چند یادیں

چوہدری صفدر علی

میری حافظ صاحب سے شناسائی شعبہ علوم اسلامیہ میں ایک کلاس فیلو کی حیثیت سے ہوئی۔کلاس روم میں سب سے آگے ایک ساتھ بیٹھنے کے عمل نے مزید قربتیں پیدا کر دیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قربتیں ایک گہری دوستی میں بدل گئیں جو حافظ صاحب کی وفات تک قائم و دائم رہی۔ حافظ صاحب نے اپنے تعلیمی دورانیہ میں کبھی کسی استاد کو شکایت کا موقع نہ دیا۔حافظ صاحب ایک انتہائی ذہین طالب علم تھے اور اساتذہ کی آنکھوں کا تارا تھے۔جب بھی کوئی مشکل سوال ہوتا اس کے جواب کے لیے اساتذہ کا رخ حافظ صاحب کی طرف ہوتا۔ علامہ علائو الدین صدیقی مایہ ناز استاد جب انسائیکلوپیڈیا پر لیکچر دیتے توآخر میں میری طرف اور حافظ صاحب کی طرف اشارہ کرکے فرماتے
Have you any thing to ask?

حافظ صاحب استاد کے سامنے بچہ بن کر علم سیکھتے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابھی وہ ایم اے کے متعلم تھے کہ انہوں نے ہمیں پڑھانا اور گائیڈ کرنا شروع کر دیا۔ایم اے علوم اسلامیہ میں میرے مقالہ کا عنوان اسلام میں سزائے موت
(Capital Punishment in Islam)

تھا۔میرے اندرونی مُشرِف
(Internal Supervisor)

علامہ علائو الدین صدیقی جبکہ بیرونی مُشرِف
(External Examiner)
امیتاز صاحب جو ان دنوں پی ایچ ڈی کر رہے تھے،ان کے مقالہ کا موضوع بھی میرے مقالہ کے موضوع سے مماثلت رکھتا تھا لہذا میں نے نہ صرف علامہ صاحب سے بلکہ امتیاز احمدصاحب سے بھی مقالہ کی تحریر سے قبل اپنے موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔کئی نکات پر میرا دونوں سے اٰختلاف تھا۔چنانچہ اس کے پیش نظر میں نے مقالہ پر تحقیقی کام چھوڑ دیا کہ اگلے سال پیپرز دے دوں گا۔علامہ علائو الدین صدیقی ؒ نے ایک دفعہ حافظ احمدیار سے بر سبیل تذکرہ میرے بارے میں دریافت کیا تو حافظ صاحب نے بتایا کہ اس نے مقالہ لکھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ
Internal
اور
External

دونوں
Differ

کر رہے ہیں۔اس پر علامہ صاحب کی تحریک پر حافظ صاحب نے میرا تحقیقی مقالہ مکمل کروایا۔میں نے اپنے دس رجسٹروں میں زیادہ تر نثری ادب کی عبارتوں کی صورت میں تحریریں لکھی ہوئی تھیں۔حافظ صاحب کہنے لگے کہ ریسرچ کے لیے زبان اور ہوتی ہے اور ادب کے لیے اور بہرحال زبانی انٹرویو
Viva

میں مجھے ۱۰۰سے۸۶نمبر ملے۔یہ مقالہ کہنے کو تو میرا تھا لیکن در حقیقت اس کو مرتب کرنے والے حافظ احمد یار مرحوم ہی تھے۔وہ ایسے محقق تھے کہ اسلام کے مزاج کے خلاف کوئی بات یا ہرزہ سرائی کرتا تو فورا تاڑ جاتے اور اس کا جواب علمی حوالوں سے ایسا دیتے کہ پڑھنے سننے والوں کی پوری تسلی ہو جاتی۔

حافظ صاحب بطور طالب علم ایک صاف ذہن لے کر علوم دین کی تحصیل کیلئے جامعہ پنجاب آئے اور وہ گروہی تعصبات اور فرقہ ورانہ جکڑ بدنیوں سے آزاد تھے۔

حافظہ صاحب کو قرآن پاک سے عشق تھا اور اسی کے ساتھ انہوں نے دوستی کر لی تھی۔ حافظ صاحب نے اپنے آپ کو خدمت قرآن کیلئے وقف کر رکھا تھا اور بعض اوقات گذر اوقات کیلئے انہیں قرض لینے کی بھی نوبت آجاتی ۔

حافظ صاحب نے اسلامیہ کالج سول لائنز میں تدریس کے دوران مختلف نمائشوں کا اہتمام کیا۔ قرآن پاک کے ناددر اور نایاب نسخوں کے بارے میں ایک نمائش کے سلسلہ میں ، میں نے ملتان سے حافظ صاحب کو ملتانی زبان میں قرآن مجید کے نسخے بھیجے کیونکہ ان دونوں میں ملتان میں مقیم تھا۔

حافظ صاحب کی عظمت اور قرآنی علوم میں ان کی خدمت کے پیچھے ان کی زوجہ محترمہ جو میری منہ بولی بہن تھیں کا بھی بڑا حصہ ہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن کی طرف سے لیکچرار کی سیٹ کیلئے میں نے اپلائی کیا تو حافظ صاحب نے اپنے آپ کو ـ
“withdraw”
کر لیا اور مجھے سارے انٹرویو کی تیاری کروائی جس کے نتیجہ میں ، میں خدا کے فضل و کرم سے واحد سیٹ پورے پنجاب میں کامیاب ٹھہرا ۔ لیکن دکھ یہ ہے کہ اب ایسے علم و ہنر کے گوہر اور مخلص دوست کہاں سے لائیں ۔ ڈھونڈنے بھی نکلیں تو شاید مل نہ سکیں۔