قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
پارہ ہفتم

وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓي اَعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ ۚ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ  83؀
وَاِذَا [ اور جب ] سَمِعُوْا [ وہ سنتے ہیں ] مَآ [ اس کو جو ] اُنْزِلَ [ اتارا گیا ]اِلَى الرَّسُوْلِ [ ان رسول کی طرف ] تَرٰٓي [ تو ، تو دیکھتا ہے ] اَعْيُنَهُمْ [ ان کی آنکھوں کو ] تَفِيْضُ [ بھر آتی ہیں ] مِنَ الدَّمْعِ [ آنسوں سے ] مِمَّا [ اس سے جو ] عَرَفُوْا [ انھوں نے پہچانا ] مِنَ الْحَـقِّ ۚ [ حق میں سے ] يَقُوْلُوْنَ [ وہ کہتے ہیں ] رَبَّنَآ [ اے ہمارے رب !] اٰمَنَّا [ ہم ایمان لائے ]فَاكْتُبْنَا [ پس تو لکھ دے ہم کو ] مَعَ الشّٰهِدِيْنَ [ گواہی دینے والوں کے ساتھ ]

وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَا جَاۗءَنَا مِنَ الْحَقِّ ۙ وَنَطْمَعُ اَنْ يُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِيْنَ  84؀
[ وَمَا لَنَا : اور کیا ہے ہم کو ] [ لَا نُؤْمِنُ: (کہ ) ہم ایمان نہ لائیں ] [ بِاللّٰهِ: اللہ پر ] [ وَمَا: اور اس پر جو ] [ جَاۗءَنَا: آیا ہمارے پاس ] [ مِنَ الْحَقِّ ۙ : حق میں سے ] [ وَنَطْمَعُ: اور ہم امید کرتے ہیں ] [ اَنْ: کہ ] [ يُّدْخِلَنَا: داخل کرے گا ہم کو ] [ رَبُّنَا : ہمارا رب ] [ مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِيْنَ: صالح لوگوں کے ساتھ ]

فَاَثَابَهُمُ اللّٰهُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا  ۭوَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْمُحْسِنِيْنَ  85؀
[ فَاَثَابَهُمُ: تو بدلے میں دیا ان کو ] [ اللّٰهُ: اللہ نے ] [ بِمَا: سبب اس کے جو ] [ قَالُوْا: انھوں نے کہا ] [ جَنّٰتٍ: ایسے باغات ] [ تَجْرِيْ : بہتی ہیں ] [ مِنْ تَحْتِهَا: جن کے نیچے سے ] [ الْاَنْھٰرُ: نہریں ] [ خٰلِدِيْنَ: ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوتے ] [ فِيْهَا ۭ: اس میں ] [ وَ: اور ] [ ذٰلِكَ: یہ ] [ جَزَاۗءُ الْمُحْسِنِيْنَ: بلا کم وکاست کام کرنے والوں کا بدلہ ہے ]

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَــحِيْمِ   86؀ۧ
[ وَالَّذِيْنَ: اور جنھوں نے ] [ كَفَرُوْا: کفر کیا ] [ وَكَذَّبُوْا: اور جھٹلایا ] [ بِاٰيٰتِنَآ: ہماری نشانیوں کو ] [ اُولٰۗىِٕكَ : وہ لوگ ] [ اَصْحٰبُ الْجَــحِيْمِ: جہنم والے ہیں ] ۔

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا  ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ  87؀
[ يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ: اے لوگو! جو ] [ اٰمَنُوْا: ایمان لائے ] [ لَا تُحَرِّمُوْا : تم لوگ حرام مت کرو] [ طَيِّبٰتِ مَآ: اس کے پاکیزہ کو جس کو ] [ اَحَلَّ : حلال کیا ] [ اللّٰهُ: اللہ نے ] [ لَكُمْ : تمہارے لیے ] [ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭ: اور حد سے مت بڑھو ] [ اِنَّ اللّٰهَ: بیشک اللہ ] [ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا ] [ الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والوں کو ]



ترکیب : طیبت مضاف ہے اور ما اس کا مضاف الیہ ہے کلوا کا مفعول مما رزقکم اللہ ہے جبکہ حلالا طیبا حال ہے ۔ یؤاخذ باب مفاعلہ کا مضارع ہے ۔ کفارتہ کی ضمیر عقدتم کے مصدر تعقید کے لیے ہے، کسوتہم کی ضمیر مسکین کے لیے ہے ۔ اطعام عشرۃ مسکین اور کسوتہم اور تحریر رقبۃ ، یہ سب خبریں ہیں ، اس لیے ان کے مضاف حالت رفع میں ہیں ، جبکہ ان کا مبتداء کفارتہ ہے ۔

نوٹ : 1 ۔ آیت نمبر ۔ 87 کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ خود حلال وحرام کے مختیار نہ بنو۔ حلال وہی ہے جو اللہ نے حلال کیا اور حرام وہی ہے جو اللہ نے حرام کیا ۔ دوسرے یہ کہ عیسائی راہبوں ، ہندو جوگیوں ، بدھ مت کے بھکشوؤں اور اشراقی متصوفین کی طرح قطع لذات کا طریقہ اختیار نہ کرو ، مذہبی رجحان کے نیک مزاج لوگوں میں ہمیشہ یہ میلان پایا جاتا رہا ہے کہ نفس وجسم کے حقوق ادا کرنے کو وہ روحانی ترقی میں مانع سمجھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اپنے نفس کو لذتوں سے محروم کرنا ایک نیکی ہے اور خدا کا تقرب اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے بھی بعض میں یہ سوچ پائی جاتی تھی ۔ چنانچہ اس سے ممانعت کی متعدد احادیث ہیں ۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایایہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ انھوں نے عورتوں کو اور اچھے کھانے کو اور خوشبو اور نیند اور دنیا کی لذتوں کو اپنے حرام کرلیا ہے ۔ میں نے تمہیں یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ تم راہب اور پادری بن جاؤ ۔ رہبانیت کے سارے فائدے جہاد سے حاصل ہوتے ہیں ۔ (تفہیم القرآن )

نوٹ: 2۔ قسم کھانے کی چند صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ کسی گزشتہ واقعہ پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائے ، اس کو ’’ یمین غموس ‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ سخت گناہ کبیرہ ہے اور اس کا کفارہ نہیں ہے ۔ حقیقی توبہ سے معافی کی امید ہے ۔ دوسری یہ کہ بلاقصد زبان سے لفظ قسم نکل جائے یا کسی گزشتہ واقعہ پر اپنے نزدیک سچا سمجھ کر قسم کھائے جبکہ دراصل وہ غلط ہو۔ اس کو ’’ یمین لغو ‘ ‘ کہتے ہیں ۔ اس پر گناہ نہیں ہے اس لیے کفارہ بھی نہیں ہے ۔ تیسری یہ کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائے ۔ اس کو ’’ یمین منعقدہ ‘‘ کہتے ہیں ۔ اس قسم کو توڑنے پر کفارہ واجب ہوتا ہے (معارف القرآن )

وَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا  ۠وَّاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْٓ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ  88؀
[ وَكُلُوْا: اور کھاؤ] [ مِمَّا: اس میں سے جو ] [ رَزَقَكُمُ: عطا کیا تم کو ] [ اللّٰهُ: اللہ نے ] [ حَلٰلًا طَيِّبًا ۠: پاکیزہ حلال ہوتے ہوئے ] [ وَّاتَّقُوا: اور تقوی کرو] [ اللّٰهَ الَّذِيْٓ: اس اللہ کے لیے ] [ اَنْتُمْ: تم لوگ ] [ بِهٖ: جس پر ] [ مُؤْمِنُوْنَ: ایمان رکھنے والے ہو]

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ ۚ فَكَفَّارَتُهٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ  ۭ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ  ۭذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ  ۭ وَاحْفَظُوْٓا اَيْمَانَكُمْ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ   89؀
[ لَا يُؤَاخِذُكُمُ: جواب طلبی نہیں کرے گا تم سے ] اللّٰهُ [ اللہ ] بِاللَّغْوِ [ بغیر سوچی سمجھی بات پر ] [ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ: تمہاری قسموں میں سے ] [ وَلٰكِنْ: اور لیکن ] [ يُّؤَاخِذُكُمْ: وہ جواب طلبی کرے گا تم سے ] [ بِمَا: اس پر جو ] عَقَّدْتُّمُ [ پختہ کیا تم نے ] الْاَيْمَانَ ۚ [ قسموں کو ] فَكَفَّارَتُهٗٓ [ تو اس کا (پختہ کرنے کا ) کفارہ ]اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيْنَ [ دس مسکینوں کو کھلانا ہے ] مِنْ اَوْسَطِ مَا [ اس کے اوسط سے جو ] تُطْعِمُوْنَ [ تم لوگ کھلاتے ہو ] اَهْلِيْكُمْ [ اپنے گھروالوں کو ] اَوْ [ یا] كِسْوَتُهُمْ [ ان کو پہنانا ہے ] اَوْ [ یا ]تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ ۭ [ کسی گردن کا آزاد کرنا ہے ] فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ : [ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ ۭ: تو تین دن کا روزہ رکھنا ہے ] [ ذٰلِكَ: یہ ] [ كَفَّارَةُ اَيْمَانِكُمْ: تمہاری قسموں کا کفارہ ہے ] [ اِذَا : جب بھی ] [ حَلَفْتُمْ ۭ: تم لوگ قسمیں کھاؤ ] [ وَاحْفَظُوْٓا: اور حفاظت کرو ] [ اَيْمَانَكُمْ ۭ: اپنی قسموں کی ] [ كَذٰلِكَ اس طرح ] [ يُبَيِّنُ: واضح کرتا ہے ] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ لَكُمْ: تمہارے لیے ] [ اٰيٰتِهِ: اپنی آیات کو ] [ لَعَلَّكُمْ: شاید کہ تم لوگ ] [ تَشْكُرُوْنَ: حق مانو]

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ    90؀
[ يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ: اے لوگو! جو ] [ اٰمَنُوْا: ایمان لائے ] [ اِنَّمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] [ الْخَمْرُ: شراب ] [ وَالْمَيْسِرُ : اور جوا] [ وَالْاَنْصَابُ: اور استھان ] [ وَالْاَزْلَامُ: اور فال کے تیر] [ رِجْسٌ : (ہر ایک ) نجاست ہے ] [ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ: شیطان کے عمل میں سے ] [ فَاجْتَنِبُوْهُ: پس تم لوگ دور رہو اس سے (یعنی ہر ایک سے ) ] [ لَعَلَّكُمْ: شائد کہ تم لوگ ] [ تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ]



رج س (س۔ ک ) رجاسۃ قبیح کام کرنا ۔ رجس ۔ اسم ذات ہے ۔ گندگی ۔ نجاست ۔ آیت زیر مطالعہ ۔

ترکیب : الخمر سے والازلام تک چاروں مبتداء ہیں ۔ رجس ان کی خبر جمع کے بجائے واحد لا کر اسے ہر مبتدا پر عطف کیا گیا ہے یعنی اصل بات اس طرح تھی ۔ [ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ] آیت میں خبر کو جمع کے بجائے واحد لا کر ان چار جملوں کے تاکیدی مفہوم کو ایک جملے میں سمودیا گیا ہے ۔ اجتناب کے حکم میں اسی تاکیدی مفہوم کو برقرار رکھنے کے لیے ضمیر مفعولی بھی واحد آئی ہے ویصد کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ ان یوقع کے ان پر عطف ہے ۔ واحذروا کا مفعول محذوف ہے ۔ اس وجہ سے اس حکم کا مفہوم وسیع ہو کر اطاعت کے پورے دائرے پر محیط ہوگیا ہے ۔

نوٹ:1۔ عربی میں کھانے کے لیے اکل اور پینے کے لیے شرب کے الفاظ ہیں ۔ جبکہ طعم کا اصل مفہوم ہے ’’ چکھنا‘‘ اب کسی چیز کو کھا کر بھی چکھا جاسکتا ہے اور پی کر بھی ۔ اس طرح طعم میں کھانے اور پینے ، دونوں کا مفہوم شامل ہوجاتا ہے ۔ مثلا آیت نمبر ۔ 2 :249 میں یہ لفظ پینے کے مفہوم میں آیا ہے ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر ۔ 93 میں یہ لفظ اپنے جامع مفہوم میں آیا ہے جس کو ہم نے ترجمے میں ظاہر کیا ہے ۔

نوٹ : 2 ۔ شراب اور جوئے کے متعلق سب سے پہلے آیت نمبر ۔ 2:219 میں بتایا جا چکا تھا کہ ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے ۔ اس کے بعد آیت نمبر ۔ 4 :43 میں نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ۔ پھر زیر مطالعہ آیت نمبر ۔ 90 میں ان کو مطلق حرام قرار دے دیا گیا ۔ اس حکم کے آنے سے پہلے رسول اللہ
نے ایک خطبہ میں لوگوں کو خبردار کیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے بعید نہیں کہ اس کی قطعی حرمت کا حکم آجائے ۔ لہذا جس کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کردے۔ اس کے کچھ مدت بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے اعلان کرایا کہ اب جس کے پاس شراب ہے وہ نہ تو اسے پی سکتا ہے اور نہ ہی فروخت کرسکتا ہے ۔ بلکہ وہ اسے ضائع دے ۔ چنانچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی ۔ ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دوا کے طور پر استعمال کرنے کی تو اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں ، وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے ۔ آپ نے اس دسترخوان پر کھانا کھانے سے بھی منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو ۔ (تفیہم القرآن )

اب اس کے بعد بھی کوئی دانشور اگر اس زعم میں مبتلاء ہو جائے کہ وہ قرآن کو نعوذ باللہ رسول اللہ
سے زیادہ سمجھتا ہے اور دعوی کرے کہ قرآن مجید میں کہیں بھی شراب کو حرام قرار نہیں دیا گیا ، تو پھر کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ۔ اکثر دانشور بڑے مہذب اور انتہائی نفاست پسند ہوتے ہیں ۔ انسانی عمل کی نجاستوں کے ذکر سے بھی ان کو گھن آتی ہے ۔ فقہہ کی کتابوں میں ایسی چیزوں کے تذکرے پر یہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں ۔ اور شیطان کے عمل کی نجاستوں کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ لگتا ہے کہ یہ لوگ اپنی وحشت کو دانش وری سمجھ بیٹھے ہیں کیونکہ ۔

وحشت میں ہر نقشہ الٹا نظر آتا ہے

مجنوں نظرآتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے ۔

اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ   ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ    91 ؀
اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] يُرِيْدُ [ چاہتا ہے ] الشَّيْطٰنُ [ شیطان ] اَنْ [ کہ ] يُّوْقِعَ [ وہ ڈال دے ]بَيْنَكُمُ [ تمہارے درمیان ] الْعَدَاوَةَ [ عداوت ] وَالْبَغْضَاۗءَ [ اور بعض ] فِي الْخَمْرِ [ شراب سے ] وَالْمَيْسِرِ [ اور جوئے سے ] وَيَصُدَّكُمْ [ اور (یہ کہ ) وہ روکے تم کو ] عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ [ اللہ کی یاد سے ] وَعَنِ الصَّلٰوةِ [ اور نماز سے ] فَهَلْ [ تو کیا ] اَنْتُمْ [ تم لوگ ] مُّنْتَهُوْنَ [ باز آنے والے ہو]

وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا   ۚ فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰي رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ    92؀
وَاَطِيْعُوا [ اور تم لوگ اطاعت کرو] اللّٰهَ [ اللہ کی ]وَاَطِيْعُوا [ اور اطاعت کرو] الرَّسُوْلَ [ ان رسول کی ] وَاحْذَرُوْا [ اور محتاط رہو]فَاِنْ [ پھر اگر ] تَوَلَّيْتُمْ [ تم لوگ منہ موڑتے ہو] فَاعْلَمُوْٓا [ تو جان لو] اَنَّمَا [ کہ کچھ نہیں مگر ] عَلٰي رَسُوْلِنَا [ ہمارے رسول پر ] الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ [ واضح طور پر پہنچانا ہے ]

لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ   93؀ۧ
لَيْسَ [ نہیں ہے ] عَلَي الَّذِيْنَ [ ان پر جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ] وَعَمِلُوا [ اور عمل کیے ] الصّٰلِحٰتِ [ نیک ] جُنَاحٌ [ کوئی گناہ ] فِيْمَا [ اس میں جو ] طَعِمُوْٓا [ کھایا پیا ] اِذَا مَا [ جبکہ وہ ، جو] اتَّقَوْا [ انھوں نے تقوی کیا ] وَّاٰمَنُوْا [ اور ایمان لائے ] وَعَمِلُوا [ اور عمل کیے ] الصّٰلِحٰتِ [ نیک ] ثُمَّ [ پھر ] اتَّقَوْا [ انھوں نے ( مزید) تقوی کیا ] وَّاٰمَنُوْا [ اور (مزید ) ایمان لائے (یعنی پختہ کیا ) ثُمَّ [ پھر ] اتَّقَوْا (مزید ) تقوی کیا ] وَّاَحْسَنُوْا ۭ [ اور بلاکم وکاست کام کیا ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] يُحِبُّ [ پسند کرتا ہے ] الْمُحْسِنِيْنَ [ بلاکم وکاست کام کرنے والوں کو ]

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَـنَالُهٗٓ اَيْدِيْكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ يَّخَافُهٗ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدٰي بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ    94؀
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ [ اے لوگو! جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ] لَيَبْلُوَنَّكُمُ [ لازما آزمائے گا تم لوگوں کو ] اللّٰهُ [ اللہ ] بِشَيْءٍ [ کسی چیز سے ] مِّنَ الصَّيْدِ [ شکار میں سے ] تَـنَالُهٗٓ [ پہنچیں گے جس کو ] اَيْدِيْكُمْ [ تمہارے ہاتھ ] وَرِمَاحُكُمْ [ اور تمہارے نیزے ] لِيَعْلَمَ [ تاکہ جان لے ] اللّٰهُ [ اللہ ] مَنْ [ کون ] يَّخَافُهٗ [ ڈرتا ہے اس سے ] بِالْغَيْبِ ۚ [ بن دیکھے ] فَمَنِ [ پھر جو] اعْتَدٰي [ زیادتی کرے گا ] بَعْدَ ذٰلِكَ [ اس کے بعد] فَلَهٗ [ تو اس کے لیے ] عَذَابٌ اَلِيْمٌ [ ایک درد ناک عذاب ہے ]



رم ح : (ف) ۔ رمحا ۔ نیزہ مارنا ۔ رمح ۔ ج ۔ رماح ۔ اسم ذات ہے ۔ نیزہ ۔ آیت زیر مطالعہ ۔

ترکیب : تنال مضارع کا واحد مؤنث کا صیغہ ہے اور اس کی ضمیر مفعولی الصید کے لیے ہے ، جبکہ ایدیکم اور رماحکم اس کے فاعل ہیں ۔ فجزاء مبتداء نکرہ ہے اس کی خبر واجب محذوف ہے ۔ من النعم کا من بیانیہ ہے اور یہ ماقتل کا نہیں بلکہ جزاء کا بیان یعنی وضاحت ہے ۔ من تبعیضیہ بھی ہو سکتا ہے ۔ تب جزاء کی وضاھت یحکم بہ ہوگی ۔ یحکم کا فاعل ذواعدل ہے ۔ ھدیا حال ہے ۔ بلغ کی نصب بتارہی ہے کہ یہ بھی حال ہے ۔ کفارۃ مبتداء نکرہ ہے ۔ اس کی بھی خبر محذوف ہے اور طعام مسکین مبتداء کی وضاحت ہے ۔ اسی طرح عدل ذلک مبتداء کی خبر محذوف ہے جبکہ صیاما مبتداء کی تمیز ہے ۔

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ  ۭ وَمَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَــزَاۗءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ هَدْيًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ اَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِيْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِهٖ  ۭعَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ ۭ وَمَنْ عَادَ فَيَنْتَقِمُ اللّٰهُ مِنْهُ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ  95؀
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ [ اے لوگو! جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ] لَا تَقْتُلُوا [ تم لوگ قتل مت کرو] الصَّيْدَ [ شکار کو ] وَ [ اس حال میں کہ ] اَنْتُمْ [ تم لوگ ]حُرُمٌ ۭ [ احرام میں ہو ]وَمَنْ [ اور جو ] قَتَلَهٗ [ قتل کرے گا اس کو ] مِنْكُمْ [ تم میں سے ]مُّتَعَمِّدًا [ جانتے بوجھتے ہوئے ]فَجَــزَاۗءٌ [ تو بدلہ (واجب ) ہے ] مِّثْلُ مَا [ اس کے جیسا جو] قَتَلَ [ اس نے قتل کیا ] مِنَ النَّعَمِ [ مویشی میں سے ] يَحْكُمُ [ فیصلہ کریں ] بِهٖ [ جس کا ] ذَوَا عَدْلٍ [ دوانصاف والے ] مِّنْكُمْ [ تم سے ] هَدْيًۢا [ ہدیہ ہوتے ہوئے ] بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ [ کعبہ کو پہنچنے والا ہوتے ہوئے ] اَوْ [ یا ]كَفَّارَةٌ [ کفارہ (واجب ) ہے ] طَعَامُ مَسٰكِيْنَ [ مسکینوں کا کھانا ] اَوْ [ یا ] عَدْلُ ذٰلِكَ [ اس کے برابر ] صِيَامًا [ روزہ رکھنا ہے] لِّيَذُوْقَ [ تاکہ وہ چکھے ] وَبَالَ اَمْرِهٖ ۭ [ اپنے کام کا وبال ] عَفَا [ درگزر گیا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] عَمَّا [ اس سے جو ] سَلَفَ ۭ [ پہلے گزرا ]وَمَنْ [ اور جو] عَادَ [ دوبارہ کرے گا ] فَيَنْتَقِمُ [ تو انتقام لے گا ] اللّٰهُ [ اللہ نے] مِنْهُ ۭ [ اس سے ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ]عَزِيْزٌ [ بالا دست ] ذُو انْتِقَامٍ [ انتقام والا ہے ]

اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۚ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ   96؀
اُحِلَّ [ حلال کیا گیا ] لَكُمْ [ تمہارے لیے ] [ صَيْدُ الْبَحْرِ] [ سمندر کا شکار] [ وَطَعَامُهٗ] [ اور اس کا کھانا]مَتَاعًا لَّكُمْ [ فائدہ مند ہے تمہارے لیے] [ وَلِلسَّيَّارَةِ ۚ [ اور قافلے والوں کے لیے ] وَحُرِّمَ [ اور حرام کیا گیا ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ] صَيْدُ الْبَرِّ [ خشکی کا شکار ] مَا دُمْتُمْ [ جب تک تم لوگ رہو] حُرُمًا ۭ [ احرام میں ] وَاتَّقُوا [ اور تقوی کرو] اللّٰهَ الَّذِيْٓ [ اس اللہ کا ] اِلَيْهِ [ جس کی طرف ] تُحْشَرُوْنَ [ تم لوگ جمع کیے جاؤگے ]

جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِــيٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَاۗىِٕدَ  ۭذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ    97؀
جَعَلَ [ بنایا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] الْكَعْبَةَ [ کعبہ کو ] الْبَيْتَ الْحَرَامَ [ جو یہ محترم گھر ہے ] قِــيٰمًا [ کھڑے ہونے کا ذریعہ (معیشت میں ) ] لِّلنَّاسِ [ لوگوں کے لیے ] وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ [ اور محترم مہینوں کو (بھی ) ] وَالْهَدْيَ [ اور قربانی کے جانوروں کو (بھی ) ] وَالْقَلَاۗىِٕدَ ۭ [ اور پٹوں (والوں ) کو (بھی )] ذٰلِكَ [ یہ ] لِتَعْلَمُوْٓا [ اس لیے کہ تم لوگ جان لو] اَنَّ [ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ] يَعْلَمُ [ جانتا ہے ]مَا [ اس کو جو ] فِي السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں میں ہے ] وَمَا [ اور اس کو جو ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ہے] وَاَنَّ [ اور یہ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ]بِكُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز کو ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]



ترکیب: جعل کے دو مفعول آتے ہیں ۔ کس کو بنایا اور کیا بنایا ۔ یہاں جعل کا مفعول اول الکعبۃ ہے ۔ لیکن البیت الحرام مفعول ثانی نہیں ہے بلکہ یہ الکعبۃ کا بدل ہے اور مفعول ثانی قیما ہے ۔ الشھر الحرام ، الھدی اور القلائد، یہ سب بھی جعل کے مفعول اول ہیں اور ان پر لام جنس ہے جبکہ ان کا مفعول ثانی بھی قیما ہے ۔ یستوی کا فاعل ہونے کی وجہ سے الخبیث اور الطیب حالت رفع میں آئے ہیں اور اعجب کا فاعل کثرۃ ہے۔

نوٹ: 1۔ کسی اصول یا چیز کے معقول اور پسندیدہ ہونے کی دلیل کے طور پر اکثر سننے میں آتا ہے کہ ’’ یہ تو ساری دنیا مانتی ہے ‘‘ ۔’’ یہ بات تو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے ‘‘ ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر ۔ 100 میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ
کو حکم دیا کہ آپ اعلان کردیجئے کہ کسی چیز کا رواج پاجانا اس کے معقول اور پسندیدہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔ یہ ایک غلط معیار ہے جو انسانوں نے اختیار کرلیا ہے ۔

جو انسان تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ رکھتا ہے اسے سوچنا چاہیے کہ ہندوستان کے سارے ہندو گائے کے پیشاب کو کتنا بھی پوتر پاکیزہ قرار دے لیں ، پھر بھی اس کے پیشاب کی نجاست میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی ۔ اسے سوچنا چاہئے کہ اگر گائے کا پیشاب واقعی اتنا ہی پاکیزہ ہے تو پھر اس کے گوبر سے پرہیز کیوں ؟ جس طرح وہ گائے کے پیشاب کو اپنے سر اور چہرے پر ملتے ہیں اسی طرح اس کا گوبر بھی مل لیا کریں ۔ بالکل اسی طرح سے جوا ، شراب ، سود اور اس قبیل کی باقی چیزیں خواہ کتنا بھی رواج پاجائیں ، پھر بھی ان کی خباثت اپنی جگہ برقرار رہے گی ۔

اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ وَاَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ    98؀ۭ
اِعْلَمُوْٓا [ تم لوگ جان لو] اَنَّ [ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ ] شَدِيْدُ الْعِقَابِ [ گرفت کا سخت ہے ] وَاَنَّ [ اور یہ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ [ غَفُوْرٌ [ بےانتہا بخشنے والا ہے ] رَّحِيْمٌ [ ہر حال میں رحم کرنے والا ہے ]

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ۚ وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ ۭعَفَا اللّٰهُ عَنْهَا  ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ    ١٠١؁
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ [ اے لوگو! جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ]لَا تَسْــــَٔـلُوْا [ تم لوگ مت پوچھو ] عَنْ اَشْيَاۗءَ [ ایسی چیزوں کے بارے میں ] اِنْ [ کہ اگر ] تُبْدَ [ وہ ظاہر کردی جائیں ] لَكُمْ [ تمہارے لیے] تَسُؤْكُمْ ۚ [ تو وہ بری لگے تم کو ] وَاِنْ [ اور اگر ] تَسْــــَٔـلُوْا [ تم لوگ پوچھو گے ]عَنْهَا [ ان کے بارے میں [ حِيْنَ اس وقت کہ ] يُنَزَّلُ [ اتارا جاتا ہے ] الْقُرْاٰنُ [ قرآن ] تُبْدَ [ تو وہ ظاہر کردی جائیں گی ]لَكُمْ ۭ [ تمہارے لیے ] عَفَا [ درگزر کیا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] عَنْهَا ۭ [ اس سے ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] غَفُوْرٌ [ بےانتہا بخشنے والا ہے ] حَلِيْمٌ [ بردبار ہے ]



س ی ب :ـ(ض) سیبا ۔ پانی کا ادھر ادھر بہنا ۔ مویشی کا آزاد پھرنا ۔ سائبۃ ۔ اسم الفاعل ہے ۔ آزاد پھرنے والی ۔ اصطلاح ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں جسے مقدس قرار دے کر آزاد چھوڑ دیا گیا ہو۔ آیت زیر مطالعہ ۔

ح م ی ۔ (ض) ۔ حمیا کسی چیز کو کسی سے روکنا ۔ بچانا ۔ حمایت کرنا ۔ حام ۔ اسم الفاعل ہے ۔ بچانے والا ۔ اصطلاحا ایسے اونٹ کو کہتے ہیں جیسے مقدس قرار دے کرآزاد چھوڑ دیا گیا ہو ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ (س) ۔ حمیا ۔ کسی چیز کا بہت تیز گرم ہو جانا۔ حامیۃ ۔ اسم الفاعل ہے ۔ گرم ہونے والی ۔ تَصْلٰى نَارًا حَامِيَةً [ وہ گریں گے ایک جلنے والی یعنی دہکتی ہوئی آگ میں ] ۔ 88:4۔ حمیۃ ۔ اسم ذات ہے ۔ جذبات کی گرمی کا ابال ۔ جوش ۔ نخوت ۔ اِذْ جَعَلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِيَّةَ [ اور جب رکھا انھوں نے جنھوں نے کفر کیا ، اپنے دلوں میں نخوت ] ۔ 48:26۔ (افعال ) احماء ۔ کسی چیز کو خوب گرم کرنا ۔ تپانا ۔ يَّوْمَ يُحْمٰي عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ [ جس دن تپایا جائے گا اس کو جہنم کی آگ میں ] ۔ 9:35۔

