قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کی لغوی، صرفی، نحوی اور اعرابی تفسیر
افادات :  پروفیسر حافظ احمد یار 
(یونی کوڈ فارمیٹ)

 
پارہ نہم

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا  ۭ قَالَ اَوَلَوْ كُنَّا كٰرِهِيْنَ  88؀ۣ
[ قَالَ: کہا] [ الْمَلَاُ: سرداروں نے] [ الَّذِيْنَ: جنہوں نے ] [ اسْتَكْبَرُوْا: گھمنڈ کیا ] [ مِنْ قَوْمِهٖ: ان کی قوم میں سے] [ لَنُخْرِجَنَّكَ: ہم لازما نکال دیں گے آپ کو ] [ يٰشُعَيْبُ: اے شعیب ] [ وَالَّذِيْنَ: اور ان کو جو ] [ اٰمَنُوْا: ایمان لائے] [ مَعَكَ: آپ کے ساتھ ] [ مِنْ قَرْيَتِنَآ: اپنی بستی سے ] [ اَوْ: یا ] لَتَعُوْدُنَّ: تم لوگ لازما واپس ہوگے ] [ فِيْ مِلَّتِنَا : ہماری ملت میں ] [ قَالَ: انہوں نے کہا ] [ اَوَلَوْ: اور کیا اگر ] [ كُنَّا: ہم ہوں ] [ كٰرِهِيْنَ: کراہیت کرنے والے (واپسی سے)]

قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِيْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللّٰهُ مِنْهَا  ۭوَمَا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِيْهَآ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ رَبُّنَا  ۭوَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۭ عَلَي اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا  رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ    89؀
[ قَدِ افْتَرَيْنَا: ہم تو گھڑ چکے ہوں گے ] [ عَلَي اللّٰهِ: اللہ پر ] [ كَذِبًا: ایک جھوٹ ] [ اِنْ: اگر ] [ عُدْنَا: ہم واپس ہوں گے] [ فِيْ مِلَّتِكُمْ: تمہاری ملت میں ] [ بَعْدَ اِذْ: اس کے بعد کہ جب ] [ نَجّٰىنَا: نجات دی ہم کو ] [ اللّٰهُ: اللہ نے ] [ مِنْهَا: اس سے [ وَمَا يَكُوْنُ: اور نہیں ہوگا (ممکن ) ] [ لَنَآ: ہمارے لیے] [ اَنْ: کہ ] [ نَّعُوْدَ: ہم واپس ہوں ] [ فِيْهَآ: اس میں ] [ اِلَّآ اَنْ: سوائے اس کے کہ ] [ يَّشَاۗءَ: چاہے ] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ رَبُّنَا: جو ہمارا رب ہے ] [ وَسِعَ: وسیع ہوا ] [ رَبُّنَا: ہمارا رب ] [ كُلَّ شَيْءٍ: ہر چیز پر ] [ عِلْمًا: بلحاظ علم کے ] [ عَلَي اللّٰهِ: اللہ ہی پر ] [ تَوَكَّلْنَا : ہم نے بھروسہ کیا ] [ رَبَّنَا: اے ہمارے رب ] [ افْتَحْ: تو فیصلہ کردے ] [ بَيْنَنَا: ہمارے درمیان ] [ وَبَيْنَ قَوْمِنَا: اور ہماری قوم کے درمیان ] [ بِالْحَقِّ: حق کے ساتھ] [ وَاَنْتَ: اور تو ] [ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ: فیصلہ کرنیوالوں کا سب سے بہتر ہے ]

وَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَىِٕنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا اِنَّكُمْ اِذًا لَّـخٰسِرُوْنَ    90؀
[ وَقَالَ: اور کہا ] [ الْمَلَاُ: سرداروں نے ] [ الَّذِيْنَ: جنہوں نے ] [ كَفَرُوْا: انکار کیا ] [ مِنْ قَوْمِهٖ: ان کی قوم میں سے ] [ لَىِٕنِ: بیشک اگر ] [ اتَّبَعْتُمْ: تم لوگوں نے پیروی کی ] [ شُعَيْبًا: شعیب کی ] [ اِنَّكُمْ: تو یقینا تم لوگ ] [ اِذًا: پھر تو ] [ لَّـخٰسِرُوْنَ: ضرور ہی خسارہ پانے والے ہوگے ]

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ    91۝ٻ
[ فَاَخَذَتْهُمُ: پھر پکڑا ان کو ] [ الرَّجْفَةُ: زلزلے نے ] [ فَاَصْبَحُوْا: تو وہ ہوگئے ] [ فِيْ دَارِهِمْ: اپنے (اپنے ) گھر میں ] [ جٰثِمِيْنَ: اوندھے منہ گرے ہوئے ]

الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا شُعَيْبًا كَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْهَا  ڔ اَلَّذِيْنَ كَذَّبُوْا شُعَيْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِيْنَ    92؀
[ الَّذِيْنَ: وہ لوگ جنہوں نے ] [ كَذَّبُوْا: جھٹلایا ] [ شُعَيْبًا: شعیب کو ] [ كَاَنْ: تو گویا کہ ] [ لَّمْ يَغْنَوْا: وہ رہتے ہی نہ تھے ] [ فِيْهَا: اس میں ] [ اَلَّذِيْنَ: جنھوں نے ] [ كَذَّبُوْا: جھٹلایا ] [ شُعَيْبًا: شعیب کو ] [ كَانُوْا: تھے ] هُمُ: وہ لوگ ہی ] [ الْخٰسِرِيْنَ: خسارہ پانے والے ]

فَتَوَلّٰي عَنْهُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۚ فَكَيْفَ اٰسٰي عَلٰي قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ    93؀ۧ
[ فَتَوَلّٰي: تو انہوں نے رخ پھیرا ] [ عَنْهُمْ: ان سے ] [ وَقَالَ: اور کہا ] [ يٰقَوْمِ: اے میری قوم ] [ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ: میں پہنچا چکا تم کو ] [ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ: اپنے رب کے پیغامات ] [ وَنَصَحْتُ: اور میں نے خیرخواہی کی ] [ لَكُمْ: تمہاری ] [ فَكَيْفَ: تو (اب ) کیسے ] [ اٰسٰي: میں افسوس کروں ] [ عَلٰي قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ: ایک انکار کرنے والی قوم پر]

وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ    94؀
[ وَمَآ اَرْسَلْنَا: اور ہم نے نہیں بھیجا ] [ فِيْ قَرْيَةٍ: کسی بستی میں] [ مِّنْ نَّبِيٍّ: کوئی بھی نبی ] [ اِلَّآ: مگر یہ کہ ] [ اَخَذْنَآ: ہم نے پکڑا ] [ اَهْلَهَا: اس کے لوگوں کو ] [ بِالْبَاْسَاۗءِ: سختی سے ] [ وَالضَّرَّاۗءِ: اور تکلیف سے ] [ لَعَلَّهُمْ: شائد وہ لوگ ] [ يَضَّرَّعُوْنَ: گڑگڑائیں ]



ض ر ع ۔ (ف) ضراعۃ ۔ کمزور ہونا ۔ بےفائدہ ہونا ۔ ضریغ ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے۔ بےفائدہ ۔ خار دار درخت ۔ لیس لہم طعام الا من ضریع [ نہیں ہوگا ان کے لیے کوئی کھانا مگر ایک خاردار درخت میں سے ] 88:6۔

تفعل ــ: تضرعا ۔ کمزوری اور عاجزی کا اظہار کرنا ۔ گڑگڑانا ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر ۔ 94 ۔

ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰي عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ    95؀
[ ثُمَّ: پھر ] [ بَدَّلْنَا: ہم نے بدل دیا ] [ مَكَانَ السَّيِّئَةِ: برائی کی جگہ کو ] [ الْحَسَنَةَ: بھلائی سے ] [ حَتّٰي: یہاں تک کہ ] [ عَفَوْا: وہ لوگ بڑھے (ترقی کی ) ] [ وَّقَالُوْا: اور کہا [ قَدْ مَسَّ: چھو چکی ہے ] [ اٰبَاۗءَنَا: ہمارے باپ دادوں کو ] [ الضَّرَّاۗءُ: تکلیف (بھی) ] [ وَالسَّرَّاۗءُ: اور خوشی (بھی ) ] [ فَاَخَذْنٰهُمْ: تو ہم نے پکڑاان کو ] [ بَغْتَةً: اچانک ] [ وَّ: اس حال میں کہ ] [ هُمْ: وہ لوگ ] [ لَا يَشْعُرُوْنَ: شعور نہیں رکھتے تھے ]



ترکیب: (آیت ۔ 95) میں فاخذنا کا مفعول ھم کی ضمیر ہے ۔ جبکہ بغتۃ حال ہے ۔

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ    96؀
[ وَلَوْ: اور اگر ] [ اَنَّ: یہ کہ ] [ اَهْلَ الْقُرٰٓي: ان بستیوں والے ] [ اٰمَنُوْا: ایمان لاتے ] [ وَاتَّقَوْا: اور تقوی اختیار کرتے ] [ لَفَتَحْنَا: تو ہم ضرور کھول دیتے ] [ عَلَيْهِمْ: ان پر ] [ بَرَكٰتٍ: برکتیں ] [ مِّنَ السَّمَاۗءِ: آسمان سے] [ وَالْاَرْضِ: اور زمین سے ] [ وَلٰكِنْ: اور لیکن] [ كَذَّبُوْا: انہوں نے جھٹلایا [ فَاَخَذْنٰهُمْ: تو ہم نے پکڑا ان کو ] [ بِمَا: بسبب اس کے جو ] [ كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ: وہ لوگ کمائی کرتے تھے ]

اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِيَهُمْ بَاْسـُنَا بَيَاتًا وَّهُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ    97؀ۭ
[ اَفَاَمِنَ : تو کیا امن میں ہوئے ] [ اَهْلُ الْقُرٰٓي : بستیوں والے ] [ اَنْ: (اس سے ) کہ ] [ يَّاْتِيَهُمْ: پہنچے ان کو ] [ بَاْسـُنَا: ہماری سختی ] [ بَيَاتًا: رات کے وقت ] [ وَّ: اس حال میں کہ ] [ هُمْ: وہ لوگ] [ نَاۗىِٕمُوْنَ : نیند کرنے والوں ہوں ]



آیت نمبر ۔ 97 میں بیاتا اور 98 میں ضحی ظرف ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں ۔

اَوَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِيَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّهُمْ يَلْعَبُوْنَ   98؀
[ اَوَاَمِنَ: اور کیا امن میں ہوئے ] [ اَهْلُ الْقُرٰٓي: بستیوں والے ] [ اَنْ: (اس سے ) کہ ] [ يَّاْتِيَهُمْ: پہنچے ان کو ] [ بَاْسُنَا: ہماری سختی ] [ ضُحًى: چاشت کے وقت ] [ وَّ: اس حال میں کہ ] [ هُمْ: وہ لوگ ] [ يَلْعَبُوْنَ: کھیلتے ہوں ]



ض ح ی ۔ ( س ) ضحی ۔ سورج سے تکلیف اٹھا نا ۔ دھوپ لگنا ۔ دھوپ کھانا ۔ وانک لا تظمؤفیھا ولا تضحی [ اور یہ کہ تجھ کو نہ پیاس لگے اس میں اور نہ تجھ کو دھوپ لگے ] 20:119۔ ضحی ۔ دن چڑھے ۔ چاشت کا وقت ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر ۔98۔

اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِ ۚ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ    99۝ۧ
[ اَفَاَمِنُوْا: تو کیا وہ لوگ امن میں ہوئے ] [ مَكْرَ اللّٰهِ: اللہ کی خفیہ تدبیر سے ] [ فَلَا يَاْمَنُ: پس امن میں نہیں ہوتے] [ مَكْرَ اللّٰهِ: اللہ کی تدبیر سے ] [ اِلَّا: مگر ] [ الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ: خسارہ پانے والے لوگ ]

اَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَآ اَنْ لَّوْ نَشَاۗءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ    ١٠٠؁
[ اَوَ: اور کیا ] [ لَمْ يَهْدِ: رہنمائی نہیں کی ] [ لِلَّذِيْنَ: ان کے لیے جو ] [ يَرِثُوْنَ: وارث ہوئے ] [ الْاَرْضَ: زمین کے ] [ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَآ: اس کے رہنے والوں (کی ہلاکت ) کے بعد ] [ اَنْ: کہ ] [ لَّوْ: اگر ] [ نَشَاۗءُ: ہم چاہیں ] [ اَصَبْنٰهُمْ: تو ہم پہنچیں ٹھیک ان کو ہی ] [ بِذُنُوْبِهِمْ: بسبب ان کے گناہوں کے ] [ وَنَطْبَعُ: اور ہم چھاپ لگا دیتے ہیں ] [ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ: ان کے دلوں پر ] [ فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ : تو وہ لوگ نہیں سنتے ]

آیت نمبر 100 میں مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَآ میں مِنْۢ بَعْدِ کے بعد ہلاکت کا لفظ محذوف ہے اور یہ پورا فقرہ لَمْ يَهْدِ کا فاعل ہے ۔

تِلْكَ الْقُرٰي نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗىِٕهَا  ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ ۚ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ   ۭكَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِ الْكٰفِرِيْنَ    ١٠١؁
[ تِلْكَ الْقُرٰي: یہ بستیاں] [ نَقُصُّ: ہم سناتے ہیں ] [ عَلَيْكَ: آپ کو ] [ مِنْ اَنْۢبَاۗىِٕهَا: جن کی خبروں میں سے ] [ وَلَقَدْ جَاۗءَتْهُمْ: اور آچکے ہیں ان کے پاس ] [ رُسُلُهُمْ: ان کے رسول ] [ بِالْبَيِّنٰتِ: واضح (نشانیوں ) کے ساتھ ] [ فَمَا كَانُوْا: تو وہ لوگ نہیں تھے ] [ لِيُؤْمِنُوْا: کہ ایمان لاتے ] [ بِمَا: اس پر جس کو ] [ كَذَّبُوْا: انہوں نے جھٹلایا ] [ مِنْ قَبْلُ: اس سے پہلے ] [ كَذٰلِكَ: اس طرح ] [ يَطْبَعُ: چھاپ لگاتا ہے ] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ عَلٰي قُلُوْبِ الْكٰفِرِيْنَ: انکار کرنے والوں کے دلوں پر ]

وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ ۚ وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِيْنَ    ١٠٢؁
[ وَمَا وَجَدْنَا: اور ہم نے نہیں پایا ] [ لِاَكْثَرِهِمْ: ان کے اکثر کے لیے ] [ مِّنْ عَهْدٍ: وعدہ کی کوئی پابندی ] [ وَاِنْ: اور بیشک ] [ وَّجَدْنَآ: ہم نے پایا ] [ اَكْثَرَهُمْ: ان کے اکثرکو ] [ لَفٰسِقِيْنَ : یقینا نافرمانی کرنے والے]



آیت نمبر 102 میں لفسقین پر لام تاکید سے معلوم ہوا کہ ان وجدنا کا ان نافیہ نہیں بلکہ ان مخففہ ہے۔ جس کے معنی ہیں ’’ بے شک ‘‘



نوٹ ۔1: ایک ایک قوم کا معاملہ بیان کرکے جو سبق انسانیت کودیا گیا ہے اسے اب ایک جامع ضابطہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ اس ضابطے کی ایک اہم شق انبیاء کی بعثت ہے ۔ اور اب چونکہ نبوت ورسالت کا دروازہ بند ہوچکا ہے ، اس لیے ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں اس ضابطہ کا اطلاق نہیں ہوگا اور ہمارا ان آیات سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ اس غلط فہمی کو دور کرنا ضروری ہے۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ گم کردہ راہ انسانوں کو ہدایت اور راہنمائی فراہم کی جائے ۔ لیکن ختم نبوت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسانیت کی رہنمائی کے سلسلہ کو ختم کردیا گیا ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے آخری نبی
جو ہدایات لائے تھے انہیں قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے ، اس لیے اب کسی نئے نبی کو بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی اور اب قیامت تک قرآن وحدیث سے بعثت انبیاء کا مقصد پورا ہوتا رہے گا ۔ اس لیے مذکورہ ضابطہ کا اطلاق آج بھی اسی طرح ہوگا ۔ جیسے ماضی میں ہوا ہے اور قیامت تک اسی طرح ہوتا رہے گا۔

ضابطہ یہ ہے کہ اقوال کو اچھے اور برے حالات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی فراہم کردہ رہنمائی کی طرف راغب کیا جاتا ہے ۔ لیکن جب کسی قوم کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ نہ تو مصائب سے ان کا دل اللہ کے آگے جھکتا ہے ، نہ ہی نعمتوں پر وہ شکر گزار ہوتی ہے اور کسی حال میں بھی اصلاح قبول نہیں کرتی تو بربادی اس کا مقدر ہوجاتی ہے ۔ اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی اس تقدیر کو ان کی قوت واقتدار ، دولت وثروت اور ٹیکنا لوجی تبدیل نہیں کرسکتی ۔ گذشتہ آیات میں جن اقوام کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب اپنے اپنے وقت میں عروج وترقی کی اس حد کو پہنچ چکی تھیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مد مقابل نہیں رہا تھا ۔ لیکن جب ان کے ہاتھوں کی کمائی ان کے سامنے آئی توس ان کے سائنس وٹیکنا لوجی ان کو نہ بچا سکی ۔

آج کے دور میں مغربی تہذیب بھی اپنے عروج کی اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ اب دنیا میں ان کا کوئی مقابل باقی نہیں رہا ۔ ان لوگوں نے آثار قدیمہ پر بھی بہت تحقیقات کی ہیں ۔ اقوام کے عروج وزوال پر بڑی سائنٹیفک ریسرچ ہوئی ہیں ۔ لیکن اس ساری افلاطونیت اور ارسطونیت میں کہیں بھی نہ تو مسبب الاسباب ہستی کا ذکر ہے اور نہ ہی اس کے ضابطوں کا ۔ ایسی صورت میں اصلاح کا امکان ختم ہوگیا ہے اور اس تہذیب کی تباہی اس کا مقدر ہوگئی ہے ۔

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا  ۚ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ    ١٠٣؁
[ ثُمَّ: پھر ] [ بَعَثْنَا: ہم نے بھیجا ] [ مِنْۢ بَعْدِهِمْ: ان کے بعد ] [ مُّوْسٰي: موسیٰ کو ] [ بِاٰيٰتِنَآ: اپنی نشانیوں کے ساتھ ] [ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ: فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف ] [ فَظَلَمُوْا: تو انہوں نے ظلم کیا] [ بِهَا: ان (نشانیوں ) پر ] [ فَانْظُرْ: تو غور کرو] [ كَيْفَ: کیسا ] [ كَانَ: تھا ] [ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ: نظم بگاڑنے والوں کا انجام ]



ترکیب: آیت ۔ 103) بھا کی ضمیر ایتنا کے لیے ہے ۔

وَقَالَ مُوْسٰي يٰفِرْعَوْنُ اِنِّىْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ    ١٠٤؀ۙ
[ وَقَالَ: اور کہا ] [ مُوْسٰي: موسیٰ نے ] [ يٰفِرْعَوْنُ: اے فرعون ] [ اِنِّىْ: کہ میں ] [ رَسُوْلٌ: ایک رسول ہوں ] [ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ: تمام جہانوں کے رب (کی طرف) ]

حَقِيْقٌ عَلٰٓي اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ  ۭقَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِيَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ    ١٠٥؀ۭ
[ حَقِيْقٌ: لازم ہوں [ عَلٰٓي: (اس) پر ] [ اَنْ: کہ ] [ لَّآ اَقُوْلَ: میں نہ کہوں ] [ عَلَي اللّٰهِ: اللہ پر ] [ اِلَّا: مگر ] [ الْحَقَّ : حق ] [ ۭقَدْ جِئْتُكُمْ: میں لایا ہوں تمہارے پاس ] [ بِبَيِّنَةٍ: واضح (نشانیاں) ] [ مِّنْ رَّبِّكُمْ: تمہارے رب (کی طرف) سے] [ فَاَرْسِلْ: پس تو بھیج [ مَعِيَ: میرے ساتھ ] [ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ: بنی اسرائیل کو ]



(آیت ۔105) حقیق علی ۔ گذشتہ آیت میں انی پر عطف ہے ۔

قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰيَةٍ فَاْتِ بِهَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ    ١٠٦؁
[ قَالَ: اس نے کہا ] [ اِنْ: اگر ] [ كُنْتَ جِئْتَ: تو لایا ہے ] [ بِاٰيَةٍ: کوئی نشانی ] [ فَاْتِ: تو لے آ] [ بِهَآ: اسے ] [ اِنْ: اگر] [ كُنْتَ: تو ہے ] [ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ: سچ کہنے والوں میں سے]

فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا ھِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ   ١٠٧؀ښ
[ فَاَلْقٰى : تو انہوں نے ڈالا ] [ عَصَاهُ : اپنا عصا] [ فَاِذَا: تو جب ہی ] [ ھِىَ: وہ ] [ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ : ایک واضح (جیتا جاگتا ) اژدھا تھا ]



ث ع ب : (ف) ثعبا ، پانی کو جاری کرنا ۔ پانی بہانا ۔ ثعبان ۔ فسعلان کے وزن پر مبالغہ ہے ۔ اژدھا ۔ [ کیونکہ یہ زمین پر ایسے چلتا ہے جیسے پانی بہتا ہے ] یہ مذکر اور مونث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 107۔



(آیت ۔ 107) ھی کی ضمیر عصا کے لیے ہے جو مؤنث سماعی ہے ۔

وَّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا ھِىَ بَيْضَاۗءُ لِلنّٰظِرِيْنَ    ١٠٨؀ۧ
[ وَّنَزَعَ: اور انہوں نے کھینچ نکالا ] [ يَدَهٗ: اپنا ہاتھ ] [ فَاِذَا: تو جب ہی ] [ ھِىَ: وہ ] [ بَيْضَاۗءُ: سفید تھا ] [ لِلنّٰظِرِيْنَ: دیکھنے والوں کے لیے ]

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ      ١٠٩؀ۙ
[ قَالَ: کہا ] [ الْمَلَاُ: سرداروں نے ] [ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ: فرعون کی قوم میں سے ] [ اِنَّ: بیشک ] [ هٰذَا: یہ ] [ لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ: یقینا ایک علم والا جادوگر ہے]

يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ ۚ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ     ١١٠؁
[ يُّرِيْدُ: وہ ارادہ رکھتا ہے ] [ اَنْ: کہ ] [ يُّخْرِجَكُمْ: وہ تم لوگوں کو نکالے ] [ مِّنْ اَرْضِكُمْ: تمہاری زمین سے] [ فَمَاذَا: (فرعون نے پوچھا ) پھر کیا ] [ تَاْمُرُوْنَ: تم لوگ مشورہ دیتے ہو]

قَالُوْٓا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ وَاَرْسِلْ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ    ١١١۝ۙ
[ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا ] [ اَرْجِهْ: تو ٹال دے اس کو ] [ وَاَخَاهُ: اور اس کے بھائی کو ] [ وَاَرْسِلْ: اور تو بھیج ] [ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ: شہروں میں ] [ حٰشِرِيْنَ: جمع کرنے والوں کو ]



(آیت ۔111) ارجہ میں ہائے سکت نہیں ہے ۔ کیونکہ اس صورت میں واخاہ کا فقرہ بےمعنی ہوجاتاہے ۔ یہ دراصل فعل امر ارج کی ضمیر مفعولی ہے۔ یہ قرآن مجید کی مخصوص قرات اور املا ہے کہ اس کو ارجہ کے بجائے پڑھتے اور لکھتے ہیں ۔

يَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ    ١١٢؁
[ يَاْتُوْكَ: وہ لوگ لے آئیں گے تیرے پاس ] [ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ: ہر ایک جاننے والے جادو گر کو ]



(آیت ۔112) یاتوک میں یا تو مضارع مجزوم ہے ، فعل امر ارسل کا جواب امر ہونے کی وجہ سے ۔

وَجَاۗءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ    ١١٣؁
[ وَجَاۗءَ السَّحَرَةُ: جادو گر لوگ ] [ فِرْعَوْنَ: فرعون کے پا س] [ قَالُوْٓا: انہوں نے کہا ] اِنَّ: بیشک ] [ لَنَا: ہمارے لیے ] [ لَاَجْرًا: یقینا کچھ اجرت ہوگی ] [ اِنْ: اگر ] [ كُنَّا: ہم ہوئے] [ نَحْنُ: کہ ہم ہی ] [ الْغٰلِبِيْنَ: غلبہ پانے والے ہوں]



(آیت ۔113) ان لنا لاجرا جواب شرط مقدم ہے اور ان کنا نحن الغلبین شرط ہے ۔ اس لیے ان کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا۔

قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ    ١١٤؁
[ قَالَ: اس نے کہا ] [ نَعَمْ: ہاں ] [ وَاِنَّكُمْ: اور بیشک تم لوگ ] [ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ: یقینا قریب کیے ہوؤں میں سے ہوگے]



نوٹ ۔1: یہ بات نوٹ کرلیں کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصے میں دو فرعونوں کا ذکر آتاہے ۔ ایک وہ جس کے زمانے میں آپ پیدا ہوئے اور اسی کے گھر میں پرورش پائی ۔ اس کانام رعمسیس تھا ۔ دوسرا اس کا بیٹا منفتاح ہے۔ یہ اس وقت حکمران تھا جب موسیٰ اسلام کی دعوت لے کر مصر پہنچے تھے اور یہی غرق ہوا تھا ۔

نوٹ۔ 2:ـ چند قوموں اور ان کے پیغمبروں کا حوالہ دینے کے بعد اب موسیٰ اور فرعون کا واقعہ قدرے تفصیل سے بیان کیا جارہا ہے ۔ اس میں متعدد مضامین اور اسباق ہیں ۔ لیکن اس سارے قصے میں جو سب سے اہم سبق ہے وہ صحابہ کرام کے بھی تھا اور قیامت تک ہر اس اہل حق گروہ کے لیے رہے گا جو باطل سے پنجہ آزمائی ’’ حماقت ‘‘ کرتاہے ۔

اس قصے کے پیرائے میں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دعوت حق کے ابتدائی مرحلوں میں حق اور باطل کی قوتوں کا جو تناسب بظاہر نظر آتا ہے ۔ اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے ، حق کی تو پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایک معمولی اقلیت سے شروع ہوتا ہے اور بغیر کسی سازو سامان کے اس باطل کے خلاف لڑائی چھیڑ دیتا ہے جس کی پشت پر بڑی بڑی قوموں اور سلطنتوں کی طاقت ہوتی ہے ۔ پھر بھی آخر کار حق ہی غالب آکر رہتا ہے ۔ اس قصے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حق کے مقابلہ میں جو چالیں چلی جاتی ہیں ۔ وہ کس طرح الٹی پڑتی ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ باطل کی ہلاکت کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے اس کو کتنی کتنی طویل مدت تک سنبھلنے اور درست ہونے کے مواقع دیت چلا جاتا ہے ۔ اور جب وہ کسی بات کا اثر قبول نہیں کرتا تو پھر اسے ہلاک کردیا جاتا ہے اور نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے ۔ (تفہیم القرآن )

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓي اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِيْنَ    ١١٥؁
[ قَالُوْا: (جادوگر) بولے] [ يٰمُوْسٰٓي: اے موسی] [ اِمَّآ: یا تو ] [ اَنْ: یہ کہ ] [ تُلْقِيَ: آپ ڈالیں ] [ وَاِمَّآ: اور یا پھر [ اَنْ : یہ کہ ] [ نَّكُوْنَ: ہم ہوں ] [ نَحْنُ: کہ ہم ہی [ الْمُلْقِيْنَ : ڈالنے والے ہوں ]



ترکیب: (آیت ۔ 115) اس آیت میں جو اما ہے یہ ان اور ما کا مرکب نہیں ہے ۔ (آیت 38 ترکیب) بلکہ یہ ایک لفظ ہے۔ یہ بھی شرطیہ ہے اور دو فعلوں پر آتا ہے ۔ اس کا ترجمہ عام طور پر ’’ یا تو ۔۔ اور یا پھر ‘‘ کیا جاتا ہے ۔ نکون نحن الملقین ، میں نحن ضمیر فاصل ہے اور نکون کی خبر ہونے کی وجہ سے الملقین حالت نصب میں آیا ہے۔

قَالَ اَلْقُوْا ۚ فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ    ١١٦؁
[ قَالَ: انہوں نے کہا [ اَلْقُوْا: تم لوگ ڈالو] [ فَلَمَّآ: پھر جب [ اَلْقَوْا: انہوں نے پھینکا ] [ سَحَرُوْٓا: تو انہوں نے جادو کیا ] [ اَعْيُنَ النَّاسِ: لوگوں کی آنکھوں پر] [ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ: اور ان کو خوفزدہ کیا ] [ وَجَاۗءُوْ: اور وہ لائے] [ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ : ایک عظیم جادو ]

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَاِذَا هِىَ تَلْقَفُ مَا يَاْفِكُوْنَ    ١١٧؀ۚ
[ وَاَوْحَيْنَآ: اور ہم نے وحی کیا] [ اِلٰى مُوْسٰٓي: موسیٰ کی طرف] [ اَنْ: کہ ] [ اَلْقِ: آپ ڈالیں ] [ عَصَاكَ: اپنا عصا] [ فَاِذَا : پھر جب ہی ] [ هِىَ: وہ ] [ تَلْقَفُ: نگلنے لگا [ مَا: اس کو جو ] [ يَاْفِكُوْنَ : وہ جھوٹی بناوٹ کررہے تھے ]



ل ق ف ۔ (س) ۔ لقفا ۔ کسی چیز کو جلدی جلدی لینا ۔ نگلنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 117۔

فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    ١١٨؀ۚ
[ فَوَقَعَ: پس واقع ہوا ] [ الْحَقُّ: حق ] [ وَبَطَلَ: اور باطل ہوا ] [ مَا: وہ جو ] [ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ: وہ لوگ کیا کرتے تھے ]

فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَانْقَلَبُوْا صٰغِرِيْنَ     ١١٩؀ۚ
[ فَغُلِبُوْا: پس وہ مغلوب ہوئے] [ هُنَالِكَ: وہیں ] [ وَانْقَلَبُوْا: اور وہ پلٹے ] [ صٰغِرِيْنَ: حقیر ہوتے ہوئے ]

وَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سٰجِدِيْنَ    ١٢٠؀ښ
[ وَاُلْقِيَ: اور ڈالے گئے ] [ السَّحَرَةُ: جادوگر لوگ ] [ سٰجِدِيْنَ: سجدہ کرنے والوں کی حالت میں ]



نوٹ ۔ 1: 120، میں القی ، ماضی مجہول کا صیغہ آیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جادوگروں کو سجدے میں گرایا گیا تھا ۔ اس سے ذہن میں کچھ الجھنیں پیدا ہوتی ہیں ۔ البتہ اس واقعہ کے پس منظر کی چند باتیں اگر ذہن میں واضح ہوں تو پھر یہ الجھنیں دور ہوجاتی ہیں ، اس لیے پس منظر کو سمجھ لیں ۔

(1) اس زمانے میں مصر، عرب اور خود بنی اسرائیل میں بھی سجدہ تعظیمی کا رواج عام تھا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کے سامنے سجدہ تعظیمی ہی میں گرے تھے۔ اس لیے جادوگروں کے لیے سجدہ میں گرنا کوئی نامانوس بات نہیں تھی۔ (2) اس وقت مصر کے لوگ سورج پرست تھے ۔ اور سورج ان کا مہادیو یعنی رب اعلیٰ تھا ۔ اسی معاشرے میں ایک محکوم قوم کی حیثیت سے بنی اسرائیل بھی تھے جو توحید پر ست تھے۔ یہ نظریاتی تصادم ہی ان کی محکومیت کا سبب تھا ۔ اگر وہ سورج پرستی اختیار کرکے فرعون کو سورج مہادیو کا اوتار تسلیم کرلیتے تو ان کی محکومیت ختم ہوجاتی ۔ جیسے کہ قارون فرعون کی حکومت کا ایک اہم رکن بن گیا تھا ۔ حالانکہ وہ بنی اسرائیل میں سے تھا (28:76)

