ؒحفاظت ِ قرآن اوربعض روایات میں منقول آیات کی قرآنیت

ڈاکٹر محمد اکرم وِرک

اسلام کو مذاہب ِ عالم پر جو خصوصی امتیازات حاصل ہیں ان میں سے ایک امتیاز یہ ہے کہ اس کی تعلیمات ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہیں، قرآن ِ مجید آج بھی بالکل اسی حالت میں موجود ہے جیسا کہ حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا تھا، کیونکہ قرآن ِ مجید کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔ تاریخ ِ ادیان میں استثنائی طور پر قرآن وہ واحد مذہبی کتاب ہے جس کی حفاظت نہ صرف حفظ اور کتابت کے ذریعہ کی گئی بلکہ قرآن ِ مجید کو ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصہ تک اسلامی ریاست کا قانون ہونے کی وجہ سے ہر طرح کا تحفظ حاصل رہا ہے ، اللہ تعالیٰ کے خاص تکوینی نظام کے تحت مسلم حکومتوں کے اقتدار کا سورج اس وقت غروب ہوا جب چھاپہ خانے اور جدید پرنٹنگ کی دریافت نے قرآن مجید میں لفظی تحریف کے امکان کو بالکل ختم کردیا تھا۔قرآن کے مقابلے میں یہ امتیاز اور کسی بھی مذہبی کتاب کو حاصل نہیں ہے،اور نہ ہی کسی مذہب کے پیرو کار یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کی مذہبی کتب غیر محر ّ ف ہیں ۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہ کتب جن زبانوں میں نازل ہوئی تھیں
وہ زبانیں ہی کب کی مرچکی ہیں، اور آج تورات اور انجیل جن کی اصل زبان عبرانی اور سریانی تھی ، ترجمہ در ترجمہ کے کتنے مراحل طے کر چکی ہیں۔

بنی اسرائیل پرابتلاء اور غلامی کے جو طویل ادوار گزرے ہیں اس دوران یہ کتابیں کئی بار لوگوں کی نظروں سے اوجھل بھی ہوئیں اورپھر بعد کے لوگوں نے ان کوکن مصادر کی روشنی میں دوبارہ قلمبند کیا؟ یہ ساری معلومات پردہ اخفاء میں ہیں، چونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت میں دیگر مذہبی کتابوں کو محفوظ رکھنا شامل نہیں تھا اس لئے ان کتابوں کی حفاظت کے وہ انتظامات نہ ہوسکے جس سے یہ کتابیں زمانے کی دست برد سے محفوظ رہ سکتیں۔ اب یہ معلوم کرنا کہ ان الہامی صحائف میں حق کس قدر باقی بچا ہے اور باطل کی آمیزش کس قدر ہوئی ہے، ممکن نہیں ہے، اسی وجہ سے آپﷺ نے اہل ِ کتاب کی تصدیق اور تکذیب سے منع فرمایا ہے (۱) ۔ قرآن مجید، جو تمام کتب ِ سماویہ کا مُصَدّ ِق اور مُہیمِنْ ہے، نے جابجا تورات اور انجیل میں تحریف اور غلطیوں کی نشان دہی کی ہے ۔ قرآن ِ مجید نے بنیادی عقائدو نظریات کی درستی کے علاوہ تاریخ ِانبیاء کے بے شمار واقعات کو مکمل اور صحیح تناظر میں پیش کیا ہے ۔عصری تحقیقات اور اثری انکشافات نے قرآن ِ مجید کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔

مستشرقین کااسلام پر حملہ آور ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ و ہ تورات اور انجیل میں جو کمزوریاں محسوس کرتے ہیں یا قرآن ان کتابوں میں جن غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے وہ انھیں اعتراضات کو قرآن پر لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔مثلاً بائیبل میں تحریف کو خود یہودی اور عیسائی علماء نے تسلیم کیا ہے ۔اب ان لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح یہ تحریف قرآنی متن میں بھی ثابت کی جائے ۔ اس مقصد کے لئے مستشرقین بعض روایات کوغلط رنگ میں پیش کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح بائیبل کے مختلفVersionsہیں اسی طرح قرآن ِ مجید کا متن بھی متفقہ اور ایک نہیں ہے ۔ اس مہم کاآغاز کرنے والوں میں جارج سیل (George – Sale) کا نام انتہائی نمایاں ہے جبکہ آرتھر جیفری (Arthur – Jeffery) نے اس مہم کو نقطہء عروج تک پہنچایا (۲)۔ مستشرقین کا طریقۂ تحقیق یہ ہے کہ وہ اپنے مزعومہ مقاصد کے حصول کے لئے اپنا سفر مدح و توصیف سے شروع کرتے ہیں اور غیر محسوس انداز سے قاری کے ذہن میں شکوک و شبہات کی تخم ریزی کرتے ہیں اور پھر دور ازکار تاویلات کے ذریعے اپنے طے کردہ نتائج پیش کرکے قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں،بقول سید ابو الحسن علی ندوی ؒ،وہ خورد بین سے دیکھتے ہیں اور اپنے قارئین کو دور بین سے دکھاتے ہیں ۔وہ تمام روایات جن کو قرآن مجید میں تحریف کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ان میں سے اکثر روایت اور درایت کے محدثانہ اصولوں پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے قابل ِ استدلال ہی نہیں اور جو روایات اصول ِ صحت کی کسوٹی پر پورا ارتی ہیں ان کی درست تاویل کو اختیار کرنے سے عمداً اجتناب کیا گیا ہے ۔ زیر نظر سطور میں ہم نے چند ایسی روایات کا انتخاب کیا ہے جو معتبر کتب ِ حدیث میں موجود ہونے کی وجہ سے خاص طور پر منکرین ِ حدیث اور مستشرقین کی تنقید کا نشانہ بنیں ہیں ۔حالانکہ اس نوعیت کی روایات سے کسی لفظ کا قرآن ہو نا لازم نہیں آتا کیونکہ قرآن ہونے کے لئے تواتر اور توارث ضروری ہے۔

کیا قرآن میں آیت ِ رجم تھی؟ -I

بعض روایات کا ظاہری مفہوم چونکہ حفاظت ِ قرآن کے عقیدہ سے متصادم معلوم ہوتا ہے،جن کو بنیاد بنا کر منکرین ِ حدیث ،احادیث رسول ﷺ کا
انکار کردیتے ہیں جبکہ مستشرقین ایسی روایات کی بنیاد پر متن ِ قرآن کے غیر محفوظ اور نامکمل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔لیکن اگر ان روایات کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو یہ
دعویٰ اپنا وزن کھو دیتا ہے، جیسا کہ ذیل کی سطور میں ہم دلائل کے ساتھ واضح کریں گے۔سب سے پہلے ہم اس روایت کا تنقیدی مطالعہ کریں گے جس میں حد ِ رجم کا ذکر اس اسلوب میں ہے
گویا کہ وہ قرآن ہی کی ایک آیت تھی جو درج ہونے سے رہ گئی۔حضرت سعید بن المسیبؒ(م۹۴ھ)سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ (م ۲۳ھ)نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

والذی نفسی بیدہ لولا ان یقول الناس زاد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فی کتاب اللّٰہ تعالیٰ لکتبتھابیدی (اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ فَارْجُمُوْھُمَا اَلْبَتَّۃَ) فانا قد قرأناھا (۳)

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر لوگوں کے یہ کہنے کا اندیشہ نہ ہوتا کہ عمرؓ نے کتاب اللہ میں اضافہ کردیا تو میں اپنے ہاتھ سے لکھ دیتا ’’بوڑھے (شادی شدہ مرد) اور بوڑھی (شادی شدہ عورت) اگر زنا کریں تو انہیں ضرور رجم کرو۔‘‘ ہم نے اس (آیت) کو خود پڑھا ہے۔

اس روایت پرسب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اگر اس کو درست تسلیم کر لیا تو پھر قرآن مجید کی محفوظیت کا دعویٰ باطل ہوجاتا ہے ،اور چونکہ یہ روایت قرآن ِ مجید کی واضح نص{اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ} کے خلاف ہے اس لئے ناقابل تسلیم ہے۔(۴)

:اس روایت میں جو الفاظ نقل ہوئے ہیں ان کا تعلق حضرت عمرؓ (م ۲۳ھ) کے ایک مشہور خطبے سے ہے جسے امام بخار یؒ (م ۲۵۶ھ) اور امام مسلمؒ (م ۲۶۱ھ) نے بھی نقل کیا ہے لیکن شیخین (بخاری ؒ و مسلم ؒ ) میں سے کسی نے بھی ان الفاظ کا ذکر نہیں،اور نہ ہی بخاری و مسلم کی روایت میں حضرت عمرؓ کی طرف سے قرآن کریم میں کسی اضافے کے ارادے کا ذکر ہے، صحیح بخاری میں حضرت عمرؓ کے اس خطبے کے جو الفاظ منقول ہیں وہ درج ذیل ہیں

لقد خشیت أن یطول بالناس زمان حتی یقول قائل: لانجد الرجم فی کتاب اللّٰہ، فیضلّوا بترک فریضۃأنزلھااللّٰہ، ألاوان الرجم حق علی من زنی وقد أحصن اذا قامت البینۃ ،أو کان الحمل ، أوالاعتراف، ألاوقد رجم رسول اللّٰہﷺ ورجمنا بعدہٗ(۵)

مجھے ڈر ہے کہ لوگوں پر طویل زمانہ گزر جائے تو وہ یہ کہنے لگیں کہ ہم رجم کا حکم اللہ کی کتا ب میں نہیں پاتے ۔ اس طرح اللہ کے نازل کئے ہوئے ایک فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں ۔ خوب سن لو کہ رجم اس شخص پر ضروری ہے جو محصن ہونے کے باوجود زنا کرے۔ جبکہ اس کے زنا پر گواہیاں قائم ہوگئی ہوں ، یاحمل ہو، یا مجرم اعتراف کرلے۔ خوب سن لو کہ رسول اللہﷺ نے بھی رجم کیا ہے اور آپﷺ کے بعد ہم نے بھی۔