ترکیب : شیء کی جمع اشیاء غیر منصرف آتی ہے یہاں اشیاء حالت جر میں ہے اور نکرہ موصوفہ ہے ۔ آگے جملہ شرطیہ ان تبدلکم تسوکم اس کی صفت ہے ۔ تبد دراصل باب افعال کے مضارع مجہول میں مؤنث کا صیغہ تبدی ہے اور ان کی وجہ سے اس کی ’’ ی ‘‘ گری ہوئی ہے ، جبکہ تسؤ جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم آیا ہے ۔ سائبۃ وصیلۃ اور حام ، یہ سب من بحیرۃ کی من پر عطف ہونے کی وجہ سے مجرور ہوئے ہیں اور یہ من تبعیضیہ ہے ۔ لایضر کا فاعل من ہے ۔

نوٹ:1 نبی کریم
خود بھی لوگوں کو کثرت سوال سے اور خواہ مخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہتے تھے۔ ایسی ہی ایک حدیث میں ہے ’’ اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں ، انھیں ضائع نہ کرو ، کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ، ان کے پاس نہ پھٹکو ۔ کچھ حدود مقرر کی ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو ، اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے، بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو ، لہذا ان کی کھوج نہ لگاؤ ‘‘ اب جو شخص مجمل کو مفصل اور غیر معین کو معین کرتا ہے ، وہ درحقیقت مسلمانوں کو بڑے خطرے میں ڈالتا ہے ۔ (تفیہم القرآن )

 سلسلہ وحی منقطع ہونے کے بعد بھی سوالات گھڑ گھڑ کر ان کی تحقیقات میں پڑنا یا بےضرورت چیزوں کے متعلق سوالات کرنا مذموم ہی رہے گا ، کیونکہ اس میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا ہے ۔ رسول
کا ارشاد ہے کہ مسلمان ہونے کی ایک خوبی یہ ہے کہ آدمی فضول باتوں کو چھوڑ دیتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بہت سے مسلمان جو فضول چیزوں کی تحقیق میں لگے رہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا کیا نام تھا اور نوح علیہ السلام کی کشتی کا طول وعرض کیا تھا ، جن کا کوئی اثر انسان کے عمل پر نہیں پڑتا ، ایسے سوالات کرنا مذموم ہے جبکہ ایسے سوالات کرنے والے اکثر حضرات دین کے ضروری اور اہم مسائل سے بےخبر ہوتے ہیں ۔ (معارف القرآن )

نوٹ : 2۔ آغاز اسلام سے قبل یہ رواج عام تھا کہ مختلف طریقوں سے مویشیوں کو مقدس قرار دے کر آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ پھر نہ کوئی اس پر سوار ہوتا ، نہ اس کا دودھ پیا جاتا ، نہ اسے ذبح کیا جاتا نہ اس کا اون اتارا جاتا، اسے حق ہوتا کہ جس کھیت اور چراگاہ میں چاہے چرے اور جس گھاٹ سے چاہے پانی پیئے ، ایسے مویشیوں کے مختلف نام تھے ۔ تقدس کی علامت کے طور پر جس اونٹنی کے کان چیر کر آزاد کرتے اسے بحیرہ کہتے ۔ کوئی منت پوری ہونے پر شکرانے کے طور پر جس اونٹ یا اونٹنی کو آزاد کرتے اسے سائبہ کہتے ۔ کوئی بکری اگر پہلی بار ایک نر اور ایک مادہ ، جڑواں بچے دیتی تو نر بچے کو آزاد چھوڑ دیتے ۔ اسے وصیلہ کہتے ، جس اونٹ کا پوتا سواری دینے کے قابل ہوجاتا ۔ اسے بھی آزاد چھوڑ دیتے ۔ اسے حام کہتے ۔ (تفہیم القرآن )

نوٹ : 3 زیر مطالعہ آیت نمبر ۔104 میں دوسروں کی غلطی ظاہر کرنے کا ایک موثر طریقہ بتلایا گیا ہے جس سے مخاطب کی دل آزاری نہ ہو ۔ یوں نہیں فرمایا کہ تمہارے باپ دادا جاہل اور گمراہ تھے بلکہ ایک سوال پر سوچنے کی دعوت دی گئی ہے کہ کیا باپ دادا کی پیروی اس حالت میں بھی معقول بات ہوگی جبکہ باپ دادا نہ علم رکھتے ہوں یہ عمل ۔ پھر اگلی آیت میں دوسروں کی اصلاح کی فکر کرنے والوں کو تسلی دی گئی ہے کہ جب تم نے حق کی تبلیغ اور تعلیم کی مقدور بھر کوشش کرلی اور اس کے بعد بھی کوئی گمراہی پر جما رہے ۔ تو تم اس کی فکر میں نہ پڑو۔ اس حالت میں دوسروں کی گمراہی سے تمہارا کوئی نقصان نہ ہو گا۔ (معارف القرآن)

قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِيْنَ   ١٠٢؁
قَدْ سَاَلَهَا [ پوچھ چکی ہے ان کو] قَوْمٌ [ ایک قوم ] مِّنْ قَبْلِكُمْ [ تم سے پہلے] ثُمَّ [ پھر ] اَصْبَحُوْا [ وہ لوگ ہوگئے ] بِهَا [ اس کا ] كٰفِرِيْنَ [ انکار کرنے والے ]

مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ وَّلَا وَصِيْلَةٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰكِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ وَاَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ   ١٠٣؁
مَا جَعَلَ [ نہیں بنایا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] مِنْۢ بَحِيْرَةٍ [ کسی قسم کا کوئی بحیرہ ] وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ [ اور نہ کسی قسم کا کوئی سائبہ ] وَّلَا وَصِيْلَةٍ [ اور نہ کسی قسم کا کوئی وصیلہ ]وَّلَا حَامٍ ۙ [ اور نہ ہی کوئی حامی ] وَّلٰكِنَّ [ اور لیکن (یعنی بلکہ )] الَّذِيْنَ [ جنھوں نے ] كَفَرُوْا [ کفر وا ] انکار کیا ]يَفْتَرُوْنَ [ وہ لوگ گھڑتے ہیں ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] الْكَذِبَ ۭ [ جھوٹ ] وَاَكْثَرُهُمْ [ اور ان کے اکثر] لَا يَعْقِلُوْنَ [ عقل سے کام نہیں لیتے ]

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ   ١٠٤؁
وَاِذَا [ اور جب بھی ]قِيْلَ [ کہا جاتا ہے ] لَهُمْ [ ان سے ] تَعَالَوْا [ کہ تم لوگ آؤ ] اِلٰى مَآ [ اس کی طرف جو ] اَنْزَلَ [ اتارا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] وَاِلَى الرَّسُوْلِ [ اور ان رسول کی طرف ] قَالُوْا [ تو وہ کہتے ہیں ] حَسْبُنَا [ کافی ہے ہم کو ] مَا [ وہ ] وَجَدْنَا [ ہم نے پایا] عَلَيْهِ [ جس پر ]اٰبَاۗءَنَا ۭ [ اپنے آباؤاجداد کو ]اَوَ [ تو کیا ]لَوْ [ اگر ] كَانَ [ تھے ] اٰبَاۗؤُهُمْ [ ان کے آباؤاجداد ] لَا يَعْلَمُوْنَ [ کہ نہیں جانتے تھے ] شَـيْــــًٔـا [ کچھ بھی ] وَّلَا يَهْتَدُوْنَ [ اور نہ ہدایت پاتے تھے ]

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ  ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ    ١٠٥؁
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ [ اے لوگو! جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر (ذمہ داری ) ہے ] اَنْفُسَكُمْ ۚ [ اپنے نفوس کی ] لَا يَضُرُّكُمْ [ نقصان نہیں دے گا تم کو ] مَّنْ [ وہ ، جو [ ضَلَّ [ گمراہ ہوا ] اِذَا [ جبکہ ] اهْتَدَيْتُمْ [ تم ہدایت پر ہو ] اِلَى اللّٰهِ [ اللہ کی طرف ہی ] مَرْجِعُكُمْ [ تم کو لوٹنا ہے ] جَمِيْعًا [ سب کو ] فَيُنَبِّئُكُمْ [ پھر وہ آگاہ کردے گا تم کو ] بِمَا [ اس سے جو ] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ عمل کیا کرتے تھے ]

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِيْنَ الْوَصِيَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَةُ الْمَوْتِ ۭ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَيُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِيْ بِهٖ ثَـمَنًا وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ  ۙاللّٰهِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِيْنَ   ١٠٦؁
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ [ اے لوگو! جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ]شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ] [ گواہ ہونا تم میں سے دو آدمیوں کا] [ اِذَا [ جب کبھی ] حَضَرَ [ سامنے آئے ] اَحَدَكُمُ [ تمہارے کسی ایک کے ] الْمَوْتُ [ موت ] حِيْنَ الْوَصِيَّةِ [ تو وصیت کے وقت ] اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ [ دو عدل والے ہیں ] مِّنْكُمْ [ تم میں سے ] اَوْ [ یا ] اٰخَرٰنِ [ دوسرے دو ہیں ] مِنْ غَيْرِكُمْ [ تمہارے غیر میں سے ] اِنْ [ اگر ] اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ [ تم لوگ سفر کرو ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] فَاَصَابَتْكُمْ [ پھر آن پہنچے تم کو ] مُّصِيْبَةُ الْمَوْتِ ۭ [ موت کی مصیبت ] تَحْبِسُوْنَهُمَا [ تم لوگ روکے رکھوگے دونوں کو ] مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ [ نماز کے بعدسے ] فَيُقْسِمٰنِ [ پھر وہ دونوں قسم کھائیں گے ] بِاللّٰهِ [ اللہ کی ] اِنِ ارْتَبْتُمْ [ اگر تمہیں شبہ ہو ] لَا نَشْتَرِيْ [ (کہ ) ہم نہیں خریدتے ] بِهٖ [ اس سے ] ثَـمَنًا [ کوئی قیمت ] وَّلَوْ [ اور اگر ] كَانَ [ وہ ہو ] ذَا قُرْبٰى ۙ [ قرابت والا ]وَلَا نَكْتُمُ [ اور ہم نہیں چھپاتے ] شَهَادَةَ ۙاللّٰهِ [ اللہ کی گواہی کو ] اِنَّآ [ بیشک ہم ] اِذًا [ پھر تو ] لَّمِنَ الْاٰثِمِيْنَ [ ضرور گناہ کرنے والوں میں سے ہیں



ح ب س : (ض) ۔ حبسا ۔ کسی کو اٹھنے یا نکلنے سے روکے رکھنا ۔ آیت زیر مطالعہ ۔

ع ث ر : ۔ (ن) ۔ عثارا پھسل جانا ۔ بلاارادہ کسی بات پر مطلع ہونا (لازم ہے ۔ علی کے صلہ کے ساتھ متعدی ہوجاتا ہے ) آیت زیر مطالعہ ۔ (افعال ) اعثارا۔ کسی کو کسی بات پر مطلع کرنا ۔ وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ [ اس طرح ہم نے اطلاع کردی ان کی ] 18:21 ۔

ترکیب : شہادۃ مضاف ہے ۔ بین اس کا مضاف الیہ ہے ۔ اور کم کا مضاف بھی ۔ یہ فقرہ مبتدا ہے ۔ اس کی خبر اثنن ذوا عدل ہے ۔ اس لیے اثنن حالت رفع میں آیا ہے ۔ درمیان میں جملہ معترضہ ہے ۔ اس میں حضر کا فاعل الموت ہے اور اس کا مفعول احدکم ہے ۔ اذا کی شرط حضر کم احدکم الموت ہے اور حین الوصیۃ جواب شرط ہے ۔ ان ارتبتم کا تعلق تحبسون سے ہے جبکہ لا نشتری کا تعلق یقسمن سے ہے ۔ اولین صفت ہے فاخرن کی ۔

نوٹ : 1۔ یہ آیت اس وقت اتری جبکہ ایک آدمی مرگیا اور اس وقت وہاں کوئی مسلمان نہ تھا ۔ شروع اسلام کا زمانہ تھا ۔ سب شہر دارالحرب تھے ۔ لوگ کافر تھے ۔ وراثت کا کوئی قانون نہ تھا ۔ بطور وصیت تقسیم ہوتی تھی ۔ پھر وصیت منسوخ ہوگئی ، اور وراثت فرض ہوگئی اور لوگ قانون وراثت پر عمل کرنے لگے ۔ (ابن کثیر)

فَاِنْ عُثِرَ عَلٰٓي اَنَّهُمَا اسْتَحَقَّآ اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ يَقُوْمٰنِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِيْنَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْاَوْلَيٰنِ فَيُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ لَشَهَادَتُنَآ اَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَآ  ڮ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ   ١٠٧؁
فَاِنْ [ پھر اگر ] عُثِرَ [ مطلع کیا جائے ] عَلٰٓي [ اس پر ] اَنَّهُمَا [ کہ وہ دونوں ] اسْتَحَقَّآ [ مستحق ہوئے ] اِثْمًا [ گناہ کے ] فَاٰخَرٰنِ [ تو دوسرے دو [ يَقُوْمٰنِ [ کھڑے ہوں گے ] مَقَامَهُمَا [ ان دونوں کے کھڑے ہونے کی جگہ پر ] مِنَ الَّذِيْنَ [ ان لوگوں میں سے جو ] اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ [ حقدار ہوا ان پر (یعنی جس کا حق دبایا گیا )] الْاَوْلَيٰنِ [ زیادہ قریبی (میت کے )] فَيُقْسِمٰنِ [ پھر وہ دونوں قسم کھائیں گے ] بِاللّٰهِ [ اللہ کی ] لَشَهَادَتُنَآ [ یقینا ہماری گواہی ] اَحَقُّ [ زیادہ برحق ہے ] مِنْ شَهَادَتِهِمَا [ ان دونوں کی گواہی سے ] وَمَا اعْتَدَيْنَآ [ اور ہم نے زیادتی نہیں کی ] اِنَّآ [ بیشک ہم ] اِذًا [ پھر تو ] لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ [ ضرور ظلم کرنے والوں میں سے ہیں ]

ذٰلِكَ اَدْنٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِالشَّهَادَةِ عَلٰي وَجْهِهَآ اَوْ يَخَافُوْٓا اَنْ تُرَدَّ اَيْمَانٌۢ بَعْدَ اَيْمَانِهِمْ ۭوَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاسْمَعُوْا  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ   ١٠٨؀ۧ
ذٰلِكَ [ یہ ] اَدْنٰٓي [ زیادہ نزدیکی ہے ] اَنْ [ کہ ] يَّاْتُوْا [ لوگ لائیں ] بِالشَّهَادَةِ [ گواہی کو ] عَلٰي وَجْهِهَآ [ اس کے چہرے پر (یعنی ٹھیک ٹھیک ) ] اَوْ [ یا ] يَخَافُوْٓا [ لوگ ڈریں ] اَنْ [ کہ ] تُرَدَّ [ رد کیا جائے ] اَيْمَانٌۢ [ (ہماری ) قسموں کو ] بَعْدَ اَيْمَانِهِمْ ۭ [ ان کی قسموں کے بعد ] وَاتَّقُوا [ اور تم تقوی کرو] اللّٰهَ [ اللہ کا ] وَاسْمَعُوْا ۭ [ اور سنو] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] لَا يَهْدِي [ ہدایت نہیں دیتا ] [ الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ [ نافرمانی کرنے والی قوم کو ]

يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ  ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا  ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ    ١٠٩؁
يَوْمَ [ جس دن ] يَجْمَعُ [ جمع کرے گا ] اللّٰهُ [ اللہ ] الرُّسُلَ [ تمام رسولوں کو ] فَيَقُوْلُ [ پھر وہ کہے گا ] مَاذَآ [ کیا ] اُجِبْتُمْ ۭ [ جواب دیا گیا تم لوگوں کو ] قَالُوْا [ وہ کہیں گے ] لَا عِلْمَ لَنَا [ کسی قسم کا کوئی علم نہیں ہے ہمیں ]اِنَّكَ اَنْتَ [ بیشک تو ہی ] عَلَّامُ الْغُيُوْبِ [ تمام غیبوں کا خوب جاننے والا ہے ]





ح و رــ: (ن ) ۔ حورا ۔ گھومنا ، واپس ہونا ۔ اِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ يَّحُوْرَ [ بیشک اس نے گمان کیا کہ وہ ہرگز واپس نہیں ہوگا ] 84:14۔ (س) ۔ حورآنکھ کی سیاہی اور سفیدی کا بہت نمایاں ہونا ، آنکھ کاخوبصورت ہونا۔ احور مؤنث حوراء ، ج، حور ، افعل الوان وعیوب ہے ۔ خوبصورت آنکھ والا ۔ وَزَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِيْنٍ [ اور ہم نے جوڑے بنادیئے ان کے خوبصورت آنکھوں والوں : والیوں سے ] 44:54۔ (مفاعلہ ) محاورۃ ۔ بات کو واپس کرنا یعنی ۔ (1) جواب دینا (2) نصیحت کرنا ۔ قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَهُوَ يُحَاوِرُهٗٓ [ کہا اس سے اس کے ساتھی نے اس حال میں کہ وہ نصیحت کرتا تھا اس کو ]18:37۔ حواری ۔ اسم نسبت ہے ، نصیحت والا ، مدد گار ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ (تفاعل ) تحاورا ۔ باہم ایک دوسرے کی بات کا جواب دینا ۔ گفتگو کرنا ۔ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا [ اور اللہ سنتا ہے تم دونوں کی باہمی گفتگو ] 58:1۔

ترکیب : لاعلم پر لائے نفی جنس ہے اور الغیوب پر لام جنس ہے، اذ قال اللہ کا جملہ اذ سے شروع ہو رہا ہے ۔ اس لئے اس جملہ میں جتنے مضارع آئے ہیں ان سب کا ترجمہ ماضی میں ہو گا ۔ [ 2:11۔12 نوٹ۔1 دیکھیں ] کھلا حال ہے ۔ واشھد کے مخاطب حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ اس کا مخاطب خود ذات باری تعالیٰ بھی ہو سکتی ہے ۔

نوٹ : 1۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رسولوں سے پوچھے گا کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا تھا ، تو وہ کہیں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ، غیب کا علم تو صرف آپ کو ہے ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہر رسول کی امت کے وہ لوگ جو ان کی وفات کے بعد پیدا ہوئے ، ان کے بارے میں تو یہ جواب صحیح ہے، لیکن وہ لوگ جو انہی کے ہاتھ پر ایمان لائے اور ان کے احکام کی پیروی کی ان کے سامنے کرتے رہے ، ان کے بارے میں یہ کہنا کیسے صحیح ہوگا ، اس بات کو سمجھ لیں ۔

ایک انسان کسی دوسرے انسان کے سامنے ہونے کے باوجود اس کے ایمان وعمل کی گواہی اگر دے سکتا ہے تو غلبہ گمان کے اعتبار سے دے سکتا ہے ، ورنہ دلوں میں نیت اور حقیقی یعنی قلبی ایمان کسی کو وحی الہی کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتے ، اور ہر امت میں منافقین کے گروہ رہے ہیں ، جو شخص اپنے اپ کو مسلمان کہے اور احکام خداوندی کی پیروی کرے، انبیاء کرام اور ان کی امتیں ان کو دنیا میں مومن کہنے پر مجبور ہیں ، خواہ وہ دل میں مومن مخلص ہو یا منافق ، اسی لیے رسول اللہ
نے فرمایا ’’ ہم ظاہر پر حکم جاری کرتے ہیں مخفی رازوں کا متولی اللہ ہے ‘

اسی ضابطہ کے تحت دنیا میں تو انبیاء اکرام اور ان کے خلفاء اور علماء ظاہر پر حسن ظن کے مطابق کسی کے مومن ہونے کی گواہی دے سکتے تھے، لیکن آج وہ دنیا ختم ہوچکی ہے جس کا مدار ظن وگمان پر تھا ، یہ میدان حشر ہے جہاں حقائق کا آشکارا کیا جائے گا ۔ اس لئے رسولوں کا یہ جواب صحیح ہے کہ ہمیں حقیقت کا کوئی علم نہیں ہے ۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)

نوٹ: 2 ۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر پھانسی دی گئی تھی ۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے ۔ اس لئے قرآن اس کی تردید کرتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے متعلق عیسائیوں کا جو عقیدہ ہے ، وہ مطابق واقعہ ہے ۔ اس لئے قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے ۔ لیکن ان معجزات کو دلیل بنا کر کچھ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو الوہیت کا حامل اور کچھ عیسائی ان کو الوہیت میں شریک قرار دیتے ہیں ، یہ بات بھی خلاف واقعہ ہے۔ اس لئے قرآن اس کی بھی تردید کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ وہ یہ معجزات اللہ تعالیٰ کی اجازت سے دکھاتے تھے ۔

اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِيْ عَلَيْكَ وَعَلٰي وَالِدَتِكَ  ۘ اِذْ اَيَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ  ۣ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا  ۚ وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ ۚ وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِاِذْنِيْ فَتَنْفُخُ فِيْهَا فَتَكُوْنُ طَيْرًۢا بِاِذْنِيْ وَتُبْرِئُ الْاَكْـمَهَ وَالْاَبْرَصَ بِاِذْنِيْ  ۚ وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِيْ   ۚ وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ    ١١٠؁
اِذْ [ جب ] قَالَ [ کہا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ [ اے عیسیٰ ابن مریم ] اذْكُرْ [ آپ یاد کریں ] نِعْمَتِيْ [ میری نعمت کو ] عَلَيْكَ [ آپ پر ] وَعَلٰي وَالِدَتِكَ ۘ [ اور آپ کی والدہ پر ] اِذْ [ جب ] اَيَّدْتُّكَ [ میں تقویت دی آپ کو] بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۣ [ روح القدس ]تُكَلِّمُ [ آپ کلام کرتے تھے ] النَّاسَ [ لوگوں سے] فِي الْمَهْدِ [ گہوارے میں ]وَكَهْلًا ۚ [ اور ادھیڑ عمری کی حالت میں ] وَاِذْ [ اور جب ] عَلَّمْتُكَ [ میں نے علم دیا آپ کو [ الْكِتٰبَ [ کتاب کا ] وَالْحِكْمَةَ [ اور حکمت کا ]وَالتَّوْرٰىةَ [ اور تورات کا ] وَالْاِنْجِيْلَ ۚ [ اور انجیل کا ] وَاِذْ [ اور جب ] تَخْلُقُ [ آپ بناتے تھے ] مِنَ الطِّيْنِ [ گارے سے ] كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ [ پرندوں کی شکل جیسا ] بِاِذْنِيْ [ میری اجازت سے ]فَتَنْفُخُ [ پھر آپ پھونکتے تھے ] فِيْهَا [ اس میں ] فَتَكُوْنُ [ تو وہ ہو جاتاتھا ] طَيْرًۢا [ اڑنے والا ] بِاِذْنِيْ [ میری اجازت سے ] وَتُبْرِئُ [ اور آپ شفاء دیتے تھے ] الْاَكْـمَهَ [ پیدائشی اندھے کو ] وَالْاَبْرَصَ [ اور کوڑھی کو ] بِاِذْنِيْ ۚ [ میری اجازت سے ] وَاِذْ [ اور جب ] تُخْرِجُ [ آپ نکالتے تھے] الْمَوْتٰى [ مردہ کو ] بِاِذْنِيْ ۚ [ میری اجازت سے ] وَاِذْ [ اور جب ] كَفَفْتُ [ میں نے روکا ] بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ بنی اسرائیل کو ] عَنْكَ [ آپ سے ] اِذْ [ اور جب ] جِئْتَهُمْ [ آپ لائے ان کے پاس ] بِالْبَيِّنٰتِ [ واضح (نشانیان )] فَقَالَ [ تو کہا ] [ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا] [ ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا ] مِنْهُمْ [ ان میں سے ] اِنْ [ نہیں ہے ] هٰذَآ [ یہ ] اِلَّا [ مگر ] سِحْرٌ مُّبِيْنٌ [ ایک کھلا جادو ]

وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ ۚ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ    ١١١؁
وَاِذْ [ اور جب ] اَوْحَيْتُ [ میں پوشیدہ پیغام بھیجا [ اِلَى الْحَوَارِيّٖنَ [ حواریوں کی طرف ] اَنْ [ کہ ] اٰمِنُوْا [ تم لوگ ! ایمان لاؤ ]بِيْ [ مجھ پر ] وَبِرَسُوْلِيْ ۚ [ اور میرے رسول پر ]قَالُوْٓا  [ تو انہوں نے کہا] اٰمَنَّا [ ہم ایمان لائے ] وَاشْهَدْ [ اور آپ گواہ رہیں ] بِاَنَّنَا [ اس پر کہ ہم ] مُسْلِمُوْنَ [ فرمابرداری کرنے والے ہیں ]

اِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيْعُ رَبُّكَ اَنْ يُّنَزِّلَ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ  ۭ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ    ١١٢؁
اِذْ [ جب ] قَالَ [ کہا ] الْحَوَارِيُّوْنَ [ حواریوں نے ] يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ [ اے عیسیٰ ابن مریم ] هَلْ [ کیا] يَسْتَطِيْعُ [ قدرت رکھتا ہے ] رَبُّكَ [ آپ کا رب ] اَنْ [ کہ ] يُّنَزِّلَ [ وہ اتارے ] عَلَيْنَا [ ہم پر ]مَاۗىِٕدَةً [ ایک چنا ہوا دسترخوان ] مِّنَ السَّمَاۗءِ ۭ [ آسمان سے]قَالَ [ انھوں نے کہا] اتَّقُوا اللّٰهَ [ اللہ کا خوف کرو] اِنْ [ اگر ] كُنْتُمْ [ تم لوگ ہو ] مُّؤْمِنِيْنَ [ مومن ]



م ی د (ض) ۔ میدا ۔ ہلنا ، لرزنا ۔ وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ [ اور اس نے ڈالے زمین میں کچھ لنگر یعنی پہاڑ کہ کہیں وہ نہ لرزے تم کو لے کر ]16: 15۔ مائدۃ ۔ اسم الفاعل مائد کا مؤنث ہے ۔ لرزنے والی ۔ پھر کھانا چنے ہوئے دسترخوان کے لئے آتا ہے کیونکہ اس میں چنی ہوئی خوراک مہمانوں کے درمیان ہلتی رہتی ہے ۔ آیت زیر مطالعہ ۔

ترکیب : ان پر عطف ہونے کی وجہ سے تطمئن ، نعلم اور نکون حالت نصب میں آئے ہیں ۔ تکون واحد مؤنث کا صیغہ ہے ۔ اس کا اسم میں شامل ھی کی ضمیر ہے جو مائدۃ کے لئے ہے ، جبکہ عیدا اور آیۃ اس کی خبریں ہیں ۔ عذابا نکرہ مخصوصہ ہے۔

نوٹ: 1۔ مائدہ کے جس واقعہ کا ان آیات میں ذکر ہے اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جن شاگردوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے براہ راست تعلیم حاصل کی تھی ، وہ ان کو ایک انسان اور اللہ کا بندہ سمجھتے تھے، اور ان کے وہم وگمان میں بھی اپنے مرشد کے خدایا شریک خدایا فرزند خدا ہونے کا تصور نہیں تھا ۔ نیز یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود بھی اپنے آپ کو ان کے سامنے ایک بندہ بےاختیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا ۔ (تفہیم القرآن )

قَالُوْا نُرِيْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُنَا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُوْنَ عَلَيْهَا مِنَ الشّٰهِدِيْنَ    ١١٣؁
قَالُوْا [ انھوں نے کہا]نُرِيْدُ [ ہم چاہتے ہیں ] اَنْ [ کہ ] نَّاْكُلَ [ ہم کھائیں ] مِنْهَا [ اس میں سے ] وَتَطْمَىِٕنَّ [ اور مطمئن ہوں ] قُلُوْبُنَا [ ہمارے دل ] وَنَعْلَمَ [ اور ہم جان لیں ] اَنْ [ کہ ] قَدْ صَدَقْتَنَا [ آپ نے سچ کہا ہے ہم سے] وَنَكُوْنَ [ اور ہم ہو جائیں ] عَلَيْهَا [ اس پر ] مِنَ الشّٰهِدِيْنَ [ گواہی دینے والوں میں سے ]

قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰيَةً مِّنْكَ ۚ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ    ١١٤؁
قَالَ [ کہا ] عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ [ عیسیٰ ابن مریم نے] اللّٰهُمَّ [ اے اللہ ] رَبَّنَآ [ اے ہمارے رب ] اَنْزِلْ [ تواتار] عَلَيْنَا [ ہم پر ] مَاۗىِٕدَةً [ ایک چنا ہوا دسترخوان ] مِّنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے] تَكُوْنُ [ وہ ہوجائے گا ] لَنَا [ ہمارے لیے ] عِيْدًا [ خوشی کا دن ] لِّاَوَّلِنَا [ ہمارے پہلوں کے لئے ] وَاٰخِرِنَا [ اور ہمارے پچھلوں کے لئے ] وَاٰيَةً [ اور ایک نشانی ] مِّنْكَ ۚ [ تیری طرف سے ] وَارْزُقْنَا [ اور تو عطا کرہم کو ] وَاَنْتَ [ اور تو ] خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ [ سب سے بہتر عطا کرنے والا ہے ]

قَالَ اللّٰهُ اِنِّىْ مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُهٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ    ١١٥؀ۧ
قَالَ [ کہا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] اِنِّىْ [ کہ میں ] مُنَزِّلُهَا [ اتارنے والا ہوں اس کو ] عَلَيْكُمْ ۚ [ تم لوگوں پر ] فَمَنْ [ پھر جو ]يَّكْفُرْ [ ناشکری کرے گا ] بَعْدُ [ بعد میں ] مِنْكُمْ [ تم میں سے ] فَاِنِّىْٓ [ تو یقینا میں ] اُعَذِّبُهٗ [ عذاب دوں گا اس کو ]عَذَابًا [ ایک ایسا عذاب ] لَّآ اُعَذِّبُهٗٓ [ (کہ ) میں عذاب نہیں دونگا ویسا ]اَحَدًا [ کسی ایک کو (بھی ) ] مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام عالموں میں سے ]

وَاِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ ۤ بِحَقٍّ  ڲ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ  ۭ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ    ١١٦؁
وَاِذْ [ اور جب]قَالَ [ کہا ] اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ [ اللہ نے اے عیسیٰ ابن مریم ] ءَ [ کیا] اَنْتَ [ آپ نے] قُلْتَ [ کہا تھا ] لِلنَّاسِ [ لوگوں سے] اتَّخِذُوْنِيْ [ تم لوگ بنا لو مجھ کو ] وَاُمِّيَ [ اور میری والدہ کو ] اِلٰــهَيْنِ [ دوالہ ] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے علاوہ ] قَالَ [ انھوں نے کہا ] سُبْحٰنَكَ [ تیری پاکیزگی ہے] مَا يَكُوْنُ [ نہیں تھا ] لِيْٓ [ میرے لئے ] اَنْ [ کہ ] اَقُوْلَ [ میں کہوں] مَا [ اس کو] لَيْسَ [ نہیں ہے جس کا ] لِيْ ۤ [ مجھے ]بِحَقٍّ ڲ [ کوئی حق ] اِنْ [ اگر ] كُنْتُ قُلْتُهٗ [ میں نے کہا ہوتا اسے] فَقَدْ [ تو یقینا ] عَلِمْتَهٗ ۭ [ تو نے جان لیا ہوتا اس کو ] تَعْلَمُ [ تو جانتا ہے ] مَا [ اس کو جو ] فِيْ نَفْسِيْ [ میرے جی میں ہے ] وَلَآ اَعْلَمُ [ اور میں نہیں جانتا ] مَا [ اس کو جو ] فِيْ نَفْسِكَ ۭ [ تیرے جی میں ہے] ااِنَّكَ اَنْتَ [ بیشک تو ہی ] عَلَّامُ الْغُيُوْبِ [ تمام غیبوں کا خوب جاننے والا ہے ]



ترکیب : ان اقول کا مفعول ما ہے ۔ لیس کا اسم اس میں ھو کی ضمیر ہے جو ما عائد بھی ہے اور بحق اس کی خبر ہے ۔ یوم مضاف ہے اور آگے کا پورا جملہ ینفع الصدقین صدقہم اس کا مضاف الیہ ہے ۔ ان ترکیب کا اردو میں ترجمہ کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے یوم کا ترجمہ ھذا کی خبر کے لحاظ سے کیا جائے گا ۔



نوٹ:1 ۔ عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ صرف عیسیٰ علیہ السلام اور روح القدس ہی کو خدا بنانے پر اکتفا نہیں بلکہ بی بی مریم کو بھی ایک مستقل معبود بنا ڈالا ۔ بی بی مریم کی الوہیت یا قد وسیت کے متعلق کوئی اشارہ تک بائبل میں موجود نہیں ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ابتدائی تین سو برس تک عیسائی دنیا اس تخیل سے بالکل ناآشنا تھی ۔ تیسری صدی عیسوی کے آخری دور میں اسکندریہ کے بعض علماء دینیات نے پہلی مرتبہ بی بی مریم کے لئے ام اللہ ۔ یعنی مادر خدا کے الفاظ استعمال کئے ۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ الوہیت مریم کا عقیدہ اور مریم پرستی کا طریقہ عیسائیوں میں پھیلنا شروع ہوا ۔ ابتداء میں چرچ اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور مریم پرستوں کو فاسد العقیدہ قرار دیتا تھا ۔ پھر 431 ء میں منعقد ہونے والی کونسل میں پہلی مرتبہ کلیسا کی سرکاری زبان میں بی بی مریم کے لئے مادر خدا کا لقب استعمال کیا گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مریم پرستی کا جو مرض اب تک کلیسا کے باہر پھیل رہا تھا ، وہ کلیسا کے اندر بھی پھیلنے لگا ۔ حتی کہ نزول قرآن کے زمانے تک ان کے مجسمے جگہ جگہ کلیساؤں میں رکھے ہوئے تھے ۔ (تفہیم القرآن )

نوٹ : ۔ جنگ بدر کے بعد جنگی قیدیوں کے متعلق جب مشاورت ہوئی تو ایک طرف حضرت عمر (رض) کی رائے تھی کہ ان کو قتل کیا جائے ۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر (رض) کی رائے تھی کہ ان کو فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ شاید بعد میں ان میں سے کوئی ایمان لے آئے ۔ اس وقت رسول اللہ
نے ایک تقریر کی تھی جس میں آپ نے فرمایا کہ انسان مختلف طبیعت اور مزاج کے ہوتے ہیں ۔ انبیاء میں بھی کچھ سخت مزاج اور کچھ نرم مزاج تھے ۔ سخت مزاج انبیاء میں آپ نے حضرت نوح اور حضرت موسیٰ کی مثال دی تھی ۔ حضرت نوح نے دعا کی تھی کہ زمین پر کوئی بسنے والا بسنے والا کافر مت چھوڑ (71:21 تا 28) ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ فرعون کے مال ودولت کو نیست ونابود کردے (10:88) نرم مزاج انبیاء میں آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال دی تھی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ جو میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو پھر بھی تو غفور رحیم ہے (14:36) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا زیر مطالعہ آیت نمبر 118 میں ہے ۔ (حافظ احمد یار صاحب مرحوم کے ترجمہ قرآن کیسٹ سے ماخوذ)

نوٹ: 3۔ عام طور پر واقعہ کے مطابق بات کو سچ اور خلاف واقعہ بات کو جھوٹ کہا جاتا ہے لیکن قرآن وسنت سے معلوم ہوتا ہے کہ صدق اور کذب قول اور عمل دونوں کو شامل ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو آدمی علانیہ اچھی طرح نماز پڑھتا ہے اور وہ تنہائی میں بھی اسی طرح ادا کرتا ہے تو ایسے آدمی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرا سچ مچ بندہ ہے ۔ (مشکوۃ منقول از معارف القرآن )

مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِيْ بِهٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ  ۭواَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ    ١١٧؁
مَا قُلْتُ [ نہیں کہا میں نے]لَهُمْ [ ان سے] اِلَّا [ مگر ] مَآ [ وہی ] اَمَرْتَنِيْ [ تو نے حکم دیا مجھے] بِهٖٓ [ جس کا ] اَنِ [ کہ ] اعْبُدُوا [ تم لوگ بندگی کرو] اللّٰهَ [ اللہ کی ] رَبِّيْ [ جو میرا رب ہے] وَرَبَّكُمْ ۚ [ اور جو تمہارا رب ہے] وَكُنْتُ [ اور میں تھا ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ] شَهِيْدًا [ معائنہ کرنے والا ] مَّا دُمْتُ [ جب تک میں رہا ] فِيْهِمْ ۚ [ ان میں ] فَلَمَّا [ پھر جب ] تَوَفَّيْتَنِيْ [ تو نے لیے لیا مجھے] كُنْتَ اَنْتَ [ توتو ہی تھا ] الرَّقِيْبَ [ نگران ] عَلَيْهِمْ ۭ [ ان پر] واَنْتَ [ اور تو] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز کا ] شَهِيْدٌ [ معائنہ کرنے والا ہے ]

اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ    ١١٨؁
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ [ اگر تم عذاب دے ان کو ] فَاِنَّهُمْ [ تو بےشک یہ لوگ ] عِبَادُكَ ۚ [ تیرے بندے ہیں ] وَاِنْ تَغْفِرْلَهُمْ [ اور اگر تو بخش دے ان کو ] فَاِنَّكَ اَنْتَ [ تو بیشک تو ہی ] الْعَزِيْزُ [ بالا دست ہے] الْحَكِيْمُ [ حکمت والا ہے]

قَالَ اللّٰهُ هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ ۭ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا  ۭ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ    ١١٩؁
قَالَ اللّٰهُ [ کہا اللہ نے ] هٰذَا [ یہ ] يَوْمُ [ دن ہے] يَنْفَعُ [ (کہ ) نفع دے گا ] الصّٰدِقِيْنَ [ سچوں کو ] صِدْقُهُمْ ۭ [ ان کا سچ ] لَهُمْ [ انہی کے لیے ہے] جَنّٰتٌ [ ایسے باغات ہیں ] تَجْرِيْ [ بہتی ہیں ] مِنْ تَحْتِهَا [ جن کے دامن سے] الْاَنْھٰرُ [ نہریں ] خٰلِدِيْنَ [ ایک حالت میں رہنے والے ہیں ] فِيْهَآ [ اس میں ] اَبَدًا ۭ [ ہمیشہ ] رَضِيَ [ راضی ہوا ] اللّٰهُ [ اللہ ] عَنْهُمْ [ ان سے ] وَرَضُوْا [ اور وہ راضی ہوئے] عَنْهُ ۭ [ اس سے ] ذٰلِكَ [ یہ ] الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ [ عظیم کامیابی ہے ]

لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِيْهِنَّ  ۭ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ    ١٢٠؀ۧ
لِلّٰهِ [ اللہ کے لئے ہی ہے ] مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [ زمین اور آسمان کی سلطنت ] وَمَا [ اور اس کی جو ] فِيْهِنَّ ۭ [ ان میں ہے ] وَهُوَ [ اور وہ ] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز پر ] قَدِيْرٌ [ قدرت رکھنے والا ہے ]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ڛ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ    Ǻ۝
اَلْحَمْدُ [ تمام تعریف اور شکر ] لِلّٰهِ الَّذِيْ [ اس اللہ کے لئے ہے جس نے] خَلَقَ [ پیدا کئے] السَّمٰوٰتِ [ آسمان ] وَالْاَرْضَ [ اور زمین ] وَجَعَلَ [ اور بنائے ] الظُّلُمٰتِ [ اندھیرے ] وَالنُّوْرَ [ اور نور] ثُمَّ [ پھر (بھی ) ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] كَفَرُوْا [ کفر کیا ] بِرَبِّهِمْ [ اپنے رب کے ] یيَعْدِلُوْنَ [ برابر کرتے ہیں ]



م ک ن : (ک) مکانۃ (1) رتبہ والا ہونا ، معزز ہونا ۔ (2) جما ہونا ، بااختیار ہونا۔ مکین ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے ۔ (1) رتبہ والا ، معزز ۔ (2) جما ہوا ، اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ ۔ [ بیشک تو آج سے ہمارے پاس امانتدار معزز ہے ]12:54۔ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ [ پھر ہم نے بنایا اس کو ایک نطفہ ایک مضبوط ٹھکانے میں] 23:13۔ (افعال) امکانا ۔ کسی کو کسی کے اختیار میں دینا ، قابو میں دینا ۔ فَقَدْ خَانُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْكَنَ مِنْهُمْ [ تو وہ لوگ خیانت کرچکے ہیں اللہ سے اس سے پہلے نتیجتا اس نے تمہارے قابو میں دیا ان میں سے کچھ کو] 8:71۔ (تفعیل ) تمکینا ۔ کسی کو اختیار دینا ، جما دینا ، وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۗءُ [ اور اس طرح ہم نے اختیار دیا یوسف کو زمین میں ، وہ ٹھکانہ بناتا ہے اس میں جہاں بھی چاہے ]12:56۔

درر (ض) درا۔ اہل دنیا پر دنیا کی فراوانی ہونا ۔ مدرار ۔ مبالغہ ہے ۔ بہت فراواں ہونے والا ، لگا تار برسنے ، والاآیت زیر مطالعہ ۔ مدرار ۔ مبالغہ ہے ۔ بہت فراواں ہونے والا ۔ لگا تار برسنے والا آیت زیر مطالعہ ۔ (س) ، درا ۔ بیماری کے بعد چہرے پر رونق آجانا ، چمکدار ہونا ۔ دری ۔ اسم نسبت ہے ۔ چمکنے والا ، چمکدار ۔كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ گویا کہ وہ ایک چمکدار ستارہ ہے ] 24:35۔ ن ش ء ۔ (ف)، نشأء ۔ کسی چیز کا نمایاں ہوکرسانے آنا ، اگنا ، اٹھنا ۔ نشاۃ ۔ اسم ذات ہے ۔ نمو، اٹھان ۔ ثُمَّ اللّٰهُ يُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ [ پھر اللہ اٹھائے گا آخری اٹھان ]29:20۔ ناشئۃ ۔ اسم الفاعل ہے ۔ اٹھنے والی ۔ اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ وَطْـاً [ بیشک رات کی اٹھنے والی یعنی تہجد کی نماز ، یہ زیادہ سخت ہے بلحاظ روندنے کے ] 73:6۔ (افعال ) انشاء (1) اٹھانا ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ (2) اگانا (3) بنانا ۔ وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ [ اور وہ ہے جس نے اگائے چھپر ڈالے ہوئے باغات ]6:141۔ وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ [ اور وہ ہے جس نے بنایا تمہارے لئے سماعت اور بصارت اور دل ]23:78۔ منشو ۔ اسم الفاعل ہے ۔ اگانے والا ۔ ءَاَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــُٔوْنَ [ کیا تم لوگوں نے اگایا اس کے درخت کو یہ ہم اگانے والے ہیں ] 56:72۔ (تفعیل ) تنشیئا ۔ پرورش کرنا ، پالنا ۔ اَوَمَنْ يُّنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ تو کیا وہ ، جو پرورش کیا گیا زبور میں ] 43:18۔

ترکیب: الحمد پر لام جنس ہے۔ بربہم کو کفروا کا مفعول بھی مانا جاسکتا ہے ۔ اس صورت میں یعدلون کا مفعول محذوف مانا جائے گا ۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ کفروا کا مفعول محذوف مانا جائے اور بربہم کو یعدلون کا مفعول مانا جائے ۔ وما تاتیہم میں تاتی واحد مونث کا صیغہ ہے ، اس کا فاعل ایۃ تھا جس پر من تبعیضیہ لگنے کی وجہ سے ایۃ ہوا ہے ۔ یاتیہم کا فاعل انبوا ہے اور یہ مضاف ہے، اس کا مضاف الیہ ما ہے ۔ قرن نکرہ مخصوصہ ہے ۔ قرنا اسم الجمع ہے ۔ اس لئے اس کی صفت اخرین جمع آئی ہے ۔

]

نوٹ: ۔ یہ پوری سورہ مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی اور جس رات یہ نازل ہوئی اسی رات رسول کریم
نے اسے قلمبند کرا دیا ۔ اس کے مخاطب اول مشرکین عرب تھے جو یہ تسلیم کرتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور اسی نے آفتاب وماہتاب کو وجود بخشا ہے ۔ ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ کام لات ، ہابیل ، یا عزی یا کسی اور دیوی یا دیوتا کا ہے ۔ اس لئے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ جب تم خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہو تو پھر دوسرے کے سامنے کیوں سجدے کرتے ہو، دعائیں مانگتے ہو اور نذر ونیاز پیش کرتے ہو۔ (تفہیم القرآن )

نوٹ: 2۔ زیرمطالعہ آیت نمبر 5 میں عنقریب خبریں پہنچنے کی جو بات کی گئی ہے اس میں ہجرت اور ان کامیابیوں کی طرف اشارہ ہے جو ہجرت کے بعد پے درپے اسلام کو حاصل ہونے والی تھیں ۔ جس وقت یہ اشارہ فرمایا گیا تھا اس وقت نہ کفار یہ گمان کرسکتے تھے کہ کس قسم کی خبریں انھیں پہنچنے والی ہیں اور نہ مسلمانوں کے ہی ذہن میں اس کا کوئی تصور تھا ۔ (تفہیم القرآن )

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا  ۭ وَاَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ   Ą۝
هُوَ [ وہ ، ] الَّذِيْ [ وہ ہے جس نے] خَلَقَكُمْ [ تم لوگوں کو پیدا کیا ] مِّنْ طِيْنٍ [ ایک گارے سے ] ثُمَّ [ پھر ] قَضٰٓى [ اس نے فیصلہ کیا ] اَجَلًا ۭ [ ایک مدت کا ] وَاَجَلٌ مُّسَمًّى [ اور کوئی معین وقت ] عِنْدَهٗ [ اس کے پاس ہے] ثُمَّ [ پھر (بھی ) ] اَنْتُمْ [ تم لوگ ] تَمْتَرُوْنَ [ شک کرتے ہو ]

وَهُوَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْاَرْضِ  ۭ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ  Ǽ۝
وَهُوَ [ اور وہی ] اللّٰهُ [ الہ ہے] فِي السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں میں ] وَفِي الْاَرْضِ ۭ [ اور زمین میں ] يَعْلَمُ [ وہ جانتا ہے ] سِرَّكُمْ [ تمہارے چھپانے کو ] وَجَهْرَكُمْ [ اور تمھارے نمایاں کرنے کو ] وَيَعْلَمُ [ اور وہ جانتا ہے ] مَا [ اس کو جو ] تَكْسِبُوْنَ [ تم لوگ کمائی کرتے ہو ]

وَمَا تَاْتِيْهِمْ مِّنْ اٰيَةٍ مِّنْ اٰيٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِيْنَ    Ć؁
وَمَاتَاْتِيْهِمْ [ اور نہیں پہنچتی ان کے پاس ] مِّنْ اٰيَةٍ [ کسی قسم کی کوئی نشانی ]مِّنْ اٰيٰتِ رَبِّهِمْ [ ان کے رب کی نشانیوں میں سے ] اِلَّا [ مگر ] كَانُوْا [ وہ لوگ ہوتے ہیں ] عَنْهَا [ اس سے ] مُعْرِضِيْنَ [ اعراض کرنے والے ]

فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَهُمْ ۭ فَسَوْفَ يَاْتِيْهِمْ اَنْۢبٰۗـؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ   Ĉ۝
فَقَدْ كَذَّبُوْا [ تو وہ لوگ جھٹلاچکے ہیں ] بِالْحَقِّ [ حق کو ] لَمَّا [ جب ] جَاۗءَهُمْ ۭ [ وہ آیا ان کے پاس ] فَسَوْفَ [ تو عنقریب ] يَاْتِيْهِمْ [ پہنچیں گی ان کے پاس] اَنْۢبٰۗـؤُا مَا [ اس کی خبریں ] كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ [ جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے ]

اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَّكُمْ وَاَرْسَلْنَا السَّمَاۗءَ عَلَيْهِمْ مِّدْرَارًا  ۠ وَّجَعَلْنَا الْاَنْھٰرَ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمْ فَاَهْلَكْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ وَاَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ   Č۝
اَ [ کیا ] لَمْ يَرَوْا [ انھوں نے دیکھا ہی نہیں ] كَمْ اَهْلَكْنَا [ ہم نے کتنی ہی ہلاک کیں ] مِنْ قَبْلِهِمْ [ ان سے پہلے ] مِّنْ قَرْنٍ [ ایسی قوموں میں سے ] مَّكَّنّٰهُمْ [ ہم نے اختیار دیا جن کو ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] مَا [ ایسا جو ] لَمْ نُمَكِّنْ [ اختیار ہم نے نہیں دیا ] لَّكُمْ [ تم لوگوں کو ] وَاَرْسَلْنَا [ اور ہم نے بھیجا] السَّمَاۗءَ [ آسمان کو ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ] مِّدْرَارًا ۠ [ لگاتار برستے ہوئے ] وَّجَعَلْنَا [ اور ہم نے بنائیں ] الْاَنْھٰرَ [ نہریں ] تَجْرِيْ [ وہ بہتیں تھیں ] مِنْ تَحْتِهِمْ [ ان کے نیچے ] فَاَهْلَكْنٰهُمْ [ پھر ہم نے ہلاک کیا ان کو ] بِذُنُوْبِهِمْ [ ان کے گناہوں کے سبب ] وَاَنْشَاْنَا [ اور ہم نے اٹھائیں ] مِنْۢ بَعْدِهِمْ [ ان کے بعد] قَرْنًا اٰخَرِيْنَ [ کچھ دوسری قومیں]

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا فِيْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَيْدِيْهِمْ لَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ   Ċ۝
وَلَوْ [ اور اگر] نَزَّلْنَا [ ہم اتارتے] عَلَيْكَ [ آپ پر ] كِتٰبًا [ کوئی کتاب] فِيْ قِرْطَاسٍ [ کسی ورق میں (لکھی ہوئی ) ] فَلَمَسُوْهُ [ پھر وہ چھوتے اس کو ] بِاَيْدِيْهِمْ [ اپنے ہاتھوں سے ] لَقَالَ [ تو ضرور کہتے ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] كَفَرُوْٓا [ کفر کیا ] اِنْ [ نہیں ہے ] هٰذَآ [ یہ ]اِلَّا [ مگر ] سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ [ ایک کھلا جادو ]



ق ر ط س (رباعی ) ۔ قرطاسا ۔ نشانے پر پہنچنا ۔ قرطاس ۔ ج ، قراطیس ۔ اسم ذات ہے ۔ ہر وہ چیز جس پر لکھا جائے ، کاغذ ، ورق ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ اور تجعلونہ ۔ قراطیس [ تم لوگ بناتے ہو اس کے اوراق یعنی میں نقل کر رکھا ہے ] 6:91۔

ح ی ق (ض) حیقا ۔ کسی چیز کو گھیرے میں لینا ، چھاجانا ۔ آیت زیر مطالعہ ۔

ترکیب : فلمسوہ کی ضمیر مفعولی کو کتابا کے لئے مانیں یاقرطاس کے لئے ، مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ولو جعلنہ کی ضمیر مفعولی رسولا کے لئے ہے جو علیک کے حوالے سے ہے ۔ ماکانوا بہ یستھزء ون ، یہ پورا جملہ فحاق کا فاعل ہے جبکہ بالذین سخروا منہم اس کا مفعول ہے ۔ منہم کی ضمیر برسل کے لئے ہے ۔ عاقبۃ مؤنث غیر حقیقی ہے اس کئے کانت کے بجائے کان بھی جائز ہے ۔

نوٹ:1۔ علم الیقین کی اہمیت پر آیت نمبر 2:55 کے نوٹ ۔ 3 میں اور آیت نمبر 2:118 کے نوٹ 3 میں بات ہو چکی ہے ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ پہلے آپ ان کو پڑھ لیں، اس کے بعد مندرجہ ذیل نوٹ پڑھیں جو ہم تفہیم القرآن سے نقل کررہے ہیں ۔ زیرمطالعہ آیت نمبر 8 میں فرمایا کہ اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے پھر سارے معاملے کا فیصلہ کردیا جاتا اور ان کو پھر کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلینے کے لئے جو مہلت تمہیں ملی ہوئی ہے یہ اس وقت تکہے جب تک حقیقت پردہ غیب میں پوشیدہ ہے ۔ ورنہ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا، پھر مہلت کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا ۔ کیونکہ اس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی رہ جائے گا ۔ دنیا کی زندگی ایک امتحان کا زمانہ ہے اور امتحان اس بات کا ہے کہ تم حقیقت کو دیکھے بغیر ، عقل وفکر کے صحیح استعمال سے ، اس کا ادراک کرتے ہو یا نہیں ۔ اور ادراک کرنے کے بعد اپنے نفس اور اس کی خواہشات کو قابو میں لاکر اپنے عمل کو حقیقت کے مطابق درست رکھتے ہو یا نہیں ۔ اس امتحان کے لئے غیب کا غیب رہنا شرط لازم ہے اور دنیوی زندگی ، جو دراصل مہلت امتحان ہے ، اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک غیب غیب ہے ۔ جہاں غیب شہادت میں تبدیل ہوا، یہ مہلت لازم ختم ہوجائے گی اور امتحان کے بجائے نتیجہ امتحان نکلنے کا وقت آپہنچے گا ۔

وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ  ۭ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ   Ď۝
وَقَالُوْا [ اور انھوں نے کہا ] لَوْلَآ [ کیوں نہیں ] اُنْزِلَ [ اتارا گیا ] عَلَيْهِ [ ان پر ] مَلَكٌ ۭ [ کوئی فرشتہ ] وَلَوْ [ اور اگر ]اَنْزَلْنَا [ ہم اتارتے ] مَلَكًا [ کوئی فرشتہ ] لَّقُضِيَ [ تو فیصلہ کردیا جاتا ] الْاَمْرُ [ تمام کاموں کا ] ثُمَّ [ پھر ] لَا يُنْظَرُوْنَ [ وہ لوگ مہلت نہ دیئے جاتے ]

وَلَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّلَـلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَّا يَلْبِسُوْنَ    ۝
وَلَوْ [ اور اگر ] جَعَلْنٰهُ [ ہم بناتے اس (رسول ) کو ] مَلَكًا [ ایک فرشتہ ] لَّجَعَلْنٰهُ [ توہم بناتے اس کو ] رَجُلًا [ ایک مرد] وَّلَـلَبَسْنَا [ اور ہم ضرور مشتبہ کرتے ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ] مَّا [ اس کو جو] يَلْبِسُوْنَ [ یہ لوگ شک کرتے ہیں ]

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِيْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ     10 ؀ۧ
وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ [ اور بیشک مذاق اڑایا گیا ہے ] بِرُسُلٍ [ رسولوں کا ] مِّنْ قَبْلِكَ [ آپ سے پہلے ] فَحَاقَ [ تو گھیرے میں لے لیا ] بِالَّذِيْنَ [ ان کو جنھوں نے ] سَخِرُوْا [ تمسخر کیا ] مِنْهُمْ [ ان سے ] مَّا [ اس نے ] كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ [ جو یہ لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے ]

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ     11۝
قُلْ [ آپ کہہ دیجئے ] سِيْرُوْا [ تم لوگ چلو پھرو ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] ثُمَّ انْظُرُوْا [ پھر دیکھو ] كَيْفَ [ کیسا ] كَانَ [ تھا ] عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ [ جھٹلانے والوں کا انجام ]

قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ قُلْ لِّلّٰهِۭ كَتَبَ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ  ۭلَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ  ۭاَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ    12؀
قُلْ [ آپ کہہ] لِّمَنْ [ کس کا ہے ] مَّا [ وہ جو ] فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ] زمین اور آسمانوں میں ہے] قُلْ [ آپ کہئے ]لِّلّٰهِۭ [ اللہ کا ہے ] كَتَبَ [ اس نے لکھا ] عَلٰي نَفْسِهِ [ اپنے آپ پر ] الرَّحْمَةَ ۭ [ رحمت کو ] لَيَجْمَعَنَّكُمْ [ وہ لازما جمع کرے گا تم لوگوں کو ] اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ [ قیامت کے دن کی طرف ] لَا رَيْبَ [ کوئی بھی شک نہیں ہے ] فِيْهِ ۭ [ جس میں ] اَلَّذِيْنَ [ جنھوں نے ] خَسِرُوْٓا [ گھاٹے میں ڈالا ]اَنْفُسَهُمْ [ اپنے نفس کو ] فَهُمْ [ تو وہ لوگ] لَا يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان نہیں لاتے ہیں ]



ف ط ر : ۔ فطرا ۔ کسی چیز کو پھاڑ کر کسی چیز کو نکالنا ۔ (1) پھاڑنا ۔ (2) وجود میں لانا ۔ فَسَيَقُوْلُوْنَ مَنْ يُّعِيْدُنَا ۭ قُلِ الَّذِيْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ [ پھر وہ لوگ کہیں گے کون دوبارہ لائے گا ہم کو ۔ آپ
کہہ دیجئے وہ جس نے وجود بخشا تم لوگوں کو پہلی مرتبہ ] 17:51

فطرۃ ۔ اسم ذات ہے ۔ کسی وجود کو دی ہو طبعی استعداد ۔ ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ [ اللہ کی بخشی ہوئی وہ طبعی استعداد ، اس نے وجود بخشا لوگوں کو جس پر ] 30:30۔ فاطر ۔ اسم الفاعل ہے ۔ وجود میں لانے والا ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ فطر ، ج، فطور : اسم ذات بھی ہے ۔ پھٹن ، شگاف ۔ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ [ کیا تونکے دیکھے کسی قسم کے کوئی شگاف ]67:3۔ (تفعل) تفطرا۔ بتکف پھٹنا یعنی پھٹ پڑنا ۔ تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ [ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اس سے ] 19:90۔ (انفعال) انفطارا پھٹنا ۔ اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ [ جب آسمان پھٹے گا ]82:1 ۔ منفطر ، اسم الفاعل ہے ۔ پھٹنے والا ۔ السَّمَاۗءُ مُنْفَطِرٌۢ بِهٖ [ آسمان پھٹنے والا ہے اس سے ] 73:18۔

ک ش ف : (ض) کشفا۔ (1) کسی چیز سے پردہ اٹھانا ۔ (2) کھولنا۔ (3) ہٹانا ، دور کرنا ۔ فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا [ پھر جب اس نے دیکھا اس کو تو اس نے گمان کیا اس کو گہرا پانی اور اس نے پردہ اٹھایا اپنی دونوں پنڈلیوں سے ]27:44۔ لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ [ بےشک تو غفلت میں تھا اس سے تو ہم نے کھول دیا تجھ سے تیرے سرپوش کو ] 50:22۔ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ [ پھر جب ہم نے ہٹا دیا ان سے عذاب کو ] 43:50۔ اکشف ۔ فعل امر ہے ۔ تو کھول ، تو ہٹا ۔ رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ [ اے ہمارے رب تو دور کر ہم سے اس عذاب کو ] 44:12۔ کاشف ۔ اسم الفاعل ہے۔ کھولنے والا ، ہٹانے والا ۔ آیت زیر مطالعہ ۔