(3) اس زمانے میں جادوگری ایک بہت معزز پیشہ تھا اور عام طور پر جادوگر لوگ اپنے فن کے علم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم سے بھی بخوبی واقف ہوتے تھے۔ جیسے مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں طیبب یعنی حکیم ہونا ایک بہت معزز پیشہ تھا اور عام طور پر حکیم لوگ حکمت کے ساتھ ساتھ اسلامی فقہ ، شعر وادب ، فلکیات وغیرہ جیسے علوم سے بھی پوری واقفیت رکھتے تھے۔ اسی طرح جادوگر لوگ توحید اور سورج پرستی کے نظریاتی تصادم کے علمی مضمرات سے بخوبی واقف تھے ۔ (4) جادوگری کے علم اور فن پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے ان میں ہی یہ صلاحیت سب سے زیادہ تھی کہ وہ جادو اور معجزے میں تمیز کرسکیں ۔

یہ وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کو اژدھا بنتے دیکھ کر ان پر حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جادوگر نہیں ہیں بلکہ واقعی اللہ کے رسول ہیں ۔ ان کا یہ احساس اتنا شدید تھا کہ وہ بےساختہ سجدے میں گر پڑے ، ان کے احساس کی شدت اور بےساختگی کی کیفیت کو اجاگر کرنے کے لیے یہاں فعل مجہول القی استعمال ہوا ہے ۔

قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ     ١٢١؀ۙ
[ قَالُوْٓا: انہوں نے کہا] [ اٰمَنَّا: ہم ایمان لائے ] [ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ: تمام جہانوں کے رب پر ]

رَبِّ مُوْسٰي وَهٰرُوْنَ    ١٢٢؁
[ رَبِّ مُوْسٰي وَهٰرُوْنَ: جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے ]

اَيُشْرِكُوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَـيْــــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ      ١٩١؀ڮ
[ اَيُشْرِكُوْنَ: کیا یہ لوگ شریک بناتے ہیں ] [ مَا: اس کو جو ] [ لَا يَخْلُقُ: تخلیق نہیں کرتا ہے ] [ شَـيْــــًٔـا: کوئی چیز ] [ وَّهُمْ: اور وہ (خود بھی ) ] [ يُخْلَقُوْنَ: پیدا کیے جاتے ہیں ]

وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا وَّلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ     ١٩٢؁
[ وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ: اور وہ لوگ استطاعت نہیں رکھتے ] [ لَهُمْ: ان کے لیے ] [ نَصْرًا: کسی مدد کی ] [ وَّلَآ اَنْفُسَهُمْ: اور نہ ہی اپنے آپ کی ] [ يَنْصُرُوْنَ: وہ لوگ مدد کرتے ہیں ]

وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَتَّبِعُوْكُمْ ۭ سَوَاۗءٌ عَلَيْكُمْ اَدَعَوْتُمُوْهُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ    ١٩٣؁
[ وَاِنْ: اور اگر ] [ تَدْعُوْهُمْ: تم لوگ پکارو گے ان کو ] [ اِلَى الْهُدٰى: ہدایت کی طرف ] [ لَا يَتَّبِعُوْكُمْ ۭ: تو وہ پیروی نہیں کریں گے تمہاری ] [ سَوَاۗءٌ: برابر ہے] [ عَلَيْكُمْ: تم لوگوں پر ] [ اَدَعَوْتُمُوْهُمْ: خواہ تم لوگ پکاروان کو ] [ اَمْ: یا ] [ اَنْتُمْ: تم لوگ] [ صَامِتُوْنَ: خاموش رہنے والے ہو]



ص م ت ۔ (ن) : صمتا ۔ خاموش رہنا ۔ صامت ۔ اسم الفاعل ہے۔ خاموش رہنے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 193۔

يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ  ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ  ۠ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ     Ǻ۝
[ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ: یہ لوگ پوچھتے ہیں آپ سے] [ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭ : اموال غنیمت کے بارے میں ] [ قُلِ: آپ کہہ دیجیے ] [ الْاَنْفَالُ: اموال غنیمت ] [ لِلّٰهِ: اللہ کے لیے ہے ] [ وَالرَّسُوْلِ ۚ : اور ان رسول کے لیے ہے ] [ فَاتَّقُوا: پس تم لوگ تقوی اختیار کرو] [ اللّٰهَ: اللہ کا ] [ وَاَصْلِحُوْا: اور اصلاح کرو] [ ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۠ : تمہارے درمیان والی (رنجش ) کی ] [ وَاَطِيْعُوا: اور اطاعت کرو] [ اللّٰهَ: اللہ کی ] [ وَرَسُوْلَهٗٓ: اور اس کے رسول کی ] [ اِنْ: اگر ] [ كُنْتُمْ: تم لوگ ] [ مُّؤْمِنِيْنَ: ایمان لانے والے ہو]



ن ف ل ۔ (ن) : نفلا ۔ (1) زیادہ عطیہ دینا ۔ (2) مال غنیمت تقسیم کرنا ۔ نفل ۔ ج: انفعال ۔ اسم ذات ہے۔ مال غنیمت ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 1 ۔ نافلۃ ۔ (1) فرض سے زیادہ ۔ اضافی ۔ (2) اولاد کی اولاد ۔ پوتا ۔ ومن الیل فتھجدبہ نافلۃ لک [ اور رات میں سے جاگ کر نماز پڑھیے اس میں ، اضافی ہوتے ہوئے آپ کے لیے ] 17: 79۔ ووھبنالہ اسحق ویعقوب نافلۃ [ اور ہم نے عطا کیا ان کو اسحاق اور یعقوب پوتا ہوتے ہوئے ] 21: 72۔



نوٹ ۔1: آیت ۔2 میں زاداتہم ایمانا کے الفاظ سے معلوم ہوگیا کہ ایمان ایک ایسے درخت کی مانند ہے جس کی جڑ بھی ہے اور شاخیں بھی ۔ عقائد اس کی جڑ ہیں اور احکام شرعی اس کی شاخیں اور برگ وبار ہیں، جس طرح ایک شاداب درخت اپنی جڑوں سے بھی غذا حاصل کرتا ہے ۔ اور اپنی شاخوں اور پتوں سے بھی ، اسی طرح ایمان عقائد کی معرفت اور احکام کی بجاآوری ، دونوں سے غذا اور قوت حاصل کرتا ہے اس لیے اس کے صحیح نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ اس کی جڑ اور اس کی شاخوں ، دونوں کی دیکھ بھال ہوتی رہے ۔ اس طرح یہ بڑھتا اور پھلتا پھولتا ہے اور اس کے مفقود ہوجانے سے وہ گٹھتا ، سکڑتا اور مردہ ہوجاتا ہے (تدبرالقرآن )۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ   Ą۝ښ
[ اِنَّمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] [ الْمُؤْمِنُوْنَ: ایمان لانے والے ] [ الَّذِيْنَ : وہ لوگ ہیں جو کہ ] [ اِذَا: جب کبھی بھی ] [ ذُكِرَ: ذکر کیا جاتا ہے ] [ اللّٰهُ: اللہ کا] [ وَجِلَتْ: تو کانپ اٹھتے ہیں ] [ قُلُوْبُهُمْ: ان کے دل ] [ وَاِذَا: اور جب کبھی ] [ تُلِيَتْ : پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ] [ عَلَيْهِمْ : ان کو ] [ اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ] [ زَادَتْهُمْ : تو وہ زیادہ کرتی ہیں ان کو ] [ اِيْمَانًا : بلحاظ ایمان کے ] [ وَّعَلٰي رَبِّهِمْ : اور اپنے رب پر ہی ] [ يَتَوَكَّلُوْنَ : وہ لوگ بھروسہ کرتے ہیں ]



وج ل۔ (س) : وجلا ۔ دل میں خوف محسوس کرنا ۔ کانپ اٹھنا ۔ ڈرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 2۔ وجل ۔ صفت ہے جو اسم الفاعل کے معنی میں آتا ہے ۔ خوف محسوس کرنے والا ۔ ڈرنے والا ۔ انا منکم وجلون [ بیشک ہم تم لوگوں سے خوف محسوس کرنے والے ہیں ] 15: 52۔

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَاۗقُّوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ  ۚ وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ  13۝
[ ذٰلِكَ: یہ ] [ بِاَنَّهُمْ: اس سبب سے کہ انہوں نے ] [ شَاۗقُّوا: مخالفت کی ] [ اللّٰهَ: اللہ کی ] [ وَرَسُوْلَهٗ ۚ : اور اس کے رسول کی ] [ وَمَنْ: اور جو ] [ يُّشَاقِقِ: مخالفت کرے گا ] [ اللّٰهَ: اللہ کی ] [ وَرَسُوْلَهٗ: اور اس کے رسول کی ] [ فَاِنَّ: تو بیشک ] [ اللّٰهَ: اللہ] [ شَدِيْدُ الْعِقَابِ: گرفت کرنے کا سخت ہے ]

ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ وَاَنَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابَ النَّارِ 14؀
[ ذٰلِكُمْ: یہ ہے] [ فَذُوْقُوْهُ: پس تم لوگ چکھو اس کو] [ وَاَنَّ: اور یہ کہ ] [ لِلْكٰفِرِيْنَ: کافروں کے لیے ] [ عَذَابَ النَّارِ: آگ کا عذاب ہے]

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ     21؀
[ وَلَا تَكُوْنُوْا: اور تم لوگ مت ہو ] [ كَالَّذِيْنَ: ان کی مانند جنھوں نے ] [ قَالُوْا: کہا ] [ سَمِعْنَا: ہم نے سنا ] [ وَ: حالانکہ ] [ هُمْ: وہ لوگ ] [ لَا يَسْمَعُوْنَ: نہیں سنتے]

اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ    22؀
[ اِنَّ: بیشک ] [ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ: زمین پرچلنے والوں کے بد ترین ] [ عِنْدَ اللّٰهِ: اللہ کے ہاں ] [ الصُّمُّ: بہرے ہیں ] [ الْبُكْمُ: گونگے ہیں ] [ الَّذِيْنَ: وہ لوگ جو ] [ لَا يَعْقِلُوْنَ: عقل نہیں کرتے ]



(آیت ۔ 22) شرالدواب مبتدا ہے۔ الصم اور البکم اس کی معرفہ خبریں ہیں جبکہ الذین لا یعقلون خبروں کا بدل ہے ۔

اِذْ يُرِيْكَهُمُ اللّٰهُ فِيْ مَنَامِكَ قَلِيْلًا   ۭوَلَوْ اَرٰىكَهُمْ كَثِيْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَ ۭ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ  43؀
اِذْ [ جب ]يُرِيْكَهُمُ [ دکھایا آپ کو انھیں ] اللّٰهُ [ اللہ نے ]فِيْ مَنَامِكَ [ آپ کی نیند کی وقت میں ]قَلِيْلًا ۭ [ تھوڑا ہوتے ہوئے ]وَلَوْ [ اور اگر ]اَرٰىكَهُمْ [ وہ دکھاتا آپ کو انہیں ]كَثِيْرًا [ زیادہ ہوتے ہوئے]لَّفَشِلْتُمْ [ تو تم لوگ ضرور ہمت ہارتے ]وَلَتَنَازَعْتُمْ [ اور تم لوگ ضرور باہم کھینچا تانی کرتے ]فِي الْاَمْرِ [ اس حکم میں ]وَلٰكِنَّ [ اور لیکن ] اللّٰهَ [ اللہ نے ]سَلَّمَ ۭ [ سلامتی دی ]اِنَّهٗ [ بیشک وہ ]عَلِيْمٌۢ [ جاننے والا ہے ]بِذَاتِ الصُّدُوْرِ: سینوں والی (بات) کو ]

وَاِذْ يُرِيْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا وَّ يُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا  ۭوَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ   44؀ۧ
وَاِذْ [ اور جب ]يُرِيْكُمُوْهُمْ [ اس نے دکھایا تم کو لوگوں کو انھیں ]اِذِ الْتَقَيْتُمْ [ جب تم لوگ آمنے سامنے ہوئے ]فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ [ تمہاری آنکھوں میں ]قَلِيْلًا [ تھوڑا ہوتے ہوئے ]وَّ يُقَلِّلُكُمْ [ اور اس نے تھوڑا کیا تم لوگوں کو ]فِيْٓ اَعْيُنِهِمْ [ ان کی آنکھوں میں ]لِيَقْضِيَ [ تاکہ پورا کرے ] اللّٰهُ اَمْرًا [ اللہ ایک ایسے کام کو جو ] كَانَ [ تھا ]مَفْعُوْلًا ۭ [ کیا جانے والا ]وَاِلَى اللّٰهِ [ اور اللہ کی طرف ہی ]تُرْجَعُ [ لوٹائے جائیں گے] الْاُمُوْرُ [ تمام کام ]

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ  ۭ اَرَضِيْتُمْ بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَةِ   ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ   38؀
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ [ اے لوگو! جو ]اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ]مَا لَكُمْ [ تمھیں کیا ہے ]اِذَا [ جب ]قِيْلَ [ کہاجاتا ہے ]لَكُمُ [ تم لوگوں سے ] انْفِرُوْا [ کہ تم لوگ نکلو]فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ [ اللہ کی راہ میں ] اثَّاقَلْتُمْ [ تو تم لوگ بوجھل ہوتے ہو]اِلَى الْاَرْضِ ۭ [ زمین کی طرف ] اَ [ کیا ]رَضِيْتُمْ [ تم لوگ راضی ہوئے]بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [ دنیوی زندگی پر ]مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ [ آخرت سے (زیادہ ) ]فَمَا [ تو نہیں ہے ]مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [ دنیوی زندگی کا سامان ]فِي الْاٰخِرَةِ [ آخرت (کے مقابلہ ) میں]اِلَّا [ مگر]قَلِيْلٌ [ بہت تھوڑا ]

اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا   ڏ  وَّيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوْهُ شَـيْــــًٔـا  ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ      39؀
اِلَّا تَنْفِرُوْا [ اگر تم لوگ نہیں نکلو گے ]يُعَذِّبْكُمْ [ تو وہ عذاب دے گا تم لوگوں کو ]عَذَابًا اَلِـــيْمًا ڏ [ ایک دردناک عذاب ]وَّيَسْتَبْدِلْ [ اور وہ تبدیل کرے گا ]قَوْمًا [ کسی قوم کو ]غَيْرَكُمْ [ تمہارے علاوہ ] وَ [ اور (یعنی تو) ]لَا تَضُرُّوْهُ [ تم لوگ نقصان نہیں پہنچاؤگے اس کو ]شَـيْــــًٔـا ۭ [ کچھ بھی ]وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز پر ]قَدِيْرٌ [ قادر ہے ]



ترکیب : (آیت ۔ 39) الا دراصل ان شرطیہ اور لائے نفی کو ملا کر لکھا گیا ہے ۔ لا تنفروا۔ فعل نہی نہیں ہے ۔ یہ دراصل لائے نفی کے ساتھ مضارع لا تنفرون تھا ۔ جو ان کی شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے۔ یعذبکم جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے ۔ ان شرطیہ پر عطف ہونے کی وجہ سے یستبدل مجزوم ہے اور لا تضروہ اس کا جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔ اس میں ضمیر مفعولی کو اللہ کے لیے بھی مانا جا سکتا ہے اور قوما کے لیے بھی ۔

اَمْ يَــقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ  ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ      38؀
اَمْ (کیا) يَقُوْلُوْنَ (وہ سب کہتے ہیں) افْتَرٰىهُ ("کہ" اس نے گھڑ لیا ہے اسے ) [قُلْ : آپ کہئے] فَاْتُوْا [ تو تم لوگ لاؤ] بِسُوْرَةٍ [ ایک سورت ] مِّثْلِهٖ [ اس کے جیسی ] وَادْعُوْا [ اور بلالو ] مَنِ [ اس کو جس کی ] اسْتَــطَعْتُمْ [ تمہیں استطاعت ہے] مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ [ اللہ کے علاوہ ] اِنْ كُنْتُمْ [ اگر تم لوگ ہو ] صٰدِقِيْنَ [ سچ کہنے والے]

بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ يُحِيْطُوْا بِعِلْمِهٖ وَلَمَّا يَاْتِهِمْ تَاْوِيْلُهٗ  ۭ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيْنَ      39؀
بَلْ [ بلکہ ] كَذَّبُوْا [ انھوں نے جھٹلایا ] بِمَا [ اس کو جس کا ] لَمْ يُحِيْطُوْا [ انھوں نے احاطہ نہیں کیا ] بِعِلْمِهٖ [ اس کے علم سے ] وَلَمَّا [ اور ابھی تک نہیں ] يَاْتِهِمْ [ پہنچاان کے پاس ] تَاْوِيْلُهٗ ۭ [ اس کا انجام کار ] كَذٰلِكَ [ اسی طرح ] كَذَّبَ [ جھٹلایا ] الَّذِيْنَ [ انھوں نے جو ] مِنْ قَبْلِهِمْ [ ان سے پہلے تھے ] فَانْظُرْ [ تو آپ دیکھیں ] كَيْفَ كَانَ [ کیا تھا ]عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والوں کا انجام ]

قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ  ۚ اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِي الْمَدِيْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَآ اَهْلَهَا  ۚ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ    ١٢٣؁
[ قَالَ: کہا ] [ فِرْعَوْنُ: فرعون نے ] [ اٰمَنْتُمْ: تم لوگ ایمان لے آئے] [ بِهٖ: اس پر ] [ قَبْلَ اَنْ: اس کے پہلے کہ ] [ اٰذَنَ: میں اجازت دیتا ] [ لَكُمْ: تم لوگوں کو] [ اِنَّ: بیشک ] [ هٰذَا: یہ ] [ لَمَكْرٌ: یقینا ایک چال ہے ] [ مَّكَرْتُمُوْهُ: تم لوگوں نے تدبیر کی جس کی] [ فِي الْمَدِيْنَةِ: اس شہر میں ] [ لِتُخْرِجُوْا: تاکہ تم لوگ نکالو] [ مِنْهَآ: اس (شہر ) سے ] [ اَهْلَهَا: اس کے لوگوں کو ] [ فَسَوْفَ: تو عنقریب ] [ تَعْلَمُوْنَ: تم لوگ جان لوگے]

لَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِيْنَ    ١٢٤؁
[ لَاُقَطِّعَنَّ: میں لازما کاٹوں گا ] [ اَيْدِيَكُمْ: تمہارے ہاتھوں کو ] [ وَاَرْجُلَكُمْ: اور تمہارے پیروں کو ] [ مِّنْ خِلَافٍ: مخالف (طرف ) سے ] [ ثُمَّ: پھر ] [ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ: میں لازما سولی چڑھاؤں گا تم کو [ اَجْمَعِيْنَ: سب کے سب کو ]

قَالُوْٓا اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ    ١٢٥؀
[ قَالُوْٓا: انہوں نے کہا ] [ اِنَّآ: بیشک ہم ] [ اِلٰى رَبِّنَا: اپنے رب کی طرف ہی ] [ مُنْقَلِبُوْنَ: لوٹنے والے ہیں ]

وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰيٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاۗءَتْنَا  ۭرَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ    ١٢٦؀ۧ
[ وَمَا تَنْقِمُ: اور تو انتقام نہیں لیتا ] [ مِنَّآ: ہم سے ] [ اِلَّآ اَنْ: سوائے اس کے کہ] [ اٰمَنَّا: ہم ایمان لائے ] [ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا: اپنے رب کی نشانیوں پر ] [ لَمَّا: جب ] [ جَاۗءَتْنَا: وہ آئیں ہمارے رب ] [ رَبَّنَآ: اے ہمارے پروردگار] [ اَفْرِغْ: تو انڈیل دے] [ عَلَيْنَا: ہم پر ] [ صَبْرًا: ثابت قدمی ] [ وَّ تَوَفَّنَا: اور تو موت دے ہم کو ] [ مُسْلِمِيْنَ: اس حال میں کہ ہم فرمانبردار ہوں]

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ   ۭقَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَنَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ  ۚ وَاِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ    ١٢٧؁
[ وَقَالَ: اور کہا ] [ الْمَلَاُ: سرداروں نے ] [ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ: فرعون کی قوم میں سے] [ اَ: کیا ] [ تَذَرُ: تو نے چھوڑرکھا ہے [ مُوْسٰي: موسیٰ کو ] [ وَقَوْمَهٗ: اور اس کی قوم کو] [ لِيُفْسِدُوْا: کہ وہ لوگ نظم بگاڑیں ] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں ] [ وَيَذَرَكَ: اور (تاکہ ) وہ چھوڑ دے تجھ کو ] [ وَاٰلِهَتَكَ: اور تیرے معبودوں کو ] [ قَالَ : اس نے کہا ] [ سَنُقَتِّلُ: ہم قتل کرتے رہیں گے] [ اَبْنَاۗءَهُمْ: ان کے بیٹوں کو ] [ وَنَسْتَحْيٖ: اور زندہ رکھیں گے ] [ نِسَاۗءَهُمْ: ان کی عورتوں کو ] [ وَاِنَّا: اور یقینا ہم ] [ فَوْقَهُمْ: ان کے اوپر ] [ قٰهِرُوْنَ: پوری طرح قابو یافتہ ہیں ]

قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوْا  ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ     ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ   ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ    ١٢٨؁
[ قَالَ: کہا] [ مُوْسٰي: موسیٰ نے ] [ لِقَوْمِهِ: اپنی قوم سے] [ اسْتَعِيْنُوْا: مدد مانگو ] [ بِاللّٰهِ: اللہ سے ] [ وَاصْبِرُوْا: اور ثابت قدم رہو ] [ اِنَّ: یقینا ] [ الْاَرْضَ: زمین ] [ لِلّٰهِ: اللہ کی ہے] [ يُوْرِثُهَا: وہ وارث بناتا ہے اس کا] [ مَنْ: اس کو جس کو ] [ يَّشَاۗءُ: وہ چاہتا ہے ] [ مِنْ عِبَادِهٖ: اس کے بندوں میں سے ] [ وَالْعَاقِبَةُ: اور (بھلا) انجام ] [ لِلْمُتَّقِيْنَ: تقوی کرنے والوں کے لیے ہے ]

قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا    ۭ قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ     ١٢٩؀ۧ
[ قَالُوْٓا: انہوں نے کہا ] [ اُوْذِيْنَا: اذیت دی گئی ہم کو ] [ مِنْ قَبْلِ: اس سے پہلے ] [ اَنْ: کہ ] [ تَاْتِيَنَا: آپ آئے ہمارے پاس ] [ وَمِنْۢ بَعْدِ: اور اس کے بعد] [ مَا: جب] [ جِئْتَنَا: آپ آئے ہمارے پاس] [ قَالَ: انہوں نے کہا] [ عَسٰي: امید ہے] [ رَبُّكُمْ: تمہارے رب (سے) ] [ اَنْ: کہ] [ يُّهْلِكَ: وہ ہلاک کرے] [ عَدُوَّكُمْ: تمہارے دشمن کو] [ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ: اور جانشین بنائے تم کو ] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں ] [ فَيَنْظُرَ: تو پھر وہ دیکھے ] [ كَيْفَ: کیسے ] [ تَعْمَلُوْنَ: تم لوگ عمل کرتے ہو ]



ترکیب: (آیت ۔129) من بعد ما جئتنا میں ما ظرفیہ ہے۔ ان یہلک کے ان پر عطف ہونے کی وجہ سے یستخلف حالت نصب میں ہے ۔ جبکہ ینظر کی نصب فاسببہ کی وجہ سے ہے ۔

وَلَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِيْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ    ١٣٠؁
[ وَلَقَدْ اَخَذْنَآ: اور ہم پکڑ چکے ہیں ] [ اٰلَ فِرْعَوْنَ: فرعون کے پیروکاروں کو ] [ بِالسِّنِيْنَ: قحطوں سے ] [ وَنَقْصٍ: اور کچھ نقصان سے ] [ مِّنَ الثَّمَرٰتِ: پھلوں میں سے ] [ لَعَلَّهُمْ: شاید وہ لوگ ] [ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت حاصل کریں ]



 (آیت ۔ 130) السنین (مادہ ۔ ’’ س ن و ‘‘ ) کی لغت آیت نمبر 2:96 میں دی ہوئی ہے ۔ سنۃ (ایک سال) کی جمع سنون عربی محاورے میں قحط سالی کے لیے بھی آتی ہے ۔ جیسے انگریزی میں
Force کا مطلب ہے قوت ۔ طاقت ۔ جبکہ اس کی جمع forces سے فوجیں مراد ہوتی ہیں ۔

فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ    ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ  ۭاَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ    ١٣١؁
[ فَاِذَا: پھر جب بھی ] [ جَاۗءَتْهُمُ: آتی ہے ان کے پاس ] [ الْحَسَنَةُ: بھلائی ] [ قَالُوْا: تو وہ لوگ کہتے ہیں ] [ لَنَا: ہمارے لیے ہے ] [ هٰذِهٖ: یہ ] [ وَاِنْ: اور اگر ] [ تُصِبْهُمْ: آن لگتی ہے ان کو ] [ سَيِّئَةٌ: کوئی برائی ] [ يَّطَّيَّرُوْا: تو وہ لوگ منحوس گردانتے ہیں ] [ بِمُوْسٰي: موسیٰ کو ] [ وَمَنْ: اور ان کو جو ] [ مَّعَهٗ: ان کے ساتھ ہیں] [ اَلَآ: سن لو ] [ اِنَّمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ [ طٰۗىِٕرُهُمْ: ان کی نحوست ] [ عِنْدَ اللّٰهِ: اللہ کے پاس (سے ) ہے ] [ وَلٰكِنَّ: اور لیکن ] [ اَكْثَرَهُمْ: ان کے اکثر ] [ لَا يَعْلَمُوْنَ: جانتے نہیں ہیں ]

وَقَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰيَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا  ۙ فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِيْنَ   ١٣٢؁
[ وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ] [ مَهْمَا: جو کچھ ] [ تَاْتِنَا بِهٖ: تو لائے گا ہمارے پاس ] [ مِنْ اٰيَةٍ: کوئی بھی نشانی ] [ لِّتَسْحَرَنَا: تاکہ تو جادو کرے ہم پر ] [ بِهَا : اس سے] [ فَمَا نَحْنُ: تو ہم نہیں ہیں ] [ لَكَ بِمُؤْمِنِيْنَ: تیر ی بات ماننے والے ]



 (آیت ۔132) مھما ان جوازم مضارع میں سے ہے جو شرط اور جواب شرط میں آنے والے دونوں مضارع افعال کو جزم دیتا ہے ۔ (آسان عربی گرامر ، پیرگراف 2:43) یہاں تاتنا میں تات مجزوم ہے۔ جبکہ جواب شرط میں مضارع کی جگہ جملہ اسمیہ مانحن لک بمؤمنین آیا ہے اور محلا مجزوم ہے۔

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ  فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ   ١٣٣؁
[ فَاَرْسَلْنَا: پھر ہم نے بھیجا ] [ عَلَيْهِمُ: ان پر ] [ الطُّوْفَانَ: سائیکلون ] [ وَالْجَرَادَ: اور ٹڈی دل ] [ وَالْقُمَّلَ: اور بھنگے] [ وَالضَّفَادِعَ: اور مینڈک ] [ وَالدَّمَ: اور خون ] [ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ : کھلی کھلی نشانیاں ہوتے ہوئے ] [ فَاسْتَكْبَرُوْا: نتیجے میں انہوں نے گھمنڈ کیا ] [ وَكَانُوْا : اور وہ تھے (ہی ) ] [ قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ: جرم کرنے والے لوگ ]



ج ر د (ن) : جردا ۔ کھال پر سے بال اتارنا ۔ ننگا کرنا ۔ جراد ، اسم جنس ہے ۔ ٹڈی (واحد ۔ جرادۃ ) ٹڈی زمین کا سبزہ چاٹ کر اس کو ننگا کردیتی ہے ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 133۔

ق م ل : ۔ ثلاثی مجرد سے فعل نہیں آتا ۔ قمل ۔ اسم جنس ہے ۔ واحد قملۃ ۔ سر کے بالوں میں پڑنے والی جوں ۔ گندگی پر بھنبھنانے والی باریک مکھیاں ۔ بھنگے ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 133۔

وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا يٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ ۚ لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ   ١٣٤؀ۚ
[ وَلَمَّا: اور جب ] [ وَقَعَ: واقع ہوتا ] [ عَلَيْهِمُ: ان پر ] [ الرِّجْزُ: عذاب ] [ قَالُوْا: تو وہ کہتے] [ يٰمُوْسَى: اے موسیٰ ] [ ادْعُ : آپ پکاریے ] [ لَنَا: ہمارے لیے ] [ رَبَّكَ: اپنے رب کو ] [ بِمَا: اس کے ساتھ جس کا ] [ عَهِدَ: اس نے وعدہ لیا ] [ عِنْدَكَ: آپ سے ] [ لَىِٕنْ: یقینا اگر ] [ كَشَفْتَ: آپ نے ہٹا دیا ] [ عَنَّا: ہم سے ] [ الرِّجْزَ: اس عذاب کو ] [ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ: تو ہم لازما مان لیں گے آپ (کی بات ) کو] [ وَلَنُرْسِلَنَّ: اور ہم لازما بھیج دیں گے ] [ مَعَكَ: آپ کے ساتھ ] [ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ: بنی اسرائیل کو ]

فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓي اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ يَنْكُثُوْنَ    ١٣٥؁
[ فَلَمَّا: پھر جب ] [ كَشَفْنَا: ہم نے ہٹا دیا ] [ عَنْهُمُ: ان سے ] [ الرِّجْزَ: اس عذاب کو ] [ اِلٰٓي اَجَلٍ: ایک مدت تک ] [ هُمْ: (کہ ) وہ ] [ بٰلِغُوْهُ: پہنچنے والے تھے اس کو ] [ اِذَا: جب ہی ] [ هُمْ: وہ لوگ ] [ يَنْكُثُوْنَ: عہد شکنی کرتے ]



ن ک ث : (ن) نکثا ، کمبل کو ادھیڑنا ۔ سوت کو ریشہ ریشہ کرنا ۔ عہد شکنی کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 135۔ نکث ۔ ج: انکاث ۔ ادھیڑا ہوا کمبل یا سوت ۔ ولا تکونوا کالتی نقضت غزلھا من بعد قوۃ انکاثا [ اور تم لوگ مت ہو اس عورت کی مانند جس نے توڑا اپنا کاتا ہوا سوت محنت کے بعد ، ادھیڑ ہوا ] 16:92۔

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِي الْيَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ     ١٣٦؁
[ فَانْتَقَمْنَا: پس ہم نے انتقام لیا ] [ مِنْهُمْ: ان سے ] [ فَاَغْرَقْنٰهُمْ: تو ہم نے غرق کیا ان کو ] [ فِي الْيَمِّ: پانی میں ] [ بِاَنَّهُمْ: کیونکہ انہوں نے ] [ كَذَّبُوْا: جھٹلایا ] [ بِاٰيٰتِنَا: ہماری نشانیوں کو ] [ وَكَانُوْا: اور وہ تھے ] [ عَنْهَا: ان سے ] [ غٰفِلِيْنَ: غفلت برتنے والے ]

وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا    ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ بِمَا صَبَرُوْا   ۭوَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ   ١٣٧؁
[ وَاَوْرَثْنَا: اور ہم نے وارث بنایا ] [ الْقَوْمَ الَّذِيْنَ: اس قوم کو جن کو ] [ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ: کمزور سمجھاجاتا تھا ] [ مَشَارِقَ الْاَرْضِ: اس زمین کے مشرقوں کا ] [ وَمَغَارِبَهَا: اور اس کے مغربوں کا ] [ الَّتِيْ: وہ ( زمین) ] [ بٰرَكْنَا: ہم نے برکت دی ] [ فِيْهَا: جس میں ] [ وَتَمَّتْ: اور تمام ہوا ] [ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى: آپ کے رب کا اچھا وعدہ ] [ عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ: بنی اسرائیل پر ] [ بِمَا: بسبب اس کے جو ] [ صَبَرُوْا: وہ لوگ ثابت قدم رہے ] [ وَدَمَّرْنَا: اور ہم نے تباہ کیا ] [ مَا: اس کو جو ] [ كَانَ يَصْنَعُ: کاریگری کرتا تھا ] [ فِرْعَوْنُ: فرعون ] [ وَقَوْمُهٗ: اور اس کی قوم ] [ وَمَا: اور اس کو جو ] [ كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ: وہ لوگ چھایا کرتے تھے [ یعنی پروپیگنڈا کرتے تھے ]



د م ر (ن) دمورا ہلاک ہونا۔ (تفعیل ) تدمیرا ۔ (1) ہلاک کرنا ۔ اس کا مفعول بنفسہ آتا ہے ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 137۔ (2) کسی پر ہلاکت ڈالنا ۔ اس میں علی کا صلہ آتا ہے ۔ دمر اللہ علیہم وللکفرین امثالھا [ ہلاکت ڈالی اللہ نے ان پر اور کافروں کے لیے اس کی جیسی ہیں ] 4710۔



ترکیب: (آیت ۔ 137) اور ثنا کا مفعول اول القوم ہے ۔ مشارق اور مغارب اس کے مفعول ثانی ہیں ۔ الارض پر لام تعریف ہے اور التی کا تعلق بھی الارض سے ہے ۔ کلمت مضاف ہے اس لیے اس کی صفت الحسنی مضاف ہے اس لیے اس کی صفت الحسنی مضاف الیہ ربک کے بعد آئی ہے۔



نوٹ : 1۔ فرعون کے جادو گر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہارنے کے بعد ان پر ایمان لے آئے تھے ۔ لیکن فرعون اور اس کی قوم اس طرح اپنی سرکشی اور کفر پر جمی رہی ۔ تاریخی روایات کے مطابق اس واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام بیس سال مصر میں مقیم رہ کر ان لوگوں کو اللہ کا پیغام سناتے اور حق کی دعوت دیتے رہے ۔ اس عرصہ میں ان لوگوں پر مختلف عذاب آتے رہے جن کے ذریعہ قوم فرعون کو متنبہ کرنا اور راہ راست پر لانا مقصود تھا ۔ ان میں سے ہر ایک معین وقت تک رہتا ، پھر موقوف ہوتا اور کچھ مہلت دی جاتی کہ غور وفکر کر کے سنبھل جائیں ۔ اسی طرح وقفہ وقفہ سے متعدد عذاب آتے رہے ۔ لیکن ان لوگوں نے ان سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔ پھر جب ہر طرح اتمام حجت ہوگئی تب ان کو غرق کیا گیا ۔ (معارف القرآن )

نوٹ ۔ 2: زیر مطالعہ آیت نمبر ۔137 میں ارشاد ہے کہ ہم نے اس کو برباد کردیا جو فرعون اور اس کے پیروکار بنایا کرتے تھے یہاں بنانے کے لیے یصنع کا لفظ آیا ہے۔ جس کے معنی کسی کام کو مہارت سے کرنے کے ہیں ۔ (مفردات القرآن ) بظاہر اس سے مراد ان کی عمارتیں ہیں کیونکہ یہ مصریوں کا خاص ذوق تھا اور انہوں نے فن تعمیر میں بڑی مہارت حاصل کرلی تھی ۔ لیکن سورۃ الاعراف کی ان آیات میں اور قرآن مجید کے دیگر مقامات پر جہاں قوم فرعون پر عذابوں کا ذکر ہے۔ وہاں زلزلہ یا کسی ایسے عذاب کا ذکر نہیں ہے۔ جس سے عمارتیں تباہ ہوں ۔ اس لیے ذہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ غالبا یہاں یصنع کا لفظ اپنے عمومی مفہوم میں آیا ہے اور اس سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف وہ جھوٹے الزامات ہیں جو فرعون گھڑا کرتا تھا اور قوم اس کی ہاں میں ہاں ملاتی تھی ۔ شاید اسی لیے یصنع کے فاعل کے طور پر فرعون اور اس کی قوم کا الگ الگ ذکر آیا ہے ۔ کیونکہ الزامات فرعون گھڑتا تھا اور قوم اس کی ہم نوا ہوتی تھی ۔ مثلا یہ کہ یہ جادو گر تم لوگوں کو تمہاری زمین سے نکالنا چاہتا ہے ، تمہاری بےمثال تہذیب کو تباہ کرنا چاہتا ہے، جادوگروں کی شکست ان کی اور موسیٰ کی ملی بھگت کا نتیجہ تھی ، موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے عذاب ٹل جانے پر وعدہ نہ پورا کرنے کے لیے حیلے بہانے تراشنا ، وغیرہ وغیرہ یصنع کا اگر یہ مفہوم ہے تو پھر یعرشون کو بھی اس کے عمومی مفہوم پر محمول کرنا ہوگا اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ فرعون جو کچھ گھڑتا تھا، حکومت کی مشینری پروپیگنڈے کے ذریعے اسے لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کردیتی تھی تاکہ لوگوں کو موسیٰ کی رسالت اور بنو اسرائیل کی آزادی کے مطالبہ کی صداقت پر غور کرنے کا موقع نہ ملے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ یصنع کے مفہوم میں فرعون اور قوم فرعون کی بنائی ہوئی چیزوں میں ان کے مکانات وعمارات اور گھریلو ضرورت کے سامان ، نیز وہ مختلف قسم کی تدبیریں جو وہ موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کے لیے کرتے تھے ۔ سب داخل ہیں ۔ (معارف القرآن )

وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰي قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰٓي اَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوْا يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰـهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ  ۭقَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ   ١٣٨؁
[ وَجٰوَزْنَا: اور ہم نے پار کرایا] [ بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ: بنی اسرائیل کو] [ الْبَحْرَ: سمندر کے ] [ فَاَتَوْا: تو وہ پہنچے ] [ عَلٰي قَوْمٍ: ایک ایسی قوم پر ] [ يَّعْكُفُوْنَ: جو چپکے بیٹھے ہوئے تھے ] [ عَلٰٓي اَصْنَامٍ لَّهُمْ: اپنے کچھ بتوں پر ] [ قَالُوْا: انھوں نے کہا] [ يٰمُوْسَى: اے موسیٰ ] [ اجْعَلْ: آپ بنادیں ] [ لَّنَآ: ہمارے لیے ] [ اِلٰـهًا: ایک الہ ] [ كَمَا: جیسے کہ ] [ لَهُمْ: ان کے لیے] [ اٰلِهَةٌ : کچھ الہ ہیں ] [ قَالَ: (موسی نے ) کہا ] [ اِنَّكُمْ: بیشک تم لوگ ] [ قَوْمٌ: ایک ایسی قوم ہو ] [ تَجْـهَلُوْنَ: جو غلط عقائد رکھتی ہے ]



ترکیب: (آیت ۔ 138) جاوز ، (مفاعلہ ) کے معنی ہیں دریا کو پار کرنا ۔ باکے صلہ کے ساتھ معنی ہوجاتے ہیں کسی کو پار کرانا ۔ قوم نکرہ مخصوصہ ہے جبکہ یعکفون اس کی خصوصیت اور حال ہے ۔

اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيْهِ وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    ١٣٩؁
[ اِنَّ: یقینا ] [ هٰٓؤُلَاۗءِ: یہ !] [ مُتَبَّرٌ: برباد کیا ہوا ہے ] [ مَّا: وہ ] [ هُمْ: یہ لوگ ] [ فِيْهِ: جس میں ہیں ] [ وَبٰطِلٌ: اور باطل ہے ] [ مَّا: وہ جو ] [ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ: یہ لوگ کرتے ہیں ]



ت ب ر : (س) تبرا ۔ ہلاک ہونا ۔ برباد ہونا ۔ تبار ۔ اسم ذات ہے ، تباہی ۔ بربادی ۔ ولا تزد الظلمین الا تبارا [ اور تو زیادہ نہ کر ظالموں کو مگر تباہی میں ] 71:28۔ تفعیل ۔ تتبیرا ۔ تباہ کرنا ۔ برباد کرنا ۔ وکلا تبرنا تتبیرا [ اور سب کو ہم نے برباد کیا جیسا برباد کرنے کا حق ہے ] 25:39۔ متبرا ، اسم المفعول ہے اور ظرف بھی (1) برباد کیا ہوا ۔ (2) بربادشدہ جگہ ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 139۔



 (آیت ۔ 139) ما ھم مبتدا مؤخر ہے ، متبر اس کی خبر مقدم ہے اور فیہ متعلق خبر ہے ۔ پھر یہ پورا جملہ ان ھولاء کی خبر ہے ۔ اسی طرح ما مبتداء مؤخر ہے ، بطل اس کی خبر مقدم ہے اور جملہ فعلیہ کانوا یعملون متعلق خبر ہے اس لیے اس کا ترجمہ حال میں ہوگا ۔

قَالَ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْكُمْ اِلٰهًا وَّهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ    ١٤٠؁
[ قَالَ: (موسی نے ) کہا ] [ اَ: کیا] [ غَيْرَ اللّٰهِ: اللہ کے علاوہ کو ] [ اَبْغِيْكُمْ: میں چاہوں تمہارے لیے ] [ اِلٰهًا: بطور الہ ] [ وَّ: حالانکہ ] [ هُوَ: اس نے ] [ فَضَّلَكُمْ: فضیلت دی ہے تم کو ] [ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ: تمام جہانوں پر ]

وَاِذْ اَنْجَيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ۚ يُقَتِّلُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَ يَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ  ۭوَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ     ١٤١؀ۧ
[ وَاِذْ: اور جب ] [ اَنْجَيْنٰكُمْ: ہم نے نجات دی تم کو ] [ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ: فرعون کے پیروکاروں سے ] [ يَسُوْمُوْنَكُمْ: وہ تکلیف دیتے تھے تم کو ] [ سُوْۗءَ الْعَذَابِ: برے عذاب کی ] [ يُقَتِّلُوْنَ: وہ قتل کرتے تھے] [ اَبْنَاۗءَكُمْ: تمہارے بیٹوں کو ] [ وَ يَسْتَحْيُوْنَ: اور زندہ رکھتے تھے ] [ نِسَاۗءَكُمْ: تمہاری عورتوں کو ] [ وَفِيْ ذٰلِكُمْ: اور اس میں ] [ بَلَاۗءٌ: ایک آزمائش تھی ] [ مِّنْ رَّبِّكُمْ: تمہارے رب (کی طرف ) سے [ عَظِيْمٌ: ایک بڑی (آزمائش ) ]



 (آیت ۔ 141) سوء العذاب مرکب اضافی ہے لیکن اس کا ترجمہ مرکب توصیفی میں ہوگا (دیکھیں آیت 20:94، نوٹ ۔3) کی رفع بتا رہی ہے کہ یہ بلاء کی صفت ہے اگر رب کی ہوتی تو عظیم آتی ۔

وَوٰعَدْنَا مُوْسٰي ثَلٰثِيْنَ لَيْلَةً وَّاَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيْقَاتُ رَبِّهٖٓ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً   ۚ وَقَالَ مُوْسٰي لِاَخِيْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ    ١٤٢؁
وَوٰعَدْنَا: اور ہم نے وعدہ کیا ] [ مُوْسٰي: موسیٰ سے ] [ ثَلٰثِيْنَ لَيْلَةً: تیس راتوں کا ] [ وَّاَتْمَمْنٰهَا: اور ہم نے مکمل کیا انہیں ] [ بِعَشْرٍ: دس سے ] [ فَتَمَّ: تو پورا ہوا] [ مِيْقَاتُ رَبِّهٖٓ: ان کے رب کا طے شدہ وقت ] [ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً: چالیس راتوں کا ] [ وَقَالَ: اور کہا ] [ مُوْسٰي: موسیٰ نے ] [ لِاَخِيْهِ هٰرُوْنَ: اپنے بھائی ہارون سے ] [ اخْلُفْنِيْ: تو میرے پیچھے رہ ] [ فِيْ قَوْمِيْ: میری قوم میں ] [ وَاَصْلِحْ: اور اصلاح کر ] [ وَلَا تَتَّبِعْ: اور پیروی مت کرنا ] [ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ: نظم بگاڑنے والوں کے راستے کی ]



نوٹ۔1: آیت ۔ 142 میں تیس دن کے بجائے تیس راتوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء کی شریعتوں میں مہینے قمری ہوتے ہیں اور قمری مہینہ چاند دیکھنے سے شروع ہوتا ہے ، جو کہ رات ہی میں ہو سکتا ہے ۔ اس لیے قمری مہینہ رات سے شروع ہوتا ہے ۔ پھر اس کی ہرتاریخ آفتاب سے شمار ہوتی ہے ۔ جتنے آسمانی مذاہب ہیں ان سب کا حساب اسی طرح قمری مہینوں سے شروع ہوتا ہے اور تاریخ غروب آفتاب سے شمار کی جاتی ہے ۔ ابن عربی کا قول ہے کہ شمسی حساب دنیوی منافع کے لیے ہے اور قمری حساب اداء عبادات کے لیے ہے ۔ (معارف القرآن )

وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰي لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ  ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ    ۭقَالَ لَنْ تَرٰىنِيْ وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْـتَــقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِيْ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّخَرَّ مُوْسٰي صَعِقًا   ۚ فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ   ١٤٣؁
[ وَلَمَّا: اور جب ] [ جَاۗءَ: آئے ] [ مُوْسٰي: موسیٰ ] [ لِمِيْقَاتِنَا: ہماری طے شدہ جگہ پر ] [ وَكَلَّمَهٗ: اور کلام کیا ان پر ] [ رَبُّهٗ: ان کے رب نے ] [ قَالَ: تو انہوں نے کہا ] [ رَبِّ: اے میرے رب ] [ اَرِنِيْٓ: تو مجھے دکھا ] [ اَنْظُرْ: تو میں دیکھوں ] [ اِلَيْكَ: تیری طرف ] [ قَالَ: (اللہ نے) کہا [ لَنْ تَرٰىنِيْ: تو ہر گز نہیں دیکھے گا مجھ کو ] [ وَلٰكِنِ: اور لیکن ] [ انْظُرْ: تو دیکھ ] [ اِلَى الْجَبَلِ: اس پہاڑ کی طرف ] [ فَاِنِ: پھر اگر ] [ اسْـتَــقَرَّ: وہ برقرار رہا ] [ مَكَانَهٗ: اپنی جگہ پر ] [ فَسَوْفَ: تو عنقریب ] [ تَرٰىنِيْ : تو دیکھے گا مجھ کو ] [ ۚ فَلَمَّا: پھر جب ] [ تَجَلّٰى: روشن ہوا ] [ رَبُّهٗ: ان کا رب ] [ لِلْجَبَلِ: اس پہاڑ کے لیے] [ جَعَلَهٗ: تو اس نے کردیا اس کو ] [ دَكًّا: ہموار زمین ] [ وَّخَرَّ: اور گر پڑے ] [ مُوْسٰي: موسیٰ ] [ صَعِقًا ۚ : بیہوش ہوکر ] [ فَلَمَّآ: پھر جب ] [ اَفَاقَ: افاقہ ہوا ] [ قَالَ: تو انہوں نے کہا ] [ سُبْحٰنَكَ: تیری پاکیزگی ہے ] [ تُبْتُ اِلَيْكَ: میں توبہ کرتا ہوں ] [ وَاَنَا: اور میں ] [ اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ: ایمان لانے والوں کا سب سے پہلا ہوں ]



ج ل و : (ن) ۔ جلوا ۔ کسی چیز کو آشکارا کرنا ۔ نمایاں کرنا۔ جلاء ۔ کسی کو شہر سے نکالنا ۔ جلا وطن کرنا۔ ولولا ان کتب اللہ علیہم الجلاء لعذبہم فی الدنیا [ اگر نہ ہوتا کہ لکھا اللہ نے ان پر جلا وطن کرنا تو وہ ضرور عذاب دیتا ان کو دنیا میں ] 59: 3۔ تفعیل ۔ تجلیۃ ۔ کسی چیز کو خوب روشن کرنا ۔ والنھار اذا جلھا [ قسم ہے دن کی جب وہ خوب روشن کردے اس کو ] 91: 3۔ تفعل ۔ تجل ۔ خوب روشن ہونا ۔ جلوہ افروز ہونا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 143۔

د ک ک ـ: (ن) دکا۔ کسی چیز کو کوٹ کرریزہ ریزہ کرنا ۔ وحملت الارض والجبال فدکتا دکۃ واحدۃ [ اور اٹھائی جائے گی زمین اور پہاڑ پھر دونوں کو کوٹ کر ہموار کیا جائے گا ۔ یکبارگی ہموار کرنا ] 69:14۔ دک ، اسم ذات بھی ہے ہموار زمین۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 143۔ دکاء ۔ نرم مٹی کا ٹیلہ ۔ فاذا جاء وعد ربی جعلہ دکاء [ پھر جب آئے گا میرے رب کا وعدہ تو وہ بنا دے گا اس کو ایک نرم مٹی کا ٹیلہ ] 18: 98

خ ر ر : (ض)۔ خرا ، بلندی سے پستی میں گرنا۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 143۔

قَالَ يٰمُوْسٰٓي اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ  ڮ فَخُذْ مَآ اٰتَيْتُكَ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ   ١٤٤؁
[ قَالَ: (اللہ نے ) کہا ] [ يٰمُوْسٰٓي: اے موسیٰ ] [ اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ: میں نے ترجیح دی تجھ کو ] [ عَلَي النَّاسِ: لوگوں پر ] [ بِرِسٰلٰتِيْ: اپنے پیغام کے لیے ] [ وَبِكَلَامِيْ: اور اپنے کلام کے لیے] [ ڮ فَخُذْ: پس تو پکڑ ] [ مَآ: اس کو جو ] [ اٰتَيْتُكَ: میں نے جو دیا تجھ کو ] [ وَكُنْ: اور تو ہوجا ] [ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ: شکر کرنے والوں میں سے ]

وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ  ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا   ۭ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ   ١٤٥؁
[ وَكَتَبْنَا: اور ہم نے لکھا ] [ لَهٗ: اس کے لیے ] [ فِي الْاَلْوَاحِ: تختیوں پر ] [ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ: سب چیزوں میں سے] [ مَّوْعِظَةً: نصیحت ہوتے ہوئے ] [ وَّتَفْصِيْلًا: اور تفصیل ہوتے ہوئے ] [ لِّكُلِّ شَيْءٍ ۚ : ہر چیز کے لیے] [ فَخُذْهَا: پس تو پکڑ اس کو ] [ بِقُوَّةٍ: قوت سے ] [ وَّاْمُرْ: اور تو حکم دے ] [ قَوْمَكَ: اپنی قوم کو ] [ يَاْخُذُوْا: کہ وہ لوگ پکڑیں ] [ بِاَحْسَنِهَا ۭ : اس کے بہترین کو ] [ سَاُورِيْكُمْ: میں دکھاؤں گا تم لوگوں کو ] [ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ: نافرمانی کرنے والوں کا گھر ]



ل وح : ۔ لوحا ، کسی چیز کا نمایاں ہونا۔ لوحا ۔ گرم ہونا ۔ پیاسا ہونا ۔ لوح ۔ ج، الواح ، اسم ذات بھی ہے ۔ ہر چوڑی چیز جیسے لکھنے کی تختی ، کشتی کے تختے وغیرہ ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 145۔ اور بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ [ بلکہ وہ قرآن مجید ہے ایک محفوظ تختی میں ] 85:21۔ 22۔ وحملنہ علی ذات الواح ودسر [ اور ہم نے کیا اس کو کچھ تختوں اور کیلوں والی پر ] 54 :13۔ لواح ۔ فعال کے وزن پر مبالغہ ہے ۔ بہت گرم ہونے والا ۔ جھلسنے والا ۔ لواحۃ للبشر [ جھلسنے والی ہے کھال کو ] 74:29۔



ترکیب: (آیت ۔ 145) فعل امر ، وامر کا جواب امر ہونے کی وجہ سے یاخذوا مجزوم ہوا ہے ۔ اور بکم میں واو زائدہ ہے اور قرآن مجید کا مخصوص املا ہے ۔



نوٹ۔1: آیت ۔ 145 میں باحسنھا سے مراد احکام الہی کا وہ صاف اور سیدھا مفہوم ہے جو عقل عام سے ہر وہ شخص سمجھ لے گا جس کی نیت میں فساد اور دل میں کجی نہ ہو ۔ اور دار الفسقین دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ ان قوموں کے آثار قدیمہ پر سے گزروگے جنہوں نے اللہ کی بندگی اور اطاعت سے منہ موڑا ۔ انہیں دیکھ کر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ایسی روش اختیار کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے ۔ (تفہیم القرآن )

سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ  ۭ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِهَا   ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا   ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا   ۭذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ    ١٤٦؁
[ سَاَصْرِفُ: میں پھیر دوں گا ] [ عَنْ اٰيٰتِيَ: اپنی نشانیوں سے ] [ الَّذِيْنَ: ان لوگوں کو جو ] [ يَتَكَبَّرُوْنَ: بڑے بنتے ہیں ] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں ] [ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۭ : حق کے بغیر ] [ وَاِنْ: اور اگر ] [ يَّرَوْا: وہ لوگ دیکھیں ] [ كُلَّ اٰيَةٍ: ساری نشانیاں ] [ لَّا يُؤْمِنُوْا: تو (بھی ) ایمان نہیں لائیں گے ] [ بِهَا ۚ : ان پر ] [ وَاِنْ: اور اگر ] [ يَّرَوْا: وہ دیکھیں ] [ سَبِيْلَ الرُّشْدِ: ہدایت کے راستے کو ] [ لَا يَتَّخِذُوْهُ: تو نہیں پکڑیں گے اس کو ] [ سَبِيْلًا ۚ : بطور راستے کے ] [ وَاِنْ: اور اگر ] [ يَّرَوْا: وہ دیکھیں ] [ سَبِيْلَ الْغَيِّ: گمراہی کے راستے کو ] [ يَتَّخِذُوْهُ: تو پکڑیں گے اس کو] [ سَبِيْلًا ۭ: بطور راستے کے ] [ ذٰلِكَ: یہ ہے ] [ بِاَنَّهُمْ: بسبب اس کے کہ انہوں نے ] [ كَذَّبُوْا: جھٹلایا ] [ بِاٰيٰتِنَا: ہماری نشانیوں کو ] [ وَكَانُوْا: اور وہ لوگ تھے ] [ عَنْهَا: ان سے] [ غٰفِلِيْنَ: غفلت برتنے والے ]

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ۭ هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    ١٤٧؀ۧ
[ وَالَّذِيْنَ: اور جنہوں نے ] [ كَذَّبُوْا: جھٹلایا ] [ بِاٰيٰتِنَا: ہماری نشانیوں کو ] [ وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ: اور آخرت کی ملاقات کو ] [ حَبِطَتْ: اکارت ہوئے] [ اَعْمَالُهُمْ ۭ : ان کے اعمال ] [ هَلْ يُجْزَوْنَ: انہیں کیا بدلہ دیا جائے گا ] [ اِلَّا: سوائے اس کے ] [ مَا: جو ] [ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ: وہ لوگ کرتے تھے ]



(آیت ۔ 147) بایتنا کی ب پر عطف ہونے کی وجہ سے لقاء حالت جر میں آیا ہے ۔



نوٹ ۔ 2: آیت ۔ 147 میں حبط اعمال کا مطلب ہے کہ اعمال ضائع ہوگئے ، بار آور نہ ہوئے اور لاحاصل رہے۔ (یعنی زندگی میں اگر کچھ نیکیاں کی بھی تھیں تو آخرت میں ان کا کوئی اجر وثواب نہیں ملا ۔ مرتب ) اللہ تعالیٰ کے ہاں انسانی سعی وعمل کے بار آور ہونے کا انحصار کلیتا دو امور پر ہے ۔ ایک یہ کہ وہ سعی وعمل اللہ کے قانون شرعی کی پابندی میں ہو ۔ دوسرے یہ کہ اس سعی وعمل میں دنیا کے بجائے آخرت کی کامیابی پیش نظر ہو ۔ یہ دو شرطیں جہاں پوری نہ ہوں گی وہاں لازما حبط عمل واقع ہوگا ۔ جس نے اللہ کی ہدایت سے منہ موڑ کر ، باغیانہ انداز میں دنیا میں کام کیا ، ظاہر ہے کہ وہ اللہ سے کسی اجر کی توقع رکھنے کا حقدار نہیں ہوسکتا ۔ اور جس نے سب کچھ دنیا ہی کے لیے کیا اور آخرت کے لیے کچھ نہ کیا وہ کس طرح آخرت میں پھل پائے گا ۔ (تفہیم القرآن )

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰي مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ  ۭ اَلَمْ يَرَوْا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيْهِمْ سَبِيْلًا    ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَكَانُوْا ظٰلِمِيْنَ    ١٤٨؁
[ وَاتَّخَذَ: اور بنایا ] [ قَوْمُ مُوْسٰي: موسیٰ کی قوم نے ] [ مِنْۢ بَعْدِهٖ: ان کے بعد] [ مِنْ حُلِيِّهِمْ: اپنے زیورات سے ] [ عِجْلًا: ایک بچھڑا ] [ جَسَدًا: جوایک ڈھانچا تھا ] [ لَّهٗ: اس کے لیے ] [ خُوَارٌ ۭ : گائے کی ایک آواز تھی ] [ اَلَمْ يَرَوْا: کیا انہوں نے دیکھا ہی نہیں ] [ اَنَّهٗ: کہ وہ ] [ لَا يُكَلِّمُهُمْ: کلام نہیں کرتا ان سے ] [ وَلَا يَهْدِيْهِمْ: اور نہ ہی وہ ہدایت دیتا ہے ان کو ] [ سَبِيْلًا ۘ : کسی راستے کی ] [ اِتَّخَذُوْهُ: انہوں نے بنایا اس کو (الہ) ] [ وَكَانُوْا: اور وہ لوگ تھے ] [ ظٰلِمِيْنَ: ظلم کرنے والے ]



ح ل ی : (س) ۔ حلیا ۔ عورت کا زیور پہننا ۔ حلیۃ ، ج: حلی ۔ زیور ۔ وتستخرجوا منہ حلیۃ [ اور تاکہ تم لوگ نکالواس سے کوئی زیور ] 16:14۔ اور زیر مطالعہ آیت ۔ 148۔ (تفعیل ) تحلیۃ ۔ زیور پہنانا ۔ آراستہ کرنا ۔ یحلون فیھا من اساور من ذھب [ وہ لوگ آراستہ کیے جائیں گے اس میں سونے کے ، کنگنوں سے ] 18:31۔

ج س د : (س) ۔ جسدا ، خون کا چپکنا ۔ چمٹنا ۔ جسد ۔ اسم ذات بھی ہے ۔ بےجان جسم ۔ دھڑ ۔ ڈھانچا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 148۔

خ و ر: (ن) خوار ۔ گائے کا ڈکارنا ۔ آواز کرنا ۔ خوار۔ اسم ذات بھی ہے ۔ گائے کی آواز ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 148۔



ترکیب: (آیت ۔ 148) واتخذ کا فاعل قوم موسیٰ ہے ۔ اس کا مفعول عجلا ہے ۔ جبکہ جسدا بدل ہے عجلا کا ۔ خوار مبتدا مؤخر نکرہ ہے، اس کی خبر محذوف ہے اور لہ قائم مقام خبر مقدم ہے ۔

وَلَمَّا سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ وَرَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْا  ۙ قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ     ١٤٩؁
[ وَلَمَّا: اور جب ] [ سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ: وہ لوگ پچھتائے ] [ وَرَاَوْا: اور انہوں نے دیکھا ] [ اَنَّهُمْ: کہ وہ ] [ قَدْ ضَلُّوْا ۙ : گمراہ ہوگئے ہیں ] [ قَالُوْا: توانہوں نے کہا ] [ لَىِٕنْ: یقینا اگر ] [ لَّمْ يَرْحَمْنَا: رحم نہ کیا ہم نے ] [ رَبُّنَا: ہمارے رب نے ] [ وَيَغْفِرْ لَنَا: اور نہ بخشا ہم کو ] [ لَنَكُوْنَنَّ: تو ہم لازما ہوجائیں گے ] [ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ: خسارہ پانے والوں میں سے]

وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓي اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا   ۙ قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِيْ مِنْۢ بَعْدِيْ  ۚ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ ۚ وَاَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِيْهِ يَجُرُّهٗٓ اِلَيْهِ  ۭ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِيْ وَكَادُوْا يَقْتُلُوْنَنِيْ ڮ فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْاَعْدَاۗءَ وَلَا تَجْعَلْنِيْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ    ١٥٠؁
[ وَلَمَّا: اور جب ] [ رَجَعَ: لوٹے ] [ مُوْسٰٓي: موسیٰ ] [ اِلٰى قَوْمِهٖ: اپنی قوم کی طرف ] [ غَضْبَانَ: غضبناک ہوتے ہوئے ] [ اَسِفًا ۙ : غمگین ہوتے ہوئے ] [ قَالَ: تو انہوں نے کہا ] [ بِئْسَمَا: کتنی بری ہے وہ جو ] [ خَلَفْتُمُوْنِيْ: تم لوگوں نے جانشینی کی میری ] [ مِنْۢ بَعْدِيْ ۚ : میرے بعد ] [ اَ: کیا ] [ عَجِلْتُمْ: جلدبازی کی تم لوگوں نے ] [ اَمْرَ رَبِّكُمْ ۚ : اپنے رب کے حکم سے (پہلے) ] [ وَاَلْقَى: اور انہوں نے ڈالا ] [ الْاَلْوَاحَ: تختیوں کو ] [ وَاَخَذَ: اور پکڑا ] [ بِرَاْسِ اَخِيْهِ: اپنے بھائی کے سر کو ] [ يَجُرُّهٗٓ: کھینچتے ہوئے اس کو ] [ اِلَيْهِ ۭ : اپنی طرف ] [ قَالَ: (ہارون نے ) کہا ] [ ابْنَ اُمَّ: اے میری ماں کے بیٹے ] [ اِنَّ الْقَوْمَ: بیشک قوم نے ] [ اسْتَضْعَفُوْنِيْ: کمزور سمجھا مجھ کو ] [ وَكَادُوْا: اور قریب تھا کہ وہ لوگ ] [ يَقْتُلُوْنَنِيْ ڮ : قتل کرتے مجھ کو ] [ فَلَا تُشْمِتْ: پس تو خوش مت کر ] [ بِيَ: مجھ سے ] [ الْاَعْدَاۗءَ : دشمنوں کو ] [ وَلَا تَجْعَلْنِيْ: اور تو مت بنا مجھ کو ] [ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ : ظلم کرنے والے لوگوں کے ساتھ ]



