ؒاَخــلاقِ نبو ّت سے اکتسابِ فیض کی شرط اور علامت

پروفیسر حافظ احمد یاؒر

نحمدہٗ ونصلی علی رسولہِ الکریم

اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم … بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

(خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ} (الاعراف۱۹۹}

سیرت نگارانِ رسولﷺ میں سے ایک سے زیادہ نے اس سوال پر اپنے اپنے رنگ میں بحث کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغام کی رسالت اور اپنے آخری نبیؐ‘ کی بعثت کے لیے اہل ِعرب کو ہی کیوں منتخب فرمایا؟

مشہور مصری مؤلف لطفی جمعہ; نے اپنی کتاب
’’ثورۃ الاسلام وبطل الانبیاء‘‘
کا آغاز ہی اس طرح کیا ہے:

’’دنیا کی تاریخ‘ انسانی تمدن کی داستان اور قدیم و جدید تہذیبوں کی کہانی میں کتنے ہی قابل توجیہہ واقعات اور پہیلی یا معمہ سے بھی زیادہ حیران کن چیزیں سامنے آتی ہیں جنہیں پڑھ کر یا سن کر آدمی محوحیرت رہ جاتا ہے — اور اسی قسم کے ناقابل فہم معموں میں سے یہ چیستان بھی ہے کہ آخر اللہ نے انوارِ نبوت و رسالت کی تجلی گاہ بنانے کے لیے جزیرۃ العرب کو ہی کیوں منتخب کیا؟‘‘ (لطفی‘ ص۷)

اور کچھ آگے چل کر اہل ِعرب کا عموماً اور قریش کا خصوصاً حوالہ دیتے ہوئے یہی سوال دہرایا ہے:

’’آخر اللہ تعالیٰ نے باقی ساری مخلوقات کو چھوڑ کر ان لوگوں ہی کو کیوںاس دین کا سرچشمہ اور اس کا مرکز و منبع بنانے کے لیے چن لیا؟ (لطفی‘ ص ۳۸)

اسی طرح سید سلیمان ندوی ؒنے سیرۃ النبی ؐ‘کی جلد چہارم میں ’’عربوں کی خصوصیات اور خیر الامم بننے کی صلاحیت‘‘ کے عنوان سے ایک باب میں اس سوال کے جواب سے بحث کی ہے۔ اس موضوع پر تازہ ترین اور بہترین بحث مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی کتاب ’’نبی رحمتﷺ‘‘ میں کی گئی
ہے‘ جس کے ایک باب کا عنوان ہے : ’’محمد رسول اللہﷺ جزیرۃ العرب میں کیوں مبعوث ہوئے؟‘‘—–اس قسم کے سیرت نگاروں نے اپنی اپنی دانش کے مطابق اس انتخابِ ربانی کے لیے اہل ِعرب کے دنیا کی دوسری قوموں سے زیادہ اہل اور مستحق ٹھہرنے کے مختلف /اسباب یا نکات گنوائے ہیں۔ مگر ان سب میں مشترک چیز اہل عرب کی بعض خاص خاص اخلاقی خوبیوں کا ذکر ہے جس نے ان لوگوں کی فطرتِ سلیمہ کو مسخ ہونے سے بڑی حد تک محفوظ رکھا۔

آخر اللہ تعالیٰ نے اُس وقت کی تمام مہذب اور متمدن قوموں کو چھوڑ کر عرب کے ان گمنام نشینوں کو اس منصبِ عظیم کے لیے کیوں چن لیا؟اگر یہی نبی ہندوئوں‘ بدھوں‘ یہودیوں یا چینیوں‘ایرانیوں اور رومیوں میں سے کسی ایک قوم میں مبعوث کر دیے جاتے تو کیا وہی نتائج حاصل نہ ہوتے اورویسا ہی انقلاب برپا نہ ہو جاتا جو اہل عرب کے ذریعے سے ہوا؟جو وقت کی ’’بڑی طاقتیں‘‘ (super powers) تھیں‘ کیا ان میں سے کوئی بھی ’’بہترین ‘‘ اُمت بننے کے فرائض سرانجام نہیں دے سکتی تھی؟—– بظاہر یہ سوالات لغو نظر آتے ہیں ‘اس لیے کہ مصالح کلیہ ٔ الٰہیہ کا احاطہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے اور اسی لیے قرآن کریم نے اس مسئلہ پر یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ:

(اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسٰلَــتَــہٗ } (الانعام:۱۲۴}

’’اور اللہ سب سے بہتر جانتا ہے کہ اس کا پیغام کہاں اور کس کے حوالے کیا جائے!‘‘

تاہم اس اندازِ فکر سے غالباً ایک اور سوال کا جواب سامنے آ سکتا ہے ‘اور وہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں میں آج اللہ کی کتاب اور اس کے آخری نبی ؐسے انتساب اور اسلام کے نعرہ ہائے بے حد و حساب اور ان کے فیوض و برکات سے اکتساب کی علامات کیوں نایاب ہوتی جا رہی ہیں؟ کیا ہم کہیں عہد ِجاہلیت کے یہود و ہنود یا روم و عجم کی طرح بعض ایسی بنیادی اقدار سے تو منحرف نہیں ہو گئے جن کو نبوت سے اکتسابِ فیض کی شرط قرار دیا جا سکتا ہے؟