ق ہ ر : (ف) قھرا۔ کسی پر غلبہ پاکر ذلیل کرنا ۔ (1) غالب ہونا (2) ذلیل کرنا۔ فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ [ پس جو یتیم ہو تو ، ذلیل مت کر ] 93:9۔ قاھر ۔ فاعل کے وزن پر صفت ہے ۔ غالب ہونے والا یعنی غالب ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ قھار۔ فعال کے وزن پر صفت ہے ۔ بہت زیادہ غالب یعنی زبر دست ۔ وَّهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ [ اور وہ یکتا ہے ، زبردست ہے] 13:16۔

ترکیب: غیر اللہ میں غیر کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ اتخذکا مفعول اول ہے ولیا مفعول ثانی ہے ۔ فاطر کی جز بتا رہی ہے کہ یہ اللہ کا بدل ہے اور مضاف ہے جبکہ السموت والارض اس کا مضاف الیہ ہے ۔ اول بھی مضاف ہے اور من مضاف الیہ ہے ۔ اخاف کا مفعول عذاب یوم عظیم ہے اور یہ جملہ جواب شرط ہے ان عصیت ربی کا ۔ عنہ کی ضمیر عذاب کے لئے ہے ۔ رحمہ میں ضمیر فاعلی ھو ہے جو اللہ کے لئے ہے اور ضمیر مفعولی من کے لئے ہے ۔ نوٹ 1: زیرمطالعہ نمبر 17 میں اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر نفع اور نقصان کا مالک در حقیقت صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ ظاہر میں جو کسی کو کسی کے ہاتھ سے نفع یا نقصان پہنچتا نظر آتا ہے وہ صرف ایک ظاہری صورت ہے اور حقیقت کے سامنے ایک نقاب ہے، حقیقت یہی ہے کہ اللہ جو دے دے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو روک لے تو کوئی دے نہیں سکتا (35:2) رسول اللہ
کا فرمان ہے کہ جب تم کوئی سوال کرو تو صرف اللہ سے سوال کرو اور مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ سے مدد مانگو ۔ اتنی واضح تعلیمات کے باوجود لوگ اس معاملہ میں بھٹکتے ہیں ۔ سارے خدائی اختیارات مخلوقات میں بانٹ دیئے ہیں اور مصیبت کے وقت اللہ کے بجائے مختلف ناموں کی دہائی دیتے ہیں اور انہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ (معارف القرآن)

نوٹ 2: مادہ ’’ ف ط ر ‘‘ کی لغت میں لفظ فطرۃ کی وضاحت میں ہم نے سورۃ الروم کی آیت نمبر 30 کا حوالہ دیا ہے اور فطرت اللہ کا ترجمہ ’’ اللہ کی فطرت ‘‘ کے بجائے ’’ اللہ کی بخشی ہوئی فطرت ‘‘ کیا ہے ۔ یہ ہمارے بزرگوں کے ترجمے کے مطابق ہے، صرف الفاظ کے انتخاب کا فرق ہے ۔ مثلا مولانا اشرف علی تھانوی کاترجمہ ہے ’’ اللہ کی دی ہوئی قابلیت ‘‘۔ مولانا احمد رضا خان کا ترجمہ ہے ’’ اللہ کی ڈالی ہوئی بنا‘‘ ۔ جبکہ حضرت شیخ الہند اور مفتی محمد شفیع کا ترجمہ ہے ’’ تراش اللہ کی ‘‘ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ عقیدہ اللہ جانے کہاں سے پھیل گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے (نعوذ باللہ من ذالک ) ۔ ایسے لوگوں کو شک ہے اور بعض کو تو یقین ہے، کہ اس آیت کے ترجمے میں ہمارے بزرگوں نے اپنی رائے کی رعایت کی ہے، جو کہ آیت کا حقیقی مفہوم نہیں ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ فطرت اللہ مرکب اضافی ہے اور اس کا صحیح ترجمہ ہے ’’ اللہ کی فطرت‘‘ اس لئے آیت کا مطلب ہے ’’ اللہ کی فطرت ‘‘ جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ‘‘۔ اس دلیل میں جو غلطی ہے اس کی وضاحت ضروری ہے ۔ اصولا یہ وضاحت ہمیں سورۃ الروم میں کرنی چاہئے تھی ، لیکن صورتحال یہ ہے کہ ان اسباق کو مرتب کرنے کا کام 28 اگست 1998 ء کو شروع کیا تھا اور آج 25 فروری 2003 ء کو ہم سورۃ الانعام کے آغاز میں ہیں ۔ اللہ جانے سورۃ الروم تک پہنچنا نصیب ہوگا یا نہیں ۔ اس لئے یہ قرض یہیں چکا دیا جائے تو بہتر ہے ۔

بات ذرا تلخ ہے لیکن بات یہی ہے کہ فعل ۔ فعلا ۔ فعلوا ۔ سے ۔ فعلنا تک چودہ صیغے پڑھ لینے سے ہمارے چودہ طبق تو روشن ہوجاتے ہیں لیکن اس چکا چوند کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اب ہم اپنے بزرگوں سے زیادہ قابل ہوگئے ہیں اور اب ہم قرآن کو ان سے زیادہ سمجھنے لگے ہیں ۔ آسان عربی گرامر ، حصہ سوم کے آخری باب ’’ سبق الاسباق ‘‘ میں اسی خطرے کی نشاندہی کی جاچکی ہے ۔ طلباء کو چاہئے کہ کبھی کبھی وہ اس کا مطالعہ کرتے رہیں ۔

مذکورہ دلیل میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے مرکب اضافی کا صحیح ترجمہ کرنا تو سیکھ لیا ہے لیکن مرکب اضافی کا صحیح مفہوم ابھی تک ان کے ذہن میں اجاگر نہیں ہوا ہے۔ ہم کہتے ہیں زید کا قلم ، زید کی کتاب ۔ یہ مرکب اضافی تو ہے ۔ لیکن مرکب اضافی کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ قلم اور کتاب زید کی ذات کا جز ہیں ۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ قلم اور کتاب کو زید کی ذات کے ساتھ ایک نسبت ہے اور ان مرکبات میں ملکیت کی نسبت کا مفہوم ہے ۔ زید کا بھائی ، زید کی بہن ، ان مرکبات اضافی میں رشتوں کی نسبت کامفہوم ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے ۔ اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ [ بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں ] 19:30۔ وَاَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ [ اور اللہ کی زمین وسیع ہے ] 39:10۔ اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَةٌ [ بیشک میری زمین وسیع ہے ] 29:56۔ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ [ اور میں پھونک دوں اس میں اپنی روح میں سے ]15:29۔ ان میں بندہ ، زمین یا روح ، کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کی ذات کا جز نہیں ہے۔ ان مرکبات اضافی کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے ایک نسبت ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ چیزیں اس کی تخلیق کردہ ہیں ، اس لئے اس کی ملکیت ہیں ، اسی طرح اس کائنات کی ہر چیز کا وجود اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے اور ہر وجود کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی ہے ۔ اس لئے ان سب کو اللہ تعالیٰ سے ایک نسبت ہے، تخلیق ہونے کی اور ملکیت ہونے کی ، کوئی بھی چیز اس کی ذات کا جز نہیں ہے۔ لیس کمثلہ شی ء [ اس کے جیسی کوئی بھی چیز نہیں ہے ]42:11۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک جو لوگ اپنے عقیدے کی تصدیق کے لئے اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں انھیں نوٹ کرنا چاہیے کہ یہ آیت کا ایک ٹکڑا ہے ۔ اس کو پوری آیت میں رکھ کر اگر غور کریں گے تو انہیں سوچنا پڑے گا کہ لفظ فطرت اللہ [ حالت رفع] کے بجائے فطرت اللہ [ حالت نصب ] میں کیوں ہے ۔ اس کی وجہ سمجھنے کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ آیت کا وہ مطلب نہیں ہے جس کے وہ مدعی ہیں اور ہمارے بزرگوں نے ترجمہ میں اپنے عقیدے کی رعایت نہیں کی ہے بلکہ ’’ پڑھے کم ، بولے زیادہ ‘‘ قسم کے لوگوں کی رعایت کی ہے تاکہ ان کا عقیدہ قرآن کے مطابق رہے۔ اس حوالے سے اب یہ موتی گرہ میں باندھ لیں کہ قرآن مجید پر غور وفکر کرتے ہوئے بزرگوں کی کوئی بات اگر سمجھ میں نہ آئے تو اس کا صرف ایک مطلب ہے کہ ہماری اپنی سوجھ بوجھ ابھی خام ہے۔ البتہ بزرگوں کی عقیدت ومحبت سے اس کو اگر ہم ذرا نم کرلیں تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ۔

وَلَهٗ مَا سَكَنَ فِي الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۭ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ    13؀
وَلَهٗ [ اور اس کا ہی ہے ] مَا [ وہ جو ] سَكَنَ [ ٹھہرا ] فِي الَّيْلِ [ رات میں ] وَالنَّهَارِ ۭ [ اور دن میں ] وَهُوَ [ اور وہ ] السَّمِيْعُ [ ہر حال میں سننے والا ہے ] الْعَلِيْمُ [ ہرحال میں جاننے والا ہے ]

قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ۭ قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ    14؀
قُلْ [ آپ کہئے ]اَ [ کیا ] غَيْرَاللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ (کسی ) کو ] اَتَّخِذُ [ میں بناؤں] وَلِيًّا [ کارساز ] فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [ جو زمین اور آسمانوں کو وجود بخشنے والا ہے ] وَهُوَ [ اور وہ ] يُطْعِمُ [ کھلاتا ہے ] وَلَا يُطْعَمُ ۭ [ اور اس کو کھلایا نہیں جاتا ] قُلْ [ آپ کہئے ] اِنِّىْٓ [ کہ ] اُمِرْتُ [ مجھ کو حکم دیا گیا ] اَنْ [ کہ ] اَكُوْنَ [ میں ہوجاؤں ]اَوَّلَ مَنْ [ اس کا پہلا جو ] اَسْلَمَ [ فرمانبردارہوا ] وَ [ اور (یہ کہ )] لَا تَكُوْنَنَّ [ تم ہرگز مت ہونا ] مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ [ شرک کرنے والوں میں سے ]

قُلْ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ   15؀
قُلْ [ آپ کہئے ] اِنِّىْٓ [ کہ ] اَخَافُ [ میں ڈرتا ہوں] اِنْ [ اگر ] عَصَيْتُ [ میں نافرمانی کروں] رَبِّيْ [ اپنے رب کی ] عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ [ ایک عظیم دن کی عذاب سے]

مَنْ يُّصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمَهٗ  ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ    16؀
مَنْ [ جو ] يُّصْرَفْ [ ہٹا لیا گیا ] عَنْهُ [ اس سے ] يَوْمَىِٕذٍ [ اس دن ] فَقَدْ رَحِمَهٗ ۭ [ تو اس نے رحم کیا ہے اس پر ] وَذٰلِكَ [ اور یہ ] الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ [ کھلی کامیابی ہے ]

وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ   17؀
وَاِنْ [ اور اگر ] يَّمْسَسْكَ [ چھوئے تجھ کو ] اللّٰهُ [ اللہ ] بِضُرٍّ [ کسی تکلیف سے ] فَلَا كَاشِفَ [ تو کوئی بھی دور کرنے والا نہیں ہے ] لَهٗٓ [ اس کو ] اِلَّا [ مگر ] هُوَ ۭ [ وہی ] وَاِنْ [ اور اگر ] يَّمْسَسْكَ [ وہ چھوئے تجھ کو ] بِخَيْرٍ [ کسی بھلائی سے ] فَهُوَ [ تو وہ ] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز پر ] قَدِيْرٌ [ قدرت رکھنے والا ہے ]

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ  ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ   18؀
وَهُوَ [ اور وہ ] الْقَاهِرُ [ غالب ہے ] فَوْقَ عِبَادِهٖ ۭ [ اپنے بندوں پر ] وَهُوَ [ اور وہ ] الْحَكِيْمُ [ حکمت والا ہے ] الْخَبِيْرُ [ باخبر ہے]

قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً  ۭ قُلِ اللّٰهُ  ڐ شَهِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ  ۣوَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ  ۭ اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰي ۭ قُلْ لَّآ اَشْهَدُ ۚ قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِيْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ     19؀ۘ
قُلْ [ آپ کہئے ] اَيُّ شَيْءٍ [ کون سی چیز ] اَكْبَرُ [ سب سے بڑی ہے ] شَهَادَةً ۭ [ بطور گواہی کے ] قُلِ [ آپ کہئے] اللّٰهُ ڐ [ (کہ ) اللہ ] شَهِيْدٌۢ [ (وہ ) گواہ ہے ] بَيْنِيْ [ میری درمیان] وَبَيْنَكُمْ ۣ [ اور تمہارے درمیان ] وَاُوْحِيَ [ اور وحی کیا گیا ] اِلَيَّ [ میری طرف] هٰذَا الْقُرْاٰنُ [ اس قرآن کو ] لِاُنْذِرَكُمْ [ تاکہ میں وارننگ دوں تم لوگوں کو] بِهٖ [ اس سے] وَمَنْۢ [ اور اس کو جس کو ] بَلَغَ ۭ [ وہ پہنچے ]اَىِٕنَّكُمْ [ کیا واقعی تم لوگ]لَتَشْهَدُوْنَ [ سچ مچ گواہی دیتے ہو] اَنَّ [ کہ ] مَعَ اللّٰهِ [ اللہ کے ساتھ ] اٰلِهَةً اُخْرٰي ۭ [ کچھ دوسرے الہ (بھی ) ہیں ] قُلْ [ آپ کہئے ] لَّآ اَشْهَدُ ۚ [ میں گواہی نہیں دیتا ] قُلْ [ آپ کہئے ] اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] هُوَ [ وہ ] اِلٰهٌ وَّاحِدٌ [ واحد الہ ہے ]وَّاِنَّنِيْ [ اور یہ کہ میں ] بَرِيْۗءٌ [ بری ہوں ] مِّمَّا [ اس سے جو ] تُشْرِكُوْنَ (19) [ تم لوگ شرک کرتے ہو]



وضاحت اب آیات میں نئے الفاظ کی تعداد کم ہوگئی ہے، اس لئے آیات نقل نہیں کی جائیں گی ، بلکہ ان کے نمبروں کا حوالہ دے کر نئے لفظ کی لغت دی جائے گی ، اگر کوئی نیا لفظ ہوا تو ۔ اسی طرح اگر ضروری ہوا تو ترکیب کی وضاحت کی جائے گی ، ورنہ براہ راست ترجمہ دے کر نوٹس دئیے جائیں گے۔

ترکیب: مرکب اضافی ای شیء مبتدا ، اکبر ، خبر اور شھادۃ تمیز ہے ۔ شھید ، کو اللہ کی خبر بھی مانا جاسکتا ہے ۔ ایسی صورت میں ای شیء کا جواب محذوف مانا جائے گا ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ قل اللہ کو ای شیء کا جواب مانا جائے اور شھید بینی وبینکم کو الگ جملہ مانا جائے ۔ ایسی صورت میں شھید کا مبتدا ھو محذوف مانا جائے گا ۔ ترجمے میں ہم دوسری صورت کو ترجیح دیں گے ۔ ومن بلغ میں ۔ من ۔ گزشتہ لانذر کا بھی مفعول ہے اور بلغ کا بھی اور بلغ کی ضمیر فاعلی ھذ القرآن کے لئے ہے ۔ ان کا اسم الہۃ اخری ہے، اس کی خبر محذوف ہے اور مع اللہ قائم مقام خبر مقدم ہے (6:20) یعرفونہ میں شامل ضمیر فاعلی ہم الذین کے لیے ہے جب کہ ضمیر مفعولی کو ھذالقرآن کے لیے بھی مانا جاسکتا ہے ۔ اور قل کے مخاطب رسول اللہ
کے لئے بھی ۔ مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایک کی پہچان سے دوسرے کی پہچان لازمی ہے ۔ (6:21) انہ میں ضمیر الشان ہے ۔ (2:85، نوٹ 1)

نوٹ 1: زیر مطالعہ آیت نمبر 19 میں ہے کہ رسول اللہ
پر یہ قرآن مجید اس لئے وحی کیا گیا کہ آپ اس کے ذریعہ ان لوگوں کو بھی خبردار کریں جنھوں نے آپ سے ملاقات کی اور ان کو بھی خبردار کریں جنھوں نے ملاقات نہیں کی لیکن قرآن ان تک پہنچ گیا ۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ رسول اللہ آخری پیغمبر ہیں اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے ۔ قیامت تک اس کی تعلیم اور تلاوت باقی رہے گی اور لوگوں پر اس کا اتباع لازم رہے گا۔ (معارف القرآن ) رسول اللہ نے فرمایا کہ جس تک میرا قرآن پہنچا تو گویا میں نے خود تبلیغ کردی (ابن کثیر) اس پس منظر میں رسول اللہ کے اس حکم کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھنے کی کوشش کریں جس میں آپ نے فرمایا کہ تم لوگ میری طرف سے پہنچاؤ خواہ ایک ہی آیت ہو ۔

نوٹ 2: زیر مطالعہ آیت نمبر 23 میں کچھ لوگوں کا ذکر ہے جو قسم کھا جائیں گے کہ ہم شرک نہیں کرتے تھے ۔ ان کے لئے تفسیر بحر محیط اور مظہری میں ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو کھلے طور پر کسی کو خدا نہیں کہتے تھے مگر ان کا عمل یہ تھا کہ خدائی کے اختیارات مخلوق کو بانٹ رکھے تھے، انہی سے روزی ، صحت ، اولاد اور ساری مرادیں مانگا کرتے تھے اور انہی کے نام کی نذر ونیاز کرتے تھے اور اپنے آپ کو مشرک نہ سمجھتے تھے اس لئے میدان حشر میں بھی قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم مشرک نہ تھے (معارف القرآن )

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَهُمْ ۘ اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ    20؀ۧ
اَلَّذِيْنَ [ وہ لوگ ] اٰتَيْنٰهُمُ [ ہم نے دی جن کو ] الْكِتٰبَ [ کتاب] يَعْرِفُوْنَهٗ [ وہ پہچانتے ہیں اس کو ] كَمَا [ جیسا کہ ] يَعْرِفُوْنَ [ وہ پہچانتے ہیں] اَبْنَاۗءَهُمْ ۘ [ اپنے بیٹوں کو] اَلَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] خَسِرُوْٓا [ گھاٹے میں ڈالا] اَنْفُسَهُمْ [ اپنے نفوس کو] فَهُمْ [ تو وہ لوگ] لَا يُؤْمِنُوْنَ: ایمان نہیں لائیں گے]

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ  ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ    21؀
وَمَنْ [ اور کون] اَظْلَمُ [ زیادہ ظالم ہے ] مِمَّنِ [ اس سے جس نے ] افْتَرٰي [ گھڑا ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] كَذِبًا [ ایک جھوٹ ]اَوْ [ یا] كَذَّبَ [ جس نے جھٹلایا ] بِاٰيٰتِهٖ ۭ [ اس کی نشانیوں کو ] اِنَّهٗ [ بیشک حقیقت یہی ہے کہ] لَا يُفْلِحُ [ مراد نہیں پاتے ] الظّٰلِمُوْنَ (21) [ ظلم کرنے والے ]

وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَيْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ     22؀
وَيَوْمَ [ اور اس دن ] نَحْشُرُهُمْ [ ہم جمع کریں گے ان کو ] جَمِيْعًا [ سب کے سب کو] ثُمَّ [ پھر ] نَقُوْلُ [ ہم کہیں گے ] لِلَّذِيْنَ [ ان سے جنھوں نے ] اَشْرَكُوْٓا [ شرک کیا ] اَيْنَ [ کہاں ہیں ] شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِيْنَ [ تمہارے وہ شریک (کئے ہوئے ) لوگ جن کا] كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ (22) تم لوگ زعم کیا کرتے تھے ]

ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ   23؀
ثُمَّ [ پھر ] لَمْ تَكُنْ [ نہیں ہوگی ] فِتْنَتُهُمْ [ ان کی گمراہی ] اِلَّآ [ مگر ] اَنْ [ (یہ ) کہ ] قَالُوْا [ وہ کہیں گے ] وَاللّٰهِ [ اللہ کی قسم ] رَبِّنَا [ جو ہمارا رب ہے ] مَا كُنَّا [ ہم نہیں تھے ] مُشْرِكِيْنَ (23) [ شرک کرنے والے]

اُنْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ    24؀
اُنْظُرْ [ دیکھو] كَيْفَ [ کیسا ] كَذَبُوْا [ انہوں نے جھوٹ بولا] عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ [ اپنے آپ پر ] وَضَلَّ [ اور گمراہ (یعنی گم ہوا)] عَنْهُمْ [ ان سے] مَّا [ وہ جو ] كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ (24) [ وہ لوگ گھڑا کرتے تھے ]

وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُ اِلَيْكَ ۚ وَجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا ۭ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِهَا  ۭحَتّٰٓي  اِذَا جَاۗءُوْكَ يُجَادِلُوْنَكَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ   25؀
وَمِنْهُمْ مَّنْ [ اور ان میں وہ بھی ہیں جو ] يَّسْتَمِعُ [ کان لگاتے ہیں ] اِلَيْكَ ۚ [ آپ کی طرف] وَ [ حالانکہ ] جَعَلْنَا [ ہم نے بنائے ] عَلٰي قُلُوْبِهِمْ [ ان کے دلوں پر ] اَكِنَّةً [ کچھ پردے ] اَنْ [ کہ ] يَّفْقَهُوْهُ [ وہ (نہ ) سمجھیں اسکو ] وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ [ اور ان کے کانوں میں ] وَقْرًا ۭ [ ایک بوجھ]وَاِنْ [ اور اگر] يَّرَوْا [ وہ دیکھیں ] كُلَّ اٰيَةٍ [ ساری نشانی ] لَّا يُؤْمِنُوْا [ تب بھی ایمان نہیں لائیں گے ]بِهَا ۭ [ اس پر ] حَتّٰٓي [ یہاں تک کہ ] اِذَا [ جب بھی ] جَاۗءُوْكَ [ وہ آتے ہیں آپ کے پاس ] يُجَادِلُوْنَكَ [ تو بحث کرتے ہیں آپ سے ] يَقُوْلُ الَّذِيْنَ [ کہتے ہیں ان سے جنھوں نے ] كَفَرُوْٓا [ کفر کیا ] اِنْ [ نہیں ہے ] هٰذَآ [ یہ ] ااِلَّآ [ مگر ] ااَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ (25) [ پہلے لوگوں کے افسانے ]



و ق ر : (س) وقرا۔ بھرا ہوا ۔ بوجھل ہونا ۔ وقر۔ اور وقر۔۔ ہے ۔ بوجھ ، زیر مطالعہ آیت نمبر 25 ، اور فالحملت وقرا [ پھر بوجھ اٹھانے والیوں کی قسم ] 51:2۔ (ک) وقارۃ ۔ سنجیدہ اور متین ہونا ۔ باوقار ہونا۔ وقار ۔ اسم ذات ہے، سنجیدگی ، متانت ، عظمت ، مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا [ تمہیں کیا ہے کہ تم لوگ امید نہیں رکھتے اللہ سے عظمت کی ] 71:13۔ (تفعیل ) توقیرا ۔ کسی کی تعظیم کرنا ۔ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ ۭ [ تاکہ تم لوگ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور ان کی مدد کرو اور ان کی تعظیم کرو] 48:9۔

س ط ر : (ن) سطرا ۔ کسی چیز کی حفاظت کرنا ۔ کسی بات کو لکھنا (تاکہ محفوظ ہوجائے ) وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ [ قسم ہے قلم کی اور اس کی جو یہ لوگ لکھتے ہیں ] 68:1۔ مسطور۔ اسم المفعول ہے ۔ لکھا ہوا ۔ وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْر [ اور قسم ہے ایک لکھی ہوئی کتاب کی ] 52:2۔ مصیطر ۔ یہ دراصل مسیطر ہے ۔ ا سی لئے قرآن مجید میں اس کی ’’ ص‘‘ کے اوپر ایک چھوٹا سا ’’ س‘‘ لکھا ہوتا ہے ۔ حفاظت کرنے والا ۔ داروغہ ۔ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ [ آپ ان پر داروغہ نہیں ہیں ]88:22۔ (تفعیل ) تسطیرا ۔ بےبنیاد باتیں جمع کرنا ۔ فرضی کہانیاں یا قصے بنانا ۔ افسانہ یا ناول لکھنا ۔ اسطورۃ ۔ ج ، اساطیر، اسم ذات ہے ۔ فرضی کہانی ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر 25۔ (افتعال ) استطارا اہتمام سے لکھنا ۔ مستطر اسم المفعول ہے۔ لکھا ہوا ۔ وَكُلُّ صَغِيْرٍ وَّكَبِيْرٍ مُّسْـتَـطَر [ اور تمام چھوٹی بڑی چیزیں لکھی ہوئی ہیں ] 54:53۔

ن ء ی : (ف) نایا (1) کسی سے بچنا ۔ دور ہونا ۔ (2) کسی کو کسی سے بچانا ۔ موڑلینا ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر 26۔ وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَي الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ [ اور جب بھی ہم انعام کرتے ہیں انسان پر تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور موڑ لیتا ہے اپنے پہلو کو ] 17: 83۔

و ق ف : (ض) ۔ وقفا ، ٹھہرانا ، روکنا ، زیر مطالعہ آیت نمبر 27۔ قف ۔ فعل امر ہے ۔ تو ٹھہرا ۔ تو روک ۔ وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔـوْلُوْنَ [ اور تم لوگ ٹھہراؤان کو بیشک یہ لوگ پوچھے جانے والے ہیں ]37: 24۔ موقوف ۔ اسم المفعول ہے ۔ ٹھہرایا ہوا ۔ روکا ہوا۔ وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ښ [ اور اگر تو دیکھے جب ظالم لوگ روکے جانے والے ہوں گے اپنے رب کے پاس ] 34: 31۔

ب غ ت ۔ بغتا ، کسی چیز کا اچانک نمودار ہونا۔ بغتۃ ۔ حال ہے ۔ اچانک ۔ بےگمان ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر 31۔

ف ر ط : (ن) فروطا ۔ آگے بڑھنا ، حد سے گزرنا ، کسی پر زیادتی کرنا ۔ قَالَا رَبَّنَآ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ يَّفْرُطَ عَلَيْنَآ [ ہمیں خوف ہے کہ وہ زیادتی کرے ہم پر ] 20:45۔ فرطا۔ یہ بھی مصدر ہے ، کسی کام میں کوتاہی کرنا ۔ کمی کرنا ۔ فرطا۔ حال ہے ۔ حد سے گزرا ہوا ۔ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا [ اور تھا اس کا کام سے گزرا ہوا] 18:28۔ (افعال) افراطا ۔ حد سے گزارنا ، زیادہ کرنا ۔ مفرط ۔ اسم المفعول ہے ۔ زیادہ کیا ہوا ۔ ۭ لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَاَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ [ کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں کے لئے آگ ہے اور یہ کہ وہ لوگ زیادہ کئے جارہے ہیں ] 16:62۔ (تفعیل ) تفریطا ۔ مسلسل کوتاہی کرنا ۔ کمی کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر 31۔

وزر: (ض) وزرا ۔ (1) پہاڑ میں پناہ گاہ بنانا ۔ (2) کوئی بوجھل چیز اٹھانا ۔ زیرمطالعہ آیت نمبر 31 ۔ وزر ۔ (ج) اوزار۔ اسم ذات ہے ۔ بوجھ ۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي [ اور نہیں اٹھائے گی کوئی اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ ) 6:164۔ لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ تاکہ وہ لوگ اٹھائیں اپنے بوجھ پورے پورے قیامت کے دن اور ان کے بوجھ میں سے بھی وہ گمراہ کرتے تھے جن کو کسی علم کے بغیر ] 16:25۔ وزر ۔ اسم ذات ہے پناہ گاہ ۔كَلَّا لَا وَزَرَ [ ہرگز نہیں کوئی پناہ گاہ نہیں ہے ] 75:11۔ وازر۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے ہرحال میں ہمیشہ بوجھ بٹانے والا ، معاون ۔ وَجَعَلْنَا مَعَهٗٓ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِيْرًا [ اور ہم نے بنایا ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو ایک معاون ] 25:35۔

ل ھ و : (ف۔ ن) لھوا ۔ (1) مانوس ہونا ۔ پسند کرنا ۔ (2) کسی چیز سے غافل ہونا [ پسندیدہ چیز میں مشغول ہونے کے سبب سے] لاہ ۔ فاعل کے وزن پر صفت ہے ۔ غافل ہونے والا یعنی غافل ۔ لَاهِيَةً قُلُوْبُهُمْ [ غافل ہوتے ہوئے ان کے دل ] 21:3۔ لھو ۔ اسم ذات ہے ۔ ہر وہ چیز جس کا شغل کسی اہم کام سے غافل کردے ۔ تماشا ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر 32 ۔ (افعال ) الھاء ۔ کسی کو کسی چیز سے غافل کرنا ۔ تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ [ غافل نہیں کرتی ان کو تجارت اور ناہی خریدوفروخت اللہ کی یاد سے ] 24:37۔ (تفعل ) تلھی ۔ کسی سے غفلت برتنا ۔ فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى [ تو آپ نے اس سے غفلت برتی ] 80:10۔

ترکیب : اکنۃ اور وقرا ، یہ دونوں جعلنا کے مفعول ہیں ۔ (6:27) ولو تری شرطیہ ہے اس لئے اذ وقفوا اور فقالوا کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا ۔ یلیتنا حرف تمنا ہے ، نرد تمنا ہے لانکذب اور نکون واو صرف کی وجہ سے جواب تمنا ہیں ۔ حالت نصب میں ہیں ۔

