآ : بسبب اس کے جو] [اَشْرَکُوْا : انہوں نے شریک کیا] [بِاللّٰہِ : اللہ کے ساتھ] [مَا : اس کو] [لَمْ یُنَزِّلْ : اس نے اتاری ہی نہیں] [بِہٖ : جس کے لیے] [سُلْطٰنًا : کوئی سند] [وَمَاْوٰٹہُمُ: اور ان کی منزل] [ النَّارُ : آگ ہے] [وَبِئْسَ : اور کتنی بری ہے] [ مَثْوَی الظّٰلِمِیْنَ: ظالموں کی قیام گاہ]

ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَاۗىِٕفَةً مِّنْكُمْ  ۙ وَطَاۗىِٕفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ يَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ  ۭ يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍ ۭ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ  ۭ يُخْفُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِھِمْ مَّا لَا يُبْدُوْنَ لَكَ  ۭ يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰهُنَا  ۭقُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ ۚ وَلِيَبْتَلِيَ اللّٰهُ مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ    ١٥٤؁
[ثُمَّ : پھر ] [اَنْزَلَ : اس نے اتارا] [عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر] [مِّنْم بَعْدِ الْغَمِّ : اس بےچینی کے بعد] [اَ مَنَۃً : ایک اطمینان] [نُّـعَاسًا : جو ایک ایسی اونگھ تھی] [یَّغْشٰی : جو چھاتی تھی] [طَـآئِفَۃً : ایک گروہ پر] [مِّنْکُمْ : تم میں سے] [وَطَائِفَۃٌ : اور ایک دوسرا گروہ تھا] [قَدْ اَھمَّتْہُمْ : بےچین کیا تھا ان کو] [اَنْـفُسُہُمْ : ان کی جانوں نے] [یَظُنُّوْنَ : وہ لوگ گمان کرتے تھے] [بِاللّٰہِ : اللہ سے] [غَیْرَ الْحَقِّ : حق کے بغیر] [ظَنَّ الْجَاہِلِیَّۃِ : غلط سوچ کا گمان] [یَـقُوْلُوْنَ : وہ لوگ کہتے تھے] [ہَلْ : کیا] [لَّـــنَا : ہمارے لیے ہے] [مِنَ الْاَمْرِ : اس فیصلے میں سے] [مِنْ شَیْئٍ : کوئی بھی چیز] [قُلْ : آپؐ ‘ کہہ دیجیے] [اِنَّ الْاَمْرَ : بےشک فیصلہ] [کُلَّہٗ: اس کا ُکل] [لِلَّہِ: اللہ کے لیے ہے ] [یُخْفُوْنَ: وہ لوگ چھپاتے ہیں] [فِیْ اَنْفُسِہِمْ : اپنے جی میں] [مَّا : اس کو جو] [لاَ یُـبْدُوْنَ : وہ لوگ ظاہر نہیں کرتے] [لَـکَ : آپؐ کے لیے ] [یَـقُوْلُــوْنَ : وہ لوگ کہتے ہیں] [لَــوْ کَانَ : اگر ہوتا] [لَـنَا : ہمارے لیے ] [مِنَ الْاَمْرِ : اس فیصلے میں سے] [شَیْئٌ : کچھ] [مَّا قُتِلْنَا : تو ہم قتل نہ کیے جاتے

ہٰہُنَا : یہاں] [قُلْ : آپؐ ‘ کہہ دیجیے] [لَّــوْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ ہوتے] [فِیْ بُیُوْتِکُمْ : اپنے گھروں میں] [لَــبَـرَزَ : تو ضرور نکلتے] [الَّذِیْنَ : وہ لوگ] [کُتِبَ : لکھا گیا] [عَلَیْہِمُ : جن پر ] [الْـقَتْلُ : قتل کیا جانا] [اِلٰی مَضَاجِعِہِمْ: اپنی قتل گاہ کی طرف] [وَلِیَبْتَلِیَ : اور تاکہ آزمائش میں ڈالے] [اللّٰہُ : اللہ ] [مَا : اس کو جو] [فِیْ صُدُوْرِکُمْ : تمہارے سینوں میں ہے] [وَلِیُمَحِّصَ : اور تاکہ وہ نکھار دے] [مَا : اس کو جو] [فِیْ قُلُوْبِکُمْ : تمہارے دِلوں میں ہے] [وَاللّٰہُ : اور اللہ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے] [بِذَاتِ الصُّدُوْرِ: سینوں والی (بات) کو]

 

 

ن ع س

 نَـعَسَ (ف) نَعْسًا : اُونگھنا‘ حواس کا سست ہونا۔

 نُعَاسٌ (اسم ذات) : اُونگھ۔ آیت زیر مطالعہ ۔

ض ج ع

 ضَجَعَ (ف) ضَجْعًا : پہلو کے بل لیٹنا۔

 مَضْجَعٌ‘ ج مَضَاجِعُ (اسم الظرف) : (1) لیٹنے کی جگہ (2) قتل گاہ۔ {وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ} (النسائ:34) ’’ اور تم لوگ قطع تعلق کرو ان سے لیٹنے کی جگہوں میں۔‘‘

غ ش و

 غَشِیَ (س) غَشَاوَۃً : کسی کا کسی پر چھا جانا‘ ڈھانپ لینا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 غِشَاوَۃٌ (اسم ذات) : پردہ ۔ {وَعَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ} (البقرۃ:7) ’’ اور ان کی بصارت پر ایک پردہ ہے۔‘‘

 غَاشِیَۃٌ (اسم الفاعل) : ڈھانپنے والی‘ چھا جانے والی۔ {ھَلْ اَتٰـٹکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ ۔ } (الغاشیۃ) ’’ کیا پہنچی تجھ کو چھا جانے والی کی خبر۔‘‘

 غَاشٍ ج غَوَاشٍ (اسم الفاعل) : چھا جانے والا‘ لیکن اسم ذات کے طور پر بھی آتا ہے۔ اوڑھنے کی چیز‘ اوڑھنا۔ {لَھُمْ مِّنْ جَھَنَّمَ مِھَادٌ وَّمِنْ فَوْقِھِمْ غَوَاشٍط} (الاعراف:41) ’’ ان کے لیے جہنم میں سے ایک بچھونا ہے اور ان کے اوپر سے کچھ اوڑھنے ہیں۔‘‘

 اَغْشٰی (افعال) اِغْشَائً : کسی پر کسی چیز کو چھا دینا‘ ڈھانپ دینا۔ {یُغْشِی الَّــیْلَ النَّھَارَ} (الاعراف:54) ’’ وہ ڈھانپ دیتا ہے رات کو دن سے۔‘‘

 غَشّٰی (تفعیل) تَغْشِیَۃً : بتدریج کسی چیز پر کسی چیز کو چھا دینا‘ ڈھانپ دینا۔ {فَغَشّٰٹھَا مَا غَشّٰی ۔ } (النجم) ’’ تو اس نے چھایا اس پر اس کو جو اس نے چھایا۔‘‘

 تَغَشّٰی (تفعّل) تَغَشٍّ : بتکلف کسی پر چھا جانا‘ ڈھانپ لینا۔ {فَلَمَّا تَغَشّٰٹھَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا} (الاعراف:189) ’’ پھر جب اس نے ڈھانپ لیا اس کو تو اس نے اٹھایا ایک ہلکا حمل۔‘‘

 اِسْتَغْشٰی (استفعال) اِسْتِغْشَائً : کسی چیز سے خود کو ڈھانپنا۔ {حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَھُمْ} (ھود:5) ’’ جس وقت وہ لوگ خود کو ڈھانپتے ہیں اپنے کپڑوں سے۔‘‘

ترکیب : ’’ اَنْزَلَ‘‘ کا مفعول ’’ اَمَنَۃً‘‘ ہے۔ ’’ نُعَاسًا‘‘ اس کا بدل ہے اور نکرہ مخصوصہ ہے۔ ’’ یَغْشٰی‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ نُعَاسًا‘‘ کے لیے ہے اور ’’ طَائِفَۃً‘‘ اس کا مفعول ہے۔ ’’ طَائِفَۃٌ‘‘ مبتدأ نکرہ ہے اور آگے جملہ فعلیہ اس کی خبر ہے جبکہ ’’ اَھَمَّتْ‘‘ کا فاعل ’’ اَنْفُسُھُمْ‘‘ ہے۔ ’’ اِنَّ الْاَمْرَ‘‘ پر لامِ جنس ہے اور ’’ کُلَّہٗ‘‘ اس کا بدل ہے۔ ’’ شَیْئٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور یہ ’’ کَانَ‘‘ کا اسم ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے۔ ’’ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ یہ جملہ اسمیہ ’’ لَــوْ‘‘ کی شرط ہے اور ’’ مَا قُتِلْـنَا ھٰھُنَا‘‘ جوابِ شرط ہے۔ ’’ لَــوْ کُنْتُمْ‘‘ کا ’’ لَــوْ‘‘ بھی شرطیہ ہے۔ ’’ اَلَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقَتْلُ‘‘ صلہ موصول مل کر’’ لَــبَرَزَ‘‘ کا فاعل ہے اور ’’ اِلٰی مَضَاجِعِھِمْ‘‘ متعلق فعل ہے ’’ لَــبَرَزَ‘‘ کا۔

نوٹ: البقرۃ:72 کی لغت میں مادہ ’’ ق ت ل ‘‘ کے مصدر قَتْلٌکے معنی ’’ قتل کرنا‘‘ بتایا گیا ہے جبکہ اس آیت میں اس کے معنی ’’ قتل کیا جانا‘‘ کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سمجھ لیں۔ اس کے فعل معروف قَـتَلَ ۔ یَـقْتُلُکا مصدر قَتْلٌہے اور فعل مجہول قُتِلَ ۔ یُقْتَلُ کا مصدر بھی ’’ قَتْلٌ‘‘ ہے۔ اس لیے ’’ قَتْلٌ‘‘ معروف اور مجہول دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہی صورت حال تمام متعدی افعال میں ہے۔ ان کے افعال معروف اور مجہول میں تواوزان کے مطابق تبدیلی ہوتی ہے لیکن مصدر میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ اس لیے متعدی افعال کے مصادر معروف اور مجہول دونوں معانی میں آتے ہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۙ اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّـيْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا ۚ وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْھُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ     ١٥٥؁
[اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک جن لوگوں نے] [تَوَلَّــوْا : منہ موڑا] [مِنْکُمْ : تم میں سے] [یَوْمَ : جس دن ] [الْـتَقَی : آمنے سامنے ہوئیں] [الْجَمْعٰنِ: دو جماعتیں] [اِنَّمَا : (تو) کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [اسْتَزَلَّـہُمُ : پھسلانے کی کوشش کی ان کو] [الشَّیْطٰنُ : شیطان نے] [بِبَعْضِ مَا : بعض اس کے سبب سے جو] [کَسَبُوْا : انہوں نے کمایا] [وَلَـقَدْ عَفَا : اور یقینا درگزر کر چکا ہے] [اللّٰہُ : اللہ] [عَنْہُمْ: ان سے] [اِنَّ : یقینا] [اللّٰہَ : اللہ] [غَفُوْرٌ : بخشنے والا ہے] [حَلِیْمٌ : بردبار ہے]

 

 

غ ز و

 غَزَا (ن) غَزْوًا : جنگ کے لیے نکلنا‘ حملہ کرنا۔

 غَازٍی ‘ ج غُزًّی (اسم الفاعل) : جنگ کرنے والا ‘ آیت زیر مطالعہ۔

 غَزْوَۃٌ ‘ ج غَزَوَاتٌ (اسم ذات) : جنگ‘ حملہ۔ اسلامی اصطلاح میں یہ لفظ اب صرف ایسی مہم کے لیے مخصوص ہے جس میں رسول اللہ
نے بنفس نفیس شرکت کی ہو۔ یہ لفظ قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔

ترکیب : ’’ یَوْمَ‘‘ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ اِلْــتَقٰی‘‘ کا فاعل ’’ اَلْجَمْعٰنِ‘‘ ہے ‘ اس لیے رفعی حالت میں ہے۔ ’’ اِذَا‘‘ شرطیہ نہیں ہے اس لیے یہ ’’ اِذْ‘‘ کے معنی میں ہے۔ ’’ ضَرَبُوْا‘‘ کی ضمیر فاعلی ’’ ھُمْ‘‘ اور ’’ کَانُوْا‘‘ کے اسم کی ضمیر ’’ ھُمْ‘‘ یہ دونوں ’’ لِاِخْوَانِھِمْ‘‘ کے لیے ہیں۔ ’’ لِیَجْعَلَ‘‘ کا مفعولِ اوّل’’ ذٰلِکَ‘‘ ہے اور مفعول ثانی ’’ حَسْرَۃً‘‘ ہے۔

نوٹ:’’ تَوَلَّــوْا مِنْکُمْ‘‘ میں اشارہ ایسے صحابہ کرام (رض) کی طرف ہے جو میدان احد میں رسول اللہ
کی شہادت کی افواہ سن کر پسپا ہو رہے تھے لیکن اس کی تردید سن کر واپس آ گئے اور جنگ میں شرکت کی۔ اسی لیے یہاں فعل ’’ زَلَّ‘‘ (بلاارادہ پھسل جانا) باب استفعال سے آیا ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَقَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِي الْاَرْضِ اَوْ كَانُوْا غُزًّى لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَمَا قُتِلُوْا  ۚ لِيَجْعَلَ اللّٰهُ ذٰلِكَ حَسْرَةً  فِيْ قُلُوْبِھِمْ ۭ وَاللّٰهُ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ     ١٥٦؁
[یٰٓـــاَیـُّــھا الَّذِیْنَ : اے لوگو جو] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے] [لاَ تَـکُوْنُوْا : تم لوگ مت ہو جانا] [کَالَّذِیْنَ : ان کی مانند جنہوں نے] [کَفَرُوْا : کفر کیا] [وَقَالُــوْا : اور کہا] [لِاِخْوَانِہِمْ : اپنے بھائیوں کے لیے] [اِذَا : جب] [ضَرَبُوْا : وہ لوگ نکلے] [فِی الْاَرْضِ : زمین میں] [اَوْ : یا] [کَانُوْا : وہ لوگ تھے] [غُزًّی : جنگ کرنے والے ] [لَّــوْ : (کہ) اگر] [کَانُوْا : وہ لوگ ہوتے] [عِنْدَنَا : ہمارے پاس] [مَا مَاتُوْا : تو وہ نہ مرتے] [وَمَا قُـتِلُوْا: اور نہ ہی وہ قتل کیے جاتے] [لِـیَجْعَلَ : (یہ اس لیے) کہ بنائے] [اللّٰہُ : اللہ] [ذٰلِکَ : اس کو] [حَسْرَۃً : ایک حسرت] [فِیْ قُـلُوبِہِمْ : ان کے دلوں میں] [وَاللّٰہُ : اور اللہ] [یُحْیٖ : زندگی دیتا ہے] [وَیُمِیْتُ : اور وہ (ہی) موت دیتا ہے] [وَاللّٰہُ : اور اللہ] [بِمَا : اس کو جو] [تَعْمَلُوْنَ: تم لوگ کرتے ہو] [ بَصِیْرٌ: دیکھنے والا ہے]

وَلَىِٕنْ قُتِلْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ  مِّنَ اللّٰهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ     ١٥٧؁
[وَلَئِنْ : اور اگر] [قُتِلْتُمْ : تم لوگ قتل کیے جاتے ہو] [فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں] [اَوْ مُــتُّمْ : یا مرتے ہو] [لَـمَغْفِرَۃٌ : تویقینا مغفرت] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے] [وَرَحْمَۃٌ : اور رحمت] [خَیْـرٌ : بہتر ہے] [مِّمَّا : اس سے جو] [یَجْمَعُوْنَ : یہ لوگ جمع کرتے ہیں]

 

ل ی ن

 لَانَ (ض) لَـیْنًا : نرم ہونا‘ آیت زیر مطالعہ۔

 لَــیِّنٌ (صفت) : نرم‘ ملائم۔ {فَقُوْلَا لَــہٗ قَوْلًا لَّــیِّــنًا} (طٰہٰ:44) ’’ تو تم دونوں کہنا اس سے نرم بات۔‘‘

 لِیْنَـۃٌ (اسم ذات) : کھجور کا درخت (عجوہ کھجور کے علاوہ) ۔ {مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْھَا قَـآئِمَۃً} (الحشر:5) ’’ جو تم لوگوں نے کاٹا کسی کھجور کے درخت میں سے یا چھوڑا اس کو کھڑا ہوا۔‘‘

 اَلاَنَ (افعال) اِلَانَۃً : نرم کرنا۔ {وَاَلَـنَّا لَــہُ الْحَدِیْدَ} (سبا:10) ’’ اور ہم نے نرم کیا اس کے لیے لوہے کو۔‘‘

ف ظ ظ

 فَظَّ (س) فِظَاظًا : بدمزاج ہونا۔

 فَظٌّ : بدمزاج ‘ آیت زیر مطالعہ۔

غ ل ظ

 غَلَظَ (ن) وَ غَلُظَ (ک) غِلْظَۃً : موٹا ہونا‘ گاڑھا ہونا‘ سخت ہونا۔

 غِلْظَۃٌ (اسم ذات بھی ہے) : موٹا پن‘ سختی ۔ {وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً} (التوبۃ:123) ’’ اور چاہیے کہ وہ لوگ پائیں تم لوگوں میں سختی۔‘‘

 اُغْلُظْ : تو سخت ہو۔ {یٰٓـــاَیـُّـھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْـکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ} (التوبۃ:73) ’’ اے نبیؐ ‘ آپؐ جہاد کریں کافروں اور منافقوں سے اور آپؐ سخت ہوں ان پر۔‘‘

 غَلِیْظٌ ج غِلَاظٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : گاڑھا‘ سخت۔ {عَلَیْھَا مَلٰٓـئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ} (التحریم:6) ’’ اس پر فرشتے ہیں انتہائی سخت۔‘‘

 اِسْتَغْلَظَ (استفعال) اِسْتِغْلَاظًا : موٹا پن یا سختی چاہنا ‘ یعنی موٹا ہونا‘ سخت ہونا۔ {فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ} (الفتح:29) ’’ پھر وہ یعنی کھیتی موٹی ہوئی پھر وہ جمی اپنی پنڈلی پر۔‘‘

ترکیب:’’ لَمَغْفِرَۃٌ‘‘ اور ’’ رَحْمَۃٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہیں۔ ’’ خَیْرٌ‘‘ ان کی خبر ہے۔ اور یہ جملہ ’’ لَئِنْ‘‘ کا جوابِ شرط ہے۔ ’’ لاَِالٰی‘‘ میں ایک الف زیادہ لکھنا قرآن مجید کا مخصوص املا ہے۔ ’’ کُنْتَ‘‘ کی خبر اوّل ’’ فَظًّا‘‘ ہے اور ’’ غَلِیْظَ الْقَلْبِ‘‘ خبر ثانی ہے‘ اس لیے ’’ غَلِیْظَ‘‘ منصوب ہے۔ ’’ لَانْفَضُّوْا‘‘ جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔

نوٹ: رسول اللہ
کا معمول تھا کہ اہم معاملات میں آپؐ صحابہ کرام (رض)  کی رائے لیتے تھے۔ یہاں آیت 159 میں آپؐ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فیصلہ کرتے وقت ان لوگوں کی رائے بھی معلوم کرلیا کریں جو بظاہر مسلمان لیکن حقیقتاً منافق تھے۔ اس کے علاوہ سورۃ الشوریٰ کی آیت 38 میں اہل ایمان کی ایک صفت یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ ان کے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں۔ ان دومقامات سے اسلامی نظام میں مشاورت کے متعلق جو راہنمائی حاصل ہوتی ہے ‘ اس پر معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع  (رح)  نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے:

(1) قرآن و حدیث کے واضح احکام میں مشورہ کرنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً زکوٰۃ دے یا نہیں‘ حج کرنے جائے یا نہیں‘ وغیرہ۔ البتہ اس میں مشورہ کیا جا سکتا ہے کہ زکوٰۃ کو کہاں اور کن لوگوں پر خرچ کیا جائے‘ یا حج کے لیے بحری جہاز سے جائے یا ہوائی جہاز سے‘ کیونکہ یہ شرعاً اختیاری امور ہیں۔

(2) اختیاری امور میں مشورہ کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی کام کا ارادہ کرے اور باہم مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو مفید صورت کی طرف ہدایت مل جاتی ہے۔

(3) ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے۔ اسے چاہیے کہ وہی رائے دے جو اس کام میں وہ خود اپنے لیے تجویز کرتا ہے۔ اس کے خلاف کرنا خیانت ہے۔

(4) اسلامی حکومت ایک شورائی حکومت ہے جس میں امیر کا انتخاب مشورہ سے ہوتا ہے‘ خاندانی وراثت سے نہیں۔ اسلام نے حکومت میں وراثت کا اصول ختم کر کے امیر مملکت مقرر یا معزول کرنا جمہور کے اختیار میں دے دیا۔

(5) منتخب امیر مطلق العنان نہیں ہے بلکہ مشورہ لینے کا پابند ہے۔ حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ شورائیت کے بغیر خلافت نہیں ہے۔

(6) قرآن کریم کے بعض اشارات اور حدیث اور تعامل صحابہ  (رض) سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کی صورت میں امیر کسی ایک صورت کو اختیار کرسکتا ہے‘ خواہ اکثریت کے مطابق ہو یا اقلیت کے ۔ {فَاِذَا عَزَمْتَ} میں واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے‘ عَزَمْتُمْ جمع کا صیغہ نہیں آیا۔ اس اشارہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مشورہ لینے کے بعد عزم اور نفاذ صرف امیر کامعتبر ہے۔

(7) سب تدبیریں کرنے کے بعد نتیجے کے لیے بھروسہ اور تکیہ صرف اللہ پر کرو۔

وَلَىِٕنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاِالَى اللّٰهِ تُحْشَرُوْنَ    ١٥٨؁
[وَلَئِنْ : اور اگر] [مُّـتُّمْ : تم لوگ مرتے ہو] [اَوْ قُتِلْتُمْ : یا قتل کیے جاتے ہو] [لَاِالَی اللّٰہِ : تو اللہ کی طرف ہی] [تُحْشَرُوْنَ : اکٹھا کیے جائو گے]

