عائلی قوانین اور قرآنِ کریم کا اسلوبِ بیان

(ایک مطالعہ)

ڈاکٹر حافظہ شاہدہ پروین

مدنی الطبع انسان کی اجتماعی زندگی کو باہمی مخاصمات سے بچانے کے لیے قانون ناگزیر ہے اور قانون کے مختلف مجموعوں میں نازک ترین قانون عائلی قانون ہے۔ اس لیے کہ یہ اندرون خانہ کی اصلاح کرتا ہے اور تدبیر منزل کا ضامن ہے۔ چونکہ اسلام ایک کامیاب معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے اور معاشرہ افراد کا مجموعہ ہے۔ اس لیے جب تک افراد کی اصلاح نہ ہو ایک کامیاب معاشرے کا تصور ناممکن ہے۔ اور اگر افراد کو عائلی سکون میسر نہ ہو تو ترقی کی شاہراہ بے آباد و ویران ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گھریلوزندگی میں ظلم و تعدی کا زیادہ خطرہ ہے۔ ایک طرف صنفِ لطیف کی طبعی کمزوری اور دوسری طرف مرد کے تشدد کا اندیشہ فریقین کے تصادم کی صورت میں کمزور پر قوی کے غلبہ کا بہرحال امکان ہے۔ اس لیے عائلی زندگی کی حدبندی کے لیے کچھ قوانین کی ضرورت ہوتی ہے اور شارع نے اس ضرورت کا پوری طرح اہتمام کیا ہے۔ غرض قانونِ ازدواج قوانینِ تمدن میں سب سے زیادہ اہم ہے۔

The Oxford Encyclopedia of Modern Islamic World

کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

Issues of Law affecting the family, known as family Law

محمد اعلیٰ بن علی التھانوی لکھتے ہیں(۱ )

وأما علم بمصالح جماعۃ متشارکہ فی المنزل کا لولد والوالد والمالک والمملوک ونحوذلک ویسمیٰ تدبیر المنزل وفی بعض الکتب ویسمیٰ علم تدبیر المنزل والحکمۃ المنزلیۃ (۲ )

عبدالقادر عودہ لکھتے ہیں:

شریعت نے جو احکام دئیے ہیں ان کی دو اقسام ہیں ایک وہ احکام ہیں جو دین کے قیام کے لیے لازم ہیں۔ انہیں عقائد و عبادات سے متعلقہ احکام کہا جاتا ہے۔ دوسرے احکام سیاسی و علاقائی تنظیم افراد اور جماعت کے تعلقات سے متعلق ہیں۔ یہ معاملات، عقوبات، عائلی احکام، دستوری اور ملکی قوانین پر مشتمل ہیں۔

گویا ان احکام میں سے اہم حصہ الأحوال الشخصیہ یا عائلی احکام ہیں۔ (۳)

أحکام الزواج والطلاق یعنی نکاح وطلاق و نان و نفقہ وغیرہ۔

أحوال شخصیہ یعنی شخصی اور عائلی قانون Personal law; Family Law عائلی قوانین و احکام میں نکاح و طلاق سے لے کر حقوق اولاد حقوق اقارب افراد خاندان اور صلۂ رحمی وغیرہ سب شامل ہیں۔ (۴) انسانی دنیا بہت سے افراد کا مجموعہ ہے یہاں ہر فرد متحرک ہے ایسی حالت میں ضروری تھا کہ ہر ایک کی حد مقرر کر دی جائے مختلف افراد کے درمیان وہ توازن قائم کر دیا جائے جو اس بات کی ضمانت ہو کہ فرد دوسروں کے لیے مسئلہ بنے بغیر اپنی ذات کی تکمیل کرے گا۔ وہ دوسروں سے غیر ضروری ٹکراؤ کے بغیر اپنا سفر جاری رکھے گا۔ سماجی نظام کی تمام تر بنیادیہی پرسنل لاء اور فیملی لاء ہوتے ہیں۔ فرد کی تعلیم و تربیت داشت و پرداخت، افرادِ خاندان کے تعلق کی نوعیت، گھر کا اندرونی نظم و ضبط، خاندان کی تشکیل و تربیت یعنی ایک چھوٹی سی دنیا کی داغ بیل انہی قوانین سے پڑتی ہے۔ جو آگے چل کر ایک محلہ، ایک شہر، ایک قوم اور ایک ملک بن جاتی ہے۔ (۵( Duncan-Bloy لکھتے ہیں:

Family law is the body of statues, rules, regulations and Practices related essentially to the development and organisation of the fundamental social unit known as ‘the family’ and the legal relationship existing among its members.()۶)

عائلی قوانین کی اہمیت

قوموں کے لیے ان کے اقدارِ حیات، نظریات زندگی، اخلاق کے اصول، معاملات کے طریقے، ان کے قانونی نظام عزیز ہوتے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء کے مؤلف لکھتے ہیں:

فکری سرمایہ، مذہبی اور اخلاقی تصورات ہی کسی قوم کی تہذیب کا سرچشمہ اور اس کے بنیادی پتھر ہوتے ہیں۔ لیکن ان سب میں پرسنل لاء کسی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا حکم رکھتا ہے۔ ان عائلی قوانین سے قوموں کا براہ راست واسطہ اور دن رات کا سابقہ پڑتا ہے۔ زندگی اور تہذیب میں اس کے گہرے عمل دخل کی وجہ سے تہذیب و تمدن حیاتِ اجتماعی اور ملی زندگی کا اسے سرچشمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی تہذیب و تمدن کی روح اس کی پرسنل لاء میں بند ہوتی ہے۔ عائلی قوانین میں ہی قوموں کے عزائم و افکار، رسم و شعائر عقائد و ایمان کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ جسم اگر بے جان کے اور درخت بے جڑ کے قائم نہیں رہ سکتا تو کیا کوئی ملت بغیر اپنے عائلی قوانین اور خاندانی نظام کے رہ سکتی ہے ؟ (۷)

نعیم صدیقی ؒ لکھتے ہیں:

عائلی مسائل نظامِ زندگی میں اتنی اہمیت رکھتے ہیں کہ ایک بار اگر ازدواجی اور گھریلو زندگی کی بنیادوں میں کوئی غلط ماحول یا رجحان گھس جائے تو نہ صرف خاندانی نظام آہستہ آہستہ بگڑ کے رہ جاتا ہے بلکہ پورا تہذیبی نقشہ گڑ بڑ ہو جاتا ہے جس ادارہ کا نام گھر ہے وہ تمام انسانی تعلقات کا ابتدائی سرچشمہ اور تہذیبی شعور کی اولین تربیت گاہ ہے۔ غلط یا صحیح عائلی و معاشرتی قوانین اس ادارہ کے بناؤ اور بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ اور بالآخر ان کی اچھائی یا برائی سارے نظامِ زندگی کو اپنے اثر میں لے لیتی ہے۔ (۸)

ابو زھرہ لکھتے ہیں:

والزواج ھوالعما دالأول لأسرۃ کما نوھنا ء، والأسرۃ ھی الوحدۃ الأولی لبناء المجتمع، فاذا کان الانسان حیوانا۔ اجتماعیا لا یعیش الا فی مجتمع فالوحدۃ الأولی لھذا المجتمع ھی الأسرۃ۔ فھی الخلیۃ التی تتربی فیھا أنواع النزوع الاجتماعی فی الإنسان عند أول استقبالہ للدنیا، ففیھا یعرف مالہ من حقوق۔ وما علیہ من واجبات، وفیھا تتکون مشاعر الالفۃ والأ خوۃ الانسانیۃ، وتبذر بذرۃ الإیثار، فتمنوا أو تخبوبما یصادفھا من أجواء فی الحیاۃ الجماعۃ (۹)