نوٹ 1: زیر مطالعہ آیت نمبر 32 میں دنیا کی زندگی کو کھیل اور تماشا کہا گیا ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے ۔ دراصل اس کو کھیل اور تماشے سے اس لئے تشبیہ دی گئی ہے کہ یہاں حقیقت کے مخفی ہونے کی وجہ سے بےبصیرت اور ظاہر پرست انسانوں کے لیے غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کے بہت سے اسباب موجود ہیں، جن میں پھنس کر کچھ انسان ایسا عجیب طرز عمل اختیار کرتے ہیں کہ ان کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا بن کر رہ جاتی ہے ۔ (تفہیم القرآن )

رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے ذکر اللہ یا عالم یا طالب علم کے ۔ امام جزری رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح کے مطابق دنیا کا ہر وہ کام جو اللہ کی اطاعت میں کیا جائے وہ سب ذکر اللہ میں داخل ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کے سب ضروری کام جائز طریقے سے روزی کمانا اور دوسری ضروریات جو حدود شریعت سے باہر نہ ہوں ، وہ سب ذکر اللہ میں داخل ہیں ۔ احادیث میں اہل وعیال اقرباء احباب ، پڑوسی ، مہمان وغیرہ کے حقوق کی ادائیگی کو صدقہ اور عبادت سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ (معارف القرآن)

وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْــــَٔـوْنَ عَنْهُ ۚ وَاِنْ يُّهْلِكُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ   26؀
وَهُمْ [ اور وہ ] يَنْهَوْنَ [ روکتے ہیں ] عَنْهُ [ اس سے ] وَيَنْــــَٔـوْنَ [ اور دور ہوتے ہیں ] عَنْهُ ۚ [ اس سے] وَاِنْ [ اور نہیں ]يُّهْلِكُوْنَ [ ہلاک کرتے وہ ] اِلَّآ [ مگر ] اَنْفُسَهُمْ [ اپنے آپ کو ] وَ [ اس حال میں کہ ] مَا يَشْعُرُوْنَ (26) [ وہ شعور نہیں رکھتے]

وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ   27؀
وَلَوْ [ اور اگر ] تَرٰٓي [ تو دیکھے ]اِذْ [ جب ] وُقِفُوْا [ وہ لوگ ٹھہرائے جائیں گے] عَلَي النَّارِ [ آگ پر ] فَقَالُوْا [ تو کہیں گے] يٰلَيْتَنَا [ اے کاش ] نُرَدُّ [ ہم لوٹائے جاتے ] وَ [ اور ] لَا نُكَذِّبَ [ ہم نہ جھٹلاتے ] بِاٰيٰتِ رَبِّنَا [ اپنے رب کی نشانیوں کو ] وَ [ اور ] نَكُوْنَ [ ہم ہو جاتے ] مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (27) [ ایمان لانے والوں میں سے ]

بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا يُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ۭ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ   28؀
بَلْ [ بلکہ ] بَدَا [ نمایاں ہوا ]لَهُمْ [ ان کے لئے ] مَّا [ وہ جو] كَانُوْا يُخْفُوْنَ [ وہ لوگ چھپاتے تھے ] مِنْ قَبْلُ ۭ [ اس سے پہلے ] وَلَوْ [ اور اگر ] رُدُّوْا [ وہ لوٹائے جائیں ] لَعَادُوْا [ تو ضرور دوبارہ کریں گے ] لِمَا [ اس کو ] نُهُوْا [ انہیں روکا گیا ] عَنْهُ [ جس سے ] وَاِنَّهُمْ [ اور بےشک یہ لوگ ] لَكٰذِبُوْنَ [ یقینا جھوٹ کہنے والے ہیں ]

وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ    29؀
وَقَالُوْٓا [ اور انہوں نے کہا] اِنْ [ نہیں ہے ] هِىَ [ یہ ] اِلَّا [ مگر ] حَيَاتُنَا الدُّنْيَا [ ہماری دنیا کی زندگی ] وَمَا نَحْنُ [ اور نہیں ہیں ہم ] بِمَبْعُوْثِيْنَ اٹھائے جانے والے ]

وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلٰي رَبِّهِمْ  ۭقَالَ اَلَيْسَ هٰذَا بِالْحَقِّ ۭ قَالُوْا بَلٰى وَرَبِّنَا  ۭقَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ   30؀ۧ
وَلَوْتَرٰٓي [ اور اگر تو دیکھے ] اِذْ وُقِفُوْا [ جب وہ ٹھہرائے جائیں گے ] عَلٰي رَبِّهِمْ ۭ [ ان کے رب کے سامنے ] قَالَ [ وہ (یعنی رب ) کہے گا ] اَلَيْسَ هٰذَا [ کیا یہ نہیں ہے ] بِالْحَقِّ ۭ [ حق ] قَالُوْا [ وہ لوگ کہیں گے ] بَلٰى [ کیوں نہیں ] وَرَبِّنَا ۭ [ ہمارے رب کی قسم ہے ] قَالَ [ وہ کہے گا ] فَذُوْقُوا [ تو تم لوگ چکھو ] الْعَذَابَ [ عذاب کو ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ] كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ [ تم لوگ کفر کرتے تھے ]

قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللّٰهِ ۭ حَتّٰى اِذَا جَاۗءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا يٰحَسْرَتَنَا عَلٰي مَا فَرَّطْنَا فِيْهَا  ۙ وَهُمْ يَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰي ظُهُوْرِهِمْ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ    31؀
قَدْ خَسِرَ [ گھاٹے میں رہے ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] کذبوا [ جھٹلایا ] بِلِقَاۗءِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کی ملاقات کو ] حَتّٰى [ یہاں تک کہ ] اِذَا [ جب کبھی ] جَاۗءَتْهُمُ [ آتی ہے ان کے پاس ] السَّاعَةُ [ (موت کی ) گھڑی ] بَغْتَةً [ بےگمان] قَالُوْا [ تو کہتے ہیں ] يٰحَسْرَتَنَا [ ہائے ہماری حسرت ] عَلٰي مَا [ اس پر جو]فَرَّطْنَا [ ہم نے کوتاہی کی ] فِيْهَا ۙ [ اس میں ] وَهُمْ يَحْمِلُوْنَ [ اور وہ لوگ اٹھائیں گے ] اَوْزَارَهُمْ [ اپنے بوجھ ] عَلٰي ظُهُوْرِهِمْ ۭ [ اپنی پیٹھوں پر ] اَلَا [ خبردار ] سَاۗءَ [ برا ] مَا [ وہ جو] يَزِرُوْنَ [ یہ بوجھ اٹھاتے ہیں ]

وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ ۭ وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ  32؀
وَمَا [ اور نہیں ہے ] الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ [ دنیوی زندگی ] اِلَّا [ مگر ] لَعِبٌ [ ایک کھیل ] وَّلَهْوٌ ۭ [ اور ایک تماشا ] وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ [ اور یقینا آخری گھر ] خَيْرٌ [ بہتر ہے ] لِّلَّذِيْنَ [ ان کے لئے جو ] يَتَّقُوْنَ ۭ [ تقوی کرتے ہیں ] اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ [ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ]

قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَيَحْزُنُكَ الَّذِيْ يَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ   33؀
قَدْ نَعْلَمُ [ ہم جان چکے ہیں ] اِنَّهٗ [ کہ یہ حقیقت ہے کہ ] لَيَحْزُنُكَ [ بےشک غمگین کرتی ہے آپ کو ] الَّذِيْ [ وہ (بات) جو ] يَقُوْلُوْنَ [ یہ لوگ کہتے ہیں ] فَاِنَّهُمْ [ تو بیشک یہ لوگ ] لَا يُكَذِّبُوْنَكَ [ نہیں جھٹلاتے آپ کو ] وَلٰكِنَّ [ اور لیکن (یعنی بلکہ )] الظّٰلِمِيْنَ [ یہ ظالم لوگ ] بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی نشانیوں کا ] يَجْحَدُوْنَ [ جانتے بوجھتے انکار کرتے ہیں ]



ج ح د : (ف) جحدا۔ اس کا انکار کرنا جس کا دل میں اقرار ہو ، جانتے بوجھتے انکار کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر 33۔

ترکیب : انہ میں ضمیر الشان ہے ۔ (آیت نمب ر 2:85، نوٹ ۔1) الیحزنک کا فاعل الذی ہے ۔ الظلمین پر لام تعریف ہے ۔ (6:34) رسل اسم عاقل کی جمع مکسر ہے ۔ اس لئے واحد مونث کا صیغہ کذبت بھی جائز ہے۔ جاءک کا فاعل الباء محذوف ہے ۔ نبای میں یا زائدہ ہے ۔ یہ اصلا من نبا تھا المرسلین کا مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ختم ہوئی ہے ۔ (6:35) ان شرطیہ کی وجہ سے کان کا ترجمہ حال میں ہوگا ۔ فتاتیھم میں فاسببہ کی وجہ سے تاتی حالت نصب میں آیا ہے ۔ (6:37) نزل کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے آیۃ حالت میں رفع میں ہے ۔

نوٹ 1: رسول اللہ
جب دیکھتے تھے کہ اس قوم کو سمجھاتے ہوئے مدت گزر گئی ہے اور یہ راہ راست پر نہیں آتے تو آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ کی طرف سے کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو کہ یہ لوگ ایمان لے آئیں ۔ اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ اللہ کی اس حکمت کے خلاف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمہ دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے ، اسے تصرف کے اختیارات دئے ہیں، اطاعت اور نافرمانی کی آزادی بخشی ہے، امتحان کی مہلت عطا کی ہے اور اس کے طرز عمل کے مطابق جزا وسزا دینے کے لئے فیصلے کا ایک وقت مقرر کردیا ہے ۔ (تفہیم القرآن )

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا   ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ  ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ  34؀
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ [ اور بےشک جھٹلائے جاچکے ہیں ] رُسُلٌ [ بہت سے رسول] مِّنْ قَبْلِكَ [ آپ سے پہلے] فَصَبَرُوْا [ تو وہ ثابت قدم رہے ] عَلٰي مَا [ اس پر جس پر ] كُذِّبُوْا [ انہیں جھٹلایا گیا ] وَاُوْذُوْا [ اور انہیں اذیت دی گئی ] حَتّٰى [ یہاں تک کہ ] اَتٰىهُمْ [ آئی ان کے پاس ] نَصْرُنَا ۚ [ ہماری مدد ] وَلَا مُبَدِّلَ [ اور کوئی بھی بدلنے والا نہیں ہے ] لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۚ [ اللہ کے فرمانوں کو ] وَلَقَدْ جَاۗءَكَ [ اور بےشک آچکی ہیں آپ کے پاس (کچھ خبریں ) ] مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ [ بھیجے ہوؤں (یعنی رسولوں ) کی خبر میں سے]

وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاۗءِ فَتَاْتِيَهُمْ بِاٰيَةٍ  ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَي الْهُدٰي فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ  35؀
وَاِنْ كَانَ [ اور اگر ہے ] كَبُرَ [ بہت بھاری ] عَلَيْكَ [ آپ پر ] اِعْرَاضُهُمْ [ ان کا اعراض کرنا ] فَاِنِ [ تو اگر ] اسْتَطَعْتَ [ آپ میں استطاعت ہے] اَنْ [ کہ ] تَبْتَغِيَ [ آپ تلاش کریں ] نَفَقًا [ کوئی سرنگ ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] اَوْ [ یا]سُلَّمًا [ کوئی سیڑھی ] فِي السَّمَاۗءِ [ آسمان میں ] فَتَاْتِيَهُمْ [ تو آپ لے آئیں ان کے پاس ] بِاٰيَةٍ ۭ [ کوئی نشانی ]وَلَوْ [ اور اگر] شَاۗءَ [ چاہتا ] اللّٰهُ [ اللہ ] لَجَمَعَهُمْ [ تو جمع کردیتا ان کو ] عَلَي الْهُدٰي [ ہدایات پر ] فَلَا تَكُوْنَنَّ [ پس آپ ہر گز نہ ہوں ] مِنَ الْجٰهِلِيْنَ [ نادانوں میں سے]

اِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْنَ  ۭ وَالْمَوْتٰى يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ  36؀۬
اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] يَسْتَجِيْبُ [ جواب دیتے ہیں (یعنی مانتے ہیں )] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو] يَسْمَعُوْنَ ۭ [ سنتے ہیں ] وَالْمَوْتٰى [ اور مردے] يَبْعَثُهُمُ [ اٹھائے گا ان کو ] اللّٰهُ [ اللہ ] ثُمَّ [ پھر ] اِلَيْهِ [ اس کی طرف ہی ] يُرْجَعُوْنَ [ وہ لوٹائے جائیں گے ]

وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ  ۭ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰٓي اَنْ يُّنَزِّلَ اٰيَةً وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ   37؀
وَقَالُوْا [ اور انہوں نے کہا ]لَوْلَا [ کیوں نہیں ] نُزِّلَ [ اتاری گئی ] عَلَيْهِ [ ان پر ] اٰيَةٌ [ کوئی نشانی ] مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ [ ان کے رب (کی طرف ) سے ] قُلْ [ آپ کہئے ] اِنَّ اللّٰهَ [ یقینا اللہ ]قَادِرٌ [ قدرت رکھنے والا ہے ] عَلٰٓي [ اس پر ] اَنْ [ کہ ] يُّنَزِّلَ [ کہ وہ اتارے ] اٰيَةً [ کوئی نشانی ] وَّلٰكِنَّ [ اور لیکن ] اَكْثَرَهُمْ [ ان کے اکثر]لَا يَعْلَمُوْنَ [ علم نہیں رکھتے ]

وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ   38؀
وَمَا [ اور نہیں ہے] مِنْ دَاۗبَّةٍ [ کوئی چلنے والا ] فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] وَلَا [ اور نہ ہی ہے] طٰۗىِٕرٍ [ کوئی بھی اڑنے والا ] يَّطِيْرُ [ جو اڑتا ہے ] بِجَنَاحَيْهِ [ اپنے دونوں بازؤں سے ] اِلَّآ [ مگر یہ کہ ] اُمَمٌ [ (وہ بھی ) امتیں ہیں ] اَمْثَالُكُمْ ۭ [ تم لوگوں کی مانند] مَا فَرَّطْنَا [ ہم نے کمی نہیں کی ] فِي الْكِتٰبِ [ کتاب میں ] مِنْ شَيْءٍ [ کچھ بھی ] ثُمَّ [ پھر ] اِلٰى رَبِّهِمْ [ ان کے رب کی طرف ہی] يُحْشَرُوْنَ [ جمع کیے جاؤ گے]



ترکیب: (6:38) من دابۃ کے من پر عطف ہونے کی وجہ سے طئر حالت جز میں ہے اور یہ نکرہ مخصوصہ ہے ۔ جناحی دراصل جناحین ) (تثنیہ ) تھا ۔ مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا ہے ۔ امم خبر ہے اور اس کا مبتدا محذوف ہے (6:39) فی ظلمت قائم مقام خبر ہے اور اس کا بھی مبتدا محذوف ہے ۔ (6:40) تدعون کا مفعول ہونے کی وجہ سے غیر اللہ حالت نصب میں ہے (6:42) لقد ارسلنا کا مفعول رسلا محذوف ہے ۔ (6:43) فلولا فعل تضرعوا سے متعلق ہے ۔ درمیان میں اذ جاء ہم باسنا جملہ معترضہ ہے۔

نوٹ: اس کائنات میں ، زمین میں ہو یا فضاؤں میں، جہاں کہیں جو بھی چیز ہے، ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی صناعی ، قدرت اور سبحانیت (
Perfectionism) کی نشانیاں موجود ہیں جن کو دیکھ کر انسان اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات کا ادراک حاصل کرسکتا ہے ۔ یہ کیسی نشانیاں ہیں اور ان سے کیا مراد ہے ، اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں ۔ اگر کسی پارک میں گھاس ، بوٹے، جھاڑیاں وغیرہ بےترتیبی سے اگے ہوئے ہیں تو اسے دیکھنے والا ہر شخص یہی کہے گا کہ اس پارک کا کوئی مالی کہیں نظر نہیں آرہا ہے، پھر بھی باغ کی حالت دیکھ کر ہر شخص مالی کے وجود کو بھی تسلیم کرے گا اور اس کی صلاحیت کا بھی اسے اندازہ ہوجائے گا ۔ اسی طرح ہر جاندار کے جسم میں ایک نظام اپنا کام کررہا ہے اور خود کائنات میں ایک نظم وترتیب موجود ہے جسے دیکھ کر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کا ایک خالق ہے جو ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک ہے اور یہ سب کچھ خود بخود وجود میں آنے والی چیز نہیں ہے ۔ ا سی بنیاد پر ’’ عظیم دھماکہ ‘‘ (Big Bang) تھیوری پر تنقید کرتے ہوئے اور اسے رد کرتے ہوئے ایک مغربی سائنسدان نے کہا ہے کہ یہ بات ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ ایک پریس میں دھماکہ ہوا اور ایک اور عظیم لغت (Dictonary) خود بخود وجود میں آگئی ۔

کائنات کی ہر چیز میں اپنے وجود اور اپنی صفات کی نشانیاں اور انسان میں مشاہدہ اور غوروفکر کی صلاحیتیں ودیعت کرکے اللہ تعالیٰ نے نتیجہ اخذ کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے لئے انسان کو آزاد چھوڑ دیا ہے۔ انسان کی اس آزادی میں وہ مداخلت نہیں کرتا ۔ اس وجہ سے انسان تین گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو کائنات اور زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے بجائے انہیں باہمی تکاثر اور تفاخر پر صرف کردیتے ہیں ۔ یہ لوگ بہروں اور گونگوں کی مانند ہیں اور لاعلمی کے اندھیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں ، خواہ اپنے پیشے میں ماسڑس اور ڈاکٹریٹ کرلیں ۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا فتوی تو یہی ہے۔

پھر جو لوگ اپنی صلاحیتوں کو کائنات اور زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ، ان میں سے کسی کو گمراہی ملتی ہے اور کسی کو یہی نشانیاں سیدھی راہ پر ڈال دیتی ہیں ۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کون کس نیت اور ارادے سے تحقیق وجستجو کرنا ہے۔ جو ایک نامور سائنسدان اور موجد بننے کے لئے کرتا ہے ، اس کے حصے میں مادہ پرستی آتی ہے اور جو واقعی زندگی کے مقصد کا متلاشی ہوتا ہے۔ اور اس کو یہی نشانیاں سیدھی راہ پر ڈال دیتی ہیں ۔

 یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ اصولوں اور نظام کے تحت ہوتا ہے اس لئے گمراہ کرنے اور ہدایت دینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب کرتا ہے ۔ جبکہ رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے کے اختیار اور آزادی کی بنیاد پر انسان کی ذمہ داری اور جوابدہی برقرار رہتی ہے ۔

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا صُمٌّ وَّبُكْمٌ فِي الظُّلُمٰتِ  ۭمَنْ يَّشَاِ اللّٰهُ يُضْلِلْهُ  ۭوَمَنْ يَّشَاْ يَجْعَلْهُ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ  39؀
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جنھوں نے ] كَذَّبُوْا [ جھٹلایا ] بِاٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں کو ] صُمٌّ [ بہرے ہیں ] وَّبُكْمٌ [ اور گونگے ہیں ] فِي الظُّلُمٰتِ ۭ [ (وہ لوگ) اندھیروں میں ہیں ] مَنْ [ جس کو ] يَّشَاِ [ چاہتا ہے] اللّٰهُ [ اللہ ] يُضْلِلْهُ ۭ [ (تو) وہ گمراہ کرتا ہے اس کو ] وَمَنْ [ اور جس کو ] يَّشَاْ [ وہ چاہتا ہے ] يَجْعَلْهُ [ (تو ) وہ ڈالتا ہے اس کو ] عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ [ ایک سیدھے راستے پر (39)]

قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَيْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ   40؀
قُلْ [ آپ کہئے ] اَ [ کیا ] رَءَيْتَكُمْ [ تو نے دیکھا اپنے لوگوں کو ] اِنْ [ کہ اگر ] اَتٰىكُمْ [ آئے تمہارے پاس ] عَذَابُ اللّٰهِ [ اللہ کا عذاب ] اَوْ [ یا ] اَتَتْكُمُ [ آئے تم پر ] السَّاعَةُ [ قیامت ] ا [ تو کیا ] اَغَيْرَ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ (کسی ) کو ] تَدْعُوْنَ ۚ [ تو لوگ پکاروگے ] اِنْ [ اگر] كُنْتُمْ [ تم لوگ ہو] صٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والے]

بَلْ اِيَّاهُ تَدْعُوْنَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَيْهِ اِنْ شَاۗءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ   41؀ۧ
بَلْ اِيَّاهُ [ بلکہ صرف اس کو ہی ] تَدْعُوْنَ [ تم لوگ پکارتے ہو ] فَيَكْشِفُ [ تو وہ کھول دیتا ہے ] مَا [ اس کو ] تَدْعُوْنَ [ تم لوگ پکارتے ہو ] اِلَيْهِ [ جس کے لئے ] اِنْ [ اگر] شَاۗءَ [ وہ چاہتا ہے ] وَتَنْسَوْنَ [ اور بھول جاتے ہو ] مَا [ اس کو جس کو ] تُشْرِكُوْنَ [ تم لوگ شریک کرتے ہو]

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُوْنَ   42؀
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ [ اور ہم بھیج چکے ہیں (رسولوں کو ) ] اِلٰٓى اُمَمٍ [ امتوں کی طرف ] مِّنْ قَبْلِكَ [ آپ سے پہلے ] فَاَخَذْنٰهُمْ [ پھر ہم نے پکڑاان کو]بِالْبَاْسَاۗءِ [ سختی سے ] وَالضَّرَّاۗءِ [ اور تکلیف سے] لَعَلَّهُمْ [ شائد کہ وہ لوگ ] يَتَضَرَّعُوْنَ [ گڑگڑائیں ]

فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   43؀
فَلَوْلَآ [ تو کیوں نہیں ] اِذْ جَاۗءَهُمْ [ جب آئی ان کے پاس ] بَاْسُنَا [ ہماری سختی تَضَرَّعُوْا [ وہ لوگ گڑگڑاتے ] وَلٰكِنْ [ اور لیکن ] قَسَتْ [ سخت ہوئے ] قُلُوْبُهُمْ [ ان کے دل ] وَزَيَّنَ [ اور مزین کیا ] لَهُمُ [ ان کے لئے ] الشَّيْطٰنُ [ شیطان نے] مَا [ اس کو جو ] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ: وہ عمل کرتے تھے (43)]

فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ  ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ   44؀
فَلَمَّا [ پھر جب ] نَسُوْا [ وہ بھولے ] مَا [ اس کو ] ذُكِّرُوْا [ ان کی یاد دہانی کرائی گئی ] بِهٖ [ جس سے ] فَتَحْنَا [ تو ہم نے کھول دیئے] عَلَيْهِمْ [ ان پر ] اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ [ ہر چیز کے دروازے ] حَتّٰى [ یہاں تک کہ ] اِذَا [ جب ] فَرِحُوْا [ وہ بہ خوش ہوئے] بِمَآ [ اس سے جو ] اُوْتُوْٓا [ دیا گیا ان کو ] اَخَذْنٰهُمْ [ تو ہم نے پکڑا ان کو ] بَغْتَةً [ اچانک ] فَاِذَا [ تب پھر ] هُمْ [ وہ لوگ ] مُّبْلِسُوْنَ [ انتہائی غمگین ہوئے ]

فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا   ۭوَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   45؀
فَقُطِعَ [ پھر کاٹی گئی ] دَابِرُ الْقَوْمِ [ اس قوم کی جڑ ] الَّذِيْنَ [ جنھوں نے ] ظَلَمُوْا ۭ [ ظلم کیا ] وَالْحَـمْدُ [ اور تمام شکر وسپاس ] لِلّٰهِ [ اللہ ہی کے لئے ہے ] رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ جو تمام جہانوں کا رب ہے]

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَكُمْ وَاَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِهٖ ۭاُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُوْنَ  46؀
قُلْ [ آپ کہئے ] اَ [ کیا ] رَءَيْتُمْ [ تم لوگوں نے غور کیا ] اِنْ [ (کہ ) اگر ] اَخَذَ [ پکڑلے] اللّٰهُ [ اللہ ] سَمْعَكُمْ [ تمہاری سماعت کو ] وَاَبْصَارَكُمْ [ اور تمہاری بصارت کو ]وَخَتَمَ [ اور وہ مہر لگا دے] عَلٰي قُلُوْبِكُمْ [ تمہارے دلوں پر ] مَّنْ [ تو کون]اِلٰهٌ [ الہ ہے] غَيْرُ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ] يَاْتِيْكُمْ [ جو لادے تمہارے پاس]بِهٖ ۭ [ اسکو ] اُنْظُرْ [ آپ دیکھیں ] كَيْفَ [ کیسے ] نُصَرِّفُ [ ہم گھماتے ہیں ] الْاٰيٰتِ [ نشانیوں (یعنی دلیلوں ) کو ]ثُمَّ [ پھر (بھی ) ]هُمْ [ وہ لوگ ] يَصْدِفُوْنَ [ کنارہ کش ہوتے ہیں ]



ص د ف :ـ(ض) صدفا : ہٹان ا۔ کنارے کرنا (متعدی) پھرجانا ۔ کنارہ کش ہونا (لازم ) زیرمطالعہ آیت نمبر 46۔ صدف ۔ اسم ذات ہے۔ کسی چیز کا کنارہ ۔ حتی اذا ساوی بین الصدفین [ یہاں تک کہ جب برابر کردیا دنوں کناروں کے درمیان کو ]18:96۔

ترکیب : (6:47) بغتۃ اور جھرۃ حال ہیں ۔ اسی لئے حالت نصب میں ہیں ۔ یھلک کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے القوم الظلمون حالت رفع میں ہے ۔ (6:48) اصلح کا مفعول محذوف ہے جو کہ انفسہم ہوسکتا ہے ۔ (6:50) ان اتبع کا ان نافیہ ہے کیونکہ آگے الا آرہا ہے۔

قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ بَغْتَةً اَوْ جَهْرَةً هَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ   47؀
قُلْ [ آپ کہئے ] اَ [ کیا ] رَءَيْتَكُمْ [ تو نے دیکھا اپنوں کو ] اِنْ [ (کہ ) اگر] اَتٰىكُمْ [ آئے تمہارے پاس ] عَذَابُ اللّٰهِ [ اللہ کاعذاب ] بَغْتَةً [ اچانک ] اَوْ [ یا] جَهْرَةً [ کھلم کھلا]هَلْ [ تو کیا (یعنی کون)] يُهْلَكُ [ ہلاک کیا جائے گا] اِلَّا [ سوائے ] الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ [ ظلم کرنے والی قوم کے]

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ  وَمُنْذِرِيْنَ ۚ فَمَنْ اٰمَنَ وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ   48؀
وَمَا نُرْسِلُ [ اور ہم نہیں بھیجتے ] الْمُرْسَلِيْنَ [ بھیجے ہوؤں کو ] اِلَّا [ مگر ] مُبَشِّرِيْنَ [ بشارت دینے والا ] وَمُنْذِرِيْنَ ۚ [ اور خبردار کرنے والا ہوتے ہوئے ] فَمَنْ [ پھر جو ] اٰمَنَ [ ایمان لایا ] وَاَصْلَحَ [ اور اس نے اصلاح کی (اپنی ) ] فَلَا خَوْفٌ [ تو کوئی خوف نہیں ہے] عَلَيْهِمْ [ ان پر ] وَلَا [ اور نہ ہی ] هُمْ [ وہ لوگ ]يَحْزَنُوْنَ [ غمگین ہوتے ہیں ]

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ    49؀
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جنھوں نے] كَذَّبُوْا [ جھٹلایا ] بِاٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں کو ]يَمَسُّهُمُ [ پہنچے گا ان کو ] الْعَذَابُ [ عذاب ] بِمَا [ بسبب اسے کے جو ] كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ [ وہ لوگ نافرمانی کرتے تھے ]

قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ  ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ  ۭقُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ  ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ   50۝ۧ
قُلْ [ آپ کہئے ] لَّآ اَقُوْلُ [ میں نہیں کہتا ] لَكُمْ [ تم لوگوں سے ] عِنْدِيْ [ کہ میرے پاس ] خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ [ اللہ کے خزانے ہیں ] وَلَآ اَعْلَمُ [ اور نہ ہی میں جانتا ہوں ] الْغَيْبَ [ غیب کو] وَلَآ اَقُوْلُ [ اور نہ ہی میں کہتا ہوں ] لَكُمْ [ تم لوگوں سے ] اِنِّىْ [ کہ میں ] مَلَكٌ ۚ [ کوئی فرشتہ ہوں ] اِنْ اَتَّبِعُ [ میں پیروی نہیں کرتا ] اِلَّا [ مگر ] مَا [ اس کی جو ] يُوْحٰٓى [ وحی کیا گیا] اِلَيَّ ۭ [ میری طرف ] قُلْ [ آپ کہئے ] هَلْ [ کیا ] يَسْتَوِي [ برابر ہوتے ہیں ] الْاَعْمٰى [ اندھے] وَالْبَصِيْرُ ۭ [ اور دیکھنے والے ] اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ [ تو کیا تم لوگ غور فکر نہیں کرتے ]