ء س ف : (س) ۔ اسفا ، افسوس کرنا ۔ غمگین ہونا ۔ اسف ۔ صفت ہے۔ افسوسناک ۔ غمگین ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 150۔ اسف ۔ اسم ذات ہے ۔ افسوس ۔ غم ۔ یاسفی علی یوسف [ اے میرا افسوس ! یوسف (کی جدائی ) پر ] 12:84۔ (افعال) ایسافا ۔ غمگین کرنا ۔ غصہ دلانا ۔ فلما اسفونا انتقمنا منہم [ پھر جب انہوں نے غصہ دلایا ہم کو تو ہم نے انتقام لیا ان سے ] 43: 55۔

ج ر ر : (ن) جرا ، کھینچنا ۔ گھسیٹنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 150۔

ش م ت : (س) شماتا ۔ کسی کو مصیبت پر خوش ہونا۔ (افعال ) اشماتا ۔ کسی کو تکلیف دے کر دوسروں کو خوش کرنا ۔ دشمن کو خوش کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 150۔



(آیت ۔ 150) جب منادی کے طور پر آتا ہے تو ابن ام ایک لفظ کے طور پر آتا ہے اس لیے ام پر بھی نصب آئی ہے۔ اس کا مضاف الیہ یائے متکلم ہے جو گری ہوئی ہے ۔



نوٹ۔ 1: آیت ۔ 150۔ میں ایک بہت بڑے الزام سے حضرت ہارون علیہ السلام کو بری کیا گیا ہے ۔ جو یہودیوں نے ان پر لگایا ہے ۔ ہائبل میں ہے کہ بنی اسرائیل کی فرمائش پر حضرت ہارون علیہ السلام نے سونے کا ایک بچھڑا بنا کردیا اور اس کے لیے قربان گاہ بنائی ۔ ( خروج ۔ باب 32۔ آیت ۔1۔6)

یہ عجیب بات ہے کہ بنی اسرائیل جن کو اللہ کا پیغمبر مانتے ہیں ، ان میں سے کسی کی بھی سیرت کو انہوں نے داغدار کیے بغیر نہیں چھوڑا ، اور الزام بھی ایسے سخت لگائے جو اخلاق وشریعت کی نگاہ میں بدترین جرائم شمار ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قوم جب اخلاقی پستیوں میں گری اور ان کے علماء ومشائخ بھی ان میں ملوث ہوئے، تو انہوں نے ان تمام جرائم کو انبیاء کی طرف منسوب کرڈالا ۔ جن کا وہ خود ارتکاب کرتے تھے، تاکہ یہ کہا جا سکے کہ جب نبی تک ان چیزوں سے نہ بچ تو پھر کون بچ سکتا ہے ، اس معاملہ میں یہودیوں کا حال ہندوؤں سے ملتا جلتا ہے ۔ انہوں نے بھی اپنے دیوتاؤں اور اوتاروں کی زندگیاں بداخلاقی کے افسانوں سے سیاہ کی ہوئی ہیں تاکہ پنڈتوں اور پروہتوں کی اخلاقی پستیوں کا جواز رہے ۔ (تفہیم القرآن )

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاَخِيْ وَاَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِكَ ڮ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ     ١٥١؀ۧ
[ قَالَ: (موسی نے ) کہا ] [ رَبِّ: اے میرے رب ] [ اغْفِرْ لِيْ: تو بخش دے مجھ کو ] [ وَلِاَخِيْ: اور میرے بھائی کو ] [ وَاَدْخِلْنَا: اور تو داخل کر ہم دونوں کو ] [ فِيْ رَحْمَتِكَ ڮ : اپنی رحمت میں ] [ وَاَنْتَ: اور تو ] [ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ: رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ]

اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا  وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِيْنَ    ١٥٢؁
[ اِنَّ: بیشک ] [ الَّذِيْنَ: جن لوگوں نے ] [ اتَّخَذُوا: بنایا ] [ الْعِجْلَ: بچھڑے کو (الہ ) ] [ سَيَنَالُهُمْ: ان کو پہنچے گا ] [ غَضَبٌ: ایک غضب ] [ مِّنْ رَّبِّهِمْ: ان کے رب (کی طرف) سے ] [ وَذِلَّةٌ: اور کچھ ذلت ] [ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی میں ] [ وَكَذٰلِكَ: اور اس طرح ] [ نَجْزِي: ہم بدلہ دیتے ہیں ] [ الْمُفْتَرِيْنَ: گھڑنے والوں کو ]

وَالَّذِيْنَ عَمِلُوا السَّيِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِهَا وَاٰمَنُوْٓا  ۡ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     ١٥٣؁
[ وَالَّذِيْنَ: اور جنھوں نے ] [ عَمِلُوا: عمل کیے ] [ السَّيِّاٰتِ: برائیوں کے ] [ ثُمَّ: پھر ] [ تَابُوْا: انہوں نے توبہ کی ] [ مِنْۢ بَعْدِهَا: ان کے بعد] [ وَاٰمَنُوْٓا ۡ : اور ایمان لائے ] [ اِنَّ: بیشک ] [ رَبَّكَ: آپ کا رب ] [ مِنْۢ بَعْدِهَا: اس کے بعد (یعنی باوجود )] [ لَغَفُوْرٌ: یقینا بےانتہا بخشنے والا ہے ] [ رَّحِيْمٌ: ہر حال میں رھم کرنے والا ہے ]

وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ    ښ وَفِيْ نُسْخَتِهَا هُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلَّذِيْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُوْنَ   ١٥٤؁
[ وَلَمَّا: اور جب ] [ سَكَتَ: تھم گیا ] [ عَنْ مُّوْسَى: موسیٰ سے ] [ الْغَضَبُ: غصہ ] [ اَخَذَ: تو انہوں نے پکڑا ] [ الْاَلْوَاحَ ښ : تختیوں کو ] [ وَفِيْ نُسْخَتِهَا: اور ان کی تحریر میں ] [ هُدًى: ہدایت تھی ] [ وَّرَحْمَةٌ: اور رحمت تھی ] [ لِّلَّذِيْنَ: ان کے لیے جو ] [ هُمْ لِرَبِّهِمْ: اپنے رب سے ہی ] [ يَرْهَبُوْنَ: ڈرتے ہیں ]



س ک ت : (ن) سکتا ۔ تھم جانا ۔ ساکت ہونا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 154۔

وَاخْتَارَ مُوْسٰي قَوْمَهٗ سَبْعِيْنَ رَجُلًا لِّمِيْقَاتِنَا   ۚ فَلَمَّآ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِيَّايَ  ۭاَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاۗءُ مِنَّا   ۚ اِنْ هِىَ اِلَّا فِتْنَتُكَ ۭ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاۗءُ وَتَهْدِيْ مَنْ تَشَاۗءُ  اَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الْغٰفِرِيْنَ   ١٥٥؁
[ وَاخْتَارَ: اور چنا ] [ مُوْسٰي: موسیٰ نے ] [ قَوْمَهٗ: اپنی قوم سے ] [ سَبْعِيْنَ رَجُلًا: ستر مرد ] [ لِّمِيْقَاتِنَا ۚ : ہماری مقرر کردہ جگہ کے لیے ] [ فَلَمَّآ: پھر جب ] [ اَخَذَتْهُمُ: پکڑا ان کو ] [ الرَّجْفَةُ: زلزلے نے ] [ قَالَ: تو ( موسیٰ نے ) کہا ] [ رَبِّ: اے میرے رب ] [ لَوْ شِئْتَ: اگر تو چاہتا تو ] [ اَهْلَكْتَهُمْ: تو ہلاک کردیتا ان کو ] [ مِّنْ قَبْلُ: اس سے پہلے ] [ وَاِيَّايَ ۭ : اور مجھ کو بھی ] [ اَ: کیا ] [ تُهْلِكُنَا: تو ہلاک کرتا ہے ہم کو ] [ بِمَا: بسبب اس کے جو ] [ فَعَلَ: کیا ] [ السُّفَهَاۗءُ: بیوقوفوں نے] [ مِنَّا ۚ : ہم میں سے ] [ اِنْ: نہیں ہے ] [ هِىَ: یہ ] [ اِلَّا: مگر ] [ فِتْنَتُكَ ۭ : تیری آزمائش ] [ تُضِلُّ: تو بھٹکاتا ہے ] [ بِهَا: اس سے ] [ مَنْ: اس کو ، جس کو ] [ تَشَاۗءُ : تو چاہتا ہے ] [ وَتَهْدِيْ: اور تو ہدایت دیتا ہے (اس سے )] [ مَنْ: اس کو ، جس کو ] [ تَشَاۗءُ : تو چاہتا ہے ] [ اَنْتَ: تو ] [ وَلِيُّنَا: ہمارا کارساز ہے ] [ فَاغْفِرْ لَنَا: پس تو بخش دے ہم کو ] [ وَارْحَمْنَا: اور تو رحم کر ہم پر ] [ وَاَنْتَ: اور تو ] [ خَيْرُ الْغٰفِرِيْنَ : بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے ]



ترکیب: (آیت ۔ 155) اختار کا مفعول قومہ ہے ، جبکہ سبعین رجلا اس کا بدل البعض ہے ۔

وَاكْتُبْ لَنَا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَـنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَآ اِلَيْكَ   ۭقَالَ عَذَابِيْٓ اُصِيْبُ بِهٖ مَنْ اَشَاۗءُ  ۚ وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ    ١٥٦؀ۚ
[ وَاكْتُبْ: اور تو لکھ دے] [ لَنَا: ہمارے لیے ] [ فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا: اس دنیا میں ] [ حَسَـنَةً: بھلائی ] [ وَّفِي الْاٰخِرَةِ: اور آخرت میں (بھی ) ] [ اِنَّا هُدْنَآ: بیشک ہم نے رجوع کیا ] [ اِلَيْكَ ۭ : تیری طرف ] [ قَالَ: (اللہ تعالیٰ نے ) فرمایا ] [ عَذَابِيْٓ: میرا عذاب ] [ اُصِيْبُ: میں پہنچتا ہوں ] [ بِهٖ: اس کے ساتھ ] [ مَنْ: جس پر ] [ اَشَاۗءُ ۚ : میں چاہتا ہوں ] [ وَرَحْمَتِيْ: اور میری رحمت ] [ وَسِعَتْ: وہ وسیع ہوئی ] [ كُلَّ شَيْءٍ ۭ : ہر چیز پر ] [ فَسَاَكْتُبُهَا: پس میں لکھوں گا اس کو ] [ لِلَّذِيْنَ: ان کے لیے جو ] [ يَتَّقُوْنَ: تقوی کرتے ہیں ] [ وَيُؤْتُوْنَ: اور پہنچاتے ہیں ] [ الزَّكٰوةَ: زکوٰۃ کو ] [ وَالَّذِيْنَ: او وہ ، جو] [ هُمْ بِاٰيٰتِنَا: ہماری نشانیوں پر ہی ] [ يُؤْمِنُوْنَ: ایمان لاتے ہیں ]

اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ ۡ يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۭفَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ  ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ    ١٥٧؀ۧ
[ اَلَّذِيْنَ: وہ لوگ جو ] [ يَتَّبِعُوْنَ: پیروی کرتے ہیں ] [ الرَّسُوْلَ: ان رسول کی ] [ النَّبِيَّ: جو نبی ہیں ] [ الْاُمِّيَّ: امی ہیں ] [ الَّذِيْ: وہ ] [ يَجِدُوْنَهٗ: یہ لوگ پاتے ہیں جن کو ] [ مَكْتُوْبًا: لکھا ہوا ] [ عِنْدَهُمْ: اپنے پاس ] [ فِي التَّوْرٰىةِ: تورات میں ] [ وَالْاِنْجِيْلِ ۡ : اور انجیل میں ] [ يَاْمُرُهُمْ: وہ حکم دیتے ہیں ان کو ] [ بِالْمَعْرُوْفِ: نیکی کا ] [ وَيَنْهٰىهُمْ: اور منع کرتے ہیں ان کو ] [ عَنِ الْمُنْكَرِ: برائی سے ] [ وَيُحِلُّ: اور وہ حلال کرتے ہیں ] [ لَهُمُ: ان کے لیے] [ الطَّيِّبٰتِ: پاکیزہ (چیزوں ) کو ] [ وَيُحَرِّمُ: اور حرام کرتے ہیں ] [ عَلَيْهِمُ: ان پر ] [ الْخَـبٰۗىِٕثَ : ناپاک (چیزوں ) کو ] [ وَيَضَعُ: اور اتارتے ہیں ] [ عَنْهُمْ: ان سے ] [ اِصْرَهُمْ: ان کے بوجھ کو ] [ وَالْاَغْلٰلَ: اور ان طوقوں کو ] [ الَّتِيْ: جو کہ ] [ كَانَتْ: تھے ] [ عَلَيْهِمْ: ان پر ] [ ۭفَالَّذِيْنَ: پس جو لوگ ] [ اٰمَنُوْا: ایمان لائے ] [ بِهٖ: ان پر ] [ وَعَزَّرُوْهُ: اور تقویت دی ان کو ] [ وَنَصَرُوْهُ: اور مدد کی ان کی ] [ وَاتَّبَعُوا: اور پیروی کی ] [ النُّوْرَ: اس نور کی ] [ الَّذِيْٓ: جو کہ ] [ اُنْزِلَ: اتارا گیا ] [ مَعَهٗٓ ۙ : ان کے ساتھ ] [ اُولٰۗىِٕكَ: تو وہ لوگ ] [ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ: ہی مراد پانے والے ہیں ]



 (آیت ۔ 157) النبی اور الامی یہ دونوں الرسول کی صفت ہیں لیکن ترجمہ بدل کے طور پر بہتر ہوگا ۔



نوٹ ۔ 1: آیت نمبر ۔ 157۔ میں فلاح پانے کے لیے چار شرطین ذکر کی گئی ہیں ۔ اول رسول اللہ
پر ایمان ۔ دوم آپ کی تکریم ۔ سوم آپ کی امداد ۔ چہارم قرآن کی اتباع ۔ زمانہ نبوت میں تویہ تائید ونصرت آپ کی ذات کے متعلق تھی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے دین کی تائید ونصرت ہی رسول اللہ کی تائید ونصرت ہے ۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ آیت کے شروع میں النبی الامی کی اتباع کا ذکر ہے اور آیت کے آخر میں اس نور کی اتباع کا ذکر ہے جو آپ کے ساتھ اتارا گیا یعنی قرآن مجید ۔ اس سے ثابت ہوا کہ نجات آخرت قرآن وسنت دونوں کے اتباع پر موقوف ہے ۔ (معارف القرآن )

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ   ١٥٨؁
[ قُلْ: آپ کہئے ] [ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ: اے لوگو] [ اِنِّىْ: بیشک میں ] [ رَسُوْلُ اللّٰهِ: اللہ کا رسول ہوں ] [ اِلَيْكُمْ: تم لوگوں کی طرف ] [ جَمِيْعَۨا : سب کی طرف ] [ الَّذِيْ: اس (اللہ ) کا ] [ لَهٗ: جس کی ہی ] [ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ : زمین اور آسمانوں کی حکومت ہے ] [ لَآ اِلٰهَ: کوئی الہ نہیں ہے ] [ اِلَّا: مگر ] [ هُوَ: وہی ] [ يُـحْيٖ: وہ زندگی دیتا ہے ] [ وَيُمِيْتُ ۠ : اور وہ (ہی ) موت دیتا ہے ] [ فَاٰمِنُوْا: پس تم لوگ ایمان لاؤ] [ بِاللّٰهِ: اللہ پر ] [ وَرَسُوْلِهِ: اور اس کے رسول پر ] [ النَّبِيِّ: جو نبی ہیں ] [ الْاُمِّيِّ: امی ہیں ] [ الَّذِيْ: جو ] [ يُؤْمِنُ: ایمان رکھتے ہیں ] [ بِاللّٰهِ: اللہ پر ] [ وَكَلِمٰتِهٖ: اور اس کے فرمانوں پر ] [ وَاتَّبِعُوْهُ: اور تم لوگ پیروی کرو ان کی ] [ لَعَلَّكُمْ: شائد کہ تم لوگ ] [ تَهْتَدُوْنَ: ہدایت پاؤ]



نوٹ ۔ 1ـ : آیت ۔ 158۔ اس بات کی دلیل ہے کہ نبوت رسول اللہ
پر ختم ہوگئی اور آپ قیامت تک ساری دنیا کے پیغمبر ہیں ۔ غزوہ تبوک میں آپ تہجد کی نماز کے لیے اٹھے تو کچھ صحابہ کرام آپ کی حفاظت کرنے لگے ۔ نماز کے بعد آپ نے فرمایا کہ پانچ چیزیں خصوصیت کے ساتھ مجھے دی گئی ہیں ۔ مجھ سے پہلے یہ رعایتیں کسی دوسرے پیغمبر کو نہیں دی گئیں ۔ (1) میں دنیا جہان کے لوگوں کی طرف پیغمبر بن کر آیا ہوں ۔ اس سے پہلے کوئی رسول صرف اپنی قوم کی طرف ہی رسول ہو کر آتا رہا ہے ۔ (2) مجھے صرف رعب سے ہی دشمن پر نصرت حاصل ہوجاتی ہے ۔ (3) مال غنیمت میرے اور میری امت کے لیے حلال کردیا گیا ۔ مجھ سے پہلے مال غنیمت کھانا گناہ کبیرہ تھا۔ (4) ساری زمین میرے لیے پاک ہے اور مسجد ہے ۔ جہاں کہیں نماز کا وقت آیا اسی مٹی سے مسح یعنی تیمم کیا اور اسی مٹی پر نماز پڑھ لی۔ مجھے سے پہلے لوگ صرف اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرتے تھے ۔ (5) مجھ سے کہا گیا کہ ایک درخواست کی اجازت ہے ، مانگ لو ۔ میں نے اپنا سوال یوم قیامت پر اٹھا رکھا ہے ۔ وہ تمہارے لیے ہے اور قائل توحید کے لیے ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ کسی یہودی یا نصرانی نے میری امت سے میرے آنے کی خبر سن لی مگر مجھ پر ایمان نہیں لایا تو وہ جنت میں نہیں جا سکتا ۔ (ابن کثیر )

وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ     ١٥٩؁
[ وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي: اور موسیٰ کی قوم میں سے ] [ اُمَّةٌ: ایک ایسا گروہ ہے ] [ يَّهْدُوْنَ: جو ہدایت دیتا ہے ] [ بِالْحَقِّ: حق کے ساتھ ] [ وَبِهٖ: اور اس کے ساتھ ] [ يَعْدِلُوْنَ: عدل کرتا ہے ]

وَقَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا  ۭوَاَوْحَيْنَآ اِلٰي مُوْسٰٓي اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۚ فَانْۢبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا  ۭقَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۭوَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى ۭكُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ۭوَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ     ١٦٠؁
[ وَقَطَّعْنٰهُمُ: اور ہم نے تقسیم کیا ان کو ] [ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ: بارہ (قبیلوں ) میں ] [ اَسْبَاطًا: نسلیں ہوتے ہوئے ] [ اُمَمًا ۭ : گروہ در گروہ ہوتے ہوئے ] [ وَاَوْحَيْنَآ: اور ہم نے وحی کیا ] [ اِلٰي مُوْسٰٓي: موسیٰ کی طرف ] [ اِذِ: جب ] [ اسْتَسْقٰىهُ: پانی مانگا ان سے] [ قَوْمُهٗٓ: ان کی قوم نے ] [ اَنِ: کہ ] [ اضْرِبْ: آپ ماریے ] [ بِّعَصَاكَ: اپنی لاٹھی سے ] [ الْحَجَرَ ۚ : اس پتھر کو ] [ فَانْۢبَجَسَتْ: تو پھوٹ بہے ] [ مِنْهُ: اس سے ] [ اثْنَتَا عَشْرَةَ: بارہ ] [ عَيْنًا ۭ: چشمے] [ قَدْ عَلِمَ: جان لیا ] [ كُلُّ اُنَاسٍ: سب لوگ نے (یعنی قبیلہ ) ] [ مَّشْرَبَهُمْ: اپنی پینے کی جگہ کو ] [ ۭوَظَلَّلْنَا: اور ہم نے سایہ کیا ] [ عَلَيْهِمُ: ان پر ] [ الْغَمَامَ: بادل کا ] [ وَاَنْزَلْنَا: اور ہم نے اتارا ] [ عَلَيْهِمُ: ان پر ] [ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى ۭ: من وسلوی ] [ كُلُوْا: کھاؤ] [ مِنْ طَيِّبٰتِ مَا: اسکی پاکیزہ (چیزوں) میں سے جو ] [ رَزَقْنٰكُمْ ۭ: ہم نے عطا کیا تم کو ] [ وَمَا ظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا ] [ وَلٰكِنْ: اور لیکن (یعنی بلکہ )] [ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ: وہ لوگ ظلم کرتے تھے آپنے آپ پر ]



ب ج س : (ن ، ض) بجسا ۔ زخم چیر نا ۔ کسی تنگ جگہ سے پانی جاری کرنا ۔ (انفعال ) انبجاسا۔ کسی تنگ جگہ سے پانی جاری ہونا ۔ پھوٹ بہنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 160۔



ترکیب : (آیت ۔ 160) قطعنا کا مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے اثنتی عشرۃ حالت نصب میں آیا ہے ۔ اسباطا اور امما اس کے معدود یعنی تمیز نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ جمع کے الفاظ ہیں ۔ اس لیے اثنتی عشرۃ کا معدود محذوف ہے ۔ جو کہ قبیلۃ ہوسکتا ہے ۔ جبکہ اسباطا اور امما حال ہیں ۔ (آیت ۔ 160) انبجست کا فاعل ہونے کی وجہ سے اثنتا عشرۃ حالت رفع میں ہے اور عینا اس کا معدود یعنی تمیز ہے۔

وَاِذْ قِيْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُوْا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيْۗـــٰٔــتِكُمْ ۭسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ     ١٦١؁
[ وَاِذْ: اور جب ] [ قِيْلَ: کہا گیا ] [ لَهُمُ: ان سے ] [ اسْكُنُوْا: تم لوگ سکونت اختیار کرو] [ هٰذِهِ الْقَرْيَةَ: اس بستی میں ] [ وَكُلُوْا: اور کھاؤ] [ مِنْهَا: اس میں ] [ حَيْثُ: جہاں سے ] [ شِئْتُمْ: تم لوگ چاہو] [ وَقُوْلُوْا: اور کہو] [ حِطَّةٌ: معافی ہو ] [ وَّادْخُلُوا: اور داخل ہو ] [ الْبَابَ: دروازے میں ] [ سُجَّدًا: سجدہ کرنے والوں کی حالت میں ] [ نَّغْفِرْ: تو ہم بخش دیں گے ] [ لَكُمْ: تمہارے لیے ] [ خَطِيْۗـــٰٔــتِكُمْ ۭ: تمہاری خطاؤں کو ] [ سَنَزِيْدُ: ہم زیادہ کریں گے (بلحاظ درجہ ) ] [ الْمُحْسِنِيْنَ: بلا کم وکاست کام کرنے والوں کو]



 (آیت ۔ 161) زاد ۔ یزید کی عموما ایک تمیز آتی ہے ۔ یہاں سنزید کی تمیز محذوف ہے اور المحسنین اس کا مفعول ہے۔

فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا غَيْرَ الَّذِيْ قِيْلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ     ١٦٢؀ۧ
[ فَبَدَّلَ: تو بدل دیا ] [ الَّذِيْنَ: ان لوگوں نے جنہوں نے ] [ ظَلَمُوْا: ظلم کیا ] [ مِنْهُمْ: ان میں سے ] [ قَوْلًا: بات کو ] [ غَيْرَ الَّذِيْ: اس کے علاوہ جو ] [ قِيْلَ: کہا گیا ] [ لَهُمْ: ان سے ] [ فَاَرْسَلْنَا: پھر ہم نے بھیجا ] [ عَلَيْهِمْ: ان پر ] [ رِجْزًا: ایک عذاب ] [ مِّنَ السَّمَاۗءِ: آسمان سے ] [ بِمَا: بسبب اس کے جو ] [ كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ: وہ ظلم کرتے تھے ]

وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ  ۘاِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّيَوْمَ لَا يَسْبِتُوْنَ ۙ لَا تَاْتِيْهِمْ ڔ كَذٰلِكَ ڔ  نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ    ١٦٣؁
[ وَسْــــَٔـلْهُمْ: اور آپ پوچھیے ان سے] [ عَنِ الْقَرْيَةِ: اس بستی کے بارے میں ] [ الَّتِيْ: جو ] [ كَانَتْ: تھی ] [ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘ: سمندر کی بستی ] [ اِذْ: جب ] [ يَعْدُوْنَ: وہ لوگ حد سے بڑھے ] [ فِي السَّبْتِ: ہفتہ (کے حکم ) میں ] [ اِذْ: جب] [ تَاْتِيْهِمْ: پہنچتی تھیں ان کے پاس ] [ حِيْتَانُهُمْ: ان کی مچھلیاں ] [ يَوْمَ سَبْتِهِمْ: ان کے ہفتہ کے دن ] [ شُرَّعًا: تیرتی ہوئی ] [ وَّيَوْمَ: اور جس دن ] لَا يَسْبِتُوْنَ ۙ : ہفتہ کا دن نہ ہوتا ] [ لَا تَاْتِيْهِمْ ڔ : وہ نہیں آتی تھیں ان کے پاس ] [ كَذٰلِكَ ڔ : اس طرح ] [ نَبْلُوْهُمْ: ہم نے آزمایا ان کو ] [ بِمَا: بسبب اس کے جو ] [ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ لوگ نافرمانی کرتے تھے ]



ح و ت: (ن) حوتا ۔ چکر کاٹنا ۔ منڈلانا ۔ حوت ۔ ج: حیتان ۔ مچھلی (زیادہ تر بڑی مچھلی کے لیے آتا ہے ] فالتقمہ الحوت [ پھر نگل لیا ان کو مچھلی نے ] 37:142۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 163 ۔



ترکیب : (آیت ۔163) کانت کی خبر کی وجہ سے حاضرۃ حالت نصب میں ہے اور البحر کا مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ختم ہوئی ہے ،

وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَۨا اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا  قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ    ١٦٤؁
[ وَاِذْ: اور جب ] [ قَالَتْ: کہا ] [ اُمَّةٌ: ایک گروہ نے ] [ مِّنْهُمْ: ان میں سے ] [ لِمَ: کیوں ] [ تَعِظُوْنَ: تم لوگ وعظ کرتے ہو] [ قَوْمَۨا : ایک ایسی قوم کو ،] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ مُهْلِكُهُمْ: ہلاک کرنے والا ہے جن کو ] [ اَوْ: یا ] [ مُعَذِّبُهُمْ: عذاب دینے والا ہے ان کو ] [ عَذَابًا شَدِيْدًا : ایک شدیدعذاب ] [ قَالُوْا: انہوں نے کہا ] [ مَعْذِرَةً: عذر پیش کرنے کے لیے ] [ اِلٰى رَبِّكُمْ: تمہارے رب کی طرف ] [ وَلَعَلَّهُمْ: اور شاید وہ لوگ ] [ يَتَّقُوْنَ: تقوی اختیار کریں ]



ع ذ ر : (ض ، ن) معذرۃ (1) کسی کو الزام سے بری کرنا ۔ عذر قبول کرنا ۔ (علی کے صلہ کے ساتھ ) (2) خود کو الزام سے بری کرنا ۔ عذر پیش کرنا ۔ (الی کے صلہ کے ساتھ )۔ زیر مطالعہ آیت ۔164 ۔ عذر ، اسم ذات ہے وہ حجت یا دلیل جس سے الزام کا انکار ہو ۔ مجبوری ، عذر ۔ قد بلغت من لدنی عذرا [ آپ پہنچ چکے میرے پاس سے عذر کو ] 18: 76۔ معذار ۔ ج: معاذیر ، مفعال کے وزن پر اسم الآلہ ہے ۔ الزام سے بری ہونے کا اوزار ۔ عذر ۔ بہانہ ۔ ولو القی معاذیرہ [ اور خواہ وہ ڈالے یعنی پیش کرے اپنے بہانے ] 75:15۔ (تفعیل ) تعذیرا ۔ مجبوری بیان کرنے یا بہانے بنانے میں مبالغہ کرنا ۔ معذر ۔ اسم الفاعل ہے ۔ مجبوریاں بیان کرنے والا ۔ بہانے بنانے والا ۔ وجاء المعذرون من الاعراب [ اور آئے بہانے بنانے والے دیہاتوں سے ] 9:90۔ (افتعال) اعتذارا۔ اہتمام سے عذر پیش کرنا ۔ یعتذرون الیکم اذا رجعتم الیہم [ وہ لوگ عذر پیش کریں گے تمہاری طرف جب تم لوگ واپس ہوگے ان کی طرف ] 9:94۔



 (آیت ۔ 164) معذرۃ کو فعل محذوف کا مفعول مطلق بھی مانا جاسکتا ہے اور مفعول لہ بھی ۔ ہم مفعول لہ کے لحاظ سے ترجمہ کریں گے ۔

فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۢ بَىِٕيْــسٍۢ  بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ    ١٦٥؁
[ فَلَمَّا: پھر جب ] [ نَسُوْا: وہ لوگ بھولے ] [ مَا: اس کو ] [ ذُكِّرُوْا: انہیں یاد دلایا گیا ] [ بِهٖٓ: جس سے ] [ اَنْجَيْنَا: تو ہم نے نجات دی ] [ الَّذِيْنَ: ان کو جو ] [ يَنْهَوْنَ: منع کرتے تھے ] [ عَنِ السُّوْۗءِ: برائی سے ] [ وَاَخَذْنَا: اور ہم نے پکڑا ] [ الَّذِيْنَ: ان کو جنہوں نے ] [ ظَلَمُوْا: ظلم کیا ] [ بِعَذَابٍۢ بَىِٕيْــسٍۢ : ایک سخت عذاب سے ] [ بِمَا: بسبب اس کے جو ] [ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ: وہ لوگ نافرمانی کرتے تھے ]

فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـِٕـيْنَ     ١٦٦؁
[ فَلَمَّا: پھر جب ] [ عَتَوْا: انہوں نے سرکشی کی ] [ عَنْ مَّا: اس سے ] [ نُهُوْا: انہیں منع کیا گیا ] [ عَنْهُ: جس سے ] [ قُلْنَا: تو ہم نے کہا ] [ لَهُمْ: ان سے ] [ كُوْنُوْا: تم لوگ ہوجاؤ ] [ قِرَدَةً خٰسِـِٕـيْنَ: دھتکارے جانے والے بندر ]



نوٹ۔1: ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس بستی میں علانیہ احکام الہی کی خلاف ورزی ہورہی ہو وہ ساری بستی قابل مواخذہ ہو جاتی ہے ۔ اور اس کا کوئی باشندہ محض اس بنا پر بری نہیں ہوسکتا کہ اس نے خود خلاف ورزی نہیں کی ، بلکہ اسے اللہ کے سامنے اس کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اصلاح کی کوشش کرتا رہا تھا ۔ قرآن وحدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ’’ ڈرو اس فتنہ سے جس کے وبال میں خصوصیت کے ساتھ صرف وہی لوگ گرفتار نہیں ہوں گے جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو ‘‘ (8:25) اس کی تشریح میں رسول اللہ
نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا ۔ جب تک عام لوگوں کی حالت یہ نہ ہو جائے کہ وہ برے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہار ناراضگی کرنے پر قادر ہون اور پھر بھی اظہار ناراضگی نہ کریں ۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ خاص وعام سب کو عذاب میں مبتلا کردیتا ہے ۔ (تفیہم القرآن )

