قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
پارہ پنجم

وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ  عَلَيْكُمْ ۚ وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ ۭ فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً  ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا تَرٰضَيْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِيْضَةِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا      24؀
[ وَّالْمُحْصَنٰتُ: اور شادی شدہ خواتین (بھی)] [ مِنَ النِّسَآئِ : عورتوں میں سے ] [ اِلاَّ : سوائے اس کے کہ ] [ مَا : جن کے ] [ مَلَکَتْ : مالک ہوئے ] [ اَیْمَانُکُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ] [ کِتٰبَ اللّٰہِ : اللہ کا لکھا ہوا ہوتے ہوئے ] [ عَلَیْکُمْ : تم پر ] [ وَاُحِلَّ : اور حلال کیا گیا ] [ لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ : جو اس کے علاوہ ہے ] [ اَنْ : کہ ] [ تَـبْـتَغُوْا : تم لوگ چاہو (ان کو) ] [ بِاَمْوَالِکُمْ : اپنے مال سے ] [ مُّحْصِنِیْنَ: حفاظت کرنے والے ہوتے ہوئے] [ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ : بدکاری نہ کرنے والے ہوتے ہوئے ] [ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ : پھر جو تم نے فائدہ حاصل کیا] [ بِہٖ : جس سے ] [ مِنْہُنَّ : ان میں سے ] [ فَاٰتُوْہُنَّ : تو تم لوگ دو ان کو ] [ اُجُوْرَہُنَّ : ان کے حقوق ] [ فَرِیْضَۃً : فرض ہوتے ہوئے ] [ وَلاَ جُنَاحَ : اور کوئی گناہ نہیں ہے ] [ عَلَـیْکُمْ : تم پر ] [ فِیْمَا : اس میں ] [ تَرٰضَیْتُمْ : تم لوگ باہم راضی ہوئے ] [ بِہٖ : جس پر ] [ مِنْم بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ : فرض کے بعد] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ عَلِیْمًا : جاننے والا ] [ حَکِیْمًا: حکمت والا]

 

ح ص ن

 حَصُنَ ۔ یَحْصُنُ (ک) حَصَانَۃً : مضبوط و مستحکم ہونا‘ محفوظ ہونا۔

 حِصْنٌ ج حُصُوْنٌ : مضبوط جگہ‘ قلعہ ۔ {وَظَنُّوْآ اَنَّھُمْ مَّا نِعَتُھُمْ حُصُوْنُھُمْ مِّنَ اللّٰہِ} (الحشر:2) ’’ اور ان لوگوں نے گمان کیا کہ بچانے والے ہیں ان کو ان کے قلعے اللہ سے۔‘‘

 اَحْصَنَ (افعال) اِحْصَانًا : حفاظت کرنا‘ بچانا‘ محفوظ کرنا۔ {وَعَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّــکُمْ لِتُحْصِنَـکُمْ مِّنْم بَاْسِکُمْج} (الانبیائ:80) ’’ اور ہم نے سکھایا اس کو ایک لباس بنانا تمہارے لیے تاکہ وہ تمہاری حفاظت کرے تمہاری جنگ میں۔‘‘

 مُحْصِنٌ (اسم الفاعل) : حفاظت کرنے والا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 مُحْصَنَۃٌ (اسم المفعول) : محفوظ کی ہوئی۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ قرآن مجید میں متعدد مفاہیم میں آیا ہے: (1) شادی شدہ خاتون۔ آیت زیر مطالعہ۔ (2) آزاد خاتون ‘ یعنی جو کنیز نہ ہو۔ خاندانی لڑکی۔ {اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ} (النسائ:25) ’’ کہ وہ نکاح کرے خاندانی مسلمان عورت سے۔‘‘ (3) پارسا‘ پاک دامن۔ {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ} (النور:4) ’’ اور وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں پاک دامن عورتوں پر۔‘‘

 حَصَّنَ (تفعیل) تَحْصِیْنًا : بہت مضبوط کرنا‘ خوب پختہ کرنا۔

 مُحَصَّنَۃٌ (اسم المفعول) : بہت مضبوط کی ہوئی۔ {لاَ یُقَاتِلُوْنَـکُمْ جَمِیْعًا اِلاَّ فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ} (الحشر:14) ’’ وہ لوگ جنگ نہیں کریں گے تم لوگوں سے سب مل کر مگر قلعہ بند بستیوں میں۔‘‘

 تَحَصَّنَ (تفعل) تَحَصُّنًا : خود کو محفوظ کرنا‘ بچنا۔ {اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا} (النور:33) ’’ اگر وہ عورتیں ارادہ کریں بچنے کا۔‘‘

س ف ح

 سَفَحَ (ف) سَفْحًا : خون یا آنسو وغیرہ بہانا۔

 مَسْفُوْحٌ (اسم المفعول) : بہایا ہوا۔ {اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا} (الانعام:145) ’’ یا بہایا ہوا خون۔‘‘

 سَافَحَ (مفاعلہ) سِفَاحًا : ایک دوسرے سے بڑھ کر بہانا۔ پھر بدکاری کرنے کے معنی میں آتا ہے۔

 مُسَافِحٌ (اسم الفاعل) : بدکاری کرنے والا ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 

ترکیب : ’’ حُرِّمَتْ‘‘ ماضی مجہول ہے۔ اس کے آگے جو رشتے مذکور ہیں وہ سب اس کے نائب فاعل ہیں اس لیے ان کے مضاف حالت رفع میں آئے ہیں۔ ’’ اَنْ تَجْمَعُوْا‘‘ سے پہلے ’’ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ کِتٰبَ اللّٰہِ‘‘ کو فعل محذوف کا مفعول مطلق بھی مانا جا سکتا ہے‘ لیکن بہتر ہے کہ اس کو حال مانا جائے۔ ’’ اَنْ تَبْتَغُوْا‘‘ کا مفعول ’’ ھُنَّ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ مُحْصِنِیْنَ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصبی میں ہے۔ ’’ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ‘‘ میں ’’ غَیْرَ‘‘ کی نصب حال ہونے کی وجہ سے ہے‘ جبکہ ’’ مُسٰفِحِیْنَ‘‘ اس کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے مجرور ہوا ہے۔

وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَيٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ  ۭ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِـاِيْمَانِكُمْ ۭ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۚ فَانْكِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِهِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ ۚ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ ۭ وَاَنْ تَصْبِرُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ      25؀ۧ
[ وَمَنْ : اور جو ] [ لَّــمْ یَسْتَطِعْ : صلاحیت نہیں رکھتا] [ مِنْکُمْ : تم میں سے ] [ طَوْلاً : بلحاظ دولت کے ] [ اَنْ : کہ ] [ یَّـنْـکِحَ : وہ نکاح کرے ] [ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ : مسلمان خاندانی عورتوں سے] [ فَمِنْ مَّا : تو وہ جن کے ] [ مَلَـکَتْ : مالک ہوئے ] [ اَیْمَانُکُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ ] [ مِّنْ فَتَیٰـتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ: تمہاری مسلمان لونڈیوں میں سے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے ] [ بِاِیْمَانِکُمْ : تم لوگوں کے ایمان کو ] [ بَعْضُکُمْ : تم میں کا کوئی ] [ مِّنْم بَعْضٍ : کسی سے ہے ] [ فَانْکِحُوْہُنَّ: پس تم لوگ نکاح کرو ان سے ] [ بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّ: ان کے مالکوں کی اجازت سے] [ وَاٰتُوْہُنَّ : اور تم لوگ دو ان کو ] [ اُجُوْرَہُنَّ : ان کے حق مہر] [ بِالْمَعْرُوْفِ : بھلے طریقے سے ] [ مُحْصَنٰتٍ : محفوظ کی ہوئیں ہوتے ہوئے] [ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ : بدکاری نہ کرنے والیاں ہوتے ہوئے ] [ وَّلاَ مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ : اور کچھ دوست نہ بنانے والیاں ہوتے ہوئے ] [ فَاِذَآ : پس جب ] [ اُحْصِنَّ : وہ محفوظ کر دی جائیں ] [ فَاِنْ : پھر اگر ] [ اَتَـیْنَ : وہ کریں ] [ بِفَاحِشَۃٍ : کوئی بےحیائی ] [ فَعَلَیْہِنَّ : تو ان پر ہے ] [ نِصْفُ مَا : اس کا آدھا جو ] [ عَلَی الْمُحْصَنٰتِ : خاندانی خواتین پر ہے] [ مِنَ الْعَذَابِ : سزا میں سے ] [ ذٰلِکَ : وہ (یعنی کنیز سے شادی کرنا) ] [ لِمَنْ : اس کے لیے ہے جو ] [ خَشِیَ : ڈرے ] [ الْعَنَتَ : مشکل میں پڑنے سے ] [ مِنْکُمْ : تم میں سے ] [ وَاَنْ : اور (یہ) کہ ] [ تَصْبِرُوْا : تم لوگ صبر کرو] [ خَیْرٌ : (تو یہ) زیادہ بہتر ہے ] [ لَّــکُمْ : تمہارے لیے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ غَفُوْرٌ : بےانتہا بخشنے والا ہے ] [ رَّحِیْمٌ: ہر حال میں رحم کرنے والا ہے

 

ط و ل

 طَالَ ۔ یَطُوْلُ (ن) طَوْلاً : (1) دراز ہونا‘ لمبا ہونا۔ (2) خیرات دینا۔ بخشش کرنا (یعنی دولت میں لمبا ہونا) ۔ {فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُھُمْط} (الحدید:16) ’’ پھر دراز ہوئی ان پر مدت تو سخت ہوگئے ان کے دل۔‘‘

 طُوْلٌ (اسم ذات) : لمبائی۔ {وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا ۔ } (بنی اسرائیل ) ’’ اور تو ہرگز نہیں پہنچے گا پہاڑ کو بلحاظ لمبائی کے۔‘‘

 طَوِیْلٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : لمبا۔ {اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا ۔ } (المزمل) ’’ بے شک آپ کے لیے دن میں ایک لمبی مصروفیت ہے۔‘‘

 طَوْلٌ (اسم ذات) : سخاوت‘ مال‘ دولت۔ {شَدِیْدِ الْعِقَابِلا ذِی الطَّوْلِط} (المؤمن:3) ’’ سخت پکڑ والا ‘ جو دو کرم والا‘‘۔ {اِسْتَاْذَنَکَ اُولُوا الطَّوْلِ} (التوبۃ:86) ’’ اجازت چاہتے ہیں آپؐ سے دولت والے۔‘‘

 تَطَاوَلَ (تفاعل) تَطَاوُلًا : دور کی چیز کی طرف گردن بلند کر کے دیکھنا‘ لمبائی ظاہر کرنا۔ {فَتَطَاوَلَ عَلَیْھِمُ الْعُمُرُج} (القصص:45) ’’ پھر لمبائی ظاہر کی ان پر عمر نے۔‘‘

ف ت ی

 فَتَی۔ یَفْتِیْ (س) فَتًی : نوجوان ہونا‘ خادم ہونا (زیادہ تر نوعمر لڑکے نوکر رکھے جاتے ہیں) ۔

 فَتًی تثنیہ فَتَـیَانِ ج فِتْیَانٌ اور فِتْیَۃٌ : نوجوان لڑکا‘ نوعمر خادم یا ملازم ۔ {قَالُـوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُھُمْ یُقَالُ لُـہٗ اِبْرٰھِیْمُ ۔ } (الانبیائ) ’’ انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا ایک نوجوان کو‘ وہ ذکر کرتا ہے ان کا (یعنی بتوں کو برا کہتا ہے) جس کو کہاجاتا ہے ابراہیم‘‘۔ {وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَـتَیٰنٍط} (یوسف:36) ’’ اور داخل ہوئے اس کے ساتھ قید خانے میں دو نوجوان‘‘۔{وَقَالَ لِفِتْیٰـنِہِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَھُمْ} (یوسف:62) ’’ اور انہوں ؑنے کہا اپنے خادموں سے کہ تم لوگ رکھ دو ان کی پونجی‘‘۔{اِنَّھُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّھِمْ} (الکہف:13) ’’ بے شک وہ لوگ کچھ نوجوان تھے جو ایمان لائے اپنے رب پر۔‘‘

 فَتَاۃٌ ج فَتَـیَاتٌ : نوجوان لڑکی‘ خادمہ‘ کنیز‘ آیت زیر مطالعہ۔

 اَفْتٰی (افعال) اِفْتَائً : مسئلے کا حل بتانا‘ فتویٰ دینا۔ (ذہنی صلاحیت کے لحاظ سے کسی کو نوجوان کرنا۔ علمی خدمت کرنا) ۔ {قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْـکَلٰـلَۃِط} (النسائ:176) ’’ آپؐ کہیے کہ اللہ بتاتا ہے تم کو کلالہ کے بارے میں ۔‘‘

 اَفْتِ (فعل امر) : تو بتا‘ تو فتویٰ دے۔ {اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ} (یوسف:46) ’’ تو بتا ہمیں سات موٹی گایوں کے بارے میں۔‘‘

 اِسْتَفْتٰی (استفعال) اِسْتِفْتَائً : مسئلے کا حل پوچھنا‘ فتویٰ مانگنا۔ {وَیَسْتَفْتُوْنَکَ فِی النِّسَائِط} (النسائ:127) ’’ اور یہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے عورتوں کے بارے میں۔‘‘

 اِسْتَفْتِ (فعل امر) : تو پوچھ‘ تو فتویٰ مانگ۔ {فَاسْتَفْتِھِمْ اَلِرَبِّکَ الْبَنَاتُ وَلَھُمُ الْبَنُوْنَ ۔ } (الصّٰفّٰت) ’’ تو آپؐ ان لوگوں سے پوچھیں: کیا آپؐ کے رب کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے ؟‘‘

خ د ن

 ثلاثی مجرد سے نہیں آتا۔

 خَادَنَ (مفاعلہ) مُخَادَنَۃً : ایک دوسرے سے دوستی کرنا‘ یاری لگانا۔

 خِدْنٌ ج اَخْدَانٌ : (مذکر ومؤنث دونوں کے لیے آتا ہے) دوست‘ یار‘ آیت زیر مطالعہ۔

 

ترکیب: ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ طَوْلًا‘‘ تمیز ہے ’’ یَسْتَطِعْ‘‘ کی۔ ’’ فَمِنْ مَّا مَلَـکَتْ اَیْمَانُـکُمْ‘‘ جواب شرط ہے اور ’’ مِنْ فَـتَیٰـتِکُمْ‘‘ اس کا بدل ہے۔ ’’ اَعْلَمُ‘‘ تفضیل کل ہے اور ’’ وَاللّٰہُ‘‘ کی خبر ہے۔ ’’ مُحْصَنٰتٍ‘ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ‘‘ اور’’ لَامُتَّخِذٰتِ‘‘ یہ سب حال ہیں۔ ’’ ذٰلِکَ‘‘ کا اشارہ ’’ فَانْکِحُوْھُنَّ‘‘ کی طرف ہے۔

 

نوٹ: کوئی آزاد یعنی خاندانی شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرے تو اس کی سزا رجم ہے۔ اگر کوئی غیر شادی شدہ یہی جرم کرے تو اس کی سزا ایک سو کوڑے ہیں۔ لیکن یہی جرم اگر کسی غلام یا کنیز سے ہوتا ہے‘ تو خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ‘ دونوں صورتوں میں اس کی سزا پچاس کوڑے ہیں۔

يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوْبَ عَلَيْكُمْ  ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ      26؀
[ یُرِیْدُ : چاہتا ہے] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ لِیُــبَــیِّنَ : کہ وہ خوب واضح کرے ] [ لَــکُمْ : تمہارے لیے ] [ وَیَہْدِیَکُمْ : اور یہ کہ وہ ہدایت دے تم کو] [ سُنَنَ الَّذِیْنَ: ان (لوگوں) کے طریقوں کی جو ] [ مِنْ قَـبْلِکُمْ : تم سے پہلے (گزرے) ہیں ] [ وَیَتُوْبَ عَلَـیْـکُمْ : اور یہ کہ وہ تمہاری توبہ قبول کرے ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ] [ حَکِیْمٌ : حکمت والا ہے ]

 

ترکیب :’’ یَھْدِیَ‘‘ اور ’’ یَتُوْبَ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ ’’ لِیُـبَـیِّنَ‘‘ کی لام پر عطف ہیں۔ جبکہ ’’ سُنَنَ الَّذِیْنَ‘‘ میں ’’ سُنَنَ‘‘ کی نصب مفعول ہونے کی وجہ سے ہے جو ’’ یُـبَـیِّنَ‘‘ اور ’’ یَھْدِیْ‘‘ دونوں کا مفعول ہے۔ ’’ اَنْ یُّخَفِّفَ‘‘ کا مفعول محذوف ہے جو ’’ اَلْعَنُوْتَ‘‘ (دشواری) ہو سکتا ہے۔

وَاللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ  ۣ وَيُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا      27؀
[ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ یُرِیْدُ : چاہتا ہے ] [ اَنْ : کہ ] [ یَّـتُوْبَ : وہ (رحمت کے ساتھ) متوجہ ہو] [ عَلَـیْـکُمْ: تم پر ] [ وَیُرِیْدُ الَّذِیْنَ : اور چاہتے ہیں وہ لوگ جو] [ یَتَّبِعُوْنَ : پیروی کرتے ہیں ] [ الشَّہَوٰتِ : خواہشات کی ] [ اَنْ : کہ ] [ تَمِیْلُوْا : تم لوگ بھٹک جائو ] [ مَیْلاً عَظِیْمًا : بہت زیادہ بھٹکنا]

 

م ی ل

 مَالَ۔ یَمِیْلُ (ض) مَیْلًا : درست سمت چھوڑ کر غلط سمت میں جھکنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے۔ (1) بھٹک جانا‘ آیت زیر مطالعہ۔ (2) جھک جانا‘ ایک طرف کا ہورہنا۔ {فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَا کَالْمُعَلَّقَۃِط} (النسائ:129) ’’ پس تم لوگ ایک کے مت ہو رہو کہ پھر تم چھوڑ دو دوسری بیوی کو لٹکائی ہوئی کی مانند۔‘‘ (3) کسی پر حملہ کرنا۔ {فَـیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَۃً وَّاحِدَۃًط} (النسائ:102) ’’ تو وہ لوگ حملہ کر دیں تم پر‘ یکبارگی حملہ کرتے ہوئے۔‘‘

يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا      28؀
[ یُرِیْدُ : چاہتا ہے] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ اَنْ : کہ ] [ یُّخَفِّفَ : وہ ہلکا کرے (دشواری کو) ] [ عَنْـکُمْ : تم سے ] [ وَخُلِقَ : اور پیدا کیا گیا ] [ الْاِنْسَانُ : انسان کو ] [ ضَعِیْفًا : کمزور ]

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ  ۣوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا       29؀
[ یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو جو] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ لاَ تَاْکُلُوْآ : تم لوگ مت کھائو ] [ اَمْوَالَــکُمْ : تمہارے مال ] [ بَیْنَـکُمْ : آپس میں ] [ بِالْبَاطِلِ : ناحق ] [ اِلَّآ اَنْ : سوائے اس کے کہ ] [ تَــکُوْنَ : وہ ہو ] [ تِجَارَۃً : کوئی تجارت ] [ عَنْ تَرَاضٍ : باہمی رضامندی سے ] [ مِّنْکُمْ : تم لوگوں میں ] [ وَلاَ تَقْتُلُوْآ : اور مت قتل کرو] [ اَنْفُسَکُمْ : اپنوں کو ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ بِکُمْ : تم پر ] [ رَحِیْمًا : رحم کرنے والا ]

 

ترکیب : ’’ تَـکُوْنَ‘‘ کا اسم اس میں شامل ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَمْوَالَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ تِجَارَۃً‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ یَفْعَلْ‘‘ کا مفعول ’’ ذٰلِکَ‘‘ ہے۔ ’’ عُدْوَانًا‘‘ اور ’’ ظُلْمًا‘‘ حال ہیں۔ ’’ نُدْخِلْ‘‘ کا مفعول ’’ کُمْ‘‘ کی ضمیر ہے۔ ’’ مُدْخَلًا‘‘ ظرف ہے اور ’’ کَرِیْمًا‘‘ اس کی صفت ہے۔ ’’ نَصِیْبٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور’’ لِلرِّجَالِ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔

وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا  فَسَوْفَ نُصْلِيْهِ نَارًا  ۭوَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا      30؀
[ وَمَنْ : اور جو ] [ یَّفْعَلْ : کرے گا ] [ ذٰلِکَ : یہ ] [ عُدْوَانًا : زیادتی کرتے ہوئے ] [ وَّظُلْمًا : اور ظلم کرتے ہوئے ] [ فَسَوْفَ : تو عنقریب ] [ نُصْلِیْہِ : ہم ڈالیں گے اس کو ] [ نَارًا : ایک آگ میں ] [ وَکَانَ : اور ہے ] [ ذٰلِکَ : یہ ] [ عَلَی اللّٰہِ : اللہ پر ] [ یَسِیْرًا : آسان ]

اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا      31؀
[ اِنْ : اگر] [ تَجْتَنِبُوْا : تم بچو] [ کَبَــآئِـرَ مَا: بڑوں سے اس کے ] [ تُنْہَوْنَ : تم کو منع کیا گیا] [ عَنْہُ : جس سے ] [ نُـکَفِّرْ : تو ہم دور کر دیں گے ] [ عَنْکُمْ : تم سے ] [ سَیِّاٰتِکُمْ : تمہاری برائیوں کو ] [ وَنُدْخِلْکُمْ : اور ہم داخل کریں گے تم کو] [ مُّدْخَلاً کَرِیْمًا: داخل کرنے کی باعزت جگہ میں ]

وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبُوْا  ۭ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبْنَ ۭ وَسْـــَٔـلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِـــيْمًا      32؀
[ وَلاَ تَتَمَنَّوْا : اور تم لوگ تمنا مت کرو ] [ مَا : اس کی ] [ فَضَّلَ : فضیلت دی ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ بِہٖ : جس سے ] [ بَعْضَکُمْ : تمہارے کسی کو ] [ عَلٰی بَعْضٍ : کسی پر ] [ لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے ] [ نَصِیْبٌ : ایک حصہ ہے ] [ مِّمَّا : اس میں سے جو ] [ اکْتَسَبُوْا : انہوں نے کمایا] [ وَلِلنِّسَآئِ : اور عورتوں کے لیے ہے ] [ نَصِیْبٌ : ایک حصہ ] [ مِّمَّا : اس میں سے جو ] [ اکْتَسَبْنَ : انہوں نے کمایا ] [ وَسْئََلُوا : اور تم لوگ مانگو] [ اللّٰہَ : اللہ سے ] [ مِنْ فَضْلِہٖ: اس کے فضل میں سے ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ بِکُلِّ شَیْئٍ : تمام چیزوں کو ] [ عَلِیْمًا: جاننے والا ]

 

نوٹ 1: اردو میں ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص میرے پیسے کھا گیا ‘ حالانکہ پیسہ کھایا نہیں جاتا۔ دراصل اس سے مراد یہ ہے کہ پیسے پر تصرف حاصل کرلیا یا استعمال کر لیا۔ اسی طرح عربی میں لَا تَاْکُلُوْا کا مطلب ہے کہ تم لوگ تصرف مت کرو یا استعمال مت کرو۔ باطل یعنی ناحق میں وہ تمام طریقے شامل ہیں جو شرعاً ممنوع اور ناجائز ہیں۔ تجارت میں خرید و فروخت کے علاوہ ملازمت و مزدوری اور کرایہ کے معاملات بھی شامل ہیں ۔ (معارف القرآن)

 رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ سب سے زیادہ پاک کمائی تاجروں کی کمائی ہے‘ بشرطیکہ وہ جب بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں‘ اور جب وعدہ کریں تو وعدہ خلافی نہ کریں‘ اور جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہ کریں‘ اور جب کوئی سامان خریدیں تو اس سامان کو (بلاوجہ) برا اور خراب نہ بتائیں‘ اور جب اپنا سامان فروخت کریں تو (خلافِ واقعہ) اس کی تعریف نہ کریں‘ اور ان کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو ٹال مٹول نہ کریں اور جب ان کا قرض کسی کے ذمہ ہو تو اس کو تنگ نہ کریں ۔ (منقول از معارف القرآن)

نوٹ 2:{وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ}پچھلے فقرے کا تتمہ بھی ہو سکتا ہے اور خود ایک مستقل فقرہ بھی۔ اگر پچھلے فقرے کا تتمہ سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانا خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے نظامِ تمدن خراب ہو جاتا ہے اور اس کے برے نتائج سے حرام خور آدمی خود بھی نہیں بچ سکتا‘ اور اس کی وجہ سے آخرت میں عذاب کا مستحق بن جاتا ہے ۔ اور اگر اسے مستقل فقرہ سمجھا جائے تو اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دوسرے کو قتل مت کرو۔ دوسرے یہ کہ خودکشی مت کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے جامع الفاظ استعمال کیے ہیں اور ترتیب کلام ایسی رکھی ہے کہ اس سے یہ تینوں مفہوم نکلتے ہیں اور تینوں حق ہیں۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ 3: کبیرہ گناہوں سے بچنے میں یہ بھی داخل ہے کہ تمام فرائض و واجبات کو ادا کرے ‘ کیونکہ فرض اور واجب کا ترک کرنا خود ایک کبیرہ گناہ ہے۔ تو حاصل یہ ہوا کہ جو شخص فرائض اور واجبات ادا کرتے ہوئے تمام کبیرہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچا لے‘ تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمالِ صالحہ کو صغیرہ گناہوں کا کفارہ کر دیں گے۔

 وضو کرنے سے‘ مسجد جاتے ہوئے ہر قدم پر ‘ نماز اور دوسرے اعمالِ صالحہ سے گناہ معاف ہونے کا جو ذکر احادیث میں آتا ہے ‘ ان سے مراد صغیرہ گناہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبیرہ گناہ سچی توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ (معارف القرآن)

نوٹ 4: جن فضائل کی تمنا کرنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ان کا تعلق ایسی چیزوں سے ہے جن پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے اور جن میں انسان کی کوشش کا کوئی دخل نہیں ہے‘ مثلاً کسی کا مرد یا عورت ہونا‘ کسی خاندان میں پیدا ہونا‘ خوش شکل ہونا‘ خوش آواز ہونا‘ وغیرہ۔ یہ تقدیری معاملات ہیں ‘ جبکہ کچھ فضائل انسان کے اختیار میں ہیں‘ جیسے علمی‘ عملی اور اخلاقی کمالات حاصل کرنا۔ ان کے لیے اسی آیت میں ارشاد فرمایا کہ مرد اور عورت دونوں کو ان کی کوشش میں سے ایک حصہ ملے گا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اپنی کم ہمتی اور بےعملی پرپردہ ڈالنے کے لیے تقدیر کا بہانہ بنانا غلط ہے۔ (معارف القرآن)

وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۭوَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِيْبَھُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدًا     33؀ۧ
[ وَلِکُلٍّ : اور سب کے لیے ] [ جَعَلْنَا : ہم نے بنائے ] [ مَوَالِیَ مِمَّا : وارث اس میں جو ] [ تَرَکَ : چھوڑا] [ الْوَالِدٰنِ : والدین نے ] [ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت داروں نے] [ وَالَّذِیْنَ : اور ان کو جن کو ] [ عَقَدَتْ : باندھا] [ اَیْمَانُکُمْ : تمہاری قسموں نے ] [ فَاٰتُوْہُمْ : تو تم لوگ دو ان کو] [ نَصِیْبَہُمْ : ان کا حصہ ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ : ہر چیز پر

شَہِیْدًا : گواہ ]

 

ترکیب: ’’ مَوْلٰی‘‘ کی جمع ’’ مَوَالِی‘‘ ہے۔ ’’ جَعَلْنَا‘‘ کا مفعول ہونے کی وجہ سے یہ ’’ مَوَالِیًا‘‘ تھا‘ پھر مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ختم ہوئی تو ’’ مَوَالِیَ‘‘ استعمال ہوا۔ اس کا مضاف الیہ ’’ مِمَّا‘‘ ہے۔ ’’ عَقَدَتْ‘‘ کا مفعول ’’ الَّذِیْنَ‘‘ ہے اور اس کا فاعل’’ اَیْمَانُکُمْ‘‘ ہے۔ ’’ فَالصّٰلِحٰتُ‘‘ مبتدأ ہے۔ ’’ قٰنِتٰتٌ‘‘ اور ’’ حٰفِظٰتٌ‘‘ اس کی خبریں ہیں۔ ’’ خِفْتُمْ‘‘ کا مفعول مرکب اضافی ’’ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا‘‘ ہے۔

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ  ۭ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا  ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا     34؀
[ اَلرِّجَالُ : مرد] [ قَوَّامُوْنَ : ذمہ دار ‘ کفیل ہیں ] [ عَلَی النِّسَآئِ : عورتوں پر ] [ بِمَا : بسبب اس کے جو ] [ فَضَّلَ : فضیلت دی ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ بَعْضَہُمْ : ان کے کسی کو ] [ عَلٰی بَعْضٍ : کسی پر ] [ وَّبِمَآ : اور بسبب اس کے جو] [ اَنْفَقُوْا : انہوں نے خرچ کیا ] [ مِنْ اَمْوَالِہِمْ : اپنے مال میں سے ] [ فَالصّٰلِحٰتُ : پس نیک عورتیں] [ قٰـنِتٰتٌ : فرمانبرداری کرنے والیاں ہیں] [ حٰفِظٰتٌ : حفاظت کرنے والیاں ہیں ] [ لِّـلْغَـیْبِ : پیٹھ پیچھے] [ بِمَا : اس کی جس کی ] [ حَفِظَ : حفاظت کی (یعنی چاہی) ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ وَالّٰتِیْ : اور جن عورتوں سے ] [ تَخَافُوْنَ : تم لوگ خوف کرتے ہو ] [ نُشُوْزَہُنَّ : ان کی سرکشی کا ] [ فَعِظُوْہُنَّ : تو نصیحت کرو ان کو ] [ وَاہْجُرُوْہُنَّ : اور قطع تعلق کرو ان سے] [ فِی الْْمَضَاجِعِ : بستروں میں ] [ وَاضْرِبُوْہُنَّ : اور مارو ان کو ] [ فَاِنْ : پھر اگر ] [ اَطَعْنَـکُمْ : وہ اطاعت کریں تمہاری ] [ فَلاَ تَـبْغُوْا : تو مت تلاش کرو ] [ عَلَیْہِنَّ : ان پر ] [ سَبِیْلاً : کوئی الزام ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ عَلِیًّا : بلند] [ کَبِیْرًا : بڑا ]

وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَھْلِهٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَھْلِھَا ۚ اِنْ يُّرِيْدَآ اِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَيْنَهُمَا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِــيْمًا خَبِيْرًا     35؀
[ وَاِنْ : اور اگر ] [ خِفْتُمْ : تمہیں خوف ہو ] [ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا : ان دونوں کے درمیان باہمی مخالفت کا ] [ فَابْعَثُوْا : تو کھڑا کرو] [ حَکَمًا : ایک منصف ] [ مِّنْ اَہْلِہٖ : اس (مرد) کے گھر والوں سے] [ وَحَکَمًا : اور ایک منصف ] [ مِّنْ اَہْلِہَا: اس (عورت) کے گھر والوں سے] [ اِنْ یُّرِیْدَآ : اگر وہ دونوں ارادہ کریں گے] [ اِصْلاَحًا : اصلاح کرنے کا ] [ یُّوَفِّقِ : تو مطابقت پیدا کرے گا] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ بَیْنَہُمَا : ان کے درمیان ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ عَلِیْمًا : جاننے والا ] [ خَبِیْرًا: باخبر]

 

و ف ق

 وَفَقَ ۔ یَفَقُ (ح) وَفْقًا : کسی چیز کا کسی کے ہم آہنگ ہونا‘ مطابق ہونا۔

 اَوْفَقَ(مفاعلہ) وِفَاقًا : کسی کو کسی کے مطابق پانا ۔ {جَزَآئً وِّفَاقًا ۔ }(النبائ)’’ بدلہ ہوتے ہوئے مطابق۔‘‘

 وَفَّقَ (تفعیل) تَوْفِیْقًا : کسی کو کسی کے ہم آہنگ یا مطابق کرنا‘ ہم آہنگی دینا‘ آیت زیر مطالعہ۔

 

نوٹ : عرب میں رواج تھا کہ کچھ لوگ آپس میں باپ بیٹے اور بھائی بھائی کے رشتے قائم کر لیتے تھے۔ اسی کے تحت رسول اللہ
نے مدینہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا تھا۔ اس رواج میں یہ بھی شامل تھا کہ منہ بولے رشتہ دار بھی حقیقی رشتہ داروں کے ساتھ ترکہ میں حصہ پاتے تھے۔ آیت 33 میں اسی کی ہدایت ہے کہ منہ بولے رشتہ داروں کو بھی ان کا حصہ دو۔ بعد میں سورۃ الانفال کی آیت 75 نازل ہونے سے یہ حکم منسوخ ہو گیا‘ کیونکہ یہ ایک عبوری حکم تھا۔ اللہ تعالیٰ کے عبوری احکام کی حکمت اور ان کے اختتام کی وضاحت البقرۃ:160 کے نوٹ 1 میں کی جا چکی ہے۔

وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا     36؀ۙ
[ وَاعْبُدُوا : اور تم بندگی کرو] [ اللّٰہَ : اللہ کی ] [ وَلاَ تُشْرِکُوْا : اور شریک مت کرو ] [ بِہٖ : اس کے ساتھ ] [ شَیْئًا : کچھ بھی ] [ وَّبِالْوَالِدَیْنِ : اور (حسن سلوک کرو) والدین سے ] [ اِحْسَانًا : جیسا حسن سلوک کا حق ہے ] [ وَّبِذِی الْقُرْبٰی : اور قرابت داروں سے ] [ وَالْیَتٰمٰی : اور یتیموں سے ] [ وَالْمَسٰکِیْنِ : اور مسکینوں سے ] [ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی: اور رشتہ دار پڑوسی سے] [ وَالْجَارِ الْجُنُبِ: اور دور والے پڑوسی سے ] [ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ : اور پہلو کے ساتھ رہنے والے سے ] [ وَابْنِ السَّبِیْلِ : اور مسافروں سے] [ وَمَا : اور اس سے جس کے ] [ مَلَکَتْ : مالک ہوئے ] [ اَیْمَانُکُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ لاَ یُحِبُّ : پسند نہیں کرتا ] [ مَنْ : اس کو جو ] [ کَانَ : ہو ] [ مُخْتَالاً : تکبر کرنے والا] [ فَخُوْرَا : اترانے والا ]

 

ج و ر

 جَارَ ۔ یَجُوْرُ (ن) جَوْرًا : (1) کسی چیز سے ہٹ جانا‘ بھٹک جانا‘ گمراہ ہونا۔ (2) کسی چیز کے قریب ہونا‘ پڑوسی ہونا‘ حمایتی ہونا۔

 جَائِرٌ (اسم الفاعل) : بھٹکنے والا ۔ {وَعَلَی اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْھَا جَآئِرٌط} (النحل:9) ’’ اور اللہ پر یعنی اس تک معتدل راہ ہے اور کوئی اس سے بھٹکنے والا ہے۔‘‘

 جَارٌ (اسم صفت) : پڑوسی‘ حمایتی۔ {لَا غَالِبَ لَـکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّیْ جَارٌ لَّــکُمْج} (الانفال:48) ’’ کوئی غالب آنے والا نہیں تم پر آج کے دن لوگوں میں سے اور میں تمہارا حمایتی ہوں۔‘‘

 اَجَارَ (افعال) اِجَارَۃً : (1) کسی کو کسی سے دور کرنا‘ بچانا۔ (2) قریب کرنا‘ پناہ دینا۔ {فَمَنْ یُّجِیْرُ الْکٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ۔ } (الملک) ’’ تو کون بچائے گا کافروں کو ایک دردناک عذاب سے!‘‘

 جَاوَرَ (مفاعلہ) جِوَارًا : کسی کے پڑوس میں رہنا۔ {ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَا اِلاَّ قَلِیْلًا ۔ } (الاحزاب) ’’ پھر وہ لوگ تمہارے پاس نہیں رہیں گے اس میں ) یعنی مدینہ میں ( مگر تھوڑے دن۔‘‘

 تَجَاوَرَ (تفاعل) تَجَاوُرًا : ایک دوسرے کے قریب ہونا‘ متصل ہونا۔

 مُتَجَاوِرٌ (اسم الفاعل) : ایک دوسرے کے قریب ہونے والا۔ {وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ} (الرعد:4) ’’ اور زمین میں ایک دوسرے کے قریب قطعات ہیں۔‘‘

 اِسْتَجَارَ (استفعال) اِسْتِجَارَۃً : پناہ مانگنا۔ {وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗط} (التوبۃ:6) ’’ اور اگر مشرکوں میں سے کوئی ایک پناہ مانگے تم سے تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ وہ سنے اللہ کے کلام کو ‘ پھر اس کو پہنچا دو اس کے امن کی جگہ میں ۔‘‘

ف خ ر

 فَخَرَ یَفْخُرُ (ن) فَخْرًا : فخر کرنا۔

 فَخُوْرٌ (فَعُوْلٌ کے وزن پر مبالغہ) : بےانتہا فخر کرنے والا‘ اترانے والا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 فَخَّارٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ) : بہت فخر کرنے والا۔ پھر استعارۃً پانی رکھنے کے مٹکے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ {خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ ۔ } (الرحمٰن) ’’ اس نے پیدا کیا انسان کو کھنکتی مٹی سے جیسے پانی کا مٹکا۔‘‘

 تَفَاخَرَ (تفاعل) تَفَاخُرًا : ایک دوسرے پر فخر کرنا۔ {وَتَفَاخُرٌم بَیْنَکُمْ} (الحدید:20) ’’ اور تمہارا ایک دوسرے پر فخر کرنا۔‘‘

 

ترکیب: ’’ اِحْسَانًا‘‘ فعل محذوف ’’ اَحْسِنُوْا‘‘ کا مفعول مطلق ہے‘ جبکہ ’’ بِالْوَالِدَیْنِ‘‘ اور ’’ بِذِی الْقُرْبٰی‘‘ سے ’’ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُـکُمْ‘‘ تک متعلق فعل ہیں۔ ’’ یَکْتُمُوْنَ‘‘ کا مفعول ’’ مَا‘‘ ہے۔

الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُوْنَ مَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًا      37؀ۚ
[ الَّذِیْنَ : وہ (لوگ ) جو ] [ یَبْخَلُوْنَ : کنجوسی کرتے ہیں ] [ وَیَاْمُرُوْنَ : اور ترغیب دیتے ہیں ] [ النَّاسَ : لوگوں کو ] [ بِالْـبُخْلِ : کنجوسی کی ] [ وَیَکْتُمُوْنَ : اور چھپاتے ہیں ] [ مَآ : اس کو جو ] [ اٰتٰٹہُمُ : دیا ان کو ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ مِنْ فَضْلِہٖ : اپنے فضل سے ] [ وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا ] [ لِلْکٰفِرِیْنَ : کافروں کے لیے ] [ عَذَابًا مُّہِیْنًا: ایک رسوا کرنے والا عذاب ]

 

نوٹ: ان آیات میں اصل ہدایت حقوق العباد کی ہے‘ لیکن بات کی ابتدا حقوق اللہ سے کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برادری یا سوسائٹی کے دبائو اور حکومت کے قوانین سے بچنے کی کوئی راہ انسان تلاش کر ہی لیتا ہے۔ کسی کو دوسروں کا حق ادا کرنے کے لیے حقیقتاً اگر کوئی چیز آمادہ کرسکتی ہے تو وہ صرف اللہ کے سامنے جوابدہی کا خوف ہے۔ اس لیے دوسروں کا حق ادا کرنے کی تاکید سے پہلے اس احساس کو اُجاگر کیا گیا ہے۔

 جس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گیا‘ اسے سب سے پہلے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کن لوگوں کا ہم پر حق بنتا ہے‘ جو ہمیں ادا کرنا ہے۔ آیت میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس ضمن میں وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِکے الفاظ غور طلب ہیں۔ اس کے لفظی معنی ہیں‘ ہم پہلو ساتھی یعنی ہم نشین۔ یہ بہت ہمہ گیر لفظ ہے۔ اس میں بیوی‘ بچے‘ دیگر اہل خانہ اور قریبی پڑوسی کے علاوہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جن سے کاروبار‘ ملازمت‘ سفر اور بازار میں خرید و فروخت کے دوران ہمیں واسطہ پڑتا ہے۔ اسی طرح آج کل غلام نہیں ہوتے لیکن ان کی جگہ گھریلو ملازمین کے حقوق آ جاتے ہیں۔

 اب سوال پیدا ہوتاہے کہ ایسے تمام لوگوں کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟ اس کے لیے نبی کریم
ایک اصولی راہنمائی دے گئے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ اس اصول کے تحت ہر شخص آسانی سے معلوم کرسکتا ہے کہ دوسروں کے اس پر کیا حقوق ہیں۔ البتہ چند تعلقات کے کچھ پہلوئوں کی اس اصول سے پوری طرح وضاحت نہیں ہوتی۔ مثلاً ایک شوہر بیوی بن کر نہیں سوچ سکتا کہ وہ اپنے لیے کیا پسند کرتی ہے‘ نہ ہی بیوی شوہر بن کر سوچ سکتی ہے۔ ایک بچہ جب تک خود باپ نہ بن جائے‘ اس وقت تک وہ نہیں سوچ سکتا کہ ایک والد کیا پسند کرتا ہے۔ تعلقاتِ باہمی کے ایسے پہلوئوں کی وضاحت قرآن مجید اور احادیث میں کر دی گئی ہے۔

 اللہ کے بعد بندوں کا حق آتا ہے ‘ لیکن ہماری آخرت کے بننے یا بگڑنے کے لحاظ سے بندوں کا حق زیادہ خطرناک ہے‘ کیونکہ اللہ کے حقوق میں کوتاہی سچی توبہ کرنے سے معاف ہو جاتی ہے۔ حد یہ ہے کہ بندہ اگر شرک سے بھی سچی توبہ کرلے تو وہ بھی معاف ہو جائے گا لیکن کسی بندے کا حق اللہ بھی معاف نہیں کرے گا جب تک بندہ نہ معاف کرے اور بندوں سے معاف کرانا بھی صرف اس دنیا میں ممکن ہے ‘ آخرت میں کوئی کسی کو معاف نہیں کرے گا۔

 بندوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے‘ اس لیے اس کے متعلق ہدایات زیادہ ہیں۔ والدین اگر مشرک ہوں اور شرک کا حکم دیں تو ان کی بات نہیں ماننی ہے ‘ لیکن اس کے باوجود ان سے بدتمیزی کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ان کی خدمت میں کوئی کمی کرسکتے ہیں (لقمان:15)۔ رسول اللہ
نے تین مرتبہ فرمایا کہ اس کی ناک خاک آلود ہو جس نے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو بوڑھا پایا اور جنتی نہ ہو گیا (مسلم)۔ آپ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق اور عمر میں برکت ہو‘ اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے (بخاری و مسلم)۔ والدین کی فرمانبرداری یہاں تک ہے کہ اگر آپ نفل نماز پڑھ رہے ہیں اور ان میں سے کوئی آپ کو آواز دیتا ہے تو آپ نیت توڑ کر جائیں‘ ان کی بات سنیں‘ کوئی کام ہو تو اسے کر کے پھر نماز پڑھیں۔