مولانا مودودی لکھتے ہیں:

The marital relationship of man and woman is, in fact, the corner stone of human culture. No human being, whether a man or woman, can step outside the ambil of law designed to regulate the martial relationship. From childhood to old age, at every stage of life, this law influences human life. (۱۰)

محمد قطب لکھتے ہیں :

میاں بیوی میں اختلاف ہو جائے اور اتنا شدید ہو کہ مصلحت ممکن ہی نہ ہو تو ضروری ہے کہ قانون میں ایسی گنجائش موجود ہو کہ اس سے ازدواجی زندگی کے لیے قوانین اور اصولِ اخذ کئے جا سکیں۔ کیونکہ انسانی زندگی کے اس نازک مسئلے کو سلجھانے کی تدبیر کئے بغیر کوئی انسانی نظام جامعیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس لیے ایک ایسا قانون ناگزیر ہے جو کم از کم مسئلے کی عمومی اور ناقابل عبور حدود مقرر کر کے مرد اور عورت کو آزاد چھوڑ دے۔ پھر قانون بھی ایسا ہونا چاہیے جو انصاف پر ہو اور اس سے نہ کسی فریق کی بے جا حمایت ہوتی ہے اور نہ بے جا مخالفت۔ اسی طرح اس کو اتنا جامع بھی ہونا چاہیے کہ وہ واقعات کی زیادہ سے زیادہ تعداد پر منطبق ہو سکتا ہو۔ (۱۱)

عائلی قوانین کا دائرہ کار

عائلی نظام انسانی اجتماع کا بنیادی اور اہم ترین ادارہ ہے۔ یہ ادارہ شادی کے بندھن کے ذریعے تشکیل پاتا ہے۔ میاں بیوی ہمسفر بنتے ہیں۔ ان کا مستقبل، ان کی اولاد، ان کی انگلی تھام کے جوان ہوتی ہے۔ میاں بیوی اور بچوں کے اس خوبصورت ساتھ کو پرسکون مضبوط اور ضرر و تعدی سے بچانے کے لیے دئیے گئے قوانین کو Family law کہا جاتا ہے۔ ان قوانین کا دائرہ کار، شادی کے مقاصد و شرائط، میاں بیوی کے حقوق بچوں کی حیثیت، جائیداد کی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقلی اور علیحدگی کی صورت میں بچوں کی حضانت وغیرہ کے مسائل ہیں۔

The New Encyclopedia Britannica
:کا مقالہ نگار لکھتا ہے

Some of the important questions dealt with in family law include the terms and parameters of marriage, the status of children, and the succession of property from one generation to the next, dissolution of marriages is one of the areas in which laws must try to balance private and public interest. ۱۲

فیملی کورٹس

اس سے مراد وہ کورٹس ہیں جو خاص طور پر عائلی جھگڑوں کو نپٹانے کے لیے قائم کی جائیں۔ نیو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

Many systems favour special family courts that can deal more fairly with the sensitive issues ۱۳(
Family court” means the court constituted to settle family issues. (۱۴

مختلف مذاہب اور عائلی قوانین

یہودیت اور عائلی قوانین

یہودی مذہب میں شادی بیاہ اور عائلی قوانین کا تذکرہ ملتا ہے۔ رشید احمد لکھتے ہیں:

یہودیوں میں شادی کا طریقہ بہت سادہ اور دلچسپ ہے۔ منگنی کا اعلان شادی سے پہلے کر دیا جاتا ہے۔ شادی کے دن روزہ رکھنے کو بہت مستحسن سمجھا جاتا ہے۔ شادی کی رسم سہ پہرکو مجلس میں ادا کی جاتی ہے۔ جس میں کم از کم دس بالغوں کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ مجلس کی عمارت میں ایک ریشمی کپڑے کا شامیانہ تیار کیا جاتا ہے جس میں دلہا دلہن کی ہمراہی میں لایا جاتا ہے۔ ربی ایک گلاس میں شراب لیتا ہے اور زوجین کے حق میں دعا کرتا ہے۔ پھر دلہا دلہن اور اس کے بعد لوگوں کو شراب دیتا ہے۔ دلہا دلہن کی انگلی میں انگوٹھی پہناتا ہے۔ پھر ربی شادی کے عہد نامے کو آرامی زبان میں پڑھتا ہے۔ (۱۵)

یہودی عائلی قوانین میں شادی کی عمر کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ محمد ظفیرالدین لکھتے ہیں:

یہودی قانون میں ہے کہ جس کی لڑکی بارہ سال کی ہو جائے اور وہ اس کی شادی نہ کرے اور اس لڑکی سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ گناہ اس شخص پر ہو گا۔ (۱۶)

متعدد اور وقتی نکاحوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ سیدامیر علی لکھتے ہیں:

یہودیوں کے ہاں متعدد بیویوں کے علاوہ مشروط اور عارضی عقد بھی ہوتے تھے۔ عائلی اخلاق کے بارے میں اس ڈھیل نے معاشرے کے نظام پر نہایت مضر اثر ڈالا تھا۔‘‘ (۱۷)

کتاب مقدس میں ہے:

محرمات یعنی قریبی خواتین والدہ، بہن، پوتی، نواسی، پھوپھی، خالہ، بہو، سالی، بھاوج، ماں بیٹی کے ساتھ اکٹھے نکاح کرنا اور سالی سے نکاح کی ممانعت کا تذکرہ ملتا ہے۔ (۱۸)

یہودی قانون میں عورت کو حیض کی حالت میں چھونے سے ہی مرد ناپاک ہو جاتا ہے۔ (۱۹)

یہودی مذہب میں مہر کا تذکرہ بھی ملتا ہے:

یہودی مذہب میں عورت کا مہر ہوتا ہے اور وہ اس کی مالک بنتی ہے۔ (۲۰)

یہودیوں کو ان کی مذہبی تعلیمات کے ذریعے سے یہ حقوق حاصل ہیں کہ وہ جب چاہیں ایک ادنیٰ سی لغزش پر عورت کو گھر سے نکال کر باہر کر سکتے ہیں۔ (۲۱) یہودی مذہب میں بیوہ عورت ایک بھائی کے مرنے کے بعد اس کے دوسرے بھائی کی ملک ہو جاتی تھی (۲۲) ۔ یہودی قانون میں عورت کو خلع لینے کا اختیار حاصل نہیں۔ (۲۳) یہودی قانون میں عورت مرد کی وراثت سے محروم اور بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت نہیں۔ (۲۴) یہودی مذہب میں اسلام کے طرز کا لعان بھی موجود ہے۔ (۲۵)

عیسائیت اور عائلی قوانین

عیسائیت میں مرد کو عورت پر برتری حاصل ہے ایک مسیحی رہنما ترتولیان (Tertullion) عورت کے متعلق مسیحی تصور کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے:

وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے وہ شجر ممنوعہ کی طرف لے جانے والی اور خدا کے قانون کو توڑنے والی ہے۔ (۲۶)

عیسائی مذہب میں رہبانیت اور ازدواجی زندگی سے گریز ہی کو روحانی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ (۲۷) عیسائیت میں شادی جیسی اہم ضرورت کے بارے میں کوئی واضح ہدایات نہیں دی گئیں۔ نکاح ثانی کی اجازت نہ تھی اسے سخت گناہ قرار دیا گیا۔

مولانا مودودی لکھتے ہیں :