وَاَنْذِرْ بِهِ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْ يُّحْشَرُوْٓا اِلٰى رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِيٌّ وَّلَا شَفِيْعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ   51؀
وَاَنْذِرْ [ اور آپ خبردار کریں] بِهِ [ اس سے ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جو] يَخَافُوْنَ [ ڈرتے ہیں ] اَنْ [ کہ ] يُّحْشَرُوْٓا [ وہ اکٹھا کئے جائیں گے ]اِلٰى رَبِّهِمْ [ اپنے رب کی طرف ] لَيْسَ [ نہیں ہے ] لَهُمْ [ ان کے لئے ] مِّنْ دُوْنِهٖ [ جس کے علاوہ ] وَلِيٌّ [ کوئی کارساز] وَّلَا شَفِيْعٌ [ اور نہ ہی کوئی شفاعت کرنے والا ] لَّعَلَّهُمْ [ شائد کہ وہ لوگ ] يَتَّقُوْنَ [ تقوی کریں ]



ط ر د : (ن) طردا کسی کو حقیر سمجھ کر دور کرنا ۔ دھتکارنا ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر 52۔ طارد ۔ اسم الفاعل ہے۔ دھتکارنے والا ۔ وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِيْنَ [ اور میں مومنوں کو دھتکارنے والا نہیں ہوں ]26:114۔

ترکیب: (6:51) بہ میں ضمیر میں گزشتہ آیت میں مایوحی کے لئے ہے یعنی قرآن مجید مندونہ میں ضمیر رب کے لئے ہے ۔ (6:52) یریدون حال ہے یدعون کا ۔ فعل نہی اور فعل نفی کے جواب میں اگر فعل مضارع آتا ہے تو وہ حالت نصب میں ہوتا ہے ۔ یہاں فتطرد کی نصب فعل نہی ولا تطرد کی وجہ سے نہی ہے بلکہ فعل نفی ما علیک مں حسابہم کی وجہ سے ہے جبکہ فتکون فاسببیہ کی وجہ سے نصب میں ہے ۔ (6:53) لیقولوا پر لام کی نہیں بلکہ لام عاقبت ہے۔ (6:54) انہ میں ضمیر الشان ہے جبکہ فانہ میں ضمیر رب کے لئے ہے من عمل کامن شرطیہ ہے۔ اس لئے ترجمہ حال میں ہوگا ۔ (6:55) تستبین واحد مونث کا صیغہ ہے اور سبیل المجرمین اس کا فاعل ہے۔

نوٹ: آیات مذکورہ سے چند ہدایات واضح ہوتی ہیں ۔ اولا یہ کہ کسی ظاہری خستہ حالی کو دیکھ کر اس کو حقیر سمجھنا درست نہیں ہے ۔ بسا اوقات ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اللہ کے نزدیک نہایت معزز ہوتے ہیں ۔ ثانیا یہ کہ شرافت کا معیار محض دنیا کی دولت وثروت کو سمجھنا انسانیت کی توہین ہے ۔ ثالثا یہ کہ کسی قوم کے مصلح اور مبلغ کے لئے اگرچہ تبلیغ بھی ضروری ہے جس میں ماننے اور نہ ماننے والے سب مخاطب ہوں ، لیکن ان لوگوں کا حق مقدم ہے جو ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ۔ رابعا یہ کہ جو شخص انعامات الہیہ کی زیادتی کا طالب ہو، اس پر لازم ہے کہ قول وعمل سے شکر گزاری کو اپنا شعار بنائے ۔ (معارف القرآن )

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ  ۭ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِّنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ   52؀
وَلَا تَطْرُدِ [ اور آپ مت دور کریں ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جو ] يَدْعُوْنَ [ پکارتے ہیں ] رَبَّهُمْ [ اپنے رب کو ] بِالْغَدٰوةِ [ صبح سویرے ] وَالْعَشِيِّ [ اور شاموں کو ] يُرِيْدُوْنَ [ چاہتے ہوئے] وَجْهَهٗ ۭ [ اس کے چہرے (یعنی توجہ ) کو] مَا عَلَيْكَ [ نہیں ہے آپ پر ] مِنْ حِسَابِهِمْ [ ان کے حساب میں سے ] مِّنْ شَيْءٍ [ کچھ بھی ] وَّمَا [ اور نہیں ہے ] مِنْ حِسَابِكَ [ آپ کے حساب میں سے ] عَلَيْهِمْ [ ان لوگوں پر ]مِّنْ شَيْءٍ [ کچھ بھی ] فَتَطْرُدَهُمْ [ پھر بھی آپ دور کریں گے ان کو ] فَتَكُوْنَ [ تو آپ ہوجائیں گے ] مِنَ الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والوں میں سے]

وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُوْلُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنْۢ  بَيْنِنَا  ۭ اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِيْنَ   53؀
وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح ] فَتَنَّا [ ہم نے آزمایا] بَعْضَهُمْ [ ان کے بعض کو] بِبَعْضٍ [ بعض سے ] لِّيَقُوْلُوْٓا [ تو وہ لوگ کہتے ہیں ] اَ [ کیا ] هٰٓؤُلَاۗءِ [ یہ لوگ ہیں ] مَنَّ [ حسان کیا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] عَلَيْهِمْ [ جن پر ]مِّنْۢ بَيْنِنَا ۭ [ ہمارے درمیان سے] اَ [ (تو) کیا] لَيْسَ [ نہیں ہے ] اللّٰهُ [ اللہ ] بِاَعْلَمَ [ سب سے زیادہ جاننے والا ] بِالشّٰكِرِيْنَ [ شکر کرنے والوں کو ]

وَاِذَا جَاۗءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ  ۙ اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَاَصْلَحَ  ۙ فَاَنَّهٗ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ    54؀
وَاِذَا [ اور جب بھی ] جَاۗءَكَ [ آئیں آپ کے پاس ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو ] يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان رکھتے ہیں ] بِاٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں پر ] فَقُلْ [ تو آپ کہیں ] سَلٰمٌ [ سلامتی ہے] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ] كَتَبَ [ لکھا (یعنی لازم کیا ) ] رَبُّكُمْ [ تمہارے رب نے ]عَلٰي نَفْسِهِ [ اپنے آپ پر ] الرَّحْمَةَ ۙ [ رحمت کو ] اَنَّهٗ [ حقیقت یہ ہے کہ ] مَنْ [ جو ] عَمِلَ [ کرتا ہے ] مِنْكُمْ [ تم میں سے ] سُوْۗءًۢا [ کوئی برائی ] بِجَهَالَةٍ [ نادانی سے] ثُمَّ [ پھر ] تَابَ [ وہ توبہ کرتا ہے ] مِنْۢ بَعْدِهٖ [ اس کے بعد] وَاَصْلَحَ ۙ [ اور اصلاح کرتا ہے ] فَاَنَّهٗ [ تو یہ کہ وہ ] غَفُوْرٌ [ بےانتہا بخشنے والا ہے ] رَّحِيْمٌ [ ہر حال میں رحم کرنے والا ہے ]

وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْنَ   55؀ۧ
وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح ] نُفَصِّلُ [ ہم کھول کھول کر بتاتے ہیں ] الْاٰيٰتِ [ نشانیوں کو ] وَلِتَسْتَبِيْنَ [ اور تاکہ واضح ہوجائے ] سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْنَ [ مجرموں کا راستہ ]

قُلْ اِنِّىْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ  ۭ قُلْ لَّآ اَتَّبِعُ اَهْوَاۗءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ   56؀
قُلْ [ آپ کہئے ] اِنِّىْ [ کہ ] نُهِيْتُ [ مجھ کو منع کیا گیا ہے ] اَنْ [ کہ ] اَعْبُدَ [ میں بندگی کروں] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کی جن کو ] تَدْعُوْنَ [ تم لوگ پکارتے ہو] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے علاوہ ] قُلْ [ آپ کہئے ] لَّآ اَتَّبِعُ [ میں پیروی نہیں کروں گا] اَهْوَاۗءَكُمْ ۙ [ تم لوگوں کی خواہشات کی ] قَدْ ضَلَلْتُ [ میں تو گمراہ ہوچکوں گا] اِذًا [ پھر تو ] وَّمَآ اَنَا اور میں نہیں رہوں گا ] ممِنَ الْمُهْتَدِيْنَ [ ہدایت پانے والوں میں سے ]



س ق ط : (ن) سقوطا ۔ بلندی سے پستی میں گرنا ۔ زیرمطالعہ آیت نمبر ۔59۔ سقط۔ سقط فعل لازم ہے ۔ پھر بھی ایک محاورہ میں اس کا مجہول سقط آتا ہے لیکن وہاں بھی معنی لازم کے دیتا ہے ۔ سقط فی یدہ کا مطلب ہے لغزش کرنا ۔ نادم ہونا ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ [ اور جب وہ لوگ پچھتائے ]7:149۔ ساقط اسم الفاعل ہے ۔ گرنے والا ۔ وَاِنْ يَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِـطًا [ اور اگر وہ لوگ دیکھیں کوئی ٹکڑا آسمان سے گرنے والاہوتے ہوئے ] 52:44۔ (افعال ) اسقاط ۔ کسی کو گرانا ۔ اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَمَا زَعَمْتَ [ یا تو گرا دے آسمان کو جیسا کہ تو نے دعوی کیا ] 17:92۔ اسقط ۔ فعل امر ہے ۔ تو گرا ۔ فَاَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ [ پس تو گرا ہم پر کوئی ٹکڑا آسمان سے ]26:187۔ (مفاعلہ ) مساقطۃ مسلسل یا باری باری گرانا ۔ وَهُزِّيْٓ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا [ تو ہلا اپنی طرف کھجور کے تنے کو تو وہ گراتا رہے گا تجھ پر تازہ پکی کھجوروں کو ] 19:25۔

ورق (ض) ورقا ۔ درخت کا پتے دار ہونا ۔ ورق اسم جنس ہے ۔ پتے ۔ واحد ، ورقۃ ۔ جمع ، اوراق ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر ۔ 95۔ ورق اسم ذات ہے ۔ چاندی کا سکہ ۔ فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖٓ [ تو بھیجو اپنے میں سے ایک کو اپنے اس چاندی کے سکے کے ساتھ] 18:19۔

وط ب : (س) وطوبۃ نمی والا ہونا ۔ تر ہونا ۔ رطب تمناک یا تر چیز ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر ۔ 59 (ن) رطبا ۔ کھجور کا پک جانا۔ رطب پکی کھجور ۔ اوپر مساقطۃ میں آیت نمبر 19 : 25 دیکھیں ۔

ی ب س : (س) یبسا ، کسی چیز کا خشک ہوجانا ۔ سوکھ جانا ۔ یبس ، تری کے بعد خشک ہو جانے والی چیز ۔ یبس ۔ تری کے بعد خشک ہوجانے والی جگہ یا زمین ۔ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا [ پس آپ بنا دیں ان کے لئے ایک خشک راستہ سمندر میں ] 20:77۔ یابس جمع مونث ، یابسات۔ فاعل کے وزن پر صفت ہے خشک ۔ ہونے والا یعنی خشک زیر مطالعہ آیت نمبر 59۔ وَّسَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ [ سات ہری بالیں اور دوسری خشک] 12: 43۔

ترکیب: (6:57) بہ میں ضمیر بینۃ کے لیے معنوی لحاظ سے مذکر آئی ہے کیونکہ یہاں بینۃ سے مراد وحی اور قرآن مجید ہے۔ (6:59) تسقط واحد مونث کا صیغہ ہے ۔ اس کا فاعل ورقۃ ہے جو من لگنے کی وجہ سے حالت جر میں آیا ہے ۔ لاحبۃ ۔ لا رطب اور لا یابس ، ان سب میں لا کے بعد تسقط یا یسقط محذوف ہے اور من میں عطف ہونے کی وجہ سے یہ اسماء حالت جر میں آئے ہیں ۔ فی کتاب مبین سے پہلے اس کا مبتدا اور خبر ، دونوں محذوف ہیں ۔ (6:60) فیہ کی ضمیر النھار کے لئے ہے۔

قُلْ اِنِّىْ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَكَذَّبْتُمْ بِهٖ ۭ مَا عِنْدِيْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُالْفٰصِلِيْنَ   57؀
قُلْ [ آپ کہئے ] اِنِّىْ [ کہ میں ] عَلٰي بَيِّنَةٍ [ ایک واضح دلیل پر ہوں ]مِّنْ رَّبِّيْ [ اپنے رب ] (کی طرف) سے ] وَكَذَّبْتُمْ [ حالانکہ تم لوگوں نے جھٹلایا ] بِهٖ ۭ [ اس کو ] مَا عِنْدِيْ [ میرے پاس نہیں ہے ] مَا [ وہ ]تَسْتَعْجِلُوْنَ [ تم لوگ جلدی مچاتے ہو ] بِهٖ ۭ [ جس کی ] اِنِ [ نہیں ہے ] الْحُكْمُ [ حکم] اِلَّا [ مگر ] لِلّٰهِ ۭ [ اللہ کا ] يَقُصُّ [ وہ بیان کرتا ہے ] الْحَقَّ [ حق کو ] وَهُوَ [ اور وہ ] خَيْرُالْفٰصِلِيْنَ [ فیصلہ کرنے والوں میں بہترین ہے ]

قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِيْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ لَقُضِيَ الْاَمْرُ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِمِيْنَ   58؀
قُلْ [ آپ کہئے ] لَّوْ [ اگر ] اَنَّ [ یہ کہ ] عِنْدِيْ [ میرے پاس ہوتا ] مَا [ وہ ] تَسْتَعْجِلُوْنَ [ تم لوگ جلدی مچاتے ہو] بِهٖ [ جس کی ] لَقُضِيَ [ تو فیصلہ کردیا جاتا ] الْاَمْرُ [ تمام معاملات کا ] بَيْنِيْ [ میرے درمیان ] وَبَيْنَكُمْ ۭ [ اور تمہارے درمیان ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] اَعْلَمُ [ خوب جانتا ہے]بِالظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والوں کو ]

وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ  ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ    59؀
وَعِنْدَهٗ [ اور اس ہی کے پاس ] مَفَاتِحُ الْغَيْبِ [ غیب کی کنجیاں ] لَا يَعْلَمُهَآ [ نہیں جانتا ان کو ] اِلَّا [ مگر] هُوَ ۭ [ وہ ] وَيَعْلَمُ [ اور وہ جانتا ہے ] مَا [ اس کو جو ] فِي الْبَرِّ [ خشکی میں ہے] وَالْبَحْرِ ۭ [ اور پانی میں ہے] وَمَا تَسْقُطُ [ اور نہی گرتا] مِنْ وَّرَقَةٍ [ کوئی بھی پتہ ] اِلَّا [ مگر]يَعْلَمُهَا [ وہ جانتاہے اس کو ] وَلَا [ اور نہیں (گرتا)] حَبَّةٍ [ کوئی بھی دانہ ] فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ [ زمین کے اندھیروں میں ] وَلَا [ اور نہیں (گرتی)] رَطْبٍ [ کوئی بھی ترچیز] وَّلَا [ مگر] يَابِسٍ [ کوئی بھی خشک چیز] اِلَّا [ مگر]فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ [ وہ ہے ایک واضح کتاب میں ]

وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۚ ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ   60۝ۧ
وَهُوَ [ اور وہ ] الَّذِيْ [ وہی ہے جو] يَتَوَفّٰىكُمْ [ پورا پورا لے لیتا ہے تم لوگوں ] بِالَّيْلِ [ رات میں ]وَيَعْلَمُ [ اور وہ جاتنا ہے ] مَا [ اس کو جو ] جَرَحْتُمْ [ تم لوگوں نے کمایا]بِالنَّهَارِ [ دن میں] ثُمَّ [ پھر] يَبْعَثُكُمْ [ وہ اٹھاتا ہے تم لوگوں کو ] فِيْهِ [ اس میں ] لِيُقْضٰٓى [ تاکہ پورا کیا جائے ]اَجَلٌ مُّسَمًّى ۚ [ مقررہ مدت کو ] ثُمَّ [ پھر] اِلَيْهِ [ اس کی ہی طرف] مَرْجِعُكُمْ [ تم لوگوں کے لوٹنے کی جگہ ہے ] ثُمَّ [ پھر ] يُنَبِّئُكُمْ [ وہ جتادے گا تمہیں] بِمَا [ وہ جو] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (60) [ تم لوگ کیا کرتے تھے ]

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً  ۭحَتّٰٓي  اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ     61؀
وَهُوَ [ اور وہ ہی ] الْقَاهِرُ [ غالب ] فَوْقَ عِبَادِهٖ [ اپنے بندوں پر ] وَيُرْسِلُ [ اور وہ بھیجتا ہے ]عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ] حَفَظَةً ۭ [ ایک نگہبان ]حَتّٰٓي اِذَا [ یہاں تک کہ جب ] جَاۗءَ [ آتی ہے ] اَحَدَكُمُ [ تمہارے کسی ایک کو ] الْمَوْتُ [ موت ] تَوَفَّتْهُ [ تو پورا پورا لے لیتے ہیں اس کو ] رُسُلُنَا [ ہمارے رسول (یعنی فرشتے) ] وَهُمْ [ اور وہ ] لَا يُفَرِّطُوْنَ [ کوتاہی نہیں کرتے ]



ک ر ب : (ن) کربا ۔ سخت غمگین ہونا ۔ کرب شدید رنج ، سخت تکلیف ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر 64۔

ش ی عـ: (ض) شیعا ۔ کسی خبر ، عقیدہ یا نظریہ کا پھیلنا اور زورپکڑنا ۔ (1) پھیلنا ،(2) تقویت حاصل کرنا ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ [ بےشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ پھیلے فحاشی ان لوگوں میں جو ایمان لائے تو ان کے لئے ایک درد ناک عذاب ہے]24:19۔ شیع اسم جنس ہے واحد شیعۃ جمع اشیاء ۔ کسی عقیدے یہ شخصیت سے متعلق لوگ جن سے اس کو تقویت حاصل ہو۔ (1) پیرو کار ۔ (2) گروہ ۔ فرقہ ۔ (6:65) هٰذَا مِنْ شِيْعَتِهٖ وَهٰذَا مِنْ عَدُوِّه ٖ [ یہ اس کے فرقے سے ہے اور یہ اس کے دشمنوں میں سے ہے ] 28:15۔ وَلَقَدْ اَهْلَكْنَآ اَشْيَاعَكُمْ [ اور ہم نے ہلاک کیا ہے تمہارے گروہوں کو ) 54:51۔

ترکیب : (6:61) ھو القاھر میں ھو کی ضمیر مبتدا بھی ہے اور ضمیر فاصل بھی ۔ اذا شرطیہ ہے اور اگلی آیت میں ثم اسی اذا سے متعلق ہے ۔ اس لئے دونوں آیتوں میں افعال ماضی کا ترجمہ حال میں ہوگا ۔ توفث واحد مونث کا صیغہ ہے ۔ اس کا فاعل رسلنا عاقل کی جمع مکسر ہے اور اس کی ضمیر مفعولی احدکم کے لئے ہے ۔ (6:62) اللہ کا بدل ہونے کی وجہ سے مولہم کا مضاف مولی حالت جر میں ہے اور الحق اس کی صفت ہے (6:63) من استفہامیہ ہے ۔ تدعونہ کی ضمیر من کے لئے ہے۔ تضرعا اور خفیۃ حال ہیں ۔ ھذا کا اشارہ ظلمت کی طرف ہے ۔ (6:64) منھا کی ضمیر بھی ظلمت کے لئے ہے۔ (6:65) ان پر عطف ہونے کی وجہ سے یلبس اور یذیق حالت نصب میں آئے ہیں ۔ (6 یٔ 67) مستقر اسم المفعول ہے جو ظرف زماں کے طور پر ہے ۔

ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ ۭ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ  ۣ وَهُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ   62؀
ثُمَّ [ پھر ] رُدُّوْٓا [ ان کو لوٹایا جاتا ہے]اِلَى اللّٰهِ [ اللہ کی طرف] مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ ۭ [ جو ان کا حقیقی آقا ہے] اَلَا [ سن لو] لَهُ [ اس ہی کا ہے ] الْحُكْمُ ۣ [ تمام حکم ] وَهُوَ [ اور وہ ] اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ [ حساب لینے والوں میں تیز ترین ہے]

قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ۚ لَىِٕنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ   63؀
قُلْ [ آپ کہئے ] مَنْ [ کون] يُّنَجِّيْكُمْ [ تولوگوں کو نجات دیتا ہے ]مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ پانی اور خشکی کے اندھیروں سے] تَدْعُوْنَهٗ [ تم لوگ پکارتے ہو جس کو] تَضَرُّعًا [ گڑگڑاتے ہوئے] وَّخُفْيَةً ۚ [ اور چپکے چپکے ]لَىِٕنْ [ کہ بیشک اگر ] اَنْجٰىنَا [ وہ نجات دے ہم کو ] [ مِنْ هٰذِهٖ [ اس سے] لَنَكُوْنَنَّ] [ تاکہ ہم ہوں ] [ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ [ شکر کرنے والوں میں سے]

قُلِ اللّٰهُ يُنَجِّيْكُمْ مِّنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ   64؀
قُلِ [ آپ کہئے ] اللّٰهُ [ اللہ] يُنَجِّيْكُمْ [ نجات دیتا ہے تم کو ] مِّنْهَا [ اس سے ] وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ [ اور ہر ایک دکھ سے ]ثُمَّ [ پھر (بھی )] اَنْتُمْ [ تم لوگ]تُشْرِكُوْنَ شریک کرتے ہو (دوسروں کو )

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ۭ اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُوْنَ   65؀
قُلْ [ آپ کہئے ] هُوَ الْقَادِرُ [ وہی قدرت رکھنے والا ہے ] عَلٰٓي [ اس پر ] اَنْ [ کہ ] يَّبْعَثَ [ وہ بھیج دے ] عَلَيْكُمْ [ توم لوگوں پر ] عَذَابًا [ کوئی عذاب ] مِّنْ فَوْقِكُمْ [ تمہارے اوپر سے] اَوْ [ یا ] مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ [ تمہارے قدموں کے نیچے سے ] اَوْ [ یا ] يَلْبِسَكُمْ [ وہ تم لوگوں کو بھڑا دے ] شِيَعًا [ فرقہ فرقہ ہوتے ہوئے ] وَّيُذِيْقَ [ اور وہ مزا چکھا دے ]بَعْضَكُمْ [ تمہارے بعض کو ] بَاْسَ بَعْضٍ ۭ [ بعض کو جنگ کا ] اُنْظُرْ [ (تو ) دیکھو] كَيْفَ [ کیسے ] نُصَرِّفُ [ ہم بار بار بیان کرتے ہیں ] الْاٰيٰتِ [ نشانیوں کو ] لَعَلَّهُمْ [ شائد کہ وہ ] يَفْقَهُوْنَ [ سجمھیں ]

وَكَذَّبَ بِهٖ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ ۭ قُلْ لَّسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ  66؀ۭ
وَكَذَّبَ [ اور جھٹلایا ] بِهٖ [ اس کو ] قَوْمُكَ [ آپ کی قوم نے ]وَ [ حالانکہ ] هُوَ الْحَقُّ ۭ [ وہی حق ہے ] قُلْ [ آپ کہئے ] لَّسْتُ [ میں نہیں ہوں ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ]بِوَكِيْلٍ [ کوئی نگراں ]

لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْـتَقَرٌّ ۡ وَّسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ   67؀
لِكُلِّ نَبَاٍ [ ہر ایک خبر کے لئے ] مُّسْـتَقَرٌّ ۡ [ ایک وقت ہے ] وَّسَوْفَ [ اور عنقریب ] تَعْلَمُوْنَ [ تم لوگ جان لوگے ]

وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ  ۭ وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ   68؀
وَاِذَا [ اور جب کبھی ] رَاَيْتَ [ تو دیکھے ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جو ] يَخُوْضُوْنَ [ بال کی کھال نکالتے ہیں ] فِيْٓ اٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں میں ] فَاَعْرِضْ [ تو اعراض کر ] عَنْهُمْ [ ان سے ] حَتّٰي [ یہاں تک کہ ] يَخُوْضُوْا [ وہ بال کی کھال نکالیں ] فِيْ حَدِيْثٍ [ کسی بات میں ] غَيْرِهٖ ۭ [ اس کے علاوہ ] وَاِمَّا [ اور اگر جو ( یعنی یہ کہ ) ] يُنْسِيَنَّكَ [ بھلا ہی دے تجھ کو ] الشَّيْطٰنُ [ شیطان] فَلَا تَقْعُدْ [ تو مت بیٹھ ]بَعْدَ الذِّكْرٰي [ یاد آنے کے بعد] مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ] [ ـظلم کرنے والی قوم کے ساتھ ]



ب س ل : (ن) بسلا کسی کو اس کی حاجت سے روکنا۔ (افعال ) ابسالا ۔ کسی کو ہلاکی کے سپرد کردینا ۔ ہلاکت میں ڈالنا ، زیر مطالعہ آیت نمبر 70۔

 ح م م : (ن) حما ، کسی چیز کو گرم کرنا ۔ حمیم فعیل کے وزن پر صفت ہے ۔ ہمیشہ اور ہر حال میں گرم ۔ وَلَا صَدِيْقٍ حَمِيْمٍ [ اور نہ ہی کوئی گرم جوش دوست] 26:101۔ وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِيْمًا [ اور ان لوگوں کو پلایا جائے گا ایک کھولتا پانی ] 47:15۔ (س) حمما ۔ کالا ۔ ہونا ۔ سیاہ ہونا۔ یحموم ، دھوان ۔ وَّظِلٍّ مِّنْ يَّحْمُوْمٍ [ اور دھویں کے سائے میں ] 56:43۔

ح ی ر : (س) حیرۃ ۔ پانی کا کسی جگہ پر چکر لگانا ۔ کسی معاملہ میں دماغ کا چکر لگانا یعنی حیرانی میں پڑنا ۔ حیران ، فعلان کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بےانتہا حیرت زدہ ۔ آیت نمبر ۔ 71۔

ترکیب : (6:68) اما۔ دراصل ان ما ہے ۔ (6:70) اتخذوا کا مفعول اول دینہم ہے، جبکہ لعبا اور لھوا مفعول ثانی ہیں ۔ ذکر بہ میں ہ کی ضمیر قرآن مجید کے لئے ہے ۔ تعدل واحد مونث کا صیغہ ہے ۔ اس میں شامل ھی کی ضمیر فاعلی نفس کے لئے ہے ۔ (6:71) ندعوا جمع متکلم کے صیغے میں الف کا اضافہ نہیں کیا جاتا ۔ قرآن مجید میں اس کے ساتھ الف کا اضافہ قرآن مجید کا مخصوص املا ہے ۔ حیران حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں آیا ہے ۔ اتی ، یاتی کا فعل امر اصلا انت بنتا ہے جو قاعدہ کے مطابق تبدیل ہو کر ایت استعمال ہوتا ہے لیکن جب ماقبل سے ملا کر پڑھا جاتا ہے تو فعل امر کا ہمزہ الوصل صامت ہوجاتا ہے ۔ اس لئے فاکلمہ کا ہمزہ واپس آجاتا ہے جیسے یہاں الھدی ائتنا آیا ہے ۔ (6:73) علم الغیب والشھادۃ خبر ہے ، اس کا مبتدا ھو محذوف ہے ۔ ھو الحکیم پر ضمیر فاصل ہے ۔

نوٹ 1ــ: جو لوگ اللہ کی نافرمانی سے خود بچ کر کام کرتے ہیں ان پر نافرمانوں کے کسی عمل کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ پھر وہ کیوں اپنے اوپر فرض کرلیں کہ ان سے بحث اور مناظرہ کرکے انہیں ضرور قائل کریں ، ان کے ہر لغو اور مہمل اعتراض کا جواب دیں اور کسی نہ کسی طرح منوا کر چھوڑیں ۔ ان کا فرض بس اتنا ہے کہ انہیں نصیحت کریں اور حق بات ان کے سامنے رکھ دیں ۔ (تفہیم القرآن )

نوٹ 2: صور پھونکنے کی صحیح کیفیت ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ کے حکم سے ایک مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور سب ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر نہ معلوم کتنی مدت بعد دوسرا صور پھونکا جائے گا اور سب دوبارہ زندہ ہو کر اپنے آپ کو میدان حشر میں پائیں گے ۔ (تفہیم القرآن )

وَمَا عَلَي الَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَّلٰكِنْ ذِكْرٰي لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ    69؀
وَمَا [ اور نہیں ہے ] عَلَي الَّذِيْنَ [ ان لوگوں پر جو ] يَتَّقُوْنَ [ تقوی اختیار کرتے ہیں ] مِنْ حِسَابِهِمْ [ ان کے حساب میں ] مِّنْ شَيْءٍ [ کچھ بھی ] وَّلٰكِنْ [ اور لیکن (یعنی بلکہ ) ] ذِكْرٰي [ نصیحت کرنا ہے ] لَعَلَّهُمْ [ شائد وہ لوگ ] يَتَّقُوْنَ [ تقوی اختیار کریں ]

وَذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ لَعِبًا وَّلَهْوًا وَّغَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا وَذَ كِّرْ بِهٖٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌۢ بِمَا كَسَبَتْ ڰ لَيْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيٌّ وَّلَا شَفِيْعٌ   ۚ وَاِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا  ۭاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا كَسَبُوْا  ۚ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ    70؀ۧ
وَ [ اور ] ذَرِ [ تو چھوڑ دے ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جنھوں نے ] اتَّخَذُوْا [ بنایا] [ دِيْنَهُمْ ] اپنے دین کو ] لَعِبًا [ کھیل ] وَّلَهْوًا [ اور تماشہ ] وَّغَرَّتْهُمُ [ اور فریب دیا ان کو ] الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا [ دنیوی زندگی نے ] وَذَ كِّرْ [ اور تو یاد کراتا رہ ] بِهٖٓ [ اس (کے ذریعہ ) سے ] اَنْ [ کہ (کہیں )] تُبْسَلَ [ ہلاکت میں ڈالی جائے ] نَفْسٌۢ [ کوئی جان ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ] كَسَبَتْ [ اس نے کمایا ] ڰ لَيْسَ [ نہیں ہے ] لَهَا [ اس کے لئے ] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ] وَلِيٌّ [ کوئی کارساز ] وَّلَا شَفِيْعٌ ۚ [ اور نہ ہی کوئی سفارشی ] وَاِنْ [ اور اگر ] تَعْدِلْ [ اور برابر کرے گی (یعنی بدلہ میں دے گی )]كُلَّ عَدْلٍ [ سب کاسب برابر کرنا ] لَّا يُؤْخَذْ [ تو نہیں لیا جائے گا ] مِنْهَا ۭ [ اس سے ] اُولٰۗىِٕكَ [ یہ لوگ ہیں ] الَّذِيْنَ [ جن کو ] اُبْسِلُوْا [ ہلاکت میں ڈالا گیا ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ] كَسَبُوْا ۚ [ انہوں نے کمایا ] لَهُمْ [ ان کے لئے ] شَرَابٌ [ پینے کی چیز ہے ] مِّنْ حَمِيْمٍ [ کھولتے (پانی ) سے ] وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ [ اور ایک دردناک عذاب ہے ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ]كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ [ وہ لوگ کفر کرتے تھے ]

قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰٓي اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ هَدٰىنَا اللّٰهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيٰطِيْنُ فِي الْاَرْضِ حَيْرَانَ  ۠ لَهٗٓ اَصْحٰبٌ يَّدْعُوْنَهٗٓ اِلَى الْهُدَى ائْتِنَا  ۭ قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰي ۭ وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ    71؀ۙ
قُلْ [ تو کہہ دے ] اَ [ کیا ] نَدْعُوْا [ ہم پکاریں ]مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ]مَا [ اس کو جو ] لَا يَنْفَعُنَا [ نفع نہیں دیتا ہم کو ] وَلَا يَضُرُّنَا [ اور نہ ہی تکلیف دیتا ہے ہم کو ] وَنُرَدُّ [ اور (کیا ) ہم لوٹا دیئے جائیں ] عَلٰٓي اَعْقَابِنَا [ اپنی ایڑیوں پر ] بَعْدَ اِذْ [ بعد اس کے جب ] هَدٰىنَا [ ہدایت دی ہم کو ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] كَالَّذِي [ اس کی مانند ] اسْتَهْوَتْهُ [ بہکایا جس کو ] الشَّيٰطِيْنُ [ شیطانوں نے ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ] حَيْرَانَ ۠ [ سرگرداں ہوتے ہوئے ] لَهٗٓ [ اس کے ہیں ] اَصْحٰبٌ [ کچھ ساتھی ] يَّدْعُوْنَهٗٓ [ جو پکارتے ہیں اس کو ] اِلَى الْهُدَى [ ہدایت کی طرف ] ائْتِنَا ۭ [ کہ تو آہمارے پاس] قُلْ [ تو کہہ دے ] اِنَّ [ یقینا ] هُدَى اللّٰهِ [ اللہ کی ہدایت ] هُوَ الْهُدٰي ۭ [ ہی کل ہدایت ہے ] وَاُمِرْنَا [ اور حکم دیا گیا ہم کو ] لِنُسْلِمَ [ تاکہ ہم فرمانبردارہوں ] لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ] [ تمام جہانوں کے رب کے لیے]

وَاَنْ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّقُوْهُ  ۭ وَهُوَ الَّذِيْٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ  72؀
وَاَنْ [ اور یہ کہ ] اَقِيْمُوا [ قائم رکھو] الصَّلٰوةَ [ نماز کو ] وَاتَّقُوْهُ ۭ [ اور تقوی کرو اس کا]وَهُوَ [ اور وہ ] الَّذِيْٓ [ وہ ہے ] اِلَيْهِ [ جس کی طرف ہی ] تُحْشَرُوْنَ [ تم سب جمع کئے جاؤگے]

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ۭ وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ ڛ قَوْلُهُ الْحَقُّ  ۭوَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۭ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ  ۭوَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ   73؀
وَهُوَ [ اور وہ ] الَّذِيْ [ وہ ہے جس نے ] خَلَقَ [ پیدا کیا ] السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں کو ] وَالْاَرْضَ [ اور زمین کو ] بِالْحَقِّ ۭ [ حق کے ساتھ ] وَيَوْمَ [ اور جس دن ] يَقُوْلُ [ وہ کہے گا ] كُنْ [ تو ہو جا] فَيَكُوْنُ [ تو ہو جائے گا ] ڛ قَوْلُهُ [ اس کا کہا] الْحَقُّ ۭ [ حق ہے] وَلَهُ [ اور اس ہی کی ] الْمُلْكُ [ کل سلطنت ہے] يَوْمَ [ جس دن ] يُنْفَخُ [ پھونکا جائے گا]فِي الصُّوْرِ ۭ [ صور میں ] عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۭ [ شہادہ اور غیب کا جاننے والا ہے ] وَهُوَ الْحَكِيْمُ [ اور وہی حکیم ہے] الْخَبِيْرُ [ خبیر ہے ]

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ لِاَبِيْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً  ۚ اِنِّىْٓ اَرٰىكَ وَقَوْمَكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ  74؀
وَاِذْ [ اور جب ] قَالَ [ کہا] اِبْرٰهِيْمُ [ ابرہیم نے ] لِاَبِيْهِ اٰزَرَ [ اپنے باپ آزرسے ] اَ [ کیا ] تَتَّخِذُ [ تو بناتا ہے ] اَصْنَامًا [ بتوں کو] اٰلِهَةً ۚ [ الہ ] اِنِّىْٓ [ بیشک میں ] اَرٰىكَ [ خیال کرتاہوں تجھ کو ]وَقَوْمَكَ [ اور تیری قوم کو ]فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ [ ایک کھلی گمراہی میں ]



ء زر : (ض) ازرا (1) گتھا ہواہونا ۔ مضبوط ہونا ۔ (2) تہبند باندھنا ۔ ازر ، اسم ذات ہے۔ (1) قوت (2) کمر (تہبند باندھنے کی جگہ ) اشددبہ ازری [ تو سخت کر اس سے میری قوت کو ] 20:31۔ ازر ، افعل تفضیل کا وزن ہے۔ زیادہ گتھا ہوا ۔ زیادہ مضبوط زیر مطالعہ آیت ۔ 74 میں یہ اسم علم کے طور پر آیا ہے۔ (مفاعلہ) موازرۃ ۔ کسی کو تقویت دینا ۔ مضبوط کرنا ۔ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ [ ایک ایسی کھیتی کی مانند جس نے نکالا اپنا خوشہ پھر اس نے مضبوط کیا اس کو ] 48:29۔

ص ن م : (س) صنما ، غلام کا قوی اور مضبوط ہونا۔ صنم (ج) اصنام ۔ کسی کا مجسمہ ، بت زیر مطالعہ آیت ۔ 74)

ک و ک ب : (رباعی) کوکبۃ ۔ لوہے کا چمک اٹھنا ۔ جگ مگ کرنا ۔ کوکب ، ستارہ ، وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ [ اور جب ستارے جھڑجائیں گے] 82:2۔

ء ف ل : (ض۔ ن) افولا ،غروب ہونا ، ڈوب جانا۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 76۔ افل ۔ اسم الفاعل ہے ۔ غروب ہونے والا ۔ زیر مطالعہ آیت 76۔

ب ز غ : (ن) بزغا ، نشتر لگنے سے خون نکلنا ۔ نمودار ہونا ۔ طلوع ہونا ۔ بازغ ۔ اسم الفاعل ہے ، طلوع ہونے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔77۔

ترکیب: (6:74) ابی کا بدل ہونے کی وجہ سے ازر حالت جر میں ہے ۔ تتخذ کا مفعول اول اصناما ہے اور الہۃ اس کا مفعول ثانی ہے ۔ سلسلہ کلام اذ سے شروع ہوا ہے اس لئے نری (مضارع ) کا ترجمہ ماضی میں ہوگا ۔ (6:78) الشمس مونث غیر حقیقی ہے اس لئے اس کے لئے کہ ھذا اور کبری کی جگہ اکبر بھی جائز ہے ۔

نوٹ 1: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر ہے ۔ تورات کے عربی اور انگریزی ترجموں اور تالمود ، سب میں اس لفظ کا تلفظ ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ قرآن نے یہاں جس تصریح کے ساتھ اس نام کا ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں یہود کے ہاں روایات کا جو اختلاف ہے وہ اس کو رفع کرنا چاہتا ہے اور قرآن چونکہ براہ راست وحی الہی پر مبنی ہے اس لئے ماننا چاہئے کہ یہی نام صحیح ہے (تدبر قرآن )

یہ بات نوٹ کرلیں کہ ناموں میں تلظ کے اختلاف کا مسئلہ صرف آزر کے نام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ بلکہ متعدد نام ایسے ہیں جن میں تلفظ کا اختلاف موجود ہے، مثلا یعقوب کو جیکب ، موسیٰ کو موسس ، یوسف کو جوزف کہنا ، وغیرہ ۔

نوٹ 2: آیات 76 تا 78 میں ستارہ ، چاند اور سورج کو دیکھنے کا جو ذکر ہے، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس ابتدائی غوروفکر کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے ان کے لئے حقیقت تک پہنچے کا ذریعہ بنی ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک سوچنے سمجھنے والا انسان ، جس نے سراسر شرک کے ماحول میں آنکھ کھولی تھی ، کس طرح آثار کائنات کا مشاہدہ کرکے اور ان پر غور وفکر کرکے حقیقت معلوم کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ہوش سنبھالا تو ان کے گرد وپیش ہر طرف چاند ، سورج اور تاروں کی خدائی کے ڈنکے بج رہے تھے۔ اس لئے قدرتی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جستجوئے حقیقت کا آغاز اسی سوال سے ہونا چاہئے تھا کہ کیا فی الواقع ان میں سے کوئی رب ہو سکتا ہے ؟ اسی مرکزی سوال پر انہوں نے غوروفکر کیا اور ان سارے خداؤں کو ایک اٹل قانون کے تحت غلاموں کی طرح گردش کرتے دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ ان میں سے کوئی بھی رب نہیں ہو سکتا ۔ رب صرف وہی ایک ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور اپنے حکم کا پابند کیا ۔

مذکورہ آیات کے الفاظ سے عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ہر روز چاند تاروں اور سورج کو طلوع وغروب ہوتے نہ دیکھتے تھے، لیکن یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ۔ نیوٹن کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے باغ میں ایک سیب کو درخت سے گرتے دیکھا تو اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ اشیاء آخر زمین پر ہی کیوں گرا کرتی ہیں ۔ اس پر غور کرتے ہوئے وہ کشش ثقل کے قانون تک پہنچ گیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے نیوٹن نے کبھی کوئی چیز گرتی ہوئی نہیں دیکھی تھی ، ظاہر ہے کہ بار بار دیکھی ہوگی ۔ لیکن ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی چیز کو بارہا دیکھتا رہتا ہے اور اس کے ذہن میں کوئی تحریک نہیں ہوتی ، مگر کسی وقت اسی چیز کو دیکھ کر ذہن میں تحریک ہوتی ہے یا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے اور انسان کی غور وفکر کی قوتیں کام کرنے لگتی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ سورج ، چاند اور تارے سب ہی ان کی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے اور ابھرتے رہتے تھے، لیکن وہ ایک خاص دن تھا جب ایک تارے کے مشاہدے نے ان کے ذہن کو اس راہ پر ڈال دیا جس سے وہ توحید الہ کی حقیقت تک پہنچ گئے۔

اس سلسلہ میں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تارے ، چاند اور سورج کودیکھ کر انہیں اپنا رب کہا، تو کیا اس وقت عارضی طور پر ہی سہی ، وہ شرک میں مبتلا نہ ہوگئے تھے، اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طالب حق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور وفکر کے لئے ٹھہرتاہے، اصل اعتبار ان منزلوں کا نہیں ہوتا ، بلکہ اصل اعتبار اس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کررہا ہے اور اس آخری مقام کا ہوتا ہے جہاں پہنچ کر وہ قیام کرتا ہے ۔ بیچ کی منزلیں ہر جویائے حق کے لئے ناگزیر ہیں ۔ ان پر ٹھہرنا بسلسلہ طلب وجستجو ہوتا ہے نہ کہ بصورت فیصلہ ۔ اصلا یہ ٹھہراؤسوالی واستفہامی ہوتا ہے نہ کہ حکمی ۔ طالب جب ان میں سے کسی منزل پر رک کر کہتا ہے کہ ’’ ایسا ہے ‘‘ تو دراصل یہ اس کی آخری رائے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ’’ ایسا ہے ؟‘‘ اور تحقیق سے اس کا جواب نفی میں پاکر وہ آگے بڑھ جاتا ہے ۔ اس لئے یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ اثنائے راہ میں جہاں جہاں وہ ٹھہرتا رہا وہاں وہ عارضی طور پر کفر وشرک میں مبتلا رہا (تفہیم القرآن )

وَكَذٰلِكَ نُرِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ  75؀
وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح ] نُرِيْٓ [ ہم نے مشاہدہ کرایا ] اِبْرٰهِيْمَ [ ابراہیم کو ] مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [ زمین اور آسمانوں کی بادشاہت کا ] وَلِيَكُوْنَ [ اور تاکہ وہ ہوجائے ] مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ [ یقین کرنے والوں میں سے]

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ الَّيْلُ رَاٰ كَوْكَبًا  ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّيْ  ۚ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ   76؀
فَلَمَّا [ پھر جب ] جَنَّ [ چھاگئی ] عَلَيْهِ [ ان پر ] الَّيْلُ [ رات ] رَاٰ [ توانہوں نے دیکھا ] كَوْكَبًا ۚ [ ایک تارہ ] قَالَ [ انہوں نے کہا] هٰذَا [ یہ ] رَبِّيْ ۚ [ میرا رب (ہوسکتا) ہے؟] فَلَمَّآ [ پس جب ] [ اَفَلَ: ڈوب گیا] [ قَالَ] [ آپ نے فرمایا] [ لَآ اُحِبُّ [ میں محبت نہیں کرسکتا] [ الْاٰفِلِيْنَ: ڈوب جانے والوں سے]

فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّيْ  ۚ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَىِٕنْ لَّمْ يَهْدِنِيْ رَبِّيْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّاۗلِّيْنَ   77؀
فَلَمَّا [ پھر جب ] رَاَ [ انہوں نے دیکھا ] الْقَمَرَ [ چاند کو ] بَازِغًا [ طلوع ہونے والا ہوتے ہوئے] قَالَ [ تو انہوں نے کہا ] هٰذَا [ یہ ] رَبِّيْ ۚ [ میرا رب (ہوسکتا ) ہے ؟] فَلَمَّآ [ پھر جب] اَفَلَ [ وہ ڈوب گیا ] قَالَ [ تو انہوں نے کہا ] لَىِٕنْ [ یقینا اگر] لَّمْ يَهْدِنِيْ [ ہدایت نہ دی مجھے] رَبِّيْ [ میرے رب نے ] لَاَكُوْنَنَّ [ تو میں لازما ہوجاؤں گا ] مِنَ الْقَوْمِ الضَّاۗلِّيْنَ [ گمراہ ہونے والے لوگوں میں سے ]

فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّيْ هٰذَآ اَكْبَرُ ۚ فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ  78؀
فَلَمَّا [ پھر جب ] رَاَ [ انہوں نے دیکھا ] الشَّمْسَ [ سورج کو ] بَازِغَةً [ طلوع ہونے والا ہوتے ہوئے] قَالَ [ تو انہوں نے کہا ] هٰذَا [ یہ ] رَبِّيْ [ میرا رب (ہوسکتا) ہے؟) هٰذَآ [ یہ ] اَكْبَرُ ۚ [ سب سے بڑا ہے] فَلَمَّآ [ پھر جب ] اَفَلَتْ [ وہ ڈوب گیا ]قَالَ [ تو انہوں نے کہا ] يٰقَوْمِ [ اے میری قوم ] اِنِّىْ [ بیشک میں] بَرِيْۗءٌ [ بری ہوں ] مِّمَّا [ اس سے جس کو ] تُشْرِكُوْنَ [ تم لوگ شریک کرتے ہو]

اِنِّىْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ   79؀ۚ
اِنِّىْ [ بیشک میں نے ]وَجَّهْتُ [ رخ کیا ] وَجْهِيَ [ اپنے چہرے کا ] لِلَّذِيْ [ اس کی طرف جس نے ] فَطَرَ [ وجود بخشا] السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں کو ] وَالْاَرْضَ [ اور زمین کو ]حَنِيْفًا [ یکسوہوتے ہوئے] وَّمَآ اَنَا [ اور میں نہیں ہوں ] مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ [ شریک کرنے والوں میں سے]

وَحَاۗجَّهٗ قَوْمُهٗ  ۭ قَالَ اَتُحَاۗجُّوْۗنِّىْ فِي اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰىنِ ۭ وَلَآ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖٓ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ رَبِّيْ شَـيْــــًٔـا  ۭوَسِعَ رَبِّيْ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا  ۭ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ   80؀
وَحَاۗجَّهٗ [ اور ان سے حجت بازی کی ]قَوْمُهٗ ۭ [ ان کی قوم نے]قَالَ [ انہوں نے کہا] ا [ کیا] اَتُحَاۗجُّوْۗنِّىْ [ تم لوگ حجت بازی کرتے ہو مجھ سے ] فِي اللّٰهِ [ اللہ (کے بارے ) میں] وَ [ اس حال میں کہ ] قَدْ هَدٰىنِ ۭ [ وہ ہدایت دے چکا ہے مجھ کو ]وَلَآ اَخَافُ [ اور میں نہیں ڈرتا ] مَا [ اس سے ] تُشْرِكُوْنَ [ تم لوگ شریک کرتے ہو]بِهٖٓ [ جس کو ] اِلَّآ اَنْ [ سوائے اس کے کہ ] يَّشَاۗءَ [ چاہے] رَبِّيْ [ میرا رب ] شَـيْــــًٔـا ۭ [ کچھ (تکلیف دینا )] وَسِعَ [ کشادہ ہوا] رَبِّيْ [ میرا رب ]كُلَّ شَيْءٍ [ ہرچیز پر ]عِلْمًا ۭ [ بلحاظ علم کے] اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ [ تو کیا تم لوگ یاد دہانی حاصل نہیں کرتے ]



ترکیب : (6:80) یہاں وسع فعل لازم ہے ۔ ربی اس کا فاعل ہے اور کل کی نصب ظرف ہونے کی وجہ سے ہے جب کہ علما تمیز ہے ۔ (6:38) نررع کا مفعول من ہے جبکہ درجت تمیز ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔

وَكَيْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا  ۭ فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ ۚ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ   81؀ۘ
وَكَيْفَ [ اور کیسے ]اَخَافُ [ میں ڈروں ] مَآ [ اس سے جس کو ] اَشْرَكْتُمْ [ تم لوگوں نے شریک کیا ]وَ [ حالانکہ ] لَاتَخَافُوْنَ [ تم لوگ نہیں ڈرتے ] اَنَّكُمْ [ کہ تم نے ] اَشْرَكْتُمْ [ شریک کیا ] بِاللّٰهِ [ اللہ کے ساتھ ] مَا [ اس کو ]لَمْ يُنَزِّلْ [ اس نے نہیں اتاری ] بِهٖ [ جس کی ] عَلَيْكُمْ [ تم پر] سُلْطٰنًا ۭ [ کوئی دلیل] فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ [ تو دونوں فریقوں میں سے کون ]اَحَقُّ [ زیادہ حقدار ہے ] بِالْاَمْنِ ۚ [ سکون میں ہونے کا ] اِنْ [ اگر] كُنْتُمْ [ تم لوگ ] تَعْلَمُوْنَ [ جانتے ہو]

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ   82؀ۧ
اَلَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو ]اٰمَنُوْا [ ایمان لائے] وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا [ اور انہوں نے گڈمڈ نہیں کیا ] اِيْمَانَهُمْ [ اپنے ایمان کو ] بِظُلْمٍ [ ظلم کے ساتھ ] اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ ہیں ] لَهُمُ [ جن کے لئے ہے ] الْاَمْنُ [ سکون میں ہونا ] وَهُمْ [ اور وہ لوگ ہی ] مُّهْتَدُوْنَ [ ہدایت پانے والے ہیں ]

وَتِلْكَ حُجَّتُنَآ اٰتَيْنٰهَآ اِبْرٰهِيْمَ عَلٰي قَوْمِهٖ ۭ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ  ۭاِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ   83؀
وَتِلْكَ [ اور یہ ] حُجَّتُنَآ [ ہماری حجت ہے ] اٰتَيْنٰهَآ [ جو ہم نے دی ] اِبْرٰهِيْمَ [ ابراہیم کو ] عَلٰي قَوْمِهٖ ۭ [ ان کی قوم پر ]نَرْفَعُ [ ہم بلند کرتے ہیں ] دَرَجٰتٍ [ درجات کے لحاظ سے] مَّنْ [ اس کو جس کو ] نَّشَاۗءُ ۭ [ ہم چاہتے ہیں ] اِنَّ [ یقینا ] رَبَّكَ [ آپ کا رب ] حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]

وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ۭ كُلًّا هَدَيْنَا  ۚ وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَهٰرُوْنَ  ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ  84؀ۙ
وَوَهَبْنَا [ اور ہم نے عطا کیا ] لَهٗٓ [ ان کو] اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ۭ [ اسحق اور یعقوب ] كُلًّا [ سب کو ] هَدَيْنَا ۚ [ ہم نے ہدایت دی ] وَنُوْحًا [ اور نوح علیہ السلام کو (بھی ) ] هَدَيْنَا [ ہم نے ہدایت دی ] مِنْ قَبْلُ [ اس سے پہلے] وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ [ اور ان کی اولاد میں سے ]دَاوٗدَ [ داود کو ]وَسُلَيْمٰنَ [ اور سلیمان علیہ السلام کو ]وَاَيُّوْبَ [ اور ایوب علیہ السلام کو ] وَيُوْسُفَ [ اور یوسف علیہ السلام کو ] وَمُوْسٰي [ اور موسیٰ علیہ السلام کو ] وَهٰرُوْنَ ۭ [ اور ہارون علیہ السلام کو ] وَكَذٰلِكَ [ اور اسی طرح ] نَجْزِي [ ہم جزا دیتے ہیں ] الْمُحْسِنِيْنَ [ بلا کم وکاست کام کرنے والوں کو ]



ق د ر : (ن) قدوا ۔ گھوڑے کا سوار کو لے جانا ۔ (افتعال ) اقتداء ۔ کسی کے نقش قدم پر چلنا ۔ پیروی کرنا ۔ اقتد ، فعل امر ہے ۔ تو پیروی کر ۔ زیر مطالعہ آیت ۔90۔ مقتد ۔ اسم الفاعل ہے۔ پیروی کرنے والا ۔ وانا علی اثارہم مقتدون [ اور بےشک ہم ان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ہیں ] 43 :23۔

ترکیب : (6:84) لہ میں ضمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ہے ۔ ونوحا ھدینا میں ھدینا کا مفعول ہونے کی وجہ سے نوحا حالت نصب میں آیا ہے ۔ اس کے آگے انبیاء کرام کے تمام نام بھی اسی ھدینا کا مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں ۔ ذریۃ کی ضمیر حضرت نوح علیہ السلام کے لیے ہے۔ (6:89) یکفر کا فاعل ھولاء ہے ۔ (6:90) اقتد فعل امر ہے ۔ اس کے آگے ہائے سکت لگی ہوئی ہے ۔ (آیت 2:259، نوٹ 2) اقتد کا مفعول بھدہم ہے۔

وَزَكَرِيَّا وَيَحْيٰى وَعِيْسٰي وَاِلْيَاسَ  ۭكُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ  85؀ۙ
وَزَكَرِيَّا [ اور زکریا علیہ السلام کو ] وَيَحْيٰى [ اور یحی علیہ السلام کو ] وَعِيْسٰي [ اور عیسیٰ علیہ السلام کو ]وَاِلْيَاسَ ۭ [ اور الیاس علیہ السلام ] كُلٌّ [ یہ سب ] مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ [ صالحین میں سے ہیں ]

وَاِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَيُوْنُسَ وَلُوْطًا  ۭ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَي الْعٰلَمِيْنَ  86؀ۙ
وَاِسْمٰعِيْلَ [ اور اسمعیل علیہ السلام کو ] وَالْيَسَعَ [ اور الیسع علیہ السلام ] وَيُوْنُسَ [ اور یونس علیہ السلام ] وَلُوْطًا ۭ [ اور لوط علیہ السلام کو ] وَكُلًّا [ اور سب کو ] فَضَّلْنَا [ ہم نے فضیلت دی ] عَلَي الْعٰلَمِيْنَ [ تمام عالموں پر ]

وَمِنْ اٰبَاۗىِٕهِمْ وَذُرِّيّٰتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ ۚ وَاجْتَبَيْنٰهُمْ وَهَدَيْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ   87؀
وَمِنْ اٰبَاۗىِٕهِمْ [ اور ان کے آباواجداد میں سے ] وَذُرِّيّٰتِهِمْ [ اور ان کی اولاد میں سے] وَاِخْوَانِهِمْ ۚ [ اور ان کے بھائیوں میں سے (کچھ کو ہم نے فضیلت دی ) ] وَ [ اس حال میں کہ ] اجْتَبَيْنٰهُمْ [ ہم نے ان کو چن لیا ] وَهَدَيْنٰهُمْ [ اور ہم نے ان کو ہدایت دی ] اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ [ ایک سیدھے راستے کی طرف ]

ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ  ۭوَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ  88؀
ذٰلِكَ [ یہ ] هُدَى اللّٰهِ [ اللہ کی ہدایت ہے ] يَهْدِيْ [ وہ ہدایت دیتا ہے ] بِهٖ [ اس کی ] مَنْ [ اس کو جس کو ] يَّشَاۗءُ [ وہ چاہتا ہے ] مِنْ عِبَادِهٖ ۭ [ اپنے بندوں میں سے ] وَلَوْ [ اور اگر ] اَشْرَكُوْا [ وہ لوگ شرک کرتے]لَحَبِطَ [ تو یقینا اکارت ہوجاتا ] عَنْهُمْ [ ان سے ] مَّا [ وہ جو ] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [ وہ لوگ کرتے تھے ]

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ  ۚ فَاِنْ يَّكْفُرْ بِهَا هٰٓؤُلَاۗءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِيْنَ   89؀
اُولٰۗىِٕكَ [ یہ لوگ ] الَّذِيْنَ [ وہ ہیں ] اٰتَيْنٰهُمُ [ ہم نے دیا جن کو ] الْكِتٰبَ [ کتاب] وَالْحُكْمَ [ اور حکم دینے کا اختیار ] وَالنُّبُوَّةَ ۚ [ اور نبوت ] فَاِنْ [ پھر اگر] يَّكْفُرْ [ انکار کریں ] بِهَا [ اس کا ] هٰٓؤُلَاۗءِ [ یہ لوگ (یعنی اہل مکہ ) ] فَقَدْ وَكَّلْنَا [ تو ہم نے نگہبان مقرر کیا ہے ] بِهَا [ اس کا ] قَوْمًا [ ایک ایسی قوم کو جو ] لَّيْسُوْا [ نہیں ہے ] بِهَا [ اس کا ] بِكٰفِرِيْنَ [ انکار کرنے والی]

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ  ۭ قُلْ لَّآ اَسْــــَٔـلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا  ۭاِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰي لِلْعٰلَمِيْنَ   90؀ۧ
اُولٰۗىِٕكَ [ یہ لوگ ] الَّذِيْنَ [ وہ ہیں جن کو ] هَدَى [ ہدایت دی ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] فَبِهُدٰىهُمُ [ پس ان کی ہدایت کی ] اقْتَدِهْ ۭ [ آپ پیروی کریں ] قُلْ [ آپ کہہ دیجئے ]لَّآ اَسْــــَٔـلُكُمْ [ میں نہیں مانگتا تم لوگوں سے ] عَلَيْهِ [ اس پر ] اَجْرًا ۭ [ کوئی اجرت ] اِنْ هُوَ [ نہیں ہے یہ ] اِلَّا [ مگر ] ذِكْرٰي [ ایک یاد دہانی ]لِلْعٰلَمِيْنَ [ تمام عالموں کے لئے]

وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ ۭ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِهٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَهَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا  ۚ وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاۗؤُكُمْ ۭ قُلِ اللّٰهُ  ۙ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِيْ خَوْضِهِمْ يَلْعَبُوْنَ     91؀
وَمَا قَدَرُوا [ اور انہوں نے قدر نہیں کی ] اللّٰهَ [ اللہ کی ] حَقَّ قَدْرِهٖٓ [ جیسا اس کی قدر کا حق ہے] اِذْ [ جب ] قَالُوْا [ انہوں نے کہا ] مَآ اَنْزَلَ [ نہیں اتارا ] اللّٰهُ [ اللہ نے] عَلٰي بَشَرٍ [ کسی بشر پر ] مِّنْ شَيْءٍ ۭ [ کچھ بھی ] قُلْ [ آپ کہئے ] مَنْ [ کس نے ] اَنْزَلَ [ اتارا] الْكِتٰبَ الَّذِيْ [ اس کتاب کو ] جَاۗءَ بِهٖ [ لائے جس کو ] مُوْسٰي [ موسیٰ ] نُوْرًا [ نور ہوتے ہوئے ] وَّهُدًى [ اور ہدایت ہوئے ] لِّلنَّاسِ [ لوگوں کے لئے] تَجْعَلُوْنَهٗ [ تم لوگ بناتے ہو اس کے] قَرَاطِيْسَ [ اوراق (یعنی اوراق میں نقل کرتے ہو)] تُبْدُوْنَهَا [ تم لوگ ظاہر کرتے ہو اس کو ]وَتُخْفُوْنَ [ اور چھپاتے ہو] كَثِيْرًا ۚ [ اکثر کو ] وَعُلِّمْتُمْ [ اور علم دیا گیا تمہیں ] مَّا [ اس کا جو ] لَمْ تَعْلَمُوْٓا [ نہیں جانتے تھے ] اَنْتُمْ [ تم لوگ] وَلَآ اٰبَاۗؤُكُمْ ۭ [ اور نہ ہی تمہارے آباواجداد قُلِ [ آپ کہئے ] اللّٰهُ ۙ [ اللہ نے ] ثُمَّ [ پھر ] ذَرْ [ آپ چھوڑدیں ] هُمْ [ ان کو ] فِيْ خَوْضِهِمْ [ ان کی لاحاصل بات میں ]يَلْعَبُوْنَ [ کھیلتے ہوئے]



