قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
پارہ ہشتم

وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ    ١١١۝
وَلَوْ [ اور اگر ] اَنَّنَا [ یہ کہ ہم ] نَزَّلْنَآ [ اتاریں ] اِلَيْهِمُ [ ان کی طرف ] الْمَلٰۗىِٕكَةَ [ فرشتوں کو ] وَكَلَّمَهُمُ [ اور بات کریں ان سے ] الْمَوْتٰى [ مردے ] وَحَشَرْنَا [ اور ہم اکٹھا کردیں ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ] كُلَّ شَيْءٍ [ ہر چیز کو ] قُبُلًا [ سامنے ہوتے ہوئے] مَّا كَانُوْا [ تو (بھی ) وہ لوگ نہیں ہیں ] لِيُؤْمِنُوْٓا [ کہ ایمان لائیں ]اِلَّآ اَنْ [ سوائے اس کے کہ ] يَّشَاۗءَ [ چاہے ] اللّٰهُ [ اللہ ] وَلٰكِنَّ [ اور لیکن ] اَكْثَرَهُمْ [ ان کے اکثر ] يَجْهَلُوْنَ [ غلط عقائد رکھتے ہیں ]

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا  ۭ وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ     ١١٢؁
وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح ] جَعَلْنَا [ ہم نے بنایا ] لِكُلِّ نَبِيٍّ [ ہر ایک نبی کیلئے] عَدُوًّا [ کچھ دشمن ] شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ [ جوجنوں اور انسانوں کے شیاطین ہیں ] يُوْحِيْ [ پیغام رسانی کرتے ہیں ] بَعْضُهُمْ [ ان کے بعض ] اِلٰى بَعْضٍ [ بعض کی طرف ] زُخْرُفَ الْقَوْلِ [ بات کے ملمع سے ]غُرُوْرًا ۭ [ دھوکے ہوتے ہوئے] وَلَوْ [ اور اگر] شَاۗءَ [ چاہتا ] رَبُّكَ [ آپ کا رب ] مَا فَعَلُوْهُ [ تو وہ یہ نہ کرتے ] فَذَرْهُمْ [ پس آپ چھوڑیں ان کو ] وَمَا [ اور اس کو جو] يَفْتَرُوْنَ [ یہ گھڑتے ہیں ]

وَلِتَصْغٰٓى اِلَيْهِ اَفْـــِٕدَةُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ    ١١٣؁
وَلِتَصْغٰٓى [ اور تاکہ مائل ہوں ] اِلَيْهِ [ اس کی طرف ] اَفْـــِٕدَةُ الَّذِيْنَ [ ان کے دل جو ] لَا يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان نہیں رکھتے ] بِالْاٰخِرَةِ [ آخرت پر ] وَلِيَرْضَوْهُ [ اور تاکہ وہ پسند کریں اس کو ] وَلِيَقْتَرِفُوْا [ اور تاکہ وہ ارتکاب کریں ] مَا [ اس کا جس کا ] هُمْ [ وہ ] مُّقْتَرِفُوْنَ [ ارتکاب کرنے والے ہیں ]

اَفَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا وَّهُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا  ۭوَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ    ١١٤؁
اَفَغَيْرَ اللّٰهِ [ تو کیا اللہ کے علاوہ (کسی ) کو ] اَبْتَغِيْ [ میں چاہوں ] حَكَمًا [ بطور منصف کے ]وَّ [ حالانکہ ] هُوَ [ وہ ] الَّذِيْٓ [ وہ ہے جس نے ] اَنْزَلَ [ اتارا ] اِلَيْكُمُ [ تم لوگوں کی طرف ] الْكِتٰبَ [ کتاب ] مُفَصَّلًا ۭ [ تفصیل سے بیان کی ہوئی ] وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ ] اٰتَيْنٰهُمُ [ ہم نے دی جن کو ] الْكِتٰبَ کتاب ] يَعْلَمُوْنَ [ وہ لوگ جانتے ہیں ] اَنَّهٗ [ کہ یہ ] مُنَزَّلٌ [ اتاری ہوئی ہے ] مِّنْ رَّبِّكَ [ آپ کے رب (کی طرف) سے ] بِالْحَقِّ [ حق کے ساتھ ] فَلَا تَكُوْنَنَّ [ تو آپ ہر گز نہ ہوں ] مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ [ شک کرنے والوں میں سے ]



خ رص : (ن) خرصا ۔ کسی پیمانے یا وزن کے بغیر پھلوں کا اندازہ کرنا ۔ تخمینہ لگانا ، اٹکل لگانا ۔ زیر مطالعہ آیت 116۔ خراص ۔ فعال کے وزن پر مبالغہ ہے ۔ بار بار ہر وقت اٹکل لگانے والا یعنی جھوٹا ۔ قُتِلَ الْخَــرّٰصُوْنَ [ مارے گئے جھوٹ اڑانے والے]

ترکیب: (آیت ۔114) تبتغی کا مفعول غیر اللہ ہے جبکہ حکما تمیز ہے ۔ مفصلا اسم المفعول ہے اور حال ہے ۔ (آیت ۔ 115) صدقا اور عدلا کو تمیز بھی مانا جاسکتاہے اور حال (آیت ۔116) تطع کا مفعول اکثرمن ہے اور جواب شرط ہونے کی وجہ سے یضلوا مجزوم ہوا ہے ۔ ان یتبعون اور ان ھم ، دونوں میں ان نافیہ ہے کیونکہ آگے الا آیا ہے ۔ اعلم تفضیل کل ہے اور اس کا مفعول من ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر 2:54، نوٹ ۔1)

نوٹ 1: آیت نمبر 116۔ کے حوالے سے کچھ لوگ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام میں جمہور یت نہیں ہے ۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے ۔ البتہ اس سے یہ ہدایت ضرور ملتی ہے کہ اکثریت کی رائے کو حق وباطل کا معیار قرار دینا درست نہیں ہے ۔ اس کا معیار کچھ اور ہوگا ۔ (حافظ احمد یار صاحب مرحوم ۔ ترجمہ قرآن کیسٹ سیزیر ) آیت نمبر 116۔ کے ساتھ آیت نمبر 115 کو بھی ملا کر غور کیا جائے تو بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکام قرآن وحدیث سے ثابت ہیں ان میں کسی تبدیلی کا اختیار عوام کی اکثریت کو اور کسی قانون ساز اسمبلی کو حاصل نہیں ہے ۔ اس طرح ان آیات سے جمہوریت کی نفی تو نہیں ہوتی ۔ البتہ قانون ساز اسمبلی کے اختیار مطلق پر تحدید عائد کرنے کے لئے یہ آیات نص صریح ہیں کہ قرآن وحدیث کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی ۔

وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا  ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ    ١١٥؁
وَتَمَّتْ [ اور پورا ہوا ] كَلِمَتُ رَبِّكَ [ آپ کے رب کا فرمان ] صِدْقًا [ بطور سچائی کے] وَّعَدْلًا ۭ [ اور بطور عدل کے] لَا مُبَدِّلَ [ کوئی تبدیلی کرنے والا نہیں ہے ] لِكَلِمٰتِهٖ ۚ [ اس کے فرمانوں کا ] وَهُوَ [ اور وہی ] السَّمِيْعُ [ سننے والا ہے ] الْعَلِيْمُ [ جاننے والا ہے ]

وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ    ١١٦؁
وَاِنْ [ اور اگر ] تُطِعْ [ آپ کی اطاعت کریں ] اَكْثَرَ مَنْ [ ان کی اکثریت کی جو]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ہیں ] يُضِلُّوْكَ [ تو وہ بھٹکا دیں گے آپ کو ] عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے راستے سے] اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ [ وہ لوگ پیروی نہیں کرتے ] اِلَّا [ مگر ] الظَّنَّ [ گمان کی ] وَاِنْ هُمْ [ اور وہ نہیں ہیں ] اِلَّا [ مگر یہ کہ ] يَخْرُصُوْنَ [ اٹکل لگاتے ہیں ]



نوٹ 1: کچھ قدیم علماء نے ظاہری گناہ اور باطنی گناہ سے کچھ مخصوص گناہ مراد لئے ہیں ۔ موجودہ دور کے علماء میں سے مولانا امین احسن اصلاحی نے باطنی گناہ سے شرکیہ عقائد اور ظاہری گناہ سے شرکیہ عقائد کے مظاہر مراد لئے ہیں ۔ جبکہ ابن کثیر نے لکھا ہے ’’ لیکن صحیح یہی ہے کہ آیت اس بارے میں بالکل عام ہے ۔ کسی بات کی تخصیص نہیں ہے ۔‘‘ یعنی اس آیت میں ہر قسم کے کھلے اور چھپے گناہ کو چھوڑنے کی تاکید ہے۔

اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ يَّضِلُّ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۚ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ    ١١٧؁
اِنَّ [ بیشک ] رَبَّكَ [ آپ کا رب ] هُوَ [ وہی ہے ] اَعْلَمُ [ سب سے زیادہ جاننے والا ہے ] مَنْ [ اس کو جو ] يَّضِلُّ [ بھٹکتا ہے ] عَنْ سَبِيْلِهٖ ۚ [ اس کے راستے سے ] وَهُوَ [ اور وہ ہی ] اَعْلَمُ [ سب سے زیادہ جاننے والا ہے ]بِالْمُهْتَدِيْنَ [ ہدایت پانے والوں کو ]

فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰيٰتِهٖ مُؤْمِنِيْنَ    ١١٨؁
فَكُلُوْا [ پس تم لوگ کھاؤ] مِمَّا [ اس میں سے ] ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ [ اللہ کانام یاد کیا گیا ] عَلَيْهِ [ جس پر ] اِنْ [ اگر ] كُنْتُمْ [ تم لوگ ہو ] بِاٰيٰتِهٖ [ اس کی آیتوں پر ] مُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے ]

وَمَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ ۭوَاِنَّ كَثِيْرًا لَّيُضِلُّوْنَ بِاَهْوَاۗىِٕهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِيْنَ     ١١٩؁
وَمَا لَكُمْ [ اور تمہیں کیا ہے] اَلَّا تَاْكُلُوْا [ کہ تم لوگ نہیں کھاتے] مِمَّا [ اس میں سے] ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ [ اللہ کا نام یاد کیا گیا] عَلَيْهِ [ جس پر ] وَ [ حالانکہ ] قَدْ فَصَّلَ [ اس نے تفصیل سے بیان کیا ہے ]لَكُمْ [ تمہارے لئے ] مَّا [ اس کو جو ] حَرَّمَ [ اس نے حرام کیا ] عَلَيْكُمْ [ تم پر] اِلَّا [ مگر ] مَا [ وہ چیز] اضْطُرِرْتُمْ [ تم لوگ مجبور کئے گئے ] اِلَيْهِ ۭ [ جس کی طرف ] وَاِنَّ [ اور بیشک ] كَثِيْرًا [ یقینا بھٹکاتے ہیں ] بِاَهْوَاۗىِٕهِمْ [ اپنی خواہشات سے] بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ [ کسی علم کے بغیر ] اِنَّ رَبَّكَ [ بیشک آپ کا رب ] هُوَ [ وہ ہی ] اَعْلَمُ [ سب سے زیادہ جاننے والا ہے ] بِالْمُعْتَدِيْنَ [ حد سے بڑھنے والوں کو]

وَذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَهٗ  ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا يَقْتَرِفُوْنَ     ١٢٠؁
وَ [ اور ] ذَرُوْا [ تم لوگ چھوڑدو] ظَاهِرَ الْاِثْمِ [ گناہ کے ظاہر کو]وَبَاطِنَهٗ ۭ [ اور اس کے باطن کو] اِنَّ [ بیشک ] الَّذِيْنَ [ جو لوگ ] يَكْسِبُوْنَ [ کماتے ہیں ] الْاِثْمَ [ گناہ کو ] سَيُجْزَوْنَ [ ان کو بدلہ دیا جائے گا ] بِمَا [ بسبب اس کے جس کا ] كَانُوْا يَقْتَرِفُوْنَ [ وہ لوگ ارتکاب کرتے تھے ]

وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ ۭوَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ    ١٢١۝ۧ
وَلَا تَاْكُلُوْا [ اور تم لوگ مت کھاؤ] مِمَّا [ اس میں سے ] لَمْ يُذْكَرِ [ یاد نہیں کیا گیا ] اسْمُ اللّٰهِ [ اللہ کا نام ] عَلَيْهِ [ جس پر ] وَاِنَّهٗ [ اور بیشک یہ ] لَفِسْقٌ ۭ [ یقینا نافرمانی ہے] وَاِنَّ [ اور بیشک ] الشَّيٰطِيْنَ [ شیطان لوگ ] لَيُوْحُوْنَ [ یقینا پیغام رسانی کرتے ہیں ] اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ [ اپنے کارسازوں کی طرف ] لِيُجَادِلُوْكُمْ ۚ [ تاکہ وہ تم لوگوں سے مناظرہ کریں ] وَاِنْ [ اور اگر ] اَطَعْتُمُوْهُمْ [ تم لوگ اطاعت کروگے ان کی ] اِنَّكُمْ [ تو بیشک تم لوگ ] لَمُشْرِكُوْنَ [ یقینا شرک کرنے والے ہو۔

اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا   ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    ١٢٢؁
اَوَمَنْ [ اور کیا وہ ، جو ] كَانَ [ تھا ] مَيْتًا [ مردہ ] فَاَحْيَيْنٰهُ [ پھر ہم نے زندگی دی اس کو ] وَجَعَلْنَا [ اور ہم نے بنایا ] لَهٗ [ اس کے لئے ] نُوْرًا [ ایک نور] يَّمْشِيْ [ وہ چلتا پھرتا ہے ] بِهٖ [ اس سے ]فِي النَّاسِ [ لوگوں میں ] كَمَنْ [ اس کی مانند ہے ] مَّثَلُهٗ [ جس کے جیسا ] فِي الظُّلُمٰتِ [ اندھیروں میں ہے]لَيْسَ بِخَارِجٍ [ (وہ ) نکلنے والا نہیں ہے ] مِّنْهَا ۭ [ ان سے ] كَذٰلِكَ [ اس طرح ] زُيِّنَ [ سجایا گیا ] لِلْكٰفِرِيْنَ [ کافروں کے لیے] مَا [ اس کو جو ] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [ یہ لوگ کرتے ہیں ]



ص غ ر : (س) صغرا چھوٹا ہونا ۔ صغیر ، فعیل کے وزن پر صفت ہے ۔ چھوٹا ۔ وَكُلُّ صَغِيْرٍ وَّكَبِيْرٍ مُّسْـتَـطَرٌ [ اور چھوٹا بڑا سب کچھ لکھا ہوا ہے] 54:53۔ اصغر ، افعل تفضیل ہے ۔ زیادہ چھوٹا ۔ لَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ [ نہ اس سے زیادہ کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ ہی کوئی بڑی چیز ہے مگر یہ کہ وہ ایک واضح کتاب میں ہے ] 10:61۔ (ک) صغارا حقیر ہونا ، ذلیل ہونا ۔ صغار ۔ اسم ذات بھی ہے ۔ ذلت ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 124۔ صاغر ۔ اسم الفاعل ہے ۔ چھوٹا ہونے والا ۔ حقیر ہونے والا ۔ ذلیل ہونے والا ۔ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِيْنَ [ بیشک تو حقیر وذلیل ہونے والوں میں سے ہے] 7:13۔

ش ر ح : (ف) شرحا (1) گوشت کے لمبے لمبے ٹکڑے کاٹ کر اسے پھیلانا ۔ پھر مطلقا وسعت دینا ، کشادہ کرنا کے لئے آتا ہے ۔ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ کیا ہم نے کشادہ نہیں کیا آپ کے لئے آپ کے سینے کو ] 94:1۔ (2) کسی کام یا مسئلہ کے گہرے مطالب کو کھولنا ۔ پھر مطلقا کھولنا کے لئے آتا ہے ۔ زیر مطالعہ آیت ۔125۔ اشرح ۔ فعل امر ہے ۔ تو کشادہ کر ۔ تو کھول ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ [ اے میرے رب تو کھول دے میرے لئے میرے سینے کو ] 20:25۔

ض ی ق : (ض) ضیقا : تنگ ہونا۔ گھٹنا ۔ وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ [ اور تنگ ہوگئی تم لوگوں پر زمین ] 9:25۔ ضیق ۔ اسم ذات ہے ۔ تنگی ذات ہے ۔ تنگی ۔ گھٹن ۔ وَلَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ [ اور آپ مت پڑیں گھٹن میں اس سے جو یہ لوگ مکر کرتے ہیں ] 16:127۔ اسم الفاعل ہے۔ تنگ ہونے والا ۔ گھٹنے والا ۔ فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ وَضَاۗىِٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ [ تو شائد کہ آپ چھوڑنے والے ہوں اس کے بعض کو جو وحی کیا جاتا ہے آپ کی طرف اور گھٹنے والا ہو اس سے آپ کا سینہ ]11:12۔ ضیق ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے۔ تنگ ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 125۔ (تفعیل ) تضیقا ۔ تنگ کرنا ۔ گھوٹنا ۔ وَلَا تُضَاۗرُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ [ اور تم لوگ تکلیف مت دو ان کو تاکہ تنگ کرو ان کو ]65:6۔

ترکیب : (آیت ۔ 122 ) نورا نکرہ مخصوصہ ہے اور یمشی بہ اس کی خصوصیت ہے ۔ مثلہ مبتدا ہے ۔ اور اس کی خبر محذوف ہے ۔ لیس کا اسم ھو بھی محذوف ہے ۔ کانوا یعملون ماضی استمراری ہے۔ لیکن یہ آفاقی صداقت کا بیان ہے اس لئے اردو محاورہ میں اس کا ترجمہ حال میں ہو گا ۔ (آیت ۔ 123) اکابر مجرمیھا مرکب اضافی ہے اور جعل کا مفعول اول ہے جبکہ اس کا مفعول ثانی محذوف ہے ۔ (آیت ۔ 124) سیصیب کا مفعول الذین اجرموا ہے جبکہ صغار اور عذاب شدید اس کے فاعل ہیں ۔ فمن کا من شرطیہ ہے اس لئے یرد اور یشرح مجزوم ہیں ۔ یجعل کا مفعول ثانی ضیقا ہے جبکہ حرجا حال ہے ۔ یصعد دراصل مادہ ’’ ص ع د‘‘ سے باب تفعل کا مضارع یتصعد ہے جو قاعدہ کے مطابق تبدیل ہو کر یصعد استعمال ہوا ہے ۔ اسی طرح یذکرون بھی دراصل یتذکرون ہے اور اس سے پہلے مستقیما حال ہے۔

نوٹ 1: (الف) یہاں موت سے مراد کفر کی زندگی ہے اور حیات سے مراد ایمان کی زندگی ہے ۔ نور سے مراد وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے حق وباطل کے درمیان امتیاز اور حلال وحرام کی تفصیل کے لئے اتاری ہے ۔ ظلمات سے مراد ظنون وادہام اور خواہشات وبدعات ہیں ۔ (تدبر القرآن )

(ب) یمشی بہ فی الناس فرما کر اس طرف بھی ہدایت کردی گئی ہے کہ نور ایمان صرف کسی مسجد یا خانقاہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ نور دیا ہے وہ سب جگہ لوگوں کے رزم وبزم میں اس کو لئے پھرتا ہے اور ہر جگہ اس روشنی سے خود بھی فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے ۔ نور کسی ظلمت سے دب نہیں سکتا ۔ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ بھی اندھیرے میں مغلوب نہیں ہوتا ۔ اس کی روشنی تیز ہوتی ہے تو دور تک پھیلتی ہے ، کم ہوتی ہے تو تھوڑی جگہ کو روشن کرتی ہے، مگر اندھیری پر بہرحال غالب ہی رہتی ہے ۔ وہ روشنی ہی نہیں جو اندھیری سے مغلوب ہوجائے۔ اسی طرح وہ ایمان ہی نہیں جو کفر سے مغلوب یا مرعوب ہوجائے۔ یہ نور ایمانی انسانی زندگی کے ہر شعبہ ، ہر حال اور ہر دور میں انسان کے ساتھ ہے۔ (معارف القرآن )

(ج) کمن مثلہ عربی محاورہ ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ تیرے جیسا آدمی تو یہ کام نہیں کرسکتا ۔ اس سے ہماری اصل مراد یہ ہوتی ہے کہ تو یہ کام نہیں کرسکتا ۔ اسی طرح عربی میں یہ کہنا کہ اس کی مانند جس کے جیسا اندھیروں میں ہے ، اس سے اصل مراد یہی ہے کہ اس کی مانند جو اندھیروں میں ہے ۔ (حافظ احمد یار صاحب مرحوم) ۔

(د) زین ۔ فعل مجہول ہے یعنی اس کا فاعل نامعلوم ہے اور یہ پتہ نہیں کہ سجانے والا کون ہے ۔ لیکن انسانی ذہن تفتیش کرنے سے باز نہیں آتا اور سوچتا ہے کہ سجانے والا کون ہوسکتا ہے ۔ تو یہ بات ذہن میں واضح کرلیں کہ زین کا بھی فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس میں ہر کام کا فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے ۔ کیونکہ ہر کام اسی کے بنائے ہوئے اسباب وعلل (
CAUSE ANDEFFECT) کے قوانین کے تحت ہوتا ہے ۔ البتہ ہر کام کا ایک فاعل مجازی بھی ہوتا ہے ۔ جس کو ترک واختیار کی آزادی (FREe DOM OF CHOICE) اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہوئی ہے ۔ وہ اپنی آزاد مرضی سے کسی کام کو ترک کرتا ہے ۔ کسی کو اختیار کرتا ہے اور اسی بنیاد پر وہ اپنے اعمال کا جوابدہ ہے اس لحاظ سے زین کے فاعل مجازی شیاطین جن وانس ہیں ۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ یہاں فعل مجہول لا کر اس نے سجائے کے عمل کے دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرلیا ہے ۔

(ھ) صحابہ کرام نے رسول اللہ
سے پوچھا کہ ہم کیسے پہچانیں کہ کسی کو شرح صدر حاصل ہے ۔ تو آپ نے فرمایا کہ اس کا پتہ اس بات سے چلے گا کہ کون دار الآخرت کی طرف زیادہ جھکا ہوا ہے اور دنیا کے تمتعات سے کس قدر دور رہتا ہے اور موت آنے سے پہلے ہی موت کے لئے خود کو کس قدر تیار کر رکھا ہے ۔ (ابن کثیر )

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِيْهَا لِيَمْكُرُوْا فِيْهَا  ۭوَمَا يَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ    ١٢٣؁
وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح ] جَعَلْنَا [ ہم نے بنایا ] فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ [ ہر ایک بستی میں ] اَكٰبِرَ مُجْرِمِيْهَا [ اس کے مجرموں کے سردار ]لِيَمْكُرُوْا [ تاکہ وہ ساز باز کریں ] فِيْهَا ۭ [ اس میں ] وَمَا يَمْكُرُوْنَ [ اور وہ ساز باز نہیں کرتے] اِلَّا [ مگر ] بِاَنْفُسِهِمْ [ اپنی جانوں پر ] وَ [ اس حالت میں کہ ] مَا يَشْعُرُوْنَ [ وہ شعور نہیں رکھتے ]

وَاِذَا جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰي نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ    ۂاَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ  ۭسَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ    ١٢٤؁
وَاِذَا [ اور جب بھی ] جَاۗءَتْهُمْ [ آتی ہے ان کے پاس ] اٰيَةٌ [ کوئی نشانی ] قَالُوْا [ تو وہ لوگ کہتے ہیں ] لَنْ نُّؤْمِنَ [ ہم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے ] حَتّٰي [ یہاں تک کہ ] نُؤْتٰى [ ہم کو دیا جائے]مِثْلَ مَآ [ اس کے جیسا جو ] اُوْتِيَ [ دیا گیا] رُسُلُ اللّٰهِ [ اللہ کے رسولوں کو ] ۂاَللّٰهُ [ اللہ ] اَعْلَمُ [ سب سے زیادہ جاننے والا ہے] حَيْثُ [ (کہ ) کہاں ] يَجْعَلُ [ وہ بنائے (یعنی رکھے) ] رِسَالَتَهٗ ۭ [ اپنی رسالت کو ] سَيُصِيْبُ [ پہنچے گی ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جنہوں نے ] اَجْرَمُوْا [ جرم کیا] صَغَارٌ [ ایک ذلت ] عِنْدَ اللّٰهِ [ اللہ کے پاس سے ] وَعَذَابٌ شَدِيْدٌۢ [ اور ایک شدید عذاب ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ] كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ [ یہ لوگ ساز باز کرتے ہیں ]

فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ يَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّهٗ يَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ  ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ    ١٢٥؁
فَمَنْ [ پس جس کے لئے] يُّرِدِ [ ارادہ کرتا ہے ] اللّٰهُ [ اللہ ] اَنْ [ کہ ] يَّهدِيَهٗ [ وہ ہدایت دے اس کو] يَشْرَحْ [ تو وہ کشادہ کردیتا ہے ] صَدْرَهٗ [ اس کے سینے کو ]لِلْاِسْلَامِ ۚ [ اسلام کے لئے ] وَمَنْ [ اور جس کے لئے ] يُّرِدْ [ وہ ارادہ کرتا ہے ] اَنْ [ کہ ] يُّضِلَّهٗ [ وہ بھٹکا دے اس کو ] يَجْعَلْ [ تو وہ بنا دیتا ہے ] صَدْرَهٗ [ اس کے سینے کو ] ضَيِّقًا [ تنگ ] حَرَجًا [ تنگ ہوتے ہوئے ] كَاَنَّمَا [ گویا کہ ] يَصَّعَّدُ [ وہ ہانپتے کانپتے چڑھتا ہے ] فِي السَّمَاۗءِ ۭ [ آسمان میں ] كَذٰلِكَ [ اس طرح ] يَجْعَلُ [ رکھ دیتا ہے ] اللّٰهُ [ اللہ ] الرِّجْسَ [ نجاست کو ] عَلَي الَّذِيْنَ ] ان لوگوں پر جو ] لَا يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان نہیں لاتے ]

وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِـيْمًا   ۭ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ    ١٢٦؁
وَھٰذَا [ اور یہ ] صِرَاطُ رَبِّكَ [ آپ کے رب کا راستہ ہے ] مُسْتَقِـيْمًا ۭ [ ہرکجی اور جھکاؤ سے پاک ہوتے ہوئے ] قَدْ فَصَّلْنَا [ ہم نے تفصیل سے بیان کردیا ہے ] الْاٰيٰتِ [ نشانیوں کو ] لِقَوْمٍ [ ایسے لوگوں کے لئے جو ] يَّذَّكَّرُوْنَ [ نصیحت حاصل کرتے ہیں ]

لَهُمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    ١٢٧؁
لَهُمْ [ ان کے لئے ] دَارُ السَّلٰمِ [ سلامتی کا گھر ہے ] عِنْدَ رَبِّهِمْ [ ان کے رب کے پاس ] وَهُوَ [ اور وہ ] وَلِيُّهُمْ [ ان کا کارساز ہے ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [ یہ لوگ کرتے ہیں

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا   ۚ يٰمَعْشَرَالْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ ۚ وَقَالَ اَوْلِيٰۗـؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّبَلَغْنَآ اَجَلَنَا الَّذِيْٓ اَجَّلْتَ لَنَا   ۭ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ   ۭاِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ     ١٢٨؁
وَيَوْمَ [ اور جس دن ] يَحْشُرُهُمْ [ وہ اکٹھا کرے گا ان لوگوں کو ] جَمِيْعًا ۚ [ سب کے سب کو ] يٰمَعْشَرَالْجِنِّ [ (پھر کہے گا) اے جنوں کے گروہ] قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ [ تم نے بہت جمع کیا ہے ] مِّنَ الْاِنْسِ ۚ [ انسانوں میں سے ] وَقَالَ [ اور کہیں گے ]اَوْلِيٰۗـؤُهُمْ [ ان کے ساتھی ] مِّنَ الْاِنْسِ [ انسانوں میں سے ] رَبَّنَا [ اے ہمارے رب ] اسْتَمْتَعَ [ فائدہ اٹھایا ] بَعْضُنَا [ ہمارے بعض نے ] بِبَعْضٍ [ بعض سے ] وَّبَلَغْنَآ [ اور ہم پہنچے ]اَجَلَنَا الَّذِيْٓ [ اپنی اس مدت کو جو ] اَجَّلْتَ [ تو نے وقت مقرر کیا ] لَنَا ۭ [ ہمارے لئے ] قَالَ [ وہ (یعنی اللہ ) کہے گا] النَّارُ [ آگ ] مَثْوٰىكُمْ [ تمہارا ٹھکانہ ہے] خٰلِدِيْنَ [ ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے] فِيْهَآ [ اس میں ] اِلَّا [ مگر ] مَا [ وہ جو ] شَاۗءَ [ چاہے ] اللّٰهُ ۭ [ اللہ ] اِنَّ [ بیشک ] رَبَّكَ [ آپ کا رب ] حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]



ترکیب: (آیت ۔ 128) یحشر کی ضمیر فاعلی گزشتہ آیت میں ربہم کے لئے ہے ۔ جمیعا تاکید کے لئے ہے اور اس کے آگے فیقول محذوف ہے ۔ الجن والانس پر لام جنس ہے ۔ (آیت ۔ 130) ینذرون کا مفعول اول کم ہے اور مفعول ثانی لقاء ہے ۔ (آیت ۔ 133) الغنی صفت ہے ۔ رب کی اور یہ پورا مرکب اضافی مبتدا ہے ، جبکہ ذوالرحمۃ اس کی خبر ہے ۔ آخرین مضاف الیہ قوم کی صفت ہے ۔ (آیت ۔ 134) ات اسم الفاعل ہے اور ان کی خبر ہونے کی وجہ سے حالت رفع میں ہے جب کہ ان کا اسم ماتوعدون ہے۔ توعدون مجہول ہے ۔ ثلاثی مجرد اور باب افعال کے مجہول ہم شکل ہوجاتے ہیں ۔ اس کو اگر ثلاثی کا مجہول مانیں تو معنی ہوں گے ’’ وعدہ دیئے جاتے ہو۔‘‘ اگر افعال کا مجہول مانیں تو معنی ہوں گے ۔’’ دھمکائے جاتے ہو یا ڈرائے جاتے ہو۔ ‘‘ دونوں طرح سے ترجمہ کودرست مانا جائے گا ۔ (آیت ۔ 135) عاقبۃ کی صفت محذوف ہے اور الدار پر لام تعریف ہے ۔ انہ ضمیر الشان ہے ۔

وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ     ١٢٩؀ۧ
وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح ] نُوَلِّيْ [ ہم پھیر دیں گے (یعنی ساتھ ملا دیں گے ) ] بَعْضَ الظّٰلِمِيْنَ [ ظالموں کے بعض کو ] بَعْضًۢا [ بعض کے ساتھ ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ]كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ [ وہ کمائی کرتے تھے ]

يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ  لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا  ۭ قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰٓي اَنْفُسِـنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ   ١٣٠؁
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ [ اے انسانوں اور جنوں کے گروہ ] اَ [ کیا ] لَمْ يَاْتِكُمْ [ نہیں پہنچے تمہارے پاس ]رُسُلٌ [ کچھ رسول ] مِّنْكُمْ [ تم میں سے ] يَقُصُّوْنَ [ وہ بیان کرتے تھے ] عَلَيْكُمْ [ تم پر ] اٰيٰتِيْ [ میری آیتوں (یعنی ہدایات) کو ] وَيُنْذِرُوْنَكُمْ [ اور خبردار کرتے تھے تم کو ] لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ۭ [ تمہارے اس دن کے ملاقات کرنے سے ] قَالُوْا [ وہ کہیں گے] شَهِدْنَا [ ہم نے گواہی دی ] عَلٰٓي اَنْفُسِـنَا [ اپنی جانوں کے خلاف ] وَغَرَّتْهُمُ [ اور (یہ کہ ) ان کودھوکہ دیا ] الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا [ دنیوی زندگی نے ] وَشَهِدُوْا [ اور وہ گواہی دیں گے ] عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ [ اپنی جانوں کے خلاف] اَنَّهُمْ [ کہ وہ ] کانوا [ تھے] كٰفِرِيْنَ [ کفر کرنے والے ]



نوٹ 1: آیت نمبر 130، سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں اور جنوں ، دونوں میں رسول آئے تھے ۔ لیکن اس ضمن میں علماء کی رائے مختلف ہیں ۔ بعض کا کہنا ہے کہ رسول اور نبی صرف انسان ہی ہوئے ہیں ۔ جنوں میں سے کوئی بلاواسطہ رسول نہیں ہوا ۔ بلکہ ایسا ہوا ہے کہ انسانی رسول کا کلام اپنی قوم کو پہنچانے کے لئے جنوں میں کچھ لوگ ہوتے ہیں ۔ جو درحقیقت رسولوں کے قاصد اور پیغامبر ہوتے تھے ۔ مجازی طور پر ان کو بھی رسول کہہ دیا جاتا ہے ۔ ایک رائے یہ ہے کہ خاتم الانبیاء
سے پہلے انسانوں میں انسانی رسول آتے تھے اور جنوں میں انہیں میں سے رسول ہوتے تھے ۔ ہمارے نبی کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کو سارے عالم کے انسانوں اور جنوں کا رسول بنا کر بھیجا گیا اور وہ بھی کسی ایک زمانے کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام جن وانس آپ کی امت ہیں ۔ ایک اور رائے یہ ہے کہ جب یہ ثابت ہے کہ انسانوں سے پہلے زمین پر جن آباد تھے اور وہ بھی انسانوں کی طرح احکام شرع کے مکلف ہیں تو از روئے عقل ضروری ہے کہ ان میں بھی رسول اور پیغمبر ہوں (معارف القرآن )

ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ يَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ    ١٣١؁
ذٰلِكَ [ یہ ] اَنْ [ کہ ] لَّمْ يَكُنْ [ تھا ہی نہیں ] رَّبُّكَ [ آپ کا رب ] مُهْلِكَ الْقُرٰي [ بستیوں کو ہلاک کرنے والا ] بِظُلْمٍ [ ظلم سے ] وَّ [ اس حال میں کہ ] اَهْلُهَا [ اس کے لوگ ] غٰفِلُوْنَ [ غافل ہوں ]

وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا   ۭوَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ    ١٣٢؁
وَلِكُلٍّ [ اور ہر ایک کے لئے ] دَرَجٰتٌ [ درجے ہیں ] مِّمَّا [ اس میں سے جو ] عَمِلُوْا ۭ [ انہوں نے عمل کئے ] وَمَارَبُّكَ [ اور آپ کا رب نہیں ہے ]بِغَافِلٍ [ غافل ] عَمَّا [ اس سے جو ] يَعْمَلُوْنَ [ یہ لوگ عمل کرتے ہیں ]

وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ  ۭاِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا يَشَاۗءُ كَمَآ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِيْنَ   ١٣٣؀ۭ
وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ [ اور آپ کا بےنیاز رب ] ذُو الرَّحْمَةِ ۭ [ رحمت والا ہے ] اِنْ [ اگر ] يَّشَاْ [ وہ چاہے ] يُذْهِبْكُمْ [ تو لے جائے تم لوگوں کو ] وَيَسْتَخْلِفْ [ اور جانشین بنائے ] مِنْۢ بَعْدِكُمْ [ تمہارے بعد ] مَّا [ جس کو ] يَشَاۗءُ [ وہ چاہے ] كَمَآ [ جیسے کہ ] اَنْشَاَكُمْ [ اس نے پیدا کیا تم کو ] مِّنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِيْنَ [ ایک دوسری قوم کی اولاد سے ]

اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍ  ۙ وَّمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ   ١٣٤؁
اِنَّ [ بیشک ] مَا تُوْعَدُوْنَ [ جس چیز سے تم کو ڈرایا جاتا ہے وہ ] لَاٰتٍ ۙ [ یقینا آنے والی ہے ] وَّمَآ اَنْتُمْ [ اور تم لوگ نہیں ہو ] بِمُعْجِزِيْنَ [ عاجز کرنے والے ]

قُلْ يٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰي مَكَانَتِكُمْ اِنِّىْ عَامِلٌ ۚ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ  ۙ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ    ١٣٥؁
قُلْ [ آپ کہے ] يٰقَوْمِ [ اے میری قوم ] اعْمَلُوْا [ تم لوگ عمل کرو] عَلٰي مَكَانَتِكُمْ [ اپنی جگہ پر ] اِنِّىْ [ بیشک میں (بھی) ] عَامِلٌ ۚ [ ایک عمل کرنے والا ہوں ] فَسَوْفَ [ تو عنقریب ] تَعْلَمُوْنَ ۙ [ تم لوگ جان لوگے ] مَنْ [ (کہ ) کون ہے،] تَكُوْنُ [ ہوگا ] لَهٗ [ جس کے لئے] عَاقِبَةُ الدَّارِ ۭ [ گھر کا (اچھا ) انجام ] اِنَّهٗ [ حقیقت یہ ہے کہ ] لَايُفْلِحُ [ فلاح نہیں پاتے] الظّٰلِمُوْنَ [ ظلم کرنے والے ]

وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَاۗىِٕنَا   ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَاۗىِٕهِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَمَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ يَصِلُ اِلٰي شُرَكَاۗىِٕهِمْ ۭسَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ    ١٣٦؁
وَجَعَلُوْا [ اور وہ لوگ بناتے ہیں ] لِلّٰهِ [ اللہ کے لئے ] مِمَّا [ اس میں سے جو ] ذَرَاَ [ اس نے پیدا کیا ]مِنَ الْحَرْثِ [ کھیتی میں سے ] وَالْاَنْعَامِ [ اور مویشیوں میں سے ] نَصِيْبًا [ ایک حصہ ] فَقَالُوْا [ پھر کہتے ہیں ] ھٰذَا [ یہ ] لِلّٰهِ [ اللہ کے لئے ہے ] بِزَعْمِهِمْ [ ان کے گمان میں ] وَھٰذَا [ اور یہ ]لِشُرَكَاۗىِٕنَا ۚ [ ہمارے شریکوں کے لئے ہے]فَمَا [ پس جو ] كَانَ [ ہوتا ہے] لِشُرَكَاۗىِٕهِمْ [ ان کے شریکوں کے لئے ] فَلَا يَصِلُ [ تو وہ نہیں پہنچتا ] اِلَى اللّٰهِ ۚ [ اللہ تک ] وَمَا [ اور جو ] كَانَ [ ہوتا ہے ] لِلّٰهِ [ اللہ کیلئے ] فَهُوَ يَصِلُ [ تو وہ پہنچتا ہے ] اِلٰي شُرَكَاۗىِٕهِمْ ۭ [ ان کے شریکوں تک ] سَاۗءَ [ کتنا براہے ] مَا [ وہ جو ] يَحْكُمُوْنَ [ یہ لوگ فیصلہ کرتے ہیں ]



ذرء : (ف) ذرءا ۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے ارادے کو ظاہر کرنا ۔ (1) پیدا کرنا ۔ (زیر مطالعہ آیت ۔ 136) (2) بکھیرنا ۔ پھیلانا ۔ وَمَا ذَرَاَ لَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ [ اور وہ جو اس نے بکھیرا تمہارے لئے زمین میں مختلف ہوتے ہوئے ان کے رنگ ]پ 14:13۔

ترکیب: (آیت ۔ 136) جعلوا کا مفعول نصیبا ہے ۔ (آیت ۔ 137) زین کا مفعول قتل اولادہم اور اس کا فاعل شرکاء ہم (آیت ۔ 138) ھذہ مبتدا ہے ۔ انعام اور حرث اس کی خبریں ہیں جبکہ حجر ان دونوں کی صفت ہے ۔ اس کے آگے انعام ‘‘ دومرتبہ آیا ہے اور دونوں جگہ یہ نکرہ مخصوصہ ہے۔ افتراء حال ہے اور علیہ کی ضمیر اللہ کے لئے ہے۔ (آیت ۔ 139) ما موصولہ مبتدا ہے ۔ فی بطون ھذہ الانعام قائم مقام خبر ہے ۔ اس کی خبر موجود ‘ محذوف ہے جبکہ خالصۃ اور محرم صفت ہیں ۔ ان آیات میں مشرکین کی مستقل عادت کا بیان ہے اس لئے اردو محاورہ کی ضرورت کے تحت افعال ماضی کا ترجمہ حال میں ہوگا ۔

نوٹ 1: مشرکین رواج کے مطابق اللہ کے نام پر کچھ نکال تودیتے لیکن اگر اتفاق سے کسی بت کے نام کی بکری مر گئی یا چوری ہوگئی یا اس کے نام کا غلہ چوہے کھاگئے، تو اس کی تلافی لازما خدا کے حصے میں سے کر دی جاتی اور اگر اسی قسم کی کوئی آفت خدا کے نام پر نکالے ہوئے حصے پر آجاتی تو یہ ممکن نہیں کہ اس کی تلافی معبودوں کے حصے کے مال سے کرنے کی جرات کریں ۔ (تدبر القرآن)

ان توہمات کی اصل جڑ کیا ہے ۔ اس کو سمجھنے کیلئے یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ جو حصہ خدا کے نام پر نکالا جاتا ہے وہ فقیروں ، مسکینوں وغیرہ پر خرچ کیا جاتا ہے اور جو حصہ شریکوں کے لئے نکالا جاتا ہے وہ یا تو براہ راست مذہبی طبقوں کے پیٹ میں جاتا ہے یا نذر ونیاز اور چڑھاوے کی صورت میں بالواسطہ مجاوروں تک پہنچ جاتا ہے ۔ اس لئے مذہبی پیشواؤں نے مسلسل تلقین سے جاہلوں کے دل میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ خدا کے حصے میں کمی ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ، لیکن ’’ خدا کے پیاروں ‘‘ کے حصے میں کمی نہ ہونی چاہئے ۔ (تفہیم القرآن )

وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْرٍمِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَكَاۗؤُهُمْ لِيُرْدُوْهُمْ وَلِيَلْبِسُوْا عَلَيْهِمْ دِيْنَهُمْ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ   ١٣٧؁
وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح ] زَيَّنَ [ سجایا ] لِكَثِيْرٍ [ بہتوں کے لئے ] مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ [ شرک کرنے والوں میں سے] قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ [ اپنی اولاد کے قتل کرنے کو ] شُرَكَاۗؤُهُمْ [ ان کے شریکوں نے ]لِيُرْدُوْهُمْ [ تاکہ وہ تباہ وبرباد کریں ان کو ]وَلِيَلْبِسُوْا [ اور تاکہ وہ گڈمڈ کریں ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ] دِيْنَهُمْ ۭ [ ان کے دین کو ] وَلَوْ [ اور اگر ] شَاۗءَ [ چاہتا ] اللّٰهُ [ اللہ ]مَا فَعَلُوْهُ [ تو وہ نہ کرتے اس کو ] فَذَرْهُمْ [ پس آپ چھوڑ دیں ان کو ] وَمَا [ اور اس کو جو ] يَفْتَرُوْنَ [ وہ گھڑتے ہیں ]

وَقَالُوْا هٰذِهٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ   ڰ لَّا يَطْعَمُهَآ اِلَّا مَنْ نَّشَاۗءُ بِزَعْمِهِمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَاَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا افْتِرَاۗءً عَلَيْهِ   ۭسَيَجْزِيْهِمْ بِمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ   ١٣٨؁
وَقَالُوْا [ اور وہ لوگ کہتے ہیں ] هٰذِهٖٓ [ یہ ] اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ ڰ [ یہ ممنوع مویشی اور کھیتی ہیں ] لَّا يَطْعَمُهَآ [ نہیں کھاتا اس کو ] اِلَّا [ مگر ] مَنْ [ وہ جسے ] نَّشَاۗءُ [ ہم چاہیں ] بِزَعْمِهِمْ [ ان کے گمان میں ] وَاَنْعَامٌ [ اور مویشی ] حُرِّمَتْ [ حرام کیا گیا ] ظُهُوْرُهَا [ جن پر سوار ہونا ] وَاَنْعَامٌ [ اور مویشی ] لَّا يَذْكُرُوْنَ [ وہ لوگ یاد نہیں کرتے ] اسْمَ اللّٰهِ [ اللہ کا نام ] عَلَيْهَا [ جن پر ] افْتِرَاۗءً [ گھڑتے ہوئے ] عَلَيْهِ ۭ [ اس پر (یعنی اللہ پر )] سَيَجْزِيْهِمْ [ وہ بدلہ دے گا ان کو ] بِمَا [ بسبب اس کے جو ] كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ [ وہ لوگ گھڑتے ہیں ]

وَقَالُوْا مَا فِيْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓي اَزْوَاجِنَا   ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَةً فَهُمْ فِيْهِ شُرَكَاۗءُ   ۭ سَيَجْزِيْهِمْ وَصْفَهُمْ ۭاِنَّهٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ      ١٣٩؁
وَقَالُوْا [ اور وہ لوگ کہتے ہیں ] مَا [ وہ جو ] فِيْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ [ ان مویشیوں کے پیٹوں میں ہے ] خَالِصَةٌ [ خاص ہے ] لِّذُكُوْرِنَا [ ہمارے مردوں کے لئے ] وَمُحَرَّمٌ [ اور حرام کیا ہوا ہے ] عَلٰٓي اَزْوَاجِنَا ۚ [ ہماری بیویوں پر ] وَاِنْ [ اور اگر ] يَّكُنْ [ وہ ہو ] مَّيْتَةً [ مردہ ] فَهُمْ [ تو وہ (سب) ] فِيْهِ [ اس میں ] شُرَكَاۗءُ ۭ [ شریک ہیں ] سَيَجْزِيْهِمْ [ وہ بدلہ دے گا ان کو ] وَصْفَهُمْ ۭ [ ان کی صفت بیان کرنے کا] اِنَّهٗ [ یقینا وہ ] حَكِيْمٌ [ حکمت والا ہے] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]

قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَاۗءً عَلَي اللّٰهِ   ۭ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ   ١٤٠؀ۧ
قَدْ خَسِرَ [ خسارے میں پڑ چکے ہیں ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنہوں نے ] قَتَلُوْٓا [ قتل کیا ]اَوْلَادَهُمْ [ اپنی اولاد کو ] سَفَهًۢا [ احمق ہوتے ہوئے] بِغَيْرِ عِلْمٍ [ کسی علم کے بغیر ] وَّحَرَّمُوْا [ اور انہوں نے حرام کیا ]مَا [ اس کو جو ] رَزَقَهُمُ [ رزق دیا ان کو ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] افْتِرَاۗءً [ گھڑتے ہوئے] عَلَي اللّٰهِ ۭ [ اللہ پر ]قَدْ ضَلُّوْا [ وہ لوگ بھٹک چکے ہیں ] وَمَا كَانُوْا [ اور وہ نہیں ہیں ] مُهْتَدِيْنَ [ ہدایت پانے والے]

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ   ۭ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ   ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا    ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ     ١٤١؀ۙ
وَهُوَ [ اور وہ ] الَّذِيْٓ [ وہ ہے جس نے ] اَنْشَاَ [ پیدا کیے] جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ [ چھپڑ پر ڈالے ہوئے باغات کو ] وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ [ اور چھپر پر نہ ڈالے ہوؤں کو ] وَّالنَّخْلَ [ اور کھجور کو ] وَالزَّرْعَ [ اور کھیتی کو ] مُخْتَلِفًا [ مختلف ہوتے ہوئے ] اُكُلُهٗ [ اس کا پھل ] وَالزَّيْتُوْنَ [ اور زیتون کو ] وَالرُّمَّانَ [ اور انارکو ] مُتَشَابِهًا [ باہم مشابہ ہونے والے] وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۭ [ اور باہم مشابہ نہ ہونے والے ] كُلُوْا [ تم لوگ کھاؤ] مِنْ ثَمَرِهٖٓ [ اس کے پھل میں سے] اِذَآ [ جب بھی ] اَثْمَرَ [ وہ پھل دے ] وَاٰتُوْا [ اور تم لوگ دو] حَقَّهٗ [ اس کا حق ] يَوْمَ حَصَادِهٖ [ اس کی فصل کاٹنے کے دن] ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا ۭ [ اور ضرورت سے زیادہ مت خرچ کرو] اِنَّهٗ [ بیشک وہ [ لَا يُحِبُّ [ پسند نہیں کرتا ] الْمُسْرِفِيْنَ [ ضرور سے زیادہ خرچ کرنے والوں کو ]



زرع : (ف) زرعا ۔ کھیتی کو اگانا ۔ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ [ تو کیا تم لوگوں نے غور کیا اس پر جو تم لوگ بوتے ہو۔ کیا تم لوگ اگاتے ہو اس کو یا ہم اگانے والے ہیں ] 56:63 تا 64۔ زارع ۔ فاعل کے وزن پر اسم الفاعل ہے۔ اگانے والا ۔ زراع ۔ (ج) زراع ، فعال کے وزن پر مبالغہ ہے ۔ بار بار اگانے والا یعنی کسان ۔ یعجب الزراع [ بھلی لگتی ہے کسانوں کو ] 48:29۔ زرع ۔ (ج) زروع اسم ذات ہے ۔ اصلا اگی ہوئی چیز کو کہتے ہیں پھر عرف عام میں کھیتی کہہ دیتے ہیں ۔ وَّزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيْمٌ [ اور کھیتیوں میں اور کھجوروں میں جن کی کونپل ملائم ہے ] 26:148۔

ح ص د : (ن ، ض) حصادا (1) کھیتی کاٹنا ۔ (2) کسی چیز کو تہس نہس کرنا ۔ فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِيْ سُنْۢبُلِهٖٓ [ پھر جو تم لوگ کاٹو تو اس کو چھوڑ دو اس کی بال میں ] 12:47۔ حصید ، فعیل کے وزن پر صفت ہے اسم المفعول کے معنی میں (1) کاٹا ہوا (2) تہس نہس کیا ہوا۔ فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِيْدِ [ پھر ہم نے اگائے اس سے باغات اور کاٹا جانے والا اناج ]50:9۔ ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْقُرٰي نَقُصُّهٗ عَلَيْكَ مِنْهَا قَاۗىِٕمٌ وَّحَصِيْدٌ [ یہ بستیوں کی خبروں میں سے ہے، ہم بیان کرتے ہیں ان کو آپ پر ان میں سے کچھ قائم ہیں اور کچھ تہس نہس کی ہوئی ہیں ] 11:100۔

ضء ن : (ف) ضانا ، دنبوں کو بکریوں سے الگ کرنا ۔ ضان ۔ اسم جنس ہے ۔ دنبہ ، بھیڑ ، زیر مطالعہ آیت ۔ 143۔

م ع ز : (ف) معزا ۔ بکریوں کو بھیڑیوں سے الگ کرنا۔ معز ۔ اسم جنس ہے ۔ بکری ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 143۔

ش م ل : (ن) شملا ۔ بائیں جانب لینا ۔ (س) شملا۔ کسی چیز کو کسی چیز میں لپیٹنا ۔ شمال (ج) شمائل بایاں جانب ۔ وَّنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ڰ [ اور پلٹتے ہیں ان کو دائیں جانب والی (کروٹ) اور بائیں جانب والی ] 18:18۔ وَعَنْ اَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِهِمْ [ اور ان کے دائیں جانب سے اور ان کے بائیں جانب سے ] 7:17۔ (افتعال ) اشتمالا ۔ کسی چیز پر پورا لپٹنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 143۔

ء ب ل : (س) ابلا ۔ اونٹوں کا اچھی طرح انتظام کرنا۔ ابل ۔ اسم جنس ہے ، اونٹ ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 144۔ ابابیل ۔ اونٹوں کا قطار درقطار چلنا ۔ اس کا استعمال عام ہے ۔ کسی کا بھی قطار در قطار چلنا یا جھنڈ در جھنڈ اڑنا ۔ وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ [ اور اس نے بھیجا ان پر جھنڈ در جھنڈ پرندوں کو ] 105:3۔

ترکیب: (آیت ۔ 141) انشا کا مفعول ہونے کی وجہ سے جنت معروشت حالت نصب میں ہے جبکہ غیر معروشت میں غیر کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے معروشت حالت جر میں ہے اور یہ مرکب اضافی بھی انشا کا مفعول ہے اس لئے غیر پر نصب آئی ہے ۔ اس کے آگے النخل ، الزرع ، اور الرمان ، یہ سب بھی انشاء کے مفعول ہیں ۔ حقہ کی ضمیر ھوالذی یعنی اللہ کے لئے ہے (آیت ۔ 142) من الانعام سے پہلے انشاء محذوف ہے ۔ اسی طرح ثمنیۃ ازواج میں ثمنیۃ کی نصب بتارہی ہے کہ اس سے پہلے بھی انشاء محذوف ہے ۔ الذکرین حرم کا مفعول مقدم ہے جب کہ الانثیین اور اما (جو دراصل ام ما ہے ) ۔ بھی حرم کے مفعول ہیں ۔ کنتم کا اسم اس میں شام انتم کی ضمیر ہے اور شھداء اس کی خبر ہے۔

نوٹ 1: اسراف کا مطلب ہے کہ کسی بھی کام میں حد سے تجاوز کرنا ۔ لیکن یہ دین اسلام کی ایک اصلاح بھی ہے جس کا مطلب ہے کسی جائز ضرورت پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا ۔ مثلا کپڑا پہننا جائز ضرورت ہے ۔ کسی کے پاس اگر دو چار جوڑے کپڑے ہوں تو یہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے ۔ لیکن کسی کی الماری میں اگر اتنے جوڑے لٹکے ہوں کہ صبح کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے کہ آج کون سا جوڑا پہنا جائے تو یہ اسراف ہے ۔ س

اسراف سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ۔ اس میں ایک حکمت یہ سمجھ آتی ہے کہ جو شخص اپنی ضروریات پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرتا ہے ، اس سے رشتہ داروں اور غریبوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتی ہے ۔ اسی طرح سے کوئی شخص اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرکے خود خالی ہوکر بیٹھ جائے تو وہ اپنے اہل وعیال کے اور خود اپنے نفس کے حقوق ادا نہیں کرسکتا ۔ اس لئے اسراف کسی بھی شکل میں ہو ، وہ اللہ کو پسند نہیں ہے ۔

وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَةً وَّفَرْشًا   ۭكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭاِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ   ١٤٢؀ۙ
وَمِنَ الْاَنْعَامِ [ اور (اس نے پیدا کئے ) مویشیوں میں سے ] حَمُوْلَةً [ کوئی بکثرت بوجھ اٹھانے والا ] وَّفَرْشًا ۭ [ اور کوئی بچھا ہوا ] كُلُوْا [ تم لوگ کھاؤ ] مِمَّا [ اس میں سے جو ] رَزَقَكُمُ [ رزق دیا تم کو ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] وَلَا تَتَّبِعُوْا [ اور تم لوگ پیروی مت کرو] خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ [ شیطان کے نقوش قدم کی ] اِنَّهٗ [ بیشک وہ ] لَكُمْ [ تمہارے لئے] عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ [ ایک کھلا دشمن ہے]

ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ   ۚ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ  ۭقُلْ ءٰۗالذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَيَيْنِ اَمَّا اشْـتَمَلَتْ عَلَيْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَيَيْنِ  ۭ نَبِّـــــُٔـوْنِيْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ   ١٤٣؀ۙ
ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ ۚ [ (اس نے پیدا کئے ) آٹھ جوڑ] مِنَ الضَّاْنِ [ بھیڑ میں سے] اثْنَيْنِ [ دو] وَمِنَ الْمَعْزِ [ اور بکری میں سے ] اثْنَيْنِ ۭ [ دو ] قُلْ [ آپ کہئے (یعنی پوچھئے) ] ءٰۗالذَّكَرَيْنِ [ کیا دو مذکر کو ] حَرَّمَ [ اس نے حرام کیا ] اَمِ [ یا ] الْاُنْثَيَيْنِ [ دو مونث کو ] اَمَّا [ یا اس کو ] اشْـتَمَلَتْ [ لپٹیں ] عَلَيْهِ [ جس پر ] اَرْحَامُ الْاُنْثَيَيْنِ ۭ [ دو مونث کی بچہ دانیاں ] نَبِّـــــُٔـوْنِيْ [ تم لوگ بتاؤ مجھ کو ]بِعِلْمٍ [ کسی علم (یعنی سند) سے ] اِنْ [ اگر] كُنْتُمْ [ تم لوگ ] صٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والے ہو]

وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ  ۭقُلْ ءٰۗ الذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَيَيْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَيَيْنِ ۭ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ وَصّٰىكُمُ اللّٰهُ بِھٰذَا   ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ   ١٤٤؀ۧ
وَمِنَ الْاِبِلِ [ اور اونٹ میں سے ] اثْنَيْنِ [ دو ] وَمِنَ الْبَقَرِ [ اور گائے میں سے] اثْنَيْنِ ۭ [ دو ] قُلْ [ آپ پوچھئے] ءٰۗ الذَّكَرَيْنِ [ کیا دو مذکر کو ] حَرَّمَ [ اس نے حرام کیا ] اَمِ [ یا ] الْاُنْثَيَيْنِ [ دو مونث کو ] اَمَّا [ یا اس کو ] اشْتَمَلَتْ [ لپٹیں ] عَلَيْهِ [ جس پر ] اَرْحَامُ الْاُنْثَيَيْنِ ۭ [ دو مونث کی بچہ دانیاں ] اَمْ [ یا ] كُنْتُمْ [ تم لوگ ] شُهَدَاۗءَ [ موجودتھے] اِذْ [ جب ] وَصّٰىكُمُ [ تاکید کی تم کو ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] بِھٰذَا ۚ [ اس کی ] فَمَنْ [ پس کون ] اَظْلَمُ [ زیادہ ظالم ہے] مِمَّنِ [ اس سے جس نے ] افْتَرٰي [ گھڑا ] عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ] كَذِبًا [ ایک جھوٹ ] لِّيُضِلَّ [ تاکہ وہ گمراہ کرے ] النَّاسَ [ لوگوں کو ] بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ [ کسی علم کے بغیر ] اِنَّ [ بیشک ] اللّٰهَ [ اللہ ] لَا يَهْدِي [ ہدایت نہیں دیتا ] الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والے گروہ کو ]

قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ   ۚ  فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ   ١٤٥؁
قُلْ [ آپ کہہ دیجئے ] لَّآ اَجِدُ [ میں نہیں پاتا ] فِيْ مَآ [ اس میں جو ] اُوْحِيَ [ وحی کیا گیا ] اِلَيَّ [ میری طرف] مُحَرَّمًا [ حرام کیا ہوا ] عَلٰي طَاعِمٍ [ کسی کھانے والے پر] يَّطْعَمُهٗٓ [ وہ کھاتا ہے جس کو ]اِلَّآ اَنْ [ سوائے اس کے کہ ]يَّكُوْنَ [ وہ ہو ] مَيْتَةً [ کوئی مردہ ] اَوْ [ یا ] دَمًا مَّسْفُوْحًا [ بہایا ہوا خون ] اَوْ [ یا ] لَحْمَ خِنْزِيْرٍ [ سور کا گوشت ] فَاِنَّهٗ [ پس بیشک یہ ] رِجْسٌ [ نجاست ہے ] اَوْ [ یا ] فِسْقًا [ ایسی نافرمانی ] اُهِلَّ [ (کہ ) پکارا گیا ] لِغَيْرِ اللّٰهِ [ غیر اللہ کیلئے ] بِهٖ ۚ [ جس پر ] فَمَنِ [ پھر جو ] اضْطُرَّ [ مجبور کیا گیا ] غَيْرَ بَاغٍ [ بغیر باغی ہوتے ہوئے ] وَّلَا عَادٍ [ اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا ہوتے ہوئے ] فَاِنَّ [ تو بیشک ] رَبَّكَ [ آپ کا رب ] غَفُوْرٌ [ بےانتہا بخشنے والا ] رَّحِيْمٌ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ]