آنحضرتﷺ نے ۲۳ سال کی قلیل مدت میں اہل عرب کی جس طرح کایا پلٹ دی وہ عجائباتِ تاریخ کا سب سے بڑا عجوبہ ہے۔ عربوں کی اس قلب ِماہیت اور تاریخ ِعالم کے اس سب سے حیرت انگیز انقلاب کی اہمیت اور عظمت اور اس کے نتائج کی ہمہ گیری اور وسعت کو سمجھنے کے لیے سیرت نگار ظہورِ اسلام کے وقت دنیا بھر کی عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً دینی‘ معاشی‘ سماجی اور اخلاقی حالت بلکہ ان سب حالتوں کی ابتری کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ہمارے موضوع کا تعلق اخلاقی حالت سے ہے۔

عجمی یعنی غیر عرب اقوام کی ناگفتہ بہ اخلاقی حالت کا بیان یوں تو کم و بیش سیرت یا تاریخ کی ہر ایک کتاب میں مل جاتا ہے لیکن ان تمام اخلاقی خرابیوں کی اصل وجہ کا تجزیہ جس طرح شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں کیا ہے ‘کسی اور کتاب میں اس کی مثال کم ملتی ہے۔ اگرچہ حضرت شاہ صاحب نے اپنے زمانے کی اصطلاحات اور اُس دَور کے رسم و رواج کی زبان میں بات کی ہے مگر معناً یہ بڑی حد تک آج ہم پر منطبق ہوتی نظر آتی ہے‘ بلکہ اس میں ہماری اخلاقی بیماری کی صحیح تشخیص نظر آتی ہے۔ حضرت دہلویؒ کا یہ بیان اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ان کے بعد آنے والے مؤلفین کو اس موضوع(چھٹی صدی مسیحی میں اقوام و مذاہب ِعالم کی حالت) پر لکھتے ہوئے جدید یورپی مطبوعات و تالیفات سے استفادہ اور دائرہ ہائے معارف کے ذریعے اپنی معلومات میں اضافہ کا موقع ملا جن کاشاہ صاحب کے زمانے میں کہیں وجود تک نہ تھا ۔اس لحاظ سے ان کا یہ بیان تاریخ اور فطرتِ انسانی کے بارے میں ان کے علم لدنی کا مظہر معلوم ہوتا ہے۔

حضرت شاہ صاحب کی اس ساری تحلیل و تفصیل سے جو بات کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ تعیش پسندی‘ تن آسانی اور دنیوی لذائذ و مفاخر کی خاطر تمام اخلاقی قدروں کو پامال کرنے والے لوگوں کے لیے بحیثیت ایک قوم یا ملت کے (کیونکہ غیر معمولی افراد کی قلیل تعداد تو ہر جگہ ممکن ہے) نبوت سے اکتسابِ فیض کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں‘ خصوصاً اس درجے کا اکتساب جس سے خیر الامم بننے کی صلاحیت پیدا ہو جائے ہرگز ممکن نہیں ہوتا —– اور شاید یہی وجہ تھی کہ مشیت ِالٰہی نے ان اقوام کو اس منصب ِ عظیم کا اہل نہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ّ

اب دوسری طرف اگر اہل عرب یعنی ان لوگوں کے قبل از اسلام رذائل و فضائل پر ایک نظر ڈالیں جو فیضانِ نبوت کی بدولت بہترین اُمت بن گئے‘ تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی دینی حالت تو ناگفتہ بہ تھی ہی ‘ان کی اخلاقی حالت بھی سخت دگرگوں تھی۔ اور سیرت نگاروں نے بجا طور پر ’’شب ِظلمت‘‘ ‘ ’’عرب کا تاریک دَور‘‘ اور’’ فسادِ بر و بحر‘‘ وغیرہ عنوانات کے تحت اس کی کیفیت بیان کی ہے۔

یہ لوگ بغض و انتقام‘ سنگدلی و سفاکی‘ چوری اور رہزنی‘ قتل و غارت‘ بے حیائی و بدتمیزی ‘ زنا و فواحش‘ نسبی تعصب و غرور‘ قمار بازی‘ شراب نوشی اوردختر کشی و سود خوری میں قریب قریب ضرب المثل تھے۔ ان سب معائب کی تفصیل سے ادب و تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔لیکن سب معائب اور ساری خرابیوں کے باوجود مختلف عوامل نے ان کے اندر بنیادی اور اصولی اخلاق کے احساس کو بالکل مردہ نہیں ہونے دیا تھا۔وہ محاسن اخلاق سے یکسر معریٰ نہ تھے بلکہ اخلاقی تعلیمات کے قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ان کے نظامِ اخلاق کے