زیرِ تبصرہ روایت پر حافظ ابن حجر ؒ (م ۸۵۲ھ ) کی تنقید ملاحظہ فرمائیں:

ولعل البخاری ھوالذی حذف ذلک عمدا، فقد اخرجہ النسائی ثم قال لا أعلم أحداً ذکر فی ہذا الحدیث الشیخ والشیخۃ غیر سفیان، وینبغی ان یکون وھم فی ذلک، قلت: وقد أخرج الأئمۃھذاالحدیث من روایۃ مالک و یونس ومعمر وصالح بن کیسان وعقیل وغیرھم من الحفاظ عن الزھری فلم یذکروھا، وقد وقعت ھذہ الزیادۃ فی ھذا الحدیث من روایۃ الموطّأ عن یحیٰ بن سعید عن سعید بن المسیب…الخ (۶)

شاید امام بخاریؒ نے اس حصے کو عمداً حذف کردیا ہے۔ کیونکہ امام نسائی ؒنے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہاہے کہ میرے علم میں اس حدیث کے اندر{اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ ۔۔۔الخ} کا ذکر کرنے والا سفیان کے سوا کوئی نہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس فقرے کو نقل کرنے میں ان سے وہم ہوا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کو بڑے بڑے ائمہ نے امام مالکؒ، یونسؒ، معمرؒ ،صالح بن کیسانؒ وغیرہم جیسے حفاظ کی سند سے اور انہوں نے امام زہری ؒ سے روایت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے یہ اضافہ ذکر نہیں کیا۔ ہاں اس حدیث میں یہ اضا فہ موطّأ میںیحیٰ بن سعید از سعید بن مسیب کی سند سے مروی ہے ۔

ابن ِ حجرؒؒ (م۸۵۲ھ )کے اس تجزیہ کا حاصل یہ ہے کہ امام بخاری ؒ (م ۲۵۶ھ)اور امام نسائی ؒ (م ۳۰۳ھ) جیسے محدثین نے خطبے کے اس حصے کو مستند نہیں سمجھا، اور اس کے باوجود کہ امام بخاریؒ نیب اب رجم الحبلی میں یہ طویل خطبہ روایت کیا ہے ،لیکن اس کا وہ حصہ جو{ اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ فَارْجُمُوْھُمَا اَلْبَتَّۃَ والے فقرے پر مشتمل ہے،نقل نہیں فرمایا ،گویا جب خطبے کا یہ حصہ مستند ہی نہیں تو پھر لمبے چوڑے اعتراضات کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ۔تاہم اگر حضرت عمرؓ (م۲۳ھ) کی طرف ان الفاظ کی نسبت کا صحیح ہونا ثابت
ہوجائے جیسا کہ موطّأکی روایت میں بیان کیا گیا ہے ،تب بھی اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوسکتا کہ حضرت عمرؓ { اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ فَارْجُمُوْھُمَا اَلْبَتَّۃَ}والے فقرے کو قرآن کریم کے جز کے طور پرلکھنا چاہتے تھے۔ کیونکہ اگر ان کے نزدیک یہ فقرہ قرآن ِ کریم کا جز ہوتا تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس کا اعلان کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی تھی،
بلکہ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ قرآن کریم کے حاشیے پر یہ فقرہ اس بات کے اظہارکے لئے لکھ دیں کہ زانی محصن کو رجم کرنے کا حکم منسوخ نہیں ہوا بلکہ اب بھی واجب العمل ہے، چنانچہ امام احمد بن حنبلؒ (م ۲۴۱ھ)نے حضرت عمرؓ (م ۲۳ھ) کا یہ خطبہ نقل کیا ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں

لولا ان یقول قائلون: زاد عمر رضی اللہ عنہ فی کتاب اللّٰہ ما لیس منہ لکتبتہ فی ناحیۃ من المصحف(۷)

اگر کہنے والوں کے یہ کہنے کا اندیشہ نہ ہوتا کہ عمرؓ نے اللہ کی کتاب میں اس بات کا اضافہ کردیاجو اس کاحصہ نہ تھی تو رجم کا یہ حکم میں مصحف کے ایک گوشے میں لکھ دیتا۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ رجم کے حکم کو نہ قرآن کریم کا جز سمجھتے تھے ،نہ قرآن کریم کے متن میں اس کااضافہ کرنے کا کوئی خیال ان کے دل میں آیا تھا، بلکہ انہوں نے محض ایک تشریحی اضافے کے طور پر اس کو
حاشیے پر لکھنے کا خیال مسئلہ رجم کی اہمیت جتلانے کیلئے ظاہر کیا تھا اور عمل اس پر بھی نہیں کیا ،کیونکہ اس سے طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی تھیں۔ علامہ زرقانی ؒ (م۱۱۲۲ھ) اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں:

والذی یظھر أنہ لیس مراد عمر رضی اللہ عنہ ھذا الظاہر وانما مرادہ المبالغۃ والحث علی العمل بالرجم لا معنی الآیت باق وان نسخھا لفظھا اذلا یسمع مثل عمر رضی اللہ عنہ مع مزید فقھہ تجویز کتبھا مع نسخ لفظھا
فلا اشکال(۸)

اور جو بات بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کی مراد ظا ہری معنیٰ نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد اس مسئلے کی اہمیت واضح کرنا اور رجم پر ابھارنا تھا ۔حضرت عمر ؓ کا یہ مقصد نہیں تھا کہ الفاظ کی منسوخی کے
باوجود یہ آیت باقی رہنے والی ہے ،آپ ؓ جیسے فقیہ سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ انھوں نے الفاظ کی منسوخی کے باوجود اس آ یت کو( قرآن مجید میں) لکھنے کا حکم دیا ہوگا ، لہٰذا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

بہر حال حضرت عمر ؓ کی دور اندیشی ملاحظہ فرمائیں کہ حد ِ رجم کے بارے میں آپ ؓ نے جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ درست ثابت ہوا ،چنانچہ امام نووی ؒ (م۶۷۶ھ) فرماتے ہیں:

قولہ: فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل: مانجد الرجم فی کتاب اللّٰہ فیضلوا بترک فریضۃ، ھذا الذی خشیہ قد وقع من الخوارج ومن وافقھم (۹)

حضرت عمرؓ کا یہ قول : میں ڈرتا ہوں کہ جب زیادہ زمانہ گزر جائے تو کوئی کہنے والا کہے کہ ہم رجم کو خدا کے مقرر کئے ہوئے حکم میں نہیں پاتے ، پس لوگ ایک فرض چھوڑنے سے گمراہ ہوں گے، حضرت عمرؓ کا ڈر خوارج اور ان کی موافقت کرنے والوں کے حق میں پایۂ ثبوت کو پہنچ گیاہے۔

اس روایت کو محدثین نے مختلف اسناد سے نقل کیا ہے ،یہ حدیث زید بن ثابتؓ (م ۴۴ھ) ،عمرو بن العاصؓ (م ۴۲ھ) ،عبد الرحمٰن بن عوفؓ (م ۳۲ھ) وغیرہم سے بھی مروی ہے۔ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے یہ الفاظ قرآنی آیت کے طور پر ذکر نہیں فرمائے ۔ (۱۰)

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فقرے کا اصل مأخذتورات ہے اور چونکہ اس کے مرکزی مفہوم کواسلامی شریعت میں بھی باقی رکھا گیا تھا اوررسول اللہﷺ نے اس کے مطابق فیصلے بھی فرمائے تھے، اس لئے یہ فقرہ ایک واجب العمل حکم ِ الٰہی کی طرح زبان زد عام ہوگیا۔ہمارے اس موقف کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

-۱ حافظ ابن جریر طبری ؒ (م ۳۱۰ھ)نے حضرت جابر بن زیدؓ سے نقل کیا ہے کہ یہودیوں کے رجم کے واقعہ میں جب آنحضرتﷺ نے قسمیں دے کر عبداللہ بن صوریا سے پوچھا:تورات میں شادی شدہ زانی کا حکم کیا ہے؟ تو اس نے یہ عبارت پڑھی:
اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ فَارْجُمُوْھُمَا اَلْبَتَّۃَ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا:فھو ذاک یعنی بس یہی حکم تو چاہئے تھا۔(۱۱)

یہاں یہ اشکال باقی رہتا ہے کہ پھر اس آیت کو موجودہ تورات میں انہی الفاظ میں موجود ہونا چاہئے تھا جبکہ ایسا نہیں ہے تواس آیت کے موجودہ تورات میں نہ ہونے کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ عربی لٹریچر میں عہد نامہ قدیم کے علاوہ مشناء تلمود اور یہودیوں کی دوسری مذہبی کتب کو بھی بعض اوقات’’تورات‘‘ ہی کے لفظ سے تعبیر کردیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ خاص طور پر یہ فقرہ عہدنامہ قدیم کے علاوہ کسی اور مذہبی کتاب کا ٹکڑاہو۔دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عہد ِ رسالت ﷺ کے بعد تورات میں حسب ِ معمول تحریف کا سلسلہ جاری رہا ہو اور ہم تک پہنچتے پہنچتے مذکورہ آیت بھی تورات سے غائب ہوگئی ہو۔

-2 بعض روایات سے واضح طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس جملے کو بطور آیت ِ رجم لکھنے کی اجازت نہیں دی بلکہ اسے ناپسند فرمایا ،چنانچہ صحابہ کرامؓ کی ایک محفل میں مسئلہ رجم اور یہی فقرہ موضوع بحث تھا۔ حضرت عمرؓ اٹھ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں گئے اور عرض کیا :

یارسول اللّٰہ ﷺ اکتبنی آیۃ الرجم، قال: لااستطیع ذاک(۱۲)

یارسول اللہ ﷺ: مجھے آیت ِ رجم لکھوا دیجئے آپﷺ نے فرمایا: میں ایسا نہیں کرسکتا۔

حضرت عمرو بن العاصؓ (م ۴۲ھ) فرماتے ہیں:

قلما نزلت أتیت النبیﷺ فقلت: اکتبھا فکانہ کرہ ذالک(۱۳)

جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں آنحضرت ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ ﷺ اس آیت کو لکھوادیجئے تو آپ ﷺ نے میرے اس مطالبے کو ناپسند فرمایا۔

اگر یہ قرآن کریم کی آیت ہوتی تو آپ ﷺ اس کو دوسری آیات کی طرح ضرور لکھواتے لیکن ان دونوں واقعات میں آپ ﷺ نے ابتداء ہی سے اس کو لکھوانے سے انکار فرمایا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ الفاظ قرآن ِ کریم کا جز کبھی نہیں رہے اور جن روایات میں اس کو نازل ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن ِ کریم کے جزکے طورپر نازل ہوئی تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کوبذریعہ وحی مطلع کیا گیا تھا کہ یہ آیت تورات میں موجود ہے اور مسلمانوں کے لئے اب بھی قابل عمل ہے۔(۱۴)

زیرِ تبصرہ روایت میں غلط فہمی کی سب سے بڑی وجہکتاب اللّٰہ کے الفاظ ہیں ، کیونکہ کتاب اللہ سے قرآن مراد لیا جاتا ہے ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن و سنّت میں ان الفاظ کو کسی دوسرے مفہوم کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے ، تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جاسکے کہ حضرت عمرؓ کا کتاب اللہ کہنے سے کیا مطلب تھا ؟۔

قرآن مجید میں کتاب کا لفظ خط(۱۵) نوشتۂ تقدیر (۱۶) فریضہ (۱۷) صحیفہ (۱۸) وغیرہ کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ۔

اسی طرح کتاب اللہ کے معنیٰ حکم ُاللہ ِکے بھی ہیں ، اگرچہ وہ حکم قرآن ِ مجید میں واضح طور پر موجود نہ بھی ہو۔ کتاب اللہ کا اطلاق جس طرح قرآن پر ہوتا ہے اسی طرح اللہ کے احکام اور فرائض پر بھی کتاب اللہ کا لفظ بولاجاتا ہے، بندوں پر جس قدر فرائض ، خواہ وہ قرآن میں مذکور ہیں یا سنّت میں ، ان سب پر کتاب اللہ کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔ جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے:

(المائدہ،۵:۲۱){یَاقَوْمِ ادْخُلُوْا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَالَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ}

اے میری قوم!اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤ جسے اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔

یہ مفہوم خود رسول اللہ ﷺ کی مرفوع حدیث سے ثابت ہے ۔صحاح ستّہ میں یہ واقعہ مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے کہ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ ﷺ ! میں آپ ﷺ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئے ۔ اب دوسرا فریق جو پہلے سے کچھ زیادہ سمجھدار تھا ، کہنے لگا کہ ہاں یارسول اللہ ﷺ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق فرمائیے اور مجھے بات کرنے کی اجازت دیجئے ، آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا بیان کر، اس نے کہا: میرا بیٹا اس شخص (فریق ِ ثانی) کے پاس نوکر تھا اور اس نے اس شخص کی بیوی سے زنا کیا ہے ، میں نے سو بکریاں اور ایک غلام دے کر اپنے بیٹے کو چھڑا لیا ، اس کے بعد میں نے کئی علماسے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کے لئے سزا سوکوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور اس شخص کی بیوی کے لئے رجم ہے۔ نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:

والذی نفسی بیدہ لاقضینّ بینکما بکتاب اللّٰہ جلّ ذکرہ ، المائۃ شاۃ والخادم رَدٌّ ، و علی ابنک جلد مائۃ وتغریب عام ، واغد یاانیس علی امراۃ ھٰذا ، فان اعترفت فارجمھا فغدا علیھا فاعترفت ، فرجمھا (۱۹)

اس پروردگا ر کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کا ذکر بلند ہے ، میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور غلام ( جو تو نے دئیے ) تجھے واپس ہوں گے اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے ، اور اے انیسؓ! کل صبح اس عورت کے پاس جاؤ ، اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کردو۔ چنانچہ انیسؓ صبح اس کے پاس گئے تو اس نے اعتراف کرلیا تو ا نھوں نے اسے رجم کردیا۔

علامہ بدرالدین عینیؒ(م ۸۵۵ھ)نے مذکورہ بالاحدیث کی شرح میںشیخ زین الدین عراقی ؒکا قول نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں: المراد بہ القرآن یحتمل کلا الامرین (۲۰)

کتاب اللہ سے مراد اللہ کے احکام اور فرائض ہیں جیسا کہ اس سے مراد قرآن لیا جاتا ہے ۔

اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رجم کا فیصلہ حکم ِ الٰہی کے مطابق دیا تھا،اگرچہ قرآن میں رجم کا حکم نہیں ہے ، گویا حدیث ِ رسول ﷺ پر کتاب اللہ کا اطلاق کرنا خود نبی ﷺ سے ثابت ہے ، لہٰذا حضرت عمرؓ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں خطبہ دیتے ہوئے جب یہ فرمایا: الرجم فی کتاب اللّٰہ حق علی من زنی اذا أحصن من الرجال والنساء (۲۱) رجم کا حکم کتاب میں حق اور ثابت ہے جبکہ شادی شدہ مرد اور عورت زنا کرے۔

تو یہاں بھی کتاب اللہ سے آپ کی مراد قرآن ِ مجید نہ تھی ، جیسا کہ عام طورپر مستشرقین ، منکرین ِ حدیث اور دیگر معترضین نے سمجھا ہے ، بلکہ پوری شریعت بشمول حدیث ِ رسول ﷺ تھی ،کیونکہ صحابہ کرام ؓ کتاب اللہ سے پوری شریعت ہی مراد لیا کرتے تھے اور وہ حدیث ِ رسول ﷺ کوقرآن ِ مجید سے علیحدہ کوئی چیز تسلیم نہیں کرتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ کا عقیدہ اورنقطۂ نظریہ تھا کہ حضور ﷺ کی ہدایات بھی وحیِ الٰہی کے ہی تابع ہیں اس لئے وہ احادیثِ رسول ﷺ پرکتاب اللہ کا اطلاق کردیا کرتے تھے۔اس کی نظیر ہمیں ابن مسعودؓ کی ایک روایت میں بھی ملتی ہے جب آپؓ نے بنو اسد کی خواتین کو مخاطب کرکے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو سرمہ بھرتی ہیں ، بال اکھیڑتی ہیں اور حسن ہی کے لئے دانتوں میں فاصلہ کرتی ہیں اور یوں وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔تو بنی اسد کی ام یعقوب نامی عورت آپؓ کے پاس آئی اور کہنے لگی:

بلغنی أنک قلت: کیت وکیت ، قال: ومالی لا ألعن من لعن رسول اللّٰہﷺ فی کتاب اللّٰہ عزّوجلّ فقالت: انی لأقرأ مابین لوحیہ فماوجدتہ قال: ان کنت قرأتیہ، فقد وجدتیہ أما قرأت {مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہٗ وَمَانَھَا کُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا(۵۹/ ۷)} قالت: بلیٰ، قال: فان النبیﷺ نھیٰ عنہ (۲۲)

مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم(عورتوں کے متعلق) ایسی اور ایسی باتیں کرتے ہو ۔ تو آپؓ نے فرمایامیں ایسے شخص کو لعن کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت کی ہے اور کتاب اللہ میں بھی یہ بات ہے، عورت نے کہا: میں نے سارا قرآن پڑھا ہے لیکن یہ مسئلہ کہیں نظر نہیں آیا ۔ آپؓ نے فرمایا : اگر تو اسے (گہری نظر) سے پڑھتی تو ضرور اس میں یہ بات پاتی۔ کیا تو نے یہ آیت تلاوت نہیں کی: اور اللہ کے رسول ﷺ جو(حکم )تمھیں دیں اس کو پکڑ لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاو۔ اس نے کہا :یہ آیت تو پڑھی ہے،آپؓ نے فرمایا:تو اس کا م سے بھی آپﷺ نے منع فرمایا ہے۔

ایک دوسری سند جس میں مسروق ؒ نے ابن ِ مسعودؓ (م ۳۲ھ) سے یہی روایت بیان کی ہے ، یہ الفاظ ہیں کہ اس عورت نے ابن ِ مسعودؓ سے کہا:

أشئی تجدہ فی کتاب اللّٰہ أم سمعتہ عن رسول اللّٰہﷺ؟ فقال: أجد فی کتاب اللّٰہ وعن رسول اللّٰہﷺ (۲۳)

حالانکہ عورتوں کے بارے میں ابن ِ مسعود ؓ کی بیان کردہ اس تنبیہ اور ہدایت کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں ہے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے حدیث ِ رسول ﷺ پر بھی کتاب اللہ کا اطلاق کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی، کیونکہ صحابہ کرامؓ حدیث اور سنت ِ رسول ﷺ کو حکم ِ الہٰی کا قولی اور عملی اظہار ہی سمجھتے تھے۔اس واقعے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓبسا اوقات قولِ رسولﷺ کے لئے کتاب اللہ کا لفظ استعمال کرلیا کرتے تھے۔ الغرض زیر بحث روایت میں بھی حضرت عمرؓ نے فرمانِ رسول ﷺ کے لئے اگرچہ کتاب اللہ کا لفظ استعمال کیا، اصلاً وہ اس کو قرآن کا جز نہیں سمجھتے تھے۔

کیا آیت ِ رضاعت قرآن مجید کا حصّہ تھی ؟ -II

حضرت عائشہؓ (م ۵۷ھ)سے مروی ہے:

کان فیما أنزل من القرآن: عشرُ رضعات معلومات یُحَرِّمْنَ ، ثم نُسِخْنَ: بخمسِِ معلومات ، فَتُوُفِّیَ رسولُ اللّٰہ ﷺ وھی فیما یقرأ من القرآن (۲۴)

قرآن مجید میں پہلے یہ نازل ہوا تھا کہ دس چسکیوں سے حرمت لازم آتی ہے پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اس کے بعد پانچ چسکیوں سے حرمت کا حکم ہوا اور رسول اللہ ﷺ کے وصال تک قرآن مجید میں اسی طرح پڑھا جاتاتھا۔