 ہم لوگوں میں اکثریت کا تاثر یہ ہوتا ہے کہ ہم تو لوگوں کے حقوق کا خیال کرتے ہیں اور حتی الامکان ادا بھی کرتے ہیں لیکن دوسرے لوگ اس کا خیال نہیں کرتے ۔ نوٹ کرلیں کہ ویسے تو صبر کرنا اچھی بات ہے ‘ لیکن اس مرحلے پر خاموشی اختیار کرنا درست نہیں ہے ‘ کیونکہ آپ دوسروں کی آخرت کی خرابی کو گوارا کر رہے ہیں حالانکہ آپ کو اپنی آخرت کی خرابی گوارا نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہم کیا کریں؟ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے کہ تم لوگ دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت سے ‘ یعنی مناسب اور موزوں موقع و محل دیکھ کر ‘ اور اچھی نصیحت سے ‘ یعنی انسان کی ذہنی سطح کے مطابق دل لگتی بات کہہ کر‘ اور اگر کبھی بحث و مباحثہ کرنا ہی پڑجائے تو ان لوگوں سے مباحثہ کرو خوبصورت انداز میں‘ کیونکہ غصہ کرنے سے اور دوسروں کو برا بھلا کہنے سے تمہاری بات کی وقعت ختم ہو جاتی ہے (النحل:125)۔ اس لیے ادائیگی حقوق میں اگر کسی کی کوتاہی ہمارے علم میں آئے تو اسے آگاہ کر دینا چاہیے۔ معاشرے میں یہ روش عام ہو گئی تو کوئی ہماری کوتاہی سے ہم کو آگاہ کردے گا۔ اگر سب نے خاموشی اختیار کرنے کی روش اپنا لی تو حق تلفیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اور معاشرے کا حسن جاتا رہے گا۔

 دوسروں کو ان کی کوتاہی سے آگاہ کرنے کے لیے جس احسن طریقے کی مذکورہ آیت میں ہدایت ہے‘ اس کی عملی تفسیر کی جانب ایک حدیث سے راہنمائی ملتی ہے۔ رسول اللہ
نے فرمایا کہ ’’ مسلمان‘ مسلمان کا آئینہ ہے‘‘۔ اب غور کریں کہ آئینہ کیا کرتا ہے۔ آپ کے سر یا چہرے پر‘ جہاں آپ کی نظر نہیں جاتی‘ اگر کوئی ناپسندیدہ چیز لگی ہوئی ہے‘ تو آئینہ آپ کو آگاہ کر دیتا ہے۔ آئینہ کا دوسرا کام یہ ہے کہ آپ کی ناپسندیدہ چیز سے وہ نہ صرف آپ کو آگاہ کرتا ہے‘ بلکہ آپ کے علاوہ کسی اور کو وہ کبھی نہیں بتاتا۔ آئینہ کا تیسراکام یہ ہے کہ اس کی بتائی ہوئی چیز کو اگر آپ خود سے دور نہیں کرتے یعنی آئینہ کا مشورہ قبول نہیں کرتے تو وہ آپ سے ناراض نہیں ہوتا‘ نہ وہ کسی سے آپ کی شکایت کرتا ہے اور نہ ہی آپ سے قطع تعلق کرتا ہے بلکہ اپنا کام جاری رکھتاہے۔ احسن طریقے سے دوسروں کی اصلاح کرنے کے یہ تین اصول ہیں جو رسول اللہ ہم کو دے گئے ہیں۔ جتنا زیادہ ہم اس پر عمل کریں گے ‘ اتنا ہی معاشرے کے حسن میں اضافہ ہوگا۔

 دوسروں کی اصلاح اسی کو زیب دیتی ہے جس نے خود اپنی اصلاح کرلی ہو۔ اس کے لیے رسول اللہ
کا فرمان ہے کہ اپنے رویہ کو دوسروں کے رویہ کا تابع مت بنائو‘ جو تمہارا حق مارتا ہے تم اس کا حق ادا کرو‘ کوئی تم سے بدسلوکی کرتا ہے تو تم اس کے ساتھ ظلم مت کرو ۔ (تفہیم القرآن‘ الرعد:22)

وَالَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطٰنُ لَهٗ قَرِيْنًا فَسَاۗءَ قَرِيْنًا    38؀
[ وَالَّذِیْنَ : اور وہ (لوگ) جو] [ یُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں ] [ اَمْوَالَـہُمْ : اپنے مالوں کو ] [ رِئَـــآئَ النَّاسِ : لوگوں کو دکھاتے ہوئے] [ وَلاَ یُؤْمِنُوْنَ : اور ایمان نہیں لاتے ] [ بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ : اور نہ ہی آخری دن پر ] [ وَمَنْ : اور وہ ] [ یَّـکُنِ : ہوا ] [ الشَّیْطٰنُ : شیطان ] [ لَہٗ : جس کا ] [ قَرِیْنًا : ساتھی ] [ فَسَآئَ : تو وہ برا ہے ] [ قَرِیْنًا : بطور ساتھی کے ]

 

ق ر ن

 قَرِنَ یَقْرَنُ (س) قَرَنًا : دو یا دو سے زیادہ چیزوں کا باہم جمع ہونا‘ اکٹھا ہونا‘ جڑنا۔

 قَرِیْنٌ ج قُـرَنَــآئُ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : ہر وقت جڑا رہنے والا‘ ساتھی‘ ہم نشین۔ {وَقَیَّضْنَا لَھُمْ قُرَنَائَ} (حٰم السجدۃ:25) ’’ اور ہم نے تعینات کیے ان کے لیے کچھ ساتھی۔‘‘

 قَرْنٌ ج قُرُوْنٌ : زمانہ‘ ایک سو سال جمع ہونے کا عرصہ‘ پھر ایک زمانے میں ساتھ رہنے والے لوگوں کے لیے بھی آتا ہے۔ امت‘ جماعت۔ {وَاَنْشَاْنَا مِنْم بَعْدِھِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ ۔ } (الانعام) ’’ اور ہم نے اٹھایا ان کے بعد ایک دوسری امت کو‘‘۔ {وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوْالا} (یونس:13) ’’ اور ہم ہلاک کر چکے ہیں تم سے پہلے قوموں کو جب انہوں نے ظلم کیا۔‘‘

 قَرْنَیْنِ ( قَرْنٌ کا تثنیہ ) : ذُوالْقَرْنَیْنِ کا مطلب ہے دو زمانوں یا دو قوموں والا۔ قرآن میں یہ ایک بادشاہ کے نام (اسم علم) کے طور پر آیا ہے۔ {یَسْئَلُوْنَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِط} (الکہف:83) ’’ یہ لوگ پوچھتے ہیں آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں۔‘‘

 قَارُوْنَ : موسیٰ ( علیہ السلام) کی امت کے ایک سرمایہ دار کا نام ہے۔ {اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَـبَغٰی عَلَیْھِمْص} (القصص:76) ’’ بے شک قارون موسیٰ(
d ) کی قوم میں سے تھا پھر اس نے بغاوت کی ان سے (یعنی قوم سے)۔‘‘

 اَقْرَنَ (افعال) اِقْرَانًا : دو یا زیادہ چیزوں کو اکٹھا کرنا‘ باندھنا۔

 مُقْرِنٌ (اسم الفاعل) : باندھنے والا۔ {سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَـہٗ مُقْرِنِیْنَ ۔ } (الزخرف) ’’ پاک ہے وہ جس نے مسخر کیا ہمارے لیے اس کو اور ہم نہیں تھے اس کو باندھنے والے (یعنی قابو پانے والے) ۔‘‘

 قَرَّنَ (تفعیل) تَقْرِیْنًا : خوب کس کے باندھنا۔

 مُقَرَّنٌ (اسم المفعول) : کس کے باندھا ہوا۔ {وَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ ۔ } (ابراھیم) ’’ اور تو دیکھے گا اس دن مجرموں کو بندھے ہوئے بیڑیوں میں۔‘‘

 اِقْتَرَنَ (افتعال) اِقْتِرَانًا : اہتمام سے متصل ہونا‘ جڑنا۔

 مُقْتَرِنٌ (اسم الفاعل) : جڑنے والا۔ {اَوْ جَائَ مَعَہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ ۔ } (الزخرف) ’’ یا آتے فرشتے اس کے ساتھ متصل ہونے والے ہوتے ہوئے (یعنی ساتھ رہنے والے )۔‘‘

 

ترکیب: ’’ یُنْفِقُوْنَ‘‘ کا مفعول ’’ اَمْوَالَھُمْ‘‘ ہے‘ جبکہ ’’ رِئَائَ النَّاسِ‘‘ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہوا ہے۔ ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے اس لیے ’’ یَکُنْ‘‘ مجزوم ہوا ہے۔ ’’ اَلشَّیْطٰنُ‘‘ اس کا اسم ہے اور ’’ قَرِیْنًا‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ فَسَائَ‘‘ فعل ذم ہے لیکن یہ جوابِ شرط بھی ہے اور آفاقی صداقت (البقرۃ:49‘ نوٹ 2) بھی ہے‘ اس لیے اس کا ترجمہ حال میں ہو گا۔ ’’ قَرِیْنًا‘‘ تمیز ہے۔ ’’ تَکُ‘‘ کا اسم اس میں شامل ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ حَسَنَۃً‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ یُضٰعِفْ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے۔ ’’ وَجِئْنَا‘‘ کا مفعول ’’ بِکَ‘‘ ہے اور ’’ شَھِیْدًا‘‘ تمیز ہے۔ ’’ تُسَوّٰی‘‘ فعل مضارع مجہول ہے۔ ’’ اَلْاَرْضُ‘‘ اس کا نائب فاعل ہے۔

وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَھُمُ اللّٰهُ  ۭوَكَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِــيْمًا      39؀
[ وَمَاذَا : اور کیا ہے ] [ عَلَیْہِمْ : ان پر ] [ لَـوْ : اگر ] [ اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائیں ] [ بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخری دن پر ] [ وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کریں ] [ مِمَّا : اس میں سے جو ] [ رَزَقَہُمُ : عطا کیا ان کو ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ وَکَانَ : اور ہے ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ بِہِمْ : ان کو ] [ عَلِیْمًا : جاننے والا ]

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ  ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْھَا وَيُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِيْمًا      40؀
[ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ لاَ یَظْلِمُ : ظلم نہیں کرتا ] [ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ : کسی ذرے کے ہم وزن ] [ وَاِنْ : اور اگر ] [ تَکُ : وہ ہو ] [ حَسَنَۃً : کوئی نیکی ] [ یُّضٰعِفْہَا: تو وہ کئی گنا بڑھاتا ہے اس کو] [ وَیُؤْتِ : اور وہ دیتا ہے ] [ مِنْ لَّدُنْہُ : اپنے پاس سے ] [ اَجْرًا عَظِیْمًا : ایک شاندار بدلہ ]

 

ث ق ل

 ثَقَلَ ۔ یَثْقُلُ (ن) ثَقَلًا : وزن معلوم کرنے کے لیے ہاتھ میں اٹھانا۔

 ثَقَلٌ ج اَثْقَالٌ (اسم ذات ) : وزن‘ بوجھ۔ {وَلَـیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَھُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِھِمْز} (العنکبوت:13) ’’ اور وہ لوگ لازماً اٹھائیں گے اپنے بوجھ اور کچھ دوسرے بوجھ اپنے بوجھ کے ساتھ۔‘‘

 مِثْقَالٌ (اسم الآلہ) : تولنے کے اوزان‘ باٹ۔ آیت زیر مطالعہ۔

 ثَقُلَ یَثْقُلُ (ک) ثِقَالَـۃً : وزنی ہونا‘ بھاری ہونا۔ {فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ } (الاعراف) ’’ پس بھاری ہوئے جس کے پلڑے تو وہ لوگ ہی مراد پانے والے ہیں۔‘‘

 ثَقِیْلٌ ج ثِقَالٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : وزنی‘ بھاری۔ {اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا } (المزمل) ’’ بے شک ہم ڈالیں گے آپؐ پر ایک بھاری بات‘‘۔ {وَیُنْشِیُٔ السَّحَابَ الثِّقَالَ ۔ } (الرعد) ’’ اور وہ اٹھاتا ہے بھاری بدلیوں کو۔‘‘

 اَثْقَلَ (افعال) اِثْقَالًا : کسی کو بھاری کرنا‘ کسی پر بوجھ لادنا۔{فَلَمَّا اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰہَ} (الاعراف:189) ’’ پھر جب اس نے بھاری کیا تو دونوں نے پکارا اللہ کو۔‘‘

 مُثْقَلٌ (اسم المفعول) : لدا ہوا‘ بوجھ تلے دبا ہوا۔ {وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِھَا} (فاطر:18) ’’ اور جب پکارے گی کوئی لدی ہوئی جان اپنے بوجھ کی طرف۔‘‘

 تَثَاقَلَ (تفاعل) اِثَّاقُلًا : بوجھ کے سبب سے کسی طرف جھک جانا‘ مائل ہونا‘ گرپڑنا۔ {اِذَا قِیْلَ لَـکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِط} (التوبۃ:38) ’’ جب کہاجاتا ہے تم لوگوں سے کہ کوچ کرو اللہ کی راہ میں تو تم لوگ گرے پڑتے ہو زمین کی طرف۔‘‘

فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا     41؀ڲ
[ فَکَیْفَ : تو کیسا ہو گا (ان کا حال) ] [ اِذَا : جب ] [ جِئْنَا : ہم لائیں گے ] [ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ : ہر امت سے ] [ بِشَہِیْدٍ : ایک گواہ کو ] [ وَّجِئْنَا : اور ہم لائیں گے ] [ بِکَ : آپؐ کو ] [ عَلٰی ہٰٓــؤُلَآئِ : ان لوگوں پر ] [ شَہِیْدًا : بطور گواہ ]

يَوْمَىِٕذٍ يَّوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ ۭ وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا     42؀ۧ
[ یَوْمَئِذٍ : اس دن ] [ یَّوَدُّ : چاہیں گے ] [ الَّذِیْنَ : وہ (لوگ) جنہوں نے ] [ کَفَرُوْا : کفر کیا ] [ وَعَصَوُا : اور نافرمانی کی ] [ الرَّسُوْلَ : اِن رسولؐ کی] [ لَوْ : کہ کاش ] [ تُسَوّٰی : ہموار کردیا جائے ] [ بِہِمُ : ان پر ] [ الْاَرْضُ : زمین کو ] [ وَلاَ یَکْتُمُوْنَ : اور وہ نہیں چھپائیں گے ] [ اللّٰہَ : اللہ سے ] [ حَدِیْثًا: کوئی بات]

 

نوٹ 1 : آیت 41 میں ’’ ہٰٓــؤُلَآئِ‘‘ کا اشارہ رسول اللہ
کی امت کی طرف ہے ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امت کے اعمال آپؐ پر پیش کیے جاتے ہیں۔ اس طرح اس آیت سے معلوم ہوا کہ گزشتہ امتوں کے انبیاء اپنی اپنی امت پر بطور گواہ پیش ہوں گے اور آپؐ بھی اپنی امت کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔ (معارف القرآن)

نوٹ 2 : قرآن مجید کے اس اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ
کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے جو اپنی کسی امت کے متعلق گواہی دے ‘ ورنہ قرآن مجید میں اس کا بھی ذکر ہوتا۔ اس اعتبار سے یہ آیت ختم نبوت کی دلیل بھی ہے۔ (معارف القرآن)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا  ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا     43؀
[ یٰٓـــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ لاَ تَقْرَبُوا : تم قریب مت جائو ] [ الصَّلٰوۃَ : نماز کے ] [ وَ : اس حال میں کہ ] [ اَنْــتُمْ : تم ] [ سُکٰرٰی : مدہوش ہو ] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ تَعْلَمُوْا : تم جانو] [ مَا : اس کو جو ] [ تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے ہو ] [ وَلاَ جُنُبًا : اور نہ ہی ناپاک ہوتے ہوئے] [ اِلاَّ : مگر ] [ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ : کسی راستے کے گزرنے والے ہوتے ہوئے ] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ تَغْتَسِلُوْا : تم غسل کرلو ] [ وَاِنْ : اور اگر ] [ کُنْتُمْ : تم ہو ] [ مَّرْضٰٓی : مریض ] [ اَوْ عَلٰی سَفَرٍ : یا کسی سفر پر ] [ اَوْ جَآئَ : یا آئے ] [ اَحَدٌ : کوئی ایک ] [ مِّنْکُمْ : تم میں سے ] [ مِّنَ الْغَآئِطِ : بیت الخلاء سے] [ اَوْ لٰمَسْتُمُ : یا تم مباشرت کرو] [ النِّسَآئَ : بیویوں سے ] [ فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر تم لوگ نہ پائو ] [ مَآئً : کوئی پانی ] [ فَـتَـیَمَّمُوْا : تو تم تیمم کرو ] [ صَعِیْدًا طَـیِّـبًا : کسی پاک مٹی سے ] [ فَامْسَحُوْا : تو ہاتھ پھیرو] [ بِوُجُوْہِکُمْ : اپنے چہروں پر] [ وَاَیْدِیْکُمْ : اور اپنے ہاتھوں پر] [ اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ عَفُوًّا : بےانتہا درگزر کرنے والا ] [ غَفُوْرًا : بےانتہا بخشنے والا ]

 

س ک ر

 سَکَرَ ۔ یَسْکُرُ (ن) سَکْرًا : کسی چیز کی روانی کو روک دینا ‘ جیسے دریا پر بند بنانا۔

 سَکِرَ ۔ یَسْکَرُ (س) سَکَرًا : عقل کی روانی کا رک جانا‘ غصہ یا نشے سے مدہوش ہونا۔

 سَکَرٌ : مدہوش کرنے والی چیز‘ نشہ آور چیز۔ {تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَکَرًا} (النحل:67) ’’ تم لوگ بناتے ہو اس سے نشہ آور چیز۔‘‘

 سَکْرَۃٌ : مدہوشی‘ نشہ۔ {وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّط} (قٓ:19) ’’ اور آتی ہے موت کی مدہوشی حق کے ساتھ۔‘‘

 سُکٰرٰی : مبالغہ کے وزن فَعْلَانُ کی مؤنث فَعْلٰی اور جمع فُعَالٰی کے وزن پرآتی ہے۔ اس طرح سَکِرَ کے مبالغہ سَکْرٰی کی جمع سُکَارٰی ہے جسے قرآن مجید میں سُکٰرٰی لکھا گیا ہے۔ بہت زیادہ مدہوش ہونا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 سَکَّرَ (تفعیل) تَسْکِیْرًا : گلا گھونٹنا‘ روک دینا۔ {اِنَّمَا سُکِّرَتْ اَبْصَارُنَا} (الحجر:15) ’’ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ باندھ دی گئیں ہماری نگاہیں۔‘‘

غ س ل

 غَسَلَ ۔ یَغْسِلُ (ض) غَسْلاً : کسی چیز کو پانی سے دھونا‘ میل کچیل دور کرنا۔

 اِغْسِلْ (فعل امر) : تو دھو۔{اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ} (المائدۃ:6) ’’ جب بھی تم لوگ کھڑے ہو نماز کے لیے تو تم لوگ دھو لو اپنے چہروں کو۔‘‘

 غِسْلِیْنٌ : دور کیا ہوا میل کچیل‘ زخموں کا دھوون۔ {وَلَا طَعَامٌ اِلاَّ مِنْ غِسْلِیْنٍ ۔ } (الحاقۃ) ’’ اور کوئی کھانا نہیں ہو گا مگر زخموں کے دھوون میں سے۔‘‘

 اِغْتَسَلَ (افتعال) اِغْتِسَالاً : اہتمام سے دھونا‘ نہانا‘ غسل کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 مُغْتَسَلٌ (اسم المفعول جو ظرف کے معنی میں آتا ہے) : نہانے کی جگہ‘ غسل خانہ۔ {ھٰذَا مُغْتَسَلٌم بَارِدٌ} (صٓ:42) ’’ یہ ٹھنڈا کرنے والی نہانے کی جگہ ہے۔‘‘

ل م س

 لَمَسَ یَلْمُسُ وَیَلْمِسُ (ن ۔ ض) لَمْسًا : (1) کسی چیز کو چھونا (2) کسی چیز کو ڈھونڈنا۔ {وَاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَائَ} (الجن:8) ’’ اور یہ کہ ہم نے ٹٹولا آسمان کو۔‘‘

 لَامَسَ (مفاعلہ) مُلَامَسَۃً : ایک دوسرے کو چھونا‘ مباشرت کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِلْتَمَسَ (افتعال) اِلْتِمَاسًا : اہتمام سے ڈھونڈنا‘ تلاش کرنا۔

 اِلْتَمِسْ (فعل امر) : تو تلاش کر۔ {قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآئَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًاط} (الحدید:13) ’’ کہا جائے گا تم لوگ واپس جائو اپنے پیچھے پھر تلاش کرو نور کو۔‘‘

غ و ط

 غَاطَ ۔ یَغُوْطُ (ن) غَوْطًا : گڑھا کھودنا‘ کسی کو غوطہ دینا۔

 غَائِطٌ (اسم الفاعل) : غوطہ دینے والا ۔ پھر استعارۃً رفع حاجت کی جگہ کے لیے بھی آتا ہے‘ یعنی

بیت الخلائ‘ لیٹرین‘ باتھ روم‘ کیونکہ اس زمانہ میں بیت الخلاء کے لیے نشیبی زمین کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ آیت زیرمطالعہ۔

م س ح

 مَسَحَ ۔ یَمْسَحُ (ف) مَسْحًا : کسی چیز پر ہاتھ پھیرنا‘ پونچھنا‘ مسح کرنا۔

 اِمْسَحْ (فعل امر) : تو مسح کر۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اَلْمَسِیْحُ (فَعِیْلٌ کا وزن) : حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا لقب ہے ‘ کیونکہ ان کے ہاتھ پھیرنے سے مریض اچھے ہو جاتے تھے۔

 