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ    ١٥٩؁
[فَبِمَا رَحْمَۃٍ : تو اس رحمت کے سبب سے جو] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے ہے] [لِنْتَ : آپؐ نرم ہوئے] [لَـہُمْ : ان کے لیے] [وَلَـوْ کُنْتَ : اور اگر آپؐ ہوتے] [فَظًّا : بدمزاج] [غَلِیْظَ الْقَلْبِ : دل کے سخت

لاَنْـفَضُّوْا : تو یقینا یہ لوگ منتشر ہو جاتے] [مِنْ حَوْلِکَ: آپؐ کے ارد گرد سے] [فَاعْفُ : پس آپؐ درگزر کریں] [عَنْہُمْ : ان سے] [وَاسْتَغْفِرْ : اور آپؐ مغفرت مانگیں] [لَـہُمْ : ان کے لیے] [وَشَاوِرْ : اور آپؐ رائے لیں] [ہُمْ : ان سے ] [فِی الْاَمْرِ : فیصلے میں] [فَاِذَا : پھر جب] [عَزَمْتَ : آپؐ پختہ ارادہ کر لیں] [فَتَوَکَّلْ : تو آپؐ توکل کریں] [عَلَی اللّٰہِ : اللہ پر] [اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ] [یُحِبُّ : پسند کرتا ہے] [الْمُتَوَکِّلِیْنَ : توکل کرنے والوں کو]

اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۚ وَاِنْ يَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِھٖ  ۭوَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ    ١٦٠؁
[ اِنْ : اگر ] [یَّـنْصُرْکُمُ : مدد کرے تمہاری ] [اللّٰہُ : اللہ ] [فَلاَ غَالِبَ: تو کوئی بھی غلبہ پانے والا نہیں ہے] [لَــکُمْ : تم لوگوں پر] [وَاِنْ : اور اگر ] [یَّخْذُلْــکُمْ : وہ ساتھ چھوڑ دے تمہارا] [فَـمَنْ ذَا الَّذِیْ : تو کون ہے وہ جو ] [یَّـنْصُرُکُمْ : مدد کرے گا تمہاری] [مِّنْم بَعْدِہٖ : اس کے بعد ] [وَعَلَی اللّٰہِ : اور اللہ پر ہی ] [فَلْیَتَوَکَّلِ : چاہیے کہ توکل کریں ّ] [الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن لوگ]

 

خ ذ ل

 خَذَلَ (ن) خَذْلًا : ساتھ چھوڑ دینا‘ حمایت ترک کرنا‘ آیت زیر مطالعہ۔

 مَخْذُوْلٌ (اسم المفعول) : حمایت چھوڑا ہوا‘ بےبس۔ {فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا ۔ } (بنی‘ اسراء یل) ’’ نتیجتاً تو بیٹھے گا مذمت کیا ہوا‘ بےبس کیا ہوا۔‘‘

 خَذُوْلٌ (فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ) : انتہائی نازک وقت پر ساتھ چھوڑنے والا‘ عین وقت پر دغا دینے والا ۔ {وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا ۔ } (الفرقان) ’’ اور شیطان ہے انسان کے لیے انتہائی دغاباز۔‘‘

غ ل ل

 غَلَّ (ن) غَلًّا : (1) چھپانا‘ (2) طوق پہنانا‘ (3) باندھنا۔ {غُلَّتْ اَ‘ یْدِیْھِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُــوْا‘7} (المائدۃ:64) ’’ باندھے گئے ان کے ہاتھ اس کے سبب سے جو انہوں نے کہا۔‘‘

 مَغْلُوْلَـۃٌ (اسم المفعول) : بندھا ہوا۔ {وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَــۃٌط} (المائدۃ:64) ’’ اور کہا یہودیوں نے اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔‘‘

 غُلُّ (فعل امر) : تو طوق پہنا‘ تو باندھ۔ {خُذُوْہُ فَغُـلُّوْہُ ۔ } (الحاقۃ) ’’ تم لوگ پکڑو اس کو پھر طوق پہنائو اس کو۔‘‘

 غَلٌّ ج اَغْلَالٌ (اسم ذات) : طوق۔ {اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ اَغْلٰلًا} (یٰسٓ:8) ’’ بے شک ہم نے بنائے ان کی گردنوں میں کچھ طوق۔‘‘

 غَلَّ (ض) غِلًّا : دل میں کینہ یا کدورت ہونا۔

 غِلٌّ (اسم ذات) : کینہ‘ کدورت۔ {وَلَا تَجْعَلْ فِیْٓ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا} (الحشر:10) ’’ اور تو مت بنا ہمارے دلوں میں کوئی کدورت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے۔‘‘

س خ ط

 سَخِطَ (س) سَخْطًا : غصہ کرنا‘ ناراض ہونا۔ {لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَھُمْ اَنْفُسُھُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ} (المائدۃ:80) ’’ کتنا برا ہے وہ جو آگے بھیجا اپنے لیے خود انہوں نے کہ غصہ کرے اللہ ان پر۔‘‘

 سَخَطٌ (اسم ذات) : غصہ‘ ناراضگی۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَسْخَطَ (افعال) اِسْخَاطًا : کسی کو غصہ دلانا‘ ناراض کرنا۔ {ذٰلِکَ بِاَنَّھُمُ اتَّـبَعُوْا مَـآ اَسْخَطَ اللّٰہَ} (محمد:28) ’’ یہ اس سبب سے کہ انہوں نے پیروی کی اس کی جو غصہ دلائے اللہ کو۔‘‘

 

ترکیب:’’ فَــلَا غَالِبَ‘‘ پر لائے نفی جنس ہے۔ ’’ اَنْ یَّغُلَّ‘‘ کا مفعول محذوف ہے جو کہ ’’ شَیْئًا‘‘ ہو سکتا ہے۔ ’’ تُوَفّٰی‘‘ واحد مؤنث غائب کا مجہولی صیغہ ہے اور ’’ کُلُّ نَفْسٍ‘‘ اس کا نائب الفاعل ہے اس لیے ’’ کُلُّ‘‘ مرفوع ہے ۔’’ مَاْوٰٹہُ‘‘ مبتدأ اور ’’ جَھَنَّمُ‘‘ اس کی خبر ہے۔

 نوٹ :{وَمَا کَانَ لِنَبِیِّ اَنْ یَّـغُلَّ}کے شان نزول کے ضمن میں کچھ مفسرین نے اس روایت کا ذکر کیا ہے جس میں جنگ بدر کے مال غنیمت میں سے ایک چادر کے گم ہو جانے کا ذکر ہے۔ لیکن یہاں جنگ احد کے واقعات پر تبصرہ ہو رہا ہے۔ اس لیے اس بات کو ذہن قبول نہیں کرتا۔ البتہ اس کے شان نزول میں تفہیم القرآن میں جس روایت کا ذکر ہے وہ زیادہ قرین قیاس ہے۔

 جنگ ختم ہونے کے بعد نبی
مدینہ واپس تشریف لائے تو آپؐ نے تیر اندازوں کو بلا کر ان سے حکم عدولی کی وجہ دریافت فرمائی۔ ان لوگوں نے جواب میں کچھ عذر پیش کیے جو نہایت کمزور تھے۔ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: (بَلْ ظَنَنْتُمْ أَنَّا نَغُلُّ وَلَانَقْسِمُ لَــکُمْ) بلکہ تم لوگوں نے گمان کیا کہ میں چھپائوں گا اور تقسیم نہیں کروں گا تم لوگوں میں یعنی مال غنیمت‘‘ ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّغُلَّ ۭ وَمَنْ يَّغْلُلْ يَاْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفّٰي كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ    ١٦١؁
[وَمَا کَانَ : اور نہیں ہے ] [لِنَبِیٍّ : کسی نبی کے لیے ] [اَنْ یَّغُلَّ : کہ وہ چھپائے (کچھ بھی) ] [وَمَنْ : اور جو کوئی ] [یَّـغْلُلْ : چھپائے گا ] [یَاْتِ : تو وہ لائے گا ] [بِمَا : اس کو جو] [غَلَّ : اس نے چھپایا] [یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن] [ثُمَّ : پھر] [تُوَفّٰی : پور اپورا دیا جائے گا] [کُلُّ نَفْسٍ : ہر نفس کو ] [مَّا : جو ] [کَسَبَتْ : اس نے کمایا] [وَہُمْ : اور وہ ] [لاَ یُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے]

اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّٰهِ كَمَنْۢ بَاۗءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ  ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ     ١٦٢؁
[اَفَمَنِ : تو کیا وہ جس نے ] [اتَّــبَعَ : پیروی کی ] [رِضْوَانَ اللّٰہِ : اللہ کی رضا کی ] [کَمَنْ : اس کی مانند ہے جو ] [بَــآئَ : لوٹا] [بِسَخَطٍ : ایک ایسے غصے کے ساتھ جو ] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے ہے ] [وَمَاْوٰٹہُ : اور اس کی منزل ] [جَہَنَّمُ : جہنم ہے ] [وَبِئْسَ : اور کتنی بری ہے ] [الْمَصِیْرُ : لوٹنے کی جگہ (وہ)

ھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ    ١٦٣؁
[ہُمْ : ان کے (لیے) ] [دَرَجٰتٌ: درجات ہیں] [ عِنْدَ اللّٰہِ : اللہ کے پاس ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [بَصِیْرٌ : دیکھنے والا ہے ] [بِمَا : اس کو جو ] [یَعْمَلُوْنَ: یہ لوگ کرتے ہیں]

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِھٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ  ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ    ١٦٤؁
[لَـقَدْ مَنَّ : احسان کیا ہے ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ : مؤمنوں پر] [اِذْ : جب] [بَعَثَ : اس نے بھیجا] [فِیْہِمْ : ان میں ] [رَسُوْلاً : ایک رسول ] [مِّنْ اَنْفُسِہِمْ : ان کے اپنوں میں سے] [یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ : وہ پڑھ کر سناتا ہے ان کو] [اٰیٰـتِہٖ : اس کی آیات ] [وَیُزَکِّیْہِمْ : اور وہ تزکیہ کرتا ہے ان کا] [وَیُـعَلِّمُہُمُ : اور وہ تعلیم دیتا ہے ان کو] [الْـکِتٰبَ : کتاب کی ] [وَالْحِکْمَۃَ : اور حکمت کی ] [وَاِنْ کَانُوْا : اور بےشک وہ تھے ] [مِنْ قَـبْلُ : اس سے پہلے ] [لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ: لازماً ایک کھلی گمراہی میں]

 

ترکیب:’’ یَتْلُوْا‘ یُزَکِّیْ‘‘ اور ’’ یُعَلِّمُ‘‘ کی ضمیر فاعلی ’’ رَسُوْلًا‘‘ کے لیے ہیں‘ جبکہ ’’ اٰیٰـتِہٖ‘‘ میں ضمیر ’’ اللّٰہُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اِنْ کَانُوْا‘‘ کا’’ اِنْ‘‘ مخففہ ّہے۔ ’’ اَصَبْتُمْ‘‘ کا مفعول ’’ مِثْلَیْھَا‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’ مِثْلَیْنِ‘‘ تھا۔ مضاف ہونے کی وجہ سے نونِ اعرابی گرا ہوا ہے اور ’’ ھَا‘‘ کی ضمیر ’’ مُصِیْـبَۃٌ‘‘ کے لیے ہے۔

اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْھَا  ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَا  ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ     ١٦٥؁
[اَوَلَمَّـآ: تو کیا جب ] [اَصَابَتْـکُمْ : آ پہنچی تم کو] [مُّصِیْـبَـۃٌ : کوئی مصیبت‘] [قَدْ اَصَبْتُمْ : (حالانکہ) تم لوگ پہنچا چکے ہو] [مِّثْـلَیْہَا : اس (مصیبت) سے دوگنا] [قُـلْتُمْ : (تو) تم لوگوں نے کہا] [اَنّٰی ہٰذَا: یہ کہاں سے ہے

قُلْ : آپؐ ‘ کہہ دیجیے] [ہُوَ : یہ ] [مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ: تمہارے اپنے پاس سے ہے] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ] [عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ : ہر چیز پر ] [قَدِیْـرٌ : قدرت رکھنے والا ہے]

وَمَآ اَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِيْنَ    ١٦٦؁ۙ
[وَمَـآ : اور جو ] [اَصَابَکُمْ : آ پہنچی تم لوگوں کو] [یَوْمَ : اس دن (جب) ] [الْـتَقَی : آمنے سامنے ہوئیں

الْجَمْعٰنِ : دو جماعتیں] [فَبِاِذْنِ اللّٰہِ: تو (وہ) اللہ کی اجازت سے ہے] [وَلِیَعْلَمَ : اور تاکہ وہ جان لے ] [الْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان لانے والوں کو]

 

ترکیب :’’ فِبِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘ میں ’’ ھُوَ‘‘ محذوف ہے یعنی یہ ’’ فَھُوَ بِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘ ہے اور ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ’’ مَا‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ لَّا اتَّــبَـعْنٰـکُمْ‘‘ میں ’’ لَا‘‘ نافیہ نہیں ہے بلکہ یہ جوابِ شرط کا لامِ تاکید ہے۔ اس کے ساتھ الف زائدہ لکھنا قرآن مجید کی مخصوص املا ہے۔’’ ھُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ مِنْھُمْ لِلْاِیْمَانِ‘‘۔ یہ جملہ ایک خاص ادبی ترکیب کا ہے۔ مولوی عبدالستار صاحب نے اپنی کتاب ’’ عربی کا معلم‘‘ میں یہ ترکیب پڑھائی ہے ۔ لیکن ’’ آسان عربی گرامر‘‘ میں ہم نے اس کو چھوڑ دیا ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید میں اس کا استعمال کم ہے۔ اس لیے یہاں بھی اس کی ترکیب چھوڑ رہے ہیں۔ ’’ لَــیْسَ‘‘ کا اسم ’’ مَا‘‘ ہے اور اس کی خبر ’’ مَوْجُوْدًا‘‘ محذوف ہے۔

 

 نوٹ: ’’ لَـوْ نَـعْلَمُ قِتَالاً لاَّ تَّــبَعْنٰــکُمْ ‘‘ یہ منافقین کا قول تھا اور انہوں نے یہ ذومعانی بات کی تھی جس کے کئی معانی ہو سکتے ہیں مثلاً: (1) لڑائی ہوتی نظر نہیں آتی۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ لڑائی ہونے والی ہے تو ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔ (2) یہ کوئی مقابلہ ہے کہ ایک طرف تین ہزار کا لشکر اور دوسری طرف صرف ایک ہزار بےسروسامان آدمی۔ یہ لڑائی تو نہیں ہے محض اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ (3) مدینہ میں رہ کر جنگ کرنے کا ہمارا مشورہ نہیں مانا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کے فنون اور قواعد سے ہم واقف نہیں ہیں۔ اگر واقف ہوتے تو ضرور ساتھ دیتے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

وَلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ نَافَقُوْا ښ وَقِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَوِ ادْفَعُوْا  ۭ قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّااتَّبَعْنٰكُمْ  ۭھُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَىِٕذٍ اَقْرَبُ مِنْھُمْ لِلْاِيْمَانِ ۚ يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ ۭوَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ    ١٦٧؁ۚ
[وَلِیَعْلَمَ : اور تاکہ وہ جان لے ] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کو جنہوں نے] [نَافَقُوْا : نفاق کیا ] [وَقِیْلَ : اور کہا گیا] [لَہُمْ : ان سے ] [تَـعَالَــوْا : تم لوگ آئو ] [قَاتِلُوْا : قتال کرو] [فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [اَوِ ادْفَعُوْا : یا دفاع کرو] [قَالُـوْا : انہوں نے کہا] [لَـوْ نَعْلَمُ : اگر ہم جانتے ] [قِتَالاً : قتال کو] [لاَّتَّــبَعْنٰــکُمْ: توہم ضرور پیروی کرتے تمہاری] [ہُمْ : وہ لوگ ] [لِلْکُفْرِ: کفر کے ] [یَوْمَئِذٍ : اس دن ] [اَقْرَبُ : زیادہ قریب تھے ] [مِنْہُمْ لِلْاِیْمَانِ : اپنے لیے ایمان کی بنسبت] [یَـقُوْلُوْنَ : وہ لوگ کہتے ہیں] [بِاَفْوَاہِہِمْ : اپنے مونہوں سے] [مَّا: وہ‘ جو] [لَــیْسَ: نہیں ہے ] [فِیْ قُلُوْبِہِمْ : ان کے دلوں میں ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [اَعْلَمُ : زیادہ جانتا ہے ] [بِمَا : اس کو جو ] [یَکْتُمُوْنَ: وہ لوگ چھپاتے ہیں]

اَلَّذِيْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَقَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا  ۭ قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ     ١٦٨؁
[اَلَّذِیْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ] [قَالُوْا : کہا] [لِاِخْوَانِہِمْ : اپنے بھائیوں کے لیے ] [وَ : اس حال میں کہ ] [قَـعَدُوْا : وہ (خود) بیٹھ رہے] [لَــوْ : اگر] [اَطَاعُوْنَا : وہ لوگ اطاعت کرتے ہماری] [مَا قُتِلُوْا : تو وہ قتل نہ کیے جاتے] [قُلْ : آپؐ ‘ کہہ دیجیے ] [فَادْرَئُ وْا : تو تم لوگ ہٹا لو] [عَنْ اَنْفُسِکُمُ : اپنی جانوں سے ] [الْمَوْتَ : موت کو ] [اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ ہو ] [صٰدِقِیْنَ : سچ کہنے والے ]

 

ل ح ق

 لَحِقَ (س) لَحْقًا : کسی سے جڑ جانا‘ مل جانا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَلْحَقَ (افعال) اِلْحَاقًا : کسی کو کسی سے ملا دینا۔ {اَرُوْنِیَ الَّذِیْنَ اَلْحَقْتُمْ بِہٖ} (سبا:27) ’’ تم لوگ دکھائو مجھے ان لوگوں کو جن کو تم لوگوں نے ملایا اس کے ساتھ۔‘‘

 اَلْحِقْ (فعل امر) : تو جوڑ دے‘ تو ملا دے ۔ {فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِقف اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِج تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ ۔ } (یوسف) ’’ اے پیداکرنے والے آسمانوں اور زمین کے‘ تو میرا کارساز ہے دنیا میں اور آخرت میں ‘ تو وفات دے مجھ کو مسلمان ہوتے ہوئے اور تو ملا دے مجھ کو صالحین کے ساتھ۔‘‘

ترکیب: ’’ وَقَعَدُوْا‘‘ کا ’’ وَاوْ‘‘ حالیہ ہے اور یہ’’ قَـالَـوْا‘‘ کی ضمیر فاعلی ’’ ھُمْ‘‘ کا حال ہے‘ ’’ اِخْوَانِھِمْ‘‘ کا حال نہیں ہے۔ ’’ اَطَاعُوْا‘‘ کی ضمیر فاعلی ’’ اِخْوَانِھِمْ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ لَا تَحْسَبَنَّ‘‘ کا مفعول اوّل ’’ اَلَّـذِیْنَ قُتِلُوْا‘‘ ہے اور ’’ اَمْوَاتًا‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ اَحْیَائٌ‘‘ خبر ہے اور اس کا مبتدأ’’ ھُمْ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ اَمْوَاتًا‘‘ اور ’’ اَحْیَائٌ‘‘ جمع ہیں ‘ لیکن اردو محاورے کی وجہ سے ان کا ترجمہ واحد میں ہو گا۔ ’’ فَرِحِیْنَ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے حالت ِ نصب میں ہے۔ ’’ اَلَّا‘‘ عطف ہے ’’ بِالَّذِیْنَ‘‘ کے حرفِ جار ’’ بِ‘‘ پر۔ یعنی یہ دراصل ’’ بِاَنْ لَا‘‘ ہے۔ ’’ خَوْفٌ‘‘ مبتدأ نکرہ ہے اور اس کی خبر محذوف ہے۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ    ١٦٩؁ۙ
[وَلاَ تَحْسَبَنَّ : اور تو ہرگز گمان مت کر ] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کو جو ] [قُتِلُوْا : قتل کیے گئے ] [فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [اَمْوَاتًا : مردہ ] [بَلْ : بلکہ ] [اَحْیَــآئٌ : (وہ) زندہ ہیں ] [عِنْدَ رَبِّہِمْ : اپنے رب کے پاس

یُرْزَقُوْنَ : ان لوگوں کو رزق دیا جاتا ہے ]

 

 

 نوٹ: آیت 169 میں شہداء کی فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں۔ جبکہ بظاہر ان کا مرنا اور قبر میں دفن ہونا مشاہد اور محسوس ہے۔ پھر قرآن مجید میں ان کو مردہ نہ کہنے اور نہ سمجھنے کی جو ہدایات آئی ہیں ان کا کیا مطلب ہے۔ اگر کہا جائے کہ حیاتِ برزخی مراد ہے‘ تو وہ ہر مومن و کافر کو حاصل ہے۔ پھر شہداء کی کیا خصوصیت ہوئی؟ اس آیت میں اس کا یہ جواب دیا گیا کہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے اور رزق زندہ آدمی کو ملا کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس دنیا سے منتقل ہوتے ہی شہداء کے لیے جنت کا رزق جاری ہو جاتا ہے اور ایک خاص قسم کی زندگی ان کو مل جاتی ہے جو عام مردوں ُسے ممتاز حیثیت کی ہے۔ وہ زندگی کیسی ہے؟ اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ نہ کوئی جان سکتا ہے اور نہ ہی جاننے کی ضرورت ہے۔ (معارف القرآن)

فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھٖ ۙ وَيَسْـتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِيْنَ لَمْ يَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ    ١٧٠؁ۘ
[فَرِحِیْنَ: اس حال میں کہ بہت ہی خوش ہیں] [بِمَآ : اس سے جو ] [اٰتٰـٹہُمُ : دیا ان کو ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [مِنْ فَضْلِہٖ : اپنے فضل سے ] [وَیَسْتَـبْشِرُوْنَ: اور وہ لوگ خوشی مناتے ہیں] [بِالَّذِیْنَ : ان لوگوں کی جو ] [لَمْ یَلْحَقُوْا : (ابھی) نہیں جڑے] [بِہِمْ : ان سے ] [مِّنْ خَلْفِہِمْ : ان کے پیچھے (رہ جانے والوں میں) سے ] [اَلاَّ خَوْفٌ : (اور یہ کہ) کوئی خوف نہیں ہے] [عَلَـیْہِمْ : ان پر ] [وَلاَ ہُمْ : اور نہ ہی وہ لوگ ] [یَحْزَنُوْنَ : پچھتاتے ہیں ]

يَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ    ١٧١؁ڧ
[یَسْتَـبْشِرُوْنَ : وہ لوگ خوشی مناتے ہیں] [بِنِعْمَۃٍ : ایک ایسی نعمت کی جو ] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے ہے ] [وَفَضْلٍ : اور فضل کی ] [وَّاَنَّ : اور یہ کہ ] [اللّٰہَ : اللہ ] [لاَ یُضِیْعُ : ضائع نہیں کرتا ] [اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ: ایمان لانے والوں کے اجر کو]

اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ  لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ     ١٧٢؁ۚ
[ اَلَّـذِیْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ] [اسْتَجَابُوْا : کہا مانا] [لِلّٰہِ : اللہ کا ] [وَالرَّسُوْلِ : اور رسول
کا] [مِنْم بَعْدِ مَــآ : اس کے بعد کہ جو ] [اَصَابَہُمُ : آ پہنچا ان کو ] [الْقَرْحُ : چرکہ] [لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے جنہوں نے] [اَحْسَنُوْا : درجہ ٔ‘ احسان پر کام کیا ] [مِنْہُمْ : ان میں سے] [وَاتَّـقَوْا : اور تقویٰ اختیار کیا] [اَجْرٌ عَظِیْمٌ : ایک شاندار بدلہ ہے

 

ترکیب: ’’ اَلْقَرْحُ‘‘ پر لام تعریف ہے۔ ’’ اَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ لِلَّذِیْنَ‘‘ سے ’’ وَاتَّـقَوْا‘‘ تک قائم مقام خبر مقدم ّہے۔ ’’ فَزَادَ‘‘ کی ضمیر فاعلی ’’ ھُوَ‘‘ ’’ قَالَ‘‘ کے مقولہ محذوف ’’ قَوْلًا‘‘ کے لیے ہے‘ ’’ ھُمْ‘‘ اس کا مفعول ہے اور ’’ اِیْمَانًا‘‘ تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ‘‘ مرکب اشاری اور مبتدأ ہے‘ ’’ یُخَوِّفُ اَوْلِیَائَ‘ ہٗ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ یُخَوِّفُ‘‘ کا مفعول اوّل ’’ کُمْ‘‘ محذوف ہے اور’’ اَوْلِـیَائَ ہٗ‘‘ اس کا مفعول ثانی ہے۔

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا ڰ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ    ١٧٣؁
[اَلَّذِیْنَ : وہ لوگ ] [قَالَ : کہا] [لَہُمُ : جن سے ] [النَّاسُ : لوگوں نے ] [اِنَّ : کہ ] [النَّاسَ : لوگوں نے ] [قَدْ جَمَعُوْا : جمع کی ہے (قوت) ] [لَــکُمْ : تمہارے لیے ] [فَاخْشَوْہُمْ : پس تم لوگ ڈرو ان سے] [فَزَادَہُمْ : تو اس (بات) نے زیادہ کیا ان کو] [اِیْمَانًا : ایمان کے لحاظ سے] [وَّقَالُــوْا : اور انہوں نے کہا] [حَسْبُـنَا : ہم کو کافی ہے ] [اللّٰہُ : اللہ ] [وَنِعْمَ : اور کتنا اچھا ہے (وہ) ] [الْوَکِیْلُ : وکیل ]

 

نوٹ: مسلمانوں نے میدان احد سے واپس آ کر رات ہنگامی حالت میں گزاری۔ جنگ نے انہیں چور چور کر رکھا تھا ‘ اس کے باوجود وہ رات بھر مدینے کی گزرگاہوں پر پہرہ دیتے رہے اور رسول اللہ
کی خصوصی حفاظت پر تعینات رہے ‘ کیونکہ انہیں ہر طرف سے خدشات لاحق تھے۔ ادھر رسول اللہ بھی پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتے رہے۔ انہیں خیال ہوا کہ اگر مشرکین نے اس صورت حال پر غور کیا تو یقینا وہ راستے سے پلٹ کر مدینہ پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ چنانچہ آپؐ نے علی الصبح اعلان فرمایا کہ مکی لشکر کے تعاقب میں چلنا ہے۔ حالانکہ مسلمان زخموں سے چور اور غم سے نڈھال تھے پھر بھی سب نے بلاتردّد سر اطاعت خم کردیا اور رسول اللہ مسلمانوں کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ مدینے سے آٹھ میل دور ’ حمراء الاسد‘ کے مقام پر خیمہ زن ہوئے۔ یہاں پر معبد بن ابی معبد خزاعی نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا۔ مشرکوں کو ابھی اس کی خبر نہیں تھی اس لیے آپؐ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ ابوسفیان کے پاس جائیں اور مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے کی حوصلہ شکنی کریں۔

 دوسری طرف مشرکین نے مدینہ سے 36 میل دور ’ روحاء ‘ کے مقام پر جب جنگ کی صورت حال پر غور کیا تو انہیں ندامت ہوئی کہ جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد وہ مسلمانوں کو کیوں چھوڑ آئے۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مدینہ واپس چل کر مسلمانوں کا جڑ سے صفایا کردیا جائے۔ یہ لوگ روانہ ہونے والے تھے کہ معبد بن ابی معبد خزاعی پہنچ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ مسلمان تمہارے تعاقب میں آ رہے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر مکی لشکرکے حوصلے پست ہو گئے اور انہوں نے مکہ کی طرف واپسی کا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی وقت ان کے پاس سے قبیلہ عبدالقیس کا ایک قافلہ گزرا۔ ابوسفیان نے انعام و اکرام کے وعدہ پر قافلے کے لوگوں سے کہا کہ وہ مسلمانوں کو یہ خبر پہنچا دیں کہ انہوں نے دوبارہ پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان ان کا تعاقب نہ کریں۔ چنانچہ یہ قافلہ جب حمراء الاسد پہنچا تو انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ لوگ‘ تمہارے خلاف جمع ہیں ان سے ڈرو۔ یہ بات سن کر مسلمانوں کے ایمان میں اضافہ ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ۔ چند روز مکی لشکر کا انتظار کرنے کے بعد رسول اللہ
‘ مدینہ واپس آگئے۔

فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوْۗءٌ  ۙ وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ     ١٧٤؁
[فَانْقَلَـبُوْا : پھر وہ لوگ پلٹے ] [بِنِعْمَۃٍ : ایک ایسی نعمت کے ساتھ جو] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے تھی] [وَفَضْلٍ : اور کچھ فضل کے ساتھ ] [لَّـمْ یَمْسَسْہُمْ : چھوا ہی نہیں ان کو] [سُوْٓئٌ : کسی برائی نے ] [وَّاتَّـبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی ] [رِضْوَانَ اللّٰہِ : اللہ کی خوشنودی کی ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ : عظیم فضل والا ہے ]

اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَهٗ  ۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ    ١٧٥؁
[اِنَّمَا : کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ : یہ شیطان] [یُخَوِّفُ : خوفزدہ کرتا ہے (تم لوگوں کو) ] [اَوْلِیَـآئَ‘ ہٗ: اپنے چیلوں سے] [فَلاَ تَخَافُوْہُمْ: پس تم لوگ مت ڈرو ان سے] [وَخَافُوْنِ : اور ڈرو مجھ سے

اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ ہو ] [مُّـؤْمِنِیْنَ: ایمان لانے والے ]

وَلَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ  ۚ اِنَّھُمْ لَنْ يَّضُرُّوا اللّٰهَ شَـيْــــًٔـا  ۭ يُرِيْدُ اللّٰهُ اَلَّا يَجْعَلَ لَھُمْ حَظًّا فِي الْاٰخِرَةِ  ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ      ١٧٦؁
[وَلاَ یَحْزُنْکَ : اور غمگین نہ کریں آپ کو] [الَّذِیْنَ : وہ لوگ جو ] [یُسَارِعُوْنَ : باہم سبقت کرتے ہیں] [فِی الْْکُفْرِ : کفر میں ] [اِنَّـہُمْ : یقینا وہ لوگ] [لَنْ یَّضُرُّوا : ہرگز نقصان نہیں کریں گے] [اللّٰہَ : اللہ کا] [شَیْئًا : ذرہ برابر] [یُرِیْدُ : ارادہ کرتا ہے ] [اللّٰہُ : اللہ ] [اَلاَّ یَجْعَلَ : کہ وہ نہ بنائے ] [لَہُمْ : ان کے لیے ] [حَظًّا : کوئی حصہ ] [فِی الْاٰخِرَۃِ : آخرت میں ] [وَلَہُمْ : اور ان کے لیے ] [عَذَابٌ عَظِیْمٌ : ایک عظیم عذاب ہے ]

 

ح ظ ظ

 حَظَّ (س) حَظًّا : کسی چیز میں حصہ دار ہونا‘ نصیب والا ہونا۔

 حَظٌّ (اسم ذات) : کسی چیز میں مقررہ حصہ‘ نصیب۔ آیت زیر مطالعہ۔

م ل و

 مَلَا (ن) مَلْوًا : (1) تیز چلنا‘ دوڑنا۔ (2) زمانہ یا مدت کا دراز ہونا۔

 مَلِیٌّ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : زندگی کی مدت‘ ہمیشہ کے لیے۔ {وَاھْجُرْنِیْ مَلِیًّا ۔ } (مریم) ’’ اور تو چھوڑ مجھ کو ہمیشہ کے لیے۔‘‘

 اَمْلٰی (افعال) اِمْلَائً : پائوں کے بندھن کو ڈھیلا کر کے چھوڑ دینا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے: (1) ڈھیل دینا‘ مہلت دینا۔ آیت زیر مطالعہ۔ (2) درازی ٔ عمر کی امید دلانا۔ {اَلشَّیْطٰنُ سَوَّلَ لَھُمْط وَاَمْلٰی لَھُمْ ۔ } (محمد) ’’ شیطان نے فریب دیا ان کو اور درازی ٔ عمر کی امید دلائی انہیں‘‘۔ (3) عبارت پڑھ کر سنانا یا لکھوانا۔ {وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَـبَھَا فَھِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا } (الفرقان) ’’ انہوں نے کہا پہلوں کے قصے ہیں‘ اس نے تالیف کیا ہے انہیں‘ پس وہ پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اس پر صبح و شام۔‘‘

ترکیب:’’ لَا یَحْزُنْ‘‘ کا فاعل ’’ اَلَّذِیْنُ یُسَارِعُوْنَ‘‘ ہے ۔ ’’ اَنَّمَا‘‘ دراصل ’’ اَنَّ مَا‘‘ ہے ‘ جبکہ ’’ اِنَّمَا‘‘ میں’’ مَا‘‘ کافہ ّہے (دیکھیں البقرۃ:12‘ نوٹ 2) ۔ ’’ لِیَزْدَادُوْا‘‘ دراصل مادہ ’’ ز ی د‘‘ سے بابِ افتعال کا مضارع منصوب ہے اور قاعدے کے مطابق اس کی تا کو دال میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ’’ اِثْمًا‘‘ تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ لَنْ يَّضُرُّوا اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا  ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ      ١٧٧؁
[اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک جنہوں نے ] [اشْتَرَوُا : خریدا] [الْکُفْرَ : کفر کو ] [بِالْاِیْمَانِ : ایمان کے بدلے ] [لَنْ یَّضُرُّوا: وہ لوگ ہرگز نقصان نہ کریں‘ گے] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [شَیْئًا : کچھ بھی ] [وَلَہُمْ : اور ان کے لیے

عَذَابٌ اَلِیْمٌ : ایک دردناک عذاب ہے]

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ ۭ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا  ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ     ١٧٨؁
[وَلاَ یَحْسَبَنَّ : اور ہرگز گمان نہ کریں] [الَّذِیْنَ : وہ لوگ جنہوں نے] [کَفَرُوْٓا : کفر کیا ] [اَنَّـمَا : کہ جو ] [نُمْلِیْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں ] [لَہُمْ : ان کو ] [خَیْرٌ: (وہ) بہتر ہے ] [لّاَِنْفُسِہِمْ : ان کی جانوں کے لیے ] [اِنَّمَا : کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] [نُمْلِیْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں] [لَـہُمْ : ان کو ] [لِیَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ زیادہ ہوں] [اِثْمًا : بلحاظ گناہ کے ] [وَلَـہُمْ : اور ان کے لیے ] [عَذَابٌ مُّہِیْنٌ: ایک رسوا کن عذاب ہے ]

مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِھٖ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِھٖ ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌ      ١٧٩؁
[مَا کَانَ : نہیں ہے ] [اللّٰہُ : اللہ ] [لِـیَذَرَ : کہ وہ چھوڑ دے] [الْمُؤْمِنِیْنَ : مؤمنوں کو ] [عَلٰی مَـآ : اس پر ] [اَنْتُمْ : تم لوگ ہو ] [عَلَیْہِ : جس پر ] [حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [یَمِیْزَ : وہ نمایاں کر دے ] [الْخَبِیْثَ : ناپاک کو ] [مِنَ الطَّـیِّبِ : پاکیزہ سے ] [وَمَا کَانَ : اور نہیں ہے ] [اللّٰہُ : اللہ ] [لِیُطْلِعَکُمْ : کہ وہ آگاہ کرے تم لوگوں کو] [عَلَی الْغَیْبِ : غیب پر ] [وَلٰــکِنَّ : اور لیکن ] [اللّٰہَ : اللہ ] [یَجْتَبِیْ : منتخب کرتا ہے ] [مِنْ رُّسُلِہٖ : اپنے رسولوں میں سے ] [مَنْ : جس کو ] [یَّشَآئُ : وہ چاہتاہے ] [فَاٰمِنُوْا : پس تم لوگ ایمان لائو ] [بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [وَرُسُلِہٖ : اور اس کے رسولوں پر ] [وَاِنْ تُـؤْمِنُوْا : اور اگر تم لوگ ایمان لائو ] [وَتَـتَّقُوْا : اور تقویٰ اختیار کرو] [فَـلَـکُمْ : تو تمہارے لیے ] [اَجْرٌ عَظِیْمٌ : ایک شاندار بدلہ ہے ]

 

م ی ز

 مَازَ (ض) مَیْزًا : کسی کو کسی سے الگ کرنا‘ نمایاں کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 تَمَیَّزَ (تفعّل) تَمَیُّزًا : پھٹ کر الگ ہونا‘ پھٹ پڑنا۔ {تَـکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِط} (الملک:8) ’’ قریب ہے کہ وہ پھٹ پڑے شدید غصے سے۔‘‘

 اِمْتَازَ (افتعال) اِمْتِیَازًا : کسی سے الگ ہونا‘ نمایاں ہونا۔

 اِمْتَزْ (فعل امر) : تو الگ ہو۔ {وَامْتَازُوا الْـیَوْمَ اَیـُّـھَا الْمُجْرِمُوْنَ ۔ } (یٰسٓ) ’’ تم لوگ الگ ہو آج کے دن اے جرم کرنے والو۔‘‘

ط ل ع

 طَلَعَ (ن) طُلُوْعًا : بلند ہو کر سامنے آنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے۔ مثلاً: (1) چڑھنا‘ (2) نکلنا۔ {وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ} (الکہف:17) ’’ اور تم دیکھتے ہو سورج کو جب وہ نکلتا ہے۔‘‘

 طَلْعٌ (اسم ذات) : پھل نکلنے کا خوشہ‘ کونپل۔ {وَزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْعُھَا ھَضِیْمٌ ۔ } (الشعرائ) ’’ اور کھیتیوں میں اور کھجوروں میں جن کی کونپل ملائم ہے۔‘‘

 مَطْلَعٌ اور مَطْلِـعٌ (اسم الظرف) : نکلنے کی جگہ‘ وقت۔ {حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ۔ } (القدر) ’’ فجر کے نکلنے کے وقت تک‘‘۔ {حَتّٰی اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ} (الکہف:90) ’’ یہاں تک کہ جب وہ پہنچا سورج کے نکلنے کی جگہ پر۔‘‘

 اَطْلَعَ (افعال) اِطْلَاعًا : بلند کر کے سامنے لانا یعنی کسی کو کسی بات سے آگاہ کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِطَّلَعَ (افتعال) اِطِّلَاعًا : (1) چڑھنا۔ (2) کسی چیز پر چڑھ کر جھانکنا۔ (3) آگاہ ہونا۔ {نَارُ اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ ۔ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْـــٔـِدَۃِ ۔ } (الھمزۃ) ’’ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ جو چڑھتی ہے دلوں پر‘‘۔ {فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْ اَطَّلِعُ اِلٰی اِلٰـہِ مُوْسٰیلا} (القصص:38) ’’ پھر تو بنا میرے لیے ایک بلند مکان شاید کہ میں جھانکوں موسیٰ کے الٰہ کی طرف‘‘۔{وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَـآئِنَۃٍ مِّنْھُمْ} (المآئدہ:13) ’’ اور تم ہمیشہ آگاہ رہو گے کسی خیانت پر ان کی طرف سے۔‘‘

 مُطَّلِـعٌ (اسم الفاعل) : جھانکنے والا‘ آگاہ ہونے والا۔ {ھَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ ۔ } (الصّٰفّٰتٓ) ’’ کیا تم لوگ جھانکنے والے ہو۔‘‘

ج ب ی

 جَبٰی (ض) جِبَایَۃً : ُچن کر اکٹھا کرنا‘ جیسے پھل یا چندہ وغیرہ۔ {یُّجْبٰی اِلَـیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْئٍ} (القصص:57) ’’ اکٹھا کیے جاتے ہیں اس کی طرف ہر چیز کے پھل۔‘‘

 جِیَابَۃً ج جَوَّابٍ (اسم ذات) : پانی اکٹھا کرنے کا حوض۔ {وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ} (سبا:13) ’’ اور لگن حوضوں کی مانند۔‘‘

 اِجْتَبٰی (افتعال) اِجْتِبَائً : (1) اہتمام سے ُچن لینا‘ منتخب کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔ (2) کسی کو نوازنا۔ {ثُمَّ اجْتَبٰـٹہُ رَبُّـہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَھَدٰی۔} (طٰہٰ) ’’ پھر نوازا ان کو ان کے رب نے ‘ تو اس نے توبہ قبول کی ان کی اور ہدایت دی‘‘۔ (3) کوئی مضمون تصنیف کرنا یعنی الفاظ اکٹھا کرنا۔ {وَاِذَا لَمْ تَاْتِھِمْ بِاٰیَۃٍ قَالُوْا لَــوْ لاَ اجْتَـبَیْتَھَاط} (الاعراف:203) ’’ اور جب کبھی آپ نہیں لاتے کوئی آیت تو وہ لوگ کہتے ہیں کیوں نہیں آپ نے تصنیف کیا اس کو۔‘‘

ب خ ل

 بَخِلَ (س) بَخَلًا : جائز ضرورت پر خرچ نہ کرنا‘ کنجوسی کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 بُخْلٌ (اسم ذات) : کنجوسی۔ {اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْـبُخْلِ} (النسآئ:37) ’’ وہ لوگ جو جائز خرچ نہیں کرتے اور ترغیب دیتے ہیں لوگوں کو کنجوسی کی۔‘‘

ترکیب:’’ لاَ یَحْسَبَنَّ‘ ‘ کا فاعل ’’ اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ‘‘ ہے۔ ’’ حَسِبَ‘‘ کے دو مفعول آتے ہیں۔ یہاں ’’ لَا یَحْسَبَنَّ‘‘ کا مفعول اوّل ’’ بُخْلًا‘‘ محذوف ہے اور ’’ خَیْرًا‘‘ اس کا مفعول ثانی ہے۔ اس کے ساتھ ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ’’ بُخْلًا‘‘ کے لیے ہے ۔

نوٹ: اللہ تعالیٰ اس صورت حال کو زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہنے دیتا کہ مسلمانوں کی جماعت میں مومن اور منافق خلط ملط رہیں۔ لیکن ان کی تمیز نمایاں کرنے کے لیے وہ یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کہ غیب سے مؤمنوں‘ کو منافقوں کے نام بتا دے‘ کیونکہ اس طرح منافقوں پر حجت قائم نہیں ہوگی اور ان کا دعویٰ برقرار رہے گا۔ اس لیے اللہ کے حکم سے ایسی آزمائشیں پیش آتی رہتی ہیں جن سے ایمان کی قلبی کیفیت عمل میں نمایاں ہو جاتی ہے۔

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھٖ ھُوَ خَيْرًا لَّھُمْ ۭ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ ۭ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ  ۭ وَلِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ      ١٨٠؁ۧ
[وَلاَ یَحْسَبَنَّ : اور ہرگز گمان نہ کریں] [الَّذِیْنَ : وہ لوگ جو ] [یَبْخَلُوْنَ : کنجوسی کرتے ہیں ] [بِمَآ : اس میں جو ] [اٰتٰـٹہُمُ : دیا ان کو ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [مِنْ فَضْلِہٖ : اپنے فضل سے ] [ہُـوَ : (کہ) یہ ] [خَیْرًا : بہتر ہے ] [لَّــہُمْ : ان کے لیے ] [بَلْ ہُوَ : بلکہ یہ ] [شَرٌّ : نقصان دہ ہے ] [لَّـہُمْ : ان کے لیے ] [سَیُطَوَّقُــوْنَ: عنقریب وہ طوق پہنائے جائیں گے] [مَا : (اس کا) جو] [بَخِلُوْا : انہوں نے کنجوسی کی] [بِہٖ : جس میں ] [یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن ] [وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے ہی ہے ] [مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : زمین اور آسمانوں کا ترکہ ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [بِمَا : اس سے جو ] [تَعْمَلُوْنَ : تم لوگ کرتے ہو ] [خَبِیْرٌ: باخبر ہے]

لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِيَاۗءُ  ۘسَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَقَتْلَھُمُ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ   ۙ وَّنَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ      ١٨١؁
[لَقَدْ سَمِعَ : بےشک سن لیا ہے ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [قَوْلَ الَّذِیْنَ : ان لوگوں کی بات جنہوں نے] [قَالُوْآ : کہا ] [اِنَّ : کہ ] [اللّٰہَ : اللہ ] [فَقِیْرٌ : فقیر ہے ] [وَّنَحْنُ : اور ہم ] [اَغْنِیَـآئُ : مالدار ہیں] [سَنَـکْتُبُ : ہم لکھ لیں گے] [مَا : اس کو جو ] [قَالُوْا : انہوں نے کہا ] [وَقَتْلَہُمُ : اور (لکھیں گے) ان کا قتل کرنا] [الْاَنْبِیَـآئَ : نبیوں کو ] [بِغَیْرِ حَقٍّ: کسی حق کے بغیر] [وَّنَـقُوْلُ : اور ہم کہیں گے ] [ذُوْقُوْا : تم لوگ چکھو] [عَذَابَ الْحَرِیْقِ: بھڑکائی گئی آگ کا عذاب]

 

ز ب ر

 زَبُرَ (ک) زَبَارَۃً : بڑے جسم والا ہونا‘ موٹا ہونا‘ مضبوط ہونا۔ َ

 زُبْرَۃً ج زُبَرٌ : لوہے کا بڑا ٹکڑا‘ لوہے کی سل۔{اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِط} (الکہف:96) ’’ تم لوگ لائو میرے پاس لوہے کی سلیں۔‘‘ َ

 زَبُوْرٌ ج زُبُرٌ : (1) موٹے حروف میں لکھی ہوئی عبارت‘ کتابچہ‘ صحیفہ (2) کسی چیز کا ٹکڑا۔ {وَاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ۔ } (النسائ) ’’ اور ہم نے دیا دائود کو ایک صحیفہ‘‘۔{فَتَقَطَّعُوْا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ زُبُرًاط} (المؤمنون:53) ’’ تو ان لوگوں نے بانٹا اپنے کام کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے۔‘‘

ترکیب:’’ سَنَـکْتُبُ‘‘ کی ضمیر فاعلی ’’ اَللّٰہُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ سَنَکْتُبُ‘‘ پر عطف ہونے اور اس کا مفعول ہونے کی وجہ سے ’’ قَتْلَھُمْ‘‘ حالت نصب میں ہے اور مصدر ’’ قَتْلَ‘‘ نے فعل کا کام کیا ہے۔’’ اَلْاَنْبِیَائَ‘‘ اس کا مفعول ہے۔ ’’ وَنَقُوْلُ‘‘ کی ضمیر فاعلی بھی ’’ اَللّٰہُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ قَدَّمَتْ‘‘ کا فاعل ’’ اَیْدِیْکُمْ‘‘ ہے اور اس کی رفعی حالت ہے۔ ’’ تَاْکُلُہٗ‘‘ کی ضمیر مفعولی ’’ بِقُرْبَانٍ‘‘ کے لیے ہے اور ’’ اَلنَّارُ‘‘ اس کا فاعل ہے۔

نوٹ 1: جب سورۃ البقرۃ کی آیت 245 نازل ہوئی کہ کون ہے جو اللہ کو قرضہ دے تو یہود اپنی مجالس میں مذاق کے طور پر کہتے تھے کہ آج کل اللہ تعالیٰ محتاج ہو گیا ہے ‘ اپنے غلاموں سے قرضہ مانگ رہا ہے (نعوذ باللہ)‘ تو یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کی یہ بات ان کے قتل انبیاء کے جرم کے ساتھ لکھی جائے گی۔

 سوال یہ ہے کہ یہ بات کہنے والے مدینہ کے یہودی تھے جبکہ نبیوں کو قتل کرنے والے یہودی ان سے بہت‘ پہلے گزر چکے تھے‘ پھر ان کے جرم کو ان کی طرف کیسے منسوب کیا گیا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودِ مدینہ اپنے سابق یہودیوں کے اس فعل کو درست قرار دیتے تھے اور اس پر خوش تھے اس لیے انہیں بھی قاتلوں کے ساتھ شمار کیا گیا ہے ۔

 رسول کریم
کا ارشاد ہے کہ جب بھی زمین پر کوئی گناہ کیا جاتا ہے‘ تو جو شخص وہاں موجود ہو مگر اس گناہ کی مخالفت کرے اور اس کو برا سمجھے‘ تو وہ ایسا ہے گویا وہاں موجود نہیں ‘ یعنی وہ ان کے گناہ کا شریک نہیں اور جو شخص اگرچہ وہاں موجود نہیں مگر ان کے اس فعل سے راضی ہے‘ وہ باوجود غائب ہونے کے ان کا شریک گناہ سمجھا جائے گا ۔ (معارف القرآن)

نوٹ 2: موجودہ دور میں ہمارے لیے اس میں مذکورہ بالا راہنمائی کے ساتھ ایک اور راہنمائی بھی ہے کہ کبھی مذاق میں بھی کوئی غلط بات نہیں کہنی چاہیے۔ کوئی پتہ نہیں کون سی بات لکھ لی جائے اور گناہ لازم ہو جائے۔

نوٹ 3: کسی بات کی نفی کو قطعی اور حتمی قرار دینے کے لیے کبھی لائے نفی جنس استعمال کرتے ہیں اور کبھی منفی جملے میں متعلقہ اسم المبالغہ لا کر یہ مفہوم ادا کرتے ہیں۔ جیسے آیت 182 میں ’’ ظَلَّامٌ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ ’’ فَعَّالٌ‘‘ کا وزن ہے اور اس کا مطلب ہے بار بار اور کثرت سے ظلم کرنا۔ جب اس کی نفی کی جائے گی تو ظلم کرنے کی قطعی نفی ہو جائے گی۔ اس مفہوم کو ترجمہ میں ’’ ذرّہ برابر بھی‘‘ سے ظاہر کیا گیا ہے۔

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْكُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ     ١٨٢؁ۚ
[ذٰلِکَ : یہ ] [بِمَا : اس سبب سے جو ] [قَدَّمَتْ : آگے بھیجا ] [اَیْدِیْـکُمْ : تمہارے ہاتھوں نے ] [وَاَنَّ : اور یہ کہ ] [اللّٰہَ : اللہ ] [لَـیْسَ : نہیں ہے ] [بِظَلاَّمٍ : ذرّہ برابر بھی ظلم کرنے والا ] [لِّلْعَبِیْدِ: بندوں پر]

اَلَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ عَهِدَ اِلَيْنَآ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰى يَاْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْكُلُهُ النَّارُ  ۭ قُلْ قَدْ جَاۗءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِيْ بِالْبَيِّنٰتِ وَبِالَّذِيْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْھُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ     ١٨٣؁
[ اَلَّذِیْنَ : جنہوں نے ] [قَالُوْٓا : کہا ] [اِنَّ اللّٰہَ : کہ اللہ نے ] [عَہِدَ اِلَـیْنَــآ : ہم سے عہد لیا ] [اَلاَّ نُؤْمِنَ : کہ ہم بات نہیں مانیں گے] [لِرَسُوْلٍ : کسی رسول کی ] [حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [یَاْتِیَنَا : وہ لائے ہمارے پاس ] [بِقُرْبَانٍ : ایک ایسی قربانی ] [تَاْکُلُہُ : کھاتی ہے جس کو ] [النَّارُ : آگ ] [قُلْ : آپ کہہ دیجیے ] [قَدْ جَآئَ کُمْ : آ چکے ہیں تمہارے پاس ] [رُسُلٌ : کچھ رسول ] [مِّنْ قَـبْلِیْ : مجھ سے پہلے ] [بِالْـبَــیِّنٰتِ : واضح (نشانیوں) کے ساتھ] [وَبِالَّذِیْ : اور اس کے ساتھ جو ] [قُلْتُمْ : تم لوگوں نے کہا ] [فَلِمَ : تو کیوں] [قَتَلْتُمُوْہُمْ : تم لوگوں نے قتل کیا انہیں] [اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ ہو ] [صٰدِقِیْنَ : سچ کہنے والے ]

فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ جَاۗءُوْ بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتٰبِ الْمُنِيْرِ     ١٨٤؁
[فَاِنْ : پھر اگر ] [کَذَّبُوْکَ : انہوں نے جھٹلایا آپ‘ کو] [فَقَدْ کُذِّبَ : تو جھٹلائے جا چکے ہیں] [رُسُلٌ : بہتیرے رسول] [مِّنْ قَـبْلِکَ : آپ سے پہلے ] [جَآئُ‘ وْ: وہ لوگ آئے ] [ بِالْبَـیِّنٰتِ : واضح (نشانیوں) کے ساتھ] [وَالزُّبُرِ : اور صحیفوں کے ساتھ] [وَالْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ : اور روشنی دینے والی کتاب کے ساتھ ]

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ  ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ  ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ     ١٨٥؁
[ کُلُّ نَفْسٍ : ہر ایک جان ] [ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ : موت کو چکھنے والی ہے] [وَاِنَّمَا : اور بات صرف اتنی ہے کہ ] [تُوَفَّوْنَ : تم لوگوں کو پورے پورے دیے جائیں گے ] [اُجُوْرَکُمْ : تمہارے اجر ] [یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن ] [فَمَنْ : پس جو ] [زُحْزِحَ : دور کیا گیا ] [عَنِ النَّارِ : آگ سے ] [وَاُدْخِلَ : اور داخل کیا گیا ] [الْجَنَّۃَ : جنت میں ] [فَقَدْ فَازَ : تو وہ کامیاب ہوا ہے ] [وَمَا : اور نہیں ہے ] [الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَــآ : دنیوی زندگی ] [اِلاَّ : مگر ] [مَتَاعُ الْغُرُوْرِ : دھوکے کا سامان]

 

ف و ز

 فَازَ (ن) فَـوْزًا : (1) نجات پانا (2) کامیاب ہونا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 فَوْزٌ (اسم ذات بھی ہے) : نجات‘ کامیابی۔ {وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔ } (التوبۃ) ’’ اور یہی شاندار کامیابی ہے۔‘‘

 فَائِزٌ (اسم الفاعل) : نجات پانے والا ‘ کامیاب ہونے والا ۔ {وَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْفَـآئِزُوْنَ ۔ } (التوبۃ) ’’ اور وہ لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘

 مَفَازٌ (اسم الظرف) : نجات کی جگہ‘ کامیابی کی جگہ ۔ {فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِج} (آل عمران:188) ’’ پس تو ہرگز گمان نہ کر ان کو کسی نجات کی جگہ میں‘ عذاب سے‘‘۔{اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا } (النبا) ’’ یقینا متقی لوگوں کے لیے ہی کامیابی کا ٹھکانہ ہے۔‘‘

ترکیب :’’ کُلُّ نَفْسٍ‘‘ مرکب اضافی اور مبتدأ ہے جبکہ مرکب اضافی ’’ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ تُوَفَّوْنَ‘‘ کا نائب فاعل اس میں ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ اُجُوْرَکُمْ‘‘ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ’’ اُدْخِلَ‘‘ کا نائب فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ مَنْ‘‘ کے لیے ہے اور ’’ اَلْجَنَّـۃَ‘‘ مفعول ہے۔

نوٹ: ابھی آیت 184 میں رسول اللہ
کو تسلی دی گئی تھی کہ ان لوگوں کے جھٹلانے سے آپ پریشان نہ ہوں‘ کیونکہ اسلام کے مخالفین کی یہ پرانی عادت ہے اور آپؐ سے پہلے بھی رسولوں کی تکذیب اور تضحیک ہوتی آئی ہے۔ اب آیت 186 میں اہل ایمان کو خبردار کیا گیا ہے کہ ختم نبوت کے ساتھ یہ سلسلہ ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ تکذیب و استہزا اور آزمائشوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا جب تک اس زمین پر حق و صداقت کے نام لیوا موجود ہیں۔ ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دی ہے کہ وقتی نقصانات اور تکالیف سے دلبرداشتہ ہو کر یا مخالفین کی مبالغہ آرائی ‘ جھوٹے پروپیگنڈے اور طنز و استہزاء کے طوفان بدتمیزی سے پریشان ہو کر اپنے موقف سے دستبردار مت ہونا۔ نیز ان کا جواب دینے میں اللہ کی حدود سے تجاوز مت کرنا‘ ان کی کسی غلطی کو اپنی غلطی کا جواز مت بنانا اور اسلام کے معیار سے نیچے اُتر کر ان کے جیسے اُوچھے ہتھیار مت استعمال کرنا‘ کیونکہ حوصلہ مند لوگوں کا یہ کام نہیں ہے۔

لَتُبْلَوُنَّ فِيْٓ اَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ  ۣوَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَذًى كَثِيْرًا  ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ      ١٨٦؁
[لَتُـبْـلَوُنَّ : تم لوگوں کو لازماً آزمایا جائے گا] [فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ : تمہارے اموال میں ] [وَاَنْفُسِکُمْ : اور تمہاری جانوں میں] [وَلَـتَسْمَعُنَّ : اور تم لوگ لازماً سنو گے] [مِنَ الَّذِیْنَ : ان لوگوں سے جن کو ] [اُوْتُوا : دی گئی

الْـکِتٰبَ : کتاب ] [مِنْ قَـبْلِکُمْ : تم سے پہلے ] [وَمِنَ الَّذِیْنَ : اور ان لوگوں سے جنہوں نے ] [اَشْرَکُوْٓا: شرک کیا

اَذًی کَثِیْرًا: بہت زیادہ اذیت (کی باتیں) ] [وَاِنْ تَصْبِرُوْا: اور اگر تم لوگ ثابت قدم رہے] [وَتَـتَّقُوْا : اور تم لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا] [فَاِنَّ : تو یقینا] [ذٰلِکَ : یہ ] [مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ: حوصلے کے کاموں میں سے ہے]

وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ ۡ فَنَبَذُوْهُ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَـــنًا قَلِيْلًا  ۭ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ      ١٨٧؁
[وَاِذْ : اور جب ] [اَخَذَ : پکڑا (یعنی لیا) ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ : ان لوگوں کا عہد جن کو] [اُوْتُوا : دی گئی ] [الْـکِتٰبَ : کتاب (کہ) ] [لَتُـبَــیِّنُـنَّـہٗ لِلنَّاسِ : تم لوگ لازماً واضح کرو گے اس کو ] [وَلاَ تَـکْتُمُوْنَـہٗ : اور تم لوگ نہیں چھپائو گے اس کو (یعنی کتاب کو ) ] [فَـنَـبَذُوْہُ : تو انہوں نے پھینکا اس کو (یعنی عہد کو) ] [وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ : اپنی پیٹھوں کے پیچھے] [وَاشْتَرَوْا: اور انہوں نے خریدا (یعنی حاصل کیا) ] [بِہٖ : اس کے (یعنی کتاب کے ) بدلے] [ثَمَنًا قَلِیْلاً : تھوڑی قیمت کو ] [فَبِئْسَ : تو کتنا برا ہے ] [مَا : وہ جو ] [یَشْتَرُوْنَ : یہ لوگ خریدتے ہیں]

ترکیب :’’ لَتُـبَـیِّنُـنَّہٗ‘‘ اور ’’ تَـکْتُمُوْنَـہٗ‘‘ کی مفعولی ضمیریں ’’ اَلْـکِتٰبَ‘‘ کے لیے ہیں جبکہ ’’ فَـنَـبَذُوْہُ‘‘ کی ضمیر مفعولی ’’ مِیْثَاقَ‘‘ کے لیے ہے ۔

نوٹ 1: آیت 187 میں جس عہد کا حوالہ دیا گیا ہے وہ قرآن مجید میں مذکور نہیں ہے۔ البتہ بائبل میں جگہ جگہ اس کا ذکر آتا ہے جس میں حضرت موسیٰ ؑ بار بار بنی اسرائیل سے عہد لیتے ہیں کہ جو احکام میں نے تم کو پہنچائے ہیں انہیں اپنے دل پر نقش کرنا‘ آئندہ نسلوں کو سکھانا اور اٹھتے بیٹھتے ان کا چرچا کرنا (تفہیم القرآن) ۔ لیکن انہوں نے اس عہد کی پرواہ نہیں کی اور دنیا کمانے کے لیے نہ صرف تورات کے احکام کو چھپایا بلکہ اس میں تحریف بھی کی۔

نوٹ 2: کوئی نیک عمل کرنے کے بعد اس کی تشہیر کا اہتمام کرے‘ تو عمل کرنے کے باوجود قواعد شرعیہ کی رو سے یہ مذموم ہے اور عمل نہ کرنے کی صورت میں تو اور بھی زیادہ مذموم ہے۔ البتہ طبعی طور پر یہ خواہش ہونا کہ میں فلاں نیک کام کروں اور نیک نام ہوں‘ وہ اس میں داخل نہیں ہے جبکہ اس نیک نامی کا اہتمام نہ کرے۔ (معارف القرآن)

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ      ١٨٨؁
[لاَ تَحْسَبَنَّ : تو ہرگز گمان نہ کر ] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کو جو] [یَفْرَحُوْنَ : اتراتے ہیں] [بِمَآ : اس پر جو

اَتَوْا : انہوں نے کیا ] [وَّیُحِبُّوْنَ : اور پسند کرتے ہیں ] [اَنْ : کہ ] [یُّحْمَدُوْا : ان کی تعریف کی جائے ] [بِمَا : اس پر جو ] [لَمْ یَفْعَلُوْا : انہوں نے کیا ہی نہیں] [فَلاَ تَحْسَبَنَّہُمْ : پس تو ہرگز گمان نہ کر ان کو] [بِمَفَازَۃٍ : کسی نجات کی جگہ میں ] [مِّنَ الْعَذَابِ : عذاب سے] [وَلَہُمْ : اور ان کے لیے ہی ہے ] [عَذَابٌ اَلِیْمٌ : ایک دردناک عذاب]

وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ      ١٨٩؁ۧ
[وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے ہی ہے ] [مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : زمین اور آسمانوں کی حکومت ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ

عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ : ہر چیز پر ] [قَدِیْــرٌ: ہمیشہ سے قدرت رکھنے والا ہے ]

رَبَّنَآ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَهٗ ۭ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ      ١٩٢؁
[رَبَّـنَــآ : اے ہمارے ربّ] [اِنَّکَ : بےشک تو] [مَنْ : جس کو ] [تُدْخِلِ : داخل کرے گا ] [النَّارَ : آگ میں ] [فَقَدْ اَخْزَیْـتَہٗ : تو تو نے رسوا کردیا ہے اس کو] [وَمَا : اور نہیں ہے ] [لِلظّٰلِمِیْنَ : ظالموں کے لیے ] [مِنْ اَنْصَارٍ : کسی قسم کا کوئی مددگار]

رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّاڰ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ     ١٩٣؁ۚ
[رَبَّــنَــآ : اے ہمارے رب] [اِنَّــنَا : بےشک ہم نے ] [سَمِعْنَا : سنا] [مُنَادِیًا : ایک آواز دینے والے کو جو] [یُّـنَادِیْ : آواز دیتا ہے ] [لِلْاِیْمَانِ : ایمان کے لیے ] [اَنْ : کہ ] [اٰمِنُوْا : تم لوگ ایمان لائو ] [بِرَبِّکُمْ : اپنے رب پر ] [فَاٰمَنَّا : توہم ایمان لائے ] [رَبَّـنَا : اے ہمارے ربّ] [فَاغْفِرْلَـنَا : پس تو بخش دے ہمارے لیے ] [ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہوں کو] [وَکَفِّرْ : اور تو دور کر دے] [عَنَّا : ہم سے ] [سَیِّاٰتِنَا : ہماری برائیوں کو] [وَتَوَفَّــنَا : اور تو موت دے ہم کو ] [مَعَ الْاَبْرَارِ : نیک لوگوں کے ساتھ]

رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰي رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ  ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ      ١٩٤؁
[رَبَّـنَا : اے ہمارے ربّ] [وَاٰتِنَا : اور تو عطا کر ہم کو ] [مَا : وہ جس کا] [وَعَدْتَّــنَا : تو نے وعدہ کیا ہم سے

] [عَلٰی رُسُلِکَ : اپنے رسولوں (کی زبانی) ] [وَلَا تُخْزِنَا : اور تو رسوا مت کرنا ہم کو] [یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن] [اِنَّکَ : بےشک تو] [لَا تُخْلِفُ : خلاف نہیں کرتا] [الْمِیْعَادَ: وعدے کے ]

فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ  بَعْضٍ ۚ فَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَاُوْذُوْا فِيْ سَبِيْلِيْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَيِّاٰتِھِمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ۚ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ  ۭوَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ     ١٩٥؁
[فَاسْتَجَابَ : تو قبول کیا ] [لَہُمْ : ان کے لیے ] [رَبُّہُمْ : ان کے رب نے (ان کی دعا کو یہ کہتے ہوئے ) ] [اَنِّیْ : کہ میں ] [لَآ اُضِیْعُ : ضائع نہیں کرتا ] [عَمَلَ عَامِلٍ : کسی عمل کرنے والے کے عمل کو] [مِّنْکُمْ : تم میں سے ] [مِّنْ ذَکَرٍ : مذکر ہو] [اَوْ اُنْثٰی : یا مؤنث ] [بَعْضُکُمْ : تم میں سے بعض ] [مِّنْ بَعْضٍ : بعض سے ہیں] [فَالَّذِیْنَ : پس وہ لوگ جنہوں نے] [ہَاجَرُوْا : ہجرت کی ] [وَاُخْرِجُوْا : اور جو نکالے گئے ] [مِنْ دِیَارِہِمْ : اپنے گھروں سے ] [وَاُوْذُوْا : اور جن کو اذیت دی گئی] [فِیْ سَبِیْلِیْ : میرے راستے میں ] [وَقٰـــتَلُوْا : اور جنہوں نے جنگ کی] [وَقُتِلُوْا : اور قتل کیے گئے ] [لَاُکَفِّرَنَّ : تو میں لازماً دور کروں گا] [عَنْہُمْ : ان سے ] [سَیِّاٰتِہِمْ : ان کی برائیوں کو] [وَلَاُدْخِلَنَّہُمْ : اور میں لازماً داخل کروں گا ان کو ] [جَنّٰتٍ : ایسے باغات میں ] [تَجْرِیْ : بہتی ہیں ] [مِنْ تَحْتِہَا : جن کے نیچے سے ] [الْاَنْہٰـرُ : نہریں] [ثَوَابًا : بدلہ ہوتے ہوئے ] [مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ : اللہ کے پاس سے] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [عِنْدَہٗ : اس کے پاس ہی] [حُسْنُ الثَّوَابِ: اچھا بدلہ ہے]

 