بدترین اجزاء میں بھی اخلاقِ حسنہ کی ایک جھلک موجود تھی۔ شراب نوشی اور قمار بازی‘ فیاضی اور سخاوت کا مظہر تھی۔ دختر کشی کا رواج غیرت کا نتیجہ تھا۔ قبائلی عصبیت دراصل قومی حمیت کی ہی بگڑی ہوئی شکل تھی۔ غیرت‘ پابندی ٔ عہد‘ شجاعت‘ فیاضی اور صلہ رحمی ان کے معروف اخلاق تھے۔ اسی طرح وہ معروف(بھلائی)‘ امانت‘ راست گوئی اور پاک دامنی کو کرم الخلق اور خصال الخیر میں شمار کرتے تھے‘ اور جس آدمی میں یہ صفات پائی جاتی تھیں اسے توقیر و تکریم کا مستحق سمجھتے تھے۔ُ

یہ درست ہے کہ ان کے ہاں اخلاقِ حسنہ کی بنیاد زیادہ تر شہرت طلبی‘ حبِّ جاہ اور ناموری پر تھی۔ تاہم ان کے اخلاق و اعمال میں ایسے عناصر و اجزاء بھی شامل تھے جنہیں اسلام نے بھی محاسن و مکارم شمار کیا۔ مشہور حدیث خِیَارُکُمْ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُکُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَـقُھُوْا))(۱) میں اس ’’تحویل قبلہ ٔ اخلاق ‘‘ کی طرف اشارہ ہے‘ اس لیے کہ دوسری جگہ خود حدیث میں ہی خِیَارُکُمْ کی تفسیر ((اِنَّ خِیَارَکُمْ اَحَاسِنُـکُمْ اَخْلَاقًا))(۲) سے کی گئی ہے۔

دورِ جاہلیت کے جن واقعات و حوادث میں اہل عرب خصوصاً اہل مکہ کے اخلاقی محاسن کی ایک واضح جھلک نظر آتی ہے‘ اس کی ایک مثال تاریخ نے ’’حِلف الفُضول‘‘ کی صورت میں محفوظ رکھی ہے۔ عبداللہ‘بن جدعان کے مکان پر منعقد ہونے والے اسی حلف میں (جس کی وجہ تسمیہ جو بھی ہو) شامل ہونے والے قریش کے بعض خانوادوں کے نمائندوں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ مکہ میں ظلم و بے انصافی کے واقعات کو محض غیر جانبدار مبصر یا خاموش تماشائی کی حیثیت سے نہیں دیکھیں گے‘ ایک مظلوم کی عملی اور ٹھوس مدد کیا کریں گے۔یہ حلف جسے سیرت نگار ’’اکرم حلف واشرفہ سمع بہ فی العرب‘‘ (عربوں کی تاریخ کا سب سے شریفانہ اور بہترین معاہدہ) قرار دیتے ہیں‘ ابن ہشام کے مطابق اس کے اغراض و مقاصد یوں تھے:

’’انہوں نے عہد و پیمان باندھا کہ مکہ میں مقامی یاغیر مقامی جس آدمی پر بھی وہ کوئی ظلم ہوتے دیکھیں گے تو وہ سب مل کر مظلوم کی مدد کریں گے اور ظالم کو مجبور کر دیں گے کہ وہ مظلوم پر کیے گئے ظلم کی پوری پوری تلافی کرے۔‘‘ (سیرت ابن ہشام)

کہا جا سکتا ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کا دائرئہ نفاذ بہت محدود تھا۔ اس کا مقصد صرف حرمِ مکہ میں مظالم کی روک تھام تھا‘ اور اس کا فائدہ بھی بالآخر اہل مکہ ہی کو تھا تاکہ حرم کی عزت و حرمت لوگوں کے دلوں سے کم نہ ہونے پائے ۔لیکن کیا اپنے وطن عزیز کے کسی ایک شہر بلکہ کسی گائوں میں بھی اس طرح کاکوئی ادارہ یا تنظیم قائم ہے؟ چلیے اپنے وطن یا شہر کی ساکھ کی خاطر ہی سہی —-حالانکہ ایسا کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔پھر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس معاہدے کے شرکاء نے اپنی بات کو صدق دلی اور بے لاگ منصفانہ قوت کے ساتھ نافذ بھی کیا تھا (تفصیل کے لیے دیکھئے :ابن کثیر‘ جلد اوّل‘ ص ۶۱۔۲۵۹)

آج یو این او اور سلامتی کونسل تک میں مہذب ترین لوگ انصاف اور حق کو کس طرح اپنی سیاسی مصلحتوں پر قربان کر دیتے ہیں‘ اسے سامنے رکھیں تو حلف الفضول منعقد کرنے والوں کی اخلاقی قوت‘ ان کی فطرتِ سلیمہ کا وزن اور ان کے اندر خیر الامم کے ہراول دستوں میں شمولیت کے شرف کی اخلاقی استعداد کا اندازہ ہوتا ہے۔ّ

آقائے دو جہاںﷺ خود بھی (بعمر بیس سال) عربوں کے اس سب سے شریفانہ معاہدے میں شامل ہوئے تھے۔ آپؐ اس معاہدے سے بہت خوش تھے اور بعثت کے بعد بھی آپ ؐنے اس کی تعریف و تحسین کی۔