ترکیب : ’’ وَلَا جُنُبًا‘‘ حال ہے اور ’’ لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ‘‘ پر عطف ہے۔ ’’ عَابِرِیْنَ‘‘ بھی حال ہونے کی وجہ سے حالت نصبی میں ہے اور مضاف ہونے کی وجہ سے اس کا نون اعرابی گرا ہوا ہے۔ ’’ مَرْضٰی‘‘ سے ’’ مَائً‘‘ تک اِن کی شرط ہے اور ’’ فَتَیَمَّمُوْا‘‘ جواب شرط ہے‘ جبکہ ’’ فَامْسَحُوْا‘‘ اس کی وضاحت ہے۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِيْلَ      44؀ۭ
[ اَلَمْ تَرَ : کیا آپ ؐنے غور نہیں کیا] [ اِلَی الَّذِیْنَ : ان کی (حالت کی) طرف جن کو] [ اُوْتُوْا : دیا گیا ] [ نَصِیْبًا : ایک حصہ ] [ مِّنَ الْکِتٰبِ : کتاب سے ] [ یَشْتَرُوْنَ : وہ لوگ خریدتے ہیں ] [ الضَّلٰلَۃَ : گمراہی کو ] [ وَیُرِیْدُوْنَ : اور چاہتے ہیں ] [ اَنْ : کہ ] [ تَضِلُّوا : تم لوگ (بھی) گمراہ ہو] [ السَّبِیْلَ : راستے سے ]

 

ترکیب : ’’ اُوْتُوْا‘‘ کا نائب فاعل اس میں’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ کے لیے ہے‘ جبکہ ’’ نَصِیْبًا‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ کَفٰی بِاللّٰہِ‘‘ میں با زائدہ ہے اور یہ آفاقی صداقت کا بیان ہے ‘ اس لیے ترجمہ حال میں ہو گا۔ ’’ وَلِیًّا‘‘ اور ’’ نَصِیْرًا‘‘ تمیز ہیں۔ ’’ کَلِمَۃٌ‘‘ کی جمع ’’ کَلِمٌ‘‘ ہے۔ ’’ غَیْرَ مُسْمَعٍ‘‘ حال ہے ‘ اس لیے اس کا مضاف ’’ غیر‘‘ منصوب ہوا ہے۔ ’’ لَــیًّا‘‘ اور ’’ طَعْنًا‘‘ بھی حال ہیں۔ ’’ اَقْوَمَ‘‘ افعل تفضیل ہے اور ’’ کَانَ‘‘ کی خبر ثانی ہے۔

وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِاَعْدَاۗىِٕكُمْ ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَلِيًّـۢا  ڭ وَّكَفٰى بِاللّٰهِ نَصِيْرًا     45؀
[ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے ] [ بِاَعْدَآئِکُمْ : تمہارے دشمنوں کو ] [ وَکَفٰی : اور کافی ہے ] [ بِاللّٰہِ : اللہ ] [ وَلِـیًّا : بطور کارساز کے ] [ وَّکَفٰی : اور کافی ہے ] [ بِاللّٰہِ : اللہ ] [ نَصِیْرًا : بطور مددگار کے ]

مِنَ الَّذِيْنَ ھَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّــۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ ۙ وَلٰكِنْ لَّعَنَھُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا      46
[ مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا : جو یہودی ہوئے ان میں وہ بھی ہیں ] [ یُحَرِّفُوْنَ : جو پھیرتے ہیں ] [ الْکَلِمَ : کلاموں کو ] [ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ : ان کے رکھنے کی جگہوں سے] [ وَیَـقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں ] [ سَمِعْنَا : ہم نے سنا ] [ وَعَصَیْنَا : اور ہم نے نافرمانی کی ] [ وَاسْمَعْ : اور (کہتے ہیں) تو سن] [ غَیْرَ مُسْمَعٍ : نہ سنایا ہوا ہوتے ہوئے ] [ وَّرَاعِنَا : اور (کہتے ہیں) راعنا] [ لَـیًّا: مروڑتے ہوئے ] [ بِاَلْسِنَتِہِمْ : اپنی زبانوں کو ] [ وَطَعْنًا : اور طعنہ دیتے ہوئے ] [ فِی الدِّیْنِ : دین میں ] [ وَلَوْ اَنَّـہُمْ : اور یہ کہ اگر وہ ] [ قَالُوْا : کہتے ] [ سَمِعْنَا : ہم نے سنا ] [ وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی ] [ وَاسْمَعْ : اور (کہتے) آپؐ سنیے] [ وَانْظُرْنَا : اور آپؐ مہلت دیں ہم کو] [ لَـکَانَ : تو یقینا وہ ہوتا] [ خَیْرًا : بہتر ] [ لَّہُمْ : ان کے لیے ] [ وَاَقْوَمَ : اور زیادہ پائیدار] [ وَلٰــکِنْ : اور لیکن ] [ لَّــعَنَہُمُ : لعنت کی ان پر ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ بِکُفْرِہِمْ : ان کے کفر کے سبب سے] [ فَلاَ یُؤْمِنُوْنَ : پس وہ ایمان نہیں لائیں گے] [ اِلاَّ : مگر ] [ قَلِیْلاً: تھوڑا ]

 

ط ع ن

 طَعَنَ ۔ یَطْعَنُ (ف) طَعْنًا : کسی کو نیزہ چبھونا۔ طنز کرنا‘ طعنہ دینا۔ آیت زیر مطالعہ۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْهًا فَنَرُدَّھَا عَلٰٓي اَدْبَارِھَآ اَوْ نَلْعَنَھُمْ كَمَا لَعَنَّآ اَصْحٰبَ السَّبْتِ  ۭوَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا     47؀
[ یٰٓـــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو جن کو] [ اُوْتُوا : دی گئی ] [ الْکِتٰبَ : کتاب ] [ اٰمِنُوْا : تم ایمان لائو ] [ بِمَا : اس پر جو ] [ نَزَّلْـنَا : ہم نے اتارا ] [ مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا ہوتے ہوئے ] [ لِّمَا : اس کی جو ] [ مَعَکُمْ : تمہارے ساتھ ہے ] [ مِّنْ قَـبْلِ : اس سے پہلے ] [ اَنْ : کہ ] [ نَّطْمِسَ : ہم بگاڑ دیں ] [ وُجُوْہًا : کچھ چہروں کو ] [ فَنَرُدَّہَا : پس ہم لوٹا دیں ان کو] [ عَلٰٓی اَدْبَارِہَآ : ان کی پیٹھوں پر ] [ اَوْ : یا ] [ نَلْعَنَہُمْ : پھر ہم لعنت کریں ] [ کَمَا : جیسے کہ ] [ لَعَنَّــآ : ہم نے لعنت کی ] [ اَصْحٰبَ السَّبْتِ : ہفتے کے دن والوں پر] [ وَکَانَ : اور ہوتا ہے ] [ اَمْرُاللّٰہِ : اللہ کا حکم ] [ مَفْعُوْلاً : کیا ہوا ]

 

ط م س

 طَمَسَ ۔ یَطْمِسُ (ض) طَمْسًا : کسی چیز کا حلیہ بگاڑ دینا‘ نام و نشان مٹا دینا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 اِطْمِسْ (فعل امر) : تو بگاڑ دے۔ {رَبَّـنَا اطْمِسْ عَلٰی اَمْوَالِھِمْ} (یونس:88) ’’ اے ہمارے ربّ! تو برباد کر دے ان کے اموال کو ۔‘‘

 

ترکیب : ’’ مُصَدِّقًا‘‘ حال ہے۔ ’’ فَنَرُدَّ‘‘ کا فا سببیہ ہے اس لیے مضارع ’’ نَرُدَّ‘‘ حالت نصبی میں ہے۔ فاسببیہ پر عطف ہونے کی وجہ سے ’’ اَوْ نَلْعَنَھُمْ‘‘ منصوب ہوا ہے اور اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ’’ وُجُوْھًا‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ کَانَ‘‘ کا اسم ’’ اَمْرُ اللّٰہِ‘‘ ہے اور ’’ مَفْعُوْلاً‘‘ اس کی خبر ہے اور یہ آفاقی صداقت کا بیان ہے۔ ’’ اَنْ یُشْرَکَ‘‘ کا نائب فاعل محذوف ہے جو کہ ’’ شَیْ ئٌ‘‘ ہو سکتا ہے ۔ ’’ بِہٖ‘‘ کی ضمیر اللہ کے لیے ہے ۔ ’’ اِثْمًا عَظِیْمًا‘‘ حال ہے۔ ’’ فَتِیْلًا‘‘ تمیز ہے۔ ’’ بِہٖ‘‘ کی ضمیر ’’ اَلْکَذِبَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اِثْمًا مُّبِیْنًا‘‘ تمیز ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ  ۚوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا       48؀
[ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ لاَ یَغْفِرُ : نہیں بخشے گا ] [ اَنْ : (اس کو) کہ] [ یُّشْرَکَ : شریک کیا جائے (کچھ بھی) ] [ بِہٖ : اس کے ساتھ ] [ وَیَغْفِرُ : اور وہ بخش دے گا ] [ مَا : اس کو جو ] [ دُوْنَ ذٰلِکَ : اس کے علاوہ ہے ] [ لِمَنْ : جس کے لیے ] [ یَّشَآئُ : وہ چاہے گا ] [ وَمَنْ : اور جو ] [ یُّشْرِکْ : شرک کرتا ہے ] [ بِاللّٰہِ : اللہ کے ساتھ ] [ فَقَدِ افْتَرٰٓی : تو اس نے جھوٹ گھڑا ہے ] [ اِثْمًا عَظِیْمًا : ایک عظیم گناہ ہوتے ہوئے ]

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ  ۭ بَلِ اللّٰهُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا    49؀
[ اَلَمْ تَرَ : کیا آپؐ نے غور نہیں کیا ] [ اِلَی الَّذِیْنَ : ان (کی حالت) کی طرف جو] [ یُزَکُّوْنَ : تزکیہ کرتے ہیں ] [ اَنْفُسَہُمْ : اپنے نفس کا ] [ بَلِ اللّٰہُ : بلکہ اللہ ] [ یُزَکِّیْ : تزکیہ کرتا ہے ] [ مَنْ : اس کا ‘ جس کا ] [ یَّشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] [ وَلاَ یُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا] [ فَتِیْلاً : کسی دھاگے برابر بھی ]

 

ف ت ل

 فَـتَلَ ۔ یَفْتِلُ (ض) فَتْلًا : رسی بٹنا۔

 فَتِیْلٌ : بٹی ہوئی باریک بتی‘ دھاگہ‘ آیت زیر مطالعہ۔

اُنْظُرْ كَيْفَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭوَكَفٰى بِهٖٓ اِثْمًا مُّبِيْنًا     50؀ۧ
[ اُنْظُرْ : تو دیکھ ] [ کَیْفَ : کیسے ] [ یَفْتَرُوْنَ : وہ گھڑتے ہیں ] [ عَلَی اللّٰہِ : اللہ پر ] [ الْکَذِبَ : جھوٹ ] [ وَکَفٰی : اور کافی ہے ] [ بِہٖٓ : وہ] [ اِثْمًا مُّبِیْنًا: بطور واضح گناہ کے]

 

نوٹ 1 : کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ مذکورہ آیت 47 کے نزول کے بعد بےشمار یہود و نصاریٰ ایمان نہیں لائے پھر بھی مذکورہ عذاب نازل نہیں ہوا۔ یہ سوال قرآن مجید کے طرزِ بیان کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کا کہنا ہے کہ سرے سے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ‘ کیونکہ یہاں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ عذاب ضرور واقع ہو گا‘ بلکہ اس کے امکان کا ذکر ہے ۔ (منقول از معارف القرآن)

 ہمارے چند متقدمین نے اس کو استعارۃً لیا ہے۔ مثلاً مجاہد (رح)  کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے راستے سے دھکیل کر گمراہی کی طرف متوجہ کردیں۔ ابوزید (رح)  کے نزدیک لوٹادینا یہ تھا کہ ارضِ حجاز سے بلادِ شام میں پہنچادیا جائے (منقول از تفسیر ابن کثیر)۔ استعارے کی گنجائش اس لیے بھی نکلتی ہے کہ وُجُوْہٌ کا لفظ چہروں کے علاوہ پوری شخصیت اور توجہ وغیرہ کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

نوٹ 2 : کوئی شخص اگر مرنے سے پہلے کسی بھی گناہ سے سچی توبہ کرلے تو وہ معاف ہو جائے گا‘ یہاں تک کہ شرک بھی سچی توبہ سے معاف ہو جاتا ہے۔ آیت 48 میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کوتوبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ ایسے لوگوں میں سے جو شرک میں ملوث تھے‘ تو وہ معاف نہیں ہو گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے۔ اگر کوئی شرک میں ملوث نہیں تھا لیکن کچھ دوسرے گناہ تھے‘ تو ان کی معافی کا امکان ہے۔ اور یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کامل کی بنیاد پر کرے گا کہ کس کا کون سا گناہ معاف کیے جانے کے قابل ہے۔

نوٹ 3: آیت 49 میں {الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْ} کا ہم نے لفظی ترجمہ کیا ہے۔ سات مختلف ترجموں میں چیک کیا تھا اور ان سب میں اس کا مطلب یہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ خود کو پاکیزہ سمجھتے ہیں یا اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ یہ دراصل تفسیری ترجمہ ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔

 اس آیت میں جو طرزِ بیان ہے وہ قرآن مجید میں اور بھی متعدد مقامات پر اختیار کیا گیا ہے۔ ان میں سے صرف ایک کے حوالے سے ان شاء اللہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’ یقینا آپؐ ہدایت نہیں دیتے اس کو جس کو آپؐ چاہیں بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے اس کو جس کو وہ چاہتا ہے ‘ اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو‘‘۔ (القصص:56)۔ اس مقام پر یہ بات بہت واضح ہے کہ اس آیت میں ہدایت دینے کی کوشش کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ یہ نہ صرف مطلوب اور محمود ہے بلکہ بعض اوقات فرض بھی ہے۔ البتہ یہ بات سمجھانا مقصود ہے کہ ہماری اس کوشش کا نتیجہ کس کے حق میں نکلے گا‘ کب نکلے گا اور کتنا نکلے گا‘ یہ سارے فیصلے کلیتاً اللہ تعالیٰ کے قبضہ ٔقدرت میں ہیں اور یہ فیصلے وہ اپنے علم کامل کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس لیے اپنی کوشش میں لگے رہو اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔ اسی کا نام توکل ہے۔

 اسی طرح آیت زیر مطالعہ میں بھی اپنے نفس کا تزکیہ کرنے کی کوشش کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ یہ کوشش بھی مطلوب و محمود ہے۔ البتہ یہاں ایسے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو اس کوشش کے نتیجے کو یقینی سمجھ کر خود کو پاک سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنی پاکیزگی کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں۔ آیت کے مفہوم کے اسی پہلو کو تفسیری ترجموں میں اُجاگر کیا گیا ہے۔

نوٹ 4 : آیت 48 میں اللہ تعالیٰ نے قطعی اعلان کردیا ہے کہ وہ شرک معاف نہیں کرے گا۔ اس لیے ہر صاحب ایمان کا یہ فرض بنتا ہے کہ شرک کو پہچاننے کی وہ خود استعداد حاصل کرے اور دوسروں کے کہنے پر بھروسہ نہ کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میدان حشر میں یہ بات قبول نہیں کی جائے گی کہ فلاں نے ہم کو غلط بتایا تھا‘ اس لیے اس کو پکڑو اور ہم کو چھوڑ دو۔ وہ بھی پکڑ اجائے گا اور ساتھ میں ہم بھی پکڑے جائیں گے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کی وضاحت موجود ہے ‘ مثلاً الاعراف:38‘ الاحزاب:67 وغیرہ۔ غلط لوگوں کی پیروی کرنے والوں کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ غور و فکر اور عقل کی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کیا اور کسی تحقیق کے بغیر دوسروں کی پیروی کی (بنی اسرائیل:36)۔ اس لیے کم از کم شرک کی حد تک تو یہ لازمی ہے کہ دوسروں سے فتویٰ مانگنے کے بجائے ہم خود فیصلہ کرسکیں کہ کیا شرک ہے اور کیا نہیں ہے؟ اسی مقصد سے اس نوٹ میں شرک کے متعلق ضروری معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔

 انسانی تاریخ کا یہ ایک المیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں شرک ان قوموں نے کیا جو اللہ اور آخرت کو مانتے تھے۔ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنایا جبکہ بنواسماعیل نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ اس پس منظر میں یہ ایک معجزہ ہے کہ امت محمد (
) تاحال شرک بالذات سے بچی ہوئی ہے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں دوسروں کو شریک کرنے کے جرم سے ہم لوگ بھی نہ بچ سکے۔ اس لیے اس نوٹ میں ہم شرک فی الصفات کے متعلق کچھ اصولی باتیں سمجھیں گے تاکہ اس کو پہچاننے کی صلاحیت حاصل ہو جائے۔

 شرک فی الصفات میں مغالطہ لاحق ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری زبان میں جو الفاظ اللہ تعالیٰ کی صفات کے لیے استعمال ہوتے ہیں وہی الفاظ مخلوق کی صفات کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً اللہ سمیع ہے تو ہم بھی سنتے ہیں‘ اللہ عالم ہے تو ہم بھی عالم ہیں وغیرہ۔ اس سبب سے پیدا ہونے والے مغالطے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ اور مخلوق کی صفات میں تین بنیادی فرق ذہن میں رکھیں تاکہ شرک فی الصفات سے بچ سکیں۔

(1) پہلا فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ذاتی ہیں‘ کسی نے اس کو دی نہیں‘ جبکہ مخلوق کی صفات ان کی ذاتی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی ہیں تو ان کو ملی ہیں۔

(2) دوسرا فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اسے ہمیشہ سے حاصل ہیں اور ہمیشہ رہیں گی ‘ جبکہ مخلوق کی صفات حادث بھی ہیں اور فانی بھی۔ حادث کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق میں صفات پہلے نہیں تھیں‘ اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے اسے حاصل ہوئیں۔ فانی کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق کی صفات ختم ہو جاتی ہیں۔

(3) تیسرا اور بہت اہم فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات لامحدود ہیں جبکہ مخلوق کی صفات محدود ہیں۔ مثلاً جو آواز فاصلے پر ہو‘ اسے ہم نہیں سن سکتے۔ آواز اگر ہلکی ہو تو آوازکا احساس ہوتا ہے لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر ہمارے سامنے کئی افراد بیک وقت ایک دوسرے سے بات (
cross talk) شروع کر دیں تو سب کی آواز ہمارے کان میں آئے گی لیکن بات کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ یہ سب کچھ ہماری صفت سماعت کے محدود ہونے کا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت سماعت کے لامحدود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فاصلے اس کے لیے بےمعنی ہیں۔ بندہ چاہے قطب شمالی پر ہو یا قطب جنوبی پر‘ وہ سب کی سنتا ہے۔ آواز کا تیز یا ہلکا ہونا بھی اس کے لیے بےمعنی ہے‘ وہ تو دل میں آنے والے خیال بھی سن لیتا ہے۔ اگر پوری دنیا کے انسان اسے بیک وقت پکاریں تو وہ ہر ایک کی سن لیتا ہے۔ اسی طرح ہم بقیہ صفات کے محدود اور لامحدود ہونے کا فرق سمجھ سکتے ہیں۔

 یہ ایک پیمانہ (
yard stick) ہے جس پر رکھ کر ہر شخص خود معلوم کرسکتا ہے کہ کیا شرک ہے اور کیا شرک نہیں ہے۔ اب یہ بھی نوٹ کرلیں کہ قرآن مجید میں شرک سے متعلق آیات کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے اور ان میں اکثر شرک فی الصفات سے متعلق ہیں۔ نمونے کے طور پر صرف دو آیات دیکھ لیں:

 (1) ’’ اور تم لوگ اس کے علاوہ جن لوگوں کو پکارتے ہو وہ قطمیر (کھجور کی گٹھلی پر پائی جانے والی سفید جھلی) کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگر تم لوگ ان کو پکارو گے تو وہ لوگ تمہاری پکار کو نہیں سنیں گے‘ اور اگر سنیں گے تو تم لوگوں کی حاجت روائی نہیں کرسکیں گے‘ اور قیامت کے دن انکار کریں گے تم لوگوں کے شرک کا۔‘‘ (فاطر:13‘14)

 (2) ’’ اسی کو (یعنی اللہ کو ہی ) پکارنا حق ہے۔ اور یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کے کچھ کام نہیں آتے مگر (اس طرح) جیسے کسی نے پانی کی طرف دونوں ہتھیلیاں پھیلائیں کہ وہ اس کے منہ تک آ پہنچے اور وہ اس تک پہنچنے والا نہیں ہے۔‘‘ (الرعد:14)

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَيَقُوْلُوْنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا هٰٓؤُلَاۗءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَبِيْلًا     51؀
[ اَلَمْ تَرَ : کیا آپؐ نے غور نہیں کیا] [ اِلَی الَّذِیْنَ : ان کی طرف جن کو ] [ اُوْتُوْا : دیا گیا ] [ نَصِیْبًا : ایک حصہ ] [ مِّنَ الْکِتٰبِ : کتاب سے ] [ یُـؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لاتے ہیں] [ بِالْجِبْتِ : توہمات پر ] [ وَالطَّاغُوْتِ : اور طاغوت پر ] [ وَیَـقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں ] [ لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے جنہوں نے ] [ کَفَرُوْا : کفر کیا] [ ہٰٓؤُلَآئِ : کہ یہ لوگ ] [ اَہْدٰی : زیادہ ہدایت پر ہیں ] [ مِنَ الَّذِیْنَ : ان سے جو ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ سَبِیْلاً : بلحاظ راستے کے ]

 

ج ب ت

 (
x) : اس مادہ سے کوئی فعل استعمال نہیں ہوا۔

 جِبْتٌ : انتہائی نکمی اور ناکارہ چیز۔ واحد اور جمع سب کے لیے ہے۔ پھر استعارۃً بتوں‘ جادوگروں اور نجومیوں کے لیے آتا ہے (مفردات القرآن) ‘ آیت زیر مطالعہ۔