ظ ف ر ـــ ـ: (ض) ظفرا ۔ چہرا پر ناخن مارنا ۔ ظفر۔ اسم ذات ہے ۔ ناخن ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 146۔ (س) ظفرا مقصد میں کامیاب ہونا۔ (افعال ) اظفارا ۔ کامیاب کرنا ۔ غالب کرنا ۔ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ [ اس کے بعد کہ اس نے غالب کیا تم کو ان پر ] 48:24۔

ش ح م : (ف) شحما ۔ چربی کھلانا ۔ شحم ۔ اسم جنس بھی ہے ۔ واحد شحمۃ ، جمع شحوم ، چربی ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 146۔

ح و ی : (ض) حوایۃ ۔ جمع کرنا ۔ قبضہ کرنا ۔ حوی۔ مؤنث حویۃ ج حوایا ۔ چھوٹا حوض ۔ انتڑی ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 146۔ حوی ۔ سبزی مائل سیاہ ہونا۔ احوی ۔ افعل الوان وعیوب ہے ۔ سبزی مائل سیاہ ۔ فَجَعَلَهٗ غُثَاۗءً اَحْوٰى [ پھر اس نے کردیا اس کو سیاہ کوڑا ] 87:5۔

ہ ل م : ثلاثی مجرد سے فعل نہیں آتا ۔ ھلم ، اسم فعل ہے ۔ (1) حاضر کرو ۔ لے آؤ ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 150۔ (2) چلے آؤ ۔ وَالْقَاۗىِٕلِيْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَيْنَا [ اور کہنے والے اپنے بھائیوں سے چلے آؤ ہماری طرف ] 33:18۔

ترکیب: (آیت ۔ 145) میتۃ ، دما مسفوحا ، لحم خنزیر اور فسقا ، یہ سب یکون کی خبر ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں ۔ ۔ فسقا نکرہ مخصوصہ بھی ہے اور اھل لغیر اللہ بہ اس کی خصوصیت ہے ۔ غیر باغ ولا عاد حال ہیں اس لیے غیر پر نصب آئی ہے ۔ (آیت ۔ 146) حملت کا مفعول ما ہے ۔ جبکہ ظہورھما اور الحوایا اس کے فاعل ہیں ۔ (آیت ۔ 148) تخرجوا فعل امر نہیں ہے۔ اگر فعل امر ہوتا تو اخرجوا آتا ۔ یہ مضارع تخرجون تھا جو فاسببیہ کی وجہ سے حالت نصب میں آیا ہے ۔ الحجۃ البالغۃ مبتدا مؤخر ہے اور للہ قائم مقام خبر مقدم ہے ۔ یعدلون کا مفعول غیر اللہ محذوف ہے۔

وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ ۚ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُوْمَهُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَآ اَوِ الْحَوَايَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۭذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِبَغْيِهِمْ  ڮ  وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ    ١٤٦؁
وَعَلَي الَّذِيْنَ [ اور ان لوگوں پر جو ] هَادُوْا [ یہودی ہوئے] حَرَّمْنَا [ ہم نے حرام کیا ] كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ ۚ [ سب ناخن والے (جانوروں کو ) ] وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ [ اور گائے اور بکری میں سے ] حَرَّمْنَا [ ہم نے حرام کیا ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ]شُحُوْمَهُمَآ [ دونوں کی چربی کو ] اِلَّا مَا [ سوائے اس کے جس کو ] حَمَلَتْ [ اٹھایا ] ظُهُوْرُهُمَآ [ دونوں کی پیٹھوں نے ] اَوِ [ یا ] الْحَوَايَآ [ انتڑیوں نے ] اَوْ [ یا ] مَا [ وہ جو ] اخْتَلَطَ [ رم مل گئی ] بِعَظْمٍ ۭ [ کسی ہڈی سے] ذٰلِكَ [ یہ ] جَزَيْنٰهُمْ [ ہم نے بدلہ دیا ] بِبَغْيِهِمْ ڮ [ ان کی سرکشی کا ] وَاِنَّا [ اور بیشک ہم ] لَصٰدِقُوْنَ [ یقینا سچ کہنے والے ہیں ]

فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ ۚ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ    ١٤٧؁
فَاِنْ [ پھر اگر ] كَذَّبُوْكَ [ اور جھٹلائیں آپ کو ] فَقُلْ [ تو آپ کہہ دیں ] رَّبُّكُمْ [ تم لوگوں کا رب ]ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ ۚ [ وسیع رحمت والا ہے ] وَ [ اور (یعنی مگر) ] لَا يُرَدُّ [ نہیں لوٹائی جائے ]بَاْسُهٗ [ اس کی سختی ] عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ [ جرم کرنے والے گروہ سے]

سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ  ۭ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتّٰي ذَاقُوْا بَاْسَـنَا   ۭقُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا  ۭاِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ   ١٤٨؁
سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ [ وہ لوگ کہیں گے جنہوں نے] اَشْرَكُوْا [ شریک بنائے] لَوْ [ اگر ] شَاۗءَ [ چاہتا ] اللّٰهُ [ اللہ ] مَآ اَشْرَكْنَا [ تو نہ ہم شریک بناتے ]وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا [ اور نہ ہی ہمارے آباؤاجداد ] وَلَا حَرَّمْنَا ] اور ہم حرام نہ کرتے ] مِنْ شَيْءٍ ۭ [ کسی بھی چیز کو ] كَذٰلِكَ [ اس طرح ] كَذَّبَ [ جھٹلایا ] الَّذِيْنَ [ انہوں نے جو ] مِنْ قَبْلِهِمْ [ ان سے پہلے تھے] حَتّٰي [ یہاں تک کہ ] ذَاقُوْا [ انہوں نے چکھا ] بَاْسَـنَا ۭ [ ہماری سختی کو ]قُلْ [ آپ پوچھیے ] هَلْ [ کیا ] عِنْدَكُمْ [ تم لوگوں کے پاس ] مِّنْ عِلْمٍ [ کوئی بھی (سند) ہے ] فَتُخْرِجُوْهُ [ کہ تم لوگ نکال سکو اس کو ] لَنَا ۭ [ ہمارے لئے ] اِنْ تَتَّبِعُوْنَ [ تم لوگ پیروی نہیں کرتے ] اِلَّا [ مگر] الظَّنَّ [ گمان کی ] وَاِنْ اَنْتُمْ [ اور تم لوگ نہیں ہو ] اِلَّا [ سوائے اس کے کہ ]تَخْرُصُوْنَ [ اٹکل لگاتے ہو]



نوٹ 1: آیت نمبر ۔ 148 میں اسی پرانے عذر کی نشا ندہی کی گئی ہے جو ہمیشہ سے مجرم اور غلط کار لوگ پیش کرتے رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں اللہ کی مشیت یہی ہے کہ ہم شرک کریں اور جن چیزوں کو ہم نے حرام ٹھہرارکھا ہے ۔ انہیں حرام ٹھہرائیں ۔ ورنہ اگر اللہ نہ چاہتا کہ ہم ایسا کریں تو کیوں کر ممکن تھا کہ یہ افعال ہم سے صادر ہوتے ۔ چونکہ ہم اللہ کی مشیت کے مطابق یہ سب کچھ کررہے ہیں ۔ اس لئے ہم ایسا ہی کرنے پر مجبور ہیں ۔

اس عذر کے جواب میں پہلی بات یہ فرمائی کہ اپنی گمراہی کے لیے مشیت الہی کو معذرت کے طور پر پیش کرنا اور اسے بہانہ بنا کر صحیح رہنمائی قبول کرنے سے انکار کرنا مجرموں کا قدیم شیوہ رہا ہے ۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ وہ تباہ ہوئے اور حق کے خلاف چلنے کا برا نتیجہ انہوں نے دیکھ لیا ۔ پھر فرمایا کہ یہ عذر جو تم پیش کررہے ہو یہ دراصل کسی حقیقی علم پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض گمان اور تخمینہ ہے ۔ تم نے محض مشیت کا لفظ کہیں سے سن لیا اور اس پر قیاسات کی ایک عمارت کھڑی کرلی ۔ تم نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ انسان کے حق میں فی الواقع اللہ کی مشیت کیا ہے ۔ تم مشیت کے معنی یہ سمجھ رہے ہو کہ چور اگر مشیت الہی کے تحت چوری کررہا ہے تو ہو مجرم نہیں ہے ، حالانکہ دراصل انسان کے حق میں اللہ کی مشیت یہ ہے کہ وہ شکر اور کفر ، ہدایت اور گمراہی ، اطاعت اور نافرمانی میں جو راہ بھی اپنے لیے منتخب کرے گا ، اللہ تعالیٰ وہی راہ اس کے لیے کھول دے گا۔ پھر غلط یا صحیح ، جو کام بھی انسان کرنا چاہے گا ، اللہ تعالیٰ اپنی عالمگیر مصلحتوں کا لحاظ کرتے ہوئے جس حد تک مناسب سمجھے گا ، اسے اس کام کی اجازت اور توفیق بخش دے گا ۔ لہذا اگر تم نے اور تمہارے باپ دادا نے مشیت الہی کے تحت شرک کرنے اور حلال کو حرام کرنے کا جرم کیا تو اس کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ تم اپنے اعمال کے ذمہ دار اور جواب دہ نہیں ہو ۔ اپنے غلط انتخاب راہ کے ذمہ دار تو تم خود ہی ہو ۔ (تفہیم القرآن )

قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ   ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ    ١٤٩؁
قُلْ [ آپ کہئے ] فَلِلّٰهِ [ پس اللہ کے لئے ہی ہے ] الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ [ پہنچنے والی حجت ] فَلَوْ [ پھر اگر ] شَاۗءَ [ وہ چاہتا ] لَهَدٰىكُمْ [ تو ضرور ہدایت دیتا تم لوگوں کو ] اَجْمَعِيْنَ [ سب کے سب کو ]

قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ يَشْهَدُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ ھٰذَا   ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ  ۚ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ    ١٥٠؀ۧ
قُلْ [ آپ کہئے ] هَلُمَّ [ لے آؤ ] شُهَدَاۗءَكُمُ [ اپنے گواہوں کو ] الَّذِيْنَ [ جو لوگ] يَشْهَدُوْنَ [ گواہی دیتے ہیں ] اَنَّ [ کہ ] اللّٰهَ [ اللہ نے ] حَرَّمَ [ حرام کیا ] ھٰذَا ۚ [ اس کو ] فَاِنْ [ پھر اگر ] شَهِدُوْا [ وہ گواہی دیں ] فَلَا تَشْهَدْ [ تو آپ گواہی مت دیں ] مَعَهُمْ ۚ [ ان کے ساتھ ] وَلَا تَتَّبِعْ [ اور آپ پیروی مت کریں ] اَهْوَاۗءَ الَّذِيْنَ [ ان کی خواہشات کی جنہوں نے ] كَذَّبُوْا [ جھٹلایا ] بِاٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں کو ] وَالَّذِيْنَ [ اور ان لوگوں کی جو ]لَا يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان نہیں لاتے] بِالْاٰخِرَةِ [ آخرت پر ] وَهُمْ [ اور وہ لوگ ] بِرَبِّهِمْ [ اپنے رب کے] يَعْدِلُوْنَ [ برابر کرتے ہیں (غیر اللہ کو ) ]

قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ۭنَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ ۚ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ     ١٥١؁
قُلْ [ آپ کہئے ] تَعَالَوْا [ تم لوگ آؤ] اَتْلُ [ میں پڑھتا ہوں ] مَا [ اس کو جو ] حَرَّمَ [ حرام کیا ] رَبُّكُمْ [ تمہارے رب نے ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ] اَلَّا تُشْرِكُوْا [ کہ شریک مت بناؤ ] بِهٖ [ اس کے ساتھ ] شَـيْــــًٔـا [ کسی چیز کو ] وَّبِالْوَالِدَيْنِ [ اور والدین کے ساتھ ] اِحْسَانًا ۚ [ (حسن سلوک کرو) جیسا حسن سلوک کا حق ہے] وَلَا تَقْتُلُوْٓا [ اور قتل مت کرو] اَوْلَادَكُمْ [ اپنی اولاد کو ] مِّنْ اِمْلَاقٍ ۭ [ مفلس ہونے (کے خوف ) سے]نَحْنُ [ ہم ] نَرْزُقُكُمْ [ رزق دیتے ہیں تم کو ] وَاِيَّاهُمْ ۚ [ اور ان کو بھی ]وَلَا تَقْرَبُوا [ اور قریب مت جاؤ] الْفَوَاحِشَ [ بےحیائیوں کے] مَا [ جو ] ظَهَرَ [ ظاہر ہو] مِنْهَا [ اس سے ] وَمَا [ اور جو ] بَطَنَ ۚ [ پوشیدہ ہو ] وَلَا تَقْتُلُوا [ اور قتل مت کرو ] النَّفْسَ الَّتِيْ [ اس جان کو جس کو ] حَرَّمَ [ (قتل کرنا ) حرام کیا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] اِلَّا [ مگر ] بِالْحَقِّ ۭ [ حق کے ساتھ ]ذٰلِكُمْ [ یہ ہے] وَصّٰىكُمْ [ اس نے تاکید کی تم کو ]بِهٖ [ جس کی ] لَعَلَّكُمْ [ شائد تم لوگ ]تَعْقِلُوْنَ [ عقل استعمال کرو]



م ل ق : (ف) ملقا ۔ نرم کرنا ۔ مٹانا ۔ (افعال) املاقا ۔ مفلس ہونا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 151۔

ک ی ل : (ض) کیلا ۔ غلہ وغیرہ کسی پیمانہ سے ناپ کردینا ۔ پھر دونوں طرح آتا ۔ (1) ناپنا ۔ (2) ناپ کردینا ۔ وَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ [ اور جب بھی وہ لوگ ناپ کردیتے ہیں ان کو یا تول کر دیتے ہیں ان کو تو گھٹا دیتے ہیں ] 83:3۔ مکیال مفعال ، کے وزن پر اسم الآلہ ہے۔ ناپنے کا آلہ ۔ پیمانہ ۔ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ [ اور کمی مت کرو پیمانے میں اور ترازو میں] 11:84۔ (افتعال) اکتیالا ۔ اپنے لئے پیمانہ بھرنا ۔ ناپ کر لینا ، فَاَرْسِلْ مَعَنَآ اَخَانَا نَكْتَلْ [ پس آپ بھیجیں ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو تم ہم اپنے لئے پیمانہ بھریں] 12:63۔

وزن : (ض) وزنا ۔ (1) تولنا۔ (2) تول کر دینا ۔ اوپر آیت نمبر 83:3 دیکھیں ۔ زن ۔ فعل امر ہے ۔ تو تول ۔ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْـتَقِيْمِ [ اور تم لوگ تو لو سیدھی ترازو سے ] 26:182۔ موزون ۔ اسم المفعول ہے وزن کیا ہوا ۔ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ [ اور ہم نے اگایا اس میں ہر ایک وزن کی ہوئی چیز میں سے یعنی ایک اندازے سے ] 15:19۔ میزان ۔ ج ، جوازین ۔ اسم الآلہ ہے۔ وزن کرنے کا آلہ ۔ ترازو [ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ [ پس وہ بھاری ہوئے جن کے ترازو تو وہ لوگ ہی مراد پانے والے ہیں ] 7:8۔

ترکیب: (آیت ۔ 151) تعالوا فعل ہے ، اس کا جواب امر ہونے کی وجہ سے مضارع اتلو مجزوم ہوا ہے اور اس کی واوگری تو اتل آیا ہے ۔ اس کا مفعول ما ہے ۔ علیکم کا تعلق اتل سے نہیں بلکہ حرم سے ہے۔ بالوالدین کے بعد فعل امر احسنوا محذوف ہے اور احسانا اس کا مفعول مطلق ہے ۔ املاق سے پہلے اس کا مضاف خشیۃ محذوف ہے۔ (آیت ۔ 152) بالتی میں التی کا مرجع محذوف ہے یعنی یہ الا بطریقۃ التی ہے ۔ ھی مبتدا ہے ۔ اس کی خبر حسنی کے بجائے احسن آئی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حسنی صرف مؤنث کے لئے آتا ہے ، مذکر کے لیے نہیں آسکتا ۔ جبکہ احسن مذکر کرکے لئے آتا ہے ۔ لیکن مؤنث کے لیے بھی آسکتا ہے ۔ قلتم کا مفعول قولا محذوف ہے ۔ (آیت ۔ 153) تفرق اصل میں السبل کی وجہ سے واحد مؤنث کا صیغہ تتفرق ہے۔ قاعدے کے مطابق ایک تا گری ہوئی ہے اور فاسببیہ کی وجہ سے مضارع منصوب ہوا ہے اس میں ضمیر فاعلی ھی السبل کے لیے ہے۔

نوٹ۔1: غور کیا جائے تع اولاد کی تعلیم وتربیت پر توجہ نہ دینا بھی ایک طرح سے قتل اولاد کی ہی ایک شکل ہے ۔ کیونکہ ایسی اولاد اللہ کی اطاعت ، رسول اللہ
کی پیروی اور آخرت کی فکر سے بےپرواہ ہوجاتی ہے ۔ قرآن مجید نے ایسے شخص کو مردہ قرار دیا ہے (6:122) جو لوگ اپنی اولاد کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں یا ایسی غلط تعلیم دلاتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں اسلامی اخلاق تباہ ہوں ، وہ بھی ایک حیثیت سے قتل اولاد کے مجرم ہیں (معارف القرآن )

نوٹ ۔ 2: کسی انسانی جان کو ہلاک کرنا ، اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے سوائے اس کے کہ کسی کو حق کے ساتھ قتل کیا جائے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’ حق کے ساتھ ‘‘ کا کیا مفہوم ہے، تو اس کی تین صورتیں قرآن مجید میں بیان کی گئی ہیں اور اس پر زائد دو صورتیں رسول اللہ ـ
نے بیان فرمائی ہیں ۔

قرآن کی بیان کردہ صورتیں یہ ہیں ۔ (1) انسان کسی کے قتل عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہوگیا ہو۔ (2) دین حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ ہو ۔ (3) دارالسلام کی حدود میں بدامنی پھیلائے یا اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرے ۔ باقی دوصورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں (1) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے ۔ (2) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔ ان پانچ صورتوں کے سوا کسی صورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے ۔ خواہ وہ مومن ہو یا ذمی ہو یا عام کافر ہو ۔ (تفہیم القرآن )

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ  ۚ وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا  ۚ وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي ۚ وَبِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا  ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ    ١٥٢؀ۙ
وَلَا تَقْرَبُوْا [ اور قریب مت جاؤ ]مَالَ الْيَتِيْمِ [ یتیم کے مال کے]اِلَّا [ مگر ] بِالَّتِيْ [ اس (طریقہ ) سے کہ ] هِىَ [ وہ ] اَحْسَنُ [ بہترین ہو ] حَتّٰي [ یہاں تک کہ ]يَبْلُغَ [ وہ پہنچے] اَشُدَّهٗ ۚ [ اپنی پختگی کو ] وَاَوْفُوا [ اور پورا کرو] الْكَيْلَ [ پیمانے کو ] وَالْمِيْزَانَ [ اور ترازوکو ] بِالْقِسْطِ ۚ [ انصاف سے ] لَا نُكَلِّفُ [ ہم پابند نہیں کرتے ]نَفْسًا [ کسی جان کو ] اِلَّا [ مگر ] وُسْعَهَا ۚ [ اس کی وسعت کو ]وَاِذَا [ اور جب بھی ] قُلْتُمْ [ تم لوگ کہو (کوئی بات ) ] فَاعْدِلُوْا [ تو عدل کرو] وَلَوْ [ اور اگرچہ ]كَانَ [ وہ ہو ] ذَا قُرْبٰي ۚ [ قرابت والا ] وَبِعَهْدِ اللّٰهِ [ اور اللہ کے عہد کو ] اَوْفُوْا ۭ [ تم لوگ پورا کرو] ذٰلِكُمْ [ یہ ہے ] وَصّٰىكُمْ [ اس نے تاکید کی تم کو ] بِهٖ [ جس کی ] لَعَلَّكُمْ [ شائد تم لوگ ] تَذَكَّرُوْنَ [ نصیحت حاصل کرو]

وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ  ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ  ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ    ١٥٣؁
وَاَنَّ [ اور یہ کہ ] ھٰذَا [ یہ ] صِرَاطِيْ [ میرا راستہ ہے ] مُسْتَقِـيْمًا [ ہر کجی سے پاک ہوتے ہوئے (سیدھا) ] فَاتَّبِعُوْهُ ۚ [ پس تم لوگ پیروی کرو اس کی ] وَلَا تَتَّبِعُوا [ اور پیروی مت کرو] السُّبُلَ [ (دوسرے) راستوں کی ] فَتَفَرَّقَ [ ورنہ وہ جداہو جائیں گے ] بِكُمْ [ تمہارے ساتھ ] عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭ [ اس کے راستے سے ] [ ذٰلِكُمْ [ اسی کی] [ وَصّٰىكُمْ تاکید کی تم کو ] بِهٖ [ جس کی ] لَعَلَّكُمْ [ شائد تم لوگ ]تَتَّقُوْنَ [ پرہیزگار بنو]

ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ   ١٥٤؀ۧ
ثُمَّ [ پھر ] اٰتَيْنَا [ ہم نے دی ] مُوْسَى [ موسیٰ علیہ السلام کو ] الْكِتٰبَ [ کتاب ] تَمَامًا [ مکمل ہوتے ہوئے ] عَلَي الَّذِيْٓ [ اس پر (یعنی اس کے لئے ) جس نے ] اَحْسَنَ [ بلا کم وکاست کام کیا ] وَتَفْصِيْلًا [ اور تفصیل ہوتے ہوئے] لِّكُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز کے لیے] وَّهُدًى [ اور ہدایت ہوتے ہوئے] وَّرَحْمَةً [ اور رحمت ہوتے ہوئے ] لَّعَلَّهُمْ [ شائد وہ لوگ ] بِلِقَاۗءِ رَبِّهِمْ [ اپنے رب کی ملاقات پر ] يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان لائیں ]

وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ   ١٥٥؀ۙ
وَھٰذَا [ اور یہ ] كِتٰبٌ [ ایک کتاب ہے ] اَنْزَلْنٰهُ [ ہم نے اتارا اس کو ] مُبٰرَكٌ [ برکت دی ہوئی ] فَاتَّبِعُوْهُ [ پس تم لوگ پیروی کرو اس کی ] وَاتَّقُوْا [ اور تقوی اختیار کرو] لَعَلَّكُمْ [ شائد تم پر ] تُرْحَمُوْنَ [ رحم کیا جائے]



ترکیب: (آیت ۔ 155) وھذا مبتدا ہے اور کتب اس کی خبر ہے ۔ انزلنہ اس کی صفت اول اور مبرک صفت ثانی ہے ۔ (آیت ۔ 156) ان کنا کا ان مخففہ ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر 6:143۔ نوٹ،1) دراستہم کی ضمیر اگر الکتب کے لیے ہوتی تو واحد ’’ ہ ‘‘ آتی اور اگر طائفتین کے لیے ہوتی تو تثنیہ ھما آتی ۔ جمع کی ضمیر ہم بتا رہی ہے کہ یہ طائفتین کے لوگوں کیلئے ہے ۔ (آیت ۔ 157) بینۃ ۔ ھدی اور رحمۃ یہ تینوں جاء کے فاعل ہیں ۔ سنجزی کا مفعول اول الذین ہے اور سوء العذاب مفعول ثانی ہے ۔ یہ مرکب اضافی ہے لیکن اردو محاورہ کی وجہ سے اس کا ترجمہ مرکب توصیفی سے ہوگا ۔ (آیت ۔ 158) نفسا نکرہ مخصوصہ ہے لم تکن سے خیرا تک اس کی خصوصیت ہے ۔ امنت اور کسبت کی ضمیر فاعلی ھی ہے جو نفسا کے لیے ہے۔ کانوا کی خبر ہونے کی وجہ سے شیعا حالت نصب میں ہے ۔

نوٹ۔1 : رسول اللہ
نے فرمایا کہ تین چیزیں جب ظاہر ہوجائیں گی تو ان کے ظہور سے پہلے کوئی اگر ایمان نہیں لایا تھا تو اب ایمان لانا بیکار ہوگا اور پہلے اگر نیک عمل نہیں کیے تھے تو اب کرنا بیکار ہوگا ۔ پہلی نشانی سورج کا مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہونا ۔ دوسرے دجال کا نکلنا ۔ تیسرے دابۃ الارض کا ظاہر ہونا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے تک توبہ کرلی تو اس کی توبہ قبول ہو سکے گی ورنہ نہیں ۔ اصحاب ستہ میں سے ایک نے اس کو روایت نہیں کیا باقی پانچ کتابوں میں موجود ہے (ابن کثیر) ۔

نوٹ۔ 2: رسول اللہ
نے فرمایا کہ کسی شخص نے اگر کسی نیک کام کا ارادہ کیا لیکن عمل نہ کرسکا تو بھی اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور اگر عمل کرلیا تو دس نیکیاں لکھی جاتی ہے۔ حسن نیت کا لحاظ کرتے ہوئے یہ اضافہ سات سو گنا تک بھی جا پہنچتا ہے اور اگر کسی نے کسی گناہ کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہیں کیا تو اس کے لیے بھی ایک نیکی درج ہوجاتی ہے اور اگر وہ گناہ کا ارتکاب کربیٹھے تو گناہ دس نہیں بلکہ ایک لکھا جائے گا اور اگر اللہ چاہے تو اس کو بھی مٹا دیتا ہے (ابن کثیر)

اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا  ۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ    ١٥٦؀ۙ
[ اَنْ تَقُوْلُوْٓا [ یہ تم کہنے لگو] [ اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ ] [ کہ یہ اتاری گئی ] [ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ] [ پہلے دو گرہوں (یہود ونصاری) پر] [ مِنْ قَبْلِنَا ۠] [ ہم سے پہلے] [ وَاِنْ كُنَّا] [ اور ہم تھے] [ عَنْ دِرَاسَتِهِمْ] [ اس کے پڑھنے سے] [ لَغٰفِلِيْنَ: بلکل بےخبر]

اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَهْدٰي مِنْهُمْ ۚ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ۭ سَنَجْزِي الَّذِيْنَ يَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰيٰتِنَا سُوْۗءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يَصْدِفُوْنَ    ١٥٧؁
اَوْ [ کہ (کہیں ) ]تَقُوْلُوْا [ تم لوگ کہو ] لَوْ [ اگر ] اَنَّآ [ ہم لوگ ہوتے کہ ] اُنْزِلَ [ اتاری جاتی ] عَلَيْنَا [ ہم پر ] الْكِتٰبُ [ کتاب ] لَكُنَّآ [ تو ہم ضرور ہوتے ہیں ]اَهْدٰي [ زیادہ ہدایت پر ] مِنْهُمْ ۚ [ ان لوگوں سے ] فَقَدْ جَاۗءَكُمْ [ تو آچکی ہے تمہارے پاس ] بَيِّنَةٌ [ ایک واضح (دلیل) ] مِّنْ رَّبِّكُمْ [ تمہارے رب (کی طرف) سے ]وَهُدًى [ اور ہدایت ] وَّرَحْمَةٌ ۚ [ اور رحمت ] فَمَنْ [ تو کون] اَظْلَمُ [ زیادہ ظالم ہے] مِمَّنْ [ اس سے جس نے ] كَذَّبَ [ جھٹلایا ] بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی نشانیوں کو] وَصَدَفَ [ اور کنی کترائی ] عَنْهَا ۭ [ اس سے ] سَنَجْزِي [ ہم بدلہ دیں گے ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جو ] يَصْدِفُوْنَ [ کنی کتراتے ہیں ] عَنْ اٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں سے ] سُوْۗءَ الْعَذَابِ [ برا عذاب ہے ] بِمَا [ بسبب اس کے جو] كَانُوْا يَصْدِفُوْنَ [ وہ کنی کتراتے تھے ]

هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ  ۭ يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا ۭ قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ   ١٥٨؁
هَلْ [ کیا ] يَنْظُرُوْنَ [ انتظار کرتے ہیں یہ لوگ ] اِلَّآ اَنْ [ سوائے اس کے کہ ] تَاْتِيَهُمُ [ آئیں ان کے پاس ] الْمَلٰۗىِٕكَةُ [ فرشتے ] اَوْ يَاْتِيَ [ یا آئے ] رَبُّكَ [ آپ کے رب ] اَوْ يَاْتِيَ [ یا آئیں ] بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ۭ [ آپ کے رب کی نشانیوں سے کوئی ] يَوْمَ [ جس دن ] يَاْتِيْ [ آئے گی ] بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ [ آپ کے رب کی نشانیوں سے کوئی ] لَا يَنْفَعُ [ تو فائدہ نہیں دے گا ] نَفْسًا [ کسی ایسی جان کو ] اِيْمَانُهَا [ اس کا ایمان ]لَمْ تَكُنْ [ جو نہیں تھی کہ ] اٰمَنَتْ [ ایمان لاتی ] ممِنْ قَبْلُ [ اس سے پہلے ] اَوْ كَسَبَتْ [ یا کماتی ] فِيْٓ اِيْمَانِهَا [ اپنے ایمان میں ] خَيْرًا ۭ [ کوئی نیکی ] قُلِ [ آپ کہئے] انْتَظِرُوْٓا [ تم لوگ انتظار کرو] اِنَّا [ بیشک ہم (بھی ) ] مُنْتَظِرُوْنَ [ انتظار کرنے والے ہیں ]

اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ  ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ    ١٥٩؁
اِنَّ [ بیشک ] الَّذِيْنَ [ جن لوگوں نے]فَرَّقُوْا [ الگ الگ کیا ] دِيْنَهُمْ [ اپنے دین کو ] وَكَانُوْا [ اور وہ ہوئے ] شِيَعًا [ فرقے ] لَّسْتَ [ آپ (کو سروکار) نہیں ہے] مِنْهُمْ [ ان سے ] فِيْ شَيْءٍ ۭ [ کسی چیز میں ] اِنَّمَآ [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] اَمْرُهُمْ [ ان کا کام ] اِلَى اللّٰهِ [ اللہ کی طرف ہے] ثُمَّ [ پھر ] يُنَبِّئُهُمْ [ وہ جتادے گا ان کو] بِمَا [ اسے جو ] كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ [ وہ لوگ کرتے تھے ]

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا  ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ    ١٦٠؁
مَنْ [ جو] جَاۗءَ [ آیا ] بِالْحَسَنَةِ [ نیکی کے ساتھ]فَلَهٗ [ تو اس کے لیے ] عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۚ [ اس کے جیسی دس (نیکیاں) ہیں ] وَمَنْ [ اور جو] جَاۗءَ [ آیا ] بِالسَّيِّئَةِ [ برائی کے ساتھ ] فَلَا يُجْزٰٓى [ تو اس کا بدلہ نہیں دیا جائے گا ] اِلَّا [ مگر ] مِثْلَهَا [ اس کے جیسی (برائی) سے] وَهُمْ [ اور ان پر ] لَا يُظْلَمُوْنَ [ ظلم نہیں کیا جائے گا]

قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ڬ دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ     ١٦١؁
قُلْ [ آپ کہئے] اِنَّنِيْ [ بیشک میں ہوں (کہ ) ] هَدٰىنِيْ [ مجھے ہدایت دی ] رَبِّيْٓ [ میرے رب نے] اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ [ ایک سیدھے راستے کی طرف ] ڬ دِيْنًا قِــيَمًا [ سیدھا سادہ دین ہوتے ہو]مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ [ جو ابراہیم کا مذہب ہے ] حَنِيْفًا ۚ [ اس حال میں کہ وہ یکسو تھے ]وَمَا كَانَ [ اور وہ نہیں تھے] مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ [ شرک کرنے والوں میں سے ]

ترکیب : (آیت ۔ 161) صراط مستقیم کا حال ہونے کیوجہ سے دینا قیما حالت نصب میں آیا ہے اور دینا قیما کا بدل ہونے کی وجہ سے ملۃ ابراہیم حالت نصب میں ہے ، جبکہ ابراہیم کا حال حنیفا ہے۔ (آیت ۔ 164) ابغی کا مفعول غیر اللہ ہے اور ربا تمیز ہے ۔ تزر کی ضمیر فاعلی ھی ، نفس کے لیے ہے ۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ    ١٦٢؀ۙ
قُلْ [ آپ کہئے] اِنَّ [ یقینا ] صَلَاتِيْ [ میری نماز ] وَنُسُكِيْ [ اور میری قربانی ] وَمَحْيَايَ [ اور میرا عرصہ حیات ] وَمَمَاتِيْ [ اور میرا عرصہ موت ] لِلّٰهِ [ اللہ کے لیے ہی ہے ] رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ جو تمام جہانوں کا رب ہے ]

لَا شَرِيْكَ لَهٗ  ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ   ١٦٣؁
لَا شَرِيْكَ [ کسی قسم کا کوئی شریک نہیں ]لَهٗ ۚ [ اس کے لئے] وَبِذٰلِكَ [ اور اس کا ہی ] اُمِرْتُ [ مجھے حکم دیا گیا ] وَاَنَا [ اور میں ] اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ [ فرمانبرداری کرنے والوں کا پہلا ہوں ]

قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ  ۭ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْهَا  ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي ۚ ثُمَّ اِلٰي رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ    ١٦٤؁
قُلْ [ آپ کہئے] اَ [ کیا ] غَيْرَ اللّٰهِ [ اللہ کے سوا (کسی ) کو]اَبْغِيْ [ میں چاہوں ] رَبًّا [ بطور رب کے ] وَّ [ حالانکہ ] هُوَ [ وہ ] رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ ۭ [ ہر چیز کا رب ہے] وَلَا تَكْسِبُ [ اور نہیں کماتی ] كُلُّ نَفْسٍ [ ہر جان] اِلَّا [ مگر یہ کہ ] عَلَيْهَا ۚ(وہ ) اس پر ہے ] وَلَا تَزِرُ [ اور نہیں اٹھائے گی ] وَازِرَةٌ [ کوئی اٹھانے والی ]وِّزْرَ اُخْرٰي ۚ [ کسی دوسری کا بوجھ ] ثُمَّ [ پھر ]اِلٰي رَبِّكُمْ [ تمہارے رب کی طرف ہی ] مَّرْجِعُكُمْ [ تمہیں لوٹنا ہے] فَيُنَبِّئُكُمْ [ تو وہ تمہیں جتا دے گا] بِمَا [ اس کو ] كُنْتُمْ [ تم لوگ] فِيْهِ [ جس میں ] تَخْتَلِفُوْنَ [ اختلاف کرتے ہو]

وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ ڮوَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     ١٦٥؀ۧ
وَهُوَ [ اور وہ ] الَّذِيْ [ وہ ہے جس نے ] جَعَلَكُمْ [ بنایا تم لوگوں کو ] خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ [ زمین کے جانشین ] وَرَفَعَ [ اور بلند کیا ] بَعْضَكُمْ [ تمہارے کسی کو ] فَوْقَ بَعْضٍ [ کسی کے اوپر ] دَرَجٰتٍ [ بلحاظ درجات کے ] لِّيَبْلُوَكُمْ [ تاکہ وہ آزمائے تمہیں ] فِيْ مَآ [ اس میں جو ]اٰتٰىكُمْ ۭ [ اس نے دیا تم کو] اِنَّ [ بیشک ]رَبَّكَ [ آپ کا رب ] سَرِيْعُ الْعِقَابِ [ سزا دینے کا تیز ہے] ڮوَاِنَّهٗ [ اور بیشک وہ [ لَغَفُوْرٌ [ یقینا بےانتہابخشنے والا ہے] رَّحِيْمٌ [ ہرحال میں رحم کرنے والا ہے ]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

الۗمّۗصۗ    Ǻ۝ۚ
الۗمّۗصۗ (1)

كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ    Ą۝
كِتٰبٌ [ (یہ ) ایک ایسی کتاب ہے جو ]اُنْزِلَ [ اتاری گئی ]اِلَيْكَ [ آپ کی طرف ]فَلَا يَكُنْ [ پس چاہئے کہ نہ ہو]فِيْ صَدْرِكَ [ آپ کے سینے میں ]حَرَجٌ [ کوئی تنگی ]مِّنْهُ [ اس سے] لِتُنْذِرَ [ تاکہ آپ خبردار کریں ]بِهٖ [ اس سے ]وَذِكْرٰي [ اور نصیحت ہوتے ہوئے ]لِلْمُؤْمِنِيْنَ (2) [ ایمان لانے والوں کے لیے ]



ع ی ش : (ض) معاشا ۔ زندہ رہنا ۔ زندگی گزارنا ۔ وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا [ اور ہم نے بنایا دن کو زندہ رہنے کے لئے ] 78:11۔ اور عیشۃ ، فَهُوَ فِيْ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ [ تو وہ من بھاتی زندگی گزارنے میں ہے ] 69:21۔ معیشۃ (ج) معایش ۔ زندگی گزارنے کا زذریعہ ۔ سامان زندگی ۔ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [ ہم نے تقسیم کیا ان کے مابین ان کی زندگی سانان دنیوی زندگی میں ] 43:32

ق ی ل : (ض) قیلولۃ ۔ دوپہر کو آرام کرنا خواہ نیند نہ آئے۔ قائل ، اسم الفاعل ہے ۔ دوپہر کو آرام کرنے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 4۔ مقیل ۔ اسم الظرف ہے ۔ آرام کرنے کی جگہ ۔ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا [ اور جنت والے اس دن سب سے بہتر ہوں کے بلحاظ ٹھکانے کے اور سب سے اچھے ہوں گے بلحاظ آرامگاہ کے ] 25:24۔

ترکیب: (آیت 2) کتب ، کا مبتدا ھذا محذوف ہے اور یہ نکرہ مخصوصہ ہے ۔ انزل الیک اس کی خصوصیت ہے ۔ فلا یکن کان تامہ ہے اور حرج اس کا فاعل ہے۔ منہ کی ضمیر کتب کے لیے ہے۔ ذکری حال ہے ۔

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ  ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ    Ǽ۝
اِتَّبِعُوْا [ تم لوگ پیروی کرو]مَآ [ اس کی جو ]اُنْزِلَ [ اتارا گیا ]اِلَيْكُمْ [ تمہاری طرف ]مِّنْ رَّبِّكُمْ [ تمہارے رب کی طرف سے ] وَلَا تَتَّبِعُوْا [ اور پیروی مت کرو] مِنْ دُوْنِهٖٓ [ اس کے سوا ]اَوْلِيَاۗءَ ۭ [ کچھ کارسازوں کی]قَلِيْلًا مَّا [ بہت تھوڑی ہے جو ] تتَذَكَّرُوْنَ [ تم لوگ نصیحت پکڑتے ہو]



(آیت ۔3) وَلَا تَتَّبِعُوْا کا مفعول اولیاء ہے تذکرون کی تمیز قلیلا ہے اور اس کے آگے ما اس کو غیر معین کرنے کے لیے ہے ۔ (دیکھیں ۔ آیت نمبر ۔2:26، نوٹ ۔1) یعنی بہت ہی کم ۔

وَكَمْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا فَجَاۗءَهَا بَاْسُنَا بَيَاتًا اَوْ هُمْ قَاۗىِٕلُوْنَ    Ć۝
وَكَمْ مِّنْ قَرْيَةٍ [ اور کتنی ہی بستیاں ہیں ]اَهْلَكْنٰهَا [ ہم نے ہلاک کیا جن کو ]فَجَاۗءَهَا [ پھر آئی ان کے پاس ] بَاْسُنَا [ ہماری سختی ]بَيَاتًا [ رات ہوتے ہوئے ]اَوْ هُمْ [ یا اس حال میں کہ وہ لوگ ]قَاۗىِٕلُوْنَ [ دوپہر کو آرام کرنے والے تھے ]



(آیت ۔ 4۔5) بیاتا حال ہے اور اس کے آگے ھم قائلون پورا جملہ بھی حال ہے ۔ فجاء ھا میں ھا کی ضمیر بستیوں کے لیے ہے جبکہ فجاء ہم میں ھم کی ضمیر بستی والوں کے لیے ہے ۔

فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ اِذْ جَاۗءَهُمْ بَاْسُنَآ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ   Ĉ۝
فَمَا كَانَ [ تو نہیں تھا ]دَعْوٰىهُمْ [ ان کا پکارنا ]اِذْ [ جب ]جَاۗءَهُمْ [ آئی ان کے پاس ]بَاْسُنَآ [ ہماری سختی ]اِلَّآ اَنْ [ سوائے اس کے کہ ]قَالُوْٓا [ انھوں نے کہا]اِنَّا كُنَّا [ بیشک ہم تھے]ظٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والے ]

فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ    Č۝ۙ
فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ [ تو ہم لازما پوچھیں گے ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں سے]اُرْسِلَ [ بھیجا گیا ]اِلَيْهِمْ [ جن کی طرف]وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ [ اور ہم لازما پوچھین گے ] الْمُرْسَلِيْنَ (6) [ بھیجے ہوؤں سے]

نوٹ۔1: رسول اللہ
نے فرمایا کہ تم لوگ ذمہ دارافسر ہو ۔ تم سب سے اپنے اپنے زیر اثر ماتحتوں کے بارے میں پرسش ہوگی ۔ بادشاہ سے رعایا کے بارے میں ، مرد سے بیوی بچوں کے بارے میں ، عورت سے شوہر کے بارے میں اور خادم سے اس کے آقا کے مال کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ (ابن کثیر)



(آیت ۔6) ارسل کا نائب فاعل ھو کی ضمیر ہے اس کا مرجع رسول یا مرسل محذوف ہے۔

فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِمْ بِعِلْمٍ وَّمَا كُنَّا غَاۗىِٕبِيْنَ   Ċ۝
فَلَنَقُصَّنَّ [ پھر ہم لازما بیان کریں گے ]عَلَيْهِمْ [ ان پر ]بِعِلْمٍ [ کسی علم سے]وَّمَا كُنَّا [ اور ہم نہیں ہیں ]غَاۗىِٕبِيْنَ [ غائب ہونے والے ]

وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ   Ď۝
وَالْوَزْنُ [ اور تولنا ]يَوْمَىِٕذِۨ [ اس دن ] الْحَقُّ ۚ [ حق ہے ]فَمَنْ [ پس وہ ]ثَقُلَتْ [ بھاری ہوئے ]مَوَازِيْنُهٗ [ جن کے ترازو]فَاُولٰۗىِٕكَ [ تو وہ لوگ ]هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (8) [ ہی فلاح پانے والے ہیں ]





نوٹ ۔2: وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ ۔ میں اس طرف اشارہ ہے کہ لوگ اس سے دھوکا نہ کھائیں کہ انسان کے اعمال کا کوئی جسم یا حجم نہیں ہوتا تو پھر ان کا وزن کیسے ہوگا ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جس چیز کو ہم نہ تول سکیں اسے اللہ تعالیٰ بھی نہ تول سکے، کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کے علاوہ آج کل تو وہ چیزیں بھی تولی جاتی ہیں جن کے تولنے کا آج سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں تھا ۔ ہوا، ہوا میں نمی ، برقی رو ، سردی ، گرمی وغیرہ تولی جاتی ہیں اور ان کا میڑ ہی ان کی ترازو ہے۔ پھر اس میں تعجب کی کیا بات ہے اگر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اعمال کو تول کر ہمیں دکھادے۔

وزن اعمال کے ضمن میں دوسری الجھن یہ پیش آتی ہے کہ متعدد احادیث میں آیا ہے کہ محشر کی میزان میں سب سے بڑا وزن کلمہ طیبہ کا ہوگا ۔ جس کے پاس یہ کلمہ ہوگا وہ سب پر بھاری رہے گا ۔ اس کا تقاضہ تو یہ ہے کہ مومن کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہے خواہ وہ کتنے بھی گناہ کرے ۔ لیکن قرآن مجید کی آیات اور دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کی نیکیوں اور برائیوں کو تولا جائے گا ۔ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ نجات پائے گا ۔ اور جس کے گناہوں کا پلڑا بھاری ہوگا اسے عذاب ہوگا ۔

بعض علماء تفسیر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ محشر میں وزن دومرتبہ ہوگا ۔ پہلے کفروایمان کا وزن جس کے ذریعہ مومن اور کافر کا امتیاز کیا جائے گا۔ اس وزن میں جس کے نامہ اعمال میں صرف کلمہ ایمان ہی ہے ، اس کا پلڑا بھاری رہے گا ۔ اور وہ کافروں کے گروہ سے الگ کردیا جائے گا ۔ پھر دوسرا وزن نیک وبداعمال کا ہوگا ۔ اس میں کسی مسلمان کی نیکیاں اور کسی کی برائیاں بھاری ہوں گی اور اسی کے مطابق اسی کو جزا وسزا ملے گی ۔ اس طرح تمام آیات اور احادیث کا مضمون اپنی اپنی جگہ درست اور مربوط ہوجاتا ہے ۔ (معارف القرآن )

نوٹ۔3: رسول اللہ
نے فرمایا کہ قیامت کے دن علماء کی روشنائی ، جس سے انہوں نے علم دین اور احکام دین لکھے، اور شہیدوں کے خون کو تولا جائے گا ، تو علماء کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون کے وزن سے بڑھ جائے گا۔ (معارف القرآن)



(آیت ۔ 8) ثقلت اور خفت کا فاعل موازین ہے اور اس کے ساتھ ہ کی ضمیر من کی طرف عائد ہے ۔

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَ     ۝
وَمَنْ [ اور وہ ]خَفَّتْ [ ہلکے ہوئے ]مَوَازِيْنُهٗ [ جن کے ترازو]فَاُولٰۗىِٕكَ [ تو وہ لوگ ] الَّذِيْنَ [ وہ ہیں جنہوں نے]خَسِرُوْٓا [ گھاٹے میں ڈالا ]اَنْفُسَهُمْ [ اپنے آپ کو ]بِمَا [ بسبب اس کے جو ]كَانُوْا [ وہ لوگ ]بِاٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں پر ]يَظْلِمُوْنَ [ ظلم کرتے تھے ]

وَلَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِي الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ ۭقَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ   10۝ۧ
وَلَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ [ اور بیشک ہم نے اختیار دیا ہے تم کو ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ]وَجَعَلْنَا [ اور ہم نے بنایا ]لَكُمْ [ تمہارے لیے]فِيْهَا [ اس میں ]مَعَايِشَ ۭ قَلِيْلًا مَّا [ بہت کم ہے جو]تَشْكُرُوْنَ [ تم لوگ حق مانتے ہو]

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ڰ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ لَمْ يَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ     11 ؁
وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ [ اور بیشک ہم نے پیدا کیا ہے تم لوگوں کو]ثُمَّ [ پھر ]صَوَّرْنٰكُمْ [ ہم نے شکل دی تمہیں ]ثُمَّ [ پھر]قُلْنَا [ ہم نے کہا]لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ [ فرشتوں سے] اسْجُدُوْا [ تم لوگ سجدہ کرو]لِاٰدَمَ ڰ [ آدم کے لئے ]فَسَجَدُوْٓا [ تو انہوں نے سجدہ کیا] اِلَّآ [ سوائے ]اِبْلِيْسَ ۭ [ ابلیس کے]لَمْ يَكُنْ [ وہ نہیں تھا ]مِّنَ السّٰجِدِيْنَ [ سجدہ کرنے والوں میں سے]



ذء م : (ف) ذاما ۔ عیب لگانا ۔ مذء وم ۔ اسم المفعول ہے ۔ عیب لگایا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 18۔

دح ر : (ف) دحورا ۔ کسی کو کہیں سے زبردستی نکالنا ۔ ہانکنا ، کھدیرنا ۔ وَيُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ دُحُوْرًا [ اور ان پر پھینکے جاتے ہیں ہرطرف سے کھدیرتے ہوئے ]37:8۔ مدحور۔ اسم المفعول ہے ۔ ہانکا ہوا ۔ کھدیرا ہوا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔18۔



نوٹ۔ 1: تخلیق انسانی کے جس آغاز کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے اس کی تفصیل کو سمجھنا ہمارے مشکل ہے ۔ لیکن بہرحال یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانے میں سائنس کے نام سے پیش کیے جاتے ہیں ۔ ان نظریات کی رو سے انسان ایک غیر انسانی حالت سے مختلف مدارج طے کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے۔ اس کے برعکس قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے ۔ اس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعا کوئی رشتہ نہیں رکھتی اور اول روز سے انسان ہی بنایا گیا ہے ۔

انسانیت کی تاریخ کے یہ دو مختلف نقطہ نظر ہیں جن سے انسانیت کے دو بالکل مختلف تصور پیدا ہوتے ہیں ۔ ایک تصور میں انسان دراصل حیوان کی ہی ایک شاخ نظر آتا ہے ۔ اس لیے اگر کوئی انسان حیوانات کا سا طرز عمل اختیار کرتا ہے تو یہ بالکل فطری طرز عمل ہوگا ۔ اس کے برعکس قرآنی تصور میں انسان کو جانور کے بجائے انسان کی حیثیت سے دیکھا جائے گا ۔ اسے حیوان ناطق نہیں بلکہ اللہ کا خلیفہ سمجھا جائے گا ۔ انسان کو دوسری مخلوقات سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ اس کا نطق (بات کرنے کی صلاحیت ) نہیں ہے بلکہ اس کی اخلاقی ذمہ داری اور اختیارات کی وہ امانت ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے اور جس کی بناء پر وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہے ۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ) ۔

اوپر مولانا مودودی نے کہا ہے کہ دیگر مخلوقات سے انسان کو ممتاز کرنے والی چیز نطق یعنی بات کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔ اس کی وجہ کو سمجھ لیں ۔ قرآن مجید کے مختلف مقامات سے یہ بات ہمارے علم میں آتی ہے کہ کچھ دیگر مخلوقات کو بھی اللہ تعالیٰ نے نطق کی صلاحیت عطا کی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی بات چیز کو یا تو ہم سن نہیں سکتے اور اگر سنتے ہیں تو سمجھ نہیں پاتے ۔ مثال کے طور پر حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کو آتا دیکھ کر ایک چیونٹی نے چیونٹیوں سے کہا تھا کہ تم لوگ اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے نہ صرف اس بات کو سن لیا بلکہ سمجھ بھی لیا ۔ اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا مانگی وہ بھی قرآن مجید میں نقل کی گئی ہے ۔ طلباء کو چاہئے کو وہ یہ دعا یاد کرلیں ۔ (27:16 تا 19) اس کے آگے آیت نمبر ۔ 22 میں ہدہد کا حضرت سلیمان علیہ السلام سے بات کرنے کا بھی ذکر ہے ۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ ہر نئے نظریہ کو آنکھ بند کرکے قبول کرلیتے ہیں پھر دوسروں پر اپنی قابلیت کا رعب ڈالنے کے لیے اس کا چرچا کرتے رہتے ہیں ۔ اساتذہ طلبا سے اس کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ بہت پڑھے لکھے ہیں۔ اکثر کے علم میں نہیں ہوتا یا ہم بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ
نے ایسے شخص کو جھوٹا قرار دیا ہے جو سنی سنائی بات کو تحقیق کیے بغیر آگے بڑھا دے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہی ’’ سائنسی ‘‘ نظریات جب مغربی محققین کی سائٹفک کسوٹی پر غلط ثابت ہوجاتے ہیں تو اس کا چرچا نہیں ہوتا ۔ ایسی تحقیقی باتوں کو عام کرنا مغربی میڈیا کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ وہ اگر چپ سادھ لیتے ہیں تو ان پر شکایت بےسود ہے ۔ یہ مسلمان اہل علم کی ذمہ داری ہے جس سے ہم کماحقہ عہدہ برآ نہیں ہورہے ہیں۔ مغرب میں ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو دفن ہوئے برسوں گزر چکے ہیں لیکن ہم لوگ اسے آج تک سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔

قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ  ۭ قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ   ۚ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ    12 ؀
قَالَ [ (اللہ نے ) کہا]مَا [ کس چیز نے ]مَنَعَكَ [ تجھے روکا ]اَلَّا تَسْجُدَ [ کہ تو سجدہ نہ کرے ]اِذْ [ جب (کہ ) ]اَمَرْتُكَ ۭ [ میں نے حکم دیا ]قَالَ [ (ابلیس نے ) کہا ]اَنَا [ میں ]خَيْرٌ [ بہتر ہوں ]مِّنْهُ ۚ [ اس سے ]خَلَقْتَنِيْ [ تو نے پیدا کیا مجھ کو ]مِنْ نَّارٍ [ آگ سے ]وَّخَلَقْتَهٗ [ اور تو نے پیدا کیا اس کو]مِنْ طِيْنٍ [ گارے سے ]



ترکیب: (آیت ۔12) الا دراصل ان لا ہے ۔ اس میں شامل ان نے تسجد کو نصب دی ہے۔

قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِيْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِيْنَ   13؀
قَالَ [ (اللہ نے ) کہا ]فَاهْبِطْ [ پس تو نیچے اتر ]مِنْهَا [ اس سے ]فَمَا يَكُوْنُ [ تو نہیں ہے]لَكَ [ تیرے لئے ]اَنْ [ کہ ]تَتَكَبَّرَ [ تو بڑا بنے ]فِيْهَا [ اس میں ]فَاخْرُجْ [ پس تو نکل ]اِنَّكَ [ یقینا تو ]مِنَ الصّٰغِرِيْنَ [ حقیر ہونے والوں میں سے ہے ]



(آیت ۔ 13) فاھبط منھا میں اور آگے فیھا میں ھا کی ضمیریں جنت کے لیے ہیں ۔ حالانکہ ان آیات میں جنت کا ذکر نہیں ہے لیکن قرآن کے دوسرے مقامات کے مطالعہ سے قرآن کے قاری کے لیے یہ بات معروف ہوجاتی ہے کہ یہ واقعہ جنت کا ہے۔ اس لیے جنت کا ذکر کیے بغیر یہاں اس کے لیے ضمیر استعمال کی گئی ہے ۔

قَالَ اَنْظِرْنِيْٓ اِلٰي يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ    14؀
قَالَ [ (ابلیس نے) کہا]اَنْظِرْنِيْٓ [ تو مہلت دے مجھے ]اِلٰي يَوْمِ [ اس دن تک (جب) ]يُبْعَثُوْنَ [ یہ لوگ اٹھائے جائیں گے ]



نوٹ۔ 2: ایسی حالت میں کہ جب اللہ تعالیٰ ابلیس پر غضب فرما رہا تھا ، اس نے اللہ تعالیٰ سے دعامانگی کہ مجھے قیامت تک مہلت دے اور اللہ نے اس کی سن لی ۔ اس سے قبولیت دعا کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اور حکمت کے تحت جس کی چاہتا ہے دعا قبول کرتا ہے ، خواہ وہ مومن ہو یا کافر ۔ اس لیے کسی کی دعا قبول ہونا اس کے قرب الہی کی سند نہیں ہے ۔



(آیت ۔14) الی یوم یبعثون میں یوم مضاف ہے اور جملہ فعلیہ یبعثون اس کا مضاف الیہ ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔5۔199، ترکیب)

قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ   15؀
قَالَ [ (اللہ نے ) کہا]اِنَّكَ [ بیشک تو ]مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ [ مہلت دیے ہوؤں میں سے ہے ]

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ      16؀ۙ
قَالَ [ (ابلیس نے ) کہا]فَبِمَآ [ پس بسبب اس چیز کے جس سے ]اَغْوَيْتَنِيْ [ تو نے گمراہ کیا مجھے ]لَاَقْعُدَنَّ [ میں لازما بیٹھوں گا ]لَهُمْ [ ان کے لیے ]صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ [ تیرے سیدھے راستے پر ]



(آیت ۔16،17) لا قعدن کا مفعول صراطک ہے ۔ لا تجد کا مفعول اول اکثرھم ہے اور شکرین اس کا مفعول ثانی ہے۔

ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِهِمْ ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ    17؀
ثُمَّ [ پھر ]لَاٰتِيَنَّهُمْ [ میں لازما آؤں گا ان کے پاس ]مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ [ ان کے سامنے سے]وَمِنْ خَلْفِهِمْ [ اور ان کے پیچھے سے ]وَعَنْ اَيْمَانِهِمْ [ اور ان کی داہنی جانبوں سے]وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِهِمْ ۭ [ اور ان کی بائیں جانبوں سے ]وَلَا تَجِدُ [ اور تو نہیں پائے گا ]اَكْثَرَهُمْ [ ان کے اکثر کو ]شٰكِرِيْنَ [ شکر ادا کرنے والے ]

قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا  ۭ لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ    18؀
قَالَ [ (اللہ نے ) کہا ] اخْرُجْ [ تو نکل ]مِنْهَا [ اس سے ]مَذْءُوْمًا [ عیب لگایا ہوا ہوتے ہوئے ]مَّدْحُوْرًا ۭ [ کھدیرا ہوا ہوتے ہوئے ]لَمَنْ [ بیشک جس نے ]تَبِعَكَ [ پیروی کی تیری ]مِنْهُمْ لَاَمْلَئَنَّ [ تو میں لازما بھر دوں گا ]جَهَنَّمَ [ جہنم کو ]مِنْكُمْ [ تو لوگوں سے ]اَجْمَعِيْنَ [ سب کے سب سے ]



 (آیت ۔ 18) مذء وما اور مدحورا حال ہیں ۔ اس لیے حالت نصب میں ہیں ۔ لمن پر لام تاکید ہے اور من شرطیہ ہے ۔ منکم میں کم کی ضمیر من تبعک کے لیے ہے۔

وَيٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِـئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ     19؀
وَيٰٓاٰدَمُ [ اور اے آدم ] اسْكُنْ [ سکونت اختیار کرو]اَنْتَ [ تم ]وَزَوْجُكَ [ اور تمہاری بیوی ] الْجَنَّةَ [ اس باغ میں ]فَكُلَا [ پھر تم دونوں کھاؤ]مِنْ حَيْثُ شِـئْتُمَا [ تم دونوں چاہو ]وَلَا تَقْرَبَا [ اور تم دونوں قریب مت جانا ]هٰذِهِ الشَّجَرَةَ [ اس درخت کے ]فَتَكُوْنَا [ ورنہ تم دونوں ہوجاؤ گے]مِنَ الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والوں سے ]



وس وس : (رباعی ) وسوسۃ ۔ کسی کے ذہن میں برا خیال ڈالنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔20۔ وسواس ۔ اسم ذات ہے ۔ براخیال ۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ڏ الْخَنَّاسِ [ پیچھے ہٹنے والے برے خیال کی برائی سے ] 114:4