اس روایت پر سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے قول فَتُوُفِّیَ رسولُ اللّٰہ ﷺ وھی فیما یقرأ من القرآن سے اس آیت کی تلاوت کے باقی رہنے کا مفہوم پیدا ہوتاہے، حالانکہ موجودہ قرآن میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز عقیدۂ حفاظت ِ قرآن کے خلاف ہے اور تحریف کے زمرے میں آتی ہے ۔لیکن اگر اس روایت پر درج ذیل پہلوؤں سے غور کیا جائے تو تمام اشکال دور ہوجاتے ہیں:

(۱) اس روایت سے قرآن مجید کی محفوظیت اور حقانیت پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ یہ روایت خبرِ واحد ہے جبکہ قرآن کی ہر آیت خبرِ متواتر،توارث اور اجماع ِ امت کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے ۔

(۲) یہ ایک منسوخ آیت ہے۔امام نوویؒ (م ۶۷۶ھ )صحیح مسلم کی شرح میں اس کو ان آیات میں شمار کرتے ہیں جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے تاہم ان کے نزدیک اس کا حکم با قی ہے ،امام نوویؒ فرماتے ہیں:

والنسخ ثلاثۃ انواع ،أحدھا مانسخ حکمہ وتلاوتہ کعشر رضعات والثانی مانسخت تلاوتہ دون حکمہ کخمس رضعات و کالشیخ والشیخہ اذا زنیا فارجموا ھما والثالث مانسخ حکمہ و بقیت تلاوتہ وھٰذا ھو الأکثر (۲۵)

نسخ کی تین قسمیں ہیں: پہلی یہ کہ کسی آیت کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوجائیں ، مثلا ً عشرۃ رضعات کا مسئلہ ہے ۔دوسری قسم یہ ہے کہ اس کی صرف تلاوت منسوخ ہو لیکن حکم باقی ہو۔ ا س کی مثال خمس رضعات اور آیت ِ رجم ہے، اورتیسری قسم یہ ہے کہ اس کا حکم منسوخ ہوگیالیکن اس کی تلاوت باقی رہ گئی اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

علامہ جلال الدین سیوطیؒ (م ۹۱۱ھ ) کابھی اس روایت کے بارے یہی مؤقف ہے چنانچہ وہ حضرت ابو موسی اشعریؓ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے ، انھوں نے اس روایت کا ذکر ان آیات میں کیا ہے جن کی تلاوت اورحکم دونوں منسوخ ہوچکے ہیں ۔(۲۶)

تا ہم یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ اگر یہ منسوخ آیات میں سے ہے توحضرت عائشہ ؓ کے الفاظ فَتُوُفِّیَ رسولُ اللّٰہ ﷺ و ھی فیما یقرأ من القرآن کا کیا مطلب ہے؟امام نوویؒ (م ۶۷۶ھ ) ان الفاظ کی توجیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وقولھا: فَتُوُفِّیَ رسولُ اللّٰہ ﷺ وَ ھِیَ فِیْمَا یُقْرَأُ ، من یقرأ ؟ ومعناہ أن النسخ بخمس رضعات تأخر انزالہ جداً حتی أنہﷺ توفی و بعض الناس یقرأ خمس رضعات ویجعلھا قرآنامتلواً لکونہ لم یبلغہ النسخ لقرب عہدہﷺ ، فلما بلغھم النسخ بعد ذالک رجعوا عن ذالک وأجمعوا علی أن ھٰذا لا یتلی(۲۷)

حضرت عائشہ ؓ کا قول یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے اور یہ آیات قرآن کریم میں تلاوت کی جارہی تھیں ،ان آیات کو تلاوت کرنے والے کون تھے؟یقرأ جو مجہول کاصیغہ ہے واضح کرتاہے کہ خمس رضعات کے الفاظ کا نسخ آپﷺ کے بالکل آخری دور(یعنی عرضۂ آخیرہ کے وقت) میں ہوا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے اوربعض لوگ خمس رضعاتکی آیات پڑھتے اور انہیں قرآن متلو سمجھتے رہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے وفات پا جانے کی وجہ سے انہیں ان آیات کی تلاوت کے منسوخ ہونے کا علم نہیں ہوسکاتھا ،پھر جب انہیں اس کا نسخ معلوم ہوا تو انہوں نے اس سے رجوع کرلیا اور اس کی تلاوت کے منسوخ ہونے پر اجماع ہوگیا ۔

علامہ جلا ل الدین سیوطی ؒ (م ۹۱۱ھ ) بھی حضرت عائشہ ؓ کے الفاظ کی یہی تاویل کرتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو شیخین نے روایت کیاہے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے قول وھی فیما یقرأ من القرآن میں کلام کیاہے کیونکہ اس قول کے ظاہر سے تلاوت کے باقی رہنے کا مفہوم پیدا ہوتاہے حالانکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے یعنی اس کی قرأت ختم ہوگئی تھیں اور حکم بھی باقی نہیں رہا تھا ان الفاظ کی تاویل یوں کی گئی ہے کہ فَتُوُفِّیَ سے یہ مراد ہے کہ حضورﷺ کی وفات کا وقت قریب آگیاتھا ۔یا یہ کہ تلاوت منسوخ ہوگئی تھی مگر تمام لوگوں کو یہ بات آپ ﷺکی وفات کے بعد ہی معلوم ہوئی،اس لئے نادانستگی کی وجہ سے بعض لوگ ان آیات کوآپ ﷺکی وفات تک پڑھتے اور تلاوت کرتے رہے۔(۲۸(

(۳) اگرچہ مذکورہ بالا توجیہ کے بعد اس روایت کے مفہوم میں کو ئی اشکال باقی نہیں رہتا تاہم یہاں ایک اور امکان پر بھی غور کی ضرورت ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ ؓ کا قول کہ: رسول اللہ ﷺ کے وصال تک قرآن مجید میں اسی طرح پڑھا جاتاتھا، یہ الفاظ کسی بعد کے راوی کے ہیں کیونکہ امام مسلمؒ نے زیر تبصرہ روایت کے بعد یحی بن سعید ؒ کی سند سے جو دوسری روایت ذکر کی ہے اس میں فَتُوُفِّیَ رسولُ اللّٰہ کے الفاظ نہیں ہیں ، جس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ امام مسلم ؒ کی نظر میں یہ الفاظ راوی عبداللہ بن ابوبکر ؒ کا وہم ہیں۔

امام طحاوی ؒ (م ۳۲۱ھ ) فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ عبداللہ بن ابوبکر ؒ کے علاوہ اور کسی بھی راوی سے مروی نہیں ہیں اور اگر یہ الفاظ قرآن ہوتے تو یقینی طور پر اس کی تلاوت نماز میں بھی کی جاتی حالانکہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔اور نہ ہی قرآن میں اس کی کوئی ناسخ آیت ہے کہ ہم اس کو منسوخ آیات میں شمار کریں ، اس لئے یہ سرا سر راوی کا وہم ہے۔ اس کے بعدامام طحاویؒنے یہ روایت دو مختلف اسناد کے ساتھ نقل کی ہے ۔ پہلی روایت میں قاسم بن محمدؒ ،عمرہ بنت عبدالرحمن سے اور وہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرتی ہیں کہ آپؓ نے فرمایا :

کان مما نزل من القرآن ثم سقط لایحرم من الرضاع الا عشر رضعات ، ثم نزل بعد أوخمس رضعات (۲۹)

اور دوسری سند میں یحی بن سعیدؒ ،عمرہؒ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:

أنزل فی القرآن عشر رضاعات معلومات ثم أنزل خمس رضاعات(۳۰)

یعنی ان دونوں روایات میں فَتُوُفِّیَ رسولُ اللّٰہ کے الفاظ موجود نہیں، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ الفاظ بعد کا اضافہ ہیں۔
(۴) حضرت عائشہ ؓ کا وصال ۵۷ھ میں ہواجبکہ قرآن مجید کی سرکاری سطح پر تدوین اور نشر واشاعت کا باقاعدہ اہتمام ان کے والد محترم اور خلیفۃ الرسول حضرت صدیق اکبر ؓ (م ۱۳ھ) نے فرمایااور اس کے بعد حضرت عثمان غنی ؓ(م ۳۵ھ) کے عہد ِ خلافت میں ایک دوسرے پہلو سے قرآن مجید کی تدوین کا کام ہوا ۔یہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ انھوں نے ان دونوں مواقع پر تدوین ِ قرآن کمیٹی کو اس آیت سے غافل ہی رکھا ہو؟دوسری روایات میں بھی ایسا ہوا ہے کہ راوی الفاظ کو پوری طرح ضبط نہ کر سکے ، تاہم دیگرروایات نے اس غلطی کو صاف کر دیا ہے۔

(۵)اس روایت پر اصول ِ درایت کی روشنی میں بھی غور کی ضرورت ہے کیونکہ حضرت عائشہؓ کے الفاظ کو اگر ظاہری مفہوم پر محمول کیا جائے تو اس حکم کا علم ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی ہونا چاہیے تھا اور قرآن مجید کا ایک اہم حکم ہونے کی وجہ سے
اس کی شہرت عام ہونی چاہے تھی کیونکہ عرب میں بچوں کو عموماً دایہ دودھ پلاتی تھیں ۔اس اعتبار سے اس حکم کو عرب میں خصوصی اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی اور یہ ممکن نہ تھا کہ یہ آیت صرف حضرت عائشہؓ تک ہی محدود رہتی ۔
اگر صحیح مسلم میںکتاب الرضاعکی دوسری روایات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ کسی صحابی کو ایسی کسی آیت کی خبر نہ تھی بلکہ اس باب میں دیگر صحابہ کے علاوہ خود حضرت عائشہؓ کی روایات بھی موجود ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوالات کئے تھے کہ کتنی بار اور کتنی عمر کی رضاعت سے حرمت ِ قطعی ثابت ہوجاتی ہے ؟ المختصر آیت ِرضاعت کے حوالے سے منکرین ِ حدیث اور مستشرقین کا قرآن کے متن کے غیر محفوظ ہونے کا استدلال درست نہیں۔