الغرض اگرچہ اہل عرب کی خوبیاں بھی جاہلی رذائل کے خس و خاشاک میں دب کر رہ گئی تھیں‘ تاہم یہ ثابت ہے کہ ان میں بعض نہایت اچھے اخلاقی اوصاف موجود تھے۔ کم از کم حفاظت ِحق اور اعانت ِمظلوم کی حد تک تو آج کی متمدن ترین اقوام بھی ابھی تک عرب جاہلیت سے کچھ نیچے ہی کے درجے پر ہیں۔

اہل عرب کی مثال ایک ایسی زرخیز زمین کی تھی جو کاشت و نگہداشت نہ ہونے کے باعث خودروخاردار جھاڑیوں کا جنگل بن گئی تھی۔ ان میں خیر کے سوتے اٹ ضرور گئے تھے مگر بالکل خشک نہیں ہوئے تھے۔ وہ ایک ایسا بیج تھے جو قوتِ نمو سے محروم نہیں ہوا تھا۔ ہادی ٔ برحق نے اس قوم کے ان اخلاقی محاسن کو ترتیب دے کر مکارمِ اخلاق کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ واقعی وہ ایک طرح سے اس کے اہل اور حق دار ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ {وَکَانُوْا اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَھَا}(الفتح:۲۶) ہمارے اس موقف کہ نبوت سے اکتسابِ فیض کے لیے اخلاقی خوبیاں ایک شرط کی حیثیت رکھتی ہیں‘ کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ سب سے پہلے مسلمان ہونے والے لوگ اخلاقی محاسن کے مداح بھی تھے اور ان سے متصف بھی۔

سب سے پہلے اُمّ المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنھا کا معاملہ دیکھئے۔وہ زمانہ ٔ جاہلیت میں اپنی پاک بازی کے باعث ’’طاہرہ‘‘ کے لقب سے مشہور تھیں۔ چنانچہ ابن ِ ہشام لکھتے ہیں:

’’وہ زمانہ ٔ جاہلیت میں اپنی پاکیزگی اور پاک دامنی کے باعث طاہرہ کہہ کر پکاری جاتی تھیں۔‘‘

حضرت خدیجہؓ نے نکاح سے قبل ایک عورت کے ذریعے آنحضرتﷺ کا عندیہ معلوم کرنے کے بعد آپؐ‘ کو گھر میں بلوایا اور مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنا رشتہ خود پیش کیا:

’’اے میرے چچازاد! میرے اندر آپ کی طرف میلان کئی وجوہ سے پیدا ہوا ہے۔ ازاں جملہ یہ کہ آپ سے میری (برادری کی) رشتہ داری بھی ہے۔ آپ اپنی قوم میں صاحب ِ عزت بھی ہیں۔ ان سب پر مستزاد آپ کی امانت‘ اخلاص اور راست گفتاری ہے۔‘‘

پہلی وحی کے نزول اور بعثت کے ابتدائی ایام میں جو واقعات و حالات پیش آئے تھے ان کی بنا پر حضرت خدیجہؓ نے آنحضرتﷺ کو ان الفاظ میں تسلی دی تھی: ’’ہرگز نہیں! بخدا اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ۔آپ رشتہ داری کا پاس لحاظ کرتے ہیں‘ دوسروں کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں‘ ‘محتاجوں کے کام آتے ہیں ‘مہمان نواز ہیں اور راہِ حق کی تکلیفوں اور مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں۔‘‘

َمردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ان کے بارے میں سیرت نگار لکھتے ہیں کہ آپ ایک بااخلاق اور نیک دل تاجر تھے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبل ِاسلام اَخلاقی محاسن کی ایک گواہی ابن الدغنہ کے بیان سے ملتی ہے۔ یہ واقعہ یوں ہے کہ قریش کی ایذا رسانی سے تنگ آ کر ابوبکر الصدیق بھی آنحضرتﷺ سے اجازت لے کر غالباً حبشہ کی طرف ہجرت کے لیے روانہ ہوئے ۔مکہ مکرمہ سے دو ایک دن کے فاصلے پر انہیں ابن الدغنہ ملا (اصل نام سبیعہ بن رفیع تھا اور وہ اس وقت امابیش کا سردار تھا جو ایک مجموعہ قبائل تھا)۔ اس نے پوچھا :تم کہاں چلے؟ جب انہوں نے بتایا کہ میری قوم نے مجھے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے اور انہوں نے مجھے بہت ہی اذیت پہنچائی ہے اور سخت مصیبت میں ڈال دیا ہے تو ابن الدغنہ نے کہا:

’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بخدا آپ تو قبیلہ کے مایہ ٔ ناز فرزند ہیں ۔آپ مصیبت زدگان کی مدد کرتے ہیں‘ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں حصہ لیتے اور محتاجوں کے کام آتے ہیں۔ واپس چلیے‘ میں آپ کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہوں۔‘‘

