یہ ویب سائٹ شعبۂ تحقیقِ اسلامی، مرکزی انجمن خدام القرآن کےزیرِ اہتمام تیار کی گئی ہے۔ علومِ قرآن کے ذیل میں اس ویب سائٹ کو اردو زبان میں منفرداور جامع ترین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔پروفیسر حافظ احمد یارؒ  صاحب پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علومِ اسلامیہ کے سربراہ تھے۔

آپ نے اپنے آپ کو قرآن کریم کی خدمت کے لیے ہمہتن وقف کردیا تھا۔ریٹائرمنٹ کے بعد آپ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی قائم کردہ قرآن اکیڈمی کے شعبۂ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ آپ نے  رجوع الی القرآن کورسزکے نصاب میں شامل متعدد اہم مضامین کی تدریس  کی جن میں عربی ادب، لغات و اعرابِ قرآن، مطالعہ قرآن حکیم کامنتخب نصاب اور ترجمہ و تفسیر شامل ہیں۔ مطالعہ قرآن  کے ضمن میں مختلف تراجم کا موازنہ اور  ان تراجم میں امتیازی خوبی کے حامل تراجم کی  نہ صرف نشاندہی کرتے کی بلکہ ان تراجم میں مستعمل الفاظ کے قرینے کی پہچان کی صلاحیت بھی پیدا کرتے ۔مختلف تراجم کے تقابلی مطالعہ کے دوران جب کوئی مترجم  موقع ومحل  کی مناسبت سے موزوں الفاظ لے کر آتا تو اس کودادتحسین دیتے۔  کسی مدرس کے لئے یہ کام اسی وقت تک ممکن ہے جب وہ قرآن کریم کی ایک ایک آیت اور  ایک ایک لفظ پر عربی قواعد کے کثیر جہتی اصولوں کا انطباق کرے۔  اس عرق ریز ریاضت کی بدولت بلاغتِ قرآن کے بے شمار گوشےمبرہن ہوئے۔  یہعمیق و دقیق اور نازک ذمہ داری آپ  نے کچھ ایسی لگن، شگفتگی اورربط و ضبط کے ساتھ ادا کی کہ ان کے محاضرات علم قرآن کے متلاشیوں کے لیے ایک نہایت قیمتی اثاثہ ثابت ہوئے۔دوران تدریس یوں محسوس ہوتا کہ قرآن کا ملکوتی آہنگ ان پر طاری ہے۔ حافظ  صاحب ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے  جو عشق کو کام سمجھتے تھے. یا کام سے عاشقی کرتے تھے.

گزشتہ چند سالوں میں راقم کو حافظ صاحب کی تصانیف کی ترتیب و تسوید اور آڈیو لیکچرز کی ریکارڈنگ سننے کی سعادت حاص ہوئی۔ کچھ باتیں ذہن پر نقش ہوگئیں۔ جن کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

  • دین کی رو سے عالم وہ ہوتا ہے جو اپنے علم پر عمل کرے۔ بے عمل عالم کو عالم کہنا مناسب نہیں۔
  • دنیاوی خزانوں کی اجارہ داری اور بعضعلما کا دین پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا دونوں بخل ہیں۔
  • عذاب کا تعلق آخرت سے ہے۔ مگر پانچ قسم کے لوگوں سے اللہ کا دنیا میں بھی عذاب کا وعدہ ہے: شریعت کے ایک حصے کو ماننے والے اوردوسرے کا انکار کرنے والے، مساجد میں ویرانی پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے، نیک خواتین پر بہتان لگانے والے، دین کا علم حاصل کیے بغیر دینی معاملات میں جھگڑنے والے، اور مسلمانوں میں فحاشی پھیلانے کی خواہش رکھنے والے۔
  • عام لوگوں کوصرف تفسیرِ ماثور سے استفادہ حاصل کر کے اس پر عمل کرنا چاہیے۔ زیادہ لمبی چوڑی تفسیری جزئیات سے پرہیز کرنا چاہیے۔
  • ہدایت تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ان چار جہالتوں سے رستگاری حاصل کرلے۔ جو قرآن حکیم میں مذکور ہیں؛ حکم الجاہلیہ، ظن الجاہلیہ، تبرج الجاہلیہ اور حمیۃ الجاہلیہ۔
  • بیورو کریٹ کا وار بہت کاری ہوتا ہے۔ پیشے کے لحاظ سے غلام احمد پرویز اور غلام احمد کادیانی دونوں بیوروکریٹ تھے ۔ان دونوں نے دین اسلام میں نقب لگانے کی بھر پور کوشش کی۔

حافظ صاحب نے قرآن کریم کے ان مقامات کی نشاندہی بھی کی جہاں باطل پرستوں نے آیات کو من مانے معانی پہنا کر گھپلا کرنے کوشش کی ۔ انہوں نے نہ صرف ان کی اس نقب زنی کی نشاندہی کی بلکہ قرآن و حدیث سے ان کی ریشہ دوانیوں  کا تدارک اور شافی علاج بھی تجویز کیا۔

حافظ صاحب قرآنی آیات کی توضیح کے ضمن میں منظر کشی میں ید طولٰی رکھتے تھے ۔ دریا اور دریا کے کٹاؤ کی منظر کشی جس سے دریا زمین کو کھائی میں بدل دیتا ہے ، بدویانہ زندگی کی منظر کشی، جنت کی نعمتوں اور مے و مینا و ایاغ کی منظر کشی،فردوس  بریں کے پر تکلف ‘‘لائف سٹائل’’ کی منظر کشی، اعراف کی دیوار کی منظر کشی، اسراف و تبذیر کی منظر کشی، روز حشر و نشر کی منظر کشی وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

حافظ صاحب کا اردو  سمجھنے والے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ وہ قرآن کے معنوی سمندر سے علم و حکمت کے ایسے موتی اور ہیرے جواہرات نکال کر لاتے ہیں اور سننے والوں پر نثار کرتے ہیں جن کا بدل ممکن نہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کی مصاحبت میں قرآن اکیڈمی لاہور سے نور کی وہ کرنیں پھوٹیں جو ان شا اللہ تا قیامِ قیامت جھلملاتی رہیں گی۔ اللہ کریم نے حافظ صاحب کی تقریر ِ قرآن   میں وہ جلوہ انگیزلذت  پیدا کی  جس کی مثال نہیں ملتی ۔ ان دونوں خادمانِ قرآن کے بیان میں بلا کی فصاحت  وبلاغت اورسلاست کی روانی نظر آتی ہے۔ وہ تقریر و تحریر میں شگفتگی و خوش گفتاری اورظرافت و لطافت کے ساتھ ساتھ نفیس  پیرائے میں کوثر و تسنیم سے دُھلی ہوئی زبان استعمال کرتے گویا پھول بکھیر رہے ہوں ۔ قرآن کے علوم کو عام کرنا ان کی زندگی کا مشن تھا اور اس مشن پر ان کو ثبات و استقلال بھی ربِ کریم نے عطا کیا تھا۔ وہ  اپنی زندگی میں سلوکِ قرآن کے ایسے معیارات معین کرگئے  ہیں کہ ان کی بُو کوبھی پالیں تو ہمارے لیے مقفل بابِ قبول کھل جائے  اور رحمتوں کا نزول شروع ہو جائے۔  اللھم اغفر لھما و ارحمھما و اسکنھما فی العلیین۔ اٰمین!