ن ص ح : (ف) نصحا ــ: کوئی ایسی بات یا کام کرنا جس میں دوسرے کی بھلائی ہو اور اپنی کوئی غرض نہ ہو ۔ (1) خیرخواہی کرنا ۔ (2) خالص ہونا ۔ صاف ہونا ۔ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ [ بیشک میں پہنچا چکا ہوں اور اپنے رب کے پیغام کو اور میں نے خیر خواہی کی ہے تمہارے لیے ] 7:79۔ وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ [ اور ان لوگوں پر جو نہیں پاتے اس کو جو وہ خرچ کریں، کوئی حرج نہیں ہے جب وہ لوگ دل سے صاف ہوئے اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لئے ] 9:91۔ نصح ۔ اسم ذات بھی ہے ۔ بےلوث خیر خواہی ۔ وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ [ اور تم کو نفع نہیں دے گی میری بےلوث خیرخواہی ] 11:34۔ ناصح ، اسم الفاعل ہے ۔ خیرخواہی کرنے والا زیر مطالعہ آیت ۔21۔ نصوح ، فعول کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بےانتہاخالص ۔ تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا [ تم لوگ توبہ کرو اللہ سے بےانتہا خالص توبہ ] 66:8۔

ط ف ق ۔ (س) طفقا ۔ کسی کام کو شروع کرنے یا کرنے لگنے کا مفہوم دیتا ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔ 2:216، نوٹ ۔1)

خ ص ف : (ض) ۔ خصفا ۔ سینا ، ٹانکنا ۔ چپکانا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 22



ترکیب: (آیت ۔ 19) فتکونا کا فاسببیہ ہے ۔ اس لیے نون اعرابی گرا ہوا ہے۔



نوٹ ۔ 1: گذشتہ چند آیات میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے مطالعہ سے چند اہم حقائق واضح طور پر سامنے آتے ہیں ۔

(1) انسان کے اندر شرم وحیاء کا ایک فطری جذبہ ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ شرم انسان کے اندر تہذیب کے ارتقاء سے پیدا نہیں ہوئی ہے ، جیسا کہ بعض مغربی مفکرین نے قیاس کیا ہے ، بلکہ درحقیقت یہ وہ فطری چیز ہے جو اول روز سے انسان میں موجود تھی ۔

(2) شیطان اپنی بڑائی کا خود مدعی تھا جبکہ انسان نے اپنی بڑائی کا خود دعویٰ نہیں کیا بلکہ بڑائی اسے دی گئی ہے ۔ (یعنی جو انسان خود بڑائی کرے وہ دراصل شیطان کا شاگرد ہے کیونکہ یہ انسانی نہیں بلکہ شیطانی عمل ہے ۔ مرتب ۔

(3) شیطان نے خالص غرور اور تکبر کی بنا پر اللہ کی نافرمانی کی جبکہ انسان نے نافرمانی کو خود اختیار نہیں کیا بلکہ شیطان کے بہکانے سے وہ اس میں مبتلا ہوا۔

(4) انسان نے شرکی کھلی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ داعی شرکو داعی خیر بن کر اس کے سامنے آنا پڑا ۔ وہ پستی کی طرف پستی کی طلب میں نہیں گیا بلکہ اس دھوکے میں گیا کہ یہ راستہ اسے بلندی کی طرف لے جائے گا ۔

(5) عام طور پر یہ جو مشہور ہوگیا ہے کہ شیطان نے پہلے بی بی حوا کو دام فریب میں گرفتار کیا پھر انہیں حضرت آدم علیہ السلام کو ورغلانے کا آلہ کار بنایا ، قرآن اس کی تردید کرتا ہے ۔ اس کا بیان یہ ہے کہ شیطان نے دونوں کو دھوکہ دیا اور دونوں اس سے دھوکا کھا گئے ۔

(6) شیطان اپنے قصور کا اعتراف کرنے کے بجائے نافرمانی پر اور زیادہ جم گیا ۔ جبکہ انسان نے اپنے قصور کا اعتراف کیا ، اس پر نادم ہوا اور معافی مانگی اور اسے معاف کردیا گیا ۔

(7) اس لیے جو انسانی راہ مطلوب ومحمود ہے اسے شیطانی راہ سے بالکل الگ کرکے واضح کردیا ۔ اب یہ ہر انسان کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لیے انسانی راہ کو منتخب کرتا ہے یا شیطانی راہ اختیار کرتا ہے ۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ )

فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وٗرِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ     20؀
فَوَسْوَسَ [ پھر برا خیال ڈالا ]لَهُمَا [ ان کے لیے ] الشَّيْطٰنُ [ شیطان نے ]لِيُبْدِيَ [ تاکہ وہ ظاہر کرے ]لَهُمَا [ ان کے لیے]مَا [ اس کو جو ]وٗرِيَ [ چھپایا گیا ] عَنْهُمَا [ ان دونوں سے ]مِنْ سَوْاٰتِهِمَا [ ان کی ستروں میں سے ]وَقَالَ [ اور اس نے کہا ]مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا [ تمہارے رب نے ]عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ [ اس درخت سے ]اِلَّآ [ مگر (اس لیے ) ]اَنْ [ کہ (کہیں ) ]تَكُوْنَا [ تم دونوں ہوجاؤ]مَلَكَيْنِ [ فرشتے ]اَوْ [ یا ]تَكُوْنَا [ تم دونوں ہوجاؤ ]مِنَ الْخٰلِدِيْنَ [ ہمیشہ رہنے والوں میں سے ]



نوٹ ۔ 2: جنت سے نیچے اترنے کا خطاب حضرت آدم علیہ السلام ، بی بی حوا اور ابلیس سے تھا (اس لیے یہاں تثنیہ کے بجائے جمع کا صیغہ آیا ہے۔ مرتب) مفسرین نے ان مقامات کا بھی ذکر کیا ہے جہاں ان میں سے ہر ایک پھینکا گیا تھا ۔ لیکن یہ ساری خبریں اسرائیلیات سے لی گئی ہیں ۔ ان کی صحت سے خدا ہی واقف ہے ۔ اگر ان مقامات کے تعین میں کوئی فائدہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ضرور ذکر فرماتا یا حدیث میں کہیں مذکور ہوتا ۔ (ابن کثیر)



(آیت ۔ 20) وری مادہ ’’ وری ‘‘ سے باب مفاعلہ کا ماضی مجہول ووری ہے جس کو وری لکھتے ہیں ۔

وَقَاسَمَهُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ    21۝ۙ
وَقَاسَمَهُمَآ [ اور اس نے دونوں کو قسم دی ]اِنِّىْ [ بیشک میں ]لَكُمَا [ تم دونوں کے لئے ]لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ [ یقینا خیر خواہی کرنے والوں میں سے ہوں ]

فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ  ۭوَنَادٰىهُمَا رَبُّهُمَآ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّكُمَآ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ    22؀
فَدَلّٰىهُمَا [ تو اس نے پھسلادیا دونوں کو ]بِغُرُوْرٍ ۚ [ فریبوں سے ]فَلَمَّا [ پھر جب ]ذَاقَا [ دونوں نے چکھا ] الشَّجَرَةَ [ اس درخت کو ]بَدَتْ [ تو ظاہر ہوگئے]لَهُمَا [ ان کے لیے ]سَوْاٰتُهُمَا [ ان کی ستروں کے حصے ]وَطَفِقَا [ اور وہ دونوں لگے ]يَخْصِفٰنِ [ چپکانے ]عَلَيْهِمَا [ اپنے اوپر]مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ۭ [ باغ کے پتوں میں سے ] وَنَادٰىهُمَا [ اور پکار ان دونوں کو ]رَبُّهُمَآ [ ان کے رب نے ]اَلَمْ اَنْهَكُمَا [ کیا میں نے روکا نہیں تھا تم دونوں کو ]عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ [ اس درخت سے ]وَاَقُلْ [ اور میں نے کہا نہیں تھا ]لَّكُمَآ [ تم دونوں سے ]اِنَّ [ کہ ] الشَّيْطٰنَ [ شیطان ]لَكُمَا [ تم دونوں کا ]عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ [ ایک کھلا دشمن ہے]



(آیت ۔ 22۔23) لم پر عطف ہونے کی وجہ سے اقل مجزوم ہے ۔ اسی طرح لم پر عطف ہونے کی وجہ سے ترحمنا مجزوم ہے ۔

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا    ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ   23؀
قَالَا [ ان دونوں نے کہا ]رَبَّنَا [ اے ہمارے رب ]ظَلَمْنَآ [ ہم نے ظلم کیا ]اَنْفُسَنَا ۫ [ اپنی جانوں پر ]وَاِنْ [ اور اگر ]لَّمْ تَغْفِرْ [ تو نے معاف نہ کیا ]لَنَا [ ہم کو ]وَتَرْحَمْنَا [ اور تو نے رحم نہ کیا ہم پر ]لَنَكُوْنَنَّ [ تو ہم لازما ہوجائیں گے]مِنَ الْخٰسِرِيْنَ [ گھاٹا پانے والوں میں سے]



ترکیب : (آیت ۔ 23) زینۃ اللہ اور الطیبت ، دونوں حرم کے مفعول ہیں ۔ اس لیے دونوں حالت نصب میں ہیں ۔ خالصتا حال ہے۔ یوم ظرف ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ لقوم نکرہ مخصوصہ ہے۔

قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ وَلَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰي حِيْنٍ   24؀
قَالَ [ (اللہ نے ) کہا ] اهْبِطُوْا [ تم لوگ نیچے اترو ]بَعْضُكُمْ [ تم میں کا کوئی ]لِبَعْضٍ [ کسی کیلئے]عَدُوٌّ ۚ [ دشمن ہے]وَلَكُمْ [ اور تمہارے لیے ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ]مُسْتَقَرٌّ [ ایک ٹھکانہ ہے ]وَّمَتَاعٌ [ اور برتنے کا کچھ سامان ہے ]اِلٰي حِيْنٍ [ کچھ عرصہ تک ]

قَالَ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْهَا تُخْرَجُوْنَ    25؀ۧ
قَالَ [ (اللہ نے ) کہا]فِيْهَا [ اس میں ]تَحْيَوْنَ [ تم لوگ زندہ رہو گے]وَفِيْهَا [ اور اس میں ]تَمُوْتُوْنَ [ تم لوگ مروگے ]وَمِنْهَا [ اور اس میں سے]تُخْرَجُوْنَ [ تم لوگ نکالے جاؤ گے ]

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا  ۭوَلِبَاسُ التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ  ۭذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ    26؀
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ [ اے آدم علیہ السلام کے بیٹو]قَدْ اَنْزَلْنَا [ ہم نے اتارا ہے ]عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ]لِبَاسًا [ ایک ایسا لباس جو ]يُّوَارِيْ [ چھپاتا ہے ]سَوْاٰتِكُمْ [ تمہاری ستر کی حصوں کو ]وَرِيْشًا ۭ [ اور زیبائش ہوتے ہوئے]وَلِبَاسُ التَّقْوٰى ۙ [ اور تقوی کا لباس !]ذٰلِكَ [ وہ (تو) ]خَيْرٌ ۭ [ سب سے بہترہے ]ذٰلِكَ [ یہ ]مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے]لَعَلَّهُمْ [ شائد وہ لوگ ]يَذَّكَّرُوْنَ [ نصیحت پکڑیں ]



ری ش : (ض) ریشا ۔ کسی کے حال کی اصلاح کرنا ۔ ریش ۔ اسم جنس ہے ۔ واحد ریشۃ جمع ریاش ۔ پرندوں کے پر۔ آرائش وزیبائش کی کوئی بھی چیز ۔ زیرمطالعہ آیت ۔26۔

ب د ء : (ف) بدءا ۔ کسی کام کی ابتدا کرنا ۔ پہل کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔29۔ (افعال ) ابداء ۔ ثلاثی مجرد کا ہم معنی ہے۔ ابتدا کرنا ۔ اولم یروا کیف یبدی اللہ الخلق [ تو کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ اللہ کیسے ابتدا کرتا ہے تخلیق کی ] 29:19۔

ترکیب: (آیت ۔ 26) لباسا نکرہ مخصوصہ ہے ۔ یواری کی خصوصیت ہے اور ریشا حال ہے ۔



نوٹ۔1: ایک عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کی چیزوں کا استعمال قرب الہی میں رکاوٹ بنتا ہے ۔ اس لیے کوئی جوگی بنتا ہے ، کوراہبانیت اختیار کرتا ہے اور کچھ صوفی بھی ان کی نقل کرتے ہیں ۔ لیکن اسلام اس سے منع کرتا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے ہی پیدا کی ہیں ۔ اصول یہ ہے کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں ۔ وہ سب حلال ہیں ۔ جب تک کسی چیز کا حرام ہونا دلیل شرعی سے ثابت نہ ہوجائے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اصلا تو یہ چیزیں اہل ایمان کے لیے ہی پیدا کی گئی ہیں ۔ لیکن اس دنیا میں کافروں کو بھی ان سے استفادہ کرنے کی اجازت ہے کیونکہ یہ دنیا دارالجزاء نہیں ہے بلکہ دارالامتحان ہے ۔ البتہ قیامت میں یہ چیزیں صرف اہل ایمان کے لیے ہوں گی ۔

جہاں اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو دلیل شرعی کے بغیر اپنے اوپر حرام کرنا منع ہے ، وہیں ان کے استعمال میں حد سے تجاوز کرنا بھی منع ہے ۔ اسراف کا مطلب ہے کسی جائز ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا ۔ مثلا کھانے میں متعدد ڈشوں کا اور سویٹ ڈش میں ایک سے زائد ڈشوں کا اہتمام کرنا ، یا بھوک سے زیادہ کھانا یا بھوک کے بغیر کھانا جیسے
BETWEEN THE MEALS بسکٹوں یا اسنیکس کا اہتمام کرنا وغیرہ ۔ اسی طرح کپڑے ، جوتے اور رہائش کی دوسری ضروریات پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے اور ایسا کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ۔

نوٹ ۔2: اثم وہ خطائیں ہیں جو فاعل کی اپنی ذات سے متعلق ہیں اور بغی وہ زیادتی ہے جو دوسروں کے ساتھ کی جائے ( ابن کثیر) ۔ بغی میں حق کے بغیر کا مفہوم از خود شامل ہے۔ کیونکہ زیادتی کہتے ہیں اس کو جو حق کے بغیر ہو۔ آیت میں بغیر الحق کا اضافہ تاکید کے لیے کیا گیا ہے ۔ جیسے اردو لفظ ’’ دیکھنا ‘‘ میں آنکھوں سے دیکھنے کا مفہوم از خود شامل ہے ۔ لیکن جب تاکید مقصود ہوتی ہے ۔ تو ہم کہتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ (حافظ احمد یار صاحب مرحوم)

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا  ۭاِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُهٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ  ۭاِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ    27؀
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ [ اے آدم کے بیٹو]لَا يَفْتِنَنَّكُمُ [ ہرگز لغزش نہ دے تم کو ] الشَّيْطٰنُ [ شیطان ]كَمَآ [ جیسے کہ ]اَخْرَجَ [ اس نے نکالا ]اَبَوَيْكُمْ [ تمہارے والدین کو ]مِّنَ الْجَنَّةِ [ جنت سے]يَنْزِعُ [ اس حال میں کہ اس نے کھینچ اتارا ]عَنْهُمَا [ ان دونوں سے ]لِبَاسَهُمَا [ دونوں کا لباس ]لِيُرِيَهُمَا [ تاکہ وہ دکھائے دونوں کو ]سَوْاٰتِهِمَا ۭ [ ان کی ستروں کے حصے ]اِنَّهٗ [ حقیقت یہ ہے کہ ]يَرٰىكُمْ [ دیکھتا ہے تم لوگوں کو ]هُوَ [ وہ ]وَقَبِيْلُهٗ [ اور اس کا قبیلہ ]مِنْ حَيْثُ [ وہاں سے جہاں ]لَا تَرَوْنَهُمْ ۭ [ تم نہیں دیکھتے ان کو ]اِنَّا [ بیشک ]جَعَلْنَا [ ہم نے بنایا ] الشَّيٰطِيْنَ [ شیطانوں کو ]اَوْلِيَاۗءَ [ دوست ]لِلَّذِيْنَ [ ان کے لیے جو ]لَا يُؤْمِنُوْنَ [ ایمان نہیں لاتے ]



(آیت ۔ 27) يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا ، پر پورا جملہ اخرج کا حال ہے ۔ انہ کی ضمیرشیطان کے لیے بھی مانی جاسکتی ہے اور اسے ضمیر الشان بھی مانا جاسکتا ہے ۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ اسے ضمیر الشان مانا جائے ۔

وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْهَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا  ۭقُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ  ۭاَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ   28؀
[ وَاِذَا: اور جب کبھی ]فَعَلُوْا [ وہ لوگ کرتے ہیں ]فَاحِشَةً [ کوئی بےحیائی ]قَالُوْا [ تو کہتے ہیں ]وَجَدْنَا [ ہم نے پایا] [ عَلَيْهَآ : اس پر ]اٰبَاۗءَنَا [ اپنے اجداد کو ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ نے ]اَمَرَنَا [ حکم دیا ہم کو ]بِهَا ۭ [ اس کا ]قُلْ [ آپ کہہ دیجئے ]اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ]لَا يَاْمُرُ [ حکم نہیں دیتا ]بِالْفَحْشَاۗءِ ۭ [ بےحیائیوں کا ] اَ [ کیا ]تَقُوْلُوْنَ [ تم لوگ کہتے ہو ]عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ]مَا [ وہ جو ]لَا تَعْلَمُوْنَ [ تم لوگ نہیں جانتے ]

قُلْ اَمَرَ رَبِّيْ بِالْقِسْطِ  ۣوَاَقِيْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڛ كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ    29؀ۭ
قُلْ [ آپ کہئے ]اَمَرَ [ حکم دیا ]رَبِّيْ [ میرے رب نے ]بِالْقِسْطِ ۣ [ انصاف کا ]وَ [ اور (یہ کہ ) ]اَقِيْمُوْا [ تم لوگ سیدھا رکھو ]وُجُوْهَكُمْ [ اپنے چہروں کو ]عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ ہر سجدہ کرنے کے وقت پر ]وَّادْعُوْهُ [ اور پکارو اس کو ]مُخْلِصِيْنَ [ خالص کرنے والا ہوتے ہوئے ]لَهُ [ اس کیلئے ] الدِّيْنَ ڛ [ کل دین کو ]كَمَا [ جیسے ]بَدَاَكُمْ [ اس نے ابتدا کی تمہاری ]تَعُوْدُوْنَ [ (ویسے ہی ) تم لوگ لوٹو گے ]



( آیت ۔ 29) مسجد ظرف مکان اور ظرف زمان ، دونوں معنی دیتا ہے ۔ ہم ظرف زمان سے ترجمہ کریں گے اسم الفاعل مخلصین حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ اس نے فاعل کا کام کیا ہے اور اس نے الدین کو نصب دی ہے ۔

فَرِيْقًا هَدٰي وَفَرِيْقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلٰلَةُ   ۭاِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ    30؀
فَرِيْقًا [ ایک فریق کو ]هَدٰي [ اس نے ہدایت دی ]وَفَرِيْقًا [ اور ایک فریق کو ( اس نے گمراہی دی ) ]حَقَّ [ (کیونکہ ) ثابت ہوئی ]عَلَيْهِمُ [ ان پر ] الضَّلٰلَةُ ۭ [ گمراہی ]اِنَّهُمُ [ بیشک انہوں نے ] اتَّخَذُوا [ بنایا ] الشَّيٰطِيْنَ [ شیطانوں کو ]اَوْلِيَاۗءَ [ دوست ]مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ]وَ [ اس حال میں کہ ]يَحْسَبُوْنَ سمجھتے ہوئے ]اَنَّهُمْ [ کہ وہ ]مُّهْتَدُوْنَ [ ہدایت یافتہ ہیں ]



 (آیت ۔ 30) پہلا فریقا مفعول ہے ھدی کا ۔ دوسرا فریقا بھی مفعول ہے اور اس کا فعل اضل محذوف ہے ۔ ویحسبون کا واو حالیہ ہے۔

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا  ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ    31؀ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ [ اے آدم بیٹو]خُذُوْا [ تم لوگ پکڑو ]زِيْنَتَكُمْ [ اپنی زینت کو ]عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ ہرسجدہ کرنے کے وقت پر] [ وَّكُلُوْا: اور کھاؤ] [ وَاشْرَبُوْا: اور پیو]وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ [ اور حد سے تجاوز مت کرو]اِنَّهٗ [ بیشک وہ ]لَا يُحِبُّ [ پسند نہیں کرتا ] الْمُسْرِفِيْنَ [ حد سے تجاوز کرنے والوں کو ]

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللّٰهِ الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ  ۭقُلْ هِىَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ   32؀
قُلْ [ آپ کہئے ]مَنْ [ کس نے ]حَرَّمَ [ حرام کیا ]زِيْنَةَ اللّٰهِ الَّتِيْٓ [ اللہ کی اس زینت کو جو ]اَخْرَجَ [ اس نے نکالی ]لِعِبَادِهٖ [ اپنے بندوں کے لیے]وَالطَّيِّبٰتِ [ اور پاکیزہ چیزوں کو ]مِنَ الرِّزْقِ ۭ [ رزق میں سے]قُلْ [ آپ کہہ دیجیے]هِىَ [ یہ ]لِلَّذِيْنَ [ ان لوگوں کیلئے ہے جو ]اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ]فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [ دنیوی زندگی میں ]خَالِصَةً [ (لیکن ) خالص ہوتے ہوئے ]يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ [ قیامت کے دن ]كَذٰلِكَ [ اس طرح ]نُفَصِّلُ [ ہم کھول کھول کر بتاتے ہیں ] الْاٰيٰتِ [ آیتوں کو ]لِقَوْمٍ [ ایسے لوگوں کے لئے جو ]يَّعْلَمُوْنَ [ علم رکھتے ہیں ]

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ  33؀
قُلْ [ آپ کہہ دیجئے ]اِنَّمَا [ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ]حَرَّمَ [ حرام کیا ]رَبِّيَ [ میرے رب نے ] الْفَوَاحِشَ [ بےحیائیوں کو ]مَا ظَهَرَ [ جو نمایاں ہوا ]مِنْهَا [ اس سے ]وَمَا بَطَنَ [ اور جو پوشیدہ رہا ]وَالْاِثْمَ [ اور گناہ کو ]وَالْبَغْيَ [ اور زیادتی کرنے کو ]بِغَيْرِ الْحَقِّ [ حق کے بغیر ]وَاَنْ [ اور (اس نے حرام کیا ) کہ ]تُشْرِكُوْا [ تم لوگ شریک کرو]بِاللّٰهِ [ اللہ کے ساتھ ]مَا [ اس کو ]لَمْ يُنَزِّلْ [ اس نے اتار ہی نہیں ]بِهٖ [ جس کی ]سُلْطٰنًا [ کوئی سند]وَّاَنْ [ اور (اس نے حرام کیا ) کہ ]تَقُوْلُوْا [ تم لوگ کہو]عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ]مَا [ وہ جس کا ]لَا تَعْلَمُوْنَ [ تم لوگ علم نہیں رکھتے ]



(آیت ۔ 33) الفواحش ، الاثم اور البغی ، یہ سب حرم کے مفعول ہیں ۔ جبکہ ان تشرکو اور ان تقولوا سے پہلے حرم محذوف ہے ۔ ساعۃ تمیز ہے ۔

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ  ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ  34؀
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ [ اور ہر ایک امت کیلئے ]اَجَلٌ ۚ [ ایک وقت ہے ]فَاِذَا [ پھر جب ]جَاۗءَ [ آجائے ]اَجَلُهُمْ [ ان کا وقت ]لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ [ تو وہ لوگ پیچھے نہیں ہوں گے ]سَاعَةً [ ایک گھڑی (یعنی لمحہ بھر بھی )]وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ [ اور نہ ہی آگے ہوں گے]



نوٹ ۔3: یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ افراد اور اقوام کے معاملہ میں اللہ نے ’’ اجل ‘‘ کے پیمانے الگ الگ رکھے ہیں ۔ افراد کے پیمانے تو سالوں ، مہینوں ، دنوں ، گھنٹوں ، اور منٹوں کے حساب سے پورے ہوتے ہیں ۔ جب وہ پورے ہوجاتے ہیں ، تو فرد ختم ہوجاتا ہے ۔ جبکہ قوموں کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ان کا حساب ان کے اخلاقی زوال سے ہوتا ہے ۔ اخلاقی زوال کی ایک خاص حد ہے۔ کوئی قوم جب گرتے گرتے اس حد کو پہنچ جاتی ہے تو اس کا سفینہ غرق ہوجاتا ہے۔ جس طرح افراد کی موت کا وقت اللہ کے سوا کسی کو نہیں معلوم ، اسی طرح قوموں کے فنا ہونے کے وقت کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ (تدبر القرآن )

 البتہ کسی فرد کے بالوں کی سفیدی ، اعضاء کی کمزوری ، چہرے کی جھریاں وغیرہ ایسی علامات ہیں جن کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس فرد کا وقت اب قریب آلگا ہے ۔ اسی طرح قوموں کی اخلاقی گراوٹ کی کچھ علامات ہیں جنہیں دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس قوم کے دن اب گنے جا چکے ہیں ۔ ا یسی علامات کے ظہور کی ابتداء عموما اس وقت ہوتی ہے جب وہ قوم فوجی سازوسامان اور طاقت کے اس درجہ پر پہنچ جاتی ہے جہاں اس دنیا میں اس کا کوئی مد مقابل باقی نہیں رہتا اور اسے نظر آتا ہے کہ اب وہ جو چاہے کرے ، اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے ۔ (سورۃ العلق ، آیات 6۔7) پھر طاقت کے نشے میں اسے ہر نقشہ الٹا نظر آتا ہے ۔ مجنون نظر آتی ہے ، لیلی نظر آتا ہے ۔ پھر وہ ایسی اخلاقی اقدار کو اپنے پاؤں تلے روندنا شروع کرتی ہے جن کی کبھی وہ خود علمبردار تھی پھر وہ صرف دھاندلی نہیں کرتی بلکہ پوری ڈھٹائی اور بےحیائی سے کرتی ہے اور اسے اپاہج سمجھتی ہے ۔ اخلاقی گراوٹ کی یہ پستی اس کے سفینے میں سوراخ کرتی رہتی ہے اور وہ قوم اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودتی رہتی ہے۔ مثلا موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام نے فرعون کے دربار میں مطالبہ کیا تھا کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دو اور ان کو عذاب دینے کا سلسلہ ختم کردو ۔ (سورہ طہ ۔ آیت ۔ 47) اس وجہ سے فرعون نے ان پر جادوگر ہونے ، آجکل کی اصطلاح میں دہشت گرد ہونے کا الزام لگایا اور اپنی قوم کو بتایا کہ یہ دونوں چاہتے ہیں کہ تم لوگوں کو تمہاری زمین سے نکال دیں اور تمہاری بےمثال تہذیب وتمدن کا ستیاناس کر دیں ۔ (سورہ طہ ۔ آیت ۔ 63) ۔ حالانکہ موسیٰ علیہ السلام اس سرزمین سے بنی اسرائیل کو نکال کرلے جانا چاہتے تھے اور اس کے بعد فرعونیوں کی تہذیب سے ان کا کوئی واسطہ نہ رہتا اس طرح معمولی سمجھ بوجھ کا ہر آدمی آسانی سے سمجھ سکتاہے کہ فرعون کا الزام کتنا بےبنیاد اور کیسی دھاندلی پر مبنی تھا ۔ لیکن طاقت کے نشہ کا یہ عالم تھا کہ قوم نے اس الزام کو درست تسلیم کیا ۔ اخلاقی گراوٹ کی یہ وہ حد ہے جسے عبور کرنے کے بعد وہ قوم اس زمین پر ایک قوم کی حیثیت سے رہنے کے حق سے محروم ہوگئی اور انہوں نے اپنی بےمثال تہذیب کو اپنے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ۔ فاعتبروا یا ولی الابصار ۔

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ  ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ  35؀
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ [ اے آدم علیہ السلام کے بیٹو]اِمَّا [ اگر کبھی ]يَاْتِيَنَّكُمْ [ تمہارے پاس آئیں ]رُسُلٌ [ کچھ رسول ]مِّنْكُمْ [ تم میں سے]يَـقُصُّوْنَ [ بیان کرتے ہوئے ]عَلَيْكُمْ [ تم پر ]اٰيٰتِيْ ۙ [ میری آیات کو ]فَمَنِ [ تو جو ] اتَّقٰى [ تقوی کرے گا ]وَاَصْلَحَ [ اور اصلاح کرے گا (اپنی )]فَلَا خَوْفٌ [ تو کوئی خوف نہیں ہوگا ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ]وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ [ اور نہ وہ لوگ غمگین ہوں گے ]



ترکیب: (آیت ۔ 35) اما دراصل ان ما ہے ۔ اس میں ان شرطیہ ہے اور ماتاکید کا ہے (آیت 2:37 ترکیب ) ، یقصون حال ہے رسل کا ۔ اما کا جواب شرط فمن اتقی ہے اور یہ خود بھی شرط ہے ، اس کا جواب شرط فلا خوف ہے ۔ (آیت ۔ 37) رسلنا میں رسل عاقل کی جمع مکسر ہے ۔ اس لیے اس کے لیے مؤنث کا صیغہ جاءت اور مذکر کا صیغہ یتوفون ، دونوں جائز ہیں ۔ امم نکرہ مخصوصہ ہے۔ ان آیات میں شرط اور جواب شرط کی وجہ سے افعال ماضی کا ترجمہ حال یا مستقبل میں کیا جائے گا ۔

نوٹ ۔1: آیت نمبر ۔ 37 میں آیا ہے کہ نافرمان لوگوں کو الکتب میں سے ان کا حصہ پہنچے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے لیے ان کی تقدیر میں جو مہلت عمر اور رزق وغیرہ لکھا ہوا ہے وہ ان کو ملے گا اور ان کی نافرمانی کی وجہ سے اسمیں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ، کیونکہ دنیا دار الامتحان ہے دارالجزاء نہیں ہے۔

نوٹ ۔ 2: دوزخی لوگ اپنے پیش رو لوگوں کی طرف اشارہ کرکے اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ ان لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا ، اس لیے ان کو دوگنا عذاب دے۔ ایک ان کی اپنی گمراہی کا اور دوسرا ہمیں گمراہ کرنے کا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ سب کے لیے دوگنا عذاب ہے ۔ اس کی وجہ سمجھ لیں جس کی وضاحت مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے کی ہے۔