کیا لوکان لابن آدم وادیان۔۔۔۔۔الخ قرآن کی آیت تھی؟ – III

ابو حرب بن ابی الاسودؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:

بعث أبو موسیٰ الأشعری رضی اللہ عنہ الی قرّآء أھل البصرۃ ، فدخل الیہ ثلاث مائۃ رجل قد قرء وا القرآن ، فقال: أنتم خیار أہل البصرۃ وقُرَّاؤُھُمْ فَاتْلُوْہ ولا یطولنّ علیکم الامدُ فَتَقْسُوَقلوبکم کما قست قلوب من کان قبلکم وانّاکنّا نقرأ سورۃً نشبہھا فی الطّول والشّدۃِ ببراء ۃ فَاُنْسِیْتُھَاغیر أنی قد حفظتُ منہا:’’ لوکان لابن آدم وادیان من مال لابتغی وادیاً ثالثاً ولایملاء جوف ابن آدم الا التّراب‘‘ وکنّانقرأ سورۃکنّا نُشْبِہُھَا باحدی المسبّحات فاُنْسِیْتُھَا غیر انی قد حفظتُ منھا: {یا ایّھا الذین اٰمنوا لم تقولون مالا تفعلون} فَتُکْتَبُ شھادۃ فی أعناقکم لتسألون عنھا یوم القیامۃ (۳۱)

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بصرہ کے قاریوں کو بلوایا تو ان کے پاس تین سو ایسے لوگ آئے جو قرآن مجید پڑھ چکے تھے ، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا:تم اہل ِ بصرہ میں سب سے بہتر ہواور اے قرآن پڑھنے والو ! قرآن پڑھتے رہو ،کہیں زیادہ مدت گزرجانے سے تمہارے دل سخت نہ ہو جائیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کے دل سخت ہو گئے تھے،ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جو طول اور شدت میں سورہ توبہ کے برابر تھی مجھے وہ سورت بھلا دی گئی البتہ اس کی اتنی بات یاد رہی ہے کہ ابن ِ آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا ۔ ابن ِ آدم کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی اور چیز نہیں بھرتی ،اور ہم ایک اور سورت بھی پڑھا کرتے تھے جو مسبّحات میں سے کسی ایک سورت کے برابر تھی وہ بھی مجھے بھلا دی گئی البتہ اس میں سے مجھے اتنا یاد ہے: اے ایمان والو وہ بات کیوں کہتے ہو جس کو خود نہیں کرتے تمہاری گردنوں میں شہادت لکھ لی جائے گی اور قیامت کے دن تم سے اس کے متعلق سوال پوچھا جائے گا ۔

مصر کے معروف منکر ِ حدیث محمود ابو ریّہ (۳۲) نے مذکورہ بالا روایت کو اس وجہ سے اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ یہ روایت حفاظت ِ قرآن کے عقیدے سے متصادم ہے ۔اگر اس قسم کی روایات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معترضین غورو فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے ورنہ اس روایت کو درج ذیل تاویلات کی موجودگی میں قرآن مجید کی حقانیت کے خلاف قرار دینا درست نہیں ۔

(۱) قرآن مجید تواتر سے ثابت ہے اور اس قسم کی روایات اخبار ِ آحاد ہیں اور خبرِ واحد چونکہ ظنّی ہوتی ہے ، اس لئے یہ روایت قرآن مجید کی قطعیت کے منافی نہیں ہے ۔

(۲)یہ روایت خود امام مسلم ؒ کی نظر میں بھی صحت کے اعلیٰ درجے پر نہیں ہے۔امام مسلمؒ نے صحیح مسلم کی تدوین میں جن اصولوں کو پیش نظر رکھاہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ خود صحیح مسلم کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں :

فأمّا القسم الاوّل: فانّا نَتَوَخّٰی أن نقدّم الأخبارَ التی ھی أسلمُ من العیوب من غیرھا وأنقیٰ من أن یکون ناقلوھا أھل استقامۃ فی الحدیث ، والاتقان لِمَا نقلوا ، لم یوجد فی روایتھم اختلاف شدید ، ولا تخلیط فاحش ، کما قد عُثِرَ فیہ علی کثیر من المحدّ ثین ، وبان ذالک فی حدیثھم ، فاذا نحن تقصّینا أخبار ھٰذا الصّنف من الناس ، أتبعناھا أخبارًا یقع فی أسانید بعضُ من لیس بالموصوف بالحفظ والا تقان ،کالصنف المقدم قبلھم ، علی أنّھم ، وان کانوا فیما وصفنا دونھم ، فانّ اسم الستر والصدق وتعاطی العلم یشملھم (۳۳)

قسم اوّل میں پہلے ہم ان احادیث کو بیان کریں گے جن کی اسانید دوسری اسانید کی نسبت عیب اور نقائص سے محفوظ ہیں ، جن کے راوی معتبر،ثقہ اور قوی حافظہ کے مالک ہیں اور ان کی روایات میں شدید اختلاف اور کثیر اختلاط نہیں ہوتا اور یہ بات ان کی روایت کردہ احادیث سے پایۂ ثبوت تک پہنچ چکی ہے۔اس قسم کے لوگوں کی روایات بیان کرنے کے بعد ہم ان روایات کا ذکر کریں گے جن کی روایت میں بعض راوی ایسے بھی ہوں گے جو قوت اور ثقاہت میں قسم ِ اوّل کے پایہ کے نہیں ہوں گے، اگرچہ تقویٰ ،پرہیز گاری، صداقت اور امانت میں ان کا مرتبہ کم نہیں ہوگا۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ امام مسلمؒ نے اس باب میں پانچ روایات نقل کی ہیں اور چونکہ یہ روایت ان کی نظر میں سب سے کمزور تھی اس لئے انھوں نے اپنے اصول کے مطابق اس روایت کو سب سے آخر میں ذکر کیاہے۔یہ بذات خود بڑا واضح اشارہ ہے کہ امام مسلم ؒ کی نظر میں یہ حدیث دوسری احادیث سے کمزور ہے ، اور انہوں نے اس روایت کو وہ مقام اور رفعت نہیں دی جو پہلی احادیث کو دی ہے ۔

(۳) اس باب میں امام مسلم ؒ نے جو پانچ روایات نقل کی ہیں ان میں سے پہلی چار روایات میں’’لوکان لابن آدم وادیان۔۔۔الخ‘‘ کو قرآن کی آیات کے طور پر روایت نہیں کیا گیا ۔ اس باب کی پہلی تین روایات حضرت انس ؓ سے مروی ہیں ۔ ان میں حضرت انس بن مالکؓ (م ۹۲ھ) سے یہ الفاظ منقول ہیں:

سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول:۔۔۔ ’’فلا أدری أ شیء أنزل أم شیء کان یقولہ (۳۴)

میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔۔۔’’ اور مجھے یہ پتہ نہیں کہ آپ ﷺ پر وہ بات نازل ہوئی تھی یا آپ ﷺ از خود فرمارہے تھے ۔‘‘ (باقی روایت حسب ِسابق ہے۔)

چوتھی روایت حضرت عبداللہ بن عباس ؓ (م ۶۸ھ) سے مروی ہے وہ کہتے ہیں :

فلا أدری أ من القرآن ھو أم لا ‘‘وفی روایۃ زھیرؒ قال : فلا أدری أمن القرآن، لم یذکر ابنِ عباس رضی اللہ عنہ(۳۵)

مجھے معلوم نہیں کہ یہ قرآن سے ہے یا نہیں ہے۔زہیر ؒ کی روایت میں ہے کہ ابن ِ عباس ؓ نے یہ الفاط نہیں کہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ قرآن سے ہے کہ نہیں ہے۔

(۴) ایک اہم پہلو جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام ؓ کی دعوتی اور تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے سامنے درس و تدریس کے دوران قرآنی آیات کا مفہوم اور مطلب اپنے الفاظ میں بیان کیا کرتے تھے،اور ظاہر ہے کہ یہ مفہوم بھی عربی زبان ہی میں ہوا کرتاتھا، جس سے بعض لوگوں نے اس قسم کے تشریحی الفاظ کو بھی قرآن کی طرف منسوب کردیا ۔زیر تبصرہ روایت میں بھی صورت ِ حال کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے کہ راویان ِ حدیث نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے تشریحی الفاظ کو قرآن سمجھ لیا ۔ایک دوسری روایت سے ہمارے اس مؤقف کی تائید ہوتی ہے ۔ صحابی ٔ رسول ﷺ حضرت ابیّ ؓ بن کعب کا یہ واقعہ ہے کہ آ پ ؓ سورۃ البینۃ سنا رہے تھے جب وہ {وَمَآ اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْاللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ}تک پہنچے تو{مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ} کی تشریح کرنے لگے کہ اللہ کی مرضی اور خوشنودی حاصل کرنا بھی{ الدِّیْنَ}ہے اور مذہب کی خالص روح اور منشا ہے، آپ ؓنے اس موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے:

ان الدین عندا للّٰہ الحنیفیۃ غیر المشرکۃ ولا الیہودیۃ ولا النصرانیۃ، ومن یفعل خیرًا فلن یکفرہ ، قال شعبۃ:ثم قرأ آیات بعدھا ثم قرأ : ’’ لو أن لابن آدم وادیین من مال ، لسأل وادیاً ثالثاً ، ولایملاء جوف ابن آدم الا التّراب‘‘ قال:ثم ختمھا بما بقی منھا۔(۳۶)

دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معتبر ہے جس میں راست روی اوریکسوئی ہو(یہ حنفاء کا مطلب ہے) نہ مشرکین کا مذہب نہ یہودیت اور نہ عیسائیت۔شعبہ ؒ کہتے ہیں: اس کے بعد انھوں نے چند آیات پڑھیں اور پھر کہا: اگر ابن ِ آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کا سوال کرے گا ، اور ابن ِ آدم کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی اور چیز نہیں بھرتی ۔شعبہ ؒ کہتے ہیں:پھر آپؓ نے اس سورت کی باقی آیات مکمل کیں۔