ترکیب:’’ مِنْ ذَکَرٍ‘‘ کا ’’ مِنْ‘‘ بیانیہ ہے اور ’’ مِنْکُمْ‘‘ کی تفصیل کے لیے ہے۔ ’’ فَالَّذِیْنَ‘‘ سے ’’ وَقُتِلُوْا‘‘ تک صلہ موصول مل کر مبتدأ ہے۔ ’’ لَاُکَفِّرَنَّ‘‘ سے ’’ جَنّٰتٍ‘‘ تک اس کی خبر ہے۔ ’’ ثَوَابًا‘‘ حال ہے اسی لیے منصوب ہے۔ ’’ لَا یَغُرَّنَّکَ‘‘ کا فاعل ’’ تَقَلُّبُ‘‘ ہے۔ ’’ فِی الْبِلَادِ‘‘ متعلق ہے ’’ تَقَلُّبُ‘‘ سے‘ اور ’’ کَفَرُوْا‘‘ سے متعلق نہیں ہے۔ ’’ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ‘‘ صفت موصوف مل کر خبر ہے۔ اس کا مبتدأ ’’ ھُوَ‘‘ یا’’ ذٰلِکَ‘‘ محذوف ہے۔

لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِي الْبِلَادِ     ١٩٦؁ۭ
[لاَ یَغُرَّنَّکَ : ہرگز دھوکہ نہ دے تجھ کو] [تَقَـلُّبُ الَّذِیْنَ : ان لوگوں کا گھومنا پھرنا جنہوں نے ] [کَفَرُوْا : کفر کیا ] [فِی الْْبِلاَدِ : شہروں میں ]

مَتَاعٌ قَلِيْلٌ  ۣ ثُمَّ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ  ۭوَبِئْسَ الْمِھَادُ     ١٩٧؁
[مَتَاعٌ قَلِیْلٌ : (یہ) تھوڑا سا سامان ہے] [ثُمَّ : پھر ] [مََاْوٰٹہُمْ : ان کی منزل] [جَہَنَّمُ : جہنم ہے ] [وَبِئْسَ : اور (وہ) کتنا برا ] [الْمِہَادُ: ٹھکانہ ہے]

لٰكِنِ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ  ۭ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ لِّلْاَبْرَارِ    ١٩٨؁
[لٰــکِنِ : لیکن ] [الَّذِیْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ] [اتَّـقَوْا : تقویٰ اختیار کیا] [رَبَّہُمْ : اپنے رب کا] [لَـہُمْ : ان کے لیے ہی ] [جَنّٰتٌ : ایسے باغات ہیں] [تَجْرِیْ : بہتی ہیں ] [مِنْ تَحْتِہَا : جن کے نیچے سے] [الْاَنْہٰـرُ : نہریں] [خٰلِدِیْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہیں] [فِیْہَا : ان میں ] [نُزُلاً : مہمان نوازی ہوتے ہوئے] [مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ : اللہ کے پاس سے ] [وَمَا : اور جو ] [عِنْدَ اللّٰہِ : اللہ کے پاس ہے ] [خَیْـرٌ : (وہ) بہتر ہے ] [لِّــلْاَبْرَارِ : نیک لوگوں کے لیے ]

 

ر ب ط

 رَبَطَ (ض) رَبْطًا : کسی چیز کو مضبوطی سے باندھنا‘ مضبوط کرنا۔ {وَلِـیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیُثَــبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ ۔ } (الانفال) ’’ تاکہ وہ مضبوط کرے تمہارے دلوں کو اور وہ جما دے اس سے قدموں کو۔‘‘

 رِبَاطٌ (اسم ذات بھی ہے) : وہ چیز جسے مضبوط کیا گیاہو‘ کسی کام کے لیے تیار کیا گیا ہوا۔ {مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ} (الانفال:60) ’’ قوت میں سے اور تیار کیے ہوئے گھوڑوں میں سے۔‘‘

 رَابَطَ (مفاعلہ) مُرَابَطَۃً اور رِبَاطًا : مقابلہ میں ہمیشگی کرنا‘ ہمیشہ تیار رہنا۔

 رَابِطْ (فعل امر) : تو مقابلے میں ہمیشہ مضبوط رہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ۙ لَا يَشْتَرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا  ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ      ١٩٩؁
[وَاِنَّ : اور بےشک ] [مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ: اہل کتاب میں وہ بھی ہیں] [لَـمَنْ : یقینا جو ] [یُّؤْمِنُ : ایمان لاتے ہیں ] [بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [وَمَـآ : اور اس پر جو ] [اُنْزِلَ : نازل کیا گیا] [اِلَـیْکُمْ : تم لوگوں کی طرف] [وَمَـآ : اور اس پر جو ] [اُنْزِلَ : نازل کیا گیا ] [اِلَـیْہِمْ : ان لوگوں کی طرف] [خٰشِعِیْنَ: عاجزی کرنے والے ہوتے ہوئے] [لِلّٰہِ : اللہ کے لیے ] [لاَ یَشْتَرُوْنَ : وہ لوگ نہیں خریدتے (یعنی نہیں حاصل کرتے) ] [بِاٰیٰتِ اللّٰہِ : اللہ کی آیتوں کے بدلے] [ثَمَنًا قَلِیْلاً : تھوڑی قیمت] [اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ ہیں] [لَہُمْ : جن کے لیے ] [اَجْرُہُمْ : ان کا اجر ہے ] [عِنْدَ رَبِّہِمْ : ان کے رب کے پاس ] [اِنَّ : یقینا ] [اللّٰہَ : اللہ ] [سَرِیْعُ الْحِسَابِ : حساب لینے میں جلدی کرنے والا ہے ]

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا     ۣوَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ     ٢٠٠؁ۧ
[یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو! جو ] [اٰمَنُوا : ایمان لائے ] [اصْبِرُوْا : تم لوگ ثابت قدم رہو] [وَصَابِرُوْا : اور مدمقابل سے زیادہ ثابت قدمی دکھائو ] [وَرَابِطُوْا: اور مقابلے میں ہمیشہ مضبوط رہو] [وَاتَّـقُوا : اور تقویٰ اختیار کرو] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [لَـعَلَّـکُمْ : شاید کہ] [تُفْلِحُوْنَ : تم لوگ مراد حاصل کرو]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ         ۝

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيٰـمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِيْھَا وَاكْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا     Ĉ؁
( وَلاَ تُؤْتُوا : اور تم مت دو ) (السُّفَہَـآئَ : نادانوں کو ) (اَمْوَالَـکُمُ : اپنے مال الَّتِیْ : جن کو) (جَعَلَ : بنایا ) (اللّٰہُ : اللہ نے ) (لَـکُمْ : تمہارے لیے ) (قِیٰمًا : کھڑے ہونے کا ذریعہ (معیشت میں) ) (وَّارْزُقُوْہُمْ : اور رزق دو ان کو ) (فِیْہَا : اس میں سے ) (وَاکْسُوْہُمْ: اور پہنائو ان کو ) (وَقُوْلُوْا : اور کہو ) (لَہُمْ : ان سے ) (قَوْلاً مَّعْرُوْفًا: بھلی بات)



ترکیب:

’’ نِحْلَۃً‘‘ حال ہے۔ ’’ مِنْہُ‘‘ کی ضمیر ’’ صَدُقٰتٍ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ ھَنِیْئًا مَّرِیْئًا‘‘ حال ہے ’’ کُلُوْہُ‘‘ کی ضمیر مفعولی کا ‘ جو ’’ شَیْئٍ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ جَعَلَ‘‘ کا مفعول ’’ الَّتِیْ‘‘ ہے۔



نوٹ 1: مادہ ’’ ص د ق‘‘ کی لغت البقرۃ :23 میں دی گئی ہے۔ وہاں لفظ ’’ صَدُقَۃٌ‘‘ رہ گیا تھا۔ اس کے معنی ہیں بیوی کا حق مہر۔ اس کی جمع ’’ صَدُقَاتٌ‘‘ ہے۔ اسی طرح مادہ ’’ ق و م‘‘ کی لغت الفاتحہ:5 میں دی گئی ہے۔ وہاں لفظ ’’ قِیَامٌ‘‘ رہ گیا تھا۔ یہ مصدر بھی ہے اور اسم الفاعل ’’ قَائِمٌ‘‘ کی جمع بھی ’’ قِیَامٌ‘‘ آتی ہے۔ جیسے {سُجَّدًا وَّقِیَامًا ۔ } (الفرقان) ’’ سجدے کرنے والے ہوتے ہوئے اور کھڑے ہونے والے ہوتے ہوئے‘‘۔ اس کے علاوہ ’’ قِیَامٌ‘‘ اسم ذات بھی ہے۔ اس کے معنی ہیں وہ چیز جس پر کھڑا ہو اجائے۔ جیسے کِتَابٌ وہ چیز جس پر لکھا جائے۔ یہاں مال کے حوالے سے قِیَامًا آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے معاشی لحاظ سے جس پر کھڑا ہو یعنی معیشت کا ذریعہ۔

نوٹ 2: زیر مطالعہ آیت 3 میں بیک وقت چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ لیکن ایک سے زیادہ شادی کی مخالفت کرنے والے جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ یہ اجازت مخصوص حالات میں مخصوص لوگوں کے لیے ہے اور چار شادیاں کرنے کی عام اجازت اسلام میں کہیں نہیں ہے۔ اس مسئلہ کو ایک مثال سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ روزوں کے متعلق جب یہ آیت اتری کہ تم لوگ کھائو پیو یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے واضح ہو جائے (البقرۃ:187) توایک صحابی سحری کے وقت سیاہ اور سفید دھاگے کو دیکھا کرتے۔ جب رنگوں کا فرق واضح ہو جاتا تو کھانا بند کر دیتے۔ حضور
نے انہیں سمجھایا کہ صاحب کلام یعنی اللہ تعالیٰ کی اس آیت سے یہ مراد نہیں ہے۔ اس مثال کے حوالے سے یہ اصول ذہن نشین کرلیں کہ قرآن مجید کی کسی آیت کے اور خاص طور سے عملی ہدایات والی آیات کے جو معانی رسول اور صحابہ کرام (رض) نے بیان کیے ہیں ‘ وہ ہمارے لیے حرفِ آخر ہیں۔ جب اہل زبان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ صرف آیات کے الفاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کی منشا اور مرضی معلوم کرلیں تو پھر ہم کس قطار شمار میں ہیں؟

 متعدد احادیث اور اقوالِ صحابہ (رض)  سے اس آیت کے معنی مراد کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت نہ صرف عرب بلکہ پوری دنیا میں کثرتِ ازواج کا رواج تھا۔ اس آیت میں اس کی حد بندی کی گئی ہے۔ چار سے زیادہ شادیاں کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

 کہتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ چوتھی اور تیسری شادی تو دور کی بات ہے ہم تو وہ لوگ ہیں جو دوسری شادی کو بھی بہت برا سمجھتے ہیں ‘ اس لیے عائلی قوانین میں اس پرپابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس درخت کا پھل یہ سامنے آیا کہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی معاشرے میں لیڈی سیکرٹری یا گرل فرینڈ رکھنا رواج کی بات ہے‘ داشتہ رکھنا تو کمال کی بات ہے ‘ لیکن دوسری شادی کرنا معاشرتی عذاب کی بات ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ! ع ’’ حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں!‘‘

وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ  ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ ۚ وَلَا تَاْكُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ يَّكْبَرُوْا  ۭ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۚ وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْهِدُوْا عَلَيْھِمْ ۭوَكَفٰى بِاللّٰهِ حَسِـيْبًا    Č؁
(وَابْتَلُوا : اور تم آزمایا کرو ) (الْیَتٰمٰی : یتیموں کو) (حَتّٰیٓ : یہاں تک کہ ) (اِذَا : جب ) (بَلَغُوا : وہ پہنچیں) (النِّکَاحَ : نکاح (کی عمر) کو ) (فَاِنْ : پھر اگر ) (اٰنَسْتُمْ : تم پائو ) (مِّنْہُمْ : ان میں ) (رُشْدًا : کچھ معاملہ فہمی ) (فَادْفَعُوْٓا : تو لوٹائو) (اِلَـیْہِمْ : ان کی طرف ) (اَمْوَالَہُمْ : ان کے مال) (وَلاَ تَاْکُلُوْہَـآ : اور مت کھائو اس کو ) (اِسْرَافًا : ضرورت سے زیادہ ہوتے ہوئے) (وَّبِدَارًا : اور عجلت کرتے ہوئے ) (اَنْ : کہ (کہیں) ) (یَّــکْبَرُوْا : وہ بڑے ہو جائیں) (وَمَنْ : اور جو ) (کَانَ : ہے ) (غَنِیًّا : مالدار ) (فَلْیَسْتَعْفِفْ : تو اسے چاہیے کہ وہ باز رہے) (وَمَنْ : اور جو ) (کَانَ : ہے ) (فَقِیْرًا : محتاج ) (فَلْیَاْکُلْ : تو اسے چاہیے کہ وہ کھائے ) (بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق ) (فَاِذَا : پھر جب ) (دَفَعْتُمْ : تم لوٹائو) (اِلَـیْہِمْ : ان کی طرف ) (اَمْوَالَہُمْ : ان کے مال ) (فَاَشْہِدُوْا : تو گواہ بنائو) (عَلَیْہِمْ : ان پر ) (وَکَفٰی : اور کافی ہے ) (بِاللّٰہِ : اللہ ) (حَسِیْبًا: حساب لینے والا)

 

ب د ر

 بَدَرَ یَبْدُرُ (ن) بُدُوْرًا : کام میں جلدی کرنا۔

 بَدْرٌ (اسم علم) : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور جگہ کا نام جہاں جنگ بدر ہوئی تھی۔

 بَادَرَ یُـبَادِرُ (مفاعلہ) بِدَارًا : کسی کام کو وقت سے پہلے کرنا‘ عجلت کرنا ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 

ترکیب:’’ اٰنَسْتُمْ‘‘ کا مفعول ’’ رُشْدًا‘‘ ہے۔ ’’ لاَ تَاْکُلُوْا‘‘ کا مفعول ’’ ھَا‘‘ کی ضمیر ہے‘ جبکہ ’’ اِسْرَافًا‘‘ اور ’’ بِدَارًا‘‘ حال ہیں۔ ’’ غَنِیًّا‘‘ اور’’ فَقِیْرًا‘‘ ’’ کَانَ‘‘ کی خبریں ہیں۔ ’’ فَاَشْھِدُوْا‘‘ کا مفعول محذوف ہے۔ ’’ عَلَیْھِمْ‘‘ متعلق فعل ہے اور اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ’’ اَلْیَتٰمٰی‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ بِاللّٰہِ‘‘ پر ’’ بَا‘‘ خوبی کلام کے لیے ہے ‘ البتہ اپنے لفظی معنی سے مبریٰ ہے اور یہ ’’ کَفٰی‘‘ کا فاعل ہے۔ ’’ حَسِیْبًا‘‘ حال یا تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہوا ہے۔

 

نوٹ 1: ماقبل آیت 5 میں ہدایت ہے کہ نادانوں کو اپنے مال مت دو۔ اس میں اَلسُّفَھَائُ کے لفظ میں عمومیت ہے۔ پھر اَمْوَالَھُمْ نہیں کہا بلکہ اَمْوَالَـکُمْ کہا ہے۔ یعنی یہ نہیں کہا کہ ان کے مال مت دو‘ بلکہ کہا ہے کہ اپنے مال مت دو۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ یہ ہدایت یتیموں کے لیے مخصوص نہیں بلکہ عام ہے‘ خواہ وہ اپنے بچے ہوں یا یتیم ہوں۔ ہدایت یہ ہے کہ بچوں کو پیسہ دینے کے بجائے ان کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرو۔

 اس آیت سے بچوں کو جیب خرچ دینے کی ممانعت کا جواز پیدا کرنا میرے خیال میں درست نہیں ہے‘ کیونکہ اس طرح بچوں کی مالی معاملات میں تربیت کرنے اور ان میں معاملہ فہمی پیدا کرنے کا عمل رک جائے گا۔ البتہ اس آیت سے یہ راہنمائی ضرور حاصل ہوتی ہے کہ ضروریات فراہم کرنے کے ساتھ جیب خرچ دینے میں احتیاط کی جائے اور کھلا جیب خرچ نہ دیا جائے۔ نیز اس بات کی نگرانی ضرور کی جائے کہ بچے اپنا جیب خرچ کہاں اور کیسے خرچ کرتے ہیں۔ اس طرح جیب خرچ کو ان کی مالی تربیت کا ذریعہ بنایا جائے۔

نوٹ 2: اپنے بچوں کی تربیت کے لیے تو عموماً ہر شخص فکر مند ہوتا ہے۔ اس لیے آیت زیر مطالعہ میں یتیموں کا خصوصیت سے ذکر کر کے ہدایت دی کہ بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے تک ان کو آزماتے رہو‘ کیونکہ آزمائش تربیت کا جزو لاینفک ہے۔ مالی تربیت میں آزمائش کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے خرید و فروخت کے معاملات ان کے سپرد کر کے ان کی صلاحیت کا امتحان لیتے رہو اور ان کی ذہنی بلوغت کا اندازہ کرتے رہو۔

نوٹ 3: یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنے کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں۔ ایک بلوغت اور دوسرا رشد۔ رُشْدًا کا لفظ نکرہ لا کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ مکمل دانشمندی شرط نہیں ہے‘ بلکہ کسی قدر ہوشیاری بھی اس کے لیے کافی ہے کہ یتیموں کے مال ان کے حوالے کر دیے جائیں۔

 دوسری شرط کے متعلق امام ابوحنیفہ (رح) کی رائے ہے کہ سن بلوغ کو پہنچنے پر اگر یتیم میں رشد نہ پایا جائے تو اس کے ولی کو زیادہ سے زیادہ سات سال اور انتظار کرنا چاہیے ۔ پھر خواہ رشد پایا جائے یا نہ پایا جائے‘ اس کا مال اس کے حوالے کر دینا چاہیے۔ امام شافعی (رح) کی رائے ہے کہ مال حوالے کرنے کے لیے بہرحال رشد کا پایاجانا ناگزیر ہے۔ مولانا مودودی  (رح)  کی رائے ہے کہ ایسی صورت میں قاضی سے رجوع کیا جائے اور اگر قاضی پر ثابت ہو جائے کہ اس میں رشد نہیں پایا جاتا تو وہ اس کے معاملات کی نگرانی کے لیے کوئی مناسب انتظام کر دے۔

لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ  ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا    Ċ۝
(لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے ہے ) (نَصِیْبٌ : ایک حصہ ) (مِّمَّا : اس میں سے جو ) (تَرَکَ : چھوڑا ) (الْوَالِدٰنِ : ماں باپ نے ) (وَالْاَقْرَبُوْنَ: اور زیادہ قریبی رشتہ داروں نے ) (وَلِلنِّسَآئِ : اور عورتوں کے لیے ہے ) (نَصِیْبٌ : ایک حصہ ) (مِّمَّا : اس میں سے جو ) (تَرَکَ : چھوڑا) (الْوَالِدٰنِ : ماں باپ نے ) (وَالْاَقْرَبُوْنَ: اور زیادہ قریبی رشتہ داروں نے ) (مِمَّا : اس میں سے جو ) (قَلَّ : کم ہو ) (مِنْہُ : اس سے ) (اَوْ : یا ) (کَثُرَ : زیادہ ہو ) (نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا: فرض کیا ہوا حصہ ہوتے ہوئے)

 

ترکیب: ’’ تَرَکَ‘‘ کا فاعل ’’ اَلْوَالِدَانِ‘‘ اور ’’ اَلْاَقْرَبُوْنَ‘‘ ہیں اور ’’ اَلْاَقْرَبُوْنَ‘‘ اسم تفضیل ہے۔ ’’ تَرَکَ‘‘ کا مفعول ’’ مِمَّا‘‘ (مِنْ مَا) کا ’’ مَا‘‘ ہے۔ ’’ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا‘‘ حال ہے۔ ’’ حَضَرَ‘‘ کے فاعل ’’ اُولُو الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنُ‘‘ ہیں۔ ’’ اَلْقِسْمَۃَ‘‘ ظرف ہونے کی وجہ سے حالت نصبی میں ہے۔ ’’ مِنْہُ‘‘ کی ضمیر ’’ مِمَّا‘‘ کے ’’ مَا‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ لَــوْ تَرَکُوْا‘‘ کا ’’ــلَــوْ‘‘ شرطیہ ہے‘ ’’ خَافُوْا‘‘ اس کا جواب ہے۔ ’’ ذُرِّیَّۃً‘‘ اسم جمع ہے اس لیے اس کی صفت جمع مکسر آئی ہے۔ ’’ ظُلْمًا‘‘ حال ہے۔

وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْهُ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا    Ď۝
(وَاِذَا : اور جب ) (حَضَرَ : حاضر ہوں ) (الْقِسْمَۃَ : تقسیم کے وقت ) (اُولُوا الْقُرْبٰی : قرابت والے ) (وَالْیَتٰمٰی : اور یتیم ) (وَالْمَسٰکِیْنُ : اور ضرورت مند لوگ ) (فَارْزُقُوْہُمْ : تو تم دو ان کو ) (مِّنْہُ : اس میں سے ) (وَقُوْلُوْا : اور کہو تم) (لَـہُمْ : ان سے ) (قَوْلاً مَّعْرُوْفًا : بھلی بات )

 

ق س م

 قَسَمَ یَقْسِمُ (ض) قَسْمًا : کسی چیز کے حصے کرنا اور بانٹ دینا‘ تقسیم کرنا۔ {اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَط} (الزخرف:32) ’’ کیا یہ لوگ بانٹتے ہیں تیرے رب کی رحمت کو۔‘‘

 مَقْسُوْمٌ (اسم المفعول) : تقسیم کیا ہوا‘ بٹا ہوا۔ {لِکُلِّ بَابٍ مِّنْھُمْ جُزْئٌ مَّقْسُوْمٌ ۔ } (الحجر) ’’ ان میں سے ہر ایک دروازے کے لیے ایک بٹا ہوا حصہ ہے۔‘‘

 قِسْمَۃٌ (اسم فعل) : بانٹ‘ تقسیم۔ آیت زیر مطالعہ ۔

 قَسَمٌ (اسم ذات) : اولیاء مقتول پر تقسیم کیا جانے والا حلف۔ پھر ہر حلف اور قسم کے لیے آتا ہے : {وَاِنَّـہٗ لَقَسَمٌ لَّــوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ ۔ } (الواقعۃ) ’’ اور یقینا یہ ایک عظیم قسم ہے ‘ اگر تم سمجھو۔‘‘