ہم ان مثالوںپر اکتفا کرتے ہیں ‘ورنہ تمام ’’سابقین اوّلین‘‘ صحابہj ‘میں قبل از اسلام ہی کسی نہ کسی خالص اخلاقی خوبی کے وجود پر دلالت کرنے والے واقعات مل سکتے ہیں۔ اور شاید اہل عرب کی محاسن شناسی اور محاسن پذیری کی اس صلاحیت اور اعمال و اخلاق میں حسن و جمال کی ستائش کی اہلیت کی بنا پر ہی ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک ؐکے محاسن و فضائل کے جمالِ بے مثال میں سے آپ ؐکے ہم وطنوں کو سب سے پہلے آپ ؐکے ’’خلق ِعظیم‘‘ ہی کی وہ جھلک دکھائی جس نے ان کے دِل موہ لیے تھے۔ آنحضرتﷺ کا قبل از بعثت ہی اپنے نام کے بجائے الصادق اور الامین کے لقب سے پکاراجانا تو سیرت کے مبتدی طالب علم کو بھی معلوم ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ حضورﷺ کے صاحب ِخلق عظیم ہونے کا تعلق آپ ؐ‘کی قبل از بعثت زندگی سے ہے۔ ُ َ
تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ اخلاقیاتِ نبویؐ کے کسی بھی بیان میں آیت کریمہ    وَاِنَّکَ لَـعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۴  آپ ؐ‘کی اخلاقی عظمت تو یقینا ایک مسلمہ امر ہے کو کورس کے بند کی حیثیت حاصل ہے۔ اس آیت سے اور اس کی تفسیر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی مشہور حدیث  کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن ‘‘ (۱) (آپ کا اخلاق تو قرآن تھا) سے بظاہریہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضورﷺ کے اخلاق کی تشکیل اور مکارم کی تکمیل قرآن کریم کے ذریعے اور اس کے مطابق ہوئی۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ {وَاِنَّکَ لَـعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۴} سورۃ القلم کی چوتھی آیت ہے اور اس بات پر قریباً سب اہل علم کا اتفاق ہے کہ سورۃ القلم بلحاظِ نزول قرآن کریم کی دوسری یعنی بالکل ابتدائی دور کی مکی سورت ہے ‘اور یہ آیت مبارکہ آنحضرتﷺ کی نبوت کی صداقت پر سب سے پہلی عقلی دلیل ہے جو قرآن پاک نے پیش کی۔(اس مضمون کی دوسری آیات جو سورئہ یونس اور سورۃ العنکبوت میں آئی ہیں وہ بھی مکی دور کی ہیں مگر بعد کی ہیں)

قرآن حکیم کا آپﷺ کے خلق ِعظیم کو بطور دلیل پیش کرنے سے مدحیہ پہلو کے علاوہ چند مزید امور سامنے آتے ہیں ‘ازاں جملہ: اوّلاًیہ کہ —-اہل مکہ (جو جاہلیت عرب کے رذائل و فضائل کے نمائندہ قرار دیے جا سکتے ہیں) میں عموماًاتنی اخلاقی حس ضرور تھی کہ وہ اخلاقی عظمت پر مبنی اس استدلال سے قائل کیے جا سکتے تھے ‘اور یہی وجہ ہے کہ آنحضورﷺ کے اخلاقِ عالیہ کی طرف یہ بلیغ اشارہ کرنے کے بعد اسی سورت کی اگلی آیات (۱۰تا۱۴) میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو آدمی مجموعہ ٔرذائل ہو‘ چاہے وہ کتنا ہی صاحب ِجاہ و مال ہو ‘اسے ہیچ سمجھو۔ فرمایا:

{وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ۱۰ ہَمَّازٍمَّشَّآئٍ م بِنَمِیْمٍ ۱۱مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ۱۲ عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ۱۳ اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِیْنَ۱۴}

’’ہرگز نہ دبو اُس شخص سے جو قسمیں کھانے والا ‘ پست فطرت‘ طعنہ جو‘ چغل خور‘ مانع خیر‘ دھاندلی باز‘ بدعمل‘ جفاکار اور ساتھ ہی بداصل بھی ہے ‘محض اسی بنا پر (چودھری بنا پھرتا ہے) کہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے۔‘‘

معلوم ہوتا ہے کہ مخاطبین ’’خلق عظیم‘‘ اور ان آیات میں بیان کردہ ’’رذائل ِتسعہ‘‘ کے تغایر و تباین کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
ثانیاً یہ کہ —- اس آیت {وَاِنَّکَ لَـعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۴} کے مضمون اور اس کے زمانہ ٔ‘ نزول کو سامنے رکھنے سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ آنحضرتﷺ قبل از بعثت ہی صاحب ِخلق عظیم تھے۔محمد عزت دروزہ لکھتے ہیں:۔

’’اور یہ خلق عظیم جس کی بنا پر آنحضورﷺ اس ثنائے ربانی کے مستحق ٹھہرے‘ اس سے آپؐ یقیناً قبل از بعثت آراستہ ہو چکے تھے‘ بلکہ اسی چیز نے آپؐ کو اس برگزیدگی اور اس منصب ِعظیم کا اہل بنا دیا تھا‘ اور یوں تو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ اس کی رسالت کے لیے کون اور کتنا موزوں ہے۔‘‘