غ م ر (ن) غمرا ۔ پانی کا اتنا زیادہ ہونا کہ ہر چیز ڈھنک جائے ۔ (1) زیادہ ہونا ۔ سخت ہونا۔ (2) عقل کا کسی چیز سے ڈھنکا ہوا ہونا۔ غافل ہونا ۔ مدہوش ہونا۔ غمرۃ (ج) غمرات ۔ اسم ذات ہے ۔ (1) زیادتی ، سختی ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 93۔ (2) غفلت ، مدہوشی ، فَذَرْهُمْ فِيْ غَمْرَتِهِمْ حَتّٰى حِيْنٍ [ پس آپ چھوڑدیں ان کو ان کی مدہوشی میں ایک مدت تک ] 23:54۔

ف رد (ن ۔ ک) فرودا۔ اکیلا ، تنہا ہونا۔ فردا (ج) فرادی ، صفت ہے ۔ اکیلا تنہا ۔ رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا ۔ [ اے میرے رب تو نہ چھوڑ مجھ کو تنہا] 21:89۔

ترکیب : (6:91) نورا اور ھدی حال ہیں ۔ تجعلونہ میں ضمیر مفعولی الکتب کے لئے ہے جبکہ تبدونھا میں ضمیر مفعولی قراطیس کے لئے ہے ۔ لم تعلموا میں ضمیر فاعلی انتم ۔ از خود شامل ہے لیکن یہاں اس کا ایک اور فاعل اباء کم بھی تھا اس لئے انتم کی ضمیر کو ظاہر کیا گیا ۔ قل اللہ جواب ہے من انزل کا ۔ یلعبون بھی حال ہے ۔ (6:92) وھذا مبتدا ہے ۔ کتب خبر ہے ، انزلنہ اس کی صفت اول ہے ۔ مبارک صفت ثانی ہے۔ مصدق الذی میں مضاف کی رفع بتا رہی ہے کہ یہ حال نہیں ہے بلکہ کتب کی تیسری صفت ہے ۔ بہ کی ضمیر کتب کیلئے ہے ۔ (6:93) الظلمون مبتدا ہے اور فی غمرت الموت قائم مقام خبر ہے ۔ پھر یہ پورا جملہ ولو تری کا مفعول ہونے کی وجہ سے محلا منصوب ہے ۔ اسی طرح والملئکۃ مبتدا ہے اور باسطوا ایدیہم اس کی خبر ہے ۔ پھر یہ جملہ بھی ولو تری کا مفعول ہے ۔ باسطوا دراصل باسطون تھا ۔ آگے ایدکا مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا ہے اور الف کا اضافہ قرآن مجید کا مخصوص املا ہے۔ اخرجوا سے پہلے ان محذوف ہے ۔ الیوم ظرف ہے ۔ (6:94) فرادی حال ہے ۔ وراء ظرف ہے تقطع کا فاعل محذوف ہے۔

نوٹ 1: مکہ معظمہ کو ام القری اس لئے کہا گیا ہے کہ تاریخی روایات کے مطابق ابتداء آفرینش میں پیدائش زمین کی ابتدا یہیں سے ہوئی ہے۔ نیز یہ کہ سارے عالم کا قبلہ اور عبادت میں مرکز توجہ یہی ہے ۔ اس کے ساتھ ومن حولھا سے مراد مکہ کے تمام اطراف ہیں ، جس میں پورا عالم مشرق ومغرب اور جنوب وشمال داخل ہے ۔ (معارف القرآن )

نوٹ 2: رسول اللہ صلی اللہ علی کا ارشاد ہے کہ ابن آدم کہتا ہے میرا مال میرا مال ۔ لیکن تیرا مال تو صرف اتنا ہی تھا جو تو نے کھایا اور فنا کردیا ، پہنا اور پرانا کردیا یا دوسروں کو دیا اور گویا باقی رکھ لیا ۔ اس کے سوا تیری ساری دولت دوسروں کے لئے ہے (ابن کثیر )

وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَهَا  ۭوَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَهُمْ عَلٰي صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ    92؀
وَهٰذَا [ اور یہ ] كِتٰبٌ [ ایک کتاب ہے] اَنْزَلْنٰهُ [ ہم نے اتارا جس کو ] مُبٰرَكٌ [ برکت دی ہوئی ] مُّصَدِّقُ الَّذِيْ [ تصدیق کرنے والی اس کی جو ] بَيْنَ يَدَيْهِ [ اس کے سامنے (یعنی پہلے ) ہے ] وَلِتُنْذِرَ [ اور تاکہ آپ خبردار کریں ] اُمَّ الْقُرٰي [ بستیوں کی ماں (یعنی مکہ والوں ) کو ] وَمَنْ [ اور ان کو جو ] حَوْلَهَا ۭ [ اس کے اردگرد ہیں ] وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ جو ] يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان رکھتے ہیں ] بِالْاٰخِرَةِ [ آخرت پر ] يُؤْمِنُوْنَ [ وہ ایمان لاتے ہیں ] بِهٖ [ اس پر ] وَهُمْ [ اور وہ لوگ ] عَلٰي صَلَاتِهِمْ [ اپنی نماز پر (یعنی کی ) ]يُحَافِظُوْنَ [ حفاظت کرتے ہیں ]

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ    93؀
وَمَنْ [ اور کون ] اَظْلَمُ [ زیادہ ظالم ہے] مِمَّنِ [ اس سے جس نے ] افْتَرٰي [ گھڑا ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] كَذِبًا [ ایک جھوٹ ] اَوْ [ یا ] قَالَ [ اس نے کہا ] اُوْحِيَ [ وحی کی گئی ] اِلَيَّ [ میری طرف ] وَ [ حالانکہ ]لَمْ يُوْحَ [ وحی نہیں کی گئی ] اِلَيْهِ [ اس کی طرف ] شَيْءٌ [ کوئی چیز ] وَّمَنْ [ اور (اس سے ) جس نے ] قَالَ [ کہا ] سَاُنْزِلُ [ میں اتاروں گا ] مِثْلَ مَآ [ اس کے جیسا جو ] اَنْزَلَ [ اتارا ] اللّٰهُ ۭ [ اللہ نے ] وَلَوْ [ اور اگر ] تَرٰٓي [ آپ دیکھتے ] اِذِ [ جب ] الظّٰلِمُوْنَ [ ظالم لوگ ] فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ [ موت کی سختیوں میں ہوں گے ] وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ [ اور فرشتے ] بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ [ اپنے ہاتھوں کو پھیلانے والے ہوں گے ]اَخْرِجُوْٓا [ (کہ ) تم لوگ نکالو] اَنْفُسَكُمْ ۭ [ اپنی جانوں کو ] اَلْيَوْمَ [ آج کے دن] تُجْزَوْنَ [ تم لوگوں کو بدلہ دیا جائے گا] عَذَابَ الْهُوْنِ [ ذلت کے عذاب کا ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ]كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ [ تم لوگ کہتے تھے ]عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] غَيْرَ الْحَقِّ [ حق کے بغیر ] وَكُنْتُمْ [ اور تم لوگ ] عَنْ اٰيٰتِهٖ [ اس کی نشانیوں سے ] تَسْتَكْبِرُوْنَ [ تکبر کرتے تھے ]

فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا  ۭذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ    96؀
فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ [ (وہ) صبح کی روشنی کو ظاہر کرنے والا ہے ] وَجَعَلَ [ اور اس نے بنایا] الَّيْلَ [ رات کو ] سَكَنًا [ آرام ] وَّالشَّمْسَ [ اور سورج کو ] وَالْقَمَرَ [ اور چاند کو] حُسْـبَانًا ۭ [ حساب رکھنے والا] ذٰلِكَ [ یہ ] تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ [ علیم ، بالادست (ہستی ) کا طے شدہ امر ہے ]

وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَهْتَدُوْا بِهَا فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ    97؀
وَهُوَ [ اور وہ ] الَّذِيْ [ وہی ہے جس نے ]جَعَلَ [ بنائے ] لَكُمُ [ تمہارے لئے] النُّجُوْمَ [ ستارے ] لِتَهْتَدُوْا [ تاکہ تم لوگ راہ پاؤ] بِهَا [ ان سے] فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ [ سمندر اور زمین کے اندھیروں میں] قَدْ فَصَّلْنَا [ ہم نے کھول کھول کر بیان کیا ہے ] الْاٰيٰتِ [ نشانیوں کو ] لِقَوْمٍ [ ایک ایسے گروہ کے لئے ]يَّعْلَمُوْنَ [ جو علم رکھتے ہیں ]

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْـتَوْدَعٌ ۭ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّفْقَهُوْنَ   98؀
وَهُوَ [ اور وہ ] الَّذِيْٓ [ وہی ہے جس نے ] اَنْشَاَكُمْ [ اٹھایا تم کو ] مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ [ ایک اکیلی جان سے] فَمُسْتَقَرٌّ [ تو (تمہارے لئے ہے ) ایک ٹھہرنے کی جگہ ] وَّمُسْـتَوْدَعٌ ۭ [ اور ایک بطور امانت رکھے جانے کی جگہ ]قَدْ فَصَّلْنَا [ ہم نے کھول کھول کر بیان کیا ہے ] الْاٰيٰتِ [ نشانیوں کو ] لِقَوْمٍ [ ایسے لوگوں کے لئے] يَّفْقَهُوْنَ [ جو سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ]

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً  ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا  ۚ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ ۙ وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۭ اُنْظُرُوْٓا اِلٰى ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَــرَ وَيَنْعِهٖ ۭاِنَّ فِيْ ذٰلِكُمْ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ    99؀
وَهُوَ [ اور وہ ] الَّذِيْٓ [ وہی ہے جس نے] اَنْزَلَ [ اتارا ] مِنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے] مَاۗءً ۚ [ کچھ پانی ]فَاَخْرَجْنَا [ پھر ہم نے نکالا ] بِهٖ [ اس سے ]نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز کا اگنا]فَاَخْرَجْنَا [ پھر ہم نے نکالا] مِنْهُ [ اس میں سے] خَضِرًا [ کچھ سبزی ] نُّخْرِجُ [ (پھر ) ہم نکالتے ہیں ] مِنْهُ [ اس میں سے] حَبًّا مُّتَرَاكِبًا ۚ [ ایک پر ایک چڑھنے والے دانوں کو ]وَمِنَ النَّخْلِ [ اور کجھور سے، ] مِنْ طَلْعِهَا [ اس کی کونپل میں ] قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ ۙ [ کچھ نزدیک ایک ہونے والے گچھے ہیں ] وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ [ اور (ہم نکالتے ہیں ) انگور کے باغات کو ] وَّالزَّيْتُوْنَ [ اور زیتون کو ] وَالرُّمَّانَ [ اور انار کو ] مُشْتَبِهًا [ ملتے جلتے ہوئے ]وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۭ [ اور باہم نہ ہوتے ہوئے ] اُنْظُرُوْٓا [ تم لوگ دیکھو ] اِلٰى ثَمَرِهٖٓ [ اس کے پھل کی طرف ] اِذَآ جب ]اَثْمَــرَ [ وہ پھل دے] وَيَنْعِهٖ ۭ [ اور اس کے پکنے کی طرف ]اِنَّ [ یقینا ] فِيْ ذٰلِكُمْ [ اس میں ] لَاٰيٰتٍ [ کچھ نشانیاں ہیں ]لِّقَوْمٍ [ ایسے لوگوں کے لئے ] يُّؤْمِنُوْنَ [ جو ایمان رکھتے ہیں ]



نوٹ 1: آیت نمبر 99 میں الی ثمرہ میں ضمیر کا مرجع وہ ساری ہی چیزیں ہیں جن کا ذکرگزرا ہے لیکن جمع کے بجائے ضمیر واحد اس وجہ سے ہے کہ قرآن چاہتاہے کہ ان میں سے ایک ایک چیز کو الگ الگ لے کر ان کے پیدا ہونے سے ان کے پکنے تک کے تمام مراحل پر غور کیا جائے ۔ غور وفکر کا عمل فطری طور پر تقاضہ کرتا ہے کہ ایک وقت میں ایک چیز پر نگاہ جمائی جائے تاکہ قوت فکر منتشر نہ ہو ۔ گویا یہاں قرآن نے صرف غور وفکر کی دعوت ہی نہیں دی بلکہ اس کا صحیح طریقہ بھی بتادیا (تدبر قرآن )

وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوْا لَهٗ بَنِيْنَ وَبَنٰتٍۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭسُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ    ١٠٠؀ۧ
وَجَعَلُوْا [ اور انہوں نے بنایا ] لِلّٰهِ [ اللہ کے لئے ] شُرَكَاۗءَ [ ساجھی ] الْجِنَّ [ جنوں کو ] وَ [ حالانکہ ]خَلَقَهُمْ [ اس نے پیدا کیا ان کو ] وَخَرَقُوْا [ اور انہوں نے گھڑے ] لَهٗ [ اس کے لئے ] بَنِيْنَ [ کچھ بیٹے ] وَبَنٰتٍۢ [ اور کچھ بیٹیاں ] بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ [ کسی علم کے بغیر ] سُبْحٰنَهٗ [ اس کی پاکیزگی ہے] وَتَعٰلٰى [ اور وہ بلند ہے] عَمَّا [ اس سے جو ] يَصِفُوْنَ [ یہ لوگ بتاتے ہیں ]

بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ  ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ      ١٠١؀
بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ [ (وہ) زمین اور آسمانوں کا ایجاد کرنے والا ہے ] اَنّٰى [ کہاں سے ] يَكُوْنُ [ ہوگی ] لَهٗ [ اس کے لئے ] وَلَدٌ [ کوئی اولاد ] وَّ [ اس حال میں کہ ] لَمْ تَكُنْ [ تھی ہی نہیں ] لَّهٗ [ اس کے لئے ] صَاحِبَةٌ ۭ [ کوئی ساتھی (یعنی بیوی ) ] وَخَلَقَ [ اور اس نے پیدا کیا ] كُلَّ شَيْءٍ ۚ [ ہر چیز کو ] وَهُوَ [ اور وہ ] بِكُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز کو ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]



ل ط ف : (ن) لطفا ۔ لطیف ہونا ۔ یہ ثقیل اور کثیف کی ضد ہے۔ یعنی ہر قسم کے ثقل اور کثافت سے مبرا ہونا ۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے ۔ (1) نرم اور مہربان ہونا ۔ (2) ایسی تدبیر کرنا کہ کسی کو اس کا احساس نہ ہو (3) باریک بین ہونا ۔ لطیف ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے ، اسم الفاعل کے معنی میں ۔ ہمیشہ اور ہر حال میں (1) نرمی اور مہربانی کرنے والا (2) غیر محسوس تدبیر کرنے والا (3) باریک بین ۔ اللہ لطیف بعبادہ [ اللہ نرمی کرنے والا ہے اپنے بندوں سے ] 42:19۔ اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ [ بےشک میرا رب غیر محسوس تدبیر کرنے والا ہے اس کے لئے جو وہ چاہتا ہے ] 12:100 اور زیرمطالعہ آیت ۔103۔ (تفعل ) بتکلف نرمی اختیار کرنا ۔ فَلْيَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ [ پھر چاہیے کہ وہ لائے تمہارے لئے کچھ کھانا اس میں سے اور چاہیے کہ وہ نرمی اختیار کرے ] 18:19۔

ترکیب: (2:101) یکون کان تامہ ہے اور ولد اس کا فاعل ہونے کی وجہ سے حالت رفع میں ہے ۔ (6:102) ذلکم اللہ مرکب اشاری اور مبتدا ہے ۔ ربکم اس کی خبر ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ذلکم کو مبتدا اور اللہ کو خبر مانیں ، تو ربکم بدل ہو گا اللہ کا ۔ ترجمے میں ہم پہلی صورت کو ترجیح دیں گے ۔ (6:104) لنفسہ قائم مقام خبر ہے ۔ اس کا مبتدا فبصیرتہ محذوف ہے ۔ اسی طرح علیھا کا مبتدا فعمیہ محذوف ہے ۔ (6:105) لیقولوا پر لام عاقبت ہے جبکہ لنبینہ پر لام کی ہے ۔

نوٹ 1: انسان کو اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوسکتی ہے یا نہیں ۔ اس مسئلہ میں اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ سے زیارت کی درخواست کی تو جواب ملا کہ آپ ہر گز مجھے نہیں دیکھ سکتے (7:143) البتہ آخرت میں مومنین کو اللہ تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوگی ۔ یہ بات متعدد احادیث سے بھی ثابت ہے اور قرآن مجید میں بھی ہے کہ ’’ قیامت کے روز بہت سے چہرے تروتازہ ہشاش بشاش ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ۔‘‘ (75:22۔23) البتہ کفار ومنکرین اس روز بھی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ کی زیارت سے محروم رہیں گے (83:15) رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ جنت کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہوگی کہ وہاں جنتیوں کو اللہ تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوگی ۔ (مسلم) اور اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو جنت میں خاص درجہ عطا فرمائیں گے ، ان کو روزانہ صبح وشام زیارت نصیب ہوگی ۔ (ترمذی ۔ مسند احمد )

آیت زیر مطالعہ لا تدرکہ الابصار کا مطلب یہ ہے کہ انسانی نگاہ اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتی ۔ کیونکہ اس کی ذات غیر محدود اور انسانی نگاہ محدود ہے ۔ دنیا میں انسانی نگاہ میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ رویت کو بھی برداشت کرسکے ۔ البتہ قیامت میں یہ قوت پیدا ہوجائے گی تو زیارت ہوسکے گی ۔ لیکن ذات حق کا احاطہ اس وقت بھی نہ ہوسکے گا ۔ (معارف القرآن)

ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْهُ  ۚ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ   ١٠٢؀
ذٰلِكُمُ اللّٰهُ [ یہ اللہ ] رَبُّكُمْ ۚ [ تم لوگوں کا رب ہے ] لَآ اِلٰهَ [ کوئی الہ نہیں ہے ] اِلَّا [ سوائے اس کے کہ ] هُوَ ۚ [ وہ (ہی ) ] خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ] فَاعْبُدُوْهُ ۚ [ پس تو لوگ بندگی کرو اس کی ] وَهُوَ [ اور وہ ] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز کا ] وَّكِيْلٌ [ کارساز ہے ]

لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ  ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ    ١٠٣؁
لَا تُدْرِكُهُ [ نہیں پاتیں اس کو ] الْاَبْصَارُ ۡ [ آنکھیں ] وَهُوَ [ اور وہ ] يُدْرِكُ [ پالیتا ہے ] الْاَبْصَارَ ۚ [ آنکھوں کو ] وَهُوَ [ اور وہ ] اللَّطِيْفُ [ باریک بین ] الْخَبِيْرُ [ باخبر ہے]

قَدْ جَاۗءَكُمْ بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ  ۚ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا  ۭوَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ   ١٠٤؁
قَدْ جَاۗءَكُمْ [ آچکی ہیں تمہارے پاس ] بَصَاۗىِٕرُ [ سمجھ میں آنے والی دلیلیں ] مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ [ تمہارے رب (کی طرف) سے] فَمَنْ [ پس جو ] اَبْصَرَ [ بینا ہوا ]فَلِنَفْسِهٖ ۚ [ تو (اس کی بصیرت ) اس کے اپنے لئے ہے ] وَمَنْ [ اور جو ] عَمِيَ [ اندھا ہوا ] فَعَلَيْهَا ۭ [ تو (اس کا اندھا پن ) اس پر ہے ]وَمَآ اَنَا [ اور میں نہیں ہوں ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ] بِحَفِيْظٍ ] کوئی نگرانی کرنے والا ]

وَكَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ وَلِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهٗ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ    ١٠٥؁
وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح ] نُصَرِّفُ [ ہم پھیر بدل کر بیان کرتے ہیں ] الْاٰيٰتِ [ نشانیوں کو ] وَلِيَقُوْلُوْا [ اور نتیجتا وہ کہتے ہیں ] دَرَسْتَ [ تو نے سبق پڑھا ]وَلِنُبَيِّنَهٗ [ اور تاکہ ہم واضح کریں اس کو ] لِقَوْمٍ [ ایسے لوگوں کے لئے] يَّعْلَمُوْنَ [ جو علم رکھتے ہیں ]

اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ  ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۚ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ  ١٠٦؁
اِتَّبِعْ [ آپ پیروی کریں ] مَآ [ اس کی جو ] اُوْحِيَ [ وحی کی گئی ] اِلَيْكَ [ آپ کی طرف ] مِنْ رَّبِّكَ ۚ [ آپ کے رب (کی جانب) سے ] لَآ اِلٰهَ [ کوئی الہ نہیں ہے ] اِلَّا [ سوائے اس کے کہ ] هُوَ ۚ [ وہ (ہی ) ] وَاَعْرِضْ [ اور آپ بےرخی برتیں ] عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ [ شرک کرنے والوں سے]

وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكُوْا  ۭوَمَا جَعَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا  ۚ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيْلٍ ١٠٧؁
وَلَوْ [ اور اگر ] شَاۗءَ [ چاہتا ] اللّٰهُ [ اللہ] [ مَآ اَشْرَكُوْا ۭ] تو یہ لوگ شرک نہ کرتے ] وَمَا جَعَلْنٰكَ [ اور ہم نے نہیں بنایا آپ کو ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ] حَفِيْظًا ۚ [ کوئی نگرانی کرنے والا ] وَمَآ اَنْتَ [ اور آپ نہیں ہیں ] عَلَيْهِمْ [ ان کے ] بِوَكِيْلٍ [ کوئی کارساز]

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭكَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ۠ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَاكَانُوْا يَعْمَلُوْنَ   ١٠٨؀
وَلَا تَسُبُّوا [ اور تم لوگ مت دو ] الَّذِيْنَ [ ان کو جن کو ] يَدْعُوْنَ [ یہ لوگ پکارتے ہیں ] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ] فَيَسُبُّوا [ نتیجتا وہ برا کہیں گے ] اللّٰهَ [ اللہ کو ] عَدْوًۢا [ زیادتی کرتے ہوئے ]بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ [ کسی علم کے بغیر ] كَذٰلِكَ [ اس طرح ] زَيَّنَّا [ ہم نے خوشمنا کیا ] لِكُلِّ اُمَّةٍ [ ہر ایک گروہ کے لئے ] عَمَلَهُمْ ۠ [ ان کے عمل کو ] ثُمَّ [ پھر ]اِلٰى رَبِّهِمْ [ اپنے رب کی طرف ] مَّرْجِعُهُمْ [ ان کا لوٹنا ہے ]فَيُنَبِّئُهُمْ [ پھر وہ جتادے گا انہیں ]بِمَا [ اس کو جو ]كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ) [ وہ لوگ کرتے تھے]



ف ء د : (ف ) فادا ۔ (1) دل پر مارنا ۔ دل پر لگانا (2) دل پر لگنا ۔ بزدل ہونا ۔ فواد (ج) افئدۃ ، اسم ذات ہے ۔ دل ۔ وَاَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا [ اور ہوگیا موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا دل بےقرار ] 28:10۔

ز خ ر ف : (رباعی ) زخرفۃ ۔ سجانا ۔ ملمع چڑھانا ۔ زخرف ، اسم ذات ہے ۔ (1) سجاوٹ ۔ ملمع ۔ (2) سونا (کیونکہ سجاوٹ کے لئے سونا زیادہ استعمال ہوتا ہے ) اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ [ یا ہوتا تیرے لئے کوئی گھر سونے کا ] 17:93۔

ص غ و : (س) صغی بائل ہونا ۔ کسی کی طرف جھکنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 113۔

ق ر ف : (ض) قرفا ۔ درخت کی چھال اتارنا ۔ کسی چیز کو چھیلنا ۔ (افعال ) اقترافا ۔ کمانا ۔ ارتکاب کرنا زیر مطالعہ آیت ۔ 113۔ مقترف ۔ اسم الفاعل ہے ارتکاب کرنے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 113۔

ترکیب: (آیت ۔ 108) تسبوا کا اور یدعون کا ، دونوں کا مفعول الذین ہے ۔ فیسبوا کا فاسببیہ ہے۔ عدوا حال ہے ۔ (آیت 109) جھد ایمانہم میں جھد کی نصب بتا رہی ہے کہ وہ یہ بھی حال ہے ۔ ما یشعر کا ما استفہامیہ ہے۔ انھا کی ضمیر ایہ کے لئے ہے ۔ (آیت ۔ 110) اول مرۃ میں اول کو نصب ظرف ہونے کی وجہ سے ہے ۔ (آیت 112) عدوا۔ واحد اور جمع ، دونوں کے لئے آتا ہے اس لئے اس کا بدل شیطن کے بجائے شیطین الانس والجن بھی درست ہے ۔ ولو شاء ربک سے یفترون تک درمیان میں جملہ معترضہ ہے اور ولتصغی کا تعلق یوحی والے جملے سے ہے۔ الیہ کی ضمیر زخرف القول کے لئے ہے۔

وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا  ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ    ١٠٩؁
وَاَقْسَمُوْا [ اور انہوں نے قسم کھائی ] بِاللّٰهِ [ اللہ کی ] جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ [ اپنی قسموں کا زور لگاتے ہوئے (یعنی پختہ کرتے ہوئے ) ] لَىِٕنْ [ کہ یقینا اگر ] جَاۗءَتْهُمْ [ آئے ان کے پاس ] اٰيَةٌ [ کوئی نشانی (یعنی معجزہ ) ]لَّيُؤْمِنُنَّ [ تو وہ لوگ لازما ایمان لائیں گے] بِهَا ۭ [ اس سے ] قُلْ [ آپ کہئے ] اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] الْاٰيٰتُ [ نشانیاں ] عِنْدَ اللّٰهِ [ اللہ کے پاس ہیں ] وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ [ اور تم کو کیا چیز شعور دیتی ہے (یعنی تم کو کیا خبر )] اَنَّهَآ [ کہ وہ ] اِذَا [ جب ] جَاۗءَتْ [ آئے ] لَا يُؤْمِنُوْنَ [ تو یہ لوگ ایمان نہ لائیں ]

وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ    ١١٠ ؀ۧ
وَنُقَلِّبُ [ اور ہم پلٹ دیتے ہیں ] اَفْــــِٕدَتَهُمْ [ ان کے دلوں کو ] وَاَبْصَارَهُمْ [ اور ان کی نگاہوں کو ] كَمَا [ جیسے کہ ]لَمْ يُؤْمِنُوْا [ یہ لوگ ایمان نہیں لائے ] بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ [ پہلی مرتبہ ] وَّنَذَرُهُمْ [ اور ہم چھوڑ دیتے ہیں ان کو ] فِيْ طُغْيَانِهِمْ [ ان کی سرکشی میں ] يَعْمَهُوْنَ] [ بھٹکتے ہوئے ]



نوٹ 1: قلب اور فؤاد۔ دونوں کے معنی دل ہی ہے ۔ لیکن فؤاد کا لفظ اس عضو کے لئے استعمال نہیں ہوتا جو سینے کے اندر دھڑکتا ہے، بلکہ اس مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے جو انسان کے شعور وادراک ، جذبات وخواہشات ، عقائد وافکار اور نیتوں اور ارادوں کا مقام ہے (تفہیم القرآن ۔ ج 6 ۔ ص 459) یہ بات نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ قلب اور اس کی جمع قلوب کے الفاظ گوشت کے اس لوتھڑے کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں جو ہمارے جسم میں خون پمپ کرتاہے ۔ لیکن اس معنی میں قرآن مجید ان الفاظ کو استعمال نہیں کرتا ۔ قلب اور قلوب کو بھی قرآن مجید عام طور پر اس مقام کے لئے ہی استعمال کرتا ہے جو انسان کی خواہشات اور امنگوں کی آماجگاہ ہے ۔ اس بات کو ذہن میں واضح کرکے جب ہم قرآن مجید کے ایسے مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں تو پھر ایسی آیات کا مفہوم بہتر طور پر ذہن میں اجاگر ہوتا ہے ۔

پروفیسر حافظ احمد یار صاحب مرحوم کا کہنا ہے کہ کسی خارجی دباؤ سے انسان کے عقائد میں تبدیلی نہیں آتی ۔ عقائد میں تبدیلی اسی وقت آتی ہے جب انسان کے اندر کوئی تبدیلی آئے (ترجمہ قرآن کیسٹ سیریز ) حافظ صاحب مرحوم کی بات کو عام فہم انداز میں یوں سمجھ لیں کہ جب تک انسان کی امنگوں ، نیتوں اور ارادوں میں تبدیلی نہ آئے کوئی بڑے سے بڑا معجزہ بھی اس کے نظریات وعقائد کو تبدیل نہیں کرسکتا ۔ آیات زیر مطالعہ میں اسی حقیقت سے انسان کو آگاہ کیا گیا ہے ۔ آیت نمبر 113 میں اس حقیقت کی نشاندہی بھی کردی گئی ہے کہ امنگوں اور ارادوں میں تبدیلی کے ضمن میں ایمان بالآخرہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