 اَقْسَمَ یُقْسِمُ (افعال) اِقْسَامًا : حلف اٹھانا‘ قسم کھانا ۔ {وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ} (الانعام:109) ’’ اور انہوں نے قسم کھائی اللہ کی اپنے حلف کی کوشش کرتے ہوئے۔‘‘

 قَسَّمَ یُقَسِّمُ (تفعیل) تَقْسِیْمًا : بتدریج بانٹنا۔

 مُقَسِّمٌّ(اسم الفاعل) : بانٹنے والا ۔ {فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا ۔ } (الذاریات) ’’ پھر قسم ہے حکم کو بانٹنے والیوں کی۔‘‘

 قَاسَمَ یُقَاسِمُ (مفاعلہ) مُقَاسَمَۃً : دوسرے کو قسم دینا۔ {وَقَاسَمَھُمَآ اِنِّیْ لَـکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ ۔ } (الاعراف) ’’ اور اس نے قسم دی ان دونوں کو کہ یقینا میں تم دونوں کے لیے نصیحت کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘

 تَقَاسَمَ یَتَقَاسَمُ (تفاعل) تَقَاسُمًا : ایک دوسرے سے قسم لینا۔

 تَقَاسَمْ (فعل امر) : ایک دوسرے سے قسم لو {قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَاَھْلَہٗ} (النمل:49) ’’ انہوں نے کہا تم لوگ ایک دوسرے سے حلف لو کہ ہم لازماً شب خون ماریں گے اس پر صالح ( علیہ السلام) اور اس کے گھر والوں پر۔‘‘

 اِقْتَسَمَ یَـقْتَسِمُ (افتعال) اِقْتِسَامًا : اہتمام سے بانٹنا۔

 مُقْتَسِمٌ (اسم الفاعل) : اہتمام سے بانٹنے والا ۔ {کَمَآ اَنْزَلْـنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ ۔ } (الحجر) ’’ جیسا کہ ہم نے اتارا اہتمام سے تقسیم کرنے والوں پر۔‘‘

 اِسْتَقْسَمَ یَسْتَقْسِمُ (استفعال) اِسْتِقْسَامًا : بانٹ چاہنا‘ تقسیم کرنے کی کوشش کرنا۔ {وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِط} (المائدۃ:3) ’’ اور وہ جو ذبح کیا گیا استھان پر اور یہ کہ تم لوگ تقسیم کرنے کی کوشش کرو فال کے تیروں سے۔‘‘

وَلْيَخْشَ الَّذِيْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّيَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَيْھِمْ  ۠ فَلْيَتَّقُوا اللّٰهَ وَلْيَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا     ۝
(وَلْـیَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں) (الَّذِیْنَ : وہ لوگ جو ) (لَــوْ : اگر ) (تَرَکُوْا : چھوڑیں) (مِنْ خَلْفِہِمْ : اپنے پیچھے ) (ذُرِّیَّۃً ضِعٰـفًا : کچھ کمزور اولادیں) (خَافُوْا : تو وہ خوف کریں ) (عَلَیْہِمْ : ان کے بارے میں ) (فَلْیَتَّـقُوا: پس چاہیے کہ وہ تقویٰ اختیار کریں) (اللّٰہَ : اللہ کا ) (وَلْـیَـقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں ) (قَوْلاً سَدِیْدًا : ٹھیک بات )

 

س د د

 سَدَّ یَسُدُّ (ن) سَدًّا : کوئی رخنہ یا دراز بند کرنا‘ درست کرنا‘ دیوار یا آڑ کھڑی کرنا۔

 سَدٌّ (اسم ذات) : دیوار‘ آڑ۔ {وَجَعَلْنَا مِنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ سَدًّا} (یٰسٓ:9) ’’ اور ہم نے بنایا ان کے سامنے ایک آڑ۔‘‘

 سَدِیْدٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : درست‘ ٹھیک۔ آیت زیر مطالعہ۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا  ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا      10؀ۧ
(اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک وہ لوگ جو ) (یَاْکُلُوْنَ : کھاتے ہیں ) (اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی : یتیموں کے مال ) (ظُلْمًا : ظلم کرتے ہوئے ) (اِنَّمَا : تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ) (یَاْکُلُوْنَ : وہ کھاتے (یعنی بھرتے) ہیں ) (فِیْ بُطُونِہِمْ : اپنے پیٹوں میں ) (نَارًا : ایک آگ ) (وَسَیَصْلَوْنَ : اور وہ گریں گے ) (سَعِیْرًا: شعلوں والی آگ میں )

 

ص ل ی

 صَلَی یَصْلِی (ض) صَلْیًا : کسی چیز کو آگ پر بھوننا‘ آگ میں ڈالنا۔

 صَلِیَ یَصْلَی (س) صِلِیًّا : آگ کی تپش جھیلنا‘ آگ میں گرنا‘ آیت زیر مطالعہ۔

 اِصْلَ (فعل امر) : تو جل ۔ {اِصْلَوْھَا الْیَوْمَ بِمَا کُنْتُمْ تَـکْفُرُوْنَ ۔ } (یٰسٓ) ’’ تم لوگ جلو اس میں آج بسبب اس کے جو تم انکار کیا کرتے تھے۔‘‘

 صَالٍ (اسم الفاعل) : جلنے والا۔ {اِنَّھُمْ صَالُوا النَّارِ ۔ } (صٓ) ’’ بے شک یہ لوگ آگ میں جلنے والے ہیں۔‘‘

 اَصْلَی یُصْلِیْ (افعال) اِصْلَائً : کسی کو آگ میں داخل کرنا ‘ گرانا۔{فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًاط} (النسائ:30) ’’ تو عنقریب ہم داخل کریں گے اس کو آگ میں۔‘‘

 نُصْلِ (مضارع مجزوم میں جمع متکلم کا صیغہ) : {وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَط} (النسائ:115) ’’ اور ہم داخل کریں گے اس کو دوزخ میں۔‘‘

 صَلَّی یُصَلِّیْ (تفعیل) تَصْلِیَۃً : کسی کو آگ میں بھوننا۔

 صَلِّ (فعل امر) : تو بھون‘ تو جلا۔ {خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ ۔ ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ ۔ } (الحاقۃ) ’’ تم لوگ اس کو پکڑو پھر اسے طوق ڈالو ۔ پھر بھڑکتی آگ میں اس کو بھونو۔‘‘

 اِصْطَلٰی یَصْطَلِیْ (افتعال) اِصْطِلَائً : اہتمام سے جلنا‘ آگ تاپنا‘ سینکنا۔ {اَوْ اٰتِیْکُمْ بِشِھَابٍ قَـبَسٍ لَّـعَلَّـکُمْ تَصْطَلُوْنَ ۔ }(النمل) ’’ یا میں لائوں تمہارے پاس ایک سلگتا انگارہ شاید تم لوگ آگ تاپو۔‘‘

س ع ر

 سَعَرَ یَسْعَرُ (ف) سَعْرًا : (1) کسی کو اشتعال دلانا‘ بھڑکانا۔ (2) آگ جلانا۔

 سَعِیْرٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : ہمیشہ جلنے والی آگ‘ شعلوں والی آگ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 سُعُـرٌ : دیوانگی‘ پاگل پن‘ جنون۔ {اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ ضَلٰلٍ وُّسُعُرٍ ۔ } (القمر) ’’ یقینا مجرم لوگ گمراہی اور جنون میں ہیں۔‘‘

 سَعَّرَ یُسَعِّرُ (تفعیل) تَسْعِیْرًا : کثرت سے آگ جلانا‘ آگ کو خوب بھڑکانا۔ {وَاِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ ۔ } (التکویر) ’’ اور جب بھڑکتی آگ خوب بھڑکائی جائے گی۔‘‘

 

 (نوٹ: مادہ ’’ ص ل و‘‘ سے بابِ تفعیل کا فعل امر اصلاً صَلِّوْ بنتا ہے‘ جو قاعدے کے مطابق تبدیل ہو کر صَلِّاستعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں تو نماز پڑھ۔ مادہ ’’ ص ل ی‘‘ سے بابِ تفعیل کا فعل امر اصلاً صَلِّیْ بنتا ہے‘ اور قاعدے کے مطابق تبدیل ہو کر یہ بھی صَلِّ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں تو آگ میں بھون۔ اس طرح دونوں ہم شکل ہو جاتے ہیں لیکن عبارت کے سیاق و سباق میں ان کی تمیز آسانی سے ہوجاتی ہے۔

يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ  ۚ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَھَا النِّصْفُ  ۭ وَلِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗٓ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ  ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗٓ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۭ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا  ۭ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ  ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا      11 ؀
(یُوْصِیْکُمُ : تاکید کرتا ہے تم کو ) (اللّٰہُ : اللہ ) (فِیْ اَوْلاَدِکُمْ: تمہاری اولاد (کے بارے) میں) (لِلذَّکَرِ : مذکر کے لیے) (مِثْلُ حَظِّ الْاُنْـثَـیَیْنِ: دو مؤنث کے حصے کی مانند) (فَاِنْ کُنَّ : پھر اگر ہوں ) (نِسَآئً : کچھ عورتیں) (فَوْقَ اثْـنَـتَـیْنِ : دو سے اوپر ) (فَلَہُنَّ : تو ان کے لیے ہے ) (ثُـلُـثَا : اس کا دو تہائی ) (مَا : جو) (تَرَکَ : اس نے چھوڑا) (وَاِنْ کَانَتْ : اور اگر ہو ) (وَاحِدَۃً : ایک (مؤنث) ) (فَلَہَا : تو اس کے لیے ہے ) (النِّصْفُ : آدھا) (وَلِاَبَوَیْہِ : اور اس کے ماں باپ کے لیے) (لِکُلِّ وَاحِدٍ : ہر ایک کے لیے ) (مِّنْہُمَا : ان دونوں میں سے ) (السُّدُسُ : چھٹا حصہ ہے) (مِمَّا : اس میں سے جو ) (تَرَکَ : اس نے چھوڑا) (اِنْ کَانَ : اگر ہو ) (لَـہٗ : اس کی ) (وَلَــدٌ : کوئی اولاد ) (فَاِنْ : پھر اگر ) (لَّـمْ یَکُنْ : نہ ہو ) (لَّــہٗ : اس کی) (وَلَــدٌ : کوئی اولاد ) (وَّوَرِثَہٗ : اور وارث ہوں اس کے ) (اَبَوٰہُ : اس کے ماں باپ ) (فَلاُِمِّہِ : تو اس کی ماں کے لیے ہے ) (الثُّلُثُ : ایک تہائی ) (فَاِنْ کَانَ: پھر اگر ہوں) ( لَـہٗ : اس کے ) (اِخْوَۃٌ : بھائی بہن ) (فَلاُِمِّـہِ : تو اس کی ماں کے لیے ہے ) (السُّدُسُ : چھٹا حصہ ) (مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ : اس وصیت کے بعد ) (یُّوْصِیْ : اس نے وصیت کی ) (بِہَـآ : جس کی ) (اَوْ دَیْنٍ: یا کسی قرضے (کی ادائیگی) کے بعد ) (اٰبَــآؤُکُمْ : تمہارے ماں باپ ) (وَاَبْـنَــآؤُکُمْ : اور تمہارے بیٹے) (لاَ تَدْرُوْنَ : تم نہیں جانتے ) (اَیُّـہُـمْ : ان میں سے کون ) (اَقْرَبُ : زیادہ قریب ہے ) (لَــکُمْ : تمہارے لیے ) (نَفْعًا : بلحاظِ نفع کے) (فَرِیْضَۃً : فرض ہوتے ہوئے ) (مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے ) (اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ ) (کَانَ عَلِیْمًا : جاننے والا ہے) (حَکِیْمًا: حکمت والا ہے )

 

ث ل ث

 ثَلَثَ یَثْلُثُ (ن) ثَلْثًا : کسی چیز کا تیسرا حصہ لینا‘ ایک تہائی لینا۔

 ثَلَاثٌ (اسماء العدد ) : تین ۔ {خَلْقًا مِّنْم بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍط} (الزمر:6) ’’ ایک پیدائش کے بعد دوسری پیدائش تین اندھیروں میں‘‘۔ {فَصِیَامُ ثَلٰـثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ} (البقرۃ:196) ’’ تو تین دن کاروزہ رکھنا ہے حج میں۔‘‘

 ثَلَاثُوْنَ : تیس ۔ {وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَـیْلَۃً} (الاعراف:142) ’’ اور ہم نے وعدہ کیا موسیٰ سے تیس راتوں کا۔‘‘

 ثُلُثٌ : کسی چیز کا تیسرا حصہ ‘ ایک تہائی ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ثَالِثٌ : ترتیب میں تیسرا ۔ {قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰـثَۃٍ 7} (المائدۃ:73) ’’ انہوں نے کہا کہ اللہ تین کا تیسرا ہے ۔‘‘

 ثُـلَاثُ : تکرار کا عدد ہے۔ تین تین ۔ سورۃ النساء کی آیت 3 دیکھیں۔

ث ن ی

 ثَنَی یَثْنِیْ (ض) ثَنْیًا : کسی چیز کو تہہ کرنا‘ دوہرا کرنا۔ {اِنَّھُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ} (ھود:5) ’’ بے‘ شک وہ لوگ دہرا کرتے ہیں اپنے سینوں کو۔‘‘

 ثَانٍ (فَاعِلٌ کا وزن) : (1) دہرا کرنے والا ۔ (2) ترتیب میں دوسرا۔ {ثَانِیَ عِطْفِہٖ} (الحج:9) ’’ اپنی گردن کو دہرا کرنے والا ہوتے ہوئے‘‘۔ {اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ} (التوبۃ:40) ’’ جب نکالا آپؐ کو ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا‘ دو کا دوسرا ہوتے ہوئے۔‘‘

 اِثْنَانِ مؤنث اِثْـنَـتَـیْنِ (ان میں ہمزۃ الوصل ہے) : اسماء العدد میں سے ہے۔ دو۔ {لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـھَیْنِ اثْنَیْنِج} (النحل:51) ’’ تم لوگ مت بنائو دو اِلٰہ۔‘‘

 مَثْنًی (مَفْعَلٌ کا وزن ہے اور تکرار کا عدد) : دو دو۔ سورۃ النساء آیت 3 دیکھیں۔

 مَثَانِیْ (مَفَاعِلُ کے وزن پر یہ مَثْنًی کی جمع ہے) : بار بار دہرانا‘ پھر اسم المفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ بار بار دہرایا جانے والا۔ {وَلَقَدْ اٰتَـیْنٰـکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ} (الحجر:87) ’’ اور بےشک ہم نے دیا ہے آپؐ کو سات یعنی سات آیتیں بار بار دہرائی جانے والی ۔‘‘

 اِسْتَثْنٰی یَسْتَثْنِیْ (استفعال) اِسْتِثْنَائً : کسی اصول سے کسی کو الگ کرنا‘ مستثنیٰ کرنا۔ {اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّھَا مُصْبِحِیْنَ ۔ وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ ۔ } (القلم) ’’ جب ان لوگوں نے قسم کھائی کہ وہ لازماً کاٹیں گے اس کو (یعنی کھیت کو) صبح ہوتے ہی ۔ اور انہوں نے استثناء نہیں کیا‘ یعنی ان شاء اللہ نہیں کہا۔‘‘

ن ص ف

 نَصَفَ یَنْصُفُ ۔ نَصَفَ یَنْصِفُ (ن ۔ ض) نَصْفًا : کسی چیز کا برابر دو حصوں میں ہونا۔ (1) آدھا ہونا۔ (2) برابر ہونا۔

 نِصْفٌ : آدھا حصہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَنْصَفَ (افعال) اِنْصَافًـا : کسی چیز کے برابر دو حصے کرنا۔ (1) آدھا کرنا۔ (2) برابر کرنا‘ انصاف کرنا۔ اس باب سے کوئی لفظ قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔

س د س

 سَدَسَ یَسْدُسُ ۔ سَدَسَ یَسْدِسُ (ن۔ ض) سَدْسًا : چھٹا ہونا‘ چھٹا حصہ لینا۔

 سُدُسٌ : چھٹا حصہ (یعنی کسی چیز کے برابر چھ حصے کیے جائیں تو ایک حصہ پوری چیز کا چھٹا حصہ ہوگا) ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 سَادِسٌ : ترتیب میں چھٹا۔ {وَیَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُھُمْ کَلْبُھُمْ} (الکہف:22) ’’ وہ لوگ کہیں گے پانچ ہیں‘ ان کا چھٹا ان کا کتا ہے۔‘‘

ء خ و

 اَخَی یَخِی (ن) اُخُوَّۃً : (1) ماں‘ باپ یا کسی ایک کی طرف سے نسبی بھائی ہونا۔ (2) دودھ شریک بھائی ہونا۔ (3) معنی کے لحاظ سے بھائی ہونا۔ ہم عقیدہ یا ساتھی ہونا۔

 اَخٌ : یہ دراصل اَخَوٌ ہے جو قاعدے کے مطابق تبدیل ہو کر اَخٌ استعمال ہوتا ہے (آسان عربی گرامر‘ حصہ سوم‘ پیراگراف 13:77) ۔ بھائی‘ نسبی دودھ شریک اور معنوی‘ ہر طرح کے بھائی کے لیے آتا ہے۔ جب یہ مضاف بنتا ہے تو اس کی رفعی‘ نصبی اور جری حالت اَخُوْ‘ اَخَا اور اَخِیْ ہوتی ہے ۔ {اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّـہٗ مِنْ قَـبْلُج} (یوسف:77) ’’ اگر اس نے چوری کی تو چوری کر چکا ہے اس کا بھائی اس سے پہلے۔‘‘ {اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ نُوْحٌ} (الشعرائ:106) ’’ جب کہا ان سے ان کے بھائی نوحؑ نے۔‘‘ {قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَاَخَاہُ} (الاعراف:111) ’’ انہوں نے کہا کہ ٹال دو اس کو اور اس کے بھائی کو۔‘‘ {فَمَنْ عُفِیَ لَـہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ} (البقرۃ:178) ’’ تو وہ جو معاف کیا گیا جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی۔‘‘

 اَخَوَانِ : یہ اَخٌ کا تثنیہ ہے۔ {فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْج} (الحجرات:10) ’’ پس تم لوگ صلح کرائو اپنے دونوں بھائیوں کے مابین۔‘‘

 اِخْوَانٌ : یہ اَخٌ کی جمع ہے ۔ {اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط} (بنی اسرائیل :27) ’’ یقینا بےجا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔‘‘

 اِخْوَۃٌ (اسم الجمع) : اس میں بھائی بہن سب شامل ہیں۔ {اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ} (الحجرات:10) ’’ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ تمام مومن آپس میں بھائی بہن ہیں۔‘‘

 اُخْتٌج اَخَوَاتٌ : بہن۔ {یٰٓــاُخْتَ ھٰرُوْنَ} (مریم:28) ’’ اے ہارون کی بہن۔‘‘ {اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِکُمْ}(النور:61) ’’ یا اپنے بھائیوں کے گھروں میں یا اپنی بہنوں کے گھروں میں۔‘‘

د ر ی

 دَرَی یَدْرِیْ (ض) دِرَایَۃً : کسی چیز کا عرفان حاصل کرنا‘ جاننا‘ سمجھنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَدْرَی یُدْرِیْ (افعال) اِدْرَائً : کسی کو کسی چیز کا عرفان دینا۔ {لَــوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَدْرٰٹکُمْ بِہٖز} (یونس:16) ’’ اگر اللہ چاہتا تو میں اسے پڑھ کر نہ سناتا تم لوگوں کو اور نہ وہ باخبر کرتا تم کو اس سے۔‘‘ وَمَا اَدْرٰٹکَ اور وَمَا یُدْرِیْکَ عربی محاورے ہیں۔ ان کا لفظی ترجمہ ہے ’’ اور اس نے کیا بتایا تم کو‘‘۔’’ اور وہ کیا بتاتا ہے تم کو‘‘۔ لیکن اس میں ان کا مفہوم ہے ’’ اور تم کیا جانو۔ اور تم کیا جانتے ہو‘‘۔

 

ترکیب: ’’ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَـیَیْنِ‘‘ مرکب اضافی ہے اور مبتدا ٔمؤخر ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے‘ جبکہ ’’ لِلذَّکَرِ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ’’ ثُلُثَا مَا‘‘ بھی مرکب اضافی ہے ‘ اس لیے ’’ ثُلُثَانِ‘‘ کا نون اعرابی گرا ہوا ہے۔ ’’ وَرِثَ‘‘ کا فاعل ’’ اَبَـوٰہُ‘‘ ہے۔ ’’ دِیْنٍ‘‘ کی جر بتا رہی ہے کہ یہ ’’ مِنْ بَعْدِ‘‘ پر عطف ہے۔ ’’ اٰبَـآئُ‘ کُمْ وَاَبْنَائُ کُمْ‘‘ مبتدا ہیں اور آگے پورا جملہ اس کی خبر ہے۔ ’’ نَفْعًا‘‘ تمیز ہے اور فَرِیْضَۃً حال ہے۔

 

نوٹ 1: آیت زیر مطالعہ میں گنتی کے کچھ الفاظ آئے ہیں‘ ان کو أسماء العدد کہتے ہیں۔ ان کے استعمال کے کچھ قواعد ہیں جن کی تفصیل کتاب ’’ عربی کا معلم‘‘ حصہ چہارم میں دی ہوئی ہے۔ ان میں سے چند ابتدائی باتیں درج ذیل ہیں:

 (1) پہلے یہ سمجھ لیں کہ آج کل عربی میں گنتی لکھنے کے جو ہندسے ہیں‘ یعنی 1۔2۔3 وغیرہ‘ ان کو اَرقامِ ہندیہ کہتے ہیں۔ عربی کے اصل ہندسے 3-2-1 وغیرہ ہیں اور ان کو اَرقامِ عربیہ کہتے ہیں۔ اہل یورپ نے اندلس کے مسلمانوں سے یہ ہندسے سیکھے تھے۔

 (2) ایک اور دو کی گنتی کے لیے اسم العدد اور معدود مرکب توصیفی کی طرح آتے ہیں‘ اس لیے جنس کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے مطابق ہوتے ہیں۔ جیسے قَلَمٌ وَاحِدٌ‘ وَرَقَۃٌ وَاحِدَۃٌ اور قَلَمَانِ اثْنَانِ‘ وََرَقَتَانِ اثْنَتَانِ۔