یوں لگتا ہے کہ قرآن کریم نے آنحضورﷺ کے خلق کی تشکیل یا تکمیل نہیں کی بلکہ اسے تدریجاً نمودار کیا ہے۔ قرآن و سنت میں اخلاقیات پر جو کچھ بھی بیان ہوا ہے وہ صرف آنحضرتﷺ کے خلق عظیم کے خدوخال کی مکمل تصویر کشی ہے‘ اور اسی لیے آپ ؐکی ذاتِ گرامی کو اُمت کے لیے ’’اُسوئہ حسنہ‘‘ قرار دیاگیا۔ خود اُسوہ کے لفظ میں عمل اور کمال کی موجودگی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔

ثالثاًیہ کہ —– اتنی بات توہم سب کو معلوم ہے کہ نبوتِ محمدی (علیٰ صاحبہا السلام) کی صداقت پر جملہ عقلی و نقلی دلائل کی تبلیغ و اشاعت مسلمانوں پر فرضِ کفایہ ہے۔ اس کے لیے عہد رسالت اور قرنِ اوّل کی طرح آج بھی دنیا کے سامنے صرف آنحضورﷺ کے صرف دو معجزوں کو پیش کرنا کافی ہے۔ ایک قرآن‘ دوسرے اخلاق النبیؐ۔ ابتدائے اسلام میں جو بھی مسلمان ہوا وہ یاقرآن سن کر متأثر ہوا یا نبی اکرمﷺ کا خلق ِعظیم دیکھ کر۔ اہل ِمکہ خلق ِمحمدی کا مشاہدہ کر سکتے تھے —– مابعد النبی ادوارمیں دُنیا کو اس کا مشاہدہ کرانے کی ذمہ داری اُمت پر ہے کہ ایک طرف اخلاقیاتِ نبوی سے متصف اور متخلق ہونا ہر مسلمان پر (حسبِ استطاعت) فرضِ عین ہے اور دوسری طرف اخلاقیاتِ نبوی کا مطالعہ اور اس کی تبلیغ واشاعت سب مسلمانوں پر فرضِ کفایہ ہے۔

رابعاً یہ کہ —–آج بھی اسلام کی تبلیغ ان ہی لوگوں میں اور ان ہی قوموں میں زیادہ مفید اور مؤثر ہو گی جن کی اخلاقی حس زندہ ہے۔ نیز یہ کہ اسلام کی اشاعت کے لیے‘ اس کے غلبہ کا دورِ ثانی لانے کے لیے اور فیوض و برکاتِ نبوت کو پھیلانے کے لیے صرف اور صرف گرمی ٔ گفتار‘ پروپیگنڈا اور اشتہار یا محض مذاکرے اور سیمینار نہیں بلکہ اس کے ساتھ سب کے مشاہدہ و تجربہ میں آنے والی زبردست اخلاقی قوت درکار ہو گی۔ اسلام جہاں بھی پہنچا ہے ‘زیادہ تر صلحائے اُمت کے اخلاق و کردار کی بدولت پہنچا ہے۔

آنحضرتﷺ نے ابتدا سے ہی صرف اخلاقی نظریاتی تعلیم نہیںبلکہ عملی اخلاق پر زور دیا۔ توحید‘ رسالت‘ آخرت پر ایمان کی طرح محاسن ِ اخلاق سے عملاً مزین ہونا مسلمان کی ایک لازمی خصوصیت یا بالفاظِ دگر نبو ّت سے اکتسابِ فیض کی علامت قرار دیا۔ یوں تو قرآن کریم کی متعدد آیات اور عہد ِ رسالت کے بکثرت واقعات اور صحابہ کرامؓ کے کارنامہ ہائے حیات میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے مگر ابتدائی دور کو پیش نظر رکھتے ہوئے صرف دو واقعات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

)۱(حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ پہلے پانچ یا سات مسلمانوں میں سے ہیں۔ انہوں نے جب آنحضرتﷺ کے اعلانِ نبوت کے بارے میں سنا تو اپنے بھائی کو دریافت ِ احوال کے لیے مکہ بھیجا۔ اس نے واپس جا کر آنحضورﷺ کے بارے میں بھائی کو یہ رپورٹ دی تھی:

’’وہ بھلائی کا حکم دیتا‘ برائیوں سے منع کرتا اور مکارمِ اخلاق کا حکم دیتا ہے۔‘‘

یہاں اخلاق کے ضمن میں ’’تعلیم‘‘ یا ’’تلقین‘‘ یا ’’تبلیغ‘‘ وغیرہ کی بجائے ’’امر‘‘ کا لفظ قابل غور ہے۔ اخلاق کا تعلق محض فکر و دانش سے نہیں ‘قوتِ عمل سے ہے ۔یہ کچھ پڑھنے کی مشق نہیں بلکہ کچھ کرنے کی تربیت کا نام ہے۔