 

ترکیب : ’’ اُوْتُوْا‘‘ کا نائب فاعل اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اِلَی الَّذِیْنَ‘‘ کے لیے ہے اور ’’ نَصِیْبًا‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ الطَّاغُوْتِ‘‘ حرف ِ جر ’’ ب‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے مجرور ہوا ہے۔ ’’ ھٰؤُلَائِ‘‘ اشارہ ہے‘’’ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘‘ کے لیے جبکہ ’’ سَبِیْلًا‘‘ تمیز ہے۔ ’’ اَمْ لَھُمْ‘‘ میں ’’ اَمْ‘‘ استفہام کا ہے یعنی ’’ أَ ‘‘ کے معنی میں ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰهُ ۭ وَمَنْ يَّلْعَنِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ نَصِيْرًا    52؀ۭ
[ اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ ] [ الَّذِیْنَ : وہ ہیں ] [ لَـعَنَہُمُ : لعنت کی جن پر ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ وَمَنْ : اور جس پر ] [ یَّلْعَنِ : لعنت کرتاہے ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ فَلَنْ تَجِدَ : تو تو ہرگز نہیں پائے گا] [ لَــہٗ : اس کے لیے ] [ نَصِیْرًا : کوئی مددگار]

اَمْ لَھُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا     53؀ۙ
[ اَمْ : کیا] [ لَہُمْ : ان کے لیے ] [ نَصِیْبٌ : کوئی حصہ ہے ] [ مِّنَ الْمُلْکِ : سلطنت میں ] [ فَاِذًا : پھر تو ] [ لاَّ یُؤْتُوْنَ : وہ نہیں دیں گے ] [ النَّاسَ : لوگوں کو] [ نَقِیْرًا : تل بھر بھی ]

 

ن ق ر

 نَقَرَ۔ یَنْقُرُ (ن) نَقْرًا : (1) ٹھونگے مار کر کسی چیز میں سوراخ یا گڑھا کرنا۔ (2) پھونک مار کر بانسری یا بگل بجانا۔ {فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُــوْرِ ۔ } (المدثر) ’’ پھر جب پھونکا جائے گا بگل میں (یعنی صور پھونکا جائے گا)۔‘‘

 نَاقُوْرٌ : بگل‘ صور۔

 نَقِیْرٌ : کھجور کی گٹھلی کاگڑھا۔ یہ کسی انتہائی حقیر چیز کے لیے عربی محاورہ ہے جس کا اردو متبادل ہے ’’ تل بھر‘‘۔ آیت زیر مطالعہ۔

اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰي مَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ فَقَدْ اٰتَيْنَآ اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاٰتَيْنٰھُمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا      54؀
[ اَمْ : یا] [ یَحْسُدُوْنَ : وہ حسد کرتے ہیں ] [ النَّاسَ : لوگوں سے ] [ عَلٰی مَآ : اس پر جو ] [ اٰتٰٹہُمُ : دیا ان کو ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ مِنْ فَضْلِہٖ : اپنے فضل سے ] [ فَقَدْ اٰتَـیْنَــآ : تو ہم دے چکے ہیں ] [ اٰلَ اِبْرٰہِیْمَ : ابراہیم ؑ کے پیروکاروں کو] [ الْکِتٰبَ : کتاب ] [ وَالْحِکْمَۃَ : اور حکمت ] [ وَاٰتَـیْنٰـہُمْ : اور ہم نے دی ان کو ] [ مُّلْکًا عَظِیْمًا : ایک شاندار سلطنت ]

فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِهٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْهُ  ۭوَكَفٰى بِجَهَنَّمَ سَعِيْرًا      55؀
[ فَمِنْہُمْ مَّنْ : تو ان میں وہ بھی ہیں جو] [ اٰمَنَ : ایمان لائے ] [ بِہٖ : اس پر ] [ وَمِنْہُمْ مَّنْ : اور ان میں وہ بھی ہیں جو ] [ صَدَّ : رکے رہے ] [ عَنْہُ : اس سے ] [ وَکَفٰی : اور کافی ہے ] [ بِجَہَنَّمَ : جہنم] [ سَعِیْرًا : بطور شعلوں والی آگ کے]

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْهِمْ نَارًا ۭ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِيْزًا حَكِيْمًا     56؀
[ اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک وہ لوگ جنہوں نے] [ کَفَرُوْا : انکار کیا ] [ بِاٰیٰتِنَا : ہماری نشانیوں کا ] [ سَوْفَ : عنقریب ] [ نُصْلِیْہِمْ : ہم ڈالیں گے ان کو ] [ نَارًا : ایک آگ میں ] [ کُلَّمَا : جب کبھی بھی ] [ نَضِجَتْ : پک جائیں گی ] [ جُلُوْدُہُمْ : ان کی کھالیں ] [ بَدَّلْنٰہُمْ : تو ہم تبدیل کر دیں گے ان کو (یعنی ان کے لیے) ] [ جُلُوْدًا : کھالوں کو ] [ غَیْرَہَا: ان کے (یعنی پہلی کھالوں کے) علاوہ] [ لِیَذُوْقُوا : تاکہ وہ لوگ چکھیں] [ الْعَذَابَ : عذاب کو] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ عَزِیْزًا : بالادست] [ حَکِیْمًا : حکمت والا ]

 

ن ض ج

 نَضِجَ ۔ یَنْضَجُ (س) نَضْجًا : پھل یا گوشت کا پکنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

ج ل د

 جَلَدَ یَجْلِدُ (ض) جَلْدًا : چمڑے یا کھال پر مارنا۔

 اِجْلِدْ (فعل امر) : تو مار۔ {فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً} (النور:4) ’’ تو تم لوگ مارو ان کو اسّی کوڑے۔‘‘

 جَلْدَۃٌ : کوڑا۔

 جِلْدٌ ج جُلُوْدٌ : کھال۔ آیت زیر مطالعہ۔

ترکیب : ’’ نُصْلِیْ‘‘ کا مفعول اوّل ’’ ھِمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ نَارًا‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ کُلَّمَا‘‘ شرطیہ ہے‘ اس لیے ’’ نَضِجَتْ‘‘ ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہو گا۔ ’’ بَدَّلْـنَا‘‘ کا مفعول اوّل ’’ ھُمْ‘‘ ہے اور ’’ جُلُوْدًا‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ غَیْرَھَا‘‘ میں ’’ ھَا‘‘ کی ضمیر ’’ جُلُوْدٌ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ اَنْ تَحْکُمُوْا‘‘ کا ’’ اَنْ‘‘‘ ’’ یَاْمُرُکُمْ‘‘ پر عطف ہے ۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَآ اَبَدًا  ۭ لَھُمْ فِيْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ  ۡ وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِيْلًا     57؀
[ وَالَّذِیْنَ : اور وہ (لوگ) جو ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ وَعَمِلُوا : اور عمل کیے] [ الصّٰلِحٰتِ : نیک ] [ سَنُدْخِلُہُمْ : ہم داخل کریں گے ان کو ] [ جَنّٰتٍ : ایسے باغات میں] [ تَجْرِیْ : بہتی ہیں ] [ مِنْ تَحْتِہَا : جن کے نیچے سے ] [ الْاَنْہٰرُ : نہریں ] [ خٰلِدِیْنَ : ایک حالت میں رہنے والے ہیں] [ فِیْہَآ : ان میں ] [ اَبَدًا : ہمیشہ] [ لَہُمْ : ان کے لیے ہیں ] [ فِیْہَآ : ان میں ] [ اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ : پاک کیے ہوئے جوڑے] [ وَّنُدْخِلُہُمْ : اور ہم داخل کریں گے ان کو] [ ظِـلاًّ ظَلِیْلاً : ہمیشگی والے سائے میں]

اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا  ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا      58؀
[ اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ ] [ یَاْمُرُکُمْ : حکم دیتا ہے تم لوگوں کو ] [ اَنْ : کہ ] [ تُــؤَدُّوا : تم لوٹا دو ] [ الْاَمٰنٰتِ : امانتوں کو ] [ اِلٰٓی اَہْلِہَا: ان کے اہل (یعنی اہلیت والوں) کی طرف] [ وَاِذَا : اور جب بھی ] [ حَکَمْتُمْ : تم فیصلہ کرو ] [ بَیْنَ النَّاسِ : لوگوں کے مابین ] [ اَنْ : (تو یہ) کہ ] [ تَحْکُمُوْا : تم لوگ فیصلہ کرو ] [ بِالْعَدْلِ : عدل سے ] [ اِنَّ اللّٰہَ : بےشک اللہ ] [ نِعِمَّا : کیا ہی اچھی ہے جو] [ یَعِظُکُمْ : وہ نصیحت کرتا ہے تم کو] [ بِہٖ : اس کے بارے میں ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ سَمِیْعًام : سننے والا] [ بَصِیْرًا: دیکھنے والا]

 

نوٹ 1 : جن لوگوں کے بدن پر کبھی کوئی پھوڑا یا پھنسی نکلی ہے وہ جانتے ہیں کہ جب وہ پک جاتے ہیں تو ان کی کھال گل کر الگ ہو جاتی ہے اور نیچے سے نئی کھال نکلتی ہے۔ اس وقت وہ اتنی نازک اور حساس ہوتی ہے کہ اگر کوئی چیز اس کو چھو جائے تو آدمی بلبلا اٹھتا ہے۔ جن لوگوں کو اس کا تجربہ ہے وہ کسی درجے میں {لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ} کا مفہوم سمجھ سکتے ہیں۔

نوٹ 2 : آیت 58 میں لفظ امانات جمع کے صیغے میں آیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ صرف مال و دولت ہی امانت نہیں ہوتی بلکہ اس کی اور بھی قسمیں ہیں۔ مثلاً ایک حدیث کے مطابق کسی مجلس میں جو بات کہی جائے وہ اس مجلس کی امانت ہے اور اہل مجلس کی اجازت کے بغیر دوسروں کو بتانا خیانت ہے۔ ایک دوسری حدیث کے مطابق جس شخص سے کوئی مشورہ طلب کیا جائے تو وہ امین ہوتا ہے‘ اس لیے اس پر لازم ہے کہ مشورہ وہی دے جو مشورہ مانگنے والے کے حق میں مفید ہے۔ اگر جانتے بوجھتے غلط مشورہ دیا تو اس نے خیانت کی۔

 اسی طرح خانہ کعبہ کی کنجی کی تولیت کے مسئلہ پر اس آیت کا نازل ہونا واضح کر دیتا ہے کہ جو بھی عہدے اور منصب ہیں ‘ وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں اور ان کے امین وہ حکام ہیں جن کو ان عہدوں پر تقرری کا اختیار حاصل ہے۔ ان کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کر دیں جو علم وعمل اور کسی قابلیت کے لحاظ سے اس عہدے کا اہل نہیں ہے۔ حکومت کے عہدے باشندگانِ ملک کے حقوق نہیں ہیں جنہیں آبادی کے تناسب کے اصول پر تقسیم کیا جائے‘ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ امانتیں ہیں جو صرف ان کے اہل لوگوں کو دیے جا سکتے ہیں۔

 رسول اللہ
کا فرمان ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کی بنیاد پر‘ اہلیت معلوم کیے بغیر دے دیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہے‘ نہ اس کا فرض قبول ہو گا نہ نفل‘ یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے (منقول از معارف القرآن)۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا     59؀ۧ
[ یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو جو] [ اٰمَنُوْآ : ایمان لائے ] [ اَطِیْعُوا : تم لوگ اطاعت کرو ] [ اللّٰہَ : اللہ کی ] [ وَاَطِیْعُوا : اور اطاعت کرو ] [ الرَّسُوْلَ : ان رسولؐ کی ] [ وَاُولِی الْاَمْرِ : اور حکم والوں کی ] [ مِنْکُمْ : تم میں سے ] [ فَاِنْ : پھر اگر ] [ تَنَازَعْتُمْ : تم لوگ باہم کھینچا تانی کرو] [ فِیْ شَیْئٍ : کسی چیز میں ] [ فَرُدُّوْہُ : تو لوٹا دو اس کو ] [ اِلَی اللّٰہِ : تو لوٹادو اس کو] [ وَالرَّسُوْلِ : اور ان رسولؐ کی طرف ] [ اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ ] [ تُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہو ] [ بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخری دن پر ] [ ذٰلِکَ : یہ ] [ خَیْرٌ : سب سے بہتر ہے ] [ وَّاَحْسَنُ : اور سب سے اچھا ہے ] [ تَاْوِیْلاً : بلحاظ انجام کار کے]

 

ترکیب:’’ اُولُوْا‘‘ کی نصب اور جر دونوں ’’ اُولِیْ‘‘ آتی ہے۔ اس آیت میں یہ ’’ اَطِیْعُوْا‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے مفعول ہے اور حالت نصب میں ہے۔ ’’ کُنْتُمْ‘‘ کا اسم اس میں شامل ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ تُؤْمِنُوْنَ‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ ذٰلِکَ‘‘ مبتدأ ہے۔ ’’ خَیْرٌ‘‘ اس کی خبر اوّل ہے اور ’’ اَحْسَنُ‘‘ خبر ثانی ہے‘ جبکہ ’’ تَاْوِیْلًا‘‘ تمیزہے۔

 

نوٹ 1 : اللہ اور رسول اللہ
کی اطاعت کے بعد جو اطاعت مسلمانوں پر واجب ہے وہ اولی الامر کی اطاعت ہے‘ مسلمانوں کی فکری راہنمائی کرنے والے علمائ‘ سیاسی راہنمائی کرنے والے لیڈر‘ ملکی انتظام کرنے والے حکام‘ عدالتی فیصلے کرنے والے جج وغیرہ سب اولی الامر میں شامل ہیں۔ جو شخص جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحب امر ہے اس کی اطاعت لازمی ہے۔ اس سے تنازعہ کر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے‘ البتہ اولی الامر کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تحت ہو گی۔ ایک حدیث میں ہے کہ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے اولی الامر کی بات سنے اور مانے‘ خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند‘ تاوقتیکہ اسے معصیت کا حکم دیا جائے۔ اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر نہ سننا ہے نہ ماننا ہے۔ (بخاری و مسلم‘ بحوالہ تفہیم القرآن)

 بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں قرآن و سنت کی رو سے کوئی پابندی عائد نہیں ہے‘ نہ وہ واجب ہیں‘ نہ حرام ہیں ‘ بلکہ اختیاری ہیں۔ ان کو اصطلاح میں مباحات کہا جاتا ہے۔ ایسے معاملات میں عملی انتظام اولی الامر کے سپرد ہے۔ (معارف القرآن)

نوٹ 2 : ہندوستان پر انگریزوں کے دورِ حکومت میں مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی اور کچھ علمائِ سوء نے اس آیت کے حوالے سے کہا تھا کہ مسلمانوں پر اولی الامر کی اطاعت فرض ہے اور اس وقت انگریز ہمارے اولی الامر ہیں اس لیے ان کی اطاعت بھی فرض ہے۔ لیکن اسی آیت میں لفظ اولی الامر کے آگے ’’ مِنْکُمْ‘‘ کا اضافہ کر کے واضح کردیا گیا ہے کہ یہ اطاعت کا حکم ایسے اولی الامر کے لیے ہے جوخود مسلمانوں میں سے ہو۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا      60؀
[ اَلَمْ تَرَ : کیا آپؐ نے غور نہیں کیا] [ اِلَی الَّذِیْنَ : ان لوگوں کی طرف جو ] [ یَزْعُمُوْنَ : جتاتے ہیں ] [ اَنَّـہُمْ : کہ وہ لوگ ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ بِمَـآ : اس پر جو ] [ اُنْزِلَ : اُتارا گیا] [ اِلَـیْکَ : آپؐ کی طرف ] [ وَمَـآ : اور جو ] [ اُنْزِلَ : اتارا گیا ] [ مِنْ قَـبْلِکَ : آپ سے پہلے ] [ یُرِیْدُوْنَ : وہ لوگ چاہتے ہیں ] [ اَنْ یَّـتَحَاکَمُوْآ : کہ فیصلے کے لیے لے جائیں (جھگڑے کو) ] [ اِلَی الطَّاغُوْتِ : سرکشوں کی طرف ] [ وَ : حالانکہ ] [ قَدْ اُمِرُوْآ : حکم دیا گیا ہے ان کو ] [ اَنْ یَّــکْفُرُوْا : کہ وہ انکار کریں ] [ بِہٖ : اس کا] [ وَیُرِیْدُ : اور چاہتا ہے ] [ الشَّیْطٰنُ : شیطان ] [ اَنْ یُّضِلَّہُمْ : کہ وہ گمراہ کرے ان کو ] [ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا: دور کی گمراہی میں ]

 

ز ع م

 زَعَمَ ۔ یَزْعُمُ (ن) زُعْمًا : کسی غلط یا غیر یقینی بات کو یقینی سمجھنا یا جتانا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 زَعَامَۃً : کسی چیز کا ذمہ دار اور جواب دہ ہونا‘ ضامن ہونا۔

 زَعْمٌ (اسم ذات) : گمان‘ خیال۔ {ھٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِھِمْ} (الانعام:136) ’’ یہ اللہ کے لیے ہے ان کے خیال میں۔‘‘

 زَعِیْمٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : جواب دہ‘ ضامن ۔ {سَلْھُمْ اَیُّھُمْ بِذٰلِکَ زَعِیْمٌ ۔ } (القلم) ’’ آپؐ ان سے پوچھیں کہ ان میں سے کون اس کا ضامن ہے؟‘‘

 

ترکیب: ’’ یَتَحَاکَمُوْا‘‘ کا مفعول محذوف ہے‘ ’’ اِلَی الطَّاغُوْتِ‘‘ متعلق فعل ہے۔ ’’ بِہٖ‘‘ کی ضمیر طاغوت کے لیے ہے۔ ’’ اِذَا‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ قِیْلَ‘‘ شرط اور ’’ رَاَیْتَ‘‘ اس کا جواب شرط ہے۔ اس لیے دونوں کا ترجمہ حال میں ہو گا۔ ’’ یَحْلِفُوْنَ‘‘ حال ہے۔

وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا    61؀ۚ
[ وَاِذَا : اور جب بھی ] [ قِیْلَ : کہا جاتاہے ] [ لَہُمْ : ان سے ] [ تَـعَالَــوْا : تم لوگ آئو ] [ اِلٰی مَــآ : اس کی طرف جو ] [ اَنْزَلَ : اتارا ] [ اللّٰہُ : اللہ نے] [ وَاِلَی الرَّسُوْلِ : اور ان رسولؐ کی طرف] [ رَاَیْتَ : تو آپؐ دیکھتے ہیں ] [ الْمُنٰفِقِیْنَ : منافقوں کو ] [ یَصُدُّوْنَ : (کہ) وہ لوگ رکتے ہیں ] [ عَنْکَ : آپؐ سے ] [ صُدُوْدًا : جیسے کہ رکا جاتا ہے ]

فَكَيْفَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ ثُمَّ جَاۗءُوْكَ يَحْلِفُوْنَ ڰ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّآ  اِحْسَانًا وَّتَوْفِيْقًا      62؀
[ فَکَیْفَ : تو کیسا ہو گا ] [ اِذَآ : جب ] [ اَصَابَتْہُمْ : آن لگے گی ان کو ] [ مُّصِیْبَۃٌم : کوئی مصیبت ] [ بِمَا : اس کے سبب سے جو ] [ قَدَّمَتْ : آگے بھیجا] [ اَیْدِیْہِمْ : ان کے ہاتھوں نے ] [ ثُمَّ : پھر ] [ جَآئُ وْکَ: وہ آئیں گے آپؐ کے پاس] [ یَحْلِفُوْنَ : قسم کھاتے ہوئے ] [ بِاللّٰہِ : اللہ کی ] [ اِنْ : (کہ) نہیں] [ اَرَدْنَــآ : ارادہ کیا ہم نے ] [ اِلَّآ : مگر ] [ اِحْسَانًا : بھلائی کا ] [ وَّتَوْفِیْقًا : اور ہم آہنگ کرنے کا ]

 

ح ل ف

 حَلَفَ ۔ یَحْلِفُ (ض) حَلْفًا : قسم کھا کر عہد و پیمان کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 حَلَّافٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ) : بار بار اور کثرت سے قسم کھانے والا ۔ {فَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّھِیْنٍ ۔ } (القلم) ’’ اور تو کہنا مت مان ہر ایک بےوقعت قسمیں کھانے والے کا۔‘‘

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَعْلَمُ اللّٰهُ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ ۤ فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَعِظْھُمْ وَقُلْ لَّھُمْ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِيْغًا     63؀
[ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ : وہ لوگ ہیں کہ ] [ یَعْلَمُ : جانتا ہے ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ مَا : اس کو جو ] [ فِیْ قُلُوْبِہِمْ : ان کے دلوں میں ہے ] [ فَاَعْرِضْ : تو آپؐ اعراض کریں] [ عَنْہُمْ : ان سے ] [ وَ: اور ] [ عِظْہُمْ : آپؐ نصیحت کریں ان کو ] [ وَقُلْ : اور آپؐ کہیں ] [ لَّـہُمْ : ان سے ] [ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ : ان کے جی (یعنی دل) میں] [ قَوْلاً م بَلِیْغًا: ایک پہنچنے (یعنی اُترنے) والی بات]

 

نوٹ: آیت 60 اپنے حکم اور الفاظ کے اعتبار سے عام ہے۔ یہ ہر اس شخص کی مذمت اور برائی کا اظہار کرتی ہے جوکتاب و سنت سے ہٹ کر کسی اور باطل کی طرف اپنا فیصلہ لے جائے ۔ یہاں طاغوت سے یہی مراد ہے۔ (ابن کثیر)