شوہر کے مرنے کی صورت میں بیوی کے لیے اور بیوی کے مرنے کی صورت میں شوہر کے لیے نکاح ثانی کرنا سخت معیوب بلکہ گناہ قرار دیا گیا تھا۔ (۲۸)

Encyclopedia of Religion & Religions کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

The form of sex-relation that receives the approval of society. Among Christians the only permitted form is monogamy, and Catholics and many protestants oppose divorce on religious ground: in the wedding ceremony the man and woman have taken one another to the exclusion of all others, and the union is deemed to be life long. (۲۹)

رومن کیتھولک عقیدہ کے لحاظ سے فعلی مباشرت کے بعد نکاح ایک دائمی تعلق کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور آئندہ اس رشتہ کو توڑنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ جس طرح کلیسا اور مسیح کا اتحاد ناقابل شکست ہے۔ اس طرح یہ رشتہ بھی ناقابل فسخ ہے۔ (۳۰) نفقہ کے بارے میں مسیحی تعلیمات میں عورتوں کے نفقہ کے بارے میں حکم نہیں ملتا۔ ۱۸۸۶ء کے قانون میں عدالت کو یہ اختیار دیا گیا کہ اگر چاہے تو نکاح توڑ دے اور خطا کار شوہر پر مطلقہ کا نفقہ بھی ڈال دے۔ (۳۱) یورپ فرانس اور بیلجئم کے موجودہ قوانین ازدواج میں عدت کا ناقص سا تصور ہے اور اس کی مدت تین سو (۳۰۰) دن مقرر کی گئی ہے۔ (۳۲)

مختلف معاشرے اور عائلی قوانین

انسان بنیادی طور پر اجتماع پسند ہے۔ تنہا زندگی گزارنا اس کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ اولین انسان کی تنہائی دور کرنے کے لیے اسی کی ساتھی کو پیدا کیا گیا۔ انسان مل جل کر رہتا ہے تو گھر، محلے، شہر، ملک اور بین الاقوامی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ جب مختلف افراد باہم مل جل کر رہتے ہیں۔ تو تصادم اور ٹکراؤ سے بچانے کے لیے قوانین کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح ہر معاشرہ اپنے بنیادی یونٹ عائلی زندگی کے بارے میں اپنا مخصوص نقطہ نظر اور قوانین رکھتا ہے۔ ورلڈ بک انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگار کے مطابق :

The basis for the family is the institution of marriage. From the earliest times, people have believed that a legal bond was needed between the husband and wife. In this way the children and society are protected. (۳۳)

عائلی زندگی میں افراد میں تعاون، اختیارات میں توازن اور باہم ٹکرائو اور مخاصمات سے بچانے کے لیے قوانین لازمی ہیں اور یہ معاشرے کے مزاج ، ضروریات اور بنیادی نظریہ زندگی کے مطابق ہوتے ہیں اس لئے مختلف معاشروں میں کچھ حد تک مختلف قوانین موجود رہے ہیں۔

Encyclopedia of Religion and Ethics کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

In all forms of human society there are definite rules regulating whom the members of the community may and may not marry”. The rules may also be distinguished according as the prohibit or enjoining certain union. (۳۴)

The New Encyclopaedia Britannica
کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

Family laws varies from culture to culture, but in its broad application it defines the legal relationship among family members as well as the relationships between families and society at large. Some of the important questions dealth with in family law include the terms and parameters of marriage, the status of children and the succession of property from one generation to the next. In nearly every case family law represents a delicate balance between the interests of soceity and the protection of individual rights.(۳۵)

غرضیکہ عائلی زندگی ہر عہد اور معاشرے میں موجود رہی۔ ہر گروہ میں عائلی زندگی کا تصور، مفہوم اور بنیادیں افراد کے عقائد اور تصورات کی بناء پر مختلف رہیں اور زمان و مکان کا تغیر بھی اس پر اثر انداز ہوا۔ خاندان کی ہیئتِ ترکیبی مختلف معاشروں میں مختلف ہوتی رہی۔ مثلاً ایک بیوی، محدود بیویوں اور غیر محدود بیویوں پر مشتمل خاندان اسی طرح یک زوجی یا کثیر زوجگی پر مشتمل خاندان۔ کہیں باپ حاکم رہا اور کئی علاقوں میں محکوم۔ افراد خاندان میں شامل افراد کی تعداد مختلف ہوتی رہی۔ مثلاً مشترکہ خاندان یا واحد خاندان کا رواج وغیرہ۔

یوں مختلف معاشروں میں عائلی زندگی کو منضبط کرنے کے قوانین و قواعد بھی فرق رہے۔ یونانی معاشرہ ہو رومی ہو ایرانی یا برصغیر پاک و ہند کا، مغربی معاشرہ ہو یا مشرقی ہر ایک میں عائلی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے قوانین موجود رہے۔

سید مودودی لکھتے ہیں:

تمدنی ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں ہی عورت کا دائرہ کار منزلی زندگی تک محدود تھا۔ باعصمت عورت کی قدرو منزلت اور کسی مرد کی شریک حیات ہونا قابل فخر تھا۔ پاکیزگی اور طہارت کا مطالبہ عورتوں سے کیا جاتا تھا۔ مردوں سے نہیں، عورت کا بیسوا طبقہ بھی تھا جس کے ساتھ مرد آزادانہ تعلق رکھ سکتے تھے۔ (۳۶)

وہ آگے لکھتے ہیں:

ابتدائی مرحلہ پر رومی تہذیب میں بھی گھر عورت کا مرکز اور شادی کو پسندیدہ خیال کیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس تصور میں تبدیلی آئی۔ شادی و طلاق کے قوانین اور خاندانی نظام کی ترکیب میں تغیر آنے لگا۔ پھر طلاق کی اتنی کثرت ہوئی کہ عورتیں اپنی عمر کا اندازہ شوہروں کی تعداد سے لگانے لگیں۔ (۳۷)

اسلام اور عائلی مسائل کا حل

عائلی زندگی دو مختلف افراد کے درمیان ہونے والے معاہدے شادی کی بناء پر وجود میں آتی ہے۔ انسانی طبائع ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ انسانی مزاج مختلف رنگ رکھتا ہے۔ کچھ مزاج اتنے نرم و نازک کہ جدھر چاہو موڑ دو اور کچھ اتنے سخت کہ ذرا سا جھکاؤ بھی توڑ پھوڑ کے رکھ دیتا ہے۔ کچھ اتنے حساس کہ دوسرے پر پڑنے والی ضرب اپنے دل پر محسوس کریں اور کچھ اتنے بے حس جیسے ڈھول جتنی مرضی ضربیں لگائو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مختلف ماحول اور گردوپیش بھی انسانی رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب مختلف ماحول اور مزاج رکھنے والے افراد اس عقد میں بندھتے ہیں۔ تو اختلاف اور ٹکراؤ کا قوی امکان ہوتا ہے۔ بعض اوقات دونوں افراد اپنی اپنی جگہ پر بہترین افراد ہوتے ہیں لیکن باہم اس بندھن کو نباہ نہیں پاتے۔ قریبی دیگر افراد کے رویوں سے بھی عائلی زندگی میں دراڑ پڑنے کا امکان ہوتا ہے۔ اسلام عائلی ادارے کو جو اجتماعی و معاشرتی زندگی کا سنگِ بنیاد ہے۔ ہر حال میں آسودہ، مطمئن اور مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس میں اصلاح کے لیے خوبصورت اصول دئیے ہیں۔ ان جھگڑوں تنازعات اور اختلافات کو چکانے کے طریقے اختیار کئے ہیں۔ (۱) اخلاقی حل (۲) قانونی حل