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ يَّسُوْمُهُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ۭ اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيْعُ الْعِقَابِ   ښ وَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ     ١٦٧؁
[ وَاِذْ: اور جب ] [ تَاَذَّنَ: سنادیا ] [ رَبُّكَ: آپ کے رب نے ] [ لَيَبْعَثَنَّ: (کہ ) وہ لازما بھیجتا رہے گا ] [ عَلَيْهِمْ: ان پر ] [ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ: قیامت کے دن تک ] [ مَنْ: اس کو جو ] [ يَّسُوْمُهُمْ: تکلیف دے گا ان کو ] [ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ۭ : برے عذاب کی ] [ اِنَّ: بیشک ] [ رَبَّكَ: آپ کا رب ] [ لَسَرِيْعُ الْعِقَابِ ښ : یقینا پکڑنے کا تیز ہے ] [ وَاِنَّهٗ: اور بیشک وہ ] [ لَغَفُوْرٌ: یقینا بےانتہابخشنے والا ہے ] [ رَّحِيْمٌ: ہر حال میں رحم کرنے والا ہے ]



ترکیب: (آیت ۔ 167) الی یوم القیمۃ کا تقاضہ ہے کہ لیبعثن کا ترجمہ مستقبل استمراری سے کیا جائے ۔ سوء العذاب مرکب اضافی ہے لیکن اردو میں اس کا استعمال مرکب توصیفی میں ہوتا ہے ۔

وَقَطَّعْنٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اُمَمًا ۚمِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ   ۡ  وَبَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّيِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ    ١٦٨؁
[ وَقَطَّعْنٰهُمْ: اور ہم نے تقسیم کیا ان کو ] [ فِي الْاَرْضِ: زمین میں ] [ اُمَمًا ۚ: گروہوں میں ] [ مِنْهُمُ: ان میں سے ] [ الصّٰلِحُوْنَ: نیک (بھی ) ہیں ] [ وَمِنْهُمْ: اور ان میں سے ] [ دُوْنَ ذٰلِكَ ۡ : اس کے علاوہ (بھی ) ہیں ] [ وَبَلَوْنٰهُمْ: اور ہم نے ان کو آزمایا ] [ بِالْحَسَنٰتِ: بھلائیوں سے] [ وَالسَّيِّاٰتِ: اور برائیوں سے] [ لَعَلَّهُمْ: شاید وہ لوگ ] [ يَرْجِعُوْنَ: لوٹ آئیں ]

فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ يَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى وَيَقُوْلُوْنَ سَيُغْفَرُ لَنَا  ۚ وَاِنْ يَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ يَاْخُذُوْهُ  ۭ اَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِّيْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا يَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوْا مَا فِيْهِ ۭوَالدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ  ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ     ١٦٩؁
[ فَخَلَفَ: پھر جانشین ہوئے ] [ مِنْۢ بَعْدِهِمْ: ان کے بعد سے ] [ خَلْفٌ: کچھ ایسے جانشین ] [ وَّرِثُوا: جو وارث ہوئے ] [ الْكِتٰبَ: اس کتاب کے ] [ يَاْخُذُوْنَ: جو پکڑتے ہیں ] [ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى: اس نزدیک (زندگی) کے عارضی سامان کو ] [ وَيَقُوْلُوْنَ: اور کہتے ہیں ] [ سَيُغْفَرُ لَنَا ۚ : ہم بخش دیے جائیں گے ] [ وَاِنْ: اور اگر] [ يَّاْتِهِمْ: پہنچتا ہے ان کے پاس ] [ عَرَضٌ: کچھ (اور ) عارضی سامان] [ مِّثْلُهٗ: اس کے جیسا ] [ يَاْخُذُوْهُ ۭ : تو وہ پکڑتے ہیں اس کو (بھی) ] [ اَلَمْ يُؤْخَذْ: کیا نہیں لیا گیا ] [ عَلَيْهِمْ: ان سے ] [ مِّيْثَاقُ الْكِتٰبِ: کتاب کا عہد ] [ اَنْ: کہ ] [ لَّا يَقُوْلُوْا: وہ لوگ مت کہیں ] [ عَلَي اللّٰهِ: اللہ پر ] [ اِلَّا: مگر ] [ الْحَقَّ: حق ] [ وَدَرَسُوْا: اور انہوں نے مطالعہ کیا ] [ مَا: اس کا جو ] [ فِيْهِ ۭ: اس میں ہے ] [ وَالدَّارُ الْاٰخِرَةُ: اور آخری گھر ] [ خَيْرٌ: بہتر ہے ] [ لِّلَّذِيْنَ: ان کے لیے جو ] [ يَتَّقُوْنَ ۭ ا: تقوی اختیار کرتے ہیں ] [ َفَلَا تَعْقِلُوْنَ: تو کیا تم لوگ عقل استعمال نہیں کرتے ]



 (آیت ۔ 169) خلف مصدر ہے اور اسم جمع کے طور پر بھی آتا ہے ۔ جیسے کہ یہاں ہے ۔ کیونکہ آگے فعل ورثوا جمع کے صیغے میں آیا ہے ۔ اور خلف نکرہ مخصوصہ بھی ہے ۔ ان لا یقولوا کی دو ترکبیں ممکن ہیں ۔ ایک یہ کہ لا یقولوا دراصل فعل نفی لا یقولون تھا جو ان کی وجہ سے حالت نصب میں آیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ لا یقولوا فعل نہی غائب ہے ۔ ترجمہ میں ہم دوسری صورت کو ترجیح دیں گے ۔

وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ    ۭاِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِيْنَ     ١٧٠؁
[ وَالَّذِيْنَ: اور جو لوگ ] [ يُمَسِّكُوْنَ: مضبوطی سے تھامتے ہیں ] [ بِالْكِتٰبِ: کتاب کو ] [ وَاَقَامُوا: اور قائم رکھتے ہیں ] [ الصَّلٰوةَ ۭ : نماز کو ] [ اِنَّا: (تو ) بیشک ہم ] [ لَا نُضِيْعُ: ضائع نہیں کرتے ] [ اَجْرَ الْمُصْلِحِيْنَ: اصلاح کرنے والوں کے اجر کو ]

وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَاَنَّهٗ ظُلَّـةٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّهٗ وَاقِعٌۢ  بِهِمْ ۚ خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ     ١٧١؀ۧ
[ وَاِذْ: اور جب ] [ نَتَقْنَا: کھینچ کر اونچا کیا ہم نے ] [ الْجَبَلَ: پہاڑ کو ] [ فَوْقَهُمْ: ان کے اوپر ] [ كَاَنَّهٗ: گویا کہ وہ ] [ ظُلَّـةٌ: ایک سائبان ہے ] [ وَّظَنُّوْٓا: اور انہوں نے گمان کیا ] [ اَنَّهٗ: کہ وہ ] [ وَاقِعٌۢ : پڑنے والا ہے ] [ بِهِمْ ۚ : ان پر ] [ خُذُوْا: (تب ہم نے کہا ) تم لوگ پکڑو ] [ مَآ : اس کو جو ] [ اٰتَيْنٰكُمْ: ہم نے دیا تم کو ] [ بِقُوَّةٍ: مضبوطی سے ] [ وَّاذْكُرُوْا: اور یاد رکھو ] [ مَا : اس کو جو ] [ فِيْهِ: اس میں ہے ] [ لَعَلَّكُمْ: شاید تم لوگ ] [ تَتَّقُوْنَ : تقوی اختیار کرو]



ن ت ق : (ن ،ض) نتقا ۔ کسی چیز کو کھینچ کر پھیلانا ۔ اونچا کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 171۔

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ  ۭ قَالُوْا بَلٰي ڔ شَهِدْنَا ڔ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ   ١٧٢؀ۙ
[ وَاِذْ: اور جب ] [ اَخَذَ: پکڑا (یعنی نکالا) ] [ رَبُّكَ: آپ کے رب نے ] [ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ: آدم کے بیٹوں سے ] [ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ: ان کی پیٹھوں سے ] [ ذُرِّيَّتَهُمْ: ان کی اولاد کو ] [ وَاَشْهَدَهُمْ: اور اس نے گواہ بنایا ان کو ] [ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ : اپنے آپ پر ] [ اَلَسْتُ: (پھر پوچھا ) کیا میں نہیں ہوں ] [ بِرَبِّكُمْ ۭ : تمہارا رب ] [ قَالُوْا: انہوں نے کہا ] [ بَلٰي ڔ : کیوں نہیں ] [ شَهِدْنَا ڔ : ہم نے گواہی دی ] [ اَنْ: کہیں ] [ تَقُوْلُوْا: تم لوگ کہو] [ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن ] [ اِنَّا كُنَّا: کہ ہم تھے ] [ عَنْ هٰذَا: اس سے ] [ غٰفِلِيْنَ: بےخبر ]



نوٹ ۔ 2: جہاں تک توحید اور بدیہیات فطرت کا تعلق ہے، ان کے باب میں قیامت کے دن مواخذہ ہر شخص سے مجرد اس اقرار کی بنا پر ہوگا جوان آیات میں مذکور ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کو کسی نبی کی دعوت پہنچی یا نہیں ۔ اگر کسی نبی کی دعوت اس کو پہنچی ہے تو ایک مزید حجت اس پر قائم ہوگئی ہے ۔ لیکن نبی کی دعوت اگر نہیں پہنچی ہے تو یہ بدیہیات فطرت کے معاملہ میں کوئی عذر نہ بن سکے گی ، ان پر مواخذہ کے لیے عہد الست کافی ہے ۔ (تدبرالقرآن )

نوٹ ۔3: اس عہد کا نقش اگر انسان کے شعور اور حافظہ میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کا اس امتحان گاہ میں بھیجا جانا فضول ہوجاتا کیونکہ اس کے بعد آزمائش اور امتحان کے کوئی معنی باقی نہیں رہتے ۔ لہذا اس کو حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا لیکن وہ تحت الشعور میں یقینا محفوظ ہے۔ (تفہیم القرآن )

اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَكَ اٰبَاۗؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ ۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ  ١٧٣؁
[ اَوْ: یا ] [ تَقُوْلُوْٓا: کہیں تم لوگ کہو] [ اِنَّمَآ: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] [ اَشْرَكَ: شرک کیا ] [ اٰبَاۗؤُنَا: ہمارے آباواجداد نے ] [ مِنْ قَبْلُ: پہلے سے] [ وَكُنَّا: اور ہم تھے ] [ ذُرِّيَّةً: اولاد ] [ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ ۚ : ان کے بعد] [ اَفَتُهْلِكُنَا: تو کیا تو ہلاک کرے گا ہم کو ] [ بِمَا: بسبب اس کے جو ] [ فَعَلَ: کیا ] [ الْمُبْطِلُوْنَ: ناحق کرنے والوں نے ]

وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ   ١٧٤؁
[ وَكَذٰلِكَ: اور اس طرح ] [ نُفَصِّلُ: ہم کھول کھول کربیان کرتے ہیں ] [ الْاٰيٰتِ: نشانیوں کو ] [ وَلَعَلَّهُمْ: اور شاید وہ لوگ ] [ يَرْجِعُوْنَ: لوٹ آئیں ]



نوٹ ۔1: مذکورہ آیات میں جس واقعہ کا ذکر ہے اسے عہد الست کہتے ہیں ۔ اس کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ یہ دنیا ہماری امتحان گاہ ہے ۔ مختلف پیرائے میں قرآن مجید میں تین مقامات پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے (11:7۔ 18:7۔ 67:2) ۔ اصول یہ ہے کہ کسی کا امتحان لینے سے پہلے اسے کچھ سکھاتے پڑھاتے ہیں پھر امتحان لیتے ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ انسان کو کچھ سکھا پڑھا کر امتحان گاہ میں بھیجا جاتا ہے یا ویسے ہی بھیج دیا جاتا ہے ۔ اس سوال کا جواب پہلے ہم اپنے مشاہدہ کی مدد سے حاصل کریں گے ، پھر قرآن مجید سے ۔

بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی غذا کہاں ہے، ماں کے سینے سے دودھ چوسنے کے لیے ایک خاص ٹیکنیک کی ضرورت ہے، ورنہ دودھ منہ میں نہیں آئے گا ، بچہ اس ٹیکنیک سے واقف ہوتا ہے ، دودھ گھوٹنے کے لیے ایک خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ حلق کے نیچے غذا کی نالی کے ساتھ ہوا کی نالی بھی ہوتی ہے۔ ذرا سی بےاحتیاطی سے دودھ ہوا کی نالی میں جاسکتا ہے ۔ بچے کو یہ احتیاط بھی آتی ہے ۔ بچے کو نہ صرف رونا آتا ہے بلکہ مختلف ضروریات کے لیے رونے کے فن کو استعمال کرنا بھی جانتا ہے ۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کب رونا اور کب ہنسنا چاہیے ۔ اس انداز میں مشاہدے کو کام میں لاکر ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ انسان بہت کچھ سیکھ کر اور متعدد استعداد و صلاحیت لے کر اپنے کمرہ امتحان میں داخل ہوتا ہے ۔

قرآن مجید ایسی تمام باتوں کا ذکر نہیں کرتا ۔ البتہ انسان جن باتوں کاعلم لے کر دنیا میں آتا ہے ، ان میں سے دو علوم بنیادی ہیں کیونکہ اصلا انہیں کا امتحان اسے دینا ہے ۔ ان کا ذکر قرآن نے کیا ہے ۔ اولا صحیح عقیدہ یعنی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا علم جس کا ذکر آیات زیر مطالعہ میں ہے اور ثانیا صحیح عمل یعنی نیکی اور بدی کا شعور ، جس کا ذکر سورۃ الشمس کی آیت نمبر 8 میں ہے۔

اب آیات زیر مطالعہ کے ضمن میں یہ بات خاص طور پر نوٹ کریں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے وجود کا اور اس کے رب ہونے کا علم شعوری حالت میں دیا گیا تھا ، جس کی وجاحت واشھدہم علی انفسہم کے الفاظ سے کی گئی ۔ اور صرف علم دینے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ساتھ میں دو وارننگ بھی دی گئی تھیں ۔ اولا یہ کہ ہم یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ کا انکار کربیٹھیں کہ ہم تو بےخبر تھے ، ثانیا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا اقرار تو کریں لیکن اس کی ربوبیت میں دوسروں کو شریک کربیٹھیں ۔ اس کے ساتھ ہی جتا دیا گیا کہ قیامت کے دن یہ بہانہ نہیں چلے گا کہ غلطی تو ہمارے باپ دادا نے کی تھی اس لیے ہمیں کچھ نہ کہو ، اس طرح عہد الست کی تعلیمات میں تین باتیں شامل ہیں ۔ (1) اللہ تعالیٰ کا وجود ۔ (2) اس کا تنہا حاجت روا ، مشکل کشا ہونا ، دوسرے الفاظ میں رب ہونا یعنی توحید ۔ (3) ہر شخص کا خود ذمہ دار اور جواب دہ ہونا ۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ عہد الست ہم میں سے کسی کو بھی یاد نہیں ہے۔ تو پھر ہم امتحان کیسے دیں اور پاس کیسے ہوں ۔ قرآن تسلیم کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یاد دہانی کا پورا نظام قائم کرکے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے انسان کو ضروری استعداد دے کر بھیجا ہے ۔ جو بھی اپنی استعداد کو استعمال کرے گا اسے پورا واقعہ یاد نہیں آئے گا لیکن اس کی تعلیمات یاد آجائیں گی ۔ اور زندگی کے امتحان کا پہلا پرچہ یہی ہے کہ انسان اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرے ۔ پھر یاد کی ہوئی تعلیمات کی روشنی میں اسے اگلے پرچے حل کرنے ہیں ۔

یادہانی کا نظام کیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک لفظ کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے ۔ وہ لفظ آیت ہے، جس کے معنی ہیں نشانی ۔ یہ نوٹ کرلیں کسی بات کا علم نہیں دیتی ۔ اس کا کام یہ ہے کہ بھولا ہوا علم یاد دلادے۔ مثلا میرا کوئی دوست تحفہ میں مجھے ایک قلم دیتا ہے۔ وقت گزرنیکے ساتھ میں اپنے دوست کو بھول گیا ۔ ایک دن پرانی چیزوں میں سے وہ قلم نکل آیا ۔ اس پر نظر پڑتے ہی وہ دوست مجھے بلا تردد یاد آگیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوست کی یاد میرے شعور سے تو محو ہوگئی تھی لیکن تحت الشعور میں موجود تھی ۔ نشانی اسے وہاں سے ابھار کر شعور کی سطح پر لے آئی ۔

یاد دہانی کے نظام کے سلسلہ میں اب یہ سمجھ لیں کہ کائنات ہی یاد دہانی کا نظام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آسمانوں کو ، سورج اور چاند کو، رات اور دن کے الٹ پھیر کو ، زمین اور اس کی تمام چیزوں کو ، خود انسان کے وجود کو ، غرض یہ کہ اس کائنات کی ہر چیز کو نشانیاں کہا گیا ہے اور ان پر غور وفکر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن میں اس ضمن میں تقریبا سات سو آیات ہیں ، جبکہ انسان کی پیدائش اور اس کے وجود پر غور کرنے کے متعلق آیات اس کے علاوہ ہیں ، ان نشانیوں پر غور کرنے سے بھولا ہوا سبق کیسے یاد آئے گا ، اس بات کو ایک مثال کی مدد سے سمجھ لیں ۔ اگر آپ کسی باغ میں جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں کی گھاس اور پودوں کے اگنے اور ان کی تراش وخراش میں ایک ترتیب ، نظم اور حسن ہے، تو آپ تسلیم کریں گے کہ اس باغ کا ایک مالی ہے، چاہے مالی وہاں موجود نہ ہو اور کہیں نظر نہ آرہا ہو۔ اس کے برعکس اگر وہاں پر گھاس اور پودے بےترتیبی کے ساتھ جھاڑ جھنکار کی طرح اگے ہیں تو آپ یہی کہیں گے کہ یہ خود روہیں اور ان کا کوئی مالی نہیں ہے۔

اس بات کو ذہن میں رکھ کر اب ذرا اس کائنات پر ایک نظر دالیں ۔ ایک حقیر سے ذرہ ایٹم کے اندر الیکڑون سے لے کر زمین ، چاند ، سورج ، سیارے ، یہ سب کے سب گردش کررہے ہیں ۔ ان سب کی گردش دائیں سے بائیں جانب (
Anticlockwise ) ہے ۔ ہر ایک کی گردش کا ایک مقررہ راستہ یعنی مدار ہے۔ کوئی بھی چیز اپنے مدار سے ذرا سا بھی ادھر ادھر نہیں کھسکتی ہر ایک کے مدار کی شکل بیضوی ہے۔ اب ذراسوچیں ، خود بخود وجود میں آنے والی اتنی مختلف اشیاء میں کیا یہ ترتیب ، یہ نظم ، یہ ضابطہ ممکن ہے ؟ آپ کا دل گواہی دے گا کہ ایسا ممکن نہیں ۔ بلکہ ان سب کا کوئی ڈیزائنر یعنی مصور ہے۔ جس نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ اور وہی ان کو کنٹرول کیے ہوئے ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی یاد کو تازہ کرنے کا یہ وہ طریقہ ہے جس کی جانب قرآن انسان کی راہنمائی کرتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ زمین گول ہے ۔ لیکن ہمارے لیے یہ فرش کی مانند ہے ، ورنہ ہم ادھر ادھر لڑھکتے پھرتے ۔ زمین کی ایک نہیں بلکہ دو گردشیں ہیں لیکن ہمیں یہ ساکت لگتی ہیں ۔ اگر اس کی حرکت کو ہم محسوس کرتے تو ہمیں چکر آتے ۔ یہ اس کائنات کے مصور اور خالق کے توازن وتناسب (
Sense of Proportion) کا کمال ہے ۔ (87:2،3) اس پہلو سے کائنات کی کسی بھی چیز پر جو بھی غور کرے گا اس کا دل گواہی دے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں بھی اور اپنی صفات میں بھی اکمل (Perfect) ہے یعنی اس کی ذات وصفات ہر قسم کی کمی ، کمزوری یا خامی سے پاک ہے۔ سبحان اللہ کا یہی مطلب ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ سائنسی معلومات تو انسان نے آج حاصل کی ہیں ۔ اس سے پہلے کے انسان کے لیے کائنات میں کیا نشانیاں تھیں ۔ تو ایسی نشانیوں کے ذکر سے تو قرآن مجید بھرا پڑا ہے ، جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر دور کا انسان اپنی ذہنی سطح کے مطابق کائنات پر غور کرکے اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرسکتاتھا ۔ مثلا زمین میں بیج توہم ڈالتے ہیں ۔ لیکن اسے درخت بنانے والا اور اس میں پھل لانے والا کون ہے ؟ ( 67:60) ۔ سرسبز درخت سے آگ کون نکالتا ہے ؟ (36:80) ۔ انگور اور کھجور کے باغ ہیں ، کھیتاں ہیں، ان سب کو پانی تو ایک ہی دیا جاتا ہے ۔ لیکن پھل مختلف آتے ہیں اور ذائقہ میں ایک سے بڑھ کر ایک ۔ یہ کس کا کمال ہے ؟ (13:4) ۔ دودھ دینے والے جانور چارہ کھاتے ہیں ۔ اسی سے خون بھی بنتا ہے اور گوبر بھی ۔ پھر اسی خون اور گوبر کے درمیان سے خالص دودھ نکلتا ہے ۔ یہ کس کا نظام ہے ؟ (16:6) ۔ علی ھذا القیاس ۔

کوئی ہٹ دھرم ہوجائے تو اور بات ہے ورنہ یہ حقیقت بہت واضح ہے کہ کائنات کی ایک ایک چیز میں ایسی نشانیاں موجود ہیں کہ انسان ان میں سے کسی ایک پربھی غور کرلے تو وہ عہد الست کی تعلیمات کو اس کے تحت الشعور سے ابھار کر اس کے شعور کی سطح پر لے آئے گی اور انسان کو اپنا بھولا ہوا سبق یاد آجائے گا ۔

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْٓ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّيْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِيْنَ   ١٧٥؁
[ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ: اور آپ پڑھ کر سنائیں ان کو ] [ نَبَاَ الَّذِيْٓ: اس کی خبر ] [ اٰتَيْنٰهُ: ہم نے دیں جس کو ] [ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں ] [ فَانْسَلَخَ: پھر وہ سٹک گیا ] [ مِنْهَا: ان سے ] [ فَاَتْبَعَهُ: پھر پیچھے لگا اس کے ] [ الشَّيْطٰنُ: شیطان ] [ فَكَانَ: تو وہ ہوگیا] [ مِنَ الْغٰوِيْنَ: گمراہوں میں سے]



س ل خ : (ف) ۔ سلخا ۔ کسی چیز کی کھال کھینچنا ۔ کسی چیز میں سے کسی چیز کو کھینچ کر نکالنا ۔ وایۃ الہم الیل نسلخ منہ النھار [ اور ایک نشانی ان کے لیے رات ہے ۔ ہم کھینچ لیتے ہیں اس سے دن کو ] 36:37۔ (انفعال) انسلاخا ۔ (1) کسی کا کسی چیز سے نکل جانا۔ سٹک جانا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 175۔ (2) کسی چیز کا گزر جانا ۔ فاذا انسلخ الاشھر الحرم [ پھر جب گزر جائیں محترم مہینے ] 9:5۔



نوٹ۔1: آیت ۔ 175 کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص شخص کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ لیکن نہ تو قرآن مجید میں اور نہ ہی کسی حدیث میں یہ بتایا گیا کہ وہ شخص کون تھا ۔ مفسرین نے مختلف نام لئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خاص شخص تو پردہ میں ہے، البتہ یہ مثال ہر اس شخص پر چسپاں ہوتی ہے جس میں یہ صفات پائی جاتی ہوں (تفہیم القرآن ) اس لیے کسی شخص کو تلاش کرنے کے بجائے ہمیں اس کردار کو پہچاننے اور اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ، کیونکہ یہ کردار ہر معاشرے اور ہر دور میں پایا جاتا ہے ۔ اس پہلو سے جب ہم آیات زیر مطالعہ پر غور کرتے ہیں تو مذکورہ کردار کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ۔

اللہ تعالیٰ کا کسی انسان کو آیات دینے کا مطلب ہے نشانیوں کا علم کرنا ۔ جن کی مدد سے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے اور جس کا منطقی تقاضہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی جستجو کرے اور اس کی ناراضگی سے بچنے کی سعی کرے ۔ کوئی شخص اگر اس تقاضے کو پورا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی شخصیت اور کردار کو بلندی عطاکرتا ہے ۔ لیکن جو اس تقاضے کو پورا نہیں کرتا اور اپنی خواہشات کو ہی ترجیح دیتا ہے تو گویا وہ اپنے علم اور معرفت کے دائرے سے نکل گیا ۔ اسی کو فانسلخ کہا گیا ہے ۔ اس رویہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ کے لیے زمین ہی کی طرف مائل ہوجائے یعنی دنیا کے سازوسامان اور عیش و آرام کی ہی جستجو کرتا رہے ۔ ایسے شخص کو کتے کی مانند کہا گیا ہے کیونکہ کتے کے نظام تنفس کی یہ خصوصیت ہے کہ جب وہ تازہ ہوااندر کھینچتا ہے تو اس میں موجود آکسیجن سے اسے تسکین نہیں ہوتی ۔ اس لیے وہ جلدی سے ہوا باہر نکال کر دوبارہ تازہ ہوا کھینچتا ہے ۔ اس عمل کے تسلسل سے اس پر ہانپنے کی کیفیت طاری رہتی ہے ۔ اسی طرح جب کوئی شخص دنیا کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے تو اسے دنیاوی سازوسامان سے تسکین حاصل نہیں ہوتی ۔ بلکہ وہ ھل من مزید کی ہوس میں گرفتار ہوکر ہر وقت ہانپنے کی کیفیت کا شکار رہتا ہے ۔

دنیا کا ہی ہورہنے یعنی اخلد الی الارض میں اصل خرابی کا ذہن میں واضح ہونا ضروری ہے کیونکہ اسلام تارک الدنیا ہونے سے منع کرتا ہے اور اس کے برعکس دنیاوی ساز وسامان کو استعمال کرنے کی تاکید کرتا ہے ۔ مثلا آیات 57: 27۔ 7:31 تا 33 ۔ 67: 15 وغیرہ ۔ حقیقت یہ ہے کہ گنتی کی چند حرام چیزوں کو چھوڑ کر باقی اشیاء نہ تو بذات خود بری ہیں اور نہ ان کا استعمال میں کوئی برائی ہے ۔ برائی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ان کو زندگی کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے ہم ان کو زندگی کا مقصد بنا بیٹھتے ہیں ۔ اس بات کی اہمیت کے پیش نظر اسے مزید سمجھ لیں۔

کھانا پینا ، سونا جاگنا، بچے پیدا کرنا اور پھر مرجانا۔ یہ وہ سطح ہے جس پر جانور زندگی بسر کرتے ہیں ۔ انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا یہ انداز انسانیت کی توہین ہے۔ عقل وفہم کی صلاحیتوں کی بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات کا رتبہ ملا ہے ۔ اس کا تقاضہ ہے کہ انسان کسی نصب العین کو اپنا مقصد زندگی بنائے اور دنیا کے سازوسامان کو اس کے حصول کا ذریعہ بنائے ۔ بلند ترین نصب العین یہ ہے کہ انسان اپنے حاجت روا ، مشکل کشا اور روزی رساں کو پہچانے اور اس کی رضا وخوشنودی کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زندگی کو برقرار رکھنا اور جسمانی وذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا انسان کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے جب وہ دنیا کی اشیاء کو استعمال کرتا ہے تو ان میں غذا کی تاثیر ہوتی ہے یعنی ان کے استعمال سے تسکین بھی حاصل ہوتی ہے اور صلاحیتیں بھی پروان چڑھتی ہیں ۔ آیت ۔ 176 میں اسی حقیقت کی طرف ہماری رہنمائی کی گئی ہے ۔ لیکن جب انسان ذرائع زندگی کو ہی اپنا مقصد زندگی بنا بیٹھتا ہے تو پھر انہیں اشیاء میں نشہ کی تاثیر پیدا ہوجاتی ہے۔ یعنی ان کے استعمال سے نہ تو تسکین حاصل ہوتی ہے اور نہ صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں ۔ بلکہ ان میں انحطاط کا عمل شروع ہوجاتا ہے ، اس بات کو یوں سمجھیں کہ انگور ایک خوش ذائقہ اور صحت بخش غذا ہے ۔ لیکن یہی انگور جب گل سڑ جاتا ہے تو اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ یعنی نہ اس میں تسکین رہتی ہے اور نہ ہی یہ صحت بخش رہتا ہے ۔ یہی مثال دنیا کے باقی سازوسامان کی ہے ۔

بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ دنیا کو مقصد زندگی بنانے والوں کی صلاحیتیں تو خوب پروان چڑھتی ہیں اور یہ لوگ دنیا میں تو بڑے کامیاب ہوتے ہیں ۔ لیکن تھوڑا سا غور کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بلڈ پریشر ، شوگر ، ہارٹ ، بائی پاس ، اعصابی امراض اور نفسیاتی پیچیدگیوں وغیرہ کے امراض میں مبتلا ہونے والوں کی غالب اکثریت ایسے ہی کامیاب لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ پھر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ایسے لوگوں کے جسمانی انحطاط کا آغاز تو بہت پہلے ہوجاتا ہے ، البتہ اس کا نتیجہ ظاہر ہونے میں ایک ، وقفہ حائل ہوتا ہے ۔ ان کے ذہنی انحطاط کی علامت یہ ہے کہ آج کے ماہرین انسانوں کے کسی مسئلہ کو جب حل کرتے ہیں تو اس سے نئے مسائل جنم لیتے ہیں ۔ پھر ان کے حل سے مزید مسائل وجود میں آتے ہیں ۔ یہ وہ کیفیت ہے جس پر کتے کے نظام تنفس کی مثال پوری طرح چسپاں ہوتی ہے ۔ اور ان کے کردار کے انحطاط پر بات کرنا حد ادب ہے ۔

آج اخلد الی الارض یعنی حب دنیا نے انسانوں کی اکثریت کو تسکین سے محرومی اور ھل من مزید کی ہوس میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ اس مشاہدے نے معاشیات کے اس اصول کو جنم دیا ہے کہ
Human Wants Are lnsatiabli (انسانی ضروریات قابل تسکین نہیں ہیں ) ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ایک انسانی ضرورت پوری ہوتی ہے تو کوئی دوسری ضرورت جنم لے لیتی ہے اور یہ ایک سلسلہ لامتناہی ہے۔ لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اصول میں لفظ wants دوھاری تلوار ہے ۔ ایک طرف تو اس کا اطلاق human Needs (انسانی ضروریات ) پر ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ Human Desires (انسانی خواہشات ) پر بھی منطبق ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے انسانی ضروریات اور خواہشات آپس میں گڈمڈ ہوکر ایک ہی چیز نظر آنے لگتی ہیں ، جبکہ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں ۔ اس لیے لفظ Wants کو نکال کر اگر یہی اصول اس طرح بیان کیا جائے کہ انسانی خواہشات قابل تسکین نہیں ہیں تو یہ بات درست ہے ۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ انسانی ضروریات قابل تسکین نہیں ہیں تو یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک لفظ Wants نے کیا قیامت ڈھائی ہے اور انسانوں کو کیسی سنگین غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے ، جس کی وجہ سے آج انسانیت کیسے کیسے دکھ جھیل رہی ہے ۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اخلد الی الارض یعنی حب دنیا کی حقیقت کو پہنچاننے اور اس سے بچنے کے لیے شعوری طور پر اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے کیونکہ اس کا انجام بڑا حسرتناک ہے ۔ ایک مقولے میں تھوڑی سی ترمیم کرکے اس کی حقیقت کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

 
HUBBE Dunya is Just Like a Cigarette .