ہجرت ِحبشہ۵ نبوی میں ہوئی۔ نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہنے اپنے معروف خطبہ میں جس طرح جاہلیت کی تصویر کشی کرنے کے ساتھ اسلام کا تعارف کرایا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اخلاقی تربیت اور اصلاحِ عقائد کا کام ساتھ ساتھ اور ابتدا ہی سے شروع ہو گیا تھا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ نبوت سے اکتسابِ فیض کے بعد مسلمانوں کے عقائد و افکار کے ساتھ ان کے اعمال اور اخلاق میں کیا تبدیلی آجاتی تھی۔ اس خطبہ کے جستہ جستہ فقرے قابل غور ہیں:

کہا: ’’اے بادشاہ! ہم پروردئہ جاہلیت قوم تھے۔ بتوں کو پوجتے‘ مردار کھاتے اور بے حیائیوں میں مبتلا تھے۔ رشتہ داروں کا حق مارتے تھے اور ہمسایوں کو دکھ دیتے تھے‘ اور ہم میں سے جو طاقتور ہوتا وہ کمزور کو پھاڑ کر کھا جاتا ۔پھر اللہ نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کے خاندان‘ حسب نسب اور جس کی سچائی‘ امانت اور پاک بازی سے ہم پہلے واقف تھے۔ انہوں نے ہم کو ایک اللہ پر ایمان لانے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور انہوں نے ہم کو سچ بولنے‘ امانت ادا کرنے‘ رشتہ‘داروں کے حقوق کا خیال رکھنے ‘ پڑوسی سے حسن سلوک کرنے‘ ناجائز اورحرام باتوں اور خونریزی سے پرہیز کا حکم دیا۔ بے حیائی کے کاموں‘ جھوٹ بولنے اور یتیم کا مال کھانے سے منع فرمایا۔ پس ہم ان پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کی ۔جو انہوں نے حرام قرار دیاہے اسے حرام مانا اور جو انہوں نے حلال بنایا اس کو حلال تسلیم کیا۔‘‘ (سیرت ابن ہشام)

آنحضورﷺ نے مکارمِ اخلاق کی اہمیت یوں بھی واضح فرمائی کہ بعض دفعہ آپ ؐزمانۂ جاہلیت کے اصحابِ مکارم و محاسن کی قدردانی فرماتے اور ان کے اخلاقی کردار کو بنظر ِاستحسان دیکھتے تھے۔عبداللہ بن جدعان (بانی حلف الفضول) کو آپؐ نے کتنی دفعہ تعریف بھرے الفاظ سے یاد فرمایا ‘حالانکہ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ جس آدمی نے (ایمان لا کر ) زندگی میں ایک دفعہ بھی اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ نہ کہا ہو اس کی مغفرت کیسے ہو؟

اسی قسم کا ایک واقعہ حاتم طائی کی بیٹی کا ہے ۔وہ اسیر ہو کر جنگی قیدیوں کے ساتھ آئی تھی۔ اس نے آنحضورﷺ کی خدمت میں یہ درخواست پیش کی:۔

’’حضور! میرا باپ ہلاک ہو گیا اور فدیہ گزار نہ رہا ۔اگر یہ مناسب جانیں تو مجھے رہا کر دیں اور قبائل عرب میں میری بے عزتی نہ ہونے دیں ۔میں اپنے قبیلے کے سردار کی بیٹی ہوں۔ میرا باپ لوگوں کو مصیبت سے نکالتا تھا ۔وہ نیک شہرت کا مالک تھا۔ مہمان نوازی کرتا تھا اور بھوکوں ننگوں کی ضروریات پوری کرتا تھا اور اس نے کبھی کسی حاجت مند کو خالی نہیں جانے دیا۔ میں حاتم طائی کی بیٹی ہوں۔‘‘

آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’’بچی! یہ باتیں (جو تو نے بیان کیں ) یہی تو ٹھیک ٹھیک اہل ایمان کی صفات ہیں۔ اگر تیراباپ مسلمان ہوتا تو ہم اس کے لیے دعائے رحمت بھی مانگتے۔‘‘ پھر حکم دیا کہ اسے رہا کر دیا جائے کیونکہ اس کا باپ مکارمِ اخلاق کو پسند کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ بھی مکارمِ اخلاق کو پسند فرماتا ہے۔

یہ سن کر ایک صحابی ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور سوال کیا: ’’یارسول اللہﷺ! کیا مکارمِ اخلاق آپؐ‘ کو (اس قدر) پسند ہیں؟‘‘ تو آپؐ نے فرمایا: ’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ کوئی ایک آدمی بھی جنت میں حسن عمل کے بغیر نہیں جائے گا۔‘‘

جب بھی ہم مکارمِ اخلاق اور اخلاقیاتِ نبوی کی بات کرتے ہیں تو اس وقت ہمیشہ تعمیر کردار کا مثبت پہلو مراد ہوتا ہے ۔ اس درجہ کے حصول کے لیے منفی پہلو یعنی رذائل سے اجتناب بھی ضروری ہے۔ سزا اور مذمت و ملامت سے بچنا ایک بات ہے مگر انعام اور مدح و ثنا کا حق دار ٹھہرنا عظیم تر بات ہے۔ قرآن کریم میں تعمیر اخلاق کے ان دو مراحل کو ہی ’’اجتناب کبائر‘‘ اور ’’مسابقت علی الخیرات‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبٰٓـئِرَ مَا تُـنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْمًا{۳۱)النساء