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا     64؀
[ وَمَــآ اَرْسَلْنَا : اور ہم نے نہیں بھیجا] [ مِنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول ] [ اِلاَّ : مگر ] [ لِیُطَاعَ: (اس لیے) کہ اس کی اطاعت کی جائے] [ بِاِذْنِ اللّٰہِ : اللہ کے اذن سے ] [ وَلَــوْ : اور اگر ] [ اَنَّــہُمْ : یہ (ہوتا) کہ وہ لوگ ] [ اِذْ ظَّلَمُوْآ : جب انہوں نے ظلم کیا ] [ اَنْفُسَہُمْ : اپنے آپ پر ] [ جَآئُ وْکَ : آتے آپؐ کے پاس ] [ فَاسْتَغْفَرُوا : پھر استغفار کرتے ] [ اللّٰہَ : اللہ سے ] [ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ : اور استغفار کرتے ان کے لیے] [ الرَّسُوْلُ : رسولؐ] [ لَــوَجَدُوا : تو وہ لوگ پاتے ] [ اللّٰہَ : اللہ کو ] [ تَوَّابًا : بار بار توبہ قبول کرنے والا] [ رَّحِیْمًا : ہرحال میں رحم کرنے والا ]

 

ترکیب: ’’ لِیُطَاعَ‘‘ مضارع مجہول ہے اور اس کا نائب فاعل اس میں ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو رسول کے لیے ہے۔ ’’ وَلَــوْ اَنَّـھُمْ‘‘ کا ’’ لَـوْ‘‘ شرطیہ ہے اور ’’ لَــوَجَدُوْا‘‘ پر لام جوابِ شرط کا ہے اس لیے ترجمہ اسی لحاظ سے ہو گا۔ ’’ وَرَبِّکَ‘‘ میں ’’ رَبِّ‘‘ کی جربتا رہی ہے کہ اس سے پہلے وائوقسمیہ ہے۔

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا      65؀
[ فَلاَ : پس نہیں! ] [ وَرَبِّکَ : آپؐ کے رب کی قسم ] [ لاَ یُؤْمِنُوْنَ : وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ یُحَکِّمُوْکَ : وہ حاکم تسلیم کریں آپؐ کو] [ فِیْمَا : اس میں‘ جس میں ] [ شَجَرَ : اختلاف کیا ] [ بَیْنَہُمْ : آپس میں ] [ ثُمَّ : پھر ] [ لاَ یَجِدُوْا : وہ نہ پائیں ] [ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ : اپنے جی میں ] [ حَرَجًا : کوئی تنگی ] [ مِّمَّا : اس سے‘ جو ] [ قَضَیْتَ : آپؐ نے فیصلہ کیا ] [ وَیُسَلِّمُوْا : اور وہ لوگ تسلیم کریں ] [ تَسْلِیْمًا: جیسے تسلیم کرتے ہیں ]

 

ح ر ج

 حَرِجَ ۔ یَحْرَجُ (س) حَرَجًا : کسی چیز کا تنگ ہونا۔ پھر استعارۃً گناہ ہونے کے لیے آتا ہے‘ کیونکہ احساسِ گناہ (
guilty conscious) انسان کے دل کو بھینچتا یعنی تنگ کرتا ہے۔

 حَرَجٌ (اسم ذات) : تنگی‘ گناہ۔ {وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍط} (الحج:78) ’’ اور اس نے نہیں بنائی تم پر دین میں کوئی تنگی‘‘۔ {لَـیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ} (النور:61) ’’ اندھے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘

 

نوٹ: اس آیت کا حکم قیامت تک کے لیے ہے ‘ کیونکہ رسول اللہ
قیامت تک کے لیے نبی ٔوقت ہیں۔ اس لیے آپؐ کی ہدایات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کن سند ہیں۔ ان کو ماننے یا نہ ماننے ہی پر آدمی کے مومن ہونے یا نہ ہونے کا انحصار ہے۔ اسی بات کو رسول اللہ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس طریقہ کی تابع نہ ہو جائے جسے میں لے کر آیا ہوں ۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ)

وَلَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْھُمْ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ فَعَلُوْا مَا يُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَشَدَّ تَثْبِيْتًا    66؀ۙ
[ وَلَــوْ : اور اگر] [ اَنَّا کَتَـبْـنَا : ہم لکھتے] [ عَلَیْہِمْ : ان پر ] [ اَنِ : کہ ] [ اقْتُلُوْآ : تم لوگ قتل کرو ] [ اَنْفُسَکُمْ : اپنے آپ کو ] [ اَوِ : یا] [ اخْرُجُوْا : تم لوگ نکلو ] [ مِنْ دِیَارِکُمْ : اپنے گھروں سے ] [ مَّا فَـعَلُوْہُ : تو وہ لوگ نہ کرتے اس کو ] [ اِلاَّ : مگر ] [ قَلِیْلٌ : تھوڑے سے ] [ مِّنْہُمْ : ان میں سے ] [ وَلَوْ : اور اگر ] [ اَنَّــہُمْ : یہ (ہوتا) کہ وہ لوگ ] [ فَـعَلُوْا : کرتے ] [ مَا : اس کو ] [ یُوْعَظُوْنَ : نصیحت کی جاتی ہے ان کو ] [ بِہٖ : جس کی ] [ لَــکَانَ : تو ہوتا] [ خَیْرًا : بہتر ] [ لَّــہُمْ : ان کے لیے ] [ وَاَشَدَّ : اور (ہوتا) زیادہ سخت ] [ تَثْبِیْتًا : بلحاظ جما دینے کے ]

 

ترکیب:’’ مَا فَعَلُوْہُ‘‘ کی ضمیر مفعولی ’’ کَتَبْنَا‘‘ کے حکم کے لیے ہے جس کی وضاحت ’’ اَنِ‘‘ کے ساتھ آگے آئی ہے۔ ’’ خَیْرًا‘‘ اور ’’ اَشَدَّ‘‘ کی نصب ’’ کَانَ‘‘ کی خبر ہونے کی وجہ سے ہے‘ جبکہ ’’ تَثْبِیْتًا‘‘ تمیز ہے۔ ’ اَلصِّدِّیْقِیْنَ‘ الشُّھَدَائِ‘‘ اور ’’ الصّٰلِحِیْنَ‘‘ یہ سب ’’ مِنْ‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے حالت جر میں آئے ہیں اور یہ ’’ مِنْ‘‘ بیانیہ ہے۔ جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے ’’ اَنْعَمَ‘‘ کا ترجمہ مستقبل میں ہو گا۔ ’’ حَسُنَ‘‘ فعل لازم ہے‘ ’’ اُولٰئِکَ‘‘ فاعل ہے اور ’’ رَفِیْقًا‘‘ تمیز ہے۔

وَّاِذًا لَّاٰتَيْنٰھُمْ مِّنْ لَّدُنَّآ اَجْرًا عَظِيْمًا     67؀ۙ
[ ؐوَّاِذًا : اور تب تو ] [ لَّاٰتَیْنٰـہُمْ : ہم ضرور دیتے ان کو ] [ مِّنْ لَّدُنَّــآ : اپنے پاس سے ] [ اَجْرًا عَظِیْمًا : ایک شاندار بدلہ ]

وَّلَهَدَيْنٰھُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا     68؀
[ وَّلَـہَدَیْنٰـہُمْ : اور ہم ضرور ہدایت دیتے ان کو] [ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا : ایک سیدھے راستے کی]

وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا     69؀ۭ
[ وَمَنْ : اور جو ] [ یُّطِـعِ : اطاعت کرے گا ] [ اللّٰہَ : اللہ کی ] [ وَالرَّسُوْلَ : اور ان رسولؐ کی ] [ فَاُولٰٓئِکَ : تو وہ لوگ ] [ مَعَ الَّذِیْنَ : ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے] [ اَنْعَمَ : انعام کرے گا ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ عَلَیْہِمْ : جن پر ] [ مِّنَ النَّبِیّٖنَ : نبیوں میں سے ] [ وَالصِّدِّیْقِیْنَ : اور کامل سچوں میں سے ] [ وَالشُّہَدَآئِ : اور شہیدوں میں سے ] [ وَالصّٰلِحِیْنَ : اور نیک لوگوں میں سے ] [ وَحَسُنَ : اور اچھے ہوئے ] [ اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ ] [ رَفِیْقًا : بطور رفیق کے ]

 

ر ف ق

 رَفُقَ ۔ یَرْفُقُ (ک) رَفَاقَۃً : ساتھی ہونا‘ نرمی سے پیش آنا۔

 رَفِیْقٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : ساتھی۔ آیت زیر مطالعہ۔

 رَفَقَ۔ یَرْفُقُ (ن) رَفَقًا : مدد کرنا‘ سہارا دینا۔

 مِرْفَقٌ ج مَرَافِقٌ (مِفْعَلٌ کے وزن پر اسم الآلہ ) : مدد کرنے یا سہارا دینے کا ذریعہ‘ کہنی۔ {وَیُھَیِّیٔ لَـکُمْ مِّنْ اَمْرِکُمْ مِّرْفَقًا ۔ } (الکہف) ’’ اور وہ اسباب پیدا کرے گا تمہارے لیے تمہارے کام میں مدد کرنے کے ذریعے کے طور پر‘‘۔ {فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ} (المائدۃ:6) ’’ تو تم لوگ دھوئو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک۔‘‘

 اِرْتَفَقَ ۔ یَرْتَفِقُ (افتعال) اِرْتِفَاقًا : مدد یا سہارا لینا۔

 مُرْتَفَقٌ (اسم المفعول‘ جو ظرف کے معنی میں آتا ہے) : سہارا لینے یعنی آرام کرنے کی جگہ۔ {وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا } (الکہف) ’’ اور کیا ہی اچھی ہوئی بطور آرام کرنے کی جگہ کے۔‘‘

ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ عَلِــيْمًا     70؀ۧ
[ ذٰلِکَ الْفَضْلُ : یہ فضل ] [ مِنَ اللّٰہِ : اللہ (کے پاس) سے ہے ] [ وَکَفٰی بِاللّٰہِ : اور کافی ہے اللہ ] [ عَلِیْمًا: بطور جاننے والے کے]

 

 

نوٹ 1 : پیچھے آیت 60 سے منافقین کے طرزِ عمل کے متعلق سلسلہ کلام کا آغاز ہوا تھا۔ زیر مطالعہ آیت 66 میں انہی کے متعلق ایک امکانی بات کہی گئی ہے کہ ان سے تو شریعت پر ہی عمل نہیں ہوتا ‘ اگر ان سے دین کے لیے کسی بڑی قربانی کا مطالبہ کیا جاتا تو اس کے پورا ہونے کا کیا امکان ہے۔

نوٹ 2: رسول اللہ
کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ میں شہادت دے چکا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ آپؐ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اور میں پانچ وقت کی نماز کا بھی پابند ہوں‘ زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہوں اور رمضان کے روزے بھی رکھتا ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مر جائے وہ انبیائ‘ صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا بشرطیکہ اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہ کرے۔ (بحوالہ معارف القرآن)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِيْعًا    71؀
[ یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو جو] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ خُذُوْا : تم لوگ پکڑوحِذْرَکُمْ : اپنے بچائو کے ہتھیار کو] [ فَانْفِرُوْا : پھر تم لوگ نکلو ] [ ثُــبَاتٍ : گروہ در گروہ ] [ اَوِ: یا ] [ انْفِرُوْا : تم لوگ نکلو ] [ جَمِیْعًا : سب اکٹھا ]

 

ن ف ر

 نَفَرَ۔ یَنْفِرُ (ض) نَفْرًا : (1) کسی اہم کام کے لیے نکلنا ‘ جیسے سفر یا جنگ کے لیے۔ {وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّط قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّاط} (التوبۃ:81) ’’ اور انہوں نے کہا مت نکلو گرمی میں۔ آپ کہہ دیجیے جہنم زیادہ سخت ہے بلحاظ گرمی کے۔‘‘ (2) نَفَرَ عَنْہُ : کسی چیز سے دور بھاگنا‘ بدکنا‘ نفرت کرنا۔

 اِنْفِرْ (فعل امر) : تو نکل۔ آیت زیر مطالعہ۔

 نُفُوْرٌ (نَفَرَ یَنْفِرُسے مصدر) : انتہائی بیزاری‘ نفرت۔ {وَمَا یَزِیْدُھُمْ اِلاَّ نُفُوْرًا ۔ } (بنی اسرائیل ) ’’ اور یہ زیادہ نہیں کرتا ان کو مگر نفرت میں۔‘‘

 نَفَرٌ : کسی کام کے لیے نکلنے والی چھوٹی جماعت۔ پھر ہر چھوٹی جماعت کے لیے عام ہے: {وَاِذْ صَرَفْنَا اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ} (الاحقاف:29) ’’ اور جب ہم نے پھیرا آپؐ کی طرف جنوں میں سے ایک جماعت کو۔‘‘

 نَفِیْرٌ : مستقل جماعت‘ جتھا ۔ {وَاَمْدَدْنٰـکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وّجَعَلْنٰـکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا ۔ }(بنی اسرا ئیل) ’’ اور ہم نے تمہاری مدد کی مال سے اور بیٹوں سے اور ہم نے کردیا تم کو سب سے زیادہ بطور جتھے کے۔‘‘

 اِسْتَنْفَرَ ۔ یَسْتَنْفِرُ (استفعال) اِسْتِنْفَارًا : ڈر کر بھاگ جانا‘ بدکنا۔

 مُسْتَنْفِرٌ (اسم الفاعل) : بدکنے والا۔ {کَاَنَّھُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَۃٌ ۔ } (المدثّر) ’’ گویا کہ وہ بدکنے والے گدھے ہیں۔‘‘

ث ب ی

 ثَبٰی ۔ یَثْبِیْ (ض) ثَبْیًا : جمع کرنا‘ اکٹھا کرنا۔

 ثُبَۃٌ ج ثُبَاتٌ : اکٹھا کیا ہوا گروہ‘ جماعت‘ آیت زیر مطالعہ۔

 

ترکیب : ’’ ثُـبَاتٍ‘‘ اور ’’ جَمِیْعًا‘‘ دونوں حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں۔ ’’ شَھِیْدًا‘ کَانَ‘‘ کی خبر ہے۔ ’’ لَـیَقُوْلَنَّ‘‘ کا مقولہ ’’ یٰلَیْتَنِیْ‘‘ سے ’’ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ تک ہے۔ درمیان میں ’’ کَاَنْ لَّمْ‘‘ سے ’’ مَوَدَّۃٌ‘‘ تک جملہ معترضہ ہے۔ ’’ مَوَدَّۃٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور ’’ تَـکُنْ‘‘ کا اسم ہونے کی وجہ سے مرفوع ہوا ہے ‘ جبکہ اس کی خبر ’’ مَوْجُوْدًا‘‘ محذوف ہے۔ ’’ فَاَفُوْزَ‘‘ کا فا سببیہ ہے جس نے مضارع کو نصب دی ہے۔ ’’ فَلْیُقَاتِلْ‘‘ فعل امر غائب ہے اور اس کا فاعل ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ ہے۔ ’’ وَمَنْ یُّـقَاتِلْ‘‘ کا ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے اور ’’ یُقَاتِلْ‘‘ شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے۔ ’’ نُؤْتِیْہِ‘‘ جواب شرط ہے ‘ لیکن ’’ سَوْفَ‘‘ آجانے کی وجہ سے مجزوم نہیں ہوا۔ اگر ’’ سَوْفَ‘‘ نہ آتا تو پھر یہ مجزوم ہو کر ’’ نُـؤْتِہٖ‘‘ آتا۔

وَاِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّيُبَطِّئَنَّ ۚ فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيَّ اِذْ لَمْ اَكُنْ مَّعَھُمْ شَهِيْدًا    72؀
[ وَاِنَّ : اور یقینا ] [ مِنْـکُمْ : تم میں سے ] [ لَمَنْ : وہ بھی ضرور ہے جو ] [ لَّــیُـبَطِّئَنَّ : لازماً دیر لگائے گا] [ فَاِنْ : پھر اگر ] [ اَصَابَتْـکُمْ : آن لگی تم کو ] [ مُّصِیْـبَـۃٌ : کوئی مصیبت ] [ قَالَ : تو وہ کہے گا ] [ قَدْ اَنْعَمَ : انعام کیا ہے ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ عَلَیَّ : مجھ پر ] [ اِذْ : جب ] [ لَمْ اَکُنْ : میں نہیں تھا ] [ مَّعَہُمْ : ان کے ساتھ ] [ شَہِیْدًا : موقع پر موجود]

 

ب ط ء

 بَطُأَ ۔ یَبْطُؤُ (ک) بِطَائً : سست ہونا‘ دیر لگانا۔

 بَطَّأَ ۔ یُـبَطِّؤُ (تفعیل) تَبْطِیْئًا : (1) عمداً دیر لگانا۔ (2) دوسروں کو سست کرنا‘ آیت زیر مطالعہ۔

وَلَىِٕنْ اَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللّٰهِ لَيَقُوْلَنَّ كَاَنْ لَّمْ تَكُنْۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهٗ مَوَدَّةٌ يّٰلَيْتَنِيْ كُنْتُ مَعَھُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِيْمًا     73؀
[ وَلَئِنْ : اور البتہ اگر ] [ اَصَابَکُمْ : آن لگے تم کو ] [ فَضْلٌ : کوئی فضل ] [ مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کے پاس) سے ] [ لَــیَـقُوْلَنَّ : تو وہ لازماً کہے گا] [ کَاَنْ: جیسے کہ ] [ لَّـمْ تَـکُنْ : تھی ہی نہیں ] [ بَیْنَـکُمْ : تمہارے درمیان ] [ وَبَیْـنَـہٗ : اور اس کے درمیان ] [ مَوَدَّۃٌ : کوئی خیر خواہی] [ یّٰــلَـیْـتَنِیْ : اے کاش ] [ کُنْتُ : میں ہوتا ] [ مَعَہُمْ : ان کے ساتھ ] [ فَـاَفُوْزَ : تب تو میں کامیابی پاتا] [ فَوْزًا عَظِیْمًا : ایک شاندار کامیابی ]

فَلْيُقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يَشْرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَةِ  ۭوَمَنْ يُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيُقْتَلْ اَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا     74؀
[ فَلْیُقَاتِلْ : پس چاہیے کہ جنگ کریں] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [ الَّذِیْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ] [ یَشْرُوْنَ : بیچ دیا ] [ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا : دنیا کی زندگی کو ] [ بِالْاٰخِرَۃِ : آخرت کے بدلے ] [ وَمَنْ : اور جو ] [ یُّـقَاتِلْ : جنگ کرے گا ] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [ فَـیُـقْتَلْ : پھر وہ قتل کیا گیا ] [ اَوْ : یا ] [ یَغْلِبْ : غالب آیا ] [ فَسَوْفَ : تو عنقریب ] [ نُــؤْتِیْہِ : ہم دیں گے اس کو ] [ اَجْرًا عَظِیْمًا: ایک شاندار بدلہ]

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاۗءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّـۢا ڌ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا     75؀ۭ
[ وَمَا لَــکُمْ : تمہیں کیا ہے ] [ لاَ تُـقَاتِلُوْنَ: (کہ) تم لوگ جنگ نہیں کرتے] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ : اور کمزور کیے ہوئے لوگوں کے لیے ] [ مِنَ الرِّجَالِ : مردوں میں سے ] [ وَالنِّسَآئِ : اور عورتوں میں سے ] [ وَالْوِلْدَانِ : اور بچوں میں سے ] [ الَّذِیْنَ : جو لوگ ] [ یَـقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں ] [ رَبَّــنَــآ : اے ہمارے ربّ] [ اَخْرِجْنَا : تو نکال ہم کو ] [ مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ : اس بستی سے] [ الظَّالِمِ : ظالم ہیں ] [ اَہْلُہَا : جس کے لوگ ] [ وَاجْعَلْ : اور تو بنا ] [ لَّــنَا : ہمارے لیے ] [ مِنْ لَّـدُنْکَ : اپنے پاس سے ] [ وَلِــیًّا : کوئی کارساز] [ وَّاجْعَلْ : اور تو بنا ] [ لَّــنَا : ہمارے لیے ] [ مِنْ لَّدُنْکَ : اپنے پاس سے ] [ نَصِیْرًا : کوئی مددگار ]

 

ترکیب :’’ فِیْ سَبِیْلِ‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے ’’ اَلْمُسْتَضْعَفِیْنَ‘‘ حالت جر میں آیا ہے اور یہ اسم المفعول ہے۔ ’’ مِنْ‘‘ بیانیہ ہے۔ ’’ اَلرِّجَالِ وَالنِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ‘‘ شرح ہے ’’ اَلْمُسْتَضْعَفِیْنَ‘‘ کی۔ ’’ کَانَ ضَعِیْفًا‘‘ آفاقی صداقت کا بیان ہے اس لیے ’’ کَانَ‘‘ کا ترجمہ حال میں ہو گا۔

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِيَاۗءَ الشَّيْطٰنِ ۚ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا      76؀ۧ
[ اَلَّــذِیْنَ : جو لوگ ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ یُـقَاتِلُوْنَ : وہ لوگ جنگ کرتے ہیں ] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [ وَالَّذِیْنَ : اور جنہوں نے ] [ کَفَرُوْا : کفر کیا ] [ یُـقَاتِلُوْنَ : وہ لوگ جنگ کرتے ہیں ] [ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ : طاغوت کی راہ میں] [ فَقَاتِلُوْآ : پس تم لوگ جنگ کرو ] [ اَوْلِـیَــآئَ الشَّیْطٰنِ: شیطان کے کارندوں سے] [ اِنَّ : یقینا ] [ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ : شیطان کی چالبازی ] [ کَانَ ضَعِیْفًا: کمزور (ہوتی) ہے]

 

نوٹ 1 : تاریخ انسانیت شاہد ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کی محدودبصیرت اور خواہشاتِ نفس پر مبنی جب بھی کوئی سوشل آرڈر رائج ہوا ہے تو اس کا نتیجہ وہ نکلا ہے جس کی طرف زیر مطالعہ آیت 75 میں اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان‘ انسان پر بالادستی حاصل کر لیتا ہے۔ ایک طبقہ دوسرے طبقے کو زمین کے ذرائع اور وسائل سے محروم کر دیتا ہے اور معاشرے میں انسانوں کے باہمی حقوق و فرائض کا توازن بگڑ جاتا ہے ‘ جسے قرآن میں فساد کہا گیا ہے۔