نیکی ہو یا بدی دونوں اپنی فطرت کے اعتبار سے متعدی چیزیں ہیں ۔ یہ اپنے کرنے والے کی ذات تک محدود نہیں رہتی ہیں ۔ بلکہ ان کے اثرات دوسروں تک بھی منتقل ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ نیکی کا ایک ذرہ احد پہاڑ کے برابر ہو سکتا ہے اور بدی کا ایک تخم لق ودق جنگل کی شکل اختیار کرسکتا ہے ۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ( جو سورۃ النساء ، آیت نمبر ۔ 85 میں اور احادیث میں بیان ہوا ہے) کہ تم میں سے اگلے اور پچھلے دونوں ہی کے لیے اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ ان کے گناہوں سے بھی حصہ ملنے والا ہے جن کے لیے تم نے ان گناہوں کی مثال قائم کی ۔ تم فریاد کررہے ہو کہ تمہارے اگلوں نے تمہارے لیے بری مثال قائم کی ۔ اس وجہ سے ان کو زیادہ عذاب ہو۔ ان کو بیشک زیادہ عذاب ملے گا ۔ لیکن تم نے جو بری مثال اپنے بعد والوں کے لیے چھوڑی ، اس کے نتائج سے تم کس طرح بچ جاؤ گے۔ جو پیمانہ ان کے لیے ہے وہی پیمانہ تمہارے لیے ہے ۔ اگر ان کی روش بد کے ساتھ ساتھ تم اپنی روش بد کے اثرات کا بھی علم رکھتے تو تم مانتے کہ تم اور وہ ، دونوں یکساں مجرم ہو۔ لیکن تمہیں اپنے بوئے ہوئے تخم بد کی ہولناکیوں کا علم نہیں ہے ۔ اب وہ تمہارے سامنے آئے گا۔ (تدبر قرآن ) ۔ یہاں پر کچھ ذہنوں میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیامت کے وقت زمین پر جو آخری نسل انسانی بدی میں ملوث ہوگی ، ان کی بدی کے اثرات تو کسی اگلی نسل کو منتقل نہیں ہوں تو کیا ان کو اکہرا عذاب ہوگا ۔ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لکل (سب کے لیے ہر ایک کے لیے ) فرمایا ہے ۔ اس کی وجہ وہ لوگ آسانی سے سمجھ لیں گے ۔ جنہوں نے ۔
STATISTICS (اعداد وشمار کا علم ) میں EXTRAPOLATION کا فارمولا پڑھا ہے۔ دوسرے طلبا اس کو اس طرح سمجھ لیں کہ کسی چیز کے گذشتہ کافی سالوں کے اعداد وشمار موجود ہوں تو ماضی میں ہونے والی کمی یا اضافہ کے رجحان کی بنیاد پر مذکورہ فارمولے کے ذریعہ تخمینہ لگا لیتے ہیں کہ چند سالوں کے بعد اعداد وشمار کیا ہوں گے ۔ عام طور پر یہ تخمینے تقریبا صحیح ثابت ہوتے ہیں ۔ اگر کبھی تھوڑا بہت یا کبھی کبھار زیادہ فرق ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی علم پرفیکٹ نہیں بلکہ ناقص ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر نقص سے پاک ہے۔ اس لیے اس کا علم بھی پرفیکٹ ہے اور وہ علی کل شیء قدیر ۔ ہے اس کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ آخری نسلوں کی بدی کے منتقل ہونے والے اثرات کا بالکل ٹھیک ٹھیک (Exact) حساب کرکے ان لوگوں کو اس کی بھی سزا دے ۔ اس لیے فرمایا لکل ضعف ۔

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ   36؀
وَالَّذِيْنَ [ اور جنہوں نے ]كَذَّبُوْا [ جھٹلایا ]بِاٰيٰتِنَا [ ہماری آیات کو ]وَاسْتَكْبَرُوْا [ اور استکبار کیا ]عَنْهَآ [ ان سے ]اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ ]اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ [ آگ والے ہیں ]هُمْ [ وہ لوگ ]فِيْهَا [ اس میں ]خٰلِدُوْنَ [ ہمیشہ رہنے والے ہیں ]

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ ۭاُولٰۗىِٕكَ يَنَالُهُمْ نَصِيْبُهُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ ۭ حَتّٰى اِذَا جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ ۙ قَالُوْٓا اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَشَهِدُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ  37؀
فَمَنْ [ تو کون ]اَظْلَمُ [ زیادہ ظالم ہے ]مِمَّنِ [ اس سے جس نے ] افْتَرٰي [ گھڑا ]عَلَي اللّٰهِ [ اللہ پر ]كَذِبًا [ ایک جھوٹ] اَوْ [ یا ]كَذَّبَ [ جھٹلایا ]بِاٰيٰتِهٖ ۭ [ اس کی آیات کو ]اُولٰۗىِٕكَ [ وہ لوگ ہیں ]يَنَالُهُمْ [ پہنچے گا جن کو ]نَصِيْبُهُمْ [ ان کا حصہ ]مِّنَ الْكِتٰبِ ۭ [ لکھے میں سے]حَتّٰى [ یہاں تک کہ ]اِذَا [ جب ]جَاۗءَتْهُمْ [ آئیں گے ان کے پاس ]رُسُلُنَا [ ہمارے پیغامبر (فرشتے) ]يَتَوَفَّوْنَهُمْ ۙ [ ان کو پورا پورا لیتے ہیں (یعنی روح قبض کرتے ہوئے ) ]قَالُوْٓا [ تو وہ کہیں گے ]اَيْنَ [ کہاں ہے]مَا [ وہ ، جس کو ]كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ [ تم لوگ پکارا کرتے تھے ]مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے علاوہ ]قَالُوْا [ تو وہ لوگ کہیں گے ]ضَلُّوْا [ وہ گم ہوگئے ]عَنَّا [ ہم سے]وَشَهِدُوْا [ اور گواہی دیں گے]عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ [ اپنے نفس کے خلاف ]اَنَّهُمْ [ کہ وہ لوگ ]كَانُوْا [ تھے]كٰفِرِيْنَ [ کفر کرنے والے ]

قَالَ ادْخُلُوْا فِيْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِي النَّارِ  ۭكُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا ۭ حَتّٰى اِذَا ادَّارَكُوْا فِيْهَا جَمِيْعًا  ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ڛ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ  38؀
قَالَ [ وہ (یعنی اللہ ) کہے گا ] ادْخُلُوْا [ تم لوگ داخل ہوجاؤ ]فِيْٓ اُمَمٍ [ ایک ایسی امت میں جو ]قَدْ خَلَتْ [ جو گزر چکی ہے]مِنْ قَبْلِكُمْ [ تم لوگوں سے پہلے ]مِّنَ الْجِنِّ [ جنوں میں سے]وَالْاِنْسِ [ اور انسانوں میں سے]فِي النَّارِ ۭ [ آگ میں ]كُلَّمَا [ جب کبھی ]دَخَلَتْ [ داخل ہوتی ہے]اُمَّةٌ [ کوئی امت ]لَّعَنَتْ [ تو لعنت کرتی ہے ]اُخْتَهَا ۭ [ اپنی بہن (یعنی دوسری امت ) کو ]حَتّٰى [ یہاں تک کہ ]اِذَا [ جب ] ادَّارَكُوْا [ وہ لوگ آملیں گے ]فِيْهَا [ اس میں ]جَمِيْعًا ۙ [ سب کے سب ]قَالَتْ [ تو کہے گی ]اُخْرٰىهُمْ [ ان کی دوسری ]لِاُوْلٰىهُمْ [ اپنی پہلی کیلئے ]رَبَّنَا [ اے ہمارے رب ]هٰٓؤُلَاۗءِ [ یہ ہیں ]اَضَلُّوْنَا [ جنہوں نے گمراہ کیا ہم کو ]فَاٰتِهِمْ [ پس تو دے ان کو ]عَذَابًا ضِعْفًا [ دوگنا عذاب ]مِّنَ النَّارِ ڛ [ آگ سے ]قَالَ [ وہ (یعنی اللہ ) کہے گا]لِكُلٍّ [ ہر ایک کے لئے]ضِعْفٌ [ دوگنا ہے ]وَّلٰكِنْ [ اور لیکن ]لَّا تَعْلَمُوْنَ [ تم لوگ جانتے نہیں ]

وَقَالَتْ اُوْلٰىهُمْ لِاُخْرٰىهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ   39؀ۧ
وَقَالَتْ [ اور کہے گی ]اُوْلٰىهُمْ [ ان کی پہلی ]لِاُخْرٰىهُمْ [ اپنی دوسری سے ]فَمَا كَانَ [ پس نہیں تھی ]لَكُمْ [ تمہارے لیے]عَلَيْنَا [ ہم پر ]مِنْ فَضْلٍ [ کسی قسم کی کوئی فضیلت ]فَذُوْقُوا [ تو چکھو ] الْعَذَابَ [ عذاب کو ]بِمَا [ بسبب اس کے جو ]كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ [ تم لوگ کمائی کرتے تھے ]

اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِيْنَ   40؀
اِنَّ الَّذِيْنَ [ بیشک جن لوگوں نے ]كَذَّبُوْا [ جھٹلایا ]بِاٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں کو ] وَاسْتَكْبَرُوْا [ اور گھمنڈ کیا ]عَنْهَا [ ان سے ]لَا تُفَتَّحُ [ نہیں کھولے جائیں گے ]لَهُمْ [ ان کے لیے ]اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ [ آسمان کے دروازے ]وَلَا يَدْخُلُوْنَ [ اور نہ ہی وہ داخل ہوں گے ] الْجَنَّةَ [ جنت میں ]حَتّٰي [ یہاں تک کہ ]يَلِجَ [ گھس جائے] الْجَمَلُ [ اونٹ ]فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ۭ [ سوئی کے ناکے میں ]وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح ]نَجْزِي [ ہم بدلہ دیتے ہیں ] الْمُجْرِمِيْنَ [ جرم کرنے والوں کو ]



ج م ل : (ک) جمالا ۔ خوب صورت ہونا ۔ خوب سیرت ہونا ۔ جمال ۔ اسم ذات بھی ہے ۔ خوبصورتی ۔ ولکم فیھا جمال [ اور تمہارے لیے اس میں خوبصورتی ہے ] جمیل ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے ۔ خوبصورت ۔ خوب سیرت ۔ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ [ پس تو نظر انداز کر ، خوب سیرت نظر انداز کرنا ] 15: 85۔ (ن) جملا ۔ جمع کرنا ۔ اکٹھا کرنا ۔ جملۃ ۔ اکٹھا کی ہوئی چیز ۔ لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً [ کیوں نہیں اتارا گیا ان پر قرآن اکٹھا ایک بار ] 25:32۔

س م م : (ن) سموما ۔ جھلسنا ۔ سموما ۔ جھلس دینے والی گرم ہوا ۔ لو ۔ وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ [ اور جن ! ہم نے پیدا کیا اس کو اس سے پہلے لو کی آگ سے ] 15: 27۔ سم ۔ تنگ سوراخ ۔ جیسے سوئی کا ، ناکا ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 40۔



نوٹ۔1: رسول اللہ
نے فرمایا کہ مومن بندہ کے لئے جب موت کا وقت آتا ہے تو حضرت عزرائیل علیہ السلام اس کی روح کو خطاب کرتے ہیں کہ رب کی مغفرت کے لیے نکلو ۔ اس وقت اس کی روح اس طرح بدن سے نکل آتی ہے ۔ جیسے کسی مشکیزہ کا منہ کھول دیا جائے ۔ تو اس کا پانی نکل جاتا ہے ۔ اس کی روح کو لے کر فرشتے پہلے آسمان پر پہنچتے ہیں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس بندے کا اعمال نامہ علیین میں رکھو اور اس کو واپس کردو ۔ پھر یہ روح لوٹ کر قبر میں آتی ہے ۔ سوال وجواب کے لیے۔ کافر کا جب موت کا وقت آتا ہے تو فرشتہ موت اسکی روح اس طرح نکالتا ہے جیسے کوئی خار دار شاخ گیلی اون میں لپٹی ہوئی ہو اور اس میں سے کھینچی جائے ۔ اس کی روح کو لے فرشتے پہلے آسمان پرپہنچتے ہیں تو اس کا دروازہ نہیں کھولا جاتا بلکہ حکم ہوتا ہے کہ اس بندے کا اعمال نامہ سجین میں رکھو اور اس کو واپس کردو ۔ پھر یہ روح لوٹ کر قبر میں سوال وجواب کے لیے آتی ہے ۔ (معارف القرآن )

نوٹ ۔ 2: حکایات (
Case Studies) میں جو واقعات ہوتے ہیں ، عام طور پر وہ فرضی ہوتے ہیں ۔ ان کا مقصد اور افادیت یہ ہوتی ہے کہ کسی بات کو ایک واقعاتی شکل دینے سے وہ بات سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوجاتا ہے ۔ ہمارے محترم پروفیسر حافظ احمد یار صاحب مرحوم نے ایسی ہی ایک حکایت اپنے طلبا کو سنائی تھی جو ان کے ترجمہ قرآن کیسٹ میں محفوظ ہے۔ اس کی افادیت کے پیش نظر ہم اسے نقل کررہے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ دوزخی لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس گئے اور درخواست کی کہ ہم اپنے کیے کی بہت سزا بھگت چکے ۔ اب تو ہمیں معاف کر دے اور اپنی رحمت سے ہمیں بھی جنت میں داخل کردے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے لیے تم لوگوں کو ایک کام کرنا ہوگا ۔ واپس جاؤ اور تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو بغض ، کینہ ، کدورت وغیرہ ہے ، وہ سب دل سے نکال کر اور ایک دوسرے کو معاف کرکے واپس آؤ ، تو میں تم لوگوں کو جنت میں داخل کردوں گا ، واپس آکر انہوں نے سوچا کہ اگر میں نے اس کو معاف کردیا تو میرا یہ دشمن بھی جنت میں چلا جائے گا ، اس کو تو میں کسی قیمت پر بھی جنت میں نہیں جانے دوں گا خواہ مجھے خود بھی دوزخ میں رہنا پڑے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کسی نے کسی کو معاف نہیں کیا اور سب کے سب دوزخ میں ہی پڑے رہے۔

اس حکایت میں ہمارے لیے کئی سبق ہیں ، جن میں چند ایک یہ ہیں ۔ (ا) اللہ تعالیٰ خود بھی غفور (بے انتہا بخشنے والا ) ہے اور وہ معاف کرنے کے عمل کو پسند کرتا ہے ۔ (2) معاف کرنے کا فائدہ پہلے معاف کرنے والے کی ذات کو ہوتا ہے اس کے بعد وہ کسی اور کو منتقل ہوتا ہے ، جبکہ معاف نہ کرنے والا اور انتقام کی فکر کرنے والا پہلے اپنا نقصان کرتا ہے اس کے بعد ہی وہ کسی دوسرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے (3) کسی معاشرے میں جب عفو ودرگزر رواج پاتا ہے تو وہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے ۔ جبکہ کسی معاشرے میں اگر انتقام لینا ضروری قرار پاجائے تو وہ معاشرہ انتشار اور بدامنی کا شکار ہوجاتا ہے ۔

لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ   41؀
لَهُمْ [ ان کے لیے]مِّنْ جَهَنَّمَ [ جہنم میں سے ہے]مِهَادٌ [ ایک بچھونا ]وَّمِنْ فَوْقِهِمْ [ اور ان کے اوپر سے ]غَوَاشٍ ۭ [ کچھ چھا جانے والی چیزیں ]وَكَذٰلِكَ [ اور اس طرح ]نَجْزِي [ ہم بدلہ دیتے ہیں ] الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والوں کو ]



ترکیب: (آیت ۔ 41) مھاد اور غواش مبتدا مؤخر نکرہ ہیں ۔ لھم من جھنم ان دونوں کی قائم مقام خبر مقدم ہے ۔ جبکہ ومن فوقہم ، غواش کی متعلق خبر ہے ۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَآ   ۡ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ   42؀
وَالَّذِيْنَ [ اور جو لوگ ]اٰمَنُوْا [ ایمان لائے]وَعَمِلُوا [ اور انہوں نے عمل کئے] الصّٰلِحٰتِ [ نیک ]لَا نُكَلِّفُ [ ہم پابند نہیں کرتے ]نَفْسًا [ کسی جان کو ]اِلَّا [ مگر ]وُسْعَهَآ ۡ [ اس کی وسعت کو ]اُولٰۗىِٕكَ [ تو وہ لوگ ]اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ [ جنت والے ہیں ]هُمْ [ یہ لوگ ]فِيْهَا [ اس میں ]خٰلِدُوْنَ [ ہمیشہ رہنے والے ہیں ]



(آیت ۔ 42) وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ، مبتدا ہے اور اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ اس کی خبر ہے ، درمیان میں لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَآ ۡ جملہ معترضہ ہے۔ آیت نمبر۔ 43 سے شروع ہوکر آگے کئی آیات تک قیامت کا ذکر ہے۔ اس لیے ان آیات میں افعال ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا ۔ (آیت ۔ 2: 27، نوٹ ۔ 3)

وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْھٰرُ  ۚ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا لِھٰذَا      ۣ وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَآ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ  ۚ لَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۭ وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ  43؀
وَنَزَعْنَا [ اور ہم کھینچ نکالیں گے]مَا [ اس کو جو ]فِيْ صُدُوْرِهِمْ [ ان کے سینوں میں ہے ]مِّنْ غِلٍّ [ کسی قسم کی کوئی کدورت ]تَجْرِيْ [ بہتی ہوں گی ]مِنْ تَحْتِهِمُ [ ان کے نیچے سے ] الْاَنْھٰرُ ۚ [ نہریں ]وَقَالُوا [ اور وہ لوگ کہیں گے] الْحَمْدُ [ تمام شکر وتعریف ]لِلّٰهِ [ اللہ ہی کے لیے ہے ] الَّذِيْ [ جس نے ]هَدٰىنَا [ پہنچایا ہم کو ]لِھٰذَا ۣ [ یہاں تک ]وَمَا كُنَّا [ اور ہم نہیں تھے]لِنَهْتَدِيَ [ کہ ہم ہدایت پاتے ]لَوْلَآ [ اگر نہ ہوتا ]اَنْ [ کہ ]هَدٰىنَا [ ہم کو ہدایت دیتا ] اللّٰهُ ۚ [ اللہ ]لَقَدْ جَاۗءَتْ [ آچکے تھے ]رُسُلُ رَبِّنَا [ ہمارے رب کے رسول ]بِالْحَقِّ ۭ [ حق کے ساتھ ]وَنُوْدُوْٓا [ اور پکارا جائے گا ]اَنْ [ کہ ]تِلْكُمُ الْجَنَّةُ [ یہ جنت ] اُوْرِثْتُمُوْهَا [ تم لوگوں کو وارث بنایا گیا اس کا ]بِمَا [ بسبب اس کے جو ]كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [ تم لوگ کرتے تھے ]

وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا   ۭقَالُوْا نَعَمْ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَيْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الظّٰلِمِيْنَ   44؀ۙ
وَنَادٰٓي [ اور پکاریں گے ]اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ [ جنت والے ]اَصْحٰبَ النَّارِ [ آگ والوں کو ]اَنْ [ کہ ]قَدْ وَجَدْنَا [ ہم نے پایا ہے ]مَا [ اس کو جو ]وَعَدَنَا [ وعدہ کیا ہم نے ]رَبُّنَا [ ہمارے رب نے ]حَقًّا [ برحق ]فَهَلْ [ تو کیا ]وَجَدْتُّمْ [ تو لوگوں نے پایا ]مَّا [ اس کو جو ]وَعَدَ [ وعدہ کیا ]رَبُّكُمْ [ تمہارے رب نے ]حَقًّا ۭ [ برحق ]قَالُوْا [ وہ کہیں گے ]نَعَمْ ۚ [ ہاں ]فَاَذَّنَ [ پھر پکارے گا ]مُؤَذِّنٌۢ [ ایک پکارنے والا ]بَيْنَهُمْ [ ان کے مابین ]اَنْ [ کہ ]لَّعْنَةُ اللّٰهِ [ اللہ کی لعنت ہے ]عَلَي الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والوں پر ]



ح ج ب: (ن) حجبا ۔ دو چیزوں کے درمیان حائل ہو کر ایک کو دوسرے تک پہنچنے سے روکنا ۔ (1) حائل ہونا ۔ (2) روکنا ۔ حجاب ۔ اسم ذات ہے۔ پردہ ، اوٹ ۔ رکاوٹ ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 64۔ محجوب ۔ اسم المفعول ہے ۔ روکا ہوا۔ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ [ بیشک وہ لوگ اپنے رب سے اس دن روکے ہوئے ہوں گے) 83:15۔

ترکیب: (آیت ۔ 44۔ 45) وجدنا کا مفعول اول ما ہے اور حقا مفعول ثانی ہے ۔ الذین بدل ہے الظلمین کا ۔



نوٹ۔ 1: مادہ’’ ل ق ی ‘‘ کی لغت آیت نمبر ۔ 2:14۔ کے تحت دی گئی ہے ۔ وہاں لفظ تلقاء نہیں دیا گیا ہے۔ اب نوٹ کرلیں کہ اس کا مادہ ’’ ل ق ی ‘‘ ہی ہے اور وزن تفعال ہے ۔ علماء نے بتایا کہ اس وزن پر عربی میں دو ہی الفاظ آتے ہیں ، ایک تبیان اور دوسرا تلقاء ۔ تلقاء کے متعلق ایک رائے یہ ہے کہ یہ لقی ، یلقی کے متعددمصادر میں سے ایک مصدر ہے ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ باب مفاعلہ کا ظرف ہے یعنی ملاقات کی جگہ یاسمت ۔ ہم نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے ۔ کیونکہ قرآن مجید میں یہ لفظ تین جگہ آیا ہے اور تینوں جگہ اس کو ظرف مان کر ترجمہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔

نوٹ 2: جنت اور دوزخ کے درمیان حائل ہونے والے حصار کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے۔ یہ افعال کے وزن پر غرف کی جمع ہے اور عرف ہر چیز کے اوپر والے حصہ کو کہتے ہیں ۔ رسول اللہ
سے اہل اعراف کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی ۔ اس لیے جہنم سے تو نجات ہوگئی مگر جنت میں ابھی داخل نہیں ہوئے ۔ ان کو مقام اعراف پر روک لیا گیا ۔ تمام اہل جنت اور اہل دوزخ کا فیصلہ ہونے کے بعد ان کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ بالآکر ان کی مغفرت ہوجائے گی ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ سے دریافت کیا گیا کہ اہل اعراف کون لوگ ہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے والدین کی مرضی اور اجازت کے خلاف جہاد میں شریک ہوئے اور اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے ۔ ان کو جنت میں داخلہ سے ماں باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم کے داخلے سے شہادت فی سبیل اللہ نے روک دیا ۔ (منقول از معارف القرآن بحوالہ ابن کثیر )

الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَهَا عِوَجًا   ۚ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَ   45؀ۘ
الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو ]يَصُدُّوْنَ [ روکتے ہیں ]عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کے راستے سے ]وَيَبْغُوْنَهَا [ اور جو تلاش کرتے ہیں اس میں]عِوَجًا ۚ [ کجی کو ]وَهُمْ [ اور یہ لوگ ]بِالْاٰخِرَةِ [ آخرت کا ]كٰفِرُوْنَ [ انکار کرنے والے ہیں ]

وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّاۢ بِسِيْمٰىهُمْ ۚ وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ   ۣ لَمْ يَدْخُلُوْهَا وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ    46؀
وَبَيْنَهُمَا [ اور ان دونوں کے درمیان ]حِجَابٌ ۚ [ ایک رکاوٹ ہے ]وَعَلَي الْاَعْرَافِ [ اور (اس کی ) بلندیوں پر ]رِجَالٌ [ کچھ لوگ ہیں ]يَّعْرِفُوْنَ [ جو پہچانتے ہیں ]كُلًّاۢ [ سب کو ]بِسِيْمٰىهُمْ ۚ [ ان کی نشانی سے ] [ وَنَادَوْا : اور وہ پکاریں گے ] اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ [ جنت والوں کو ]اَنْ [ کہ ]سَلٰمٌ [ سلامتی ہو ]عَلَيْكُمْ ۣ [ تم لوگوں پر ]لَمْ يَدْخُلُوْهَا [ وہ لوگ داخل نہیں ہوئے اس میں ]وَهُمْ [ اور وہ لوگ ]يَطْمَعُوْنَ [ آرزو کرتے ہیں ]



(آیت ۔ 46) رجال مبتدا مؤخر نکرہ ہے اور نکرہ مخصوصہ بھی ہے۔ اس کی خبر موجود محذوف ہے۔ علی الاعراف قائم مقام مقدم جبکہ یعرفون ، اس کی خصوصیت ہے۔ نادواکا فاعل اس میں ھم کی ضمیر ہے ۔ جو رجال کے لیے ہے ۔

وَاِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُهُمْ تِلْقَاۗءَ اَصْحٰبِ النَّارِ  ۙ قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ   47؀ۧ
وَاِذَا [ اور جب کبھی]صُرِفَتْ [ پھیری جائیں گی ]اَبْصَارُهُمْ [ ان کی نگاہیں ] تِلْقَاۗءَ اَصْحٰبِ النَّارِ ۙ [ آگ والوں کی طرف ]قَالُوْا [ تو وہ کہیں گے]رَبَّنَا [ اے ہمارے رب ]لَا تَجْعَلْنَا [ تو مت بنانا ہمیں ]مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ [ ظالم قوم کے ساتھ ]



 (آیت ۔ 47) صرفت کا نائب فاعل ابصارہم ہے جبکہ تلقاء ظرف ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔

وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا يَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِيْمٰىهُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ   48؀
وَنَادٰٓي [ اور پکاریں گے ]اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ [ بلندیوں والے]رِجَالًا [ کچھ لوگوں کو ]يَّعْرِفُوْنَهُمْ [ وہ پہچانتے ہوں گے جن کو ]بِسِيْمٰىهُمْ [ ان کی نشانی سے] قَالُوْا [ کہیں گے ]مَآ اَغْنٰى [ کام نہ آئی ]عَنْكُمْ [ تمہارے ]جَمْعُكُمْ [ تمہارے جتھ بندی ]وَمَا [ اور وہ جس پر ]كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ [ تم لوگ گھمنڈ کرتے تھے]

اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللّٰهُ بِرَحْمَةٍ   ۭ اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ   49؀
اَهٰٓؤُلَاۗءِ [ کیا یہ ہیں ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جن کی ]اَقْسَمْتُمْ [ تم لوگ قسم کھاتے تھے]لَا يَنَالُهُمُ [ (کہ ) نہیں پہنچے گا ان کو ] اللّٰهُ [ اللہ ]بِرَحْمَةٍ ۭ [ کسی رحمت سے ]اُدْخُلُوا [ (جنہیں کہا گیا ) داخل ہو] الْجَنَّةَ [ جنت میں ]لَا خَوْفٌ [ کوئی خوف نہیں ہے ]عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ]وَلَآ اَنْتُمْ [ اور نہ ہی تم لوگ ]تَحْزَنُوْنَ [ پچھتاؤگے ]

وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِيْضُوْا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاۗءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ  ۭ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ  50؀ۙ
وَنَادٰٓي [ اور پکاریں ]اَصْحٰبُ النَّارِ [ آگ والے]اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ [ جنت والوں کو ]اَنْ [ کہ ]اَفِيْضُوْا [ تم لوگ بہاؤ]عَلَيْنَا [ ہم پر ]مِنَ الْمَاۗءِ [ پانی میں سے (کچھ ) ]اَوْ [ یا ]مِمَّا [ اس میں سے جو ]رَزَقَكُمُ [ عطا کیا تم کو] اللّٰهُ ۭ [ اللہ نے ]قَالُوْٓا [ وہ لوگ کہیں گے ]اِنَّ [ یقینا ] اللّٰهَ [ اللہ نے ]حَرَّمَهُمَا [ حرام کیا دونوں کو ] عَلَي الْكٰفِرِيْنَ [ کافروں پر ]

الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ لَهْوًا وَّلَعِبًا وَّغَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا  ۚ فَالْيَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ يَوْمِهِمْ ھٰذَا  ۙ وَمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ    51؀
الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنہوں نے] اتَّخَذُوْا [ بنایا ]دِيْنَهُمْ [ اپنے دین کو ]لَهْوًا [ تماشہ ]وَّلَعِبًا [ اور کھیل ]وَّغَرَّتْهُمُ [ اور دھوکہ دیا ان کو ] الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۚ [ دنیوی زندگی نے ]فَالْيَوْمَ [ تو آج ]نَنْسٰىهُمْ [ ہم بھول جائیں گے ان کو ]كَمَا [ جیسے کہ ]نَسُوْا [ وہ بھولے ]لِقَاۗءَ يَوْمِهِمْ ھٰذَا ۙ [ اپنے اس دن کی ملاقات کو ]وَمَا [ اور جو ]كَانُوْا [ وہ لوگ ]بِاٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں کو ]يَجْحَدُوْنَ [ جانتے بوجھتے انکار کرتے تھے ]

وَلَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰي عِلْمٍ هُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ   52؀
وَلَقَدْ جِئْنٰهُمْ [ اور ہم لائے ہیں ان کے پاس]بِكِتٰبٍ [ ایک ایسی کتاب ]فَصَّلْنٰهُ [ ہم نے کھول کھول کربیان کیا ہے جس کو ]عَلٰي عِلْمٍ [ علم (کی بنیاد ) پر ) هُدًى [ ہدایت دیتے ہوئے ]وَّرَحْمَةً [ اور رحمت ہوتے ہوئے ]لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ [ ایمان لاتے ہیں ]