اس روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان الفاظ کی حیثیت محض تشریحی بیان(Notes) ہی کی تھی۔ اور یہاں یہ استدلال بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ابن مسعود ؓ (م ۳۲ھ) اور ابیّ ؓ ابن کعب (م۳۰ھ)کے بارے میں مستشرقین اور منکرین ِ حدیث نے یہ مشہور کر رکھاہے کہ ان کے پاس مصحف ِ صدیقی سے ہٹ کر قرآن کے نسخے موجود تھے، تو پھر چاہیے تھا کہ اس سورت کا ذکر ان کے ذاتی نسخوں میں موجود ہوتا حالانکہ انھوں نے بھی ایسی کسی سورت کا نام تک نہیں لیا۔علامہ قرطبیؒ (م ۶۷۱ھ)نے اس روایت کے بارے میں ابو بکر الأنباریؒ (م ۳۲۷ھ)کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس روایت کو قرآن کی آیت کہنا باطل ہے ۔ابو بکرؒ کہتے ہیں:

لأَنَّ قِرَأَتَیْ ابن کثیر و أبی عمرو متصلان بأبیّ بن کعب ، لا یُقرأ فیھما ھٰذا المذکور فی{لَمْ یَکُن} مما معروف فی حدیث رسول اللّٰہ علی أنہ من کلا م الرسول علیہ السلام ، لا یحکیہ عن رب العالمین فی القرآن ، وما رواہ اثنان معھما الاجماع: أ ثبت مما یحکیہ واحد مخالف مذہب الجماعۃ ؟(۳۷)

اس لئے کہ ابن کثیر ؒ اور ابو عمرو ؒ کی قرأت(سند کے اعتبار سے ) ابی بن کعب ؓ تک پہنچتی ہے اور ان دونوں قرأ توں میں سورہ {لَمْ یَکُنِ}میں یہ الفاظ نہیں پڑھے جاتے ، جن کا حدیث ِ نبوی ؐمیں رسول اللہ ﷺ کا کلام ہونا معروف ہے۔اور آپ ﷺ نے ان الفاظ کو اللہ کے کلام کے طور پر قرآن مجید میں نہیں پڑھا۔جب دوراوی ایک روایت کر رہے ہوں اور اجماع بھی ان کی تائید کررہا ہو تو ان کی بات اس ایک شخص کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے جس کی بات اجماع کے خلاف ہے ۔

(۵) حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے الفاظ : وانّاکنّا نقرأ سورۃً ۔۔۔الخ اور ہم ایک سورہ پڑھا کرتے تھے۔۔۔۔۔ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ آیت یا سورت تمام صحابہ کو یاد ہوگی، یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ کوئی آیت یا سورت قرآن کا حصہ ہو اور وہ صرف ابو موسیٰ اشعری ؓ ہی کو یاد ہو۔یہ سورت یقینا صحابہ کرامؓ میں معروف ہوگی اب اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ابو موسی اشعریؓ کو ساری سورت بھول گئی اور صرف ایک آیت یاد رہی تویہ کیسے ممکن ہے کہ ان کی طرح تمام صحابہ کو بھی یہ سورت بھول گئی ہو کہ دوسرے صحابہ ؓ نے نہ اس سورت کانام لیا ہو اور نہ ہی اس کی موجودگی کا کبھی ذکر کیاہو ۔عہد ِ صدیقی میں زیدؓبن ثابت(م ۴۴ھ) کی زیر نگرانی تدوین ِ قرآن کا کام ہوا تواس وقت اعلان ِ عام کیاگیا کہ جس جس کے پاس قرآن کا کوئی حصہ لکھا ہوا موجود ہو وہ مسجد نبوی ؑ میں اسے تدوین قرآن کمیٹی کے سامنے پیش کرے۔ اس وقت ابو موسی اشعریؓ (م ۵۱ھ ) اور نہ ہی کسی اور صحابی ؓنے اس سورت کا ذکر کیا اس طرح حضرت عثمان ؓ کے عہد میں بھی ہوا ۔حالانکہ صحابہؓ میں بہت سے حفاظ ِ قرآن موجود تھے۔

کیا سُوْرَۃُ الَّیْل میں تحریف ہو چکی ہے؟ – IV

حضرت علقمہؒ (م ۶۲ھ) سے مروی ہے:

قدمنا الشّام ، فأتانا أبوالدرداء فقال: أفیکم أحد یقرأ علی قراء ۃ عبداللّٰہ؟ فقلت:نعم،أنا، قال: فکیف سمعت عبداللّٰہ یقرأ ھٰذہ الآیۃ؟ {وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشَیٰ}قال:سمعتہ یقرأ:{وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشَیٰ وَالذَّکَرِ وَالْأُ نْثٰی} قال:أنا واللّٰہ ھٰکذا سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقرؤھا، ولٰکن ھٰؤلاء یریدون أن أقرأ:{وَمَا خَلَقَ}فلا أتابعھم (۳۹)

ہم شام گئے تو حضرت ابو درداء ؓ ہمارے پاس آئے اور فرمایا تمھارے پاس کوئی آدمی ہے جو عبداللہؓ بن مسعود کی قرأت کے مطابق پڑھنے والا ہو ؟ میں نے کہا: میں ہوں،انھوں نے پوچھا :تم نے اس آیت کو حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے کس طرح سنا ہے:{وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشَیٰ} میں نے کہا:عبداللہؓ بن مسعود اس طرح پڑھتے تھے:{وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی وَالذَّکَرِ وَالْأُ نْثٰی}انھوں نے کہا :اللہ کی قسم میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح سنا ہے ،اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں {وَمَا خَلَقَ} پڑھوں مگر میں نہیں مانتا۔

سورۃ الّیل کی ابتدائی آیات اس طرح ہیں{وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُ نْثٰی}جبکہ اس باب میں ابن ِ مسعود ؓ کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ { وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُ نْثٰی}کی جگہ {وَالذَّکَرَ وَالْأُ نْثٰی}ہے ،اور ظاہر ہے کہ یہ روایت قرآن مجید کی موجودہ قرأت کے خلاف ہے۔ ڈاکٹرغلام جیلانی برق(۴۰)نے مذکورہ بالا روایت کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے مشتبہ ٹھرایا ہے ۔ اس اشکال کی کئی حوالوں سے توجیہ کی جا سکتی ہے ۔

زیر تبصرہ روایت، شاذ قرأت پر مشتمل ہے جو اب منسوخ ہو چکی ہے ،اور چونکہ یہ قرأت خبرِ واحد سے ثابت ہے جبکہ قرآن خبرِ متواتر سے ثابت ہے، اس لئے اس روایت سے قرآن مجید کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ امام طبری ؒ اس قرأت ِ شاذہ کی وجہ سے آیت{ وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُ نْثٰی} کے معنیٰ میں جووسعت پیدا ہوتی ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

۱۔ اس میں لفظ مَا کو مِن کے معنیٰ میں موصولہ مانا جائے اس صورت میں معنیٰ یہ ہوگا، اس ذات کی قسم جس نے جنس مذکر ومونث کو پیدا کیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کی قسم اٹھائی ہے۔ ابن ِ مسعود ؓ کی قرأت { اَلَّذِیْ خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُ نْثٰی}اسی معنی کو واضح کررہی ہے۔

۲۔ مَاکو مصدری معنیٰ میں لیا جائے تو مطلب ہوگا، تخلیق ِمذکر ومؤنث کی قسم ،یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی قسم اٹھائی ہے اور حضرت ابو دردا ء ؓاور ابن ِ مسعود ؓ کی صحیحین والی قرأت سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔

پھر سوال یہ ہے کہ حضرت ابو درداء ؓ نے اس شاذ قراء ا ت کو قرآن میں کیوں نقل کیا ؟تو اس کی وجہ ابن حجرؒ نے یہ بیان کی ہے:

ولعل ھٰذا مما نسخت تلاوتہ ولم یبلغ النسخ أبا درداء ومن ذکرمعہ ، والعجب من نقل الحفاظ من الکوفیین ھٰذہ القراء ۃ عن علقمۃ وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ والیھما تنتھی القراء ۃ بالکوفۃ ثم لم یقرأ بہا أحد ، وکذا أھل الشام حملوا القرأۃ عن أبی الدرداء ولم یقرأ أحد منھم بھٰذا ، فھٰذا مما یقوی أن التلاوۃ بھا نسخت(۴۱)

ممکن ہے یہ قرا ء ا ت بھی ان قراء ات میں سے ہو جن کی تلاوت عرضۂ اخیرہ کے وقت منسوخ کردی گئی تھی اور ابو درداء ؓکو اس کے منسوخ ہونے کا پتہ نہ چل سکا ہو۔تعجب ہے کہ حفاظِ کوفہ نے اس قرأت کو ابن ِ مسعود ؓ اور علقمہ ؓ سے نقل کیاہے، اور کوفہ میں قرأت کی سند انہیں تک پہنچتی ہے، لیکن اس کے باوجود حفاظ ِ کوفہ میں سے کسی نے بھی اس کو{ وَ الذَّکَرَ وَالْأُ نْثٰی}نہیں پڑھا ۔یہی معاملہ اہل ِ شام کا ہے انہوں نے قرأت کا علم ابو درداء ؓسے لیاہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کے مطابق قرأت نہیں کی ،لہٰذا قوی امکان ہے کہ یہ قراء ات منسوخ ہوچکی تھی ۔

گویا حضرت ابودرداءؓ سے رسم ِ عثمانی کے مخالف اور بطریق ِ آحاد نقل ہونے کی وجہ سے یہ قرأت قرآن نہیں ہوسکتی اگر یہ قرآن ہوتی تو بطریق تواتر منقول ہوتی اور رسم ِ عثمانی کے مطابق ہوتی۔