 آیت 76 میں بتایا گیا ہے کہ طاغوتی طاقتوں نے ہمیشہ اپنے خود ساختہ سوشل آرڈر کی برتری کے لیے جنگ کی ہے‘ آج بھی کر رہی ہیں اور آئندہ بھی کرتی رہیں گی۔ اہل ایمان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس سوشل آرڈر کی برتری کے لیے جنگ کریں جو انسان کے مصور (
designer) اور خالق کا دیا ہوا ہے‘ جس میں معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق و فرائض کے توازن کی ضمانت ہے اور یہی توازن دنیا میں حقیقی امن و سکون کا ضامن ہے۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)

 آیت 76 میں اس آفاقی صداقت کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ شیطان کی سکھائی ہوئی طاغوتی چالیں ہمیشہ کمزور رہی ہیں اور کمزور رہیں گی ‘ البتہ اس کے لیے دو شرائط کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اولاً یہ کہ یہ چالیں اہل ایمان کے مقابلے پر ہوں اور ثانیاً یہ کہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے سوشل آرڈر کی برتری کے خلاف ہوں۔ ان دونوں شرطوں میں سے کوئی ایک بھی اگر فوت ہو جائے تو پھر شیطان کی تدبیر کا کمزور ہونا ضروری نہیں ہے۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)

نوٹ 2: دونوں شرائط کی موجودگی میں بھی مذکورہ صداقت کے صحیح ادراک کے لیے ذہن میں یہ پہلو بھی واضح ہونا چاہیے کہ شیطانی چالوں کا کمزور ہونا فوری نتائج کے اعتبار سے نہیں بلکہ انجام کار کے لحاظ سے ہے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ اللہ کے دین (سوشل آرڈر) کی سربلندی کے لیے لڑی جانے والی کچھ جنگوں میں اہل ایمان نے ہار کر بھی بازی جیتی ہے۔ جنگ احد کی شکست فتح مکہ پر منتج ہوئی ہے۔ جنگ موتہ میں رومیوں کی فتح ان کی ایمپائر کے زوال کا سبب بنی ہے۔ خلافت عباسیہ کے آخری دور میں مذکورہ دونوں شرطیں پوری طرح موجود نہیں تھیں‘ پھر بھی شیطان کو اس نام نہاد خلافت کا وجود گوارا نہ تھا۔ اس نے تاتار کے ہاتھوں اسے ختم کرانے کی تدبیر کی اور اللہ نے اس کی تدبیر کو کامیاب ہونے کی اجازت عطا فرمائی۔ اس وقت اللہ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا ‘ اور شیطان تو کیا جانتا کہ یہ بغداد کا تاراج ہونا دراصل خلافت عثمانیہ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب ہے۔ اس لیے طاغوت کی کسی وقتی کامیابی کو اس آفاقی صداقت کا استثنا قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ  ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً ۚ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۭ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ ۚ وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى ۣ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا     77؀
[ اَلَمْ تَرَ : کیا آپؐ نے غور نہیں کیا] [ اِلَی الَّذِیْنَ : ان لوگوں کی طرف ] [ قِیْلَ: کہا گیا ] [ لَہُمْ: جن سے ] [ کُفُّوْآ : کہ تم لوگ روکے رکھو ] [ اَیْدِیَکُمْ : اپنے ہاتھوں کو ] [ وَاَقِیْمُوا : اور قائم کرو ] [ الصَّلٰوۃَ : نماز کو ] [ وَاٰتُوا : اور پہنچائو ] [ الزَّکٰوۃَ : زکوٰۃ کو] [ فَلَمَّا : پھر جب ] [ کُتِبَ: فرض کیا گیا ] [ عَلَیْہِمُ: ان پر ] [ الْقِتَالُ: جنگ کرنے کو] [ اِذَا : تب ہی ] [ فَرِیْقٌ: ایک فریق ] [ مِّنْہُمْ: ان میں سے ] [ یَخْشَوْنَ : ڈرتا ہے ] [ النَّاسَ: لوگوں سے ] [ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ : اللہ سے ڈرنے کی مانند] [ اَوْ: یا ] [ اَشَدَّ : زیادہ سخت ہوتے ہوئے ] [ خَشْیَۃً : بلحاظ ڈر کے ] [ وَقَالُوْا: اور انہوں نے کہا ] [ رَبَّــنَا: اے ہمارے ربّ] [ لِمَ : کیوں] [ کَتَـبْتَ: تو نے فرض کیا ] [ عَلَیْنَا: ہم پر ] [ الْقِتَالَ : جنگ کرنا ] [ لَـوْلَآ: کیوں نہیں ] [ اَخَّرْتَنَــآ : تو نے مؤخر کیا ہم کو ] [ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ : ایک قریبی مدت تک ] [ قُلْ: آپؐ کہیے ] [ مَتَاعُ الدُّنْیَا : دنیا کا سامان ] [ قَلِیْلٌ : تھوڑا ہے ] [ وَالْاٰخِرَۃُ : اور آخرت ] [ خَیْرٌ: بہتر ہے ] [ لِّمَنِ: اس کے لیے جس نے ] [ اتَّقٰی: تقویٰ کیا ] [ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ: اور تم لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا] [ فَتِیْلاً : کسی دھاگے برابر بھی ]

 

ب ر ج

 بَرِجَ ۔ یَبْرَجُ (س) بَرَجًا : (1) خوبصورت آنکھوں والا ہونا۔ (2) کسی چیز کا نمایاں ہونا‘ بلند ہونا۔

 بُرَجٌ ج بُرُوْجٌ : (1) گنبد‘ مینار‘ آیت زیر مطالعہ۔ (2) آسمان میں سیاروں کی منزلیں: {وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَائِ بُرُوْجًا} (الحجر:16) ’’ اور ہم نے بنائی ہیں آسمان میں منزلیں۔‘‘

 تَـبَرَّجَ ۔ یَتَبَرَّجُ (تفعل) تَـبَرُّجًا : بتکلف خود کو نمایاں کرنا: {وَلَا تَـبَرَّجْنَ تَـبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی} (الاحزاب:33) ’’ اور تم عورتیں خود کو نمایاں مت کرو‘ سابقہ جاہلیت کا نمایاں کرنا۔‘‘

 مُتَـبَـرِّجٌ (اسم الفاعل) : نمایاں کرنے والا: {فَلَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ غَیْرَ مُتَـبَرِّجٰتٍ بِزِیْنَۃٍط}(النور:60) ’’ تو نہیں ہے ان عورتوں پر کوئی گناہ کہ وہ اتار رکھیں اپنی اوڑھنیاں بغیر نمایاں کرنے والیاں ہوتے ہوئے زینت کو۔‘‘

ش ی د

 شَادَ ۔ یَشِیْدُ (ض) شَیْدًا : عمارت کو بلند کرنا‘ پلستر کر کے مضبوط کرنا‘ نقش و نگار بنا کر مزین کرنا۔

 مَشِیْدٌ (مَفْعِلٌ کے وزن پر اسم الظرف) : پلستر کرنے یا نقش و نگار بنانے کی جگہ۔ پھر عام طور پر اسم المفعول کے معنی میں آتا ہے۔ مضبوط کیا ہوا‘ مزین کیا ہوا: {فَھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍ ۔ } (الحج) ’’ تو وہ اوندھی پڑی ہیں اپنی چھتوں پر‘ اور معطل کیے ہوئے کنویں اور مزین کیے ہوئے محل۔‘‘

 شَیَّدَ یُشَیِّدُ (تفعیل) تَشْیِیْدًا : کثرت سے مضبوط یا مزین کرنا۔

 مُشَیَّدٌ (اسم المفعول) : خوب مضبوط کیا ہوا‘ آیت زیر مطالعہ۔

ف ق ھـ

 فَقِہَ ۔ یَفْقَہُ (س) فِقْھًا : کسی علم حاضر کے ذریعے اس کے علم غائب تک پہنچنا‘ بات کے ہر پہلو کا احاطہ کر کے سمجھنا‘ آیت زیر مطالعہ۔

 تَفَقَّہَ ۔ یَتَفَقَّہُ (تفعل) تَفَقُّھًا : کسی چیز میں بتکلف سوجھ بوجھ حاصل کرنا: {فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ} (التوبۃ:122) ’’ پھر کیوں نہ نکلی ان کے ہر گروہ سے ایک جماعت تاکہ وہ لوگ سوجھ بوجھ حاصل کریں دین میں۔‘‘

د ر ک

 ثلاثی مجرد سے فعل نہیں آتا۔

 دَرَکٌ : کسی کا لاحق ہونا‘ پکڑے جانا: {لاَ تَخٰفُ دَرَکًا وَّلَا تَخْشٰی ۔ } (طٰہٰ) ’’ آپؑکو خوف نہیں ہو گا پکڑے جانے کا اور نہ آپؑ کو ڈر ہو گا (ڈوبنے کا)۔‘‘

 دَرْکٌ : نشیب‘ گہرائی: {اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِج} (النسائ:145) ’’ یقینا منافق لوگ سب سے نچلی گہرائی میں ہوں گے آگ میں سے۔‘‘

 اَدْرَکَ ۔ یُدْرِکُ (افعال) اِدْرَاکًا : کسی چیز کا اپنی غایت تک پہنچنا ‘ جیسے پھل کا پکنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں آتا ہے۔ (1) پا لینا۔ (2) آ پکڑنا: {لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُز وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَج} (الانعام:103) ’’ نہیں پاتیں اس کو آنکھیں اور وہ پا لیتا ہے آنکھوں کو‘‘۔ {لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَا اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ} (یٰسٓ:40) ’’ سورج کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ آ پکڑے چاند کو۔‘‘

 مُدْرَکٌ (اسم المفعول) : پکڑا ہوا: {قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰی اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ } (الشعرائ) ’’ کہا موسیٰ ؑ کے ساتھیوں نے بےشک ہم تو پکڑے ہوئے ہیں۔‘‘

 تَدَارَکَ۔ یَتَدَارَکُ (تفاعل) تَدَارُکًا اور اِدَّارُکًا : باہم ایک دوسرے کو پا لینا‘ آ ملنا: {حَتّٰی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًالا} (الاعراف:38) ’’ یہاں تک کہ جب وہ لوگ آ ملے اس میں سب کے سب۔‘‘

 

ترکیب :’’ فَرِیْقٌ‘‘ اسم الجمع ہے ‘ اس لیے فعل ’’ یَخْشَوْنَ‘‘ جمع آیا ہے۔ ’’ اَشَدَّ‘‘ حال ہے ’’ خَشْیَۃً‘‘ اس کی تمیز ہے۔ ’’ تُظْلَمُوْنَ‘‘ کا نائب فاعل ’’ وْ‘‘ ضمیر ہے اور ’’ فَتِیْلًا‘‘ تمیز ہے۔ ’’ اَیْنَ مَا‘‘ شرطیہ ہے اور ’’ یُدْرِکْ‘‘ اس کا جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے۔ ’’ اَلْمَوْتُ‘‘ اس کا فاعل ہے۔ ’’ فَمَالِ ھٰؤُلَائِ‘‘ دراصل ’’ فَمَا لِھٰؤُلَائِ‘‘ ہے۔ جیسے ’’ فَمَالَـکُمْ ‘‘ یا’’ فَمَالَنَا‘‘ ہوتاہے۔ یہ قرآن مجید کا مخصوص املاء ہے کہ ’’ ھٰؤُلَائِ‘‘ کی لام جر کو ’’ فَمَا‘‘ کے ساتھ ملا کر لکھا گیا ہے۔ ’’ اَرْسَلْنَا‘‘ کا مفعول اس کے ساتھ ضمیر ’’ کَ‘‘ ہے اور ’’ رَسُوْلاً‘‘ حال ہے۔

اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَةٍ  ۭ وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ  ۭقُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا       78؀
[ اَیْنَ مَا : جہاں کہیں بھی ] [ تَـکُوْنُوْا : تم ہو گے ] [ یُدْرِکْکُّمُ : آئے گی تم کو ] [ الْمَوْتُ : موت ] [ وَلَـوْ : اور اگر ] [ کُنْتُمْ : تم ہو ] [ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ : کسی انتہائی مضبوط گنبد میں] [ وَاِنْ تُصِبْـہُمْ : اور اگر آ لگے ان کو ] [ حَسَنَۃٌ : کوئی بھلائی ] [ یَّــقُوْلُــوْا : تو وہ کہتے ہیں ] [ ہٰذِہٖ : یہ ] [ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ : اللہ کے پاس سے ہے ] [ وَاِنْ تُصِبْہُمْ : اور اگر آلگے ان کو ] [ سَیِّئَۃٌ : کوئی برائی ] [ یَّــقُوْلُوْا : تو وہ کہتے ہیں ] [ ہٰذِہٖ : یہ ] [ مِنْ عِنْدِکَ: آپؐ کے پاس سے ہے] [ قُلْ : آپؐ کہیے ] [ کُلٌّ : سب کچھ ] [ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ : اللہ کے پاس سے ہے ] [ فَمَالِ ہٰٓــؤُلَآئِ الْقَوْمِ: تو کیا ہے اس قوم کے لیے] [ لاَ یَکَادُوْنَ : قریب نہیں ہے ] [ یَفْقَہُوْنَ : کہ وہ سمجھیں] [ حَدِیْثًا : کوئی بات ]

مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ  ۭوَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا     79؀
[ مَـآ اَصَابَکَ: جو آ لگے تجھ کو ] [ مِنْ حَسَنَۃٍ : کوئی بھی بھلائی ] [ فَمِنَ اللّٰہِ: تو (وہ) اللہ کے پاس سے ہے ] [ وَمَـآ اَصَابَکَ : اور جو آ لگے تجھ کو ] [ مِنْ سَیِّـئَۃٍ : کوئی بھی برائی ] [ فَمِنْ نَّفْسِکَ: تو (وہ) تیرے نفس سے ہے] [ وَاَرْسَلْنٰکَ : اور ہم نے بھیجا آپؐ کو] [ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے ] [ رَسُوْلاً : رسول ہوتے ہوئے ] [ وَکَفٰی بِاللّٰہِ : اور کافی ہے اللہ ] [ شَہِیْدًا: بطور گواہ]

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا     80؀ۭ
[ مَنْ: جو ] [ یُّطِعِ : اطاعت کرتا ہے ] [ الرَّسُوْلَ : رسولؐ کی] [ فَقَدْ اَطَاعَ : تو اس نے اطاعت کی ہے] [ اللّٰہَ : اللہ کی ] [ وَمَنْ: اور جو ] [ تَوَلّٰی: منہ موڑتا ہے ] [ فَمَـآ اَرْسَلْنٰکَ: تو ہم نے نہیں بھیجا آپؐ کو] [ عَلَیْہِمْ : ان پر ] [ حَفِیْظًا: نگران بنا کر ]

وَيَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ  ۡ فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِكَ بَيَّتَ طَاۗىِٕفَةٌ مِّنْھُمْ غَيْرَ الَّذِيْ تَقُوْلُ ۭ وَاللّٰهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُوْنَ ۚ فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا      81؀
[ وَیَـقُوْلُوْنَ: اور وہ لوگ کہتے ہیں ] [ طَاعَۃٌ: فرمانبرداری ہے ] [ فَاِذَا: پھر جب ] [ بَرَزُوْا: وہ نکلتے ہیں ] [ مِنْ عِنْدِکَ: آپؐ کے پاس سے ] [ بَیَّتَ: تورات میں مشورہ کرتا ہے ] [ طَـآئِفَۃٌ : ایک گروہ ] [ مِّنْہُمْ : ان میں سے ] [ غَیْرَ الَّذِیْ: اس کے علاوہ جو ] [ تَقُوْلُ: آپ کہتے ہیں ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ یَکْتُبُ : لکھتا ہے ] [ مَا : اس کو جو ] [ یُـبَـیِّتُوْنَ: وہ لوگ رات میں مشورہ کرتے ہیں] [ فَاَعْرِضْ : تو آپؐ اعراض کریں ] [ عَنْہُمْ : ان سے ] [ وَتَوَکَّلْ: اور بھروسہ کریں] [ عَلَی اللّٰہِ: اللہ پر ] [ وَکَفٰی: اور کافی ہے ] [ بِاللّٰہِ: اللہ ] [ وَکِیْلاً: بطور کارساز کے]

 

ترکیب: ’’ طَاعَۃٌ‘‘ اگر ’’ یَـقُوْلُـوْنَ‘‘ کا مفعول ہوتا تو ’’ طَاعَۃً‘‘ آتا‘ اس لیے یہ ’’ یَـقُوْلُوْنَ‘‘ کا مقولہ ہے اور
direct tense میں آیا ہے۔ ’’ بَیَّتَ‘‘ کا فاعل ’’ طَائِفَۃٌ‘‘ ہے جو عاقل کی جمع مکسر ہے۔ اس لیے اس کا فعل واحد مذکر کے صیغے میں بھی جائز ہے۔ ’’ تَقُوْلُ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ طَائِفَۃٌ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ لَعَلِمَہُ‘‘ میں لام جوابِ شرط کا ہے اور فعل ’’ عَلِمَ‘‘ کا مفعول ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ہے‘ جبکہ اس کا فاعل ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ ہے۔ ’’ وَلَوْلَا‘‘ میں ’’ لَــوْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ فَضْلُ اللّٰہِ‘‘ اور ’’ رَحْمَتُہٗ‘‘ مبتدأ ہیں اور ان کی خبر محذوف ہے۔

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ  ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا      82؀
[ اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ: تو کیا یہ لوگ غور وفکر نہیں کرتے] [ الْقُرْاٰنَ : قرآن میں ] [ وَلَوْ: اور اگر ] [ کَانَ: وہ ہوتا ] [ َمِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ: غیر اللہ کے پاس سے] [ لَوَجَدُوْا: تو یہ پاتے ] [ فِیْہِ : اس میں ] [ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا: بہت زیادہ اختلاف ]

وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا    83؀
[ وَاِذَا : اور جب بھی ] [ جَآئَ : آتی ہے ] [ ہُمْ : ان کے پاس ] [ اَمْرٌ : کوئی بات ] [ مِّنَ الْاَمْنِ: امن میں سے ] [ اَوِ الْخَوْفِ: یا خوف میں سے ] [ اَذَاعُوْا : تو وہ لوگ چرچا کرتے ہیں] [ بِہٖ: اس کا ] [ وَ: حالانکہ ] [ لَوْ: اگر ] [ رَدُّوْہُ: وہ لوٹا دیتے اس کو ] [ اِلَی الرَّسُوْلِ: رسولؐ کی طرف ] [ وَاِلٰٓی اُولِی الْاَمْرِ: اور اختیار والوں کی طرف] [ مِنْہُمْ : اپنوں میں سے ] [ لَـعَلِمَہُ : تو علم حاصل کرتے اس کا ] [ الَّذِیْنَ: وہ لوگ جو ] [ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ: حقیقت معلوم کرسکتے ہیں اس کی] [ مِنْہُمْ: ان میں سے ] [ وَلَوْلاَ : اور اگر نہ ہوتا] [ فَضْلُ اللّٰہِ : اللہ کا فضل ] [ عَلَیْکُمْ: تم لوگوں پر ] [ وَرَحْمَتُہٗ : اور اس کی رحمت ] [ لاَتَّـبَعْتُمُ : تو تم لوگ پیروی کرتے ] [ الشَّیْطٰنَ : شیطان کی ] [ اِلاَّ قَلِیْلاً : سوائے تھوڑے سے لوگوں کے]

 

ذ ی ع

 ذَاعَ۔ یَذِیْعُ (ض) ذِیْـعًا : کسی چیز کا پھیلنا‘ جیسے بدن میں کھجلی پھیلنا‘ بستی میں خبر پھیلنا۔

 اَذَاعَ ۔ یُـذِیْعُ (افعال) اِذَاعَۃً : خبر پھیلنا‘ راز فاش کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

ن ب ط

 نَبَطَ ۔ یَنْبُطُ ویَنْبِطُ (ن۔ ض) نَبْطًا : کسی چیز سے پانی کا پھوٹ نکلنا۔

 اِسْتَنْبَطَ یَسْتَنْبِطُ (استفعال) اِسْتِنْبَاطًا : کسی پوشیدہ چیز کو ظاہر کرنا۔ جیسے کنواں کھود کر پانی نکالنا۔ اجتہاد کر کے کسی بات کے باطن کو نمایاں کرنا۔ حقیقت معلوم کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 

نوٹ 1: آیت 82 سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب میں غور کرے۔ اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ قرآن میں تدبر کرنا صرف اماموں اور مجتہدوں کا کام ہے۔ البتہ عام لوگوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن کو سبقاً سبقاً پڑھ لیں تاکہ غلط فہمی اور مغالطوں سے بچ سکیں۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو کسی مستند تفسیر کا مطالعہ کریں اور جہاں کہیں کوئی شبہ پیش آئے تو اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں بلکہ کسی عالم سے رجوع کر لیں۔ (معارف القرآن)

نوٹ 2: آیت 83 سے معلوم ہوا کہ ہر سنی سنائی بات کو تحقیق کے بغیر بیان نہیں کرنا چاہیے۔ رسول اللہ
کا فرمان ہے کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے بیان کردے۔ (بیان القرآن)

فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْكِيْلًا     84؀
[ فَقَاتِلْ: پس آپؐ جنگ کریں] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [ لاَ تُکَلَّفُ: آپؐ کو پابند نہیں کیا جاتا ] [ اِلاَّ: سوائے ] [ نَفْسَکَ: آپؐ کی ذات کے ] [ وَ: اور ] [ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ: آپؐ اکسائیں مؤمنوں کو] [ عَسَی: قریب ہے ] [ اللّٰہُ: اللہ ] [ اَنْ: کہ ] [ یَّــکُفَّ: وہ روک دے ] [ بَاْسَ الَّذِیْنَ: ان لوگوں کی جنگ کو جنہوں نے] [ کَفَرُوْا: کفر کیا ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ اَشَدُّ: زیادہ شدید ہے ] [ بَاْسًا: سختی کرنے میں ] [ وَّ: اور ] [ اَشَدُّ: زیادہ شدید ہے ] [ تَنْکِیْلاً : عبرت ناک سزا دینے میں]