اخلاقی حل

اسلام عائلی اختلافات کو نپٹانے کے لیے سب سے پہلے اخلاقی ذرائع بروئے کار لاتا ہے۔ میاں کو حسنِ معاشرت کی تاکید کرتا ہے اوربیوی کو مرد کی اطاعت و خوشنودی کا پابند بناتا ہے اور معمولی ضرر و تعدی کی صورت میں باہم عفو و درگزر کی تاکید کرتا ہے۔

محمد قطب لکھتے ہیں:

شادی کا مقصد مرد اور عورت دونوں کی فلاح اور بہبود ہے۔ اس کا مقصود یہ ہے کہ گھر میں محبت اور سکون ہو تاکہ قانون کا سہارا لئے بغیر میاں بیوی دونوں زیادہ سے زیادہ مادی اور روحانی فوائد سے بہرہ اندوز ہو سکیں۔ لیکن میاں بیوی میں جھگڑا اور اختلاف ہو۔ تو اس کے مضر اثرات صرف ان کی اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رہتے۔ بلکہ ان کے بچے یعنی اگلی نسل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اگر گھریلو زندگی میں تلخی ہو تو اس کی اصلاح کون کرے؟ کیا عدالت یہ کام کر سکتی ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے عدالت معاملے کو اور زیادہ بگاڑ سکتی ہے۔ اس کی اصلاح نہیں کر سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے اختلافات بالکل معمولی اور عارضی ہوں مگر عدالت میں پہنچ کر یہ زیادہ پیچیدہ اور خطرناک صورت اختیار کر لیں کیونکہ ایک دفعہ جب کوئی معاملہ عدالت میں پہنچ جاتا ہے۔ تو طرفین کا غرور انہیں کسی قسم کی مصالحت کے قابل ہی نہیں رہنے دیتا۔ اس لیے معقول رویہ یہی ہے کہ خاندانی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات کو عدالت میں نہ لے جایا جائے۔ عدالت کو صرف اہم اور بڑے بڑے امور میں مداخلت کرنی چاہیے اور وہ بھی صرف اس صورت میں جب کہ مصالحت کے باقی تمام ذرائع ناکام ہو گئے ہوں۔ کوئی معقول انسان زندگی میں ہر لحظہ پیش آنے والی شکایات اور اپنے چھوٹے چھوٹے معاملات کو عدالت میں نہیں لے جاتا۔ کیوں کہ اگر ایسا ہو تو پھر تو ہمیں ہر گھر میں ایک عدالت قائم کرنی پڑے گی اور یہ عدالتیں دن رات انہی عائلی تنازعات کو چکانے میں الجھی رہیں گی۔ (۳۸)

عائلی نظام کی بہتری کے اخلاقی اقدامات

اسلام نے اس زندگی کا مقصد، مفہوم اور حیثیت واضح کر کے اخلاقی دنیا میں ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے۔

سب سے پہلے انسان کو اس تعلق کا مقصد اور مقام سمجھایا تاکہ وہ اسے کوئی عمومی رشتہ تصور نہ کرے۔ اس کے خصوصی مقام و مرتبہ کو سمجھتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے تاکہ اس نظام کے قیام کے مقصد کا حصول ممکن ہو سکے۔ اس رشتہ کی اہمیت پر زیادہ زور دیا اسے آیات الٰہی (اللہ کی عظمت کی دلیل) بقول شاہ ولی اللہؒ تذکیر بالاء اللہ میں شامل فرمایا۔ وہ لکھتے ہیں:

قرآن کریم کے اسلوب بیان میں یہ بات شامل ہے کہ وہ انتہائی اہم امور کے لیے لفظ آیۃ استعمال کرتا ہے۔ (۳۹)

اگر اس اصول کو مدنظر رکھا جائے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ عائلی زندگی بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے لفظ آیت استعمال کیا ہے۔ (۴۰)

عائلی زندگی کو عقیدہ کے ساتھ مربوط کر دیا۔ اللہ کی وحدانیت کے بعد والدین کے حقوق کا تذکرہ کیا۔ (۴۱) اس وابستگی سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ امت مسلمہ کو اپنے سب مسائل کی طرح عائلی مسائل کو بھی اپنے عقیدہ و دین کے مطابق حل کرنا ہے۔ عبدالرحمن الصابونی لکھتے ہیں۔
ٔن نظام الاسرہ فی کل أمہ من الامم یجب أن ینبع من عقائدھا وتقالیدھا وعاداتھا لأنہ مرتبط ارتباطا وثیقا بالدین والحضارۃ والتاریخ؛ فلایجوز أن تستورد نظام أسرۃ من أمۃ أخری تختلف عنھا فی العقیدہ والامال والأھداف‘‘ (۴۲)
’’عائلی معاملات کو تقویٰ کے ساتھ وابستہ کیا۔ (۴۳) نکاح کے بارے میں فرمایا
{ذٰلِکَ حُکْمُ اللّٰہِ یَحْکُمُ بَیْنَکُم}
(۴۴) خطبہ نکاح میں شامل چار آیات میں چار با تقویٰ کی تلقین کی گئی یعنی میاں بیوی کو حدود اللہ کی پیروی کی تلقین گئی خلع وطلاق کے احکام کو حدود اللہ قرار دیا۔ (۴۵) وراثت کی تقسیم کو {فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ}
قرار دیا گیا۔ (۴۶) عائلی زندگی کو فریقین کی رضامندی کے ساتھ وابستہ کیا گیا۔ (۴۷) تاکہ وہ خوشدلی، مہرو محبت اور رحم و کرم کا معاملہ باہم کر سکیں کیونکہ جبراً باندھے جانے والے رشتوں میں انسانی جسم تو اطاعت پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ دل و دماغ کی دنیا جبری فیصلوں سے بغاوت کر دیا کرتی ہے۔

باہم حقوق و فرائض کی تقسیم کر دی۔ ان فرائض کے ادا کرنے کو نیکی اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث قرار دیا۔ ایک فریق کے فرائض دوسرے کے حقوق بن جاتے ہیں۔ ان فرائض کی ادائیگی کی پہلی تاکید اخلاقی موعظت کی صورت میں کی۔

زوجین کو باہم حسن سلوک، عفوو درگزر کی تاکید قرآن و سنت میں بار بار کی۔ ناپسندیدہ امور کے باوجود
{عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ} کا حکم دیا۔ یوں اتحاد و اتفاق پید ا ہو گا۔ خاندان محفوظ و سلامت رہیں گے۔ اس سے ازدواجی زندگی برقرار رہتی ہے۔ وہ خاوند یا بیوی حقیقی سعادت مند ہوتے ہیں جو صبرو تحمل اور عفوودرگزر کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں کیونکہ ازدواجی زندگی میں کئی گھاٹیاں اور چٹانیں ہوتی ہیں جن سے میاں بیوی کو وقتاً فوقتاً واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ صبر کرنے کی صورت میں تو وہ رکاوٹیں ختم ہو جاتی ہیں جبکہ غیض و غضب میں آجانے سے بہت جلد خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔

عائلی نظام کی اصلاح کے قانونی اقدامات

شادی کا رشتہ بنیادی طور پر ایک شخصی رشتہ ہے اور دو افراد کے درمیان قائم ہونے والے باقی رشتوں کی مانند اس کا انحصار بھی متعلقہ افراد کے درمیان پائی جانے والی شخصی، نفسیاتی، ذہنی اور جسمانی ہم آہنگی پر ہے۔ قانون کے ذریعے ان میں سے کوئی بھی چیز وجود میں نہیں لائی جا سکتی۔ تاہم اگر کسی شادی شدہ جوڑے کی ازدواجی زندگی انتہائی کڑوی کسیلی بلکہ ناقابلِ برداشت ہو توسید قطب تجویز کرتے ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ قانون میں ایسی گنجائش موجود ہو کہ اس سے ازدواجی زندگی کے قوانین اور اصول اخذ کیے جا سکیں۔ کیونکہ انسانی زندگی کے اس نازک مسئلے کو سلجھانے کی تدبیر کئے بغیر کوئی انسانی نظام جامعیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ (۴۸)