نوٹ ۔1: آج کل مساجد میں اماموں کا معمول ہوگیا ہے کہ عربی کے کچھ دعائیہ کلمات انہیں یاد ہوتے ہیں اور ختم نماز پر وہ انہیں پڑھ دیتے ہیں اور لوگ آمین کہہ دیتے ہیں ۔ اکثریت کو ان کلمات کا مطلب معلوم نہیں ہوتا ۔ اس سارے تماشہ کا حاصل چند کلمات کا پڑھنا ہوتا ہے، دعا مانگنے کی جو حقیقت ہے وہ یہاں پائی ہی نہیں جاتی ۔ دعا پڑھی نہیں جاتی بلکہ مانگی جاتی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کو کلمات کے معنی معلوم ہوں اور وہ سمجھ کر کہہ رہا ہو ، لیکن اس کے لب ولہجہ میں تضرع یعنی عاجزی اور انکساری نہ ہو تو یہ دعا مانگنا نہیں ہے بلکہ مطالبہ پیش کرنا ہے ، جس کا کسی بندے کو کوئی حق نہیں ہے ۔ دعا کی روح تضرع ہے اور خفیہ یا آہستہ آواز سے مانگنا افضل اور قرین قبول ہے۔ کیونکہ بلند آواز سے دعا مانگنے میں تواضع اور انکساری کا باقی رہنا مشکل ہے۔ (معارف القرآن )

هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِيْلَهٗ  ۭ يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُهٗ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۚ فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاۗءَ فَيَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ  ۭقَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ  53؀ۧ
هَلْ يَنْظُرُوْنَ [ وہ لوگ کیا انتظار کرتے ہیں ]اِلَّا [ سوائے ]تَاْوِيْلَهٗ ۭ [ اس کے انجام کار کے ]يَوْمَ [ جس دن ]يَاْتِيْ [ آئے گا ]تَاْوِيْلُهٗ [ اس کا انجام ]يَقُوْلُ [ تو کہیں گے ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جو ]نَسُوْهُ [ بھولے اس کو ]مِنْ قَبْلُ [ اس سے پہلے ]قَدْ جَاۗءَتْ [ لائے تھے ]رُسُلُ رَبِّنَا [ ہمارے رب کے رسول ]بِالْحَقِّ ۚ [ حق کو ] فَهَلْ [ تو کیا ]لَّنَا [ ہمارے لیے]مِنْ شُفَعَاۗءَ [ کوئی بھی شفاعت کرنے والا ہے ]فَيَشْفَعُوْا [ تاکہ وہ شفاعت کریں ]لَنَآ [ ہماری ]اَوْ [ یا]نُرَدُّ [ ہم لوٹائے جائیں ]فَنَعْمَلَ [ نتیجا ہم عمل کریں ]غَيْرَ الَّذِيْ [ اس کے علاوہ جو ]كُنَّا نَعْمَلُ ۭ [ ہم کیا کرتے تھے]قَدْ خَسِرُوْٓا [ انہوں نے گھاٹے میں ڈالا ہے ]اَنْفُسَهُمْ [ اپنے آپ کو ]وَضَلَّ [ اور گم ہوا ]عَنْهُمْ [ ان سے ]مَّا [ وہ جو ]كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ [ وہ لوگ گھڑتے تھے]



ترکیب: (آیت ۔ 53) تاویلہ کی ضمیر مفعولی بکتب کے لیے ہے اور نسوہ کی ضمیر مفعولی بھی کتاب کے لیے ہے ۔ فیشفعوا اور فنعمل کے فاسببیہ ہیں ۔

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا   ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ  ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ  ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ  54؀
اِنَّ [ بیشک ]رَبَّكُمُ [ تم لوگوں کا رب ] اللّٰهُ الَّذِيْ [ وہ اللہ ہے جس نے ]خَلَقَ [ پیدا کیا] السَّمٰوٰتِ [ آسمانوں کو ]وَالْاَرْضَ [ اور زمین کو ]فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ [ چھ دنوں میں ]ثُمَّ [ پھر ] اسْتَوٰى [ وہ متمکن ہوا ]عَلَي الْعَرْشِ [ عرش پر ]يُغْشِي [ وہ ڈھانپتا ہے] الَّيْلَ [ رات کو ] النَّهَارَ [ دن سے ]يَطْلُبُهٗ [ وہ پیچھے لگتی ہے اسکے ]حَثِيْثًا ۙ [ تیز رفتاری سے ]وَّالشَّمْسَ [ اور (پیدا کیا ) سورج کو ]وَالْقَمَرَ [ اور چاند کو ]وَالنُّجُوْمَ [ اور ستاروں کو ]مُسَخَّرٰتٍۢ [ مطیع کیے ہوئے ]بِاَمْرِهٖ ۭ [ اپنے حکم سے]اَلَا [ خبردار !]لَهُ [ اس کے لئے ہی ہے] الْخَلْقُ [ پیدا کرنا ]وَالْاَمْرُ ۭ [ اور حکم دینا ]تَبٰرَكَ [ بابرکت ہوا] اللّٰهُ [ اللہ ]رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ [ جو تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا ہے ]



ط ل ب : (ن) طلبا ۔ کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے جستجو کرنا ۔ (1) کسی چیز کے پیچھے لگنا ۔ تلاش کرنا ۔ (2) چاہنا ۔ (زیر مطالعہ آیت ۔54) طالب اسم الفاعل ہے۔ تلاش کرنے والا ۔ چاہنے والا ۔ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ [ کمزور ہوا چاہنے والا اور جس کو چاہا گیا ]22:73۔ مطلوب ، اسم المفعول ہے۔ جس کو تلاش کیا گیا ۔ چاہا گیا ۔

ج ث ث ۔ (ن) : حثا ۔ کسی کو کسی کام پر ابھارنا ۔ اکسانا ۔ حثیث ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے ۔ تیز رو ، تیز رفتار (اکسایا ہوا ہونے کی وجہ سے ) ۔ زیر مطالعہ آیت ۔54۔



(آیت ۔54) یغشی کا فاعل اس میں ھو کی ضمیر ہے ۔ جو اللہ کے لیے ہے ۔ یطلبہ میں ضمیر فاعلی الیل کے لیے اور ضمیر مفعولی النہار کے لیے ہے۔ حثیثا حال ہے۔ والشمس والقمر والنجوم ، یہ سب خلق کے مفعول ہیں ۔ مسخرات حال ہے ۔

اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً   ۭاِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ   55؀ۚ
اُدْعُوْا [ تم لوگ پکارو]رَبَّكُمْ [ اپنے رب کو ]تَضَرُّعًا [ گڑگڑاتے ہوئے ]وَّخُفْيَةً ۭ [ اور چپکے چپکے]اِنَّهٗ [ بیشک وہ ]لَا يُحِبُّ [ پسند نہیں کرتا ] الْمُعْتَدِيْنَ [ حد سے بڑھنے والوں کو ]

وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا   ۭاِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ   56؀
وَلَا تُفْسِدُوْا [ اور تم لوگ نظم مت بگاڑو ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ]بَعْدَ اِصْلَاحِهَا [ اس کی اصلاح کیے جانے کے بعد]وَادْعُوْهُ [ اور پکارو اس کو ]خَوْفًا [ ڈرتے ہوئے]وَّطَمَعًا ۭ [ اور آرزو کرتے ہوئے ]اِنَّ [ بیشک ]رَحْمَتَ اللّٰهِ [ اللہ کی رحمت ]قَرِيْبٌ [ قریب ہے]مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ [ بھلائی کرنے والوں سے]



(آیت ۔56) بعد اصلاحا میں اصلاح ، مصدر ہے ، جو معروف اور مجہول دونوں معنی دیتا ہے ۔ ترجمہ میں ہم مجہولی معنی کو ترجیح دیں گے ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔3:154 نوٹ ،1) رحمت اللہ کی خبر قریبۃ کے بجائے قریب آئی ہے کیونکہ فعیل کا وزن اگر بمعنی مفعول ہو تو پھر مذکر اور مؤنث دونوں کے لیے تائے تانیث کے بغیر ہی استعمال ہوتا ہے۔ (دیکھیں آسان عربی گرامر ، حصہ سوم ، پیرا گراف ۔ 9:60) ۔

وَهُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ  ۭ حَتّٰى اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ  ۭكَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ   57؀
وَهُوَ الَّذِيْ [ اور وہ ، وہ ہے جو ]يُرْسِلُ [ بھیجتا ہے ] الرِّيٰحَ [ ہواؤں کو ]بُشْرًۢا [ خوشخبری ہوتے ہوئے ]بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ۭ [ اپنی رحمت کے آگے]حَتّٰى [ یہاں تک کہ ]اِذَآ [ جب ]اَقَلَّتْ [ وہ بلند کرتی ہیں ]سَحَابًا ثِقَالًا [ بھاری بادل کو ]سُقْنٰهُ [ تو ہم ہانکتے ہیں اس کو]لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ [ کسی مردہ بستی کے لیے]فَاَنْزَلْنَا [ پھر ہم اتارتے ہیں ]بِهِ [ اس سے ] الْمَاۗءَ [ پانی کو ]فَاَخْرَجْنَا [ پھر ہم نکالتے ہیں ]بِهٖ [ اس سے]مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۭ [ تمام پھلوں میں سے ]كَذٰلِكَ [ اسی طرح سے ]نُخْرِجُ [ ہم نکالیں گے ] الْمَوْتٰى [ مردوں کو ]لَعَلَّكُمْ [ شاید کہ ]تَذَكَّرُوْنَ [ تم لوگ نصحیت حاصل کرو ]



س و ق ۔ (ن): مساقا ۔ جانور کو پیچھے سے ہانکنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 57۔ (س ) سوقا ۔ موٹی پنڈلی والا ہونا ۔ سائق ۔ اسم الفاعل ہے۔ ہانکنے والا ۔ مَّعَهَا سَاۗىِٕقٌ وَّشَهِيْدٌ [ اس کے ساتھ ایک ہاننے والا اور ایک گواہ ہوگا] 50:21۔ ساق ۔ ج : سوق ۔ پنڈلی ۔ درخت کا تنہ ۔ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ اور لپٹی پنڈلی پنڈلی سے ] 75:29۔ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِهٖ [ پھر وہ سیدھی ہوئی اپنے تنوں پر ] 48:29۔ سوق ۔ ج: اسواق ۔ بازار ۔ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ [ بیشک وہ لوگ کھانا کھاتے ہیں ، اور چلتے ہیں ۔ بازاروں میں ] 25: 20۔



نوٹ ۔2: آیات ۔ 57۔58 میں بارش اور اس کی برکتوں کے ذکر سے حیات بعد الممات کا اثبات بھی مقصود ہے اور تمثیل کے پیرائے میں رسالت اور اس کی برکتوں کے ذریعہ سے نیک وبدلوگوں میں امتیاز نمایاں ہونے کا نقشہ دکھانا بھی پیش نظر ہے ۔ رسول کی آمد اور خدائی تعلیم وہدایت کے نزول کو بارانی ہواؤں کے چلنے اور ابر رحمت چھا جانے اور بارش کے برسنے سے تشبیہہ دی گئی ہے ۔ پھر بارش کے ذریعہ سے مردہ زمین کے جی اٹھنے اور اس کے اندر سے زندگی کے خزانے ابل پڑنے کو اس حالت کے لیے بطور مثال پیش کیا گیا ہے جو نبی کی تعلیم وتربیت سے مردہ انسانیت کے جاگ اٹھنے اور اس کے سینے سے بھلائیوں کے خزانے ابل پڑنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور بارش کی برکتیں صرف زرخیز زمین حاصل کرتی ہے ۔ اسی طرح رسالت کی برکتیں صرف صالح لوگ حاصل کرتے ہیں ۔ (تفیہم القرآن )

فی زمانہ مذکورہ تمثیل کا اطلاق مسلمانوں کی اکثریت پر ہوتا ہے ، جس میں جہلا کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہیں ، کیونکہ قرآن اور حدیث کی تعلیم سے یہ لوگ نابلد ہوتے ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ اس لا علمی کی حالت میں ان لوگوں میں نیک وبد کی تمیز کس بنیاد پر ہوگی اور ان لوگوں کو جب قرآن وحدیث کی کوئی بات بتائی جاتی ہے تو ان میں سے کون لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور کون لوگ گمراہی پر اڑے رہتے ہیں ۔ اس بات کو سمجھ لیں ۔

اصول یہ ہے کہ پہلے انسان کو کچھ سکھاتے پڑھاتے ہیں پھر اس کا امتحان لیتے ہیں ۔ اسی لیے انسان کی فطرت میں بہت کچھ ڈال کر اسے دنیا کی امتحانگاہ میں بھیجا جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک نیکی اور بدی کا شعور بھی ہے ۔ (91:8) جو لوگ اپنی فطرت کی پکار پر کان دھرتے ہیں اور زندگی میں برائیوں سے اجتناب کی روش اختیار کرتے ہیں ، ان کی فطری پاکیزگی زندہ رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب اللہ اور اس کے رسول
کی ہدایات آتی ہیں تو یہ لوگ اسے اپنے اندر اس طرح جذب کرتے ہیں جیسے زرخیز زمین بارش کے پانی کو ۔ پھر حتی المقدور ان پر عمل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی زندگی میں بھی اور معاشرے میں بھی بہار آتی ہے اور پھول مہکتے ہیں ۔

فطری پاکیزگی کو زندہ رکھنے میں اس بات کو ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے کہ انسان اپنے دل میں کس قسم کے جذبات ، امنگوں اور خواہشات کی پرورش کرتا ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے کس قسم کی صحبت کا انتخاب کرتا ہے ، یہ صبحت خواہ افراد کی ہو ، کتب کی ہو یا مشترکہ ہو ، دوسری بات یہ ہے کہ انسانی ذہن کبھی ساکت نہیں ہوتا ۔ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے ۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کسی برائی کے متعلق نہ سوچیں ۔ اگر ہوائی قلعے بنانے ہیں اور خیالی پلاؤ پکانا ہے تو ان کو اپنے تصور میں نیکیاں اور بھلائیاں کرنے کا ذریعہ بنالیں ۔ اس طرح آپ کی امنگیں ان شاء اللہ راہ راست پر آجائیں گی اور سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ دل ہی دل میں کوئی ذکر ، ورد کرتے رہیں یا دورد شریف پڑھتے رہیں ۔



(آیت ۔57) اقلت کا فاعل اس میں ھی کی ضمیر ہے جو الریح کے لیے ہے۔ پہلے بہ کی ضمیر سحابا کے لیے ہے جبکہ دوسرے بہ کی ضمیر الماء کے لیے ہے۔

وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۚ وَالَّذِيْ خَبُثَ لَا يَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا   ۭ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ   58؀ۧ
وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ [ اور پاکیزہ بستی ]يَخْرُجُ [ نکلتا ہے ]نَبَاتُهٗ [ اس کا سبزہ ]بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۚ [ اس کے رب کی اجازت سے ]وَالَّذِيْ [ اور وہ (بستی ) جو ]خَبُثَ [ نکمی ہوئی ]لَا يَخْرُجُ [ نہیں نکلتا (اس کا سبزہ ) ]اِلَّا [ مگر ]نَكِدًا ۭ [ بےفیض ہوتے ہوئے]كَذٰلِكَ [ اس طرح ]نُصَرِّفُ [ ہم بار بار بیان کرتے ہیں ] الْاٰيٰتِ [ نشانیوں کو]لِقَوْمٍ [ ایسے لوگوں کے لیے]يَّشْكُرُوْنَ [ جو حق مانتے ہیں ]



ن ک د : (س) نکدا۔ کنویں کا پانی کم ہونا۔ گزران کا تنگ ہونا ۔ نکد، صفت ہے ۔ سخت مزاج ۔ بےفیض ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 58۔

لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ  ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ    59؀
لَقَدْ اَرْسَلْنَا [ بیشک ہم بھیج چکے ہیں ]نُوْحًا [ نوح کو ]اِلٰي قَوْمِهٖ [ ان کی قوم کی طرف]فَقَالَ [ تو انہوں نے کہا ]يٰقَوْمِ [ اے میری قوم ] اعْبُدُوا [ تم لوگ بندگی کرو] اللّٰهَ [ اللہ کی ]مَا [ نہیں ہے ]لَكُمْ [ تمہارے لیے ]مِّنْ اِلٰهٍ [ کوئی بھی الہ ]غَيْرُهٗ ۭ [ اس کے علاوہ ]اِنِّىْٓ [ بیشک میں]اَخَافُ [ ڈرتا ہوں ]عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ]عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ [ ایک عظیم دن کے عذاب سے]



ترکیب (آیت 59) ما نافیہ کا اسم غیرہ ہے ۔ اسی لیے غیر پر رفع آئی ہے ۔ اس کی خبر محذوف ہے اور لکم قائم مقام خبر ہے ۔



نوٹ ۔1: مادہ ’’ ع م ی ‘‘ کی لغت آیت نمبر ۔ 2: 18 میں دی ہوئی ہے ، وہاں لفظ عمین رہ گیا تھا ۔ یہ دراصل فعل کے وزن پر صفت ہے جو قاعدے کے مطابق عمی کے بجائے عمی استعمال ہوتی ہے ۔ اس کی جمع سالم قاعدے کے مطابق عمیون کے بجائے عمون اور حالت نصب وجر میں عمیین کے بجائے عمین استعمال ہوتی ہے ۔

نوٹ۔2: گذشتہ آیات 57۔58، میں نبوت ورسالت کے متعلق جو اصولی بات تمثیل کے پیرائے میں بیان کی گئی تھی ، اس کو اب مسلسل کئی رکوعوں میں تاریخی شواہد پیش کرکے واضح کیا گیا ہے ۔ یہ تمام قومیں وہ تھیں جن کو اللہ نے عروج اور اقتدار عطا کیا تھا ، لیکن انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور اللہ کی زمین میں عدل وقسط کو درہم برہم کیا ۔ جس کے نتیجے میں وہ ہلاک کی گئیں ۔

’’ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا یہی دستور رہا ہے کہ نافرمان لوگوں کو ڈھیل دیتے رہتے ہیں ، عذاب اس وقت بھیجتے ہیں جب وہ اپنی کثرت ، قوت اور دولت میں انتہاکو پہنچ جائیں اور اس میں بدمست ہوجائیں ‘‘ (منقول از معارف القرآن بحوالہ ابن کثیر]

نوٹ ۔3: یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عذاب اور ابتلا میں فرق ہوتا ہے ۔ ایک تو یہ شکل ہوتی ہے کہ کسی قوم پر کوئی آفت جیسے زلزلہ ، طوفان وغیرہ ، اللہ تعالیٰ اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ لوگ غفلت سے بیدار ہوں ، اس قسم کی ابتلا میں اچھے برے سب آفت کی لپیٹ میں آتے ہیں ۔ دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم پر ایک فیصلہ کن عذاب بھیجتا ہے ۔ اس صورت میں عذاب کی زد سے وہ لوگ بچا لیے جاتے ہیں جو اصلاح کرنے والے یا ان کے پیروہوتے ہیں ۔ (تدبر قرآن )



ترکیب: گذشتہ آیت نمبر ۔59 میں لقد ارسلنا کا مفعول ہونے کی وجہ سے ھودا حالت نصب میں ہے۔

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖٓ اِنَّا لَنَرٰكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ   60؀
قَالَ [ کہا ] الْمَلَاُ [ سرداروں نے ]مِنْ قَوْمِهٖٓ [ ان کی قوم میں سے ]اِنَّا [ بیشک ہم ]لَنَرٰكَ [ ضرور دیکھتے ہیں آپ کو ]فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ [ ایک کھلی گمراہی میں ]



(آیت 61) لیس کا اسم ضللۃ ہے جو مؤنث غیر حقیقی ہے ۔ اس لیے لیست کے بجائے لیس بھی جائز ہے اور اس کی خبر محذوف ہے ۔



(آیت ۔ 69) فی الخلق میں الخلق مصدر ہے جو معروف ومجہول دونوں معنی دیتا ہے ۔ یہاں ہم مجہولی معنی کوترجیح دیں گے ۔ بصطہ تمیز ہے۔

قَالَ يٰقَوْمِ لَيْسَ بِيْ ضَلٰلَةٌ وَّلٰكِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ    61؀
قَالَ [ انہوں نے کہا ]يٰقَوْمِ [ اے میری قوم ]لَيْسَ [ نہیں ہے ]بِيْ [ مجھ میں ] ضَلٰلَةٌ [ کوئی گمراہی ]وَّلٰكِنِّيْ [ اور لیکن میں تو ]رَسُوْلٌ [ ایک رسول ہوں ] مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کے رب (کی طرف) سے]



(آیت 62) ابلغ کا مفعول اول کم ہے اور رسلت مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے ۔

اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ وَاَنْصَحُ لَكُمْ وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ    62؀
اُبَلِّغُكُمْ [ میں پہنچاتا ہوں تم لوگوں کو ]رِسٰلٰتِ رَبِّيْ [ اپنے رب کی پیغامات ] وَاَنْصَحُ [ اور خیر خواہی کرتا ہوں ]لَكُمْ [ تمہاری ]وَاَعْلَمُ [ اور میں جانتا ہوں ]مِنَ اللّٰهِ [ اللہ (کی طرف ) سے]مَا [ اسکو جو ]لَا تَعْلَمُوْنَ [ تم لوگ نہیں جانتے]

اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ    63؀
اَوَ [ اور کیا ]عَجِبْتُمْ [ تمہیں عجیب لگا ]اَنْ [ کہ ]جَاۗءَكُمْ [ آئی تمہارے پاس ]ذِكْرٌ [ ایک یاد دہانی ]مِّنْ رَّبِّكُمْ [ تمہارے رب (کی طرف ) سے]عَلٰي رَجُلٍ [ ایک شخص پر ]مِّنْكُمْ [ تم میں سے ]لِيُنْذِرَكُمْ [ تاکہ وہ وارننگ دے تم کو ] وَلِتَتَّقُوْا [ اور تاکہ تم لوگ تقوی کرو]وَلَعَلَّكُمْ [ اور شاید کہ ]تُرْحَمُوْنَ [ تم پر رحم کیا جائے]

فَكَذَّبُوْهُ فَاَنْجَيْنٰهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ فِي الْفُلْكِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا  ۭاِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِيْنَ   64؀ۧ
فَكَذَّبُوْهُ [ تو انہوں نے جھٹلایا ان کو ]فَاَنْجَيْنٰهُ [ پھر ہم نے نجات دی ان کو ] وَالَّذِيْنَ [ اور انہیں جو ]مَعَهٗ [ ان کے ساتھ تھے]فِي الْفُلْكِ [ کشتی میں ] وَاَغْرَقْنَا [ اور ہم نے غرق کیا ] الَّذِيْنَ [ ان کو جنہوں نے ]كَذَّبُوْا [ جھٹلایا ]بِاٰيٰتِنَا ۭ [ ہماری نشانیوں کو ]اِنَّهُمْ [ بےشک وہ ]كَانُوْا [ تھے ]قَوْمًا عَمِيْنَ [ ایک اندھی قوم]

وَاِلٰي عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا  ۭقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ  ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ   65؀
وَاِلٰي عَادٍ [ اور (بیشک ہم بھیج چکے ہیں ) قوم عاد کی طرف ]اَخَاهُمْ [ ان کے بھائی ]هُوْدًا ۭ [ ہود کو ]قَالَ [ انہوں نے کہا ]يٰقَوْمِ [ اے میری قوم] اعْبُدُوا [ تم لوگ بندگی کرو] اللّٰهَ [ اللہ کی ]مَا [ نہیں ہے]لَكُمْ [ تمہارے لیے]مِّنْ اِلٰهٍ [ کوئی بھی الہ ]غَيْرُهٗ ۭ [ اس کے علاوہ ]اَفَلَا تَتَّقُوْنَ [ تو کیا تم لوگ تقوی نہیں کرتے ]



نوٹ ۔ 1: حضرت نوح علیہ السلام کی تیسری نسل میں سے ایک شخص کا نام ارم تھا ۔ اس کے ایک بیٹے کی اولاد میں عاد ہے اور دوسرے بیٹے کی اولاد میں ثمود ہے۔ اس طرح قوم عاد اور قوم ثمود ، ارم کی دوشاخیں ہیں ایک کو عاد اولی اور دوسری کو ثمود یا عاد ثانیہ کہتے ہیں ۔ جبکہ ارم کا لفظ عاد اور ثمود دونوں کے لیے مشترک ہے ۔

عمان سے لے کر حضرموت اور یمن تک قوم عاد کی بستیاں تھیں ، اللہ نے دنیا کی ساری نعمتوں کے دروازے ان پر کھول دیے تھے ۔ ان کی زمینں بڑی سرسبز وشاداب تھیں ۔ رہنے کے لیے بڑے بڑے اور شاندار محلات بناتے تھے ۔ بڑے قد آور قوی الجثہ لوگ تھے ۔ یہاں سے یہ ساری سرزمین میں دور دور تک پھیل گئے اور اپنی قوت کے مظاہرہ میں لوگوں پر ظلم وزیادتی کرنے لگے ’’ فخر اور غرور میں مبتلا ہوگئے اور دعوی کرنے لگے کہ ہم سے بڑھ کر قوی کون ہے اور بھول گئے کہ جس اللہ نے انہیں پیدا کیا وہ ان سے زیادہ قوی ہے ۔ (41:15) ‘‘ پھر اللہ کو بھول کر بت پرستی میں مبتلا ہوگئے ۔

حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو توحید اختیار کرنے اور عدل وانصاف قائم کرنے کی تلقین کی لیکن یہ لوگ دولت وطاقت کے نشہ میں بدمست تھے ۔ انہوں نے بات نہ مانی تو ان پر پہلا عذاب یہ آیا کہ تین سال تک مسلسل بارش بند ہوگئی ۔ زمینیں خشک ہوگئیں ۔ کھیتیاں اور باغات جل گئے ۔ یہ لوگ پھر بھی باز نہ آئے ۔ تو ان پر شدید قسم کی آندھی کا عذاب مسلط ہوا جس کی ہوا میں ہیبتناک آواز تھی ۔ باغات اور محلات زمین بوس ہوگئے ۔ آدمی ہوا میں اڑتے اور پھر سر کے بل آگرتے تھے ۔ اس طرح قوم عاد ہلاک کردی گئی ۔

جب قوم عاد پر عذاب آیا تو حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی رفقاء نے ایک کھیت میں پناہ لی ۔ یہ عجیب بات تھی کہ اس طوفانی ہوا سے بڑے بڑے محلات تو منہدم ہورہے تھے مگر اس کھیت میں ہوا معتدل ہوکر داخل ہوتی تھی ۔ اس لیے وہ لوگ وہاں مطمئن بیٹھے رہے اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی ۔ قوم کے ہلاک ہوجانے کے بعد مکہ معظمہ منتقل ہوگئے اور پھر یہیں وفات پائی ۔ (ابن کثیر اور معارف القرآن سے ماخوذ )

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖٓ اِنَّا لَنَرٰكَ فِيْ سَفَاهَةٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ    66؀
قَالَ [ کہا ] الْمَلَاُ [ سرداروں نے ] الَّذِيْنَ [ جنہوں نے ]كَفَرُوْا [ انکار کیا ]مِنْ قَوْمِهٖٓ [ ان کی قوم میں سے]اِنَّا [ بیشک ہم]لَنَرٰكَ [ ضرور دیکھتے ہیں آپ کو ]فِيْ سَفَاهَةٍ [ بےعقلی میں]وَّاِنَّا [ اور بیشک ہم ]لَنَظُنُّكَ [ ضرور سمجھتے ہیں آپ کو ]مِنَ الْكٰذِبِيْنَ [ جھوٹوں میں سے]

قَالَ يٰقَوْمِ لَيْسَ بِيْ سَفَاهَةٌ وَّلٰكِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ    67؀
قَالَ [ انہوں نے کہا]يٰقَوْمِ [ اے میری قوم ]لَيْسَ [ نہیں ہے ]بِيْ [ مجھ میں ]سَفَاهَةٌ [ کوئی بےعقلی ]وَّلٰكِنِّيْ [ اور لیکن میں تو ]رَسُوْلٌ [ ایک رسول ہوں ] مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں کے رب (کی طرف) سے ]

اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ وَاَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِيْنٌ    68؀
اُبَلِّغُكُمْ [ میں پہنچاتا ہوں تم لوگوں کو ]رِسٰلٰتِ رَبِّيْ [ اپنے رب کے پیغامات ] وَاَنَا [ اور میں ]لَكُمْ [ تمہارے لیے]نَاصِحٌ اَمِيْنٌ [ ایک دیانتدار خیرخواہ ہوں ]

اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ ۭ وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ  بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْۜطَةً  ۚ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ    69؀
اَوَ [ اور کیا ]عَجِبْتُمْ [ تمہیں عجیب لگا ]اَنْ [ کہ ]جَاۗءَكُمْ [ آئی تمہارے پاس ]ذِكْرٌ [ ایک یاد دہانی ]مِّنْ رَّبِّكُمْ [ تمہارے رب (کی طرف ) سے ]عَلٰي رَجُلٍ [ ایک شخص پر]مِّنْكُمْ [ تم میں سے]لِيُنْذِرَكُمْ ۭ [ تاکہ وہ وارننگ دے تم کو ] وَاذْكُرُوْٓا [ اور یاد کرو]اِذْ [ جب ]جَعَلَكُمْ [ اس نے بنایا تمہیں ]خُلَفَاۗءَ [ خلیفہ ] مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ [ نوح کی قوم کے بعد سے ]وَّزَادَكُمْ [ اور زیادہ کیا تمہیں ]فِي الْخَلْقِ [ مخلوق میں ]بَصْۜطَةً ۚ [ بلحاظ کشادگی کے ]فَاذْكُرُوْٓا [ پس یاد کرو]اٰلَاۗءَ اللّٰهِ [ اللہ کی مہربانیوں کو ]لَعَلَّكُمْ [ شائد تم لوگ ]تُفْلِحُوْنَ [ فلاح پاؤ]