Which Burns With Flame And End ln Ashes

وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَلٰكِنَّهٗٓ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ  ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ    ١٧٦؁
[ وَلَوْ: اور اگر ] [ شِئْنَا: ہم چاہتے] [ لَرَفَعْنٰهُ: تو ہم ضرور بلند کرتے اس کو ] [ بِهَا: ان سے (یعنی آیات کے علم سے )] [ وَلٰكِنَّهٗٓ: اور لیکن ] [ اَخْلَدَ: وہ ہمیشہ کے لیے مائل ہوا ] [ اِلَى الْاَرْضِ: زمین کی طرف ] [ وَاتَّبَعَ: اور اس نے پیروی کی ] [ هَوٰىهُ ۚ : اپنی خواہش کی ] [ فَمَثَلُهٗ: تو اس کی مثال ] [ كَمَثَلِ الْكَلْبِ ۚ : کتے کی مثال کی مانند ہے] [ اِنْ: اگر ] [ تَحْمِلْ: تو بوجھ ڈالے ] [ عَلَيْهِ: اس پر ] [ يَلْهَثْ : تو وہ ہانپے گا ] [ اَوْ: یا ] [ تَتْرُكْهُ: اگر تو چھوڑ دے اس کو ] [ يَلْهَثْ ۭ : تو (بھی) وہ ہانپے گا ] [ ذٰلِكَ: یہ ] [ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ: ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ] [ كَذَّبُوْا: جھٹلایا ] [ بِاٰيٰتِنَا ۚ : ہماری نشانیوں کو ] [ فَاقْصُصِ : پس آپ بیان کریں ] [ الْقَصَصَ: اس قصے کو ] [ لَعَلَّهُمْ: شائد وہ لوگ ] [ يَتَفَكَّرُوْنَ: غوروفکر کریں ]



ل ہ ث : (س) لھثا ۔ پیاس یا تھکان کی وجہ سے ہانپ کر زبان نکالنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 176۔

سَاۗءَ مَثَلَۨا الْقَوْمُ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاَنْفُسَهُمْ كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ   ١٧٧؁
[ سَاۗءَ: کتنی بری ہے ] [ مَثَلَۨا : مثال ] [ الْقَوْمُ الَّذِيْنَ: اس قوم کی جس نے ] [ كَذَّبُوْا: جھٹلایا ] [ بِاٰيٰتِنَا: ہماری نشانیوں کو ] [ وَاَنْفُسَهُمْ: اور اپنے آپ پر (ہی) ] [ كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ: وہ لوگ ظلم کرتے تھے ]

مَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِيْ ۚ وَمَنْ يُّضْلِلْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ  ١٧٨؁
[ مَنْ: جس کو ] [ يَّهْدِ: ہدایت دے ] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ فَهُوَ الْمُهْتَدِيْ ۚ : تو وہ ہی ہدایت پانے والا ہے ] [ وَمَنْ: اور جس کو ] [ يُّضْلِلْ: وہ گمراہ کرے ] [ فَاُولٰۗىِٕكَ: تو وہ لوگ ] [ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ: ہی خسارہ پانے والے ہیں ]

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ڮ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا  ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا  ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ  اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ     ١٧٩؁
[ وَلَقَدْ ذَرَاْنَا: اور بیشک ہم نے پیدا کیا ہے ] [ لِجَهَنَّمَ: جہنم کے لیے ] [ كَثِيْرًا: بہتوں کو ] [ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ڮ : انسانوں اور جنوں میں سے ] [ لَهُمْ: ان کے لیے ] [ قُلُوْبٌ: دل ہیں ] [ لَّا يَفْقَهُوْنَ: (لیکن ) وہ لوگ علم کا احاطہ نہیں کرتے ہیں ] [ بِهَا ۡ : ان سے] [ وَلَهُمْ: اور ان کے لیے ] [ اَعْيُنٌ: آنکھیں ] [ لَّا يُبْصِرُوْنَ: (لیکن ) وہ لوگ دیکھ کر سمجھتے نہیں ہیں ] [ بِهَا ۡ : ان سے ] [ وَلَهُمْ: اور ان کے لیے ] [ اٰذَانٌ: کان ہیں ] [ لَّا يَسْمَعُوْنَ: (لیکن ) وہ لوگ سن کر سمجھتے نہیں ہیں ] [ بِهَا ۭ: ان سے ] [ اُولٰۗىِٕكَ : وہ لوگ ] [ كَالْاَنْعَامِ: مویشیوں کی مانند ہیں ] [ بَلْ: بلکہ ] [ هُمْ: وہ لوگ ] [ اَضَلُّ : زیادہ گمراہ ہیں ] [ اُولٰۗىِٕكَ: یہ لوگ ] [ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ: ہی غفلت برتنے والے ہیں ]



نوٹ۔1: آیت نمبر 179 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے کن کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے ؟ اس کا جواب آگے دے دیا ہے کہ ان لوگوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے جو اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہیں کریں گے ۔ اور دنیا کے کمرہ امتحان میں چونکہ اللہ نے انسان کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو جس مقصد کے لیے چاہے استعمال کرے ۔ جو عقیدہ اور نظریہ چاہے اختیار کرے اور جیسا چاہے عمل کرے ، اس لیے یہ بات ہر انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ چاہے تو اپنا نام پاس ہونے والوں یعنی جنت میں جانے والوں میں لکھوائے اور چاہے تو فیل ہونے والوں یعنی جہنم میں جانے والوں میں لکھوائے ۔ انسان کے اس اختیار کو نہ تو اللہ تعالیٰ خود سلب کرتا ہے اور دوسرے کو اس کی اجازت دیتا ہے ۔ اسی لیے فرمادیا کہ لا اکراہ فی الدین [ ضابطہ حیات کے ضمن میں کسی کا کوئی جبر نہیں ہے ] (2: 256) دوسرے الفاظ میں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ضابطہ حیات کے ضمن میں انسان کو مکمل اختیار حاصل ہے۔

وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا     ۠ وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ  ۭ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    ١٨٠؁
وَلِلّٰهِ: اور اللہ کے لیے ہی ہیں ] [ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى: تمام خوبصورت نام ] [ فَادْعُوْهُ: تو تم پکارواس کو ] [ بِهَا ۠ : ان سے ] [ وَذَرُوا: اور چھوڑ دو ] [ الَّذِيْنَ: ان کو جو ] [ يُلْحِدُوْنَ: کجروی اختیار کرتے ہیں] [ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ ۭ : اس کے ناموں میں ] [ سَيُجْزَوْنَ : ان کو بدلہ دیا جائے گا ] [ مَا: اس کا جو] [ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ: وہ لوگ کرتے تھے ]



ل ح د : (ف) لحدا (1) بغلی قبر کھودنا ۔ کسی طرف مائل ہونا۔ (2) عقیدے یا مذہب سے پھر جانا ۔ (افعال ) الحادا ۔ عقیدے یا مذہب میں شک پیدا کرنا ۔ کجروی کرنا ۔ جھگڑنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 180 (افتعال ) التحادا ۔ اہتمام سے کسی طرف مائل ہونا ۔ ملتحد ۔ اسم المفعول ہے جو اسم ظرف کے طور پر آتا ہے ۔ پناہ گاہ ۔

وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ     ١٨١؀ۧ
[ وَمِمَّنْ: اور ان میں سے جن کو ] [ خَلَقْنَآ: ہم نے پیدا کیا ] [ اُمَّةٌ: کچھ ایسے لوگ ہیں ] [ يَّهْدُوْنَ: جو ہدایت دیتے ہیں ] [ بِالْحَقِّ: حق کی ] [ وَبِهٖ: اور اس ہی سے ] [ يَعْدِلُوْنَ: وہ عدل کرتے ہیں ]

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ    ١٨٢؀ښ
[ وَالَّذِيْنَ: اور جنہوں نے ] [ كَذَّبُوْا: جھٹلایا] [ بِاٰيٰتِنَا: ہماری نشانیوں کو ] [ سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ: ہم بتدریج لے جائیں گے ان کو ] [ مِّنْ حَيْثُ: وہاں سے ] [ لَا يَعْلَمُوْنَ: وہ لوگ نہیں جانتے (جس کو )]

وَاُمْلِيْ لَهُمْ ڵ اِنَّ كَيْدِيْ مَتِيْنٌ  ١٨٣؁
[ وَاُمْلِيْ: اور میں ڈھیل دیتا ہوں ] [ لَهُمْ ڵ : ان کو ] [ اِنَّ: بیشک ] [ كَيْدِيْ: میری تدبیر ] [ مَتِيْنٌ: پختہ ہے ]



م ت ن : (ک) متانۃ ۔ مضبوط وقوی ہونا ۔ متین ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے۔ پختہ ۔ مضبوط ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 183۔

اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا         ۫مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ   ۭاِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ  ١٨٤؁
اَوَ: اور کیا ] [ لَمْ يَتَفَكَّرُوْا: انہوں نے غور نہیں کیا ] [ مَا: (کہ ) نہیں ہے] [ بِصَاحِبِهِمْ: ان کے ساتھی کو ] [ مِّنْ جِنَّةٍ ۭ: کسی قسم کا کوئی جنون ] [ اِنْ: نہیں ہے ] [ هُوَ: وہ ] [ اِلَّا: مگر ] [ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ: ایک واضح خبردار کرنے والا ]

اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ  ۙ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ۚ فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ    ١٨٥؁
اَوَ: اور کیا ] [ لَمْ يَنْظُرُوْا: انہوں نے نظر نہیں ڈالی ] [ فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ: زمین اور آسمانوں کی بادشاہت میں ] [ وَمَا: اور اس میں جو ] [ خَلَقَ: پیدا کیا ] [ اللّٰهُ: اللہ نے ] [ مِنْ شَيْءٍ ۙ : کسی چیز سے] [ وَّاَنْ: اور یہ کہ ] [ عَسٰٓي: ہوسکتا ہے ] [ اَنْ: کہ ] [ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ: قریب آچکا ہو] [ اَجَلُهُمْ ۚ : ان کے خاتمے کا وقت ] [ فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ : تو کون سی بات پر ] [ بَعْدَهٗ: اس کے بعد ] [ يُؤْمِنُوْنَ: وہ لوگ ایمان لائیں گے ]

مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِيَ لَهٗ   ۭ وَيَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ    ١٨٦؁
[ مَنْ: جس کو ] [ يُّضْلِلِ: گمراہ کرے ] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ فَلَا هَادِيَ: تو کوئی بھی ہدایت دینے والا نہیں ہے] [ لَهٗ ۭ : اس کے لیے ] [ وَيَذَرُهُمْ: اور وہ چھوڑ دیتا ہے ان کو ] [ فِيْ طُغْيَانِهِمْ: ان کی سرکشی میں ] [ يَعْمَهُوْنَ: بھٹکتے ہوئے ]



نوٹ ۔2: آیت نمبر ۔ 2:7 کے نوٹ ۔ 3 میں ہم سماعت اور بصارت کی وضاحت کرچکے ہیں ۔ لیکن مناسب ہے کہ اس مقام پر ہم اس بات کو ذرا وضاحت سے سمجھ لیں کیونکہ آیت ۔ 179 میں اس
Process کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے گزر کر انسان فیصلہ کرتا ہے اور اپنے اختیار کو استعمال کرتا ہے ۔ مذکورہ نوٹ ۔ 3 میں ہم سمجھ چکے ہیں کہ جب آنکھ اپنی حاصل کردہ معلومات کو ذہن تک پہنچاتی ہے تو اس کی اس صلاحیت کو بصارت کہتے ہیں ۔ اسی طرح جب کان اپنی حاصل کردہ معلومات کو ذہن تک پہنچاتا ہے تو اس کی یہ صلاحیت سماعت کہلاتی ہے ۔ اب سمجھنے والی بات یہ ہے کہ آیت زیر مطالعہ میں بصارت اور سماعت کا ذکر کس حوالہ سے کیا گیا ہے ۔

 اس سلسلہ میں یہ بات پھر یاد کرلیں کہ قرآن مجید کا یہ ایک خاص انداز ہے کہ کبھی وہ کسی چیز کے جز کی طرف اشارہ کرکے پوری چیز مراد لیتا ہے ۔ ( آیت ۔ 2:112، نوٹ ۔ 1) ۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر مذکورہ آیت پر غور کریں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہاں دراصل ہمارے حواس خمسہ اور ان کی ذہن تک معلومات پہنچانے کی صلاحیت کی بات ہو رہی ہے ۔ پھر انسانی ذہن حاصل شدہ معلومات کو ذخیرہ (
Store ) کرنے سے پہلے ان کا تجزیہ کرکے کوئی فیصلہ کرتا ہے ، جسے ہم عقل کہتے ہیں ۔ اس طرح یہاں بصارت اور سماعت کے ذکر میں عقل کا استعمال از خود شامل ہے۔

عقل کے ضمن میں قرآن مجید کے طالب علم اور جدید تعلیم یافتہ افراد کے نکتہ نظر میں فرق ہے۔ کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک ماہرین نفسیات کا کہنا تھا کہ حاصل شدہ معلومات سے ذہن کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے اور انسانی جسم میں موجود موٹر سنٹر کو حکم دیتا ہے تو انسان کا عمل اس کے مطابق ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات ہمارے علم میں آتی ہے کہ ذہن کے فیصلے اور عمل کے درمیان میں ایک مرحلہ اور بھی ہے اور وہ کہ ذہن کے فیصلے کو انسان کادل یا تو قبول کرتا ہے یا رد کرتا ہے ۔ پھر انسان کا عمل عقل کے نہیں بلکہ اس کے دل کے فیصلے کے مطابق ہوتا ہے ۔ مثلا ہم کہتے ہیں کہ بات تو ٹھیک ہے، پر کیا کریں دل نہیں مانتا ۔ یعنی ذہن اس بات کو قبول کررہا اور اس کا فیصلہ ہے کہ یہ کام کیا جائے لیکن دل قبول نہیں کر رہا ہے۔ اس لیے میں یہ کام نہیں کرسکتا ۔ اس کے برعکس جب کسی بات پر ہمارا دل ٹھک جاتا ہے تو ہو کام ہم کتنے شوق اور لگن سے کرتے ہیں ، یہ بات سب لوگ خوب جانتے ہیں ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آخر میں فیصلہ دل کا ہوتا ہے ۔ اور اب تو ماہرین نے بھی اپنی اصلاح کرلی ہے ۔ جدید مینجمنٹ سائنس کا اصول یہ ہے کہ عمل کے لیے تنہا
Conviction (ذہن کا قائل ہونا ) کافی نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے ساتھ Motivation (شوق اور لگن ) کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ اب یہ بات بہت واضح ہے کہ (Motivation) کا تعلق عقل سے نہیں ہے بلکہ جذبہ سے ہے ۔ جس کا مقام دل ہے اور دل کے فیصلہ کرنے کو قرآن تفقہہ کہتا ہے ۔ اسی لیے آیت زیر مطالعہ میں فرمایا کہ ان کے دل ہیں لیکن ان سے وہ تفقہہ نہیں کرتے۔

اب سوال یہ ہے کہ عقل کا فیصلہ تو حواس خمسہ کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن دل کے فیصلے کی بنیاد کیا ہے ؟ تو یہ بات نوٹ کرلیں کہ دل کا فیصلہ ان ’’ معلومات ‘ ‘ کی بنیاد پر ہوتا ہے جنہیں انسان کی فطرت میں ڈال کر اسے کمرہ امتحان میں بھیجا جاتا ہے، جس میں سرفہرست اللہ کی معرفت اور نیکی وبدی کی شعور ہے اور جس کی وضاحت آیت نمبر ۔ 7:172 کے نوٹ ۔ 1 میں کی جا چکی ہے ۔ جب تک دل یہ کام کرتا رہتا ہے کہ عقل کے فیصلے کو اگر وہ اپنی فطرت کے مطابق پائے تو اسے قبول کرلے ، ورنہ رد کردے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ تفقہہ کررہا ہے ۔ اور جب دل یہ کام شروع کردیتا ہے کہ عقل کے فیصلے کو اپنی خواہشات اور امنگوں کے مطابق پائے تو قبول کرے ورنہ رد کردے اور اپنی فطرت کی پکاری کا گلا گھونٹتا رہے ، تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے تفقہہ کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ اسی کو گزشتہ آیت نمبر ۔ 176 مٰں اپنی خواہشات کی پیروی کرنا کہا گیا ہے اور اس کا سبب اخلد الی الارض کا مرض بتایا گیا ہے ۔ ایسے لوگ اس دنیا میں اس عذاب میں خود کو مبتلا کرلیتے جس میں ایک کتا مبتلا ہوتا ہے اور آخرت کے لیے اپنا نام جہنم میں جانے والوں کی فہرست میں لکھوا لیتے ہیں ۔

ان نوٹ کے شروع میں ہم نے فیصلہ کرنے کے
Process کی بات کی تھی ۔ اس کی فطری ترتیب یہ ہے کہ اس کی ابتدا حواس خمسہ سے ہوتی ہے اور اختتام دل پر ہوتا ہے ۔ لیکن اس Process کے معطل ہونے یا منقطع ہونے کی ابتدا دل سے ہوتی ہے اور اختتام حواس خمسہ پر ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت زیر مطالعہ میں پہلے یہ فرمایا کہ ان کے دل وہ ان سے تفقہہ نہیں کرتے ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان کی آنکھیں ہیں لیکن ان سے وہ بصارت نہیں کرتے اور کان سے سماعت نہیں کرتے ۔

يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا  ۭقُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ   ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ  ۂ ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  ۭ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً  ۭ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا  قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ   ١٨٧؁
[ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ: وہ لوگ پوچھتے ہیں آپ سے ] [ عَنِ السَّاعَةِ: قیامت کے بارے میں ] [ اَيَّانَ: ایان [ کب ہے [ مُرْسٰىهَا ۭ: اس کے قیام ہونے کا وقت ] [ قُلْ: آپ کہہ دیجئے ] [ اِنَّمَا: کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] [ عِلْمُهَا: اس کا علم ] [ عِنْدَ رَبِّيْ ۚ : میرے رب کے پاس ہے] [ لَا يُجَلِّيْهَا: ظاہر نہیں کرے گا (کوئی ) اس کو ] [ لِوَقْتِهَآ: اس کے وقت پر ] [ اِلَّا: مگر ] [ هُوَ ۂ : وہی ] [ ثَقُلَتْ: وہ بھاری ہوئی (یعنی ہوگی ) ] [ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ : زمین اور آسمانوں میں ] [ لَا تَاْتِيْكُمْ: وہ نہیں پہنچے گی تم لوگوں کو ] [ اِلَّا: مگر ] [ بَغْتَةً ۭ : اچانک ] [ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ: وہ پوچھتے ہیں آپ سے ] [ كَاَنَّكَ: جیسے آپ ] [ حَفِيٌّ: پورا علم رکھنے والے ہیں ] [ عَنْهَا : اس کے بارے میں ] [ قُلْ: آپ کہئے ] [ اِنَّمَا عِلْمُهَا: اس کا علم تو بس ] [ عِنْدَ اللّٰهِ: اللہ کے پاس ہے] وَلٰكِنَّ: اور لیکن ] [ اَكْثَرَ النَّاسِ: لوگوں کی اکثریت ] [ لَا يَعْلَمُوْنَ: جانتی نہیں ہے ]



ر س و : (ن) رسوا ۔ ٹھہرنا ۔ جم جانا ۔ راسیۃ ۔ ج: راسیات اور رواسی ۔ اسم الفاعل ہے۔ ٹھہرنے یا جم جانے والی ۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں آتا ہے۔ قرآن میں رواسی پہاڑوں کے لیے آیا ہے ۔ وقدور رسیت [ اور جم جانے والی دیگیں ] 34: 13۔ وجعل فیھا رواسی [ اور اس نے بنایا اس میں پہاڑوں کو ] 13:3۔ (افعال ) ارساء ۔ ٹھہرانا ۔ جمانا ۔ والجبال ارسھا [ اور پہاڑوں کو ، اس نے جمایا ان کو ] 79: 32۔ مرسی ۔ اسم المفعول ہے اور ظرف کے طور پر بھی آتا ہے ۔ ٹھہرایا جمایا ہوا ۔ ٹھہرانے یا جمانے کی جگہ یا وقت ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 187۔

ح ف و : (ن) حفوا ۔ (1) کسی کو کوئی چیز دینا ۔ (2) عزت دینا ۔ مہربان وشفیق ہونا ۔ (س) حفا (1) زیادہ سفر کرنے کی وجہ سے جانور کا گھسے ہوئے کھر والا ہونا ۔ (2) انسان کا کسی چیز کے متعلق پورا پورا علم رکھنے والا ہونا ۔ حفی ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے ۔ (1) مہربان شفیق ۔ انہ کان بی حفیا [ بیشک وہ مجھ پر بہت مہربان ہے ] ۔ (2) پورا پورا علم رکھنے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 187۔ (افعال ) احفاء ۔ کسی سے کوئی چیز مانگنے میں اصرار کرنا ۔ ان یسئلکموھا فیحفکم [ اگر وہ مانگے تم لوگوں سے اسے پھر وہ اصرار کرے تم سے ] 47:37۔

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ   ۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر  ِ ٻ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ  ڔ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ   ١٨٨؀ۧ
[ قُلْ: آپ کہہ دیجیے ] [ لَّآ اَمْلِكُ: میں مالک نہیں ہوں ] [ لِنَفْسِيْ: اپنی جان کیلئے ] [ نَفْعًا: کسی نفع کا ] [ وَّلَا ضَرًّا: اور نہ ہی کسی تکلیف کا ] [ اِلَّا: مگر ] [ مَا: وہ جو ] [ شَاۗءَ: چاہا ] [ اللّٰهُ ۭ : اللہ نے ] [ وَلَوْ: اور اگر ] [ كُنْتُ اَعْلَمُ: میں جانتا ہوتا ] [ الْغَيْبَ: غیب کو ] [ لَاسْتَكْثَرْتُ: تو میں ضرور جمع کرتا ] [ مِنَ الْخَيْر ِ: بھلائی میں سے ] [ وَمَا مَسَّنِيَ: اور نہ چھوتی مجھ کو ] [ السُّوْۗءُ ڔ : برائی ] [ اِنْ: نہیں ] [ اَنَا: ہوں میں ] [ اِلَّا: مگر ] [ نَذِيْرٌ: ایک وارننگ دینے والا ] [ وَّبَشِيْرٌ: اور بشارت دینے والا ] [ لِّقَوْمٍ: ایسی قوم کے لیے] [ يُّؤْمِنُوْنَ: جو ایمان لاتی ہے ]



نوٹ ۔1: بعض اسلامی کتابوں میں دنیا کی عمر سات ہزار سال بتائی گئی ہے ۔ یہ کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ اسرائیلی روایات سے لیا ہوا مضمون ہے۔ اسلامی روایات میں ایسی بےسند باتوں کو داخل کردینے کا مقصد شائد اسلام کے خلاف بدگمانیاں پیدا کرنا ہو۔ علماء طبقات الار ض نے دنیا کی عمر لاکھوں سال بتائی ہے یہ بات نہ کسی قرآنی آیت سے ٹکراتی ہے اور نہ کسی حدیث سے۔ حافظ ابن حزم اندلسی نے فرمایا کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کی عمر کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کا صحیح علم صرف پیدا کرنے والے ہی کو ہے ۔ (تدبر قرآن)

نوٹ ۔2: آیت ۔ 188 میں اس غلط عقیدے کی تردید ہے جو مشرکین نے انبیاء کرام کے بارے میں قائم کر رکھا تھا کہ وہ غیب داں ہوتے ہیں اور ان کا علم اللہ تعالیٰ کی طرح تمام کائنات پر حاوی ہوتا ہے ۔ نیز یہ کہ وہ ہر نفع نقصان کے مالک ہوتے ہیں اور جس کو چاہیں نفع ونقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ اس آیت میں واضح کردیا گیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام نہ قادر مطلق ہوتے ہیں اور نہ عالم الغیب ، بلکہ ان کو علم وقدرت کا اتنا ہی حصہ حاصل ہوتا ہے جتنا من جانب اللہ ان کو دیا جائے ۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ جو حصہ علم ان کو عطا ہوتا ہے وہ ساری مخلوقات سے زیادہ ہوتا ہے ۔ خصوصا ہمارے رسول اللہ
کو جو علم عطا کیا گیا تھا وہ سب سے زیادہ تھا ۔ چنانچہ آپ نے ہزاروں غیب کی خبریں دیں جن کی سچائی کا لوگوں نے مشاہدہ کیا ۔ (تدبر قرآن )

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا  ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ ۚ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ    ١٨٩؁
[ هُوَ: وہ ] [ الَّذِيْ: وہ ہے جس نے] [ خَلَقَكُمْ: پیدا کیا تم لوگوں کو ] [ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ: ایک جان سے ] [ وَّجَعَلَ: اور اس نے بنایا ] [ مِنْهَا: اس (جان ) سے ] [ زَوْجَهَا: اس کا جوڑا ] [ لِيَسْكُنَ: تاکہ وہ سکون پکڑے ] [ اِلَيْهَا ۚ : اس سے ] [ فَلَمَّا: پھر جب ] [ تَغَشّٰىهَا: اس (مذکر) نے ڈھانپ لیا اس (مؤنث ) نے اٹھایا ] [ حَمَلَتْ: تو اس (مونث) نے اٹھایا] [ حَمْلًا خَفِيْفًا: ایک ہلکا بوجھ ] [ فَمَرَّتْ: پھر وہ چلی ] [ بِهٖ ۚ : اس کے ساتھ ] [ فَلَمَّآ: پھر جب ] [ اَثْقَلَتْ: اس نے بوجھ لادا] [ دَّعَوَا: تو دونوں نے پکارا ] [ اللّٰهَ: اللہ کو ] [ رَبَّهُمَا: جو دونوں کا رب ہے ] [ لَىِٕنْ: بیشک اگر ] [ اٰتَيْتَنَا: تو دے گا ہم کو ] [ صَالِحًا: ایک نیک (اولاد) ] [ لَّنَكُوْنَنَّ: تو ہم لازما ہوں گے ] [ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ: شکر کرنے والوں میں سے ]



نوٹ ۔1: جعل منھا زوجھا پر غور کرتے ہوئے سائنس کے انکشاف کو بھی ذہن میں رکھیے ، جس کا ذکر ڈاکڑ رفع الدین مرحوم نے اپنی کتاب ’’ قرآن اور علم جدید ‘‘ میں کیا ہے، کہ زندگی کے آغاز میں جسد انسانی کی اولین صورت ایک جونک کی طرح ایک ہی خلیہ پر مشتمل تھی ار ایک خلیہ سے جاندار کے توالد کا طریق یہ ہے کہ وہ بڑھ کر خود بخود دو حصوں میں منقسم ہوجاتا ہے ، جن میں سے ہر ایک حصہ ایک مکمل جاندار ہوتا ہے ۔ پھر بدنی ارتقا کے اگلے مراحل پر ایک حصہ مادہ کے فرائض کے لیے اور دوسرا حصہ نر کے فرائض کے لیے موزوں بن جاتا ہے۔ (تدبر قرآن ]

فَلَمَّآ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَاۗءَ فِيْمَآ اٰتٰىهُمَا  ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ     ١٩٠؁
[ فَلَمَّآ: پھر جب ] [ اٰتٰىهُمَا: اس نے دیا انہیں ] [ صَالِحًا: ایک نیک (اولاد)] [ جَعَلَا: تو دونوں نے بنایا ] [ لَهٗ: اس کے لیے ] [ شُرَكَاۗءَ: کچھ شریک ] [ فِيْمَآ: اس میں جو ] [ اٰتٰىهُمَا ۚ : اس نے دیا ان کو ] [ فَتَعٰلَى: تو بلند ہے] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ عَمَّا: اس سے جو ] [ يُشْرِكُوْنَ: یہ لوگ شریک بناتے ہیں ]



نوٹ ۔ 2ـ : آیت نمبر ۔ 189۔ 190 میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ نوح انسانی کا پہلا جوڑا ، جس سے آفرنیش کی ابتدا ہوئی ، اس کا خالق بھی اللہ ہی تھا ، کوئی دوسرا اس کار تخلیق میں شریک نہیں تھا ۔ پھر ہر مرد وعورت کے ملاپ سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے ، اس کا خالق بھی اللہ ہی ہے ۔ اس کا اقرار تمہارے دلوں میں موجود ہے۔ اسی لیے امید وبیم کی حالت میں جب دعا مانگتے ہو تو اللہ ہی سے مانگتے ہو ۔ پھر جب امیدیں پوری ہوجاتی ہیں تو تمہیں شریک کی سوجھتی ہے ۔ یہاں ایک اور بات قابل توجہ ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عرب کے مشرکین کی مذمت کی ہے ۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ اولاد تو اللہ سے ہی مانگتے تھے مگر جب بچہ پیدا ہوجاتا تو اللہ کے شکرانے میں دوسروں کو حصہ دار ٹھہرا لیتے تھے ۔ لیکن ہم لوگ اولاد بھی غیروں سے مانگتے ہیں ۔ منتیں بھی غیروں کے نام کی ہی مانتے ہیں اور نیاز بھی ان ہی کے آستانوں پر چڑھاتے ہیں ۔ پھر بھی موحد ہی رہتے ہیں ۔ (تفہیم القرآن )

اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ     ١٩٤؁
[ اِنَّ: بیشک ] [ الَّذِيْنَ: وہ لوگ جن کو ] [ تَدْعُوْنَ: تم لوگ پکارتے ہو] [ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے علاوہ ] [ عِبَادٌ: (وہ ) بندے ہیں ] [ اَمْثَالُكُمْ: تمہارے جیسے ] [ فَادْعُوْهُمْ: پس تم لوگ (ذرا) پکارو تو ان کو ] [ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا: تو انہیں چاہیے کہ وہ جواب دیں ] [ لَكُمْ: تم کو ] [ اِنْ: اگر ] [ كُنْتُمْ: تم لوگ ہو ] [ صٰدِقِيْنَ: سچ کہنے والے ]



اسی طرح سے آیت ۔ 194 میں فعل امر فادعوہم بھی جمع کا صیغہ ہے ۔ یہ ادعوا تھا ۔ ضمیر مفعولی آنیکی وجہ سے الف گرا ہوا ہے۔



نوٹ۔3: آیت ۔ 196 میں بتایا گیا ہے کہ انبیاء کرام کی تو بڑی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ تو عام صالح اور نیک مسلمانوں کا بھی کار ساز اور مددگار ہوتا ہے ۔ اس لیے مخالفین کی مخالفت اسے نقصان نہیں پہنچا پاتی ۔ اور اگر کبھی بتقاضائے حکمت اس کو کوئی نقصان پہنچ بھی جائے تو بھی اس کے اصل مقصد میں کوئی خلل نہیں پڑتا ۔ مومن صالح کا اصل مقصد اللہ کی رضا ہے۔ اگر وہ دنیا میں کسی وجہ سے ناکام بھی ہوجائے تو بھی رضائے الہی کا اصل مقصد اسے حاصل ہوجاتا ہے۔ (معارف القرآن )

امام حسین (رض) کا مقصد اگر خلافت کا حصول تھا تو اس میں تو وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ ان کا مقصد نہیں تھا ۔ ان کا مقصد تو بس ایک تھا ۔ اللہ کی رضا جوئی اور اس پر استقامت ۔ اس مقصد کے حصول میں وہ ایسا کامیاب ہوئے کہ دنیا تو دنیا ، فرشتے بھی حیرت سے تکتے ہی رہ گئے ۔