المختصر زیر بحث موضوع پر اگر شریعت ِ اسلامیہ کے اس اصول کو پیش ِ نظر رکھا جائے کہ کسی بھی لفظ کا قرآن ہو نا صرف اسی وقت لازم نہیں آتا جب وہ تواتر اور توارث سے نقل ہوا ہو تو بہت سارے اشکالات خود بخود رفع
ہو جاتے ہیں ، کیو نکہ جو لوگ شرف ِ صحابیت سے مشرف ہوئے انھوں نے آپ ﷺ کو جو کچھ فرماتے سنا یا جو کام کرتے دیکھا ان کے حق میں ان باتوں کا ثبوت یقینی اور قطعی ہے جس میں معمولی شک و شبہ بھی دائرۂ اسلام سے
خارج کر دینے کے لئے کافی ہے ،البتہ وہ لوگ جن کو رسول اللہ ﷺ سے بلا واسطہ استفادے کا موقع نہیں ملا ان کے لئے رسول اللہ ﷺ کے کسی قول یا عمل کے ثبوت کی صرف تین ہی صورتیں ہیں ۔(۱)آپ ﷺ کا وہ حکم یا قول تو
اتر کے ذریعہ پہنچا ہو ،یعنی خبر دینے والے اور اس حکم کو روایت کرنے والے لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلی طور پر محال ہو۔ جو قول اور فعل بھی اس طریقے سے ثابت ہو اس کا انکار
کفر ہے۔(۲) آپ ﷺ کا حکم اور قول خبر متواتر کی بجائے اخبار ِآحاد کے ذریعے ثابت ہو ،یعنی گواہوں کے کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے وہ خبر قطعی الثبوت اور یقینی نہیں ہوتی اور اس میں شک و شبہ کی گنجائش ہوتی ہے ۔(۳)
آپ ﷺ کا وہ قول اور فعل اس طرح کا ہو کہ امت کے تعامل اور توارث کے ذریعے سے اگلی نسل تک منتقل ہوا ہواور اس میں کسی کو اختلاف کرتے دیکھااور سنا نہ گیا ہو، یہاں تک کہ یہ سلسلہ حضور ﷺ پر ختم ہو۔امت کے
توارث اور تعامل سے بھی جو حکم ثابت ہو وہ بھی تواتر ہی کی طرح قطعی اور یقینی ہے اور اس کا انکار بھی کفر کو مستلزم ہے ۔ قرآن پورے کا پورا تواتر ،تعامل ِ امت اور توارث کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے ، اس لئے اس
کے ایک حرف کا انکار بھی کفر ہے،جبکہ مندرجہ بالا سطور میں ہم نے جن روایات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے وہ اخبار ِ آحاد ہیں اور اصولاً ان روایات سے کسی لفظ کا قرآن ہو نا لازم نہیں آتا، اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ
ان روایات سے جو مفہوم کشید کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ مبنی بر تکلف اور علمی دیانت کے منافی ہے جیسا کہ ہم نے تفصیلی دلائل سے واضح کیا ہے ۔

حوالے و حواشی

۱۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
لا تصدّقوا اھل الکتاب ولا تکذّبوھم (بخاری، الجامع ،کتاب التوحید، باب مایجوز من تفسیر التوراۃ ،ح: ۷۵۴۲ ، ص:۱۵۸۴)

۔ مستشرق جارج سیل (George Sale) نے ۱۸۶۲ء میں قرآن ِ مجید کا ترجمہ اور تفسیر انگریزی زبان میں شائع کی ۔سیل (Sale)عربی زبان کا ماہر سمجھا جاتا ہے، اس نے جو غلطیاں کیں وہ یقیناًقصد اور اراداہ کے ساتھ تھیں ، اس نے قرآ ن ِمجید کا مقدمہ بھی لکھا اور اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن مجید محمد ﷺ کی تصنیف ہے اور اس میں بڑی حد تک تحریف ہو چکی ہے۔ بعدمیں آنے والے مستشرقین نے اسی کی تحقیقات کو بنیاد بنا کر قرآن ِمجید پر اعتراضات کئے ہیں۔ اختلاف ِ قراء ات اور سبعہ ٔ احرف کی رائی کو جارج سیل (George Sale)نے کس طرح پہاڑ بنایا ہے ملاحظہ فرمائیں ،موصوف کہتے ہیں :

having mentioned the different editions of the Koran, it may not be amiss here to acquaint the reader,that there are seven principal editions, If it may so call them,or ancient copies of the book ;two of which were published and used at medina,a third at macca,of fourth at Cufa ,a fifth at basra,a sixth at Syria and a seventh called the common or vulgar edition. (The Koran, p: 45, London, 1812 A.D)

قرآن کے ایڈیشنوں کا ذکر کرنے کے بعد قارئین کو اس حقیقت سے آگا ہ کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ قرآن کے ابتدائی ایڈیشن سات ہیں:اگر ان کو ایڈیشن کہنا مناسب ہو ،یا ہم ان کو اس کتاب کی سات نقلیں کہہ سکتے ہیں ۔جن میں سے دو مدینہ میں شائع ہوئیں اور وہاں استعمال ہوتی تھیں ۔تیسری مکہ میں ،چوتھی کوفہ میں،پانچویں بصرہ میں،چھٹی شام میں اورساتویں نقل کوعام ایڈیشن کہہ سکتے ہیں۔

اسی طرح مستشرق آرتھر جیفری (Arthur – Jeffery) نے بھی قرآن مجید کی قراء ات اور اس کی نوعیتوں میں صحابہ کرامؓ کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کو بنیاد بنا کرقرآن ِ مجید کے متن میں ارتقا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مستشرق موصوف نے مصحف ِ عثمانی کے مقابل پندرہ بنیادی (Primary Codices)اور تیرہ ثانوی نسخہ جات (Secondary codices)پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :

Arthur Jeffery, The Koran: Selected Suras, p:20, Leiden, 1958

Materials for the history of the text of the Quran (E.J. Brill, 1937)

بلکہ موصوف نے یہاں تک کہاں ہے کہ آپ ﷺ قرآن کی تکمیل سے قبل ہی وفات پاگئے:

It is clear that he had been preparing a book for his community which would be for them what the old testament was for the jews and the new testament for the christians, but he died before his book was ready, and what we have in the Quran is what his followers were able to gather togather after his death and issue as the corpus of his revelations. (Islam, Muhammad and his Religion, p:47, Indiana, 1979)

یہ بات ظاہر ہے کہ محمدﷺ اپنی جماعت کے لیے ایک ایسی کتاب کی تیاری میں مصروف تھے جو مسلمانوں کے لئے وہی حیثیت رکھے جو یہودیوں کے لئے عہد نامہ قدیم اور عیسائیوں کے لئے عہد نامہ جدید کی ہے، لیکن اس کتاب کی تکمیل سے پہلے وہ فوت ہوگئے۔ اور آج قرآن کی صورت میں جو کچھ موجود ہے ، بس اس کے وہ اجزا ہیں جنھیں ان کے بعد ان کے پیروکار جمع کر سکے اور اسے محمدﷺ کے الہامات کے مجموعے کے طور پر جاری کردیا۔

۳۔ ابن ماجۃ ، السنن کتاب الحدود، باب الرجم ،ح: ۲۵۵۳، ص: ۳۶۷، دارالسلام، ریاض ۱۹۹۷؛ الموطّأ ،کتاب الحدود، باب ماجاء فی الرجم ،ح: ۸۴۶ ، ص: ۵۰۷، بیروت، ۱۹۹۸ء

۴۔ حافظ محمد اسلم جیراج پوری(م ۱۹۵۵ھ) اس روایت پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ روایت قرآن کی صریح آیت{ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ}کے خلاف ہے ، اس لئے ہر گز تسلیم کے قابل نہیں ہے، خواہ اس کے راوی جبرائیل و میکائیل ہی کیوں نہ بتائے جائیں۔(ہمارے دینی علوم، ص:۴۱، دوست ایسوسی ایٹس، اردو بازار، لاہور)

مولانا جعفر شاہ پھلواری (م ۱۹۸۲ء) لکھتے ہیں:

قطع نظر اس بات کے کہ اس سے قرآن پاک کی محفوظیت کا دعویٰ بے معنیٰ ہوجاتا ہے ۔ ذرا یہ دیکھئے کہ (اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ فَارْجُمُوْھُمَا اَلْبَتَّۃَ) کی زبان ذرا برابر بھی قرآنی زبان معلوم ہوتی ہے؟کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حسبنا کتاب اللّٰہ کہنے والے حضرت عمرؓ صحت ِ حدیث میں تو اتنے متشدد ہوں اور حفاظت ِ قرآن کا معاملہ آئے تو اتنے ڈھیلے ثابت ہوں؟۔ (اسلام: دین ِ آسان ، ص: ۳۴۹، ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۵۵ء، اجتہادی مسائل، ص: ۲۶۱، ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۹۹)

جناب غلام جیلانی برقؔ (م ۱۹۸۵ء) لکھتے ہیں:

بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ چند آیات پہلے قرآن میں موجود تھیں لیکن بعد میں نکال دی گئیں( موطّأکی روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں) اگر پڑھتے رہے تو نکالی کس نے اور اگر نکال دی گئی تھیں تواللہ کا وعدئہ حفاظت ِ قرآن کیا ہوا۔(دواسلام ،ص:۱۶۸، اتحاد پریس، ۱۹۵۰)

اسی روایت پر مولانا امین احسن اصلاحیؒ (م ۱۹۹۷ء )کا تبصرہ ملاحظہ ہو:

یہ روایت بالکل بے ہودہ ہے اور ستم یہ ہے کہ اس کو منسوب حضرت عمرؓ کی طرف کیاگیا ہے حالانکہ ان کے عہدِمبارک میں اگرکوئی یہ روایت کرنے کی جرأت کرتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ ان کے درّے سے نہ بچ سکتا۔(تدبر قرآن، ۵/۳۶۷، تاج کمپنی، دہلی)

مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے شاگردجناب جاوید احمد غامدی موطّاکی زیر ِتبصرہ روایت پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