ء ل ی : (س) الیا ، دنبہ کی چکی کا بڑھ جانا یعنی استحقاق اور توقع کے بغیر کوئی فائدہ پہنچنا ۔ الی ۔ (ج) الا ۔ مہربانی نعمت ۔ زیرمطالعہ آیت ۔69

و ح د : (ض) ، وحدا ۔ تنہا ہونا۔ اکیلا ہونا ۔

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا  ۚ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ   70؀
قَالُوْٓا [ ان لوگوں نے کہا ]اَجِئْتَنَا [ کیا آپ آئے ہمارے پاس ]لِنَعْبُدَ [ (اس لیے) کہ ہم بندگی کریں ] اللّٰهَ [ اللہ کی ]وَحْدَهٗ [ اس کے اکیلے ہوتے ہوئے ]وَنَذَرَ [ اور (اس لیے ) کہ ہم چھوڑدیں ]مَا [ اس کو جس کی ]كَانَ يَعْبُدُ [ بندگی کرتے تھے ]اٰبَاۗؤُنَا ۚ [ ہمارے آباواجداد ]فَاْتِنَا [ پس تو لے آ ]بِمَا [ اس کو جس کا ]تَعِدُنَآ [ تو وعدہ کرتا ہے ہم سے ]اِنْ كُنْتَ [ اگر تو ہے ]مِنَ الصّٰدِقِيْنَ [ سچوں میں سے ]

زیرمطالعہ آیت ۔70۔ واحد ۔ فاعل ، کے وزن پر صفت ہے۔ تنہا ۔ اکیلا ۔ وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ [ اور تم لوگوں کا الہ اکیلا الہ ہے ] 2:163۔ وحید ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے ۔ تنہا۔ اکیلا ۔ ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا [ آپ چھوڑ دیں مجھ کو اور اس کو جسے میں پیدا کیا اکیلا ] 74:11۔



(آیت ۔ 70) وحدہ حال ہے ۔ رجس اور غضب ، وقع کے فاعل ہیں ۔

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّغَضَبٌ  ۭ اَتُجَادِلُوْنَنِيْ فِيْٓ اَسْمَاۗءٍ سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۭ فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ    71؀
قَالَ [ انہوں نے کہا ]قَدْ وَقَعَ [ پڑگئی ہے ]عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ]مِّنْ رَّبِّكُمْ [ تمہارے رب (کی طرف ) سے ]رِجْسٌ [ ایک نحوست ]وَّغَضَبٌ ۭ [ اور غضب ] اَ [ کیا ]تُجَادِلُوْنَنِيْ [ تم لوگ بحث کرتے ہو مجھ سے ]فِيْٓ اَسْمَاۗءٍ [ کچھ ناموں میں ]سَمَّيْتُمُوْهَآ [ تم نے نام دھرے جن کے ]اَنْتُمْ [ تم لوگوں نے ]وَاٰبَاۗؤُكُمْ [ اور تمہارے آباواجداد نے ]مَّا نَزَّلَ [ نہیں اتاری ] اللّٰهُ [ اللہ نے ]بِهَا [ جس کی ]مِنْ سُلْطٰنٍ ۭ [ کوئی بھی سند ]فَانْتَظِرُوْٓا [ پس تم لوگ راہ دیکھو] اِنِّىْ [ بیشک میں (بھی ) ]مَعَكُمْ [ تمہارے ساتھ ]مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ [ راہ دیکھنے والوں میں سے ہوں ]

فَاَنْجَيْنٰهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَمَا كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ    72؀ۧ
فَاَنْجَيْنٰهُ [ پھر ہم نے نجات دی ان کو ]وَالَّذِيْنَ [ اور ان لوگوں کو جو ]مَعَهٗ [ ان کے ساتھ تھے ]بِرَحْمَةٍ [ رحمت سے ]مِّنَّا [ اپنی طرف سے ]وَقَطَعْنَا [ اور ہم نے کاٹ دی ]دَابِرَ الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کی جڑ جنہوں نے ]كَذَّبُوْا [ جھٹلایا ]بِاٰيٰتِنَا [ ہماری نشانیوں کو ]وَمَا كَانُوْا [ اور وہ لوگ نہیں تھے]مُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والے ]

وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا  ۘ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ  ۭقَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ  ۭهٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ    73؀
وَاِلٰي ثَمُوْدَ [ ( بیشک ہم بھیج چکے ہیں قوم) ثمود کی طرف ]اَخَاهُمْ [ ان کے بھائی ]صٰلِحًا ۘ [ صالح کو ]قَالَ [ انہوں نے کہا ]يٰقَوْمِ [ اے میری قوم ] اعْبُدُوا [ تم لوگ بندگی کرو] اللّٰهَ [ اللہ کی ]مَا [ نہیں ہے]لَكُمْ [ تمہارے لیے]مِّنْ اِلٰهٍ [ کوئی بھی الہ ]غَيْرُهٗ ۭ [ اس کے علاوہ ] قَدْ جَاۗءَتْكُمْ [ آچکی ہے تمہارے پاس ] بَيِّنَةٌ [ ایک واضح (نشانی ) ]مِّنْ رَّبِّكُمْ ۭ [ تمہارے رب (کی طرف) سے]هٰذِهٖ [ یہ ]نَاقَةُ اللّٰهِ [ اللہ کی اونٹنی ہے ]لَكُمْ [ تمہارے لیے ]اٰيَةً [ ایک نشانی ہوتے ہوئے ]فَذَرُوْهَا [ پس تم لوگ چھوڑو اس کو ]تَاْكُلْ [ (تاکہ ) وہ کھائے ]فِيْٓ اَرْضِ اللّٰهِ [ اللہ کی زمین میں ]وَلَا تَمَسُّوْهَا [ اور تم لوگ مت چھونا اس کو ] بِسُوْۗءٍ [ کسی برائی سے ]فَيَاْخُذَكُمْ [ ورنہ پکڑلے گا تم لوگوں کو ]عَذَابٌ اَلِيْمٌ [ ایک درد ناک عذاب ]



ن و ق : (ن) نوقا ۔ چیز کو ترتیب سے جمانا ۔ کام کو اچھی طرح کرنا ۔ ناقۃ اسم ذات ہے۔ اونٹنی ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 73۔



ترکیب: (آیت ۔ 73) ایۃ حال ہے ۔ فذروھا فعل امر ہے ۔ اس کا جواب امر ہونے کی وجہ سے تاکل مجزوم ہے ۔ فیاخذ کا فاسببیہ ہے ۔



نوٹ ۔1 : عرب کی قدیم ترین اقوام میں عاد کے بعد ثمود دوسری قوم ہے جو سب سے زیادہ مشہور ومعروف ہے، نزول قرآن سے پہلے اس کے قصے اہل عرب میں زبان زد عام تھے ۔ اس قوم کا مسکن شمال مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی حجر کے نام سے موسوم ہے۔ اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ رقبے میں وہ عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش کر بنایا تھا ۔ نبی کریم
غزوہ تبوک کے موقع پر جب ادھر سے گزرے تو آپ نے مسلمانوں کو یہ آثار عبرت دکھائے۔ آپ نے ایک کنویں کی نشاندہی کرکے بتایا کہ اس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنویں سے پانی لیں ، جبکہ باقی کنوؤں سے پانی لینے سے منع کردیا۔

سورۃ الشعراء آیات 154،158 میں تصریح ہے کہ ثمود والوں نے خود ایک ایسی نشانی کا مطالبہ کیا تھا جس سے یہ واضح ہوجائے کہ حضرت صالح علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں ۔ اور اس کے جواب میں انہوں نے اونٹنی کو پیش کیا تھا ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اونٹنی کا ظہور معجزے کے طور پر ہوا تھا ۔ مگر قرآن اس امر کی تصریح نہیں کرتا کہ یہ اونٹنی کس طرح وجود میں آئی ۔ کسی حدیث میں بھی اس کے معجزے کے طور پر پیدا ہونے کی کیفیت بیان نہیں کی گئی ۔ اس لیے ان روایات کو تسلیم کرنا ضروری نہیں ہے جو مفسرین نے اس کی کیفیت پیدائش کے متعلق نقل کی ہیں ۔ (تفیہم القرآن )

وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَكُمْ فِي الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُيُوْتًا  ۚ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللّٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ   74؀
وَاذْكُرُوْٓا [ اور یاد کرو]اِذْ [ جب ]جَعَلَكُمْ [ اس نے بنایا تم کو ]خُلَفَاۗءَ [ خلیفہ ]مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ [ (قوم) عاد کے بعد سے ]وَّبَوَّاَكُمْ [ اور اس نے ٹھکانہ دیا تم کو ]فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ]تَتَّخِذُوْنَ [ تم لوگ بناتے ہو]مِنْ سُهُوْلِهَا [ اسکی نرم ہموار جگہ سے] [ قُصُوْرًا: محلات] [ وَّتَنْحِتُوْنَ [ اور تم لوگ تراشتے ہو] الْجِبَالَ [ پہاڑوں کو ]بُيُوْتًا ۚ [ بطور گھر کے]فَاذْكُرُوْٓا [ پس یاد کرو]اٰلَاۗءَ اللّٰهِ [ اللہ کی مہربانیوں کو ]وَلَا تَعْثَوْا [ اور دندناتے مت پھرو [ فِي الْاَرْضِ [ زمین میں ]مُفْسِدِيْنَ [ ظلم بگاڑنے والے ہوتے ہوئے]



س ھ ل : (ک) سھولۃ ۔ نرم ہونا ۔ آسان ہونا ۔ سھل ۔ (ج) سھول ۔ نرم اور ہموار زمین ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 74۔

ن ح ت : (ض) نحیتا ۔ لکڑی پتھر وغیرہ کو چھیل کر ہموار کرنا۔ سنگ تراشی کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 74۔



(آیت ۔ 74) تنحتون کا مفعول الجبال ہے جبکہ بیوتا تمیز ہے۔

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ  ۭقَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ   75؀
قَالَ [ کہا] الْمَلَاُ [ سرداروں نے] الَّذِيْنَ [ جنہوں نے ] اسْتَكْبَرُوْا [ گھمنڈ کیا ]مِنْ قَوْمِهٖ [ ان کی قوم میں سے]لِلَّذِيْنَ [ ان لوگوں سے جن کو ] اسْتُضْعِفُوْا [ کمزور سمجھا گیا ]لِمَنْ [ ان سے جو ]اٰمَنَ [ ایمان لائے]مِنْهُمْ [ ان میں سے ] اَ [ کیا ]تَعْلَمُوْنَ [ تم لوگ جانتے ہو]اَنَّ [ کہ ]صٰلِحًا [ صالح ]مُّرْسَلٌ [ بھیجے ہوئے ہیں ]مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ [ اپنے رب (کی طرف) سے]قَالُوْٓا [ انہوں نے کہا ]اِنَّا [ بیشک ہم ]بِمَآ [ اس پر ]اُرْسِلَ [ وہ بھیجے گئے]بِهٖ [ جس کے ساتھ ]مُؤْمِنُوْنَ [ ایمان لانے والے ہیں ]



( آیت ۔75) لمن بدل ہے للذین کا ۔ ان کا اسم ہونے کی وجہ سے صالحا حالت نصب میں ہے جبکہ مرسل اس کی خبر ہے ۔ الناقۃ پر لام تعریف ہے ۔

قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا بِالَّذِيْٓ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ   76؀
قَالَ [ کہا ] الَّذِيْنَ [ انہوں نے جن لوگوں نے ] اسْتَكْبَرُوْٓا [ گھمنڈ کیا ]اِنَّا [ بیشک ہم ]بِالَّذِيْٓ [ اس کا ]اٰمَنْتُمْ [ تم لوگ ایمان لائے ]بِهٖ [ جس پر ]كٰفِرُوْنَ [ انکار کرنے والے ہیں ]

فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوْا يٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ   77؀
فَعَقَرُوا [ پھر انہوں نے ٹانگیں کاٹیں ] النَّاقَةَ [ اس اونٹنی کی ]وَعَتَوْا [ اور انہوں نے سرکشی کی ]عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ [ اپنے رب کے حکم سے ]وَقَالُوْا [ اور کہا]يٰصٰلِحُ [ اے صالح ] ائْتِنَا [ تو لے آ ہم پر ]بِمَا [ اس کو جس کا ]تَعِدُنَآ [ تو وعدہ کرتا ہے ہم سے]اِنْ [ اگر ]كُنْتَ [ تو ہے ]مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ [ بھیجے ہوؤں میں سے]



ع ت و ـ: (ن) عتوا اور عتیا ۔ حد سے گزرنا ۔ سرکشی کرنا ۔ نافرمانی کرنا۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 77۔ عاتیۃ ۔ اسم الفاعل کے معنی میں صفت ہے ۔ حد سے گزرنے والی یعنی حد سے زیادہ ۔ فَاُهْلِكُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ [ تو یہ لوگ ہلاک کیے گئے ایک حد سے زیادہ تیز ہوا سے]69:6۔

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ  78؀
فَاَخَذَتْهُمُ [ تو پکڑا ان کو ] الرَّجْفَةُ [ زلزلہ نے ]فَاَصْبَحُوْا [ نتیجتا وہ ہو گئے ]فِيْ دَارِهِمْ [ اپنے (اپنے ) گھر میں ]جٰثِمِيْنَ [ اوندھے منہ گرے ہوئے]



رج ف : (ن) رجفا ۔ کسی کا شدت سے مضطرب ہونا ۔ (1) لرزنا ۔ کانپنا ۔ (2) زلزلہ ۔ يَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ [ جس دن کانپے کی زمین اور پہاڑ ] 73:14۔ رجفۃ ۔ زلزلۃ ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 78۔ راجفۃ [ کانپنے والی [ یہ قیامت کے پہلے صور کے لیے استعارہ ہے]يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ [ جس دن کانپنے گی کانپنے والی ]79:6۔ (افعال ) ارجافا ۔ افواہ پھیلا کر لوگوں میں اضطراب پیدا کرنا ۔ مرجف ۔ اسم الفاعل ۔ افواہ پھیلانے والا ۔ لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِي الْمَدِيْنَةِ لَــنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ [ البتہ اگر باز نہ آئے منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور افواہ پھیلانے والے مدینہ میں ، توہم لازما حاوی کردیں گے آپ کو ان لوگوں پر ] 33:60۔

ج ث م : (ن) جثما ۔ سینے کو زمین سے لگانا ۔ منہ کے بل لیٹنا ۔ جاثم ۔ اسم الفاعل ہے ۔ اوندھے منہ لیٹنے والا ۔ اوندھے منہ گرنے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 78۔

فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِيْنَ   79؀
فَتَوَلّٰى [ پس انہوں نے رخ پھیرا ]عَنْهُمْ [ ان سے]وَقَالَ [ اور کہا]يٰقَوْمِ [ اے میری قوم ]لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ [ میں پہنچا چکا ہوں تم کو ]رِسَالَةَ رَبِّيْ [ اپنے رب کا پیغام ]وَنَصَحْتُ [ اور میں نے خیرخواہی کی ]لَكُمْ [ تمہاری ]وَلٰكِنْ [ اور لیکن]لَّا تُحِبُّوْنَ [ تم لوگ پسند نہیں کرتے ] [ النّٰصِحِيْنَ : خیرخواہی کرنے والوں کو ]

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ  80؀
وَلُوْطًا [ اور (بیشک ہم بھیج چکے ہیں) لوط کو ]اِذْ [ جب ]قَالَ [ انہوں نے کہا ]لِقَوْمِهٖٓ [ اپنی قوم سے] اَ [ کیا ]تَاْتُوْنَ [ تم لوگ آتے ہو ] الْفَاحِشَةَ [ اس بےحیائی کے پاس ]مَا سَبَقَكُمْ [ نہیں سبقت کی تم پر ]بِهَا [ جس میں ]مِنْ اَحَدٍ [ کسی ایک نے (بھی ) ]مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں میں سے ]



غ ب ر : (ن) ۔ غبورا (1) ٹھہر جانا ۔ پیچھے رہ جانا ۔ (2) غبار آلود ہونا۔ غابر ۔ اسم الفاعل ہے ۔ پیچھے رہ جانے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 83۔ غبرۃ ۔ اسم ذات ہے ۔ گرد ۔ غبار ۔ وَ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ [ اور کچھ چہرے ہوں گے اس دن جن پر گرد ہوگی ] 80:40۔



ترکیب: ترکیب میں کوئی خاص بات نہیں ہے ۔



نوٹ ۔1: حضرت لوط علیہ السلام ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں ۔ ان کا وطن بصرہ کے قریب ارض بابل کا علاقہ تھا ۔ اس میں بت پرستی عام تھی ۔ ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوت ورسالت عطا کی ۔ قوم نے مخالفت کی اور ان کے گھرانہ میں سے صرف بی بی سارہ اور حضرت لوط علیہ السلام ایمان لائے ۔ ان دونوں کو ساتھ لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک شام کی طرف ہجرت فرمائی اور کنعان کے علاقہ میں مقیم ہوئے جو بیت المقدس کے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو نبوت عطا فرما کر اردن اور بیت المقدس کے درمیان ایک مقام سدوم کے لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ۔ یہ علاقہ پانچ بڑے شہروں پر مشتمل تھا اور سدوم کا شہر ان کا دارالحکومت تھا ۔ شہروں کے اس مجموعہ کو قرآن کریم نے مؤتفکہ اور مؤتفکات کے الفاظ میں کئی جگہ بیان کیا ہے ۔ یہ علاقہ سرسبز اور شاداب تھا ۔ ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی ۔ اللہ نے ان پر اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دیے تھے ۔ عام انسانی عادت کے تحت دولت وثروت کے نشہ میں مبتلا ہوکر عیش وعشرت کے اس کنارے پر پہنچ گئے کہ خلاف فطرت فواحش کو بھی اختیار کرلیا ۔ حضرت لوط علیہ السلام کی نصیحتوں کا انکار کیا اور انہوں نے اپنی بستی سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا تو ان پر عذاب نازل ہوا۔

زیر مطالعہ آیت نمبر۔ 84 میں مختصرا صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ ان پر ایک قسم کی بارش بھیجی گئی ۔ البتہ سورہ ہود کی آیات ۔ 82 ۔ 83 میں عذاب کی وضاحت کی گئی ہے ۔ جس سے معلوم ہوا کہ ان پر پتھروں کی بارش بھی ہوئی تھی اور نیچے سے اس سرزمین کے طبقہ کو اوندھا پلٹ دیا گیا تھا ۔ سورۃ الحجر کی آیات 72۔73 سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب آنے سے پہلے آسمان سے کوئی سخت آواز چنگھاڑ کی صورت میں آئی تھی ۔ یہ پانچوں الٹی ہوئی بستیاں آج بھی موجود ہیں ۔ جواب بحرمیت (
Dead Sea) کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی تہہ میں ان بستیوں کے کھنڈرات ہیں ۔ اور اس کے پانی میں کوئی بھی جاندار جیسے مچھلی ، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتے ۔

اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ   81؀
اِنَّكُمْ [ بیشک تم لوگ ]لَتَاْتُوْنَ [ یقینا آتے ہو] الرِّجَالَ [ مردوں کے پاس ]شَهْوَةً [ شہوت کرتے ہوئے ]مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ ۭ [ عورتوں کے علاوہ ]بَلْ [ بلکہ ]اَنْتُمْ [ تم لوگ ]قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ [ ایک حد سے تجاوز کرنے والی قوم ہو]

وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ ۚاِنَّهُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَهَّرُوْنَ   82؀
وَمَا كَانَ [ اور نہیں تھا ]جَوَابَ قَوْمِهٖٓ [ ان کی قوم کا جواب ]اِلَّآ اَنْ [ سوائے اس کے کہ ]قَالُوْٓا [ ان لوگوں نے کہا ]اَخْرِجُوْهُمْ [ نکالو ان کو ]مِّنْ قَرْيَتِكُمْ ۚ [ اپنی پستی سے ]اِنَّهُمْ [ یقینا یہ سب ]اُنَاسٌ يَّتَطَهَّرُوْنَ [ ایک بڑا پاک باز گروہ ہے ]

فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ اِلَّا امْرَاَتَهٗ  ڮ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ  83؀
فَاَنْجَيْنٰهُ [ تو ہم نے نجات دی ان کو ]وَاَهْلَهٗٓ [ اور ان کے گھر والوں کو ]اِلَّا [ سوائے ] امْرَاَتَهٗ ڮ [ ان کی عورت کے ]كَانَتْ [ وہ تھی ]مِنَ الْغٰبِرِيْنَ [ پیچھے رہ جانے والوں میں سے]

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَّطَرًا   ۭفَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ  84؀ۧ
وَاَمْطَرْنَا [ اور ہم نے برسایا ]عَلَيْهِمْ [ ان پر ]مَّطَرًا ۭ [ ایک برسنے والی چیز ]فَانْظُرْ [ تو دیکھو ]كَيْفَ [ کیسا ]كَانَ [ تھا ]عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ [ جرم کرنے والوں کا انجام ]

وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا  ۭقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ   ۭقَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا  ۭذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ   ٨5؀ۚ
[ وَاِلٰي مَدْيَنَ: اور (بیشک ہم بھیج چکے ہیں ) مدین والوں کی طرف ] [ اَخَاهُمْ: ان کے بھائی ] [ شُعَيْبًا : شعیب کو ] [ ۭقَالَ: انہوں نے کہا ] [ يٰقَوْمِ: اے میری قوم ] [ اعْبُدُوا: تم لوگ بندگی کرو] [ اللّٰهَ: اللہ کی ] [ مَا لَكُمْ: نہیں ہے تمہارے لیے] [ مِّنْ اِلٰهٍ: کوئی بھی الہ ] [ غَيْرُهٗ: اس کے علاوہ ] ۭقَدْ جَاۗءَتْكُمْ: آچکی ہے تمہارے پاس ] [ بَيِّنَةٌ: ایک واضح (نشانی ) ] [ مِّنْ رَّبِّكُمْ: تمہارے رب (کی طرف ) سے ] [ فَاَوْفُوا: پس تم لوگ پورا کرو ] [ الْكَيْلَ: ناپنے کو ] [ وَالْمِيْزَانَ: اور ترازو کو ] [ وَلَا تَبْخَسُوا : اور حق سے کم تم مت دو [ النَّاسَ: لوگوں کو ] [ اَشْـيَاۗءَهُمْ: ان کی چیزیں ] [ وَلَا تُفْسِدُوْا: اور نظم مت بگاڑو ] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں ] [ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا: اس کی اصلاح کیے جانے کے بعد ] [ ۭذٰلِكُمْ : یہ ] [ خَيْرٌ : بہتر ہے ] [ لَّكُمْ : تمہارے لیے ] ا [ ِنْ: اگر ] [ كُنْتُمْ: تم لوگ ہو ] [ مُّؤْمِنِيْنَ: ایمان لانے والے ]



م د ن : (ن) مدونا ۔ شہر میں اقامت اختیار کرنا ۔ مدینۃ ۔ ج: مدائن شہر ۔ قصبہ ۔ ان ھذا لمکر مکرتموہ فی المدینۃ [ بیشک یہ یقینا ایک چالبازی ہے ، تم لوگوں نے جو چال چلی ہے شہر میں ] 7:123۔ فارسل فرعون فی المدائن حاشرین [ تو بھیجا فرعون نے شہروں میں جمع کرنے والوں کو ] 26:53۔ مدین ۔ اسم علم ہے ۔ خاص نام زیر مطالعہ آیت ۔ 85۔

ش ع ب ــ: (ف) شعبا (1) جمع کرنا ۔ درست کرنا ۔ (2) متفرق کرنا ۔ بگاڑنا ۔ شعب ۔ ج: شعوب ۔ بڑا قبیلہ ۔ قوم ۔ وجعمنکم شعوبا وقبائل لتعارفوا [ اور اس نے بنایا تم لوگوں کو قومیں اور قبیلے باہمی تعارف کے لیے ] 49: 13۔ شعبۃ ، ج : شعب ، فرقہ درخت کی شاخ ۔ انطلقوا الی ظل ذی ثلث شعب [ تم لوگ چلو ایک ایسے سائے کی طرف جو تین شاخوں والا ہے ] 77:20۔ شعیب ۔ فعیل کے وزن پر اسم التصغیر ہے اور اسم علم ہے ۔ خاص نام ۔



نوٹ ۔1: اہل مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے مدیان کی طرف منسوب ہیں جو ان کی تیسری بیوی قطوراء کے بطن سے تھے ۔ ان کا علاقہ حجاز کے شمال مشرق اور فلسطین کے جنوب میں تھا اور ان کے شہرکا نام بھی مدین ہے ۔ یہ شہر آج بھی شرق اردن کی بندرگاہ معان کے قریب موجود ہے ۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی ۔ اس زمانے کی دو بڑی تجارتی شاہراہوں کے عین چوراہے پر ان کی بستیاں تھیں ۔ اس لیے عرب کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا اور ان کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں ان کی شہرت برقرار رہی کیونکہ عربوں کے تجارتی قافلے رات دن ان کے آثار قدیمہ سے گزرتے تھے۔

 بنی اسرائیل کے طرح اہل مدین بھی مسلمان ہی تھے اور شعیب علیہ السلام کے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی تھی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد چھ سات سو سال تک مشرک اور بد اخلاق قوموں سے روابط کی وجہ سے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے اور بد اخلاقیوں میں بھی مبتلا ہوگئے ، مگر ایمان کا دعوی اور اس پر فخر برقرار تھا ۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا ان سے تقاضا یہی تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام انسانوں اور انسانی معاشرے کی جو اصلاح کرگئے ہیں اس کو مت بگاڑو ۔ ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا کا یہی مطلب ہے ۔

قرآن مجید نے ان کا ذکر کہیں اہل مدین اور اصحاب مدین کے نام سے کیا ہے اور کہیں اصحاب ایکہ کے نام سے بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ دونوں قومیں الگ الگ تھیں اور ان کی بستیاں بھی الگ تھیں ۔ حضرت شعیب علیہ السلام پہلے ایک قوم کی طرف بھیجے گئے اور ان کی ہلاکت کے بعد دوسری قوم کی طرف مبعوث ہوئے ۔ دونوں قوموں پر جو عذاب آیا اس کے الفاظ مختلف ہیں ۔ اصحاب مدین کے لیے کہیں صیحہ اور کہیں رجفہ مذکور ہے اور اصحاب ایکہ کے لیے عذاب یوم الظلۃ ذکر کیا گیا ۔ بعض مفسرین کی رائے ہے کہ اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی قوم کا نام ہے اور اس قوم پر تینوں عذاب جمع ہوئے تھے ۔ پہلے بادل سے آگ برسی پھر اس کے ساتھ سخت آواز چنگھاڑ کی شکل میں آئی پھر زلزلہ آیا ۔ ابن کثیر نے اسی کو اختیار کیا ہے ۔ (تفہیم القرآن اور معارف القرآن سے ماخوذ )

وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَتَبْغُوْنَهَا عِوَجًا  ۚ وَاذْكُرُوْٓا اِذْ كُنْتُمْ قَلِيْلًا فَكَثَّرَكُمْ  ۠ وَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ   86؀
[ وَلَا تَقْعُدُوْا: تم لوگ مت بیٹھو] [ بِكُلِّ صِرَاطٍ: ہر ایک راہ پر ] [ تُوْعِدُوْنَ: دھمکی دیتے ہوئے ] [ وَتَصُدُّوْنَ: اور روکتے ہوئے] [ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: اللہ کی راہ سے ] [ مَنْ: اس کو جو ] [ اٰمَنَ: ایمان لایا ] [ بِهٖ: اس پر ] [ وَتَبْغُوْنَهَا: اور تلاش کرتے ہوئے اس میں ] [ عِوَجًا: کوئی کجی ] [ وَاذْكُرُوْٓا: اور یاد کرو] [ اِذْ: جب ] [ كُنْتُمْ: تم لوگ تھے ] [ قَلِيْلًا: تھوڑے سے ] [ فَكَثَّرَكُمْ : پھر اس نے کثرت دی تم کو] [ وَانْظُرُوْا: اور غور کرو] [ كَيْفَ: کیسا ] [ كَانَ: تھا ] [ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ: نظم بگاڑنے والوں کا انجام ]



ترکیب : (آیت ۔ 86) توعدون ، تصدون ، اور تبغون ، یہ تینوں لا تقعدوا کا حال ہیں ۔ (آیت ۔ 89) ان عدنا شرط ہے اور قدافترینا جواب شرط مقدم ہے ۔ اس لیے ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا ۔

وَاِنْ كَانَ طَاۗىِٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِيْٓ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَطَاۗىِٕفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰي يَحْكُمَ اللّٰهُ بَيْنَنَا   ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ   87؀
[ وَاِنْ: اور اگر ] [ كَانَ: ہے ] [ طَاۗىِٕفَةٌ: ایک ایسا گروہ ] [ مِّنْكُمْ: تم میں سے ] [ اٰمَنُوْا: جوایمان لایا] [ بِالَّذِيْٓ: اس پر ] [ اُرْسِلْتُ: میں بھیجا گیا ] [ بِهٖ: جس کے ساتھ ] [ وَطَاۗىِٕفَةٌ: اور ایک ایسا گروہ ] [ لَّمْ يُؤْمِنُوْا: جو ایمان نہیں لایا ] [ فَاصْبِرُوْا: تو صبر کرو] [ حَتّٰي: یہاں تک کہ ] [ يَحْكُمَ: فیصلہ کرے] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ بَيْنَنَا: ہمارے مابین ] [ وَهُوَ: اور وہ ] [ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ: فیصلہ کرنے والوں کا بہترین ہے ]