 

ح ر ض

 حَرِضَ ۔ یَحْرَضُ (س) حَرَضًا : کسی خرابی یا غم سے گھل جانا‘ کمزور ہونا۔

 حَرَضٌ(صفت): کمزور ‘ لاغر ۔{حَتّٰی تَـکُوْنَ حَرَضًا}(یوسف:85) ’’ یہاں تک کہ آپؐ ہو جائیں لاغر۔‘‘

 حَرَّضَ۔ یُحَرِّضُ (تفعیل) تَحْرِیْضًا : کمزوری دور کرنا‘ کسی کام پر ابھارنا‘ اُکسانا۔

 حَرِّضْ (فعل امر) : تو اکسا‘ آیت زیر مطالعہ۔

 

ترکیب:’’ لاَ تُکَلَّفُ‘‘ مضارع مجہول ہے۔ اس کا نائب فاعل اس میں ’’ اَنْتَ‘‘ کی ضمیر ہے اور ’’ نَفْسَکَ‘‘ مفعول ثانی ہے۔ ’’ اَشَدُّ‘‘ افعل تفضیل ہے جبکہ ’’ بَاْسًا‘‘ اور ’’ تَنْکِیْلًا‘‘ اس کی تمیز ہیں۔ ’’ مَنْ یَّشْفَعْ‘‘ شرط ہے اور ’’ یَکُنْ لَّـہٗ‘‘ اس کا جواب شرط ہے۔ ’’ نَصِیْبٌ‘‘ اور ’’ کِفْلٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہیں اور ’’ یَکُنْ‘‘ کے اسم ہیں۔ ان کی خبریں محذوف ہیں جو ’’ وَاجِبًا‘‘ ہو سکتی ہیں‘ ’’ کَانَ‘‘ کی خبر ’’ مُقِیْتًا‘‘ ہے۔ ’’ حُیِّیْتُمْ‘‘ ماضی مجہول ہے۔ ’’ حَدِیْثًا‘‘ تمیز ہے ’’ اَصْدَقُ‘‘ کی۔

مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَّكُنْ لَّهٗ نَصِيْبٌ مِّنْھَا ۚ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْھَا ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيْتًا    85؀
[ مَنْ یَّشْفَعْ: جو سفارش کرتا ہے ] [ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً: کوئی اچھی سفارش] [ یَّــکُنْ: تو ہو جاتا ہے ] [ لَّــہٗ : اس کے لیے ] [ نَصِیْبٌ: ایک حصہ ] [ مِّنْہَا : اس میں سے ] [ وَمَنْ یَّشْفَعْ: اور جو سفارش کرتا ہے ] [ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً : کوئی بری سفارش] [ یَّــکُنْ: تو ہو جاتی ہے ] [ لَّــہٗ : اس کے لیے ] [ کِفْلٌ: ایک ذمہ داری ] [ مِّنْہَا: اس میں سے ] [ وَکَانَ اللّٰہُ : اور اللہ ہے ] [ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ : ہر چیز پر ] [ مُّقِیْتًا: قدرت رکھنے والا]

 

ق و ت

 قَاتَ ۔ یَقُوْتُ (ن) قَـوْتًا : غذا دینا‘ رزق دینا۔

 قُوْتٌ ج اَقْوَاتٌ (اسم ذات) : غذا‘ روزی: {وَقَدَّرَ فِیْھَا اَقْوَاتَھَا} (حٰمٓ السجدۃ:10) ’’ اور مقدر کیں اس میں اس کی روزیاں۔‘‘

 اَقَاتَ ۔ یُقِیْتُ (افعال) اِقَاتَۃً : کسی چیز کو روزی بنانے کی قدرت رکھنا۔

 مُقِیْتٌ (اسم فاعل) : قدرت رکھنے والا‘ قادر۔ آیت زیر مطالعہ۔

وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا     86؀
[ وَاِذَا : اور جب بھی ] [ حُیِّیْتُمْ: تم لوگوں کو سلام کیا جائے ] [ بِتَحِیَّۃٍ : کوئی سلام ] [ فَحَیُّوْا: تو تم سلام کرو ] [ بِاَحْسَنَ مِنْہَآ : اس سے زیادہ اچھے سے ] [ اَوْرُدُّوْہَا: یا لوٹا دو اس کو ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ : ہر چیز پر ] [ حَسِیْـبًا: حساب لینے والا ]

اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ ۭ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيْثًا    87؀ۧ
[ اَللّٰہُ : اللہ ] [ لَآ اِلٰــہَ: کوئی الٰہ نہیں ہے ] [ اِلاَّ: مگر ] [ ہُوَ: وہ ] [ لَـیَجْمَعَنَّـکُمْ: وہ لازماً جمع کرے گا تم لوگوں کو] [ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن کی طرف ] [ لاَ رَیْبَ: کوئی شک نہیں ہے ] [ فِیْہِ: جس میں ] [ وَمَنْ : اور کون ] [ اَصْدَقُ : زیادہ سچا ہے ] [ مِنَ اللّٰہِ : اللہ سے ] [ حَدِیْثًا: بلحاظ بات کے]

 

نوٹ 1: میدان احد سے مکہ واپس ہوتے ہوئے کفار اور مسلمانوں کے درمیان اگلے سال میدان بدر میں دوبارہ جنگ کرنے کا وعدہ ہوا تھا۔ وقت آنے پر اس کی تیاری میں کچھ مسلمانوں کو تامل تھا۔ اس وقت آیت 84 نازل ہوئی۔ چنانچہ رسول اللہ
ستر صحابہ کرام (رض) کے ساتھ میدان بدر میں پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار قریش کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ مقابلہ پر نہیں آئے۔ اس طرح اللہ نے ان کی جنگ کو روک دیا۔ (معارف القرآن)

 عمومیت کے پہلو سے آج کل ہمارے لیے اس آیت میں یہ راہنمائی ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں سے مذاکرات اگر ناکام ہو جائیں تو ان کی جنگ کو روکنے کے لیے ان سے جنگ کی جائے ‘ کیونکہ لوہا لوہے سے کٹتا ہے پھول کی پتی سے نہیں۔

نوٹ 2 : کوئی ہمارا مدمقابل (
competitor) اپنا کوئی کام اگر سفارش کے ذریعے نکلوا لیتا ہے تو ہم سفارش کرنے والے اور اسے قبول کرنے والے کو برا کہتے ہیں اور اگر کبھی ہمارا کوئی کام کسی کی سفارش سے نکل جائے تو ہم ان دونوں کو ثواب کی خوشخبری دیتے ہیں۔ کسی سفارش کے اچھے یا برے ہونے کا یہ معیار غلط ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جائز اور ناجائز سفارش کا فرق ہمارے ذہن میں واضح ہو۔ آیت 85 کی تفسیر میں معارف القرآن میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے:

 کسی سفارش کے اچھا یا جائز ہونے کے لیے شرط ہے کہ :

 (1) جس کی سفارش کی جائے اس کا مطالبہ حق اور جائز ہو۔

 (2) آپ اس کا مطالبہ متعلقہ حاکم تک پہنچا دیں۔

 (3) اس کا کوئی معاوضہ نہ لیں۔

 (4) سفارش قبول کرنے کے لیے متعلقہ حاکم پر کوئی دبائو نہ ڈالیں ۔ اور

 (5) حاکم جو بھی فیصلہ کرے اس پر راضی رہیں۔

 ان شرائط کو پورا کرتے ہوئے سفارش کرنے والے کو ثواب ملے گا خواہ اس کی سفارش قبول ہو یا نہ ہو۔

 رسول اللہ
نے فرمایا کہ تم لوگ سفارش کیا کرو ‘ تمہیں ثواب ملے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ جو فیصلہ فرمائیں اس پر راضی رہو۔ بی بی عائشہ (رض) کی آزاد کردہ کنیز بریرہ (رض) نے اپنے شوہر سے طلاق حاصل کرلی تھی۔ رسول اللہ نے ان سے کہا کہ وہ اپنے شوہر سے دوبارہ نکاح کر لیں۔ بریرہ (رض)  نے پوچھا کہ یہ حکم ہے یا سفارش؟ آپ نے فرمایا کہ یہ حکم نہیں سفارش ہے! انہوں نے عرض کیا کہ پھر میں یہ سفارش قبول نہیں کرتی۔ رسول اللہ نے خوش دلی کے ساتھ ان کو ان کے حال پر رہنے دیا۔ رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی امداد میں لگا رہتا ہے جب تک وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی امداد میں لگا رہے۔ اسی طرح کسی مسلمان کی حاجت روائی کے لیے اللہ سے دعا مانگنا بھی شفاعت حسنہ میں داخل ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ اللہ تیری بھی حاجت پوری فرمائے ۔ (معارف القرآن)

 اچھی اور بری سفارش کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی کوشش سے جب کچھ لوگوں کو کسی نیکی کے کام پر آمادہ کرتا ہے ‘ تو جب تک وہ لوگ نیکی کرتے رہیں گے‘ اسے اس میں حصہ ملتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کچھ لوگوں کو برائی پر آمادہ کرتا ہے‘ تو جب تک وہ لوگ وہ برائی کرتے رہیں گے ‘ وہ برائی اس کے حصے میں بھی آتی رہے گی۔ لیکن اس کی وجہ سے نیکی یا برائی کرنے والوں کے اپنے ثواب یا سزا میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔

نوٹ 3 : نزولِ قرآن کے وقت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو رہے تھے اور اندیشہ تھا کہ کہیں مسلمان دوسرے لوگوں کے ساتھ کج خلقی سے نہ پیش آنے لگیں۔ اس لیے انہیں آیت 86 میں ہدایت کی گئی کہ جو تمہارے ساتھ احترام کا برتائو کرے اس کے ساتھ تم بھی ویسے ہی بلکہ اس سے زیادہ احترام سے پیش آئو۔ حق کی دعوت دینے والوں کے لیے ترش روی اور تلخ کلامی مناسب نہیں ہے۔ اس سے نفس کی تسکین ہوتی ہے مگر اس کے مقصد کو نقصان پہنچتا ہے ۔ (تفہیم القرآن)

 آج کل مختلف مکاتب فکر کے مسلمان بھائی آپس میں تعلقات کشیدہ کر لیتے ہیں‘ انہیں اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر غور کرنا چاہیے۔

فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ وَاللّٰهُ اَرْكَسَھُمْ بِمَا كَسَبُوْا ۭ اَتُرِيْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِيْلًا    88؀
[ فَمَا لَــکُمْ : تو تمہیں کیا ہے ] [ فِی الْْمُنٰـفِقِیْنَ: منافقوں (کے بارے) میں] [ فِئَـتَـیْنِ : (تم لوگ ہوتے ہو) دو گروہ] [ وَ : حالانکہ ] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ اَرْکَسَہُمْ : لوٹایا ان کو ] [ بِمَا : بسبب اس کے جو] [ کَسَبُوْا: انہوں نے کمایا] [ اَ : کیا] [ تُرِیْدُوْنَ : تم لوگ چاہتے ہو ] [ اَنْ: کہ ] [ تَہْدُوْا: تم ہدایت دو ] [ مَنْ : اس کو جسے ] [ اَضَلَّ: گمراہ کیا] [ اللّٰہُ : اللہ نے ] [ وَمَنْ: اور جسے ] [ یُّضْلِلِ: گمراہ کرتا ہے ] [ اللّٰہُ: اللہ ] [ فَلَنْ تَجِدَ: تو ہرگز نہیں پائے گا تو] [ لَہٗ: اس کے لیے ] [ سَبِیْلاً : کوئی راہ ]

 

ر ک س

 رَکَسَ یَرْکُسُ (ن) رَکْسًا : کسی چیز کو الٹ دینا۔

 اَرْکَسَ (افعال) اِرْکَاسًا : کسی چیز کو پہلی حالت کی طرف لوٹا دینا‘ اوندھا کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔

 

ترکیب :’’ فِئَـتَـیْنِ‘‘ خبر ہے‘ اس کا مبتدأ’’ تَـکُوْنُوْنَ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ فَـتَکُوْنُوْنَ‘‘ کی خبر ہونے کی وجہ سے ’’ سَوَائً‘‘ منصوب ہوا ہے۔ ’’ مِیْثَاقٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے۔ اس کی خبر’’ مَوْجُوْدٌ‘‘ یا ’’ قَائِمٌ‘‘ محذوف ہے ‘ جبکہ ’’ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ‘‘ متعلق خبر ہے۔ ’’ حَصِرَتْ‘‘ کا فاعل ’’ صُدُوْرُھُمْ‘‘ ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاۗءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا   ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا     ١٣٥؁
[ یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو جو] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ہو] [ کُوْنُوْا: تم ہو جائو] [ قَوّٰمِیْنَ : بہت زیادہ نگرانی کرنے والے ] [ بِالْقِسْطِ : انصاف کی ] [ شُہَدَآئَ : (اور) گواہی دینے والے ] [ لِلّٰہِ : اللہ کے لیے ] [ وَلَــوْ : اور اگرچہ (وہ پڑے) ] [ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ : تمہارے اپنے آپ پر] [ اَوِالْوَالِدَیْنِ : یا والدین پر ] [ وَالْاَقْرَبِیْنَ : اور قرابت داروں پر ] [ اِنْ یَّــکُنْ : اگر وہ ہوں ] [ غَنِیًّا: مالدار] [ اَوْ فَقِیْرًا : یا محتاج ] [ فَاللّٰہُ : تو اللہ ] [ اَوْلٰی: زیادہ حمایتی ہے ] [ بِہِمَا : ان دونوں کا ] [ فَلاَ تَتَّبِعُوا : پس تم پیروی مت کرو ] [ الْہَوٰٓی : خواہش کی ] [ اَنْ : کہ ] [ تَعْدِلُوْا : انصاف (نہ) کرو] [ وَاِنْ : اور اگر ] [ تَلْوٗآ : تم مروڑتے ہو (زبانوں کو) ] [ اَوْ : یا] [ تُعْرِضُوْا : بےرخی کرتے ہو] [ فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [ کَانَ : ہے ] [ بِمَا : اس سے جو ] [ تَعْمَلُوْنَ : تم لوگ کرتے ہو ] [ خَبِیْرًا : باخبر]

 

ترکیب : ’’ کُوْنُوْا‘‘ کا اسم اس میں ’’ اَنْتُمْ‘‘ کی ضمیر ہے۔ ’’ قَوّٰمِیْنَ‘‘ اور ’’ شُھَدَآئَ‘‘ دونوں اس کی خبر ہیں۔ ’’ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ‘‘ کا مبتدأ اور خبر دونوں محذوف ہیں۔ پورا جملہ کچھ اس طرح ہوتا ’’ وَلَوْ ھُوَ صَوْبٌ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ‘‘۔ ’’ اَلْوَالِدَیْنِ‘‘ اور ’’ اَلْاَقْرَبِیْنَ‘ عَلٰی‘‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے حالت جر میں ہیں۔ لفظ ’’ اَوْلٰی‘‘ افعل تفضیل ہے۔ ’’ بِھِمَا‘‘ میں تثنیہ کی ضمیر ’’ اَلْوَالِدَیْنِ‘‘ اور ’’ اَلْاَقْرَبِیْنَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ تَلْوٗ‘‘ کا مفعول ’’ اَلْسِنَتَکُمْ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ لِلّٰہِ جَمِیْعًا‘‘ میں لفظ ’’ اَللّٰہ‘‘ پر لام تملیک ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا     ١٣٦؁
[ یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو جو ] [ اٰمَنُوْآ: ایمان لائے ہو ] [ اٰمِنُوْا : تم ایمان لائو ] [ بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [ وَرَسُوْلِہٖ : اور اس کے رسولوں پر] [ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ : اور اس کتاب پر جو ] [ نَزَّلَ : اس نے بتدریج اتاری ] [ عَلٰی رَسُوْلِہٖ : اپنے رسول پر ] [ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ : اور اس کتاب پر جو ] [ اَنْزَلَ : اتاری ] [ مِنْ قَـبْلُ : اس سے پہلے ] [ وَمَنْ : اور جو ] [ یَّـکْفُرْ : انکار کرے گا ] [ بِاللّٰہِ : اللہ کا] [ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ : اور اس کے فرشتوں کا] [ وَکُتُبِہٖ : اور اس کی کتابوں کا ] [ وَرُسُلِہٖ : اور اس کے رسولوں کا] [ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخری دن کا ] [ فَقَدْ ضَلَّ : تو وہ گمراہ ہوا ہے ] [ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا : دور کی گمراہی میں ]

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَھُمْ وَلَا لِيَهْدِيَھُمْ سَبِيْلًا     ١٣٧؁ۭ
[ اِنَّ الَّذِیْنَ : بےشک جو لوگ ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ ثُمَّ : پھر ] [ کَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا ] [ ثُمَّ اٰمَنُوْا : پھر ایمان لائے ] [ ثُمَّ کَفَرُوْا : پھر کفر کیا ] [ ثُمَّ : پھر ] [ ازْدَادُوْا : وہ زیادہ ہوئے ] [ کُفْرًا: بلحاظ کفر کے ] [ لَّـمْ یَکُنِ : تو ہرگز نہیں ہے ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ لِیَغْفِرَ : کہ وہ معاف کرے ] [ لَہُمْ: ان کو] [ وَلاَ لِیَہْدِیَہُمْ : اور نہ (یہ) کہ وہ ہدایت دے ان کو] [ سَبِیْلاً : راستے کی ]

بَشِّرِ الْمُنٰفِقِيْنَ بِاَنَّ لَھُمْ عَذَابًا اَلِيْـمَۨا     ١٣٨؁ۙ
[ بَشِّرِ : آپؐ بشارت دیجیے ] [ الْمُنٰفِقِیْنَ : منافقوں کو ] [ بِاَنَّ : اس کی کہ ] [ لَہُمْ : ان کے لیے ] [ عَذَابًا اَلِیْمًا : ایک درد ناک عذاب ہے ]

اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا  ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًا      ١٥١؁
[ اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ ] [ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ : ہی کافر ہیں] [ حَقًّا : یقینا ] [ وَاَعْتَدْنَا: اور ہم نے تیار کیا ] [ لِلْکٰفِرِیْنَ : کافروں کے لیے ] [ عَذَابًا مُّہِیْنًا : ایک رسوا کرنے والا عذاب]

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَلَمْ يُفَرِّقُوْا بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰۗىِٕكَ سَوْفَ يُؤْتِيْهِمْ اُجُوْرَهُمْ ۭوَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا     ١٥٢؀ۧ
[ وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ بِاللّٰہِ: اللہ پر ] [ وَرُسُلِہٖ : اور اس کے رسولوں پر ] [ وَلَمْ یُـفَرِّقُوْا : اور انہوں نے فرق نہیں کیا] [ بَیْنَ اَحَدٍ : کسی ایک کے درمیان ] [ مِّنْہُمْ : ان میں سے ] [ اُولٰٓئِکَ : وہ لوگ ہیں ] [ سَوْفَ : عنقریب ] [ یُــؤْتِیْہِمْ : وہ دے گا جن کو ] [ اُجُوْرَہُمْ: ان کے اجر ] [ وَکَانَ اللّٰہُ : اور اللہ ہے ] [ غَفُوْرًا : بےانتہا بخشنے والا ] [ رَّحِیْمًا : ہر حال میں رحم کرنے والا ]

 

نوٹ : آیت 148 میں ہدایت کی گئی ہے کہ اشخاص کے تعین کے ساتھ برائی کا اظہار صرف مظلوم کے لیے جائز ہے‘ دوسروں کے لیے اللہ اس کو پسند نہیں فرماتا۔ دوسرے شخص کو اگر کسی برائی کا ذکر کرنا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ عام صیغے میں بات کرے۔ جیسے رسول اللہ
عام صیغے میں فرماتے تھے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو اس اس طرح کے کام کرتے ہیں ۔ (تدبر القرآن)

 آیت 48 1 اور 140 کا حاصل یہ ہے کہ ظلم کے جواب میں ظلم کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ظلم کا بدلہ انصاف سے ہی لیا جا سکتا ہے اور بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے مگر صبر کرنا اور معاف کر دینا بہتر ہے ۔ (معارف القرآن)

وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّصِيْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ      49؀
[ وَاَنِ: اور یہ کہ] [ احْكُمْ: آپ فیصلہ کریں] [ بَيْنَهُمْ: ان کے درمیان] [ بِمَآ: اس سے جو ] [ اَنْزَلَ: نازل کیا] [ اللّٰهُ: اللہ نے] [ وَلَا تَتَّبِعْ: اور آپ پیروی مت کریں] [ اَهْوَاۗءَهُمْ: ان کی خواہشات کی] [ وَاحْذَرْهُمْ: اور ان سے محتاط رہیں] [ اَنْ: کہ (کہیں ) ] [ يَّفْتِنُوْكَ: وہ لوگ پھسلادیں آپ کو] [ عَنْۢ بَعْضِ مَآ؛اس کے بعض سے جو] [ اَنْزَلَ: نازل کیا] [ اللّٰهُ: اللہ نے] [ اِلَيْكَ ۭ: آپ کی طرف] [ فَاِنْ: پھر اگر] [ تَوَلَّوْا: وہ لوگ روگردانی کریں] [ فَاعْلَمْ: تو جان لو] [ اَنَّمَا؛کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ يُرِيْدُ: چاہتا ہے] [ اللّٰهُ: اللہ] [ اَنْ؛کہ] [ يُّصِيْبَهُمْ: وہ نشانہ بنائے ان کو] [ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ ۭ: ان کے گناہوں کے کچھ سے] [ وَاِنَّ: اور یقینا] [ كَثِيْرًا: بہتیرے] [ مِّنَ%