اس نظام کی تشکیل، تنظیم اور خدانخواستہ تفریق کی صورت میں وضاحت کے ساتھ حدود و و قوانین کو بیان فرمایا۔ قرآن و سنت میں سب سے زیادہ وضاحت اور صراحت کے ساتھ ان احکام کو بیان کیا گیا۔ (۴۹)

ان قوانین اور حدود کی پابندیوں کی اخلاقی ترغیبات دینے کے ساتھ ساتھ قضائے شرعی کا راستہ بند نہیں کیا۔

ان قوانین میں اس بات کا بھرپور تحفظ کیا گیا کہ معاہدہ نکاح کرنے والے فریقین میں سے کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ کسی پرضرر اور تعدی نہ ہو۔ دونوں کے حقوق کو قانونی تحفظ عطا کیا گیا۔ مثلاً ہندہ بنت عتبہ کا نفقہ نہ ملنے کی شکایت کرنا۔ (۵۰) فطری ضروریات کی عدم تسکین کی صورت میں زوجین کو شکایت اور دعویٰ کا حق (۵۱) مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں خلع کا حق (۵۲) نفقہ و سکنیٰ کی عدم فراہمی کی صورت میں فسخِ نکاح کا حق وغیرہ۔

ان قوانین کو بھی مذہبی تشخص عطا کیا۔ انہیں محض عدالتی کارروائی نہیں بلکہ حُدُوْدُ اللّٰہِ، اَمْرُاللّٰہِ اور حُکْمُ اللّٰہِ قرار دیا۔ تاکہ اگر فریقین قانونی چارہ جوئی بھی کریں تو یہ خیال دونوں کے ذہن میں موجود رہے کہ اگر امساک معروف کے ساتھ مشروط تھا تو تسریح احسان کے ساتھ وابستہ ہے۔

عائلی احکام اور قرآن کریم کا اسلوبِ بیان

احکام مفصل بیان ہوئے ہیں

قرآن کریم میں عائلی احکام مثلاً نکاح، طلاق، وراثت، وصیت وغیرہ مفصل بیان ہوئے ہیں اور احکام میں قرآن کریم کا انداز یہ ہے کہ وہ احکام جو حالات اور ضروریات کے مطابق تبدیل ہوتے ہیں۔ ان کے بنیادی اصول بتا دئیے ہیں۔ قواعد کلیہ وضع کر دئیے ہیں اور ان کی تفصیل اور تشریح کو ہر زمانے (علماء) پر چھوڑ دیا (یعنی اجتہادی معاملات) جبکہ وہ امور جو ثبات و استقرار کی خاصیت رکھتے تھے جو زمان و مکان سے متغیر نہیں ہوتے۔ ان احکام کو تفصیلاً بیان کیا۔ عبدالرحمن الصابونی لکھتے ہیں:

قرآن کا تفصیل سے عائلی احکام بیان کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طے شدہ ہیں۔ اجتہادی معاملات نہیں۔ (۵۳)

عائلی احکام کا عقیدہ سے ارتباط

اسلام نے عائلی احکام کو عقیدہ و نظریہ کے ساتھ مربوط کر دیایعنی انسان کے یہ اعمال دینوی ہیں لیکن عقیدہ سے وابستگی کی بنا پر ان سب کا بدلہ، اجر اور صلہ ملے گا۔ تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ یعنی ان معاملات کو بھی تقویٰ جو دینِ اسلام کے پیروکاروں کی اعلیٰ ترین صفت ہے۔ اس کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔ درجات ایمان کی بلندی کا سبب بنا دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

}لَیْسَ البِرَّاَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلْکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْم الْاَخِرِ وَالْمَلَائِکَۃ وَالْکِتَابِ وَالنِّبْیِّیْنَ وَاٰتی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہِ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی} (۵۴)

یعنی ذوی القربی کے حقوق کی ادائیگی کو تقویٰ قرار دیا۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے۔

}أرَأیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعْ الْیَتِیْمَ} (۵۵)

}قُلْ تَعَالَوْا أتْلُ مَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا، وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانا} (۵۶)

عقیدہ سے وابستہ کرنے کا مقصد جہاں نظیف و مطہر عائلی زندگی کا قیام ہے وہاں اس سے مراد یہ بھی ہے کہ معاملات اپنے عقیدہ و نظریہ اور احکام کے مطابق حل کئے جانا امت کی بقا و زندگی کے لیے ضروری ہے۔

عائلی نظام عظمت و قدرتِ باری تعالیٰ کی دلیل

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں موجود بے شمار اشیاء کو اپنے وجود کی پہچان کا باعث قرار دیا ہے۔ مثلاً انواع و اقسام کے پھل اور میوے، رنگ برنگ پودے اور پھول، شمس و قمر، بہتا ہوا پانی، دھرتی کے سینہ سے جاری ہونے والے چشمے، کوہ و جبل مویشیوں کی تخلیق، انسانوں کی پیدائش، شہد کی مکھی اور دیگر بے شمار اشیاء کو آیات قرار دیا ہے۔ گویا قرآن کریم ان اشیاء کے لیے آیت کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ جو خالق کی قدرت تخلیق پر دلالت کرتی ہیں اور اسی طرح اس نے عائلی زندگی کو بھی اپنی قدرت کی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا
{وَمِنْ اٰیٰتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا} (۵۷)
یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری بیویاں پیدا کیں۔

فریقین کے درمیان حقوق و واجبات میں مساوات

اسلام نے زوجین کے لئے عائلی احکام میں مساوات اور برابری کو مدِّنظر رکھا (سوائے چند معاملات کے جن میں معاشرتی اور مالی مصلحتوں کی بناء پر کچھ فرق رکھا گیا۔ مثلاً وراثت، قوامیت اور گواہی وغیرہ) مثلاً ایک فریق اگر ایجاب کرتا ہے تو جب تک دوسرا فریق اس کو قبول نہ کرے۔ ایجاب کی کوئی حیثیت نہیں۔ رضا مندی کے بغیر ولی عورت کا نکاح نہیں کر سکتا۔ عورت کے مالی حقوق مثلاً مہر نفقہ و سکنیٰ مرد پر لازم کئے گئے۔ پس اگر عورت مرد کی اطاعت نہ کرے تو اس کو نفقہ نہیں ملے گا لیکن اگر مرد عورت کو نفقہ یا مہر نہ دے تو عورت پر اس کی اطاعت لازم نہیں ہو گی دونوں فریقین کو حسن معاشرت کی تاکید کی گئی۔ اگر عورت کو مرد کی جنسی ضرورت کے پیشِ نظر نفل عبادت شوہر کی اجازت سے کرنے کا حکم دیا۔ تو عورت کی فطری ضرورت کے احترام میں مرد کو بھی کثرت عبادت سے روکتے ہوئے فرمایا :

وَلِاَھَلِیْکَ عَلَیْکَ حَقًّا (۵۸)

ایک دوسرے کو ضرر پہنچانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا۔

} لَا تُضَّارَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌلَّہٗ بِوَلَدِہٖ} (۵۹)