“جن باتوں سے تم کو منع کیا جاتا ہے اگر تم ان میں سے بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے تو ہم تمہارے چھوٹے موٹے قصور محو کر دیں گے اور تم کو مقامِ عزت پر جگہ دیں گے۔”

}وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ }(البقرۃ:۱۴۸)

’اور ہر ایک (مقام) کا ایک مرکز ِتوجہ (یا مطمح نظر) ہوتا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتاہے۔ سو تم نیک کاموں میں سبقت لے جانے کی تگ ودو کرو۔‘‘

سیرت النبیﷺ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے اخلاق کی تربیت اور تکمیل کے لیے اس ترتیب اور تدریج کو ملحوظ رکھا۔ آپؐ نے سب سے پہلے ان اصولی اور بنیادی اخلاق پر زور دیا جو کم‘و بیش ہر معاشرے کے سلیم الفطرت افراد میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے افراد میں اسلام کی طرف ایک فطری کشش اور نبوت سے اکتسابِ فیض کی ایک شرط یا اہلیت اور فطری استعداد موجود ہوتی ہے۔

دوسرے درجے پر وہ لوگ آتے ہیں جن میں پہلے سے یہ شرط یا وصف اخلاق عملاً موجود نہ تھا۔ نبیﷺ سے متعلق ایمان قائم ہو جانے یعنی اسلام کو قبول کرنے یا اسلام کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ہی یہ ضروری قرار دیا گیا کہ اب وہ کم از کم ان بنیادی اور اصولی اخلاق کی پابندی لازماً اختیار کریں۔ اسلام لانے کے بعد ‘ مسلمان کہلانے کے بعد بھی اخلاق کا روزبروز بہتر نہ ہونا اگر مطلق ایمان کے فقدان کا نہیں تو کم از کم نبوت کے فیض سے محرومی کا نشان ضرور ہے۔ بقول اقبال: ؎ ِ

آنکہ از صدق و امانت بے خبر
روزِ تمہید رسالت بے خبر
کارِ او گفتارِ بے کیف عمل
او نیامِ علم بے سیف ِعمل
لذتِ ایماں فزاید در عمل
ُمردہ آں ایماں کہ ناید در عمل

نبوت سے اکتسابِ فیض کا بلند ترین مرتبہ مکارمِ اخلاق ہیں جنہیں مقصود ِبعثت ِنبویؐ کہا گیا ہے۔ ّ (اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ)۱ ’’میں مکارمِ اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘

مگر مسلمان ہوتے ہوئے بھی مکارمِ اخلاق کے اعلیٰ درجے تک نہ پہنچ سکنا فیض ِنبوت سے یکسر محرومی نہ سہی ’’کم نصیبی‘‘ کی علامت ضرور ہے ۔علامہ اقبال نے ’’رموزِ بے خودی‘‘ میں گداگر کے واقعہ میں اپنے باپ کی نصیحت کا ذکر کرتے ہوئے کہا:۔

آنکہ مہتاب از سر انگشتش دونیم
رحمت او عام و اخلاقش عظیم
از بہارش رنگ و بو باید گرفت
بہرئہ از خلق او باید گرفت

ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر تم اللہ کے ہاں اپنا درجہ و مرتبہ معلوم کرنا چاہو تو بس یہ دیکھ لو کہ تمہارے دل میں اللہ کا درجہ کیا ہے! اتنا ہی اس کے ہاں تمہارا درجہ ہے۔ اسی طرح اگر یہ دیکھنا ہو کہ محمد مصطفیﷺ کے ہاں ہمارا کیا درجہ ہے (کیونکہ مصطفی سے بعد ہی تو بولہبی ہے) تو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ ہم نے اخلاقیاتِ نبوی ؐسے کتنا حصہ پایا ہے!

[حافظ صاحب مرحوم و مغفور کا یہ مضمون شیخ زائد اسلامک سنٹر‘ جامعہ پنجاب لاہورکی جانب سے شائع کردہ کتاب ’’قرآن و سنت : چند مباحث‘‘ سے لیا گیا ہے۔ احادیث کی تخریج قرآن اکیڈمی لاہور کے شعبہ مطبوعات نے کی ہے۔]

(۱) صحیح البخاری‘ کتاب احادیث الانبیاء‘ باب ام کنتم شھداء اذ حضر یعقوب الموت …

(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الادب‘ باب حسن الخلق والسخاء وما یکرہ من البخل۔

(۱) مسند احمد‘ ح ۲۳۴۶۰۔

(۱) مجمع الزوائد للھیثمی ۹؍۱۸۔ ومختصر المقاصد للزرقانی‘ ح ۱۸۴۔ السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی‘ ح۴۵۔ راوی حضرت ابوہریرہ ۔ مسند احمد کی روایت میں
((اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ صَالِحَ الْاَخْلَاقِ)) جبکہ موطا امام مالک میں کے الفاظ ہیں