دوسری بات جو بالخصوص مؤطا امام مالکؒ کی روایت سے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن یہی نہیں جو اس وقت ہمارے پاس موجودہے بلکہ اس میں سے بعض آیات نکال دی گئی ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ نہایت خطر ناک ہے اورجس منافق نے بھی اسے وضع کیا ہے اس کا مقصد صاف یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو لوگوں کی نگاہوں میں مشتبہ ٹھہرایاجائے اور اہل ِ فتنہ کے لئے راستہ نکالا جائے کہ وہ اس طرح کی بعض دوسری آیات وضع کر کے اپنے عقائد و نظریات بھی اللہ کی اس کتاب میں داخل کرسکیں۔ (برھان ، ص:۵۷ ، دارالاشراق، لاہور، ۲۰۰۱)

۵۔ بخاری، الجامع کتاب الحدود، باب الاعتراف بالزنا ،ح: ۶۸۲۹، ص:۱۴۳۲، دارالسلام، ریاض، ۱۹۹۷؛ مسلم، الجامع کتاب الحدود، باب رجم الثیب فی الزنیٰ، ح: ۴۴۱۸، ص:۷۴۹

۶۔ فتح الباری، کتاب الحدود ، باب الاعتراف بالزنا ، ۱۲/۱۴۳، بیروت۔

۷۔ المسند، حدیث عمر بن الخطابؓ ،ح:۱۵۷ ، ۱؍۴۰، بیروت، ۱۹۹۱ء

۸۔ شرح الزرقانی علی موطأ لامام مالک، ۴/۱۹۳-۱۹۴، بیروت، ۱۹۷۰ء

۹۔ المنھاج، کتاب الحدود ، باب رجم الثیب فی الزنا، ۱۱؍۱۹۱، مؤ سسۃ مناھل الفرقان ، بیروت۔

۱۰۔ السنن الکبری، کتاب الحدود، باب مایستدل بہ علی ان السبیل ہو جلد الزانیین، ح:۱۶۹۱۲ ، ۸/۳۶۷ ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۹۹ء

المستدرک،کتاب الحدود، ح:۸۲۳۸،۸۲۳۹،۵؍۲۷۸، دارالفکر، بیروت، ۲۰۰۱ء

المسند، حدیث عمر بن الخطابؓ ح:۱۹۸، ۱؍۴۹ ، ایضا ،ح:۳۵۴، ۱؍۸۱

۱۱۔ تفسیر الطبری، تفسیرسورۃ المائدۃ ، آیت:۴۲، ۴/۱۵۷، دارالفکر، بیروت، ۱۹۷۸ء

۱۲۔ السنن الکبری، کتاب الحدود، باب مایستدل بہ علی ان السبیل ہو جلد الزانیین، ح:۱۶۹۱۳ ، ۸/۳۶۷

۱۳۔ المستدرک ، کتاب الحدود، ح:۸۲۳۸ ، ۵/۲۷۸

۱۴۔ تورات میں اب بھی ایسی آیات موجود ہیں جوزیر تبصرہ حدیث کے مفہوم پر دلالت کرتی ہیں،مثلا ً:

اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑاجائے تو وہ دونوں مارڈالے جائیں یعنی وہ مرد بھی جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی۔(کتاب استثناء،۲۲:۲۲، کتاب مقدس، بائبل سوسائٹی، لاہور )

اس کی تائید حضرت عیسی ؑ کی انجیل میں بھی ہے:

اور فقیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی،اور اسے بیچ میں کھڑا کرکے یسوع سے کہا: اے استاذ! یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے تورات میں موسی ؑ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں۔ (انجیل یوحنا،۸:۳، کتاب مقدس، بائبل سوسائٹی، لاہور)

۱۵۔ النمل، ۲۷/۲۸

۱۶۔ الِ عمران، ۳/۱۴۵، الانفال، ۸/۶۸

۱۷۔ النساء ، ۴/۱۰۳، البقرۃ ، ۲/۱۸۳

۱۸۔ الطور، ۵۲/۲-۳

۱۹۔ بخاری،الجامع کتاب الحدود، باب الاعتراف بالزنا ، ح: ۶۸۲۷، ص:۱۴۳۲

۲۰۔ عمدۃ القاری،کتاب الحدود، باب الاعتراف بالزنا، ۱۲؍ ۴، دارالفکر، بیروت۔

۲۱۔ بخاری،الجامع کتاب الحدود، باب رجم الحبلی فی الزنا، ح: ۶۸۳۰، ص: ۱۴۳۳

۲۲۔ المسند، مسندِ عبداللّٰہ بن مسعودؓ ، ح: ۴۱۱۸، ۱/۷۱۵

۲۳۔ المسند، مسندِ عبداللّٰہ بن مسعودؓ ، ح: ۳۹۳۵، ۱/۷۱۵

۲۴۔ مسلم،الجامع کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضعات ،ح:۳۵۹۷ ،ص:۶۱۷؛ ترمذی،الجامع کتاب الرضاع ، باب ماجاء لاتحرم المصۃ والمصتان ،ح:۱۱۵۰، ص۲۷۹؛ نسائی، السنن کتاب النکاح ، باب القدر الذی یحرم من الرضاعۃ،ح:۳۳۰۹ ،ص:۴۵۷، دارالسلام الریاض، ۱۹۹۹ء؛ ابوداود،السنن کتاب النکاح، باب ھل تحرم ما دون خمس رضعات، ح:۲۰۶۲ ، ص:۲۹۹، دارالسلام الریاض، ۱۹۹۹ء؛ الموطّا، کتاب الرضاع،باب ماجاء فی الرضاعۃ،ح:۵۵۰، ص۳۷۸

۲۵۔ المنھاج،کتاب الرضاعۃ،باب التحریم بخمسِِ معلوماتِِ،۱۰؍۲۹

۲۶۔ الاتقان فی علوم القرآن ‘‘،۲؍۶۴ ، نور محمد اصح المطالع، کراچی۔

۲۷۔ المنھاج، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس معلومات ،۱۰؍۲۹

۲۸۔ الاتقان فی علوم القرآن، ۲؍۶۴

۲۹۔ مشکل الآثار، باب بیان مشکل ماروی انہ کان انزل عشر رضعات ۔۔۔ ۳؍۶

۳۰۔ مشکل الآثار، باب بیان مشکل ماروی انہ کان انزل عشر رضعات ۔۔۔ ۳؍۶

۳۱۔ مسلم ،کتاب الزکوٰۃ ، باب لوان لابن آدم وادیین لابتغی ثالثاً ،ح:۲۴۱۹ ، ص:۴۲۲

۳۲۔ ابو ریّہ اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

نجتزیٔ بما أوردنا وھوکاف ھنا لبیان کیف تفعل روایۃ حتی فی الکتاب الأوّل للمسلمین و ھوالقرآن الکریم ! ولا ندری کیف تذھب ھٰذہ الروایات التی تفصح بأن القرآن فیہ نقص وتحمل مثل ھٰذہ المطاعن مع قول اللّٰہ سبحانہ{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ}وأیھمانصدّق؟! اللّٰھم ان ھٰذا أمر عجیب یجب أن یتدبرہ أولو الألباب (أضواء علی السنّۃ المحمّدیۃ،ص:۲۵۷، دارالمعارف، مصر)

ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے ، اسی پر اکتفاء کرتے ہیں،ہماری بیان کردہ مثالیں یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ روایات مسلمانوں کی بنیادی کتاب یعنی قرآن مجید کے بارے میں کیا گل کھلا سکتی ہیں ۔ ہم نہیں سمجھ سکے کہ یہ روایات، جو صاف صاف یہ کہتی ہیں کہ قرآن ناقص ہے اور جن میں اس طرح کے مطا عن موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے ساتھ کیسے چل سکتی ہیں کہ : {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ} ہم ان میں سے کس بات کو درست تسلیم کریں ؟یا اللہ !یہ بڑا ہی عجیب معاملہ ہے اور لازم ہے کہ اہل ِ عقل اس پر غور کریں۔

۳۳۔مسلم، مقدمۃ الکتاب ، ص:۵

۳۴۔مسلم ،کتاب الزکوٰۃ ، باب لوان لابن آدم وادیین لابتغی ثالثاً ،ح:۲۴۱۶ ، ص:۴۲۱

۳۵۔ مسلم ،کتاب الزکوٰۃ ، باب لوان لابن آدم وادیین لابتغی ثالثاً ،ح:۲۴۱۹ ، ص:۴۲۱

۳۶۔المسند،حدیث زِر بن حبیش عن أبیّ بن کعبؓ ،ح:۲۰۶۹۸ ،۶؍۱۵۷

۳۷۔تفسیر القرطبی‘‘، تفسیر سورۃ{لَمْ یَکُنِ}۲۰؍۱۳۹ ، مؤسۃ مناھل العرفان، بیروت۔

۳۸۔ مسلم ،کتاب فضائل القرآن وما یتعلق بہ ،باب مایتعلق بالقراء ات، ح:۱۹۱۶، ص:۳۳۲ ؛ بخاری،کتاب التفسیر، سورۃ{وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشَیٰ}، ح:۴۹۴۴، ص:۱۰۷۲

۳۹۔ ڈاکٹرغلام جیلانی برق (م ۱۹۸۵ء) مذکورہ بالا روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

گویا تین جلیل القدر صحابہؓ نے یہ شہادت دے دی کہ یہ آیات مذکورہ بالا صورت میں نازل ہوئی تھیں ، لیکن آج قرآن مجید میں یوں درج ہیں:{وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشَیٰ وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُ نْثٰی}اب کس کو صحیح تسلیم کریں ؟ ان صحابہ کو ؟صحیح مسلم کو؟ یا قرآن شریف کو؟ لازماً یہی ماننا پڑے گا کہ ہمارا قرآن صحیح ہے اور یہ حدیث مشتبہ ۔ (دواسلام ، ص:۱۷۸)

۴۰۔ فتح الباری، کتاب التفسیر، باب:{ وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُ نْثٰی}،ح:۴۹۴۴، ۸؍۷۰۷

۴۱۔ ایضاً