نہ عورت کو بچے کے سبب ضرر پہنچایا جائے اور نہ والد کو نفقہ اور بچے کی حضانت کے سبب تکلیف دی جائے یا اس کی قدرت سے بڑھ کر رضاعت کا معاوضہ نہ لیا جائے۔

مرد کو حسن سلوک کا حکم دیا تو عورت کو شوہر کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک اختیار کرنے کی تلقین کی۔

اسلامی عائلی قوانین کا مختصر جائزہ

اللہ تعالیٰ نے عائلی زندگی کو انسان کے لیے باعثِ سکون قرار دیتے ہوئے فرمایا:

} وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ بُّیُوْتِکُمْ سَکَنّا} (۶۰)

اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہارے گھر باعث سکون بنائے۔

اسلام نے جہاں عمومی طور پر اجتماعی نظامِ حیات کو منظم کیا۔ وہاں خصوصی توجہ عائلی زندگی اور خاندان کو دی۔ اس کی تشکیل، تنظیم اور تحفظ کے لیے قوانین کا مجموعہ دیا۔ کیونکہ ایک صالح خاندان ایک صالح معاشرہ کی بنیاد بنتا ہے۔ اس لیے اسلام نے وہ تمام اقد امات کئے جو اس نظام کی پائیداری کے لیے ضروری تھے۔ اگر اس ادارہ کا خاتمہ، ناگزیر اور نامساعد حالات کی بناء پر ضروری ہو تو کن قوانین کی پیروی لازم ہے۔ محمد بن علوی المالکی الحسینی لکھتے ہیں:

اسلام نے الفت و محبت کے اسباب اور حسنِ معاشرت کے وسائل کو کھول کھول کر بیان کیا اور محبت و رافت کے محل کو ان ٹھوس اقدامات پر مضبوط و استوار فرمایا جن کی بنیاد معاشرے کے باہم بندھن اور ناطے پر ہے۔ اور ان کے حقوق معلوم و واضح ہیں اور جب تک ان سنہری حقوق و حدود کا لحاظ رکھا جاتا رہا اس وقت تک اسلامی خانوادوں نے خوشگوار ترین زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی سکون و اطمینان اور سرور بھی حال کیا اور اس امر کا تصور بھی ناممکن تھا کہ خدانخواستہ کبھی کوئی خانوادہ ان سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے باوجود دھڑام سے گر کر ذلت و نکبت سے دوچار ہو گا۔ (۶۱)

عائلی قوانین مختصراً یہ ہیں۔

عائلی زندگی کا قیام نکاح کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔

نکاح کا حکم اور حیثیت کیا ہے۔ واجب ہے مستحب ہے مباح یا مکروہ ہے۔ نکاح سے قبل پیغام نکاح دینا۔ پیغام پر پیغام بھیجنا جائز نہیں۔ پیغام سے قبل دیکھنا پسندیدہ ہے۔ خطبہ نکاح مستحب ہے۔

نکاح کا معاہدہ فریقین کی طرف سے ایجاب و قبول کے ذریعے منعقد ہو گا۔

محرماتِ نکاح کا بیان جس عورت سے نکاح ہو رہا ہے وہ اس مرد پر نہ دائمی طور پر حرام ہو نہ عارضی طور ، حرمت تین طرح سے ہوتی (۱) نسبی (۲) صہری (۳) رضاعی۔

اگر نکاح کے ارکان و شرائط میں سے کوئی رکن یا کوئی شرط مفقود ہو ایسا نکاح باطل ہوتا ہے یا فاسد۔

ولایت نکاح اس شرعی اختیار کا نام ہے جس کی وجہ سے کوئی شخص نابالغ یا غیر عاقل لڑکے یا لڑکی کا نکاح ان کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے کر سکتا ہے۔ ولایت قرابت سے ہوتی ہے یا امامت سے۔

وکالت نکاح: ہر عاقل و بالغ مرد و عورت اس کے مجاز ہیں کہ اپنا نکاح خود کرنے کے بجائے کسی اہل کو اس کا وکیل بنا دیں۔

بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت سے ہو گا۔

نکاح میں کفایت کا اعتبار کیا جائے گا۔ کفایت کا معیار دین، نسب، پیشہ، مال، دینداری وغیرہ ہیں۔

عقد نکاح اور جنسی تعلق کے نتیجے میں مہر لازم آئے گا۔ (۱) مہر مسمیٰ (۲) مہر مثل، مہر مسمی یا معجل ہو گا یا مؤجّل۔

نکاح کے بعد عورت کا نفقہ اور سکنیٰ مرد کے ذمے لازم ہو گا۔

صضرسنی میں ہونے والے نکاح پر بلوغت کے بعد اختیار مل جائے گا جسے خیار بلوغ کہا جاتا ہے۔

اگر زوجین کے درمیان نباہ نہ ہو سکے اور علیحدگی ہو جائے تو اسے طلاق کہا ہے۔ طلاق دینے والا عاقل ہو بالغ ہو۔ بیدا ری اور ہوش کی حالت میں طلاق دے۔ طلاق مذاق میں بھی واقع ہو جائے گی۔ طلاق کی قسمیں ہیں۔ طلاق سنت، طلاق بدعت وغیرہ۔ صریح الفاظ کے ساتھ دی تو طلاق صریح اگر واضح طور پر الفاظ استعمال نہ کئے جائیں تو کنایہ ہو گی۔ ایسی طلاق جس میں عورت مرد کے نکاح میں رہے طلاق رجعی کہلاتی ہے۔ ایسی طلاق جس میں بغیر نکاح رجوع نہ ہو سکتا ہو بائن کہلاتی ہے۔ اگر دوبارہ طلاق کا عمل ہو گیا اور تیسری بار پھر کہا تو طلاق مغلظہ ہو جائے گی۔ اب حلالہ کے بغیر دوبارہ وہ دونوں عقدِ نکاح میں نہیں بندھ سکتے۔

اگر حالات ناموافق ہوں تو عورت بھی علیحدگی لینے کا حق رکھتی ہے جسے خلع کہا جاتا ہے۔

اگر میاں بیوی کو ماں کی مانند قرار دے تو اس کے لیے ظہار کا حکم۔ اگر میاں بچے کے نسب پر الزام لگائے تو لعان کا قانون موجود ہے۔

مرد چار ماہ سے زیادہ عورت کو چھوڑدے تو ایلاء ہو گا۔ طلاق، خلع یا بیوگی کی صورت میں عورت پر عدت لازم ہو گی۔ ثبوتِ نسب، قانونِ ھبہ، قانون وراثت، وصیت اور وقف بھی اس میں شامل ہیں۔

اسلامی عائلی قوانین کی فوقیت و برتری

عائلی قوانین مسلمانوں کی شریعت کا لازمی حصہ ہیں جن پر عمل سے مسلمان مسلمان بنتا ہے یہ قوانین اگر بدل جائیں تو قوم کا مزاج و منہاج بدل جائے۔ اس کا خاندانی درہم برہم ہو جائے۔ اس کا معاشرتی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رفتہ رفتہ اس کا تعلق ہی اسلام سے ختم ہو جائے۔ پرسنل لاء پر اگر ایک طرف عقیدہ اور ایمان کا دارومدار ہے تو دوسری جانب امتِ مسلمہ کے وجود و بقا کا انحصار اس پر ہے یہی وجہ ہے کہ چین اور روس ایک زمانے میں مسلم تہذیب کا مرکز اور مسلمانوں کے علاقے تھے۔ لیکن اشتراکی فلسفہ اور کمیونسٹ اکثریت کے دباؤ سے رفتہ رفتہ اسلامی تہذیب کے نقش و نگار مٹتے گئے۔ عائلی نظام کی تبدیلی نے روسی مسلمانوں کا وجود ہی مشتبہ بنا دیا اور بخاری و شاشی کا وطن اسلام ہی کا دشمن بن گیا۔ بخارا وسمرقند، خوارزم، جرجان و تاشقند، قزاقستان و ترکستان سے تابخاک کا شغر نہ اسلامی تہذیب ہے نہ مسلمانوں کا ممتاز معاشرتی وجود
(۶۲) The Oxford Encyclopedia of Modern Islamic World
کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