 (3) تین سے دس تک کی گنتی کے لیے اسم العدد مضاف اور معدود مضاف الیہ کی طرح آتے ہیں اور جنس میں ایک دوسرے کے برعکس ہوتے ہیں۔ جیسے تِسْعَۃُ مُعَلِّمِیْنَ اور تِسْعُ مُعَلِّمَاتٍ۔

 (4) اگر ہم کہیں کہ ’’ گھڑ سوار دو دو‘ تین تین‘ چار چار ہو کر آئے‘‘ اور اس کا عربی ترجمہ اس طرح کریں جَائَ تِ الْفُرْسَانُ اثْنَیْنِ اثْنَیْنِ ثَلٰـثَۃً ثَلٰـثَۃً اَرْبَعَۃً اَرْبَعَۃً تو یہ ترجمہ درست ہو گا‘ لیکن عربی میں اس کا رواج نہیں ہے۔ نوٹ کریں کہ اس ترجمے میں اسماء العدد حال ہونے کی وجہ سے حالت نصبی میں آئے ہیں۔ عدد کے تکرار کے لیے ایک ایک کا مفہوم ادا کرنے کے لیے عام طور پر فُرَادَ آتا ہے۔ دو دو کے لیے اِثْنَانِ کو مَفْعَلُ کے وزن پر مَثْنٰیلاتے ہیں۔ جبکہ تین تین سے نو نو کے لیے اسم العدد کو فُعَالٌ کے وزن پر استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ثُلَاثُ اور رُبَاعُ وغیرہ۔

نوٹ 2: اس سورہ میں مختلف مقامات پر وراثت کے متعلق متعدد آیات آئی ہیں۔ ان کے حوالے سے اسلام کے قانونِ وراثت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی تمام آیات کو یکجا کر کے متعلقہ احادیث اور فقہاء کے اقوال کی روشنی میں ان کا مطالعہ کیا جائے۔ کسی ایک آیت یا چند آیات کے حوالے سے قانونِ وراثت کو سمجھنے کی کوشش ایک سعی لاحاصل ہے۔ اس لیے ان اسباق میں قانون وراثت کی وضاحت شامل نہیں ہوگی۔

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّھُنَّ وَلَدٌ  ۚ فَاِنْ كَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْنَ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۭوَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۭ وَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّلَهٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنْ كَانُوْٓا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَھُمْ شُرَكَاۗءُ فِي الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصٰى بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۙغَيْرَ مُضَاۗرٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَلِيْمٌ         12؀ۭ
(وَلَــکُمْ : اور تمہارے لیے ) (نِصْفُ مَا : اس کا آدھا ہے جو ) (تَرَکَ : چھوڑا) (اَزْوَاجُکُمْ : تمہاری بیویوں نے) (اِنْ : اگر) (لَّــمْ یَکُنْ : نہ ہو ) (لَّـہُنَّ : ان کا ) (وَلَــدٌ : کوئی بچہ ) (فَاِنْ : پھر اگر ) (کَانَ : ہو ) (لَہُنَّ : ان کا ) (وَلَــدٌ : کوئی بچہ ) (فَـلَـکُمُ : تو تمہارے لیے ) (الرُّبُعُ مِمَّا: اس میں سے چوتھائی حصہ ہے جو ) (تَرَکْنَ : انہوں نے چھوڑا) (مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ : اس وصیت کے بعد) (یُّوْصِیْنَ : انہوں نے وصیت کی ) (بِہَـآ : جس کی ) (اَوْ دَیْنٍ : یا کسی قرضے کے بعد ) (وَلَہُنَّ : اور ان کے لیے ) (الرُّبُعُ مِمَّا: اس میں سے چوتھائی حصہ ہے جو) (تَرَکْتُمْ : تم نے چھوڑا) (اِنْ : اگر ) (لَّـمْ یَکُنْ : نہ ہو ) (لَّــکُمْ : تمہارا) (وَلَــدٌ : کوئی بچہ ) (فَاِنْ : پھر اگر ) (کَانَ : ہو ) (لَــکُمْ : تمہارا) (وَلَــدٌ : کوئی بچہ ) (فَلَہُنَّ : تو ان کے لیے ) (الثُّمُنُ مِمَّا: اس میں سے آٹھواں حصہ ہے جو) (تَرَکْتُمْ : تم نے چھوڑا) (مِّنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ : اس وصیت کے بعد) (تُوْصُوْنَ : تم نے وصیت کی ) (بِہَـآ : جس کی ) (اَوْ دَیْنٍ : یا کسی قرضے کے بعد) (وَاِنْ : اور اگر ) (کَانَ : ہو) (رَجُلٌ : کوئی ایسا مرد ) (یُّوْرَثُ : جس کا وارث بنایا جاتا ہے ) (کَلٰـلَۃً : اس حال میں کہ وہ کلالہ تھا) (اَوِ امْرَاَۃٌ : یا کوئی ایسی عورت ہو ) (وَّلَـہٗ : اور اس کا ) (اَخٌ : ایک (اخیافی) بھائی ) (اَوْ : یا ) (اُخْتٌ : ایک (اخیافی) بہن ہے ) (فَلِکُلِّ وَاحِدٍ : تو ہر ایک کے لیے ) (مِّنْہُمَا : ان دونوں میں سے ) (السُّدُسُ : چھٹا حصہ ہے ) (فَاِنْ : پھر اگر ) (کَانُوْآ : وہ (لوگ) ہوں) (اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ : اس سے زیادہ ) (فَہُمْ : تو وہ (لوگ) (شُرَکَآئُ : شریک ہیں ) (فِی الثُّلُثِ : ایک تہائی میں ) (مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ : اس وصیت کے بعد) (یُّوْصٰی : وصیت کی گئی ) (بِہَـآ : جس کی ) (اَوْ دَیْنٍ : یا کسی قرضے کے بعد) (غَیْرَمُضَآرٍّ: بغیر نقصان دینے والی ہوتے ہوئے) (وَصِیَّۃً : تاکید ہوتے ہوئے ) (مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے ) (وَاللّٰہُ : اور اللہ ) (عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ) (حَلِیْمٌ: بردبار ہے)

 

ر ب ع

 رَبَعَ یَرْبُعُ (ن) رَبْعًا : کسی چیز کا چوتھا حصہ لینا‘ ایک چوتھائی لینا۔

 اَرْبَعٌ : اسماء العدد میں سے ہے۔ چار ۔ {وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰٓی اَرْبَعٍط} (النور:45) ’’ اور ان میں سے وہ بھی ہے جو چلتا ہے چار پر یعنی چار ٹانگوں پر۔‘‘

 اَرْبَعِیْنَ : چالیس ۔ {وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓی اَرْبَعِیْنَ لَـیْلَۃً} (البقرۃ:51) ’’ اور جب ہم نے وعدہ کیا موسیٰ ؑ سے چالیس راتوں کا۔‘‘

 رُبُعٌ : کسی چیز کا چوتھا حصہ‘ ایک چوتھائی۔ آیت زیر مطالعہ۔

 رَابِعٌ : ترتیب میں چوتھا۔ {سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰـثَۃٌ رَّابِعُھُمْ کَلْبُھُمْج} (الکہف:22) ’’ وہ لوگ کہیں گے تین ہیں اور چوتھا ان کا کتا ہے۔‘‘

 رُبَاعُ (تکرار کا عدد) : چار چار ۔ سورۃ النساء کی آیت 3 دیکھیں۔

ک ل ل

 کَلَّ یَکِلُّ (ض) کَلًّا : (1) تھکنا (بہت کام کرنے کی وجہ سے) ۔ والد اور اولاد کے بغیر ہونا۔

 کَلٌّ (اسم ذات بھی ہے) : تھکا دینے والی چیز‘ بوجھ ۔ {وَھُوَ کَلٌّ عَلٰی مَوْلٰٹہُ} (النحل:76) ’’ اور وہ ایک بوجھ ہے اپنے آقا پر۔‘‘

 کَلَّا : بوجھ یا تھکاوٹ کی نفی سے عام ہے۔ کسی بھی چیز کی کامل نفی کے لیے آتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ {کَلَّاط سَنَـکْتُبُ مَا یَقُوْلُ} (مریم:79) ’’ ہرگز نہیں۔ ہم لکھیں گے اس کو جو وہ کہتا ہے۔‘‘

 کُلٌّ : (1) سب کے سب۔ ہر ایک ۔ {بَلْ لَّـہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط کُلٌّ لَّـہٗ قٰـنِتُوْنَ ۔ } (البقرۃ) ’’ بلکہ اس کا ہی ہے وہ‘ جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ سب کے سب اس کی ہی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔‘‘

 کُلَّمَا : اس میں ما ظرفیہ ہے اور کُلَّ اس کا مضاف ہے۔ ظرف کے تکرار کا مفہوم دیتا ہے ۔ جب کبھی‘ جب بھی ۔ {کُلَّمَآ اَضَآئَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِق} (البقرۃ:20) ’’ جب کبھی روشنی ہوتی ہے ان کے لیے تو وہ لوگ چلتے ہیں اس میں ۔‘‘

 کَلَالَۃً : ایسی میت جس کی اولاد اور والد زندہ نہ ہوں۔ آیت زیر مطالعہ۔

 

ترکیب:’’ تَرَکَ‘‘ کا فاعل ’’ اَزْوَاجُکُمْ‘‘ عاقل کی جمع مکسر ہے‘ جس کا فعل واحد مذکر اور واحد مؤنث‘ دونوں طرح آ سکتا ہے۔ البتہ آگے ’’ یَکُنْ‘‘ اور ’’ لَھُنَّ‘‘ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں ’’ اَزْوَاجُکُمْ‘‘ (تمہارے جوڑے) سے مراد تمہاری بیویاں ہیں۔ ’’ دَیْنٍ‘‘ کی جر بتا رہی ہے کہ یہ ’’ وَصِیَّۃٍ‘‘ پر عطف ہے۔ ’’ وَاِنْ کَانَ‘‘ میں ’’ کَانَ تامّہ‘‘ ہے۔ ’’ رَجُلٌ‘‘ اور ’’ اَوِ امْرَاَۃٌ‘‘ اس کے فاعل ہیں اور نکرہ موصوفہ ہیں۔ ’’ یُـوْرَثُ کَلَالَۃً‘‘ صفت ہے۔ ثلاثی مجرد میں ’’ وَرِثَ‘‘ لازم ہے‘ جس کا مجہول نہیں بن سکتا۔ اس لیے ’’ یُـوْرَثُ‘‘ باب افعال کا مجہول ہے۔ اس کا نائب فاعل اس میں شامل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ رَجُلٌ‘‘ اور ’’ اِمْرَاَۃٌ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ کَلٰلَۃً‘‘ ان کا حال ہے ۔ ’’ کَانُوْا‘‘ کا اسم اس میں شامل ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَخٌ‘‘ اور ’’ اُخْتٌ‘‘ کے لیے ہے اور اس کی خبر ’’ اَکْثَرَ‘‘ ہے۔ ’’ وَصِیَّۃٍ‘‘ کا حال ہونے کی وجہ سے ’’ غَیْرَ مُضَارٍّّ‘‘ حالت نصبی میں آیا ہے۔

 

نوٹ: لغوی اعتبار سے ایسی میت کو بھی کلالہ کہتے ہیں جس کا والد اور اولاد نہ ہو‘ اور میت کے والد اور اولاد کے علاوہ جو وارث ہوں‘ ان کو بھی کلالہ کہتے ہیں۔ لیکن اس آیت اور اس سورۃ کی آخری آیت کا سیاق وسباق بتا رہا ہے کہ ان میں کلالہ کا لفظ میت کے لیے آیا ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ
سے کَلَالَـۃٌ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’ وہ ‘ جو مرا اس حال میں کہ نہیں ہے اس کی کوئی اولاد اور نہ ہی والد‘‘۔ (مفردات القرآن)

تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ       13؀
[ تِلْکَ : یہ] [ حُدُوْدُ اللّٰہِ : اللہ کی حدیں ہیں ] [ وَمَنْ : اور جو ] [ یُّطِعِ : اطاعت کرے گا ] [ اللّٰہَ : اللہ کی ] [ وَرَسُوْلَــہٗ : اور اس کے رسول کی ] [ یُدْخِلْہُ : تو وہ داخل کرے گا ان کو] [ جَنّٰتٍ : ایسے باغات میں ] [ تَجْرِیْ : بہتی ہیں] [ مِنْ تَحْتِہَا : نیچے سے جن کے ] [ الْاَنْہٰرُ : نہریں] [ خٰلِدِیْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں ] [ فِیْہَا : جن میں ] [ وَذٰلِکَ : اور یہ ] [ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ : شاندار کامیابی ہے ]

 

ترکیب:’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ شرط ہونے کی وجہ سے ’’ یُطِیْعُ‘‘ کے بجائے مضارع مجزوم ’’ یُطِعْ‘‘ آیا ہے۔ پھر اسے اگلے لفظ یعنی اللہ سے ملانے کے لیے قاعدے کے مطابق زیر دی گئی ہے۔ ’’ یُدْخِلْہُ‘‘ جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا۔ ’’ جَنّٰتٍ‘‘ اس کا مفعول ثانی ہے اس لیے حالت نصب میں آیا ہے اور نکرہ مخصوصہ ہے۔ ’’ خٰلِدِیْنَ‘‘ حال ہے۔ ’’ اَلْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘‘ خبر معرفہ ہے اور اس کی ضمیر فاصل محذوف ہے۔ ’’ یَعْصِ‘‘ اور ’’ یَتَعَدَّ‘‘ شرط ہونے کی وجہ سے حالت جزم میں ہیں۔ ’’ یُدْخِلْہُ‘‘ کا مفعول ثانی ’’ نَارًا‘‘ ہے اور ’’ خَالِدًا‘‘ حال ہے۔ ’’ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ‘‘ مبتدا موخر نکرہ ہے اور اس کی خبر محذوف ہے۔

وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا  ۠ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ    14؀ۧ
[ وَمَنْ : اور جو ] [ یَّعْصِ : نافرمانی کرے گا] [ اللّٰہَ : اللہ کی ] [ وَرَسُوْلَــہٗ : اور اس کے رسول کی] [ وَیَتَـعَدَّ : اور تجاوز کرے گا ] [ حُدُوْدَہٗ : اس کی حدوں سے ] [ یُدْخِلْہُ : تو وہ داخل کرے گا اس کو ] [ نَارًا : ایک ایسی آگ میں ] [ خَالِدًا : ہمیشہ رہنے والا ہے ] [ فِیْہَا : جس میں ] [ وَلَـہٗ : اور اس کے لیے ہی ] [ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ: ایک رسوا کرنے والا عذاب ہے]

وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا     15 ؀
[ وَالّٰتِیْ : اور جو عورتیں] [ یَاْتِیْنَ : کرتی ہیں ] [ الْـفَاحِشَۃَ : بےحیائی ] [ مِنْ نِّسَآئِکُمْ : تمہاری عورتوں میں سے] [ فَاسْتَشْہِدُوْا : تو گواہ طلب کرو] [ عَلَیْہِنَّ : ان پر ] [ اَرْبَعَۃً : چار ] [ مِّنْکُمْ : تم میں سے ] [ فَاِنْ : پھر اگر ] [ شَہِدُوْا : وہ لوگ گواہی دیں ] [ فَاَمْسِکُوْہُنَّ : تو تم لوگ روکو ان کو ] [ فِی الْـبُـیُوْتِ : گھروں میں ] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ یَتَوَفّٰـٹہُـنَّ : پورا پورا لے لے ان کو] [ الْمَوْتُ : موت] [ اَوْ : یا] [ یَجْعَلَ : بنائے ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ لَـہُنَّ : ان کے لیے ] [ سَبِیْلاً : کوئی راہ ]

 

ترکیب:’’ یَاْتِیْنَ‘‘ مضارع میں جمع مؤنث غائب کا صیغہ ہے‘ ’’ اَلْفَاحِشَۃَ‘‘ اس کا مفعول ہے (دیکھیں البقرۃ:23 کا نوٹ 2) ۔ ’’ اَرْبَعَۃً‘‘ تمیز ہے۔ ’’ یَتَوَفّٰی‘‘ کا فاعل ’’ اَلْمَوْتُ‘‘ ہے۔ ’’ یَاْتِیٰـنِھَا‘‘ میں ’’ ھَا‘‘ کی ضمیر مفعولی ’’ اَلْفَاحِشَۃَ‘‘ کے لیے ہے۔

وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْھُمَا ۚ فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا  ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا      16؀
[ وَالَّذٰنِ : اور جو دو مرد ] [ یَاْتِیٰـنِہَا : کرتے ہیں وہی (یعنی بےحیائی) ] [ مِنْکُمْ : تم میں سے ] [ فَاٰذُوْہُمَا : تو اذیت دو ان دونوں کو] [ فَاِنْ : پھر اگر ] [ تَابَا : دونوں توبہ کریں] [ وَاَصْلَحَا : اور دونوں اصلاح کریں] [ فَاَعْرِضُوْا : تو تم درگزر کرو] [ عَنْہُمَا : دونوں سے ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ کَانَ تَوَّابًا : توبہ قبول کرنے والا ہے] [ رَّحِیْمًا: رحم کرنے والا ہے]

 

نوٹ 1: ان آیات میں ایسے مردوں اور عورتوں کے بارے میں سزا تجویز کی گئی ہے جن سے فاحشہ یعنی زنا کا صدور ہو جائے ۔ اس کے ثبوت کے لیے چار گواہ طلب کیے جائیں گے۔ اگر چار سے کم لوگ گواہی دیں تو ان کی گواہی نامعتبر ہے۔ ایسی صورت میں مدعی اور گواہ جھوٹے قرار دیے جاتے ہیں اور ایک مسلمان پر الزام لگانے کی وجہ سے ان پر حدقذف جاری کر دی جاتی ہے۔ ان دو آیتوں میں زنا کے لیے کوئی حد بیان نہیں کی گئی بلکہ صرف اتنا کہا گیا ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائو اور زناکار عورتوں کو گھروں میں بند کردو۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ اگر وہ دونوں توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے تعرض مت کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سزا کے بعد اگر توبہ کرلیں تو پھر انہیں ملامت نہ کرو اور مزید سزا مت دو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ توبہ سے سزا بھی معاف ہو گئی‘ کیونکہ آیت میں توبہ سزا کے بعد مذکور ہے۔

 نزول کے اعتبار سے قرآن کریم کی ان دو آیتوں کی ترتیب یہ ہے کہ شروع میں تو ان میں ایذا کا حکم نازل ہوا اور اس کے بعد عورتوں کے لیے یہ حکم نازل ہوا کہ ان کو گھروں میں بند رکھا جائے یہاں تک کہ ان کو موت آ جائے یا ان کی زندگی میں کوئی حکم آ جائے۔ چنانچہ بعد میں وہ ’’ سبیل‘‘ بیان کر دی گئی جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا تھا (ماخوذ ازمعارف القرآن ) ۔ مذکورہ حکم سورۃ النور کی آیت 2 میں ہے جس کا مفہوم (ترجمہ نہیں) یہ ہے کہ ’’ زانی عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور اللہ کے دین کے معاملے میں تمہیں ان پر ترس نہ آئے اگر تمہارا اللہ اور آخرت پر ایمان ہے۔ اور ان دونوں کو سزا دیتے وقت مؤمنوں میں سے ایک گروہ کاموقع پر موجود ہونا ضروری ہے‘‘۔ یعنی مرد اور عورت دونوں کو برسرعام سزا دینا ضروری ہے خواہ ہم مغربی طاغوت کو منہ دکھانے کے قابل رہیں یا نہ رہیں۔ جس کا اللہ اور آخرت پر ایمان ہے اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے اللہ کو منہ دکھانا ہے۔ دنیا کو منہ دکھانا اس کا مسئلہ ہے جو زبان سے اللہ اور آخرت کا اقرار کرلے لیکن دل یقین سے خالی ہو۔

نوٹ 2: شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کا قرآن مجید میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں احادیث میں ملتا ہے۔ اس وجہ سے ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے اکثر لوگوں کے ذہن الجھن کا شکار ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ حدیث کو اگر مانتے بھی ہیں تو اسے قرآن مجید سے کمتر درجہ کی چیز سمجھتے ہیں۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ یہ بات بالکل غلط ہے اور کسی درجے میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ سنی سنائی بات پر کوئی رائے قائم کرنے کے بجائے حدیث کی ضرورت و اہمیت اور ثقاہت یعنی قابل اعتبار ہونے کے متعلق خود تحقیق کر کے کوئی رائے قائم کریں۔ اگر انہوں نے غیر متعصب ذہن کے ساتھ یہ تحقیق کی تو ان شاء اللہ سوا نیزے پر دمکتے ہوئے سورج کی طرح یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ قرآن اور حدیث الگ الگ دو چیزیں نہیں ہیں بلکہ یہ ایک ہی سکہ رائج الوقت کے دو رخ ہیں۔ اس سلسلہ میں البلاغ فائونڈیشن کے ’’ حدیث کا جائزہ ‘‘ کورس کا مطالعہ بھی ان شاء اللہ مفید ہو گا۔

 اس ذہنی الجھن کی دوسری وجہ بھی لاعلمی پر مبنی ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے ماخذ قرآن اور حدیث ہیں۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ اسلامی قوانین کی غالب اکثریت کے یہی دو ماخذ ہیں‘ لیکن صرف یہی دو نہیں ہیں۔ اسلامی قوانین کے کچھ اور ماخذ بھی ہیں جن کی وضاحت ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اپنے ’’ خطباتِ بہاولپور‘‘ میں کی ہے۔ ان میں سے ایک تورات ہے۔ اصول یہ ہے کہ تورات میں درج اللہ کے جن احکام کی قرآن و حدیث میں توثیق کر دی گئی وہ اب اسلامی قوانین کا حصہ ہیں۔

 اب نوٹ کرلیں کہ رجم کی سزا تورات میں درج ہے اور رسول اللہ
نے اس پر عمل کر کے اس کے اسلامی قانون ہونے کی حیثیت کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر کردیا ہے۔

اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَي اللّٰهِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰۗىِٕكَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَيْھِمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا     17؀
[ اِنَّمَا : کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ التَّوْبَۃُ : توبہ (یعنی اپنی رحمت کے ساتھ رجوع کرنا تو ثابت) ہے] [ عَلَی اللّٰہِ : اللہ پر ] [ لِلَّذِیْنَ : ان لوگوں کے لیے جو ] [ یَعْمَلُوْنَ : کرتے ہیں ] [ السُّوْئَ : برا (کام) ] [ بِجَہَالَۃٍ : نادانی میں ] [ ثُمَّ : پھر

یَتُوْبُوْنَ : وہ لوگ توبہ کرتے ہیں ] [ مِنْ قَرِیْبٍ : قریب (یعنی جلدی) سے] [ فَاُولٰٓئِکَ : تو یہ لوگ ہیں ] [ یَتُوْبُ : توبہ قبول کرتا ہے ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ عَلَیْہِمْ : جن کی ] [ وَکَانَ اللّٰہُ : اور اللہ ہے ] [ عَلِیْمًا : جاننے والا ] [ حَکِیْمًا : حکمت والا ]

 

ع ت د

 عَتُدَ یَعْتُدُ (ک) عَتَادًا : تیار ہونا‘ آمادہ ہونا۔

 عَتِیْدٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : تیار۔ {مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ ۔ } (قٓ) ’’ وہ منہ سے نہیں نکالتا کوئی بات مگر یہ کہ اس کے پاس ہوتا ہے ایک تیار محافظ۔‘‘

 اَعْتَدَ ۔ یُعْتِدُ (افعال) اِعْتَادًا : تیار کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 

ترکیب:’’ اَلتَّوْبَۃُ‘‘ مبتدأ ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے جو کہ ’’ ثَابِتٌ‘‘ ہو سکتی ہے۔ ’’ عَلَی اللّٰہِ‘‘ اور ’’ لِلَّذِیْنَ‘‘ دونوں متعلق خبر ہیں۔ ’’ اَلسُّوْئَ‘‘ صفت ہے ‘ اس کا موصوف ’’ اَلْفِعْلَ‘‘ یا ’’ اَلْعَمَلَ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ اَلتَّوْبَۃُ‘‘ اسم ہے ’’ لَـیْسَ‘‘ کا‘ اس کی خبر بھی محذوف ہے اور یہاں ’’ عَلَی اللّٰہِ‘‘ بھی محذ وف ہے ‘ ’’ لِلَّذِیْنَ‘‘ اور’’ وَلَا الَّذِیْنَ‘‘ دونوں متعلق خبر ہیں۔

وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ ۚ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْــٰٔنَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ ۭاُولٰۗىِٕكَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا     18؀
[ وَلَـیْسَتِ : اور (ثابت) نہیں ہے ] [ التَّوْبَۃُ : توبہ (اللہ پر) ] [ لِلَّذِیْنَ : ان لوگوں کے لیے جو ] [ یَعْمَلُوْنَ : عمل کرتے رہتے ہیں ] [ السَّیِّاٰتِ : برائیوں کا ] [ حَتّٰیٓ : یہاں تک کہ ] [ اِذَا : جب ] [ حَضَرَ : سامنے آتی ہے ] [ اَحَدَہُمُ : ان کے کسی ایک کے ] [ الْمَوْتُ : موت ] [ قَالَ : تو وہ کہتا ہے ] [ اِنِّیْ تُـبْتُ : بےشک میں توبہ کرتا ہوں ] [ الْـئٰـنَ : اب ] [ وَلاَ الَّذِیْنَ : اور نہ ہی ان کے لیے جو ] [ یَمُوْتُوْنَ : مرتے ہیں ] [ وَ: اس حال میں کہ ] [ ہُمْ : وہ ] [ کُفَّارٌ : کفر کرنے والے ہیں ] [ اُولٰٓئِکَ : یہ لوگ ہیں ] [ اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا ] [ لَہُمْ : جن کے لیے ] [ عَذَابًا اَلِیْمًا: ایک دردناک عذاب]

 

نوٹ 1: پہلے یہ سمجھ لیں کہ توبہ کسے کہتے ہیں۔ کیونکہ قبول ہونے یا قبول نہ ہونے کا سوال صرف سچی توبہ سے متعلق ہے۔ جھوٹی توبہ کا اس سوال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سچی توبہ کے تین اجزاء ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اپنے کیے پر ندامت ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ توبہ نام ہی ندامت کا ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ آئندہ وہ کام نہ کرنے کاپختہ عزم کرے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو اپنے کیے کی تلافی کرے‘ مثلاً نماز‘ روزہ اور زکوٰۃ کی قضا کرے‘ کسی کا حق مارا ہے تو اسے ادا کرے‘ کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو اس سے معافی مانگے‘ کوئی ایسا شخص وفات پا چکا ہے تو اس کے لیے دعائے مغفرت کرے‘ وغیرہ۔

 یہ بھی سمجھ لیں کہ خطا کا صدور‘ پھر اس پر ندامت اور اعتراف‘ انسانیت کا عطر ہے۔ اگر کبھی خطا نہ کرے تو انسان فرشتہ ہو جائے گا ‘ یعنی مسجود کے بجائے ساجد ہو جائے گا۔ اگر خطا پر نادم نہ ہو اور اس کا اعتراف نہ کرے تو انسان شیطان ہو جائے گا (ماخوذ ازمعارف القرآن ) ۔ اس حوالے سے اب یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ غلطی کرنا اتنی بری بات نہیں ہے۔ برائی کی اصل جڑ یہ ہے کہ انسان اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرے۔

نوٹ 2: اب سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر انسان سچی توبہ کرے تو اس کی قبولیت کا کیا امکان ہے ۔ آیت 17 میں اس کے لیے پہلی شرط ’’ بِجَھَالَۃٍ‘‘ ہے ۔ اس کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ انجانے میں گناہ کرے تب توبہ قبول ہو گی۔ صحابہ کرام (رض) نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ گناہ کے انجام اور عذاب سے غفلت اس کا سبب بن گئی ہو خواہ وہ اسے گناہ جانتا ہو اور قصداً کیا ہو۔ جیسے یوسف (علیہ السلام) سے ان کے بھائیوں نے جو کیا قصداً کیا تھا پھر بھی قرآن مجید میں اسے جہالت کہا گیا ہے (یوسف:89) ۔ اس لیے امت کا اس پر اجماع ہے کہ جو شخص قصداً گناہ کرے‘ تو اس کی بھی توبہ قبول ہو سکتی ہے اگر وہ سچی توبہ کرے۔

 اسی آیت میں توبہ کی قبولیت کے لیے دوسری شرط ’’ مِنْ قَرِیْبٍ‘‘ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قریب کا کیا مطلب ہے؟ اس کی وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے جس میں رسول اللہ
نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک بندے پر غرغرہ نہ طاری ہوجائے۔ اس طرح مِنْ قَرِیْبٍکا مطلب ہے کہ انسان کا عرصہ ٔحیات قلیل ہے اور موت اس کے بالکل قریب ہے (ماخوذ ازمعارف القرآن ) ۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاۗءَ كَرْهًا  ۭوَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ  ۚ وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَهُوْا شَـيْـــــًٔـا  وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا      19؀
[ یٰٓـــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے لوگو جو ایمان لائے ہو] [ لاَ یَحِلُّ : حلال نہیں ہوتا] [ لَــکُمْ : تمہارے لیے ] [ اَنْ : کہ ] [ تَرِثُوا : تم لوگ وارث بنو] [ النِّسَآئَ : عورتوں کے ] [ کَرْہًا : زبردستی] [ وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ : اور تم لوگ مت روکو ان کو] [ لِتَذْہَبُوْا : تاکہ تم لوگ لے جائو ] [ بِبَعْضِ مَـآ : اس کے بعض کو جو] [ اٰتَـیْتُمُوْہُنَّ : تم لوگوں نے دیا ان کو ] [ اِلَّآ اَنْ : سوائے اس کے کہ ] [ یَّـاْتِیْنَ : وہ کریں ] [ بِفَاحِشَۃٍ مُّـبَــیِّنَۃٍ : کوئی کھلی بےحیائی] [ وَعَاشِرُوْہُنَّ: اور تم لوگ مل جل کر رہو ان سے] [ بِالْمَعْرُوْفِ : بھلے طریقے سے ] [ فَاِنْ : پھر اگر ] [ کَرِہْتُمُوْہُنَّ : تم لوگ ناپسند کرو ان کو] [ فَـعَسٰٓی : تو ہو سکتا ہے ] [ اَنْ : کہ ] [ تَـکْرَہُوْا : تم لوگ ناپسند کرو] [ شَیْئًا : کسی چیز کو ] [ وَّ : حالانکہ] [ یَجْعَلَ : (ہو سکتا ہے کہ) پیدا کرے] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ فِیْہِ : اس میں ] [ خَیْرًا کَثِیْرًا: بہت زیادہ بھلائی ]

 

ع ش ر

 عَشَرَ یَعْشِرُ ۔ عَشَرَ یَعْشُرُ (ض۔ ن) عَشْرًا : نو میں شامل ہو کر دسواں ہونا۔

 عَشْرٌ (اسم العدد) : دس۔ {مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَاج} (الانعام:160) ’’ جو آیا نیکی کے ساتھ تو اس کے لیے اس کی جیسی دس ہیں۔‘‘

 مِعْشَارٌ : دسواں حصہ یعنی 1/10۔ {وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَـآ اٰتَیْنٰـھُمْ} (سبا:45) ’’ اور وہ لوگ نہیں پہنچے اس کے دسویں حصے کو جو ہم نے دیا ان کو۔‘‘

 عُشَرَائُ ج عِشَارٌ : دس ماہ کی حاملہ اونٹنی جس کا وضع حمل کا وقت قریب ہو۔ {وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ۔ } (التکویر) ’’ اور جب حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی۔‘‘

 عِشْرُوْنَ : بیس ۔ {اِنْ یَّـکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِج} (الانفال:65) ’’ اگر ہوں تم لوگوں میں بیس ثابت قدم تو وہ غالب ہوں گے دوسو پر۔‘‘

 عَشِیْرٌ (فَعِیْلٌ کا وزن اسم الفاعل کے معنی میں) : شامل ہونے والا یعنی ساتھی‘ رفیق۔ {لَبِئْسَ الْمَوْلٰی وَلَبِئْسَ الْعَشِیْرُ ۔ } (الحج) ’’ یقینا بہت ہی براکارساز ہے اور یقینا بہت ہی برا رفیق ہے۔‘‘

 عَشِیْرَۃٌ : قبیلہ‘ برادری‘ رشتہ دار۔ {وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ۔ } (الشُّعرائ) ’’ اور آپؐ خبردار کریں اپنے قریبی رشتہ داروں کو۔‘‘

 مَعْشَرٌ : جماعت‘ گروہ۔ {یٰـمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَـکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِج} (الانعام:128) ’’ اے جنوں کے گروہ! تم نے بہت حاصل کر لیے انسانوں میں سے۔‘‘

 عَاشَرَ (مفاعلہ) مُعَاشَرَۃً : باہم مل جل کر رہنا۔

 عَاشِرْ (فعل امر) : تو مل جل کر رہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 

ترکیب:’’ لَا یَحِلُّ‘‘ میں لام کی ضمہ بتا رہی ہے کہ یہ مضارع مجزوم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس سے پہلے لائے نفی ہے‘ اس کو لائے نہی ماننا ممکن نہیں ہے۔ اس کے آگے ’’ اَنْ تَرِثُوا النِّسَائَ کَرْھًا‘‘ پورا جملہ ’’ لاَ یَحِلُّ‘‘ کا فاعل ہے۔ اس جملے میں ’’ تَرِثُوْا‘‘ کا فاعل اس میں ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے‘ ’’ اَلنِّسَائَ‘‘ اس کا مفعول ہے اور ’’ کَرْھًا‘‘ حال ہے۔ ’’ لَا تَعْضُلُوْا‘‘ فعل نہی ہے۔ ’’ یَجْعَلَ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ ’’ عَسٰی اَنْ‘‘ پر عطف ہے۔ ’’ اَتَاْخُذُوْنَ‘‘ کا مفعول ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ قِنْطَارًا‘‘ کے لیے ہے‘ جبکہ ’’ بُھْتَانًا‘‘ اور مرکب توصیفی ’’ اِثْمًا مُّبِیْنًا‘‘ دونوں حال ہیں۔ ’’ فَاحِشَۃً‘‘ اور ’’ مَقْتًا‘‘ ’’ کَانَ‘‘ کی خبر ہیں۔ ’’ سَائَ‘‘ فعل ماضی ہے لیکن اس کا ترجمہ حال میں ہو گا (البقرۃ:49‘ نوٹ 2) ۔’’ سَبِیْلًا‘‘ تمیز ہے۔

وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ  ۙ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا  ۭ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا      20؀
[ وَاِنْ : اور اگر ] [ اَرَدْتُّمُ : تم لوگ ارادہ کرو] [ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ : کسی بیوی کا بدلے میں لینا] [ مَّـکَانَ زَوْجٍ: کسی بیوی کی جگہ ] [ وَّاٰتَـیْتُمْ : اور تم نے دیاہو] [ اِحْدٰٹہُنَّ : ان کی کسی ایک کو] [ قِنْطَارًا : ایک ڈھیر (مال) ] [ فَلاَ تَاْخُذُوْا مِنْہُ: تم لوگ مت لو اس میں سے] [ شَیْئًا : کوئی چیز] [ اَتَـاْخُذُوْنَـہٗ : کیا تم لوگ لیتے ہو اس کو] [ بُہْتَاناً : جھوٹا الزام لگاتے ہوئے ] [ وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا : اور کھلاگناہ ہوتے ہوئے]

وَكَيْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَقَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّاَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا     21؀
[ وَکَیْفَ : اور کیسے] [ تَاْخُذُوْنَہٗ : تم لوگ لو گے اس کو] [ وَ: درآنحالیکہ] [ قَدْ اَفْضٰی : صحبت کر چکا ہے ] [ بَعْضُکُمْ : تم میں سے کوئی] [ اِلٰی بَعْضٍ : کسی سے ] [ وَّاَخَذْنَ : اور انہوں نے لیا ] [ مِنْکُمْ : تم سے ] [ مِّیْـثَاقًا غَلِیْظًا: ایک پکا وعدہ]

 

ف ض و

 فَضَا یَفْضُوْ (ن) فَضَائً : کسی چیز یا جگہ کا کشادہ ہونا۔

 اَفْضٰی (افعال) اِفْضَائً : کشادہ کرنا‘ صحبت کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا ۭوَسَاۗءَ سَبِيْلًا     22؀ۧ
[ وَلاَ تَـنْکِحُوْا : اور تم لوگ نکاح مت کرو] [ مَا : اس سے‘ جس سے] [ نَــکَحَ : نکاح کیا ] [ اٰبَــآؤُکُمْ : تمہارے اجداد نے] [ مِّنَ النِّسَآئِ : عورتوں میں سے ] [ اِلاَّ : سوائے اس کے کہ ] [ مَا : جو] [ قَدْ سَلَفَ : گزر گیا ہے ] [ اِنَّـہٗ : یقینا یہ ] [ کَانَ : ہے] [ فَاحِشَۃً : بےحیائی] [ وَّمَقْتًا : اور بیزاری] [ وَسَآئَ : اور برا ہے ] [ سَبِیْلاً : بلحاظ راستے کے]

 

م ق ت

 مَقَتَ ۔ یَمْقُتُ (ن) مَقْتًا : نفرت کرنا‘ بیزار ہونا۔

 مَقْتٌ (اسم ذات) : نفرت‘ بیزاری‘ آیت زیر مطالعہ۔

 

نوٹ: ان آیات میں ان غلط رسوم کی ممانعت ہے جو اسلام سے پہلے خواتین کے ضمن میں عام تھیں۔ عورت کی جان اور مال کو مرد کی ملکیت تسلیم کیا جاتا تھا۔ شوہر کے انتقال کے بعد وارث اس کے ترکہ کی طرح اس کی بیوہ کے بھی مالک بن جاتے تھے۔ اس سے اگر خود نکاح کرتے تو مہر نہیں ادا کرتے تھے اور اگر کسی دوسرے سے نکاح کراتے تو مہر خود رکھ لیتے تھے۔ بیوی کو اگر میکے یا کہیں اور سے کوئی چیز ملتی تو شوہر اس کا مالک ہوتا تھا۔ اس طرح کی اور رسومات کی نفی کرتے ہوئے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عورت کی شخصیت کے حق کو اور اس کے حق ملکیت کو تسلیم کرنے کا حکم دیا ہے۔

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّھٰتُكُمْ وَبَنٰتُكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ وَعَمّٰتُكُمْ وَخٰلٰتُكُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَاُمَّھٰتُ نِسَاۗىِٕكُمْ وَرَبَاۗىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕكُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ  ۡ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ ۡ وَحَلَاۗىِٕلُ اَبْنَاۗىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ ۙ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا      23؀ۙ
[ حُرِّمَتْ : حرام کی گئیں] [ عَلَیْـکُمْ : تم لوگوں پر ] [ اُمَّہٰتُـکُمْ : تمہاری مائیں ] [ وَبَنٰـتُـکُمْ : اور تمہاری بیٹیاں] [ وَاَخَوٰتُـکُمْ : اور تمہاری بہنیں] [ وَعَمّٰتُـکُمْ : اور تمہاری پھوپھیاں] [ وَخٰلٰـتُـکُمْ : اور تمہاری خالائیں] [ وَبَنٰتُ الْاَخِ : اور بھائی کی بیٹیاں] [ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ : اور بہن کی بیٹیاں] [ وَاُمَّہٰتُـکُمُ الّٰتِیْ: اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے ] [ اَرْضَعْنَـکُمْ : دودھ پلایا تم کو ] [ وَاَخَوٰتُـکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ: اور تمہاری دودھ شریک بہنیں] [ وَاُمَّہٰتُ نِسَآئِکُمْ: اور تمہاری عورتوں (بیویوں) کی مائیں] [ وَرَبَــآئِبُـکُمُ : اور تمہاری زیر تربیت بیٹیاں] [ الّٰتِیْ : جو] [ فِیْ حُجُوْرِکُمْ : تمہاری گودوں میں ہیں] [ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ: تمہاری ان عورتوں سے] [ دَخَلْتُمْ : تم داخل ہوئے ] [ بِہِنَّ : جن میں ] [ فَاِنْ : پھر اگر ] [ لَّمْ تَـکُوْنُوْا : تم نہیں ہوئے ] [ دَخَلْتُمْ : داخل ] [ بِہِنَّ : ان میں ] [ فَلاَ جُنَاحَ : تو کوئی گناہ نہیں ہے ] [ عَلَـیْـکُمْ : تم پر ] [ وَحَلَآئِلُ اَ بْـنَـآئِکُمُ : اور تمہارے بیٹوں کی بیویاں] [ الَّذِیْنَ : جو] [ مِنْ اَصْلاَبِکُمْ : تمہاری پیٹھوں سے ہیں] [ وَاَنْ : اور (حرام کیا گیا تم پر) کہ ] [ تَجْمَعُوْا : تم جمع کرو] [ بَیْنَ الْاُخْتَـیْنِ : دو بہنوں کے درمیان] [ اِلاَّ : سوائے اس کے کہ ] [ مَا : جو] [ قَدْ سَلَفَ : گزر گیا ہے ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ غَفُوْرًا: بےانتہا بخشنے والا ] [ رَّحِیْمًا: ہر حال میں رحم کرنے والا]

 

ع م م

 عَمَّ ۔ یَعُمُّ (ن) عُمُوْمًا : کسی چیز کا عام ہونا۔

 عَمٌّ ج اَعْمَامٌ : چچا۔{وَبَنٰتِ عَمِّکَ} (الاحزاب:50) ’’ اور تمہارے چچا کی بیٹیاں۔‘‘ {اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِکُمْ} (النور:61) ’’ یا تمہارے چچائوں کے گھر۔‘‘

 عَمَّۃٌ ج عَمَّاتٌ : پھوپھی۔ آیت زیر مطالعہ۔

 عَمَّ : اس کا مادہ ’’ ع م م‘‘ نہیں ہے بلکہ یہ ’’ عَنْ مَا‘‘ کی ادغام شدہ شکل ہے۔ {عَمَّ یَتَسَآئَ‘ لُـوْنَ ۔ } (النبا) ’’ کس کے بارے میں یہ لوگ باہم پوچھتے ہیں؟‘‘

خ و ل

 خَالَ ۔ یَخُوْلُ (ف) خَوْلًا : غلاموں والا ہونا۔ مالک۔

 خَالٌ ج اَخْوَالٌ : ماموں ۔ {وَبَنٰتِ خَالِکَ} (الاحزاب:50) ’’ اور تمہارے ماموں کی بیٹیاں۔‘‘ {اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِکُمْ} (النور:61) ’’ یا تمہارے ماموئوں کے گھر۔‘‘

 خَالَۃٌ ج خَالَاتٌ : خالہ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 خَوَّلَ ۔ یُخَوِّلُ(تفعیل) تَخْوِیْلًا : مالک بنانا‘ عطا کرنا۔ {وَتَرَکْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰـکُمْ وَرَآئَ ظُھُوْرِکُمْج} (الانعام:94) ’’ اور تم لوگ چھوڑ آئے اس کو جو ہم نے عطا کیا تم کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے۔‘‘

ص ل ب

 صَلَبَ۔ یَصْلُبُ (ن) صَلْـبًا : ہڈیوں سے گودا نکالنا۔ سولی پر چڑھانا (قتل کرنے کے لیے) ۔ {وَمَا قَـتَلُوْہُ وَمَا صَلَـبُوْہُ} (النسائ:157) ’’ ان لوگوں نے قتل نہیں کیا اس کو اور نہ ان لوگوں نے سولی چڑھایا اس کو۔‘‘

 صُلْبٌ ج اَصْلَابٌ : ریڑھ کی ہڈی‘ پیٹھ۔ {یَخْرُجُ مِنْم بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ ۔ } (الطارق) ’’ وہ نکلتا ہے پیٹھ اور سینوں کے درمیان سے۔‘‘

 صَلَّبَ (تفعیل) تَصْلِیْـبًا : سولی چڑھانا‘ پھانسی دینا۔ {وَلَاُوصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِز} (طٰہٰ:71) ’’ اور میں لازماً سولی چڑھائوں گا تم لوگوں کو کھجور کے تنوں پر۔‘‘