شہادت ہے مقصودو مطلوب مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

اَلَهُمْ اَرْجُلٌ يَّمْشُوْنَ بِهَآ  ۡ اَمْ لَهُمْ اَيْدٍ يَّبْطِشُوْنَ بِهَآ  ۡ اَمْ لَهُمْ اَعْيُنٌ يُّبْصِرُوْنَ بِهَآ  ۡ اَمْ لَهُمْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا  ۭقُلِ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ    ١٩٥؁
[ اَ: کیا ] [ لَهُمْ: ان کے لیے ] [ اَرْجُلٌ: پیر ہیں ] [ يَّمْشُوْنَ: وہ چلتے ہیں ] [ بِهَآ ۡ : جن سے ] [ اَمْ: یا ] [ لَهُمْ: ان کے لیے] [ اَيْدٍ: ہاتھ ہیں ] [ يَّبْطِشُوْنَ: وہ پکڑتے ہیں ] [ بِهَآ ۡ : جن سے ] [ اَمْ: یا] [ لَهُمْ: ان کے لیے] [ اَعْيُنٌ: آنکھیں ہیں ] [ يُّبْصِرُوْنَ: وہ دیکھتے ہیں ] [ بِهَآ ۡ : جن سے ] [ اَمْ: یا ] [ لَهُمْ: ان کے لیے] [ اٰذَانٌ: کان ہیں ] [ يَّسْمَعُوْنَ: وہ سنتے ہیں ] [ بِهَا : جن سے] [ ۭقُلِ: آپ کہہ دیجیے] [ ادْعُوْا: تم لوگ پکارو] [ شُرَكَاۗءَكُمْ: اپنے شریکوں کو ] [ ثُمَّ: پھر ] [ كِيْدُوْنِ: تدبیر کرو میرے خلاف ] [ فَلَا تُنْظِرُوْنِ: پھر تم لوگ مہلت نہ دو مجھ کو ]



ب ط ش ۔ (ن) : بطشا ۔ پکڑنا ۔ گرفت کرنا زیر مطالعہ آیت ۔ 195۔ بطش ، اسم ذات بھی ہے ، پکڑ ، گرفت ۔ ان بطش ربک لشدید [ بیشک آپ کے رب کی پکڑ یقینا شدید ہے] 85: 12۔

اِنَّ وَلِيّۦ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ڮ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ     ١٩٦؁
اِنَّ: بیشک ] [ وَلِيّۦ : میرے کارساز ] [ اللّٰهُ الَّذِيْ: وہ اللہ ہے جس نے ] [ نَزَّلَ: اتارا ] [ الْكِتٰبَ ڮ : کتاب کو ] [ وَهُوَ: اور وہ ] [ يَتَوَلَّى: دوست رکھتا ہے ] [ الصّٰلِحِيْنَ : نیک لوگوں کو ]



(آیت ۔ 196) ولی ے قرآن کا خصوصی املا ہے ۔ یہ دراصل ولی ہے یعنی ولی پر مضاف الیہ کے طور پر یائے متکلم لگی ہوئی ہے۔

وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ    ١٩٧؁
[ وَالَّذِيْنَ: اور وہ لوگ جن کو ] [ تَدْعُوْنَ: تم لوگ پکارتے ہو] [ مِنْ دُوْنِهٖ: اس کے علاوہ ] [ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ: وہ استطاعت نہیں رکھتے ] [ نَصْرَكُمْ: تمہاری مددکی ] [ وَلَآ اَنْفُسَهُمْ: اور نہ ہی اپنے آپ کی ] [ يَنْصُرُوْنَ: وہ مدد کرتے ہیں ]

وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا  ۭوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ    ١٩٨؁
[ وَاِنْ: اور اگر ] [ تَدْعُوْهُمْ: تم لوگ پکاروان کو ] [ اِلَى الْهُدٰى: ہدایت کی طرف ] [ لَا يَسْمَعُوْا : تو وہ لوگ نہیں سنتے ] [ ۭوَتَرٰىهُمْ: اور آپ دیکھتے ہیں ان کو ] [ يَنْظُرُوْنَ: (کہ ) وہ تکتے ہیں ] [ اِلَيْكَ: آپ کی طرف ] وَ: اس حال میں کہ ] [ هُمْ: وہ لوگ ] [ لَا يُبْصِرُوْنَ: دیکھ کر سمجھتے نہیں ہیں ]

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ     ١٩٩؁
[ خُذِ: آپ پکڑیں ] [ الْعَفْوَ: درگزر کو ] [ وَاْمُرْ: اور حکم دیں ] [ بِالْعُرْفِ: نیکی کا ] [ وَاَعْرِضْ: اور کنارہ کشی کریں ] [ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ: جاہلوں سے]



 نوٹ ۔ 1: جب آیت نمبر 199 اتری تو رسول اللہ
نے حضرت جبریل علیہ السلام سے پوچھا کہ اس سے کیا مقصد ہوا تو جبریل علیہ السلام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ جو تمہاری ذات پر کوئی زیادتی کرے تو اس کو معاف کردیا کرو ، جو تم کو نہ دے اس کو دو ، جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو۔ (ابن کثیر )

لفظ عفو کے کئی معنی ہیں اور اس موقع پر ہر معنی کی گنجائش ہے۔ اسی لیے علماء تفسیر نے مختلف معنی لیے ہیں ۔ جمہور مفسرین کی رائے میں اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ آپ اس چیز کو قبول کرلیا کریں جو لوگ آسانی سے کرسکیں یعنی واجبات شرعیہ میں آپ لوگوں سے اعلی معیار کا مطالبہ نہ کریں بلکہ وہ جس پیمانہ پر آسانی سے عمل پیرا ہوسکیں اتنے ہی درجہ کو قبول کرلیاکریں ۔ (معارف القرآن )

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی خدا کے حقوق واجبی میں قصور کرے تو بھی اعراض کرجاؤ یا اللہ سے کفر کرے تو بھی درگزر کردیا مسلمانوں سے لڑے تو بھی خاموش رہو ۔ ایسی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے ۔ (ابن کثیر )

مورخہ 5 محرم الحرام 1425 ھ

بمطابق 25 ۔ فروری 2004 ء

وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۭاِنَّهٗ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ     ٢٠٠؁
[ وَاِمَّا: اور اگر ] [ يَنْزَغَنَّكَ: اکسائے ہی آپ کو ] [ مِنَ الشَّيْطٰنِ: شیطان سے ] [ نَزْغٌ: کوئی اکساہٹ ] [ فَاسْتَعِذْ: تو آپ پناہ مانگیں ] [ بِاللّٰهِ: اللہ سے ] [ ۭاِنَّهٗ: یقینا وہ ] [ سَمِيْعٌ: سننے والا ہے] [ عَلِيْمٌ: جاننے والا ہے ]



ن ز غ ۔ (ف) : نزغ بگاڑ پیدا کرنا ۔ (1) کسی کو کسی کے خلاف ابھارنا ۔ ناچاقی پیدا کرنا ۔ ان الشیطن ینزغ بینہم [ بیشک شیطان ناچاقی ڈالتا ہے ان کے مابین ] 17: 53۔ (2) کسی غلط کام پر اکسانا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 200 ۔ نزغ ، اسم ذات بھی ہے ۔ ناچاقی ۔ اکساہٹ ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 200۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰۗىِٕفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ     ٢٠١؀ۚ
[ اِنَّ: یقینا ] [ الَّذِيْنَ: جو لوگ ] [ اتَّقَوْا: تقوی کرتے ہیں] [ اِذَا: جب کبھی ] [ مَسَّهُمْ: چھوتا ہے ان کو ] [ طٰۗىِٕفٌ: کوئی وسوسہ ] [ مِّنَ الشَّيْطٰنِ: شیطان سے ] [ تَذَكَّرُوْا: تو وہ خود کو یاد کراتے ہیں ] [ فَاِذَا: پھر جب فورا ہی ] [ هُمْ: وہ لوگ ] [ مُّبْصِرُوْنَ: بینا ہونے والے ہوتے ہیں ]

وَاِخْوَانُهُمْ يَمُدُّوْنَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُوْنَ    ٢٠٢؁
[ وَاِخْوَانُهُمْ: اور ان کے بھائی ] [ يَمُدُّوْنَهُمْ: کھینچتے ہیں ان کو ] [ فِي الْغَيِّ: گمراہی میں ] [ ثُمَّ: پھر ] [ لَا يُقْصِرُوْنَ: وہ لوگ کمی نہیں کرتے ]

وَاِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰيَةٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا  ۭقُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ  ۚ هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ   ٢٠٣؁
[ وَاِذَا: اور جب ] [ لَمْ تَاْتِهِمْ: آپ نہیں لاتے ان کے پاس ] [ بِاٰيَةٍ: کوئی آیت ] [ قَالُوْا: تو وہ کہتے ہیں ] [ لَوْلَا: کیوں نہیں ] [ اجْتَبَيْتَهَا ۭ : تصنیف کیا آپ نے اس کو ] [ قُلْ: آپ کہہ دیجیے ] [ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ: میں تو بس پیروی کرتا ہوں ] [ مَا: اس کی جو ] [ يُوْحٰٓى: وحی کیا گیا ] [ اِلَيَّ: میری طرف ] [ مِنْ رَّبِّيْ ۚ : میرے رب سے ] [ هٰذَا: یہ ] [ بَصَاۗىِٕرُ: دلیلیں ہیں ] [ مِنْ رَّبِّكُمْ: تمہارے رب کی طرف سے ] [ وَهُدًى: اور ہدایت ہے ] [ وَّرَحْمَةٌ: اور رحمت ہے ] [ لِّقَوْمٍ: ایسے لوگوں کے لیے ] [ يُّؤْمِنُوْنَ: جو ایمان رکھتے ہیں ]

وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ    ٢٠٤؁
[ وَاِذَا: اور جب بھی ] [ قُرِئَ: پڑھا جائے ] [ الْقُرْاٰنُ: قرآن ] [ فَاسْتَمِعُوْا: تم لوگ کان لگا کر سنو] [ لَهٗ: اس کو ] [ وَاَنْصِتُوْا: اور چپ چاپ سنو] [ لَعَلَّكُمْ: شاید تم لوگوں پر ] [ تُرْحَمُوْنَ: رحم کیا جائے ]



ن ص ت ۔ (ض) : نصتا ۔ چپ ہوکر سننا ۔ چپ چاپ سننا ۔ انصت ، فعل امر ہے۔ چپ چاپ سن ۔ (افعال ) انصاتا ۔ ثلاثی مجرد کا ہم معنی ہے۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 204۔

وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ    ٢٠٥؁
[ وَاذْكُرْ: اور آپ یاد رکھیں ] [ رَّبَّكَ: اپنے ربک کو ] [ فِيْ نَفْسِكَ: اپنے جی میں ] [ تَضَرُّعًا: گڑگڑاتے ہوئے ] [ وَّخِيْفَةً: اور ڈرتے ہوئے ] [ وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ: اور نمایاں کیے بغیر ] [ مِنَ الْقَوْلِ: قول میں سے (کچھ ) ] بِالْغُدُوِّ : صبح کے وقت] [ وَالْاٰصَالِ: اور شام کے وقت ] [ وَلَا تَكُنْ: اور آپ مت ہوں ] [ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ: غافلوں میں سے ]



ء ص ل ۔ (ک) : اصالۃ ۔ جڑ والا ہونا ۔ جڑ پکڑنا ۔ اصل ۔ ج: اصول ۔ اسم ذات ہے۔ جڑ ۔ بنیاد ۔ انھا شجرۃ تخرج فی اصل الجحیم [ بیشک وہ ایک ایسا درخت ہے جو نکلتا ہے دوزخ کی جڑمیں ] 37:64۔ اوترکتموھا قائمۃ علی اصولھا [ یاتم لوگوں نے چھوڑا اس کو کھڑا ہوا اپنی جڑوں پر ] 59:5۔ (س) اصلا ۔ متغیر ہونا ۔ کمزرو ہونا ۔ اصیل ۔ ج: اصال ۔، فعیل کے وزن پر صفت ہے ۔ متغیر ۔ کمزور ، پھر اس مفہوم میں عصر اور مغرب کا درمیانی وقت لیتے ہیں ۔ شام کا وقت ۔ وسبحوہ بکرۃ واصیلا [ اور تم لوگ تسبیح کرو اس کی صبح کے وقت اور شام کے وقت ] 33: 42۔ اور زیر مطالعہ آیت ۔ 205۔

اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَيُسَبِّحُوْنَهٗ وَلَهٗ يَسْجُدُوْنَ    ٢٠٦؀ڙ
[ اِنَّ: بیشک ] [ الَّذِيْنَ: وہ لوگ جو ] [ عِنْدَ رَبِّكَ: آپ کے رب کے نزدیک ہیں ] [ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ: وہ بڑائی نہیں چاہتے ] [ عَنْ عِبَادَتِهٖ: اس کی عبادت سے ] [ وَيُسَبِّحُوْنَهٗ: اور اور تسبیح کرتے ہیں اس کی ] [ وَلَهٗ: اور اس کے لیے ہی ] [ يَسْجُدُوْنَ: وہ سجدہ کرتے ہیں ]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ    Ǽ۝ۭ
[ الَّذِيْنَ: وہ لوگ جو ] [ يُقِيْمُوْنَ: قائم رکھتے ہیں ] [ الصَّلٰوةَ: نماز کو ] [ وَمِمَّا: اور اس میں سے جو ] [ رَزَقْنٰهُمْ: ہم نے عطا کیا ان کو ] [ يُنْفِقُوْنَ: وہ لوگ خرچ کرتے ہیں ]

اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا  ۭلَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ    Ć۝ۚ
[ اُولٰۗىِٕكَ: وہ لوگ ] [ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ: ہی ایمان لانے والے ہیں ] [ حَقًّا ۭ : حقیقتا] [ لَهُمْ: ان کے لیے ہی ] [ دَرَجٰتٌ: درجے ہیں ] [ عِنْدَ رَبِّهِمْ: ان کے رب کے پاس ] [ وَمَغْفِرَةٌ: اور مغفرت ہے ] [ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ: اور باعزت رزق ہے ]

كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ  ۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ    Ĉ۝ۙ
[ كَمَآ: جیسے کہ ] [ اَخْرَجَكَ: آپ کو نکالا ] [ رَبُّكَ: آپ کے رب نے ] [ مِنْۢ بَيْتِكَ: آپ کے گھر سے ] [ بِالْحَقِّ ۠ : حق کے ساتھ ] [ وَاِنَّ: اور بیشک ] [ فَرِيْقًا: ایک فریق ] [ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ: مومنوں میں سے] [ لَكٰرِهُوْنَ: یقینا ناپسند کرنے والا تھا ]

يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ   Č۝ۭ
[ يُجَادِلُوْنَكَ: وہ لوگ بحث کرتے تھے آپ سے ] [ فِي الْحَقِّ: حق (بات ) میں ] [ بَعْدَمَا: اس کے بعد کہ جو] [ تَبَيَّنَ: واضح ہوا ] [ كَاَنَّمَا: گویا کہ ] [ يُسَاقُوْنَ: وہ لوگ ہانکے جاتے ہیں ] [ اِلَى الْمَوْتِ: موت کی طرف ] [ وَ: اس حال میں کہ ] [ هُمْ: وہ ] [ يَنْظُرُوْنَ: دیکھتے ہیں ]

وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ   Ċ۝ۙ
[ وَاِذْ: اور جب ] [ يَعِدُكُمُ: وعدہ کیا تم سے ] [ اللّٰهُ: اللہ نے ] [ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ: دو جماعتوں کی ایک کا ] [ اَنَّهَا: کہ وہ ] [ لَكُمْ: تمہارے لیے ہے ] [ وَتَوَدُّوْنَ: اور تم لوگ چاہتے تھے ] [ اَنَّ: کہ ] [ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ : ہتھیار والی کے علاوہ ] [ تَكُوْنُ: ہو] [ لَكُمْ: تمہارے لیے ] [ وَيُرِيْدُ: اور چاہتا تھا ] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ اَنْ: کہ ] [ يُّحِقَّ: وہ حق کرے] [ الْحَقَّ: حق کو ] [ بِكَلِمٰتِهٖ: اپنے فرمانوں سے ] [ وَيَقْطَعَ: اور وہ کاٹے ] [ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ: کافروں کی جڑ کو ]



ش و ک ۔ (ن) : شوکا ۔ کسی کو کانٹا چبھونا ۔ شوک ، اسم جنس ہے ۔ واحد شوکۃ ۔ ج : اشواک ۔ کانٹا ، جنگی ہتھیار ۔ زیرمطالعہ آیت ۔7۔



ترکیب : (آیت ۔ 7) یعد کا مفعول اول کم ہے اور مفعول ثانی احدی الطائفتین ہے ۔ اس لیے احدی حالت نصب میں آیا ہے ۔ انھا لکم تاکید کے لیے ہے، ان یحق کے ان پر عطف ہونے کی وجہ سے یقطع حالت نصب میں ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ اسی لحاظ سے ہوگا ۔

لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ   Ď۝ۚ
[ لِيُحِقَّ: تاکہ وہ حق کرے ] [ الْحَقَّ: حق کو ] [ وَيُبْطِلَ: اور باطل کرے ] [ الْبَاطِلَ: باطل کو ] [ وَلَوْ: اور اگرچہ ] [ كَرِهَ: ناپسند کریں ] [ الْمُجْرِمُوْنَ: مجرم لوگ ]

اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ    ۝
[ اِذْ: جب ] [ تَسْتَغِيْثُوْنَ: تم لوگ مدد کے لیے پکارتے تھے ] [ رَبَّكُمْ: اپنے رب کو ] [ فَاسْتَجَابَ: تو اس نے جواب دیا ] [ لَكُمْ: تمہارے لیے ] [ اَنِّىْ: کہ میں ] [ مُمِدُّ : مدد کرنے والا ہوں ] [ كُمْ: تمہاری ] [ بِاَلْفٍ: ایک ہزار سے ] [ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ: فرشتوں میں سے ] [ مُرْدِفِيْنَ: لگا تار آنے والے ہوتے ہوئے ]



غ و ث ۔ (ن) : غوثا ۔ مدد کرنا ۔ ان یستغیثوا یغاثوا بماء کالمھل [ اگر وہ لوگ مدد کے لیے پکاریں گے تو ان کی مدد کی جائے گی ایک پانی سے جیسے پگھلی ہوئی دھات ] 18: 29۔ (استفعال ) استغاثہ ۔ مدد کے لیے پکارنا ۔ زیرمطالعہ آیت ۔9۔

رد ف ۔ (س) : ردفا ۔ کسی کے پیچھے سوار ہونا۔ کسی کے پیچھے لگنا۔ عسی ان یکون ردف لکم بعض الذی تستعجلون [ ہوسکتاہے کہ تمہارے پیچھے آلگی ہو اس کی بعض جس کی تم جلدی مچاتے ہو ] 27: 72۔ رادفۃ پیچھے لگنے والی ۔ تتبعھا الرادفۃ [ پیچھے آئے گی اس کے پیچھے لگنے والی ] 79:7 (افعال ) اردافا (1) کسی کو کسی کے پیچھے لگانا ۔ (2) کسی کو اپنے پیچھے لگانا ۔ لگاتار آنا ۔ مردف ۔ لگا تار آنے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔9،

وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ ۭوَمَا النَّصْرُ اِلَّامِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ   10  ۝ۧ
[ وَمَا جَعَلَهُ: اور نہیں بنایا اس کو ] [ اللّٰهُ: اللہ نے ] [ اِلَّا: مگر ] [ بُشْرٰي: خوشخبری ] [ وَلِتَطْمَىِٕنَّ: اور تاکہ مطمئن ہوں ] [ بِهٖ: اس سے ] [ قُلُوْبُكُمْ ۭ : تمہارے دل ] [ وَمَا النَّصْرُ: اور نصرت نہیں ہے ] [ اِلَّا: مگر ] [ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے پاس سے ] [ اِنَّ اللّٰهَ: بیشک اللہ ] [ عَزِيْزٌ: بالا دست ہے ] [ حَكِيْمٌ: حکمت والا ہے ]



نوٹ ۔1: یہ آیات ان روایات کی تردید کررہی ہیں جو جنگ بدر کے سلسلہ میں عموما کتب سیرت ومغازی میں نقل کی جاتی ہیں، یعنی یہ کہ ابتداء نبی
اور مومنین قافلے کو لوٹنے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے تھے ۔ پھر چند منزل آگے جاکر جب معلوم ہوا کہ قریش کا لشکر قافلہ کی حفاظت کے لیے آرہا ہے ۔ تب یہ مشورہ کیا گیا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے یا لشکر کا مقابلہ ۔ اس کے برعکس قرآن یہ بتا رہا ہے کہ جس وقت نبی کریم اپنے گھر سے نکلے تھے اسی وقت یہ امر حق آپ کے پیش نظر تھا کہ قریش کے لشکر سے فیصلہ کن مقابلہ کیا جائے ۔ اور یہ مشاورت بھی اسی وقت ہوئی تھی کہ قافلہ اور لشکر میں سے کس کو حملہ کے لیے منتخب کیا جائے اور باوجود اس کے کہ مومنین پر یہ حقیقت واضح ہوچکی تھی کہ لشکر ہی سے نمٹنا ضروری ہے، پھر بھی ان میں سے ایک گروہ اس سے بچنے کے لیے حجت کرتا رہا ۔ اور بالآخر جب آخری رائے یہ قرار پاگئی کہ لشکر ہی کی طرف چلنا چاہیے تویہ گروہ مدینہ سے یہ خیال کرتا ہوا چلا کہ ہم سیدھے موت کے منہ میں ہانکے جارہے ہیں ۔ (تفہیم القرآن )

اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لِّيُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ وَلِيَرْبِطَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَ  11۝ۭ
[ اِذْ: جب ] [ يُغَشِّيْكُمُ: اس نے ڈھانپ دیا تم لوگوں کو] [ النُّعَاسَ: اونگھ سے ] [ اَمَنَةً: امن ہوتے ہوئے] [ مِّنْهُ: اپنی طرف سے ] [ وَيُنَزِّلُ: اور اس نے اتارا ] [ عَلَيْكُمْ: تم پر ] [ مِّنَ السَّمَاۗءِ: آسمان سے ] [ مَاۗءً: کچھ پانی ] [ لِّيُطَهِّرَكُمْ: تاکہ وہ پاک کرے تم لوگوں کو ] [ بِهٖ: اس سے ] [ وَيُذْهِبَ: اور وہ لے جائے ] [ عَنْكُمْ: تم سے ] [ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ: شیطان کی نجاست کو ] [ وَلِيَرْبِطَ: اور تاکہ وہ مضبوط کرے ] [ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ: تمہارے دلوں کو] [ وَيُثَبِّتَ: اور وہ جمادے ] [ بِهِ: اس سے ] [ الْاَقْدَامَ: قدموں کو ]



نوٹ ۔1: ہمارے کچھ بھائیوں کی رائے ہے کہ احادیث کی سند پر تو بہت تحقیق ہوئی ہے لیکن ان کے متن پر تحقیق نہیں ہوئی ، حالانکہ اس کی سخت ضرورت ہے۔ اس ضمن میں وہ لوگ جو حوالے دیتے ہیں ، ان میں زیرمطالعہ آیت ۔11 کا حوالہ شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عین اس وقت اونگھ طاری ہوجائے جب زور شور سے جنگ جاری ہو اور حالت یہ ہوجائے کہ لوگوں کے ہاتھوں سے تلواریں چھوٹ کرگر پڑی ہوں ، یہ بات عقل قبول نہیں کرتی ۔ جبکہ ابن کثیر میں یہی مفہوم دیا ہے ۔ اس لیے احادیث کے متن پر تحقیق کی ضرورت ہے ۔ حقیقت واضح کرنے کے لیے پہلے ہم ابن کثیر کی متعلقہ عبارت نقل کررہے ہیں اس کے بعد اپنی وضاحت پیش کریں گے ۔

’’ اللہ پاک ان احسانات کو یاد دلاتا ہے کہ وقت جنگ تم پر غنودگی طاری کرکے ہم نے تم پر احسان کیا ہے کہ اپنی قلت اور دشمن کی کثرت کا جو تمہیں احساس تھا اور اس احساس کے تحت تم پر ایک خوف سا طاری تھا اس سے تمہیں مامون کردیا اور اس طرح اللہ نے یوم احد میں بھی کیا تھا ۔ (یہاں آیت 3:154) کی متعلقہ عربی عبارت اور ترجمہ ہے) ابوطلحہ (رض) کہتے ہیں کہ جنگ احد کے روز مجھے بھی غنودگی آ گئی تھی کہ تلوار میرے ہاتھ سے گری جاتی تھی اور میں اٹھاتا جاتا تھا اور میں لوگوں کو بھی دیکھ رہا تھا کہ ڈھال سر پر لگائے ہوئے نیند میں جھول رہے تھے ۔ حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ بدر کے روز مقداد (رض) کے سوا کسی کے پاس سواری نہیں تھی ۔ ہم سب نیند کے عالم میں تھے ۔ لیکن رسول اللہ
ایک درخت کے نیچے صبح تک نمازیں پڑھتے رہے اور خدا کے آگے روتے رہے ، ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ بروز جنگ یہ اونگھ خدا کی طرف سے گویا ایک امن کی شکل میں تھی اور نماز میں یہی اونگھ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں اونگھ سر میں ہوتی ہے اور نیند دل میں ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ غنودگی یوم احد میں گھیرے ہوئے تھی اور یہ خبر تو بہت عام اور مشہور ہے اور یہاں آیت شریفہ سیاق قصہ بدر میں ہے اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ بدر میں بھی غنودگی طاری تھی اور یہ شدت جنگ میں مومنین پر طاری ہوجایا کرتی تھی تاکہ ان کے قلوب اللہ کی مدد سے مطمئن اور مامون رہیں اور یہ مومنین پر اللہ کا فضل اور رحمت ہے۔ ‘‘

اب پہلی بات یہ نوٹ کریں کہ اس پوری عبارت میں رسول اللہ
کا کوئی ارشاد منقول نہیں ہے ۔ وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا ۔ وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے ۔ دوسری بات یہ نوٹ کریں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے کسی قول سے یہ مترشح نہیں ہے کہ یہ اونگھ عین حالت کار زار میں طاری ہوئی تھی ، نہ احد میں اور نہ ہی بدر میں ۔ ال عمران کی آیت اس ضمن میں بہت واضح ہے کہ احد میں شکست ہوجانے کے بعد مسلمان فوج کے ایک گروہ پر ایک اونگھ طاری کی گئی تھی اور طلحہ (رض) اس کی کیفیت بیان کررہے ہیں ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ عین حالت جنگ کی کیفیت بیان کررہے ہیں تو یہ اس کے اپنے ذہن کا تصوراتی ہیولہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ حضرت علی (رض) کا قول بہت واضح ہے کہ یہ اونگھ رات کے وقت طاری کی گئی تھی ، جبکہ ابن مسعود (رض) اور قتادہ رحمہ اللہ کے اقوال آیت زیر مطالعہ کی تفسیر سے متعلق ہیں ، جنگ کے ذاتی تجربہ کا بیان نہیں ہے، البتہ ابن کثیر کا اپنا قول یہ ہے کہ اونگھ عین حالت جنگ میں طاری کی گئی تھی ، تو یہ ایک مفسر کا قول ہے جس سے اختلاف ممکن ہے اور اکثر مفسرین نے ان کی اس رائے سے اختلاف کیا بھی ہے۔

مذکورہ تجزیہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسناد کی تحقیق کے بعد جب معلوم ہوجائے کہ یہ رسول اللہ
کا فرمان ہے تو پھر اس کے متن پر تحقیق کرنا چہ معنی دارد ۔ ایسا سوچنا بھی بڑی جسارت کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے ۔ البتہ کسی متن سے کوئی جو مفہوم اخذ کرتا ہے ، اس مفہوم پر تحقیق ہوسکتی ہے اور اس ضرورت کے ہم معترف ہیں ۔ فی زمانہ اس ضمن میں ایک مزید ضرورت کا اضافہ ہوگیا ہے۔ وہ اس طرح کہ پاکستان بننے کے بعد ہمارے معاشرے میں نو دولتیوں کا ایک طبقہ وجود میں آیا تھا ۔ آج کل نو تعلیمیوں کا ایک طبقہ وجود میں آگیا ہے ۔ یہ لوگ جس طرح کے مفاہیم اخذ کرتے ہیں ۔ اس کا ایک نقشہ آپ مذکورہ بالا تجزیہ میں دیکھ چکے ۔ ان کے دوچار اور مفاہیم اگر آپ کے سامنے آگئے تو آپ کو بھی اس ضرورت کا احساس ہونے لگے گا کہ مفہوم اخذ کرنے والے کے دماغ پر بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ وہ ورکنگ آرڈر میں ہے کہ نہیں ۔

آخری بات یہ ہے کہ احادیث کے متن پر تحقیق کرنے سے بات ختم نہیں ہوگی بلکہ بات شروع ہوگی ، ایک صاحب کو میں ذاتی طور پرجانتا ہوں جو قرآن مجید کی چند آیات کے متن پر تحقیق کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ یہ اللہ کا کلام اور قرآن مجید کی آیات نہیں ہوسکتیں بلکہ یہ من گھڑت (موضوع) آیات ہیں جو کسی نے قرآن میں شامل کردی ہیں ۔ اپنی تحقیق کا لب لباب بڑی داد طلب نظروں سے جب وہ میرے سامنے پیش کرچکے تو میں نے اعتراف کیا کہ آپ کی ریسرچ اتنی گہری ہے کہ وہ ’’ خوض ‘ ‘ کے ’’ رتبہ ‘‘ کو پہنچی ہوئی ہے ۔ اس لیے صرف آپ ہی اس کے اہل ہیں کہ اب آپ اس آیت کے متن پر تحقیق کریں جس میں اللہ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ جیسے جاہل سے ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرلیا۔

اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا   ۭسَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ   12۝ۭ
[ اِذْ: جب ] [ يُوْحِيْ: وحی کیا ] [ رَبُّكَ: آپ کے رب نے ] [ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ: فرشتوں کی طرف ] [ اَنِّىْ: کہ میں ] [ مَعَكُمْ: تمہارے ساتھ ہوں ] [ فَثَبِّتُوا: پس تم لوگ جمادو] [ الَّذِيْنَ: ان لوگوں کو جو ] [ اٰمَنُوْا ۭ: ایمان لائے] [ سَاُلْقِيْ: میں ڈالوں گا ] [ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ: ان کے دلوں میں جنہوں نے ] [ كَفَرُوا: کفر کیا ] [ الرُّعْبَ: رعب ] [ فَاضْرِبُوْا: پس تم لوگ مارو] [ فَوْقَ الْاَعْنَاقِ: گردنوں کے اوپر ] [ وَاضْرِبُوْا: اور مارو] [ مِنْهُمْ: ان میں سے ] [ كُلَّ بَنَانٍ: سب پوروں کو ]



ع ن ق ۔ (س) : عنقا ۔ لمبی گردن والا ہونا۔ عنق ۔ ج: اعناق ۔ گردن ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 12۔

ب ن ن ۔ (ض)۔ بنا ۔ کسی جگہ اقامت پذیر ہونا۔ بنان ۔ اسم جنس ہے ۔ واحد بنانۃ ۔ ج: بنات ۔ انگلیوں کے پور ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 12۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَ  15۝ۚ
[ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ: اے لوگو! جو ] [ اٰمَنُوْٓا: ایمان لائے ] [ اِذَا: جب کبھی ] [ لَقِيْتُمُ: تم لوگ ملو ] [ الَّذِيْنَ: ان سے جنہوں نے ] [ كَفَرُوْا: کفر کیا ] [ زَحْفًا: لشکر کے چلتے ہوئے ] [ فَلَا تُوَلُّوْهُمُ: تو تم لوگ مت پھیرو ان سے ] [ الْاَدْبَارَ: پیٹھوں کو ]



زح ف ۔ (ف) : زحفا ۔ آہستہ آہستہ گھسٹنا ۔ کثرت کی وجہ سے لشکر کا آہستہ آہستہ چلنا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 15۔

وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ  ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ    16؀
[ وَمَنْ: اور جو ] [ يُّوَلِّهِمْ: پھیرے گا ان سے ] [ يَوْمَىِٕذٍ: اس دن ] [ دُبُرَهٗٓ: اپنی پیٹھ کو ] [ اِلَّا: سوائے اس کے کہ ] [ مُتَحَرِّفًا: جھکائی دینے والا ہوتے ہوئے] [ لِّقِتَالٍ: قتال کے لیے ] [ اَوْ: یا ] [ مُتَحَيِّزًا: ملنے والا ہوتے ہوئے] [ اِلٰي فِئَةٍ: کسی جماعت کی طرف ] [ فَقَدْ بَاۗءَ: تو وہ لوٹا ہے ] [ بِغَضَبٍ: ایک غضب کے ساتھ ] [ مِّنَ اللّٰهِ: اللہ (کی طرف) سے ] [ وَمَاْوٰىهُ: اور اس کا ٹھکانہ ] [ جَهَنَّمُ ۭ : جہنم ہے ] [ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ: اور کتنی بری ہے لوٹنے کی جگہ ]



ح و ز ۔ (ن) : حوزا ۔ اکٹھا کرنا ۔ جمع کرنا ۔ (تفعل ) تحوزا ، سانپ کا کنڈلی مارنا ۔ حمایتی سے جاملنا ۔ متحیر ۔ اسم الفاعل ہے۔ جا ملنے والا۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 16۔

فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ  ۠ وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِيْنَ مِنْهُ بَلَاۗءً حَسَـنًا  ۭاِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ     17؀
[ فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ: تو تم لوگوں نے قتل نہیں کیا ان کو ] [ وَلٰكِنَّ: اور لیکن ] [ اللّٰهَ: اللہ نے] [ قَتَلَهُمْ : قتل کیا ان کو ] [ ۠ وَمَا رَمَيْتَ: اور آپ نے نہیں پھینکا ] [ اِذْ: جب ] [ رَمَيْتَ: آپ نے پھینکا ] [ وَلٰكِنَّ: اور لیکن ] [ اللّٰهَ : اللہ نے ] [ رَمٰى ۚ : پھینکا] [ وَلِيُبْلِيَ: اور تاکہ وہ آزمائے] [ الْمُؤْمِنِيْنَ: مومنوں کو ] [ مِنْهُ: اس سے] [ بَلَاۗءً حَسَـنًا ۭ : جیسا کہ خوبصورت آزمانے کا حق ہے ] [ اِنَّ اللّٰهَ: بیشک اللہ ] [ سَمِيْعٌ: سننے والا ہے] [ عَلِيْمٌ: جاننے والا ہے ]

ذٰلِكُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَيْدِ الْكٰفِرِيْنَ    18؀
[ ذٰلِكُمْ: یہ ہے ] [ وَاَنَّ: اور یہ کہ ] [ اللّٰهَ: اللہ ] [ مُوْهِنُ كَيْدِ الْكٰفِرِيْنَ: کافروں کے داؤں کا کمزور کرنے والا ہے ]

اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ ۚ وَاِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ ۚ وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَـيْــــًٔـا وَّلَوْ كَثُرَتْ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ     19؀ۧ
[ اِنْ: اگر ] [ تَسـْتَفْتِحُوْا: تم لوگ فیصلہ مانگتے ہو] [ فَقَدْ جَاۗءَكُمُ: تو آچکا تمہارے پاس ] [ الْفَتْحُ ۚ : فیصلہ ] [ وَاِنْ: اور اگر ] [ تَنْتَهُوْا: تم لوگ باز آجاؤ] [ فَهُوَ: تویہ ] [ خَيْرٌ: بہتر ہے ] [ لَّكُمْ ۚ : تمہارے لیے] [ وَاِنْ: اور اگر ] [ تَعُوْدُوْا: تم لوگ دوبارہ کروگے ] [ نَعُدْ ۚ : تو ہم (بھی) دوبارہ کریں گے] [ وَلَنْ تُغْنِيَ: اور ہرگز بےنیاز نہیں کرے گی ] [ عَنْكُمْ: تم کو ] [ فِئَتُكُمْ: تمہاری جماعت ] [ شَـيْــــًٔـا: کچھ بھی ] [ وَّلَوْ: اور اگر ] [ كَثُرَتْ ۙ : وہ زیادہ (بھی) ہو] [ وَاَنَّ: اور یہ کہ ] [ اللّٰهَ: اللہ ] [ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ: مؤمنین کے ساتھ ہے]



نوٹ ۔2: آیت ۔19 میں خطب مومنوں سے نہیں بلکہ کافروں سے ہے ۔ مشرکین جنگ بدر کے لیے جب مکہ سے چلنے لگے تو غلاف کعبہ پکڑ کر دعا مانگنے لگے کہ اے خدا دونوں فریقوں میں جو تیرے افضل ہے اور جس کا قبلہ بہترہے اس کی مدد فرما (ابن کثیر ) ۔ آیت میں اسی کا حوالہ ہے ۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ   20۝ښ
[ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ: اے لوگو! جو ] [ اٰمَنُوْٓا: ایمان لائے ] [ اَطِيْعُوا: تم لوگ اطاعت کرو ] [ اللّٰهَ: اللہ کی ] [ وَرَسُوْلَهٗ: اور اس کے رسول کی ] [ وَلَا تَوَلَّوْا: اور روگردانی مت کرو] [ عَنْهُ: ان سے ] [ وَ : اس حال میں کہ ] [ اَنْتُمْ: تم لوگ ] [ تَسْمَعُوْنَ؛سنتے ہو ]



ترکیب : (آیت ۔ 20) ولو تولوا دراصل ولا تتولوا ہے ۔

وَلَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ  ۭوَلَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ   23؀
[ وَلَوْ: اور اگر ] [ عَلِمَ: جانتا ] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ فِيْهِمْ: ان میں] [ خَيْرًا: کوئی بھلائی ] [ لَّاَسْمَعَهُمْ ۭ : تو وہ ضرور سناتا ان کو ] [ وَلَوْ: اور اگر ] [ اَسْمَعَهُمْ: وہ سناتا ان کو ] [ لَتَوَلَّوْا: تو وہ ضرور روگردانی کرتے ] [ وَّهُمْ: اور وہ ہیں (ہی ) ] [ مُّعْرِضُوْنَ: اعراض کرنے والے ]

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ   24؀
[ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ: اے لوگو! جو ] [ اٰمَنُوا: ایمان لائے ] [ اسْتَجِيْبُوْا: تم لوگ حکم مانو ] [ لِلّٰهِ: اللہ کا ] [ وَلِلرَّسُوْلِ: اور ان رسول کا ] [ اِذَا: جب بھی ] [ دَعَاكُمْ: وہ بلائیں تم کو ] [ لِمَا: اس کے لیے جو ] [ يُحْيِيْكُمْ ۚ: زندگی دیتی ہے تم کو ] [ وَاعْلَمُوْٓا: اور جان لو ] [ اَنَّ: کہ ] [ اللّٰهَ: اللہ ] [ يَحُوْلُ: حائل کردیتا ہے ] [ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ: آدمی اور اس کے دل کے درمیان ] [ وَاَنَّهٗٓ: اور حقیقت تو یہ ہے کہ ] [ اِلَيْهِ: اس کی طرف ہی ] [ تُحْشَرُوْنَ: تم لوگ جمع کیے جاؤگے ]



(آیت ۔ 24) وانہ میں ضمیر الشان ہے۔



نوٹ ۔1: آیت ۔ 24 میں ہے کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل کردیتا ہے ۔ کیا حائل کردیتا ہے ؟ یہ بات محذوف ہے۔ اس وجہ سے آیت کے اس جملے کے مفہوم میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور اس کے ایک سے زیادہ مفاہیم یبان کیے گئے ہیں ۔ البتہ اسی آیت میں مذکورہ جملے سے پہلے یہ ہے کہ جب بھی رسول اللہ
تمہیں حیات بخش چیز کی طرف بلائیں تو لبیک کہو۔ اس کے پیش نظر مذکورہ جملے کا زیادہ قابل ترجیح مفہوم یہ بنتا ہے کہ جب کسی نیک کام کرنے یا گناہ سے بچنے کا موقع آئے تو اس کو فورا کر گزرو ، دیر نہ کرو اور اس فرصت کو غنیمت سمجھو، بعض اوقات آدمی کے ارادے کے درمیان قضائے الہی حائل ہوجاتی ہے اور وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہو پاتا ۔ موت آجائے ، کوئی بیماری پیش آجائے یا کوئی واقعہ ایسی مصروفیت پیدا کردے کہ اس کام کی فرصت نہ مل سکے ۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ فرصت وقت کو غنیمت سمجھے اور آج کا کام کل پر نہ ٹالے کیونکہ معلوم نہیں کل کیا ہوتا ہے ۔ (معارف القرآن سے ماخوذ )

نوٹ ۔2: رسول اللہ
کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ خواص کے عمل کے سبب عوام پر عذاب نہیں بھیجتا ۔ لیکن جب خاص لوگ امر منکر قوم میں پھیلا ہوا دیکھتے ہیں اور اس کو روکنے پر قادر ہوتے ہیں لیکن اپنے اقتدار کو کام میں لا کر نہیں روکتے ، تو پھر عمومی عذاب آجاتا ہے اور اس میں خاص وعام سب گرفتار بلا ہوجاتے ہیں ۔ (ابن کثیر ) ۔ آیت ۔25 میں ایسے ہی عمومی عذاب کو فتنہ کہا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔

وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّةً  ۚوَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ   25؀
[ وَاتَّقُوْا : اور تم لوگ بچو ] [ فِتْنَةً : ایک ایسی آزمائش سے جو ] [ لَّا تُصِيْبَنَّ : ہر گز نہیں پہنچے گی ] [ الَّذِيْنَ : (صرف) ان لوگوں کو (ہی ) جنھوں نے ] [ ظَلَمُوْا : ظلم کیا ] [ مِنْكُمْ : تم میں سے] [ خَاۗصَّةً : خاص کرنیوالی ہوتے ہوئے ] [ ۚوَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو ] [ اَنَّ : کہ ] [ اللّٰهَ : اللہ ] [ شَدِيْدُ الْعِقَابِ : پکڑ کا سخت ہے ]

( آیت ۔ 25) فتنۃ نکرہ مخصوصہ ہے جبکہ لا تصیبن سے آگے پورا جملہ اس کی خصوصیت ہے۔

وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ    26؀
[ وَاذْكُرُوْٓا : اور یاد کرو] [ اِذْ : جب ] [ اَنْتُمْ : تم لوگ ] [ قَلِيْلٌ : اقلیت میں تھے ] [ مُّسْتَضْعَفُوْنَ : کمزور سمجھے جاتے تھے] [ فِي الْاَرْضِ : زمین میں ] [ تَخَافُوْنَ : تم لوگ ڈرتے تھے ] [ اَنْ : کہ ] [ يَّتَخَطَّفَكُمُ : اچک لیں گے تم کو] [ النَّاسُ : لوگ ] [ فَاٰوٰىكُمْ : تو اس نے ٹھکانہ دیا تم کو ] [ وَاَيَّدَكُمْ : اور اس نے تائید کی تمہاری ] [ بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد سے ] [ وَرَزَقَكُمْ : اور رزق دیا تم کو ] [ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ (چیزوں ) میں سے] [ لَعَلَّكُمْ : شاید کہ تم لوگ ] [ تَشْكُرُوْنَ : شکر ادا کرو]

( آیت ۔ 26) انتم کی خبر اول قلیل ہے اور مستضعفون اس کی خبر ثانی ہے ۔



نوٹ۔3: آیت ۔ 26 فی زمانہ پاکستان پر پوری طرح چسپاں ہوتی ہے ۔ تقسیم سے پہلے ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں تھے۔ تعلیمی ، معاشی ، سرکاری ملازمتوں ، غرض کہ ہر میدان میں پسماندہ تھے ۔ انھیں خوف تھا کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندو اکثریت انھیں بالکل ہی کچل دے گی ۔ اس خطرہ کے پیش نظر مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا ۔ کانگریس اور برطانوی حکومت ، دونوں اس کے شدید مخالف تھے ۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے صوبوں کی فیڈریشن بنا کر متحدہ ہندوستان کو آزادی دینے کا منصوبہ پیش کیا تھا ۔ مسلم لیگ نے اس منصوبہ کو قبول کرلیا تھا اور اس کا اعلان بھی کر چکی تھی ۔ گویا مسلمانوں کی تائید ونصرت اس طرح کہ کانگریسی لیڈروں کی عقل الٹ دی اور انھوں نے اس منصوبے کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ اس طرح پاکستان کے مطالبے کو نئی زندگی ملی اور برطانوی حکومت مجبور ہوگئی کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کرے ۔ (حافظ احمد یار صاحب مرحوم )

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ    27؀
[ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ : اے لوگو! جو ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ لَا تَخُوْنُوا : تم لوگ خیانت مت کرو] [ اللّٰهَ : اللہ سے ] [ وَالرَّسُوْلَ : اور ان رسول سے ] [ وَتَخُوْنُوْٓا : اور خیانت مت کرو] [ اَمٰنٰتِكُمْ : اپنی (آپس کی ) امانتوں میں ] [ وَ: اس حال میں کہ ] [ اَنْتُمْ : تم لوگ ] [ تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو]

(آیت ۔ 27) لا تخونوا کی لائے نہی پر عطف ہونے کی وجہ سے آگے وتخونوا مجزوم ہوا ہے۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ  ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ    28؀ۧ
[ وَاعْلَمُوْٓا : اور تم لوگ جان لو] [ اَنَّمَآ : کہ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] [ اَمْوَالُكُمْ : تمہارے مال ] [ وَاَوْلَادُكُمْ : اور تمہاری اولاد ] [ فِتْنَةٌ ۙ : ایک آزمائش ہیں ] [ وَّاَنَّ : اور یہ کہ ] [ اللّٰهَ : اللہ ] [ عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس ہی ] [ اَجْرٌ عَظِيْمٌ : اجر عظیم ہے]

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ    29؀
[ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ : اے لوگو! جو ] [ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے ] [ اِنْ : اگر] [ تَتَّقُوا : تم لوگ تقوی کروگے ] [ اللّٰهَ : اللہ کا ] [ يَجْعَلْ : تو وہ بنا دے گا ] [ لَّكُمْ : تمہارے لیے] [ فُرْقَانًا : ایک واضح فرق کرنے والا ] [ وَّيُكَفِّرْ : اور وہ دور کردے گا ] [ عَنْكُمْ : تم سے ] [ سَيِّاٰتِكُمْ : تمہاری برائیوں کو ] [ وَيَغْفِرْ : اور وہ معاف کردے گا ] [ لَكُمْ ۭ : تم کو ] [ وَاللّٰهُ : اور اللہ ] [ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ: عظیم فضل والا ہے]

وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ  ۭوَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ  ۭوَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ  30؀
[ وَاِذْ : اور جب ] [ يَمْكُرُ : سازش کی ] [ بِكَ : آپ کے لیے ] [ الَّذِيْنَ : ان لوگوں نے جنھوں نے ] [ كَفَرُوْا : کفر کیا ] [ لِيُثْبِتُوْكَ : کہ وہ قید کریں آپ کو ] [ اَوْ : یا ] [ يَقْتُلُوْكَ : قتل کریں آپ کو] [ اَوْ : یا] [ يُخْرِجُوْكَ ۭ: نکال دیں آپ کو ] [ وَ: اس حال میں کہ ] [ يَمْكُرُوْنَ : وہ لوگ چال چلتے تھے] [ وَيَمْكُرُ : اور تدبیر کرتا تھا ] [ اللّٰهُ ۭ: اللہ ] [ وَاللّٰهُ : اور اللہ ] [ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ: تدبیر کرنے والوں کا بہترین ہے ]

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ  ۙ اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ    31؀
[ وَاِذَا : اور جب کبھی ] [ تُتْلٰى عَلَيْهِمْ : پڑھ کرسنائی جاتی ہیں ان کو ] [ اٰيٰتُنَا : ہماری آیتیں ] [ قَالُوْا : تو وہ لوگ کہتے ہیں ] [ قَدْ سَمِعْنَا : ہم سن چکے ہیں ] [ لَوْ : اگر ] [ نَشَاۗءُ : ہم چاہیں ] [ لَقُلْنَا : تو ہم (بھی) ضرور کہہ لیں گے ] [ مِثْلَ هٰذَآ ۙ : اس کے جیسا ] [ اِنْ : نہیں ہے ] [ هٰذَآ : یہ ] [ اِلَّآ : مگر ] [ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ پہلے لوگوں کی کہانیاں ]

وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ   32؀
[ وَاِذْ : اور جب ] [ قَالُوا : انھوں نے کہا ] [ اللّٰهُمَّ : اے اللہ ] [ اِنْ : اگر ] [ كَانَ : ہے ] [ هٰذَا : یہ ] [ هُوَ الْحَقَّ : ہی حق ] [ مِنْ عِنْدِكَ : تیرے پاس سے ] [ فَاَمْطِرْ : تو، تو برسا] [ عَلَيْنَا : ہم پر ] [ حِجَارَةً : کچھ پتھر ] [ مِّنَ السَّمَاۗءِ : آسمان سے ] [ اَوِ : یا ] [ ائْتِنَا : تو لے آہم پر ] [ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ: کوئی درد ناک عذاب ]



ترکیب: (آیت ۔ 32) ان شرطیہ کی وجہ سے کان کا ترجمہ حال میں ہوگا ، کان کا اسم ھذا ہے اور الحق اس کی خبر ہے، جبکہ ھو ضمیر فاصل ہے

وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ  33؀
[ وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے] [ اللّٰهُ : اللہ ] [ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ وہ عذاب دے ان کو ] [ وَ: اس حال میں کہ ] [ اَنْتَ : آپ ] [ فِيْهِمْ ۭ : ان میں ہیں ] [ وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے ] [ اللّٰهُ : اللہ ] [ مُعَذِّبَهُمْ : ان کو عذاب دینے والا ] [ وَ: اس حال میں کہ ] [ هُمْ : وہ لوگ ] [ يَسْتَغْفِرُوْنَ: استغفار کرتے ہیں ]



(آیت ۔33) کان کی خبر ہونے کی وجہ سے معذبھم حالت نصب میں ہے ۔



نوٹ ۔1: اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کی دوصورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ پوری قوم کا نام ونشان مٹا دیا جائے ۔ یہ فیصلہ کن عذاب ہوتا ہے، جیسا کہ قوم نوح ، قوم لوط ، قوم شعیب وغیرہ پر نازل ہوا ، دوسری صورت یہ ہے کہ کسی فرد یا افراد کے کسی گروہ پر کوئی عذاب آئے یا اگر کسی قوم پر کوئی عمومی عذاب آئے ، تب بھی عذاب گزر جانے کے بعد قوم کا وجود باقی رہے ۔ یہ وارننگ دینے والا عذاب ہوتا ہے۔

آیت نمبر 33 میں فیصلہ کن عذاب کا ذکر ہے۔ یہ عذاب اس وقت تک نازل نہیں کیا جاتا جب کسی قوم میں اس کا نبی موجود ہو یا کچھ اہل ایمان موجود ہوں جو استغفار کرتے ہوں ۔ مکہ سے رسول اللہ
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہجرت کر جانے کے بعد بھی کچھ کمزور مسلمان رہ گئے تھے جو بوجوہ ہجرت نہیں کرسکے تھے ۔ اس لیے مکہ فیصلہ کن عذاب سے محفوظ رہا ۔ اس فیصلہ کن عذاب کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا کہ میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی قیامت تک استغفار لوگوں کو عذاب سے بچاتا رہے گا (ابن کثیر سے ماخوذ ) جبکہ آیت ۔ 34 میں وارننگ دینے والے عذاب کا ذکر ہے کہ کسی قوم کی بداعمالیوں کے نتیجے میں ان پر عذاب نہ بھیجنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ آیت نمبر ۔ 35 میں فذوقوا العذاب میں اس عذاب کی طرف اشارہ ہے جو میدان بدر میں اہل مکہ پر نازل ہوا۔

وَمَا لَهُمْ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَهُمْ يَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوْٓا اَوْلِيَاۗءَهٗ  ۭاِنْ اَوْلِيَاۗؤُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ  34؀
[ وَمَا لَهُمْ : اور ان کے لیے کیا ہے ] [ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ : کہ عذاب نہ دے ان کو ] [ اللّٰهُ : اللہ ] [ وَ: اس حال میں کہ ] [ هُمْ : وہ لوگ ] [ يَصُدُّوْنَ : روکتے ہیں ] [ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام سے] [ وَ: حالانکہ ] [ مَا كَانُوْٓا : وہ نہیں ہیں ] [ اَوْلِيَاۗءَهٗ ۭ: اس کے والی و وارث ] [ اِنْ : نہیں ہیں ] [ اَوْلِيَاۗؤُهٗٓ : اس کے والی ووارث ] [ اِلَّا : مگر] [ الْمُتَّقُوْنَ : تقوی کرنے والے ] [ وَلٰكِنَّ : اور لیکن ] [ اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر ] [ لَا يَعْلَمُوْنَ: جانتے نہیں ہیں]



(آیت ۔ 34) اولیاء ہ کی ضمیر المسجد الحرام کے لیے ہے ۔

وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَةً   ۭ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ  35؀
[ وَمَا كَانَ : اور نہیں تھی ] [ صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز ] [ عِنْدَ الْبَيْتِ : اس گھر کے پاس ] [ اِلَّا : مگر ] [ مُكَاۗءً : سیٹی بجانا ] [ وَّتَصْدِيَةً ۭ : اور تالی پٹینا ] [ فَذُوْقُوا : پس تم لوگ چکھو] [ الْعَذَابَ : اس عذاب کو ] [ بِمَا : بہ سبب اس کے جو ] [ كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ: تم لوگ کفر کرتے تھے ]



م ک و : (ن) مکاء ۔ منہ سے سیٹی بجانا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 35۔

ص د و : (ن) ۔ صدوا (1) کسی چیز کا لمبا ہونا ۔ (2) تالی بجانا ۔ (تفعیل ) تصدیۃ دونوں ہاتھوں سے تالی پٹینا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 35۔ (تفعل ) تصدی کسی کی طرف متوجہ ہونا ۔ فانت لہ تصدی [ تو آپ اس کے لیے متوجہ ہوئے ] ۔80:6۔

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ  ۭفَسَيُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُوْنَ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ يُحْشَرُوْنَ  36؀ۙ
[ اِنَّ : بےشک] [ الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے ] [ كَفَرُوْا : کفر کیا ] [ يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں ] [ اَمْوَالَهُمْ : اپنے مال ] [ لِيَصُدُّوْا : تاکہ وہ روکیں ] [ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ: اللہ کے راستے سے ] [ فَسَيُنْفِقُوْنَهَا : پس وہ لوگ (ابھی اور ) خرچ کریں گے ان کو ] [ ثُمَّ : پھر ] [ تَكُوْنُ : وہ ہوگا ] [ عَلَيْهِمْ : ان پر ] [ حَسْرَةً : ایک حسرت ] [ ثُمَّ : پھر ] [ يُغْلَبُوْنَ ڛ : وہ لوگ مغلوب کیے جائیں گے ] [ وَالَّذِيْنَ : اور جنھوں نے ] [ كَفَرُوْٓا : کفر کیا ] [ اِلٰى جَهَنَّمَ : جہنم کی طرف ہی ] [ يُحْشَرُوْنَ: وہ اکٹھا کیے جائیں گے ]



(آیت ۔ 36) فسینفقونھا میں ھا کی ضمیر اموال کے لیے ہے ۔ تکون کا اسم اس میں شامل ھا کی ضمیر ہے جو اموال کے لیے ہے اور حسرۃ اس کی خبر ہے ۔

لِيَمِيْزَ اللّٰهُ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيْثَ بَعْضَهٗ عَلٰي بَعْضٍ فَيَرْكُمَهٗ جَمِيْعًا فَيَجْعَلَهٗ فِيْ جَهَنَّمَ      ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ  37؀ۧ
[ لِيَمِيْزَ : تاکہ الگ کرے ] [ اللّٰهُ : اللہ ] [ الْخَبِيْثَ : ناپاک کو ] [ مِنَ الطَّيِّبِ : پاکیزہ سے ] [ وَيَجْعَلَ : اور تاکہ وہ کردے ] [ الْخَبِيْثَ : ناپاک کو ] [ بَعْضَهٗ : اس کے بعض کو ] [ عَلٰي بَعْضٍ : بعض کے اوپر ] [ فَيَرْكُمَهٗ : تب وہ ڈھیر لگائے گا اس کا ] [ جَمِيْعًا : سب کے سب کا ] [ فَيَجْعَلَهٗ : تب وہ رکھے گا اس کو ] [ فِيْ جَهَنَّمَ ۭ : جہنم میں ] [ اُولٰۗىِٕكَ : وہ لوگ ] [ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ: ہی خسارہ پانے والے ہیں ]



ر ک م : (ن) رکما ۔ تہہ در تہہ کرنا ۔ ڈھیر لگانا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 37۔ مرکوم ۔ اسم المفعول ہے ۔ تہہ بہ تہہ کیا ہوا ۔ یقولوا سحاب مرکوم [ تو وہ لوگ کہیں گے تہہ بہ تہہ کیا ہوا بادل ہے ] ۔52:44۔ رکام ۔ اسم ذات ہے ۔ تہہ در تہہ چیز ۔ ان اللہ یزجی سحابا ثم یؤلف بینہ ثم یجعلہ رکاما [ کہ اللہ ہانکتا ہے بادل کو پھر وہ اکٹھا کرتا ہے اس کو آپس میں پھر وہ بناتا ہے اس کو ایک تہہ در تہہ چیز ] 24: 43۔



(آیت ۔ 37) فیرکمہ اور فیجعلہ کے فاسببیہ ہیں اس لیے یرکم اور یجعل کی حالت نصب میں ہیں ۔

قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ  ۚ وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ  38؀
[ قُلْ : آپ کہہ دیجیے ] [ لِّلَّذِيْنَ : ان سے جنہوں نے ] [ كَفَرُوْٓا : کفر کیا ] [ اِنْ : (کہ ) اگر ] [ يَّنْتَهُوْا : وہ باز آجائیں ] [ يُغْفَرْ : تو معاف کردیا جائے گا ] [ لَهُمْ : ان کے لیے ] [ مَّا : اس کو جو ] [ قَدْ سَلَفَ ۚ : گزرا ہے ] [ وَاِنْ : اور اگر ] [ يَّعُوْدُوْا : وہ لوگ پھر کریں گے] [ فَقَدْ مَضَتْ : تو گزر چکا ہے ] [ سُنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ: اگلے لوگوں کا طریقہ ]



م ض ی :ـ (ض)۔ مضیا ، گزرجانا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 38 ۔ امض فعل امر ہے ۔ تو گزر جا ۔ وامضوا حیث تؤمرون [ اور تم لوگ گزر جاؤ جہاں سے تمہیں حکم دیا جاتا ہے ] 15:65 ۔

وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ۚ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ   39؀
[ وَقَاتِلُوْهُمْ : اور تم لوگ جنگ کرو ان سے ] [ حَتّٰي : یہاں تک کہ ] [ لَا تَكُوْنَ : نہ رہے ] [ فِتْنَةٌ : کوئی تشدد ] [ وَّيَكُوْنَ : اور یہاں تک کہ ہوجائے ] [ الدِّيْنُ : نظام حیات ] [ كُلُّهٗ : اس کا کل ] [ لِلّٰهِ ۚ : اللہ کے لیے] [ فَاِنِ : پھر اگر ] [ انْتَهَـوْا : وہ لوگ باز آجائیں ] [ فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ ] [ بِمَا : اس کو جو ] [ يَعْمَلُوْنَ : وہ لوگ کرتے ہیں ] [ بَصِيْرٌ: دیکھنے والا ہے ]



ترکیب: (آیت ۔ 39) حتی پر عطف ہونے کی وجہ سے یکون حالت نصب میں ہے۔



نوٹ ۔1: آیت ۔ 39 میں فتنۃ کا لفظ تشدد (
Persecution) کے مفہوم میں ہے ۔ یعنی مسلمانوں کو بجبر وظلم دین حق سے روکنے کا سلسلہ ۔ فرمایا ان سے جنگ کرو اور یہ جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ اس سرزمین سے اس فتنہ کا استیصال ہوجائے ۔ کسی کے لیے اس کا کوئی امکان باقی نہ رہے کہ وہ کسی مسلمان کو اسلام لانے کی بنا پر ستا سکے ۔ (تدبر قرآن سے ماخوذ ) ۔

دین تمام تر اللہ کا ہوجائے یعنی حرم کی سرزمین پر اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین باقی نہ رہے ۔ خانہ کعبہ اللہ کی وحدانیت کی عبادت کے لیے تعمیر ہوا تھا لیکن قریش نے اس کو ایک بت خانہ بنا ڈالا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان غاصبوں سے جنگ کرو یہاں تک کہ سرزمین حرم پر اللہ تعالیٰ کے دین کے سوا کوئی اور دین باقی نہ رہے ۔ (تدبر قرآن سے ماخوذ)

سرزمین حرم کے باہر دین اللہ کے لیے ہونے کا کیا مطلب ہے ، اس کی وضاحت آیت نمبر ۔ 2: 193، نوٹ ۔ 2 میں کی جا چکی ہے کہ اسلامی حکومت میں پرسنل لازلوگوں کے مذہب اور عقیدے کے مطابق ہوں گے اور کسی پر اسلام قبول کرنے کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا ۔ لااکراہ فی الدین (2:256) کا یہی مطلب ہے۔ لیکن پبلک لاز قرآن وسنت کے مطابق ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر مغربی تہذیب کے علمبرداروں کو اور ان کے حاشیہ برداروں کو سخت اعتراض ہے کہ یہ تو بڑی ناانصافی ہے ۔ لوگوں کو اپنے متعلق خود فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے ۔ حالانکہ مغربی تہذیب کے علمبردار خود بھی یہی کام کررہے ہیں ۔ تھیوری کی حد تک یعنی زبانی کلامی انھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ کسی اسلامی ملک کے پرسنل لاز قرآن وسنت کے مطابق ہوں ۔ یہ اور بات ہے کہ انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے حوالہ سے انھوں نے پرسنل لاز میں بھی مداخلت کرنے کے چور دروازے بنا رکھے ہیں لیکن پبلک لاز میں، کسی ملک میں اگر کوئی بات مغربی تہذیب کے مروجہ اصول کے خلاف ہے، خواہ وہ لوگوں کی اکثریت کی خواہش کے مطابق ہو، تب بھی پروپیگنڈا لالچ ، معاشی ناکہ بندی ، سازش ، بہتان طرازی ، جنگ ، غرضیکہ پر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرکے مسلمان ممالک پر جبر کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں مغربی تہذیب کو رواج دیں ، پھر بھی الزام ہم پر ہے کہ ہم تنگ نظر ، بنیاد پرست اور انتہاپسند ہیں ۔

بت ہم کو کہیں کافر ، اللہ کی مرضی ہے۔

وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَوْلٰىكُمْ  ۭنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ  40؀
[ وَاِنْ : اور اگر] [ تَوَلَّوْا : وہ روگردانی کریں ] [ فَاعْلَمُوْٓا : تم لوگ جان لو] [ اَنَّ : کہ ] [ اللّٰهَ : اللہ ] [ مَوْلٰىكُمْ ۭ: تمہارا کارساز ہے ] [ نِعْمَ : کیا ہی اچھا ] [ الْمَوْلٰى : کارساز ہے] [ وَنِعْمَ : اور کیا ہی اچھا ] [ النَّصِيْرُ: مدد گار ہے ]