The Muslim family, from its sixth-century foundation to its modern expression, might be viewed in the same way, as a structure flexible enough to deal with new pressures and strong enough in its religious and social manifestations to respond to and become part of changing conditions. Family law Perhaps more than any other part of the law, is seen as having an eternal value; the rules laid down in the Qur’an and Sunnah are viewed as comprehensive; and human intervention in th area is limited to application and adoption of the principles, rather than to innovate re-appraisal. In the words of N.J. Coulson, family law is the “Stronghold of the Shariah(۶۳)

مولانا مودودی لکھتے ہیں:

قانون ازدواج ایک ایسا قانون ہے جو قوانینِ تمدن میں سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ وسیع الاثر ہے۔ مسلمانوں کو ازدواجی معاملات میں اپنے دین سے ایک ایسا صالح، جامع اور مکمل قانون ملا جس کو دنیا کے قوانینِ ازدواج میں ہر حیثیت سے بہترین کہا جا سکتا ہے (۶۴)

قاہرہ میں واشنگٹن پوسٹ کے بیورو چیف کی حیثیت سے تین سال کام کرنے والے یہودی صحافی تھامس ڈبلیو۔ لپ مین اپنے مضمون انڈرسٹینڈنگ اسلام میں لکھتے ہیں:

ایک ایسے معاشرے پر، جس میں عورتیں املاک ہوتی تھیں، انہیں معمولی اشیاء کی طرح برتا جاتا تھا۔ اکثر غلامی جیسی صورتِ حال میں رکھا جاتا تھا۔ قرآن نے ایسے اوامرو نواہی نافذ کئے جنہوں نے ان بدترین زیادتیوں کا قلع قمع کر دیا۔ عورتوں کے جائیداد کے حقوق کی ضمانت دی اور مردوں کو ہدایت کی کہ وہ عورتوں کے ساتھ مہربانی اور فیاضی کا برتائو کریں۔ قرآن نے عورت کی قانونی حیثیت کے بارے میں جو احکامات دئیے ہیں وہ اس کے نزول کے دور سے بہت آگے کے ہیں اور اسلامی قانون عورتوں کو بعض ایسے حقوق عطا کرتا ہیں جو انہیں مغربی قانونی ضابطوں سے زیادہ آزادی بخشتے ہیں… قرآن اور حدیث نے عورتوں کی عزت و احترام کو یقینی بنانے والے ایسے قوانین رائج کئے جنہیں اسلام سے پہلے کے معاشرے نے نظر انداز کر دیا تھا۔ نیز اس نے خاندان کے استحکام پر زور دیا۔ (۶۵(

دسمبر 2006ء میں امریکی سکول ٹیچر Marie-pettit نے چارسالہ انٹرنیٹ چیٹنگ روابط کے نتیجے میں مغلپورہ لاہور کے عامر خان (گرافک ڈیزائنر) سے شادی کی۔ روزنامہ Dawn کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے اپنے اہم اور غیر معمولی اقدام کا سبب اسلامی عائلی نظام کی متاثر کن خصوصیت کو قرار دیتے ہوئے کہا:

It is really impressive to note the family system is very much intact here in Pakistan. People within family are close to one another. They do care for one another. It is something which we lack in the states. (۶۶)

محترمہ عائشہ لیمو (انگلش نو مسلم) اسلامی عائلی قوانین کی فوقیت و برتری کے بارے میں لکھتی ہیں:

اس موقع پر یہ بات یاد دلانا مناسب ہو گا کہ انگلستان اور دیگر یورپی ممالک کے شادی بیاہ سے متعلق قوانین میں جو نئی تبدیلیاں بروئے کار آرہی ہیں خواہ بے ارادہ سہی اکثر صورتوں میں اسلامی خطوط کی طرف پیش قدمی کا رحجان نمایاں ہے جس کے تحت یہ ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ میاں بیوی طلاق دینے سے پہلے رہنمائی حاصل کریں اور مشورہ کریں۔ اس سلسلے میں اب یہ امر بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ طلاق سے متعلق کارروائی کو خفیہ رکھا جائے اور جب یہ بات محقق ہو جائے کہ نکاح کا بندھن اس طرح ٹوٹ چکا ہے کہ اب اس کی تلافی ممکن نہیں تو طلاق کا عمل مکمل کرنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ (۶۷)

خلاصۂ کلام

عصرِ حاضر میں اُمتِ مسلمہ کے عائلی حالات گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔ گھروں کے ٹوٹنے کی رفتار بننے سے بڑھتی جا رہی ہے۔ جہالت اور اجنبی تمدنوں کے اثر سے مسلمانوں کے ازدواجی معاملات میں جو پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں ان کو سلجھانے سے موجودہ قانون اور اس قانون کو نافذ کرنے والی مشین سراسر قاصر ہے۔ بقول مولانا موودیؒ بلکہ اس کے قصور نے ان پیچیدگیوں پر بہت سی مزید الجھنوں کا اضافہ کر دیا ہے۔ ناواقفیت کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک جماعت یہ سمجھتی ہے کہ ان تمام خرابیوں کی وجہ اسلامی قانون کا نقص ہے۔ حالانکہ در حقیقت اسلام میں ایک ایسا مکمل ازدواجی قانون موجود ہے جس میں زوجین کے لیے انصاف کے ساتھ واضح حقوق متعین کیے گئے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو نئے قانون کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اصلی ضرورت جس چیز کی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کا قانونِ ازدواج اپنی صحیح صورت میں پیش کیا جائے اور اس کو صحیح طریقے سے نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ (۶۸) عوام الناس میں اسلامی عائلی قوانین کی تعلیم عام کی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کو شعوری انداز میں بسر کر سکیں اور غیر اسلامی تمدنوں سے اخذ کردہ اثرات سے اپنی عائلی زندگی کو پاک کر سکیں۔

حوالے و حواشی

۔۱ The Oxford Encyclopaedia of Modern Islamic World, 1/461

۲۔ محمد اعلیٰ بن علی التھانوی، کشاف اصطلاحات الفنون، سہیل اکیڈمی، لاہور، ۱۹۹۷ء، ۱؍۳۹

۳۔ عبدالقادر عودہ، الاسلام بین جھل ابنائہ وعجز علمائہ، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، ص۸

۴۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، قانونِ محمدی، دانش گاہ پنجاب،لاہور، ۱۹۷۸ء،۱۶؍۱۶۷

۵۔ شمس تبریز خان، مسلم پرسنل لاء اور اسلام کا عائلی نظام، مجلس نشریاتِ اسلام، کراچی، ص۲۲

۔۶ Duncan Bloy, Family Law, blackstone Press Limited Glasgow, P1

۷۔ مسلم پرسنل لاء اور اسلام کا عائلی نظام، ص ۲۰،۲۱

۸۔ نعیم صدیقی، عورت معرضِ کش مکش میں ،الفیصل ناشران و تاجران ،لاہور، ۱۹۹۸ء، ص ۲۳۱

۹۔ ابو زہرہ، الاحوال الشخصیۃ، دار الفکر العربی، قاہرہ، ۱۹۵۰ء، ص ۲۱

۔۱۰ Sayyid Maudoodi, The Laws of Marriage and Divorce in Islam, Islamic book Publishers Safat Kuwait, p. 2

۱۱۔ محمد قطب، اسلام اور جدید ذہن کے شبہات (مترجم: محمد سلیم کیانی)، البدر پبلی کیشنز،لاہور، ۱۹۸۱ء، ص۱۹۶

۔۱۲ The New Encyclopaedia Britannica, 4/674

۱۳۔ ایضاً

۔۱۴ Family Courts Act, 1964, p. 2

۱۵۔ رشید احمد، تاریخ مذاہب، روبی پبلشرز، کوئٹہ، ۱۹۸۶ء، ص۲۸۹

۱۶۔ محمد ظفیر الدین، اسلام کا نظامِ عفت و عصمت، طیب پبلشرز،لاہور، ص ۱۹۵

۱۷۔ امیر علی، سید، روحِ اسلام، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، کلب روڈ،لاہور، ۱۹۸۸ء، ص ۳۶۵

۱۸۔ کتاب مقدس، بائبل سوسائٹی انارکلی، لاہور، ۱۹۷۶ء، باب ۲۱:۱۱-۱۴

۱۹۔ ایضاً، احبار باب ۱۸:۶-۱۹ ۲۰۔ ایضاً، باب ۱۵:۱۹، ۲۴

۲۱۔ منشی عبدالرحمن، عورت انسانیت کے آئینہ میں، ص ۱۴۰

۲۲۔ ذاکر عبدالکریم نائیک، مسلمان عورت ،(مترجم: خالد جاوید مشہدی)، بیکن بکس،لاہور، ص۲۳

۲۳۔ سید سلیمان ندوی، سیرۃ النبیؐ، الفیصل ناشران و تاجران کتب،لاہور، ۲۰۰۳ء، ۶؍۲۹۰

۲۴۔ محمد ظفیر الدین، اسلام کا نظام عفت و عصمت، ص ۲۷۸

۲۵۔ رشید احمد، تاریخ مذاہب، ص۲۸۹

۲۶۔ ڈاکٹر خالد علوی، اسلام کا معاشرتی نظام، الفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور، ۲۰۰۵ء، ص۹۴

۲۷۔ سید سلیمان ندوی، سیرۃ النبیؐ، ۶؍۲۴۸

۲۸۔ مودودی، ابو الاعلیٰ، پردہ، اسلامک پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۰۲ء، ص ۲۷

۔۲۹ Encyclopaedia of Religion and Religions, p. 246

۳۰۔ اسلام میں حیثیتِ نسواں، ص ۸۴

۳۱۔ مودودی، ابو الاعلیٰ، حقوق الزوجین، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ۲۰۰۰ء، ص۱۸۳

۳۲۔ امیر علی سید، روحِ اسلام، ص۳۹۵

۔۳۳ The World Book Encyclopaedia, 6/2472

۔۳۴ Encyclopaedia of Religion & Ethics, 8/424

۔۳۵ The New Encyclopaedia Britannica, 4/673

۳۶۔ مودودی، ابو الاعلیٰ، پردہ، ص۱۷

۳۷۔ ایضاً،ص۱۹

۳۸۔ محمد قطب، اسلام اور جدید ذہن کے شبہات، ص۱۹۷

۳۹۔ عبدالرحمن الصابونی، نظام الأسرۃ و حل مشکلاتھا، مکتبہ وھبہ، قاہرہ، ۱۹۸۳ء، ص ۲۶۷

۴۰۔ الروم ۳۰:۲۱ ۴۱۔ الانعام ۶:۱۵۱؛ الاسراء ۱۷:۲۳

۴۲۔ عبدالرحمن الصابونی، نظام الاسرۃ و حل مشکلاتھا، ص۲۸۰

۴۳۔ النسآء ۴:۱ ۴۴۔ الممتحنۃ ۶۰:۱۰

۴۵۔ البقرۃ ۲:۲۲۹، ۲۳۲؛ الطلاق، ۶۵:۲ ۴۶۔ النساء ۴: ۳

۴۷۔ بخاری، الجامع، کتاب النکاح، باب اذ زوج الرجل ابنتہ کارھۃ فنکاحھا مردود (ح۵۱۳۸)؛ ابو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب فی الرجل ینظر إلی المرأۃ (ح۲۵۸۲)؛ نسائی، السنن، کتاب النکاح، باب البکر لزوجھا أبوھا (ح۳۲۷۱)؛ ابن رشد، بدایۃ المجتہد، ۲؍۴؛ابن قدامہ، المغنی، ۶؍۴۹۳؛ ڈاکٹر وھبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی وأدلتہ، ۹؍۶۵۶۸

۴۸۔ محمد قطب، اسلام اور جدید ذہن کے شبہات، ص۱۹۶

۴۹۔ البقرۃ۲:۱۸۷-۲۴۲؛ النساء ۴:۱-۴۵؛ المجادلۃ ۵۸:۱-۴؛الطلاق ۶۵:۱-۷، صحاح ستہ کی تمام کتب میں کتاب النکاح اور کتاب الطلاق کے ابواب اور ذیلی عنوان کے تحت تفصیلات موجود ہیں۔ کتب فقہ میں تفصیلی مسائل موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو برھان الدین مرغینانی، ھدایۃ، ۱؍۱۳۸-۱۸۳، ۲؍۳-۳۷؛ محمد ابن ادریس الشافعی، الأم، ۲؍۳-۳۴۶؛ امام مالک، المدونۃ الکبریٰ، ۲؍۳-۳۶۴؛ ابن رشد، بدایۃ المجتہد، ۲؍۲-۱۲۷؛ امام کاسانی، بدائع الصنائع، ۲؍۲۲۸-۳۳۶، ۳؍۸۸-۲۴۸؛ ابن قدامہ، المغنی، ۶؍۴۵-۷۵۹ وغیرہ

۵۰۔ بخاری، الجامع، کتاب النفقات، باب اذا ینفق الرجل (ح۵۳۶۴)

۵۱۔ بخاری، الجامع، کتاب الطلاق، باب الخلع (ح۵۲۷۳)

۵۲۔ البقرۃ ۲:۲۲۹

۵۳۔ عبدالرحمن الصابونی، نظام الأسرۃ و حل مشکلاتھا، ص ۲۷۵

۵۴۔ البقرۃ ۲:۱۷۷ ۵۵۔ الماعون ۱۰۷:۱،۲

۵۶۔ الأنعام ۶:۱۵۱ ۵۷۔ الروم ۳۰:۲۱

۵۸۔ بخاری، الجامع، کتاب النکاح، باب لزوجک علیک حق (ح۵۱۹۹)

۵۹۔ البقرۃ ۲:۲۳۳ ۶۰۔ النحل ۱۶:۸۵

۶۱۔ محمد بن علوی المالکی، اسلام کا معاشرتی نظام، ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور، ۱۹۸۶ء، ص۱۵،۱۶

۶۲۔ مسلم پرسنل لا اور اسلام کا عائلی نظام، ص۲۴

۔۶۳ The Oxford Encyclopaedia of Modern Islamic World, 1/461

۶۴۔ حقوق الزوجین، ص۱۱ ۶۵۔ پال فنڈلے، امریکہ کی اسلام دشمنی، ص۱۴۳

۔۶۶ Daily Dawn Lahore, December 20, 2006

۶۷۔ عائشہ لیمو، اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ، ص۲۹

۶۸۔ حقوق الزوجین، ص۱۴